پوسٹ تلاش کریں

محمود خان اچکزئی اور شاہد خاقان عباسی کے بیان پر

محمود خان اچکزئی اور شاہد خاقان عباسی کے بیان پر
تبصرہ تلخ و شیریں : فاروق شیخ

لیاقت باغ پنڈی میں پشتون شہید کروائے گئے تو اس میں فوج کا ہاتھ نہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پنجابی پشتون فسادات کرانے کیلئے یہ گھناؤنی حرکت کی تھی۔ نہ جانے پھرجدی پشتی مسلم لیگی سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کیوں خوش تھا؟۔ البتہ جب وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف طالبان سے کہہ رہا تھا کہ پنجاب میں دھماکے نہ کرو۔ امریکہ کیخلاف ہم اور آپ ایک ہیںتو پشتون قوم پرستوں کو اُڑانے پر شاہد خاقان کو خوش ہونا چاہیے تھا۔ن لیگ کو مولانا فضل الرحمن اسلئے امریکہ کا ایجنٹ لگتا تھا کہ اس نے کہا تھا کہ مارگلہ تک طالبان پہنچ چکے ہیں۔ نوازشریف اور عمران خان کو طالبان نے اپنا نمائندہ نامزد کیا تھا توPPP،ANPاورJUIپر خودکش حملے ہواکرتے تھے۔
بلوچستان کو سوئی گیس سے محروم کرنے کا ڈھنڈورا پیٹنے والا نوازشریف تختِ لاہور کیلئے سی پیک کا مغربی روٹ بدل دے اور شاہد خاقان کرک پیٹرول کو اٹک منتقل کرے تو پختون اور بلوچ قوم پرست ن لیگ پر اعتماد کریں؟۔ جج فائز عیسیٰ کی بیوی کی طرح مالامال ہو تو تب علی وزیر کو رہا کرینگے ؟۔جسکے خاندان کے18افرادشہید کئے۔ قومی اسمبلی توڑنے پرافراتفری کاکوئی خطرہ نہ تھالیکن آرمی چیف کی برطرفی پر آسمان وزمین دھماکے سے پھٹ بھی سکتے تھے؟ قطری خط پر رونے والو!سچ کا پتہ نہیں ؟ نوازشریف ڈکارلینے لندن پہنچے۔ماڈل ٹاؤن لاہور میں طاہر القادری کے14افراد شہیدکردئیے، ذمہ داری وزیر اعظم عباسی نے کسی پر ڈالی!آنکھوں میں دھول تونہ جھونکو! ،سچ بول نہیں سکتے تو بھونکو!چپ رہ بھی نہیں سکتے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے!
٭٭٭

پاکستان کو بچانے اور چلانے کیلئے ہمارے پاس ٹائم بہت تھوڑا ہے۔ محمود خان اچکزئی
دواسٹنڈر نہیں چلیںگے کہ ایک آدمی کو اسلئے ستاؤ کہ وہ اصولوں کی خاطر کھڑا ہے اور دوسرے کو کرپٹ کرو
اسے کروڑوں روپے دو،اس کو وزیراعلیٰ بناؤ، وزیراعظم بناؤ، فلانا بناؤ، اس ملک سے کھلواڑ بند ہونا چاہیے
محمودخان اچکزئی،اسلام آباد: عبدالصمد خان کی کتاب ”My Life & Times”کی تقریب رونمائی سے خطاب
پاکستان واقعی مشکل میں ہے۔ میں گنوار آدمی سیاسی کارکن ہوں۔ پاکستان کو بچانے اور چلانے کیلئے ٹائم بہت تھوڑا ہے۔ اور ہم ایک بڑی خطرناک ظالم دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں۔ عراق تباہ ہوا۔ لیبیا فارغ ہوا، شام کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی۔ بہانے جو بھی تھے مگر اصل مسئلہ ریسورسز کا تھا۔ خوش قسمتی اور بد قسمتی سے ایسی نشانیاں ہیں کہ ہمارے ملک میں دنیا جہاں کی نعمتیں ہیں۔ مثلاً اٹک میں گیس اور پیٹرول، ہمارا پانی، افغانستان اور اسکے ریسورسز، ایسا نہ ہو کہ یہ ہمارے خطے کے گلے پڑیں۔ تو ہم لازماً اپنے ملک کو سنبھالنے کی کوشش کریں۔ جب سے ملک بنا ہے اس میں آئین کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ یہاں بڑے بڑے وکیل بیٹھے ہیں، رضا ربانی ، حامدخان ،بار کے پریزیڈنٹ بیٹھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں انسان صرف144کی خلاف ورزی پر مارے گئے ملک کیسے چلے گا کہ بنیادی ہیومن رائٹس پر بات کرنے والے لوگوں پر گولیاں چلائیں گے144کی خلاف ورزی میں۔ اور آئین کو پھاڑنے اور اسکے ساتھ کھلواڑ کرنے پر آپ کسی سے نہیں پوچھیں گے۔ کسی کو اچھا لگے یا برا کہ افواج پاکستان کیلئے ہے یا پاکستان افواج کیلئے ہے؟۔ یہ بنیادی سوال ہے۔ اگر افواج پاکستان کیلئے ہے مشاہد بھائی ہم گارنٹی دیتے ہیں192ملک ہیں،ہم گھاس کھاکرگزارہ کرینگے بہترین افواج بنانے میںاور اگر آپ نے پاکستان افواج کیلئے بنایا ہے تو بابا میں اور یہ بلوچ غریب سندھی یہ غریب پنجابی یہ (feudal lord )کے مارے ہوئے چوہدری ہم یہ کبھی برداشت نہیں کرینگے۔ خاقان عباسی بھائی، قاضی صاحب اور حامد خان سے میں یہ درخواست کروں گا کہ کون یہ کارِ خیر کریگا کہ ہمارے ملک کے دانشوروں، عالموں، سیاستدانوں، فوجیوں ، ججوں پر مشتمل گول میز کانفرنس بلائی جائے۔ جس میں سپریم جوڈیشری کے جج ، جرنیل ، پریس والے ہوں، ہم جیسے غریب غرباء سیاسی کارکن ہوں۔ ہم مل بیٹھ کر فیصلہ کریں کہ اس ملک کو کس طرح چلانا ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہوا اور یہ لڑائی غریبوں کو سڑکوں پر لڑنی پڑی جس طرح ترکوں نے کیا پھر ملک کا تیاپانچا ہوجائیگا۔ لوگوں کو اس طرف مت دھکیلو۔ میں اتنا بڑا آدمی نہیں ہوں۔ یہاں سندھی ، بلوچ ، پنجابی دوست بیٹھے ہیں، ذاتی طور پر کسی انسان سے فاصلے اس بنیاد پر ناپنا کہ اس کی زبان کیا ہے؟، وہ کس مذہب کا ہے؟ ، وہ کس علاقے کا ہے؟، وہ کس براعظم کا ہے؟، ہم اس کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ پاکستان ہمارا ملک ہے، پنجابی، پشتون، سندھی ، سرائیکی ، بلوچ اپنی اپنی زمینوں پر رہ رہے ہیں۔ ہم آپ سے کہتے ہیں کہ ہم اس بقیہ صفحہ 3نمبر2

بقیہ … محمود خان اچکزئی
ملک کو چلانا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے کم سے کم اتنا تو کردیجئے کہ اللہ پاک نے جو نعمتیں سندھی ماڑوں کی زمین پر پیدا کی ہیں ، بلوچوں ، سرائیکی اور پنجابیوں کی زمینوں پر پیدا کی ہیں کم سے کم اتنے بنیادی حقوق تسلیم کرلیں کہ وہ دنیا جہان کی مزدوریاں چھوڑ کر اس ملک میں رہ سکیں۔ ان کی زبانوں کا احترام کیجئے، قرآن کریم کو ماننے والے لوگ ہیں آپ۔ قرآن کریم میں محمد ۖ سے اللہ پاک مخاطب ہیں کہ محمد ! میں نے قرآن کریم بہت سادہ کتاب آپ کی قوم کی زبان میں بھیجا ہے تاکہ آپ لوگوں کو سمجھا سکیں۔ اللہ جس جس قوم سے مخاطب تھا اسی قوم کی زبان میں کتابیں بھیجیں۔ آپ21ویں صدی میں لوگوں کی زبان پر تالے لگارہے ہیں، کراچی اور لاہور کے تھانے دیکھے، سینکڑوں پشتون اس بنیاد پر لاہور کے تھانے میں ہونگے کہ اسے اردو نہیں آتی۔ کہاں کے رہنے والے ہو؟ ، کاکڑ ہوں۔ کہاں کے کاکڑ ہو؟، فلانے علاقے کا۔ نام کیا ہے؟ اسے اردو نہیں آتی۔ تم افغانستان سے ہو۔ ملک کے بچانے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ یہاں بالادستی منتخب پارلیمنٹ کی ہوگی، آئین کی ہوگی یا بعض لوگوں کی ہوگی؟۔ دنیا جس طرح چلاتی ہے یہ ملک چل سکتا ہے بہترین ملک ہے۔ دنیا جہان کے مسائل ہیں۔ ہم یہ کرسکتے ہیں ، بلوچ، پشتون، سندھی آپ نے جتنا مارا ہے زندہ باد۔ جتنی جیلیں دی ہیں زندہ باد، معاف آپ کو۔ آئیں ملک کو انسانوں کی طرح سیدھا سادہ ڈیموکریٹک، اسلامک فیڈریشن آف پاکستان بنائیں۔ میں گارنٹی دیتا ہوں، میں سندھیوں ، بلوچوں اور سرائیکیوں کا ماما ہوں، ہم لکھ کر دینے کو تیار ہیں۔ لیکن خدا کو مانیں اسکے غلط معنی نہ نکالیں ، ہم غلاموں کی طرح رہنا نہیں چاہیں گے۔ آپ لکھے پڑھے لوگ ہیں یہ ہمارے جسٹس ہیں، محمد خان بیٹھاہوا ہے، سوئی گیس60کی دہائی میں بلوچ علاقے سے نکلی تھی بگٹی سے۔ آج تک مری بگٹی عورتیں روٹی خس و خاشاک پر پکاتی ہیں، انکے ریسورسز دس سال بعد ختم ہوجائیں گے۔ جب بلوچوں کی سوئی گیس کا یہ حشر کرینگے تو کوئی بلوچ پاگل ہے کہ آپ کو اپنے علاقے میں ڈرل کیلئے چھوڑے گا، کوئی پشتون پاگل ہے کہ آپ کو اپنے علاقے میں نکالنے کیلئے چھوڑے گا، کوئی خٹک پاگل ہے کہ آپ کو اپنے تیل و گیس حوالے کرے گا۔ رحم کریں اس ملک پر ہم پر نہ کریں ملک پر رحم کریں۔945میں لیگ آف نیشن بنی مشاہد بھائی آپ سے بہتر کون جانتا ہے۔ آزاد ملکوں کی تعداد صرف60تھی۔100سال پورے نہیں75سال ہوئے۔ وہ60ملک ٹوٹتے ٹوٹتے193بن گئے۔ ان بے انصافیوں نے ملکوں کو توڑا ہے اور یہ بے انصافیاں ایک دفعہ ہمارے ملک کو توڑ چکی ۔ اللہ کیلئے اس ملک پر رحم کریں۔ فوجیوں کو ہماری باتیں نقصان نہیں پہنچاتیں۔ جو نقصان ایوب خان کی مارشل لاء نے پہنچایا دس سال وہ بیٹھا رہا درجنوں نہیں سینکڑوں جرنیل فارغ ہوگئے۔ بریگیڈئر رینک کے جنہیں آگے آنا تھا وہ فارغ ہوئے۔12سال دوسرا بیٹھا رہا11سال تیسرا بیٹھا رہا ۔33سال کے نتیجے میں یہ پاکستان ملا۔ اسکے بچانے کا ایک ہی راستہ ہے۔ ربانی صاحب آپ آتھر ہیں (18th Amendment کے bicameral) پارلیمنٹ ہے پاکستان میں۔ مہربانی کریں سینٹ کو وہ اختیار دیں جو قومی اسمبلی کو دیے گئے ہیں۔ جہاں قومیتوں کی برابری ہے۔ یہ ملک آسانی سے چل جائیگا ۔ میں بلوچوں، سندھیوں اور سرائیکیوں کی طرف سے کہتا ہوں کہ ہمیں انسان سمجھو۔ ہمارے وسائل پر اتنا ہمارا حق سمجھو کہ ہمارے بچے بھوکوں نہ مریں۔ ہم پاکستان اچھا چلائیں گے۔ اگر کسی پاگل کا خیال ہے کہ بندوق کے سائے میں ملک چلایا جاسکتا ہے ۔ آپ نے سوویت یونین کا حشر دیکھا جسکے اسلحہ خانوں میں اتنے خطرناک بم ہیں کہ اس براعظم کو تباہ کرسکتا ہے۔12،16ملک فارغ ہوجائیں گے خدا حافظ۔ چھوٹا سا ملک میں نام نہیں لیتا، حساس حالات ہیں40دن ہوگئے لڑائی کو مگر بندوق کے زور پر اس پر قبضہ نہیں کرسکتا۔ مشاہد بھائی ! یہ بندوق ہماری ہیں، یہ توپ ہماری ہیں ، جہاز ہمارے ہیں، اس فوج میں آبادی کی بنیاد پر ہمیں حصہ دو۔ بلوچ کو دو، سندھی کو دو، پٹھان کو دو، آپ کو دو، اوریہاں جج صاحب بیٹھے ہیں جس طرح آئین کہتا ہے کہ جو آدمی فوجی ہوگا وہ سیاست میں حصہ دار نہ ہوگا۔ اس پر آئیں۔ دعا کرتے ہیں یہ ملک بہترین ہے ۔ ہم درخواست کرتے ہیں اگر یہ کام آپ نہیں کرسکتے ہیں تو آنے والی پارلیمنٹ بادشاہی چلانے سے پہلے مہربانی کرلے کہ فوجیوں، ججوں اور سب پر مشتمل ایک کانفرنس بلائے ، ہمیں نہ بلائے اس میں ، شریف لوگ وہاں بیٹھ کر کوئی آئینی حکمرانی کی بنیاد رکھ سکیں گے۔ ورنہ آپکے پاس ٹائم نہیں، ہمارے پاس ٹائم نہیں۔ مفت میں ہمارا یہ بہترین ملک خدانخواستہ خدانخواستہ مشکلات میں پھنس جائیگا۔ میں آپ لوگوں کا بہت مشکور ہوں۔ پی ڈی ایم ہم نے بنائی تھی۔ پارلیمنٹ میں جو کچھ ہورہا ہے ، میں اس پارلیمنٹ میں ہوں یا نہ ہوں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آئندہ والی پارلیمنٹ کم سے کم تین چار باتیں کرلے۔ ایک یہ کہ جن جج صاحبان نے مختلف ادوار میں اصولوں کی خاطر فوجیوں کیلئے حلف نہیں اٹھایا نوکریاں چھوڑیں اور گمنامی میں فارغ ہوئے اگر وہ مرگئے تو انکے بچوں کو انعام دیدیں کہ ڈیموکریسی کے جج یا ایمانداری کے جج، اس پارلیمنٹ میں کم سے کم یہ کام کردیں۔ سینکڑوں لوگMRDاورARDمیں سندھیوں نے کوڑے کھائے، شہید ہوئے ان کیلئے پارلیمنٹ کچھ کرلے۔ انہیں شہدائے جمہوریت ڈکلیئر کردے۔ لوگ بیٹھے ہیں کوئی ناراض ہوجائیگاPCOکے تحت حلف اٹھانے والے پھر کیا کرینگے ہمارے جج؟۔ بار بار حلف لیا جاتا ہے کہ ہم آئین کی حفاظت کرینگے۔ ہم نے آئین کے دفاع کا حلف اٹھایا ہے۔ کس طرح ہم دفاع کریں؟۔ ربانی صاحب میری رہنمائی کریں۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ گلیوں میں لڑنا ہے پشتونخواہ پارٹی آپکے ساتھ ہے، بلوچ آپکے ساتھ ہیں سندھی آپکے ساتھ ہیں۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں لڑنا ہے یا کوئی گول میز کانفرنس بلانی ہے کہ اس ملک کو آئین کے تحت چلایا جائے پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہو۔ وہی داخلی اور خارجہ پالیسی کا سرچشمہ ہو۔ ہمارا فوجیوں سے نہ کوئی بغض ہے نہ فوجیوں سے ہماری کوئی لڑائی ہے۔ اگر وہ سیاست کرنا چاہتے ہیں بسم اللہ کریں۔ وردیاں اتار لیں پھر دیکھیں کہ سیاست میں الیکشن کیسے جیتا جاتا ہے۔ کیسے ممبر بنایا جاتا ہے۔ یہ دو اسٹینڈرڈ نہیں چلیں گے۔ ایک آدمی کو اسلئے ستاؤ کہ وہ اصولوں کی خاطر کھڑا ہے اور دوسرے کو اپنی طرف سے کرپٹ کرو کروڑوں روپیہ دو اسے وزیر اعلیٰ بناؤ ، وزیر اعظم بناؤ فلانا بناؤ یہ نہیں چلے گا۔ اس ملک سے یہ کھلواڑ بند ہونا چاہیے۔ آپ سب کی بڑی مہربانی۔ آپ سب کو خدا لمبی عمر دے۔ آپ نے ہم پر احسان کیا خدا آپ کو خوش رکھے۔ شکریہ
٭٭٭

پنڈی میں پشتون شہید ہوئے تو سمجھا کہ غداروں پر فتح حاصل کرلی ہے۔ شاہد خاقان عباسی

ملک کی تاریخ مسخ کی گئی،جن کو ہم محب وطن سمجھتے تھے وہ دشمن نکلے اورجو دشمن تھے وہ محب وطن نکل نکلے

محمود خان سے میرے دوست، بزرگ اور محسن ہیں۔ ان سے بہت کچھ سیکھا۔ اصولوں پر سیاست اور آئین کی بالادستی سیکھی

میں محمود خان اچکزئی کا بہت مشکور ہوں ان کا ہم پر احسان ہے کہ انہوں نے اس کتاب کا ترجمہ کی۔ میں دسویں جماعت میں پشاور میں پڑھتا تھا جب عبد الصمد خان کی شہادت ہوئی۔ اس وقت ہم سمجھتے تھے کہ یہ ملک کے غدار ہیں۔ عبد الولی خان غدار، عبد الصمد خان اچکزئی بھی غدار اور مجھے کچھ یاد آرہا ہے تو اس سے کچھ عرصہ پہلے یا اسی عرصے میں لیاقت باغ پنڈی میں بہت سے ہمارے پشتون بھائی افراسیاب صاحب کو یاد ہوگا شہید ہوئے اور ہم نے اس وقت یہ سمجھا کہ ہم نے غداروں پر کوئی فتح حاصل کی ۔ اسی زمانے میں اگر میری میموری درست ہو تو اکبر بگٹی صاحب شاید گورنر تھے بلوچستان کے اور تقریباً23سال بعد ان کو بھی اسی طرح شہید کیا گیا جس طرح ماضی میں ہم کرتے رہے اور آج بھی ہم اس ملک کے تاریخی حقائق سے واقف نہیں جو کسی نے بتایا نہیں ۔ ہم وہ واحد ملک ہیں جس کی تاریخ ہی مسخ کردی گئی ۔ یہ پتہ ہی نہیں کہ کس نے کیا کیا؟، کون محب وطن تھا؟، کون وطن کا دشمن تھا؟۔ جن کو ہم محب وطن سمجھتے ہیں وہ وطن کے دشمن نکلے ،جو دشمن تھے وہ محب وطن نکلے۔ میں محموداچکزئی کا بہت مشکور ہوں ہمیشہ یہ سیاست میں میرے دوست ہیں، محسن ہیں، بزرگ ہیں اور بہت کچھ میں نے ان سے سیکھا ۔ دو باتیں سیکھی ہیں ۔ اُصولوں پر سیاست سیکھی اور آئین کی بالادستی سیکھی ہے۔ عبد الصمد خان صاحب کا میں نے مقدمہ ابھی دیکھا ہے جو حامد صاحب نے دیا تھا تو یہی باتیں اس میں بھی لکھی ہوئی ہیں تو میں سب کو کہتا ہوں کہ یہ جوPDMبنی جو مقصد حاصل کرے جو اس کا مطلب تھا لیکن ایک بات اس میں کم از کم جو مجھ پر واضح ہوئی کہ وہ لوگ جن کو ہم غدار کہتے تھے ہم نے سولی پر بھی لٹکایا وہ آج آئین کی بات کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک کا نظام آئین کے مطابق چلے۔ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے یہی ایک قدم ہے آئین کی بالادستی کیلئے۔ جس کیلئے ہم سب کوشش کرتے رہے۔ کسی نے کم کی کسی نے زیادہ کی۔ آج سے تقریباً ساڑھے تین چار سال پہلے ہم نے ایک غیر آئینی تجربہ کیا۔ ایک حکومت کو لیکر آئے۔ اس نے جو ملک کا حشر کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ آج وہ تجربہ ناکام ہوگیا اور یقین کریں ملک کے حالات اتنے تشویشناک تاریخ میں کبھی نہیں ہوئے۔ تو آج پھر سے ملک کے معاملات کو درست کرنا پڑے گا۔ ری بلڈ کرنا پڑے گا اور سب نے ملکر کرنا ہے اور اس کی ہدایت بنیادی اصول آئین ہے۔اگر آئین سے انحراف کرینگے ، ملک آگے نہیں چل پائیگا۔ یہ حقیقت کم از کم مجھ پر عیاں ہے ۔ آج ہر پاکستانی پر عیاں ہونی چا ہیے کہ اگر آئین درست نہیں بدل لیں۔ جو تبدیل کرنا ہے کہ ہمیں یہ تبدیلی چاہیے مگر ملک میں دو نظام نہیں ہوسکتے۔ ملک اس طرح نہیں چلتے۔ ابھی افراسیاب بقیہ صفحہ 3نمبر3

بقیہ… شاہد خاقان عباسی
نے بات کی تھی کہ ایک امریکن پروفیسر نے مجھے یہ بات کی تھی کہ میںنے چالیس سال ہسٹری پڑھی اور پڑھائی ہے۔ تاریخ میں کوئی ایسا ملک نہیں جس کی اکثریت اس کو چھوڑ کر گئی ہو۔ ہمیشہ اقلیت علیحدہ ہوتی ہے۔ یہاں بنگالی جو اکثریت میں تھے اس ملک کو چھوڑ کر چلے گئے اپنا نام بھی ہمیں دیکر گئے ملک کا نام بھی نہیں لیا انہوں نے۔ یہ ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے تھا مگر ہم نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ آج ہماری مشکلات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمیں تاریخ کا علم نہیں ۔ میں بار بار یہ بات کرتا ہوں کہ(truth commission )ہونا چاہیے کسی کو سزا نہیں دینی حقائق تو سامنے آئیں ہوا کیا ملک کیساتھ؟۔ افراسیاب صاحب کو میں بچپن سے دیکھ رہا ہوں یہ پشاور میں یونیورسٹی کے صدر تھے میرے خیال میں73میں، بہت سے لوگ جب چلے جائیں گے تو پتہ نہ ہوگا کہ حقیقت ہے کیا؟۔ یہاں پر کیا ہوتا رہا ہے؟ آپ یقین کریں کہ جس دن ملک کے سیاستدان یہtruth commissionبنانے کے قابل ہوئے وہ دن اس ملک کی سیاسی ترقی میں بہت بڑا دن ہوگا۔ بد نصیبی ہے کہ اتنے کمزور ہیں(truth commission) ہم نہیں بناسکتے۔ عدلیہ اتنی کمزور ہے کہ وہ اس کی بات نہیں کرسکتی۔یہ صرف سیاستدانوں کا کام نہیں۔ صرف سیاستدان اس ملک کو درست نہیں کرسکتے ، صرف فوج نہیں کرسکتی، عدلیہ نہیں کرسکتی، بیوروکریسی صرف نہیں کرسکتی، سب کو ملکر بیٹھنا پڑیگا اور راستہ بنانا پڑیگا کہ ہم نے کیسے وہاں جانا ہے اور کیسے پہنچنا ہے۔ عبد الصمد خان کی جو تھوڑی بہت کتاب پڑھی ہے بات قربانیوںسے بنتی ہے اگر ایک شخص نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ جیلوں میں د یا ہو ، پھر بھی اصولوں پر قائم رہا ہو یہ ہم سب کیلئے سبق ہے۔ اس کتاب کا یہی سبق ہے اور یہی بات ہمیں یہاں سے حاصل کرنی چاہیے۔ یہاں پر مجھے عثمان کاکڑ صاحب کی یاد ضرور آتی ہے۔ وہ نوجوان ان اصولوں پر قائم رہے جو عبد الصمد خان صاحب نے سکھائے تھے۔ میں آپ سب کا بہت مشکور ہوں اور امید ہے کہ ہم سب یہاں سے کچھ سبق حاصل کرینگے۔ اور کم از کم اصولوں پر رہ کر اس ملک کو آئین کے مطابق چلانے کی کوشش کرینگے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ اپریل 2022
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

جھگڑا یہ ہے کہ سرکار عالی! جب دو بیویاں آپ کی خدمت کررہی تھیں تو پھر تیسری لانے کی کیا ضرورت تھی؟۔ وسعت اللہ خان

Wusatullah Khan, Wusatullah Khan, Wusatullah Khan, Wusatullah Khan, Imran khan, Imran khan, Imran khan, Imran khan, Imran khan, Imran khan, Imran khan, Imran khan, Imran khan, Imran khan, Imran khan, Imran khan, Imran khan, Imran khan, Shahbaz Shareef, Shahbaz Shareef, Shahbaz Shareef, Shahbaz Shareef, Shahbaz Shareef, Shahbaz Shareef, Shahbaz Shareef, Shahbaz Shareef, Shahbaz Shareef, Shahbaz Shareef, Shahbaz Shareef, Shahbaz Shareef, Shahbaz Shareef, Shahbaz Shareef, Pakistan Army, Pakistan Army, Pakistan Army,Pakistan Army,Pakistan Army,Pakistan Army,Pakistan Army,Pakistan Army,Pakistan Army,Pakistan Army,Pakistan Army,Pakistan Army,Pakistan Army,Pakistan Army, PTI, PTI, PTI, PTI, PTI, PTI,PTI, PTI, PTI, PTI, PTI, PTI,PTI, PTI, PTI, PTI, PTI, PTI, PTI, PTI,

جھگڑا یہ ہے کہ سرکار عالی! جب دو بیویاں آپ کی خدمت کررہی تھیں تو پھر تیسری لانے کی کیا ضرورت تھی؟۔ وسعت اللہ خان

صحافی مطیع اللہ جان ایک زبردست اور اچھے صحافی ہیں لیکن مسلم لیگ کی جس طرح حمایت کرتے ہیں اور نوازشریف کو ذوالفقار علی بھٹو بنانے پر جس طرح سے ناجائز انداز میں تلے ہیں اسکا منہ بولتا ثبوت حسین نواز اور سلمان شہباز کیساتھ یاد گار تصویر ہے جس میں کیمرے کی آنکھ سے منہ چھپانے کی عجیب وغریب طرح کی بے ساختہ کوشش ہورہی ہے۔
وسعت اللہ خان صاحب وزیر اعظم عمران خان سے متعلق مطیع اللہ جان کے ساتھ MJTV

test

سوال: وزیر اعظم عمران خان بطور وزیر اعظم ، بطور سیاستدان اس وقت کس قسم کی ذہنی صورتحال سے دوچار ہوں گے ؟۔
جواب: اس سے پہلے میں آپ کو بتادوں جب بی بی Wusatullah Khan شہید تھیں اس زمانے میں پھر نواز شریف وزیر اعظم بنے پھر عمران خان وزیر اعظم بنے تو کسی سے کسی نے کہا کہ تینوں وزرائے اعظم کو ایک لائن میں ڈسکرائب کریں۔ تو انہوں نے کہا کہ بی بی جو ہیں وہ سمجھتی تھیں لیکن سنتی نہیں تھیں۔ نواز شریف سنتا تھا سمجھتا نہیں تھا، یہ بھائی صاحب جو ہیں ان کا ایک ایڈوائزر ہے۔ اور اس ایڈوائزر سے یہ روزانہ صبح میں ملتے ہیں جب یہ شیشے کے سامنے بال بنانے کھڑے ہوتے ہیں اور وہ جو کہتا ہے سارا دن اسی پر عمل کرتے ہیں۔

test

ہمارے وزرائے اعظم کے کرائسس کی جڑ یہ نہیں کہ اتحادی الگ ہوگئے یا اسٹیبلشمنٹ نے ہاتھ رکھ دیا ہے یا اٹھالیا ۔ ان کا جو( span of attention)ہے کسی بھی معاملے میں وہ مجھے لگتا ہے کہ پانچ دس سال کا جو بچہ ہے اسکے برابر ہے۔ مثلاً اگر کوئی میٹنگ ہورہی ہے فرض کریں تو پرائم منسٹر کا کام یہ ہے وہ ایک ایک چیز دھیان سے سنے اسلئے کہ بالآخر اسکے سائن یا اس کی حتمی رائے سے پالیسی بنے گی یا فیصلہ ہوگا یا معاہدہ ہوگا۔ یہاں یہ ہوتا ہے کہ جو انہوں نے پیلی روشنائی سے حاشئے کھینچ دیے وہ پڑھا۔

آخری پرائم منسٹر جسکے بارے میں مجھے پتہ ہے کہ جو اخبار پڑھتا تھا اور اس کی نیند ہی تین چار گھنٹے کی تھی وہ تھا ذو الفقار علی بھٹو۔ آخری پرائم منسٹر جو ڈائریکٹ Wusatullah Khan عوام میں جاتا تھا نورا کچہریاں نہیں لگاتا تھا،اوریجنل کھلی کچہری لگاتا تاکہ یہ جو ایڈوائزروں کا آسیبی گھیرا ہے اس. سے ہٹ کر بھی عوام کی بات سننے کی کوشش کرے وہ تھا ذو الفقار علی بھٹو۔ لیکن وہ روایتیں آگے نہیں بڑھ سکیں۔ گھیرا غیر محسوس طریقے پر تنگ ہوتا رہتا ہے۔ اس فضاء میں عمران خان کچھ نہیں آئن اسٹائن بھی بیٹھا ہو تو اس کی بھی سمجھ میں کچھ نہیں آئیگا۔ یہ گھیرا آدمی کا گلا گھونٹ کر اس کی سیاست کو مار ڈالتا ہے ۔

test

سوال: آسیبی گھیرے سے بھی بڑے بڑے آسیب اور جن ہیں ، تو آپ نہیں سمجھتے کہ آج کل وہ جن نیوٹرل ہوگئے ہیں؟۔
جواب: یہ بات سننے میں آتی ہے کہ وہ. نیوٹرل ہوگئے ہیں یا پہلے انہوں نے سسٹم کو نیوٹرالائز کیا ہوا تھا اور ایک لفظ ہوتا ہے نیوٹل وہ بھی ہے۔ سیاستدان پر کسی طرح کی. مصیبت اور پریشر آسکتا ہے۔ گھمبیر مسئلے میں پھنس سکتا ہے۔ اس کا امتحان ہی تب ہے جب سارے پریشرز ہیں. اوپر نیچے دائیں بائیں ، نارتھ ساؤتھ سب سے۔ اس میں اپنا کام جتنا کرسکتا ہے کرکے دکھادے۔

test

اگر سارا کچھ پلیٹ میں رکھ کر دینا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی نیوٹرل ہوجائے اپوزیشن فاصلے پر رہے ایڈوائزر بھی اسکے ذہین ہوں تو پھر بھائی صاحب جس ویٹر نے یہ چکن تکہ ابھی Wusatullah Khan پیش کیا ہے وہ بھی بہت اچھا پرائم منسٹر بن سکتا ہے۔ پھر آپ کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ لے کر چلنا چاہ رہے ہیں مثلاً کسی نے کہا کہ میں اس کو ایک نیا پاکستان بنانا چاہ رہا ہوں۔

یہ پچھلے75سالوں میں تیسرا نیا .پاکستان بن رہا ہے۔ تو اس کیلئے آپ کے پاس کوئی بلیو پرنٹ ہے یا ایڈوائزر نہیں ہے ، وہ جو کہتے ہیں نا کہ عمران خان تو چنگا ہے یا. نواز شریف تے چنگا سی، ہر ایڈوائزر تو چنگا نئی ساں … تا یا ر ان کو ایڈوائزر کس نے رکھا؟ ان کو قریب کس نے آنے دیا؟۔یا وہ خود بخود Wusatullah Khan آگئے .تو یہ جو بہانے ہوتے ہیں ۔ شوق بہت ہوتا ہے بچپن سے مثلاً مجھے بھی شوق ہے کہ میں اس ملک کا پرائم منسٹر بنوں لیکن پھر؟ اچھا. میں بیٹھ گیا کرسی پر آگے؟ تو یہ جو تیاریاں ہوتی ہیں یہ اگر نا ہوں اور آپ بیساکھیوں کے محتاج ہوں ، آپ الیکٹیبلز کے محتاج ہوں۔ آپ کسی مامے کی انگلی پکڑنے کے بقیہ صفحہ 3نمبر 1

test

بقیہ … وسعت اللہ خان
عادی ہوں ، آپ ہر وقت یہی دیکھتے رہے ہیں کہ قالین ابھی آپ کے پاؤں کے نیچے ہے یا نہیں؟ اور آپ کی دو آنکھیں تو سامنے دیکھ رہی ہوں اور ایک آنکھ آپ کو. پیچھے Wusatullah Khan بھی چاہیے ہو کہ پشت سے تو کوئی وار نہیں کررہا ہے۔ تو ساڑھے تین چار یا پانچ سال جو آپ کے ہیں وہ تو اسی میں گزر جائیں گے نا۔ اسی میں اپنے آپ کو بچاتے ہوئے کہ کھاؤں کدھر کی چوٹ، بچاؤں کدھر کی چوٹ میں اگر گزر گئے پھر تو آپ گزر. گئے۔ تو ہمارے ساتھ یہی ہوا۔ اور دوسرا یہ کہ اس ملک کے75سال میں چوتھا سال بڑا منحوس ہوتا ہے۔

اول تو اس ملک میں تین مہینے کے بھی Wusatullah Khan وزیر اعظم رہے ہیں۔ ساڑھے تین سال اور پونے چار سال کے بھی۔ چوتھے سے پانچویں میں جمپ نہیں لگاپایاآج تک ذوالفقار علی Wusatullah Khan بھٹو سمیت۔ تو یہ چوتھے سال کی نحوست ہے یہ کیسے پیدا ہوتی ہے یا تو وہ اپنے آپ کو وزیر اعظم سمجھنا شروع کردیتا ہے ۔ یا اسے یاد نہیں. رہتا ہے کہ اصل میں وہ ایک کمپنی کے سی ای او کے طور پرمنتخب کیا گیا ہے جسکا مالک کوئی اور ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ. جتنی پاور مالک کے پاس ہے سی ای او کے پاس اتنی ہونی چاہیے۔ یا اس کرسی میں نحوست ہے کہ چوتھے سال وہ اس کیلئے اجنبی ہوجاتی ہے۔ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ چوتھا سال پاکستان میں کراس کیوں نہیں ہوسکتاہے؟۔

Wusatullah Khan

سوال: یہ شخص جیسا تھا وہ ہوگا اسکے بعد Wusatullah Khan کی جو قیادت ہے اس کو آپ کیسے دیکھ رہے ہیں؟۔ اور اس وقت جو اپوزیشن کا کردار ہے، شہباز شریف صاحب قومی حکومت کی. بات کررہے ہیں۔ اور بلاول بھٹو کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف کا ہوگا۔ تو کیسے دیکھ رہے ہیں اپوزیشن کے کردار کو تمام معاملات میں؟۔


جواب: پرانی60،70کی دہائی کی انڈین. فلمیں دیکھی ہیں؟ جس میں ایک مل کا مالک ہوتا تھا اور ایک مزدور لیڈر ہوتا تھا اور ایک پاکٹ یونین بھی ہوتی تھی۔ اب تو یونین .نہیں تو پاکٹ یونین بھی نہیں۔ ایک تو مجھے وہ سلسلہ یاد آتا ہے ، دوسرا یہ جھگڑا اس وقت سیاسی جھگڑا نہیں میرے حساب سے۔ جھگڑا یہ ہے کہ سرکار عالی ! جب دو بیویاں آپ کی اچھی طرح سے خدمت کررہی تھیں تو پھر تیسری بیوی لانے کی کیا ضرورت. تھی؟۔ چھوٹی بیگم لانے کی کیا ضرورت تھی؟۔ ہم کیا مرگئے؟ ہم سے ایسی کیا غلطی ہوگئی۔ تو ڈیموکریسی بچانے کایا جمہوریت مضبوط کرنے کا، یا پارٹی سسٹم یا الیکٹرال ریفارم ،یہ ہیں مارکیٹنگ کی چالیں۔

اصل جھگڑا یہ ہے کہ اسی مرگئی سی، ہم Wusatullah Khan تھے نا۔ تو یہ کیوں لے آئے ؟ اور اب کسی حد تک ان کی یہ بات شاید صحیح لگ رہی ہے جو حالات ہیں اس میں کہ یار یہ دو .جو ہیں ان کو پتہ تھا اچھے برے کا۔ تیسری شوق میں شادی کرتو لی گئی لیکن یہ چل نہیں پارہی۔ تو دوبارہ ظاہر ہے ان بیویوں سے رجوع کیا جائے گا۔

test

مطیع اللہ جان: لیکن یہ بالکل وہی بیویویاں ہیں بھی یا نہیں؟۔
وسعت اللہ خان: میاں بھی تو وہ نہیں ۔ کبھی کبھی Wusatullah Khan اس پس منظر میں میں دیکھتا ہوں سیاست میرے ذہن سے مائنس ہوجاتی ہے کہ یہ ایک طرح کا گھریلو قسم کا. جھگڑا ہے۔ اس میں ووٹر کہیں دور دور تک نہیں۔ عام آدمی کہیں دور دور تک نہیں۔ مہنگائی کسی بھی زمانے میں منتخب Wusatullah Khan حکومت. ہو یا غیر منتخب ایشو رہا ہی نہیں۔ اصل ایشو یہ ہے کہ جو طاقت موجود ہے اس کو ہر قیمت پر چاہے اس کیلئے لیٹنا بھی پڑے چنڈ مار کے پیری بیپیڑاں پوے۔

Wusatullah Khan

ہمارے ہاں باسی کڑی میں کبھی. کبھی اُبال آتا ہے۔ اچانک سے ایک لیڈر جسکے بارے میں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تو اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے اچانک سے لگتا ہے یہ. تو لینن اور ماؤزے تنگ کے لیول پر جانے کی کوشش کررہاہے۔ دو منٹ کا انقلابی ہوتا ہے وہ۔ تیسرے منٹ میں. وہ پھر سیٹ ہوجاتا ہے لیکن اب ہم اسے دیکھ دیکھ کر اتنے اکتاچکے کہ اسکی ریٹنگ بھی نہیں آرہی۔

Wusatullah Khan

سوال: آپ کہتے ہیں کہ یہ ووٹروں. کا معاملہ Wusatullah Khan نہیں،یہ سارا گھریلو ازدواجی قسم کا جھگڑا ہے طاقتوروں کے درمیان تو پھر ہم جیسے دانشور جو ضمانتوں کے چکر میں اندر ہوگئے کیلئے کیا حکم ہے؟۔
جواب: یہ تو آپ سمجھتے ہیں کہ آپ. دانشور ہیں۔ باقی لوگ کیا آپ کو دانشور یا صحافی سمجھتے ہیں؟۔….. آپ یہ سمجھتے ہیں وزیر اعظموں کی طرح کہ یار ہمارے. پاس بھی Wusatullah Khan کوئی طاقت ہے۔ بلکہ بنیادی طور پر انکے اصل کاروبار کی شیلڈ ہیں آپ۔ وہ آپ کو سامنے رکھ کر جو انکے اوریجنل کاروبار. ہیں اوریجنل سودے بازی ہے اور اوریجنل انہیں جو اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا ہے مزید سودے بازی کیلئے کہ Wusatullah Khan سانو وی پچھاڑن لیا جائے یہ بنیادی سلسلہ ہوتا ہے میڈیا کا۔ اور میڈیا اب کوئی ایشو نہیں ۔

میڈیا اب ایک فیکٹری کی طرح. ہے Wusatullah Khan جس میں نپے تلے سانچے انہوں نے بنادیے ہیں۔ اور انہی سانچوں میں وہی را مٹیریل ڈلے گا جو ڈلنا ہے۔ اس کی مکسنگ وہی ہوگی .جو ہونی ہے۔ اسکے ڈبے پر وہی لکھا جائیگا جو لکھا جائیگا۔ اب مجھے نہیں پتہ کہ انڈیا میں ہوتا ہے یا نہیں Wusatullah Khan حالانکہ انڈیا کا حال. میڈیا کے حساب سے ہم سے بھی بہت برا ہے۔ لیکن اب تو مجھے حیرانی ہوئی کہ ٹکر بھی Wusatullah Khan امپورٹنٹ ہے کہ ایک ایشو پر بارہ چینلوں پر ایک. طرح کا ٹکر چل رہا ہے تو میں چونک گیا۔ خود کو صحافی سمجھنا چھوڑ دیں ۔ فیکٹری ہے اس میں 9سے 5 تک نوکری کرنی ہے ایک مشین پر کھڑ ا ہوکر صابن پر مہر لگانی ہے اور اس کی پیکنگ کرنی ہے۔

Wusatullah Khan

سوال: جو کہا جارہا .ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے، بڑی معروف یونیورسٹی ”لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز”LUMSوہاں پر سات گھنٹے نیوٹریلیٹی پر ایک کورس. کروایا ہے نوجوان نسل کو۔ اس کورس کے جو لیڈ کنسلٹنٹ تھے ہماری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ، تو اس کورس کا کیا فیوچر ہے؟۔

Wusatullah Khan


جواب: جب تبصرہ کرسکتا ہوں کہ Wusatullah Khan سات گھنٹے میں کیا کیا باتیں ہوئیں ؟، کیا سوال جواب ہوئے؟ ، کیا انہوں نے بریفنگ دی؟ ، اور اس کا ان پٹ اور آؤٹ پٹ کیا ہے؟ ۔ وہ ابھی. تک ہمارے سامنے نہیں، صرف قیاس آرائیوں کا سلسلہ ہے۔ لیکن میں اس ٹرینڈ کو اچھا سمجھتا Wusatullah Khan ہوں۔ کیونکہ جو ریاست کے انتہائی. ذمہ دار لوگ ہیں جنکے پاس وہ انفارمیشن ہے جو ہمارے پاس ممکن ہی نہیں کہ ہو اور ان میں دو یا تین فیصد بھی شیئر کرتے ہیں. تو میرے حساب سے بڑی بات ہے۔ یونیورسٹیاں بنیادی طور پر کالج اور Wusatullah Khan اسکول سے مختلف ہوتی ہیں کالج اور اسکول میں منظور شدہ نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ یونیورسٹیوں میں علم سازی ہوتی ہے۔

کھلا پن ہوتا ہے بحث ہوتی. ہے کریٹی ویٹی Wusatullah Khan کا راج ہوتا ہے۔ تھیوریز ضائع بھی ہوتی ہیں اور نئی تھیوریز بھی بنتی ہیں۔ آئیڈئل یونیورسٹی کی میں بات کررہا .ہوں اور اس میں آپ یہ ماحول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی بھی آکر طلباء سے گفتگو کرسکے تو پھر ایسا ہی کریں کہ کوئی Wusatullah Khan .بھی آکر گفتگو کرسکے۔ جنرل صاحب موسٹ ویلکم، عمران خان موسٹ ویلکم، لیکن اگر ماما قدیر کو بھی طلباء Wusatullah Khan سننا چاہیں تو اسے. بھی اتنا ہی موقع ملنا چاہیے اور کسی نیشنلسٹ کو بھی اتنا ہی موقع ملنا چاہیے اور کوئی سیاستدان جو باہر ہے یا اندر ہے لیکن وہ. کوئی اسکالرلی کام کررہا ہے یا ملک کیلئے کنٹری بیوٹ کررہا ہے تو اس کو بھی اتنا موقع ملنا چاہیے۔ اس میں پھر ہر ایک کو ویلکم کرنا چاہیے۔……

test

سوال: بچوں سے سنا جارہا ہے. اور میڈیا سے رپورٹ ہوا ہے کہ فلٹریشن ہوئی ہے باقاعدہ سیکورٹی کلیئرنس ہوئی ہے اور مخصوص بچوں کو صرف لیکچر اٹینڈ کرنے. کا موقع Wusatullah Khan دیا گیا۔ تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ اچھی بات ہے؟ اور اس کی تردید نہیں ہوئی اب تک۔
جواب: کیا پہلے فوج. کے سربراہ گئے کسی یونیورسٹی میں؟ انہوں نے وقت گزارہ ہے اس طرح سے کیا آپ کے علم میں ہے؟۔(NUSTمیں جاتے رہتے ہیں: مطیع اللہ جان) نہیںNUSTتو ان کا اپنا ادارہ ہے نا: وسعت. اللہ خان۔ (لیکن ہر یونیورسٹی میں Wusatullah Khan تو نہیں جاسکتے: مطیع اللہ جان)۔ لیکن اگر یہ کسی نئے ٹرینڈ کا نکتہ آغاز ہے تو اچھا ہے۔

شروع میں ظاہر ہے. کہ سیکورٹی خدشات کی وجہ سے فلٹریشن بھی ہوئی ہوگی ۔ سب کچھ ہوا ہوگالیکن اب میں امید کروں گا کہ جنرل صاحب کراچی. یونیورسٹی، سندھ یونیورسٹی، خیرپور Wusatullah Khan یونیورسٹی، گومل یونیورسٹی بھی جائیں ۔ اور نہ صرف خود جائیں بلکہ باقی جو لوگ ہیں. انہیں بھی Wusatullah Khan اجازت ہو کہ یونیورسٹی جس کو چاہے مدعو کرسکے تاکہ طلباء کو ہر طرف کا شعور یا ہر طرف کا مؤقف مل سکے۔ جب ان. کی تجزیہ کرنے کی استعداد بڑھے گی تب کوئی نئی ایسی چیز کھل کر Wusatullah Khan سامنے آئیگی جو ہمارے لئے بھی اور ملک کیلئے بھی فائدہ مند ہو۔ اگر یہ معاملہselectiveہے تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

Wusatullah Khan

سوال: عدم اعتماد کی تحریک سے. پہلے بہت کچھ ہوچکا ہے اسلام آباد میں۔ عمران خان اور انکے وزراء کہہ رہے ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک میں انکے منحرف اراکین. کووٹنگ Wusatullah Khan کو اجازت نہیں دی جائے گی یا ان کا ووٹ کاؤنٹ نہیں کیا جائے گا۔ یا پھر سپریم کورٹ سے پوچھا جارہا ہے کہ ان Wusatullah Khan کی .نا اہلی تا حیات ہوگی یا ایک دفعہ کی ہوگی؟۔ اس صورتحال میں اگر آپ ایک وزیر اعظم ہوتے یا ایک سیاستدان ہوتے تو آپ کیا کرتے؟۔


جواب: پہلی بات یہ ہے کہ میں. پان کھاتا، اسلئے کہ پان کھانے سے منہ بند رہتا ہے۔ دوسری بات میں یہ کہتا کہ میری پوری کابینہ ترجمان نہیں ۔ کابینہ میں. فلاں کی بات Wusatullah Khan ترجمان کے طور پر تسلیم کی جائے۔ تیسری بات میں یہ کرتا کہ ضروری نہیں کہ میں جس عہدے پر بیٹھا ہوں Wusatullah Khan تو میں .قانون دان بھی ہوں۔ یہ جن کا کام ہے انہیں ہی کرنا چاہیے۔ آپ کے پاس پوری لاء منسٹری ہے۔ پورا نیشنل اسمبلی کا سیکریٹیریٹ ہے۔ الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدالتیں ہیں۔

Wusatullah Khan

جو مسئلہ ہے متعلقہ ادارے کو بلا کر کہیں Wusatullah Khan کہ یہ جو شقیں ہیں آئین کی ان کا کیا مطلب ہے؟۔ اور یہ کس طرح لاگو ہوتی ہیں۔ جب وہ بریفنگ دیدیں Wusatullah Khan جو ٹیکنکل. اور پروفیشنل بریفنگ ہو اسکے بعد آپ اپنا منہ کھولیں۔ اور آپ کی جو بھی خواہش ہے بیان کرسکتے ہیں۔ یہاں ہوتا یہ ہے کہ پہلے آپ. نظریہ اضافیت پیش کردیتے ہیں اور اسکے بعد آپ کہتے ہیں کہ چونکہ میں نے یہ با ت کہہ دی ہے Wusatullah Khan لہٰذا اس کی وجہ سے یہ جو متعلقہ. شقیں ہیں ان کو سیدھا یا الٹا کیا جائے۔ اس طرح کام نہیں چلتا۔ مثلاً میں جتنا بھی طاقتور ہوں آج کی دنیا میں مگر آئین کو میں اپنی مرضی سے توڑ مروڑ تو نہیں کرسکتا۔

میری خواہش تو ہے کہ Wusatullah Khan میں بارہ صفحے. کی کتاب کہہ کر اسے پھاڑ دوں لیکن ایسا کر نہیں سکتا۔ اچھا جب میں کر نہیں سکتا تو متعلقہ Wusatullah Khan لوگوں سے پوچھ لوں کہ اس ایشو .پر آپ کی ٹیکنیکل رائے کیا ہے؟ اور پھر اس رائے کے حساب سے آپ عوام سے مخاطب Wusatullah Khan ہوں اور اپنے خیالات کو واضح کریں۔ اس وجہ .سے اس طرح کی فالتو کی الجھنیں ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے اپوزیشن بھی بھڑکتی ہے خود حکمران پارٹی بھی کنفیوژ ہوتی ہے۔ اور تماشائی دم سادھے کھڑے رہتے ہیں کہ پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے۔

Wusatullah Khan

سوال: آپ کے خیال میں27مارچ کو کیا ہونے والا ہے؟۔
جواب: مجھے نہیں معلوم۔ مجھے. لگتا ہے Wusatullah Khan اور شاید یہ میری خوش فہمی بھی ہوسکتی ہے کہ عین وقت پر یہ اجتماعات واپس ہوجائیں۔ کوئی راستہ نکل آئے، عدالت. ، اسٹیبلشمنٹ، بیچ کے لوگوں کی مدد سے، ورنہ تو شاید نابینا بھی جانتا ہے کہ کیا ہوسکتا ہے۔ تو میرا نہیں خیال کہ Wusatullah Khan اگر ایک بھی .عاقل آدمی موجود ہے خصوصاً حکومتی کیمپ میں وہ یہ چاہے گا کہ اس طرح کی نوبت آئے۔ اس Wusatullah Khan طرح کی نوبت آنے کا مطلب یہ ہے. کہ ساری کرسیاں الٹیں گی ، میزیں الٹ جائیں گی اور اسکے بعد آپ پھر روتے پھریں۔ پہلے اپنے سر پر آپ ڈنڈا مارتے ہیں اور پھر آپ. چیختے ہوئے گھومتے ہیں کہ یار میرے سر پر یہ گومڑا کس ڈنڈے سے نکلا ہے۔ حالانکہ ڈنڈا آپ نے ہی چلانے کی کوشش کی ہے۔

test

سوال: شیخ رشید کی باتوں کو سنجیدگی سے لیا جائے؟
جواب: شیخ رشید اپنی Wusatullah Khan باتوں کو خود سنجیدگی سے نہیں لیتے توہم کون ہوتے ہیں ان کی باتوں پر تبصرہ کرنے والے۔

سوال: یہ جو .ممبران نے پارٹی کی وفاداریاں تبدیل کی ہیں تو ان کے بارے میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟۔
جواب: یہ کوئی نئی بات ہے کیا؟ Wusatullah Khan حیرت. کیوں ہے ؟ کیا پاکستان میں پہلی بار ایسا ہوا ۔ کیا50کی دہائی میں ایسٹ پاکستان میں وفاداریاں. تبدیل نہیں ہوئی تھیں۔کیا ری پبلکن پارٹی مسلم لیگ کے پیٹ سے نہیں نکلی تھی۔

test

کیا کنونشن مسلم لیگ نہیں Wusatullah Khan بنی تھی .اور اس میں کون کون لوگ آگئے تھے۔ پھر جب کنونشن مسلم لیگ فوت ہوئی تو کوئی جماعت اسلامی میں چلا گیا کوئی .پیپلز پارٹی میں چلا گیا۔ کیا جو ضیاء الحق کے زمانے کی غیر جماعتی اسمبلی تھی اس میں مسلم لیگ نہیں پیدا ہوئی Wusatullah Khan تھی؟۔ اس .میں کون کون آیا اور کون کون نہیں گیا تھا۔ کیا پھر اسی مسلم لیگ نے تین یا چار بچے نہیں دئیے۔ کیا90کی دہائی میں آپریشن مڈ نائٹ. جیکال اور مہران گیٹ وغیرہ نہیں ہوا ۔ کیا2002میں مسلم لیگ ق نہیں بنی ۔ مجھ سے کیا پوچھ رہے ہیں ، سب اچھی طرح معلوم ہے۔

سوال: کیا وزیر اعظم Wusatullah Khan عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ تک مقابلہ کرنا چاہیے یا ایک دن پہلے استعفیٰ دے دینا چاہیے؟۔
جواب: خان صاحب کی جو نیچرہے وہ میرے خیال میں آخر تک فائٹ کریں گے۔ اور آخر تک فائٹ کا ایک فائدہ ہے اگر وہ شہید ہوتے ہیں تو پھر اس میں بھی فائدہ ہے۔

Wusatullah Khan

سوال: ان اسپورٹ مین اسپرٹ ہے شہید ہونے کے بعد؟۔
جواب: شہید ہونے کے بعد پھر تو. وہ کھل کھلا کر آجائیں گے لیکن یہاں مجھے حضرت علی کا ایک قول یاد آرہا ہے کہ کوئی فیصلہ تم غصے کی حالت میں نہ کرو۔ اسلئے. کہ غصہ کا اختتام پشیمانی پر ہوتا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ غصے کی حالت میں کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ، اور بیٹھے ہو تو لیٹ جاؤ، پانی وانی پیو۔ جب اعصاب بالکل نارمل ہوجائیں تو فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں آؤ۔ غصہ بہت بڑا دشمن ہے۔ خان صاحب اگر کسی. طرح اس کا کوئی حل دیکھ لیں کہ کس طرح اس پر قابو پایا جاسکتا ہے یا اس کو پاور کی شکل میں فریز کرکے ٹکڑوں. ٹکڑوں میں کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے تو یہ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کیلئے اچھا رہے گا۔

Wusatullah Khan

سوال: سیاستدان اس وقت صحیح .معنوں میں سیاستدان بنتے ہیں جب وہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لیتے ہیں۔ تو کیا عمران خان بھی اب صحیح معنوں میں سیاستدان بننے جارہے ہیں؟۔
جواب مثالیں دیں پچھلے. 75سال میں جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لی ہو۔ پھر سوال کا جواب دوں گا۔ کوئی دو نام بتادیں۔
مطیع اللہ جان: بھٹو نے فیلڈ مارشل کے دورمیں پارٹی قائم کی سڑکوں پر آکر ۔ (half-heartedکوشش کی۔ نتیجہ آپ نے. دیکھ لیا۔ وسعت اللہ )۔پھر99کے بعد نواز شریف نے بھیhalf-heartedکوشش کی ۔ کیاعمران خان کم. از کم نواز شریف کے لیول پر آجائیں گے اگر بھٹو نہ بھی سہی۔


جواب: نہیں معلوم کہ وہ آئیں. گے یا نہیں لیکن خان صاحب خان صاحب ہیں۔ ان کا اپنا اسٹائل ہے اور اپنے نمونے سے چیزوں کو ڈیل کرنے کی کرینگے اور اب اس میں. کتنے کامیاب یا ناکام ہوتے ہیں ابتدائی طور پر انہیں بیابان میں گھومنا پڑے گا۔ اسلئے کہ جو آدمی ساڑھے تین سال میں لیڈر آف. اپوزیشن سے پارلیمنٹ کے فلور پر ہاتھ ملانے کو تیار نہ ہو علیک سلیک کرنے پر تیار نہ ہو ، جو کہ منتقم مزاج ہو ، جو ایک گول جب .سیٹ کرلے تو ادھر اُدھر نہ دیکھے کہ باقی جو گول ہیں وہ اگنور ہورہے ہیں یا نہیں ہورہے تو یہ فراق بڑا مشکل گزرے گا۔.

test

سوال: جو کچھ2018کے الیکشن میں ہوا اس سب کا قومی مجرم کون ہے آپ کیا سمجھتے ہیں؟ کیا وہ قدرتی جمہوری عمل تھا؟۔
جواب: پہلے تو میں یہ طے کروں کہ. یہ جرم ہے۔ قدرتی جمہوری عمل اس ملک میں کب ہوا ؟۔ پھر تم سے یہی سوال پوچھوں گا۔70کی مثال دیتے ہیں نا۔70میں بھی کونسا. قدرتی جمہوری عمل ہوا۔ (اس وقت کے بھی کوئی مجرم تھے ، اِس وقت کے کون مجرم ہیں آپ کے خیال میں: مطیع اللہ جان)۔ یہ فوری طور پر طے نہیں ہوسکتا۔ جب پوراepisodeمکمل ہوجائیگا70کی طرح اسکے بعد. جو جواب ہوگا وہ آپ کو بھی شرمندگی سے بچائے گا اور. مجھے بھی۔ ابھی تو پارٹی چل رہی ہے بیچ پارٹی میں ہم کیسے کہہ دیں کہ اینڈ میں کون لُڑھکے گا اور کون اپنے پیروں پر کھڑا رہے گا۔ اتنی بے صبری اچھی نہیں ہوتی۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ اپریل 2022
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

امریکہ کی مخالفت کے نام پر جہاد سے جتنے افغانی. اور پاکستانی مارے گئے کیا اب سیاست کے نام پر یہی ہوگا؟

Jihad, Jihad, Jihad, Jihad, USA, USA, USA, Politics of Pakistan, Politics of Pakistan,, imported government, imported government, Pakistan Army, Pakistan Army

امریکہ کی مخالفت کے نام پر جہاد سے جتنے افغانی. اور پاکستانی مارے گئے کیا اب سیاست کے نام پر یہی ہوگا؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

امریکہ نے جنرل پرویز مشرف کی تائید سے افغانستان پر حملہ کیا تو پرویز مشرف Jihad کے صدارتی ریفرنڈم میں عمران خان پیش پیش تھا عدالت نے پرویز مشرف کو قانون سازی کی اجازت دی

Jihad

روس نے. یوکرین پر حملہ کرکے بہت سے لوگوں کو Jihad افغانستان ، عراق ، لیبیا اور شام کی طرح دربدر کردیا، امریکہ کے مظالم کیساتھ کھڑا ہونا. غلط تھا اورروس کے مظالم کیساتھ کھڑا ہونا بھی غلط ہی ہے

Jihad

سفید ہاتھی امریکہ اپنے مفادات کی خاطر دوغلی پالیسیاں اختیار کرتا ہے اور مسلمانوں. اور دوسرے انسانوں کو آپس میںوحشی جانوروں کی طرح لڑاتا ہے، اچھے انسان اور مسلمان بن جائیں!

اسلام کا چہرہ. مذہبی طبقات نے خود مسخ کرکے Jihad رکھ دیا ہے اگر اسلام کے درست نظام کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو ہندوستان، امریکہ ، اسرائیل ، یورپی یونین اور دنیا کیلئے قابل قبول ہوگا

Jihad

Test

پیپلزپارٹی دورِحکومت میں میموگیٹ. پرسپریم کورٹ نوازشریف آرمی چیف کیساتھ کالا کوٹ پہن کر گیا ۔وزیراعلیٰ پنجاب شہباز منتخب صدر زرداری کو. سڑکوں پر گھسیٹنے، پیٹ چاک اور چوکوں پر لٹکانے کی بات کرتا. تھا اور اب تحریک انصاف کے وزیر غلام سرور اور شہر یارآفریدی نے پارلیمنٹ پر خود. کش، مراد سعید نے غداروں کو ڈی چوک پر لٹکانے کی بات کردی۔

پہلے نوازشریف اور بینظیر بھٹو ایکدوسرے کوامریکہ واسرائیل. کا ایجنٹ کہ, تے تھے اور اب عمران خان اور. متحدہ اپوزیشن ایکدوسرے کو امریکہ و اسرائیل کا ایجنٹ کہتے ہیں۔ امریکی نام پر مذہبی ماراماری کے بعد سیاسی ماراماری ہوگی۔ قطری Jihad خط کے بعد مجھے کیوں نکالا؟ اور دھمکی خط کے بعد مجھے کیوں نکالا؟۔ قوم پرستانہ .جذبے میں لڑائی کی جان نہ تھی تو سیاسی نظریات اور مفادات کے نام پر ایکدوسرے کیخلاف. لہو گرمایاجارہا ہے۔ عمران خان نے سوشل میڈیا کے خلاف جو ذہن بنایا تھااب اسکے خود شکار ہیں۔
٭٭

Test

ہرکٹھ پتلی صحافی ماحول بناتا رہا کہ” آرمی چیف کو برطرف نہ کردیا جائے”۔ صابر شاکرنے کہاکہ ”بزدار کی برطرفی سے معاملات ٹھیک ہوگئے ”۔ شف شف کرتا عمران شفتالونہیں بول سکا۔ سینٹ میں اپوزیشن کی اکثریت کو اقلیت میں بدلا گیا تو اعلانیہ کہتے تھے کہ سینیٹرز ضمیر کے مطابق. فیصلہ کرینگے۔ عمران خان کے ہاتھ کے طوطے اُڑ ے تو فوج کو جانور کہہ دیا۔ اگر سنجرانی کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا دانہ عمران خان نہ چگتے اور Jihad جانبدار وں کو فارغ کیا ہوتا تو اپنی. حکومت کو اوچھے ہتھکنڈے سے ہٹانے اور اقتدار سے ہاتھ نہ دھلتے ۔

ایرانی گیس و پٹرول سے عوام کیلئے امریکہ کو ناراض کیا ہوتا تو قوم ساتھ کھڑی ہوتی۔ بھارت اور چین بھی ساتھ دیتے ۔جمعیت کے کارکن Jihad اسلام آباد نہ پہنچتے تو عمران خان نے ہنگامہ کھڑا کرتا تھا۔طوطا حمزہ شہباز ، مینا مریم نوازنے حالات کی نزاکت کو دیکھ کرPDMکو چھوڑ کر لاہور میں رُکنے. کا فیصلہ کردیا اوریہ مولانافضل الرحمن کیساتھ دھوکہ تھا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ اپریل 2022
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

قطری خط کے بعد دھمکی خط : ہاہاہاہاہاہا

Imran Khan, Threatening khat Imran Khan, Threatening khat Imran Khan,Threatening khat Imran Khan,,Threatening khat Imran Khan,,Threatening khat Imran Khan, PTI, PTI,PTI,PTI,PTI,PTI,PTI,PTI,PTI,PTI,PTI,PTI,PTI,PTI,PTI, PTI, Shahbaz Shareef, Shahbaz Shareef, Shahbaz Shareef, Shahbaz Shareef, Shahbaz Shareef, Shahbaz Shareef, Shahbaz Shareef, PDM, PDM, PDM, PDM, PDM, PDM, PDM, PDM, PDM

قطری خط کے بعد دھمکی خط : ہاہاہاہاہاہا Imran Khan
جمہوری شکنجوں کے نام پر ہیں بدترین ہتھکنڈے Imran Khan

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

شہبازشریف پہلے وزیراعظم بنتا Imran Khan ، مریم نواز نے کہا تھا کہ عمران خان کو شہید نہ ہونے دینگے ،PDMنے استعفیٰ نہ دیااورPTIنے دیدیا

زرداری کو باپ پارٹی کا بیٹا کہنے والی مریم نواز بھگوڑے باپ کی جگہ باپ کو باپ بنانے پر خوش ہے اسلئے ایاز صادق نے کہا: ”باپ کے کردارکادعویدار خالدمگسی عمر میں مجھ سے3 سال چھوٹا ہے”۔

Test

قطری خط کے بعد دھمکی خط آیا ۔مجھے کیوں نکالا کی رٹ اور چھانگا مانگا کی سیاست جاری ہے۔ عدالت پر حملہ اور سیاست پر آئی ایس آئی کے تحت قبضہ کرنیوالا آئینے میں اپنی شکل نہیں دیکھتا۔ ناظم جوکھیو کی بہیمانہ تشدد سے شہادت جیسے مسائل سے سرکاری اور سیاسی اشرافیہ کاکوئی سروکار نہیں ۔عمران خان نے فسٹ کزن طاہر القادری کیساتھ پارلیمنٹ پر حملہ،PTVپر قبضہ کیا۔27مارچ کو انصار الاسلام کے تیل میں بھگوئے ڈنڈوں .سے ڈرایا نہ ہوتاتو ہلچل مچادیتا۔ طاہرالقادری جہاز سے نہیں اُتر رہاتھا۔ عمران خان اقتدار کے کیکر پرچڑھ کر اُترنہیں رہاتھا۔ صحافی عارف حمید بھٹی نے پوچھا کہ عمران خان نے کس طرح جانے کا فیصلہ کیا؟۔

Test

خبروں میں کچھ صداقت تھی؟۔ توفواد چوہدری کا کہنا تھا کہBBCنے جھوٹ پھیلایا۔ عارف حمید نے پوچھا کہ یہ Imran Khan فیصلہ عمران خان نے کیا یا میرے جیسے کسی. دوست نے مشورہ دیا؟۔ فوادچوہدری کے لمبے آنوں اور زبانی اقرار نے اس کی تصدیق کردی کہ جبرہوا ہے اوراس کوقبول بھی کیا ہے۔ جنرل ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو،جنرل ضیاء الحق، نوازشریف، جنرل پرویز مشرف ، عمران خان کے بعد اب متحدہ اپوزیشن نے دائمی .حکومت کا خواب دیکھنا شروع کردیا مگراپنے ماضی سے کچھ بھی سبق نہیں سیکھا۔ تحریک انصاف اور دوسروں.کو عوام کی فکر ہے اور نہ عوام ان کی سیاسی لڑائیوں پرمررہی ہے۔ بقیہ صفحہ 3 نمبر4

Test

بقیہ… قطری خط کے بعد دھمکی خط ہاہا ہاہا……
اسلام اس ملک کی بنیاد ہے اور Imran Khan اسلام کو جتنا غیرفطری بنادیا گیا ہے. وہ ہمارے معاشرے کا ایک روگ ہے۔ مذہب کارڈ کواسی لئے سیاست میں گالی. سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان کی بنیاد سے لیکر آج تک عوام کیساتھ کھلواڑ ہوتا رہاہے۔ بڑی تعداد میں عوام کاگھر بار، کاروبار ، رشتہ. داروں، قبیلوں ، جانوں اور عزتوں کی قربانی دیکر ہجرت کرنا مذاق نہ تھا لیکن اسلام کے نام پر عاشق نامراد کی طرح صرف ایمانی. جذبوں کی خاک چھانتے رہے۔ جب تک ان بنیادی ایشوز کی طرف قوم کو متوجہ نہیں کیا جائے جن کی وجہ سے مسائل کا شکارہیں تو بات نہیں بنے گی۔


دھمکی خط کسی سیکرٹ ایکٹ کے. تحت لوگوں کو دکھانے کا نہیں لیکن تحریک لبیک کا معاہدہ قوم کو نہیں دکھایا گیا۔ قطری خط کی جگہ عدالت نے اقامہ پر فیصلہ دیدیا. تو بھی نوازشریف روتا پھر رہا تھا؟۔ پارلیمنٹ میں جو تحریری دستاویزات پڑھ کر سنائی تھی وہ دوبارہ پارلیمنٹ میں سنائیں ۔ قطری. خط اور اس کی حقیقت کو دیکھ لیں اگر پھر ثابت ہوجائے کہ نوازشریف کیساتھ زیادتی ہوئی ہے تو اس کا ازالہ ہونا چاہیے لیکن سچ کا پتہ چلناچاہیے۔

Threatening khat Imran Khan

_ وزیراعظم کا بہت بڑا حلف نامہ_
صدر عارف علوی کے بارے میں میڈیا پر اطلاعات تھیں. کہ وہ اپنے ضمیر اور منصوبے کے مطابق نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف سے حلف نہیں لیں گے۔سابق وزیراعظم عمران خان کا ذاتی اور جماعتی Imran Khan احسان تھا کہ عارف علوی کو صدر .مملکت بنایا گیا تھا۔ جب صدر مملکت عارف علوی. نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا تو وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اسمبلی توڑنے کی تجویز میں حلف کی پاسداری کی تھی؟۔ شہباز شریف سے Imran Khan حلف لینے کے بجائے بیماری کا بہانہ کیا تو کیا یہ اپنے حلف کی پاسداری ہے؟۔ ایسے حلف اٹھانے کا کوئی فائدہ ہے؟۔


حلف نامہ کے الفاظ اتنے گہرے. اور مشکل ہوتے ہیں کہ بسا اوقات حلف لینے والا اور جس سے حلف لیا جاتا ہے دونوں اس کا درست تلفظ پڑھنے سے بھی عاری ہوتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ حلف سے زیادہ شیروانی اور اچکن پر توجہ دی جاتی ہے۔ حلف کے اندر جو عہدلیا جاتا ہے ،اس میں آئین، قانون، دستور اور اسلام کی بار بار تکرار ہوتی. ہے اور اپنے ذاتی، گروہی اور ہر قسم کے انتقامی جذبے سے بالاتر ہوکر اپنے فرائض کے انجام دینے اور اپنی تمام تر صلاحیتوں .کو بروئے کار لانے کے جو جملے ادا کئے جاتے ہیں ،ان پر عمل در آمد تو بہت ہی دور کی بات ہے۔ ان کا تصور اور خیال بھی دل ودما غ سے بہت. مشکل سے گزرتا ہے اور بڑی بات یہ ہے کہ آئین وقانون اور اسلام کی آپس میں بھی کوئی مطابقت نہیں ہے۔.

Threatening khat Imran Khan

کیا آئین اسلامی جمہوری ہے؟
آئین پاکستان1973کو جماعتوں نے اکثریت سے بناڈالا تھا۔ لیکن اس آئین کو اسلام کے مطابق بنانے کی کوشش کس نے کی اور کب کی ہے؟ اور جب قرآن نے چور کی سزا ہاتھ کاٹنے کی رکھی ہے تو ہماریImran Khan اعلیٰ عدالتوں میں اس کیلئے کوئی گنجائش بھی ہے؟۔ عدالتیں چور کو جیل بھیج دیتی ہیں لیکن قرآن میںچور کے ہاتھ کاٹنے کاحکم ہے۔ تمام ارکان پارلیمنٹ، صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیراعلیٰ ، سپیکر، چیف جسٹس،آرمی چیف جب آئین کی پاسداری کا. حلف آئین ، قانون اور اسلام کے مطابق لیتے ہیں تو کیا انہیں قانون اور اسلام میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا ہے؟۔ جاہل ہوتے ہیں یا پھر وہ جان بوجھ کر جاہلیت، ہٹ دھرمی اور ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہیں؟۔


اگر ہمارا عدالتی نظام اسلام کے مطابق ہے تو سپریم کورٹ اور شریعت کورٹ جدا جدا کیوں ہیں؟۔ جب قانون اور اسلام میں تضادات ہیں تو آئین کو ٹھیک کرنے کی کوشش کس کی ذمہ داری ہے؟۔ پارلیمنٹ کے ممبروں میں اسلام اور قانون کی سمجھ بوجھ نہیں ہوتی ہے تو وہ اسلام کے مطابق قانون. سازی کس طرح سے کرسکتے ہیں؟۔ کفر اور اسلام کے درمیان ایک بیچ کی چیز منافقت ہے جو کفر سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔ ہمارا پورانظامImran Khan منافقانہ ہے اور اس کوکفرو نفاق سے نکال کراسلامی آئین اورقرآن وسنت کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے۔

Threatening khat Imran Khan

اسلامی اور عام قوانین میں فرق
قرآن وسنت میں قتل، اعضاء کاٹنے، چوری، زنا، زنابالجبر، فسادفی الارض ، خواتین پر بہتان اور جن چیزوں کی سزائیں واضح ہیں۔ پارلیمنٹ کا کام یہ تھا کہ ان پر جوں کے. توں قانون سازی کرکے عمل کیا جاتاتاکہ ریاست مدینہ کا ماڈل پاکستان کے ذریعے پوری دنیا کے بھی سامنے آجاتا اور ہمارا اشرافیہ اور حکمران طبقہ عوام کی دہلیز پر عدل وانصاف پہنچانے کا پابند ہوتا اور عوامی جذبات سے کھیلنے کے روز روز ڈرامے نہ ہوتے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج اور سول بیوروکریسی اپنے اپنے حدود میں اپنے اپنے فرائض انجام دیتے۔ طبلے بجابجا کر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی خوشامد اور مخالفت کی کوئی ضرورت بھی نہ پڑتی۔Imran Khan
جن چیزوں کا تعلق قانو

ن سے ہے تو جس طرح صلح حدیبیہ کا معاہدہ قانون تھا، یہود کیساتھ میثاق مدینہ قانون تھا۔ اسلام سے پہلے حلف الفضول اہل مکہ کا قانون تھا۔ آج بین الاقوامی ممالک. کیساتھ ہمارے روابط کے قوانین ہیں اور ہمارے مختلف ادارے اپنے سرکاری قوانین کے مطابق چل رہے ہیں اور دنیا میں جتنے سڑک کے. ٹول ٹیکس، ایکسپورٹ ایمپورٹ کے قوائد وضوابط اور قوانین ہیں وہ ہم بھی اسلام کے آئینے میں اپنے لئے بناسکتے ہیں اور جو داخلی. اور خارجہ پالیسی ریاست مدینہ نے بنائی تھی تو اس نے دنیا کی دو سپرطاقتوں ایران وروم کو شکست سے دوچار کیا تھا تو اس کے اصول عوامی تھے۔

Threatening khat Imran Khan

جیسے عوام ہیں ویسے ان پر حکمران ہیں
جس طرح چور، ڈاکو، سود خور، دھوکے باز اور حرام خور اپنے بال بچوں کے پالنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں اسی طرح سے ہماری حکومت وریاست نے پاکستان کی عوام پر احسانات. کرکے ان کی زندگی میں بہت زیادہ آسانیاں پیدا کی ہیں۔خود ہر قسم کی مشکلات اور سختیوں کا سامنا کرکے پاکستان کو ایک .ترقی یافتہ ملک سے بھی زیادہ اوج ثریا پر پہنچا دیا ہے۔ اشرافیہ نے بڑی کرپشن کی لیکن نچلے طبقے غریب غرباء تک جس کا جہاں تک بس چلا ہے اس نے اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق بہت مشکل سے اس ملک کو بخشا ہے۔ اسلئے حلف ناموں اور شخصیت کے کردار میں تضادات کا بھی پتہ نہیں چلتا ہے۔ Imran Khan


ہر آنے والی حکومت کے دور میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہوئی ہے اور ہر آنے والے نے پہلے سے بہت زیادہ سودی قرضہ لے کر ملک اور قوم کا بیڑہ غرق کرنے میں بہت زیادہ کردار. بھی ادا کیا ہے۔ سیدھے طریقے سے تلاشی دینے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں ہوتا ہے لیکن ڈرامے اور ڈھکوسلے سے دوسروں کی تلاشی. لینے میں ہر حکمران اور اپوزیشن قائدخوامخواہ میںپیش پیش ہوتا ہے۔ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے بھانڈ اور. مداری کا کردار ادا کرنے میں بھی سیاسی قیادت کو ذرا بھی شرم نہیں آتی ہے۔ جو ہواہے سو ہواہے لیکن آئندہ کیلئے بہت زبردست انقلابی اقدامات کی اب ضرورت ہے۔ Imran Khan

Threatening khat Imran Khan


دنیا کو اسلامی قانون قابلِ قبول ہوگا؟Imran Khan
سورۂ نور میں اللہ نے عورت پر بہتان لگانے کی سزا80کوڑے مقرر کی ۔ کیا اس سزا کو دنیا وحشیانہ اور جنگل کا قانون قرار دے سکتی ہے؟۔ اسکے اثرات دنیا پر کیا مرتب ہونگے؟ اور ا سکے ردِ عمل میں کن نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟۔کیا اس کی وجہ سے ہم معاشرہ پتھر کے زمانے میں دھکیل دیں گے؟۔

حضرت عائشہ پر بہتان لگایا گیا تھا تو سورۂ نور کی یہ آیات. نازل ہوئی تھیں اور نبی کریم ۖ سے مسلمانوں کا جذباتی لگاؤ آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے بھی .تھا اور آج بھی ہے۔ اس بہتان کے ردِ عمل میں جذبات کا سمندر اتنابھی موجزن ہوسکتا تھا کہ بہتان لگانے والے افراد کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے جلادیا .جاتا اور تاریخ میں ان لوگوں کو بدترین سزا دے کر عبرت کا نشان بنادیا جاتالیکن اللہ تعالیٰ نے ایک طرف عورتوں کو تحفظ فراہم کیا اور دوسری طرف بہتان لگانے والے کمزور لوگوں کو بھی تحفظ فراہم کیا۔ جبکہ ہماری عدالتوں میں طاقتور اور کمزورکو انصاف دینے کا معیار جدا جدا ہے۔ اسلام کا یہ قانون دنیا اور پاکستانی مسلمانوں میں ایک بہت بڑا انقلاب برپا کردے گا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ اپریل 2022
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

سیاست کاتقاضہ اور دستور کابڑا بنیادی نکتہ!

سیاست کاتقاضہ اور دستور کابڑا بنیادی نکتہ!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

معراج محمد خان مرحوم تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری تھے تو عمران خان پرویزمشرف کے ریفرینڈم کی حمایت اور معراج محمد خان مخالفت کررہے تھے اور اس دوران یا اس سے پہلے یا بعد میں میری ان سے ایک نشست ہوئی۔ میں نے عرض کیا کہ کہاں آپ اور کہاں عمران خان ؟۔ یہ عجیب اتفاق نہیں ؟۔ جس پر انہوں نے گردش دوران کی اس مجبوری پر اپنا سر سرور سے دھنا تھا۔ پھر وہ تحریک انصاف چھوڑ چکے تھے تو ایک بار پھر ان سے ملاقات کا شرف ملا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میری اماں پٹھان تھیں اور میں علماء حق کے پیروں کا غبار اپنے لئے سعادت سمجھتا ہوں لیکن علماء سو سے میری نہیں بنتی ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں آپ کی پارٹی کیلئے ایک دستور (آئین) لکھ دیتا ہوں۔ تحریک انصاف کا دستور بھی میں نے لکھا ہے اور خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کو میں نے بہت کارکن اور رہنما دئیے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کی مہربانی لیکن عمران خان نے بھی شاید اس دستور کو پڑھا اور سمجھا تک بھی نہ ہو۔ میرے پاس قرآن وسنت ہی کے ایسے آئینی نکات ہیں جس کو پڑھ اور سمجھ کر بہت بڑا انقلاب آسکتا ہے۔
جب لوگوں اور لوٹوںکو پیسوں سے خریدا جائے اور اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد کے بغیر چلنا دشوار ہو تو پھر پنجہ آزمائی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کافی عرصہ سے میرے ذہن میں تمام پارٹیوں کیلئے قرآن وسنت کے مشترکہ نکات اٹھانے پر اتفاق رائے کی خواہش تھی لیکن کسی پارٹی نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی ہے۔
عمران خان نے پارٹی اور ادارے بنانے کی بات کی تھی اور لوگ سمجھتے تھے کہ واقعی وہ پاکستان کو پولیس اسٹیٹ اور ایجنسی اسٹیٹس سے نکال کر ایک بہت بڑا صاف شفاف نظام بنائیں گے۔ لیکن پہلے اس نے معراج محمد خان ، جاویدہاشمی، بڑے وکیل رہنما اورجسٹس وجیہہ الدین وغیرہ کو کھودیا اور پھر اپنی نئی ٹیم سے بھی محروم ہوتے گئے۔ اب فوج کو نیوٹرل ہونے کے بعد خصی جانور کہنے کے چرچے ہیں۔ اتحادیوں سے بے نیاز اب اتنے نیاز مند ہوگئے ہیں کہ اتحادیوں کی خاک چاٹ رہے ہیں۔ جمہوریت بہترین انتقام کیساتھ ساتھ تزکیہ نفس کابھی بہت بڑا چارہ بن گیا ہے۔ اسلئے جمہوریت زندہ باد اور اسے برباد کرنے والے مردہ باد۔
جب مولانا فضل الرحمن نے جنرل سیکریٹری کی جگہ جمعیت علماء اسلام کا امیر بننا چاہا تو پہلے امیر کی جماعت میں کوئی زیادہ حیثیت نہیں تھی۔اسلئے کہ جماعت کاقائد جنرل سیکریٹری کہلاتا تھا۔ جیسے پاکستان میں وزیراعظم کی حیثیت ہے اور صدر کی اب کوئی حیثیت نہیں ہے اور جب صدر مضبوط ہوتا تھا تو پھر وزیراعظم کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی تھی۔ جیسے پرویزمشرف اور جنرل ضیاء الحق دور میں۔
قرآن وسنت اور سیرت وتاریخ کی کتابوں کا معالعہ ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر فاروق اعظم نے نبیۖ کے حوالے سے کئی باتوں میں اپوزیشن جیسا کردار ادا کیا اور نبیۖ نے ان کی حوصلہ شکنی نہیں حوصلہ افزائی فرمائی تھی اور اللہ نے بھی قرآن میں حوصلہ افزائی کی آیات نازل کیں۔ نبیۖ اگر اپنے باصلاحیت ساتھیوں کو کنارے لگادیتے تو قیصر وکسریٰ کی سپر طاقتوں کو فتح کرنا ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ جب قائد اپنا بیٹا، بیٹی، بھائی ، بہن اور اپنے قریبی عزیز کوکھڑا کردے یا پھر اپنا وزن کسی ایک کٹھ پتلی کے پلڑے میں ڈال دے تو کارکنوں کا برین واش کرنا بھی جمہوریت کی نفی ہے۔ مشاورت کا وسیع میدان ہو اور جس کی اکثریت ثابت ہو، اس میں خفیہ رائے شماری بھی اسلئے ہوتی ہے تاکہ کوئی کسی کا لحاظ رکھنے کے بجائے اپنی مخلصانہ رائے سے کسی کا انتخاب کرے۔
مختلف پارٹیوں میں بہت مخلص سیاسی رہنما اور کارکن ہیں لیکن ان کی کوئی بات چلتی نہیں ہے۔ اگر ایک ایسی پارٹی تشکیل دی جائے جس میں انتخابات کی روح کے مطابق کارکنوں میں الیکشن ہوجائے اور پھر مختلف سطح پر قیادتیں ابھر کر آجائیں تو ایک مضبوط پارٹی وجود میں آسکتی ہے اور اس کے مقابلے میں مختلف پارٹیاں بھی اپنے رویوں کو درست کرکے میدان میں کھیل سکتی ہیں۔ عوام کو کس قسم کی تکالیف کا سامنا ہے؟۔ روٹی ، کپڑا ، مکان کا نعرہ لگانے اور اسٹیبلشمنٹ کی زیادہ سے زیادہ خدمت اور حمایت کرنے سے بات ابھی کافی آگے نکل چکی ہے اور عوام کو مایوسی سے نکالنے کیلئے ان کے ضمیر خریدکر تسلیاں دینے سے کام بالکل بھی نہیں چلے گا۔ پارٹی بنانے کا طریقۂ کار اور ایک ایسے منشور کی ضرورت ہے کہ جس سے عوام کو حکومت میں آنے سے پہلے بھی بہت زیادہ ریلیف مل جائے۔
حضرت عمر نے جب یہ قانون بنایا کہ عورت کا حق مہر کم ہوگا تو ایک عورت نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ تم کون ہوتے ہو۔ ہمارے لئے قانون بنانے والے؟۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے کوئی قانون نہیں بنایا۔ حسن نثار معروف صحافی نے کہا کہ” الماس بوبی ( لاہور میںہجڑوں کی معروف شخصیت) کے پیٹ میں رسولی ہوسکتی ہے لیکن بچہ نہیں ہوسکتا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد کیا ہوگا؟۔ اگر کامیاب ہوجائے تو اپوزیشن کے آزمائے ہوئے قائدین سے کیا انقلاب کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ سب ایک چیز ہیں۔ جب امریکہ سے واشروم کی سینٹری کا سامان آیا تھا تو بنگال مشرقی پاکستان نے کہا کہ کچھ ہمیں بھی دینا ۔ جس پر ہمارے والے ہنستے تھے کہ تم نے واشروم کی سینٹری کو کیا کرنا ہے؟۔ باتھ روم کی ضرورت صرف ہمیں ہے۔ تمہارے ہاں کھیتی اور جنگلات ہیں وہاں فارغ ہونے کیلئے چلے جایا کرو۔ آج وہ کہاں کھڑے ہیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔ بہت زیادہ وہ ہم سے آگے نکل چکے ہیں۔ ہمارے پاس ایک فوج کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور ہماری فوج کو دنیا میں نمبر ایک مانا جاتا ہے۔ باقی ہر چیز میں تنزلی ہورہی ہے۔ فوج کو بالکل بھی غیرجانبدار نہیں رہنا چاہیے کیونکہ ابھی ہم اس قابل نہیں ہیں۔ جب ہم اس قابل بن جائیں گے تو پھر اس کو غیرجانبدار بننا چاہیے”۔
حسن نثار ایک جذباتی اور فلاسفر ٹائپ کے اچھے صحافی ہیں۔ کسی دور میں وہ الطاف حسین، آصف علی زردای کی بھی تعریف کرتے تھے۔ پیپلزپارٹی کیلئے اس نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں جیل بھی کاٹی ہے۔ عمران خان کی بہت تعریف اور بڑی مذمت بھی کرچکے ہیں۔ ایک طبقے کا خیال یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش نے اپنی جان اس فوج سے چھڑائی ہے تبھی تو اس نے ترقی کی ہے۔ اگر وہ اپنی کمزور فوج سے ترقی کرسکتے ہیں تو ہم ایک مضبوط فوج کے سائے میں محرومیاں کیوں دیکھتے رہ جائیں۔ بلوچستان، پختونخواہ اور سندھ میں پہلے بھی شعور تھا اور اب تو پنجا ب بھی جاگ چکاہے۔ ایسے صحافیوں کے بارے میں اب لوگوں کی رائے یہ بن رہی ہے کہ الماس بوبی بچہ نہیں جن سکتی ہے لیکن بعض لوگوں کو ان کی ماؤں نے پیچھے کے راستے سے جن لیا ہے۔ یکطرفہ بولنے پر وہ صحافی نہیں رہتا ۔مظہر عباس معروف صحافی نے کہا کہ ” صحافی نظر آنا چاہیے کہ وہ غیرجانبدار ہے”۔
نبیۖ نے سود کے حرام ہونے کی آیات کے نزول کے بعد کاشتکاروں کو بٹائی، کرایہ اور ٹھیکے پر زمین دینے کو سود قرار دے دیا۔ فرمایا کہ مفت زمین دو، یا پھر اپنے پاس فارغ رکھ لو۔ اس سے مدینہ میں بہت بڑا انقلاب برپا ہوگیا ،جس نے مشرق ومغرب کی سپرطاقتوں ایران وروم کو فتح کرنے میں بھرپور کردارا دا کیا تھا۔ مدینہ کے محنت کش غریب لوگوں میں قوت خرید پیدا ہوگئی تو مدینہ کے بازار عالمی منڈی کا سماں پیش کررہے تھے۔ تاجر کہتے تھے کہ مٹی میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو سونا بن جاتا ہے۔ غزوہ بدر میں 70دشمن قیدی بنائے گئے لیکن کسی نے بھی ان کو غلام بنانے کی تجویز پیش نہیں کی۔ اور نہ ہی دشمنوں سے غلام کا کام لیا جاسکتا تھا۔ کلبھوشن اور ابھی نندن کو کون اپنے گھرمیں غلام کی طرح رکھ سکتا تھا؟۔
مزارعت ہی غلام اور لونڈیاں بنانے کا واحد نظام تھا۔ جس کی جڑ ہی اسلام نے کاٹ دی تھی۔ چاروں فقہ کے امام حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل اس بات پر متفق تھے کہ مزارعت سود اور حرام ہے لیکن اپنے اپنے دور کے بعض مفتی اعظم اور شیخ الاسلام نے جس طرح آج سودی نظام کو جائز قرار دیا ہے جس سے کارخانے، فیکٹریاں، ملیں اور کمپنیاں غلام بنائے جاتے ہیں بلکہ پورے پورے ملک بھی غلام بنائے جاتے ہیں اور قرآنی آیات اور دوسرے علماء ومفتیان کے فتوؤں کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ اسی طرح سے وقت کیساتھ ساتھ مزارعت کو بھی جوازفراہم کیا گیا تھا۔ اگر قرآن واحادیث اور ائمہ کے متفقہ فتوؤں سے انحراف نہ برتا جاتا تو غلامی کے نظام کو ختم کرنے کاکریڈٹ اسلام کو جاتا۔ آج روس اس پر ہمارے ساتھ کھڑا ہوجائے گا۔جاگیردار اگر کاشتکاروں اور مزارعین کو مفت زمین نہیں دیں تو ان کا ووٹ بھی قابلِ قبول نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ مجبور اور غلام کی اپنی کوئی رائے بھی نہیں ہوتی ہے۔ جب لوگ خوشحال ہوکر زمینوں کی کاشت کو چھوڑ رہے تھے تو یہ المیہ بن رہاتھا کہ پھر اناج کا کیا بنے گا۔ آخر کار غیر مسلموں کو یہ کام سپرد کردیا گیا تھا۔ مسلمان زکوٰة وعشر کے نام پر حکومت کو کچھ حصہ دیتے تھے اور غیرمسلم ٹیکس وجزیہ کے نام سے وہی کچھ دیتے تھے۔ جاگیردار آج اپنی زمینیں خود کاشت کرنا شروع کریں تو اللہ کے ولی اور حبیب بن جائیں گے۔ نبیۖ نے فرمایا تھا کہ الکاسب حبیب اللہ ”محنت کرنے والا اللہ کا حبیب ہے”۔بہت لوگوں کیلئے کاشتکاری کے ذریعے سے نہ صرف روزی کے دروازے کھل سکتے ہیں بلکہ دنیا کی تقدیر بھی بدلی جاسکتی ہے۔ امیر اور سرمایہ دار تو کام کریں گے نہیں۔
حضرت عمر نے اپنے دور میں پابندی لگائی تھی کہ کوئی اپنا پیشہ نہیں چھوڑے گا تاکہ معاشرے میں کسی چیز کی کمی نہ ہو اور ترقی کا سفر جاری رہے۔ حضرت داؤد بھی زرے بنانے کی صنعت سے وابستہ تھے۔ اگر نوازشریف اور شہبازشریف کو جرنیل سیاست میں لانے کے بجائے اتفاق ٹریکٹر بنانے دیتے تو آج وہ ترقی کرکے پورے ملک میں ریل گاڑی اور جہاز بنانے کے کارخانے بھی بناتے اور ملک وقوم کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں زبردست کردار ادا کرتے۔ اسی طرح آصف زرداری ، عمران خان اور مختلف محکموں سے ریٹائرڈ ہونے والے حضرات بھی سیاست میں آنے کی جگہ اپنی اپنی فیلڈ میں کام کرتے۔ لیکن سیاسی جماعتوں نے اپنے باصلاحیت کارکنوں کو کنارے لگاکر نالائقوں کیلئے دروازہ کھولنے میں اپنا کردار اداکیا اور طلبہ تنظیموں کی سیاست پر پابندی لگائی گئی۔
اٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگادو کاخِ امراء کے درو دیوار ہلادو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہرخوشہ گندم کو جلادو
مفت میں زمینیں کاشت کیلئے مل جائیں گی تو بڑے بڑے جاگیرداروں کی ضرورت نہیں رہے گی کہ وہ پانی پر اپنا ناجائز قبضہ جمائیں۔ عدل وانصاف سے پانی کی تقسیم کا مسئلہ حل ہوگا۔ پھر اتنے باغات اُگائے جائیں گے کہ پاکستان کی تمام زمینیں باغ ہی باغ اور جنت کا منظر پیش کریں گی اور اس میں محنت مزدوری کرنے والوں کو بھی روز گار ملے گا۔ جب کھیت میں پوری پوری محنت کا پوراپورا صلہ مل جائے گا تو مزدور کی دیہاڑی بھی خود بخود دگنی ہوجائے گی۔ پھر سب سے پہلے سودی قرضوں کا خاتمہ ضروری ہوگا کیونکہ ہماری ریاست کی آمدن سے بھی زیادہ پیسے سودکی ادائیگی میں جارہے ہیں۔ جب محنت کشوں کو درست معاوضہ ملے گا تو وہ تعلیم وتربیت کیلئے اپنے بچے بھیجنا شروع کریں گے جن سے بہت ہی لائق قسم کے ڈاکٹر، فوجی، سائنسدان اور ہر شعبے میں مہارت رکھنے والے پیدا ہوںگے۔ نالائق سیاستدانوں ، ججوں، جرنیلوں اور افسروں کے نالائق بچوں کو کھیتی باڑی اور محنت مزدوری میں مزہ بھی آئے گا اور صحت بھی اچھی رہے گی۔
سفارش کی جگہ میرٹ اور افراتفری کی جگہ ڈسپلن اس قوم کا پھر شعار بن سکتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے یہ فلسفہ پیش کیا تھا کہ ” جو قومیں اپنے ان افراد کو محنت مزدروی کے کام پر لگاتی ہیں جن میں ذہنی صلاحیت ہوتی ہے اور جن میں ذہنی صلاحیت نہیں ہوتی ہے ان کو دماغی کام پر لگادیتی ہیں تو وہ تباہ ہوجاتی ہیں۔ اور جو لوگ ذہنی صلاحیتوں سے مالامال لوگوں کو ذہنی صلاحیتوں کی ذمہ داریوں پر لگادیتی ہیں اور ہاتھ پیر کی صلاحیت رکھنے والوں کو مزدوری اور ہاتھ پیروں کے کام پرلگایا جائے تو وہ قوم بہت ترقی کرتی ہے”۔ جب تک قوم کو مواقع فراہم نہ کئے جائیں تو ایسا کرنا اگرچہ ناممکن نہیں ہے مگر بہت ہی مشکل ضرور ہے۔ جب زمینداری کے مسئلے میں اسلام کے اصل حکم کو عملی جامہ پہنایا جائے تو پھر بہت ہی تیزی کیساتھ معاشرے میں محنت کشوں کی کایا پلٹ جائے گی۔ معیشت کیلئے یہ ایک بہت بڑا بنیادی فلسفہ ہے اور پاکستان میں اس پر عمل کرنابڑا آسان ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اسلام میں نہ صرف جمہوریت کی گنجائش ہے بلکہ دنیا میں جمہوریت کا حقیقی سہرا قرآن وسنت اور اسلام کے سرپر ہے!

اسلام میں نہ صرف جمہوریت کی گنجائش ہے بلکہ دنیا میں جمہوریت کا حقیقی سہرا قرآن وسنت اور اسلام کے سرپر ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جب جنرل ضیاء نے مارشل لاء لگایا اور پھر کچھ عرصہ بعد جنرل ضیاء الحق کے مخالفین نے تحریک شروع کردی تو لاہور میں دیوبندی مکتبۂ فکر کے بہت بڑے عالم دین مولانا محمد مالک کاندھلوی نے کہا تھا کہ ” پہلا مارشل لاء حضرت ابوبکر صدیق نے لگایا تھا”۔ موصوف کے والد مولانا ادریس کاندھلوی بڑے درجے کے عالم تھے لیکن اتنے سادہ لوح تھے کہ بیٹا محمد مالک اپنے باپ مولانا ادریس سے سائیکل چلانے کیلئے پیٹرول کے نام پر پیسے لیتا تھا۔ ملاجیون سے لیکر بہت بڑے بڑے علماء کی سادہ لوحی کے قصے زبان زد عام ہیں، اسلئے ملادوپیازہ کے نام سے بھی لطیفوں کی کتابیں مارکیٹ کی زینت بنتی رہی ہیں۔
اسلام کا بنیادی کردار یہی تھا کہ اولی الامر سے قرآن نے اختلاف کی گنجائش رکھی ہے جس سے جمہوری ذہن کا راستہ ہموار ہواہے۔ قرآن میں حضرت موسیٰ کا بہت زیادہ ذکر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر سے اختلاف کیا تھا۔ حضرت موسیٰ نے حضرت ہارون کی داڑھی اور سر کے بال پکڑے تھے اور فرشتوں نے آدم کو زمین کا خلیفہ بنانے پر اعتراض اٹھایا کہ زمین میںخون بہائے گا اور فساد پھیلائے گا۔ جب اسلام نے اختلاف کے تقدس کا دنیا میں ڈنکا بجادیا تو اختلاف کو جمہوریت کا حسن قرار دیا جانے لگا۔ رسول اللہ ۖ کی سیرت طیبہ اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ جب نبی ۖ نے بدر کے قیدیوں پر مشاورت فرمائی تو اکثریت کی رائے فدیہ لیکر چھوڑ دینے کی تھی اور حضرت عمر اور حضرت سعد نے مشورہ دیا کہ ان کو قتل کردیا جائے۔ نبیۖ نے اکثریت کا مشورہ مان کر فدیہ لیکر چھوڑ دینے کا فیصلہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے اس فیصلے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کی تدبیر فرمائی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ قرآن میں اقلیت کے مشورے کی زبردست الفاظ میں تائید بھی فرمادی تھی، جس کی درست تفسیر کرنے سے ہمارے علماء بالکل قاصر نظر آتے ہیں اور اول فول باتیں بکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک طرف ان آیات کے ذریعے سے اکثریت کی رائے کو صائب اختلاف کے باوجود بھی قابلِ عمل ٹھہرا دیا تھا تاکہ قیامت تک ایک طرف کثرت رائے اور جمہوریت کی بنیاد پڑ جائے اور دوسری طرف افراد کے اختلاف کو اقلیت کے باوجود بھی بالکل کم اہمیت کا حامل نہ سمجھا جائے۔ بلکہ اس بات کا سوفیصد امکان رہے کہ اقلیت کی بات درست اور اکثریت کی بات غلط بھی ہوسکتی ہے۔ قرآن میں سیرت النبیۖ کے ذریعے بہترین جمہوریت کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ شیعوں کے اسلام اور نظریۂ امامت میں جمہورکی گنجائش نہیں ہے اسلئے اپنے بارہ اماموں کے مثبت کردار کو بھی منفی پروپیگنڈے سے بڑا بدنام کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ائمہ اہل بیت کے مثبت اور صائب کردار نے اُمت کو جمہوری مزاج پرقائم رکھنے کا کردار اداکیا۔ اگر حضرت علی چاہتے تو ابوسفیان کی پیشکش قبول کرکے حضرت ابوبکر کی خلافت کو ناکام بناتے۔ پھر حضرت عمر کی نامزدگی اور حضرت عثمان کی مختصر شوریٰ میں کثرت رائے کے ذریعے انتخاب بھی ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ حضرت علی کے کردار پر ماتم کرکے سینہ کوبی اور زنجیر زنی کی جگہ فخر کرنے کی ضرورت ہے۔ علامہ سیدجوادحسین نقوی ایک کٹر شیعہ ہیں اور اس طرح کے دیگر بہت سارے شیعہ علماء بھی ہیں جو ائمہ اہل بیت کے درست تشخص کو اجاگر کرکے ان اہل تشیع کی اصلاح کررہے ہیں جن کو جہالتوں نے بگاڑ دیا ہے۔ تاریخ کی کتابوں سے شیعہ اور خوارج کا ایک دوسرے کے خلاف استدلال پکڑنے میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا ایک دوسرے کے خلاف نقصان ہے۔ ہمارے ایک دوست کے دوست فرمان ایک کٹر شیعہ ہیں۔ ایک طرف وہ کہتا ہے کہ حضرت خدیجہ بالکل کنواری اور جوان تھیں جب نبیۖ نے شادی کی تھی اورچاروں بیٹیاں حضرت خدیجہ سے تھیں،کیونکہ یہ نبیۖ کی شان کے خلاف ہے کہ خود کنوارے ہوں اور کسی بیوہ سے شادی کریں۔ دوسری طرف اس کو جب بتایا کہ شیعوں کا یہ مؤقف ہے کہ حضرت فاطمہ کے علاوہ نبیۖ کی اور کوئی حقیقی صاحبزادی نہیں تھی تواس نے کہا کہ یہ شیعوں کا مؤقف نہیں ہے۔
اہل سنت اور اہل تشیع دونوں اپنے بادام اور اخروٹ کے مغز کو چھوڑ کرچھلکوں کیساتھ کھیل رہے ہیں۔ صحابہ کرام اور اہل بیت عظام دین کے مغز پر قائم تھے اور لوگ فرقہ فرقہ اور چھلکا چھلکا کھیل رہے ہیں اور فرقہ واریت کی آگ کوانہی چھلکوں سے بھڑکارہے ہیں۔ میں جاہل خطیبوں کی جہالت بھری خطابت پر اپنا وقت ضائع نہیں کرتا لیکن ساہیوال کے ایک گاؤں میں گیا تھا اور وہاں میرے ساتھ مولانا منظور احمد نے بھی خطاب کیا تھا۔ان کا یوٹیوب پر نام دیکھ کر سمجھنے کی کوشش کی کہ یہ وہی صاحب ہیں یا کوئی اور ہیں؟۔ اس نے تقریر میں صحابہ کرام کے متعلق قرآنی آیات سے زبردست استدلال پیش کیا اور پھر ان کے اتباع پر اپنے لئے بھی خوشخبری کی بات قرآن سے سنائی اور ساتھ میں قرآن کے الفاظ کو بھی بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا کہ ” اے اللہ ! جو ہم سے پہلے ایمان کے ساتھ گزر چکے ہیں۔ ان کیلئے ہمارے دل میں کھوٹ پیدا نہ فرما”۔ پھر آخر میں عبادت گزار لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے چوہدریوں کی بھی تعریف کی جن کی مدد سے مساجد اور مدارس میں علماء وطلبہ کی روزی روٹی چل رہی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ”ان چوہدری کی مخالفت کرکے نمک حرام مت بنو”۔
پھر علامہ جعفر حسین قریشی پر نظر پڑی تو اس کی تقریر بھی سن لی جو بہت زیادہ پیاری لگی۔ جب میں نے اوکاڑہ میں تقریر کی تھی تو نعت خوانوں کی نعتوں میں اہل سنت کا رنگ نظر نہیں آرہا تھا۔ علامہ جعفر حسین قریشی نے اپنوں کا یہ رنگ دیکھ کر فرمایا ہے کہ یہ ہماری کمزوری ہے۔ جس کی تقریر کے ایک حصے کو سنیوںاور دوسرے حصے کو شیعوں نے کاٹ پیٹ کر لگایا ہے۔ میری تقریر کے بعد سامعین میں سے کسی نے پوچھا تھا کہ یہ شیعہ تو نہیں؟۔ جبکہ مجھے ان میں سنیت کا احساس اجاگر ہونے پر خوشی ہوئی۔ کسی محلہ دار اہل تشیع نے میری تقریر سن کر کہا تھا کہ پہلی مرتبہ کسی اچھے علمی شعور والے بندے کو لائے ہو۔ اقبال نے پنجابی مسلمان کے نام سے خوب لکھا ہے کہ ”تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا” ۔
مولانا منظور احمد نے میری تقریر کے بعد جلسہ عام سے خطاب میں کہا تھا کہ ”میں نے آج تک ایسے علمی نکات نہیں سنے ہیں لیکن عوام کو یہ باتیں سمجھ میں مشکل سے آتی ہیںاسلئے کہ وہ خطیبوں کی سریلی آوازوں کی زبان سمجھتے ہیں”۔
علامہ عابد رضاعابدی کینیڈا سے سوشل میڈیا پر اہل سنت کی کتابوں سے بڑا مواد پیش کررہے ہیں اور اگر وہ ایک مہربانی کریں کہ حضرت علی کی بہن حضرت ام ہانی کی پوری کہانی بھی اہل تشیع کی کتب سے پیش کردیں ۔ جس نے ہجرت نہیں کی تھی اور حضرت علی فتح مکہ کے بعد اس کے شوہر کو قتل کرنا چاہتے تھے ۔ پھر اس نے نبیۖ سے اپنے شوہر کیلئے پناہ لی تھی۔ جو اولین مسلمانوں میں سے تھیں۔ جب نبیۖ نے ان کے شوہر کے جانے کے بعد نکاح کی دعوت دی تو اس نے اپنے مشرک شوہر سے محبت اور اپنے بچوں کی خاطر انکار کردیا۔ نبیۖ نے اس پر ان کی تعریف کی۔حضرت ام ہانی کا رشتہ حضرت ابوطالب سے پہلے بھی نبیۖ نے مانگا تھا لیکن حضرت ابوطالب نے اپنی لڑکی کا رشتہ نہیں دیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ” اے نبی! ہم نے آپ کیلئے حلال کیا ہے ان چچا اور خالہ کی بیٹیوں کو جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے”۔ حضرت ام ہانی کا نام علامہ بدرالدین عینی نے نبیۖ کی ازواج میں داخل کیا ہے۔ حالانکہ اللہ نے قرآن میں نبیۖ کو ام ہانی سے رشتے کو منع کرنے کے بعد دوسری بھی تمام خواتین سے رشتہ کرنے کو منع کردیا اور پھر ایگریمنٹ کی اجازت دیدی۔ قرآن کی ان آیات اور حضرت علی اور آپ کی بہن حضرت ام ہانی کے واقعہ سے اہل تشیع کی کتابیں ساقط نہیں ہوں گی اور اس سے اہل تشیع کے لوگوں میں بہت شعوروآگہی اور علم وفہم پھیلے گا۔ ان کے آپس کے جھگڑے بھی اس سے ختم ہوجائیں گے۔ اماموں نے اپنی ساری زندگی جمہوری طرز پر گزاردی لیکن کاروباری چالاک لوگوں نے مذہب کو دھندہ بناکر اپنا اُلو بھی سیدھا کرنا تھا۔
جمہوریت کی اس سے بڑھ کر کیا مثال ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو منع کردیا کہ مشرکات سے نکاح نہ کریں ،ان سے مؤمنہ لونڈیاں اچھی ہیں اگرچہ وہ مشرکات تمہیں بھلی لگیں اور مؤمنات کا مشرکوں سے نکاح نہ کریں،ان سے غلام مؤمن اچھے ہیں اگرچہ وہ مشرک تمہیں بھلے لگیں۔ پھر اللہ نے ہجرت کا حکم دیا۔ حضرت ام ہانی نے اپنے مشرک شوہر سے اپنا نکاح برقرار رکھا اور دین کے حکم پر ہجرت بھی نہیں کی لیکن اس کے باوجود ان کی عزت وتوقیر کرنا ایک فرض ہے اور قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کی درست توجیہات کو توہین و بے توقیری سے مشہور کرنا انتہائی غلط اور بددیانتی ہے۔ ایک شیعہ شاید یہ تصور بھی نہیں کرسکتا ہے کہ حضرت علی نے اپنے مشرک بہنونی کو قتل کرنے کا کوئی پروگرام بنایا ہو اور پھر نبیۖ نے حضرت ام ہانی کی سفارش پر منع کیا ہو۔ یہ ان کو امام کی عصمت کے خلاف لگتا ہے۔ وہ اپنے مؤقف کو اپنی کتابوں سے پیش کریں تو ہم وہ شائع کر دیں گے۔ قرآن میں اولی الامر کیساتھ اختلاف کی گنجائش ہے۔ نبیۖ کی سیرت اور قرآن کا یہ معجزہ تھا کہ اولی الامر کی حیثیت سے نبیۖ سے صحابہ کرام نے اختلاف کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ سورۂ مجادلہ، بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے اور دیگر مسائل پر قرآنی سورتوں میں واضح آیات ہیں۔ جب نبیۖ سے بھی قرآن میں اختلاف کی گنجائش کا واضح ذکر ہے تو کوئی اولی الامر کیسے ایسا ہوسکتا ہے کہ جس سے اختلاف کی گنجائش نہیں ہو؟۔ حالانکہ قرآنی آیت میں اولی الامر کیساتھ اختلاف کی گنجائش بالکل زبردست طریقے سے واضح کی گئی ہے۔
نبیۖ سے حدیث قرطاس کے معاملے پر حضرت عمر کے اختلاف کا واقعہ قرآن اور سیرت النبی میں کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ قرآن وسنت نے قیامت تک جمہوریت کی روح عالم انسانیت کو سکھادی ہے۔ جمہوریت میں سب سے بڑا فائدہ رائے کی آزادی اور ووٹ کے حق کا آزادانہ استعمال یقینی بنانا ہے۔
آج نام نہاد اور بے روح کاروباری جمہوریت کا یہ حال بن چکاہے کہ قوم ، حکومت، ریاست اور سیاسی پارٹیوں کے درمیان بدترین تصادم کا خطرہ موجود ہے۔ ایک حدیث ہے کہ اتبعوا السواد الاعظم ” اعظم جماعت کا اتباع کرو” جس سے اکثریت کے پیچھے چلنے کیلئے سمجھا جاتا ہے۔ اچھے علماء نے لکھا ہے کہ ”اس سے مراد اکثریت نہیں کیونکہ عربی میں اقل کے مقابل اکثر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس سے مراد زیادہ عظمت والی جماعت ہے”۔ وزیروں کی اکثریت ہوتی ہے لیکن وزیراعظم ایک ہی ہوتا ہے اور ایک ہی کی بات مانی جاتی ہے۔
جب مختلف پارٹیوں اور جماعتوں میں ہر ایک کو اپنے اپنے ذہن کے مطابق عظمت والی جماعت کو ووٹ دینے اور اس کے پیچھے چلنے کی آزادی ہو تو یہی اس جمہوری نظام کو کہتے ہیں جو موجودہ دور میں رائج ہے۔ اسلام میں جمہوریت نہیں ہوتی تو مختلف فرقے بھی نہیں بن سکتے تھے اور فرقوں پر پابندی لگائی جاتی تو اس کو مذہبی آزادی اور جمہوریت کی روح کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کاروبار ی شکل نہ اختیار کرتی اور مذہب وسیاست کے نام پر کاروبار نہ ہوتا تو پاکستان سے انسانیت کیلئے عالمی انقلاب کا آغاز ہونے میں دیر نہ لگتی۔
شیعہ سنی افکار اور سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن جب تک ایک مضبوط بیانیہ حکومت، اپوزیشن، ریاست اور عوام کے سامنے نہیں آتا ہے تو یہ ملک وقوم تباہی کی طرف بہت تیزی سے جارہے ہیں۔ تحریک انصاف کے اندر کا بیانیہ شروع سے یہ تھا کہ ہماری35سیٹیں اسٹیبلشمنٹ نے ہمیں ہروائی ہیں اسلئے کہ اگر ہم اتحادی بیساکھیوں کے بغیرحکومت بناتے تو پھر اسٹیبلشمنٹ سے ہماری محتاجی ختم ہوجاتی۔ جن میں ایک سیٹ وہ فیصل جاوید کے مقابلے میں خواجہ آصف کی بتاتے ہیں۔35پنچر سے بڑا معاملہ یہی ہے۔ دنیا دیکھ رہی تھی کہ اتحادیوں کے سہارے کھڑی تحریک انصاف کی حکومت ایک اشارے سے گر سکتی ہے اور PDMنے اسٹیبلشمنٹ میں آرمی چیف اورDG آئی ایس آئی کا نام لے لے کر عوام میں تقریریں کیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ ہم غیرجانبدار ہیں۔ پھرDGISIپر حکومت اور فوج میں ناراضگی کا معاملہ آیا تھا۔ مسلم لیگ ن کے اندورنی اختلافات کی وجہ سے مرکز اور پنجاب میں تبدیلی ممکن نہیں ہوسکی تھی اور الزام پیپلزپارٹی پر لگایا گیا کہ استعفے ، لانگ مارچ کے بعد اس کا دھرنے دینے پر اتفاق نہیں ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی قابل اعتبار نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی کا فارمولہ تھا کہ پہلے تحریک عدم ِ اعتماد کا آئینی فارمولہ آزماتے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب اور شہبازشریف کو مرکز سپرد کریں گے۔ پھرجب PDMنے ایک لمبی مدت 23مارچ کی دیدی لیکن اسٹیبلشمنٹ کے خوف سے لانگ مارچ کرسکتے تھے اور نہ اپنی بات سے پھر سکتے تھے اسلئے تحریک عدم اعتماد کا شوشہ چھوڑ کر جھوٹے دعوے شروع کردئیے۔ خرید وفروخت کے ذریعے یہ ممکن بھی تھا اور مشکل بھی تھا لیکن PDMکی قیادت سنجیدہ نہیں لگ رہی تھی۔ اسلئے کہ پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کے ارکان کو بغاوت پر اکسانے اور یقین دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جبکہ ن لیگ پنجاب میں وزارت اعلیٰ پرویز الٰہی کو دینے میں گومگو کا شکار تھی۔ اب سندھ ہاؤس اسلام آباد سے بھانڈہ پھوٹ چکا ہے۔
عمران خان نے 10لاکھ کا اجتماع D چوک پر کرنے کا اعلان کیا تو PDM نے بھی23مارچ کو اسلام آباد پہنچنے کا اعلان کیا۔ جس پرکور کمانڈر کانفرنس میں تلخ پیغام دیا گیا اور شیخ رشید نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن ماؤزے تنگ نہیں ایک عالم دین ہیں ، مولا جٹ بننے کی کوشش کاسودا مہنگا پڑسکتا ہے۔ مریم نواز اور شہباز کی قیادت میں لاہور سے نکلنے والے جلوس اورPDMنے23مارچ کی جگہ25 مارچ کا اعلان کردیا کہ غیرملکی مہمانوں کا ہمیں بھی احترام ہے لیکن اصل خوف ریاست کے میزبانوں سے ہے۔ دیکھئے سیاسی دنگل کا آخری نتیجہ کچھ تو نکلے گا۔
ہڑتال و احتجاج کی کال سے عوام کو باخبر رکھا جائے تو عوام اپنے مفاد میں اس کو کامیاب بناتے ہیں۔ سیاسی حکمت اور غیرت کا بھی یہی تقاضہ ہے۔ عوام کو ان کی مرضی کے بغیر مشکلات میں ڈالنا انتہائی درجے کی بے غیرتی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے جب سے پیشگی کال کے بغیر کارکنوں کے ذریعے عوام کو تکلیف دینا شروع کی ہے توعوام کو ان جماعتوں اور قائدین سے نفرت ہونے لگی ۔ اچانک روڈ اور تجارتی مراکز بند کرانے سے بچے اور خواتین بھی پھنستے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب ریاست عوام کے حقوق کی حفاظت نہ کرسکتی ہو تو تنگ آمد بجنگ آمد لوگ اپنی مدد آپ کے تحت سڑکوں کو بند کرنیوالے سیاسی کارکنوںکو مارنے کیلئے اپنی گاڑیوں میں سرئیے ، ڈنڈے اور اسلحے رکھنے شروع کردیں۔ ایک مرتبہ نوشہرہ اور دوسری مرتبہ کراچی میں لوگوں کو جمعیت علماء اسلام کے احتجاج پر بہت گندی گندی گالیاں دیتے ہوئے سنا ۔ عاقل کو اشارہ کافی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

حقیقی جمہوری اسلام اور اسلامی جمہوری پاکستان کے نام سے تاریخ ، شخصیات ، پارٹیاںاور موجودہ سیاسی حالات :حقائق کے تناظرمیں

حقیقی جمہوری اسلام اور اسلامی جمہوری پاکستان کے نام سے تاریخ ، شخصیات ، پارٹیاںاور موجودہ سیاسی حالات :حقائق کے تناظرمیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

عربی میں عبد غلام کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کوکسی دوسرے کی غلامی کیلئے پیدا نہیں کیا ہے بلکہ اپنی خلافت کیلئے پیدا کیا ہے۔ زمین میں انسانوں کی خلافت کیا ہے؟۔ بیوی بچوں ، جانور، پرندے اور درخت کھیتی وغیرہ کی پرورش کی ذمہ داری اُٹھاناروئے زمین میںاسلامی خلافت کا ایک چھوٹا ساآئینہ ہے۔ حضرت عمرفاروق اعظم نے فرمایا کہ ” اگر دریا کے کنارے ایک کتا بھی پیاس سے مرجائے تو اس گناہ کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے”۔ حضرت ابوبکر صدیق اکبر نے ایک چڑیا کو دیکھ کر فرمایا کہ ” یہ کتنی خوش قسمت ہے کہ جوابدہی کے غم سے آزاد ایک جگہ سے دوسری جگہ اُڑتی پھرتی ہے”۔ اپنے بال بچوں کی ذمہ داری اٹھانا کتنا مشکل ہے لیکن پورے ملک وقوم کی ذمہ داری اٹھانا پھر کتنا مشکل کام ہے؟۔
اگر موجودہ جمہوری سیاست میں اسلام کی روح ہوتی تو کیا اقتدار کے حصول کیلئے قائدین اس طرح اپنی الٹی سیدھی حرکتیں کرکے مررہے ہوتے؟۔ حضرت سعد بن عبادہ انصار کے سردارنے خلیفہ بننا چاہا تو حضرت ابوبکر و حضرت عمر نے بہت خطرناک رحجان کو دیکھ کرثقیفہ بنی سعدمیں یہ اقدام اٹھانے سے روک دیاتھا اورہنگامی بنیاد پر حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر حضرت عمر نے بیعت کرلی۔ جس کے بعد انصار و مہاجرین کی اکثریت بھی ان کی خلافت پر متفق ہوگئی۔ حضرت سعد بن عبادہ نے آخری عمر تک نہیں مانا اور حضرت علی وابن عباس اور اہل بیت کے افراد کو بھی اس اقدام پرایک عرصہ تک بہت سخت قسم کے تحفظات تھے۔
پھر حضرت عمر نامزدہوئے اور حضرت عثمان کا انتخاب چند برگزیدہ ہستیوں نے کثرت رائے سے کردیا۔حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت علیکا فیصلہ بھی ہنگامی صورتحال میں کیاگیا تھا۔ چاروں خلفاء راشدین کی نامزدگی جمہوری نظام کے تحت نہیں ہوئی تھی لیکن ان کے فیصلے مشاورت سے ہواکرتے تھے۔پھر اس کے بعد خلافت کا نظام خاندانی اقتدار میں بدل گیا۔ پھربنوامیہ کی حکومت جبر سے ختم کی گئی اور ان کے افراد کو عبرتناک انجام تک پہنچایا گیا۔ پھر بنوعباس کا بھی کافی عرصہ بعد حشر نشر کیا گیا اور پھرسلطنت عثمانیہ کا قیام عمل میں آیا اور پھر اس کا بھی خاتمہ 1924ء میں کردیا گیا۔ برطانیہ وامریکہ اور مغرب نے جمہوری نظام کا آغاز کیا جس میں خون خرابے کے بغیر انتقالِ اقتدار کو ممکن بنایا جاتا ہے۔
کیا جمہوری نظام غیراسلامی ہے؟۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: ” اہل غرب ہمیشہ حق پر قائم رہیں گے ، یہاں تک کہ قیامت آجائے”۔ (صحیح مسلم )
مغرب نے دنیا کو جس طرح کا جمہوری نظام دیا ،اگرجمہوری روح کے مطابق اسلامی دنیا میں اس پر عمل ہوجائے تو یہی اسلام کا تقاضہ ہے۔ جب دنیا میں پرامن انتقال اقتدار کا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا تو انقلابی جدوجہد میں بڑے پیمانے پر خونریزی ہوجاتی تھی۔ ایرانی بادشاہت خونریزی سے ختم ہوئی اور عرب و دیگر بادشاہتوں کو تصادم اور خونریزی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں انتقال اقتدار کیلئے جمہوریت ہے اور ڈکٹیٹروں نے ریفرینڈم بھی کرائے ہیں۔ مکہ خونی تصادم کے بغیرفتح ہوا تھا اور اس سے پہلے صلح حدیبیہ کا زبردست معاہدہ ہوا تھا۔
خلافت راشدہ کے دور میں جمہوری نظام نہیں تھا لیکن جمہوریت کی روح موجود تھی ۔ حضرت عثمان اورحضرت علی کی شہادت کے بعدآخری خلیفۂ راشد امام حسن نے حضرت امیرمعاویہ کے حق میں دستبردار ی اختیار کرلی اور پھر امارت کا دور شروع ہوا۔ جس کے بعد جب تک خاندانوں کو نیست ونابود کرکے نہیں رکھ دیا جاتا تھا اس وقت تک خاندانی بادشاہتوں کا سلسلہ جاری رکھا جاتا تھا۔
آج پاکستان میں جمہوریت ہے مگر جماعتوں میں جمہوریت کی روح نہیں ہے۔ ڈکٹیٹروں کی پیداوار قیادتوں سے جمہوری مزاج اور جمہوری نظام کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے؟۔ خاندانوں اور خانوادوں کی سیاست ہے اور اس سے بدتر حالت قائدین اور قیادتوں کی ہے۔پاکستان بننے کے بعد قائداعظم گورنر جنرل بن گئے اور قائدملت وزیراعظم بن گئے اور اپنی بیگم راعنا لیاقت علی خان کو اعزازی فوجی جرنیل کا عہدہ دے دیا۔ پھر کون کون اور کس طرح وزیراعظم بن گیا؟۔ اس کی ایک بہت بھیانک اور مخدوش تاریخ ہے۔ سول و ملٹری بیوروکریسی کا اقتدار پر قبضہ تھا۔ آخر کار جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد جمہوریت کی بنیاد رکھ دی۔ عوام پہلے انگریز کے جس نظام اور جن لوگوں کی غلام تھی تو انگریز سرکار کے تشریف لے جانے کے بعد اس کی باقیات کا قبضہ جوں کا توں تھا۔
جنرل ایوب خان کے مقابلے میں مادرملت فاطمہ جناح نے الیکشن لڑا تھا تو مشرقی ومغربی پاکستان کی زیادہ تر سیاسی و قومی جماعتوں نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا لیکن اس کو دھاندلی سے شکست دے دی گئی تھی۔ جنرل ایوب خان کی کوکھ سے قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو نے جنم لیا تھا۔ پھر جب جنرل یحییٰ خان نے الیکشن کرایا تو مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن کی پارٹی نے اکثریت حاصل کرلی لیکن بھٹو نے جرنیلوں کیساتھ مل کر مجیب الرحمن کو جمہوری بنیاد پر قتدارسپرد نہیں کیا جس کی وجہ سے سقوطِ ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بننے کا سانحہ پیش آیا تھا۔ پھر بھٹو نے پاکستان میں سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا منصب سنبھال لیا ۔ بنگلہ دیش میں پاک فوج سے ہتھیار ڈالوانے سے پہلے اقوام متحدہ کی فوج بھی تعینات ہوسکتی تھی لیکن بھٹو نے پاک فوج کو ذلیل کرکے اقتدار پر اکیلا مسلط ہونے کیلئے اقوام متحدہ کی اسمبلی میںاس قراردادکے کاغذ پھاڑ دئیے تھے۔ جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کی جگہ بھارت نے بنگلہ دیش پر قبضہ کرکے پاک فوج اور سول بیوروکریسی کے 93ہزار قیدی بنالئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تمام پارٹیوں کی مدد سے ایک اسلامی جمہوری آئین تشکیل دیا تھا لیکن اس کوخود معطل کرکے بھی رکھ دیا تھا۔ لاڑکانہ سے کوئی جرأت نہیں کرسکتا تھا کہ بھٹو کے مقابلے میںاپنے کاغذات بھی کوئی داخل کراتا۔ جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی نے انتخابی دنگل میں لاڑکانہ سے حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو اس کو بھٹو نے کمشنر خالد کھرل کے ذریعے اغواء کیا تھا۔ یہ وہ خالد کھرل تھا جس کے دادا نے برصغیر پاک وہند کے سب سے بڑے انگریز مخالف انقلابی قائد احمد خان کھرل کی مخبری کرکے نقدی اور سرکاری اراضی کا انعام کمایا تھا۔
بھٹو نے پنجاب وسندھ کو قابو کیا ۔ پہلے پنجاب اور ہندوستان کے مہاجروں کا عوام پر راج ہوتا تھا۔ بھٹو نے ہندوستانی مہاجروں کی سول بیوروکریسی کی ایک بڑی تعداد کو جبری ریٹائرڈ کرکے سندھ اور پنجاب کے اقتدار کی بنیاد رکھ دی تھی۔ دوسری طرف اپوزیشن نے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے صوبوں میں اپنااقتدار حاصل کیا تھا۔ بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام نے زیادہ بڑی اکثریت حاصل کرلی تھی اور خیبرپختونخواہ میں نیشنل عوامی پارٹی نے اکثریت حاصل کی تھی۔ جس میں خان عبدالولی خان، محمود اچکزئی کے والد عبدالصمد خان اچکزئی ، بلوچ قیادت نواب خیربخش مری، سردارعطاء اللہ مینگل، غوث بخش بزنجوتمام قوم پرست تھے۔ لیکن قوم پرستوں نے جمہوریت کے سر کے بال اور جمعیت علماء اسلام نے اسلام کی داڑھی مونڈھ دی تھی اسلئے کہ جہاں بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کو اسلام کے نام پر عوام نے بھاری اکثریت سے جتوایا تھا وہاں اقلیت والے سردار عطاء اللہ مینگل کو وزیرااعلیٰ بنادیا گیا تھا اور جہاں سرحد(خیبرپختونخواہ )میں نیشنل عوامی پارٹی کو قوم پرستی کے نام پر بھاری اکثریت سے جتوایا تھا وہاں اقلیت والے مولانا مفتی محمود کو وزیراعلیٰ بنادیا گیا تھا۔جس سے اسلام اور جمہوریت دونوں کی بیخ کنی کی گئی تھی۔اگر وزیراعلیٰ بلوچستان جمعیت علماء اسلام سے بنادیا جاتا تو بلوچستان ہمیشہ کیلئے اسلام اور جمعیت علماء کا قلعہ بن جاتالیکن جعل سازی اور سودابازی کے ذریعے بلوچ قوم پرست سردارعطاء اللہ مینگل کو بنایا گیا تو آج تک بلوچستان کی سیاست ، حکومت اور بلوچ عوام اس کے مضراثرات کے متأثرین ہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ سرحد(خیبر پختونخواہ) اس وقت مفتی محمود کی جگہ کسی قوم پرست کو بنادیا جاتا تو خیبر پختونخواہ سازشی علماء اور دہشت گردوں کی جگہ قوم پرستوں کا مرکز بن جاتا۔
پنجاب مسلم لیگ بلکہ موسم لیگ اور سندھ پیپلزپارٹی کا قلعہ ہوسکتا ہے تو پھر بلوچستان اسلام اور جمعیت علماء اسلام اور خیبر پختونخواہ قوم پرستوں کا مرکز کیوں نہیں بن سکتا تھا؟۔ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ اپوزیشن کی سیاست کا مرکز تھے ۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کی نام نہاد جھوٹی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تو قوم پرستوں کے سہارے کھڑے وزیراعلیٰ مفتی محمود کو بھی استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ پھر بھٹو کے مقابلے میں قومی اتحاد کے نو ستاروں کی تحریک چلی تھی جس میں جعلی قوم پرست اورجعلی اسلام پرست شامل تھے اور اس کوتحریکِ نظام مصطفی کا نام دیا گیاتھا۔ مولانا غلام غوث ہزاروی پہلے جمعیت علماء اسلام کے قائد کی حیثیت سے ایک مودودی سو یہودی کے نعرے لگواتے تھے لیکن پھر اس کی توپوں کا رُخ مفتی محمود کی طرف ہوگیا تھااور ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دے رہے تھے۔بعض علماء اس 9قومی ستاروں کے اتحادکو ان 9افراد کا ٹولہ قرار دے رہے تھے جن کا قرآن میں ذکر ہے کہ وہ زمین میں فساد پھیلارہے تھے۔
پھر جب اس قومی تحریک کے نتیجے میں مارشل لاء لگا تو کچھ عرصے تک جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دیا گیا لیکن پھر جماعت اسلامی مارشل لائی بن گئی اور کچھ دیگر جماعتوں نےMRDکے نام سے بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی ۔ جمعیت علماء اسلام کا فضل الرحمن گروپ اسکا حصہ بن گیا اور درخواستی گروپ مخالف بن گیا۔ مولانا فضل الرحمن نے مولانا غلام غوث ہزاروی کی قبر پر اپنے باپ کے رویے پر معافی مانگی تھی کہ بھٹو کیخلاف جماعت اسلامی کیساتھ ہم غلط استعمال ہوگئے تھے۔ پھر جب جنرل ضیاء الحق حادثے کا شکار ہوگئے تو MRD میں شامل جماعتوں نے1988ء کے الیکشن میں فیصلہ کیا کہ قائدین کو اسمبلی تک پہنچانے کیلئے کسی کو بھی کھڑا نہیں کریں گے۔ مولانا فضل الرحمن ، ولی خان وغیرہ کوسب نے مل کر جتوایا تھا لیکن بینظیر بھٹو کیخلاف ڈاکٹر خالد محمود سومرونے جمہوری معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے الیکشن لڑا تھا،جس سے مولانا فضل الرحمن کی ناک کٹ گئی تھی۔ ڈاکٹر خالد سومرو ایک طرف جے یوآئی کا نمائندہ تھا تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کی اشیرباد پر پیپلزپارٹی کیخلاف قوم پرستوں کا مہرہ تھا۔ مفتی محمود اور ولی خان بھائی بھائی تھے تو ڈاکٹر خالد سومرو اور سندھی قوم پرست بھائی بھائی کیوں نہیں بن سکتے تھے؟۔پھر بینظیر کیخلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو مسلم لیگ سے وزیراعظم عمران خان کے موجودہ سسر کے باپ غلام محمد مانیکا وغیر ہ بک گئے تھے۔ پھر اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے نیشنل پیپلزپارٹی ، جماعت اسلامی، مسلم لیگ اور جمعیت علماء اسلام درخواستی گروپ وسپاہ صحابہ وغیرہ نے حصہ لیا اور جب اگلی باری پھر پیپلزپارٹی کی آئی تو مولانا فضل الرحمن بھی حکومت کا حصہ بن گئے تھے۔
PDMمیں پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام ساتھ تھے تو بھی گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں مریم نواز سمیت PDMکے تمام قائدین نے شرکت کی تھی لیکن مولانا فضل الرحمن نے علامہ راشد محمود سومرو کی وجہ سے اس میں شرکت نہیں کی تھی۔ ایک طرف جمعیت کے سومرو برادران لاڑکانہ میں تحریک انصاف کے اتحادی تھے تو دوسری طرف عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان میں باپ کی اتحادی تھی۔ پیپلزپارٹی کی چاہت تھی کہ شہبازشریف کو وزیراعظم اور پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنایا جائے لیکن ن لیگ نے اس سے راہِ فرار اختیار کرنے کیلئے اسمبلیوں سے استعفیٰ اوراسلام آباد لانگ مارچ کے بعد دھرنا دینے کا بہانہ بناکرپیپلزپارٹی اور اے این پی کو PDMسے آوٹ کردیا تھا۔
پھر جمعیت علماء اسلام اور ن لیگ نے اسلام آباد لانگ مارچ اور دھرنے کی ایک لمبی مدت کے بعد23مارچ کی تاریخ دیدی۔ جس میں PDM نے لانگ مارچ کیساتھ دھرنا بھی دینا تھا اور اسمبلیوں سے استعفے بھی دینے تھے۔ جب مارچ آگیا تو پھرPDMنے اپنے وعدوں سے مکر جانے کیلئے جھوٹا شوشہ چھوڑ دیا کہ تحریک عدم اعتماد کیلئے ہمارے نمبر پورے ہیں۔پیپلزپارٹی سے بھی رابطہ کرلیااور چوہدری برادران سے بھی رابطے کرلئے لیکن اصل مقصد لانگ مارچ، اسلام آباد دھرنے اور استعفیٰ دینے کے وعدوں سے توجہ ہٹانی تھی۔ مسلم لیگ ن نے میڈیا ٹیم کے ذریعے سے یہ افواہیں چھوڑ دیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو 3طلاق دیدئیے ہیں اور ن لیگ سے درپردہ حلالہ بھی ہوگیا ہے اسلئے مریم نواز خاموشی سے اپنی حکومت آنے کا انتظار کررہی ہیں۔دوسری طرف تحریک عدم اعتماد سے گھبرا کر عمران خان نے اول فول بکنا شروع کردیا۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹنے کی بات پر حسن نثار جیسے صحافیوں نے کہا کہ فوج بالکل غیرجا نبدار نہ رہے، ہماری جمہوریت اس کی متحمل نہیں یہاں خریدوفروخت کی چھانگا مانگا میں منڈیاں لگتی ہیں۔ وزیراعظم عمران نے کہا کہ ”غیر جانبدار تو جانور ہوتا ہے”۔ پہلے کہاتھا کہ ایمپائر کی انگلی اٹھے گی ، پھر کہا کہ ایمپائر سے مراد اللہ تھا۔ اب کہہ سکتے ہیں کہ ”غیر جانبدار جانور سے آرمی چیف نہیں ڈائنوسار مراد تھا”۔
قائداعظم گورنر جنرل تو آرمی چیف انگریز ، وزیرقانون ہندو اوروزیر خارجہ قادیانی اور پاکستان کا آئین اسلامی اور جمہوری نہیں تھا۔ پھر جنرل ایوبی کوکھ سے ذوالفقار علی بھٹو قائدعوام اور محمد خان جونیجو قائدِ جمہوریت کہلایا ۔ جنرل ضیاء الحق کی کوکھ سے جنم لینے والا نوازشریف جمہوری قائد بن گیا ۔عمران خان کو ٹی وی کے اسکرین پر مرغا بن کر اعلان کرنا چاہیے کہ اپنے بچوں کی ماں جمائما خان کو چھوڑ کر پرائے بچوں کی ماں بشریٰ بی بی کو اپنی بیگم بنایااور یہ جائز تھا لیکن اپنے ٹائیگروں کو چھوڑ کر دوسرے کے بھگوڑوں کو ٹکٹ دینا بہت بڑی غلطی تھی۔ معافی مانگتا ہوں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

تمام مکاتب فکر کے علماء کرام، مفتیان عظام اور جدید اسکالروں سے دو ٹوک انداز میں ایک ہی سوال اور اس کا جواب

تمام مکاتب فکر کے علماء کرام، مفتیان عظام اور جدید اسکالروں سے دو ٹوک انداز میں ایک ہی سوال اور اس کا جواب

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے اپنی تفسیر معارف القرآن میں سورہ توبہ کی آیات کی تفسیر میں لکھا ہے کہ مشرکوں ، زکوٰة نہ دینے والوں اور نماز نہ پڑھنے والوں کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے
بریلوی مکتبہ فکر کے علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر ”تبیان القرآن” میں لکھا ہے کہ مفتی شفیع نے حنفی مسلک کے خلاف یہ تفسیر لکھی ہے اسلئے کہ بے نمازی کا قتل کرنا جائز نہیں ہے۔
جب بریلوی دیوبندی ایک دوسرے کو گستاخ اور مشرک کہتے ہیں اور گستاخوں اور مشرکوں کو قتل کرنا نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے تو دہشت گردوں کو دہشت گردی کا جذبہ ٹھیک لگتا ہے۔

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کے والد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے اپنی تفسیر ”معارف القرآن” میں سورہ توبہ کی آیات کے ضمن میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو قرآن میں قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن جب وہ ایمان لائیں ، نماز ادا کریں اور زکوٰة دیں تو اس صورت میں ان کو معاف کرنے کا حکم ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نماز نہ پڑھنے والے اور زکوٰة نہ دینے والے مسلمان بھی واجب القتل ہیں۔
بریلوی مکتبہ فکر کے مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کے ساتھی حضرت مولانا غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر ”تبیان القرآن” میں مفتی محمد شفیع کے اس مؤقف کو حنفی مسلک کیخلاف قرار دیا ہے۔ لکھا ہے کہ حنفی مسلک میں بے نمازی کو قتل کرنے کی سزا نہیں ہے۔ شافعی مسلک والے حضرت ابوبکر صدیق کے اس اقدام کو دلیل بناتے ہیں کہ زکوٰة نہ دینے والے صحابہ کرام کو قتل کیا گیا تھا مگر زکوٰة کے مانعین کو قتل کرنے کے اقدام سے اتفاق نہیں رکھتے ہیں اور بے نمازی کو قتل کرنے کا مسلک رکھتے ہیں ۔ شافعی علماء کے نزدیک نماز نہ پڑھنے سے مسلمان مرتد ہوجاتا ہے اور مرتد کی سزا اسلام میں قتل ہے۔ جبکہ مالکی علماء کے نزدیک نماز نہ پڑھنے کی سزا قتل ہے۔ حنفی علماء کے نزدیک بے نمازی کو زدوکوب اور قید کی سزا ہے، اسلئے مفتی شفیع کا استدلال غلط ہے۔ (تبیان القرآن)
طالبان نے افغانستان میں حکومت قائم کرنے کے بعد حنفی مسلک کے مطابق بے نمازیوں کو زدوکوب کی سزائیں دی تھیں لیکن اب وہاں بھی مسلک حنفی پر عمل درآمد کو معطل کردیا گیاہے۔ دہشت گردوں کی ذہنی تربیت کا مرکز ہی تبلیغی جماعت تھا۔ مولانا طارق جمیل کی یہ تقریر آج بھی دوران سفر بسوں میں بڑی بڑی داڑھی والے ڈرائیور عادل شاہ کوچ میں ڈیرہ اسماعیل خان تا کراچی چلاتے ہیں کہ لوگ صرف جمعہ کی نماز پڑھنے کیلئے وہ بھی بہت کم تعداد میں آتے ہیں۔ نماز کا چھوڑ دینا قتل سے بڑا جرم ہے۔ نماز کا چھوڑ دینا زنا سے بڑا جرم ہے۔ نماز کا چھوڑ دینا چوری سے بڑا جرم ہے۔ نماز کا چھوڑ دینا شرک سے بڑا جرم ہے۔ شیطان نے ایک سجدے کا ہی تو انکار کیا تھا۔ کیا شیطان نے کوئی قتل کیا تھا؟، کیا کوئی زنا کیا تھا؟، کیا شیطان نے کوئی چوری کی تھی؟، کیا شیطان نے کوئی ڈکیتی کی تھی؟،کیا شیطان نے کوئی شرک کیا تھا؟۔ شیطان سجدے کا انکار کرکے ہمیشہ کیلئے مردود ہوا تھا اور آپ لوگ روزانہ سجدوں کے حکم کی خلاف ورزی کرکے شیطان کی طرح دن میں کئی بار مردود نہیں ہوجاتے؟۔
مولانا طارق جمیل نے سلیم صافی کے پروگرام میں کہا تھا کہ میں دہشتگردوں کی مذمت نہیں کرسکتا۔ ہماری منزل ایک ہے لیکن راستے جدا جدا ہیں۔ ایک خمیر اور ایک عقیدہ و نظریہ سے تعلق رکھنے والے ایک طرف معزز بن کر حکومتوں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ ریاست ان کو اداکاراؤں کے ساتھ قومی اعزازات سے صدر مملکت عارف علوی کے ذریعے سے نوازتی ہے اور دوسری طرف اس کا رویہ دہشت گردوں کے ساتھ آخری حد تک رعایت والا ہوتا ہے۔ احسان اللہ احسان کو ریاستی پروٹوکول میں رکھ کر فرار کروادیا جاتا ہے۔ جس نے دہشت گرد تنظیم کی دہشتگردانہ کاروائیوں کی الیکٹرانک میڈیا پر بار بار ذمہ داری قبول کی تھی۔ پاک فوج میں نچلی سطح کے سپاہی اور افسران ہمیشہ دہشتگردوں کیخلاف فرنٹ پر لڑتے ہیں۔ کسی قومی ، مذہبی اور سیاسی قیادت کے ہاں اتنی جرأت نہیں ہے کہ دہشت گردی کی فضاؤں میں اپنے بچوں کو فوج میں بھرتی کریں۔ منظور پشتین نے علی وزیر کیلئے کراچی میںدھرنا دیا تو اسکے قریبی ساتھی نور اللہ ترین اور منظور پشتین کی موجودگی میں مولانا قاضی طاہر محسود نے کہا کہ ”جو نعرہ لگائے کہ یہ جو دہشتگردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے وہ ہمارا ساتھی نہیں بلکہ دشمن ہے”۔ آج جو پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ہیں تو یہ بھی فوج کی پیداوار ہیں۔ ”یہ جو سیاست گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے”۔ کا نعرہ کیوں نہیں لگتاہے ؟۔
ہم نے پی ٹی ایم اسلام آباد کے پہلے دھرنے میں واضح طور پر جو بات سمجھادی تھی تو آج پی ٹی ایم اسی کی طرف لوٹ رہی ہے۔ دہشتگردی کے پیچھے سیاست گردی اور ملا گردی کا بھی ہم نے نعرہ لگایا تھا۔ نواز شریف ، شہباز شریف اور عمران خان کے علاوہ مولانا فضل الرحمن ، تبلیغی جماعت ، جماعت اسلامی اور کالعدم سپاہ صحابہ کی وہ ذہنیت بھی دہشت گردی کے پیچھے تھی جس کی سزا پوری قوم نے اچھی طرح سے بھگت لی۔ جب تک پوری قوم کو سورہ توبہ کا درست ترجمہ اور تفسیر نہیں سکھائی جائے گی تو یہ خطہ دہشت گردی سے کوئی نہیں بچا سکتا ہے۔ مسلمانوں نے برصغیر پاک و ہند میں 800 سال تک حکومت کی لیکن کسی ہندو مشرک اور عیسائی مشرک کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا۔ سورہ توبہ میں قتل کا حکم جنگ بندی کی مدت ختم کرنے کے بعد دیا گیا ہے اور اس میں گرفتار کرنے کا حکم بھی ہے۔ جس سے صرف قتل کرنے کی بھرپور نفی ہوتی ہے۔ اور پھر اسکے بعد کی متصل آیت میںیہ حکم دیا گیا ہے کہ” جب کوئی مشرکین میں سے پناہ لینے آئے تو ان کو پناہ دے دینا۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کی آیات کو سن لیں۔ اور پھر ان کو وہاں پر پہنچادیا جائے جہاں ان کے امن کے ٹھکانے ہیں۔ اسلئے کہ یہ قوم علم نہیں رکھتی ہے”۔ (سورہ توبہ)۔ اللہ تعالیٰ کے اس واضح حکم کی جس طرح غلط تفسیر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اور دیگر مفسرین کے ہاں کی گئی ہے جب تک اس کا درست ترجمہ و تفسیر جاہل دہشت گردوں کو اچھی طرح سے سمجھا نہ دیا جائے اس وقت تک یہ دہشتگردی کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھیں گے اور اپنی پشت میں بارود بھر کر بازاروں ، مساجد ، درگاہوں اور امام بارگاہوں پر خود کش کرینگے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

جمہوری قیادت ناکام کیوں؟

جمہوری قیادت ناکام کیوں؟

پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل اور قائد ملت لیاقت علی خان کو چاہیے تھا کہ انتخابات کراتے اور عوام سے منتخب قیادت سامنے آتی۔ گدھے کو کہا گیا کہ مارتا کہاں پر ہوں اور آواز کہاں سے نکلتی ہے؟ جن لوگوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں تقسیم ہند کو ووٹ دیا تھا انہی کے ذریعے سے جمہوری قیادت سامنے آنی چاہیے تھی۔ قائدین سے محمد علی بوگرہ ، آئی آئی چندریگر، حسین شہید سہروردی اور سکندر مرزا تک کسی نے بھی عوامی رائے سے قیادت کا انتخاب نہ کیا۔ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کو جمہوریت کی سوجھی اور فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرادیا۔
اسلام کے معاشرتی نظام کو علماء و مفتیان نے بھی سمجھنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ فقہ کے نام پر خرافات در خرافات کی نقب لگانے والوں کی تقلید کی۔ اسلام کے معاشی نظام سے بھی کوئی سبق سیکھنے کے بجائے حیلہ سازی کا مشق ستم جاری رکھا۔ آج اسلامی انقلابی نظام آسمانوں سے دستک دے رہا ہے اور زمین کا فریبی نظام دنیا سے ملیا میٹ ہورہا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلوچ طلبہ کی آواز کو دبانا بغاوت قرار دیا۔ ایمان مزاری مقدمہ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلوچ طلبہ کی آواز کو دبانا بغاوت قرار دیا۔ ایمان مزاری مقدمہ

(نوٹ: خبر کے آخر میں تبصرہ ٔ نوشتہ دیوار( تیزوتند)قدوس بلوچ پڑھئے۔ یہ ہمارے ببر شیر قدوس بلوچ کی زندگی کا آخری تبصرہ ہے۔)

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری سمیت بلوچ طلبہ کی گرفتاری سے روک دیا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کا بڑا فیصلہ
چیف جسٹس نے کہا کہ بغاوت کا مقدمہ ان کے خلاف ہونا چاہیے جو طلبہ کی آواز کو دباتے ہیں۔یہاں پر ایک آئین ہے،عدالت تنقیدی آوازیں دبانے کی کوشش برداشت نہیں کریگی
اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بیٹھنے پر درج FIR کے مطابق یکم مارچ کوپولیس پر پتھر برسائے۔ کیمپ دادشاہ، ایمان مزاری ،قمربلوچ اور200طلبہ بلوچ اسٹودنٹ کونسل نے لگایا

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو ایمان مزاری سمیت بلوچ طلبہ کی گرفتاری سے روک دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ بغاوت کے مقدمے تو ان کے خلاف ہونے چاہئیں جنہوں نے ان طلبہ کی آواز دبائی، یہاں پر ایک آئین ہے اور عدالت تنقیدی آوازیں دبانے کی کوشش برداشت نہیں کرے گی، ایس ایس پی صاحب آپ اس کیس میں کسی کو گرفتار نہیں کریں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی بیٹی اور وکیل ایمان مزاری کی درخواست پر پولیس کو آئندہ سماعت تک گرفتاریوں سے روک دیا۔وفاقی دارالحکومت کی پولیس نے گزشتہ روز نیشنل پریس کلب پر احتجاج کرنے والے بلوچ طلبہ اور ایمان مزاری سمیت 200 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس کے خلاف ایمان مزاری نے آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔جس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایف آئی آر درج ہوئی ہے؟ جس پر ایمان مزاری کی وکیل نے آگاہ کیا کہ ہماری معلومات کے مطابق ایف آئی آر درج کر کے سیل کر دی گئی ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایس ایس پی صاحب اس عدالت کے دائرہ اختیار میں کیا ہو رہا ہے، احتجاج کرنے والے بلوچستان کے طلبا کی بات سنی جانی چاہیے۔طلبا کے احتجاج پر آپ بغاوت کے مقدمے درج کر دیتے ہیں، بغاوت کے مقدمے تو ان کے خلاف ہونے چاہئیں جنہوں نے ان کی آواز دبائی۔ایس ایس پی آپریشنز نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ طلبہ کے احتجاج میں پولیس کے تین اہلکار زخمی ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت یہ سب برداشت نہیں کرے گی کہ اس کی حدود میں کسی کی آواز دبائی جائے، کسی کی بھی بالخصوص بلوچستان کے طلبا کی آواز دبانے کی کوشش برداشت نہیں کی جائے گی۔انہوں نے مزیدکہا کہ طلبہ کی آواز دبانا درحقیقت بغاوت ہے، ساتھ ہی استفسار کیا کہ کتنے طلبا زخمی ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ یہ عدالت ایک کمیشن تشکیل دے، یہاں پر آئین ہے اور عدالت تنقیدی آوازیں دبانے کی کوشش برداشت نہیں کریگی، ایس ایس پی صاحب آپ اس کیس میں کسی کو گرفتار نہیں کرینگے۔ ضروری نہیں کہ پولیس ہر ایک کو گرفتار کرے، سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں۔بعدازاں سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر اور آئی جی اسلام آباد کو طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ تینوں افسران 7 مارچ کو عدالت کے سامنے ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ عدالت نے آئندہ سماعت تک پولیس کو مقدمے میں گرفتاریوں سے روک دیا اور صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سے معاونت طلب کر لی۔
وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی وکیل ایمان مزاری نے اندراج مقدمہ ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے FIRکی کاپی فوراً فراہم کرنے اور اسکا آپریشن معطل کرنے کی استدعا کی اور استدعا کی گئی کہ FIRسیل کرنا اور کاپی فراہم نہ کرنا قانون کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیا جائے اور FIRکی کاپی اور وقوعہ کا تمام ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا جائے۔درخواست میں ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ سیل کی گئی FIRکا آپریشن معطل کیا جائے تاکہ کوئی زیر التوا کیس کے دوران ہراساں نہ کرے۔درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیاکہ بلوچ طلبا پر پریس کلب کے سامنے پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور پھر مجھ سمیت سب پرFIR درج کی۔ان کا کہنا تھا کہ پریس کلب کے باہر طلبہ جبری گمشدگیوں کیخلاف اور اپنے حقوق کیلئے احتجاج کر رہے تھے، آزادی رائے آئینی حق کو استعمال کرتے ہوئے پریس کلب کے باہر طلبہ کے احتجاج میں گئی تھی۔ پریس کلب کے باہر پولیس نے پرامن طلبہ پر لاٹھی چارج کیا پھر میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ پولیس نے مقدمہ درج کیا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ FIRمیں بغاوت کی دفعات شامل ہیں، پولیس FIRکی کاپی فراہم کرنے سے بھی انکاری ہے اور مجھے گرفتاری کا بھی خدشہ ہے۔ درخواست میں سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او کو فریق بنایا گیا۔
اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنے پر بیٹھے طلبہ پر FIR درج کی گئی تھی،FIR کے مطابق مظاہرین نے یکم مارچ کو نیشنل پریس کلب کے سامنے اور کیمپ کے باہر پولیس پر پتھر برسائے، کیمپ داد شاہ، ایمان مزاری اور قمر بلوچ کی سربراہی میں بلوچ اسٹوڈنٹ کونسل نے لگایا تھا جس میں 200 طلبہ شریک تھے۔طلبہ میں زیادہ تر کا تعلق قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے تھا جو خضدار سے اپنے ساتھی حفیظ بلوچ کی پراسرار گمشدگی کیخلاف احتجاج کررہے تھے۔
مقدمے میں کہا گیا کہ پولیس کے انتباہ کے باوجود مظاہرین نے ٹینٹ لگایا جو پولیس کو بزور طاقت اپنے قبضے میں لینا پڑا جسکے نتیجے میں جھڑپ ہوئی۔بعد ازاں طلبہ پولیس کو دھکیلتے ہوئے چائنا چوک پہنچے اور دھرنا دے دیا جہاں ان کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا۔پولیس نے طلبہ کو منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج کیا جس کے نتیجے میں پولیس اور مظاہرین گتھم گتھا ہوگئے جس کے بعد ایس ایس پی آپریشنز اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے موقع پر پہنچ کر امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے طلبہ سے مذاکرات کیے۔پولیس اور طلبہ کی جھڑپ کے دوران 6 طالب علم اور انسداد فسادات یونٹ کے 2 افسران بھی زخمی ہوئے۔

تبصرہ ٔ نوشتہ دیوار( تیزوتند)قدوس بلوچ
یہ ہمارے ببر شیر قدوس بلوچ کی زندگی کا آخری تبصرہ ہے۔ قدوس بلوچ کی زندگی پرامن احتجاج کے ذریعے ظالم کے خلاف مظلوم کے حق میں آواز اٹھانے سے عبارت ہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے ظالم بادشاہوں کیخلاف پہلے مرحلے میں پرامن طریقے سے کلمہ حق بلند کرنے کے ذریعے سے جدوجہد کی تھی اور نبی کریم ۖ نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ زندگی بھر کیلئے کیا تھا لیکن مشرکینِ مکہ نے اس کو توڑ دیا۔ فتح مکہ میں حضرت خالد بن ولید کے ذریعے قیس عبدالرشید کی قیادت میں پختون قبائل کے لشکر نے بھی مدد کی تھی لیکن جب خالد بن ولید کے ظالمانہ طرزِ عمل کا پتہ چلا تو نبی کریمۖ نے تین دفعہ آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ ”اے اللہ !میں خالد کے فعل سے بری ہوں”۔ پختونخواہ کے کوہ سلیمان کی چوٹی سلیمان تخت پر قیس عبدالرشید کی قبر آج بھی موجود ہے۔
قدوس بلوچ کی زندگی تضادات کا بالکل بھی شکار نہیں تھی۔ وہ بلوچوں کیلئے اگر مسلح جدوجہد کے حامی ہوتے تو زبانی جمع خرچ سے حمایت کرنے کے بجائے سرماچاروں کیساتھ بذات خود بھی شریک ہوتے اور اپنے بچوں اور احباب کو بھی شریک کرنے کی پوری کوشش کرتے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا تھا کہ ” افضل جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنا ہے”۔ بلوچ اسلام کیلئے کبھی عرب گئے تھے لیکن امام حسین کی شہادت سے بد دل ہوگئے تھے۔ آج بھی عرب میں البلوشی کے نام سے بلوچ موجود ہیں جن کا بڑا نمایاں تاریخی کردار ہے۔عراق کے عرب البوشی نے ہی پہلی مرتبہ سرعام بازاروں میں کربلا کے شہداء کیلئے اس احتجاج کی جرأت کی تھی ورنہ تو پہلے چاردیو اریوں کے اندر احتجاج ہوتا تھا۔
منظور پشتین نے آواز لگائی کہ ”جو بھی ظلم کرے ، ہم اس کے خلاف ہیں”۔ قدوس بلوچ کی خواہش تھی کہ بلوچ بھی مسلح جدوجہد چھوڑ کر اپنے حق کیلئے بہت پرامن جدوجہد کا راستہ اختیار کریں۔ قدوس بلوچ کا پروگرام تھا کہ 15مارچ سے اسلام آباد میں اپنی تحریک کے ساتھیوں اور احباب کیساتھ مشن کیلئے مستقل کام کریں۔ قدوس بلوچ نے بلوچ اسٹودنٹ کی طرف سے پرامن جدوجہد کے نتیجے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو ایک بہت مثبت پیش رفت قرار دیا ۔ آپ نے یہ مہینہ انقلاب کیلئے فیصلہ کن بنانے کا ارادہ کیا تھا۔ اپنے بھانجے احسن بلوچ کو بھی دعوت دی کہ اسلام آباد میں ڈیرہ لگانے کیلئے ساتھ چلوگے۔
قدوس بلوچ کی علالت کے سبب عورت مارچ سے پہلے نوشتۂ دیوار کراچی کیلئے لاہور ، اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں میں باقاعدہ جماعتیں نکالنے کا کام نہیں ہوسکا۔ امید تھی کہ قدوس بلوچ صحت یاب ہوکر جماعت کی قیادت بھی کریں گے۔ ہمارے ساتھی جمہوری طریقے سے امیر منتخب ہوتے ہیں اور جب تک اس کی کوئی شکایت یا سست روی کا رویہ سامنے نہیں آئے تو اس کو عہدے پر برقرار رکھا جاتا ہے۔ قدوس بلوچ کی خواہش تھی کہ بلوچ اپنے اور پرائے ظالم کی کھل کر مخالفت کریں تاکہ منزل آسان ہو اور بے گناہ مشکلات کا شکار نہ ہوں۔ صحافت کے ذریعے مخصوص طبقے کی حمایت اور مخالفت صحافت کے تقدس پر بہت بڑا دھبہ ہے۔ اچھی صحافت سے ملکوں اور قوموں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv