پوسٹ تلاش کریں

دیوبندی، بریلوی اور انسانی بنیادوں پر نئی پارٹی کی تشکیل کرنا ہوگی!

دیوبندی، بریلوی اور انسانی بنیادوں پر نئی پارٹی کی تشکیل کرنا ہوگی!

اسیرمالٹا شیخ الہند مولانا محمود الحسن،اسیرکالا پانی مولانا فضل الحق خیرآبادی دونوں حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے بڑے عقید ت مند تھے

سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا یوسف بنوری ، مولانا ابوالحسنات قادری ، مولانا عبدالستار نیازی اور خورشید وارثی سب اتحاد کے علمبردار تھے

آج امت ، پاکستان کے مسلمان اور دنیا بھر کے انسان بڑی مشکل کا سامنا کررہے ہیں اوراس کا واحد حل قرآن وسنت کی طرف رجوع ہے

ایسی سیاسی پارٹی کی ضرورت ہے جو اسلامی انسانی انقلاب برپا کردے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا لیکن کبھی کسی مذہبی سیاسی جماعت کوکچھ وجوہات کی بناپر اقتدار میں نہیں آنے دیا گیا۔ 1:مذہبی سیاسی پارٹیوں کا فرقہ وارانہ رنگ ہے ۔2: علماء کے تضادات ہیں۔
3:مسلکی اسلام کا انسانی حقوق سے تصادم ہے۔
4:مدارس کا نصاب علماء کو قانون سازی کے قابل نہیں بناتا۔
5:مذہبی و سیاسی علماء نے کبھی قرآن کی بنیاد پر قانون سازی کی زحمت نہیں کی۔
6 :فقہی مسالک کایہ رحجان تھاکہ قرآن سے احادیث متصادم ہیں۔
7:قرآن و سنت کی ہم آہنگی مدارس میں بھی متعارف نہیں ہوئی ۔
8: علاقائی رسوم ورواج کے آگے قرآن وسنت کی معاشرتی طور پر ملاؤں نے اہمیت اجاگر نہیں کی۔
9: اسلام عالمگیر دین کو علاقائی رسوم ورواج کے پیمانے میں تولااور ناپا گیا۔ 10:اسلامی معاشی نظام کی جگہ سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کے درمیان لٹکنا تھا۔
جمعیت علماء اسلام نے اشتراکیت کو سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں اسلام کے قریب قرار دیا تو1970میں کفر کا فتویٰ لگ گیا۔ فتویٰ لگانے میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے شاگرد مولانا رسول خان ہزاروی، دارالعلوم کراچی کے مفتی محمد شفیع اور صاحبزادگان مفتی تقی و مفتی رفیع عثمانی، دارالعلوم کراچی کے اساتذہ ومنشی صاحبان نے مفتی کی حیثیت سے دستخط کئے۔ جامعة الرشید کے بانی مفتی رشیداحمد لدھیانوی اور مولانا سلیم اللہ خان بھی دارالعلوم کراچی کے مفتی اور استاذ تھے۔ مشرقی و مغربی پاکستان اورہند وستان کے بہت معروف مدارس کے علماء ومفتیان نے بھی اس پر دستخط کئے تھے۔ فتوے کا نشانہ بننے والے مولانا مفتی محمود، مولانا عبداللہ درخواستی، مولانا غلام غوث ہزاروی ، مولانا عبیداللہ انور ابن مولانا احمد علی لاہوری اور اس وقت کی ترقی پسند اشتراکیت کے حامی جمعیت علماء اسلام تھی اور فتویٰ لگانے والے علامہ شبیراحمد عثمانی، مولانا احتشام الحق تھانوی، مفتی محمد شفیع، مولانا رسول خانکی اصلی جمعیت علماء اسلام تھی۔مولانا احمد علی لاہوری، مولانا غلام غوث ہزاروی اور مولانا مفتی محمود کی ترقی پسند اشتراکیت کی حامی جمعیت علماء اسلام نے اس نام پر قبضہ کرلیا اور یہ لوگ پہلے جمعیت علماء اسلام کے مخالف جمعیت علماء ہند سے تعلق رکھتے تھے۔
مولانا غلام غوث ہزاروی جمعیت علماء ہند کے وارث اور اشتراکی جمعیت علماء اسلام کے امیر تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی، جماعت اسلامی، مسلم لیگ ، تحریک استقلال اور جمعیت علماء پاکستان نے قومی اتحاد کے9ستاروں کو تحریک نظام مصطفی ۖ کا نام دیکر مفتی محمودکی قیادت میں الیکشن لڑا۔ مولانا ہزاروی نے بھٹو کاساتھ دیا۔جماعت اسلامی کے جنرل ضیاء کی چھتری تلے پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں تھا تو مولانا فضل الرحمن اور قوم پرستوں کو احسا س ہوا کہ غلط استعمال ہوگئے اورپھرMRDمیں پیپلزپارٹی سے مل کر تحریک چلائی۔ جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام درخواستی، سمیع الحق، اجمل قادری اور سپاہ صحابہ نے مسلم لیگ سے مل کر اسلامی جمہوری اتحاد کے صدر غلام مصطفی جتوئی کی قیادت میں تحریک چلائی ۔ جس مولانا فضل الرحمن پر پیپلزپارٹی کیساتھ اتحاد کرنے پر ہی معروف مدارس کے علماء ومفتیان نے متفقہ کے عنوان سے کفر کا فتویٰ لگایا گیا تھا تو وہ بے شرم اسی پیپلزپارٹی کے منشور کیساتھ غلام مصطفی جتوئی اور غلام مصطفی کھر کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد کا الیکشن سائیکل کے نشان پر لڑرہے تھے۔
پاکستان بن رہاتھا تو مسلم لیگ کے غنڈے مرزائیوں کو مسلمان کہتے تھے اور جمعیت علماء ہند کے مولانا حسین احمد مدنی ، کانگریس کے مولانا ابوالکلام آزاد اور احراری علماء سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، مولانا داؤد غزنویوغیرہ پر کفر کا فتویٰ لگاتے تھے اور جہاں موقع ملتا تھا تو ان کو پتھروں اور ڈنڈوں سے مارنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی کی اہلیہ تدفین کے موقع پر بھی مسلم لیگیوں کی توہین اورغیظ وغضب کا نشانہ بنی تھی۔جو مسلم لیگی پہلے ہندوستان میں سیاست کے نام پر جمعیت علماء ہند کی توہین کرتے تھے انہوں نے بعد میں اشتراکیت کا لبادہ اوڑھ کر ان علماء کو غیظ وغضب کا نشانہ بنایا تھا۔
برصغیر پاک وہند میں اشتراکیت بھی جعل سازی تھی، مسلم لیگ بھی جعلی تھی اور اسلام بھی جعلی تھا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی جاہلانہ سبق دیا تھا کہ
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ مؤمن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
کافر ہے تو تسخیر پہ کرتا ہے بھروسہ مؤمن ہے تو غلامی پہ بھی کرتا ہے گزارہ
واعدوا لھم مااستطعتم من قوة ومن رباط الخیل ترھبون بہ عدواللہ وعدوکم ”اور ان کیلئے تیاری کروجتنی تم سے ہوسکے ،قوت سے اور گھوڑوں کے اصطبل سے تاکہ تم اللہ کے اور اپنے دشمن پررعب ڈال سکو”۔
امریکہ نے نہرو کو دعوت دی تو لیاقت علی خان نے روس سے کہا کہ مجھے دعوت نامہ بھیجو، روس نے دعوت دی تو امریکہ نے بھی دعوت دی ۔ قائدملت نے روس کو چھوڑ کر امریکی دعوت قبول کی۔ امریکہ نے جہاز بھیجا۔ قائدملت نے14دن امریکہ میں مکمل کرنے کے بعد کہا کہ15دن مزید جہاز میں امریکہ کی سیر کروں۔ پھر15دن کینیڈا کیلئے مانگ لئے۔ پھر برطانیہ کی اجازت مانگ لی۔ ڈھائی ماہ بعد وطن واپس پہنچا تو ایوب خان کو چند دِنوں میںمیجر جنرل اور پھر لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی اور آرمی چیف لگادیا۔ہماری سیاسی قیادت، فوجی قیادت،مسلم لیگ اور مذہبی جماعتوں کے کرتوت کی لمبی فہرست پہلے کتابوں میں تھی اور اب ویڈیو ز کے ذریعے ان پڑھ لوگ بھی سمجھ سکتے تھے۔ مولانا فضل الرحمن اسلامی بینکاری کے نام پراپنے نظرئیے سے منحرف ہوگئے۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا عبدالستار خان نیازی، خورشید وارثی اور ڈاکٹر طاہرالقادری، ملی یکجہتی کونسل ”اتحادِ امت” کے فارمولے پیش کرتے رہے ہیں لیکن امت کوانتشار سے نہیں بچایا جاسکا اور آخر میں مولانا اسعد نے مولانا الیاس گھمن کے پاس چل کر اتحادکی کوشش کی تھی لیکن حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے فیصلہ ہفت مسئلہ سے بھی دیوبندی فرارکے راستے پر گامزن رہے ۔ اب ہم انشاء اللہ ایک جماعتی شکل میں تمام مسائل کے حل کا آغاز کریں گے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

امیر جمعیت علماء اسلام حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمةاللہ علیہ جنہوں نے ناموس رسالت کیلئے اپنے جوان بیٹے کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیاتھا۔

امیر جمعیت علماء اسلام حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمةاللہ علیہ جنہوں نے ناموس رسالت کیلئے اپنے جوان بیٹے کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیاتھا۔

__ آپکابیٹا آج شام تک کا مہمان ،علاج نہیں!__
ڈاکٹر کے یہ الفاظ سن کر مولانا روپڑے اپنے بیٹے کو گھر لے آئے ۔گھر میں کھڑے اپنے بیٹے کی تیمارداری کررہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ مولانا دروازے پر گئے ،باہر ایک بوڑھے شخص کو کھڑے پایا حضرت نے سلام و دعا کے بعد پوچھا بابا جی خیریت سے آئے ہو؟۔وہ کہنے لگا خیریت سے کہاں آیا ہوں ہمارے علاقہ میں ایک قادیانی مبلغ آیا ہوا ہے وہ لوگوں کو گمراہ کر رہاہے۔امت گمراہ ہو رہی ہے اور آپ گھر میں ہیں!۔ مولانا نے جیسے ہی یہ بات سنی آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔بیوی سے فرمایا بی بی میرا بیگ کہاں ہے؟۔ بیوی نے بیگ اٹھا کر دیا۔ آپ بیگ ہاتھ میں پکڑے گھر سے روانہ ہونے لگے، بیوی نے دامن پکڑ لیا اور کہنے لگی۔مولانا!آخری لمحات میں اپنے نوجوان بیٹے کو اس حالت میں چھوڑ کر جا رہے ہو؟۔ مولانا نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں اور رو کر روانہ ہونے لگے تو جاں بلب بیٹے نے کہا:ابا جان !میں آج کا مہمان ہوں چند لمحے تو انتظار کر لیجئے میری روح نکل رہی ہے، اس حال میں چھوڑ کر جا رہے ہو؟۔مولانا نے اپنے نوجوان بیٹے کو بوسہ دیا۔ رونے لگے اور فرمایا:اے بیٹے! بات یہ ہے کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی خاطر جا رہا ہوں، کل قیامت کے دن حوض کوثر پر ہماری تمہاری ملاقات ہو جائیگی۔یہ فرمایا اور گھر سے روانہ ہو گئے ۔ اڈے پر پہنچے ابھی بس میں بیٹھے ہی تھے کہ چند لوگ دوڑے آئے اور کہنے لگے۔مولانا!آپکا بیٹا فوت ہو چکا ہے اس کا جنازہ پڑھاتے جائیے! مولانا نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں اور رو کر فرمانے لگے۔جنازہ پڑھانا فرض کفایہ ہے اور امت محمدیہ کو گمراہی سے بچانا فرض عین ہے فرض عین کو چھوڑ کر فرض کفایہ کی طرف نہیں جاسکتا۔پھر وہاں سے روانہ ہو گئے۔ اس علاقے میں پہنچے اللہ تعالی نے کامیابی عطا کی وہ قادیانی مبلغ بھاگ گیا ۔ مولانا تین دن کے بعد گھر واپس پہنچے۔بیوی قدموں میں گر گئی اور رو کر کہنے لگی مولانا!جب آپ جا رہے تھے تو بیٹا آپ کی راہ تکتا رہا اور کہتا رہا۔ جب ابا جان واپس آئیں تو انھیں میرا سلام عرض کر دینا۔مولانا نے جب یہ سنا تو فوراً اپنے بیٹے کی قبر پر گئے اور دعا مانگنے لگے۔اے اللہ !ختم نبوت کے وسیلے سے میرے بیٹے کی قبر کو جنت کا باغ بنا دے۔مولانا دعا مانگ کر گھر واپس آئے تو رات بیٹے کو خواب میں دیکھا۔ بیٹے نے اپنے ابا سے ملاقات کی اور کہاکہ:رب محمد ۖ کی قسم! ختم نبوت کے وسیلے سے اللہ تعالی نے میری قبر کو جنت کا باغ بنا دیا ہے۔ ختم نبوت کے اس مجاہد کو دنیا حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحم اللہ کے نام سے جانتی ہے …..”۔
ایسے تھے ختم نبوت کے مجاہد عظیم جنہوں نے ناموس رسالت کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا۔۔۔اللہ جل شانہ ہم سب کو ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا کام کرنیکی توفیق عطا فرمائے۔!الٰہی آمین یا رب العالمین۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اسلام نے دنیا میں انسانیت کی بنیاد پر انقلاب برپا کردیا تھا اور آج ہمارا خطہ پاکستان سے پھر طرزنبوت کی خلافت کا خواہاں ہے۔ آئیے ہم مل کر آغاز کریں ۔

اسلام نے دنیا میں انسانیت کی بنیاد پر انقلاب برپا کردیا تھا اور آج ہمارا خطہ پاکستان سے پھر طرزنبوت کی خلافت کا خواہاں ہے۔ آئیے ہم مل کر آغاز کریں ۔

جب اسلام دنیا میں آیا تھا تو حجاز مقدس میں اس وقت کسی کی بھی کوئی ریاست اور حکومت نہیں تھی لیکن یہ بات تاریخ کی ایک حقیقت ہے کہ جب رسول اللہ ۖ پر اسلام کے نزول کی تکمیل ہوئی اور آپۖ اس دنیا سے عالم برزخ کی طرف انتقال فرماگئے تو خلافت راشدہ کے زمانے میں مشرق ومغرب کی سپر طاقتوں کو ہم مسلمانوں نے شکست دی تھی۔ اگرحضرت عثمان کی المناک شہادت کے بعد عشرہ مبشرہ کے صحابہ کرام حضرت طلحہ ، حضرت زبیر، ام المؤمنین حضرت عائشہکے بعد خوارج کی حضرت علی سے جنگیں نہ ہوتیں تو ممکن تھا کہ خلفاء راشدین مہدیین کے بعد خاندانی امارت اور بادشاہت میں سلطنت اسلامیہ نہ بدلتی۔ جو کچھ بھی ہوا ہے، کیا فرقے بن گئے، کیا احادیث اور تاریخ کے اختلافات ہیں اور کیا مسالک کے معاملات ہیں؟۔ یہ کسی سے بھی مخفی نہیں ہے۔ اب ہم نے آگے کرنا کیا ہے ؟۔ اس کیلئے سوچ وبچار کی سخت ضرورت ہے۔
پاکستان میں دیوبندی بریلوی حنفی مکتب کی اکثریت ہے جو بخاری کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ سمجھتے ہیںجس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے بعد صحیح ترین اور مستندترین کتاب صحیح البخاری ہے۔ نماز میں تمام مسالک مالکی، شافعی، حنبلی، جعفری ، وہابی اور اہل حدیث وغیرہ رکوع میں جاتے اور اٹھتے ہوئے رفع الیدین کرتے ہیں اور صحیح بخاری میں غالبًا17روایات ہیں۔ جن میں رفع الدین کا ثبوت ہے لیکن حنفی پھر بھی اپنے مسلک کو نہیں چھوڑتے۔ حالانکہ رفع الدین کا عقیدے ، اجتہاد اور تقلید سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک روش ہے جس پر ایکدوسرے کو دیکھ کر آباء اوجداد سے ہم چل رہے ہیں۔ کانیگرم جنوبی وزیرستان میں میرے ساتھ ایک استاذ محمدانور صاحب گئے تھے۔ جو اہلحدیث تھے اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے تھے۔ جب لوگوں نے مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے رفع الید ین کرتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ کیا یہ شیعہ ہیں؟۔ میں نے کہا کہ نہیں سنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پھر نماز میں ناچ کیوں رہاہے؟۔ میں نے بتایا کہ ” حرم کے امام بھی نماز میں اسی طرح رفع الیدین کرتے ہیں”۔ عربی مقولہ ہے کہ انسان جس چیز کو نہیں جانتا ہے اس کا دشمن ہوتا ہے۔
جب میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھتا تھا تو کچھ طلبہ نے بتایا کہ ”اہلحدیث کے مدرسے جامع ابی بکر سے کچھ طلبہ آتے ہیں اورہمارے پاس ان کی باتوں کا جواب نہیں ہوتا ۔ آپ ان سے بات کریں”۔ اہلحدیث کے طلبہ نے20رکعت تراویح پر بات کی تو میں نے عرض کیا کہ نبیۖ نے باجماعت تراویح کیلئے اس طرح اہتمام فرمایا؟، تو پھر آپ لوگ کیوں کرتے ہیں؟۔ ہم تو20تراویح باجماعت کو حضرت عمر کے دور کی سنت سمجھتے ہیں اور نبیۖ نے فرمایا : علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المہدیین” تم پر میری سنت اور ان خلفاء کی سنت لازم ہے جو صاحب رشد مہدی ہیں”۔آپ لوگ ایک طرف حضرت عمر کی سنت کو بدعت سمجھتے ہیں اور دوسری طرف تراویح باجماعت کی بدعت کو اپنائے ہوئے ہیں؟۔ جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور وہ اپنے اساتذہ سے جواب لینے کا کہہ کر گئے تھے مگر واپس نہیں کبھی نہیں آئے۔
حنفی اور اہل حدیث بھی اپنے اپنے ماحول کے مقلد ہیں اور اہل تشیع بھی۔ مذہبی معاملے کے علاوہ ہمارا سیاسی ماحول بھی تقلید اور وکالت کا ہے۔ جن جن سیاسی جماعتوں سے جس جس کی وابستگی ہے وہ اپنی جماعت کی وکالت کا وطیرہ اپنا فرض سمجھتا ہے جس کی وجہ سے عوام کی اکثریت مذہبی طبقات اور سیاسی جماعتوں سے بہت بدظن ہے۔ الیکشن میں بہت کم لوگ ووٹ ڈالنے جاتے ہیں اور ووٹ ڈالتے وقت یہ بھی نہیں سمجھتے ہیں کہ کس پارٹی کو ووٹ ڈالنے سے کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوگا؟۔ پاکستان کو آزادی کے بعد ورثہ میں ریاست ملی تھی۔ فوج، عدلیہ، سول بیوروکریسی کی انتظامیہ اور پارلیمنٹ لیکن ہم نے ان کل پرزوں سے ترقی کرنے کے بجائے تنزلی کا سفر جاری رکھا ہوا ہے۔ ایک ایسی سیاسی پارٹی کی ضرورت کا احساس ہوگیا ہے جو اپنی مقبولیت کیلئے نظام سے لڑنے کا نعرہ لگانے کے بجائے نظام کو بہت زبردست اللہ کی نعمت سمجھے اور دوسروں سے نفرت کے جذبات اجاگر کرکے اپنی مقبولیت کی بلڈنگ کھڑی کرنے کے بجائے مثبت انداز میں دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف اور خامیوں پر تنقید کرے اور اپنی اصلاحِ احوال پر بہت زیادہ زور دیکر رول ماڈل بن جائے۔

