پوسٹ تلاش کریں

خدا سے زیادہ فوج سے ڈر لگتاہے: رئیسانی

خدا سے زیادہ فوج سے ڈر لگتاہے: رئیسانی

کوئٹہ میں نیشنل ڈائیلاگ اور جناح سینٹر اسلام آبادمیںباچا خان اور ولی خان کے نام پرجو کانفرنسیں ہوئی ہیں۔ ان میں سب نے اپنی اپنی جگہ پر بہت عمدہ تقاریر کی ہیں۔ اسلم رئیسانی نے کہا کہ کشمیری مجاہدین کے ذریعے بلوچوں کو مروایا جارہاہے۔ ریاست ماں ہوتی ہے لیکن یہ سوتیلی ماں ہے ،اگر بس چلے تو زہر دے کر اس کو ماردیں۔ مجھے خدا سے کم ڈرلگتا ہے کیونکہ وہ غفور ورحیم ہے اور فوج سے زیادہ ڈر لگتا ہے کیونکہ وہ غفور اور رحیم نہیں ہے۔ ہمارے بچوں کو کالج اور یونیورسٹیوں میں اسلئے ہماری مائیں نہیں بھیجتی ہیں کہ انکو مسنگ پرسن بنالیا جاتا ہے۔ پہلے ہم پر الزام لگتا تھا کہ کافر ہیں اور روس کے ایجنٹ ہیں اور اب روس ختم ہوگیا تو ہندوستان کا ایجنٹ بنادیا۔ ہم کسی کے ایجنٹ نہیں اپنی بلوچ قوم کے ایجنٹ ہیں۔ میرا بھائی سراج رئیسانی فوج کا آدمی تھا لیکن اس کو بھی مار دیا۔ پہلے میرے والد کو شہید کیا تھا اور پھر ہمارے گھر گرائے گئے تو بتایا گیا کہ جنرل قادر اور گورنر مینگل تمہارا اپنا بلوچ ہے۔ میں نے کہا تھا کہ ڈگری ڈگری ہے چاہے جعلی ہو یا اصلی ۔ فوجی فوجی ہوتا ہے چاہے وہ بلوچ ہو یا پنجابی، یہاں ڈھائی گھنٹے میں باپ پارٹی بنتی ہے اور ہم پر مسلط ہو جاتی ہے۔ اب باپ کے کچھ لوگ ادھر ادھر پارٹیوں میں گئے اور کچھ رکشہ میں نکلنے کی تلاش میں ہے لیکن باپ کو زندہ رکھا ہے۔
زمرک خان اچکزئی، ڈاکٹر عطاء الرحمن ، شاہد خاقان عباسی اور بہت سے خطیبوں نے اچھے اچھے خطاب کئے۔ اس طرح باچا خان اور ولی خان کانفرنس میں بھی مولانا فضل الرحمن ، سلیم صافی، منظور پشتین ، حامد میر، خوشحال خان کاکڑ،اعزاز سید اور بہت سارے مقررین نے عمدہ تقریریںکیں۔ مگر نتیجہ تقریر جمع تقریر ہی تھا۔ اعزاز سید نے کہا کہ پنجاب میں باچا خان اور ولی خان کی غلط تصویر پیش کی گئی تھی اور جب ہمیں شعور آگیا پھر پتہ چلا کہ قائداعظم محمد علی جناح واقعی بڑے سیاسی لیڈر تھے لیکن باچا خان ان سے بھی بہت زیادہ بڑے لیڈر تھے۔ باچا خان کا انگریزی ، ہندی اور دوسری زبانوں میں منشور عام ہوا تھا لیکن یہاں اسلام آباد تک پہنچنے میں اس کو بہت وقت لگا اور شاید پنجاب تک پہنچنے میں ابھی وقت لگے۔ پنجاب میں کوئی ایسا لیڈر پیدا نہیں ہوا اور ہمارے پنجاب کی قسمت میں علامہ خادم حسین رضوی جیسے لوگ لکھے ہوئے ہیں۔ اعزاز سید نے کہا کہ یہ بہت بڑا المیہ تھا کہ نہرو کو باپا خان نے بلایا تھا اور وہاں کے لوگوں نے ان کو پتھر مارے تھے اور دوسرا المیہ یہ تھا کہ ڈاکٹر خان کی حکومت کو ختم کردیا گیا اسلئے جمہوریت یہاں کے لوگوں کے نصیب میں اب تک نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ولی خان میرے باپ اور استاذ کی جگہ پر تھے اور ان سے میں نے سیکھا تھا اور جب ولی خان جلاوطن تھے تو مفتی محمود نے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے تورخم باڈر پر ان کی آمد کا استقبال کیا تھا اور اس طرح ان کو سیاسی خدمات کا دوبارہ موقع ملا۔ میں نے سنا تھا کہ غفار خان ایک کپ سے زیادہ چائے مہان کو بھی نہیں پینے دیتے۔ لیکن مجھے زیادہ چائے پلائی اور مٹھائی بھی سامنے رکھوادی۔ سلیم صافی نے کہا کہ باچا خان امام برحق تھے۔ خود مشکلات برداشت کیں مگر قوم کو مشکلات میں نہیں ڈالا۔ یہاں لیڈر بنی گالہ میں بیٹھ جاتے ہیں اور لندن بھاگ جاتے ہیں ۔ کارکنوں اور رہنماؤں سے قربانی مانگتے ہیں۔ ڈاکٹر گلالئی نے کہا تھا کہ ولی خان سیاستدان اور غفار خان مصلح تھے۔ اس مختصر جملے نے مجھے دونوں کا فرق واضح کیا۔ غفار خان کو مصلح اسلئے کہا جاسکتا تھا کہ ایک بڑے خان کے بیٹے تھے مگر ملنگ کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ پشتونوں کو عدم تشدد کی راہ پر ڈال دیا اور خود اخلاق وکردار کے پیکر تھے۔ بڑے جابروں کے سامنے زبان نہیںلڑکڑاتی تھی لیکن غریبوں کیساتھ نرم لہجے میں بات کرتے تھے۔ آج کل ایک غریب آدمی ہوتا ہے جب سیاست میں آتا ہے تو اس کے پاس گاڑیاں آتی ہیں ،ا وقات بدل جاتے ہیں، لہجے میں تکبر آجاتا ہے۔ دوسر ے لیڈروں نے بھی عمدہ عمدہ تقاریر کی ہیں لیکن ہمارے پاس جگہ کی گنجائش نہیں اورشکرہے کہ ہمیں کوئی بلاتا بھی نہیں ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مفتی فضل ہمدرد اورانجینئر مرزاسے گزارش

مفتی فضل ہمدرد اورانجینئر مرزاسے گزارش

مفتی فضل ہمدردبریلوی، انجینئر محمد علی مرزااہل حدیث اور مولانا سید سلیمان ندوی دیوبندی ہیں ۔ مفتی منیراخون نے کہا کہ ”یزید نے قسطنطنیہ کے جہاد کی قیادت کی تھی جس سے وہ مغفرت کا مستحق بن گیا لیکن حدیث میں پہلے کے گناہ معاف ہونے کی خوشخبری ہے اور بعد کے گناہوں کی نہیں ۔ یزید نے بعد میں بہت گناہ اور مظالم کئے تھے اسلئے اس کیلئے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھ سکتے۔ البتہ اکابر صحابہ کے خلاف جانا غلط ہے”۔
جس طرح بنی اسرائیل کے فرقے اسرائیلیات کی وجہ سے تباہ ہوگئے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”ہم ان کی نہ تصدیق کرتے ہیں اور نہ تکذیب کرتے ہیں”۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قرون اولیٰ کے بارے میں کہا کہ علمہا عند ربی لایضل ربی ولا ینسیٰ ” اس کا علم میرے رب کے پاس ہے اور میرارب بھٹک سکتا ہے اور نہ بھول سکتا ہے”۔ حدیث کی کتابوں اور تاریخ کی روایات کو اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر آگے بڑھنا ہوگا اور قرآن میں بہت مسائل کا حل ہے جس سے شیعہ سنی دونوں بالکل بے خبر ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے ہارون علیہ السلام کو سر کے بالوں اور ڈاڑھی سے اسلئے پکڑا تھا کہ بنی اسرائیل کو شرک کیوں کرنے دیا؟۔ جواب یہ تھا کہ منع کرنے پر آپ کہتے کہ بنی اسرائیل کو کیوں فرقوں میں بانٹ دیا۔ موسیٰ علیہ السلام زیادہ مؤثر تھے اسلئے کہ ان کی بات پر شرک سے بھی بچتے اور تفریق میں بھی مبتلاء نہ ہوتے۔ شیعہ شرک پر تقسیم ہیں۔بریلوی آپس میں اور دیوبندی بھی آپس میں اور اہل حدیث آپس میںتقسیم ہیں۔کوئی بااعتماد شخص کردار ادا کرسکتا ہے۔
ابوبکرہ وہ صحابی ہیں جس نے مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف گواہی دی اور پھر اس پر قائم تھے۔ بخاری میں ان سے روایت ہے کہ ”جس لشکر کی قیادت عورت کررہی ہو تو وہ کامیاب نہیں ہوسکتا”۔ حضرت عائشہ کی قیادت میں حضرت علی کے خلاف لڑنے والوں کو روکا۔ حدیث بیان کی کہ قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے اور نبیۖ نے صحابہ سے فرمایا کہ” میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو”۔جس کا مقصد کفر کا فتویٰ نہیں بلکہ لڑائی سے روکنا تھا۔ اماں عائشہ نے دیکھا کہ علی اپنی ہمشیرہ ام ہانی کے مشرک شوہر کو فتح مکہ کے بعد قتل کرنا چاہتے تھے اور ام ہانی نے نبیۖ کو شکایت کردی تو نبیۖ نے ان کی بات کو حق سمجھ کر علی کو قتل سے روکا تھا۔ صلح حدیبیہ میں عثمان کے قصاص کیلئے بیعت لی گئی ۔ علی کیلئے ایسا ماحول بنایا تھا کہ عثمان کے قتل کاقصاص مشکل تھا۔ قرآن میں بیعت سے احتراز پر مشکل میں پڑنے کی وعید ہے۔ انجینئر محمد علی مرزا نے ابوبکرہ کے بارے میں کہا کہ ”اس نے علی کا ساتھ نہیں دیااور غلط کیااور میں ہوتا تو علی کا ساتھ دیتا”۔ علی مرزا نے’ شلواربابا ” کا بتایا، وہ جنگ نہیں اسکے پاس جاتے۔ جوان انصار نے میدانِ احد میں لڑنے کا کہا اور پھر بھاگنا پڑگیا ۔نبی ۖ نے فرمایا کہ ”میں نبی ہوں جھوٹا نہیں اور عبدالمطلب کے بیٹے کا بیٹا ہوں”۔ اللہ نے فرمایا: ” محمد کیا ہیں مگر رسول اور آپ سے پہلے رسول گزرچکے” نبیۖ سے کہا گیا کہ عباس عبدالمطلب کا بیٹا تھا جو گرفتا ر ہوا اور انبیاء پہلے بھی گزرے جو بھاگے تھے۔خود کش والے بھی وزیرستان سے بھاگے تھے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ سنی کے پاس بارہ امام کا جواب نہیں۔ علی خلیفہ بلافصل سے مہدی تک بارہ خلفاء کی ترتیب سنی کتابوں میں ہے۔ مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ نے اسی ترتیب پر بارہ امام کا ذکر کیا ۔ شیعہ بنوامیہ وبنوعباس کے مقابلہ میں خلفاء راشدین کا دور بہتر سمجھتے ہیں اسلئے کہ علی نے تعاون کیا تھا اور جو نہیں سمجھتے تو علی کی شخصیت پر سوال اٹھتا ہے۔ شیعہ علی ولی اللہ کا کلمہ برحق مانتے تو وقت کیساتھ حسن ، حسین، زین العابدین، باقر اور جعفر …… آخر میںموجودہ دورتک مہدی الغائب کا کلمہ پڑھتے۔ جیسے آدم صفی اللہ ، ابراہیم خلیل اللہ، اسماعیل ذبیح اللہ، موسیٰ کلیم اللہ ، عیسیٰ روح اللہ اور محمدرسول اللہ کا کلمہ وقت کے پیغمبروں کیساتھ بدل گیا۔جب گیارہ میں سے ایک بھی امن قائم نہ کرسکا تو آخری سے امید رکھنا بھی منطق کی بات نہیں ۔
آج ایران میں مہدی الغائب ولی اللہ کی آواز آنی چاہیے تھی۔ جہاں اثنا عشری امامیہ تاریخ میں پہلی بار خمینی کو امام کہا گیا ۔شیعہ کو اقتدار ملاتو کتابیں لکھ دیں۔ نتیجے میں نفرت پھیل گئی۔ پاکستان، افغانستان اور عرب ممالک میں خمیازہ بھگتنا پڑا۔کیا علی سے آخری امام تک دلائل، جرأت اور بہادری کی کمی تھی ؟۔ ائمہ نے ایسی فضاء کو ہمیشہ ناکام بنایا جس سے انتشار کو تقویت مل جائے ۔ سختیاں تو اہل سنت کے اماموں نے بھی جھیلیں۔ ایسی گفتگو کی جائے جو اتحاد، اتفاق اور وحدت کا ذریعہ بن جائے اور کوئی دلائل سے تہی دست خیال کرکے دوسرے پر حملہ آور نہ ہو۔ مظلوموں نے بہت لاشیں فرقہ واریت کے نام پر اٹھائی ہیں۔
اسلام کے اجنبی بننے کی حدیث پرشیعہ علماء نے لکھا کہ ” حسین نے اسلام کو اجنبیت سے نکالنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے ۔ امام مہدی اسلام کو اجنبیت سے نکالیںگے”۔ اور لکھا کہ ”ہوسکتا ہے کہ درمیانہ زمانے کا مہدی بنوعباس کا خلیفہ مہدی ہوکیونکہ مہدی کا تعلق آخری زمانہ سے ہوگا”۔ حالانکہ سنی شیعہ بنوامیہ کے عمر بن عبدالعزیز کوعباسی مہدی سے بہتر سمجھتے تھے ۔ شیعہ نے لکھا ہے کہ” آدم سے پہلے نبی اور علی ایک نور تھے۔ آدم سے عبدالمطلب تک اکٹھے تھے۔ پھر نورنبوت عبداللہ سے محمدۖ اور نور ولایت ابوطالب سے علی میں منتقل ہوا۔ نبی اور علی ایکدوسرے سے ہیں”۔ علی کے اندر ولایت ظاہری اور ولایت باطنی نور تھا تو ولایت ظاہری کا نور حسن اورولایت باطنی کا نور حسین میں منتقل ہوا۔ یہ تو نہ تھا کہ ولایت کا نور پہلے حسن اور پھر حسین میں منتقل ہوا تھا؟۔
مشکوٰة کی شرح مظاہر حق میں بارہ خلفاء واضح ہے کہ مہدی کے بعد5افراد حسن اور5افراد حسین کی اولاد سے اور آخری فرد پھر حسن کی اولاد سے ہوگا”۔ ممکن ہے کہ” آخری حسن سے حسن العسکری مراد ہوں۔ مہدی کا تعلق حسن اور5افراد حسن کی اولاد سے اور آخری6افراد کا تعلق حسین کی اولاد سے ہو”۔ پیر مہر علی شاہ گولڑہ اور جلال الدین سیوطی نے لکھا ہے کہ” وہ بارہ امام ابھی تک نہیں آئے جن پرامت کا اجماع ہواور وہ آئندہ آئیں گے”۔شیعہ کتابوں میں مہدی کے بعد گیارہ مہدیوں کا ذکر ہے جن کو حکومت ملے گی لیکن پھر تشویش ظاہر کی ہے کہ آخری امام پھر آخری کیسے ہوگا؟۔ اس کا جواب حقائق ہی حقائق ہیں۔
کشتی نوح کی ضرورت اس وقت پڑی، جب مخلوق ہلاکت کے قریب پہنچ گئی اور نوح کے بیٹے نے چڑھنے سے انکار کیا تھا۔ نبی ۖ نے اہل بیت کو کشتی نوح قرار دیا جو درمیانہ زمانے سے شروع ہوگا اسلئے کہ درمیانہ زمانے تک ہلاکت سے بچنے کیلئے نبیۖ کی ذات تھی اور درمیان سے حضرت عیسیٰ تک درمیانہ زمانے کے مہدی ہونگے اور مہدی غائب نے حضرت عیسیٰ کے دور میں نکلنا ہے تو وہ کشتی نوح کے آخری فرد ہوں گے جو درمیانہ زمانہ سے شروع ہوگا۔
اگر شیعوں کے امام مہدی غائب کو درمیانہ زمانہ سے اُمت کو ہلاکت سے بچانے کا ذریعہ مان لیا جائے تو علی سے حسن العسکری تک گیارہ امام ہلاکت سے بچنے کا ذریعہ نہیں ہوسکتے ۔ مخالفین کو کہنے دیجئے کہ جب وہ گیارہ ہلاکت سے بچانے کا ذریعہ نہیں تو اس سلسلے کا آخر ی فرد بھی نہیں بن سکتا۔ لیکن شیعہ کو اس اعتقاد کا پورا پورا حق ہے کہ وہ اپنے مہدی کے بارے میں یہ یقین رکھیں کہ وہ ہلاکت سے بچنے کا اپنے دور سے عیسیٰ تک ذریعہ ہیں اسلئے کہ حضرت علی سے حضرت حسن العسکری تک امت مسلمہ جن مشکلات کا شکار تھی تو حضرت مہدی کی غیبت سے ہی وہ مشکلات ختم ہوگئی ہیں۔ ان کا دل جلتا تھا کہ خاندانی بنیاد پر اہلیت رکھنے والے اقتدار سے محروم ہیں لیکن نااہل لوگ خاندانی استبداد کی وجہ سے اقتدار پر قبضہ کر بیٹھے ہیں۔ امام مہدی غیبت میں گئے تو عوام کو جواز مل گیا اورامام کے حامی ان کی خیریت کیلئے فکر مند رہتے تھے وہ بھی مطمئن ہوگئے۔ ظاہر میں موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کا مقابلہ کیا۔ باطن میں ہلاکت سے بچانے میں خضر کا اہم کردار تھا جس کا موسیٰ علیہ السلام کو پتہ نہیں تھا ۔پھر پتہ چل گیا لیکن تفریق ہوگئی۔ وہ اختلاف تو رحمت تھاتو اپنی امت کا اختلاف بھی رحمت ہے۔
ہلاکت کا آغازہے۔ داعش، تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی نے شیعوں کو زندہ نہ چھوڑنے کی ٹھان لی اور اگر مہدی غائب تشریف لائیں تو امت مسلمہ بھرپور استقبال کرے گی لیکن اگر خضر کی طرح غیبت میں کردار ادا کرنا ہے تو فرقہ واریت کی آگ کو مزید بھڑکانے سے گریز کریں۔ حال ہی میں پشاور کی مسجد میں دھماکے سے کتنا نقصان ہوا اور یہ کب تک جاری رہے گا؟۔ تعصبات کے ناسور نے مذہبی طبقے میں وہ بارود بھردیا ہے جس کی سزا سب کو مل رہی ہے۔
دین وعقیدے میں جبر اور تضحیک وگستاخی نہیں ہے اسلئے کہ اللہ نے واضح کیا ہے کہ دین میں جبر نہیں ہے اور دوسروں کے معبودوں کو بھی برا بھلا مت کہو۔
نبیۖ کی وحی کے ذریعے قدم قدم پر رہنمائی ہوتی تھی۔ یہ نہیں کہ لٹھ لیکر گستاخانہ لہجہ اختیار کیا جائے کہ54سال کی عمر میں چھوٹی بچی9سالہ عائشہسے شادی کی۔ خواب میں تصویر دکھا ئی گئی کہ یہ آپ کی دنیا و آخرت میںزوجہ ہے۔ حالانکہ نکاح کے وقت اماں عائشہ کی عمر16سال اور رخصتی کے وقت عمر19سال تھی۔ نبیۖ کی عمر63سال تھی تب بھی داڑھی میں17سفید بال تھے۔54سال میں35،40سال کے برابر لگتے ہوں گے۔ قائداعظم محمد علی جناح برطانیہ کے تعلیم یافتہ تھے۔16سالہ پارسی لڑکی رتن بائی سے39سال میں شادی کرنا چاہی مگر لڑکی کو اجازت نہیں ملی۔ وہ18اور قائد41سالہ نے کورٹ میرج کی۔ جناحTBکے مریض تھے ۔بیٹی ویناجناح اکلوتی بیٹی تھی۔فیس بک پیج ” موسیٰ سے مارکس تک” پر کچھ لوگ بڑی گستاخانہ پوسٹ ڈال رہے ہیں۔ نبیۖ کی شان میں گستاخی لیکن خودکوئی معقول جواب برداشت نہیں کرسکتے۔
نبیۖ پر عورت کے حق میں سورۂ مجادلہ نازل ہوئی۔ بدر ی قیدیوں پر فدیہ، اصحاب کہف کی تعداد کل بتانے،نابیناا بن مکتوم پر چین بجبیں ہونے اور زید کی طلاق کے بعد دلجوئی کیلئے زینب سے نکاح مگر عوام کی بدظنی کا خوف جس پر اللہ نے فرمایا کہ وتخشی الناس واللہ احق ان تخشٰہ (آپ لوگوں سے ڈرتے ہو؟اور اللہ زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے) جو آیات نازل ہوئیں ۔ اگر یہ صحابہ کی شان میں نازل ہوتیں تو کیا کیا روایات گھڑتے؟۔ جن کو شیعہ علامہ شہریار عابدی چن کر حوالے دیتے اور منطقی نتائج بھی خود نکالتے۔ جس سے امت میں فتنہ وفساد کا اندیشہ بھرپور طریقے سے موجود ہوتا۔ اللہ نے قرآن میں دوسروں کے باطل معبودوں کو برا کہنے سے بھی منع کیا ۔غیر شائستہ زبان ہمارا قومی المیہ ہے۔ جب فوج اور عدالت کے ججوں کو توہین قبول نہیں تو سب کے معزز کیلئے اخلاقیات کے ذریعے مخالف کا رویہ بدلنا ضروری ہے۔
ابوبکر نے بدر ی قیدیوں پر فدیہ لینے کا مشورہ دیا تھا تاکہ نبیۖ کے چچا عباس اور ایک دامادکو بچایا جائے اور نبیۖ کو تکلیف نہ ہو۔ جس پر قرآن میں سخت سرزنش ہوئی کہ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے۔ اگر اللہ نے لکھ نہیں لیا ہوتا تو تمہیں سخت عذاب کا مزہ چکھا دیتا”۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” وہ عذاب اللہ نے مجھے دکھا دیا، اگر نازل ہوتا تو عمر وسعد کے علاوہ کوئی نہیں بچتا”۔ قرآن وحدیث کی اس وعید کے بعد اگر ابوبکر نے حضرت فاطمہ کی ناراضگی مول تھی تو یہ ایک آزمائش تھی جس میں بغض نہ تھا۔زکوٰة کے مسئلے پر ابوبکر کے اقدام سے اہل سنت کے چاروں امام نے اختلاف کیا لیکن حضرت ابوبکر کیلئے دل میں کھوٹ نہیں رکھی ۔ اللہ نے قرآن سے سکھایا کہ ” اپنی مغفرت کیساتھ پہلے ایمان کیساتھ گزرنے والوں کیلئے بھی دعا مانگیں اوریہ کہ ان کیلئے ہمارے دلوں میں کھوٹ نہ ہو”۔ جب ان لوگوں کے خلاف مہم جوئی کا بازار گرم کیا جائے گا تو پھر نہ صرف اپنے دلوں میں بلکہ عوام کے دلوں میں بھی کھوٹ آئے گا۔ قرآن میں حضرت آدم ، موسیٰ اور یونس کی طرف ظلم کی نسبت ہوئی لیکن یہ مطلب نہیں کہ ہم منطق سے استدلال پیش کریں کہ ” بیشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتاہے ” تو ان انبیاء کو نعوذ باللہ ہدایت سے اللہ نے محروم رکھا۔ حضرت عمر کے دور میں کسی جن یا انسان نے حضرت سعد بن عبادہ کو شہید کیا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ ”اگر دریائے نیل کے کنارے پیاس سے کتا مرجائے تو عمر جواب دہ ہو گا”۔ اللہ نے سعد بن عبادہ کے قتل کا ادھار نہیں چھوڑا بلکہ عمرکی شہادت ہوگئی۔ حضرت عمر کے بیٹے عبیداللہ نے فیروز ابو لؤلؤ کی سات سالہ مسلمان بیٹی اوردو افراد کو قتل کردیا اور کہا کہ جو انصار ومہاجرین سازش میں شریک تھے ان کو بھی قتل کروں گا تو سعد بن ابی وقاص نے اس کو پکڑ کر گھر میں بند کردیا۔ حضرت عثمان نے بدلے میں قصاص نہیں لیا تو حضرت عثمان کی شہادت کا قصاص بھی بڑا معمہ بن گیا۔
ایرانی بادشاہ کی شہزادیاں اگرایران میں چھوڑ دی جاتیں تو اپنے لوگ ان کا بہت برا حال کرتے۔ ان کی خیر اسی میں تھی کہ دارالخلافہ مدینہ لایا گیا کیونکہ جس طرح آج یورپ ومغرب میں ہمارے بادشاہوں کی اولادامن کیلئے جاتے ہیں تو اس دور میں سب سے زیادہ مہذب دنیا ہماری تھی مگر تاہم حضرت علی کے کہنے پر شہزادیوں کو شرفاء میں تقسیم کیا گیا اور پھر اہل بیت کے کنبے کو یزید کے دربار میں وہ سب کچھ سہنا پڑگیا جس اسلام کی وہ بنیاد تھے اور شہربانونے عبرت دیکھ لی۔
نبی کریم ۖ کو معلوم تھا کہ جب خاندانی بادشاہتوں کی دوڑ دھوپ شروع ہوگی تو اہل بیت کے افراد بھی اس دوڑ میں شریک ہوسکتے ہیں اسلئے نبیۖ نے قرآن سے چمٹے رہنے کی تلقین فرمائی اور اہل بیت کی بابت بھی اللہ سے ڈرایا۔ امت مسلمہ نے قرآن کی طرف توجہ چھوڑ دی اور اہل بیت سے امت نے محبت کا اظہار کیا لیکن اقتدار کے مسئلے پر امام حسین کے بیٹے حضرت زید اور امام حسن کی اولاد نفس زکیہ نے قیام وخروج کا راستہ اپنایا تو امام ابوحنیفہ جیسے مجاہد نے بھی خاموش حمایت جاری رکھی۔ اہل حق کی حمایت میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ ایک زبانی حمایت کرتے ہیں اور دوسرے دل میں حمایت کو چھپاتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ نے لکھا ہے کہ ” خیر القرون کا پہلا دور نبی ۖ ، دوسرا ابوبکرو عمر اور تیسرا عثمان کا تھا”۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا کہ ” پہلا دور نبیۖ وابوبکر کا تھا،دوسرا عمر کا تھا جس میں طبقاتی نظام نے جڑ پکڑ لی اور تیسرا عثمان کاتھا جس میں خاندانی نظام کی بنیاد پڑگئی”۔ صحاح ستہ ومسنداحمد میں نبی ۖ کے بعد ابوبکر و عمر کی آسمانی ترازوہے ۔ جس میںبتدریج عدالت کا پلڑہ ہلکاہوتا بتایا گیا ہے۔ حضرت ابوبکر کے دور میں بھی رہنمائی کیلئے وحی کا سلسلہ نہیں تھا اسلئے خلافت بھی نبوت ورحمت کے مقابلے میں کمزور ہوئی۔ حضرت عمر کے دور میں عدالت بڑی مضبوط تھی لیکن جنات نے سعد بن عبادہ کا کام کردیا۔ حضرت عثمان نے پہلی بار ایک قاتل کو معاف کرکے دیت کا فیصلہ کیا تو آسمانی عدالت کا ترازو اُٹھ گیا۔
مودة فی القربیٰ کی آیت اور احادیث
اللہ کا نور مشرقی یامغربی نہیں۔ اسلام کا معاشرتی، معاشی ،اخلاقی نظام پیش کیا توامریکہ وروس حکمت سے فتح ہوںگے۔ بنوامیہ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ نے مسلمانوں کو قرآن وسنت سے دور پھینک دیا اور دوبارہ ہم نے وہیں آنا ہے۔
متقدمین کا اجماع تھا کہ قرآن پر معاوضہ جائز نہیں۔ انبیاء سے اللہ نے کہلوایا کہ ” کہہ دو کہ میں اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا ”۔ نبی کریمۖ سے فرمایا : قل الاسئلکم علیہ اجرًا الا مودة فی القربیٰ ” فرماؤ کہ میں اس پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا مگر قرابتداری کی محبت”۔شیعہ سمجھتے ہیں کہ اس سے مراد نبیۖ کے اہل بیت کرام ہیں۔ صحابہ نے جن کو خلافت سے محروم کیا اسلئے دین اسلام سے روگردانی اختیار کی تھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے” ترجمان القرآن میں لکھا کہ ” یہ آیت مکی ہے اور اس سے اہل بیت مراد نہیں ہوسکتے” ۔ شیعہ جو اہل بیت مراد لیتے ہیں وہ احادیث ہیں۔ اس آیت کے نزول کے وقت علی کا رشتہ اور حسن و حسین کی پیدائش نہیں تھی تو کیسے اہل بیت مراد ہیں؟۔ آیت کے مخاطب قریشِ مکہ دشمنان رسول تھے جن سے کہا گیا کہ نبی کا مطالبہ کوئی معاوضہ نہیں مگر قرابتداری کی محبت۔ علاقہ، زبان،خاندان ، رشتہ، قوم کے ناطے انسانوں میں قرابتداری کی فطری محبت ہوتی ہے۔ یہ معاوضہ اور اجر نہیں قدرت نے فطری محبت رکھی ۔ قریشِ مکہ ابوجہل وابولہب ، ولید، امیہ، عتبہ ، ابوسفیان، ہندہ اور اہل مکہ کے تمام دشمنان اسلام خواتین وحضرات اگر اس محبت کے فطری تقاضے کا لحاظ کرتے تو نبی کریم ۖ اورآپ کے ساتھی ہجرت پر مجبور نہ ہوتے۔
افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان قومیت کے فطری تقاضے پر عمل کرتے تو مشکلات کا شکار نہ بنتے۔ آج افغان طالبان کو افغانی قوم اورTTPکو اپنی قوم کی طرف سے نفرت کا سامنا ان کے کردار کی وجہ سے ہے۔ مکہ فتح ہوا تو رسول ۖ نے ابوسفیان ، وحشی اور ہندہ وغیرہ کو معاف کیا مگر حضرت عمر نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے ہاتھ لگ جاتے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ ”حسن و حسین سیداشباب اہل الجنة اور فاطمہ سیدة النساء کے مقابلے میں دوسرے صحابہ دنیا کے سردارنہ بنتے تو مسلمانوں پرخلافت کا نظام دنیا میں جہنم نہ بنایا جاتا ۔ سنی احادیث میں بھی آیت سے مراد یہ اہل بیت ہیں ۔اقتدار اور خلافت بھی ان کا حق تھا جس سے صحابہ کرام اور ان کی اولاد نے انحراف کرکے قرآن وسنت کو چھوڑ دیا تھا اور پھر یزید جیسے مسلط ہوگئے تھے”۔
سنی کہتے ہیں کہ جس طرح دشمنان اسلام اہل مکہ کے قرابتدار قریش سے مودة فی القربیٰ کا تقاضہ اقتدار کی طلب نہیں تھی ،اسی طرح سے نبی ۖ نے صحابہ سے قرابتداروں کو اقتدار دینے کا مطالبہ نہیں کیا۔ قریشِ مکہ نے نبی ۖ کو اقتدار، مال اور حسین عورت سے شادی کی پیشکش کی تھی۔ نبی ۖ نے انکار کیا۔ یہ فطری بات ہے کہ اپنی قوم سے محبت رکھی جاتی ہے اور اس محبت کے تقاضے میں حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کے ایک بدبخت انسان کے جھگڑے کی وجہ سے غلطی میں دوسرے قوم کے ایک قبطی شخص کو نہ چاہتے ہوئے بھی قتل کردیا تھا۔
رسول ۖسے اللہ نے فرمایا: وشاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ ”اور ان سے مشاورت کریں پس جب عزم کرلیں تو اللہ پر توکل کریں”۔صحابہ کی اعلیٰ صف تھی وامرھم شوریٰ بینھم ” اور ان کا اقتدار مشاورت سے ہوتا ہے”۔ نبی ۖ نے قلم کاغذ طلب کیا اور فرمایا: میں ایسی چیز لکھ کردیتا ہوں کہ تم میرے بعد ہرگزگمراہ نہ ہوگے۔ عمر نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ بعض نے کہا کہ نبی ۖ کو وصیت لکھنے دیں کیا نبی ۖ ہذیان بولتے ہیں؟ اور بعض نے کہا کہ حضرت عمر کی بات درست ہے۔ شور شرابہ ہوا تو نبیۖ نے فرمایا :یہاں سے نکل جاؤ، شور شرابہ نہ کرو۔( صحیح بخاری)
حدیث میںمودة فی القربیٰ سے اہل بیت کی محبت مراد ہے۔ اقتدار کا تعلق مشاورت سے تھا۔ ابوبکر ، عمر، عثمان، علی اور حسن کے بعد معاویہ پر اتفاق ہوا۔ امام حسن پہلے بھی جھگڑے میں خاتمہ کا ذریعہ بن گئے اور بعد میں بھی آپ ہی کی اولاد نے امت کے دوفرقوں میں جھگڑے کو ختم کرنے کا ذریعہ بننا ہے۔ ویسے تو اہل تشیع سیدگیلانی کو سید بھی عام طور سے نہیں مانتے لیکن علامہ طالب جوہری نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ”مشرق سے جو دجال آئے گا تو اس کے مقابلے میں حسن کی اولاد سے کوئی کھڑا ہوگا”۔ اور اس سے مراد ” سید گیلانی ”ہے۔
مفتی کامران شہزاد نے کہا : ”صحیح بخاری میں صحابہ کرام و اہل بیت ، نبی ۖ ، اللہ تعالیٰ اور قرآن کے بارے میں صحیح سند کیساتھ غلط روایات گھڑی گئی ہیںاور امام ابو حنیفہ اسلئے امام اعظم کہلائے گئے کہ پہلے شخص تھے جنہوں نے کہا کہ صحیح سند کے راویوں کو پکڑو اور روایات کو قرآن پر پیش کرو۔ رافضی اور ناصبی دونوں گروہ اسلئے گمراہ ہیں کہ رافضی صحابہ کی مخالفت میں صحیح سند کی روایات کو مانتا ہے اور فضائل کو نہیں مانتا اور ناصبی حضرت علی اور اہل بیت کے فضائل کی روایات کو نہیں مانتا لیکن ان کی تنقیص کی روایات کو مانتا ہے۔ قرآن میں صرف حضرت زید کا نام آیا ہے باقی کسی صحابی کی مخالفت یا موافقت میں نام نہیں آیا۔ مجموعی طور پر اللہ نے قرآن میں صحابہ و اہل بیت کی فضیلت بیان کی ہے جو کافی ہے”۔
حضرت ابراہیم نے پہلے ستارے ، پھر چاند اور پھر سورج کو اپنا رب قرار دیا اور باری باری سب کی نفی بھی کی۔ جو ماحول اُمت مسلمہ میں بنا ہوا ہے جب تک بالکل سیدھے طریقے سے حکمت عملی کے ساتھ تعصبات کا خاتمہ نہیں کریں گے تو اُمت مسلمہ ہمیشہ انتشار کا شکار رہے گی۔ فرقہ واریت کا خاتمہ قرآن کی طرف رجوع کرنے سے ممکن ہے۔ نبی ۖ نے قرآن سے انقلاب برپا کیا تھا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کرک گیس کے غباروں کا خطرناک منظر!

کرک گیس کے غباروں کا خطرناک منظر!

کرک گیس کو بانڈہ داؤد شاہ کے مقام پر غباروں میں ڈال کر لوگوں کو استعمال کیلئے دیا جارہاہے۔ یہ کسی کااحسان ہے یا سازش؟۔ نہیں ہونے سے تو غبارے بھی مفید ہیں اور ہوسکتا ہے کہ کارآمد غباروں کی وجہ سے اللہ اس قوم کے ارباب اقتدار اور عوام الناس دونوں پر کوئی رحم بھی کردے اسلئے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بناہے اور رحمت للعالمینۖ کی ہم امت ہیں۔ جب نواز شریف نے2015میں ڈیرہ بگٹی کو اپنی مہربانی سے گیس دی جو قریب ہی میں سوئی کے مقام سے نکل رہی تھی اور سب سے پہلے اسلام آباد، لاہور ، کراچی اور پشاور ہی نہیں سندھ ، پنجاب اور پختونخواہ کے اہم شہروں سوات تک بھی پہنچ گئی تھی لیکن ڈیرہ بگٹی محروم تھا ۔ اب نیشنل ڈائیلاگ میں قومی سطح کے لیڈر قوم پرست پشتونوں اور بلوچوں کے ہاں سے فوج کے خلاف بیانیہ تیار کرنے کیلئے آگ اگل رہے ہیں۔ حالانکہ شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے جب کرک کی گیس پر مقامی عوام اپنی آواز اٹھارہے تھے۔ آج شمالی وزیرستان اور بنوں میں آواز اٹھائی جارہی ہے اورPDMکی حکومت ہے اور اس سے پہلے صوبے اور مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت تھی لیکن مقامی لوگوں کو اپنے حق سے محروم رکھا جارہاہے۔ جب جنرل آصف غفورDGISPRتھے توPTMپر الزام لگایا کہ بیرون ملک سے فنڈز آرہے ہیںلیکن ابھی تک اس کا کوئی ثبوت اور سزا نہیں دی ہے۔ منظور پشین کہتا تھا کہ احسان اللہ احسان کو آسائش میں رکھا ہے اور نیب کے چیئرمین جاویداقبال کی ویڈیوز ہیں۔ پھر وہی باتیں سچ ثابت ہوگئیں۔سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ ماحول خراب کرنے کیلئے تو نہیں ہورہاہے تا کہ اس کے پیچھے عالمی مقاصدحاصل ہوسکیں؟۔
ایک طرف قومی سطح کے رہنماؤں سے اعتراف کروایا جارہاہے کہ آئین کے مطابق وسائل پر مقامی عوام کا حق ہے، دوسری طرف حق مل نہیں رہاہے اور مقامی لوگ کھڑے ہورہے ہیں لیکن قومی سیاسی قیادت ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ ایک طرف چھاؤنی میں قیدی طالبانCTDپولیس کے اہلکاروں کو یرغمال بناتے ہیں جس سے یہی تأثر ملتا ہے کہ کھلے عام قبائلی علاقوں میں محفوظ طالبان کا عوام مقابلہ نہیں کرسکتے ہیںاور وہ مطالبہ بھی کررہے ہیں کہ تمام مسلح تنظیموں کو بلا تفریق ختم کیا جائے اور الزام بھی لگارہے ہیں کہ اداروں کے گماشتے ہی اغواء برائے تاوان میں ملوث ہیں ۔ سینٹ میں جماعت اسلامی کے مشتاق خان نے پشتون قوم پرستوں اور گوادر کی حق دو تحریک کے مولانا ہدایت الرحمن کی تائید کی جبکہ بلوچ سینیٹرنصیب اللہ بازی نے کہا کہ گوادر میں جماعت اسلامی کے مولانا ہدایت نے الیکشن جیتنے کیلئے ان پڑھ لوگوں کے ذریعے روز روز کے احتجاج سے ماحول خراب کیا ہے جس کے اثرات گوادر کی عوام پر بھی پڑرہے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر سازش بھی کارفرما ہوسکتی ہے۔ حامد میر نے کہا کہ ایوب خان بنگال سے جان چھڑانے کیلئے ولی خان سے مددمانگ رہاتھا لیکن ولی خان نے مشرقی پاکستان کو علیحدگی سے بچانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی ۔ اور یہ سب کتابوں میں لکھا ہے ۔ اندھے کھاتے کا نتیجہ برا نکل سکتا ہے اور اچھا بھی۔ اسلئے کہ بڑاحادثہ برسوں سے پرورش پاتا ہے اور پھر ایک دم ہوجاتا ہے اور اللہ کسی برے حادثے سے بچائے۔ ایک دن کی لوڈ شیڈنگ قوم برداشت نہیں کرسکتی ہے اسلئے کہ گھروں کے چولہے اور لیٹرین پانی کے بغیر نہیں چل سکتے ہیں۔ قوم بڑی اچھی ہے جب امریکہ یا برطانیہ میں چند منٹوں کیلئے بجلی غائب ہوتی ہے تو ارب ڈالروں کی چوری اور ڈکیٹیاں ہوتی ہیں۔ ان اختلافات کی وجہ سے قوم میں شعور بیدار ہورہاہے اور اچھے برے کی پہچان میں بڑا کردار ادا ہورہاہے۔
پاکستان میںڈھلان کی وجہ سے پانی گھروں میں بجلی کے بغیر چڑھ سکتا ہے۔ بل اور ماحولیاتی آلودگی کم ہوگی ۔ سڑکیں تباہ اورنہ پانی بیچ کر تنگ کیا جائیگا ۔دریاکا پانی پشاور،اسلام آباد ،لاہورسے کراچی تک، کوئٹہ سے سبی اور تربت سے گوادر تک مفت ٹینکوں میں پہنچے گا۔بنوں میں ایک ٹینکی کا کامیاب تجربہ موجود ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کیا مہدی غائب ہی خضر ہوسکتے ہیں؟

کیا مہدی غائب ہی خضر ہوسکتے ہیں؟

تحفظ بل پر عقائد کااحترام اورفرقہ پرستوں کی چھترول

رسول ۖ نے فرمایا: ” وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کااول میں ہوں، اس کا وسط مہدی اور آخر عیسیٰ ، مگردرمیانہ زمانے میں کجرو میرے طریقے پر نہیں اور میں انکے طریقے پر نہیں ”۔شیعہ سنی متفقہ حدیث
علی اور ائمہ اہل بیت کی موجودگی میں شیعہ سنی اختلاف تھا۔ حسین کے حق میں یزیدکیخلاف امت کا اتحاد ہے۔ ممکن ہے کہ کجرو کہے کہ یزید حسین سے خلافت کا زیادہ حقدار تھا۔ یزید کا دادا ابوسفیان صحابی اور حسین کا دادا ابوطالب کافر تھالیکن حسین صحابی اور یزید صحابی نہیں تھا۔ عباسیوں کو اسلئے خلافت کا حقدار قرار دیا گیا کہ علی چچازاد اور عباس چچا تھا حالانکہ تین خلفاء اور بنوامیہ کچھ نہ تھے۔ ہلاکو نے عباسی خلافت کا خاتمہ کردیا۔ پہلے خلیفہ قریشی ہونا ضروری تھا ۔ خلافت عثمانیہ کے بعد غیر قریشی عجم کی خلافت پر متفق ہوگئے۔المیہ ہے کہ خوشی میں بھائی ایکدوسرے کو نہیں مانتے۔ اورنگزیب بادشاہ نے بھائیوں کو قتل کیامگر انگریز کوپھر سبھی مان گئے تھے۔ ابوطالب نے نصرت ، معیت اور صحبت کا حق ادا کیا۔ ذریت ِیزید نے علی کے والد کے جرم پرکافر قرار دیاتھا۔
شیعہ مھدی غیبت سے سامنے نہیں آتے تو کسی پر اتفاق ضروری ہے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں میرے کلاس فیلو مفتی منیراحمد اخون مفتی اعظم امریکہ مفتی محمد تقی عثمانی کے شاگرد اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے داماد ہیں۔ انہوں نے خواب بیان کیا کہ رسول ۖ حسین کو کربلا کی طرف بلارہے ہیں۔ تعبیر یہ کی کہ حسین نے حق ادا کردیا اور یزید نے ظلم کی انتہاء کردی۔ مفتی منیر احمداخون نے یہ بھی بتایا کہ ” حضرت خضر نے اس کو کچھ سکے دئیے جو اس کے پاس موجود رہے ”۔ مفتی زرولی خان نے خضر سے ملاقات کی۔ عربی میں ” حضر” واحد مذکر کا صیغہ ہے۔ جس کا معنی ” وہ حاضر ہوا”۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غیبی شخص کو حاضر پایا اور اس سے استفادہ چاہالیکن آخر کار صبر نہ کرسکے اور دونوں میں تفریق ہوگئی۔ خضر کی نبیۖ سے ملاقات کا واقعہ نہیں۔ صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین اور فقہاء ومحدثین کابھی واقعہ نہیں ۔ شیعہ مہدی غائب ہوئے تو اولیاء اور علماء کو خضر علیہ السلام نظر آتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہی اہل تشیع کے مہدی غائب جب حاضر ہوتے ہوں تو آپ کو لوگ خضر سمجھ رہے ہوں اور اصل میں نام خضر نہ ہو بلکہ” حضر” سے جہلاء نے خضر بنادیا ہو؟۔
شیعہ سنی معرکة الاراء مسائل حل کریں۔ حضرت موسیٰ نے اسرائیلی کی غلط شکایت پر قبطی کو غلطی سے قتل کیا تو اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ” میرے رسل میں سے کوئی خوف نہیں کھاتا مگر جس نے ظلم کیا ہو”۔ قتل خطاء پر موسیٰ کی طرف اللہ نے ظلم کی نسبت کردی۔جبکہ خضر نے عمداً معصوم بچے کو قتل کیا لیکن خضر کی معصومیت پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔ شیعہ امورتکوینی میں اپنے ائمہ کو معصوم سمجھتے ہیں اور ان سے مدد کی امید رکھتے ہیں۔ یہ شرک نہیں اسلئے کہ نبیۖ رحمت للعالین ہیں اور آپ کا فیض امور تکوینی میں ایک عالم تک محدود نہیں بلکہ تمام جہانوں تک پہنچ رہاہے۔ اہل تشیع امام حسین اور ائمہ اہل بیت کو مظلوم سمجھتے ہیں اسلئے خداکا شریک نہیں سمجھ سکتے ۔ حنفی علمائ”ایک قول کے100میں99احتمالات کفر اور ایک اسلام کا ہو توکفر کا فتویٰ نہیں لگاسکتے ”۔مجدد الف ثانی نے مکتوبات میں علی ، فاطمہ اور حسین کے بارے میں جو لکھا،اس سے زیادہ شیعہ بھی عقیدت نہیں رکھتے۔ بریلوی دیوبندی ایا ک نستعین کی تفسیر میں غیراللہ کے فیض سے استمدادکو شرک نہیں سمجھتے۔مولانا قاسم ناتوتوی کی زندگی اورموت کے بعدجو کرامات دیوبندی کتابوں میں ہیں، اتنے بریلوی وشیعہ میں نہیں ہیں۔
یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کرتے ہیں اور عیسائی خدا مانتے ہیں۔ اسلام اعتدال کا راستہ ہے۔ جب مسلمان ائمہ اہل بیت کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح کرامات کا حامل اور مظلوم سمجھیں گے تو شرک اور توہین دونوں سے بچیں گے۔ قدریہ اور جبریہ فرقے اعتدال سے ہٹ کر آج مٹ چکے ہیں۔ہزار سال سے زیادہ ہوگئے کہ شیعہ امام غائب غیرفعال ہیں تو گیارہ ائمہ اہل بیت کے تین سوسال پر اتنافسادکیوں ہے؟۔
درمیانہ زمانہ سے عیسیٰ تک مہدی کا کردار حدیث میں ہے ۔ یہ خضر کی طرح غیبت میں بھی ہوسکتا ہے۔ رسول ۖ سے درمیانہ زمانہ تک رسول ۖ کا کردار امت کی ہلاکت سے بچنے کا ذریعہ اور درمیانہ زمانہ کے بعد امام مہدی کا کردار ہو تو حدیث کی شیعہ سنی نقطۂ نظر سے کیا توجیہ ہوسکتی ہیں؟۔ جب رسول ۖ سے مہدی تک کوئی امام ہلاکت سے بچنے کا ذریعہ نہیں تو یہ بحث سمیٹنے کی ضرورت ہے ۔ ہلاکو خان نے بغدادکادارالخلافہ تباہ کیا تو اس کی اولاد نے خلافت عثمانیہ قائم کردی ۔البتہ مدلل طریقے سے ایکدوسرے کو قائل کرنے میں حرج نہیں۔ مذہب کے نام پر دکانیں ہیں اور عالمی سازشیں ہورہی ہیں اسلئے فساد سے اجتناب کرنا ہوگا۔ کوئٹہ کے ہزارہ ہمیشہ جنازے اٹھاتے ہیں اور جہاں شیعہ اقلیت میں ہیں ،وہاں بہت نقصان اٹھاتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

شیعہ کے بارہ ائمہ اہل بیت کااصلی تصور

شیعہ کے بارہ ائمہ اہل بیت کااصلی تصور

تحفظ بل پر عقائد کااحترام اورفرقہ پرستوں کی چھترول

مسجد نبویۖ پر ترکی خلافت عثمانیہ کے دور سے خلفاء راشدین ، عشرہ مبشرہ (10صحابہ کرام )شیعہ کے 12امام علی، حسن، حسین، زین العابدین، باقر ، جعفر صادق ………حسن العسکری ، محمدالمھدی کے نام بھی لکھے ہوئے ہیں۔ مفتی فضل ہمدرد نے ویڈیو بنائی ہے۔ اس میں تمام تفصیلات اور تصاویر موجود ہیں۔
پارلیمنٹ میں جو بل پیش ہوا، اس میں توہین صحابہ وتوہین اہل بیت پر سزا ہے۔ شیعہ سمجھتے ہیں کہ علی پہلے امام ہیں ۔ ابوبکر، عمر اور عثمان کی جگہ مسند خلافت پر علی کاحق تھا اور خلافت پر بنوامیہ و بنوعباس کی جگہ بارہ امام کا حق تھا ۔ اس بحث ، تقریر اور تحریر سے بسا اوقات بات توہین وتضحیک تک پہنچتی ہے۔ مولانا اعظم طارق نے شیعہ کے امام مہدی غائب کی توہین کی تو اس پر قاتلانہ حملے ہوئے اور قاتل کو پھانسی دی گئی تو کاشف عباسی یا طلعت حسین نے علامہ امین شہیدی سے انٹرویو میں پوچھا تھا کہ ” آپ کے نزدیک اس نے جہاد کیا ہے؟”۔ اور علامہ امین شہیدی کی تصویرTVاسکرین پر دکھائی، جس میں وہ قاتل کی قبر کے سامنے اس طرح سے بیٹھے ہیں جس طرح ممتاز قادری سے عقیدت رکھنے والے اسکی قبر پر بیٹھتے ہیں۔ جب سپاہ صحابہ کے کارکن کو پھانسی دی جاتی تھی تو وہ پھندہ عقیدت سے چوم لیتے تھے کہ اس نے دہشت گردی نہیں کی ہے بلکہ جہاد کیا ہے۔
پاکستان میں توہین کے قوانین اداروںاور شخصیات کے حوالے سے موجود ہیں لیکن اصل مسئلہ عمل ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف کے عہدے پر پارلیمنٹ کی قانون سازی سے پہلی مرتبہ بیٹھے اور جاتے جاتے کہہ رہے تھے کہ ”فوج پر تنقید کرو لیکن لہجہ نرم رکھو”۔ یہ انسان کی قسمت، طاقت اور ماحول پر انحصار کرتا ہے کہ کب عدالت پر حملہ بھی سزا کا باعث نہ بنے اور کب الیکشن کمیشن کو منشی کہنے پرپکڑ ہوجائے؟۔ ام المؤمنین حضرت عائشہپر بہتان لگا تو قرآن نے کسی عورت پر بہتان کی سزا80کوڑے اور زنا کی سزا100کوڑے رکھی۔ جس میں امیر غریب ، طاقتور کمزوراور عزتدار و کم عزت کی تفریق نہیں۔ جب ام المؤمنین اور جھاڑو کش عورت پر بہتان کی اللہ نے ایک سزا رکھی ہے تو اس سے ہم دنیا کا نظام ٹھیک کرسکتے تھے۔ علماء اور مذہبی طبقے نے کبھی پارلیمنٹ میں اس کو پیش کرنے کی جرأت نہیں کی۔ جو پاکستانی عوام بلکہ دنیا کیلئے روشنی کا مینار ہوتا۔
بارہ خلفاء پر سوشل میڈیا میں مولانا اسحاق اور بڑے سنی شیعہ علماء کے بیانات ہیں۔ مسئلہ خلافت پر پہلے انصار ومہاجرین میں اختلاف ہوا۔ علی و ابوبکر میں اختلاف تھا۔ اہل سنت کے نزدیک حضرت فاطمہ کے انتقال کے بعد علی نے ابوبکر سے بیعت کی ۔شیعہ یہ توہینِ اہل بیت سمجھتے ہیں کہ امام کسی غیر کی بیعت کرلے۔ ان کے نزدیک علی نے تقیہ میں تین خلفاء ابوبکر، عمر اور عثمان کیساتھ تعاون کیااور مجبوری میں حسن نے معاویہ کے حق میں دستبرداری کا اعلان کیا ۔ حسین نے سردیا مگر یزید کی بیعت نہیں کی۔ یزید بیعت پر مجبور کرنے کی کوشش نہ کرتا تو جس طرح علی و حسن نے مصالحت اور صلح سے کام لیا،اسی طرح حسین نے جنگ کو ٹالنے کی کوشش کی۔ یزید کا لشکر مان جاتا تو حسین نے اسی طرح زندگی گزارنی تھی جیسے آپ سے پہلے اور بعد والے اماموں نے گزاری۔ حسین کیخلاف یزید نے ظلم کی انتہاء کردی ۔ حسین کا جہادبڑی علامت ہے۔ امام حسن العسکری کے بیٹے امام محمد مہدی الغائب خضر علیہ السلام کی طرح زندہ ہیں۔ سنی علماء ومشائخ سے خضر ملتے ہیں تو شیعہ سے مہدی غائب ملتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے رجل الغیب خضر سے ملاقات کی تھی تو قرآن میں ذکر ہے ۔ خضر کا کام باطنی خلافت تھا۔کوئی یہ نہیں کہتا کہ خضر نے بچے کو قتل کیا لیکن فرعون سے جہاد نہیں کیا؟۔ عقیدت سے لڑنا مشکل ہے۔ غیب پر ایمان رکھنے والوں کو عقل ومنطق کی ضرورت نہیں ہوتی۔ فرقہ واریت میں مبتلاء عناصر ایکدوسرے کو لاجواب کرنے کے بجائے اچھے انداز میں سمجھائیں تو بہتر ہوگا۔
مفتی فضل ہمدرد نے الشیخ حسن فرحان المالکی کی کتابوں کا ذکر کیا جو سعودی عرب کی جیل میں اہل بیت وصحابہ پر علمی تحقیق کی سزا کھارہے ہیں۔مولانا سید سلیمان ندوی کو اس جرم میں ندوة العلماء کے بڑے مدرسے سے ریٹائرڈ کیا گیا۔ ہندوستان کے سعودی اور مقامی علماء ان پر فتوے لگارہے ہیں۔ شیعہ سنی صحابہ و اہل بیت پر لڑتے ہیں لیکن قرآن پر بالکل بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ میں نے پشاور جامعة الشہید عارف الحسینی کے مدرسہ میں قرآن کی حفاظت پر بات کی تو مولانا نورالحق قادری ، مولانا روح اللہ مدنی، مولانا طیب قریشی، درویش مسجد صدر پشاور اور معروف مدارس اور درگاہوں کے جانشین کے علاوہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز صاحب بھی موجود تھے۔ قرآن کی حفاظت سے شیعہ وسنی ایسے بھاگتے ہیں جیسے گدھے شیر سے بدحواس ہوکر بھاگتے ہیں۔ قرآن کے بغیر صحابہ واہل بیت پرلڑنا دین وایمان سے زیادہ پیٹ اور ماحول کا مسئلہ ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس لڑکی نے2دوستوں کے ساتھ شادی کرلی۔

اس لڑکی نے2دوستوں کے ساتھ شادی کرلی۔

”آئینہ د کلتور”سوشل میڈیا یوٹیوب چینل پراصغر چیمہ کی یہ ویڈیو ہے جس میں ایک دوست نے دوسرے دوست کی بیوی سے حلالہ کیا۔ دونوں اور حلالہ کا شکار ہونے والی لڑکی نے داستان سنائی ۔ لڑکی کی ماں بھی ساتھ ہے۔ اشرافیہ اور اہل اقتدار پرحلالہ کے نام پرعزت لٹائی کا اثر نہیں پڑتا۔ فحاشی کی دنیا میں مذہب کے نام پر اس خبر سے چینل کو پذیرائی کیساتھ مذہبی شرافت کا بھی آئینہ دکھانے کی کوشش ہوئی ہے۔ جس سے ہمارا بعض مذہبی طبقہ بھی بہت پسند کرتا ہوگا لیکن یہ قرآن وحدیث اور اسلام وفقہ کے نام پر عزت کا کھلواڑ ہے۔
حنفی علماء سوء نے کئی معاملات میں قرآن وحدیث اورحنفی بنیادی اصولوں سے ہٹ کربڑی گمراہیاں پھیلائی ہیں ۔ دارالعلوم کراچی اور بنوری ٹاؤن کراچی سمیت علماء ومفتیان کو قرآن واحادیث کے دلائل سمجھ میں آگئے ہیں کہ ” حلالہ کی لعنت کے فتوے غلط ہیں ” لیکن اس ماحول سے نکلنا بہت مشکل نظر آتا ہے جس میں وہ ایک عرصہ سے پھنس گئے ہیں۔ بلوچی گھیر والی شلوار، تہبند اور پتلون پہنا آسان کام اس وقت ہے کہ جب ماحول میسر ہو لیکن ماحول کے خلاف اپنی رسم وروایت میں لباس پہننے میں بھی بہت مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔
علماء کو اب اس ماحول سے نکلناہوگا۔ حلالہ کے خلاف ہم نے ماحول ختم کرنے میں بفضل تعالیٰ بھرپور کردار ادا کیا ہے اور انشاء اللہ مدارس اور دارالافتاء میں حاضری دوں گا اوراس مسئلے پر منٹوں میں سمجھاؤں گا۔ مجھے آج بھی اسی طرح مدارس سے پیار ہے جس طرح زمانہ طالب علمی میں تھا۔ ہم جب کہتے تھے
وطن میں جاکر کیا کریںگے مدرسہ ہے وطن اپنا مریںگے کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا
تبلیغی جماعت میں مجھے وقت اور استفادہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کی سیاست، سپاہ صحابہ کا جذبہ ، مجاہدین کا ولولہ اور خانقاہوں کی عقیدت کا میںعینی شاہد ہوں۔ انقلابی تحریکوں کا مطالعہ ہے ۔ علماء دیوبند کا شاگرد ہوں۔ مناظرے کا فن جانتاہوں۔ سب سے بڑھ کر ایک عام گناہ گار انسان ہوں۔ جس کو کسی پر برتری ، فضیلت اور بڑائی کا احساس نہیں ۔ صالحین سے محبت ہے، امیدہے کہ میری بھی اصلاح ہوجائے گی۔ اچھا نہیں لگتا کہ بڑے بڑوں کو ان کی عمر، مقام اور مرتبے کا لحاظ رکھے بغیر سخت رگڑا لگاتا ہوں۔ دوسرے فرقے اور علماء کے مخالفین خوش ہیں لیکن اس سے حق اور اہل حق کے قریب ہونے کی فضاء بنتی ہے۔
اکابر نے شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگایا لیکن قرآن ، صحابہ اور عقیدۂ امامت سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹا سکے اور اکابر علماء اور جوانوں کی شہادتیں دیکر مخالفین کی زبان بندی نہیں کراسکے ۔ سوشل میڈیا پر شیعہ زیادہ مؤثر انداز میں وہ کام کررہے ہیں جو تاریخ میں نہیں ہو ا۔ بیرون ملک سے دلائل ہم تک پہنچتے ہیں۔ جب انجینئر محمد علی مرزا اور مفتی فضل ہمدرد کسی شمار وقطار میں نہ تھے تو ہم نے نہ صرف شیعہ اور بریلوی عقیدے کا دفاع کیا بلکہ اپنے اکابرین پر حملے کردئیے۔ قرآن ، صحابہ اور عقیدۂ امامت میں درسِ نظامی اور شاہ اسماعیل شہید کے دلائل سے شیعہ پر کفر کا فتویٰ واپس کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا مگر حق کی منزل آسان کردی۔ اب وقت آیا ہے کہ اسلام کے اصل مقاصد اور علماء دیوبند کے سرخیل حاجی امداداللہ مہاجرمکی کا مشن زندہ کریں۔حضرت شیخ الہند مولانا محمودالحسن نے برسوں مالٹا کی جیل میں گزارنے کے بعد دوباتوں کو امت کے زوال کا سبب قرار دیا ایک قرآن سے دوری اور دوسری فرقہ واریت۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے خلافت کے قیام کی بڑی کوشش کی تھی ۔شیخ الہند نے اپنی تمناؤں کا اظہارمالٹا جیل میں آنے کے بعد کیا۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے بھی محنت کا حق ادا کردیا اور مولانا محمد الیاس نے تبلیغی جماعت کے ذریعہ پوری دنیا میں دین کے درد کو جگایا تھا اور حاجی محمد عثمان کے سرپر روحانیت کا تاج اکابر نے رکھا تھا ۔ ہم انشاء اللہ ان سب کا مشن پورا کرکے دکھائیں گے۔
شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگانیوالے مولانا منظور نعمانی کے فرزند مولانا سجاد نعمانی نے فتوے کو سازش قرار دیا ۔ مولانا سلیمان ندوی کواکٹھی 3 طلاق کو ایک کہنے پرنشانہ بنایا گیا۔1970سیمینارمیں مفتی عتیق الرحمن عثمانی کی صدارت میں علماء دیوبند،جماعت اسلامی اور اہلحدیث نے مثبت رائے دی تھی مگر بریلوی مخالف تھے۔
اب مفتی کامران شہزاد نے بھی3طلاق کے ایک ہونے پر قرآن وحدیث کا فتویٰ جاری کیا۔ مفتی کامران شہزادکی تعلیم وتربیت کا پسِ منظر حنفی بریلوی مسلک سے لگتا ہے۔ فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے ان کی شخصیت اچھا آغاز ہے۔ طلاق کے مسئلے پر مفتی کامران شہزاد نے بہت مثبت گفتگو کی ہے۔ پہلے اختلاف کو ایک اجتہادی مسئلہ قرار دیا ہے کہ اکٹھی تین طلاق ایک شمار ہوتی ہے یا تین طلاق؟۔ احادیث کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ عبداللہ بن مبارک نے فرمایا ہے کہ ” عبداللہ بن عباس نے ہاتھ لگانے سے پہلے اور ہاتھ لگانے کے بعد کی دونوں صورتوں میں یہ قرار دیا تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی”۔
مفتی کامران شہزاد نے کہا کہ ” قرآن میں دو مرتبہ طلاق کا ذکر ہے تو ایک مرتبہ میں تین طلاق کا اطلاق نہیں ہوسکتا اور اس کی مثال یہ دی کہ کرکٹ کے کھیل میں ایک بار جس طرح بھی میں آؤٹ ہوجاؤں ، گیند پکڑ کر کیچ سے آؤٹ ہوں یا وکٹ اُڑ جائے لیکن ایک مرتبہ آؤٹ ہوںگا۔ ایک بار میں دو مرتبہ آؤ ٹ نہیں ہوسکتا۔ اسلئے قرآن کا تقاضہ ہے کہ ایک بار میں 3 طلاق دی جائے تووہ ایک بار ہی شمار ہو پھرعدت میں رجوع ہوسکتا ہے اور پھر دوبارہ طلاق دی جائے اور پھر عدت میں رجوع ہوسکتا ہے۔ پھر تیسری بار طلاق دی جائے تو رجوع نہیں ہوسکتا ہے”۔ مفتی کامران شہزاد نے حنفی مسلک اور دیگر مسالک کا بھی استدلال پیش کیا ہے اور مشہور ومعروف علماء وفقہاء کے نام بھی لئے ہیں۔
قرآن نے حلالہ کی لعنت کے حوالے سے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی تھی لیکن عورت کو تحفظ دینے کا مسئلہ تھا اور اس تحفظ کی خاطر آخری حد تک ایسے الفاظ بھی بیان کردئیے کہ ایک طرف عورت کو پورا پورا تحفظ مل گیا اور دوسری طرف حلالہ بھی ایک آزمائشی مسئلہ بن گیا۔ اگر یہ الفاظ آیت میں نہ ہوتے کہ ” جب تک وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے تو پہلے کیلئے حلال نہیں ”۔( البقرہ230) تو بہت ساری خواتین اپنے شوہروں کے مظالم سے چھٹکارا نہیں پاسکتی تھیں۔
شوہر کے منہ سے 3طلاق کا لفظ نکلا اور بیوی نے چھٹکارا پالیا اسلئے کہ شوہر نے بھی یہ یقین کرلیا کہ اب یہ حلال نہیں ہے لیکن اصل صورتحال اس سے زیادہ بہترین تھی اور وہ یہ ہے کہ اگر شوہر نے طلاق کا لفظ بول دیا۔ صریح ، اشارہ ، کنایہ اور خاموش ناراضگی تب بھی ”شوہر کے رجوع کا حق چھن گیا، جب تک عورت صلح پر راضی نہ ہو”۔ سورہ بقرہ آیت226میں ناراضگی کا ذکر ہے جس میں زبانی طلاق کا اظہار نہ ہو اور اس کی عدت چار ماہ ہے۔ اگر طلاق کا عزم تھااور اظہار نہیں کیا تو یہ دل کا گناہ ہے اور اس پر اللہ کی پکڑ بھی ہے اسلئے کہ عزم کا اظہار بھی کرنا چاہیے تھا۔ جب اظہار کرتا تو چار ماہ کی جگہ عدت تین ماہ ہوتی اور ایک ماہ عدت کے اضافے پر شوہر کا دل گناہگار ہے۔ (البقرہ 225،226،227)
ایلاء میں حلف ضروری نہیں۔ لاتعلقی اور ناراضگی سے بیوی کا حق معطل کرنا ایلاء ہے۔ اللہ نے ناراضگی کے بعد بیوی کو بااختیار قرار دیا ہے اگر وہ صلح کیلئے راضی نہ ہو تو شوہر زبردستی نہیں کرسکتا ۔ نبیۖ نے ایلاء کیا تھا تو اللہ نے فرمایا: بیگمات کو علیحدگی کا اختیار دینا۔ نبیۖ کے ذریعے اللہ نے یہ سبق سکھایا ہے۔ جاہلیت کی یہ رسم تھی کہ عورت سے لوگ ناراض ہوکر بیٹھتے تو وہ مدتوں بیٹھی رہتی۔ قرآن نے جس وضاحت کیساتھ چار ماہ کی عدت کا ذکر کیا ،اگر عوام کو پتہ چل گیا تو پھر مذہبی طبقات لوگوں کو شیاطین کے گروہ نظر آئیں گے جنہوں نے ایسی وضاحت کو اپنی عوام کی نگاہوں سے جان بوجھ کر یا کم عقلی میں پوشیدہ رکھا ہے۔
اس معاملے میں حنفی مسلک والے پھر بھی سرخرو ہوسکتے ہیں لیکن اہل تشیع، اہل حدیث، ابن تیمیہ ، علامہ ابن قیم سب کے منہ کالے ہوں گے جو احناف کی مخالفت میں جمہور شافعی، مالکی اور حنبلی مسلک والوں کیساتھ کھڑے ہوگئے۔
اللہ نے خواتین پر مظالم کا قانون وشریعت سے خاتمہ کردیا لیکن عورت پھر بھی مذہب کی بنیاد پر اسی ظلم کا دوبارہ شکار بنادی گئی۔ جب ایک بار کی تین طلاق سے عورت آزاد ہوجاتی ہے تو پھر چار ماہ کاانتظارکرنے کے باوجود کیوں آزاد نہیں ہوتی ہے؟۔ یہ اللہ کا دین نہیں مذہبی طبقات کا اپنا دھندہ یا بہت بڑی کم عقلی ہے۔ جس طرح تین طلاق پر حلالہ کا دھندہ بنایا گیا ہے ،اگر قرآن سمجھ میں آتا تو فتویٰ یہی دینا تھا کہ ایک بار ناراضگی یا ایلاء کے بعد بھی بیوی کو اختیار دینا ضروری ہے اور اگر شوہر اختیار نہیں دیتا ہے تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ اپنی مرضی و اختیار سے کہیں بھی دوسری جگہ نکاح کرے ۔ یہی قرآن وسنت کااصل حکم ہے۔
پھر اللہ کو پتہ تھا کہ یہود ونصاریٰ کے مذہبی گدھوں اور کتوں سے اس اُمت کا بھی واسطہ پڑے گا اسلئے واضح کردیا کہ ” طلاق والیوں کو تین ادوار تک انتظار کرنا ہے اور اس مدت میں ان کے شوہر ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔ (آیت228البقرہ) آیت سے واضح ہے کہ” ایک،دویا تین بار طلاق کے بعد عدت میں رجوع کا اختیار اصلاح کی شرط پر ہے”۔ آیت نے دوجاہلانہ مسائل کا خاتمہ کردیا۔ ایک مسئلہ یہ تھا کہ ایک ساتھ تین یا مرحلہ وار تین طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا اور دوسرامسئلہ یہ تھا کہ عورت کی رضامندی کے بغیر عدت میں جتنی بار شوہر چاہتا تھا تو رجوع کرلیتا تھا۔ اللہ نے واضح کیا کہ ایک بار طلاق کے بعدبھی عورت کی صلح واصلاح کے بغیر رجوع حلال نہیں ہے۔ شاباش ہو مولوی کے دماغ کو جس نے اختلاف کی بھول بھلیوں میں خود کو بہت کھپادیا ہے مگرقرآن کی موٹی موٹی باتیں سمجھنے کیلئے یہ وحشی گدھا تیار نہیں ہے۔
قرآن اور صحابہ کرام کے فتوؤں میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ حضرت عمر نے یہ فیصلہ نہیں دیا کہ” اکٹھی تین طلاق کے بعد رجوع حلال نہیں ہوسکتا” بلکہ جب عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو” قرآن کے مطابق رجوع نہ کرسکنے کا حکم جاری کیا” اور ساتھ میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر حلالے کا پتہ چل گیا تو کوڑے بھی لگا دوں گا۔ کیونکہ طاقتور مرد سے یہ بعید نہیں تھا کہ زبردستی سے حلالے پر مجبور کرتا۔ بنوں میں بھی ایک کیس ایسا ہوا ہے جس پر مولوی جیل میں گیا۔ اگر میاں کیساتھ بیوی رہنے کیلئے راضی ہوتی تو حضرت عمر کے پاس جانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ حضرت عمر سے کسی نے پوچھا کہ بیوی کو حرام کہااور تحقیق سے پتہ چلا کہ بیوی رہنے کیلئے راضی ہے تو فتویٰ دیا کہ رجوع ہوسکتا ہے ۔جب حضرت علی کے سامنے ایک اور واقعہ آیا کہ بیوی کو حرام کہا ہے اور بیوی رہنے پر راضی نہیں ہے تو حضرت علی نے فتویٰ دیا کہ ”اس پر رجوع حرام ہے ۔ جب تک کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے تو اس کیلئے حلال نہیں”۔ حضرت عمر وعلی نے یہ اختلاف اپنے اجتہادات کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ قرآن کی آیت کو سمجھ لیا تھا کہ جب عورت راضی ہوگی تو رجوع ہوسکتا ہے اور عورت راضی نہ ہوتو رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ صحیح بخاری میں علماء کا یہ اجتہاد نقل ہے کہ ” بیوی کو حرام کہنا تیسری طلاق ہے اور یہ حرام کھانے پینے کی اشیاء کو حرام کہنے کی طرح نہیں اسلئے کہ بیوی کو تیسری طلاق پر حلال نہیں ہوگی”۔ یہ نہیں سوچا کہ سورۂ تحریم میں نبیۖ نے حرام قرار دیا تھا اور بیوی کو ماں کہنے سے زیادہ حرام کیا ہوسکتا ہے جس کی قرآن نے نفی کی ہے؟۔
قرآنی آیات میں طلاق سے رجوع کیلئے علت باہمی اصلاح ہے ۔ جس کو مختلف آیات میں معروف رجوع اور باہمی رضامندی سے واضح کیا گیا ہے۔
آیت228البقرہ میں اللہ نے فرمایا: المطلقٰت یتربصن بانفسھم ثلاثة قروء … وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ” طلاق والی عورتیں3ادوار تک خود کو انتظار میں رکھیں ….. اور انکے شوہر ان کو اس مدت میں اصلاح کی شرط پر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔
اس آیت میں عدت کے اندر صلح کی شرط پر شوہر کو رجوع کا زیادہ حقدار قرار دیا گیا ہے اور اس میں یہ واضح ہے کہ رجوع کیلئے صرف ایک شرط ہے اور وہ ہے صلح واصلاح۔ جب تک عورت راضی نہیں ہو تو شوہر رجوع نہیں کرسکتا اور عورت راضی ہو تو شوہر ہی اس کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ عورت کا باپ، مذہبی طبقہ اورحکمران کسی کے مقابلے میں بھی عدت کے اندر شوہر سے زیادہ دوسرے کا حق نہیں ہے کہ اس میں مداخلت کرے۔ یہ آیت کے واضح الفاظ ہیں۔
اگر عورت صلح کیلئے راضی نہیں تو شوہر رجوع نہیں کرسکتا اور مذہبی طبقہ یہ فتویٰ نہیں دے سکتاکہ” شوہر کو رجوع کا حق ہے”۔ معاشرہ اور حکمران شوہر کو رجوع کا حق نہیں دے سکتے۔ یہ عورت کیساتھ بہت بڑا فراڈاور بہت بڑی زیادتی ہے کہ ”صلح کے بغیربھی شوہر ایک یا دومرتبہ طلاق کے بعد رجوع کا حق رکھتا ہے”۔
اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ شوہر صلح واصلاح کی شرط پر ہی رجوع کا حق رکھتا ہے تو یہ پتھر کی لکیر سے بھی زیادہ ہمیشہ قائم رہنے والا فتویٰ ہے اور اس سے قرآن کی کوئی دوسری آیت متصادم نہیں ہوسکتی ہے اور نہ اس کے برعکس حدیث ہے۔
کیا قرآن کی اگلی آیت ہی میں تضاد ہے۔ اللہ نے فرمایا: الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف اوتسریح باحسان ”طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے” (آیت229البقرہ ) ملواڑیں کہتے ہیں کہ اس آیت میں ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ طلاق سے اللہ نے شوہر کو رجوع کا حق دیا ہے۔گویا پہلی آیت228البقرہ میں صلح کی جو شرط رکھی گئی تھی اس آیت229میں اللہ نے عورت کو پھر کم عقل وکم نصیب اور کم بخت قرار دیکر اصلاح و صلح اور عورت کی رضامندی کا حق چھین لیا اور ایک نہیں دو مرتبہ طلاق سے شوہر کو غیرمشروط رجوع کا حق دیا؟ ۔ عورت سے صلح واصلاح اور رضامندی کا حق چھین کر صرف عورتوں سے یہ زیادتی ملواڑوں اور ملاٹوں نے نہیں کی بلکہ اللہ کے کلام میں بھی زبردست تضاد پیدا کردیا۔ اللہ نے ایک مرتبہ طلاق کے بعد شوہر کو آیت228میں غیرمشروط رجوع کا حق نہیں دیا تھا لیکن دوسری آیت میں دو مرتبہ طلاق کے بعد غیرمشروط رجوع کا حق دے دیا؟۔ یہ اللہ کی کتاب میں اتنا بڑا تضاد ، گمراہی اور بھلکڑ پن ہے کہ اتنا کمزور حافظہ تو چوہے کا بھی نہیں، جس کو بلی بھگادیتی ہے اور وہ پھر شکار ہوجاتاہے۔ اسلئے کہ دونوں آیات بالکل متصل ہیں اور دونوں میں بہت بڑا تضاد پیدا ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سے طلاق کے مسائل میں پوری فقہی دنیا بالکل تباہ وبربادی کا شکارہے۔
نبیۖ نے واضح فرمایا ہے کہ ” تسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے”۔ اور یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ ” تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہی ہے”۔ نبیۖ نے اسلئے ایک ساتھ تین طلاق پر ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا ہے کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے بلکہ ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے رجوع کا حکم دیا ہے۔ جس طلاق کے بعد آیت230البقرہ میں حلال نہ ہونے کا ذکر ہے تو اس سے پہلے اس کنڈیشن کا ذکر کیا ہے کہ ” تین مرتبہ مرحلہ وار طلاقوں کے بعد جب معروف رجوع کا فیصلہ نہیں ہو تو شوہر نے جو کچھ دیا ہے اس میں کچھ بھی واپس لینا حلال نہیں مگر جب دونوں کو یہ خوف ہو کہ اگردی ہوئی چیز واپس نہیں کی تو دونوں اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیںگے۔ وہ چیز رابطے کا ذریعہ ہوگی اور ناجائزجنسی عمل کا شکار ہوجائیںگے۔ یہی خدشہ اگر فیصلہ کرنے والوں کو بھی ہو توپھر عورت کی طرف سے شوہر کی دی ہوئی فقط وہی چیز فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے”۔ حنفی مسلک کی اصول فقہ اور علامہ ابن قیم کی کتاب زاد المعاد میں بھی حضرت ابن عباس کا یہ قول واضح ہے کہ آیت229کے اس آخری حصے کیساتھ ہی آیت230کا تعلق ہے جس میں حلال نہ ہونے کا ذکر ہے۔
یہ وہ صورت ہے کہ جب میاں بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں بلکہ علیحدگی پر اس حد تک اصرار کرتے ہوں کہ آئندہ رابطے کی بھی کوئی صورت نہ چھوڑیں اور فیصلہ کرنے والوں کا بھی یہی حال ہو۔ پھر سوال یہ پیدا نہیں ہوتا ہے کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ کیونکہ رجوع تو کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ البتہ آیت میں ایک دورِ جاہلیت کی رسم کا خاتمہ ہے کہ عورت کو طلاق کے بعد شوہر کی پابندیوں سے خلاصی نہیں ملتی تھی اور آج کی عورت بھی اس مصیبت میں گرفتا رہے۔ اس سے چھٹکارا دلانے کیلئے اللہ نے بہت بڑا حکیمانہ فیصلہ نازل کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت ساری عورتوں کی جان چھوٹ گئی۔ اس آیت کا تعلق صرف اور صرف یہاں تک محدود نہیں ہے بلکہ ناراضگی کے بعد شوہر بیوی کو نہیں چھوڑتا ہو، ایک طلاق کے بعد نہ چھوڑتا ہو ، دو طلاق کے بعد نہیں چھوڑتا ہو، حرام اور کسی قسم کا کوئی لفظ کہنے کے بعد آزادی میں رکاوٹ ڈالتا ہو تو اللہ کا یہ حکم اس پر جاری ہوتا ہے۔
جہاں تک باہمی رضامندی سے رجوع کا تعلق ہے تو جس طرح اللہ نے عدت میں رجوع کی اجازت دی ہے ،اسی طرح عدت کے بعد بھی رجوع کی اجازت دی ہے۔ جس کا حکم زیادہ دور تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس آیت230البقرہ سے متصل آیات231اور232میں بالکل واضح ہے۔
پارلیمنٹ اور سینٹ میں قرآن کی ان آیات پر تھوڑی بحث کی جائے تو فرقہ واریت اور مذہبی شدت پسندی کی ماں مر جائے گی اور حلالہ کی نحوست سے بھی سادہ لوح عوام کو چھٹکارا مل جائے گا۔ سورہ طلاق میں بھی یہی حکم بہت وضاحت کیساتھ موجود ہے۔ تین مرتبہ مرحلہ وارطلاق کے باوجود بھی عدت کی تکمیل پر یہ ٹھوس فیصلہ کرنا ہے کہ معروف طریقے سے رکھنا ہے یا معروف طریقے سے اس عورت کو الگ کردینا ہے۔ اگر علیحدگی کا فیصلہ کیا جائے تو پھر دوعادل گواہ مقرر کئے جائیں تاکہ عورت کے مالی حقوق کو تحفظ دیا جائے۔ اور سورہ طلاق میں پھر بھی اللہ نے رجوع کا دروازہ بند نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد شریف کی روایت ہے کہ نبیۖ نے رکانہ کے والد کو رکانہ کی ماں سے تین طلاق کے باوجود رجوع کاحکم دیا اور سورۂ طلاق کی آیات پڑھ کر سنائیں۔جماعت اسلامی کے مولانا چترالی کو اگر امریکی سی آئی اے نے پلانٹ نہیں کیا تو مولانا مودودی کی کتاب” خلافت و ملکوکیت” کے برعکس تحفظ ناموس صحابہ کی طرح تین طلاق ، حلالہ اور خلع پر ایک بل پیش کریں تاکہ خواتین کو اسلامی حقوق مل جائیں اور معاشرے میں مولانا مودودی کے ”ترجمان القرآن” سے اسلام مخالف مسائل کا خاتمہ ہوجائے۔
اصل مسئلہ خلع و طلاق کے حقوق کا ہے ۔ خلع کی عدت ایک حیض یا ایک ماہ ہے ۔ سعودی عرب میں خلع کی عدت پرصحیح حدیث کے مطابق عمل ہے۔ خلع میں عورت کو حقوق کم ملتے ہیں اور طلاق میں زیادہ ملتے ہیں۔ خلع میں عورت کو شوہر کا دیا ہواگھر اور غیرمنقولہ جائیدادباغ، زمین وغیرہ چھوڑنا پڑتا ہے اور طلاق میں منقولہ وغیرمنقولہ تمام دی ہوئی چیزوں کی مالک عورت ہوتی ہے۔ جب عورت کا قصور نہیں اور وہ چھوڑنا نہیں چاہتی تو اس کودی ہوئی چیزوں سے کیوں محروم کیا جاسکتا ہے؟۔ البتہ خلع میں محروم ہوگی۔ سورہ النساء آیت19میں خلع اور20،21میں طلاق کے حقوق ہیں۔ خلع میں عورت کو مکمل اختیار ہے اور اس میں عدالت جانے کی ضرورت نہیں ۔ آیت229میں خلع مراد نہیں ہوسکتا ہے لیکن علماء ومفتیان کے علاوہ جدید اسکالر بھی اس جہالت میں ملوث ہیں اور جس آیت229میں اللہ نے عورت کو طلاق کے بعد مالی تحفظ دیا ہے وہاں یہ گدھے عورت کو بلیک میل کرنے کیلئے خلع کا بالکل جھوٹا حکم لگاتے ہیں اور اس میں مولوی پھر بھی ناسمجھی کی وجہ سے کسی قدر معذور ہیں اور میں ان کا کفارہ ادا کررہا ہوں۔
جب عورت طلاق کا دعویٰ کرے گی اور مرد اس کا انکار کرے گا تو عورت کو گواہ لانے پڑیںگے اسلئے کہ زیادہ حقوق پانے کیلئے جھوٹا دعویٰ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر عورت کے پاس گواہ نہیں ہوں اور شوہر قسم کھالے تو خلع کا حکم جاری ہوگا ۔ یہ نہیں کہ عورت خلع لے اور خلع نہ ملے تو حرامکاری پر مجبور ہوگی۔ مالی حقوق پر تنازعہ ہوسکتا ہے اور اس میں قسم اور گواہی کی ضرورت ہے لیکن یہ بڑی جہالت ہے جو فقہاء نے لکھ دی ہے کہ عورت حرامکاری پر مجبور ہوگی۔
مولوی تو عدالت کے ذریعے بھی عورت کو خلع کا حق نہیں دیتا لیکن اللہ نے فرمایا ہے کہ ” تم عورتوں کے زبردستی سے مالک نہیں بن سکتے اور نہ اسلئے ان کو روکو کہ جو چیزیں ان کو دی ہیں وہ ان سے واپس لو مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہوں۔ ان سے معروف سلوک کرو اور اگر وہ تمہیں بری لگتی ہیں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگے اور اللہ اس میں بہت سارا خیر بنادے”۔ (النسائ19)
تحریک لبیک کے علامہ سعد حسین رضوی اور مولانا فضل الرحمن ایک کمیٹی تشکیل دیں جس میں جید علماء کرام اور مفتیان عظام شامل ہوں۔ جب یہ حقائق دنیا کے سامنے آجائیںگے تو پاکستان سے اسلامی نظام کا آغاز ہوجائے گا اور پھر کبھی انشاء اللہ غیرمسلم بھی یورپ وغیرہ میں بھی نبیۖ اور قرآن کی توہین کی سوچ بھی دل ودماغ سے نکال دیںگے۔نفرت کا خاتمہ ہوگا اور نبیۖ کو مقام محمود اس دنیا میں ملے گا جس کی دعا آذان میں مسلمان عرصہ سے مانگتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سعودی عرب، ایران اور طالبان کے مذہبی اقتدارکا راز یہ تھا کہ لونڈی اور اس کا لباس ختم برطانیہ، فرانس اور امریکہ مغربی دنیا نے بڑااچھاکھیلا

سعودی عرب، ایران اور طالبان کے مذہبی اقتدارکا راز یہ تھا کہ لونڈی اور اس کا لباس ختم
برطانیہ، فرانس اور امریکہ مغربی دنیا نے بڑااچھاکھیلا

سعودی عرب، ایران اور افغانستان کی خواتین کے مقامی اور اسلامی لباس کو قربان کیا گیا؟

خطے میں جنگ ہے اور فریقین ایک دوسرے پر ایجنٹ کا الزام لگاتے ہیں ۔ اگر دشمنوں کا خوف نکل جائے گا تو وہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے پر مجبور کرنے کیلئے اپنی فنڈنگ چھوڑ دیں گے

عثمانی خلیفہ کی4500لونڈیوں میں ہر رنگ ونسل ، زبان وکلچر، مذہب ودین اور علاقہ وملک کی خواتین کو شامل کرنے کی کوشش ہوئی۔اس وقت فرانس اور برطانیہ کا اقتدار سمٹ رہا تھا؟

دشمن کو خطرہ ہے کہ اگر پھر خلافت قائم ہوئی تو مسلمان ان کی خواتین کونیم برہنہ لباس کی لونڈیاں بنائیں گے ایرانی بادشاہ یزد گرد کی تین بیٹیوں کو ابوبکر، عمر اور علی کے بیٹوںکی لونڈیاں بنایا گیا

لونڈیوں کا تصور اور مسلمانوں کا کردار

اسلام سے پہلے دنیا میں لونڈی اور غلام کا تصور تھا۔ لونڈی سے نکاح کی ضرورت نہیں تھی ۔غلام نوکر ہوتا تھا۔ بعض نسلی غلام تھے۔ بردہ فروشی ، جنگ اور ڈکیتی بھی غلام بنانے کا طریقہ تھا اور غلامی کا بنیادی ادارہ جاگیردارانہ نظام تھا جو مزارعین کے بچوں اور خواتین کو لونڈیا ںوغلام بناتا تھا۔ عورت معاشرے کی ایسی جنس تھی جس کو بیوی، بیٹی اور بہن کی حیثیت سے بیچنا مردوں کا اپنا حق تھا۔
جانور کی طرح انسان کی ملکیت کا حق تھا۔ عورت معاشرے میں جنس مملوکہ تھی ۔آج بھی عرب، پشتون ، پنجاب اور دنیا میں اس جنس کی خرید وفروخت کا دھندہ ہے اور میڈیا میں بھی رپورٹنگ ہوتی ہے۔ حال ہی میں امریکہ کی عدالت نے ایک پاکستانی فیملی کو لاکھوں ڈالر اسلئے جرمانہ کیا کہ وہ بہو پر جبری تشدد کے ذریعہ گھر کے کام کاج لیتے تھے اور اس کو بلیک میل کرکے رکھا تھا جس کی وجہ سے اس خاندان پر انسانی اسمگلنگ کا کیس بن گیا اور سزائیں بھی دے دیں۔
محمد شاہ رنگیلا بادشاہ بالا خانے کی سیڑھیوں پر ننگی لڑکیوں کے سینوں کو پکڑ کر چڑھتا تھا۔سعداللہ جان برق کی کتاب” دختر کائنات”میں حقائق ہیں۔ خواتین کی حالت آج بھی دنیا میں ہوشربا طور پر قابلِ رحم ہے لیکن ان کی مظلومیت کا انداز ظالم اور طاقتور مردوں کیلئے قابلِ رحم نہیں۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹوں کو ملتان اور لاہور سے اغواء کرکے طالبان نے برسوں افغانستان میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا تھا تو ان پر بہت زیادہ ترس آتا تھا مگرملتان اور لاہور میں بکنے والی خواتین کی آہوں کا شاید یہ نتیجہ تھا۔
مذہبی اعتبار سے یاد رکھنے والا عبرتناک واقعہ کربلا ہے۔عشرہ محر م شہادت حسین کے طور پر شیعہ اور کچھ ہندو و سکھ تک بھی غم کے طور پر مناتے ہیں اور واقعی تاریخی ظلم ہوا تھا۔ انگریز پاکستان میں شیعہ ماتم کو کبھی لاعلمی میں دیکھتے تھے تو کہتے تھے کہ کیا نبیۖ کا نواسہ ابھی شہید ہوا ہے؟۔ کربلا کی داستان عاشور کی رات شام غریباں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اس کے بعد مزید سخت انداز میں شروع ہوتی ہے۔ حسین کے سرکو لیکر خواتین ، بچوں اور بیمار زین العابدین کیساتھ قافلہ یزید کے دربار میں پہنچادیا جاتا ہے۔ قافلے میں حسین کی بیگم حضرت شہر بانو ، بہن حضرت زینب اور بیٹی سکینہ بھی ہوتی ہیں۔ ایک شامی یزید سے کہتا ہے کہ ”یہ ایک جواں سال بچی بہت خوبصورت ہے۔ مجھے لونڈی کے طور پر دیدو”۔
بی بی زینب جواب دیتی ہیں کہ ”نہ تمہاری یہ اوقات ہے کہ اس کو لونڈی بناؤ اور نہ یزید کو اختیار ہے کہ اس کو لونڈی بنائے”۔ یزید نے کہا کہ ” اگر میں چاہوں تو لونڈی بناسکتا ہوں”۔ حضرت زینب نے بہت دردناک خطبہ دیا ۔ قرآن کی آیات پڑھیں کہ” بعض لوگوں کو ہم آزمانے کیلئے اختیار دیتے ہیں تاکہ ظلم کرنے والے ذلت آمیز انجام کی طرف پہنچ جائیں”۔ اور کہا کہ ” مسلمانوں کی عورتوں سے کافروں کی طرح سلوک نہیں کیا جاسکتا ہے مگر تم سے یہ بعید نہیں ہے اسلئے کہ تمہارے وجود میں ہمارے خاندان کا خون شامل ہے۔ ( یزید کی دادی حضرت ہندہ رضی اللہ عنہانے جو سیدالشہداء امیر حمزہ کے کلیجے کو چبا کر خون کو نوش فرمایا تھا۔ اس طرف حضرت زینب کا اشارہ تھا)سوشل میڈیا پر مولانا اسحاق کے بیان سے پورے واقعہ اور خطبے کو سن سکتے ہیں۔
امام حسین کی بیگم شہربانو اس موقع پر کیوں خاموش تھیں؟۔ یہ اس نے پہلا واقعہ نہیں دیکھا تھا بلکہ جب وہ سپر طاقت فارس کی شہزادی تھی اور حضرت عمر کے دور میں حضرت سعد بن وقاص کی قیادت میں مسلمانوں نے فتح کرکے اس کے باپ کی بادشاہی کو تہس نہس کردیا تھا۔ وہ اور اس کی دو بہنیں بھی لونڈی کے طور پر مال غنیمت میں لائی گئی تھیں۔ حضرت عمر نے کہا کہ ” مال غنیمت میں ان تینوں کو نیلام کردو”۔ حضرت علی نے کہا کہ ” شہزادیوں سے عام لوگوں جیسا سلوک نہ ہونا چاہیے۔ایک عبداللہ بن عمر ، دوسری حسین بن علی اور تیسری ابوبکر کے بیٹے محمد کو دیدیتے ہیں”۔ حضرت عمر نے اتفاق کیا۔ حضرت شہربانو پر اس وقت کیا گزر رہی ہوگی کہ جب اس کو عربی زباں بھی نہیں آتی تھی، اس کی بہنیں اور وہ سرِ عام نیلام ہونے کیلئے پیش کی جارہی تھیں؟ ۔ذراسوچئے۔حضرت شہر بانو اور اس کی بہنوں کا کیا گناہ تھا کہ تینوں بہنیں لونڈیاں بنائی گئیں؟۔ بس ایک سپر طاقت بادشاہ کی شہزادیاں ہونا ان کا گناہ ٹھہر گیا تھا؟۔ کیا باپ کے گناہ کی سزا بیٹیوں کو اسلام میں دینے کی گنجائش ہے؟۔ حضرت شہربانو کی نصیحت اکلوتے بیٹے امام زین العابدینسے کیا ہوسکتی تھی؟۔کیا چُپ کا روزہ رکھا ہوا تھا؟۔ کوئی قول اور بول کسی نے نقل کیا ہے؟۔کھلے حقائق کو سمجھنا ضروری ہے۔قوم پرست اور ملحد خوامخواہ میں مذہب یا اسلام سے دشمنی نہیں رکھتے۔ آئے روز مغرب میں قرآن، نبیۖ اور اسلام سے اظہارِ نفرت کے محرکات تلاش کریں!۔

اہل تشیع کے ائمہ اہل بیت مہدی غائب

امام زین العابدین میں اپنی ماںشہربانو اور بابا حضرت حسین کا خون تھا۔ میڈیکل سائنس میں ماں باپ کے سپرمXYاور قرآن میں نطفۂ امشاج ہے۔ امام حسین کا ایک بیٹا زید اپنے باپ حسین پر زیادہ گیا تھا اور اس نے بنوامیہ کے خلاف40ہزار افراد لیکر قیام کیا لیکن ساتھیوں سمیت شہید کردئیے گئے۔ بڑے بیٹے امام باقر پر اپنی ماں شہر بانو کا زیادہ اثرتھا اسلئے بنوامیہ کے خلاف قیام نہیں کیا۔ امام باقر، امام جعفر سے امام حسن عسکری اور امام مہدی غائب تک اہل تشیع کے سلسلہ امامت نے شہربانو کے اثر سے قیام کرنا گوارا نہیں فرمایا تھا۔
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت مہدی غائب قیام کریں گے تو پوری دنیا ان پر متفق ہوگی۔ بڑے دجال اور عیسیٰ علیہ السلام کے وقت کچھ بھی ہوگا تو سارے مسلمان متفق ہوں گے۔ اور یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ شیعہ عقیدے کے مطابق امام مہدی غائب آئیںگے یا پھر سنی عقیدے کے مطابق امام مہدی آئیںگے؟۔ شیعوں کی کتابوں میں امام کا قول موجود ہے کہ ” مہدی سے پہلے جو قیام کرے گا وہ ایسے طائر کا بچہ ہوگا جو غیر کے ہاتھوں میں پلا ہوگا”۔
شیعہ کے نزدیک اقتدار امام معصوم کا حق ہے۔ علی سے لیکر حسن عسکری تک کسی نے ظلم وفسق نہیں کیا۔ سنیوں کے نزدیک یزید، ظالم ، فاسق بھی امام ہوسکتا تھا۔ ایرانی اقتدار کوشیعہ مانتے ہیںیا ڈھونگ سمجھتے ہیں؟۔اکابردیوبند نے اپنی متفقہ کتاب ” المھند علی المفندعقائد علماء دیوبند” میں وہابیوں کی مخالفت کی تھی۔
حضرت ابراہیم کی زوجہ سارہ آپ کے خاندان سے ،دوسری حاجرہ لونڈی تھی جو ظالم بادشاہ نے سارہ کو تحفے میں دی ،وہ دوسرے بادشاہ کی بیٹی شہزادی تھی۔ ظالم بادشاہ خواتین کو لونڈیاں بناتے تھے۔ بہن ، بیٹی اور ماں کی اکثر عزت رکھتے لیکن مردوں کو ذلت تک پہنچانے کیلئے بیگم سے جبری زیادتی کرتے تاکہ وہ آنکھ اُٹھاکر کبھی بات نہ کرسکے۔ علماء نے بھی حلالہ کے ذریعے بادشاہوں اور شرفاء کی بیگمات کیلئے ایسا سیاسی گر استعمال کیا کہ وہ آنکھ نہیں اٹھاسکتے تھے۔
حضرت ابراہیم کی زوجہ سارہ سے بہت انبیاء حضرت اسحاق ،یعقوب اور یوسف آئے، داؤد ، سلیمان کو بادشاہت بھی مل گئی۔ حضرت عیسیٰ تک بڑی تعداد میں انبیاء اور ملوک حضرت سارہ کی نسل سے آئے لیکن حضرت حاجرہ کی نسل میں حضرت اسماعیل کے بعد آخری پیغمبر حضرت محمد ۖ تک درمیان میں کوئی نبی اور بادشاہ نہیں آیا۔اللہ نے فرمایا: ”اے بنی اسرائیل ! یاد کرو میری اس نعمت کو کہ میں نے جہاںوالوں پر تمہیں فضلیت دی”۔ بنی اسرائیل کو برے عذاب کا سامنا کرنا پڑا تھا جب آل فرعون انکے بیٹوں کو قتل اور ان کی عورتوں کی حیاء لوٹتے (یعنی لونڈیاں بناتے )تھے۔ (القرآن)۔ نبیۖ نے لونڈی و غلامی ختم کرنے کا مشن اٹھایا ۔ ایران اور روم فتح ہوئے تو یورپی و ایرانی لونڈیاں بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ حقیقت ہے کہحب الشہوٰت من النساء (عورتوں سے شہوانی محبت کا جذبہ )مردوں کی بہت بڑی فطری کمزوری ہے۔ آدم خلیفہ بنانے کیلئے زمین پر بھیجے جارہے تھے تو پہلاحکم یہ دیا کہ ” اس شجرہ کے قریب مت جاؤ”۔ وہ شجرۂ نسب تھا اسلئے کہ ہمیشہ رہنے والا اور ایسی ملک جو ختم نہ ہو،نسل ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ عصی اٰدم فغویٰ” آدم نے نافرمانی اور سرکشی کردی”۔نافرمانی اور سرکشی کی نسبت اللہ نے حضرت حواء کی طرف نہیں کی لیکن پھر بھی ایک کمزورعورت حواء پر سارا مدعا ڈالا گیا ہے۔اگر ہم نے قرآن کی طرف رجوع نہیں کیا تو تذلیل کی آخری حد کو اللہ نے ہمیں پہنچادینا ہے۔

لونڈی انسانی ماتھے پر بہت بڑا داغ


مولانا غلام رسول سعیدی نے لکھ دیا کہ ” دنیا میں غلام بنانے کی رسم تھی تو اسلام نے جزاء سیئة بالسیئة برائی کے بدلے برائی کا جواز دیا لیکن دنیا نے پابندی لگادی تو اسلام بھی اس پابندی کو قبول کرتا ہے”۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا کہ ” اپنی قوم سے تعلق رکھنے والی آزاد عورتیں ہیںاور ان میں 4سے ایک بھی زیادہ سے نکاح کی گنجائش نہیں ہے۔ دوسری قوم سے تعلق رکھنے والی عورتیں لونڈیاں ہیں اورجن میں تعداد کی کوئی پابندی نہیں ، جتنی چاہیں رکھ سکتے ہیں”۔
مولانا عبیداللہ سندھی اور مولانا غلام رسول سعیدی نے کوشش کی کہ اسلام کے ماتھے سے لونڈیوں کا داغ مٹ جائے ۔ان کا تعلق دیوبندی بریلوی حنفی مسلک سے تھا۔ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے حنفی علماء کسی بات پر متفق ہوجائیں تو دنیا پر بڑے اثر ات مرتب ہوںگے۔ ہندوستان اور پاکستان کو منصوبہ بندی کے تحت تقسیم رکھا گیا۔ اگر صلح حدیبیہ کا معاہدہ اور اسلام کی درست تعبیر ہوتو دنیا میں اسلام کا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا۔آزادی سے پہلے مسلمانوں اور ہندؤوں نے خلافت کی بحالی کیلئے مشترکہ تحریک چلائی تھی ،جس میں مولانا محمد علی جوہر کیساتھ نامی گرامی ہندو لیڈر بھی شریک تھے۔
مولانا محمد علی جوہر’کامریڈ’مولانا ظفر علی خان’زمیندار’ اخبار نکالتے تھے۔ مولانا حسرت موہانی کمیونسٹ تھے ۔علامہ اقبال نے کہا : ” جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہوروزی اس کھیت کے ہرخوشہ گندم کو جلادو”۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کو خطرہ تھا کہ برصغیر کی سیاسی قیادت، عثمانی خلافت ، روس و جرمنی آپس میں مل کر سپر طاقت نہ بن جائیں۔ جرمنی میں دیوار برلن کھڑی کی گئی۔ پاک وہند کو تقسیم اور خلافت عثمانیہ کے ٹکڑے کئے گئے۔ حجازکا شریف مکہ برطانیہ کا ایجنٹ تھا۔ شیخ الہند چھپ کر حجاز پہنچے تو شریفِ مکہ نے برطانیہ کے حوالے کردیا۔ دارالعلوم دیوبند کے اندر سے مخبری ہوئی ۔ مولانا حسین احمد مدنی حرم کے مدرس اورغیر سیاسی شخصیت تھے لیکن اپنے استاذ کیساتھ مالٹا جیل جانا پسند کیا تھا۔
برطانیہ نے سعودی عرب سے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا تو عربی کلچر اور اسلام کے برعکس خود ساختہ شرعی پردہ مسلط کردیا۔ جس نے مسلمانوں کے ذہن سے لونڈی اور اسکے لباس کا تصور ختم کردیا۔ برطانیہ، فرانس سپرطاقت تھے پھر امریکہ بن گیا۔خلافت عثمانیہ کو مل بانٹ کر توڑا ۔روس کے خلاف متحد ہوگئے پھر فرانس سے امام خمینی نے ایرانی انقلاب برپا کیا۔ ایرانی کلچر اور اسلام کے برعکس پردہ نافذ ہوا۔50سالوں سے ایران میں عورتوں پر پردے کی جو پابندی ہے اس کی وجہ سے لونڈی کے لباس کا تصور ختم کردیا گیا۔ وہابی اور شیعہ اسلامی پردے کے نام پر جو کھلواڑ ہوا ،اسکے اثرات قدامت پسند نہیں ڈھیٹ مذہبی طبقہ نے قبول کئے۔ امریکہ نے بینظیر بھٹو اور نصیراللہ بابر کے ذریعے طالبان کو لاؤنچ کیا۔ سعودیہ، ایران اورطالبان میںکونسا اسلام ہے ؟۔ سب جائیں بھاڑ میں مگر عالمی طاقتوں نے دنیا سے لونڈیوں اور انکے لباس کا خاتمہ کرکے اچھا کیا۔ امریکہ نے مولانا سیدابولاعلیٰ مودودی سے کمیونزم، جہاد اور پردے کے نام پر کتابیں لکھوائی۔ اسلامی جمعیت طلبہ وطالبات نے کبھی خود اس پردے پر عمل نہیں کیا۔ جہاد کیلئے اپنے بیٹے فاروق مودودی اورجماعت اسلامی کے رفقاء کو نہیں بھیجا لیکن جذباتی لوگوں کو میجر مست گل کی بڑی زلفوں کا اسیر بنانے کا ڈرامہ ضرور کیا۔
آج چوہدری نثار اپنے پسندیدہ سیاستدانوں میں پہلے نمبر پر ولی خان اور دوسرے نمبر پر ذوالفقار علی بھٹو کو رکھتے ہیں۔ ولی خان نے بینظیر بھٹو سے کہا تھا کہ ” آپ خود بھی ایک خاتون ہیں اور افغانستان میں عرب مجاہدین پختونوں کی خواتین کو لونڈیاں بنانے کی باتیں کررہے ہیں”۔ عمران خان کہتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے اختلاف بھی ہے لیکن وہ پہلے نمبر کے لیڈر تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اداکارہ ممتاز کیساتھ جو کیا تھا وہ حبیب جالب کے اشعار میں موجود ہے۔
لاڑکانہ چلو نہیں تو تھانہ چلو

خلافت کا قیام اور دنیا کو خطرات کا سامنا


احادیث صحیحہ میں خلافت علی منہاج النبوہ کی پیش گوئی ہے۔ مولانا آزاد، مولانا سیدمودودی ، شیخ عبداللہ ناصح علوان ، ڈاکٹر اسرار احمد ، علامہ اقبال اور کئی مذہبی اسکالرز اور سیاسی رہنماؤں کے دل ودماغ میں روشن مستقبل کا نقشہ دکھائی دیتا ہے۔ عالمی قوتوں کو بجا طور پربہت خوف آرہاہے اور افغان طالبان کیساتھ عمران خان کی ہمدرد ی کو بیان کرتے ہوئے رؤف کلاسرا نے کہا کہ پانچ عالمی طاقتور ممالک نے سفارت کاری کے ذریعے پیغام دیا کہ ” اگر آئندہ عمران خا ن اقتدار میں آیا تو پاکستان کیساتھ کام نہیں کریں گے۔ پاکستان امریکہ، برطانیہ، چین اوریورپی ممالک کے بغیر نہیں چل سکتا ،انہوں نے بہت ساری رعایتیں دے رکھی ہیں”۔پھر رؤف کلاسرا نے عمران خان کو بینظیر بھٹو کے طرز پر قتل کی سازش کا ذکر کیا ۔ بعض کے طرزِ عمل سے لگتاہے کہ صحافی اور چوہدریوں میں بھی میراثی کا کردار ادا کرنے والے ہوسکتے ہیں۔ عمران خان کچھ بھی نہیں مگر قسمت اس پر مہربان ہے۔ نظام نہیںانقلابی اقدامات سے ملک بچانا پڑیگا۔کچھ صحافی گدھے کا دودھ پینے اور گدھی کے ٹٹے مالش کرنے کی مہم جوئی کرتے ہیں۔
عالمی قوتوںکو پاکستان سے خلافت کے قیام میں اپنی خواتین لونڈیاں بنتی دکھائی دیتی ہیں۔ پہلے یہود ونصاریٰ نبیۖ سے اسلئے راضی نہیں تھے کہ ” مذہبی معاملات میں احبار ورھبان نے دین میں تحریفات کی تھیں اور ان کی چاہت تھی کہ نبیۖ بھی اصلی دین کی جگہ ہماری تحریفات پر ہمارے تابع بن جائیں”۔ لن ترضیٰ عنک الیہود ولن النصاریٰ حتی تطبع ملتھم ”آپ سے کبھی یہود اور نصاریٰ راضی نہیں ہوں گے یہاں تک کہ آپ ان کی ملت کے تابع بن جائیں”۔ دین کا معاشرتی اور معاشی نظام یہودونصاریٰ بگاڑ چکے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ ” انہوں نے اپنے احبار ورہبان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا”۔ حاتم طائی کے فرزند عدی بن حاتم نے اسلام قبول کیا تھا اور اس آیت پر نبیۖ سے سوال اٹھایا کہ ”ہم نے تو علماء ومشائخ کو اپنا رب نہیں بنایا تھا”۔نبیۖ نے فرمایا کہ ” کیا تم ان کے حلال کردہ حرام کو حلال اور حرام کردہ حلال کو حرام نہ سمجھتے تھے؟” ۔ عدی نے عرض کیا کہ ” یہ تو ہم سمجھتے تھے” ۔نبیۖ نے فرمایا کہ ” یہی تو رب بنانا ہے کہ ان کے کہنے پر حرام کو حلال اور حلال کو حرام سمجھتے تھے”۔
قرآن نے عورت کے حقوق کی زبردست وضاحت فرمائی مگر مذہبی طبقات نے کھلے حقائق کو بہت بھونڈے انداز میں مسخ کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے اور ایک ایک بات کو انسان دیکھے تو یہودونصاریٰ کے کردار کو سمجھے گا کہ نبیۖ کی ذات سے کیوں راضی نہیں ہوسکتے تھے؟۔ اوروہ ہے عورت کابدترین استحصال ۔
جب جنگ بدر میں مسلمانوں نے70افراد کو قیدی بنالیا تھا تو کسی ایک کو بھی غلام نہیں بنایا تھا۔ اگر خواتین ہوتیں تو شاید آپس میں بانٹ دی جاتیں؟۔ اسلئے کہ لونڈیاں رکھنا دورِ جاہلیت اور انسانوں کا محبوب مشغلہ تھا۔ مگر یہ سب مرد تھے اور جنگ کے شہسواروں کو غلام بنانا اور ان سے گھر کی خدمت لینا ممکن نہیں۔ ابھی نندن اور کلبھوشن یادیو کو پکڑلیا تو کون گھر کی خدمت لیتا؟۔ درا صل یہ نظریہ غلط ہے کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنانا ممکن ہے۔ جنگی قیدیوں کوقتل کیا جاسکتا ہے، غلام نہیں بنایا جاسکتا اسلئے قرآن نے حکم دیا ہے کہ ” ان کو فدیہ لیکر چھوڑ دو یا پھر احسان کرکے چھوڑ دو”۔ (القرآن)۔ جس سے جنگی قیدی کو قتل نہ کرنے کا کریڈٹ قرآن کے کھاتے میں جاتا۔ افسوس کہ ہم نے قرآن کو اتنے بڑے کریڈٹ سے محروم کیا ۔ورنہ عافیہ صدیقی بھی امریکہ کی قید میں نہ ہوتی اور اقوام متحدہ میں قرآن اور اسلام کے نام پر جنگی قیدیوں کیلئے عظیم قوانین بھی بنتے۔

قرآن اور لونڈی کے تصور کا خاتمہ


لونڈی کو امة اور غلام کو عبدکہتے تھے، قرآن میں ان کو آزاد کرنے اورنکاح کرانے کا حکم ہے۔اللہ نے قیدیوں کا فرمایا کہ” فدیہ یا احسان سے چھوڑدو”۔ لونڈی بنانے کا تصور بڑی غلطی ہے۔ کوئی آیت نہیں کہ جس سے لونڈیاں بنانے کا حکم اخذ ہو۔ بنی اسرائیل کولونڈی سے بچانے کیلئے اللہ نے آل فرعون سے مزاحمت کیلئے انبیاء بھیجے تویہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ نے آل فرعون کی کمی اسلام سے پوری کرکے بنی اسرائیل اوردیگر انسانوں کو لونڈی بنانے کا مشن دیا ہو؟۔
اللہ نے فرمایا: پس تم نکاح کرو عورتوں میں سے جن کو تم چا ہو2،2اور3،3اور4،4سے اور اگر تمہیں خوف ہو کہ تم عدل نہیں کرسکتے تو پھر ایک یا جن کے مالک تمہارے معاہدے ہیں”(سورۂ النسائ) کیااللہ نے لونڈیوں کی تعداد نہیں بتائی تھی ۔اسلئے رنگین مزاج بادشاہوں نے ہزاروں لونڈیاں رکھی تھیں؟۔
جس طرح جنت میں حوروں کی بڑی تعداد کا ذکر عام ہے مگر قرآن اور صحیح حدیث میں اس کا دور دور تک نشان نہیں۔ اسی طرح زیادہ تعداد میں لونڈیوں کا تصور انتہائی احمقانہ اور نفسانی خواہشات کا عکاس ہے جو اسلام کے منافی ہے۔ کوئی منصف مزاج انسان ہوتا تو آیت سے زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ نکالتا کہ پہلی صورت یہ ہے کہ دو چار عورتوں سے نکاح کرسکتے ہو ۔اگرنا انصافی کا خوف ہو تو پھر ایک سے نکاح کرو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ”یا جن سے تم معاہدہ کرلو”۔ اگر آدمی ایک عورت سے بھی نکاح کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اس کیلئے معاہدے کی بھی گنجائش ہے۔ عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ ابوہریرہ نے نبی ۖ سے پوچھا کہ کیا ہم اپنے آپ کو خصی بنائیں؟ ۔ نبیۖ نے فرمایا کہ نہیں۔ تم کسی سے متعہ کرلو ایک یا دوچادر کے بدلے۔ اس چیز کو اپنے اوپر حرام مت کرو جس چیز کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ، الآےة(صحیح بخاری )بخاری کی حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جس کے پاس ایک عورت سے بھی نکاح کی صلاحیت نہیں تو وہ متعہ کرسکتا ہے اور آیت میں معاہدے سے مراد لونڈیاں نہیںبلکہ (متعہ اورمسیار)ہے۔
نکاح کیلئے جو لوازمات ہیں وہ معاہدے کیلئے نہیں ہیں۔ حضرت عثمان نے حضرت ابن مسعود سے کہا تھا کہ اگر آپ کہیں تو میں کسی لڑکی سے نکاح کروادیتا ہوں مگر ابن مسعود نے پیشکش قبول نہیں کی۔ ابن مسعود نے مصحف کی تفسیر میں لکھا کہ ” ایک مخصوص وقت تک متعہ کرسکتے ہیں” ۔علماء کہتے ہیں کہ ابن مسعود نے قرآنی آیت قرار دیا تھا مگر وہ قرآن کے لفظ کی حدیث کے مطابق تفسیر تھی۔ علی کی بہن ام ہانی نے ہجرت نہیں کی اور اللہ نے نبی ۖ سے فرمایا کہ” ہم نے آپ کیلئے ان چچاکی بیٹیوں کو حلال کیا ہے جنہوں نے آپ کیساتھ ہجرت کی ہے”۔نبیۖ ان سے نکاح کرسکتے تھے ،نہ لونڈی بناسکتے تھے۔ علامہ بدرالدین عینی نے ام ہانی کو ازواج النبی ۖ میں شامل کیا ۔ حالانکہ ان کو ام المؤمنین کا شرف حاصل نہیں ہوا۔پھر اللہ نے نبیۖ پر کسی سے بھی نکاح کی پابندی لگائی تھی مگر ایگریمنٹ کی اجازت دی اور ام ہانی سے ایگریمنٹ ہوسکتا تھا لیکن علامہ عینی نے28خواتین کو ازواج میں شمار کیا ہے۔نبیۖ نے فتح خیبر کے موقع پر صفیہ سے صحبت کی تو دعوت ولیمہ میں صحابہ نے کہا کہ ”اگر پردہ کروایا تو نکاح ہے اور نہیں کروایا تو ایگریمنٹ ہے”۔ ( صحیح بخاری)۔ ایگریمنٹ آزاد عورت اور لونڈی دونوں سے ہوسکتا ہے اور ایگریمنٹ کا تعلق کاروباری معاملے سے بھی قرآن میں انہی الفاظ کیساتھ آیا ہے۔ قرآن نے عبدیت کو ناجائز قرار دیا ہے اسلئے کہ عبدیت صرف اللہ کی ہوسکتی ہے ۔دورِ جاہلیت میں لونڈی اور غلام مملوک ہوتے تھے ۔ مملوک کے جانور کی طرح انسانی حقوق نہیں تھے ۔ اسلام نے انسانی حقوق بحال کرکے ان کو گروی کا درجہ دے دیا۔ اسلئے ان پر ملکت ایمانکم کا اطلاق کیا ۔قرآن میں ہر مقام پر اس کا مختلف چیزوں کیلئے معنی واضح ہے۔ ہم نے جب قرآن کی طرف دھیان نہیں دیا تھا تو اسی گمراہی کے شکار تھے اور گمراہی کی اس دلدل سے نکلنے کیلئے پاکستان کی پارلیمنٹ کو بروئے کار لانا ہوگا۔

قرآن میں جدید دور کے مسائل کاحل


شیخ العرب والعجم مولانا ابوالحسن علی ندوی نے لکھا ہے کہ ” قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ ومن یشتری لھو الحدیث ” اورجو خریدتا ہے لغو بات کو”۔ اس جدید دور میں بات ریکارڈ ہوسکتی ہے ۔ اسلئے کہ لغو بات کے لغو خریدنے کا تصور قدیم دور میں نہیں ہوسکتا تھا۔ نبیۖ نے صحابہ کرام سے فرمایا ہے کہ” قرآن میں تمہارے بعد پیش آنے والی خبروں کا بھی ذکر ہے”۔ قرآن کی یہ تفسیر بالکل حدیث کے بھی مطابق ہے اور اس کو جھٹلانے کی عقلی گنجائش بھی نہیں ہے۔
محرمات کی فہرست چوتھے پارے کے آخرمیں اللہ تعالیٰ نے بیان کرتے ہوئے ماں، بیٹی ، بہن اور مختلف رشتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دو بہنو ں کو جمع مت کرو۔ پھر پانچویں پارے کے شروع میں فرمایا : والمحصنٰت من النساء الا ماملکت ایمانکم ”اور عورتوں میں سے جو بیگمات ہیں مگر جن سے تمہارا معاہدہ ہوجائے”۔ اس آیت کی تفسیرمیں بڑے تضادات ہیں۔ ایک صحابی کی طرف منسوب ہے کہ ” اگر کسی کی لونڈی نے دوسرے شخص سے نکاح کیا ہو تو وہ پھر بھی اس کی لونڈی ہے اور واپس لیکر اس کیلئے حلال ہے”۔ جمہور نے کہا کہ جنگ میں پکڑی جانے والی عورتیں جن کا پہلے سے خاوند ہو اور وہ لونڈی بن جائیں تو وہ حلال ہیں۔ کسی ایک تفسیر پر اتفاق رائے نہیں ہے ۔ لیکن کیوں؟۔
اللہ نے قرآن کو بہت واضح بیان کیا ہے تو اس کی تفسیر کس وقت مشکل ہوتی ہے؟۔ سورۂ جمعہ میں اللہ نے واٰخرین منھم لما یلحقوبھم ” اور ان میں سے آخرین جو ابھی تک ان پہلوں سے نہیں ملے ” ۔ کا تعلق آئندہ زمانے سے تھا اسلئے صحابہ نے پوچھا کہ ان سے کون مراد ہیں۔ نبیۖ نے سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کرفرمایا کہ اسکی قوم کا ایک شخص یا چندا فراد اگر دین ثریا پر پہنچ جائے تو بھی اس کو پالیںگے، بعض روایات میں علم اور ایمان کا بھی ذکر ہے۔
صحابی نے اشکال اٹھایا ہے کہ محرمات کی فہرست میں سب سے آخر میں جو طبقہ بیان ہوا ہے آخر سے ان سے کونسی خواتین مراد ہوسکتی ہیں جن کو بہت ہلکے درجے کے محرمات میں شمار کیا گیا ہے اور پھر اس میں استثناء کا بھی ذکرہے؟۔
عربی میں محصنات صرف ان کو نہیں کہتے ہیں جن کے شوہر زندہ ہیں۔ بلکہ جن کے شوہر فوت ہوچکے ہیں ان کو بھی محصنات یعنی بیگمات کہتے ہیں۔بیگمات کی یہ قسم چونکہ پہلے ادوار میں نہیں تھی اسلئے تفسیر بھی مشکل ہوگئی۔ موجودہ دور میں جن فوجی جوانوں کو نشان حیدر یا دوسری ایسی بیگمات جن کی مراعات سابقہ شوہر سے نکاح کے بندھن کیساتھ وابستہ ہوں۔ جب وہ نکاح کریں تو ان مراعات سے ہاتھ دھونا پڑجائیں۔ اگر ان کو جھانسہ دیکر نکاح کرلیا اور وہ مراعات سے بھی محروم ہوگئیں اور پھر کسی وجہ سے طلاق یا خلع کا معاملہ ہوگیا تو کتنا برا ہوگا؟۔ اس وجہ سے ایسی خواتین سے مستقل نکاح کی جگہ پر ایگریمنٹ کے جواز کا مسئلہ اللہ نے واضح کردیا۔ ایک تو اس عورت کو مراعات ملتی رہیں گی اور دوسرا جنسی خواہش کیلئے بھی کسی معین شخص سے تعلق معیوب ، غیراخلاقی اور غیرقانونی نہیں رہے گا۔
پاکستان سمیت دنیا بھر کی خواتین کیلئے یہ بہت بڑی خوشخبری اور مشکلات سے نکلنے کا اہم ذریعہ ہے۔ اگر پاکستان میں ایسا ماحول نہ ہوتا کہ پینشن سے بھی جان چھڑانے کے منصوبے بن رہے ہیں تو سب سے پہلے ہماری اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی اپنے پیٹی بند بھائیوں اور معاشرے کے عظیم مفاد میں پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی بھی کرواتے۔ قرآن نے ایک ایک معاشرتی مسئلہ حل کیا ہے لیکن ہمارے مدارس میں قرآن کے ترجمے بھی رٹے رٹائے کئے جاتے ہیں اور قرآن کے ذریعے مسائل حل کرنے کی طرف کوئی توجہ تک نہیں دیتے ہیں۔

 حورکا تصور اور قرآن وحدیث اورعربی


قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ انہ ظن ان لن یحور ”بیشک اس کا گمان تھا کہ وہ دوبارہ پیدا نہیں ہوگا”۔ جن عجمیوں کو عربی نہیں آتی ہو تو ہوسکتا ہے کہ ایسی روایت بھی گھڑ دی ہو کہ جنت ، جہنم، توحید، رسالت، کتابوں، ملائکہ کی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اسکا ایمان حور پر بھی ہو اور جس کا ایمان حور پر نہیں ہوگا تو اس کو حور بدمعاش بن کر خود مارے اور پیٹے گی کہ تمہارامجھ پر یقین کیوں نہیں تھا؟۔ جیسے امامھم کو امہاتھم سمجھ کر روایت گھڑ دی کہ آخرت میں ماؤں کے نام سے سب کو پکارا جائیگا ،ایک عمر کو باپ کے نام سے پکارا جائے گا اسلئے کہ غیرتمند تھا۔
حور کا اصل معنی تو جدت کیساتھ نئے انداز میں پیدا ہونا ہے۔ آخرت میں یہ انسانی وجود جب دوبارہ پیدا ہوگا تو یہ حور ہے۔ حور مردو عورت دونوں کو کہا جاتا ہے۔ حور عین کیساتھ شادی ضرور ہوگی لیکن مرد اور عورت دونوں اپنی اپنی جگہ پر حور بھی ہوں گے اسلئے کہ نیا وجود ہوگا اور عین کا معنی دنیا کی حقیقت بھی وہی ہوگی یعنی اس کو شخصیت بعینہ ہوگی وہی مگر اس میں جدت اور نیا پن ہوگا۔ یہ قرآن کی طرف سے اس سوال کا جواب ہے کہ مرد کو حور ملے گی تو عورت کو کیا ملے گا؟۔ یہی نا کہ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کیلئے حور یعنی جدت والا وجود ہوں گے۔
سورۂ رحمان میں اللہ نے فرمایا: فیھا الفاکھة والنخل والرمان ” اس میں پھل ہوں گے، کھجور اور انار”۔ فیھن خیرات حسان ” جنت یعنی باغ میں مزیدار(پھل) خوشنما ” ۔ یہ باغ کے پھلوں کی صفات ہیں۔ عورتیں مراد نہیں ہوسکتیں کیونکہ پھر خیِرات کا لفظ ہوتا۔حور مقصورات فی الخیام
لگتا ہے کہ علماء کے نزدیک جنت میں بھی سندھ کے سیلاب زدگان کے خیمے ہیں ۔ حور یعنی جدید پھل ۔ مقصورة پردہ نشین عورت ، مکان اور کوئی بھی چیز جو ڈھکی ہوئی ہو۔ موجودہ دور میں ہائی بریڈپھلوں کے پودے خیموں میں ہوتے ہیں۔ جو درجہ حرارت کو کنٹرل کرنے کیلئے ہوتے ہیں جو ہر موسم میں پھل دیتے ہیں۔ اس سے جدید ترقی یافتہ باغات کا نقشہ سامنے آتا ہے۔ پہلے کسی نے اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ قرآن کی تفسیر زمانہ کرتاہے، ابن عباس۔ لم یطمسھن انس ولا جان ”ان کو انسانوں اور جنات نے چھوا نہیں ہوگا”۔ یہ بھی پھلوں کی صفت ہے کہ وہ بالکل محفوظ اور ایسے ہوںگے کہ کسی نے ہاتھ نہیں لگایا ہوگا۔
اس طرح دوسرے مقامات پر بھی پھلوں کے درختوںکی شاخوں کا بیان ہے کہ قاصرات الطرف، عرباًاتراباً ”جن کی شاخیں اطراف میںجھکی ہوئی ہوں گی اور دل کو لبھانے والی اور ہاتھوں کی ان تک رسائی ہوگی”۔اس طرح کواعبا اترابا ” ابھری ہوئی لٹکی ہوئی قد کے برابر”۔ یہ بھی باغات کی صفات ہیں۔ ہمارے ہاں کہاوت ہے کہ کوچوں کا افغان ڈاگ چاند کو دیکھ کر چھلانگیں لگاتا ہے کہ شاید بڑی افغانی روٹی ہے۔ درباری علماء بادشاہوں کی طرح عیاشی کے مزے نہیں اڑاسکتے تھے اسلئے قرآن میں باغات کی صفات کو بھی کچھ اور سمجھ کر اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق اس کی تفسیر کر ڈالی۔ حالانکہ نبیۖ نے ایسی تفسیر کی سخت مذمت فرمائی تھی جو اپنی رائے اور خواہش سے کی جائے۔
بہت سارے لوگوں نے قرآن کی حقانیت پر یقین کرنا اسلئے چھوڑ دیا کہ ان کے نزدیک بس سیکس اور عورت ہی ترجیحات کا مطمع نظر لگتا تھا۔ اس میں قرآن کا کوئی قصور نہیں تھا کہ درخت اور پھلوں کی صفات میں بھی ان کو کچھ اور دکھائی دیتا تھا۔ جب ہم جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھتے تھے تو مولانا طارق جمیل کبھی بیان کرنے آجاتے تھے۔ قبراور حوروں کے احوال سے ایسے مناظر اور کہانیوں کی عکاسی کرتے تھے کہ بعض طلبہ بہت فحش قسم کے الفاظ استعما ل کرتے تھے۔
عورت بیچاریوں کیلئے دنیا الگ سے عذاب بنائی تھی تو جنت کی بھی ایسی عکاسی کردی تھی کہ کرین سے زنجیروں میں باندھ کر ان کو زبردستی سے جنت میں ڈالنا پڑتا۔ جب نیک وپارسا خواتین کو حقائق کا پتہ چلے گا تو وہ ساری دنیا میں ایسی تبلیغ کرنا شروع کریں گی کہ اسلام دنیا میں بہت جلد از جلد پھیل جائے گا۔

 پاکستانی علماء کا کیا کردار ہونا چاہیے؟


اہلحدیث اور جماعت اسلامی ہندوستان کے علماء کی پیداوار ہیں اسلئے ان کی ذہنیت درباری علماء سے زیادہ مختلف نہیں۔ قرآن کی طرف رجوع کیلئے شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مالٹا سے رہائی کے بعد عمر کے آخری حصہ میں آواز اٹھائی مگر امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی کے سوا کسی نے ان کی بات پر کان نہیں دھرے۔ دارالعلوم دیوبند کے مولانا انور شاہ کشمیری نے عمر کے آخر میں مولانا عبیداللہ سندھی سے معافی مانگ لی تھی بلکہ یہ بھی فرمایا تھا کہ” میں نے ساری عمر قرآن وحدیث کی خدمت کرنے کے بجائے فقہ کی وکالت میں ضائع کردی”۔
علماء ومفتیان کیلئے درسِ نظامی وہ کمبل ہے جس سے علماء حق نے ہمیشہ جان چھڑانے کی کوشش کی لیکن کمبل ان کی جان کو نہیں چھوڑ رہاہے۔ ایک شخص کو دریا میں کمبل نظر آیاتو چھلانگ لگائی کہ کمبل کو پکڑلے ۔ ساتھی سمجھ گیا کہ کمبل نکالنا اس کے بس میں نہیں اور آواز لگائی کہ کمبل کو چھوڑ دو۔ کمبل سے کشمکش والے نے کہا کہ میں کمبل کو چھوڑ رہاہوں، کمبل نہیں چھوڑ رہاہے کیونکہ وہ کمبل نہیں ریچھ تھا۔ مولانا یوسف بنوری کی خواہش تھی کہ ایسا مدرسہ قائم کرے کہ مولانا سیدانور شاہ کشمیری کی خواہش کے مطابق طلبہ اور اساتذہ کی زندگیاں ضائع نہیں ہوں بلکہ قرآن و حدیث کی تعلیم سے دنیا میں انقلاب آئے لیکن کمبل میں پھنس گئے۔
عیاش مسلم حکمرانوں نے دنیا کو شکست دیکر یہ مذہبی تصور قائم کیا کہ عمر نے پابندی لگائی کہ ” لونڈیاں اپنے لباس سے زاید جسم کو نہیں ڈھانک سکتی ہیں”۔ لونڈیوں کے ستر میں سر، گردن، کندھے، بازو ، پیٹ اور ٹانگیں شامل نہیں تھیں۔ قیمت لگنے کیلئے جسم نیم برہنہ ہوتا تھا۔ انگریز کالوں کو غلام سمجھتے تھے اور مسلمانوں نے گوروں کو لونڈی بنانا شروع کردیا۔ رسول اللہ ۖ کی لونڈی ماریہ قبطیہ کے حوالہ سے کون سوچ اور سمجھ سکتا ہے کہ لباس کو ادھورا رکھنے پر مجبور کیا گیا ہوگا؟۔
افغانستان کو امیر امان اللہ خان نے ترقی دی تو انگریز نے سازش کی۔50،60اور70کی دہائی میںکابل پاکستانی اشرافیہ کا منظر پیش کررہاتھا۔ قائد اعظم، قائدملت ، جنرلوں، بیوروکریٹ، سیاستدانوں کی بیٹیوں و بیگمات کاجو ماحول تھا وہ عام افغانی خواتین کا تھا۔رتن بائی، رعنا لیاقت، بیگم بھٹو، بے نظیربھٹو، کلثوم سیف اللہ، بیگم نسیم ولی، عابدہ حسین، تہمینہ دولتانہ، ریحام خان اورمریم نوازتک کا جو پردہ اور مخلوط نظام سے واسطہ ہے اور جرنلوں ، بیوروکریٹ کی بیٹیاں جیسے آج مغرب اور مخلوط تعلیمی ومعاشرتی نظام کا حصہ ہیں بالکل اسی طرح افغانستان کی خواتین ترقی وعروج کی منزل پر گامزن تھیں۔ ہمارے اشرافیہ نے ملاؤں کو استعمال کرکے مغربی سازش کے کھیل میں جس طرح افغانستان کو دھکیل دیا، اس کی ایک ہلکی سی جھلک شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے تازہ بیان میں موجود ہے۔
مفتی تقی کے اَبا نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت اسلام کے نام پر کی ؟۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی بھی قائداعظم اور قائدملت لیاقت علی خان اور مرزاغلام احمد قادیانی کے پیروکار سرظفر اللہ سے کم نہ تھے لیکن طالبان کا امریکہ سے معاہدہ ہوا تو پھر افغانستان کے نظام کا سارا ڈھانچہ تباہ کرکے طالبان آگئے اور مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے وفد کے ہمراہ ان کو مبارکباد دیدی۔ طالبان کو چاہیے کہ مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمن اور تمام مذہبی پیروں اور علماء کرام کو اپنے ہاں بال بچوں سمیت کچھ عرصہ تک تعلیم وتربیت کیلئے اپنے پاس رکھیں تاکہ یہ لوگ اسلام کی فضاؤں میں سانس لے سکیں اور انکے بچے بھی فیض یاب ہوں۔ اپنے مدارس اور گھر تحریک طالبان پاکستان کے رہنماؤں اور کارکنوں کے حوالہ کردیں اور وہ یہاں اسلام کی وہی خدمات انجام دیں جو یہاں علماء دیتے ہیں۔

اسلامی معاشی معاشرتی نظام مسخ کیا گیا


ائمہ اربعہ سے پہلے مدینہ کے سات فقہاء تھے ایک حضرت ابوبکر کے پوتے قاسم اور دوسرے نواسے عروہ تھے۔ تیسرے حضرت سعید بن مسیب تھے۔ ابن مسیب نے فرمایا کہ” درباری چورعلماء کی نبیۖ نے سخت مذمت کی ہے”۔ مزارعت کے بارے میں صحیح اور مرفوع احادیث کے مقابلے میں صحیح بخاری کے اندر آثار نقل ہیں کہ آل ابوبکر، آل عمر اور آل علی مزارعت پر زمین دیتے تھے۔ رسول ۖ کی احادیث کے مقابلے میں درباری آل واولاد کی کیا حیثیت تھی، جنہوں نے مزارعت کی کمائی کو جائز قرار دے دیا یا اسے ناجائز سمجھ کر بھی کھانے سے دریغ نہیں کیا؟۔ حضرت علامہ سیدمحمد یوسف بنوری کے داماد مولانا طاسین نے اس پر اپنی کتاب میں بھرپور وضاحتیں لکھیںمگر درباری علماء و مفتیان نے مولانا طاسین کے علمی حقائق کو مدارس اور عوام کے سامنے نہیں آنے دیا تھا۔
مولانا فضل الرحمن قائد جمعیت علماء اسلام نے بھی مولانا طاسین کے مشن کی تحریری تائید بھی کی ہے۔ اگر اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل ہوجاتا تو پاکستان کو ان معاشی اور معاشرتی مشکلات اور مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ آج بھی علماء اور مذہبی جماعتیں قرآن وسنت کی طرف متوجہ ہوجائیں تو پاکستانی ان کو سروں کے تاج بنانے کیلئے تیار ہیں ورنہ تاریخ میں ایسی نفرت کبھی مذہبی لبادوں سے نہیں ہوئی ہے جونفرت آج بہت سارے لوگوں کے دل ودماغ میں گردش کرتی ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک شیعہ ذاکر مسلم لیگی خاتون حنا پرویز بٹ پر بہت لعن طعن اسلئے کر رہاہے کہ اس نے مریم نواز کے لاہور ائیرپورٹ آنے پر کسی شیعہ کے مرثیہ کا کوئی شعر لکھ دیا تھا اور اس نے شہباز گل کو بھی کربلا کے میدان میں عمران خان کو کھڑا ہونے کی تشبیہ دینے پر خوب سنائی ہیں۔ اہل تشیع کی حساسیت نے ہی سنیوں میں بھی اپنے مقدسات کی زیادہ حساسیت پیدا کردی ہے۔
پاکستان میں سیاسی اور مذہبی کشیدگی جس حد تک پہنچائی جارہی ہے اس کے بہت خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ جب جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے قومی اسمبلی میں تحفظ صحابہ بل پیش کیا تو میڈیا حرکت میں آئی اور یہ نشر کرنا شروع کردیا کہ” اسامہ بن لادن چترال میں چھپا تھا۔ جس کیلئے امریکی اہلکاروں نے چترال میں کرائے پر گھر لیا۔ مولانا عبدالاکبر چترالی کے مظاہرے کی وجہ سے امریکہ نے وہاں پڑاؤ نہیں ڈالا۔ چترال سے اسامہ کی ویڈیو نے اطلاع دی تھی کہ وہ چترال میں ہوسکتے ہیں۔ افغان حکومت نے ایک شخص کوپکڑا تھا جس نے بتایا تھا کہ وہ اسامہ کو چترال سے افغانستان کے راستے پشاور لائے تھے اور اس کاISIسے تعلق نہیں ہے بلکہISIکیلئے کام کرنے والی ایک تنظیم سے تعلق ہے”۔ عوام کو یہ پتہ نہیں کہ اسامہ کو قتل کیا گیا یا زندہ لے گئے؟ لیکن امریکہ نے جتنا کھیل یہاں کھیلنا چاہا تھا اور ایک ایٹمی پاکستان اور غیرتمند طالبان کو کہاں سے کہاں پہنچایا۔ جس کے بعد عراق اور لیبیا کے تیل پر بھی قبضہ کیا تھا۔ حالانکہ امریکہ بلیک واٹر کے ذریعے بھی اسامہ کو ٹارگٹ کرسکتا تھا۔
پاکستان میں عمران خان اورPDM، شیعہ اور سنی، قوم پرست اور ریاست کے نام سے ایک نیا کھیل شروع ہوا ہے اور اس کا فیصلہ امریکہ نے ہی کرنا ہے۔ قومی ایکشن پلان کے تحت فوجی عدالتیں قائم ہوئیں لیکن سوات کے مسلم خان، محمود خان اور دوسروں کو صدر مملکت عارف علوی نے چھوڑ دیا۔ پھانسیاں کیا بے گناہوں کو دی گئی تھیں؟۔ پنجاب میںISIکے ایوارڈ یافتہ افسروں کو کس نے مار دیا؟۔ جو طالبان تھا اورCTDپولیس کو مطلوب تھا اور اس کے ذریعے پنجاب میں بہت سارے دہشت گردوں کے نیٹ ورک پکڑے تھے۔
ہمیں زیادہ گہرائیوں میں جانے اور شکوک وشبہات میں پڑنے سے گریز کا دامن تھامنا چاہیے اور ذمہ دار لوگوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے دیں اور اسلام کے عظیم مشن کو سامنے لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ سازشوں کو ناکام بنائیں اوراپنے معاشرے اور ملک کو زیادہ مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکستان جنت بن جائیگا؟

پاکستان جنت بن جائیگا؟

اعلان کیا جائے کہ مزارعت سود ہے اور محنت کشوں کو مفت میں کاشت کیلئے زمینیں دی جائیں اور باغات کیلئے عام اجازت دی جائے تو بدحالی اسی لمحہ خوشحالی کے اندر تبدیل ہوجائے گی!

اشرافیہ کیلئے اربوں ڈالر سودی قرضہ لیا جاتاہے جس کا سارا بوجھ غریب عوام پر ڈالتے ہیں

سود یہودی، عیسائی، بدھ مت اور تمام مذاہب کے علاوہ ارسطو سے موجودہ دور کے تمام قدیم اور جدید فلاسفروں کے نزدیک حرام اور غلط مگر ہمارا مذہبی طبقہ جواز فراہم کرنے میں لگ گیا؟

لوٹ مار میں ملوث جرنیل، سیاستدان، جج، بیوروکریٹ، پولیس افسران، میڈیا مالکان اور مذہبی طبقے ضرورت سے زائد دولت مملکتِ خداداد کو واپس لوٹادیں ورنہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے!

محنت کش طبقے کو مفت میں کاشت کی زمین دس سال اور باغات و جنگلات کیلئے بیس سال تک مفت زمینیں دی جائیں تو پاکستان غریبوں اور امیروں سب کیلئے یقینی جنت بن جائے گا

پاکستان کی معاشی بدحالی کے تین اسباب ہیں۔
1:عالمی اور مقامی بدترین سودی نظام سے وابستگی جس میں شرح سود انتہائی خطرناک حدتک دوسری اچھی ریاستوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ عالمی سود ی نظام نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے غریب اور امیر ممالک کیلئے بہت تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ ہمارا سب سے بڑا خطرناک المیہ علم وشعور کی روشنی کوجہالت اور تعصبات سے شکست دینا ہے۔ اسرائیل کو ترکی، مصر، عرب امارات سمیت دنیا کے بہت سارے ملک تسلیم کرتے ہیں لیکن ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے اسلئے کہ یہ سیاسی مسئلہ ہے اور مسلمانوں کے اسلام اور عالم کفر کے کفر پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ آج اگر فلسطین اور اسرائیل میں صلح ہوجائے تو پاکستانیوں سمیت دنیا بھر کے مسلمان بیت المقدس کی زیارت کیلئے بھی جائیں گے اور امریکہ وبرطانیہ کی طرح بہت مسلمان اسرائیل بھی نہ صرف جائیں گے بلکہ اس کے شہری بھی بنیں گے۔ ہمارا اصل مذہبی مسئلہ سود کی حرمت ہے ۔ قرآن نے سود کو اللہ اور اس کے رسول ۖ سے جنگ قرار دیا ہے۔ اسرائیل کیساتھ صلح سے اسلام پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ اسرائیل کے یہودی اہل کتاب ہیں اور مشرکینِ مکہ کے مقابلے میں یہودزیادہ قریب ہیں۔ نبیۖ نے مشرکین سے صلح حدیبیہ کیا تھا۔ ہم سودکاپہلے سے شکار تھے اور اب سودی بینکاری کواسلامی قرار دے کر پستی کی انتہاء تک پہنچ گئے ہیں۔
2: پاکستان کی بدحالی کا دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ40سالوں سے ہمارا پیسہ بڑے پیمانے پر بیرون ملک منتقل ہورہاہے۔ISIچیف اختر عبدالرحمن کے فرزندوں نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں اربوں روپے بیرون ملک منتقل کئے ہیں۔ جنرل اختر عبدالرحمان اپنے ماں باپ کیساتھ گدھا گاڑی پر ہجرت کرکے آئے تھے تو اس کے بیٹوں نے اتنا پیسہ کہاں سے کمایا ؟۔ جتنے آرمی کے افسران نے بیرون ملک دولت منتقل کی ہے اگر اس کی آدھی بھی واپس آجائے تو پاکستان کی معاشی حالت جنت نظیر بن سکتی ہے۔ افغان جہاد نے جرنیل اور علماء کو کرپٹ کردیا۔ یہ لوگ پہلے ایماندار اور قوم کا سب سے بڑا سرمایہ تھے۔ بیوروکریٹ کی بڑی تعداد نے بھی اپنی کرپشن کا سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا۔ اگر وہ بھی صرف اپنا سرمایہ واپس لائیں تو ہمارا ملک جنت نظیر بن جائے گا۔1988کی حکومت کے بعد سوئس اکاؤنٹ اور سرے محل سے لیکر کیا کیا بیرون ملک زرداری نے بنایا اور مسٹر10%کا خطاب پایا۔1990میں اسلامی جمہوری اتحاد کیلئےISIنے پیسہ بانٹا۔ نوازشریف لندن سرمایہ منتقل کرنے کی کرپشن میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ اگر سیاستدان بیرون ملک منتقل کرنے والا سرمایہ واپس لائیں تو ہمارا ملک سارے قرضے واپس کرسکتا ہے۔ میڈیا مالکان نے بڑا ناجائز پیسہ منتقل کیا ہے اور وہ بھی دولت واپس پاکستان لاکر پاکستان کو جنت نظیر بناسکتے ہیں۔
3: پاکستان کی معاشی بدحالی کا تیسرا بڑا سبب یہ ہے کہ مزارعین کو انسان کا درجہ نہیں دیا گیا ہے۔ کسانوں کے بچے، بچیاں، جوان مرد اور لڑکیاں، ادھیڑ عمر اور بوڑھے مرد اور عورتین سب کے سب دن رات محنت کرتے ہیں لیکن ان پر کسی کو رحم نہیں آتا ہے۔ تعلیم، صحت، سردی گرمی سے بچاؤ ، بجلی گیس اور سہولیات زندگی کے تما م وسائل سے محروم رہتے ہیں اور جاگیردار ان کو غلاموں سے بدتر سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی تعلیم یافتہ، مولوی اور باشعور انسان اس کو جائز سمجھتا ہے تو پھر اس کو اور کوئی سزادینے کی ضرورت نہیں ہے لیکن بالکل مفت میں زمین فراہم کی جائے اور وہ کسانوں کی طرح خاندان سمیت چند سال زمین میں محنت کرے۔ مزارع کو آدھی اجرت پر رکھا جاتا ہے اور یہ پوری اجرت پر بھی تیار نہیں ہوتاہے تو اس سے اس کی انتہائی درجہ پست ذہنیت کااندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ کسان اس قابل بھی نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنا اور بچوں کاپیٹ بھرے۔ اقبال نے کہا تھا
اٹھو ! میری دنیا کے غریبوں کو جگادو کاخِ امراء کے در ودیوار ہلادو
دس سالوں تک مزارعین کو کاشت کیلئے مفت کی زمین دی جائے اور سرکار پانی پہنچانے کا بندوبست کرے تو5فیصد اور نہ کرسکے تو10فیصد عشر حاصل کرے اور باغات وجنگلات کیلئے20سال تک زمین دی جائے تو پاکستان جنت نظیر بن جائیگا۔ لٹیرے خود دولت واپس لوٹانے میں عافیت سمجھیں گے۔
توحید کی سب سے بڑی علامت نماز اور نماز میں سورۂ فاتحہ کی یہ آیت ہے: ایاک نعبد وایاک نستعین ” ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں”۔ عمران خان پہلا سیاسی قائد اور وزیراعظم تھا جس نے اپنے جلسوں میں توحید کی یہ علامت بلند کردی۔ مگر بابا فرید کے مزارکی راہداری کو چوم کر عربوں کی نگاہ میں ایسے مشرک ہوگئے جیسے ہندوستان میں مندر کے پجاری ہیں۔ قرآن میں فرشتوںکا آدم اور یوسف کے والدین اور بھائیوں کے سجدے کا ذکر ہے جو شرک نہیں ہوسکتا مگراسلام نے سجدہ تعظیمی کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ عرب راہداری کے چومنے کو بھی شرک ہی سمجھتے ہیں۔انڈیا سے دالیں ، سبزیاں، تیل وغیرہ دوبئی جاتی ہیں اور دوبئی سے ہم مہنگے داموں وہی خریدتے ہیں۔ اگر ہم ہندوستان ، افغانستان، روس، ایران اور یورپ وغیرہ کو راہداری دیں تواچھے خاصے ڈالر ، سستی اشیاء اور اچھا روزگار حاصل کرسکتے ہیں۔دشمنی توبہت کرلی اور اب صلح حدیبیہ کی ضرورت ہے جو فتح مکہ کا بہت بڑاپیش خیمہ بن سکتا ہے۔
حلالہ اور طلاق کے مسائل سے لیکر اسلام کا معاشرتی حلیہ جس طرح سے ہم بگاڑ چکے ہیں تو انہی غلط مذہبی رسوم کے خلاف انبیاء کرام کی بعثت ہوتی تھی ۔پھر ہم کسی اور سے مذہبی منافرت کا کیسے حق رکھتے ہیں؟۔اسلام انسانیت کا مذہب ہے مگر مذہبی طبقات نے دوسروں سے نفرت کو اسلام سمجھ لیا، جو افسوسناک ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv