پوسٹ تلاش کریں

کیا کورٹ کی طرف سے نواز شریف کو رعایت دینے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

پچھلی پیشی پر نواز شریف کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ قطری شہزادے کا ذکر نواز شریف نے اسلئے نہیں کیا کہ بھول گئے تھے۔ جج نے کہا کہ اگر
قطری شہزادے پر پیسے لگائے ہوتے تو نواز شریف نہ بھولتا۔ تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ قطری شہزادے کے خط اور پارلیمنٹ میں نواز شریف کے بیان میں تضاد ہے۔جج نے کہا کہ نواز شریف کا پارلیمنٹ میں بیان سیاسی تھا۔ اگلی پیشگی پر ن لیگ کے وکیل نے جج والا موقف اختیار کہ نواز شریف کا بیان
سیاسی تھا۔ نجم سیٹھی نے کہا کہ سیاست اس کو کہتے ہیں کہ یا تو آدمی جھوٹ بولے یا سچ کو چھپائے۔ اب جج نے میڈیا کو سوال و جواب پر تبصرہ کرنے سے منع کردیاہے تو کیا نواز شریف کے وکیل نے اگر آئندہ پیشی پر جج کے موقف کو اپنایا تو یہ ٹھیک ہوگا؟ اہم بات یہ ہے کہ اسحاق ڈار عدالت کے سامنے منی لانڈرنگ کا اقرار کرچکا ہے ۔ یہ دیکھا جائے کہ اسکے بیان کے فیگر ٹھیک تھے یا غلط ۔ اگر اسکے بیان کے فیگر درست نکلے تو پھر نئے سوالات کھڑے کرنے کی ضرورت نہیں ہے منی لانڈرنگ اس سے ثابت ہوچکی تھی مگر ناجائز طریقے سے کورٹ نے وہ فیصلہ معطل کردیا۔
تو کیا کورٹ کی طرف سے نواز شریف کو رعایت دینے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

پبلشر نوشتہ دیوار اشرف میمن کا بیان

یوفون کی ٹیون اور سوشل میڈیا میں تبلیغی جماعت کا مولانا طارق جمیل کہتا ہے کہ ’’جس زمین پہ سجدہ نہ ادا ہو، اس سے بھی بڑا کوئی جرم ہے؟۔ زنا کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں، نماز کا چھوڑ دینا زنا سے بڑا جرم ہے، رشوت کھانے کوگناہ سمجھتے ہیں، نماز کا چھوڑ دینا رشوت کھانے سے بڑا جرم ہے ، قتل کرنا بڑا گناہ سمجھتے ہیں ، نمازکا چھوڑ دینا قتل سے بڑا جرم ہے۔سجدے ہی کا تو انکار کیا تھا شیطان نے۔ شیطان نے کوئی زنا کیا تھا؟، کوئی قتل کیا تھا؟ ، کوئی شراب پی تھی، کوئی جوا کھیلا تھا؟، کیاکیا تھا؟ کوئی شرک کیا تھا؟ شیطان ایک سجدے سے …‘‘ مولانا طارق جمیل کو سوشل ، الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا اور تبلیغی جماعت کے ذریعے گھر گھر، مسجد مسجد، گلی گلی اجتماعی انفرادی طور سے پھیلانے کی خدمت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اس خطاب سے عوام کوپیغام کیا مل رہا ہے؟۔ زنا، قتل، ڈکیتی، جبری زنا، ظلم و ستم، حقوق العباد کی پامالی ، دہشت گردی، شرک اور انواع و اقسام کے تمام گناہ ، جرائم کی حیثیت نہیں، بس تبلیغی جماعت کی تحریکِ نماز میں شامل ہو جاؤ، پھر رشوت مزے لے لے کھاؤ، انڈین فلموں میں کام کرکے زنا کرو، شراب اڑاؤ، دہشت گرد بن کر قتل وغارت کا بازار گرم کرو، آستانوں میں شرک کرو، صحابہ کرامؓ کو گالیاں دو، انواع واقسام کے عقائد مسئلہ نہیں۔ انواع واقسام کے ظلم وستم کوئی بات نہیں۔ظلم وستم، رشوت ستانی، عوام کا مال ہڑپ کرکے کھانے والوں،سودی معاملات کرنے والوں،یتیموں اور بیواؤں کا پیسہ کھانے والوں،کرسی عدالت پر ناانصافی کرنے والوں،بیوروکریسی نظام کو گندہ کرنے والوں،عوام کی زندگی اجیرن کی جائے،جعلی ادویات تیار اور فروخت ہو، ڈاکٹر اور وکیل بن کر عوام سے دھوکہ کیا جائے،پولیو کی ٹیموں پرحملہ کرکے غریبوں کو قتل کیا جائے، منشیات کے اڈے چلائے جائیں، ظلم وستم کا بازار گرم کرکے اغواء برائے تاوان کے جرائم کئے جائیں،بھڑواگیری و عصمت فروشی کے اڈے چلائے جائیں۔بدمعاشی، بدکرداری سے معاشرے کا شریف طبقہ ستایا جائے، طارق جمیل کی مقبولیت کا راز لیاری گینگ وار کے سر غنہ سے لیکر دنیا بھر میں حقوق انسانی کو پامال کرنیوالوں کو سند جواز، جنت کی خوشخبری اور جھوٹی عزت وتسلی دینے میں ہے ۔بیوقوف یہ نہیں سمجھتاکہ شیطان آدم ؑ کی عظمت کو سجدہ نہ کرنے پرراندۂ درگاہ ہوا، تو حقوق انسانی کی پامالی اور انسانیت روندڈالنے سے بڑا ابلیس کا نظام اور کیا ہوسکتاہے؟۔ مولانا طارق جمیل کھل کر ابلیسی نظام کو چھوٹ دے رہاہے کہ برائیاں مسئلہ نہیں، بس نماز پڑھ لو، پھر جو مرضی ہو کرتے رہو۔ مولانا طارق جمیل کی سوشل میڈیا پر اہل تشیع کیساتھ بھی تصویر ہے، جس میں شیعہ عالم کو تبلیغی اجتماع میں شرکت کی دعوت دی ہے اور جب ریاستی ادارے نے اپنے حدود میں پابندی لگائی تو بری امام ؒ کے مزار پر حاضری دے دی۔ دہشت گردوں کی بھی مذمت کرنے سے انکار کیاتھا۔ مولانا طارق جمیل مشرق ومغرب کو یہ پیغام دیتاہے کہ تبلیغی جماعت کا پیغام صلح کل ہے۔ جرم ایک ہی تھا جو شیطان نے کیا تھا، باقی سب چھوٹی باتیں ہیں ان سے فرق نہیں پڑتا۔ شرک، قتل، رشوت، زنا، زنابالجبر، جوا، شراب یہ معمولی باتیں ہیں کرتے رہو۔
اسلام کا چہرہ ایسا مسخ کیا جارہاہے جیسے سابقہ امتوں کے علماء ومشائخ نے مسخ کیاتھا۔ ایک عام آدمی اس بات کو سمجھتاہے کہ نماز کا تعلق اللہ کے حقوق سے ہے، رشوت اور قتل کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اللہ کے حقوق سے بڑا سنگین معاملہ حقوق العباد کاہے۔ جس کو اللہ معاف نہیں کریگا۔ زمین میں خلافت کا تعلق عدل ونصاف کے قیام سے ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ اعدلوا ھو اقرب للتقویٰ ’’ عدل قائم کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے‘‘۔ تبلیغی جماعت میں ایک شخص سال، ڈیڑھ سال کیلئے جماعت میں نکل جاتاہے، اسکے پیچھے اس کی بیگم بدکاری کی مرتکب ہوجاتی ہے، شوہر کا حقوق زوجیت ادا نہ کرنا بڑا ظلم ہے اور یہ بڑی زیادتی ہے کہ شوہر سال ، ڈیڑھ سال کی جماعت میں نکلے اور اس کی بیگم ناجائز تعلق سے اپنی خواہش پوری کرے، معاشرے کو خراب کرے لیکن مولاناطارق جمیل کی تقریر اس کیلئے اہمیت کی حامل ہے کہ زنا بڑا جرم نہیں جس زمین پہ سجدہ ادا نہ ہو،یہی بڑا جرم ہے۔ دہشت گردوں نے لوگوں کی زبردستی سے عزتیں لوٹ لی ہیں، ظلم سہنے اور ظلم کرنے والوں کو تلقین جاری ہے کہ ظلم کرو،اور ظلم کا نشانہ بنو، عزتیں لوٹو اور عزتیں لٹواوو، یہ بڑا جرم نہیں، بس تبلیغ میں نکلو اور جس زمین پہ سجدہ نہ ہو وہاں سجدہ کرو، تحریک سے جڑنا جرائم کی تلافی ہے اور تبلیغ سے جڑنے کے بعد کوئی ظلم ، کوئی زیادتی، کوئی بدکاری، کوئی عقیدہ نقصان دہ نہیں۔تبلیغی جماعت کے ہاں ایک مشہورکتاب ’’ موت کا منظر‘‘ ہے، جس میں’’زنابالجبر‘‘ کے عنوان سے سزا کا ذکرہے۔ وائل ابن حجرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت آئی جس کے ساتھ ایک شخص نے زبردستی سے زنا کیا تھا، رسول اللہﷺ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا۔مولانا طارق جمیل خود بتائیں کہ اگر اس کے پاس ضمیر، غیرت اور عزت نام کی کوئی چیز ہو اور کوئی اس کی بیگم، بیٹی، ماں اور بہن کیساتھ زبردستی سے زیادتی کرے تو کسی کا نماز چھوڑدینے سے بڑا جرم کیا یہ نہیں ہوگا؟۔ ذکری فرقے نے ذکر پر زور دیا اور نماز چھوڑ دی لیکن دوسرے مظالم کو روا رکھنے کی تلقین تو نہ کی، مولانا طارق جمیل سجدے کی بنیاد پر دوسرے جرائم کو بے اہمیت سمجھنے کی دعوت دیتا ہے، جرائم پیشہ عناصر کو یہ تقریر بڑی عمدہ لگ رہی ہے، کیونکہ جرائم پیشہ عناصر معاشرے کے تمام معاملات کے کرتا دھرتا ہوتے ہیں۔ پوری دنیا میں سود ی نظام خرابیوں کی جڑہے اور سود کو بھی جواز بخشا جاتاہے ۔زنا، قتل، شراب، جوا، رشوت اور دیگرجرائم کی کیا حیثیت ہے؟۔
حضرت حاجی عثمانؒ نے مولانا الیاسؒ کے جانشین حضرت جی مولانا یوسفؒ کیساتھ تبلیغی جماعت میں بڑا وقت لگایا تھا، وہ تبلیغی جماعت میں کہتے تھے کہ ’’ نماز فحاشی ومنکرات سے روکتی ہے۔ تم جماعت میں موسیٰ بنتے ہو، معاشرے میں پھر فرعون بن جاتے ہو،ظلم، رشوت،زیادتی، منکرات سے نہ رُک جاؤ، تو تمہاری نمازیں قبول نہیں وغیرہ‘‘۔ پہلے لوگ تبلیغی جماعت کی کارکردگی سے پرہیزگار ، منکرات سے بچنے والے اور اچھے شہری بنتے تھے اب جرائم پیشہ طبقہ روپ بدلنے کیلئے جماعت کو ڈھال کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ حضرت آدم ؑ کو زمین کی خلافت کیلئے پیدا کیا گیا، عبادت کیلئے فرشتے بھی کم نہ تھے۔ شیطان کی ساری عبادت اسلئے رائیگاں گئی کہ خلیفہ نہیں مانا۔ رسول اللہ ﷺ کو مکہ سے مدینہ ہجرت کا حکم اقتدارکیلئے دیاگیا، پاکستان کی تشکیل اسلامی نظامِ کیلئے ہوئی۔ مولانا طارق جمیل سے ہمارے ساتھیوں اجمل ملک وغیرہ نے حدیث کا ذکر کیا کہ ’’اسلام اور اقتدار دو جڑواں بھائی ہیں ایکدوسرے کے بغیر درست نہیں ہوسکتا‘‘ توصاف کہا کہ ’’میں اس حدیث کو نہیں مانتا‘‘۔اللہ نے فرمایا: ادخلوافی السلم کافۃ۔اسلام میں پورے داخل ہونے کا حکم ہے اور اقتدارِ اعلیٰ اور حکومت سے متعلق اسلام کے احکام کو تسلیم کئے بغیر مولانا طارق جمیل کی اگلی منزل انڈین فلموں میں اداکاری کرنے کی لگتی ہے۔قرآن وسنت کے علاوہ مولاناطارق جمیل آئین پاکستان کے بھی باغی ہیں، جب دارالعلوم کراچی کورنگی کے مفتی تقی عثمانی وغیرہ حاجی عثمانؒ کے خلفاء کیساتھ ’’ا لائنس موٹرز‘‘ کے کاروبار میں شامل تھے تو تبلیغی جماعت کے اکابر ین کی باتوں پر فتوے لگادئیے، اہل تشیع پر مفتی عثمانی نے کبھی فتویٰ نہیں لگایا۔عوام کا دباؤ پڑجائے تو مولاناطارق جمیل اپنے بیان پر معافی مانگ لے گا، نہیں توبنی اسرائیل کی گائے سے گاؤ ماتا کی پوجا تک بات پہنچ جائے گی۔مفتی تقی عثمانی کا ایک بیان بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے کہ ’’میں نعمان مسجد لسبیلہ کراچی میں قرآن کا درس دینا چاہ رہا تھا، تبلیغی جماعت نے کہا کہ جمعہ کو ہمارا گشت ہوتاہے، درسِ قرآن نہ دیں،جب میں نے کہا کہ تم گشت مغرب کے بعد کرتے ہو اور بیان عشاء کے بعد تو میں عصر کی نماز کے بعد درسِ قرآن دوں گا، تبلیغی کے منہ سے فوراً نکلا کہ تم دین کی راہ میں رکاؤٹ بنتے ہو۔تبلیغی جماعت کی یہ ذہنیت کہ ان کی اصلاح کروتوبھی یہ اس کو دین کی مخالفت سمجھتے ہیں،دنیا میں آگ لگادے گی‘‘۔سوشل میڈیا پر بیان دیکھ لیں ۔ اشرف میمن

ایڈیٹر نوشتہ دیوار اجمل ملک کا بیان

وزیراعظم نوازشریف اعلان کردے کہ ’’ زرداری بھی قوم کا پیسہ لوٹادے اور میرے بچے بھی لوٹادیں، انصاف کیمطابق فیصلہ نہ ہوا تو احتجاج کی قیادت میں خود کرونگا‘‘۔
جنرل راحیل شریف نے غیرجانبداری کا کردار ادا کرکے قوم ،ملک اور سلطنت کو مضبوط کیا۔ جج کی پریکٹس وکالت کی ہوتی ہے اسلئے اسکے ضمیر پر قوم کاکوئی اعتماد نہیں ہوتا
اکبر الہ آبادی نے کہا : وکیل ہوا پیدا تو شیطان نے کہا لو آج میں بھی صاحبِ اولاد ہوگیا ۔ صحافت کا شعبہ ببانگِ دہل کہتا ہے کہ اس شعر کو بھول جاؤ، حق تو یہ تھا جو ادا ہوا

نوشتۂ دیوار کے ایڈیٹر محمداجمل ملک نے اپنے بیان میں کہاہے کہ ’’ جب جج، جنرل اور جنرنلسٹ(صحافی) جانبدار بن جائیں تو ان کو جبری طور سے جیل جانا چاہیے۔ جنرل راحیل کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ انہوں نے اپنا غیر جانبدارانہ کردار ادا کرکے قوم، ملک اور سلطنت کو استحکام کے راستے پر ڈالا۔ حکومت اور اپوزیشن میں اعتدال کی راہ پر چلے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری عمران خان اور نوازشریف شہباز شریف میں کوئی تفریق نہیں رکھی۔سینٹ کے چیئرمین رضا ربانی اور اپوزیشن لیڈر خورشید کو یومِ دفاع کی مرکزی تقریب میں ساتھ بٹھایا، مسلم لیگ ن کی حکومت کا فرض بنتا تھا کہ کھل کر اظہار کرتی کہ’’ غیرجانبدار آرمی چیف اور فوج کے کردار پر فخرہے،جو سازشی عناصر کے پیچھے بھی نہیں اورنہ حکومت کی دُم چھلہ ہے‘‘۔ مگر ن لیگ کی قیادت ہی ایسی کم عقل ہے کہ پانامہ لیکس کا معاملہ سامنے آیا اور آرمی چیف نے کرپشن کیخلاف بیان دیا تو نوازشریف کو اس کا بھرپور خیرمقدم کرنا چاہیے تھا، وزیراعظم نے الٹا حساب مانگا ،کہ’’ ایک منتخب وزیراعظم کو برطرف کیا ، ہتھکڑی لگائی، حکومت ختم کی گئی اسکا حساب کون دیگا؟‘‘۔میڈیا کو چاہیے تھا ،کہتاکہ’’ جواب اپنے باپ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری سے لے لو، جس نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو قانون سازی کرنے اجازت دیدی۔نامزد چیف جسٹس ٹھیک کہتے ہونگے کہ ’’ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے ہمیشہ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ دیا۔ عوام مایوس نہ ہوں۔ہم انصاف ہی کرینگے‘‘۔
انسانوں کے ضمیر میں اختلاف ہوتاہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام دونوں بھائی اور پیغمبر تھے۔ جب بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جانے کے بعد حضرت ہارون علیہ السلام کی موجودگی میں سامری کے ورغلانے سے ایک بچھڑے کی عبادت شروع کردی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عوام کو سزا نہیں دی ، اپنے ذمہ دار بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑا، حضرت ہارونؑ نے کہا کہ ’’میں نے اسلئے منع نہ کیا کہ ان میں تفریق پیدا ہوتی، جس پر آپ کہتے کہ قوم کو تقسیم کردیاہے‘‘۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ناراض ہونا اور حضرت ہارون علیہ السلام کا نظریۂ ضرورت پر عمل کرنا ضمیر کا اختلاف تھا کوئی کوتاہی نہ تھی۔ یہ سچ ہے کہ جسٹس منیر سے لیکر جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کئے ہونگے لیکن ضمیروں کا اختلاف بھی قوم کیلئے بعض اوقات اطمینان کا ذریعہ نہیں بن سکاہے۔ ن لیگ نے جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں سپریم کورٹ پر ہلہ بول دیا تھا، ڈوگر کے خلاف طوفان برپا کیاتھا، جسٹس قیوم کا فون اور اقرارِ جرم ریکارڈ پر ہے۔وزیرداخلہ چوہدری نثارنے ٹھیک ٹھاک پریس کانفرنس کردی ہے اور ٹھنڈی فوج کی موجودگی میں عدالت کیلئے حکومت کے خلاف انصاف سے فیصلہ کرنا بھی ضمیر کیلئے بڑے دل گردے کا کام ہے۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوا تھا اور نبیﷺ نے اپنے ضمیر کے مطابق ہی کیا تھالیکن صحابہ کرامؓ کی اکثریت کے ضمیر اس پر متفق نہ تھے اور کھل کر اپنے اختلاف کااظہارِ رائے کررہے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ نے صلح حدیبیہ کو وحی کے ذریعے فتح مبین قرار دیا۔ صحابہ کرامؓ کی اکثریت نے بدر ی قیدیوں کو اپنے ضمیر کے مطابق فدیہ لیکر رہا کرنے کا مشورہ دیا اور نبیﷺ نے فیصلہ فرمادیا لیکن اللہ نے اس کو نامناسب اور دنیا کی چاہت کا آئینہ دار قرار دیا۔ وحی کا سلسلہ بند ہوچکاہے اور عدلیہ اپنے ضمیر کے مطابق انصاف کرے تو قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے اور قوم کو فیصلے سے اختلاف ہو تو بھرپور احتجاج کا حق بھی رکھتی ہے ۔اپنے لئے شہبازشریف ڈوگر کیخلاف چیخا تھا ،قوم کیلئے بھی کھل کر کردار ادا کرے۔
جیو اور جنگ گروپ جمہوری نظام کی سہولت کاری کے طور پر فوج کو بدنام کرے تو یہ اس کا حق ہے اور اس کو سو خون بھی معاف ہیں لیکن جمہوریت کے نام پر کرپشن اور کرپٹ لوگوں کو دوام بخشنے کیلئے یہ کردار ادا ہو تو اس سے بڑی زیادتی کیا ہوگی؟، شاہ زیب خانزادہ کے پروگرام میں جنید نے حامد میر کے ذریعہ پیپلزپارٹی کیخلاف ن لیگ کے اقدام کو غیر مناسب قرار دینے کا سہرا پاک فوج کے ادارے آئی ایس آئی کا نام لئے بغیر ڈالا۔ یہ جیو کی منافقانہ پالیسی ہے کہ 27دسمبر سے پہلے پیپلزپارٹی کو رام کرنے کیلئے پروگرام کیاگیا، روزنامہ جنگ کراچی میں مین لیڈ لگی تھی کہ وزیرمذہبی امور حامد سعید کاظمی نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے کرپشن کی ہے۔ حالانکہ اسی شام میڈیا پر لائیو پروگرام میں حامدسعید کاظمی حلفیہ بیان دے رہے تھے کہ اس نے کوئی کرپشن نہیں کی ہے۔ کیا جنگ اور جیو کو اعترافِ جرم کیلئے بہت مجبور کیا جائے گا تو اپنا اخلاقی فرض ادا کرینگے؟۔ آزادئ صحافت پر قد غن کا لگانا بڑی بیمار ذہنیت کی علامت ہے، سرِ عام جھوٹ کا بکنا بذاتِ خود بڑی سزاہے مگر اپنے مفادات کی خاطر کسی بھی سیاسی جماعت کی سپورٹ یا مخالفت صحافت کے مقدس پیشے سے بدترین بددیانتی کا ارتکاب ہے۔ غیرجانبداری کے بل بوتے پر ہی صحافت کی اجازت ملتی ہے۔ آج صحافیوں اور میڈیا چینلوں کی اکثریت کھل کر انحراف کے مرتکب ہیں۔ تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری کو قانون صحافت کی اجازت نہیں دیتا مگر یہاں تو آوے کا آوابگڑا ہواہے۔بازارِ صحافت کا ہر میراثی نمبر ون کے دعوے کرتانظرآتاہے۔
قوم کو عدل واعتدال والے ججوں، جرنیلوں اور جرنلسٹوں کی سخت ضرورت ہے۔ عدالت اگر سابقہ ججوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرکے بے انصافی کرنے والوں کو سزا دے تو جرنیل کو بھی شکوہ نہیں ہوگا کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ پرویز مشرف کی طرح ججوں کو بھی کٹہرے کا سامنا کرنا چاہیے۔ عدالت کا یہ فیصلہ ضمیر کے مطابق ہوسکتا تھا کہ بعض ججوں کو پی سی او کے تحت ہی حلف اٹھانے پر انہی ججوں نے سزا دی جو خود ہی اس جرم میں ملوث رہے تھے۔ ضمیروں کا اختلاف بڑی رحمت ہے اور بعض اوقات ضمیروں کے اختلاف رحمت بھی بنتاہے لیکن بعض اوقات پتہ چلتا ہے کہ ضمیر اتنا آلودہ ہوچکا ہوتاہے کہ قانون کیساتھ جج بھی خود کو اندھا وکیل بنالیتاہے۔ قصور اس کا اس لئے نہیں ہوتا کہ ’’ہمارے نظام میں وکالت کی پریکٹس کرنے والوں کو بھی جج بنالیا جاتاہے‘‘۔ وکیل کا کام انصاف کرنا نہیں ہوتا بلکہ مجرم کو تحفظ دینا ہوتاہے، اعتزاز احسن اور عاصمہ جہانگیر سے معذرت کیساتھ جس کرپٹ اور جرائم پیشہ شخص کی معزز وکلاء صفائی کا ٹھیکہ اٹھالیں تواکبر الہ آبادی کے شعر کی یاد تازہ ہوگی کہ وکیل ہوا پیدا تو شیطان نے کہا لو آج میں بھی صاحبِ اولاد ہوگیا صحافت کا شعبہ ببانگِ دہل کہ رہاہے کہ ’’اس شعر کو بھول جاؤ، مجھے دیکھو، حق تویہ تھا جو ادا ہوا‘‘۔
پوری قوم اور سیاسی قیادت کو نکل کر کہہ دینا چاہیے کہ ’’ اگر انصاف کا قیام عمل میں لایا گیا تویہ خوشگوار طریقے سے تبدیلی قوم کی خوشحالی ہوگی‘‘۔ نوازشریف کہہ دے کہ مجھے عدالت سے انصاف چاہیے، زرداری بھی چور تھا اور میں نے ٹھیک کہا تھا کہ قوم کا پیسہ واپس آنا چاہیے، میں بھی چور ہوں اور اپنے بچوں اور دوستوں کے نام پر پیسہ لوٹانے کے خلاف عدالت کو میرے خلاف بھی درست فیصلہ کرنا چاہیے ورنہ قوم کے احتجاج کی قیادت مجھے کرنی پڑیگی، مجھے انصاف دواور زرداری کو بھی پیسہ لوٹانے پر مجبور کردو، یہ قوم بہت پس چکی ہے، اب کہیں ہمیں پیس کر نہ رکھ دے‘‘ ۔اجمل ملک

کیا فرماتے ہیں علماء دین اور مفتیان شرح متین اس مسئلے کے بارے میں…..

kanzul-iman-masjid-fatwa-triple-talaq

کیا فرماتے ہیں علماء دین اور مفتیان شرح متین اس مسئلے کے بارے میں کہ
شوہر (محمد یوسف ولد محمد انور) کا بیان : میری شادی 10ستمبر 2000ء میں ہوئی ، شادی کے بعد ہم ساتھ رہے ۔ 6 سال پہلے میں نے اپنی زوجہ کا نام لے کر ایک طلاق دی ، الفاظ یہ تھے ’’میں شائستہ کو طلاق دیتا ہوں‘‘ اسکے بعد ہم ساتھ رہے ، عدت کے اندر رجوع ہوگیا تھا۔ پھر اسکے بعد اکثر لڑائی جھگڑے میں یہ الفاظ کہتا کہ میں طلاق دیدوں گا ۔ ایک سال پہلے بھی یہ کہا میں طلاق دیدوں گا اور کچھ روز قبل بروز جمعہ (07-10-2016 ) بیوی کو ایک طلاق دی۔ الفاظ یہ تھے’’جا میں نے طلاق دی‘‘ ان دو طلاقوں کے علاوہ میں نے کبھی کوئی طلاق نہیں دی۔ جبکہ میری بیوی کا کہنا یہ ہے کہ میں نے تین طلاقیں دیدی ہیں۔ اس مسئلے کا حل شریعت کے مطابق بتائیں تاکہ میں اپنا رشتہ قائم رکھ سکوں۔ میری چار بیٹیاں ہیں ۔ دوسری طلاق کے بعد میں نے ابھی تک رجوع نہیں کیا ۔
بیوی (شائستہ بنت محمد اقبال) کا بیان: میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دیدی ہیں۔ انہوں نے مجھے ایک ساتھ نہیں دیں بلکہ 6 سال پہلے انہوں نے میرا نام لے کر کہا تھا کہ میں نے شائستہ کو طلاق دیدی ہے۔ اسکے 15دن بعد ہم نے رجوع کرلیا تھا۔ پھر ایک سال بعد پہلے انہوں نے لڑائی کے دوران کہا کہ میں نے تجھے طلاق دی۔ پھر ہم نے ایک مہینے کے اندر رجوع کرلیا تھا اور اب بروز جمعہ (07-10-2016) انہوں نے پھر کہا کہ جا میں نے تجھے طلاق دی۔ میں حلفیہ طور پر بیان دیتی ہوں کہ اس طرح انہوں نے مجھے تین طلاقیں دیدی ہیں مگر میرے شوہر دو طلاق قبول کرتے ہیں ۔ اب میرے لئے شرعی حکم کیا ہے؟۔
نوٹ: شوہر اور بیوی دونوں نے دار الافتاء اہلسنت میں آکر اپنے بیانات دئیے ہیں اور شوہر نے حلفیہ بیان دیا ہے کہ اس نے 6سال پہلے ایک طلاق دی تھی اور اب (07-10-2016) ایک طلاق دی ہے۔ اس طرح صرف دو طلاقیں دی ہیں۔ تیسری طلاق نہیں دی۔ بیوی جو ایک سال پہلے کے واقع کا کہہ رہی ہے ، اس وقت میں نے کہا تھا کہ میں تجھے طلاق دیدوں گا۔ اس کے علاوہ کبھی کوئی طلاق نہیں دی۔ بیوی کے پاس اپنے بیان (ایک سال پہلے والی طلاق) پر کوئی شرعی گواہ نہیں۔
سائل محمد یوسف ولد محمد انور ( شو مارکیٹ، نشتر روڈ کراچی)۔ شناختی کارڈ نمبر 42301-3475150-3
بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللٰھم ہدایۃ الحق و الصواب
پوچھی گئی صورت میں اگر شوہر اپنے حلف میں سچا ہے تو دو طلاقیں رجعی واقع ہوگئی ہیں اور دو طلاقیں رجعی کا حکم یہ ہے کہ عدت کے اندر بغیر نکاح کے اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعے رجوع ہوسکتا ہے۔ اور عدت کے اندر رجوع کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ شوہر دو گواہوں کی موجودگی میں یہ الفاظ کہے کہ میں نے اپنی بیوی سے رجوع کیا۔ اگر اس طریقے سے رجوع نہ کیا بلکہ فعل سے کیا تو رجوع ہوجائے مگر اس طرح رجوع کرنا مکروہ و خلاف سنت ہے۔ اور رجوع کرنے کے بعد اسے صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا۔ پھر کبھی ایک طلاق دی تو تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ اور شرعی حلالے کے بغیر رجوع کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ اور شوہر کے بیان کے مطابق یہ الفاظ کہ میں تمہیں طلاق دیدوں گا ، اس سے کوئی طلاق واقع نہ ہوئی کیونکہ یہ طلاق دینا نہیں بلکہ آئندہ طلاق دینے کا اظہار ہے، اور اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ البتہ بیوی کے بیان کے مطابق تینوں طلاقیں واقع ہورہی ہیں۔ وہ اسطرح کہ 6سال قبل پہلی طلاق واقع ہوئی ، ایک سال قبل ان الفاظ ’’میں نے تجھے طلاق دی ‘‘سے دوسری طلاق واقع ہوئی ،اب مورخہ (07-10-2016)کو تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی۔ اب شوہر اور بیوی کے بیان میں تضاد ہے کہ شوہر تیسری طلاق کا انکار کررہا ہے جبکہ اسکے برعکس بیوی کے بیان کردہ الفاظ سے تینوں طلاق واقع ہورہی ہیں تو اس صورت میں شرعی حکم یہ ہے کہ بیوی اپنے بیان پر نیک ، صالح ، پرہیزگار، پابند شرع گواہ پیش کرے جو کہ یہاں موجود نہیں۔ نیز گواہوں کے بیانات اور ان کی تحقیقات کے مطابق فیصلہ کرنا قاضی کا کام ہے۔ لہٰذا جب گواہ موجود نہ ہوں یا گواہوں کے مطابق طلاق کا حکم ثابت نہ ہوسکے تو دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ شوہر قسم کھا کر کہہ دے کہ میں نے تین دفعہ یہ الفاظ نہیں کہے تو اسکی قسم کو مان لیا جائے گا اور اسکے حلف دینے کے سبب عورت کو اس کی زوجہ ہی قرار دیا جائے گا اور نکاح ٹوٹنے کا حکم نہیں دیا جائیگا۔
عورت کے لئے حکم : لیکن اگر عورت بالیقین جانتی ہے کہ مرد نے اسے تین طلاق دیدی ہیں اور اب وہ انکار
کرتا ہے تو عورت ہرگز ہرگز مرد کے ساتھ نہ رہے ۔ اور چونکہ شوہر کے بیان کے مطابق دو طلاقیں رجعی واقع ہوگئی ہیں اور شوہر نے ابھی تک رجوع بھی نہیں کیا لہٰذا عورت عدت پوری کرے ، اگر شوہر عدت کے دوران کسی طرح بھی رجوع نہیں کرتا تو عورت عدت گزار کر آزاد ہوگی ، نکاح سے نکل جائیگی ، جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے۔ اسی شوہر سے دوبارہ نکاح نہ کرے کہ عورت کی بیان کے مطابق تو تین طلاقیں واقع ہورہی ہیں اور تین طلاقوں کے بعد شرعی حلالے کے بغیر رجوع کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔ اگر شوہر عدت میں کسی بھی طرح رجوع کرلیتا ہے تو پھر عورت شوہر کے بیان کے مطابق اسکے نکاح میں رہے گی۔مگر عورت پر لازم ہوگا کہ ہر ممکن طریقے سے اس سے دور بھاگے اور اسے خود پر اختیار نہ دے۔ اس سے طلاق لے ، چاہے مہر چھوڑ کر یا اور مال دے کر اور اگر شوہر زبردستی اس سے میاں بیوی کے تعلقات قائم کرے تو دل سے اس پر راضی نہ ہو۔ اور اگر یہ راضی ہوگئی تو گناہگار ہوگی اور دل سے راضی نہ ہو تو گناہگار نہ ہوگی۔
ضروری تنبیہ: اگر شوہر نے واقعی بیوی کو تین طلاقیں دیدی ہے تو اس پر لازم ہے کہ بیوی کو چھوڑ دے۔ ورنہ ایسی صورت میں اس کے قریب گیا تو صریح حرام و گناہ کا مرتکب ہوگا۔ اور شرعی حلالے کے بغیر اس عورت کو نکاح میں نہیں رکھ سکتا۔ اور جھوٹا حلف اٹھانا قیامت کے دن یقیناًاسے کچھ فائدہ نہ دے گا۔ اور اگر بیوی اپنے بیان میں جھوٹی ہے تو سخت گناہگار ہوگی۔ اور جھوٹا بیان ہونے کی صورت میں فتویٰ اسے بھی کام نہ دے گا۔ دو طلاق کے بارے میں اللہ عزو جل ارشاد فرماتا ہے (الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان) ترجمہ کنزالایمان: یہ طلاق (جس کے بعد رجعت ہوسکے) دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا یا نکوئی (اچھے سلوک) کے ساتھ چھوڑ دینا‘‘۔ پھر تیسری طلاق کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے (فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یتراجعا ان ظن ان یقیما حدود اللہ )ترجمہ کنز الایمان: پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے۔ پھر وہ دوسرا اگر اسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر گناہ نہیں کہ پھر آپس میں مل جائیں اگر سمجھتے ہوں کہ اللہ کی حدیں نبھائیں گے۔‘‘
بہار شریعت میں ہے ، :رجعت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ کسی لفظ سے رجعت کرے اور رجعت پر دو عادل شخصوں کو گواہ کرے۔ اور عورت کو بھی اسکی خبر کردے کہ عدت کے بعد کسی اور سے نکاح نہ کرلے۔ اور اگر کرلیا تو تفریق کردی جائے۔ اگرچہ دخول کرچکا ہو کہ یہ نکاح نہ ہوا۔ اور اگر قول سے رجعت کی مگر گواہ نہ کئے یا گواہ بھی کئے مگر عورت کو خبر نہ کی تو مکروہ و خلاف سنت ہے۔ مگر رجعت ہوجائے گی۔ اور اگر فعل سے رجعت کی مثلاً اس سے وطی کی یا شہوت کے ساتھ بوسہ لیا یا اس کی شرمگاہ کی طرف نظر کی تو رجعت ہوگئی مگر مکروہ ہے۔ اسے چاہیے کہ پھر گواہوں کے سامنے رجعت کے الفاظ کہے ۔‘‘ (بہار شریعت ، جلد 2 ،صفحہ 170-171 )۔
سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں ’’اگر ہزار بار کہے میں تجھے طلاق دے دوں گا طلاق نہ ہوگی۔ و ھٰذا ظاہر جدا ، وفی جواھر الاخلاطی فقال الزوج طلاق سیکتم طلاق سیکتم انھا ثلاث لان می کنم یتمحض للحال وھو تحقیق بخلاف قولہ کنم لا نہ یتمحض للا ستقبال و بالعربیۃ قولہ اطلق یا یکون طلاقا دائر بین الحال و الاستقبال فلم یکن تحقیق مع الشک الخ‘‘۔(فتاویٰ رضویہ جلد 12، ص588)
سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال کیا گیا کہ اگر زوجین میں طلاق کی بابت اختلاف ہو خاوند منکر اور بی بی طلاق کا ثبوت دینا چاہتی ہو تو ثبوت کا کیا طریقہ ہے ؟ تو جواب میں ارشاد فرمایا ’’بحالت اختلاف طلاق کا ثبوت گواہوں سے ہوگا اور دو گواہ عادل شرعی شہادت بروجہ شرعی ادا کریں کہ اس نے اپنی زوجہ کو طلاق دی طلاق ثابت ہوجائے گی…ہاں اگر عورت گواہ بروجہ شرعی نہ دے سکے تو شوہر پر حلف رکھا جائے گا۔ اگر حلف سے کہہ دے گا کہ اس نے طلاق نہ دی طلاق ثابت نہ ہوگی۔ اور اگر حاکم شرعی کے سامنے حلف سے انکار کرے گا تو طلاق ثابت ہوجائے گی‘‘، (فتاویٰ رضویہ جلد 12، ص 253,252)
مزید ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں ’’اگر واقع میں تین طلاقیں دی ہیں عند اللہ عورت اس پر حرام ہوگئی ہے۔ بے حلالہ اس کے نکاح میں نہیں آسکتی۔ قال اللہ تعالیٰ : فلا تحل لہ من بعد حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ اور اس کا انکار اللہ عزو جل کے یہاں کچھ نفع نہ دے … اگر ان میں ایسے گواہ نہ ہوں اور عورت کے سامنے طلاق نہ دی ہو تو عورت اس سے حلف لے۔ اگر وہ حلف دے کہ میں نے طلاق نہ دی تو عورت اپنے آپ کو اس کی زوجہ سمجھے اگر اس نے حلف جھوٹا کیا تو وبال اس پر ہے۔ اور اگر خود زوجہ کے سامنے اسے تین طلاقیں دیں اور منکر ہوگیا اور گواہ عادل نہیں ملتے تو عورت جس طرح جانے اس سے رہائی لے۔ اگرچہ اپنا مہر چھوڑ کر ، یا اور مال دے کر ، اور اگر وہ یوں بھی نہ چھوڑے تو جس طرح بن پڑے اس کے پاس سے بھاگے اور اپنے اوپر قابو نہ دے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کبھی اپنی خواہش اس کے ساتھ زن و شوکا برتاؤ نہ کرے۔ نہ اسکے مجبور کرنے پر اس سے راضی ہو پھر وبال اس پر ہے۔ لا یکلف اللہ نفس الا وسعھا‘‘(فتاویٰ رضویہ ، جلد12، ص 424-423 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)۔ و اللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم عز وجل و صل اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کتبہ المتخصص فی الفقہ الاسلامی ابو عبد اللہ محمد سعید العطاری المدنی
الجواب صحیح العبد المذنب محمد فضیل رضا العطاری عفی عنہ الباری
اللہ نے یہ ظالمانہ فتویٰ مسلط نہیں کیا بلکہ انسانوں نے خود اس طرح کی شریعت بنانے کا ظلم کیا، جس کا تدارک فرض ہے۔ عتیق گیلانی

kanzul-iman-masjid-fatwa-triple-talaq-2

دارالافتاء جامعہ العلوم السلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی :عطاء اللہ ۲۷،۲،۱۳۸ھ/۱۷۲۷(فتویٰ نمبر)

السلام علیکم ! ہماری شادی کو 12سال ہوگئے ۔2سال بعد نشے کی حالت میں لڑائی ہوئی، اس حالت میں ان سے میں نے کہا’’مجھے طلاق چاہیے اور لے کر رہوں گی‘‘انہوں نے کہا ’’ جا، دی، دی، دی غرق ہوجا‘‘۔ میں اپنے گھر آگئی۔ 2مہینے بعد ہم نے رجوع کرلیا۔پھر دوبارہ3، 4سال بعد دوبارہ لڑائی ہوئی۔ نشے میں سسر کے سامنے اور انہوں نے(شوہر نے) سسر سے کہا کہ ’’یہ جائے گی تو میں اسے طلاق دیکر بھیجوں گا‘‘۔میں گھر سے نکل گئی۔ (آیا، اس صورت میں طلاق پڑگئی؟)۔ گھر والوں کے بیان سے طلاق ہوگئی۔ میں نے عدت بھی کی۔6ماہ بعد معلوم کروایا، تو کہا کہ نکاح ٹوٹ گیا۔ہمارا دوبارہ نکاح ہوا۔ ہم ساتھ رہنے لگے اور اب 4ماہ پہلے انہوں نے نشے میں کہا ’’میری طرف سے طلاق ہے، جا دی، کیا کرلے گی؟، جو کرنا ہے کرلے۔
آپ ہماری رہنمائی کرکے بتائیں کہ ہم کیا کریں؟۔ ہمارے والدین کہتے اور سمجھتے ہیں کہ طلاق ہوگئی ہے۔ کیا ہم شرعی طور پر دوبارہ رجوع کرسکتے ہیں یا پھر حلالہ کی صورت میں؟؟؟۔ اور اگر حلالہ ہوا تو کن صورتوں میں ہوگا؟؟۔ ہمارے تین چھوٹے بچے ہیں۔ جن کی خاطر ہم دوبارہ رضامندی کیساتھ دل سے توبہ کرکے دوبارہ رہنا چاہتے ہیں۔ کاشف حبیب، کورنگی کراسنگ اللہ والا ٹاؤن، 31.Bکراچی،فون:0315 8566993, 0323 3249241
الجواب حامدًاو مصلیاً صورت مسؤلہ میں سائلہ نے جب اپنے شوہر سے کہا کہ ’’مجھے طلاق چاہیے اور لیکر رہوں گی‘‘ ، اور شوہر نے اسکے جواب میں کہا’’ جا! دی، دی دی‘‘ تو شوہر کا اس طرح کہنے سے سائلہ پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، نکاح ختم ہوچکاہے۔ اب رجوع جائز نہیں اور حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ نکاح نہیں ہوسکتا، حلالہ شرعیہ کے بغیر جتنا عرصہ ساتھ رہے، یہ سب ناجائز و حرام تھا، علیحدگی کے بعد دونوں پر توبہ واستغفار لازم ہے۔ عالمگیری میں ہے: وفی المنتقیٰ امرأۃ قالت لزوجہا طلقنی فقال الزوج قد فعلت طلقت ۔(فتاویٰ عالمگیری: ۱/۳۵۶، الباب الثانی فی ایقاع الطلاق)وفیہ أیضاً : وان کان الطلاق ثلاثا فی الحرۃ و ثنتین فی الامۃ لم تحل لہ حتیٰ تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بھا ثم یطلقہا او یموت عنہا. (ج: ۱/۴۷۳)۔ امداد الفتاویٰ میں ہے : یہ زبان سے کہا ہے کہ میں نے طلاق دیدی دیدی دیدی ،کروجو کچھ کرتی ہو.. بعد تحریر جوابِ ھذا غور کرنے سے معلوم ہوا کہ مطلب اس شخص کا یہی ہے کہ تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں (امدادالفتاویٰ ۲ /۴۳۰،۴۳۱) فقط واللہ اعلم۔۔۔ کتبہ عطاء اللہ المنصور المتخصص فی الفقہ الاسلامی جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوریؒ ٹاؤن کراچی نمبر5۔ ۷/۳/۱۴۳۸ھ 7دسمبر2016ء الجواب صحیح مفتی ابوبکر سعیدالرحمن۔ مفتی محمد شفیق عارف
مفتی صاحبان نے یہ جواب دیا کہ پہلی بار دوسال بعد ہی تین طلاق پڑچکی ہیں،دوماہ بعد رجوع کرنا غلط تھا، اسکے بعد ازدواجی تعلقات حرام کاری اور اولاد ناجائز کا نتیجہ ہیں۔ یہ فتویٰ قرآن وسنت کیمطابق بالکل لغو اور غلط ہے۔نشے کی حالت میں طلاق کا فقہاء نے وضاحت کی ہے کہ طلاق اصلاً نہیں ہوتی،شراب کی وجہ سے بطورِ سزا یہ حکم دیا گیاہے،یہاں شراب کے نشے کا بھی ذکرنہیں ہے، فقہاء کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ اپنی طرف سے طلاق نہ ہونے کے باوجود حلالہ کی سزا دیں۔ اسلام کو اجنبیت میں دھکیلنے والوں کے دن گنے چنے لگتے ہیں۔مشرکین مکہ کی جہالت میں دو مشہور جرائم تھے ایک میاں بیوی کے درمیان جدائی اور دوسرا بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا۔ زندہ دفن کرنے کی رسم تو ختم ہوگئی ہے لیکن میاں بیوی کو جدا کرنے کے حوالہ سے بہت ساری آیات کے باوجود اس غلط رسم کو بوجوہ جاری رکھاگیا، اہل علم ودانش اور اصحابِ حل وعقد کا فرض ہے کہ مخلوقِ خدا کی رہنمائی کرنے کا حق ادا کریں۔ عتیق گیلانی

binori-town-mosque-fatwa-triple-talaq

خلق الانسان ضعیفاً(انسان کمزور پیدا کیا گیا) القرآن

دنیا کی رہنمائی کیلئے ’’قرآن مجید‘‘ عظیم نعمت ہے لیکن افسوس کہ قرآنی دعوت کے دعویدار مذہبی طبقے بالغِ نظری کا ثبوت نہیں دیتے۔ بوڑھے ہوکر بھی طفلِ مکتب کہلانے پر فخر کرتے ہیں حالانکہ قرآن فلسفے کی کتاب نہیں بلکہ فطری رہنمائی کیلئے نازل ہوا۔ ان پڑھ لوگوں کو پڑھا لکھا ، جاہلوں کو عالم اور نادانوں کو دانا بنادیا۔ جہالت کے اندھیروں میں قریش ایسے سوئے تھے کہ 13 سالہ مکی دور میں بھی چندلوگوں نے ہی اسلام قبول کیااور قرآن کے نزول کی روشنی سے بھی نہیں جاگ رہے تھے۔پاکستانیوں کو توجہ لانے کی ضرورت ہے۔
حضرت آدم و حوا علیھماالسلام کو اللہ نے جنت میں حکم دیا کہ ’’اس درخت کے قریب مت جاؤ‘‘ لیکن شیطان نے ان کو پھسلادیا اور اللہ نے زمین کی خلافت کا وہ منصب سونپ دیا،جس کیلئے فرشتوں نے سجدہ کیا تھا۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کے محافظ کرپٹ حکمران ڈکٹیٹروں کے بغل بچے بھی ہیں ، کرپشن بھی کی اور خود کو معصوم اور دوسرے کو موردِ الزام بھی ٹھہرایا اور اعتراف جرم بھی طعنے کے انداز میں کرتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے مارشل لاء کے خلاف مسلم لیگ ن کے کردار پر نکتہ چینی کی اور خواجہ سعد نے اپنی صفائی میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں جیل کاٹنے کا ذکرکیااور اپنے باپ خواجہ رفیق کی شہادت کا حوالہ دیا۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پیپلزپارٹی پانامہ لیکس پر بات کرے لیکن اس کی اپنی سلیٹ بھی صاف نہیں، خورشیدشاہ کا جواب آیا کہ ہماری سلیٹ صاف نہیں تو تمہارا بلیک بورڈ بھی آلودہ ہے۔ شاہ محمود قریشی نے خواجہ سعد اور انکے بڑے باپ خواجہ رفیق کی بڑائی بیان کی اور کہاکہ میں واحد ناظم تھا جس نے پرویزمشرف کے ریفرنڈم کی تائید نہیں کی، اس وقت میں پیپلزپارٹی میں تھا۔شاہ محمود قریشی اپنی صفائی پیش کرکے اپنے قائد عمران خان کے چہرے پر ریفرینڈم کی تائید کی کالک مَل رہے تھے اور خواجہ سعد رفیق جنرل ضیاء کے دور میں جیل جانے کا ذکر کرکے اپنے قائد کا چہرہ سیاہ کررہے تھے۔ خورشیدشاہ اور خواجہ سعدرفیق نے سلیٹ اور بلیک بورڈ صاف نہ ہونے کاالزام ہی نہیں لگایا بلکہ اعترافِ جرم بھی کردیاہے لیکن ہماری عدالتوں سے طاقتور لوگوں کو کلین چٹ ملتی رہے تو عوام کا نظام پر اعتماد بحال نہ رہے گا، یہ الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے اور عدالتوں کو چاہیے کہ ان کو کلین بورڈ کردیں۔ عدالتوں پر پارلیمنٹ میں جماعتِ اسلامی کے نمائندے نے کھل کر عدمِ اعتماد کا اظہار کیااور اگر دہشت گردوں کیخلاف فوجی عدالتوں کی ضرورت تھی تو ان طاقتور طبقات کیخلاف بھی کیاعدالتوں میں سکت نہیں ہے؟۔
فرعون کے دور میں بنی اسرائیل کیخلاف مظالم مشہور تھے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی اطلاع کردی اور فرعون کی گود میں ہی آپؑ کی پرورش کی۔نسلی تعصب نے ماحول پر گہرے اثرات مرتب کئے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے ایک بیکار انسان کی شکایت پر قبطی کو مکا کیا مارا، کہ وہ ڈھیر ہوگیا۔ قتل کے اس جرم پر پردہ پڑا رہا۔ جب اپنی قوم کا وہ فرد کسی اورسے جھگڑ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شکایت کرنے لگا تو حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ ’’تجھے بھی روز روز لڑائی کرنی ہے؟‘‘۔ وہ چیخا کہ کیا تو مجھے اس طرح قتل کریگا جیسے اس دن دوسرے کو قتل کیا تھا؟۔ اس وجہ سے قتل کا راز فاش ہوا۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف قتل کا مقدمہ چلنے کی تیاری ہونے لگی تو قبطی قوم کے شخص نے ہی ان کو اطلاع دی ۔ جب وہ فرار ہوگئے تو دوسرے علاقہ میں پہنچ کر دوبچیوں کی مدد کردی۔ وہ حیاء سے چل رہی تھیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی یہ ادا بھلی لگ رہی تھی۔ وہ پیغمبر کی بچیاں تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہاں ٹھکانہ بھی مل گیا، 8سال مزدوری کے عوض ایک بچی کے نکاح کی پیشکش قبول کرلی۔ شادی کے بعد بیوی کو زچگی ہوئی تو راہ چلتے میں کوہ طور پر جلوہ دیکھا، سمجھے آگ ہے لیکن وہاں سے یہ آواز آئی کہ ’’بیشک میں اللہ ہوں‘‘۔ کہاوت ہے کہ ’’ آگ لینے گئے اور پیغمبری مل گئی‘‘۔ قرآن طعن وتشنیع سے روکنے کی دعوت دیتاہے اور معصوم بننے کے بجائے کمزور انسان رہنے پر کاربند رکھتاہے۔ معصومانہ سیاست کے دعوؤں سے احمقانہ لیڈرشپ کو باز آنے کی ضرورت ہے۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن معاذ انصاریؓ ایک مرتبہ اپنے دوست کے ہاں مکہ میں ٹھہرگئے۔ دوست سے کہا کہ ’’کعبہ کی زیارت کا کوئی راستہ نکلے‘‘، دوست نے کہاکہ’’بڑا مشکل ہے کوئی دیکھ لے تو شامت نہ آجائے‘‘۔ بہرحال یہ طے ہوا کہ دوپہر کا وقت مناسب ہے، لوگ سوجاتے ہیں،کسی کوپتہ نہ چلے گا۔ کعبہ کی زیارت کو نکلے تو راہ میں ابوجہل کی نظر پڑی۔ ابوجہل بہت غصہ ہوا، دوست مشرک سردار سے کہا کہ ’’ہمارے دین کا یہ دشمن ہے اور تم اس کو کعبہ کی زیارت کیلئے لے جارہے ہو؟۔ تمہارے ساتھ نہ ہوتا تو میں اس کو زیارت کبھی نہ کرنے دیتا بلکہ قتل کرتا۔ حضرت سعدؓ نے کہا کہ ’’تم زیادہ الجھنے کی کوشش نہ کرنا،ہم تمہارا شام سے آنے والا قافلہ روک دینگے۔ دوست سردار نے کہا کہ ابوجہل سے سخت لہجے میں بات نہ کرو، یہ ہماراسردار ہے۔ حضرت سعدؓ نے اپنے دوست سے غصہ میں کہا کہ مجھے تمہاری اوقات کا پتہ ہے عنقریب تم اور تمہارے سردار سب قتل ہونیوالے ہو۔ معاملہ ٹھنڈا ہوا، گھر پہنچے تو دوست سردار نے اپنی بیوی سے کہا کہ ’’ تمہارا بھائی نے میرے قتل کی خبر سنارہا تھا‘‘۔ بیگم نے کہا کہ سچ !، کیسے؟۔ حضرت سعدانصاریؓ نے کہا کہ ’’مجھے اور کچھ بھی معلوم نہیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے مشہور سرداروں کے نام لیکر فرمایا ہے کہ عنقریب یہ قتل ہونگے‘‘۔ جسکی وجہ سے اس دوست سردار پر خوف طاری ہوا۔ پھر مدینہ میں حضرت سعدؓ نے مختلف لوگوں کو یہ قصہ سنایا۔ جس کی وجہ سے شام کے قافلے کو لوٹنے کا خیال منظم ہوا۔ مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا، تو جو لوگ اس میں شریک نہ ہوئے انکی مذمت نہ ہوئی اسلئے کہ جہاد کے ارادے سے نہ گئے تھے جس کی وضاحت بخاری میں موجود ہے۔ قرآن و احادیث اور سیرت کی کتابوں میں واضح ہے کہ مسلمانوں کا پروگرام شام کا قافلہ تھا لیکن اللہ نے بدر کے معرکہ سے دوچار کردیا، فتح کے بعد مشرکین کے70افرادسردار سمیت قتل اور70قیدی بنائے گئے۔ جب مشرک قافلے کے دفاع کیلئے مکہ سے نکل رہے تھے تو سرداروں پر رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی کی وجہ سے قتل کا خوف بھی طاری تھا۔ سعد انصاریؓ کا دوست مشرک سردار نکلنے پر آمادہ نہیں تھا مگر ابوجہل نے کہاکہ تم نہ نکلوگے تو دوسرے بھی ڈرکے مارے تیار نہ ہونگے۔یہ سارا پسِ منظربخاری میں بھی موجودہے۔
مسلمانوں نے قیدیوں پرمشاورت کی تو حضرت عمرؓ اور حضرت سعدؓ نے مشورہ دیاکہ ’’ان قیدیوں کو قتل کیا جائے‘‘۔ باقی حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ وغیرہ متفق تھے کہ ’’فدیہ لیکر ان کو چھوڑ دیا جائے‘‘۔ رسول ﷺ نے فدیہ لیکر رحم والے مشورے پر فیصلہ فرمادیا تو اللہ نے آیتیں نازل کردیں کہ’’ نبی (ﷺ) کیلئے مناسب نہیں تھاکہ انکے پاس قیدی تھے، یہانتک کہ زمین میں خونریزی کرتے، تم دنیاچاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتاہے اگر اللہ پہلے سے لکھ نہ چکا ہوتا تو سخت عذاب دیدیتا۔ ۔۔۔‘‘۔ رسول ﷺ نے بھی اس عذاب کو دیکھ لیا، جو حضرت عمرؓ اور حضرت سعدؓ کے سوا سب کو لپیٹ میں لیتا اور ان حقائق کی قرآن وسنت میں تفصیلات موجودہیں۔
مفسرین نے حقائق کو مسخ کرنے کیلئے قسم قسم کی تفسیرلکھ دی ، مسلمان مخالف قوتوں کیلئے حقائق کے منافی تفسیرو تعبیرکیسے قابلِ قبول ہوسکتی ہیں جب ان پر مسلمانوں کا آپس میں بھی اتفاق ممکن نہیں ۔ علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے اپنی تفسیر ’’تبیان القرآن‘‘ میں مفسرین اور اپنے استاذ کے حوالے دئیے ہیں جو بڑی مضحکہ خیز بھی ہیں۔ آیات اور حقائق سے ان کا کوئی جوڑ بھی نہیں لگتا، بس آیت کے مفہوم کو مسخ کرنے اور اجنبی بنانے کا ذریعہ ہیں لیکن قرآن کی ان آیات سے ہدایت کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔
مہاجر مسلمانوں کے گھروں اور زمینوں پر قبضہ کیا گیا تھا، مدینہ میں انصارؓ اپنے مہاجرؓ بھائیوں کا بوجھ خندہ پیشانی سے برداشت کررہے تھے ، قافلہ کو لوٹنا شوق نہیں مجبوری اور اپنا حق تھا اور فدیہ لینے کی مجبوری تھی لیکن اللہ نے پھر بھی انکا تزکیہ کردیا کہ مسلمانوں کی تحریک دنیاوی مفاد کے حصول کی خاطر نہیں بلکہ اللہ صرف آخرت چاہتاہے۔ اگر اللہ تنبیہ نہیں فرماتا تو نتیجہ میں قیامت تک قافلے لوٹنے اور اغواء برائے تاوان کو مقصد سمجھا جاتا۔ صحابہ کرامؓ کے ذہنوں میں رسول اللہﷺ کے عزیز واقارب کی وجہ سے معافی کا جذبہ تھا، اللہ نے اس جذبے کو بھی ناقابلِ قبول قرار دیا۔ یہی سبب بناتھا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے باغِ فدک پر حضرت فاطمہؓ ناراض ہوئیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے اہلبیت کی ضروریات کو باغِ فدک سے پوراکیا اور باقی آمدن غرباء کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکرؓ نے اپنی بیگم کا بچابچاکر میٹھے کیلئے جمع کردہ مال بھی غریب میں تقسیم کیا اور اتنا وظیفہ اپنا کم کروادیا۔
حضرت عمرؓ نے حدیثِ قرطاس میں رسول اللہﷺ کے فرمان پر عرض کیا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے، یہ قرآنی آیات کی تربیت کا نتیجہ تھا۔ اللہ نے قرآنی آیات کے ذریعہ تعلیم وتربیت اور تزکیہ کے علاوہ حکمت کی بھی تعلیم دی تھی، فدیہ لینے کے مسئلہ پر مسلمانوں کوڈانٹاگیااور نبیﷺ کا فیصلہ نامناسب قرار دیا تو بظاہر ڈانٹ مسلمانوں کو پڑی مگر پیغام درحقیقت مشرکوں کو دیاگیا کہ ’’اس دفعہ فدیہ دیکر سلامت جارہے ہو لیکن پھر یہ توقع نہ رکھنا کہ پھر گرفتاری کے بعد چھوٹ جاؤگے‘‘۔ جیسے یہ کہاوت مختلف زبانوں میں مشہور ہے کہ ’’ بیٹی تجھ سے کہہ رہا ہو ں کہ گھر کے یہ اصول ہیں ، ان پر چلنا ہوگا لیکن بہو سنو تم بھی‘‘ جس کا مقصد بہو کو سمجھانا ہوتاہے۔ یہ حکمت کی زبان مسلمانوں کو قرآن نے بہت پہلے قرآن ہی کے ذریعے سمجھائی تھی۔
غزوہ اُحد میں مسلمانوں کو زخم لگا تو بہت دکھ پہنچا اور بدلہ لینے میں مبالغہ آرائی کاکہاکہ ایک کے بدلے ستر کی حالت یہ کردینگے اور سمجھ رہے تھے کہ اللہ نے درست فرمایا تھا ،فدیہ کے بدلے میں ہمیں ا ن کو چھوڑنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے تھی، تو اللہ نے واضح فرمایا: ’’ اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو ان کوبھی تکلیف پہنچی تھی‘‘۔ ’’ کسی قوم کے انتقام کا جذبہ تمہیں وہاں تک نہ لیجائے کہ تم اعتدال سے ہٹ جاؤ‘‘۔ ’’ جتنا انہوں نے کیا ہے ، تم بھی اتنا کرسکتے ہو، اور اگر معاف کردو، تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور معاف ہی کردو، اور معاف کرنا بھی اللہ کی توفیق کے مرہونِ منت ہے‘‘۔ جب مسلمانوں نے معاف کیا تو اللہ نے کہا کہ تم نے معاف کیوں کیا؟۔ اور جب بدلہ لینے کی بات کردی تو اس پر بھی مخالفت میں آیات نازل ہوئیں اور معاف کرنے کا حکم دیدیا۔
قرآن میں دوسری جگہ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ قیدیوں کو فدیہ کے بدلے میں یا بغیر فدیہ کے جیسے چاہو چھوڑ سکتے ہو‘‘۔ شدت پسند وں کے ذہن کی سوئی خون بہانے پر ہی اٹکی ہوئی ہے اور بے شرم سیاستدان سمجھتے ہیں کہ وہ قاتل اور کرپٹ ہوکر بھی معصومیت کے دعوے نہ کریں تو اقتدار ہاتھ سے جائیگا۔ اس قوم نے قرآن کو چھوڑدیا ہے ۔ نبیﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اسلام اجنبیت کا بالکل شکار ہوگیاہے۔ پاکستان میں زیادہ تر علماء کرام ومفتیانِ عظام کا تعلق دیوبندی، بریلوی ، اہلحدیث اور اہل تشیع کے مکاتبِ فکر سے ہے۔اکثریت کا تعلق حنفی فقہ درسِ نظامی سے تعلق رکھنے والے دیوبندی بریلوی علماء کی ہے۔
مدارس دینیہ میں علماء بننے کیلئے غسل کے فرائض سے لیکر طلاق وغیرہ کے مسائل تک جو تعلیم دی جاتی ہے ، اس کا صحابہ کرامؓ کے دور میں کوئی وجود نہ تھا۔ امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کے معتقدین کا غسل کے فرائض پر اختلاف سے لیکر جن جن مسائل پر اختلافات ہیں، ان کے سیکھنے سکھانے سے مولوی طبقہ پیدا ہوتا ہے ۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے دور میں اس قسم کے مسائل کا وجود نہ تھا اسلئے کوئی مولوی بھی نہیں تھا، رسول اللہ ﷺ کی طرف سے یہ مسئلے مسائل کسی کو نہیں سکھائے جاتے تھے اسلئے مولوی بننے کے ادارے بہت بعد کے ادوار میں پیدا ہوئے۔ آج بھی مسلمانوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ وہ مولوی پیدا کرنیوالے مذہبی مسائل سے نا آشنا ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے اسلام جیسی عظیم الشان نعمت کو انکے رحم وکرم پر چھوڑ دیاگیا، جنہوں نے اسلام کو اپنے موروثی پیشہ کے طور پر اپنایاہے۔
رسول اللہ ﷺ کو وحی کے ذریعے رہنمائی کی ضرورت تھی۔ خلافتِ راشدہ کے دور میں وحی کا سلسلہ بند تھا۔ صحابہؓ کی چاہت تھی کہ زکوٰۃ اور صدقات کو نبیﷺ کے حوالہ کریں کیونکہ زیادہ تر مساکین نبیﷺ کے گرد منڈلاتے تھے تاکہ آپﷺ اپنی صوابدید کے مطابق جن کو چاہیں دیدیں۔ رسول اللہﷺ کی چاہت یہ تھی کہ اہل ثروت اپنی زکوٰۃ اپنے ہاتھ سے غرباء میں تقسیم کریں اسلئے کہ اپنے عزیز واقارب محبت کی وجہ سے ترجیح کے باعث بن سکتے تھے۔ انصارؓ کے جوانوں نے ایک بار شکوہ شکایت شروع کی کہ ’’قربانیاں ہم نے دیں اور مہاجرینؓ کو ترجیح دی جاتی ہے ‘‘ تو نبیﷺ نے بھرپور وضاحت کی، پھر انصارؓ نے کہاتھا : رضینا باللہ ربا و بمحمد نبیا و بالاسلام دینا ’’ہم اللہ کے رب ، محمدﷺ کے نبی اور اسلام کے دین ہونے پرراضی ہیں‘‘۔
جب اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو حکم دیا کہ ’’ مسلمانوں سے صدقات لیں،یہ ان کی تسکین کا ذریعہ ہے ‘‘ تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اوپر اور عزیز واقارب پر زکوٰۃ کو حرام قرار دیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ اللہ نے انسان کے بارے میں فرمایاہے :انہ لحب الخیر لشدید ’’مال کی محبت میں انسان بہت سخت ہے‘‘۔ نبیﷺ نے فرمایا’’ میرا بس چلتا تو سارا خیر خود ہی سمیٹ لیتا‘‘۔ اللہ نے رسول ﷺ کے ذریعہ صحابہؓ کی تربیت کا اہتمام فرمایا، رسول ﷺ نے اپنے لئے زکوٰۃ کو ناجائز قرار دیا تو حضرت ابوبکرؓ نے ضرورت سے زیادہ مال بیت المال سے لینا جائز نہ سمجھا۔ ان مقدس ہستیوں نے قرآنی تعلیمات دنیا کے سامنے عملی طور پر پیش کردیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک متوسط طبقے سے زیادہ بودوباش اپنے لئے قبول نہ فرمایا، حضرت عثمانؓ پہلے سے خود ہی مالدار تھے اور حضرت علیؓ قرآن وسنت کیلئے کوشاں رہے۔ ان ہستیوں سے حسنِ ظن کے باوجود عشرہ مبشرہ کے صحابہ حضرت طلحہؓ و حضرت زبیرؓ اور حضرت علیؓ کے مابین قتل و غارت کیوں ہوئی، جبکہ قرآن نے انکی صفت رحماء بینھم اشداء علی الکفار ’’ آپس میں رحیم اور کافروں پر سخت‘‘بیان کی تھی ؟،نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ خبر دار میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔
اللہ نے مسلمانوں کے درمیان قتل وغارت اور جھگڑے کی صورت میں صلح کرنے کا حکم دیا۔غیبت کو مردے بھائی کا گوشت کھانا کہہ دیا اور غیبت کو زنا سے بدتر قرار دیاگیا تو اسکے معانی منطقی نتائج نکالنے کے نہیں بلکہ جسکو ہلکا گناہ سمجھا جائے ،پُرزور الفاظ میں ا س سے بچنے کی تلقین ہے، جیسے فتنے کو قرآن میں قتل سے سخت قرار دیاگیا اور اولاد کو بھی فتنہ قرار دیاگیا۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کوئی کم عقل خطیب زورِ خطابت میں اولاد کو قتل کرنے کی دعوت شروع کردے، مولانا طارق جمیل کی آواز ایک ٹیلی فون کی گھنٹی پر ہے کہ ’’جس زمین پر سجدہ نہ کیا جائے، زنا کو بڑا جرم سمجھتے ہیں، نماز نہ پڑھنا زناسے بڑا جرم ہے،رشوت کو جرم سمجھتے ہیں، نمازنہ پڑھنا رشوت سے بڑا جرم ہے، قتل کو بڑا جرم سمجھتے ہیں،نماز نہ پڑھنا قتل سے بڑا جرم ہے، شیطان نے زنا کیا تھا، قتل کیا تھا،شرک کیا تھا،اک سجدہ ۔۔۔‘‘۔ پتہ نہیں ہماری ریاست اور عوام کا کیا انجام ہوگا؟۔ کس قسم کے جاہل عوام کے محبوب رہنما بن گئے ہیں؟۔
اس جاہل کو علم کی سند کس جاہل نے دی ؟۔ غزوہ خندق میں نبیﷺ سے چار نمازیں قضاء ہوئیں،سفر میں نبیﷺ سمیت صحابہؓ سے نمازِ فجر قضا ہوئی، حضرت علیؓ نے نبیﷺ کی خدمت میں عصر کی نماز قضا کردی، ایک وفد کو نبیﷺ نے حکم دیاکہ ’’عصرکی نماز بنی قریضہ پہنچ کر پڑھو‘‘، بعض افراد نے وقت پر نماز ادا کرلی اور بعض نے قضا کرکے مغرب کیساتھ پڑھ لی، نبیﷺ نے کوئی تنبیہ نہ فرمائی۔ ایک مقروض کا نمازِ جنازہ پڑھنے سے رسول اللہﷺ نے انکار فرمایا، حضرت علیؓ نے قرض ادا کرنا اپنے ذمہ لے لیا تو نبیﷺ نے اس نمازی کا جنازہ پڑھالیا، ایک ایسا شخص جسکے نماز، روزہ ، حج اورکسی عبادت کا کوئی گواہ نہ تھا لیکن حقوق العباد کا اس پرکوئی معاملہ نہ تھا، ایک شخص نے مسلمان ہونے کیلئے گواہی دی کہ ایک موقع پر رات کو میرے ساتھ چوکیداری کی تھی،رسول اللہﷺ نے نہ صرف نمازِ جنازہ پڑھائی بلکہ جنت کی بشارت بھی دی،ہرعالم اور تھوڑی بہت دینی شعوررکھنے والا جانتاہے کہ حقوق العباد کو اللہ معاف نہیں کرتا اور حقوق اللہ میں معافی کی گنجائش ہے۔
نبیﷺ نے ذی الخویصرہ علیہ لعنت کے بارے میں فرمایا :’’اس گستاخ کو قتل نہ کرو، اسکے اور بھی ساتھی ہیں جنکے نماز اور روزے کو دیکھ تم اپنی نماز اور روزوں کو حقیر سمجھوگے، یہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن انکے حلق سے نہ اتریگا اوریہ ایمان سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتاہے‘‘ ۔ مولانا طارق جمیل ذی الخویصرہ کی روحانی اولاد پیداکررہاہے۔ مذہبی طبقے میں نماز پر اتنا زور اور زنا، رشوت، قتل اور شرک سمیت سب کو ہلکا کرنے کی کوشش بڑی گھناؤنی حرکت ہے۔ غیبت کو مردے بھائی کا گوشت اور زنا سے بدتر اسلئے کہا گیا کہ حقوق العباد کو معمولی نہ سمجھا جائے ، مذہبی لوگ ناسمجھ ہیں، حقوق العباد کی پامالی ان کو سراپا شیطان بنادے گی۔ تبلیغی جماعت، علماء کرام اور مفتیان عظام نوٹس لیں، یہ جرم جنیدجمشیدکے اس جرم سے خطرناک ہے جس سے مولاناطارق جمیل نے برأت کا اعلان کیا تھا، دیوبندی مکتبۂ فکر کے اکابر علماء میں اگر ایمانی قوت ہو تو اس پر اعلانیہ توبہ کی تلقین کروائیں۔ بہت سے لوگوں نے یہ خطاب سنا ہوگا اور اسکے علاوہ بھی یہ مذہبی اداکار کیا کچھ نہ کرتا ہوگا؟۔
نبیﷺ نے فرمایا : ’’جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کی، اس نے کفر کیا‘‘ باقی ائمہ نے اس کو شدت پر محمول کیا لیکن حضرت امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ اس سے ترہیب مرادہے ، حقیقت نہیں۔ صحابہؓ سے فرمایاتھا کہ ’’ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔ عشرہ مبشرہ اورصحابہؓ پر یہ کفر کا فتویٰ نہ لگایاگیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ ’’ جو حج کی استطاعت رکھتاہو وہ حج نہ کرے تو اس کی مرضی کہ یہود بن کر مرے یا نصرانی‘‘۔ جس پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کفر کا فتویٰ لگایاتھا۔ علماء نے ان کی تردید کردی کہ حج کا منکر کافر ہے مگر استعداد رکھنے کے باوجودحج نہ کرنے والا فاسق ہے کافر نہیں۔ فقہ سمجھ کا نام ہے ، حدیث پڑھنے یا مسائل رٹنے کوفقہ نہیں کہتے ہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ ، امام شافعیؒ ، امام مالکؒ کے بارے میں کہا جاسکتاہے کہ نیک نیتی سے حدیث کو سمجھنے میں غلطی کی، مولانا مودودیؒ نے بھی اسی طرح سے سمجھ میں غلطی کی تھی مگر مولاناطارق جمیل نے ایسی جاہلانہ منطق کا جال بچھایا جس میں شیطانی قوتوں کی زبردست سرپرستی کا حق اداکردیاہے۔
رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں وحی کا سلسلہ موجود تھا، ایک خاتون نے ظہار کے مسئلہ پر مجادلہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے خاتون کے حق میں ہی وحی نازل کی، سورۂ مجادلہ کی آیات دیکھ لی جائیں۔ رسول اللہﷺ کا کوئی جانشین ایسا نہیں، جس سے اختلاف کی گنجائش نہ ہو،جوپیروکاروں کو اختلاف نہیں کرنے دیتا وہ خلیفہ، عالم اور مذہبی پیشوا نہیں بلکہ دجال کے لشکر کا امام ہے۔ امام ابوحنیفہؒ سے انکے شاگردوں نے اختلاف کیا، رسول اللہﷺ سے صحابہؓ کرام کا اختلاف رہا۔بدر کے قیدی، سورۂ مجادلہ،صلح حدیبیہ ، حدیث قرطاس وغیرہ کی مثالیں قرآن وسنت میں موجود ہیں۔ خلافت راشدہؓ میں بھی اختلاف جاری رہا۔ حضرت ابوبکرؓ نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کیخلاف جہاد کا فیصلہ کیا توحضرت عمرفاروق اعظمؓ نے اختلاف کیا، حضرت ابوبکرؓ نے بہرحال فیصلہ کیا تو صحابہؓ نے ویسے ساتھ دیا جیسے صلح حدیبیہ کے وقت نبیﷺ کا بادلِ نخواستہ ساتھ دیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے نبیﷺ سے حدیث قرطاس کے مسئلہ پر اختلاف کیا لیکن آخر میں اس تمنا کا اظہار فرمایا: ’’کاش! ہم نبیﷺ سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھ لیتے۔1: نبیﷺ کے بعد خلافت کس کے پاس ہونی چاہیے 2:زکوٰۃ نہ دینے والوں کیخلاف قتال کرنا چاہیے یا نہیں،3: کلالہ کی میراث۔ رسول اللہﷺ کو زکوٰۃ لینے کا حکم تھا، جس میں مؤمنوں کے دل کو تسکین پہنچنے کی وضاحت تھی۔ جن لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا، وہ یہی مؤقف رکھتے تھے کہ ’’یہ حکم نبیﷺ کیساتھ خاص تھا‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ سمجھاکہ خلیفۃ الرسول کی یہ ذمہ داری ہے کہ مالداروں سے غریبوں کے حقوق کو چھین کرلیا جائے۔ زکوٰۃ نہ دینے والوں میں مالک بن نویرہ بھی تھا جسکی خوبصورت بیگم سے اس وقت کے آرمی چیف نے شوہر کے قتل کے بعد شادی بھی رچالی۔ حضرت عمرؓ نے اس فعل پر حضرت خالد بن ولیدؓ کو سنگسار کرنے کی تجویز پیش کی لیکن حضرت ابوبکرؓ نے تنبیہ پر اکتفاء کیا اور فرمایا کہ ’’ خالدؓ ہماری ضرورت ہیں‘‘۔ ایک موقع پر نبیﷺ نے حضرت خالدؓ کو تنبیہ بھی نہیں فرمائی بلکہ صرف اپنی برأت کا اعلان فرمایا۔ بعض معاملات میں مصلحت کی شاذ ونادر مثالیں ملتی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غلطی سے قبطی کو قتل کیا تو خود کو سزا کیلئے پیش کرنے کے بجائے راہِ فرار اختیار کرلی مگریہ قاعدہ اور قانون نہیں اور نہ اس وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پیغمبروں کی فہرست سے خارج ہیں۔
صحابہ کرامؓ نے انتہائی مشکل حالات میں اقتدار کا مسند سنبھالا، ایمانداری سے نبھایا، حضرت داؤد علیہ السلام کا دل اپنے ایک مجاہد اوریا کی بیوی پر آیاتو اللہ نے تنبیہ کیلئے فرشتے بھیجے، قرآن میں 99دُنبیوں کے مقابلہ میں ایک دُنبی چھیننے کا ذکرہے، جس پر حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ سے مغفرت مانگی اور اللہ نے معاف کردیا۔ نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے بعد ام ہانیؓ سے شادی کی خواہش ظاہر فرمائی مگر اس نے انکار کیا،اللہ نے فرمایاکہ ’’جن رشتہ داروں نے ہجرت نہیں کی ان سے نکاح نہ کریں‘‘ اور فرمایا کہ ’’ اب اسکے بعد کوئی شادی نہ کریں چاہے کوئی خاتون بھلی لگے‘‘۔ شادی کی خواہش فطری ہوتی ہے۔ انبیاء ؑ و صحابہؓ کے معاملے سے غلط منطقی نتائج نکالنا گمراہی ہے۔
حضرت علیؓ کی بہن ام ہانیؓ اولین مسلمانوں میں تھیں، ہجرت نہ کی تھی، شوہر مشرک تھا، مکہ فتح ہوا تو حضرت علیؓ نے اسکے شوہر کوقتل کرنا چاہا، نبیﷺ نے اسکی فرمائش پرامان دی، شوہر چھوڑکر چلاگیا، نبیﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے پہلے بھی ام ہانیؓ کا رشتہ حضرت ابوطالب سے مانگا تھا۔ اہل تشیع کا متشدد طبقہ اپنی علمی موشگافیوں سے بڑے غلط نتائج مرتب کرکے صحابہ کرامؓ کو نشانہ بناتاہے۔ حضرت علیؓ نے اپنے مشرک بہنوئی کو قتل کرنا چاہاجس کا قصور بھی نہ تھااسلئے کہ وہ جائزوناجائز کے تصور سے ماوراء تھا۔ اہلسنت اہل تشیع کی طرح منطقی نتائج نہیں نکالتے بلکہ حسنِ ظن، درگزر اور چشم پوشی کرتے ہیں۔
اللہ نے قرآن میں فرمایاکہ ’’زانی نکاح نہیں کرتامگرزانیہ یا مشرکہ سے، اور زانیہ کا نکاح نہیں کرایا جاتا مگر زانی یا مشرک سے اور یہ مؤمنوں پر حرام کیا گیاہے‘‘۔ اہل تشیع بتائیں کہ حضرت ابوطالب نے اپنی مؤمنہ بیٹی حضرت ام ہانیؓ کا نکاح نبیﷺ کے بجائے مشرک سے کیوں کروادیا؟۔ اور وہ مؤمنہ ہوکر بھی مشرک کے نکاح میں کیوں رہیں؟۔ کیا نعوذباللہ من ذٰلک ہم قرآن کی آیت سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ وہ بدکار یا مشرکہ تھیں؟۔ ہم زندگی کے تمام پہلوؤں سے صرفِ نظر کرکے وثوق سے کہتے ہیں کہ حضرت ام ہانیؓ کا شمار ان دس خواتین میں ہوتاہے جن کو عشرہ مبشرہ کے دس مرد صحابہؓ کی طرح ان دس خواتین میں شمار کیا جاتاہے جن کی زندگی رسول اللہ ﷺ کے اردگرد رہی۔ اس پر باقاعدہ عربی میں کتاب بھی موجود ہے۔ معراج کا واقعہ بھی حضرت اُمّ ہانیؓ کے گھر میں ہواتھا، اسلام مخالف طبقات نے اعتراض کیا ہے کہ ’’ نبیﷺ کا وہاں کیا کام تھا، کیوں رات گزاری؟‘‘۔ ڈاکٹر شکیل اوج شہیدؒ نے بتایاکہ میں نے جواب دیا کہ ’’امّ ہانیؓ آپ ﷺ کی دودھ شریک بہن تھیں‘‘۔ حالانکہ یہ قرآن وسنت کی تعلیم سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ نبیﷺ کو ایک انقلابی کی حیثیت سے جن خطرات کا سامناتھا، ایک انقلابی اپنی زندگی کو بچانے کیلئے جو طرزِ عمل اپناتاہے، رات رشتہ داروں کے ہاں چھپتاہے ، یہ وہی جانتاہے جس سے اس قسم کے حالات اور واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
رسول اللہﷺ کا رشتہ مانگ لینا ہی اسکے مؤمنہ ہونے کا ثبوت ہے، آپؓ نے بچوں کی خاطر رشتے سے انکار کیا تو رسول اللہﷺ نے اس کی تعریف کی، جب ابوسفیانؓ نے اسلام قبول کیا تو حضرت عمرؓ نے اس خواہش کااظہارفرمایا کہ نبیﷺ تک پہنچنے سے پہلے ہاتھ لگ جاتا اور اس کوحالت کفرمیں ماردیتا۔ اگر علیؓ اُمّ ہانیؓ کا شوہر قتل کرتا تو نبیﷺ بدلہ نہ لیتے مگر اس وجہ سے اسلام کے اجتماعی نظام عدل پر تہمت نہیں لگائی جاسکتی تھی۔اللہ نے کبائرگناہ اور فواحش سے اجتناب کی صفت کیساتھ قرآن میں بھی اضطراری طورکا استثناء رکھاہے۔
رسول اللہﷺ نے ام ہانیؓ کے شوہرکو درست پناہ دی، اللہ نے خواتین کو ہجرت کے بعد انکے شوہروں کو لوٹانا ناجائز اسلئے قرار دیاکہ شوہروں کی طرف سے تشدد کا خدشہ تھا۔ لاھن حل لھم ولاھم یحلون لھم’’وہ عورتیں ان شوہروں کیلئے حلال نہیں اور نہ وہ شوہر ان کیلئے حلال ہیں‘‘۔ ام ہانیؓنے ہجرت نہیں کی تھی،اسلئے آیت کا ان پر اطلاق نہیں ہوتا تھا،اور حلال نہ ہونے سے مراد شرعی حلت و حرمت کا تصور بھی نہیں تھا بلکہ لغت وزبان میں جس پر بدترین تشدد متوقع ہو،اس کیلئے بھی یہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
حضرت ام ہانیؓ سے رشتہ مانگنا ہی مؤمنہ ہونے کیلئے کافی بڑی سند ہے،تو سبقت لے جانیوالے مہاجرؓ و انصارؓ کیلئے رضی اللہ عنہم ورضوعنہ زیادہ بڑی سند ہے۔اہل سنت واہل تشیع کی غلط فہمیاں دور کرنا ضروری ہے۔
مذہبی طبقات کی مثال نسوار، حقہ، چرس، افیون،بھنگ، ہیروئن، کوکین، شیشہ اور اقسام وانواع کے موالیوں کی طرح ہے، جو جس ماحول میں رہا، اس کووہ لت لگ گئی۔ منشیات فروش بدمعاش بھی پالتے ہیں اور قتل وغارتگری سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ مذہبی طبقوں کی لڑائی بھی کاروباری مجبوری ہے۔ اب تویہ حال ہے کہ دوسرے فرقہ والے اپنا مذہب بھی تبدیل کرنا چاہیں تو چاہت یہی ہوگی کہ وہ جوں کے توں رہیں تاکہ اسی سے اپنا کاروبار چلے۔
رسول ﷺ کو جس نے زکوٰۃ نہ دی تو اس کیخلاف قتال نہ کیا، چاروں امام متفق تھے کہ زکوٰۃ نہ دینے پر قتال نہیں۔ امام مالکؒ و امام شافعیؒ نے نماز پر قتل کا حکم دیا۔ یوں اسلام اجنبی بنتا چلاگیا اور آج مولانا طارق جمیل کے وعظ ہیں یاعلامہ ضمیر نقوی کے جو پاکستان کو بھارت کی گاؤ ماتا کے مقابلہ میں ذوالجناح کی عطا قرار دیتاہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام معجزات کے باوجود مظلوم تھے مگر مظلوم خدا نہیں ہوتا، نصاریٰ کا عقیدہ درست ہورہاہے، حضرت علیؓکو مظلوم ہی سمجھنے میں عقیدہ سلامت ہے اور قتل سے زیادہ گالی بری نہیں۔عتق گیلا نی

بہت ہی معذرت کے ساتھ چند گزارشات

بہت سے علماء کرام کے بیانات شائع نہ ہوسکے ، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ علماء کرام اور بیانات دینے والے حضرات کے خیالات کو ضرور شائع کریں۔ ہمارے قارئین ان کے افکار سے محروم رہ گئے ہیں ۔ ماہنامہ اخبار میں گنجائش بھی بہت کم ہوتی ہے لیکن ہماری اپنی بھی خواہش ہے کہ قارئین تک معتبر لوگوں کے تاثرات ، اعتراضات اور مختلف خیالات بھی پہنچ جائیں۔
پاکستان میں بڑے دینی مدارس، اعلیٰ عدالتیں ، ریاستی ادارے ، سیاسی و مذہبی جماعتیں .. سب ہی غریب عوام اور پسے ہوئے طبقات کے دکھ درد سے بیگانہ نظر آتے ہیں۔ مدارس کا المیہ یہ ہے کہ جب کوئی غریب ، جاہل اور ان پڑھ اپنے گھریلو مسئلہ لے کر آتا ہے تو مفتی صاحبان کا فتویٰ گھر توڑنے ، پریشانی میں اضافہ اور حلالہ کا شکار کرنے کیلئے ہوتا ہے۔ کمزوروں کے ساتھ شروع سے یہ رسم چلی ہے۔ اعلیٰ عدالتی فیصلوں میں بڑوں کو ہی ریلیف ملنے کی روایت چلی ہے اور ظالم کے سامنے مظلوموں کو انصاف دلانے کیلئے جس ماحول کی ضرورت ہے اس کا دنیا میں کوئی دور دور تک نشان منزل دکھائی نہیں دیتا۔ ظلم سے ڈوبی ہوئی یہ دنیا گلی محلے سے لیکر عالمی سطح تک جس نظام سے بندھی ہے وہ ظلمات بعضھا فوق بعض اندھیروں پر اندھیرے کے مانند ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طاقت کو کوئی نہیں پہنچ سکتا لیکن جب اللہ تعالیٰ کے کھلے احکام سے علماء کو انحراف کرنے میں عار محسوس نہ ہو اور ہماری ریاست انصاف نہ کرسکے تو اور کسی کی کیا غلطی۔

پاکستان کی ریاست کے استحکام کیلئے اقدام کیا ہو؟

مجھے کارٹون سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن بچوں کے محبوب شغل کی وجہ سے ٹام اینڈ جیری کا نام جانتا ہوں۔ سیاسی ٹاک شوز سے بڑی دلچسپی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں سیاست کی وہی حیثیت بن گئی ہے جو بچوں کے کارٹون کی ہے۔ بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ۔ پیپلز پارٹی کی گذشتہ دور حکومت میں نواز شریف اور شہباز شریف دن رات آصف زرداری کی کرپشن کا واویلا مچاتے تھے۔ کراچی ، لاڑکانہ ، نوابشاہ اور لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں ، پیٹ چاک کرکے لوٹی ہوئی رقم واپس لوٹانے کے بیانات اور چوکوں پر لٹکانے کے عہد و پیمان سے میڈیا گونج رہا ہوتا تھا۔ جب ن لیگ کو عوام نے اقتدار سونپ دیا یا کسی اور چینل سے ان کو جتوایا گیا تو سب وعدے وعید بھول گئے اور پانامہ لیکس سے ان کی اپنی بلی تھیلی سے باہر آئی۔ متضاد بیانات میڈیا کی زینت بنے لیکن ڈھیٹ آہنی اعصاب کے ٹھیٹ مالک ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
مذہبی دہشت گرد ریاستی اداروں کے پلے ہوئے قربانی کے بکرے تھے، جنکو جنرل راحیل شریف نے قابل قدر کارنامہ انجام دے کر ٹھکانے لگادیا۔ بلوچ قوم پرست تعصبات کے شکار تھے اور کراچی کی ایم کیو ایم اپنی قوم کیلئے ہی عذاب جان بن گئی تھی۔ اسلئے ان سب کو سہولت کے ساتھ قابو کیا گیا۔ بینظیر انکم سپورٹ کا نام بدل کر خوشحال پاکستان رکھ دیا گیا لیکن غریبوں کی تھوڑی بہت امداد بھی روک دی گئی۔ ہوسکتا ہے کہ مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کو معاہدے

mustafa-kamal-ishrat-ul-ibad-2-

کے تحت یہ ڈھیل دی ہو کہ کچھ غریبوں میں ان کی مقبولیت کا گراف پھر بڑھ جائے۔ ابو ظہبی نے جو مفت پاور پلانٹ دیا تھا اس کے بارے میں سید تنویر الحسن زیدی نے میرے سامنے ایم کیو ایم کے رہنما سلمان مجاہد بلوچ کو گوادر کے پی سی ہوٹل میں بتایا کہ ’’مجھ سے کہا گیا کہ اگر ایم کیو ایم کو کچھ چاہیے تو ان کو بھی دے دیتے ہیں۔ اس وقت مصطفی کمال ناظم تھے ، جب مصطفی کمال نے بتایا کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے بس کراچی کے لوگوں کی مدد ہو تو میں خوشی سے پھولے نہ سمارہا تھا کہ ہماری ایم کیو ایم کتنی اچھی ہے۔ پھر گورنر عشرت العباد کے پاس بھی ہم گئے ، انہوں نے بھی یہی کہا مگر کسی نے بعد میں بتایا کہ اگر مصطفی کمال نہ ہوتے تو ڈاکٹر عشرت العباد کچھ لے لیتا۔ پھر وہ پاور پلانٹ پرویز مشرف کی حکومت کے جانے کے بعد صدر زرداری نے کراچی میں نہیں لگنے دیا۔ وہ پلانٹ پھر فیصل آباد میں لگایا گیا‘‘۔ چیئر مین سینٹ رضا ربانی وضاحت طلب کریں۔
عوام سوچتی ہے کہ یہ پاور پلانٹ عوام کیلئے تھا مگر کراچی اور فیصل آباد کی عوام کو براہ راست اس کا کیا فائدہ پہنچتا؟ ۔ اور کچھ نہیں تو لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی کمی کا مسئلہ حل ہوسکتا تھا۔ دنیا بھر میں اتنی سستی بجلی کہیں پیدا نہیں ہوسکتی جتنی پاکستان میں پانی کے قدرتی بہاؤ سے پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ آبشاروں سے دنیا روشن ہوسکتی ہے۔ محمود خان اچکزئی الیکٹریکل انجینئر ہیں ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ سوات کے آبشاروں سے کئی ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے۔ اپنے دوست نواز شریف کو سمجھاتے کہ لوہے کے کاروبار سے بجلی کا کاروبار زیادہ منافع بخش ہے اور عوام کیلئے سستی بجلی کا بندوبست ہوجاتا تو پختونخواہ اور پاکستان کی عوام کا بہت بھلا ہوجاتا۔ کراچی میں جب ایرانی پیٹرول پکڑا جاتا ہے تو ریاست ، حکومت اور سیاست کا سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ بلوچستان کے راستے میں دور دور تک کوسٹل ہائی وے پر آبادی ہے اور نہ ہی پیٹرول پمپ، گوادر میں ایرانی پیٹرول ہی فروخت ہوتا ہے۔ حکومت اپنوں و ریاستی عناصر کو نوازنے کیلئے اسمگلنگ کا کاروبار جاری رکھے ہوئی ہے۔
ایران سے گیس اور پیٹرول حکومت خریدتی اور عوام کو ریلیف مل جاتا ، اس طرح آبشاروں سے وسیع پیمانے پر سستی بجلی پیدا کی جاتی تو عوام کو خوشحال بنایا جاسکتا تھا۔ قدرتی پانی کے باوجود پاکستان کی آبادیاں صاف و شفاف پانی سے اسلئے محروم ہیں کہ منرل واٹر پر پلنے والے غریبوں کا احساس اور دکھ درد نہیں سمجھ سکتے۔ برفیلے پہاڑوں سے اللہ تعالیٰ شفاف پانی کو عوام تک پہنچاتا ہے اور حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندیوں سے غریب عوام آلودہ پانی و انواع و اقسام کی بیماریوں کے شکار بنتے ہیں۔حکمران سبسڈی کے نام پر کمپنیوں کو نواز کر اپنا اُلو سیدھا کرتے ہیں۔ یہ ملک قدرت نے دنیا پر امامت کیلئے بنایا ہے ، بلوچستان انڈسٹریل زون بنتا اور پنجاب و پختونخواہ اور سندھ کی آبادیوں میں قدرتی شفاف پانیوں کی حفاظت ہوتی ، زراعت و باغات ہوتے ، آلودگی سے حفاظت ہوتی اور کراچی سے گوادر تک سمندر کے کنارے کوسٹل ہائی وے پر انڈسٹریل زون ہوتا تو دنیا حسین پاکستان کا نظارہ کرنے کیلئے امنڈ آتی۔ ذو الفقار علی بھٹو کو ایوب خان لایا ، آدھا تیتر آدھا بٹیر بھٹو نے اسلامی سوشلزم کے نام پر ملک کا بیڑہ غرق کیا ، جنرل ضیاء نے بھٹیوں سے نواز شریف کو نکال کر قوم پر مسلط کیا جس نے ملک کو قرضوں تلے دبا کر عوام کو غلام بنادیا۔

علماء کرام ، مفتیان عظام اور طلبہ اسلام نمونہ کے طور پر طلاق کے حوالہ سے یہ مختصر نصاب دیکھ لو!

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سورۂ بقرہ کے اندر بڑی وضاحت سے طلاق کے احکام بیان کئے۔ مدارس نصاب میں قرآنی آیات اصول فقہ کی روح کے مطابق پڑھانا شروع کرینگے تو نہ صرف علماء و مفتیان بلکہ عوام الناس اور پوری دنیا کے لوگوں کیلئے قرآن مشعل راہ بن جائیگا۔ آئیے حنفی مسلک کے عین مطابق طلاق کے حوالہ سے قرآنی نصاب تعلیم کو پہلے سمجھیں۔
افلا یتدبرون القرآن ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیراًO (النساء: 82 ) ’’کیا وہ قرآن پر غور نہیں کرتے، اگر یہ اللہ کے علاوہ کسی کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سا رے اختلافات ( تضادات) ان کوملتے۔‘‘اس آیت سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہوئی کہ فقہ کی کتابوں میں طلاق کے حرام و حلال کے اختلافی مسائل اللہ کے نہیں ، یہ انسانی اختراعات ہیں اور من گھڑت ہیں ،اللہ کی طرف سے ہوتے تو اختلافات نہ ہوتے۔
و نزلنا علیک الکتٰب تبیاناً لکل شیء و ھدیً و رحمۃً و بشریٰ للمسلمین (اوراتاری ہم نے تجھ پر کتاب جو ہر چیز کو واضح کرنے والی ہے، ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے ماننے والوں کیلئے(سورہ النحل: 89 )‘‘ ۔ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ہر چیز کو واضح کردینے والا قرار دیا، تو کیا طلاق کے مسائل کی وضاحت اور خواتین وحضرات کے حقوق کو واضح نہیں کیا ہے؟۔ ہدایت، رحمت اور بشارت کیلئے علماء ومفتیان کو حلالہ کی لعنت کا فتویٰ ہی دکھائی دیتا ہے؟ اور کوئی یہ بڑی خوشخبری ہے؟۔ کیا رجوع کے حوالہ سے ڈھیر ساری آیات کیلئے اندھے پن کا مظاہرہ کرنا ضروری ہوتاہے؟۔ وضاحت کیلئے قرآن کا سہارا لینے کے بجائے فتاویٰ عالمگیری سے استدلال لینا بڑا کارنامہ ہے؟۔ اورنگزیب بادشاہ نے اپنے تمام بھائیوں کو قتل کردیا۔ فتاویٰ عالمگیری میں بادشاہ سے قتل، زنا، چوری اور تمام حدود وتعزیرات کوساقط کردیا ہے۔ کیا اسکے حوالہ جات کو معتبر قرار دیکر قرآن کریم، سنت نبویﷺ اور خلافتِ راشدہ سے انحراف نہیں ہے؟۔
مشکوٰۃ شریف کی حدیث ہے کہ نبی کریمﷺ کی نظر ایک خاتون پر پڑگئی، آپﷺ گھر گئے اور گھر والی سے حاجت پوری کی اورفرمایا :’ جس کو اس طرح اشتعال آجائے تووہ بیوی کے پاس جائے، اسلئے کہ جو اسکے پاس ہے وہ بیوی کے پاس بھی ہے‘‘۔سیرۃ النبیﷺ بہترین نمونہ ہے، صحابہ کرامؓ سے زنا سرزد ہوا ہے اور اپنے اوپر حد بھی جاری کروائی ۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے زکوٰۃ کے جہاد میں مالک بن نویرہ کو قتل کرکے اس کی خوبصورت بیگم سے شادی کرلی تو حضرت عمرؓ نے سنگسار کرنے کی تجویز رکھ دی، کوئی بیگم کو کسی مفتی کے پاس لاکر طلاق کا مسئلہ پوچھے تو حلالہ کیلئے ایسا راستہ تلاش کیا جاتاہے جیسے ٹریفک پولیس کسی طرح مال بٹورنے کے چکر میں رہتی ہے۔ علماء کرام و مفتیان عظام اور طلبہ اسلام کو عوام کے حال پر رحم کھانے کی ضرورت ہے۔ ذیل میں تفصیل کیساتھ بترتیب طلاق کے حوالہ سے حقائق کی نشاندہی سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش ہے۔
و لا تجعلوا اللہ عرضۃ لایمانکم ان تبرّواوتتقوا وتصلحوا بین الناس واللہ سمیع علیمOلا یؤخذکم اللہ بالغو فی ایمانکم ولکن یؤخذکم بما کسبت قلوبکم واللہ غفور حلیمO للذین یؤلون من نساءھم تربص اربعۃ اشھر فان فاؤٓ فان اللہ غفور رحیمO و ان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیمO (البقرہ: 224-25-26-27) ’’اور اللہ کو مت بناؤ اپنی قسموں کیلئے ڈھال یہ کہ تم نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان مصالحت کرو۔ اللہ سننے جاننے والا ہے۔ تمہیں اللہ لغو قسموں پر نہیں پکڑتا مگر وہ تمہیں پکڑتا ہے جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے۔ اور اللہ معاف کرنے والا نرمی کا برتاؤ کرنے والا ہے۔ اور جو لوگ اپنی عورتوں سے قسم کھالیں تو ان کیلئے چار ماہ کا انتظار ہے۔ پس اگر وہ آپس میں مل گئے تو اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے (میاں بیوی کے درمیان صلح صفائی ہوجائے تواللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا مہربان ہے) اور اگر انہوں نے طلاق کا ارادہ کر رکھا ہو تو اللہ تعالیٰ سننے اور جاننے والا ہے ( طلاق کے عزم کا اظہار نہ کرنے پر مواخذہ ہوگا)‘‘۔
عربی میں ایمن دائیں جانب کو کہتے ہیں، دایاں ہاتھ پختہ عہدو پیمان کیلئے استعمال ہوتاتھا، پشتو کی اصطلاح بھی یہی ہے۔عہد، ایمن، حلف اورقسم مترادف استعمال ہوتے ہیں،البتہ ایلاء بیوی سے ناراض ہونیکی صورت سے خاص ہے،عام حلف کو ایلاء نہیں کہتے ۔ایلاء میں واضح طلاق نہیں ہوتی اسلئے اللہ نے طلاق سے ایک ماہ زیادہ اسکی عدت رکھی لیکن اگر طلاق کا عزم ہو اور اسکا اظہار نہ ہو تو یہ دل کا گناہ اوراس پر پکڑ ہے ، طلاق کااظہار نہ کیا توعدت چار ماہ ہے اور یہ عورت کی حق تلفی ہے۔
و المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروءٍ ولا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن ان کن یؤمن باللہ و الیوم الاٰخر و بعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحاً و لھن مثل الذین علیھن بالمعروف و للرجال علیھن درجۃ و اللہ عزیز حکیمO (البقرہ: آیت 228 )اور طلاق والی عورتیں انتظار میں رکھیں خود کو تین ادوار (طہر و حیض) تک اور ان کیلئے حلال نہیں کہ چھپائیں جو پیدا کیا، اللہ نے انکے پیٹ میں اگر وہ ایمان رکھتی ہیں اللہ پر اورآخرت کے دن پر، اور انکے خاوندہی انکے لوٹانے کا حق رکھتے ہیں اس مدت میں بشرطیکہ صلح کرنا چاہیں اور عورتوں کا بھی حق ہے جیسا کہ مردوں کا عورتوں پر ہے معروف طریقے سے اور مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ حاصل ہے اور اللہ زبردست ہے حکمت والا ہے‘‘۔
ایلاء کی صورت میں چارماہ تک رجوع بلکہ صلح کیلئے ضروری مدت اوراظہارِ طلاق میں بھی صلح کی شرط پر شوہر کیلئے رجوع بلکہ ضروری مدت ہے۔ کیا اس میں مزید وضاحت کی ضرورت ہے؟ ۔ شوہر طلاق دے اور عورت انتظار کی پابند ہو تو کیا یہ ایک درجہ کی فضیلت نہیں؟۔ البتہ رجوع کیلئے اللہ نے عدت میں بھی باہمی رضامندی اور صلح کو شرط قرار دیاہے ورنہ پھر مساوی حقوق کی بات غلط ہے، اصلاح سے مراد صلح ہے جسکی دوسری آیت میں وضاحت ہے، صلح کا ٹھیکہ مفتی کونہ دیا، جدائی کا خطرہ ہو تو ایک ایک فرد کو دونوں طرف سے صلح کی کوشش کا کہا گیا۔فاروق اعظمؓ نے عورت کے حق کیلئے لڑائی کی صورت میں شوہر کو رجوع کا حق نہ دینے کا فیصلہ درست اور قرآنی روح کیمطابق کیا، شوہر کی طرف سے عدت میں رجوع اور نکاح برقراررکھنے کا دعویٰ بے بنیادہے،صحابہؓ اور فقہاءؒ کی تائید قرآن وسنت سے انحراف نہ تھا، امام ابوحنیفہؒ نے طلاق کے اظہار کے بغیر ناراضگی کی مدت پر عورت کو طلاق قرار دیکر ٹھیک کیا، بات عزم سے طلاق کی نہیں بلکہ عورت کاحق ہی اصل بنیادہے۔ عدت میں طہرو حیض کے تین مراحل اور حیض نہ آنے کی صورت میں تین ماہ کی عدت اس وقت ہے جب حمل نہ ہو، شوہر کا طلاق دینا اور عورت کا عدت گزارنا ہی ایک درجہ مردوں کی فضیلت ہے ۔
الطلاق مرتٰن فامساک بمعرف او تسریح باحسان ولا یحل لکم ان تأ خذوا مما اٰتیتمو ھن شیئاً الا ان یخافاالا یقیما حدوداللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہٖ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا ومن یتعد حدود اللہ فاولٰئک ھم الظٰلمون(البقرہ:229) طلاق دو مرتبہ ہے، پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ چھوڑنا ہے اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ واپس لے لو جو بھی تم نے ان کو دیا ہے ا س میں سے کچھ بھی، مگر جب دونوں کو خوف ہو کہ اسکے بغیر اللہ کی حدود قائم نہ رکھ سکیں گے ، پھر اگر تم ڈرو کہ دونوں اللہ کے حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو کچھ حرج نہیں دونوں پر جو عورت کی طرف سے مرد کو (دئیے مال سے)کچھ فدیہ کیا جائے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں ان سے تجاوز مت کرو اور جو اللہ کے حدود سے بڑھ جائے ،یہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔جب اللہ نے طلاق کی عدت کے تین مراحل بیان کیے ، جن میں آخر تک رجوع کا دروازہ کھلا رکھنے کو صلح کی شرط پرفرض قرار دیاتو دومرتبہ طلاق اور تیسری مرتبہ معروف طریقے سے روکنے یا احسان کیساتھ چھوڑنے میں کیا ابہام رہ جاتاہے؟۔ طلاق اہم معاشرتی مسئلہ ہے اسلئے میاں بیوی کے علاوہ فیصلے والوں کی موجودگی کا بھی صراحت سے ذکرہے ۔ خاص طور سے اس صورت میں جب علماء ومفتیان حلالہ کے حوالہ سے غلط فتوؤں کا ادھار کھائے بیٹھے ہوں۔ چناچہ اگر رجوع کیا تو ٹھیک ہے لیکن اگر تیسرے مرحلہ میں بھی طلاق کے فیصلہ پر شوہر برقرار رہا تو پھر اس صورت میں اللہ نے مزید وضاحت کردی کہ جو کچھ بھی بیوی کو دیا ہے اسمیں کچھ لینا جائز نہیں۔ہاں میاں بیوی اور فیصلہ کرنیوالے سمجھتے ہوں کہ مستقل جدائی کا فیصلہ ہوچکا، عورت نے کہیں دوسری جگہ شادی کرنی ہے، دئیے ہوئے مال میں سے کوئی چیز ہو جس کی وجہ سے خطرہ ہو کہ اگر وہ نہ دی تو ان کا پھر آپس میں ملاپ ہوگا اور دونوں کسی طرح سے اللہ کی حدود کو پامال کرسکتے ہیں تو عورت کی طرف سے وہ چیز فدیہ کی جائے۔ جدائی کا یہ فیصلہ باہوش وحواس اور متفقہ فیصلے کے نتیجہ میں ہو، فدیہ بھی اسلئے دیا گیا ہو کہ آئندہ سامنا بھی نہ ہوسکے۔ چونکہ غیرت کا تقاضہ سمجھا جاتا کہ طلاق کے باوجود عورت کو مرضی سے شادی نہ کرنے دیتے، انصار کے سردار سعد بن عبادہؓ کے حوالہ سے بخاری کی روایت ہے اور نبیﷺ کی وفات کے بعد اللہ نے ازواج مطہراتؓ سے شادی پر پابندی لگاکر فرمایاکہ نبیﷺ کو اذیت ہوتی ہے۔ لیڈی ڈیاناکو بھی طلاق کے بعد دوسری شادی کی غیرت کے چکر میں ماراگیا اور پٹھانوں میں بھی یہ رسم موجود ہے ۔ کوئی بھی اس کیلئے مشکل سے تیار ہوتاہے، اسلئے اللہ نے شوہر پر اس طرح طلاق کے بعد پابندی لگادی کہ اس کیلئے حلال نہیں اسکے بعد یہاں تک کہ کسی اور سے شادی نہ کرلے۔اصول فقہ کی کتاب نورالانوار میں بنیادی مسئلے کی بہترین وضاحت بھی ہے کہ دومرتبہ سے ایک کے بعد دوسری مرتبہ مراد ہے اور جس طلاق کے بعد حلال نہ ہونیکی بات ہے وہ فدیہ سے منسلک ہے ،مگر ساتھ اس میں حماقت کی تعلیم بھی ہے کہ فدیہ سے مراد خلع ہے، خلع جملہ معترضہ ہے یا سیاق و سباق کے ہی مطابق ہے۔ اگرچہ بنیادی طور سے حنفی مؤقف ہی برحق اور حقائق کے مطابق ہے مگرتیسری طلاق کی تلاش میں سرگرداں اور اختلافات پر مشتمل سبق کی حماقت پر حیرت بھی ہے،اسلئے کہ نبیﷺ کا تسریح باحسان کو تیسرے مرحلے کی تیسری طلاق قرار دینا کافی تھا۔آیت میں خلع کا حال بیان نہیں کیا گیاہے بلکہ اسی صورتحال کی بھرپور وضاحت ہے جس کی وجہ سے علماء ومفتیان نے اپنی مطلب براری کیلئے امت مسلمہ کو پریشان کر رکھاہے۔ خلوص ہو تو معاملہ بالکل واضح ہے۔
فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یتراجعا ن ظنا ان یقیما حدود اللہ و تلک حدود اللہ یبینھا لقوم یعلمون (البقرۃ : 230) ’’پس اگر اس نے اس کو طلاق دے دی تواس کیلئے حلال نہیں اس کے بعد جب تک کہ وہ نکاح نہ کرے کسی اور خاوند سے۔ پھر اگر وہ طلاق دیدے تو دونوں پر گناہ نہیں اگر باہم مل جائیں اگر ان کو گمان ہو کہ اللہ کی حدود کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ اللہ کے حدود ہیں جو واضح کرتا ہے اس قوم کیلئے جو سمجھ رکھتے ہیں‘‘۔ جس صورت میں میاں بیوی اور فیصلے کے افراد یہ بھی کرڈالیں کہ دی ہوئی چیزوں میں سے وہ چیز بھی عورت کی طرف سے فدیہ کریں تو اللہ کی مقرر کردہ حدود سے عوام اور علماء ومفتیان کو نکلنے سے روکا گیاہے۔ پھر مستقل شادی کی ہی عورت مجاز ہے نہ کہ شوہر حلالہ کروائے اور مفتی حلالہ کردے، البتہ مستقل شادی کے بعد دوسرا شوہر طلاق دے تو بھی پہلے سے اس شرط پر شادی کی اجازت ہے کہ جس سے شادی کی، اس آشنائی کا خمیازہ بعد میں یہ نہ بھگتے کہ دوسرے سے بھی واسطہ پڑتا رہے اور حدود پامال ہوں۔
و اذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروفٍ او سرحوھن بمعروفٍ ولا تمسکوھن ضرارً لتعدوا ومن یفعل ذٰلک فقد ظلم نفسہ ولا تتخذوا اٰیٰت اللہ ھزواً واذکروا نعمت اللہ علیکم وما انزل علیکم من الکتٰب و الحکمۃ یعظکم بہٖ و اتقوا اللہ واعلموا ان اللہ بکل شیءٍ علیم(البقرہ: آیت 231) ’’ اور جب تم نے طلاق دی عورتوں کو پھر پہنچیں وہ اپنی عدت کو، تو انکو معروف طریقے سے روکو یا معروف طریقے سے چھوڑ دو اور نہ روکے رکھو ان کو ستانے کیلئے تاکہ ان پر زیادتی کرو اور جو ایسا کریگا وہ بے شک اپنی جان پر ظلم کریگا اور مت بناؤ اللہ کے احکام کو مذاق اور یاد کرو اللہ کی نعمت کو جو تم پر اس نے کی ہے اور جو اتاری تم پر کتاب میں سے(طلاق ورجوع کے احکام) اور حکمت، تم کو نصیحت کرتا ہے اللہ اسکے ذریعہ سے اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے‘‘۔اس آیت میں پھر اللہ نے واضح کردیا کہ عورت راضی نہ ہو تو عدت میں بھی صلح کے بغیر رجوع نہیں ہے اور عورت راضی ہو تو عدت کی تکمیل کے بعد بھی اللہ نے رجوع پر کوئی پابندی نہیں لگائی ہے۔ البتہ اگر عورت رجوع کیلئے راضی ہو لیکن شوہر بسانے کی نیت سے نہیں ستانے کی نیت سے رکھتاہے تویہ اس نے عورت پر توظلم کیا نہ کیا لیکن اپنے اوپر ضرور ظلم ہے۔ عورت ایک نعمت ہے، طلاق ورجوع کے احکام بھی اللہ نے قرآن میں نعمت کے طور پر نازل کئے ہیں اور انسان کو حکمت و دانش بھی اللہ کی نعمت ہے، ان سب نعمتوں کو فراموش کرکے نفسانی خواہشات کے فقہاء کا شکار ہونا اللہ سے ڈرنا نہیں ہے بلکہ ان نعمتوں کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ علماء کو اللہ کی پکڑ کا احساس ہونا چاہیے۔
و اذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلا تعضلوھن ان ینکحن ازواجھن اذا تراضوا بینھم بالمعروف ذٰلک یوعظ بہٖ من کان منکم یؤمن باللہ و الیوم الاٰخر ذٰلکم ازکیٰ لکم و اطھر و اللہ یعلم و انتم لا تعلمون (البقرہ:آیت 232) ’’اور جب طلاق دی تم نے عورتوں کو پھر پورا کرچکی اپنی عدت کو تو اب نہ روکو ان کو اس سے کہ ازدواجی تعلق قائم کریں اپنے خاوندوں سے جب راضی ہو ں آپس میں معروف طریقے سے یہ نصیحت اس کو کی جاتی ہے جو تم میں سے اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور آخرت کے دن پر، اور اس میں تمہارے واسطے زیادہ پاکی اور زیادہ طہارت ہے۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘۔ اللہ نے پھر وضاحت کردی کہ اگر ناراضگی شوہر کی طرف سے نہ ہو بلکہ بیوی روٹھ کر گئی ہو، خلع لیا ہو اور پھر دونوں آپس میں ملنا چاہیں تو عدت پوری ہونے اور بڑے عرصے کی مدت گزرنے کے باوجود بھی ان کو ازدواجی تعلقات بحال کرنے سے نہ روکو ، جب آپس میں معروف طریقے سے راضی ہوں۔ اسی میں معاشرے کی طہارت اور پاکیزگی ہے، طلاق یافتہ خواتین کا اپنے شوہروں سے رجوع ہو تو معاشرے میں زیادہ تزکیہ اورطہارت ہوگی۔ اللہ جانتاہے مولوی مفتی سمیت عوام نہیں جانتے۔
سورۂ بقرہ کی ان آیات میں تسلسل کیساتھ جو وضاحت ہے ، مولوی حضرات خالی ان کا ترجمہ دیکھ کر اپنا دل ودماغ کھولنے کی کوشش کرکے تو دیکھ لیں، حلالوں کے مزے اڑانے والے شاید شرم، خوف، لالچ اور دیگر وجوہات ومفادات کی وجہ سے اپنے بے تکے فتوؤں سے باز نہ آئیں مگر حق کے متلاشیوں کیلئے ان آیات میں بڑی زبردست وضاحت ہے، حضرت عمرؓ اور امام ابوحنیفہؒ سے انحراف نہیں ،اسلاف پر اعتماد بھی ہے اور اسلام بھی اجنبیت سے نکلتاہے ۔ سورۂ طلاق دیکھ لو!
یاایھا النبی اذا طلتم النساء فطلقوھن لعتدھن واحصوا العدۃ و اتقوا اللہ ربکم لا تخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃٍ و تلک حدود اللہ ومن یتعد حدود اللہ فقد ظلم نفسہ لا تدری لعل اللہ یحدث بعد ذٰلک امراً (الطلاق: 1) اے نبی! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو ان کو عدت تک کیلئے طلاق دو اور شمار کرو عدت کااحاطہ کرکے اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے۔ ان کو مت نکالو ان کے گھروں سے اور نہ وہ خود نکلیں مگر جب کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں اور یہ اللہ کی حدود ہیں اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا، تمہیں خبر نہیں شاید اللہ (اختلاف کے بعد موافقت کی)کوئی نئی صورت پیدا کردے‘‘۔اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلویؒ نے آیت کا مفہوم بھی کنزالایمان میں بدل ڈالا ہے، لکھاہے کہ’’ ہوسکتاہے اللہ کوئی نئے احکام نازل کردے‘‘ اور علامہ شبیراحمد عثمانیؒ نے بھی بالکل غلط تفسیر لکھ ڈالی ہے کہ ’’ اللہ نے عورت کی عدت حیض میں ہی طلاق کا حکم دیاہے ، یعنی حیض سے تھوڑا پہلے‘‘۔ دیوبندی بریلوی علماء خودہی دیکھ کر فیصلہ کریں۔
فاذ بلغن اجلھن فامسکوھن بمعروفٍ او فارقوھن بمعروفٍ و اشھدوا ذوی عدلٍ منکم و اقیموا الشھادۃ للہ ذٰلکم یوعظ بہٖ من کان یؤمن باللہ و الیوم الاٰخر ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً (الطلاق: 2 )’’ اور جب پہنچے وہ اپنی عدت کو تو ان کو معروف طریقے سے رکھ لو یا معروف طریقے سے الگ کردو اور گواہ بنادو اپنے میں سے دو انصاف والوں کو اور گواہی دو اللہ کیلئے۔ یہی ہے جس کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے اس کوجو ایمان رکھتاہے اللہ اور آخرت کے دن پر اور جو اللہ سے ڈرا تو وہ اس کیلئے نکلنے کا راستہ بنادے گا‘‘۔ اللہ کی طرف سے پھر وضاحت کردی گئی کہ عدت کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ فقہ کی کتابوں کے مطابق آدھے سے زیادہ بچہ باہر آیا تو عدت ختم ہوگئی، اب رجوع نہیں ہوسکتا۔ منکر کے مقابلہ میں معروف آتاہے اور منکر کے مقابلہ میں احسان بھی آتاہے۔ رجوع و طلاق میں جو بھی راستہ اختیار کیا جائے وہ معروف ہو، احسان والا ہو، منکر نہ ہو۔ فقہاء نے اختلافی مسائل میں منکر صورتوں کو ایجاد کیاہے۔ آیت میں چھوڑنے کی صورت پر دو گواہ مقرر کرنے کی وضاحت کیساتھ یہ بھی واضح ہے کہ آئندہ بھی اللہ نے رجوع کا راستہ نہیں روکا ہے، جو اللہ سے ڈرا، اس کیلئے اللہ راستہ بنادیگا، یعنی عورت پھر راضی ہوگی اور قرآن کے مطابق معاشرے کاخوف رکاوٹ نہ بنے گا۔ طلاق میں انا کو بھی مسئلہ بنالیا جاتاہے اور علماء وفقہاء نے الگ سے جہالت کا ماحول کھڑا کردیاہے۔ جو اللہ سے نہ ڈرا، اس کا راستہ بھی اللہ نے بند نہیں کیاہے۔ البتہ جب عورت راضی نہ ہو اور شوہر رکھنے پر منکر طریقہ سے مجبور کرے تو اس کا اللہ نے بھی راستہ روکا ہے، حضرت عمرؓ نے بھی یہی کیا تھا، امام ابوحنیفہؒ نے بھی یہی کیا اور انسانی فطرت بھی اس کا تقاضہ کرتی ہے لیکن مولوی کا جاہلانہ فتویٰ دوسری بات ہے۔ ابو رکانہؓ نے ام رکانہؓ کو عدت کے مطابق الگ الگ تین طلاق دی ، دوسری شادی کی، اس عورت نے نامرد ہونے کی شکایت کی رسول اللہﷺ نے دوسری کو طلاق کا حکم دیا، ام رکانہؓ سے رجوع کا کہا، انہوں نے عرض کیا کہ تین طلاقیں دے چکا، نبیﷺ نے فرمایا، مجھے معلوم ہے اور سورۂ طلاق کی آیات پڑھ کر سمجھایا۔ مسلم شریف میں ہے کہ ابن عمرؓ نے تین طلاقیں دی تھیں، جسکے مقابلہ میں کوئی شخص قابل اعتماد ایسا نہ تھا جو ایک طلاق کی درست بات کرتا، پھر بیس سال بعد حضرت حسن بصریؒ کو ایک اور مستند شخص ملا، جس نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی، اسکے بعد روایات کی ایسی بھرمار ہے کہ انسان کانوں کو ہاتھ لگاکر معاذاللہ پڑھنے کے بجائے مرغا بناکر لاتعلقی کا اظہار بھی کرادے۔
: یا ایھا الذین اٰمنوا اذا نکحتم المومنٰت ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فما لکم علیھن من عدۃ تعتدونھا فمتعوھن و سرحوھن سراحاً جمیلاًO (الاحزاب: 49 ) ’’اے ایمان والو! جب تم نکاح میں لاؤ ایمان والیوں کو ، پھر ان کو چھوڑ دو اس سے پہلے کہ ان کو ہاتھ لگاؤ۔ پس ان پر تمہیں کوئی حق نہیں عدت کا، کہ اس کی گنتی پوری کراؤ۔ سو ان کو خرچہ دو اور رخصت کرو ان کو خوبصورتی کے ساتھ رخصت کرنا‘‘۔ شوہر کو عدت میں صلح کی شرط پرحقدار قرار دیاہے، تین طلاقوں کی ملکیت کا تصور جہالت ہے ،عدت شوہر کا حق ہے، ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں حرج ہے اور نہ عدت، البتہ نصف حق مہر کا جرمانہ ہے ۔
و ان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکماً من اہلہٖ و حکماً من اہلھا ان یریدا اصلاحاً یوفق اللہ بینھما ان اللہ کان علیماً خبیراًO (سورہ النساء: 35 ) ’’اور اگر تمہیں خوف ہو، ان دونوں کے درمیان جدائی کا تو تشکیل دو، ایک فیصلہ کرنے والا شوہر کے خاندان سے اور ایک فیصلہ کرنے والا بیوی کے خاندان سے، اگر دونوں صلح کا ارادہ رکھتے ہوں تو اللہ تعالیٰ دونوں کے درمیان موافقت پیدا کردے گا۔ بیشک اللہ جاننے والا خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
اذا نفوس زوجتO و اذا المؤدۃ سئلتO بای ذنب قتلتO (اور جب جیون کے ساتھیوں کے جوڑے بنائے جائیں اور جب زندہ درگور کی جانیوالی سے پوچھا جائیگا۔ کہ کس جرم کی پاداش میں قتل کی گئی‘‘۔بیٹیوں کو زندہ دفنانے کی رسم ختم ہوگئی لیکن میاں بیوی کو جدا کرنے کے جرائم نے بھی حلالہ کی لعنت میں رغبت کی وجہ سے دورِ جاہلیت کی یاد تازہ کردی۔
ولا تقولوا لما تصف السنتکم الکذب ھٰذا حلٰل و ھٰذا حرام لتفتروا علی اللہ الکذب ان الذین یفترون علی اللہ الکذب لا یفلحونO ’’اور اپنی زبانوں کے بنانے سے جھوٹ کا نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام، تاکہ تم اللہ پر جھوٹ باندھو، بے شک جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں فلاح نہیں پاتے‘‘۔ اگر نکاح و طلاق کے حوالہ سے ناجائز حلال و حرام کا تعین ہوگیا اور مسلم معاشرے نے قرآن و سنت کی طرف توجہ کی تو دوسرے اختلافی مسائل بھی مٹانا مشکل نہ ہوگا۔ اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش ہے اور یہی رحمت ہے، فقہاء کے حلال و حرام کی گنجائش نہیں، مکروہ شرعی اصطلاع نہیں بلکہ طبعی رُجحانات سے مکروہات بنتے ہیں۔ عتیق گیلانی

مذہبی نظام کی اصلاح

مذہبی نظام میں اہم معاملہ مدارس کا نصابِ تعلیم ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور انکے بھائی مولانا عطاء الرحمن وغیرہ سیاسی ہیں، مدارس کے نصاب سے آگاہ نہیں۔ اساتذہ و مفتی حضرات کا واسطہ نصاب سے پڑتاہے۔ فرقہ وارانہ اور مسلکانہ الجھنوں میں گرفتار کم عقل فرد کا تعلق کسی بھی فرقے اورمسلک سے ہو وہ ایک وفادار سیاسی کارکن کی طرح قابل اعتماد، مخلص اور نیک سمجھا جاتاہے۔ مدارس میں کرایہ کی وکالت سے زیادہ دین کی کوئی خدمت نہیں ہے۔ ایک مجبورطبقہ مأمورہے جو وہی جووہ پڑھتا، پڑھاتا اور فتویٰ دیتاہے جس کی وکالت پر پیٹ پوجا کرتاہے۔ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ نے چند سال مالٹا کی جیل میں گزارے اور درس وتدریس اور سیاست سے ہٹ کر قرآن پر تدبر کا موقع مل گیا تو آنکھیں کھل گئیں، دارالعلوم دیوبند اور اپنے شاگردوں کے حصار کو توڑ نہیں سکے لیکن یہ فرمان چھوڑ دیا کہ ’’ امت کے زوال کی 2وجوہات ہیں، قرآن سے دوری اور فرقہ پرستی‘‘۔ واحد شاگردمولانا سندھیؒ نے قرآن کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کاآغاز کیا لیکن وہ فتوؤں کی نذر ہوگئے، مولانا سندھیؒ نے لکھا ہے کہ ’’ تم امام مہدی کا انتظار کرتے ہو مگر جب اپنے استاذ کی درست بات نہیں مانتے تو تم امام مہدی کے بھی مخالفین کی صف میں ہوگے‘‘۔ مولانا انور شاہ کشمیریؒ نے بھی آخر کار فرمایا کہ ’’ میں نے قرآن وسنت کی خدمت نہیں بلکہ مسلکوں کی وکالت میں اپنی ساری زندگی ضائع کردی‘‘۔ مفتی اعظم مفتی محمد شفیعؒ نے بھی آخری عمر میں یہ اقوال نقل کئے اور مدارس کو بانجھ قرار دیدیا۔ مولانا ابولکلام آزادؒ کی والدہ عرب تھیں، مادری زبان عربی تھی ، بچپن حجاز میں گزرا، بعد میں اردو بھی سیکھ لی۔ مدارس کے نصاب کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی، جب بھارت کے وزیرتعلیم تھے تو علماء کرام کا بڑا اجلاس بلاکر نصاب بدلنے کی تلقین کرتے ہوئے واضح کیا کہ ’’ یہ ساتویں صدی ہجری کی کتابیں ہیں، جس وقت مغلق عبارتوں کو کمال سمجھا جاتاتھا، زوال کے دور میں لکھی گئی کتابیں پست ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں، یہ شکایت غلط ہے کہ علماء کی ستعداد کم ہوگئی ہے، یہ نصاب ہی ذہین لوگوں کو کوڑھ دماغ بنانے کیلئے کافی ہے‘‘۔ مگر علماء نے توجہ نہ دی۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چےئرمین مولانا شیرانی اور مولانا عطاء الرحمن کے پاس پہنچا تو اپنی ریاست پاکستان کو عجیب و غریب قرار دے رہے تھے، مجھ سے پوچھا تو میں نے مدارس میں قرآن کی تعریف کے حوالہ سے سوال اٹھادیاکہ کتابی شکل میں اللہ کے کتاب کی نفی ہے، مکتوب فی المصاحف سے مراد لکھی ہوئی کتاب نہیں، حالانکہ الذین یکتبون الکتاب بایدیھم ، علم بالقلم، اکتتبھا بکرۃ واصیلا، والقلم ومایسطرون دلیل ہیں کہ اصولِ فقہ میں کفر پڑھایا جارہاہے۔ پھر کتاب اللہ کے بارے میں کہ صحیح بات کہ بسم اللہ قرآن ہے مگر اس میں شبہ ہے اور نقل متواتر سے غیرمتواتر آیات خارج ہوگئیں ، اگر قرآن کی تعریف قرآن کیخلاف ہو، اس میں شک اور کچھ کمی کی بھی تعلیم دی جائے ، حالانکہ ایک ان پڑھ اور بچہ بھی کتاب کی تعریف سمجھتا ہے‘‘۔
مولانا عطاء الرحمن نے پشتو کہاوت سنائی کہ’’ بھوکے سے کہا کہ پراٹھے کیوں نہیں کھاتا؟ ، ہم ملک پر سرگرادن تھے اور اس نے یہ مسئلہ اٹھادیا‘‘۔ کیا نصاب میں قرآن کے خلاف کوئی اور طبقہ یہ سازش کرے تو مولوی اسکے خلاف طوفان نہیں کھڑا کرینگے؟۔ کیا ریاست علماء ومفتیان کو قرآن کے حوالہ سے حق بات پوچھنے سے بھی ڈرتی ہے؟۔ کیا اس نصاب کا پڑھنا اور پڑھانا کسی بڑی سازش سے کم ہے؟۔ ہم نے پہلے بھی یہ آواز اٹھائی تھی، شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے فقہ کی سب سے مستند کتاب ’’ہدایہ ‘‘کے مصنف کے حوالہ سے لکھ دیا کہ ’’ علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے‘‘، یہ حوالہ فتاویٰ شامی اور فتاویٰ قاضی خان میں بھی ہے۔ یہ عمران خان کے ثناخواں اور نکاح خواں مفتی سعید خان نے بھی اپنی کتاب ’’ریزہ الماس‘‘ میں اس دفاع کیساتھ لکھاہے کہ ’’جیسے قرآن میں سؤر کاگوشت جائز ہے، جو بدن کا جزء بھی بن جاتاہے مگر سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھاجائے تو جزء بدن نہیں بنتا‘‘۔ مفتی تقی عثمانی نے عوام کے دباؤ میں اس سے رجوع کرکے اپنی کتابوں سے نکالنے کا بھی اعلان کردیا مگر سوال پیدا ہوتاہے صاحب ہدایہ کو یہ لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب ’’اعمال قرآنی‘‘ میں بھی یہ نسخے ہیں لیکن صاحب ہدایہ نے یہ جرأت اسلئے کی کہ اصول فقہ میں علم الکلام کا مسئلہ ہے کہ تحریر میں سورۂ فاتحہ باقی قرآن کی طرح اللہ کا کلام یا کتاب اللہ نہیں ہے۔امام ابوحنیفہؒ نے علم الکلام کی گمراہی سے توبہ کی ،ہمارے ہاں یہ فقہ، اصولِ فقہ اور دم تعویذکیلئے پڑھایا جاتاہے۔مولانا فضل الرحمن، مفتی منیب الرحمن اور مفتی تقی عثمانی اہل اقتدار سے کہتے ہیں کہ ’’میں ہوں البیلا تانگے والا‘‘۔ فرقہ پرستوں کا حال ان سے بدتر ہے، مخلصوں کو ریاست نہ سپورٹ کیا تو پاکستان عالمِ اسلام بلکہ دنیا کا امام ہوگا۔