(نوٹ: مکمل آرٹیکل پڑھنے کیلئے ”اسلامی انسانی انقلاب کا منشور اور اس کے بنیادی نکات” پڑھیں۔ )

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اسلامی انسانی انقلاب کا منشور اور اسکے بنیادی نکات

اسلامی انسانی انقلاب کا منشور اور اسکے بنیادی نکات

__اتحاد، اتفاق اور وحدت ملت اسلامیہ__

جب یہ ہمارے پیش نظر ہو کہ ہم نے پاکستان میں فرقہ وارانہ اختلاف اور شدت کو کم کرنا ہے تو اس کیلئے افغانستان، ایران ،سعودی عرب اور ترکی کے

 

علاوہ تمام اسلامی ممالک کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا اور غیر مسلم ممالک ہندوستان، برطانیہ، فرانس اور امریکہ کے مسلمانوں کو بھی مدِ نظر رکھنا

 

ہوگا بلکہ تمام دنیا کی انسانیت بھی ہم نظ

 

ر انداز نہیں کرسکتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کی بنیاد پر تعصبات کو زندہ کریںگے تو مقابلے میں ہندو، سکھ، بدھ مت ، عیسائی، یہودی اور پارسی سب مذاہب کے جذبات کواپنے خلاف بھڑکائیںگے، اسلئے ضروری ہے کہ دوسروں کے باطل معبودوں کو بھی برا بھلا نہیں کہیںاور نہیںتو ہمارے معبودبرحق کو بھی برا بھلا کہا جائے گا۔
قرآن کریم اور رسول اللہ ۖ سے بڑھ کر ہمارے لئے کوئی رہبر اور رہنما نہیں ہوسکتا ہے۔ غزوہ بدر بڑا معرکہ تھا جس میں313مسلمانوں نے1000دشمنوں کو شکست دی۔ آج یونین کونسل، ضلع کونسل، تحصیل، ضلع، ڈویژن ، صوبہ اور پاکستان کی سطح پر313باکردار اور اچھے لوگوں کے ذریعے ہم نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ ایک کتاب ” اک عالم ہے ثناء خواں آپ کا” میں غیرمسلموں کے تأثرات دئیے گئے جس میں نبیۖ کو ایسی خراج عقیدت پیش کی گئی کہ اس تعریف سے ہی اس دنیا میںایک بہت بڑا انقلاب آسکتا ہے۔ جب افہام وتفہیم کی فضاء پیدا ہوجائے گی تو حق وباطل ، روشنی و اندھیرے ، علم وجہالت، بینا واندھے اور حق کیلئے کھڑے ہونے اور بیٹھے رہنے والے میں خود بخود فرق وامتیاز قائم ہوگا۔ اندھیرے کو لاٹھی سے نہیں روشنی سے شکست دینے کی سخت ضرورت ہے۔ غزوہ بدر ایک حادثہ تھا جو قدرت کی طرف سے اللہ نے مسلمانوں کے ارادے کے بغیر تشکیل دیا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کیلئے کہا جاتا ہے کہ ”آگ لینے گئے اور پیغمبری مل گئی”۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ارادہ قتل کرنے کا نہیں تھا لیکن اپنی مظلوم قوم کے نامراد شخص کی شکایت پر حزب مخالف کے ایک شخص کو مکا رسید کردیا جس سے وہ قتل ہوا۔ پھر اپنی قوم کے اس نامراد شخص کے شرارتی ہونے کا بھی ادراک ہوگیا اور مخالف قوم کے ایک اچھے شخص نے انتقام سے بچنے میں اطلاع کے ذریعے مدد بھی فراہم کردی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مذہب، قوم، کردار اور کسی بھی طرح سے شناخت کئے بغیر دو خواتین کو دیکھا کہ اپنے جانور کو پانی پلانے کیلئے انتظار میں کھڑی ہیں۔ آپ نے ان کی مدد کرتے ہوئے ان کے جانوروں کو پانی پلایا۔ پھر انہوں نے اپنے نبی والد کو خبر کردی اور انہوں نے ایک بیٹی سے شادی کے عوض کچھ سالوں تک خدمت لینے کا معاملہ طے کیا۔ یہ اس دور کی روایات تھیں اور ایک پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پناہ کی بھی ضرورت تھی۔ پہلے اللہ تعالیٰ نے فرعون کی گود میں پالا اور اس میں فرعون کی بیگم کا بنیادی کردار تھا۔ دوسری مرتبہ ایک پیغمبر کی بیٹی کا بنیادی کردار تھا۔ پھر اللہ نے فرعون کے سامنے کھڑا کیا تو اپنے بھائی ہارون کو بھی مددگار بنانے کا عرض کیا۔ جب اللہ نے فرعون سے بنی اسرائیل کو نجات دیدی تو بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے امتی سامری کے ورغلانے سے بچھڑے کو پوجنے لگے۔ پھر اس معاملہ پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کو سر کے بالوں اور داڑھی سے بھی پکڑ لیا تھا۔
آج ہماری حیثیت اور ہمارا کردار کچھ بھی نہیں ہے لیکن اگر حضرت موسیٰ و ہارون علیھماالسلام کی طرح ایک کے ہاتھ دوسرے کے سرکے بالوں اور داڑھی میں الجھے ہوئے ہیں اور ہندو قوم نے کسی نبی کی صحبت بھی نہیں پائی ہے اور وہ شرک میں مبتلاء ہے تو ہمیں اپنی حالت پر اور ہندوؤں پر غصہ کھانے کی جگہ رحم کرنا چاہیے۔ قرآن ہماری زبان میں نہیں ہے۔ جب شاہ ولی اللہ نے پہلی مرتبہ قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تو آپ کو اپنے عقیدتمندوں کے ہاتھوں برسوں روپوش رہنا پڑا،اسلئے کہ وہ اس جرم کی پاداش میں قتل کرنا چاہتے تھے۔یہ بھی یاد رہے کہ شاہ ولی اللہ سے پہلے حضرت ملاجیون کی کتاب ” نورالانوار” درس نظامی کا حصہ تھی۔ جس میں یہ پڑھایا جاتاہے کہ ”امام ابوحنیفہ کے نزدیک فارسی میں نماز پڑھنا صرف جائز نہیں بلکہ بہتر بھی ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ قرآن کی قرأت میں جو سجاوٹ ہے وہ اللہ اور بندے کے درمیان حجاب ہے”۔
حالانکہ امام ابوحنیفہ کے قول کی اس سے بہتر توجیہ یہ تھی کہ ” اللہ نے قرآن میں نشے کی حالت میں نماز کے قریب جانے سے منع کیا یہاں تک کہ تم سمجھو کہ جو کہہ رہے ہو۔ توپھر عربی میں نماز کو سمجھے بغیر پڑھنا نشے کی طرح نہ سمجھنے کے مترادف ہے”۔ ہماری مذہبی زباںعربی، سرکاری انگریزی اور قومی اردو ہے جس کی وجہ سے مہاجر،پشتون،بلوچ، پنجابی، سرائیکی اور سندھی عوام کی اکثریت سمجھ بوجھ ، علم وشعور اور معروضی حالات اور بین الاقوامی حقائق سے محروم ہیں ۔ تعصبات کی وکالت نے اندھیروں پر اندھیرے میں اضافہ کردیا ہے۔

__ قرآن وسنت کے منشورکے چیدہ نکات__


1: سچ اور سیدھی بات کرنا۔ اللہ نے فرمایا کہ ” اے ایمان ولو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کیساتھ ہوجاؤ”۔ اور فرمایا ”اور کہو سیدھی بات ،تمہارے اعمال کی اصلاح کی جائے گی اور تمہارے گناہ معاف کئے جائیں گے”۔ معاشرے میں کسی بات پر اچھائی اور برائی کا اجتماعی تجزیہ کیا جائے گا اور اتفاق رائے سے اس پر فیصلہ کرکے عوام میں تشہیر کی جائے گی ۔تاکہ شہر اور علاقہ سے لیکر ملکی اوربین الاقوامی سطح تک اچھا ماحول بن جائے۔
2: پاکستان کے آئین میں قرآن وسنت کی بالادستی واضح ہے لیکن معاشرے میں اس کی طرف توجہ نہیں دی گئی ہے۔ جب قرآن کے احکام کی ایسی تشریح وتفسیر کی جائے کہ سب کیلئے قابلِ قبول ہو تو اس کو پارلیمنٹ کے ذریعے قانون بھی بنایا جائے گا تاکہ ہمارے ریاستی ادارے اور عوام علم و عمل کا پاکستان کو گہوارہ بنائیں۔
3: سورة العصر میں ایمان و عمل صالح کے بعد تلقین حق کیساتھ خسارے سے بچنے کیلئے تلقین صبر کابھی ذکر ہے۔ حق گوئی کا علم بلند کرنے والوں کیلئے ضروری ہے کہ جھوٹے پروپیگنڈوں کا جواب جھوٹ سے نہیں دیں بلکہ صبر واستقامت کا مظاہرہ کریں۔ اگر غلطی کا احساس ہو تو ڈھیٹ نہ بنیں بلکہ حق کیلئے رجوع کریں۔
4: اپنا مؤقف احسن طریقے سے پیش کریں مگر کسی پر مسلط نہ ہوں۔ جبر وزبردستی، جہالت وہٹ دھرمی، تعصبات ورنجش اورغیرمعیاری اخلاق واقدار کے ماحول کو دلیل وبرہان سے شکست دیں۔ توقع رکھیں کہ یہ منشور ایسا ہو کہ جانی دشمن بھی گرم جوش دوست بن جائے۔ رسول اللہ ۖ کے قتل کیلئے تلوار لیکر آنے والے حضرت عمر نے اعلانیہ آذان دی اور ہجرت کے وقت دشمن سرداروں کے دروازوں پر دستک دی تھی۔
5: کسی اختلافی مسئلے کا حل پہلے قرآن میں تلاش کریں اسلئے کہ قرآن ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے اللہ نے نازل فرمایا ہے۔ جب امت مسلمہ کا قرآن کی طرف رجوع ہوجائے گا تو بہت سارے قدیم اور جدید مسائل کا حل مختلف فرقوں کے عوام وخواص کے سامنے آجائے گا اور اختلافات کی فضاء ختم ہونے میں دیر نہ لگے گی۔
6:احادیث اور سنت پر امت کے مختلف فرقوں میں اتفاق بھی ہے اور اختلاف بھی۔سب اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے نظرثانی کی گنجائش رکھیں۔ جب دوسرے کیلئے ڈھٹائی اور اپنے اندر لچک کی گنجائش رکھیں گے تو ماحول میں بہتری آئے گی۔ حضرت عبداللہ بن مبارک نے امام ابوحنیفہ سے رفع الیدین کے مسئلے پر اپنے اختلاف کی گنجائش رکھی لیکن دونوں کے احترام میں کوئی فرق نہیں آیا۔ حضرت عبداللہ بن مبارک نے سرحد پر جہاد کرنے کا فرض اداکیا ۔امام ابوحنیفہ نے جابر سلطانوں کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے کا افضل جہاد کیا ۔اور فضیل بن عیاض نے ڈکیتی سے توبہ کرکے اپنے نفس کے ساتھ جہاد اکبر سے اپنی اصلاح کا فرض ادا کیا۔
7:حضرت مولانا محمد الیاس نے تبلیغی جماعت سے امت مسلمہ میں ایک چلتا پھرتامدرسہ، خانقاہ اور دعوت واصلاح کا عظیم کام شروع کیا تھا جس نے پوری دنیا میں اسلام کے کلمۂ توحید ورسالت اور ختم نبوت کا پیغام پھیلانے میں سب سے زیادہ ممتاز خدمات انجام دیں۔ پھر اس جماعت پر دیوبندی مسلک کی چھاپ لگ گئی ۔ اب بریلوی مسلک نے دعوت اسلامی اور اہلحدیث نے بھی اس طرز پر اپنی اپنی جماعتیں بنائی ہیں اور اتفاق سے بریلوی مسلک کے بانی کا نام مولانا الیاس قادری اور اہلحدیث کا نام مولانا الیاس سلفی ہے۔ تبلیغی جماعت اپنے مرکز بستی نظام الدین اور رائے ونڈ میں امارت اور شوریٰ کے نام پر تقسیم ہوچکی ہے۔
8: کانیگرم اور ٹانک کے مشہور تبلیغی سیدعالم شاہ سے میں نے پوچھا کہ ”تبلیغی جماعت والے لاالہ الا اللہ کا یہ مفہوم بتاتے ہیں کہ ” اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین….اگر کوئی شخص بیوی کو تین طلاق دے تواس کیلئے ایک راستہ حلالہ کرنا ہے اور دوسرا بیوی کو چھوڑ دیناہے دونوں میں سے اللہ کے کس حکم میں کامیابی ہے”۔ اس نے جواب دیا کہ ”دونوں صورت میں کامیابی نہیں ہے”۔ میں نے کہا کہ” یہ اللہ کا حکم نہیں غلط فتویٰ ہے”۔
9: اللہ نے عورت کو قرآن میں خلع کا حق دیا لیکن مولوی یہ نہیں مانتا۔ عدالت بھی عورت کو خلع کا حق دیتی ہے لیکن مولوی نہیں مانتا۔ جب مولوی کی شریعت اللہ کے قرآن اور عدالت کے انسانی حقو ق کے منافی ہو تو پوری دنیا میں کیسے چل سکتی ہے؟۔ جو پاکستان میں بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ قرآن وسنت میں زنا بالرضا اور زنا بالجبر کے احکام میں فرق ہے لیکن مولوی اس کو نہیں مانتا اسلئے پاکستان میں بھی مولوی ناکام ہے۔……
10: اسلام فطری دین ہے لیکن مولوی نے غیرفطری مسائل ایجاد کررکھے ہیں۔ جب علماء ومفتیان اپنی غلطی مان جائیںگے تومعاشرے، حکومتی اور بین الاقوامی سطح پر اسلام کے آگے لوگ سرتسلیم خم کریںگے اور اس پر ہم نے بہت کام کیا ہے جس کی چند نظیریں ملاحظہ فرمائیں اور ہمارا ممبر بن کر ہماراساتھ دیں۔

__معاشرے سے حلالہ کی لعنت کا خاتمہ __
اللہ کے فضل سے ایک اسرائیل کو چھوڑ کر باقی دنیا کے سارے مشہور ممالک سے ہمارے پاس حلالہ سے جان چھڑانے کیلئے فتوے آئے ہیں اور ہمارے ان فتوؤں کی وجہ سے ان کی جان ایک عذاب ، لعنت اور شرمندگی کے بڑے طوفان سے چھوٹ گئی ہے۔ فتوے کی تائید ہفت روزہ اخبارِ جہاں کراچی جنگ گروپ میں40سال تک حلالہ کے فتوے جاری کرنے والے مفتی محمد حسام اللہ شریفی صاحب مدظلہ العالی نے کی جو شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے شاگرد مولانا رسول خان ہزاروی کے شاگرد اور مولانا احمد علی لاہوری کی طرف سے مجاز ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان شریعت بینچ اورپاکستان شریعت کورٹ کے مشیر ہیں۔
بریلوی مکتب کے حضرت مولانا مفتی خالد حسن مجددی مدظلہ العالی گجرانوالہ نے بھی بھرپور کھلم کھلا تائید سے نوازا ہے اور درپردہ معروف مدارس کی تائیدات بیشمار ہیں جن میںجامعہ دارالعلوم کراچی کے بعض مفتیان عظام بھی شامل ہیں۔ اب رائے عامہ ہموار ہوگی تو شف شف کرنے والے شفتالو بھی بول دیں گے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ چیئرمین قبلہ ایاز صاحب سے بھی تحریری تائید مل چکی ہے اور مثبت دو نشستیں بھی ہوچکی ہیں۔ اس سے قبل مولانا محمد خان شیرانی جب چیئرمین تھے تو ان سے بھی بھرپور انداز میں بات ہوئی تھی اور انہوں نے اپنے ہتھیار بھی ڈال دئیے تھے کہ مجھے اس موضوع پر مہارت حاصل نہیں ہے۔
قرآن کی سورہ بقرہ آیات222سے232تک میں عورت کے حقوق کی زبردست وضاحت ہے لیکن علماء ومفتیان نے عورت کے حقوق غصب کئے ہیں اور اسی وجہ سے ان کے تراجم اور تفاسیر میں بے بنیاد اورلامتناہی تضادات ہیں۔ قرآن نے اپنے اس مؤقف کی بھرپور وضاحت کی ہے کہ میاں بیوی کی صلح میں کسی صورت بھی اللہ کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ ناراضگی اور طلاق کے بعد شوہر کو صلح واصلاح کے معروف طریقے کے بغیر رجوع کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ جس سے تمام مذہبی طبقات کی غلطیاں آشکارا ہوتی ہیں کہ کوئی شوہر طلاق رجعی دے یا اس کی نیت کچھ ہو تویکطرفہ رجوع کا حق حاصل ہے۔ جس سے بہت سارے اختلافات اورگھمبیر تضادات نے جنم لیا ہے۔ مثلاً بہشتی زیور میں مسئلہ لکھا ہے کہ” اگر شوہر بیوی سے کہے کہ طلاق طلاق طلاق تو یہ تین طلاقیں ہیں اور اگر شوہر کی نیت ایک طلاقِ رجعی کی ہے تو پھر یہ ایک طلاق ہے، لیکن بیوی پھر بھی سمجھے کہ اس کو تین طلاقیں ہوچکی ہیں”۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کا خاندان مولانا اشرف علی تھانوی کے علم کی بوسیدہ ہڈیوں کو نئی شکل دیکر بیچ رہاہے لیکن اگر ان سے سوال کیا جائے کہ مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی بیوی سے کہا کہ ”طلاق طلاق طلاق” تو بہشتی زیور کے مطابق یہ ایک طلاقِ رجعی ہے اور اس کی بیوی سمجھے کہ یہ تین طلاق ہیں اور حلالہ کے بغیر حلال نہیں ہوگی تو اس کا حل کیا ہوگا؟۔ اسلئے کہ اصلاً بیگم صاحبہ محترمہ کو طلاق نہیں ہوئی ہے اور وہ کہیں سے حلالہ کروالے تو مفتی تقی عثمانی اور اس کی مذہبی ذرّیت پر کیا گزرے گی؟۔ مسلمانوں میں2020کے اندر مفتی محمد تقی عثمانی کا نمبر طاقتور شخصیات میں پہلے نمبر پر تھا اور2022میں پانچویں نمبر پر آگیا۔2023میں فہرست سے نکل جائے گا انشاء اللہ کیونکہ حلالے کی لگام ہاتھ سے نکل جائے گی۔ اگر مفتی تقی عثمانی کی بیگم کا نام دینا مسئلہ پوچھنے کی حد تک بھی برا لگتا ہو تو مسلمان بہنوں ، بیٹیوں ، بیگمات اور ماؤں پر کیا گزرتی ہوگی؟۔ جب وہ حلالہ کی لعنت سے گزرتی ہوں گی؟۔
ہم مسلمان بہنوں کی عزتیں بچانے نکلے ہیں ۔ آؤ ہمارے ساتھ چلو۔

__قرآن وسنت سے حلالے کا غلط تصور__
آیت230البقرہ میں مروجہ حلالے کاکوئی تصور نہیں ہے۔ جب آیات228اور229البقرہ میں عدت کے اندر صلح واصلاح کے معروف طریقے سے اللہ نے رجوع کی بھرپور وضاحت کردی اور آیات231اور232البقرہ میں عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی سے معروف رجوع کی بھرپور وضاحت کردی تونعوذ باللہ کیا درمیان میں اللہ پر کوئی جن یا جنون طاری ہوگیا تھا ؟کہ اس طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا جب تک وہ عورت کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرلے۔آیت230البقرہ۔ اس پر علماء ومفتیان نے کبھی غور نہیں کیا؟۔
وہ کونسی طلاق ہے جسکے بعد عورت سے اس کا سابقہ شوہر رجوع نہیں کرسکتا ہے جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے؟۔ حنفی، شافعی، مالکی ، حنبلی، اہل حدیث، جعفری اور پرویزی فرقوں نے اپنی اپنی فقہ وسمجھ کے مطابق اس کی کوئی نہ کوئی تشریح کی ہے لیکن کسی ایک صورت پر بھی امت کا آج تک اجماع نہ ہوسکا ہے اور نبیۖ کا فرمان سچ ہے کہ امت کا اجماع کسی گمراہی پر نہیںہوسکتاہے۔
مجھے یقین ہے کہ قرآن وسنت پر عنقریب نہ صرف امت کا اجماع ہوگا بلکہ پوری دنیا میں تمام مذاہب اور ممالک کے لوگ بھی ایک مضبوط معاشرتی خاندانی تعلقات کی بحالی کیلئے اپنے معاشرے اور ممالک میں اسکے نفاذ کیلئے نکلیں گے۔
قرآن نے عورت کاکوئی استحصال نہیں کیا بلکہ اس کو بھرپور تحفظ دیا ہے اور اس تحفظ میں سب سے بڑا بنیادی مسئلہ اس کو حلالے سے تحفظ دینا تھا۔ اس کو اپنے شوہر سے رجوع کیلئے تحفظ دینا تھا ۔ اس کو شوہر کے جبری رجوع سے تحفظ اور نجات فراہم کرنا تھا اور اسکے مالی حقوق کے تحفظ کی بھرپور ضمانت دینی تھی۔
قرآن نے سب کچھ عورت کو دے دیا لیکن مولوی نے پھر اس کو مذہبی فتویٰ دیکر اپنے اور معاشرتی مظالم کا شکار بنایا ہے۔ عورت نے نبیۖ سے مجادلہ کیا کہ میری پیٹھ کو میرے شوہر نے اپنی ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دیکر ظہار کیا ہے جو دورِ جاہلیت کی سب سے سخت طلاق تھی۔ جس میں حلالہ سے بھی عورت حلال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ نبیۖ نے مروجہ مذہبی ماحول کے مطابق فتویٰ دیا تو اللہ نے اس عورت کی بات سن لی اور سورۂ مجادلہ اور سورۂ احزاب میں رسم جاہلیت کی سخت ترید نازل کردی۔ ایک عورت مدرسہ سے فتویٰ طلب کرتی ہے کہ شوہر نے اکٹھی یا پہلے طہر پاکی کے ایام میں پہلی، دوسرے میں دوسری اور تیسرے مرحلہ میں تیسری مرتبہ طلاق دی ہے تو کیا وہ بغیر حلالہ کے رجوع کرسکتی ہے؟۔ جس کا جواب یہی ہونا چاہیے تھا کہ اللہ نے قرآن کی آیت228البقرہ میں فرمایا ہے کہ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوااصلاحًا ” اور ان کے شوہر اس مدت میں صلح کی شرط پر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔یہ سوال مولوی سے پوچھنے کا نہیں ہے بلکہ قرآن فتویٰ دیتا ہے کہ عدت میں شوہر رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یہی فتویٰ سورہ طلاق آیت1اور سورہ بقرہ آیت229میں بھی ہے۔ لیکن اگر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو اور شوہر نے تین مرتبہ نہیں ایک مرتبہ بھی طلاق دی ہو اور شوہر فتویٰ پوچھنے کیلئے جائے کہ وہ رجوع کرسکتا ہے؟۔ تو قرآن کا فتویٰ یہ ہے کہ ” اس کو رجوع کا کوئی حق اب حاصل نہیں ہے۔ عورت عدت کی تکمیل کے بعد جہاں چاہے اپنی مرضی سے نکاح کرسکتی ہے”۔
جب قرآن کی واضح آیات کا فتویٰ فقہاء ومحدثین نے بالکل نظر انداز کردیا تو گمراہی میں اس طرح گردش کرنے لگے جیسے جھاڑی کاباریک ریشہ نما ایک پھول فضاء میں ہواؤں کے دوش پر اٹھتا ہے۔ جو ہمارے ہاں ”شیطان کا خصیہ” کہلاتاہے۔ ارشد شریف اور عمران خان کی میڈیاپر ”سپاری ” کی گردش ہے ،یہ وہ رقم ہے جو دہشت گرد تنظیم کو کسی شخص کے قتل کیلئے دی جائے۔ سپاری حشفہ یعنی ذکر کے ختنے کی جگہ سے باہر والے حصہ کو بھی کہتے ہیں ۔ سودی بینکاری ، حلالے کی لعنت اور سپاری وصول کرنے والے دہشت گردمیں وہی فرق ہے جوہماری بڑی کرپٹ اشرافیہ اور موبائل چھیننے کیلئے جان لیوا حملے کرنے والوں میں ہے۔

__ عورت کا اختیار چھین لینے کے نقصانات__
عورت معاشرے میں صنف نازک اور کمزور مخلوق ہے اور اللہ نے اس کی اس کمزوری کا فائدہ دیتے ہوئے اس کو وہ تحفظ فراہم کیا ہے جو عورت کے اپنے وہم وگمان ، سوچ وبچار اور فکر ودانش میں بھی ممکن نہیں ہے۔ جو عورت مرد کیساتھ برابری کا دعویٰ کرتی ہے تو اس کو مرد کی نظر یں گاڑنے، ہلکا پھلکا ہاتھ مارنے اور دبوچ کر زیادتی کا نشانہ بنانے پر کیوں غصہ آتا ہے ،جب برابری ہے تو بدلے میں عورت بھی وہی کچھ کرتی؟۔ عورت کو تحفظ دینے کی سخت ضرورت ہے۔
عورت شوہر کے نکاح میں جاتی ہے تو اس کو اللہ نے نہ صرف خلع کا اختیار دیا ہے بلکہ ساتھ میں مالی تحفظ کی ضمانت بھی دی ۔ جہاںالنساء آیت19میں عورت کو خلع کا حق اورآیات20،21النساء میں شوہر کو طلاق کا حق دیا ہے وہاں دونوں صورتوں میں عورت کو مالی تحفظ بھی فراہم کیا ہے۔ خلع میں شوہر کی طرف سے ان دی ہوئی چیزوں کی ملکیت برقرار رکھنے کی وضاحت کی جو عورت اپنے ساتھ منتقل کرکے لے جاسکتی ہو یعنی منقولہ جائیداد۔ کپڑے، زیور، نقدی ، گاڑی وغیرہ۔ جب وزیرستان، افغانستان ، پشتونستان، پختونخواہ اوربلوچستان کی پشتون عورت کو یہ حق حاصل ہوگا کہ جتنا حق مہر شوہر کی وسعت کے مطابق طے ہوجائے اور جو شوہر نے اس کو اس کے علاوہ اضافی چیزیں دلائی ہوں توپھر جب عورت چاہے تو اپنے شوہر کو چھوڑ سکتی ہو اور یہ آزادی قرآن وسنت میں خلع ہے تو پھر پشتون اور طالبان نہ صرف دنیا کے قہروغضب سے نکل جائیں گے بلکہ پورے پاکستان اور دنیا بھر میں ہتھیار اُٹھائے بغیر بھی اسلام کی فتوحات کا جھنڈا بیت المقدس، ہندوستان کے لال قلعہ ، امریکہ کے وہائٹ ہاؤس، فرانس کے ایفل ٹاور ، دیوار چین و بیجنگ ،روس کے ماسکو اور دنیا بھر کے تمام معروف جگہوں پر لگادیںگے لیکن جب اپنی ماؤں ، بہنوں، بیٹیوں اور بیگمات کو اسلامی حقوق اور آزادی دینے سے محروم ہوں گے تو پھر مختلف شکل میں مذہب، زبان، علاقہ، کلچر اور قومیت کے نام پر آزادی کی جنگ نہیں اغیار کی دلالی کریںگے۔
میرا ایک کزن تھا، پاگل خانے میں فوت ہوگیا، اس کی بیگم سوات کی تھی اور اس کا چھوٹا بچہ بھی تھا۔ بچہ جوان ہوا تو اس کی ماں اور ماموںکو لوگوں نے بتایا کہ تمہارے باپ کا مختصر خاندان تھا، حادثے کا شکار ہوکر دنیا سے ختم ہوگیالیکن اس جوان نے کہا کہ اگر مجھے اپنے خاندان کا اتہ پتہ نہیں بتاؤ گے تو میں خود کشی کرلوں گا۔ پھر وہ پہنچ گیا۔ کانیگرم میں ہم اپنے گھر بیچ چکے ہیں۔ جوان نے شوق کی وجہ سے کانیگرم دیکھنے کیلئے وزیرستان کا سفر کیا۔ نابلد ہونے کی وجہ سے شام کو مکین کے شہر میں پھنس گیا۔ ایک محسود نے پوچھا اور اپنی دکان کھول کر اس میں سلادیا۔ جوان نے دوسرے دن شوال دیکھنے کی بھی ٹھان لی۔ راستے میں واپسی پر گاڑی خراب ہوئی۔ پھر کانیگرم پہنچا۔ ایک دن ایک محسود مہمان کو موٹر سائیکل پر پہنچانے گیا۔ راستے میں واپسی پر موٹر سائیکل کا پیٹرول ختم ہوا۔ طالبان بھی نظر آئے جو پملفٹ پھینک رہے تھے کہ ”اگر عورت کی قیمت اتنی رقم سے زیادہ لی تو اس پر ہم ایکشن لیں گے”۔ طالبان بیچارے اخلاص کیساتھ محسود قوم کو اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اسلام اور پشتو کی طرف کھینچ رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں اسلام تو بہت دور کی بات ہے اخلاقی اور قبائلی اقدار بھی کھورہے ہیں۔
منظور پشتین نے بھی اعلان کیا تھا کہ اپنی بہن بیٹیوں پر قیمت وصول مت کرو لیکن جب تک قرآن و سنت کے احکام کو تفصیل سے سمجھ کر معاشرے کے سامنے علماء کرام متفقہ طور پر نہیں رکھیں گے تو غلط رسم و رواج سے نہیں نکل سکتے۔ قرآن کے احکام ایسی روشنی ہے جو گھپ اندھیروں کو خود بخود ختم کردیتا ہے۔

__این جی اوز بھی طالبا ن کی حامی ہیں؟__
وزیرستان محسود ایریا میں جو طالبان افغانستان سے واپس آئے ہوئے ہیں وہ اپنے علاقہ میں اپنے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے کیلئے کچھ ایسے اقدامات کرنے پر لگے ہوئے تھے کہ عوام میں دوبارہ مقبولیت حاصل کرلیں۔ جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر مولانا صالح قریشی نے بھی کہا کہ ”یہ وطن کے بچے ہیں اور ہم خوش آمدید کہتے ہیں۔ امن وامان کی ذمہ داری ریاست کی ہے”۔PTMکے رہنما شہزاد وزیر نے بھی شوال میں تقریر کرتے ہوئے کہاتھا کہ” یہاں کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنوں کے جنازے نہیں اٹھا چکا ہو۔ ہمارے طالبان نے افغانستان کیلئے قربانی دی مگر کسی نے وہاں ان کو چوکیداری کی نوکری بھی نہیں دی۔ پنجاب بھی ہمارے ان بھائیوں کو قبول نہیں کرتا ہے۔ ہماری اتنی گزارش ہے کہ پھر ہمارے ہی خون سے اپنے ہاتھ رنگنے کی غلطی نہیں کریں۔ عوام سے اپیل ہے کہ اگر تمہیں فوج یا طالبان اٹھاکر لے جائیں تو ہم تمہارے آگے کھڑے ہوںگے۔ جس نے جرم کیا ہوگا تو ہم کہیںگے کہ اس کو ڈبل سزادو۔جرم نہیں کیا ہوگا تو دھرنہ دے کر ہم تمہارے ساتھ اس وقت تک بیٹھ جائیںگے جب تک اس کو چھوڑ نہ دیں”۔
شمالی وزیرستان میں ایک وزیر44سال بعد اپنے وطن لوٹ آیا ہے اور اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر مجھے یہاں عورت شادی کیلئے کوئی دے تو میں واپس نہیں جاؤں گا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے بہت سارے پختون جوان ہیں جو اسلئے شادی سے محروم ہیں کہ لڑکیوں کے باپ بہت زیادہ پیسے مانگتے ہیں۔10سے20لاکھ تک رقم حق مہر کے نام پر لی جاتی ہے جو اس عورت کی اپنی قیمت ہوتی ہے اورحق مہر اس کا باپ اور بھائی اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اگر تحریک طالبان پاکستان خواتین کو اس ظلم وجبر سے چھڑانے کیلئے کم حق مہر کے مطالبے کا اعلان کریں تو علماء اور این جی اوزکو طالبان کی حمایت کرنا پڑے گی۔ جس پشتون معاشرے میں سسر اپنی بیٹی اور اپنے داماد کے درمیان شادی کی راہ میں اسلئے رکاوٹ ہو کہ اس کو لاکھوں کابھتہ چاہیے تو اس کو انگریز ، پنجاب کی فوج اور طالبان کی غلامی سے چھڑانے کے بجائے پہلے اپنی بے غیرتی کے خلاف ہی جنگ کرنا چاہیے۔ ہمارا عالم منبر پر بیٹھ کر خوشی سے نہال ہے کہ ملائشیاء کے تعلیمی نصاب میں خان عبدالغفار خان کو برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کا عظیم لیڈر قرار دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریز اور اس کی باقیات کے خلاف خان عبدالغفار خان اور خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی نے بڑی قربانیاں دی ہیں اور مسلمانوں کے علاوہ ہندو اور سکھ بھی ان کو آزادی کا عظیم ہیرو سمجھتے ہیں مگر پشتونوں کواپنی بے غیرتی کے دلدل سے نکالنے میں ان کا کیا کردار ہے؟۔
علماء ومفتیان کا کیا کردار ہے؟۔0+0=0۔اسلئے پشتون نوجوان اپنی اپنی مذہبی اور قوم پرست قیادت سے بغاوت کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ منظور احمدپشتین ایک اچھا ، مخلص اور مضبوط اعصاب کا مالک نوجوان ہے۔ محسود قوم کی خوبیاں اس میں بالکل موجود ہیں۔ محسود قوم کی خوبیاں دنیا بھر میں کسی دوسری قوم میں موجود ہوتیں تو مجھے اللہ پر بھروسہ ہے کہ اللہ نے اسی قوم میں مجھے پیدا کرنا تھا۔ میں علامہ اقبال کی طرح اپنی کم بختی کا اظہار نہیں کروں گا کہ ”اس قوم میں مجھے پیدا کیا ہے جس قوم کے ا فراد غلامی پر رضامند ہیں”۔ دنیا کی نمبر1ہماری ایجنسیISIبھی غلامی کی زنجیریں توڑنے کیلئے غلاموں کا سہارا لیتی ہے۔
منظور پشتین حصار تنگ محسوس کرکے کہتا ہے کہ ہم پاکستان کے آئین کے مطابق اپنے حقوق مانگتے ہیں اور جوش وخروش کا جم غفیر دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ ”ہم اپنی عدالتیں لگائیںگے اور میں فوجیوں کو سزا دوں گا”۔ جب طالبان نے وزیرستان میں اپنی عدالتیں لگائی تھیں تو اس وقت ریاست پاکستان کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ طالبان کے آگے محسود قوم نے ہتھیار ڈال دئیے۔ اگر مسلح فوج ان کی جان نہ چھڑاتی تو ازبک ومحسود طالبان کیا سلوک کرتے؟۔ جس دن ہماری قوم نے جاہلیت کے خلاف شعور کا علم بلند کرنا شروع کیا تو انقلاب آئے گا۔

__قرآن کے نام پر ریکارڈدھوکہ بازی __
خیرالمدارس ملتان میں ایک ایرانی بلوچ طالب علم پڑھتا تھا اور اس کا ایک پٹھان دوست مولانا اجمل موسیٰ خیل کا تعلق جمعیت علماء اسلام ملتان سے تھا اور حسین آگاہی ملتان میں ہمارا اور جمعیت علماء اسلام کا دفتر قریب قریب تھے۔ جب ہمارے ہاں مولانا فضل الرحمن کا جلسہ تھا اور قاضی فضل اللہMNAساتھ آئے تھے جو اب امریکہ میں ہیں۔ مولوی اجمل اور ایرانی بلوچ میرے ساتھ گومل ٹانک گئے اور وہاں سے میں ان کو وانا جنوبی وزیرستان کی سیر کرانے بھی لے گیا۔ مولانا نور محمد صاحب شہید سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ قبائل40ایف سی آر کی وجہ سے بدترین غلام ہیں۔ آپ لوگ بلوچستان سے انقلاب کا آغاز کریں وہاں سے کامیابی بھی ملے گی۔ پھر منظور پشتین کے علاقہ میں مولانا نور محمدMNAاور مولانا اکرم اعوان کیساتھ مجھے سردار امان الدین شہید نے عزت بخشی تھی۔ مولانا اکرم اعوان نے کہا تھا کہ ”انقلاب کیلئے وزیرستان کی سرزمین اور لوگوں کو خدا نے ایسا رکھا ہے جیسے کسان اچھی نسل کیلئے بہترین گندم محفوظ رکھتے ہیں”۔ میرا مدعا یہ تھا کہ” اسلام کا آغاز اپنی ذات، اپنے ماحول اور اپنے غلط قانون ورواج کے خلاف آواز اٹھانے اورعمل کرنے سے ہوگا”۔
1991ء میں کانیگرم شہر کے مولوی محمد زمان نے مجھ سے پہلی مرتبہ بات کی اور شریعت کے نفاذ کیلئے حدود کے اجراء پر اتفاق کیا تو میں نے کہا کہ” اس کا آغاز اپنے گھر سے کرنا ہوگا۔ بیٹی کی قیمت3لاکھ ہو یا70ہزار۔ جتنی بھی ہومگر یہ عورت کا اپنا حق ہوگا۔ باپ اس میں سے کچھ بھی نہیں لے سکتا ہے”۔ اس نے کہا کہ” یہ تو بہت مشکل ہے”۔ میں نے کہا کہ اپنی بیٹی کو اس کا اپنا شرعی حق دینا مشکل ہے تو دوسروں پر سنگسار کرنے ،ہاتھ کاٹنے اور کوڑے کی سزائیں دینے کا جواز کس طرح بن سکتا ہے؟۔ آج پھر طالبان وہاں پر کھڑے ہوگئے ہیں۔
ایرانی بلوچ بعد میں دارالعلوم کراچی سے دستار فضلیت باندھ کر اپنے وطن گیا۔ میری خواہش تھی کہ کسی طرح ان سے رابطہ ہوجائے۔ اخبار پر میرا نام دیکھ کر رابطہ کیا۔ دوسرے دن میں کراچی پہنچ گیا۔ اس نے بتایا کہ گاؤں میں ایک امام مسجد نے کسی عورت کا حلالہ کیا۔ پھر کچھ دن بعد اس عورت سے سامنا ہو ا اور پوچھا کہ مزہ آیا تھا ؟، عورت نے کہا کہ نہیں!۔ اس نے کہا کہ پھر حلال نہیں ہوئی اور دوبارہ مباشرت کی اور پوچھا کہ اب مزہ آیا تو عورت نے کہا ہاں!۔ اس نے کہا کہ اب حلال ہوگئی۔ وہ ایرانی بلوچ پھر ہماری کتابوں کو ایران بھی لے گیا۔
جب مولوی کہتا ہے کہ جب تک اپنی بیگم کا حلالہ نہیں کروالوگے تواس کے قریب نہیں جاسکتے ہو اور مولوی کا فتویٰ معاشرہ مان لیتا ہے تو پھر اسلام کے نام پر مسلمان قوم سے کیا نہیں منوایا جاسکتا ہے؟۔ اسلام کے نام پر مسلمان قوم کو بے غیرت بنادیا گیا عورت کے حقوق سلب کردئیے گئے ہیں۔ عورت کا اختیارسلب کیا گیا ہے۔ عورت وہ ماں ہے جس کے پیروں کے نیچے جنت ہے جب انسان اپنے وطن سے زیادہ محبت کرتا ہے تو دھرتی کو اپنی ماں قرار دیتا ہے حالانکہ جس دھرتی کو ہند کا ہندو اپنی ماںقرار دیتا ہے تو اس دھرتی سے ہمارا مہاجر مسلمان بھائی ہجرت کرکے ہمارے وطن میں آیا ہے۔ اس ماں دھرتی کو قائداعظم محمد علی جناح اور قائدملت لیاقت علی خان دونوں نے چھوڑ دیا تھا اور پھر اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں ان لوگوں کو کافر اور غدار قرار دیا جو دھرتی کیلئے سرحدی گاندھی اور بلوچی گاندھی بن کر انگریز سے لڑے۔ جو ہندؤوں سے بھی نفرت نہیں کرتے تھے تو پنجابیوں سے کیوں کرتے؟۔ لیکن مولوی اسلامی نظام کو بھول گئے اور قوم پرست خاندان اپنے آباء واجداد کی سیاست بھول گئے ۔

__ قوم پرستی، طالبان پرستی ، نفرت پرستی__
جبPTMنے قوم پرستوں کو یقین دلایا کہ الیکشن میں حصہ نہیں لیںگے تو جن کی الیکشن لڑنے کی اوقات تھی تو انہوں نے الیکشن لڑا اور 3لیڈروں میں سے وزیرستان کے محسن داوڑ اور علی وزیرMNAبن گئے۔ ان کوPTMسے باہر کردیا جاتا تو تثلیث کا حامل منظور پشتین صلیب پر نہیں چڑھتا۔محسن داوڑ نے الگ پارٹی بنالی اور علی وزیر آزاد حیثیت سے اب تکPTMکاMNAہے۔ اور محمودخان اچکزئی سے اس نتیجے میں اپنے کارکنوں نے الگ پارٹی بنالی ہے۔
ہماری کوشش ہوگی کہ پارلیمنٹ میں313افراد ہمارے منشور کے ہوں اور قومی اسمبلی کی باقی نشستوں پر تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کو پارلیمنٹ میں لائیں تاکہ باہمی مشاورت کی قانون سازی سے پاکستان کی تقدیر بدل جائے۔ مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی ، حافظ سعد رضوی، نوازشریف، مریم نواز ، عمران خان، شیخ رشید ، اعجاز الحق، محسن داوڑ، رانا ثناء اللہ، خواجہ سعد رفیق ، شاہد خاقان عباسی، مصطفی نواز کھوکھر، بلاول بھٹو زرداری، آصف علی زرداری، مولابخش چانڈیو ، اختر مینگل، ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ اورجماعت اسلامی کے سراج الحق چاروں صوبوں کی تمام جماعتوں کے نامور سیاستدان پارلیمنٹ میں تشریف فرماہوں اور دنیا بھر سے تمام مکاتبِ فکر سے قرآن وسنت کے ماہرین کو تشریف آوری کا موقع دیں اور اسلامی قانون سازی سے انقلاب کا آغاز کردیں۔
اسلام نے مذہب اور قوم پرستی کی بنیاد پر نفرت کی گنجائش نہیں رکھی ہے لیکن علماء قرآن کی طرف دیکھتے نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مجوسی، یہودی، عیسائی اور مسلمانوں کی مساجد کو ایک آیت میں بیان کرکے نہ صرف ان کا تحفظ یقینی بنانے کا عندیہ دیا ہے بلکہ ان میں اللہ کا نام کثرت سے یاد کرنے کا بھی ذکر واضح کیا ہے۔ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بدترین گستاخ تھے لیکن اللہ نے یہودی خاتون سے شادی کرکے اپنے بچوں کی ماں بنانے کی عزت کا مستحق قرار دیا ہے۔ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تین خداؤں میں سے ایک تثلیث کا عقیدہ رکھتے ہیںاور عیسائی خاتون سے بھی اسلام نے شادی کی اجازت دیکر اس کو اپنے بچوں کی ماں بنانے کا شرف بخشا ہے۔ یہود ونصاریٰ اسلام دشمنی میں سب سے آگے تھے لیکن اسلام نے اہل کتاب کی اپنائیت سے نواز دیا ۔ قرآن کہتا ہے۔ ان الذین اٰمنوا والذین ہٰدوا والنصٰریٰ والصٰبئین من امن باللہ والیوم الاٰخر وعمل صالحًا فلھم اجر ولاخوف علیھم ولاھم یحزنون O” بیشک جو لوگ ایمان والے ہیںاور جو یہودی ونصاریٰ اور صابئین ہیں۔ جو بھی ایمان لایا اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور صالح عمل کئے تو ان کیلئے اجر ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے”۔
سورہ بقرہ آیت62میں اللہ نے مسلمان کوفراخ دل، روشن دماغ اوروسیع الظرف بنایا ہے تو کیا کسی اورمذہب میں اس کی مثال ملتی ہے؟۔مسلمان نے اپنی یہودی وعیسائی بیگم اور اپنے بچوں کے درمیان عقیدے کی بنیادپر نفرت کا ماحول پیدا نہیں کرنا ہے۔ قرآن نے کوئی ایسی تعلیم نہیں دی ہے کہ مسلمانوں کے اندر عقائد کی بنیاد پر تعصبات کا ماحول پیدا کیا جائے اور یہ امید دلائی جائے کہ وہ کچھ بھی اچھا نہ کریں تو جنت میں جائیںگے اور دوسرے کتنے بھی اچھا کریں تو جہنم میں جائیں گے۔ یہودونصاریٰ اور علم سے عاری لوگوں کے ایسے تعصبات کو قرآن میںمحض خوش گمانیاں قرار دیا گیا ہے۔ افسوس کہ آج مسلمان بھی ان کی راہوں پر چل نکلے ہیں۔اسلام نسل، رنگ، قومیت، زبان اور علاقائیت کی بنیاد پر تفریق اور نفرت کا روادار نہیں بلکہ صرف کردار کو اہم ترین معیار قرار دیتا ہے۔
پختون ، بلوچ، سندھی اور مہاجر سے زیادہ قابل رحم حالت اس مظلوم پنجابی قوم کی ہے جس کے پاس عدالت، سمگلنگ، تعلیم، صحت، پنچائیت، روزگار، علم و شعور، سیاست، آزادی اور دنیا کی کوئی نعمت نہیں ہے۔ پسماندہ ، مظلوم، بے بس، بے توقیر، پساہوا ، غریب اور انتہائی بدترین حالات میں زندگی گزارتا ہے۔

__ احمق ملاؤں کی کچھ غیر معیاری حماقتیں__
فقہی مسئلہ ہے جس کو مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب”حیلہ ناجزہ” میں نقل کیا ہے کہ ” اگر شوہر نے بیوی کو تین طلاقیں دیں اور پھر مکر گیا تو بیوی دو گواہ پیش کرے۔ اگر دو گواہ نہیں اور شوہر قسم کھالے تو عورت ہر قیمت پر خلع لے لیکن اگر شوہر خلع نہ دے تو پھروہ نکاح میں رہنے اور حرامکاری پر مجبور ہوگی”۔
آج یہ فتویٰ بریلوی دیوبندی مدارس میں رائج ہے۔ پشتون، پنجابی، سندھی، مہاجر اور بلوچ کا باپ آزادی حاصل نہیں کرسکتا، جب تک مولوی کا فتویٰ مسترد کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔PDMمیں جمعیت علماء اسلام کے رہنما اسلم رئیسانی اور مسلم لیگ ن کے رہنما لشکری رئیسانی نیشنل ڈائیلاگ میں مصطفی نواز کھوکھر، شاہد خاقان عباسی اور جماعت اسلامی کے ڈاکٹر عطاء الرحمن سے پوچھ لیں۔ محترمہ مریم نواز اور محترم مولانا فضل الرحمن کو بھی مدعو کریں تاکہ عوام الناس جان سکیںکہ آئین پاکستان اب تک اسلامی دفعات سے کیوں محروم ہے؟۔
سورہ ٔ النساء آیت19میں عورت کو خلع اور مالی تحفظ کا حق ہے لیکن احمق علماء نے واضح الفاظ اور ترجمہ کے منافی اس کی غلط تفسیر کی ہے اورآیت229البقرہ سے خلع مراد لیا ہے جو انتہائی درجے کا گدھا پن ہے۔ اللہ نے مرحلہ وار تیسری مرتبہ طلاق کے بعد واضح کیاہے کہ ”تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ جو کچھ ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر جب دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کے حدود پر قائم نہیںرہ سکیںگے اور اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیںگے تو پھر وہ دی ہوئی چیز عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں”۔ آیت229البقرہ۔ اس سے خلع مراد لینا بہت بڑی حماقت ہے اسلئے اللہ نے دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری فیصلہ کن طلاق کے بعد فرمایا ہے کہ عورت کو جو چیزیں دی ہیں ان میں سے کچھ واپس لینا جائز نہیں۔ البتہ آپس میں رابطے کا خدشہ ہو جس سے وہ جنسی تعلقات کا شکار ہوکر اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں تو پھر وہ چیز واپس فدیہ کی جاسکتی ہے۔ اللہ نے طلاق میں عورت کو مالی تحفظ دیاہے اور احمق سیدمودودی نے خلع سے بلیک میلنگ کا ذریعہ قرار دیا۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے اس آیت کے مفہوم اور ترجمہ کو مشکل ترین قرار دیا ہے لیکن مولانا مودوی نے ترجمہ میں خلع کی بات ڈال دی اور جماعت اسلامی نے بھی اصلاح کی بجائے ہٹ دھری کا راستہ اپنایا ہوا ہے۔ اس میں طلاق کی وہ صورت ہے کہ جب میاں بیوی آئندہ رابطے کیلئے بھی کوئی راستہ نہیں چھوڑ نا چاہتے ہوں اور اس میں اس رسم بد کا خاتمہ ہے کہ بیوی کو طلاق کے بعد اپنی مرضی سے کسی اور شوہر سے نکاح کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ منگنی توڑنے کے بعد بھی غیرت کا مسئلہ آج تک موجود ہے لیکن جب اللہ نے آیت230البقرہ سے پہلے آیات228،229میں عدت کے اندر اور اسکے بعد آیات231،232میں عدت کی تکمیل کے بعد صلح واصلاح اور معروف طریقے سے باہمی رضامندی کیساتھ رجوع کی اجازت دی ہے تو مروجہ حلالہ کی لعنت کو قرآن وسنت کے سر تھوپنا بھی نہ صرف بہت بڑی زیادتی ہے بلکہ بہت بڑا گدھا پن اور ڈھینچو ڈھینچو بھی ہے۔
اللہ نے ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں آدھا حق مہر فرض کردیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ عورت بھی رعایت کرسکتی ہے اور مرد بھی زیادہ دے سکتا ہے لیکن چونکہ طلاق کا قدم مرد اٹھارہاہے اسلئے جس کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے اسی کو رعایت لینی نہیں دینی چاہیے۔ ان الفاظ سے بات کا بتنگڑ بناکر مسئلہ نکالا گیا ہے کہ طلاق مرد کا حق ہے اور عورت کو خلع کا حق نہیں۔اور نسبت توعورت کی طرف بھی ہے ۔واخذن منکم میثاقًا غلیظًا ” اور انہوں نے تم سے پختہ عہدلیا”۔

__علماء ومفتیان سے دست بستہ اپیل__
ہمیں اس شیعہ سے بھی محبت ہے جو نماز، روزہ ، حج اور اسلام کے احکام سے ناواقف مولا علی کا نعرہ لگاتاہے۔ اپنے دادا کا نام ہندو اور سکھ کی زبان سے سنتے ہیں تو بھی ان سے محبت فطری ہے پھر آپ حضرات نے قرآن کے تلفظ ، عربی کی خدمت، اسلام کے احکام کو زندہ اور اس کیلئے نسل درنسل اتنی قربانیاں دی ہیں کہ اگرہندو، عیسائی، یہودی ، بدھ مت اور دیگر مذاہب کے پیروکاریہ قربانی دیتے تو آج اسلام سے زیادہ ان کا مذہب رائج ہوتا۔ اگر ہم اسلام کو چھوڑ کر نسل درنسل غیرمسلم کی فہرست بنیں تو بھی ہمارے نانا حضرت محمد خاتم الانبیاء و المرسلین ۖ کا کلمہ بلند کرنے کی وجہ سے آپ سے دلی محبت رکھنا ہماری فطرت کا تقاضہ ہے۔ تمہارا جو مسلک، فرقہ ، گروہ ، رنگ وروپ ہے ہم آپ سے دل و جان سے محبت رکھتے ہیں۔اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی نے کہاکہ اگر سید زنا کرے اور حد جاری کرنا پڑے تو یہ کہنا کہ ” پاؤں میں چبھا کانٹا نکال رہا ہوں”۔
البتہ اسلام کی غلط تشریح کی وجہ سے نہ صرف اسلام اور مسلمان بدنام ہیں بلکہ انسانیت کی بھی تذلیل ہورہی ہے۔ جب کوئی مذہب اتنا مسخ ہوجاتا تھا تو اللہ تعالیٰ اصلاح کیلئے کسی نئے نبی کو مبعوث کردیتا تھا۔ نبیۖ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے لیکن اللہ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے حال میں ایک خاتون کی شکایت پر اعتراف کرلیا کہ ہم عورت کا حق بیان نہیں کرتے۔ حدیث میں واضح طور پر اس کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح کرنے کی مخالفت ہے لیکن ہمارے ہاں اس کی تبلیغ وترغیب نہیں ہوتی ہے۔
جب چھوٹی بچی کا نکاح جائز ہو اور اس پر فقہ میں بحث ہو کہ بالغ ہونے کے بعد وہ اختیار کی مالک بنتی ہے یا نہیں، تو یہ کتنی شرمناک بات ہے؟۔ اگرحضرت عائشہ کی عمر نکاح کے وقت6سال اور رخصتی کے وقت9سال تھی تو پھر پاکستان میں16اور18سال سے کم عمر کی بچی پر کیوں پابندی ہے؟۔ کیا سنت پر پابندی لگانا آئین پاکستان میں جائز ہے؟۔ حضرت عائشہ سے نکاح کی تجویز خاتون نے پیش کی تھی اور اس وقت آپ کی بہن حضرت اسماء گھر میں موجودآپ سے 10سال عمر میں بڑی تھیں۔ کیا16سالہ کنواری بہن کی موجودگی میں6سالہ بچی کو ایک خاتون شادی کیلئے موزوں قرار دے سکتی تھی؟۔ اگر دوسری خاتون کی طرف سے رشتہ کی دعوت قبول نہ ہوتی تو حضرت عائشہ کیلئے اسی وقت رخصتی کا بھی فیصلہ ہونا تھا اسلئے کہ فوری ضرورت تھی۔ مارکیٹ میں کئی بڑے علماء ودانشور کتابیں لکھ کر ثابت کرچکے ہیں کہ حضرت عائشہ کی عمرنکاح کے وقت16سال اوررخصتی کے وقت19سال تھی جس پر زبردست دلائل دئیے ہیں مگر مذہبی طبقہ ٹس سے مس نہیں ہوتا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے ۔عورتوں اور بچیوں کو بیچنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یورپ و مغرب اس کی بڑی مارکیٹ ہے جس پرBBCکی رپورٹ بھی آچکی ہے۔ اس سے زیادہ بے غیرتی ، بھڑوا گیری اور دلالی کیا ہوسکتی ہے کہ اپنی بیٹی ، بہن کو نکاح کے نام پر پیسوں کے عوض بیچا جائے؟ اور اس سے زیادتی بے غیرتی یہ ہے کہ عورت سے نکاح کے نام پر جہیز بھی وصول کیا جائے۔ ترقی یافتہ ممالک نے مذہب کے مسخ شدہ غلط افراط وتفریط سے تنگ آکر جمہوری بنیادوں پر نکاح و طلاق کیلئے قانون سازی کی ہے۔ اگر اسلام کے اصل احکام کو سامنے لایاجائے تووہ اسلام کے احکام قبول کرکے قانون سازی کرنے میں دیر نہیں لگائیںگے۔ ہماری پارلیمنٹ نے انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے بچپن کی شادی پر پابندی لگائی ہے اور اس کو قابلِ دست اندازی پولیس جرم قرار دیا ہے اور عدالت نے مولوی کافتویٰ ردی کی ٹوکری میں ڈال کر عورت کو خلع کا حق دیا ہے تو حلالہ کی لعنت کو بھی ایک جرم قرار دیا جائے۔ بھوس اور پاپڑ سے بھرے ہوئے ہمارے سیاستدانوں اور ارباب اقتدار کے دماغ ودلوں میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ معاملہ سمجھ اور اس کا احساس کرسکیں اسلئے کہ معیشت بھی ڈبو دی ہے اور وسائل سے مالامال پاکستان کو موالیوں کی طرح بھکاری بنایا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اسلامی معاشی نظام ۔ محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری کے قلم سے

اسلامی معاشی نظام ۔ محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری کے قلم سے

سرمایہ دارانہ واشتراکیت میں اسلام کا معاشی نظام میزان عدل ؟
سرمایہ داری یا عیش پرستانہ وہ معاشی نظام ہے جو امریکہ و یورپ اور اسلامی ممالک میں ہے

جس کا مقصد وحید یہی ہے کہ ساری دنیا کی دولت کو اپنے خزانوں میں سمیٹ لیں اور عیش و نشاط کے سارے وسائل اور اللہ کی دی ہوئی نعمت پر چند تاجروں اور بینک کے حصہ داروں کا قبضہ ہو

بیشک یہ صحیح ہے کہ اشتراکی نظام عام انسانوں کے پیٹ بھرنے کیلئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن اس کی یہ تفریط ہے کہ انسانوں کو صرف پیٹ سمجھا اور اسی مسئلے کو دنیا کا اہم ترین مسئلہ بنادیا ہے۔

دنیا کے دماغوں پر اشتراکیت کا مسلط ہونا اس کا حسن و جمال یا اس کا کمال نہیں ہے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی وہ نفرت انگیز قباحت ہے جس نے اشتراکیت اور اشتمالیت میں کمال پیدا کیا۔

اسلام کا معاشی نظام:: محدث العصر حضرت علامہ سیدمحمد یوسف بنوری
اسلام کے مدمقابل اس وقت دونظام مملکت یا نظام معیشت ہیں، جو ساری دنیا کو دو حصوں میں بانٹ چکے ہیں۔ نظام اسلام یا دین اسلام وہ قدیم نظام ہے ،جس کا سرچشمہ غارِ حرا سے نکل کر آگے سمندر بن گیا اور اب تک دنیا کو اپنے فیض سے سیراب کررہا ہے۔ اسلام صرف مادی نظام نہیں ،بلکہ وہ ایک مکمل ترین پیغام الٰہی ہے ،جو قرآن کی شکل میں نمودار ہوا اور نبی کریم محمد مصطفیۖ کی صورت میں جلوہ گر ہوا۔ عقلائے عالم کا دلوں سے، زبانوں سے ،کتابوں سے اور اخبارات سے اس کا اعتراف ہے کہ قرآن کریم جیسا مکمل نظامِ حیات اور ذاتِ مصطفی محمد رسول اللہ جیسا کامل ترین رہنمائے انسانیت پیدا نہیں ہوا۔اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ حق تعالیٰ کا آخری پیغام نجات ہے۔ ہردور، ہر ملک اور ہرقوم کے لئے اس میں ہدایت و فلاح ہے اور سعادت دارین کا بھی سرچشمہ ہے۔ مادی وروحانی، شخصی واجتماعی، اقتصادی ومعاشی ، سیاسی وملکی ضرورتوں کا کفیل ہے۔ اور اس کا دامن ایسے بیش بہا جواہرات سے پُر ہے کہ ساری دنیا کی تہی دامنی کے افلاس کا علاج اس کے خزانۂ عامرہ سے ہوسکتا ہے۔ ایک ایسا صالح نظام جو بنی آدم میں عدل وانصاف ، سکون وراحت اور معاشی خوشحالی پیدا کرتا ہے۔ اس کو ایسا ہادی برحق ۖ لایا جس نے اس پر خود عمل کیا اور کروایا اور ایسے چند جانشین چھوڑے جوانکے صحیح نمونہ تھے۔اور تاریخ عالم ان مبارک عہدوں کو عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے نام سے یاد کرتی ہے۔
اسلام نے جس سرزمین میں آنکھیں کھولیں ،وہاں اخلاقی پستی اور مذہبی تزلزل کیساتھ معاشی پستی انتہاء درجے کی تھی۔ سیاسی اعتبار سے انارکزم وطوائف المکوتی کا دور دورہ تھا۔ دائیں بائیں دوسرمایہ دارانہ نظام مملکت تھے۔ ایک بیزنطی روما کی حکومت ، دوسری ایرانی کسروی مملکت ، ان میں عیش ونشاط وترفہ وتنعم ، مال ودولت کی فراوانی کا چرچا تھا۔ان دونوں نظاموں کے اندر صرف اسلام نے ایک نقطۂ اعتدال پیدا کیا ۔ جس طرح اسلام کا نظام حکومت ڈکٹیٹر شپ اور ڈیموکریسی کی درمیانی حد اوسط ہے۔ ٹھیک اسی طرح نظام معیشت میں ایک صراط مستقیم رکھتا ہے، جو افراط وتفریط دونوں سے پاک ہے۔اشتراکیت یاسوشلزم کارل مارکس ولینن وغیرہ کے نظام معیشت ہیں، جن میںاب تک محو واثبات کا عمل جاری ہے۔ ماسکو اس کا مرکز ہے اور دنیا پر چھارہاہے اور دنیا میں شاید کوئی ایسا ملک نہ ہوگاجہاں اس کے ہم نوا نہ ہوں۔ سرمایہ داری یا عیش پرستانہ حکومت وہ معاشی نظام ہے جو امریکہ ویورپ کے اکثر ممالک میں جاری ہے اور موجودہ اسلامی ممالک میں بھی یہی نظام ہے۔ جس کا مقصد وحید یہی ہے کہ ساری دنیا کی دولت کو اپنے خزانوں میں سمیٹ لیںاور عیش ونشاط کے سارے وسائل واسباب پر قبضہ کرلیںاور اللہ کی دی ہوئی نعمت کو صرف چند تاجروں، زمین کے مالکوں، بینک کے حصہ دار وں اور فیکٹریوں کے مالکو ں میں محدود کرکے انہیں کے پیٹ کو بھریں، ان کی بلا سے عام خدا کی مخلوق کسی حالت میں ہو۔ در حقیقت اس سرمایہ دارانہ ذہنیت نے سوشلزم کوپھولنے اور پھلنے کا موقع دیا۔ دنیا کے دماغوں پراشتراکیت کا مسلط ہونا اس کاحسن وجمال یا اس کا کمال نہیں ہے، بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی وہ نفرت انگیز قباحت ہے، جس نے اشتراکیت اور اشتمالیت میں کمال پیدا کیا۔
بیشک یہ صحیح ہے کہ اشتراکی نظام عام انسانوں کے پیٹ بھرنے کیلئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن اس کی یہ تفریط ہے کہ انسانوں کو صرف پیٹ سمجھااور اسی مسئلے کو دنیا کا اہم ترین مسئلہ بنایااور اس کو اس قدر اہمیت دی کہ مذہب واخلاق، تمدن وتہذیب ، صلح وجنگ،دنیا کے سارے وقائع وحوادث کی بنیاد اسی پیٹ پر رکھی گئی۔ بلاشبہ ہم مانتے ہیں : ”ان الانسان لیطغٰی ان راٰ ہ استغنٰی ”یقینا انسان جب مالدار بنتا ہے تو سرکش بنتا ہے۔دولت کی طغیانی سے نبی کریمۖ نے پناہ مانگی ہے اور ایک موقع پر نبی کریمۖ نے فرمایا” خدا کی قسم مجھے تمہارے فقروافلاس کا اندیشہ نہیں لیکن یہ خطرہ ضرورہے کہ مال ودولت کی فراوانی تمہارے لئے ایسی ہوگی جیسے تم سے پہلے لوگوں میں ہوئی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس میں تم بھی منہمک ہوجاؤگے، جیسے وہ ہوئے وہ تمہیں بھی تباہ وبرباد کرے گی جیسے وہ تباہ وبرباد ہوگئے۔ (بخاری،کتاب الجہاد)مال کی فراوانی بہت سی گمراہیوں کی جڑ ہے لیکن اسلام نے مال حلال کو اللہ تعالیٰ کا فضل بتایا، صحیح ذرائع سے حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔ عین حج بیت اللہ کے موقع پر بھی تجارت پر پابندی نہیں لگائی کیونکہ سعی وکسب کے بغیر کوئی مسلمان زندہ ہی نہیں رہ سکتا ، لیکن اسلام اور قرآن کی رو سے جو شخص جتنا زیادہ کمائے گا ، اتنا ہی زیادہ انفاق پر بھی مأمور ہوگا،اسلئے افراد کی کمائی جتنی بڑھتی جائے گی ، اتنی ہی زیادہ جماعت کی اجتماعی خوشحالی ہوتی جائے گی۔ بہرحال اسلامی قانون سے جتنا زیادہ مالدار ہوگا ،اتنے اس پر زیادہ حقوق ہوں گے، اتنی ہی اس کی مشغولیت بڑھ جائے گی۔
اسلام کا معاشی نظام :
برادرانِ اسلام! جہاں تک اسلام کے معاشی نظام کا تعلق ہے ،اس مختصر خطبہ میں اس کی گنجائش نہیں۔ اس وقت صرف اسلامی نظام معاش کی بنیادی پالیسی کو پیش کیا جاسکتا ہے ، جس کے پیش نظر اسلام کے معاشی نظام کی تفصیلات ہیں اور توقع ہے کہ اس کی وضاحت سے بڑی حد تک اسلام کا پورا معاشی نظام روشنی میں آجائے گا۔
اسلام کی معاشی پالیسی:
اسلام کی معاشی بنیادی پالیسی یہ ہے کہ سوسائٹی کا کوئی فرد اس معاشی سرو سامان اور ضروریات زندگی سے محروم نہ رہے، جسکے بغیر عام طور پر انسان کا زندہ رہنا مشکل ہواور جو حقوق وفرائض اس پر واجب ہوتے ہیں،اُن سے عہدہ برا ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو، نیز عدل کی بنیاد پر ہر شخص کیلئے معاشی لحاظ سے ترقی کے تمام راستے کھلے ہوئے ہوں ۔اسلام کے نزدیک یہ چیز بالکل باطل ہے کہ سوسائٹی کے بعض افراد کے پاس توسامان معیشت ضرورت سے کہیں زیادہ ہو لیکن دوسروں کے پاس اتنا بھی نہ ہو جو جسم وروح کے تعلق کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے، ایک طرف دولت کی فراوانی وبہتات ہو ، عیش ونشاط کی محفلیں قائم ہوں۔ ساز وسرود ، جنگ ورباب سے فرصت نہ ہو۔ دوسری طرف افراد نان شبینہ کیلئے محتاج ہوں۔ نہ بدن ڈھانکنے کیلئے پارچہ موجود ہو ، نہ سر چھپانے کیلئے چھپر ہو،یہ طبقاتی آسمان وزمین کا تفاوت اسلام پسند نہیں کرتا، اسلام ہرگز نہیں چاہتا کہ دولت کی گردش صرف قوم کے چند اغنیاء کے قبضہ میں محدود ہوکر رہ جائے، باقی سب محروم ہوں، بلکہ اس کا منشاء تویہ ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں ایک صحیح توازن سے ہو۔ تاکہ تمام افراد نفع حاصل کرسکیں۔ : ”کیلا یکون دُولة بین الاغنیاء منکم ”میں اس طرف اشارہ بلکہ تصریح ہے۔ایسا نہ ہو کہ اغنیاء تو مزیں لوٹیں اور فقراء ومساکین فاقوں سے مریں۔
اسلام یہ جائز نہیں رکھتا کہ ملک کے تمام ذرائع آمدنی اور مواقع کار صرف چندافراد کی اجارہ داری میں ہوںاور وہ جس طرح چاہیں ان سے فائدہ اٹھائیں اور دوسرے افراد یکسر ان سے محروم ہوں۔ اسلام کے نظریہ کے مطابق سوسائٹی کے ہر فرد کو اس کی صلاحیت اور فطری قابلیت کے مواقع فراہم ہوںکہ اپنی محنت یا خدمت سے ایسا معاوضہ حاصل کرسکے، جس سے اس کی ضروریات زندگی سادے طریقے سے پوری ہوسکتی ہوں اور جیسے جتنا جس کاکام ہو اس کے مطابق اس کو اس کامعاوضہ ملے۔اسلام اس مساوات کا قائل نہیں کہ دنیا کا اعلیٰ ترین دماغ اپنی خداداد دماغی کاوشوں اور فطری صلاحیتوں سے جو چیز حاصل کرسکے، ایک دیوانہ بے وقوف بھی اسی درجہ کا اس میں شریک ہو۔ قدرت نے اپنی تکوینی حکمت ربانیہ کے مطابق جس طبعی تفاوت اور تفاضل رزق کو باقی وبرقرار رکھا ہے درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری ہوگی۔ اس لئے فرمایا:” اللہ فضل بعضکم علی بعض فی الرزق فما الذین فضلوا برآء دی رزقھم علی ما ملکت ایمانھم فھم فیہ سوآء افبنعمة اللہ یجحدون ”۔ ترجمہ :” اللہ تعالیٰ نے بعض افراد کو بعض پر روزی میں بڑائی دی، پس جن کو بڑائی دی وہ نہیں لوٹاتے اپنی روزی ان کو جن کے یہ مالک ہیں( اپنے غلاموں اور باندیوں کو ) کہ وہ سب اس میں برابر ہوجائیں، کیا اللہ کی نعمت کے منکر ہیں”۔
جو افراد محنت و کمانے سے معذور ہیں، بچے ہیں، بوڑھے ہیں، مریض ہیں اور ان کے پاس ضروریات زندگی کیلئے مال موجود نہیں، ان کا انتظام وکفالت حکومت کے بیت المال سے کیا جائے ۔ الغرض اسلام کا منشاء یہ ہے کہ معاشرہ کے ہر فرد کو تمام مادی چیزیں بقدر ضرورت میسر آئیں ،جن کے بغیر اس کی زندگی مشکل ہویا فرائض و حقوق کی ادائیگی سے عاجز ہو۔ اس مقصد کے اسلام نے جو معاشی اصول مقرر کئے ہیں،اگر ان کو مکمل طور پر عملی شکل دی جائے تو نہایت معتدل ومتوازن معاشی نظام وجود میں آتا ہے جس میں مذکورہ بالا تمام اوصاف پائے جاتے ہیں۔ یہاں پر مناسب ہوگا کہ ان میں چند ایک نہایت اہم بنیادی اصول پیش کئے جائیں، جن سے اندازہ لگ سکے گا کہ ان پر عمل کرنے سے معاشی مشکلات کیسے حل ہوسکتی ہیں۔
الف…….قدرت نے کائنات کے اس نظام میں جو منافع رکھے ہیں، وہ انسان کوان سے برابر منتفع ہونے کا برابر حق دیتے ہیں، کسی انسان کو ان سے محروم نہیں کیا جاسکتا ۔ قرآن کی متعددآیات سے یہ مفہوم واضح ہوتا ہے۔
ب……. کوئی شخص اگر ان قدرتی منافع کو اپنے تصرفات میں لائے اور اس کے ساتھ اپنی محنت وکسب کے اثرات قائم کرے تووہ اس کا مالک بن جائے گا۔ اس کی اجازت یا رضامندی کے بغیر دوسرے کو صرف کا حق نہ ہوگا۔ جب انسان کسی چیز کا مالک بن جاتا ہے تو اس سے یہ حق حاصل ہے کہ عطیہ، ہبہ، تبادلہ وغیرہ کا دوسرے کو مالک بنائے۔ بہرحال اسلام ملکیت وانتقال ملکیت کے اصول کو مانتا ہے۔ جس طرح انسان ان قدرتی چیزوں میں تصرف کرکے مالک بن جاتا ہے اسی طرح وہ زمین ، فیکٹری وغیرہ کا بھی مالک ہو سکتا ہے۔
ج ….کوئی شخص کسی کاروبار میں محض سرمایہ کی بنا پر جبکہ اس کیساتھ کوئی دماغی و جسمانی محنت نہ کرتا ہو اور اسکا وہ سرمایہ ہر قسم کے نقصان سے محفوظ ہو، اس سرمایہ سے انتفاع کا مستحق نہیں ہوسکتا اوراس قسم کا انتفاع اسلام کی نظر میں سود ہوگا اور اسلامی نظام میںسود قطعاً حرام ہے۔ سرمایہ عام ہے کہ وہ چاندی وسونے وسکہ کی شکل میں ہو یا بلڈنگوں، مشینوں اور زمینوں کی شکل میں ہو ۔ ہاں ! اگر اس میں ضرر کا خطرہ ہے یا نقصان وتغیر یقینی ہے اور استعمال سے وہ حیثیت نہیں رہے گی تو اس پر انتفاع جائز ہوگا۔ کرایہ داری، اجارہ وغیرہ بہت سے تجارتی اور آمدنی کے وسائل میں انتفاع اس اصول کے پیش نظر جائزہوگا۔ الغرض صرف ”سرمایہ ” دولت حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتا ہے ۔ اسلام کا یہ ایک بنیادی اصول ہے، جہاں اسلام اور موجودہ سرمایہ داری نظام کے ڈانڈے الگ ہوجاتے ہیں۔ سرمایہ داری نظام کے پیش نظر سرمایہ دولت کمانے کا ذریعہ ہے ، جس طرح چاہے وہ دولت حاصل کرسکتا ہے۔اسی بنیاد پر ”سود” کی حرمت اور ممنوع ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا، زیادہ سے زیادہ سود کی شرح زیر بحث آسکتی ہے ۔ اس نظام کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک شخص بیٹھے بٹھائے کروڑوں کا مالک بن سکتا ہے جہاں دوسرے کوڑی کیلئے محتاج نظر آتے ہیں۔ بلاشبہ افراد کیلئے یہ پابندی اشتراکیت بھی لگاتی ہے ، لیکن حکومت اور اسٹیٹ سرمایہ کو بغیر محنت وکسب دولت، مالا مال کا ذریعہ بنائے تو بناسکتا ہے۔ یہیں سے اشتراکیت اور اسلام کے راستے الگ ہوجاتے ہیں۔اسلام کے نزدیک افراد اور حکومت کیلئے ایک ہی قسم کا اصول ہے لیکن اشتراکی یہاں اکثر افراد و حکومت میں فرق کرکے سرمایہ داری نظام سے متفق ہوجاتا ہے۔در اصل مشکلات اسلامی نظام کے فقدان نے پیدا کردی ہیں۔ ان مختصر اشاروں سے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ معاشی مشکلات کا صحیح حل اگر ہے تو صرف اسلامی نظام میں ہے۔اشتراکی نظام میں معاشی حل ہے لیکن ناتمام پیٹ کا مسئلہ بھی اسلام اشتراکیت سے زیادہ بہتر طریقہ پر حل کرتا ہے۔ اگر مسلمان حکومتیں اسلامی نظام ہی پر عمل نہ کریں یا نہ سمجھیں تو یہ قصور حکمرانوں کا ہے، نظام اسلام کا نہیں ۔ رہا توحید ورسالت و آخرت کایقین ، مابعد الطبیاتی زندگی و حقائق پر ایمان لانا، اخلاق وعبادات کا وسیع تر نظام،مخلوق کا خالق سے رشتہ جوڑنا، روحانی نعمتوں کا کیف حاصل کرنا، فرشتہ سیرت انسان بننا، خدا کی مخلوق کیلئے اخلاقی ومعاشرتی لحاظ سے خدا کی رحمت بننا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصب خلافت کا حق ادا کرنا،ان حقائق سے اشتراکیت کا دامن خالی ہے۔ اشتراکیت یہاں آکر بالکل مفلس ہے۔ اس کے پاس ان حقائق کے حصول کیلئے کوئی وسیلہ نہیں ، خود حیران وپریشان ہے، چوراہے پر کھڑا منزل مقصود کے صحیح راستہ کا کوئی علم اس کے پاس نہیں ۔
برادرانِ ملت وعزیزان محترم ! یہ ہے اسلام اور یہ ہیںغیر اسلامی نظام۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسلمان بنایا ہے۔اسلام کی نعمت سے سرفراز فرمایا اور ایک اعلیٰ ترین نظام حیات عطا فرمایا ہے اور ہر قسم کے خزانے عطا فرمائے ہیں۔ ان نعمتوں کو ٹھکراکراعداء اسلام ودشمنان دین کے دروازوں پر جاکردریوزہ گری کرنا کہاں کی غیرت ہے؟کہاں کا انصاف ہے؟کیا عقل سلیم کا یہی تقاضا ہے۔ آؤ ! ہم تم آج سے عہد کرلیںکہ صحیح اسلام کیلئے جان توڑ کوشش کریں،جو نظام فلاح دارین کا صحیح ذریعہ ہے وہ حاصل کریں۔
ماہنامہ بینات کراچی اشاعت خاص بیاد حضرت مولانا عطاء الرحمن شہید
رجب المرجب ١٤٣٣ ہجری ، جون2012عیسوی
جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ سید محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی
اسلام کا اجنبیت کے سفرکی بڑی داستان
حضرت ابوطالب کی وفات ہجرت سے پہلے ہوئی تھی۔ حضرت عباس بدر کی جنگ میں دشمنان اسلام کے ساتھ قیدی بن گئے تھے۔ غزوہ بدر میں مشرکین مکہ کی طرف سے حضرت ہندہ کے بھائی ، باپ اور چچا نے مسلمانوں کو سب سے پہلے چیلنج کیا تھا۔ جن کے مقابلے میں نبی ۖ نے اپنے دو چچا امیر حمزہ ، حارث اور علی کو میدان میں اتارا۔ تینوں مشرک مسلمانوں کے ہاتھوں جہنم واصل ہوئے اور پھر مشرکوں کی ہمت ٹوٹ گئی،70مارے گئے اور70پکڑے گئے۔حضرت ہندہ نے اسلئے غزوہ اُحد میں حضرت امیر حمزہ کے کلیجے کو چباڈالا تھا۔ فتح مکہ کے وقت نبی ۖ نے حضرت ابو سفیان کو عزت بخشی تو ہندہ نے نبی ۖ سے عرض کیا کہ پہلے دنیا میں سب سے زیادہ برا آپ کا چہرہ لگتا تھا اور اب مجھے سب سے زیادہ محبوب آپ کا چہرہ ٔ انور لگتا ہے۔ حضرت امیر حمزہ کو شہید کرنے والے وحشی بھی سچے پکے مسلمان ہوگئے۔ اگر خلافت راشدہ کے بعد بنو اُمیہ کی امارت میں واقعہ کربلا کا سانحہ پیش نہ آتا تو حضرت وحشی کی طرح یزید کو بھی بھول جاتے۔
نبی ۖ نے امیر معاویہ کو ہادی اور مہدی بننے کی دعا دی تھی۔ قبول ہوئی تھی یا نہیں ؟ ۔ مگر حضرت امیر معاویہ کے دور کو خلفاء راشدین مہدیین کے دور میں شمار نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ حضرت عمر بن عبد العزیز بعد میں آئے لیکن ان کو مہدی اور ان کے دور کو خلافت راشدہ کے مطابق رشد و ہدایت کا دور کہا جاتا ہے۔
نبی ۖ نے حضرت ابن عباس کو بھی قرآن کی تاویل سمجھنے کی دعا دی تھی اور حضرت ابن عباس نے فرمایا تھا کہ ”قرآن کی تفسیر زمانہ کرے گا”۔ سورہ حج کی آیت ”اور ہم نے نہیں بھیجا کسی رسول اور نبی کو مگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس کی تمنا میں اپنی بات ڈال دی۔ پھر اللہ تعالیٰ شیطان کے ڈالے ہوئے کو مٹادیتا ہے اور اپنی کتاب کے احکام کو استحکام بخش دیتا ہے” ۔ابن عباس نے اس کی تفسیر میں لکھا کہ ”سورہ نجم نازل ہوئی تو شیطان نے نبی ۖ سے آیات میں لات منات اور عزیٰ کی توقیر اور شفاعت کے قابل ہونے کی بات کہلوائی”۔یہ حدیث مستند سمجھ کر بہت سارے معتبر مفسرین نے نقل کی ہے اور جنہوںنے اس کا انکار کیا ہے انہوں نے اس آیت کی کوئی قابل فہم تفسیر نہیں لکھی۔ ابن عباس کی یہ تفسیر مشرکین مکہ کے جھوٹے پروپیگنڈے کا نتیجہ تھا۔ جب سورہ نجم میں پہلی بار سجدے کی آیت نازل ہوئی اور اچانک نبی ۖ نے سجدہ کیا تو مشرکین نے بھی سجدہ کیا۔ بعد میں شیطانی آیات کا اپنی خفت مٹانے کیلئے جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جو مشرکین کے دل و دماغ میں سچ سمجھ کر بیٹھ گیا۔ فتح مکہ کے بعد جو لوگ مسلمان ہوئے انہوں نے سچ سمجھ کر ابن عباس کے دل و دماغ میں ڈال دیا۔ جب سورہ مجادلہ نازل ہوئی تو نبی ۖ کے دل و دماغ میں تمنا تھی کہ حلالہ کی لعنت سے بھی عوام کی جان چھوٹ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ اور سورہ طلاق میں حلالہ کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ جب اسلام اجنبی بن گیا تو شیطان نے نبی ۖ کی تمنا کا خون کرکے اپنی بات فقہاء کے دل و دماغ میں ڈال دی۔ سورہ حج کی آیت کی یہی تفسیر ہے۔ پہلے جب کسی نبی و رسول کی تعلیم کو تحریف کا نشانہ بنایا جاتا تو اللہ نئے کلام کے ذریعے سے شیطانی القاء کو مٹادیتے تھے۔نبی ۖ کی تمنا میں تو شیطان نے رخنہ اندازی کی ہے لیکن اللہ نے اپنے کلام کی حفاظت کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے اسلئے قرآن کے احکام بھی بالکل محفوظ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ۖ کی بعثت سے دین حق کو تمام ادیان پر غلبہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ وعدہ نبی کریم ۖ کے بعد خلافت ، امارت اوربادشاہت کی صورت میں1924تک ایک سپر طاقت کی طرح موجود تھا لیکن افسوس کہ اس کا فائدہ اٹھا کر قرآنی احکام کے مطابق مسلمانوں نے تسخیر کائنات کا فلسفہ نہیں اپنایا۔ حالانکہ ان کے پاس دنیا کے سب سے بڑے اور عظیم سائنسدان تھے۔ یہ لالے سلطنت عثمانیہ کے خلفاء ساڑھے چار ہزار لونڈیاں رکھنے کے ریکارڈ قائم کررہے تھے۔ اور مغل بادشاہ اپنی بیگم کی یاد میں تاج محل بنارہے تھے۔ دنیا نے تسخیر کائنات کیلئے جدید ترین یونیورسٹیاں قائم کیں اور اپنے اقتدار کے ذریعے نہ صرف وسائل پر قبضہ کیا بلکہ جاپان پر ایٹم بم تک گرادئیے۔ اب جب مسلمان کھانے کو ترس رہے ہیں اور جو بھی ان کو خود کش کیلئے بھرتی کردے تو دلوں میں پوری دنیا کو فتح کرنے کا سودا سمایا ہوا ہے۔ عرب پہلے بھی فارسیوں اور رومیوں سے طاقتور نہیں تھے لیکن ان کا معاشرتی ، معاشی اور سیاسی نظام سب سے بہترین تھا۔ اسلئے قیصر و کسریٰ کی سپر طاقتوں کو تہبند پہننے والے عربوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ اگر صرف آج دنیا میں عورت کے حقوق اور اسلام کے معاشرتی مسائل کو شیطانی تمناؤں سے پاک کرکے دنیاکے سامنے پیش کیا جائے تو بعید نہیں ہے کہ جمہوری بنیادوں پر پھر ووٹ کے ذریعے سے اسلامی خلافت قائم ہوجائے۔ عورت صنف نازک کو اسلام نے برابری کے حقوق نہیں دئیے بلکہ ان کو بہت زیادہ اضافی حقوق دئیے ہیں لیکن شیطان نے مذہب کا روپ دھار کر اسلام کے نام پر عورت کے ساتھ وہ سلوک کیا ہے جو دورِ جاہلیت میں بھی نہ تھا۔
اسلام نے مزارعت کو سُود قرار دے کر نہ صرف جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی بیخ کنی کی ہے بلکہ مادر پدر آزاد سوشلزم کا راستہ بھی روکا ہے۔ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نے جس معاشی نظام کا نقشہ پیش کیا ہے آج ان کے اپنے مدرسے سمیت سب سرمایہ داری نظام کے آگے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ اگر سُود کو علماء و مفتیان کے فتوؤں کے مطابق شریعت کی بنیاد پر جائز قرار دیا تو کیا یہ اُمت کی تقدیر بدلنے کا باعث ہوگا؟۔ اگر اسلام کے معاشرتی نظام کو قرآن اور احادیث صحیحہ سے پیش کیا جائے تو فرقوں ، مسالک، گروہوں اور جماعت بندی کے سارے حربے ملیامیٹ ہوجائیں گے۔ ہم نے اس کیلئے مجبوری میں ایک منظم جماعت بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اُمید ہے کہ ہمارے ساتھ ملکر تمام مکاتب کے علماء و مفتیان اور عوام الناس بہت بنیادی کردار ادا کریں گے۔32سالوں سے ہمارے مخلص ساتھی اپنی مدد آپ کے تحت جس تحریک کا بوجھ اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ ہماری تائید کرنے والے اپنے کردار سے عوام میں اس عظیم مشن کو پھیلانے میں شانہ بشانہ شریک ہوں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکستان میں انقلاب آئے گا! مولانا طارق جمیل اور مولانا فضل الرحمن دنیا میں کیسے ”حور” بن سکتے ہیں؟۔

پاکستان میں انقلاب آئے گا! مولانا طارق جمیل اور مولانا فضل الرحمن دنیا میں کیسے ”حور” بن سکتے ہیں؟۔

کرپٹ اشرافیہ سیاستدان، جرنیل، جج،صحافی، مفتی اور تمام خوشحال طبقہ بدحال ہوکر دنیا ہی میں ”حور” بن سکتا ہے؟

پاکستان میں تمام کرپٹ خانوادے انشاء اللہ عنقریب ”حور” بن جائیںگے اسلئے انہوں نے بڑے بڑے ہاتھ مارے اور غرباء کا خیال نہ رکھااور ملک وقوم کو تباہی کے دھانے پر پہنچادیا ہے

قرآن میں خوشحال لوگوں کے” حور”یعنی بدحال بننے کی نشاندہی ہے اور نبیۖ نے کور بننے کے بعد ”حور” بننے سے اللہ کی پناہ مانگی ۔ سورۂ رحمان، سورۂ واقعہ اور دیگر سورتوں میں ذکرہے!

فکرِشیخ الہند مولانا فضل الرحمن، مولانا شیرانی ، تبلیغی جماعت اور دیوبند ی مدارس کرتے مگر یہ خود گروہ بندی کا شکار ہیں ۔ اپنے مفاد کا تحفظ نہیں بلکہ رجوع الی القرآن مسائل کاحل ہے۔

پاکستان کی اشرافیہ نےIMFاور جنگوں کے نام پر قرضوں اور امداد سے اپنا اُلو سیدھا کیا لیکن مزارعین، بھٹہ خشت مزدوروںاور غریب لوگوں کا کچھ خیال نہیں رکھا۔ ان کی زکوٰة ، خیرات اور صدقات بھی مذہبی طبقہ اور کئی سارے رفاعی اداروں کے مالکان کھا گئے۔ آنے والے رمضان میں سب لوگ اپنے اکاؤنٹ سے زکوٰة نکال کر غریبوں کے ہاتھ میں پہنچائیں جو بھوکے ننگے مررہے ہیں ۔ سیاسی جماعتوںاور مذہبی مدارس کو بھی رحم نہیں آرہاہے۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت کو سیلاب متأثرین کی امداد میں کردار ادا کرنے پر ہم نے اپنے اخبار کے صفحہ اول میں بڑی جگہ دی تھی۔ کوئٹہ جلسہ میں اقوام متحدہ کی طرف سے بھیجے گئے ٹینٹ سیلاب زدگان کو دینے کے بجائے چوتڑوں کے نیچے بچھائے گئے تھے”۔ حضرت عمر نے نبی ۖ سے کہا کہ ” ہمیں وصیت کی ضرورت نہیں ، ہمارے لئے قرآن کافی ہے”۔ حضرت ابوبکر نے حضرت فاطمہ سے کہا کہ ” باغ فدک کی وصیت نہیں چلے گی اسلئے کہ انبیاء درہم ودینار کی وراثت نہیں چھوڑتے”۔ ایک عام صحابی نے حضرت عمر سے کہا کہ ” پہلے یہ واضح کردو کہ آپ کا کرتہ کیسے بنا؟، جبکہ ہم اپنے حصے کے کپڑے سے کرتہ نہیں بناسکتے ہیں”۔ عوام کے پاس کرتہ نہیں ہوتا تھا تو اسلام نے حج وعمرے میں احرام کا حکم دیا تاکہ لوگ کرتہ وشلوار بنانے کی استعداد نہیں رکھتے ہوں تو امیر غریب کا ایک لباس ہو۔
مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام تمام مذہبی جماعتوں سے زیادہ تحمل اور برداشت رکھتی ہے لیکن کوئی اُٹھ کر سوال اٹھاتا کہ سیلاب زدگان کے ٹینٹ کا جلسہ گاہ میں کیا حق بنتا ہے؟۔ تو غریب کو ڈنڈوں سے مار کر شہید کرنے کا خطرہ ہوتا۔ پرویزمشرف ساری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کیلئے پاکستان کا صدر مملکت تھا۔ بے تاج بادشاہ نے طالبان کا خون کرکے پاکستان کو ڈالروں سے مالا مال کردیا تھا۔ کراچی سے چترال ، لاہور سے تربت وگوادر تک ریکارڈ ترقیاتی کام بھی کئے تھے لیکن اس کا بیٹا سیدبلال فیکٹریوں، ملوں اوراداروں میں ملازمت کررہاہے۔ بیٹی آرکیٹیکٹ ملازمت کررہی ہے۔ جبکہ ہمارے مذہبی سیاسی خانوادوں کے صاحبزدگان اپنے ہاتھ کے کام اورکسی ملازمت کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ان کے بچوں کی کمپنیوں کے ان کے باپ بھی جعلی ملازم بنتے ہیں۔ اقامہ پر نوازشریف کو نااہل قرار دیا گیا تو یہ کہتے ہوئے شرم نہیں آتی کہ بیٹے سے تنخواہ نہیں لی اسلئے نکال دیا۔” مجھے کیوں نکالا؟ ووٹ کو عزت دو”۔ جس نے نکال دیا تھا تو اسی کو بیرون ملک لندن میں بیٹھ کر کیو ں ایکسٹینشن دی تھی؟۔ جس پر کیپٹن صفدر نے بھی کہہ دیا کہ ”ہمیں اب ووٹ کو عزت دو ،کا کوئی حق نہیں ”۔
حامد میر نے انکشاف کیا کہ ”جنرل قمر جاوید باجوہ نے آخری وقت تک یہ کوشش کی کہ عمران خان کی حکومت قائم رہے ” اور جاوید چوہدری نے اس کے بالکل برعکس انکشاف کیا ہے تو پھر ان دونوں میں سے سچا اور جھوٹا کون ہے؟۔
مذہب ، فرقہ واریت اور سیاسی نفرتوں سے فائدہ کرپٹ عناصر ہی اٹھاتے ہیں اور صحافی بھی کسی نہ کسی کی وکالت کرکے اپنا دانہ حاصل کرتے ہیں مگر غریبوں کا پاکستان میں بیڑہ غرق ہے۔ مذہبی اور سیاسی نفرت کی جگہ محبت وشفقت سے افہام وتفہیم کی فضاء پیدا کرکے فکرو شعور اور احتساب کی سخت ضرورت ہے۔
فوج کے جرنیلوں اور ججوں کا آئین میں احتساب نہیں ۔ سیاسی لوگوں نے پارلیمنٹ کے ذریعے نیب کے قوانین ختم کردئیے ۔ پہلے بھی مولانا فضل الرحمن نے نیب کی طاقت کو چیلنج کرکے اپنے پاس اور پھر مریم نواز کے پاس بھی نہیں آنے دیا تھا۔ احتساب، کیس اور جیل صرف کمزوروں اور غریبوں کا مقدر ہے اور جنہوں نے ملک کو لوٹ کر کھالیا ہے وہ احتساب سے بالکل بالاتر ہیں۔
قرآن کی سورۂ رحمن میں اللہ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرنے والوں کیلئے دو جنت کا ذکر ہے۔ یہ دنیا کی دو جنتیں ہیں اسلئے کہ آخرت میں سب کیلئے ایک ہی جنت ہوگی ۔ بڑی جنت الفردوس یا چھوٹی جنت۔پھر اللہ نے فرمایا کہ ومن دونھما جنتان ” اور دو کے علاوہ دو جنت اور ہوںگے”۔ یہ بھی دنیا کے دو باغات ہوں گے۔ ایک طرح کے باغات سبقت لے جانے والوں کیلئے اور دوسری طرح کے باغات اصحاب الیمین کیلئے ہوں گے اور تیسری طرح والے مجرم ہوں گے جن کو اصحاب الشمال کہا گیا ہے۔ دو سمندروں کے بیچ میں برزخ یعنی آڑ کا ذکر ہے ،اسی طرح قرآن میں دنیا کے اندر جہنم کی سزا کا ذکر ہے۔ سورہ ٔ رحمن میں دنیاوی جہنم کا ذکر ہے کہ مجرموں کو سزا ملے گی۔ سورۂ واقعہ میں ہے کہ ”یہ گرم ہواؤں و گرمی میں ہوں گے اور سائے میں جو گرمی پہنچائے گا۔ جونہ ٹھنڈاہوگا اور نہ عزت والا ۔بیشک اس سے پہلے یہ خوشحال ہوں گے ۔ بیشک اس سے پہلے یہ بڑے بڑے ہاتھ مارنے (کروڑوں اوراربوں کی کرپشن پر) اصرار کرتے ہوں گے اور ان کا یہ ایمان نہ ہوگا کہ آخرت ہوگی اور سابقہ آباء سے ملاقات پر ان کو بڑا تعجب ہوگا ”۔ (سورہ واقعہ)
جب پاکستان غریبوں اور اچھے لوگوں کیلئے جنت بن جائے گا اور کرپشن کا راستہ رُک جائے گا تو کرپشن میں نہال خاندان انڈسٹریل ایریاکے فیکٹریوں اور ملوں میں اپنا پیٹ پالنے کیلئے محنت مزدوری کریںگے۔جب تک پاکستان میں یہ کرپشن کیلئے بڑے بڑے ہاتھ نہ ماریں تو بیرون ملک ان کا گزارہ نہیں ہوسکتا ۔ مریم نواز نے سچ کہا کہ اسکے پاس کچھ بھی نہیں لیکن جب دوبارہ اقتدار کی یاترا کرلی تو پھر بہت مال بنالیا اسلئے پاکستان آج لڑکھڑا رہاہے۔ان کے پاس2008سے2013تک پنجاب کی حکومت رہی۔مرکز میںIMFاور دنیا بھرسے2013تا2018تک اتنے قرضے لئے کہ عمران خان کوIMFمیں خودکشی کرنے کیلئے مجبوراً جانا پڑگیا تھا۔ ا ب حکومت نے بہت کم مدت میں پھر خزانہ ختم کرکے ملک کو تیزی سے دیوالیہ بنانے کی طرف پہنچادیا ہے۔
اللہ نے فرمایا : انہ ظن ان لن یحور ” بیشک وہ سمجھتا ہے کہ وہ حور نہیں بن سکتاہے”۔ اللہ نے خوشحال سے بدحال بنادیتاہے ۔ نبیۖ نے دعا مانگی تھی کہ ”اللہ کور کے بعد حور نہ بنائے”۔ بنوامیہ، بنوعباس، سلطنت عثمانیہ اور مغلوں کے خاندانوں کیساتھ تاریخ میں کیا ہوا تھا؟۔ یہ کم عبرت ہے؟۔
آج ہمارے سیاسی خانوادے، بعض کرپٹ جج اور جرنیل اور علماء ومفتیان سمجھتے ہیں کہ اب ہم ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ تنزلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ حضرت حاجی محمد عثمان کے خلفاء اور الائنس موٹرز کے مالدار مالکان پہلے غریب تھے اور پھر بہت دولت مند بن گئے اور پھر ان کے دن ایسے بدلے کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ مولانا طارق جمیل ایک غریب مولوی تھا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں کبھی کبھی مسجد میں بیان کرنے آجاتا تھا۔ مولانا فضل الرحمن بسوں میں سفر کرتے تو بلانے والے کرایہ دیا کرتے تھے۔مولانا مفتی محمود کے ٹین کا دروازہ اور کچا مکان مشہور تھا کہ وزیراعلیٰ رہنے کے باوجود فقیرانہ زندگی کا شعار اپنائے ہوئے ہیں۔ جن نوابوں ، خانوں اور سرمایہ داروں کے مقابلے میں مفتی محمود اور پھر مولانا فضل الرحمن الیکشن لڑتے تھے آج وہ مولانا کے ساتھی ہیں اور مولانا ان سے زیادہ بڑے جاگیردار اور سرمایہ دار کا روپ دھار چکے ہیں۔
عمران خان نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا لیکن جونہی پرانے حکمرانوں کی شکلیں اور کارکردگی دیکھ لی تو لوگوں میں نفرت کی آگ بھڑک اُٹھی ہے۔ جاوید چوہدری جیسے صحافی نوازشریف کیخلاف ایک لفظ نہیں بولتے۔
جاوید چوہدری نے اپنے ایک تازہ ویلاگ میں کہا ہے کہ” اسلام آبادF9پارک کے واقعہ میں پشتو اسپیکنگ ملوث ہیں۔افغانستان اور پختونخواہ سے آنے والوں کی بڑی تعداد اسلام آباد کسی ایڈریس کے بغیر رہتے ہیں۔ اگر ان کو جیل میں ڈالا جائے تو وہ خوش ہوں گے کہ کھانا، رہائش اور پنکھا بھی مفت کا ملے گا۔ رپورٹ یہ ہے کہ5،6ماہ بعد ان لوگوں کے ہاتھوں اسلام آباد میں جینا دوبھر ہوجائے گا۔ کسی بھی معاشرے میں جرائم اس وقت ہوتے ہیں کہ جب ان کو سزا نہیں ملتی ۔ قصور کے زینب کیس میں مجرم کو پھانسی کی سزا مل گئی تو جرائم بہت عرصہ تک رُک گئے تھے۔ اسی طرح موٹر وے پر واقعہ ہواتو جب ریاست نے پکڑنے کی کوشش کی تو مجرموں کو پکڑ لیا اور اس کے بعد پھر آج تک موٹر وے پر واقعہ نہیں ہوا ”۔
جاوید چوہدری نے اپنے ویلاگ میں بتایا کہ اس کا پروڈیوسر کوئی اور ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ جاوید چوہدری اپنے ذہن سے پروگرام تشکیل دیتاہے لیکن جب اس کی حیثیت ایک کٹھ پتلی کی ہے تو یہ قوم پر واضح ہونا چاہیے کہ طوطے نے اپنی نہیں کسی اور کی زباں بولنی ہے۔ یہ اور کون ہے؟۔ پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور سب کیخلاف کسی نہ کسی ایشو پر بات کرنے دیتا ہے مگر ن لیگ کیخلاف نہیں ۔
عمران خان کے لونڈوں اور لپاڑوں کی کوئی زیادہ حیثیت بھی نہیں ہے لیکن نوازشریف نے سارے اچھے لکھاری اور گفتار کے غازی بھرتی کرلئے ہیں۔ ہم سیاست سے زیادہ دینی معاملات کی اصلاح کے درپے ہیں لیکن دین بھی سیاسی معاملے سے زیادہ جدا نہیں ہے۔ قرآن وسنت کے احکام دین ہیں ۔ اولی الامر کی اطاعت بھی قرآن کا حکم ہے لیکن تنازعہ ہوجائے تواس کو اللہ اور رسولۖ کی طرف لوٹانے کا حکم ہے۔ اولی الامر کی حیثیت سے خلفاء راشدین بلکہ رسول پاک ۖ سے بھی قرآن وسنت میں اختلاف کی گنجائش تھی۔ سورۂ مجادلہ، غزوۂ بدرکے قیدیوں پر فدیہ،حدیث قرطاس، صلح حدیبیہ میں حضرت علی کارسول اللہ کے لفظ کونہ کاٹنا وغیرہ بہت سارے معاملات کی مثالیں موجود ہیں۔ قرآنی احکام بھی مسخ کئے گئے ہیں، سیاست کا توآوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔
جاوید چوہدری نے اپنے پروڈیوسر کاانکشاف اسلئے کیا کہ زینب کے واقعے کے بعد بھی بہت سارے واقعات کا تسلسل رہاہے۔ بس کے ائیر ہوسٹس کیساتھ تو کنڈیکٹر اور ڈرائیور نے زیادتی کی ہے جو پختونخواہ اور جنوبی پنجاب سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ شمالی پنجاب میں کس کس قسم کے مظالم نہیں ہوتے ہیں؟۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے لیکن جرائم کے رُخ کو کسی ایک جانب سے موڑ کر دوسری جانب کردینا انصاف کا تقاضا نہیں ۔ پختونخواہ اور بلوچستان میں پولیس سے زیادہ پاک فوج کا عمل دخل ہے۔ جب وزیرستان اور سوات سے نقل مکانی کروائی گئی تو نوازشریف کے دور میںAPSکاواقعہ ہوا تھا۔ عمران خان نے بھی دھرنا چھوڑ دیا تھا۔ نوازشریف کی جان صحافی راشد مراد کھریاں کھریاںMRTVلندن نے اردو اور پنجابی میں ویلاگ کیا کہ ” پشاور آرمی پبلک سکول کا واقعہ پاک فوج نے اسلئے کروایا کہ عمران خان کی ضرورت پوری کی جائے اور دھرنے کی شرمندگی سے بچنے کیلئے فیس سیو ایگزٹ مل جائے”۔ اب پشاور پولیس کا واقعہ ہوا تو عمران خانی کہتے ہیں کہ الیکشن کو التوا میں ڈالنے کیلئے پھر قتل کی سنچری پوری کی گئی ہے۔ نوازشریف کے دور میںقومی ایکشن پلان بن گیا اور پھرAPSکے واقعہ میں جن لوگوں کو پھانسی کے پھندہ پر لٹکایا گیا ،ان میں منظور پشتین نے اپنا ایک بے گناہ ذاتی دوست بھی بتایا تھا کہ چند سال قبل اس کو لاپتہ کیا گیا تھا اور پھر اس کوAPSکے واقعہ میں ملوث قرار دیا گیا۔ سوات سے مولانا فضل اللہ بھاگ گئے ۔ مسلم خان، محمود خان گرفتار تھے اورتین تین مرتبہ پھانسی کی سزا بھی سنائی گئی مگر نوازشریف نے یہ ترکہ عمران خان کیلئے چھوڑ دیا تھا اور پھر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چھوڑ دیا ۔
بیوورکریسی تو ویسے بھی تباہ ہے۔ عدالت مُنّی بھی شروع سے بدنام ہے اور فوج کا بھرکس بھی نکل گیا ہے۔ سیاستدان اور مولوی سے بھی اعتماد اُٹھ چکا ہے اور انقلاب کیلئے کوئی منظم جماعت بھی تیار نہیں۔ دہشت گردی بھی سر پر منڈلا رہی ہے۔مفتی اعظم پاکستان شیخ الحدیث مولانا مفتی زرولی خاننے کہا تھا کہ ”علامہ سید محمد یوسف بنوری نے الاستاذ مودودی لکھی تو جماعت اسلامی نے ان کا سامان ضبط کرانے کا سرکاری بندوبست کرلیا کیونکہ سعودی عرب میں ان کے اچھے تعلقات تھے لیکن حرم کے امام کیساتھ مولانا بنوری کی ذاتی دوستی تھی اسلئے وہ تفتیش اور تلاشی ختم کی گئی۔ علامہ بنوری اپنی کتاب پہنچانے میں کامیاب ہوگئے لیکن عرب سید قطب اور سید مودودی سے بہت متأثر تھے۔ مولانا بنوری نے کہا تھا کہ کتاب کا نام یہ رکھوں گا کہ صنمان یعبدان فی الجزیرة ” دو بت جن کو جزیرة العرب میں پوجا جاتا ہے”۔ لیکن وہ یہ کتاب نہیں لکھ سکے۔ بنوری نے فرمایاتھا کہ سید قطب اور سید مودودی دونوں ناصبیت کی جدید شکل ہیں۔ جن کے مضر اثرات سے عرب بالکل بے خبر ہیں”۔
آج جدیدناصبیت کے اثرات نے خوارج جدید کی طرح دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے اور دیوبندی ، بریلوی ، اہلحدیث اور شیعہ بھی اس سے متاثر ہیں۔ اس کا علاج تعصبات کو ہوا دینا نہیں ہے۔ اگر رسول اللہ ۖ فتح مکہ کے بعد سب کو معاف کرسکتے ہیں اور حضرت علی نے حضرت ابوسفیان کے کہنے پر حضرت ابوبکر کو خلافت سے اتارنے کیلئے تحریک کا آغاز نہیں کیا تو ہمیں بھی حضرت نبیۖ اور علی کی سنت پر چلتے ہوئے تمام سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ وہ وقت دور نہیں کہ حضرت ابوطالب کے خلاف سنیوں کے دل صاف ہوں گے اور حضرت عمر کے خلاف شیعوں کے دل صاف ہوں گے۔ اسلام کیلئے اولین مسلمانوں نے جو خدمات انجام دیں ان کے تصور سے بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ قرآن کی درست تفسیر کیلئے باہمی اعتماد کا رشتہ قائم کرنا ضروری ہے۔
عربی کا ایک عام قاعدہ یہ ہے کہ پہلے موصوف اور پھر صفات کا ذکر ہوتا ہے۔ سورۂ رحمان میں باغات اور ان کی صفات کا ذکر ہے۔ مردان میں ہمارے ایک مہربان پیر شکیل صاحب کا تعلق بریلوی مکتبہ فکر سے ہے اور جمعیت علماء اسلام میں بھی انہوں نے شرکت کا اعلان کیا تھا۔ سفید جامع مسجد کے امام ہیں۔ پشاور اور ٹانک کی طرح مردان میں بھی سفید مسجد کی تاریخی حیثیت ہے۔ پیر شکیل صاحب نے ہمارے لئے نیک تمناؤں اور ہر طرح سے تعاون کا اظہار کیا ہے اور ساتھ میں یہ بھی فرمایا ہے کہ ”حور کی تفسیر سے وہ متفق نہیں ہیں”۔ سچی بات ہے کہ مجھے اس بات سے اتنی خوشی نہ ہوتی کہ وہ اتفاق کا اظہار کرتے جتنی خوشی اس بات سے ہوئی ہے کہ وہ اس سے متفق نہیں ہیں”۔
ولمن خاف مقام ربہ جنتان،ذواتا افنان، فیھا عینان تجرےٰن ، فیھا من کل فاکھة زوجٰن، متکئین علی فرشٍ بطائنھا من استبرقٍ و جنا الجنتین دان ، فیھن قٰصٰرت الطرف لم یطمثھن انس قبلھم ولا جان ، ھل الجزاء الاحسان الا الاحسان ” اور اللہ سے ڈرنے والوں کیلئے دو باغات ہوں گے۔ جس میں دوچشمے جاری ہوںگے۔ اس میں ہر پھل کی دوقسمیں ہوں گی۔وہ بیٹھے ہوں گے تکیہ لگائے جنکے استراطلس کے ہوںگے۔ اور دونوں باغ کے پھل قریب لٹک رہے ہوںگے۔ ان کے اطراف چھوٹے قامت کے ہوںگے۔ اس سے پہلے ان کوانسان اور جن نے نہیں چھوا ہوگا۔ جیسے وہ یاقوت اور مرجان ہوں۔ کیا اچھائی کا بدلا اس کے سوا کیا ہے کہ اچھائی ہو؟”۔
ان آیا ت میں صرف مردوں کیلئے خوشخبری نہیں بلکہ خواتین بھی شامل ہیں۔ ان میں دو باغات کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ جن میں دوچشمے بہتے ہوںگے ۔ ہرقسم کے پھل کی دودو قسمیں ہوں گی۔ ایک شوگر والی اور دوسری شوگر فری ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ان میں فنکاری کا خوب استعمال ہوگا۔ آج کل ویڈیوز پر باغات کی نئی اقسام دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے باغات کا پہلے تصور بھی نہیں تھا جن کے پھلوں کے رنگ یاقوت اور مرجان کی طرح خوش منظر ہوتے ہیں۔ اسلئے فرمایا گیا کہ” اس سے پہلے انسان اور جن نے ان کو چھوا نہیں ہوگا”۔ جنتی خواتین اور مردوں کو اللہ نے ویسے بھی الطیبون اور الطیبات کہا ہے۔اگر حوروں کو انسانوں اور جنات نے نہیں چھوا ہے تو جنت کی خواتین بھی چکلوں سے تو نہیں نکالی گئیں ہیں؟۔ اس طرح تو انسان نیک طینت خواتین کی توہین واہانت ہوجاتی ہے۔ جب انقلاب آئے گا تو نیک لوگوں کو ایسے دوباغات انعام میں مل جائیںگے جو ترقی یافتہ دور کی وجہ سے پہلے دنیا میں ایسے پھل اور باغات کا وجود نہیں ہوگا۔ اسلئے جن وانس نے ان کو اس سے پہلے چھوا نہیں ہوگا لیکن جب وجود میں آئیں گے تو چھوا بھی ہوگا اور کھایا بھی ہوگا۔ پہلے چھونے کی نفی ہے اوربعد میں چھونے کی خبر ہے۔
ان آیات میں باغات اور پھل موصوف اور ان کی صفات ہیں۔ اور اللہ سے ڈرنے والے موصوف ہیں اور اطلس کے غلاف والے تکیہ پر ٹیک لگاکر بیٹھنے کی حالت ہے اور پھر دونوں باغات اور پھل موصوف اور ان کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ میری خواہش ہے کہ تمام مکاتبِ فکر والے قرآن کا درست ترجمہ کریں۔ وزیرمذہبی امورمولانا عبدالشکور بیٹنی اور وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے اعلان بھی کیا ہے۔ہماری قوم کو رہنمائی کایہ سب سے بہترین تحفہ مل جائے گا۔
ومن دونھما جنتٰن، مدھآمتٰن،فیھا عینان نضاحتٰن ، فیھمافاکھة و نخل ورمان ، فیھن خیرٰت حسان ، حور مقصورٰت فی الخیام ، لم یطمثھن انس قبلھم ولاجان ، متکین رفرف خضرٍ و عبقریٍ ”اور ان دونوں کے علاوہ دوباغ اور ہوں گے۔ جو گہرے سیاہ مائل سبز رنگ کے ہوں گے۔ ان میں دو اُبلتے چشمے( فوارے) ہوںگے۔ ان میں پھل ہوں گے، کھجور اور انار ہوں گے۔ جو بہترین ذائقے اور خوشنما شکل والے ہوں گے۔ ( یہ پھلوں کی صفات ہیں اور جب عورتوں کا تذکرہ نہیں توان کی صفات کہاں سے آئیںگی؟) جدت والے پودے خیموں میں بند ہوں گے۔ ان کو پہلے انسان نے چھوا ہوگا اور نہ جن نے ۔ (اللہ سے ڈرنے والا دوسرا طبقہ اصحاب الیمین والے) سبز قالینوں اور نفیس مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے”۔ سورہ رحمن کی آیات کا انشاء اللہ عنقریب دنیا مشاہدہ کرے گی۔
سورہ رحمن کے بعد سورہ واقعہ میں بھی ان کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ صحابہ کرام میں السابقون السابقوں اور مقربوں کی بڑی جماعت تھی لیکن دوبارہ طرزِ نبوت کی خلافت قائم ہوگی تو یہ بہت چھوٹی جماعت ہوگی۔ البتہ اصحاب الیمین میں پہلوں کی بھی بہت بڑی جماعت تھی اور آخر میں بھی بہت بڑی جماعت ہوگی ۔ تیسرے مجرموں کی جماعت ہوگی جن کو اصحاب الشمال قرار دیا گیا ہے۔
حجاز مقدس میں مکہ سے مدینہ تک کوئی نہر ،پانی کا نالا اور چشمہ نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے مشرق کی سپر طاقت فارس اور مغرب کی سپر طاقت روم کو شکست سے دوچار کرکے صحابہ کرام کیلئے دنیا میں باغات کے انبار لگادئیے تھے۔ دنیا ہی میں ان کو جنت بھی مل گئی تھی۔ دنیا کے تخت وتاج ان کے قدموں میں تھے۔
جب دوبارہ طرز نبوت کی خلافت قائم ہوگی تو دنیا میں جتنی جدت سے ترقی ہوئی ہے تو آخری دور والوں کو اس طرح کے باغات ملیںگے۔ ایک انقلاب عظیم کی خبر آخری دور کیلئے ہے جو درمیانہ زمانے سے شروع ہوگا۔ سورہ الحدید میں امت کے دو حصوں کا ذکر ہے ۔ کفلین میں نصف اول گزر چکاہے اور نصف آخر ابھی شروع ہونے والا ہے۔ دجال اکبر، مہدی آخری امیر امت سے قبل بھی قرآن کی بنیاد پر انقلابات آئیں گے اور دنیا قرآن سے مستفید ہوگی۔
یاایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ واٰمنوا برسولہ یؤتکم کفلین من رحمتہ ویجعل لکم نورًا تمشون بہ ویغفرلکم واللہ غفور رحیم O”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اسکے رسول پر ایمان لاؤ۔ وہ تمہیں رحمت کے دو حصے عطا فرمائے گا،اپنی رحمت سے۔اور تمہارے لئے نور بنادے گا ، جس سے تم چل سکوگے اور تمہاری مغفرت کرے گا اور اللہ غفور رحیم ہے”۔
پہلا حصہ نبوت ورحمت سے اللہ نے شروع کیا تھا۔ خلافت راشدہ، امارت اور سلطنت عثمانیہ کی بادشاہت تک اقتدار تھا۔ پھر دوسرے حصے میں دوبارہ طرزنبوت کی خلافت سے معاملہ شروع ہوگا اور بارہ ائمہ کے آخری امام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک چلے گا۔ آج یہودونصاریٰ سمجھ رہے ہیں کہ ان کا اقتدار اب کبھی ختم نہیں ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ نے خبردار کردیا ہے کہ
لئلا یعلم اھل الکتٰب الا یقدرون علی شئٍ من فضل اللہ وان فضل بیداللہ یؤتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم O ” اسلئے تاکہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ کچھ بھی قدرت نہیں رکھتے جب تک اللہ کا فضل میسر نہ ہو۔ اور یہ بھی جان لیں کہ فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے۔اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے”۔ سورہ الحدید سورہ رحمن اور سورہ واقعہ کے بعد ہے اور یہ اس کی آخری آیات ہیں۔ اس سورہ میں اللہ نے حدید کا ذکرکیا ہے جس میں نفع بخش چیزیں ہیں اور جنگ کے سخت الآت بھی۔ کافروں نے اس کو دنیا میں فسادات پھیلانے کیلئے استعمال کیا اورمسلمانوں کا مشن یہ ہوگا کہ اس کو صرف ترقی وعروج اور نفع بخش معاملات کیلئے استعمال کیا جائے گا۔
پاکستان میں حنفی مسلک کی ایک شاخ دیوبندی مکتب ہے ۔دوسری بریلوی ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اور حاجی محمد عثمان کے علاوہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے اللہ نے سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے، مفتی محمود، علامہ یوسف بنوری اور خواجہ خان محمدتک خدمت لی اور دوسری طرف مولانا ابوالحسنات احمد قادری، مولاناشاہ احمد نورانی ،مولانا مفتی خالد حسن مجددی اور علامہ خادم حسین رضوی تک سب نے قربانیاں دی ہیں۔ہماری تحریک میں بھی دیوبندی اکابر، بریلوی اکابر، اہلحدیث اکابر ، جماعت اسلامی اکابر ، ڈاکٹر اسراراور اہل تشیع اکابر سب کا بھرپور حصہ ہے۔ تائیدی بیانات سامنے آئیںگے تو نئی نسل حیران ہوگی ۔
سورہ واقعہ میں دنیا کے اندر مجرموں کا الگ سے ذکر ہے اور آخرت میں ان کا الگ سے ذکر ہے۔ دنیا میں سب سے بڑا جرم کرپشن کے ذریعے عیش کرنے کا معاملہ بیان ہوا ہے اور محنت کش انہی کی وجہ سے خوار اور پریشان ہیں۔ آج کا ماحول بھی ایسا ہے کہ سب سے بڑا گناہ کرپشن کو سمجھا جاتا ہے۔ کیپٹن صفدر نے کہا کہ عمران خان کی نجی زندگی پر بات کرنا میری غلطی ہے ،اس سے دوسرے بھی محفوظ نہیں ہوں گے۔ صحافیوں کو چاہیے کہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کریں۔
خلع کی عدت شریعت میں ایک حیض یا ایک ماہ ہے۔ عمران خان نے جب بشری بی بی سے نکاح کیا تھا تو عدت پوری ہوچکی تھی لیکن شاید انہوں نے تاریخ کا حساب کتاب نکال کر وزیراعظم بننے کیلئے اس غلطی کا ارتکاب کر ڈالا کہ عدت سمجھتے ہوئے بھی نکاح کیا۔ اسلام سے پہلے راجہ داہر کی حکومت تھی۔ نوازشریف اور بینظیر بھٹو نے بھی ننگے بابا سے ڈنڈیاں کھاکر اقتدار حاصل کرنے کی عقیدت رکھی تھی۔ راجا داہرکی ایک سوتیلی بہن تھی اور نجومیوں سے اس کو معلوم ہواتھا کہ اس کا شوہر سندھ کا راجہ بنے گا۔ وزیر نے کہا کہ لوگ بادشاہ بننے کیلئے بھائیوں کو قتل کرتے ہیں،آپ بہن سے نکاح کرلوگے تو کونسی بڑی بات ہے؟۔ راجہ داہر نے کہا کہ بہت بدنامی ہوجائے گی۔ بہر حال راجہ داہر نے آخر کار اس کے ساتھ ہندوانہ رسم کے مطابق نکاح کرلیا۔ اس سے ملے بغیر اس کو گھر بھیج دیا اور دل میں خوش تھا کہ اب سندھ کا راجہ کوئی اور نہیں بنے گا۔
راجہ داہر، نوازشریف ، بینظیر بھٹو، کالے بکرے صدقے کرنیوالا زرداری تک سب ایک ہی طرح کے توہمات میں مبتلاء تھے اور عمران خان نے بھی بشریٰ بی بی کے عملیات کے مطابق بابا فرید کے مزار کی راہداری کو بوسہ دیا اور خاص قسم کے کلمات ہدایات کے مطابق پڑھے، جس کے ویڈیوز دکھائے گئے تھے۔
سعودی عرب کے بادشاہ کو اگر پنجابی میں بہن کی خاص گالی دی ہے تو اس سے زیادہ بڑا معاملہ بابا فرید کے مزار کو سجدہ کرنا تھا۔ دارالعلوم دیوبند اور جمعیت علماء اسلام کے صدر مولانا حسین احمد مدنی نے بھی کہا تھا کہ پاکستان کو کچھ اولیاء بنانا چاہتے تھے اور کچھ اس کا نقشہ مٹانا چاہتے تھے۔ آخر میں بنانے والے کامیاب ہوگئے۔ قاری محمد طیب کے بیٹے کودارالعلوم دیوبندکا مہتمم نہیں بننے دیا گیا تو وہ نعت پڑھی جس میں بریلوی دیوبند ی میں فرق نہیں رہتا ہے اور اب دونوں کو قرآن وسنت کے احکام کی طرف توجہ کرکے انقلاب لانا چاہیے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv