جنوری 2017 - Page 2 of 2 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

سیاسی نظام کی اصلاح

سب سے زیادہ قابلِ داد وہ سیاسی ورکر ہوتاہے جو غریب کی ہر مشکل میں کام آتاہے، ڈکٹیٹر شپ قوم پر مسلط ہوتی ہے تو یہی ورکر اور رہنما جیلوں کی صعوبت برداشت کرتے ہیں۔قربانیاں دیتے ہیں، عوام کے درمیان رہتے ہیں، جینے مرنے میں ساتھ ہوتے ہیں، باغی کہلاتے ہیں، جیالا اور جنونی کہلانے پر فخر کرتے ہیں ، مخالفین کی طرف سے آسائشوں کی پیشکشوں کوٹھکراتے ہیں اور اپنا سب کچھ داؤ پر لگاکر نظرئیے ، تبدیلی اور عوامی خدمت کو اپنا مشن بناکر رکھتے ہیں، دوسری طرف سیاسی قیادت کے اپنے مسائل ہوتے ہیں، ان کا علاج ملک سے باہر ہوتاہے، ڈاکٹروں کی مبہم سی ہدایات پر دنیا بھر میں گھوم سکتے ہیں لیکن پاکستان نہیں آسکتے۔ جھوٹی بیماریاں جھوٹے علاج کرنے والے قائدین کے چاہنے والے غریبوں کو سچ کی بیماری اور سچ کا علاج بھی نصیب نہیں ہوتاہے۔
ایں خیال است و محال است کہ قومی اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے سے کوئی مثبت اور بنیادی تبدیلی آئے گی۔ قانون بنایا گیا کہ قومی اسمبلی کے الیکشن میں 15لاکھ سے زیادہ رقم خرچ نہ ہوگی لیکن کیا اس پر عمل درآمد ہوا؟۔ ایاز صادق اسپیکرقومی اسمبلی اسپیکر اور تحریک انصاف کے علیم خان نے15لاکھ کے بجائے 15,15کروڑ کا خرچہ نہیں کیا بلکہ نجم سیٹھی کی بیگم جگنو محسن کے جیو کا پروگرام تھا جس میں50,50کروڑ سے زیادہ خرچہ کرنے کی بات عوام کے سامنے لائی گئی۔ اور جہانگیر ترین کو اس حلقے والے جانتے بھی نہ تھے جہاں سے الیکشن لڑا ، ایک ارب کا خرچہ میڈیاپر بتایا گیا۔ جسکے پاس الیکشن لڑنے کیلئے 15لاکھ روپے ہوتے ہیں وہ غریب اور پسے ہوئے طبقات کا دکھ درد نہیں سمجھ سکتاہے اور جہاں طلال چوہدری دانیال عزیز، جہانگیرترین اور دیگر لوٹے شوٹے قیادت کی آنکھ کا تارا ہوں، ان موتیا کے مریضوں کو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے کبھی نظر نہیں آسکتے ہیں۔ ایک ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو غریب ، قوم اور جمہوریت کی آواز بن کر اُبھرے۔ بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کے انتظار میں عمران خان نے اپنا لائحۂ عمل بعد میں دینے کا اعلان کیا،حالانکہ جب پنڈی میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے جلسہ کیا تھا اس کا بھی عمران خان نے انتظار کیا تھا، ڈاکٹر طاہرالقادری کے بعدہی رائیونڈ جانے کا اعلان کیا لیکن فسٹ کزن نے سرخ بتی دکھادی، جب عمران خان نے 2نومبر کا اعلان کیا تھا اور فضا گرم تھی تو پھر بلاول بھٹو نے بھی 7نومبر کا اعلا ن کردیا تھا۔ اللہ خیر کرے کہ چوہدری اعتزاز احسن کو بلاول بھٹو حکم نہ دے کہ پانامہ لیکس میں نوازشریف کے وکیل بن جاؤ، زرداری کو بھی قابل وکیلوں نے بچایا تھا۔
بلاول بھٹو زرداری کو اردو صحیح نہیں آتی ورنہ اور کچھ نہیں تو نواب شاہ اور لاڑکانہ کے الیکشن کو جیتنے کیلئے شہبازشریف کو پرجوش تقریروں کا حوالہ دیتا کہ ’’ تم نے کہا تھا کہ صدر زرداری کو لٹکا دونگا، اب آؤ، تم زیادہ پکے مسلمان ہو، وعدہ کو قرآن و حدیث کی رو سے پورا کرنا ضروری سمجھتے ہو، پانامہ لیکس سے آلودہ نہیں دامن صاف ہے تو اس جوش کیساتھ خالی تقریر ہی کرکے دکھادو، کہ زرداری کو میں گھسیٹوں گا، پیٹ چاک کرونگا، چوکوں پر لٹکاونگا۔ میں بھی کہتا ہوں کہ کراچی سے جو پائپ لائن قطری گیس کی جارہی ہے، ایران کی سستی گیس کو چھوڑدیا ہے، جس سے عوام کو ریلیف مل جاتی تو اسی پائپ لائن کے اندر دونوں بھائیوں کو ڈال دونگا، بھلے نون لیگی مجھے شائستگی سکھادیں‘‘۔
عبدالحکیم بلوچ نے پیپلزپارٹی چھوڑ دی، پھر ن لیگ میں وزیرِ مملکت برائے ریلوے بن گئے اور پھر وزارت کو لات مارکر پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔ انکے حلقہ صالح محمد گوٹھ میں ویرانے کی طرف میمن گوٹھ جاتے ہوئے ایک پرانا کھمبا پڑا ہے، جس کو قانون کے خوف سے چور نہیں لے جاتے مگر ٹانک سے بنوں تک پورا ریلوے ٹریک نوازشریف نے اتفاق کی بھٹی میں ڈال دیا۔ بڑے چوروں نے سیاست کو تجارت بنالیاہے۔درباری ملا دوپیازے ہر دور کے بادشاہوں کو میسر آجاتے ہیں، پاکستان کی سیاست کے فیصلے لندن میں ہوں، لندن میں رہنے والے کریں تو قوم کو کبھی درست سمت نہیں لے جاسکتے۔ جبتک جنرل راحیل شریف سے اہل اقتدار خوفزدہ تھے تو بھارت نے ہمارے معصوم لوگوں کو سرحد پر مارنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہندوستان سے دوستی ہونی چاہیے لیکن اسلئے نہیں کہ سرحدوں پر بھی دوستی نبھانے کیلئے ٹینشن کا کام لیں۔
پنجاب حکومت نے عوام کو گدھوں کا گوشت کھانے سے بچانے والی عائشہ ممتاز اور سندھ نے ایماندار پولیس آفسر اے ڈی خواجہ کو ہٹادیا۔ پانی سے مالامال اور سستی بجلی پیدا کرکے عوام کو سہولت فراہم کرنے کے بجائے سوئس اکاونٹ اور پانامہ لیکس سے بھی سیاستدانوں کے پیٹ نہیں بھرے اور مخلص ورکروں اور رہنماؤں کا فرض بنتاہے کہ خودہی اپنی اپنی قیادتوں کے خلاف بھی آواز بلند کر دیں۔ سیاست ملازمت کی طرح بن جائے تو پاکستان میں جمہوری کلچر کبھی پروان نہیں چڑھے گا۔

ریاستی نظام کی اصلاح

ہماری سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں بافی قوم کی طرح اچھے برے لوگ ہیں مگرکوئی اپنے اہل و نااہل بیٹے یا بیٹی کو آرمی چیف نہیں بناسکتا اور جس سیاسی ، جمہوری اور آئینی نظام کے ماتحت ہماری سول وملٹری بیوروکریسی ہے وہاں موروثی نظام کے تحت بیٹا، بیٹی، پوتا اور نواسہ عوام پر مسلط کردیا جاتا ہے۔ میڈیا سکرین پر راج کرنیوالے صحافی نظام کی تبدیلی کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے مقابلہ میں موروثی جمہوریت کو سپورٹ کرکے جمہوریت کی خدمت سمجھتے ہیں اور جمہوریت کو تین طلاق دینے کے درپے آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے توقع رکھتے تھے کہ 27 دسمبر کو بڑا اعلان ہوگا۔ باپ بیٹے نے اچھا کیا کہ ’’ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی تمنائیں رکھ کر جینے والوں کی خواہش پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا کہ اسی اسمبلی کا حصہ بنیں گے جس پر کرپشن کا شاہسوار ہی حکومت کرنیکی اہلیت رکھتاہے‘‘۔ یہ کھیل بالکل ختم ہونا چاہیے کہ جمہوری حکومت پردباؤ ڈال کربیوروکریسی کے کرتے دھرتے اپنا الو سیدھا کرکے بیٹھ جائیں۔جنرل راحیل کے مداح سراؤں نے نیا موڑ لیا کہ’’ عمران خان بڑی چیز ہے،راحیل کی بات نہیں مانی ورنہ معاملہ بدلتا‘‘۔ عمران کہے گا کہ یہ کیا بکواس ہے؟۔
ڈاکٹر طاہرالقادری سے انقلاب کی کیاتوقع ہوگی کہ رائیونڈ مارچ کا اعلان کیا ، پھر اسکی طرف جانیوالی راہ پر بھی احتجاج جمہوریت و اسلام کیخلاف قرار دیا۔ عمران خان نے بھی دس لاکھ لوگوں کو سڑکوں پر لانے کا اعلان کیا لیکن اس خوف سے کہ اس کو بنی گالہ سے نہ نکالا جائے ، اپنے کارکنوں اور رہنماؤں کو اپنی حفاظتی حصار کیلئے پاس بلالیا اور کارکنوں کو مار کھلانے کے بعد خود کو بچانے کیلئے مبارک ہو، کا اعلان کردیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ عمران خان نے یوٹرن لے کر بڑی غلطی کی اور عمران کہتاہے کہ تم اپنے یوٹرن کو کیا بھول گئے؟۔ یہ طے ہے کہ کوئی مرتاہے تو آس پاس والے کفن دفن اور جنازہ پڑھنے کیلئے پہنچتے ہیں، شادی کے موقع پر بھنگڑے ڈالنے لوگ آتے ہیں۔ موجودہ سیاسی لیڈر شپ میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے، ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کے علاوہ عمران خان نے بھی نہ صرف پرویزمشرف کی حمایت کا کردار ادا کیا تھا بلکہ دھرنے میں لمبے عرصہ سے امپائر کی انگلی اٹھنے کیلئے التحیات للہ والصلوٰ ت والطیباتپڑھنے کا ورد سلام پھیرنے تک جاری رکھا، طالبان کیلئے ایاک نعبد و ایاک نستعین اور اب امام ضامن بھی باندھا۔
مولانا فضل الرحمن کی بات ٹھیک ہوگی کہ مدارس سے ایک دہشت گرد نہ پکڑا گیامگر جے یوآئی (ف) کے رہنما مولانا سید محمد بنوریؒ کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں امریکہ نے ڈرون حملے سے تو شہید نہیں کیا؟۔خود کشی کا الزام لگایا تو خود کشی کرنیوالے کو مسجد کے احاطہ میں دفن کیا؟۔ جنرل ضیاء اور جنید جمشید کی باقیات کو عزت ملی، جنرل مشرف نے خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھنے کو اعزاز قرار دیا، اور موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو خانہ کعبہ میں داخل ہونے کا اعزاز مل گیا۔ خانہ کعبہ میں رہائش پذیر ہونے کا اعزاز لات،منات سمیت 360 بتوں کو بھی ملا تھا، ظالم جابر بادشاہوں کو تاریخ کے ہردور میں خانہ کعبہ کے غلاف میں منہ چھپانے کا اعزاز ملتا رہا مگر حقیقی اعزاز توکردار کا ہوتاہے۔ صحافی سلیم بخاری نے کہا :جمعیت علماء ہند کے ایک عالم نے بتایا کہ ’’باجوہ کا خاندان سنی ہے‘‘۔ مجھ سے بڑے بھائی پیرنثار احمد شاہ سے کہا گیا تھا کہ اگر انٹرویو میں کہہ دو کہ احمدی ہوں تو فوج میں سلیکٹ ہوگے، بھائی نے یہ تو نہ کیا البتہ سیدعطاء شاہ بخاریؒ کو اپنی محبوب شخصیت قرار دیا، ہوسکتا ہے کہ باجوہ نے بھی سلیکشن کیلئے کہہ دیا ہو کہ احمدی ہوں اور پھر ترقی کیلئے برأت کا اعلان بھی کیا ہو، مجھے زیادہ معلومات ہیں اور نہ دلچسپی۔ کسی نے بتایا کہ جنرل رحیم اچھا انسان اور قادیانی تھا جو جنرل ضیاء الحق نہیں اعجازالحق کا سسر تھا۔ قادیانیوں نے بھی مذہب کو پیشہ بنایاہے اور دوسروں سے زیادہ ان پر مذہبی خبط سوار ہے۔ ہماری فوج، عدلیہ،انتظامیہ اور سیاسی قیادت بنانا انگریزہی کا کارنامہ تھالیکن مدارس اور مذہبی لوگوں نے اسلام کا ایسا بیڑہ غرق کردیاہے کہ اگر انگریز کے ہاتھ میں یہ مدارس ہوتے تو شاید دنیا کی سطح پر ابھی اسلامی خلافت کا نظام بھی عمل میں آجاتا۔
ہماری ریاست نے امریکہ کی سرپرستی میں اہل مدارس، فرقہ پرستی ، جہادی سرگرمی اور شدت پسندی کو رواج دیکر اسلام کا حلیہ مزید بگاڑا، مسلمان کو بدنام ہوا،ریاست کو لے پالک مذہبی اور سیاسی رہنماؤں سے نجات حاصل کرے۔ محنت کش عوام جانوروں کی زندگی گزار رہی ہے، غریب تنگ آمد بجنگ آمد کی حد تک پہنچے توواقعی اینٹ سے اینٹ بج جائیگی ،زرداری والی دھمکی نہ ہوگی۔
چوہدری نثار نے جسٹس کو بدنام کرنے پر ایکشن لیایا رام کرناچاہا ؟ایکشن کی منتظر لمبی فہرست تھی،غلط پروپیگنڈے سے زیادہ وزیرداخلہ کی اپنی پریس کانفرنس قابلِ گرفت تھی ۔ حکیم اللہ محسود کی روح تڑپی ہوگی کہ ’’ہم جان اور خاندان سے گزرگئے اورتم نے کھدڑے چوہدری سے ملادیا؟‘‘۔

عدالتی نظام کی اصلاح

پاکستان اسلام کے نام پر بنا ، آئین میں قرآن وسنت کو بالادستی حاصل ہے اسلام ہی نہیں ہر ریاست کا بنیادی فریضہ عدل وانصاف کا قیام ہوتاہے۔ اسلام کا ایک پہلو یہ ہے کہ توحید کے عقیدے کے مطابق نبیﷺ کی سنت کو لائحہ عمل بناکر بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکالا جائے۔ دین میں جبر وزبردستی نہیں ۔ مشرک وکافر مسلمان پر جبروظلم کرکے اسکے ایمان میں رکاوٹ ڈالے تو اللہ نے قرآن میں زبردستی کے کلمۂ کفر کو بھی معاف کیاہے،اسلام جہالت کا جواب جہالت سے نہیں دیتا کہ وہ مسلم کو زبردستی سے کافر بنائیں تو تم بھی زبردستی کرکے ان کا مذہب بدل ڈالو۔ صلح حدیبیہ رسول اللہﷺ کی مجبوری نہ تھی بلکہ یہ معاہدہ اسلام کی روح کے مطابق تھا کہ ’’کوئی مسلمان اسلام چھوڑ کر مکہ جائے تو اس کو واپس نہ کیا جائے اور کوئی مشرک مسلمان ہوجائے اور مدینہ میں مسلمانوں کے آغوش میں آجائے تو اس کو پھر واپس لوٹا دیا جائے‘‘۔ جو دل سے مسلمان ہوں اور ان کو پابند کیا جائے کہ والدین کی آغوش میں رہو تو یہ اسلام کی خلاف ورزی نہیں بلکہ یہ تلقین ہونی چاہیے کہ اسلام نے والدین سے حسنِ سلوک کا حکم دیا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بچپن، جوانی ادھیڑ عمر اور ایک حد تک بڑھاپا بھی اپنے مشرک باپ آزر کے سایہ میں گزارا، بت فروش باپ سے تلخ بات کی نوبت بھی نہ آئی، باپ کے آنجہانی ہونے کے بعد اس کی مغفرت کیلئے دعا بھی کی۔
مولانا منیراحمد قادری نے پچھلابیان دیا کہ ’’رسول اللہﷺ کو گالی دینے پر حضرت ابوبکرؓ نے اپنے باپ کے منہ پر تھپڑ مارا تھا‘‘۔ ہوسکتاہے مگر عائشہ صدیقہؓ پر جو بہتان لگا تو نبیﷺ کیلئے اس سے زیادہ اذیتناک واقعہ نہیں تھا، اللہ نے فرمایا کہ ’’مؤمنوں کی یہ شان نہیں کہ جنکو اللہ نے مالامال کیا ہو، وہ قسم کھائیں کہ مستحق لوگوں سے ہم مالی تعان نہ کرینگے، اپنا احسان جاری رکھو‘‘۔ کیونکہ ابوبکرؓ نے قسم کھالی تھی کہ وہ حضرت عائشہؓ پر بہتان لگانے والوں کیساتھ احسان نہ کرینگے، جن میں اپنا قریبی رشتہ دار حضرت مسطحؓ اور معروف نعت خواں حضرت حسانؓ بھی شامل تھے۔ابن ماجہؓکی روایت ہے کہ ’’نبیﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کے والد حضرت ابوقحافہؓ کو خضاب لگانے کا حکم دیا تھا‘‘۔
اسلام کے عادلانہ نظام کی اس سے بڑی کیا مثال ہوسکتی ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ پر بہتان لگانے اور ایک عام عورت پر بہتان لگانے کی سزا ایک ہی ہے۔ عدالت میں کس اسلام کے قانون کے تحت امیر کی ہتک عزت اربوں اور کھربوں میں ہے اور غریب کی عزت ٹکے کی نہیں؟۔ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے دوواقعے قرآن و حدیث میں موجود ہیں جن میں عدالت عظمیٰ سے انصاف میں غلطی ہوئی اور نچلی عدالت نے انصاف کا تقاضہ پورا کیا۔ اگر انور ظہیر جمالی کو پانامہ لیکس پر انصاف کی سمجھ نہ آتی تو لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ یا بلوچستان کے جسٹس فائز عیسیٰ کو معاملہ سپرد کردیتے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے دو فریقوں کے درمیان فیصلہ کیا ، ایک کے جانور نے دوسرے کی فصل کو نقصان پہنچایا ۔ فصل و جانور کی قیمت ایک جتنی تھی اسلئے حضرت داؤد علیہ السلام نے فصل والوں کو نقصان میں جانور دیدئیے، حضر ت سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ اس طرح سے ایک قوم محروم ہوجائے گی، اس کا فیصلہ میں کرتا ہوں۔ چنانچہ فصل کو اپنی جگہ تک پہنچانے کی ذمہ داری جانور والوں کے ذمہ لگادی اور جانور انکے حوالہ کئے جن کی فصل کو نقصان پہنچا تھا کہ جب تک اس کا فائدہ اٹھائیں، ایک پر محنت ڈال دی اور دوسری کے نقصان کا ازالہ کردیا۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے سوفیصد درست کہا کہ ’’نیب کرپشن کی سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے‘‘ لیکن اگر عدالتی نظام جلد انصاف فراہم کرتا تو نیب کی ضرورت نہ ہوتی۔ عدالت کا کام قانون کے مطابق طاقتور اور مجرم کو تحفظ فراہم کرنا بن جائے تو اس سے ملک کا نظام نہیں چل سکتا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے سامنے دو خواتین نے مقدمہ پیش کیا جن کا ایک بچے پر دعویٰ تھا، حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی صوابدید و ضمیر کیمطابق فیصلہ کیا جو غلط مگر قابلِ گرفت نہ تھا حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ اس کا فیصلہ میں کرتا ہوں۔دونوں کی بات سن کر فیصلہ کیا کہ ’’بچے کو دو ٹکڑے کرتا ہوں‘‘ ، جو مقدمہ جیت چکی تھی کہہ رہی تھی کہ بچے کو دو ٹکڑے کردو، مجھے قبول ہے اور جو خاتون مقدمہ ہار چکی تھی وہ کہہ رہی تھی کہ ’’میں دستبردار ہوں بچہ سلامت رہے، میں نے جھوٹ بولا تھا، یہ میرا بچہ نہیں، اسکا ہے جو اس کو ٹکڑے کرنیکی بات کررہی ہے‘‘۔ فیصلہ اسکے حق میں ہوا، جو دستبردار ہوئی۔ قانون کیاہے، وزیراعظم اپنے باپ اور بچوں سے انصاف کی خاطر دستبردار ہیں یا معاملہ کچھ اورہے؟۔نوازشریف نے عمران خان کا باپ نہیں مارا ، عدالت عمران خان کا وکیل ہی بھگادے، اگر عدالت کو خوف ہو تو دہشت گردوں کی طرح فوجی عدالت قائم کی جائے اور عدالت کو خوف نہ ہوتو پوری قوم کی خاطر نوازشریف سے ابتداء کرکے کسی کو بھی نہ چھوڑے۔