پوسٹ تلاش کریں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے

جمعیت علماء اسلام ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے ، مذہبی کاز کیلئے اقدامات اٹھانے میں ہی اس کی مقبولیت ہے

حضرت ابوبکر نے مانعین زکوٰة کے خلاف اقدام اٹھایا تھا تو یہ اسلامی خلافت کا پہلا جبر تھا جس کا سامنا رسول اللہ ۖکی وفات کے بعد عوام نے کیا تھا۔ حضرت عمر نے آخری وقت اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کاش ! ہم نبی ۖ سے تین چیزوں کا پوچھتے۔ ایک آپ کے بعد خلفاء کی فہرست۔ دوسری زکوٰة نہ دینے والوں کے خلاف قتال اور تیسری کلالہ کی میراث۔
اہل سنت کے چاروں امام متفق ہیں کہ مانعین زکوٰة کے خلاف قتال نہیں ہے۔ البتہ دیگر مسالک میں بے نمازی کے قتل کا حکم ہے اور انہوں نے زکوٰة کے مانعین کے خلاف قتال کو دلیل بنایا ہے۔ جس کی تردید حنفی مسلک والوں نے یہ کہہ کر کردی ہے کہ جب تمہارے ہاں حضرت ابوبکر کے فیصلے سے اتفاق نہیں ہے تو اس پر نماز کو کیسے قیاس کرسکتے ہو؟۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع کی تفسیر معارف القرآن میں زکوٰة اور نماز پر قتال کا حکم جاری کیا گیا ہے جس کی تردید میں علامہ غلام رسول سعیدی نے ” تبیان القرآن” میں لکھا ہے اور اگر مولانا فضل الرحمن مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن و مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد تقی عثمانی کو بٹھاکر فیصلہ کریں تو اس کے زبردست نتائج نکل سکتے ہیں۔ داعش اور طالبان خود کش حملے اسلئے کرتے ہیں کہ غلط تفاسیر سے مغالطہ کھاتے ہیں۔
جب صحافیوں سے کہا جاتا ہے کہ افغانستان،پاکستان اور ایران میں الگ الگ شریعت کی گنجائش ہے تو لوگوں کویہ بات ہضم نہیں ہوتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی شریعت میں کیا فرق ہے؟۔ کیا بندوق کے زور کی شریعت الگ اور جمہوریت کی شریعت الگ ہوسکتی ہے؟۔ نہیں بالکل نہیں ۔ہرگز نہیں۔
جنرل ضیاء الحق نے زکوٰة کا آردنینس نافذ کیا تھا جس کی مفتی محمود نے سخت مخالفت کی تھی۔ اگر بینک میں10لاکھ ہوں اور اس پر سال میں ایک لاکھ روپے بینک کی طرف سے سود مل جائے۔ اور بینک زکوٰة کے نام پر25ہزار روپے کاٹ لے ۔ جب اصل رقم10لاکھ بھی محفوظ ہوں اور75ہزار سود کے بھی مل جائیں تو زکوٰة کیسے ادا ہوگی؟۔ اسلئے مولانا فضل الرحمن کہا کرتے تھے کہ ”مدارس اس زکوٰة سے اجتناب کریں۔ یہ زکوٰة نہیں سود ہے اور شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل ہے”۔
جب پاکستانی قوم سے زکوٰة کا مسئلہ چھڑادیا گیا ہے تو پھر ہماری معیشت کیسے تباہ وبرباد نہیں ہوگی؟۔ کہاں حضرت ابوبکر کا مانعین زکوٰة کیخلاف قتال اور کہاں ہمارے ملک میں سودی نظام کے ذریعے زکوٰة کا بہت بڑا خاتمہ ؟۔ ذرا سوچو تو سہی!۔
مولانا سید محمد یوسف بنوری کے داماد مولانا طاسین نے جو مزارعت پر تحقیق کی ہے۔اس کی مولانا فضل الرحمن تائید کرچکے ہیں۔ اگر بھول گئے ہیں تو دوبارہ دیکھ لیں۔ اگر زمین کو جاگیردار طبقہ مزارعین کومفت میں دے تو ہماری معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکتی ہے۔ جب محنت کش کسانوں میں حوصلہ پیدا ہوگا تو پاکستان کی ساری بنجر زمین کو خود آباد کردیں گے ۔ جس سے لکڑی ، اناج اور پھل کی پیدوار میں اچھا خاصا اضافہ ہوگا اور محنت کشوں کے ذہنی طور پر تندرست بچے سکول کی تعلیم حاصل کرنے کے قابل بن جائیں گے اور ملک کو چلانے کیلئے باصلاحیت طبقہ میسر آجائیگا۔ اندرون وبیرون ملک یہی طبقہ پاکستان کا نام روشن کرے گا۔ سودی گردشی قرضوں سے ملک وقوم کو چھٹکارا مل جائے گا۔ پاکستان کے اداروں سے بھی اسمگلر طبقے کا خاتمہ ہوجائے گا اور اچھے لوگ آجائیں گے۔
ہرشعبے اور میدان میں صحت مند اور توانا لوگوں کی آمد ممکن ہوسکے گی۔ رسول ۖ نے سود کی آیات نازل ہونے کے بعد مزارعت کو بھی سود قرار دے دیا اور اس پالیسی کی وجہ سے پھر وہ یثرب گاؤںدنیا کا ترقی یافتہ شہر ”مدینہ ” بن گیا۔ جہاں سے یہ انقلاب پھر پوری دنیا میں پھیل گیا تھا لیکن خلافت کی جگہ جب آمریت نے لے لی تو پھر دین کی ہر تعبیر کا بیڑا غرق کردیاگیا۔
آج جب سودی بینکاری کا نام اسلامی بینکاری رکھ دیا ہے تو پھر آخر غیر اسلامی کیا ہے؟۔ جب سود بھی اسلامی بن گیا؟۔ اسلامی بینکاری کانفرنس میں اسحاق ڈار نے خوب کہا تھا کہ جب تم عام سودی بینکاری سے اسلام کے نام پر2فیصد زیادہ سود لو گے تو کون اس کی طرف آئے گا؟۔ حالانکہ اسلام کے نام سے کالے دھن کو سفید کرنے کا طریقہ ایجاد کرلیا گیا ہے۔ جس میں ایک طرف سودی بینکاری کو مکمل تحفظ مل جاتا ہے اور دوسری طرف کالے دھن کا بھی کوئی حساب کتاب نہیں لے سکتا ہے۔
جب کوئی کالے دھن کی پراپرٹی اسلامی بینک کے نام پر منتقل کی جاتی ہے تو اس کا مالک بینک بن جاتا ہے اور پھر اس کو فرضی کرایا کی صورت میں سود کیساتھ ایڈ جسٹ کردیا جاتا ہے۔ اگر کوئی احتساب کا ادارہ تفتیش کرلے کہ یہ پراپرٹی کس کی ہے؟ تو وہ بینک کے نام ہوتی ہے اور اس کا محاسبہ نہیں ہوسکتا ہے اور جب کوئی شخص دیوالیہ ہوجائے تو پراپرٹی بینک کے نام ہوگی اور بینک کو نقصان بھی نہیں ہوگا۔ کراچی ائیر پورٹ سے لیکر کیا کیا پراپرٹیاں فرضی کرائے کی مدد میں ہم بیچ چکے ہیں؟۔ اگر کوئی بحران کھڑا ہوگیا تو سب کچھ اغیار کی تحویل میں دیا جائیگا۔
اسلام کے معاشرتی نظام کو بھی مذہبی طبقے نے بہت بگاڑا ہے اور اگر ایک ایک بات کو صحیح معنوں میں اجاگر کیا جائے تو پھر لوگوں میں اسلام کی سمجھ پیدا ہوگی اور مذہب سے بیزار طبقہ اسلام کی خدمت کرنے لگ جائے گا۔ جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے قرآن وسنت کی صحیح تعلیمات کا معاملہ پھیلے گا تو جمعیت والوں میں ایک زبردست انقلاب برپا ہوجائے گا۔
مولوی طبقے نے ہمیشہ اسلام کے نام پر اپنی اجارہ داری کا نفاذ قائم کیا ہے لیکن اب لوگ مذہب بیزار ہوگئے ہیں ۔ پہلے سے زیادہ آج علماء ومفتیان کی عزت وتوقیر میں اضافہ ہوسکتا ہے لیکن اس کے لئے ہٹ دھرمی نہیں اسلام کی اصل تعلیمات کو پیش کرنا ہوگا۔ مفتی منیر شاکر ایک باصلاحیت اور بہادر آدمی ہے اور ان کے ساتھ جمعیت علماء اسلام کی ایک ٹیم تشکیل دے کر پورے پختونخواہ ، بلوچستان اور افغانستان میں ایک تحریک شروع کردی جائے تو بہت جلد اس کے بہترین نتائج نکل سکتے ہیں۔ کامریڈ اور لامذہب طبقہ بھی اسلام کی حمایت میں بالکل پیش پیش ہوگا لیکن جب ہم سودی نظام کو اسلامی قرار دیں اور ماں بہنوں کی عزتیں حلالہ کی لعنت سے لٹوائیں اور توقع رکھیں کہ عوام ہمیں اقتدار کی دہلیز تک پہنچائے گی تو اس خام خیالی کا ادراک ہونا چاہیے کہ اگر دنیا میں اقتدار اور دولت مل بھی گئی مگر آخرت میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اسلام کی درست تعلیم کا نتیجہ ہندوستان اور اسرائیل پر بھی مرتب ہوجائے گا۔ پورپ و امریکہ میں بھی اسلام کا ڈنکا بج جائے گا۔ مشرق ومغرب اور شمال وجنوب میں اسلام کی فطرتی تعلیم سے منزل مل سکتی ہے ۔
مولانا فضل الرحمن نے رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ میں جو تقریر فلسطین کے حق میں کی وہ بھی بہت اچھی بات ہے لیکن یہ سعودی عرب کے شاہ سلیمان کیلئے سپاس نامہ زیادہ تھا اور عالم اسلام کیلئے رابطے کی اس میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ جب ہم اسلام کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی ڈھانچے کو پیش کریں گے تو عالم اسلام کے تمام حکمران اس کی طرف بن بلائے بھی توجہ دیں گے۔ اسلام کے اندر یہ کمال ہے کہ مردہ قوموں میں اس کے ذریعے زندگی کی روح دوڑانے کی صلاحیت اللہ نے رکھی ہے۔ امید کرسکتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن اس کیلئے اپنی اور اپنی جماعت کی خدمات پیش کریں گے۔ ان کی شخصیت کو حکومت،ریاست اور اپوزیشن میں قبولیت کا جودرجہ حاصل ہوا ہے اس موقع پر وہ دین کی درست خدمات انجام دے کر اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا احساس کریں گے۔ انشاء اللہ العزیز

(نوٹ: اس پوسٹ کے ساتھ عنوان ”ہر استحکام کیلئے ایک انہدام ضروری ہوتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن ” کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے

حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے

پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔ نوازشریف ،زرداری ، فائز عیسیٰ، جنرل قمر جاوید باجوہ اور تمام سیاستدان ، صحافی، جرنیل، جج اورسول بیوروکریٹ اپنے بیرون ملک کے اثاثوں کو قربان کردیں

پختونخواہ وبلوچستان سے اسمگلنگ کے بجائے سستی اشیاء اور گیس وپیٹرول کا فائدہ عوام تک براہ راست پہنچائیں تو لوگوں کو روزگار ملے گا اور کاروبارِحکومت بھی اچھی طرح سے چل جائیگا

سندھ حکومت دریائے سندھ ضلع و ڈویژن کی سطح پر مناسب بند تعمیر کرے جس میں سیلاب کے پانی کو بڑے پیمانے پرذخیرہ کرکے رکھا جاسکے۔ اس پر لوکل پن بجلی بنانے کا انتظام کرے تو سندھ جنت نظیر بن جائے گا۔ ہاریوں کو مفت میں زمینیں دینے سے سندھ پاکستان میں اس انقلاب کا سب سے بنیادی ذریعہ بن جائے گا جو پاکستان سے پوری دنیا میں پھیل جائے گا۔
بلوچستان مرکز سے فنڈز لینے کے بجائے ایرانی پیٹرول کا کاروبار اپنے ہاتھ میں رکھ لے۔ پورے ملک کو سستے پیٹرول کی سپلائی بھی کرے ۔ خود بھی کمائے ،لوگوں کو بھی سہولت کی فراہمی یقینی بنائے۔ بلوچستان سے اسمگلر اور مافیاز کا خاتمہ ہوجائے گا تو امن وامان کی صورتحال میں بہت بہتری آجائے گی۔ ایران اور افغانستان سے سمگلنگ نے معاملات کو بہت بگاڑا ہے۔
پنجاب اور سندھ ہندوستان سے گائے اور گوشت درآمد کرنا شروع کریں اور دوسری سستی اشیاء دالیں، چاول،ادویات اور ہندوستان میں بننے والی چیزوں کی درآمد شروع کریں اور اپنی چیزیں ان کو برآمد کریں تو لوگوں میں خوشحالی کا دور آجائے گا۔ پنجاب اور سندھ کے عام لوگ بھی کم پسماندہ نہیںہیں۔ سندھ کی طرح پنجاب میں بند بنائے جائیں اور بجلی پیدا کی جائے۔
میانوالی سے ملتان موٹر وے بنے تو اسلام آباد،پشاور اور پنجاب وپختونخواہ کا زیادہ ٹریفک سکھر تک موٹر وے پر آجائیگا۔ میانوالی و ڈیرہ اسماعیل خان عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کے حلقے ہیں۔ مریم نواز اور شہبازشریف اس تھوڑے خرچہ پر بہت لوگوں کے دل جیت سکتے ہیں جس میں جنوبی پنجاب کا بڑا حصہ بھی آجائیگا۔ کراچی آنے جانے والوں کو سہولت ہوگی۔
خیبر پختونخواہ میں پن بجلی لگائے جائیں تو وفاق سے کچھ لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ماربل اور کاپر کیلئے انڈسٹری لگائی جائے ۔خام مال کو بیرون ملک سستا بیچنے والے پاگل کے بچے تھوڑی شرم وحیاء بھی نہیں رکھتے۔اگر وطن سے ہمدردی ہوتی تو آج مقروض نہ ہوتے اور نہ ملک وقوم کو ان مشکلات کی دہلیز پر پہنچاتے۔ مقتدر طبقہ لوٹا ہوامال واپس کرکے قرضہ چکائے۔

(نوٹ: اس پوسٹ کے ساتھ عنوان ”ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟ ” کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟

ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟

پاکستان ایک طرف سودی قرضوں میں گھرا ہوا ہے اور دوسری طرف کاروبار زندگی اتنا خراب ہے کہ اپنا وزن نہ سلطنت میں اٹھانے کی صلاحیت ہے اور نہ عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کی گنجائش!

اپنے اپنے ذاتی ، سیاسی اور صوبائی مفادات سے بالاتر ہوکر ایک پاکستانی کی حیثیت سے سوچنا ہوگا کہ اگر ملک بحران کا شکار ہوگیا تو پھر عوام میں سے ہر ایک اس کی سزا ضروربھگت لے گا

نوازشریف کے سابق دورِ حکومت میںIMFو چین وغیرہ سے بڑاقرضہ لیا جارہاتھا تو ہم نے شہہ سرخیوں کیساتھ اتنباہ کیا کہ ہم وہاں پہنچ سکتے ہیں کہ بین الاقوامی مالی ادارے ہمارے ملک کے مقتدر طبقے سے اختیار اپنے ہاتھ میں لیکر ملک چلانے کی شرط پر قرضہ دیں۔1914میں صحافی امتیاز عالم سے بھی مولانا فضل الرحمن نے کھل کر کہا تھا کہ ”ہماری پارلیمنٹ برائے نام ہے ، سیاسی، فوجی اور معاشی لحاظ سے بیرونی قوتیں جو فیصلہ کرتی ہیں وہی ہم پارلیمنٹ میں بروئے کار لاتے ہیں، ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے”۔ یہ ہم نے شائع بھی کیا ہے۔
اگر مولانا فضل الرحمن کوبھی پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی طرح اقتدار کا حصہ بلوچستان میں دیا جاتا تو شاید انقلاب کی باتیں نہ ہوتیں۔ بلوچستان سے جمعیت علماء اسلام کے مالی مفادات وابستہ تھے اسلئے پہلے مولانا محمد خان شیرانی کو ہٹایا گیا اور اب وہاں حکومت میں حصہ دار بنانے سے ن لیگ نے بھی معذرت کرلی کہ ”بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے” تویہ محرومی مولانا فضل الرحمن کو ہضم نہیں ہورہی ۔ تحریک انصاف کو پختونخواہ اور ملک بھرمیں مظلومیت کا ووٹ ملا ہے لیکن اس کی نااہلی یہ تھی کہ جب خلائی مخلوق نے اس کو مسلط کیا تو اچھل کود کررہی تھی ۔ اب سہنے کی سکت نہیں رکھتی ۔ قاسم سوری کو بالکل ناجائز طریقے سےPTIسے جتوادیا گیا تھا تو اس کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی بنادیا گیا پھر اس نے عمران خان کے کہنے پر تحریک عدم اعتماد سے بچنے کیلئے اسمبلی کو توڑنے کا اعلان کیا۔ حالانکہ عزت اور وقار کا راستہ یہی تھا کہ جب زرداری سے ملکر تحریک انصاف نے بلوچستان باپ پارٹی کی داغ بیل ڈالی اور باپ کا چئیرمین سینٹ لایا گیا اور پھر جبPDMکی اکثریت کے باوجود اس کو نہیں ہٹایا جاسکا اور جب یوسف رضا گیلانی جنرل سیٹ پر حفیظ شیخ کے مقابلے میں سینیٹر منتخب ہوگئے تو عمران خان اقتدار سے الگ ہوجاتے۔ لیکن حکومت ملی بھی لوٹا کریسی اور بیساکھیوں کے سہارے تھی چلائی بھی خلائی مخلوق کے سہارے اور نوازشریف کے لوگوں کو توڑنے کیلئے محکمہ زراعت کا استعمال ہوا کیونکہ منے کے ابے کا نام لینے کی کسی میں جرأت نہیں تھی۔
پھر جو امریکہ مخالف کارڈ استعمال کرکے سائفر لہرایا تھا تو اسکے نتائج بھگتنے تھے۔ کوئی شک نہیں کہ امریکہ کو بڑی دلچسپی ہوگی کہ پاکستان میں مذہبی کارڈ استعمال کرنے والوں کا اقتدار نہ آئے مگر عمران خان کیساتھ ایسا کچھ ہوا یا نہیں ؟ اس کی وجہ مذہبی کارڈ بالکل نہیں تھا۔ جب عمران خان نے روس کا دورہ کیا تھا اور اسکی وجہ سے امریکہ کو ناراض سمجھ رہا تھا تو عمران خان نے واضح کیا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے باہمی مشاورت کیساتھ روس کا دورہ کیا تھا۔جنرل باجوہ کا اعتراف آیا تھا کہ امریکہ نے ہم سے آنکھیں پھیریں تو ہمیں دوسری قوتوں کی طرف دیکھنا پڑا۔
اگر مولانا فضل الرحمن نے انقلاب برپا کرنا ہے تو اجنبیت کے ماحول میں دین کے معاشرتی اور معاشی معاملات کواُجاگر کریں۔مذہبی بلیک مارکیٹنگ کا راستہ تباہی کا راستہ ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا سسر قادیانی تھا۔ ن لیگی صحافی ابصار عالم نے اسلئے نوازشریف کے ذریعے آرمی چیف تعینات کرایا تھااور ن لیگ نے جنرل باجوہ کو خوش کرنے کیلئے قومی اسمبلی سے قادیانیوں کے حق میں وہی بل پاس کیا جو سینیٹ میں حافظ حمداللہ کی وجہ سے ناکام ہوا ۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے میڈیا پر قاری حنیف جالندھری کی موجودگی میںکہا کہ” شکر ہے کہ سینیٹ سے بل پاس نہیں ہوا تھا ورنہ مجھے ڈپٹی چئیرمین سینیٹ کی حیثیت سے دستخط بھی کرنے پڑتے اسلئے کہ چئیرمین اس دن موجود نہ تھا۔ حکومت جب کسی بل کو منظور کرنا چاہتی ہے تو اگر قومی اسمبلی یا سینیٹ میں سے کسی ایک میں پاس نہیں ہوتا تو پھر مشترکہ اجلاس میں اس کو لاکر پاس کرتی ہے”۔ پھر مشترکہ اجلاس میں شیخ رشید نے جمعیت علماء اسلام کو پکارا کہ سید عطاء اللہ بخاری کو تم کیا جواب دوگے۔ ختم نبوت کیلئے بڑی قربانیوں کا کیا ہوگا؟۔ شیخ رشید نے کہا کہ علماء مجھے مارنے کیلئے دوڑے تھے البتہ جماعت اسلامی نے شیخ رشید کا ساتھ دیا تھا۔
فیض آباد دھرنا ہوسکتا ہے کہ علامہ خادم حسین رضوی رحم اللہ نے کسی کے اشارے پر ہی دیا ہو لیکن قصور پارلیمنٹ ہی کا تھا۔ افتخار محمد چوہدری سابق چیف جسٹس نے میڈیا پر بتایا کہ” جب مرزائیوں کیلئے اسمبلی میں بین الاقوامی سازش ہورہی تھی تو اس وقت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے حافظ حمد اللہ نے آواز حق اٹھائی تھی”۔ مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ ” ہم نے عمران خان پر بیرونی ایجنڈے کیلئے کام کرنے کا الزام لگایا تھا تو وہ مشن پورا نہیں ہوا تھا اور اب آپ نے دیکھا کہ چیف جسٹس نے ایک کیس میں قادیانی کے حق میں کیسے ریمارکس دئیے؟”۔
لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ فیض آباد دھرنا ، عمران خان اور خفیہ طاقتیں اس وقت اس سازش کے خلاف کھڑی تھیں اور ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن جنرل قمر جاوید باجوہ کے سسرال کیلئے ہی دوسری طرف کھڑے تھے۔ اب اگر چیف جسٹس فائز عیسیٰ اور ن لیگ پھر ایک طرف کھڑے ہوگئے ہیں تو اس کا ادراک بھی مولانا فضل الرحمن کو ہوسکتا ہے لیکن وہ کھل کر بات کرے۔ اس کے پسِ پردہ حقائق اب تک کھل کر سامنے نہیں آسکے ہیں۔
ابصار عالم کو گولی ماری اور اسکے بیٹے کو اپاہج بنادیا تھا تواس کا الزام کسی اور پر لگانے کے بجائے ابصار عالم نے اعتراف جرم کرلیا کہ اگر میں قادیانی سسر کی وجہ سے جنرل باجوہ کوISIاور فوج کی طرف سے مشکلات میں دیکھ کرخود یہ مشورہ نہ دیتا تو نوازشریف اس کو آرمی چیف نہ بناتے۔ پھر مجھے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا تو آرمی چیف نے میری کوئی مدد نہیں کی تھی۔
جب نوازشریف نے جنرل باجوہ کو آرمی چیف بنادیا تھا تو ایک تقریب میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے مولانا فضل الرحمن سے مذاق میں اس خوف کا اظہار کیا کہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ فتویٰ نہ لگادیں۔ مفتی محمود نے جنرل ضیاء الحق کو مرزائی قرار دیا تھا ۔ جنرل ضیاء الحق کی بیگم اور جنرل رحیم الدین کی بیگم دونوں بہنیں تھیں۔ جنرل رحیم الدین مشہور قادیانی مبلغ تھا۔جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا عبدالکریم بیرشریف لاڑکانہ جنرل ضیاء الحق کو آخری وقت تک قادیانی قرار دیتے تھے۔ جس کو بعد میں مولانا فضل الرحمن نے امارت میں شکست دیکر ہٹادیا تھا لیکن اس سے پہلے مولانا سراج احمد دین پوری جمعیت علماء اسلام کی امارت چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے تھے۔
مفتی تقی عثمانی نے جنرل ضیاء الحق کے بیٹے ڈاکٹر انوار الحق اور جنرل رحیم الدین کی بیٹی کا نکاح پڑھایا تھا۔ مفتی محمود کو پان میں زہر اور دورہ قلب کی گولی کے بہانے شہید کرنے والا مفتی محمد تقی عثمانی اپنے تحریری اور تقریری بیانات میں تضادات سے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے ۔پہلے تحریر میں لکھا تھا کہ ہم بھائیوں نے چائے پینے سے انکار کیا تو مفتی محمود نے کہا کہ میں چائے پیتا ہوں مگر کوئی نہیں پیتا تو اس کو پسند کرتا ہوں تو میں نے پان کا بٹوہ دکھایا کہ ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔ مفتی محمودنے کہا کہ یہ تو چائے سے بھی بدتر ہے۔اس میں پان کھلانے اور دورہ قلب کی گولی کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا لیکن مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نے اس کا ذکر کیا تھا۔ جب ہم نے اپنی کتاب میں یہ لکھا تھا مولانا لدھیانوی شہید نے بتایا کہ اس پر مفتی تقی عثمانی نے ڈانٹ پلائی ہے۔ پھر اب مفتی تقی عثمانی نے کہا ہے کہ مفتی محمود سے پان کی بڑی بے تکلفی تھی اور مجھے کہتے تھے کہ لاؤ بھیا ہم تمہارا پان کھائیں گے؟۔ اتنا بڑا تضاد؟ واہ جی واہ۔
اوریا مقبول جان ، سلیم بخاری اور علامہ زاہد الراشدی نے جنرل قمر باجوہ کے حق میں گواہی دی تھی کہ ان کا قادیانیوں سے تعلق نہیں ۔ تحریک انصاف نے اسمبلی میں شیخ رشید کا ساتھ نہیں دیا لیکن جب ن لیگ کے خلاف تحریک چلی تو عمران خان نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ ن لیگ کے احسن اقبال کو گولی لگی تھی۔ وزیرقانون زید حامد کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ عوام اور مذہبی طبقہ ہی نہیں فورسسز کی سپاہیوں اور افسران میں بھی بہت زیادہ مذہبی حساسیت ہے۔ مذہبی و سیاسی بنیادوں پر جس طرح کی مہم جوئی چل رہی ہے اس کا پاکستان بالکل بھی متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔
اصل چیز معاشی عدم استحکام ہے ۔جب اس کو سیاسی بنیاد پر مذہبی ٹچ دیا جاتاہے تو معاملات میں بہت بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ فوج اپنے کھیل اور کھلونوں کے ہاتھوں بدنام ہوگئی ہے۔ فوج کے بغیر نوازشریف ، عمران خان، زرداری، مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق سمیت کوئی بھی اقتدار نہیں چلاسکتا ہے۔ کسی نے دریا میں کمبل دیکھ کر چھلانگ لگا دی اور جب اسکے ساتھیوں نے دیکھا کہ کشمکش کافی دیر سے جاری ہے، کمبل حاصل کرنے کے بجائے اسکی جان کو خطرہ ہے تو آواز لگائی کہ ”کمبل کو چھوڑ دواور تم سلامت نکل آؤ” ۔ اس نے کہا کہ ” میں کمبل کو چھوڑ رہاہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہاہے ”۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ کمبل نہیں ریچھ تھا۔ فوج نے بھی سیاسی جماعتوں کو کمبل سمجھ کر دریا میں چھلانگ لگا دی لیکن وہ ریچھ نکلے۔ جنرل ایو ب نے ڈیڈی بن کر ذوالفقار علی بھٹو کو کمبل سمجھ لیا۔پھر جنرل ضیاء الحق و جنرل حمید گل نے نوازشریف کو پالا پھر عمران خان کمبل آگیا۔ پھرPDMکو اور اب نوازشریف اور زرداری کی پارٹنر شپ کو ڈبل کمبل سمجھ لیا لیکن کمبلوں سے جان چھڑانی مشکل ہوگئی ہے۔
پاکستان کے معاشی حالات اس قدر گھمبیر ہیں کہ کسی وقت بھی ملک ڈیفالٹ کی طرف جاسکتا ہے۔ جب2008میں نواز شریف،قاضی حسین احمد ، محمود خان اچکزئی، عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری ودیگر سیاسی جماعتوں نے انتخابی دنگل میں شرکت کا بائیکاٹ کیا کہ جنر ل پرویزمشرف وردی اتار یں اور جب تک وردی نہیں اتاریں گے تو ہم الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے تو پیپلزپارٹی نے نوازشریف کو منوالیا اور دوسری جماعتوں کو نوازشریف نے چھوڑ دیا۔بینظیر بھٹو بلٹ پروف گاڑی سے باہر نہ نکلتی تو قتل نہ ہوتی اسلئے کہ ساتھ بیٹھنے والے تمام افراد بھی محفوظ رہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے اداروں نے منع کیا تھا کہ رسک ہے لیکن محترمہ نے کہا تھا کہ مجھے جن سے خطرہ ہے ان کو روک لو ۔ اداروں نے کہا تھا کہ ”ہم اپنے بڑے نیٹ ورک کو خراب کرکے کافی لوگوں کی جانوں کو خطرات میں نہیں ڈال سکتے”۔
مولانافضل الرحمن نے اب کہا ہے کہ ” ایک وڈیرے کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس پر بڑا تشدد ہوا ہے کہ وہ ہمارے حق میں فیصلہ کرلے”۔ سندھ میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ ”اس مرتبہ پیپلزپارٹی کو صوبائی حکومت میں نہیں آنے دیا جائیگا ، اسلئے کہ وہNFCایوارڈ اور پانی وغیرہ کے مسئلہ پر تعاون نہیں کرتی ہے”۔ اگر تحریک انصاف کی مرکز میں حکومت قائم ہوجاتی اور ن لیگ وپیپلزپارٹی اپوزیشن میں ہی رہنے کا فیصلہ کرتیں تو تحریک انصاف اور ن لیگ دونوں مل کر عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ لادنے کی طرح صوبہ سندھ کیلئے بھی فنڈز میں کمی کرتیں اور پختونخواہ کی طرف سے بھی اپنا حق طلب کرنے کا کوئی معاملہ پیش نہ آتا۔ آصف زردای نے صدر کی پوزیشن سنبھال کر شہباز شریف کی حکومت کو سہارا دیا ہے مگر ساتھ ساتھ اس کی گردن بھی اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے۔
ایک طرف تحریک انصاف کا عوامی دباؤ اور سوشل میڈیا کی طاقت اور دوسری طرف پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی مفادات پر مبنی پارٹنر شپ اور تیسری طرف مولانا فضل الرحمن کی تھریٹ اور چوتھی طرف ملک کی معاشی بدحالی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے اور اس میں ذرا سی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ریاست کو موج مستی کا نشہ نہیں بلکہ اس ریچھ سے جان نہیں چھوٹ رہی ہے۔ عمران خان کو وزیراعظم بننے کا بڑا شوق تھا بن گیا نوازشریف کو ایک موقع ملنے کا شوق تھا مل گیا اور زرداری کو صدر مملکت بننے کا شوق تھا بن گیا۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی صدر بننے کا شوق تھا لیکن وہ نہیں ہوا۔ محسن جگنو سے اپنے انٹرویو میں اعتراف بھی کرالیا کہ امریکہ سے کہا تھا کہ ” مجھے شدت پسند نہیں ترقی پسند مولوی سمجھا جائے لیکن امریکہ نے اس پر اعتماد نہیں کیا ”۔
ساری دنیا کو پتہ تھا کہ امریکہ نے ملا عمر کی طالبان حکومت کو بینظیر بھٹو اور نصیراللہ بابر کے ذریعے اسلئے میدان میں اتارا تھا کہ ازبکستان کی گیس پائپ لائن ہندوستان تک امریکی کمپنی نے پہنچانی تھی ۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوجاتا تو روس سے آزاد ہونے والے نئے مسلم ممالک کے گیس کا وسیع ذخیرہ بھارت و چین اور دنیابھرکو بیچنے میں امریکہ کی اجارہ داری قائم ہوجاتی۔ لیکن اس کو اسلامی رنگ میں پیش کیا گیا تھا۔ طالبان نے اپنے افغان صدر نجیب اللہ کا کیا حشر کیا تھا؟۔ اسلئے کہ وہ امریکہ کے کیمپ میں نہیں تھا۔ جبکہ دوسری طرف غیر ملکی صحافی پکڑے بھی جاتے تو حسنِ سلوک سے مسلمان بن کر جاتے تھے؟۔
دوسری طرف شیعہ اگر ایرانی انقلاب کو اسلامی مانتے ہیں تو آیت اللہ خمینی کو ”امام ” ماننے والے امیر معاویہ کیلئے امیر شام کا لقب کیوں اختیار کرتے ہیں؟۔ امیر شام تو وہ اس وقت تھے جب حضرت علی اور حضرت حسن سے جنگ لڑرہے تھے۔ جب امام حسن ان کے حق میں دستبردار ہوگئے اور20سال تک اس نے حضرت امام حسن وامام حسین کی تائید سے حکومت کی تو پھر ان کی حیثیت واقعی ایک خلیفہ راشد کی بالکل بھی نہیں تھی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے دور میں بڑی فتوحات کا دروازہ کھل گیا تھا۔ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف نعرے لگانے سے تو کچھ نہیں ہوتا جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا جس پر شیعہ نے سنیوں کو طعنہ بھی دیا تھا لیکن جب عراق پر امریکہ نے حملہ کیا تو ایران اور شیعہ نے کس کا ساتھ دیا؟۔ افغانستان میں بھی ایران نے شمالی اتحاد کا ساتھ دیا جو امریکہ کیلئے طالبان کے خلاف لڑرہاتھا۔ اگر اس وقت احمد شاہ مسعود زندہ ہوتے تو شاید امریکہ کا ساتھ نہ دیتے۔
حسن الہ یاری اپنی بیوقوفی کی وجہ سے نہ صرف شیعہ سنی کے اندر تفرقہ ،شدت پسندی اور منافرت کے بیچ بورہاہے بلکہ اب وہ شیعہ کیلئے بھی درد سر بن گیا ہے۔ حسن الہ یاری کو علم کی زبان میں سمجھانے کی ضرورت ہے۔ وہ دنیا کیلئے امریکہ میں جا بیٹھا ہے۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے اہل تشیع کے درمیان اجتہاد کے مسئلے پر حسن الہ یاری کی سخت سرزنش کی ہے۔ لیکن یہ حسن الہ یاری کا معاملہ نہیں ہے بلکہ شیعہ فرقے کو یہ مسئلہ درپیش ہے اور اس کا اگر صحیح حل نہیںنکالا گیا تو پھر فرقہ واریت کی آگ میں سبھی ایک دن بالکل اندھے ہوجائیں گے۔
حسن الہ یاری نے حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے کفر کیلئے یہ دلیل دی ہے کہ ” قرآن میں اللہ تعالیٰ نے جنابت اور پاخانہ کی صورت میں تیمم سے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اور حضرت عمر نے اس حکم سے کھلم کھلا انحراف کرکے کفر کا ارتکاب کیا ہے”۔
علامہ مناظر احسن گیلانی نے اپنی کتاب ” تدوین فقہ ” میں بحث کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ کی تشویش کا حوالہ دیا کہ جب حضرت عمار سے نبی ۖ نے فرمایا کہ” تیمم کرکے نماز پڑھ لو ” تو حضرت عمر نے اس پر عمل کیوں نہ کیا؟۔ اور نبی ۖ نے خود حضرت عمر سے کیوں نہیں فرمایا کہ ”تیمم کرکے نماز پڑھ لو”۔
حضرت شاہ ولی اللہ ایک دیندار اور مذہبی شخصیت تھے اور نماز قضاء کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے اسلئے حضرت عمر کیلئے تعجب کا اظہار کیا لیکن حضرت عمر نے قرآن کی تفسیر کو بھی سمجھ لیا تھا اور نبی ۖ نے اس پر عمل کرنے کی تائید بھی کردی تھی تو اس بات کو شاہ ولی اللہ نے کیوں نہیں سمجھا؟ ،اس پر تعجب کرنا تھا اور علامہ مناظر احسن گیلانی نے کیوں نہیں سمجھا ؟،یہ بات تعجب کی ہے۔میرے دادا سیدامیر شاہ سے زندگی میں ایک نماز قضا ء ہوگئی تھی جس کا ساری زندگی خوف اور دکھ تھاکہ اگر اس پر پکڑ ہوگئی تو کیا ہوگا؟۔ میرے والد علماء کے بہت قدردان تھے اور مسجد بھی بغیر چندہ اپنے پیسوں سے عالیشان تعمیر کرلی لیکن ہم نے دیکھا کہ جون کے مہینے میں لمباروزہ رکھتے تھے لیکن مغرب کی نماز قضاء کرلیتے تھے اور پھر تراویح پڑھنے جاتے۔ جہاں پر ایک دن میں6،6پاروں کا ختم ہوتا تھا۔ اوروہ کہتے تھے کہ نماز پڑھ لی تو بہت اچھاکیا ، ثواب بھی مل گیا اور فائدہ بھی ہوا لیکن اگر نہیں پڑھی تو اس کا اللہ کو کوئی نقصان نہیں ہے اور نہ اللہ کو اس کا کوئی فائدہ ہے البتہ اگر کوئی غریب بھوکا ہواتو پھر اللہ معاف نہیں کرے گا۔ حضرت عمر ایک طرف تیمم میں نماز نہ پڑھنے کا فائدہ اٹھاتے تھے یا کراہت کی وجہ سے اللہ کے حضوراس کے دربار میں حاضری دینا مناسب نہیں سمجھتے تھے اسلئے کہ بدبودار منی کے مواد سے لتھڑے ہوئے انسان کو اللہ پاک کے حضور حاضری دینے میں بوجھ لگتا ہے۔ تو دوسری طرف کہتے تھے کہ اگر دریائے نیل کے کنارے کتا بھی پیاس سے مرجائے تو اس کی پوچھ گچھ یا بازپرس مجھ سے اللہ تعالیٰ ضرور کرے گا۔
نہج البلاغہ میں حضرت علی نے حضرت عمر کی وفات کے بعد بڑی تعریف کی تھی۔ اہل تشیع غلط سمجھتے ہیں کہ حضرت علی حضرت عمر سے خوفزدہ ہوکر تقیہ کرکے گھر میں بیٹھ گئے ۔ حسن الہ یاری کہتا ہے کہ ابوبکر وعمر نے اسلام قبول کیا ہی نہیں تھا بلکہ منافقت سے لبادہ اوڑ ھ لیا تھا۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر حضرت علی نے خوف کے مارے تین خلفاء کی حکومت قبول کرلی اور امام حسن نے بھی امیرمعاویہ کے حق میں دستبردار ہونے کا فیصلہ خوف سے کیا۔ حضرت امام حسین نے اپنے شیعوں سے دھوکہ کھایا اور پھر ان کو یزید کے لشکر نے راستہ نہیں دیا اور اس کے بعد باقی ائمہ اہلبیت نے بھی ساری زندگی خوف میں گزاری اور آخری امام غائب ہوئے اور ایرانی حکومت بھی جبر واستبداد کا نتیجہ ہے؟۔ جب ائمہ اہل بیت نے کسی ایک شیعہ پر بھی اعتماد کرکے بقول علامہ شبیہ الرضا نجفی کے دین کی مکمل کتاب سپرد نہیں کی تو پھر صحابہ پر شیعہ کیسے اعتماد کرسکتے ہیں؟۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ اگر امام کا ہونا کوئی بڑی انوکھی چیز ہوتی تو کم ازکم گھر کے افراد میں چھٹے امام کے بعد کیوں اختلاف پیدا ہوتا؟۔ خمینی نے انقلاب برپا کرکے اچھاکیا لیکن ابھی باہمی اعتماد کیساتھ معاملات حل کرنا دانشمندی کا تقاضاہے۔پاکستان میں ایک اچھی فضاء قائم کریں تو معاشی صورتحال آج باہمی تعاون سے ہی بہتر ہوسکتی ہے۔

(نوٹ: اس پوسٹ کے بعد عنوان ”حکومت وریاست IMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے ” کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ہر استحکام کیلئے ایک انہدام ضروری ہوتا ہے اگر آپ کا گھر زلزلے میں کریک ہوجائے تو کہیں گے کہ گرائیں گے تو اور ٹوٹ جائیگا،دوبارہ بنانا پڑے گا؟ ۔ اس حد تک غیر مستحکم ہیں ہم معاشی ، سیاسی ، اخلاقی لحاظ سے کہ ایک دفعہ اس کا انہدام ضروری ہوگا اور وہ انقلابی تحریک سے ممکن ہے۔ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے۔سندھ اور بلوچستان اسمبلی خریدی گئی ۔الیکشن کے نتائج مسترد!

ہر استحکام کیلئے ایک انہدام ضروری ہوتا ہے اگر آپ کا گھر زلزلے میں کریک ہوجائے تو کہیں گے کہ گرائیں گے تو اور ٹوٹ جائیگا،دوبارہ بنانا پڑے گا؟ ۔ اس حد تک غیر مستحکم ہیں ہم معاشی ، سیاسی ، اخلاقی لحاظ سے کہ ایک دفعہ اس کا انہدام ضروری ہوگا اور وہ انقلابی تحریک سے ممکن ہے۔ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے۔سندھ اور بلوچستان اسمبلی خریدی گئی ۔الیکشن کے نتائج مسترد!

حقیقت ہے کہ جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے کچھ لوگ زمانہ ہوا کہ اسمبلیوں سے مایوس ہیں ایک طبقہ جمہوریت کو کفر سمجھتا ہے ساری قربانیوں کے باوجود ہمارے حق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے

جمعیت علماء اسلام اورPDMکے قائد مولانافضل الرحمن نے کہا:یہ حکومت عوام کی نمائندہ نہیں دھاندلی کی پیداوار ہے!
پارلیمنٹ میں تحفظات کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا لیکن اس صورتحال سے چاروں صوبوں میں جا کر صوبائی جو ہمارے جنرل کونسلز ہیں مجالس عمومی ہیں ان کو اعتماد میں لینا، چنانچہ ہمارا پہلا اجلاس خیبر پختونخواہ میں ہوا اور ابھی دوسرا اجلاس یہاں کراچی میں ہو رہا ہے اس کے بعد پنجاب میں جائیں گے۔ بلوچستان میں بہت سخت سردی ہے مختلف اطراف سے لوگوں کے جمع ہونے میں دقتیں آرہی ہیں تو اس کو فی الحال موخر کیا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے اور پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھو رہی ہے۔ اس صورتحال میں اب کیا کیا جائے؟۔ یہ پارلیمنٹ جواس وقت ہم دیکھ رہے ہیں یہ عوام کی نمائندہ نہیں۔ یہ دھاندلی کی پیداوار پارلیمنٹ ہے جس میں کچھ لوگ اپنے آپ کو حکمران کہلائیں گے اور قوم کے دلوں پر وہ حکومت نہیں کر سکیں گے ان کے جسموں پہ تو شاید وہ حکومت کرسکیں لیکن قوم دل سے اس کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اس حوالے سے ہم آج یہاں کراچی آئے ہیں۔ یہاں کے صوبائی جنرل کونسل اور ورکرز کیساتھ ساری صورتحال پہ بات کرنی ہے اور پھر مزید ہم پورے ملک میں تحریک چلانے کا لائحہ عمل بھی بنائیں گے۔ بھرپور تحریک ہوگی عوامی قوت کے ساتھ ہوگی اور وہ ملک کی سیاست کو تبدیل کرے گی اس کی کایا پلٹے گی۔ حالات اس طرح نہیں رہیں گے جس طرح کہ ہم پہ مسلط کئے جا رہے ہیں۔ یہ حالات ہم نہ تسلیم کرتے ہیں نہ اس کو ہم قبول کرتے ہیں اس کے خلاف بھرپور عوامی رد عمل آئے گا لیکن ہم اس کو منظم طریقے سے آگے بڑھانا چاہیں گے۔صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ دیکھئے ہمارا کوئی ذاتی جھگڑا کسی کے ساتھ نہیں ہے کہ وہ ہمیں منا لیں گے۔ مسئلہ قوم کا ہے مسئلہ عوام کا ہے انہوں نے اقتدار کی کرسی کو شاید اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں ہم حکومت کو خرید لیتے ہیں چنانچہ سندھ اسمبلی خریدی گئی ہے بلوچستان اسمبلی خریدی گئی ہے اور مختلف صوبوں میں انہوں نے جو پیسہ انویسٹ کیا ہے پیسے کی بنیاد پر اگر ملک کی حکومت چلنی ہے اور اسمبلی خرید نی ہیں تو پھر ظاہر ہے کہ ہم تو فارغ ہیں۔ایک صحافی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ دیکھئے ابھی تک کسی گرینڈ الائنس کی باضابطہ تجویز نہیں ہے۔رات کو بھی ہمارے ایک دوست نے کھانے پر سب کو بلایا۔ ملاقات ہوئی سب کے ساتھ بڑی اچھی ملاقات رہی۔ ملاقاتیں ہونی چاہیے اور اس میں مذاکرہ ہوتا ہے اس میں ڈیبیٹس ہوتی ہیں حالات کو سمجھا جاتا ہے اور یہ ہمیں اندازہ لگانا ضروری ہے کہ ہم آئین و قانون کی حدود میں رہتے ہوئے اپنا حق اظہار رائے استعمال کریں اور اس وقت نوجوان نسل میں بہت زیادہ شدت آرہی ہے اور ملک کے اندر ایک نظریہ تو نہیں ہے بہت سے لوگ اپنے نظریوں کے حامل ہیں۔ کچھ لوگ ویسے ہی اسمبلیوں سے مایوس ہیں ایک زمانہ ہو گیا کہ مایوس ہیں مزید ان کو اسمبلیوں اور جمہوریت سے مایوس کیا جا رہا ہے۔ ایک طبقہ جمہوریت کو بالکل کفر سمجھتا ہے ہم نے اس ماحول میں جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہم نے آئین اور قانون کی روشنی میں جمہوریت کی تشریح کی اور لوگوں کو اس کی طرف آمادہ کیا۔ اس ساری قربانیوں کے باوجود کون ہے جو ہمارے اس حق پہ ڈاکہ ڈالتا ہے؟۔ ہم کوئی ڈاکہ تسلیم نہیں کرتے ہم ڈاکہ ڈالنے والے کو مجرم سمجھتے ہیں لاکھ دفعہ وہ اسٹیبلشمنٹ ہو، لاکھ دفعہ وہ فوج ہو، لاکھ دفعہ وہ مسلح قوت ہو لیکن جبر کو جبر کہا جائے گا اسے کبھی عدل تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ صحافی کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں بڑی وضاحت سے عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کو اور مسلم لیگ ن کو تقریبا وہی مینڈیٹ ملا ہے جو2018میں ملا تھا۔ پھر اس وقت دھاندلی کیوں تھی اور آج دھاندلی کیوں نہیں؟۔PTIکو وہی تقریبا ً مینڈیٹ ملا ہے جو2018میں ملا تھا اس وقت دھاندلی نہ تھی آج دھاندلی کیوں ہے؟۔ دونوں سے سوال ہے لیکن جمعیت علماء اپنے اصولی موقف پہ قائم ہے دھاندلی18میں ہوئی ہے تب بھی دھاندلی ہے اور2024میں ہوئی ہے تب بھی دھاندلی ہے۔ جہاں تک پارٹیوں کا تعلق ہے۔ ضرور سب دوست تشریف لائے ہیں انکے اکابرین تشریف لائے ہم نے ان کو احترام دیا ہے احترام کا رشتہ تو پہلے بھی تھا آئندہ بھی رہے گا اورPTIکے و فود بھی آئے ہیں ایک سے زیادہ مرتبہ وہ تشریف لائے ہیں ہم نے ان کو بھی احترام دیا، عزت دی ہے اور سیاست میں آپ جانتے ہیں کہ ہم نے کبھی بھی تلخی کو فروغ نہیں دیا تعصبات کو فروغ نہیں دیا گالم گلوچ کو فروغ نہیں دیا۔ مؤقف لیا ہے اتفاق رائے بھی کیا ،اختلاف رائے بھی کیا، اعتدال کیساتھ اور دلیل کیساتھ کیا ۔ لیکن میں آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ اب تک ہم اپنے مؤقف پہ قائم ہیں، پارلیمنٹ میں جائیں گے احتجاجی اور تحفظات کے طور پر ہم جائیں گے کوئی ووٹ ہم نے استعمال نہیں کرنا اور انشااللہ العزیز ہماری جو دوست جماعتیں ہیں جو ہمارے پاس تشریف لائے بار بار لائے انشااللہ اب وہ اصرار نہیں کریں گے ہم نے اپنا مؤقف ان کو تقریباً منوا لیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے ایک اور بیان میں کہا ہے کہ
جمعیت والو! میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں ہم نے10،12سال تک عمران خان کیساتھ اور پی ٹی ائی کے ساتھ ایک لڑائی لڑی ۔ہم نے جو سوالات اٹھائے اور یہ کہ یہ آپ کا ایجنڈا ہے اور اس ایجنڈے کی مزاحمت کریں گے ہم اور ہم نے کی اگر اس کا ایجنڈا مکمل نہیں ہو۔ ابھی آپ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ دیکھا۔یہ ریاست کے اندر باہر کے ایجنڈے اس طرح چلائے جاتے ہیں کہ پھر ادارے استعمال ہوتے ہیں اب ایک کیس ہے آپ کے پاس اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ جی2019کا کیس ہے اور2021میں ترمیم ہوئی ہے اور اس وقت یہ قانون نہیں تھا بھلا اب ضمانت پر رہا کردیں بھلا آپ اس کو چھوڑ دیں۔ نیچے جو مندرجات آپ نے تحریر فرمائی ہیں اور اپنا فلسفہ دین آپ نے اس کے اندر سمو دیا ہے ہماری بحث اس سے ہے اور جج صاحب ناراض نہ ہو آپ نے جو کچھ اس میں کہا ہے وہ بدنیتی پر مبنی ہے۔ آپ کون ہوتے ہیں کہ قران کی آیتوں کی غلط تشریح کرتے ہیں۔ اس کی غلط تدبیر کرتے ہیں۔ غلط جگہ پر آپ اس کو بطور دلیل کے پیش کرتے ہیں۔ تو پھر آپ کسی خاص ایسے نظریے کے تابع شخص ہیں کہ ان کو پھر ہم جانتے ہیں پاکستان میں ہمیشہ ایک طبقہ ایسا رہا ہے جنہوں نے دین کا علم سند کی بنیاد پر حاصل نہیں کیا صرف مطالعوں سے انہوں نے دین کو حاصل کیا ہے۔ اور پھر ڈیوٹی لی ہے اس نے کہ میں دین کی ایسی جدید اور نئی تعبیرات کروں گا ایسی تعبیرات جو امت کیلئے قابل قبول ہوں یا نہ ہو لیکن مغرب کے لیے قابل قبول ہوں یہ مغرب کے لیے قابل قبول تعبیرات یہ کون لوگ ہیں؟۔ کون کرتے ہیں یہ؟۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے فیصلے وہ انہی تعبیرات کی پیروی ہے۔

(نوٹ: اس پوسٹ کے بعد عنوان ”مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے” کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

شہباز شریف کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ محترم آصف زرداری سے ملاقات کریں۔

شہباز شریف کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ محترم آصف زرداری سے ملاقات کریں۔
بہت اچھا ہوتا بہت خوشی کی بات ہوتی کہ ہمیں پورا مینڈیٹ ملتا اور ہم اکثریت پارٹی بنتے اور گورنمنٹ بناتے۔ ایسا بھی ہوتا تو باقی اپنے اتحادی پارٹیوں کو بھی دعوت دیتے کہ آپ بھی حکومت میں ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں۔ اور آپ ہمارے ساتھ چلیں لیکن آج ہمارے پاس اتنی میجارٹی نہیں کہ ہم اپنے طور پر حکومت بناسکیں اسلئے ہم اپنی اتحادی پارٹیوں کے ساتھ جو کہ اس سلیکشن کے اندر کامیاب ہوئی ہیں ہم ضرور بہ ضرور ان کو دعوت دیں گے کہ وہ بھی ہمارے ساتھ شراکت کریں ہم ملکر حکومت بنائیں۔ اور ملکر پاکستان کو مشکلات سے نکالیں۔ یہ جو میں آپ کو حل بتارہا ہوں ناں کیا آپ اس حل کو منظور کرتے ہیں؟۔ میں نے شہباز شریف صاحب کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ آج ہی محترم آصف زرداری سے ملاقات کریںمحترم مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کریں…

تبصرہ اجمل ملک ایڈیٹر نوشتہ دیوار

بشریٰ انصاری نے کہا ہے کہ باقی تو جو کچھ بھی الیکشن میں ہوتا ہے مگر دو ماؤں کو محروم کرکے اچھا نہیں ہوا ہے۔ ایک عثمان ڈار کی والدہ اور دوسری ڈاکٹر یاسمین راشد جو جیل میں تھیں اور کینسر کی مریض بھی ہیں۔ جب وہ مشکل حالات کے باوجود بھاری اکثریت سے جیت رہی تھیں تو ان کو جیتنے دیتے۔ نواز شریف کی اپنی سیٹ بھی یاسمین راشد کی وجہ سے خطرے میں تھی اسلئے خود وزیر اعظم بننے کو تیار نہ ہوا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

میری کوئی نیکی نماز روزہ زکوٰة قبول نہیں ہوئی کہا گیا جمعیت کا کارکن ہے اس کے بدلے تجھے جنت دی جاتی ہے۔ کشف

میری کوئی نیکی نماز روزہ زکوٰة قبول نہیں ہوئی کہا گیا جمعیت کا کارکن ہے اس کے بدلے تجھے جنت دی جاتی ہے۔ کشف

علامہ سید طیب الرحمن زیدی نے کہا:8فروری آ رہی ہے ایکMNAاعلان کر رہا ہے کہ اللہ کے بعد اگر کوئی ہستی ہے اس کا نام نواز شریف ہے۔ ساتھ دو گے؟۔ میں نےMNAکا ٹکٹ نہیں لیا،کہیں میرا ساتھ دینے لگ جاؤ ۔میرا یہ نظام ہی نہیں، یہ کافروں کا نظام ہے ہمارا یہ نظام نہیں ہے۔ علماء تاویل کر کے کہتے ہیں چلو اسکے ذریعے سے اسلام لاؤ۔ ٹھیک بڑے ہیں وہ جو چاہے کریں لیکن مجھے ایک سوال کا جواب دو یہ کفر ہے کہ نہیں کہ رب کے بعد اگر کوئی ہستی ہے تو نواز شریف؟۔ رب کے بعد اگر کوئی ہستی ہے تو وہ محمد رسول اللہ ،اسکے بعدکوئی ہستی ہے تو وہ ابوبکر صدیق اس کے بعد عمر فاروق اس کے بعد عثمان غنی اس کے بعد علی رضی اللہ تعالی عنہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔ان ظالموں کو رب کے بعد وہ نظر آ ئے میری اس سے کوئیMNAبننے کی لڑائی نہیں نہ میں اس کی فیکٹری میں منیجر ہوں ایم ڈی نہیں میں وہاں پر جی ایم نہیں ۔مجھے بڑا دکھ ہے اللہ! زمین تیری، کھاتے تیرا ، اور نبیوں سے بھی اوپر کر دیا ؟۔ اگر اسی پر رب پکڑ لے تو اللہ کی قسم نہ آ سمان رہے نہ زمین رہے۔ ہائے ہائے ایک اور اٹھا ہے میں نام نہیں لوں گا سیاسی جماعتوں کا، مجھے کیا ضرورت ہے نون ہے کوئیTیا کوئیPیا کوئیCہے میری کیا ضرورت ہے جو بھی ہے جو بھی ہیں جہاں بھی ہیں میرا سوال یہ ہے کہ نبی کی نبوت پر ڈاکہ ڈالے گا اہل حدیث کا یہ فرض ہے سینہ تان کر کھڑا ہوگا انشااللہ ساتھ دو گے؟۔ انشااللہ ایک اور اٹھا وہ بھی مولوی ہے اور یہ بھی مولوی تھا داڑھی والا مولوی سے معنی داڑھی والا صوفی صاحب ایک اور کہنے لگا کہا ایک عالم فوت ہو گئے دوسرے نے اسکے قبر پر جا کر کشف سمجھتے ہو شیخ کشف مراقبہ ہائے ہائے مراقبہ اور مراقبہ کر کے اندر سے پوچھ رہا ہے ہاں جی کے بڑا؟۔کیا ہوا اندر والا کہہ رہا ہے میری کوئی نماز کوئی روزہ کوئی زکو ةکوئی نیکی میری قبول نہیں ہوئی پھر کہا بس ایک کاغذ پہ لکھا ہوا تھا تو جمعیت علماء اسلام کا کارکن ہے اس کے بدلے تجھے جنت دی جاتی ہے ۔ہائے ہائے اور میرے پیغمبر نے کہا تھا من قال لا الہ الا اللہ دخل الجنة۔

علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا بیان

چند اکابر علماء کے علاوہ بہت سوںنے شاید پڑھی اور سنی نہ ہو امام احمد بن حنبل روایت کرتے ہیں ابو ہریرہ و حیدہ راوی ہیں، حسن بصری اور ابن سیرین نے مرسلاً روایت کی ہے میری حدیث کی اولیاء کی شان میں کتاب ”روضة السالکین” میں نے ابواب جمع کیے اس میں ”احسن الثناء فی اثبات شفائ” جمع کی۔ حدیث کی کتابوں میں ہے کہ تین دن گزرے آقا علیہ السلام نماز پڑھانے کیلئے تشریف لاتے۔ فجر ظہر عصر مغرب عشاء واپس چلے جاتے صحابہ کی مجلس میں نہ بیٹھتے۔ تین دن صحابہ کو مجلس نہیں ملی تین دن کے بعد صحابہ کرام پریشان ہوئے پوچھا یا رسول اللہ تین دن سے نگاہیں دید کو ترس گئی ہیں آپ نماز پڑھا کے چپکے سے چلے جاتے رہے اور بیٹھ نہیں رہے کیا ماجرہ تھا؟آقا علیہ السلام نے فرمایا میرے رب نے مجھ سے ایک وعدہ کیا کہ میرے محبوب تجھ سے وعدہ کرتا ہوں کہ تیری امت میں70ہزار لوگ ایسے پیدا کر دوں گا جو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں جائیں گے۔ تو میں نے اللہ تعالی سے مانگا کہ یہ تھوڑا ہے زیادہ کر تو میں تین دن عرض کرتا رہا اور زیادہ کر اللہ نے پہلے دن زیادہ کر دیا فرمایا ان70ہزار آدمیوں میں ہر ہزار ایسا ہوگا کہ اپنے ساتھ70،70ہزار بغیر حساب و کتاب کو شفاعت کر کے لے جائے گا۔ سبحان اللہ سبحان اللہ جب یہ اللہ نے یہ وعدہ کر دیا اور عرض کیا مولا فزد تو یہ بھی تھوڑا ہے اور بڑھا یہ تو ہزار اگر70ہزار کو لے جائے تو میری امت کے ایک ولی کے حصے میں70آدمی آئیں گے ناں! تو یہ تھوڑا ہے اور کر تین دن میں لجاجت کرتا رہا التجا کرتا رہا میرا رب لاڈ میں میری التجا سنتا رہا تین دن گزرے آج وعدہ مکمل ہوا میرے رب نے کہا میرے محبوب جا ان میں سے ہر ایک کو یہ شان دیتا ہوں کہ قیامت کے دن خود تو جائے گا ہی ایک ولی ان میں سے ایسا ہوگا کہ بغیر حساب و کتاب کے70،70ہزار لوگوں کو جنت میں لے جائیگا۔ سبحان اللہ بغیر حساب و کتاب کے۔ وہ جو حساب و کتاب کے بعد شفاعت سے جائیں گے وہ لاکھوں کروڑوں الگ ہوں گے جو حساب و کتاب کے بعد جائیں گے جو دوزخ میں پھینک دئیے جانے کے بعد اولیاء کی شفاعت سے نکالے جائیں گے، جنت میں جائیں گے وہ لاکھوں کروڑوں پھر الگ ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں کہ حساب کتاب سے بھی پہلے بغیر حساب و کتاب کے ان میں سے ایک ایک ولی شان کا ہوگا حکم ہوگا70،70ہزار ترازو بعد میں لگے گی ،نامہ اعمال بعد میں تلے گا تو اپنے70ہزار لے کر جا۔ آقا علیہ السلام کو فرمایا کہ70ہزار اور دوسرے راوی کہتے ہیں کہ شاید فرمایاکہ7لاکھ صحیح مسلم کی صحیح حدیث ہے شاید فرمایا7لاکھ ایسے ہوں گے یہ جو سلاسل ہیں اولیاء کے بعض لوگوں کے فہم میں اولیاء کے سلاسل طریقت سمجھ نہیں آتے، ان کے خانوادے انکے سوا، انکے فیوضات ،ان کی کڑیاں سمجھ نہیں آتیں۔ میں بتاؤں کہ یہ کڑیاں اللہ نے اور اس کے محبوب مصطفی نے قائم کی اور بخاری و مسلم میں آئی ہیں یہ سلسلے آقا نے فرمایا صحیح مسلم کی حدیث ہے صحیح70ہزار یا7لاکھ لوگ ایسے ہوں گے انکے چہرے چوھدویں رات کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے کہ بغیر حساب و کتاب کے جنت میں جانے والے۔ انہیں حکم ہوگا اپنے متوسلین کو جنت میں لے جا آقا علیہ السلام نے فرمایا مسلم شریف میں حدیث ہے کہ پہلا شخص جو ولی کامل ہوگا جو امام ولایت ہوگا جو امام سلسلہ ہوگا جو سربراہ ہوگا پہلا شخص آقا نے فرمایا جنت کے دروازے پر کھڑا رہے گا جنت میں نہیں جائے گا جب تک وہ70ہزاریا7لاکھ جو جو ادب جس کو ایڈوکیشن ہوگی آخری آدمی جب تک اس سے محبت کرنے والے چاہنے کا حقدار جب تک آخری جنت میں داخل نہ ہو۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پہاڑوں سے لاشیں آتی ہیں تو لواحقین کو انتہائی اذیت ہوتی ہے

پہاڑوں سے لاشیں آتی ہیں تو لواحقین کو انتہائی اذیت ہوتی ہے

جب ہم نے ان کیلئے آواز نہیں اٹھائی تو آج ہمارا مینڈیٹ چوری ہوا ، کل ہمارا نظام اور ہمارا آئین چوری ہوگا اسلئے سب کو فیصلہ کرنا ہوگا
بھٹو، عمران خان اور نواز شریف کے جیالے کم از کم اکھٹے ہوتے کبھی ایک کو پھانسی دی کبھی ایک اذیت میں اور کبھی دوسرا اذیت میں ہے

ANPکے سینیٹر عمر فاروق کا سینیٹ میں خطاب: آج تمام دوستوں کی باتیں سن کر جو جیتے ہیں جو ہارے ہیں سب مایوس کن نظر آرہا ہے لیکن اصل بات آج بھی کوئی نہیں کررہا ہے۔ ہم اپنے مینڈیٹ کی بات کر رہے ہیں آج چار چار مہینے ہم پہ جو گزری ہے اس کی بات کر رہے ہیں۔ یہ نہیں کہہ رہا کوئی کہ یہ کر کون رہا ہے؟۔ یہ ہوا کیسے؟۔تو ان چیزوں کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہیے کہ آج ہمارا نظام کس کے ہاتھوں میں ہے؟۔ ایک پریزائڈنگ افسر یا کمشنر ہمارے ساتھ یہ کر رہا ہے؟۔ ہم تو آج اس پہ بحث کرنا چاہ رہے تھے کہ سینٹ میں بیٹھ کے ہم اس پہ بات کریں کہ ہم نے اپنا تمام نظام، تمام جمہوری ادارے، سینٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کسی اور کے ہاتھوں میں دے دیے ہیں۔ یہ کسی اور کے رحم و کرم پہ چل رہے ہیں۔ اور اسکے خلاف جب تک ہم سیاسی پارٹیاں آپس میں ون ایجنڈا کے تحت بات نہیں کریں گے اس کو آپ کیسے آزاد کرو گے؟۔ ہم بات کر رہے ہیں مینڈیٹ کی تو یہ کس نے چرایا ہے ؟۔ آپ کو90،93دیے یا کسی کو ایک بھی نہیں دیا تویہ کس نے کیا ؟۔ یہ کسی سیاسی پارٹی نے تو نہیں کیا۔ پہلے دن سے یہی طریقہ کار چل رہا ہے کہ ہماری جو بڑی پارٹیاں ہیں جو وزیراعظم بننے کے خواب دیکھتے اور خواہش رکھتے ہیں ان کو کبھی یہی ادارے ملک بدر کر دیتے ہیں لیکن بعد میں وہ ان کی گود میں بیٹھ جاتے ہیں اقتدار کیلئے۔ ان کی بڑی لیڈرشپ کو پھانسی دی جاتی ہے لیکن آج وہ انکے رحم و کرم پہ اپنی سیاست کر رہے ہوتے ہیں۔ آج جو عمران خان کیساتھ کر رہے ہیں کیا عمران خان سے ان کا تعلق نہیں تھا؟۔ پھر بھی ہم سبق نہیں سیکھ رہے ہمیں مسئلہ اس چیز سے ہے۔ آج تو کم سے کم بھٹو، عمران خان، نواز شریف کے جو جیالے ہیں یہ تو کم سے کم ایک ساتھ بیٹھیں کہ ہمارے ساتھ کیا کس نے ہے؟۔ ہم ایک ایجنڈا پہ کیوں نہیں اکھٹے ہو سکتے کہ ہم اس سے جان چھڑائیں۔ ہم اپنی فارن پالیسی ان سے چھڑائیں۔ کس آئین میں یہ اختیار ملا ہے کہ کسی فوجی افسر کے پاس سیاستدان جائیگا پیسے جمع کرے گا تو اس کو سیٹ ملے گی؟۔ یہ کس نظام کی طرف ہم اپنے بچوں کو لے جا رہے ہیں۔ کل ہماری جگہ پہ ہماری آنے والی نسلیں اس سینٹ میں آئیں گی تو کس حساب سے آئیں گی؟۔ ہر کسی کے پاس اربوں روپے ہوں گے تو وہ آئیگا؟۔ ایک سیاسی کارکن تو یہاں نہیں آ سکتا نہ آپ کا کوئی سیاسی کارکن پاکستان میںMNAبن سکتا ہے نہ آپ کا کوئی سیاسی کارکنMPAبن سکتا ہے، نہ نمائندہ نہ سینٹر بن سکتا ہے جناب چیئرمین صاحب۔ آج آپ کا نظام ایسی نہج پہ پہنچا ہے اگر اس کو آج بھی آپ لوگوں نے سیریس کور نہیں کیا آج بھی آپ نے اپنی آنے والی نسلوں کیلئے اس کو ٹھیک نہیں کیا تو آپ یقین مانیں کہ پاکستان ایک ایسے راستے پہ جا رہا ہے جو ختم ہونے والا راستہ ہے۔ یہاں پہ ہمارے سینیٹر صاحب نے بات کی کہ تین چار مہینے میں کیا گزرا۔(ایک سینیٹر نے اپنی آپ بیتی بیان کی وہ زندہ لاش ہے۔اس کو بہت تشدد کا نشانہ بنایا گیا ) میں اس ہاؤس سے پوچھتا ہوںکہ یہاں پہ مسنگ پرسنز کی جو ہماری بچیاں آئیں۔ پانچ پانچ چھ چھ سال سے ان کا بیٹا یا شوہر یا والد مسنگ ہے ۔ دکھ اس بات پرہے کہ آپ سوچیں کہ ان کو کتنی تکلیف ہوگی کہ ڈیلی بیسز پہ ان کو فون آتا ہے کہ کوئی لاش کسی پہاڑ سے ملی ہے تو جتنے لوگوں کے ورثہ کو مسنگ کیا گیا ہوتا ہے وہ سارے ہسپتال پہنچ جاتے ہیں لائن میں کھڑے رہتے ہیں تین تین چار چار گھنٹے لائنوں میں دو دو دن اسکے انتظار میں کہ میرا بیٹا تو نہ ہوگا، میرا والد تو نہ ہوگا۔جب سے پاکستان بنا ہے اتنی اذیت سے ہمیں اور بلوچستان کو گزارا جارہا ہے ۔اس کیلئے کسی نے بات کی؟۔مسنگ پرسنز پہ آنکھیں بند کیں تو آج آپ کے مینڈیٹس مسنگ ہوئے کل باقی چیزیں مسنگ ہوں گی۔کل آپ کا نظام آپ کا آئین مسنگ ہوگا۔ ہمارے بڑے باچاخان بابا مخالفت کرتے تھے اس پاکستان کی وہ اس پاکستان کی مخالفت نہیں کرتے تھے کہ آپ پاکستان مت بنائیں ۔یہ والا پاکستان مت بنائیں اس کا یہ مؤقف تھا کہ یہ آج جو یہ قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر ہم نے لگائی ہے کیا آج یہ اسی قائد اعظم محمد علی جناح کا نظام ہے؟۔ آج پاکستان اس نظام سے چل رہا ہے؟۔ جس مقصد کے لیے انہوں نے بنایا تھا اس مقصد کے لیے چل رہا ہے؟۔آج آپ کےAPSکے جو بچوں کے قاتل ہیں وہGHQسے چھڑائے گئے ہیں۔ آپ کا سارا نظام آج یہی فوجی نظام چلا رہے ہیں۔ آج ہم کیا کر رہے ہیں جناب چیئرمین صاحب؟۔ ایک طرف ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور ایک طرف اسکے خلاف ہم کھڑے نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ آپ کھڑے ہوں گے تو آپ کے بچے کو مار دیا جائے گا۔ آپ نے اگر حق بات کی آپ سے سیٹ لی جائے گی۔ ہم سارے یہاں پہ مسلمان ایماندار لوگ ہیں ایک دن آپ نے پیدا ہونا ہے ایک دن مرنا ہے کم سے کم یہ جب آپ سوچیں گے اس حساب سے آپ آئیں گے تو آپ بات کر سکیں گے آج بھی ہم یہاں رو رہے ہیں کہ ہم الیکشن کمیشن کے خلاف جائیں گے۔ کیوں بھائی!انکے کیخلاف کیوں جائیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا ہے؟۔ جس ادارے نے یہ کروایا ہے اسکے خلاف کیوں نہیں جائیں گے؟۔ جن اداروں کی وائس نوٹ صوبوں میں نکلے ہیں پیسے لیتے ہوئے انکے خلاف کیوں نہیں جائیں گے؟۔ ہمیں تو انکے اوریجنل نام نہیں معلوم، جو فیک نام انہوں نے رکھے ہیں اور بولیاں لگائی ہوئی ہیں20،20کروڑ کی اسکے خلاف کیوں نہیں جائیں گے؟۔ مجھے تو سمجھ نہیں آرہا جناب چیئرمین صاحب کہ ہم کس نظام اور کس آئین کی طرف جا رہے ہیں؟۔ یہاں پارلیمنٹ لاجس سے باہر نکلتے ہوئے پارک میں کچھ بن رہا ہے تو میں نے پوچھا کیا بن رہا ہے کہتا ہے آئین۔ میں نے کہا کون سا آئین جو ہمارے ٹیبل پہ پڑا ہوتا ہے وہ یا جو اس ملک کے حقیقی جو چلا رہے ہیں وہ والا آئین لگائیں گے ؟۔ ایک آئین سلیکٹ کر لیں ہم وہیں پہ چلے جائیں گے لیکن ہمیں ایک آئین کی کتاب کچھ اور دکھاتے ہو اور پاکستان کسی اورطریقے سے چلا رہے ہو۔ ان چیزوں کے خلاف ہم سیاسی پارٹیوں کو اکٹھا ہونا پڑے گا اس نظام کو اگر آپ اس طرح نہیں بدلو گے تو آپ کا مینڈیٹ تو چھوڑیں آپ اپنے ساتھیوں کو پیدا نہیں کر سکیں گے جو بلوچستان کے ساتھ ہوا ہے وہ مسنگ ہر صوبے میں آپ کے پولیٹیکل لوگوں کے ساتھ ہوگا ۔ہمارا تو یہی مؤقف ہے اس پارلیمان میں ہمیں پارٹی کی حیثیت سے بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ کولیگز کی حیثیت سے یہاں پہ ہمیں ایک نظام لانا چاہیے۔ ہمیں ایسے بلز لانے چاہئیں کہ ہم ایک ساتھ ہوں اور اس پاکستان کو اب ریزولوشن کی ضرورت میرے خیال سے نہیں کہ آج ایک موشن پہ ہم بات کر رہے ہیں ریوولوشن کی ضرورت ہے ایک ریوولوشن جس پہ ہم تمام پارٹیاں مل کر اس کیلئے جدوجہد کریں اور اس پاکستان کو ان لوگوں سے آزاد کرائیں تو تب ہمارا پارلیمانی نظام بہتر ہوگا ۔

PTIکے رہنما عون عباس کی رونگٹے کھڑے کرواددینے والی روداد
سینیٹر عون عباس نے سینٹ میں کہا کہ مجھے لاہور ڈیفنس سے اٹھالیا گیا۔14دن میں جو بھی چلہ کاٹا واپسی پر ایک اسٹیٹمنٹ دے دی تھی کہ میں جنوبی پنجاب تحریک انصاف کی صدارت سے استعفیٰ دیتا ہوںاور9مئی کی مذمت کرتا ہوں اور مجھے آزاد کردیا گیا۔ آزاد تو ہوگیا لیکن ایک زندہ لاش ہوں ایک ایسی زندہ لاش جو نہ سوچ سکتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے نہ بول سکتا ہے۔ مجھے نفرت ہوتی جارہی ہے اس ایوان میں بیٹھ کر اس تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے جو مجھے اس چیز کا یقین دلاتی ہے کہ میں آزاد ہوں، میں آزاد نہیں ہوں۔ اگر مجھے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت یہ ریاست نہیں دے سکتی تو میرا یہاں جینے کا حق بھی نہیں بنتا۔ کون ہوتا ہے کہ جو مجھے ڈکٹیٹ کرے کہ میں کیا ہوں اور کیا سوچ سکتا ہوں؟۔ آپ کو اندازہ نہیںکہ پچھلے6،8مہینے کتنے کرب میں گزارے ہیں۔ سارے لوگ یہاں بیٹھ کر چائے پی رہے ہوتے تھے سینٹ کا سیشن میں دیکھ رہا ہوتا تھا جب میں گھر میں چھپا ہوتا تھا۔ یہ باتیں کرنا آسان ہے آج آپ رگنگ کی باتیں کررہے ہیں جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے مجھے آج تک ایک پلیٹ فارم نہیں دیا گیا۔ افسوس ہوتا ہے کہ یہاں بیٹھ کر سارے باتیں کررہے ہیں رگنگ پر لیکن ان بیچارے ورکروں کے ساتھ ہمارے دوستوں اور پی ٹی آئی کے لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے آج تک کسی نے اس پر بات نہیں کی۔ یقین جانیں اگر میں ایک روداد سنا دوں تو آپ پریشان ہوجائیں گے۔ ان4مہینوں میں جب چھپا ہوا تھا میرا گھر گرادیا گیا ۔ میری فیکٹری میرے کاروبار بند کردئیے گئے۔ ایک چھوٹا سا زمیندار ہوں۔ آموں کے باغ پر جو باغ سنبھالتے ہیں ان کو اٹھاکر لے گئے باغ بھی برباد ہوگئے سر۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مغربی جمہوری نظام مکمل طور پر ناکام

مغربی جمہوری نظام مکمل طور پر ناکام
وطن عزیز پاکستان میں76برس سے جمہوریت کے نام پر ایک ایسا فرسودہ نظام رائج ہے جس میں نام نہاد عوامی مینڈیٹ کے نام پر چند خاندان چہرے بدل بدل کر عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے اقتدار کے ایوانوں میں مسلط ہیں۔ ایسا نظام جس میں ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے والے سیاست دان چند ذاتی سیاسی فوائد کیلئے ایک دوسرے کو گلے لگانے لگتے ہیں اس نظام میں سیاستدانوں کے نزدیک سیاست عوام کی خدمت نہیں بلکہ انکے منہ سے نوالہ چھین لینے کا نام ہے نظریہ ضرورت ان کا نظریہ کرپشن اور بے ایمانی ان کا ایمان اور عوام کو بے وقوف بنانا ان کی عقل و دانش کا معیار ہے ان کی عدالت میں ظلم و نا انصافی کا نام انصاف رکھ دیا گیا ہے۔ عوام کو مہنگائی و بے روزگاری جیسے مسائل میں الجھائے رکھنا ان کا مشغلہ ہے۔ تعصبات کو ہوا دے کر عوام کو تقسیم در تقسیم کرنے میں ان کے سیاسی مفادات کا راز پوشیدہ ہے یہ ابن الوقت سیاستدان نظریہ پاکستان یعنی اللہ کی دھرتی پر اللہ کے نظام سے کبھی بھی وفادار نہیں ہو سکتے یہ ایک ایسے نظام کا حصہ ہیں جس کے تحت چند افراد کے ہاتھ میں تمام وسائل دے کر عوام کو محکوم و مجبور بنا دیا جاتا ہے اب وہ وقت آگیا ہے کہ وطن عزیز کے باشعور عوام اپنا فرض پہچان کر اس فرسودہ مغربی جمہوری نظام اور اسکے پروردہ سیاستدانوں کو ہمیشہ کیلئے گھر کا راستہ دکھا دیں ہمیں متحد ہو کر ایسی قیادت کو سامنے لانا ہوگا جو بہترین صلاحیت رکھنے کیساتھ ساتھ نہ صرف اسلامی طرز زندگی کا نمونہ ہو بلکہ اسلام کو نظام حکومت و سیاست کے طور پر نافذ کر کے پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے کیلئے عملی اقدامات کرے۔

ازایڈیٹرنوشتۂ دیواراجمل ملک

سوشل میڈیا پر یہ امانت کسی مخلص انسان کی ہوسکتی ہے مگر سعودی عرب، ایران اور افغانستان کے اسلامی ماڈل کے علاوہ ہمارے امیرالمؤمنین جنرل ضیاء الحق ، جنرل ایوب اورجنرل پرویر مشرف کے ماڈل بھی اہل پاکستان کو قبول نہیں۔ مغرب کی جمہوریت یہاں نہیں بلکہ شخصیات وخاندانوں کا قبضہ مافیا ہے۔ اگر اسلام کا معاشرتی ومعاشی نظام آگیا تو سیاست بدلے گی۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اور انہوں نے چال چلی اور اللہ نے چال چلی اور اللہ بہتر چال چلنے والا ہے۔ شہبازوزیراعظم بننے اور زرداری صدر مملکت بننے کا نتیجہ آخرکیا نکلے گا؟

ومکروا ومکراللہ واللہ خیر الماکرین
اور انہوں نے چال چلی اور اللہ نے چال چلی اور اللہ بہتر چال چلنے والا ہے۔ شہبازوزیراعظم بننے اور زرداری صدر مملکت بننے کا نتیجہ آخرکیا نکلے گا؟

واتقوا النار التی وقودھا الناس و الحجارة
اور اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں
پیپلزپارٹی نے اگرجمہوریت کی بقاء کیلئے فیصلہ کیا ہوتا کہ تحریک انصاف نے عمر ایوب کو وزیراعظم نامزد کیا ہے ہم پارلیمنٹ میں تیسری بڑی جماعت ہیں اسلئے شہبازشریف اور عمر ایوب کے درمیان وزیراعظم کیلئے بالکل غیرمشروط عمر ایوب کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں تواس کا سب سے زبردست نتیجہ یہ نکلتا کہ جمہوریت اور عوام کا بھلا ہوجاتا۔ لیکن پیپلزپارٹی شاید جمہوریت اور عوام سے زیادہ اپنے مفادات کے کھیل کو ترجیح دیتی ہے اور یہ سمجھ رہی ہے کہ میری لاٹری نکلی ہے۔ پنجاب کی دونوں بڑی پارٹیاں تحریک انصاف اور ن لیگ کے درمیان کھل کر کھیل کھیلنے کا موقع ملا ہے۔ جو اسٹیبلیشمنٹ اور مسلم لیگ ن کل تک پیپلزپارٹی کی بساط سندھ میں بھی لپیٹنے کے چکر میں تھی آج وہ زرداری کو صدر مملکت بنانے پر بھی مجبور ہیں جو انکے دل و دماغ میں پھوڑا بن کر نکلے گا۔ مرکزی حکومت کمزور گدھیڑے کی طرح ہاتھ کا کھلونا ہوگی جس سے سندھ حکومت کو تحفظ دینے کیساتھ ساتھ18ویںترمیم کی ان شقوں کو بچانے کا موقع ملے گا جس کو ن لیگ اور تحریک انصاف پرائے بچے کی طرح کھڈے لائن لگانا چاہیں تو لگام ہاتھ میں ہوگی۔ پھر جمعیت علماء اسلام،پختونخواہ ، بلوچستان اورسندھ کی پارٹیوں نے صدر زرداری کی سیاست کو سلام پیش کرنا ہے۔ تحریک انصاف شروع سے18ویں ترمیم کا خاتمہ چاہتی تھی لیکن اس کو موقع نہیں مل سکا۔ حالیہ دنوں میں اپنے نئے منشور کا اعلان بھی اسلئے کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دیدیا کہ
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
اپنی خدمات کسے پیش کریں کوئی جوہر قابل ہی نہیں
پیپلزپارٹی یہ سمجھ رہی ہے کہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں وہ گدھیڑیاں ہیں جو اپنی دم ہمیشہ اٹھا کر جیتے ہیں۔اسٹیبلیشمنٹ کے گدھے اور ان کے درمیان فاصلہ نہیں رکھا تو چھوٹے تینوں صوبوں کو بھی مرکز یت کی بھینٹ چڑھاکر پنجاب کیلئے تختہ مشق بنادینگے۔ بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ من پسند لوگوں کو منتخب کرتی ہے اورپختونخواہ میں تیسری بار تحریک انصاف کو لایا گیا جو صوبے کا فنڈز لگانے کے بجائے صحیح سلامت واپس کردیتی ہے اور پنجاب میں ہمیشہ اطاعت گزار طبقہ ہوتا ہے جو مرکز کو فنڈز واپس کردیتا ہے لیکن ایک سندھ ہے جو ایک پائی بھی مرکز کو واپس نہیں کرتا ۔ پیرپگاڑو اور علامہ راشد محمود سومرو کو پہلے یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ حامد میر کے پروگرام میں انصار عباسی نے بتایا تھا کہGHQنے مولانا کوپلاٹوں سے بہت نواز دیا اسلئے نواز لیگ بن گیا۔ حالانکہ انصار عباسی کے ذاتی گھر تک شہباز شریف نے کروڑوں کے روڈ کا خرچہ کیا تو حامد میروہ بھی بتادیتے!۔

تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن پر چیک ہوئے
بالفرض تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نےMQM، جمعیت علماء اسلام ، جماعت اسلامی، جمعیت علماء پاکستان ،تحریک لبیک، عوامی نیشنل پارٹی ، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور سندھیوں و بلوچوں کی قوم پرست پارٹیوں کے ساتھ قومی حکومت بنالی تو کیا پھر عوام آنے والی مہنگائی کا بوجھ برداشت کرسکیں گے؟ اور نہیں تو سیکورٹی فورسز، سول بیرو کریسی اور عدالتوں کے ساتھ مل کر ان کے بدمعاش کارکن عوام کو سنبھال سکیں گے؟۔ قرآن نے سودی نظام کو اللہ اور اسکے رسولۖ کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے۔ اسرائیل کی حکومت2.5%سود لیتی ہے جبکہ ہمارے ہاں اب25%سے زیادہ سود ہے ۔ کون عذاب کا مستحق ہے؟۔جب ہماری سیاسی قیادت اورعسکری قیادت میں اتنا بھی دم خم نہیں ہے کہ عوام بھوک سے مررہی ہے ، مہنگائی کا طوفان ہے۔ گیس دستیاب نہیں ہے تو ایسی صورتحال میں ایران سے اپنے معاہدے کے مطابق گیس لے سکیں؟ ۔ تیل بڑے پیمانے پر سمگل کرنے کے بجائے عوام کو زبردست ریلیف دے سکیں؟۔تو پھر اس سے زیادہ غلامی کیا ہوسکتی ہے؟۔
عمران خان نے اعلان کردیا کہ پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن اورMQMکے علاوہ ساری جماعتوں سے اتحاد ہوسکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اس کے بعد گرین سگنل دے دیا۔ تحریک انصاف کے وفد نے ملاقات کی اور دشمنی دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ یہی سیاست ہوتی ہے۔ اگر تحریک انصاف اعلان کردیتی کہ سب سے بات ہوسکتی ہے تو زیادہ بہتر بات تھی۔ اگر تحریک انصاف کہتی کہ ن لیگ اورMQMکے علاوہ سب سے بات ہوسکتی ہے تو پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمن سے مل کر حکومت بھی بنالیتے اور واضح دھاندلی کی نشستیں بھی پنجاب سے واپس لے سکتی تھی۔اپنی قیادت عمران خان اور کارکنوں کو جیلوں سے آزادی بھی دلاتی۔ کراچی میں بھی دھاندلی سے ہاری ہوئی سیٹوں کو واپس لینے کا موقع مل جاتا۔ سب سے بڑھ کر بات یہ کرسکتے تھے کہ فوج کو اپنی اصل پوزیشن پر واپس بھیج دیتے۔ پنجاب سے ن لیگ کا صفایا ہوجاتا تو سیاسی جماعتوں کی بالادستی یقینی ہوتی۔ صحافی حضرات بھی دلالی کا دھندہ چھوڑ دیتے۔ اب یہ تاثر باوثوق ذرائع سے پھیلایا جارہاہے کہ ن لیگ مرکز میں حکومت لینے کا ارادہ ترک کرچکی تھی لیکن ان سے کہا گیا کہ پھر پنجاب سے بھی بستر گول ہوگا۔ مریم نواز کی وزارت اعلیٰ نے مسلم لیگ ن کو زردای سے اتحاد کرنے پر مجبور کیا۔ سیاست حکمت کا نام ہے۔ اگر مریم نواز پنجاب اور مرکز میں عورت کے اسلامی حقوق کا ایجنڈہ اٹھالیتی ہے ۔ بشریٰ بی بی کے نکاح پر معاملہ واضح کردیتی ہے تو بڑا انقلاب آسکتا ہے

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ ریاست چھچھوری بھی ہوتی ہے۔ وسعت اللہ خان

مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ ریاست چھچھوری بھی ہوتی ہے۔ وسعت اللہ خان

1970الیکشن کے نتائج سے سلیکٹر نے یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ کتنی آزادی دینی ہے وسعت اللہ

سب سے پہلے یہ ڈسکلیمر دینا چاہتا ہوں نرا صحافی ہوں میرا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں اور9مئی کے واقعات کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ مظہر کے بارے میں عاصمہ اور ایک اور مقررہ نے کہا کہ انکی رپورٹنگ، اصول پسندی اوراس کی وجہ سے لفافے میں گولیاں بھر کے بھیجی گئیں۔ تو بھائی جب آپ لفافہ قبول نہیں کرو گے تو لفافے میں اور کیا آئے گا؟۔ یہ بھی کہا گیا کہ متوازن جرنلسٹ، غیر جانبدار جنرلسٹ ہیں میرے حساب سے جرنلسٹ کا متوازن اور غیر جانبدار ہونا یہ خوبی نہیں یہ عیب ہے۔ آپ کیسے متوازن ہو سکتے ہیں جب لوگ غیر متوازن ہوں۔ آپ کیسے غیر جانبدار ہو سکتے ہیں جب زیادتی ہو رہی ہو۔ آپ کو جانبدار ہونا پڑتا ہے اس کیلئے جس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ اسلئے اچھی بات یہ ہوگی کہ اگر آپ نہ متوازن ہوں نہ غیر جانبدار ہوں۔ غیر جانبدار ویسٹرن میڈیا ہے اگر غزہ ہو ورنہ وہ بھی غیر جانبدار نہیں ہوتا ہے اور پاکستان میں ایسے بہت سے ایشوز ہیں کہ میرے خیال میں وہاں صحافی کا غیر جانبدار ہونا جانبدار ہونے سے بھی زیادہ برا ہے ۔ اس میں نو گو ایریاز ہیں، انسانی حقوق کے بے شمار ایشوز ہیں، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ، اگر کوئی تعلق نہیں تو پھر ہمارا صحافت سے بھی کوئی تعلق نہیں سیدھی سی بات ہے ۔ سیاست ہمیشہ سے اس ملک میں100میٹر کی بجائے ایک ہرڈل دوڑ رہی ہے اور ہر دفعہ رکاوٹیں جو ہیں وہ بدل دی جاتی ہیں۔ ایبڈو لگا دیا جاتا ہے اس کے بعد ایمرجنسی لگا دی جاتی ہے اگر ایبڈو سے کام نہیں چل رہا ہے تو پہلے احتساب ہوگا پھر انتخاب ہوگا وہ چھلنی لگا دی جاتی ہے۔ اس سے کام نہ چلے تو پھر58-2Bآ جاتی ہے اس سے بھی کام نہ چلے تو62،63کے تحت جو سب سے کاذب آدمی ہے وہ میرے بارے میں فیصلہ کرتا ہے کہ میں صادق اور امین ہوں یا نہیں ۔ اس سے کام نہیں چلتا تو کہتے ہیں کہ جی ووٹر تو خیرجاہل ہیں لیکن کینڈیڈیٹ کو تو کم از کم جاہل نہیں ہونا چاہیے ۔ تو پھر ایسے ایسے گریجویٹ سامنے آتے ہیں2002میں کے بعد وہ شرط خود بخود کہیں غائب ہو جاتی ہے۔ اس سے کام نہیں چلتا تو نیب کی چھلنی میں چھن کے جاؤ گے تو ہم تمہارے ساتھ بات کریں گے اس سے کام نہیں چلتا ہے تو کہتے ہیں ٹھیک ہے آپ الیکشن میں حصہ لے لیں لیکن انتخابی نشان نہیں دیں گے۔ اس سے بھی اگر کام نہ چلے تو مجھے بتایا گیا ہے کہ بحیرہ عرب میں ایسی10،15شارکیں ہیں جو27تاریخ کو ٹھیک ساڑھے چار بجے انٹرنیٹ کی تار کاٹ دیتی ہیں۔
میرا جو بیک گرانڈ ہے وہ انٹرنیشنل ریلیشنز کا ہے مظہر جانتا ہے۔ میں نے جو ہسٹری پڑھی ہے سٹیٹس کی اس میںویلفیئر سٹیٹس پڑھی ہیں۔ فاشسٹ اسٹیٹ بھی ہوتی ہے، ہائبرڈ سٹیٹ بھی ہوتی ہے لیکن پہلی دفعہ مجھے یہ پتہ چل رہا ہے کہ چھچوری ریاست بھی ہو سکتی ہے جو چلمن سے لگی ہوئی ہے سامنے بھی نہیں آرہی ہے سیدھا سیدھا کہہ دو یار تو یہ کام نہیں کر سکتا اس میں کیا قباحت ہے ماضی میں آپ یہ کر چکے ہیں۔ اب آپ کو جو ہے نین تارہ بن کے گھونگٹ نکال کے وہی حرکتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ سیدھا سیدھا سامنے آئیں ہم نے پہلے بھی صبر کیا ہم آگے بھی صبر کر لیں گے۔ ہم میں کچھ اور خوبی ہو نہ ہو لیکن صبر کی خوبی تو بڑی مثالی ہے ہم نے ایک ایک چیز کو جو ہے ایک ایک تجربے کو برداشت کر لیا ہے ہم نے تو ایسے سیاست دان بھی برداشت کر لیے ہیں جن کے لیے ایک کی مصیبت دوسرے کے لیے سنہری موقع بن جاتی ہے اور وہ یہ سوچے بغیر کہ کل وہ بھی اس شکنجے میں آ جائیں گے وہ بقول فراز کے کہ
بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا گدا گرانے سخن کے ہجوم سامنے تھے
رول انکے چینج ہوتے ہیں پھرآخر میں مجبور دلہن بن کے وہ سائن کر دیتے ہیں جو کاغذ سامنے پڑا ہو۔ یہ جو جسے ہم کہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ یا عسکری قیادت یا ہائبرڈ سسٹم یا طالع آزما کچھ بھی کہہ لیں۔ یہ درست ہے کہ70کے الیکشن نسبتاً پہلی دفعہ ون مین ون ووٹ کا مزہ چکھ رہے تھے عوام بھی اور حکمران بھی تو دونوں کو نہیں پتہ تھا کہ کیا کرنا ہے تو انہوں نے بھول پن میں جو ان کے دل میں آیا کہ جی یہ اچھا ہے اس کو ووٹ دے دیا۔ جب گڑبڑ ہو گئی تو اس کا تو وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے تیر کمان سے نکل چکا تھا انہوں نے کہا آئندہ یہ نہیں ہونے دیں گے۔ ایوب خان بالکل درست تھا ان لوگوں کو ووٹ دینے کی بالکل تمیز نہیں ہے اسی لیے بیسک ڈیموکریسی کی لیبارٹری سے ان لوگوں کو گزارنے کی کوشش کی لیکن ان کو ککھ عقل نہیں آئی ۔ لہٰذا ہم ان کو فیصلہ کرنے دیں گے بیلٹ ڈالنے کی حد تک لیکن جو اصل فیصلہ ہے وہ ہم ہمیشہ شام کو پانچ بجے پولنگ کے خاتمے کے بعد کریں گے۔ تو یہ فارمولا موٹا موٹا سا طے ہو گیا اور انکو شاید کسی نے یہ مقولہ بھی بتا دیا ہو کہ کتنے ووٹ پڑے اس کی اہمیت نہیں ہوتی، کتنے گنے گئے اس کی اہمیت ہوتی ہے تو یہ کم و بیش آپ کو فارمولا۔ اس میں یہ ہے کہ کبھی91،93،97،2002،2008،2013،2018اور2024کبھی نمک تیز ہو جاتا ہے مرچ ہلکی کر دیتے ہیں کبھی مرچ اور نمک جو ہے تیز کرنا پڑتا ہے وہ حالات کے حساب سے جو ہے وہ دیکھ لیا جاتا ہے۔ تو اس دفعہ بھی یہی ہوگا اور ایک اور چیز جو سیکھی گئی تھی70کے الیکشن کے نتائج سے کہ اب کسی کو کھلا ہاتھ نہیں دینا ہے۔ بھٹو صاحب نے بہت تنگ کیا تھا انہیں شروع شروع میں تو اب جو ہے جو بھی بنے گا اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مقناطیس لگا دیے جائیں گے علاقائی پارٹیوں کی شکل میں چھوٹی قومی پارٹیوں کی شکل میں مذہبی تنظیموں کی شکل میں اور وہ مقناطیس جو ہیں وہ بیلنس آف پاور جو ہیں وہ قائم رکھیں گے۔ کسی نے کہا تھا کہ ہماری جو ہیں دو ایکسپورٹس ہیں ایک تو کپاس ہے اور دوسری ہے ہائی براڈولرجی تو اب دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے سہیل وڑائچ نے آپ کی کتاب میں جو لکھا ہے تبصرہ اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مظہر عباس کا سینہ رازوں سے بھرا ہوا ہے اب وقت آگیا ہے کہ وہ مرتضی بھٹو کے قتل، بے نظیر بھٹو سے ملاقاتوں اورMQMکی اندرونی کہانیوں اور لڑائیوں کا احوال بھی لکھیں۔ ابھی جب سہیل وڑائچ صاحب آئیں گے یہ دیکھیں میں نہیں کہہ رہا عوام تک بات پہنچ گئی ہے جو میں نے بغیر تبصرے کے آپ کو بتا دی تو سر ابھی انہیں کتابیں لکھنے دیں ۔ ایک زمانے میں جو ہے ایک لطیفہ بھی تھا بلکہ فاروق ستار صاحب کی مناسبت سے ہی وہ مشہور ہوا تھا اب چونکہ2015میں یہ اس لیے میں سنا سکتا ہوں وہ یہ تھا اچھا لطیفہ لطیفہ ہوتا ہے یعنی تردید مت کیجیے گا کہ یہ حقیقت تھی حقیقت نہیں تھی یہ لطیفہ ہے کہ جی فاروق ستار صاحب نے اعلان کیا ہے کہ وہ مسلم لیگ نون میں شامل ہو رہے ہیں ان کی نماز جنازہ کل سہ پہر ساڑھے چار بجے ادا کی جائے گی آئی ایم سوری یہ اس زمانے میں تھا تو یہاں جو چیزیں ہیں وہ اس طرح چلتی ہیں یہ جو آپ کو دیوانے نظر آتے ہیں بظاہر ہو سکتا ہے یہ دیوانے نہ ہوں ہو سکتا ہے آپ کو یہ دیوانے بنانے کے لیے دیوانے بنائے گئے ہوں۔ تو یہ ساری چیزیں جو ہیں یہ پیش نظر رہنی چاہئیں اور8فروری کوآپ بھرپور انداز میں ووٹ دیجئے اور9مئی کے واقعات کی مذمت کرتے رہئے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv