محمود خان اچکزئی اور شاہد خاقان عباسی کے بیان پر
محمود خان اچکزئی اور شاہد خاقان عباسی کے بیان پر
تبصرہ تلخ و شیریں : فاروق شیخ
لیاقت باغ پنڈی میں پشتون شہید کروائے گئے تو اس میں فوج کا ہاتھ نہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پنجابی پشتون فسادات کرانے کیلئے یہ گھناؤنی حرکت کی تھی۔ نہ جانے پھرجدی پشتی مسلم لیگی سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کیوں خوش تھا؟۔ البتہ جب وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف طالبان سے کہہ رہا تھا کہ پنجاب میں دھماکے نہ کرو۔ امریکہ کیخلاف ہم اور آپ ایک ہیںتو پشتون قوم پرستوں کو اُڑانے پر شاہد خاقان کو خوش ہونا چاہیے تھا۔ن لیگ کو مولانا فضل الرحمن اسلئے امریکہ کا ایجنٹ لگتا تھا کہ اس نے کہا تھا کہ مارگلہ تک طالبان پہنچ چکے ہیں۔ نوازشریف اور عمران خان کو طالبان نے اپنا نمائندہ نامزد کیا تھا توPPP،ANPاورJUIپر خودکش حملے ہواکرتے تھے۔
بلوچستان کو سوئی گیس سے محروم کرنے کا ڈھنڈورا پیٹنے والا نوازشریف تختِ لاہور کیلئے سی پیک کا مغربی روٹ بدل دے اور شاہد خاقان کرک پیٹرول کو اٹک منتقل کرے تو پختون اور بلوچ قوم پرست ن لیگ پر اعتماد کریں؟۔ جج فائز عیسیٰ کی بیوی کی طرح مالامال ہو تو تب علی وزیر کو رہا کرینگے ؟۔جسکے خاندان کے18افرادشہید کئے۔ قومی اسمبلی توڑنے پرافراتفری کاکوئی خطرہ نہ تھالیکن آرمی چیف کی برطرفی پر آسمان وزمین دھماکے سے پھٹ بھی سکتے تھے؟ قطری خط پر رونے والو!سچ کا پتہ نہیں ؟ نوازشریف ڈکارلینے لندن پہنچے۔ماڈل ٹاؤن لاہور میں طاہر القادری کے14افراد شہیدکردئیے، ذمہ داری وزیر اعظم عباسی نے کسی پر ڈالی!آنکھوں میں دھول تونہ جھونکو! ،سچ بول نہیں سکتے تو بھونکو!چپ رہ بھی نہیں سکتے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے!
٭٭٭
پاکستان کو بچانے اور چلانے کیلئے ہمارے پاس ٹائم بہت تھوڑا ہے۔ محمود خان اچکزئی
دواسٹنڈر نہیں چلیںگے کہ ایک آدمی کو اسلئے ستاؤ کہ وہ اصولوں کی خاطر کھڑا ہے اور دوسرے کو کرپٹ کرو
اسے کروڑوں روپے دو،اس کو وزیراعلیٰ بناؤ، وزیراعظم بناؤ، فلانا بناؤ، اس ملک سے کھلواڑ بند ہونا چاہیے
محمودخان اچکزئی،اسلام آباد: عبدالصمد خان کی کتاب ”My Life & Times”کی تقریب رونمائی سے خطاب
پاکستان واقعی مشکل میں ہے۔ میں گنوار آدمی سیاسی کارکن ہوں۔ پاکستان کو بچانے اور چلانے کیلئے ٹائم بہت تھوڑا ہے۔ اور ہم ایک بڑی خطرناک ظالم دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں۔ عراق تباہ ہوا۔ لیبیا فارغ ہوا، شام کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی۔ بہانے جو بھی تھے مگر اصل مسئلہ ریسورسز کا تھا۔ خوش قسمتی اور بد قسمتی سے ایسی نشانیاں ہیں کہ ہمارے ملک میں دنیا جہاں کی نعمتیں ہیں۔ مثلاً اٹک میں گیس اور پیٹرول، ہمارا پانی، افغانستان اور اسکے ریسورسز، ایسا نہ ہو کہ یہ ہمارے خطے کے گلے پڑیں۔ تو ہم لازماً اپنے ملک کو سنبھالنے کی کوشش کریں۔ جب سے ملک بنا ہے اس میں آئین کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ یہاں بڑے بڑے وکیل بیٹھے ہیں، رضا ربانی ، حامدخان ،بار کے پریزیڈنٹ بیٹھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں انسان صرف144کی خلاف ورزی پر مارے گئے ملک کیسے چلے گا کہ بنیادی ہیومن رائٹس پر بات کرنے والے لوگوں پر گولیاں چلائیں گے144کی خلاف ورزی میں۔ اور آئین کو پھاڑنے اور اسکے ساتھ کھلواڑ کرنے پر آپ کسی سے نہیں پوچھیں گے۔ کسی کو اچھا لگے یا برا کہ افواج پاکستان کیلئے ہے یا پاکستان افواج کیلئے ہے؟۔ یہ بنیادی سوال ہے۔ اگر افواج پاکستان کیلئے ہے مشاہد بھائی ہم گارنٹی دیتے ہیں192ملک ہیں،ہم گھاس کھاکرگزارہ کرینگے بہترین افواج بنانے میںاور اگر آپ نے پاکستان افواج کیلئے بنایا ہے تو بابا میں اور یہ بلوچ غریب سندھی یہ غریب پنجابی یہ (feudal lord )کے مارے ہوئے چوہدری ہم یہ کبھی برداشت نہیں کرینگے۔ خاقان عباسی بھائی، قاضی صاحب اور حامد خان سے میں یہ درخواست کروں گا کہ کون یہ کارِ خیر کریگا کہ ہمارے ملک کے دانشوروں، عالموں، سیاستدانوں، فوجیوں ، ججوں پر مشتمل گول میز کانفرنس بلائی جائے۔ جس میں سپریم جوڈیشری کے جج ، جرنیل ، پریس والے ہوں، ہم جیسے غریب غرباء سیاسی کارکن ہوں۔ ہم مل بیٹھ کر فیصلہ کریں کہ اس ملک کو کس طرح چلانا ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہوا اور یہ لڑائی غریبوں کو سڑکوں پر لڑنی پڑی جس طرح ترکوں نے کیا پھر ملک کا تیاپانچا ہوجائیگا۔ لوگوں کو اس طرف مت دھکیلو۔ میں اتنا بڑا آدمی نہیں ہوں۔ یہاں سندھی ، بلوچ ، پنجابی دوست بیٹھے ہیں، ذاتی طور پر کسی انسان سے فاصلے اس بنیاد پر ناپنا کہ اس کی زبان کیا ہے؟، وہ کس مذہب کا ہے؟ ، وہ کس علاقے کا ہے؟، وہ کس براعظم کا ہے؟، ہم اس کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ پاکستان ہمارا ملک ہے، پنجابی، پشتون، سندھی ، سرائیکی ، بلوچ اپنی اپنی زمینوں پر رہ رہے ہیں۔ ہم آپ سے کہتے ہیں کہ ہم اس بقیہ صفحہ 3نمبر2
بقیہ … محمود خان اچکزئی
ملک کو چلانا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے کم سے کم اتنا تو کردیجئے کہ اللہ پاک نے جو نعمتیں سندھی ماڑوں کی زمین پر پیدا کی ہیں ، بلوچوں ، سرائیکی اور پنجابیوں کی زمینوں پر پیدا کی ہیں کم سے کم اتنے بنیادی حقوق تسلیم کرلیں کہ وہ دنیا جہان کی مزدوریاں چھوڑ کر اس ملک میں رہ سکیں۔ ان کی زبانوں کا احترام کیجئے، قرآن کریم کو ماننے والے لوگ ہیں آپ۔ قرآن کریم میں محمد ۖ سے اللہ پاک مخاطب ہیں کہ محمد ! میں نے قرآن کریم بہت سادہ کتاب آپ کی قوم کی زبان میں بھیجا ہے تاکہ آپ لوگوں کو سمجھا سکیں۔ اللہ جس جس قوم سے مخاطب تھا اسی قوم کی زبان میں کتابیں بھیجیں۔ آپ21ویں صدی میں لوگوں کی زبان پر تالے لگارہے ہیں، کراچی اور لاہور کے تھانے دیکھے، سینکڑوں پشتون اس بنیاد پر لاہور کے تھانے میں ہونگے کہ اسے اردو نہیں آتی۔ کہاں کے رہنے والے ہو؟ ، کاکڑ ہوں۔ کہاں کے کاکڑ ہو؟، فلانے علاقے کا۔ نام کیا ہے؟ اسے اردو نہیں آتی۔ تم افغانستان سے ہو۔ ملک کے بچانے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ یہاں بالادستی منتخب پارلیمنٹ کی ہوگی، آئین کی ہوگی یا بعض لوگوں کی ہوگی؟۔ دنیا جس طرح چلاتی ہے یہ ملک چل سکتا ہے بہترین ملک ہے۔ دنیا جہان کے مسائل ہیں۔ ہم یہ کرسکتے ہیں ، بلوچ، پشتون، سندھی آپ نے جتنا مارا ہے زندہ باد۔ جتنی جیلیں دی ہیں زندہ باد، معاف آپ کو۔ آئیں ملک کو انسانوں کی طرح سیدھا سادہ ڈیموکریٹک، اسلامک فیڈریشن آف پاکستان بنائیں۔ میں گارنٹی دیتا ہوں، میں سندھیوں ، بلوچوں اور سرائیکیوں کا ماما ہوں، ہم لکھ کر دینے کو تیار ہیں۔ لیکن خدا کو مانیں اسکے غلط معنی نہ نکالیں ، ہم غلاموں کی طرح رہنا نہیں چاہیں گے۔ آپ لکھے پڑھے لوگ ہیں یہ ہمارے جسٹس ہیں، محمد خان بیٹھاہوا ہے، سوئی گیس60کی دہائی میں بلوچ علاقے سے نکلی تھی بگٹی سے۔ آج تک مری بگٹی عورتیں روٹی خس و خاشاک پر پکاتی ہیں، انکے ریسورسز دس سال بعد ختم ہوجائیں گے۔ جب بلوچوں کی سوئی گیس کا یہ حشر کرینگے تو کوئی بلوچ پاگل ہے کہ آپ کو اپنے علاقے میں ڈرل کیلئے چھوڑے گا، کوئی پشتون پاگل ہے کہ آپ کو اپنے علاقے میں نکالنے کیلئے چھوڑے گا، کوئی خٹک پاگل ہے کہ آپ کو اپنے تیل و گیس حوالے کرے گا۔ رحم کریں اس ملک پر ہم پر نہ کریں ملک پر رحم کریں۔945میں لیگ آف نیشن بنی مشاہد بھائی آپ سے بہتر کون جانتا ہے۔ آزاد ملکوں کی تعداد صرف60تھی۔100سال پورے نہیں75سال ہوئے۔ وہ60ملک ٹوٹتے ٹوٹتے193بن گئے۔ ان بے انصافیوں نے ملکوں کو توڑا ہے اور یہ بے انصافیاں ایک دفعہ ہمارے ملک کو توڑ چکی ۔ اللہ کیلئے اس ملک پر رحم کریں۔ فوجیوں کو ہماری باتیں نقصان نہیں پہنچاتیں۔ جو نقصان ایوب خان کی مارشل لاء نے پہنچایا دس سال وہ بیٹھا رہا درجنوں نہیں سینکڑوں جرنیل فارغ ہوگئے۔ بریگیڈئر رینک کے جنہیں آگے آنا تھا وہ فارغ ہوئے۔12سال دوسرا بیٹھا رہا11سال تیسرا بیٹھا رہا ۔33سال کے نتیجے میں یہ پاکستان ملا۔ اسکے بچانے کا ایک ہی راستہ ہے۔ ربانی صاحب آپ آتھر ہیں (18th Amendment کے bicameral) پارلیمنٹ ہے پاکستان میں۔ مہربانی کریں سینٹ کو وہ اختیار دیں جو قومی اسمبلی کو دیے گئے ہیں۔ جہاں قومیتوں کی برابری ہے۔ یہ ملک آسانی سے چل جائیگا ۔ میں بلوچوں، سندھیوں اور سرائیکیوں کی طرف سے کہتا ہوں کہ ہمیں انسان سمجھو۔ ہمارے وسائل پر اتنا ہمارا حق سمجھو کہ ہمارے بچے بھوکوں نہ مریں۔ ہم پاکستان اچھا چلائیں گے۔ اگر کسی پاگل کا خیال ہے کہ بندوق کے سائے میں ملک چلایا جاسکتا ہے ۔ آپ نے سوویت یونین کا حشر دیکھا جسکے اسلحہ خانوں میں اتنے خطرناک بم ہیں کہ اس براعظم کو تباہ کرسکتا ہے۔12،16ملک فارغ ہوجائیں گے خدا حافظ۔ چھوٹا سا ملک میں نام نہیں لیتا، حساس حالات ہیں40دن ہوگئے لڑائی کو مگر بندوق کے زور پر اس پر قبضہ نہیں کرسکتا۔ مشاہد بھائی ! یہ بندوق ہماری ہیں، یہ توپ ہماری ہیں ، جہاز ہمارے ہیں، اس فوج میں آبادی کی بنیاد پر ہمیں حصہ دو۔ بلوچ کو دو، سندھی کو دو، پٹھان کو دو، آپ کو دو، اوریہاں جج صاحب بیٹھے ہیں جس طرح آئین کہتا ہے کہ جو آدمی فوجی ہوگا وہ سیاست میں حصہ دار نہ ہوگا۔ اس پر آئیں۔ دعا کرتے ہیں یہ ملک بہترین ہے ۔ ہم درخواست کرتے ہیں اگر یہ کام آپ نہیں کرسکتے ہیں تو آنے والی پارلیمنٹ بادشاہی چلانے سے پہلے مہربانی کرلے کہ فوجیوں، ججوں اور سب پر مشتمل ایک کانفرنس بلائے ، ہمیں نہ بلائے اس میں ، شریف لوگ وہاں بیٹھ کر کوئی آئینی حکمرانی کی بنیاد رکھ سکیں گے۔ ورنہ آپکے پاس ٹائم نہیں، ہمارے پاس ٹائم نہیں۔ مفت میں ہمارا یہ بہترین ملک خدانخواستہ خدانخواستہ مشکلات میں پھنس جائیگا۔ میں آپ لوگوں کا بہت مشکور ہوں۔ پی ڈی ایم ہم نے بنائی تھی۔ پارلیمنٹ میں جو کچھ ہورہا ہے ، میں اس پارلیمنٹ میں ہوں یا نہ ہوں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آئندہ والی پارلیمنٹ کم سے کم تین چار باتیں کرلے۔ ایک یہ کہ جن جج صاحبان نے مختلف ادوار میں اصولوں کی خاطر فوجیوں کیلئے حلف نہیں اٹھایا نوکریاں چھوڑیں اور گمنامی میں فارغ ہوئے اگر وہ مرگئے تو انکے بچوں کو انعام دیدیں کہ ڈیموکریسی کے جج یا ایمانداری کے جج، اس پارلیمنٹ میں کم سے کم یہ کام کردیں۔ سینکڑوں لوگMRDاورARDمیں سندھیوں نے کوڑے کھائے، شہید ہوئے ان کیلئے پارلیمنٹ کچھ کرلے۔ انہیں شہدائے جمہوریت ڈکلیئر کردے۔ لوگ بیٹھے ہیں کوئی ناراض ہوجائیگاPCOکے تحت حلف اٹھانے والے پھر کیا کرینگے ہمارے جج؟۔ بار بار حلف لیا جاتا ہے کہ ہم آئین کی حفاظت کرینگے۔ ہم نے آئین کے دفاع کا حلف اٹھایا ہے۔ کس طرح ہم دفاع کریں؟۔ ربانی صاحب میری رہنمائی کریں۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ گلیوں میں لڑنا ہے پشتونخواہ پارٹی آپکے ساتھ ہے، بلوچ آپکے ساتھ ہیں سندھی آپکے ساتھ ہیں۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں لڑنا ہے یا کوئی گول میز کانفرنس بلانی ہے کہ اس ملک کو آئین کے تحت چلایا جائے پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہو۔ وہی داخلی اور خارجہ پالیسی کا سرچشمہ ہو۔ ہمارا فوجیوں سے نہ کوئی بغض ہے نہ فوجیوں سے ہماری کوئی لڑائی ہے۔ اگر وہ سیاست کرنا چاہتے ہیں بسم اللہ کریں۔ وردیاں اتار لیں پھر دیکھیں کہ سیاست میں الیکشن کیسے جیتا جاتا ہے۔ کیسے ممبر بنایا جاتا ہے۔ یہ دو اسٹینڈرڈ نہیں چلیں گے۔ ایک آدمی کو اسلئے ستاؤ کہ وہ اصولوں کی خاطر کھڑا ہے اور دوسرے کو اپنی طرف سے کرپٹ کرو کروڑوں روپیہ دو اسے وزیر اعلیٰ بناؤ ، وزیر اعظم بناؤ فلانا بناؤ یہ نہیں چلے گا۔ اس ملک سے یہ کھلواڑ بند ہونا چاہیے۔ آپ سب کی بڑی مہربانی۔ آپ سب کو خدا لمبی عمر دے۔ آپ نے ہم پر احسان کیا خدا آپ کو خوش رکھے۔ شکریہ
٭٭٭
پنڈی میں پشتون شہید ہوئے تو سمجھا کہ غداروں پر فتح حاصل کرلی ہے۔ شاہد خاقان عباسی
ملک کی تاریخ مسخ کی گئی،جن کو ہم محب وطن سمجھتے تھے وہ دشمن نکلے اورجو دشمن تھے وہ محب وطن نکل نکلے
محمود خان سے میرے دوست، بزرگ اور محسن ہیں۔ ان سے بہت کچھ سیکھا۔ اصولوں پر سیاست اور آئین کی بالادستی سیکھی
میں محمود خان اچکزئی کا بہت مشکور ہوں ان کا ہم پر احسان ہے کہ انہوں نے اس کتاب کا ترجمہ کی۔ میں دسویں جماعت میں پشاور میں پڑھتا تھا جب عبد الصمد خان کی شہادت ہوئی۔ اس وقت ہم سمجھتے تھے کہ یہ ملک کے غدار ہیں۔ عبد الولی خان غدار، عبد الصمد خان اچکزئی بھی غدار اور مجھے کچھ یاد آرہا ہے تو اس سے کچھ عرصہ پہلے یا اسی عرصے میں لیاقت باغ پنڈی میں بہت سے ہمارے پشتون بھائی افراسیاب صاحب کو یاد ہوگا شہید ہوئے اور ہم نے اس وقت یہ سمجھا کہ ہم نے غداروں پر کوئی فتح حاصل کی ۔ اسی زمانے میں اگر میری میموری درست ہو تو اکبر بگٹی صاحب شاید گورنر تھے بلوچستان کے اور تقریباً23سال بعد ان کو بھی اسی طرح شہید کیا گیا جس طرح ماضی میں ہم کرتے رہے اور آج بھی ہم اس ملک کے تاریخی حقائق سے واقف نہیں جو کسی نے بتایا نہیں ۔ ہم وہ واحد ملک ہیں جس کی تاریخ ہی مسخ کردی گئی ۔ یہ پتہ ہی نہیں کہ کس نے کیا کیا؟، کون محب وطن تھا؟، کون وطن کا دشمن تھا؟۔ جن کو ہم محب وطن سمجھتے ہیں وہ وطن کے دشمن نکلے ،جو دشمن تھے وہ محب وطن نکلے۔ میں محموداچکزئی کا بہت مشکور ہوں ہمیشہ یہ سیاست میں میرے دوست ہیں، محسن ہیں، بزرگ ہیں اور بہت کچھ میں نے ان سے سیکھا ۔ دو باتیں سیکھی ہیں ۔ اُصولوں پر سیاست سیکھی اور آئین کی بالادستی سیکھی ہے۔ عبد الصمد خان صاحب کا میں نے مقدمہ ابھی دیکھا ہے جو حامد صاحب نے دیا تھا تو یہی باتیں اس میں بھی لکھی ہوئی ہیں تو میں سب کو کہتا ہوں کہ یہ جوPDMبنی جو مقصد حاصل کرے جو اس کا مطلب تھا لیکن ایک بات اس میں کم از کم جو مجھ پر واضح ہوئی کہ وہ لوگ جن کو ہم غدار کہتے تھے ہم نے سولی پر بھی لٹکایا وہ آج آئین کی بات کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک کا نظام آئین کے مطابق چلے۔ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے یہی ایک قدم ہے آئین کی بالادستی کیلئے۔ جس کیلئے ہم سب کوشش کرتے رہے۔ کسی نے کم کی کسی نے زیادہ کی۔ آج سے تقریباً ساڑھے تین چار سال پہلے ہم نے ایک غیر آئینی تجربہ کیا۔ ایک حکومت کو لیکر آئے۔ اس نے جو ملک کا حشر کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ آج وہ تجربہ ناکام ہوگیا اور یقین کریں ملک کے حالات اتنے تشویشناک تاریخ میں کبھی نہیں ہوئے۔ تو آج پھر سے ملک کے معاملات کو درست کرنا پڑے گا۔ ری بلڈ کرنا پڑے گا اور سب نے ملکر کرنا ہے اور اس کی ہدایت بنیادی اصول آئین ہے۔اگر آئین سے انحراف کرینگے ، ملک آگے نہیں چل پائیگا۔ یہ حقیقت کم از کم مجھ پر عیاں ہے ۔ آج ہر پاکستانی پر عیاں ہونی چا ہیے کہ اگر آئین درست نہیں بدل لیں۔ جو تبدیل کرنا ہے کہ ہمیں یہ تبدیلی چاہیے مگر ملک میں دو نظام نہیں ہوسکتے۔ ملک اس طرح نہیں چلتے۔ ابھی افراسیاب بقیہ صفحہ 3نمبر3
بقیہ… شاہد خاقان عباسی
نے بات کی تھی کہ ایک امریکن پروفیسر نے مجھے یہ بات کی تھی کہ میںنے چالیس سال ہسٹری پڑھی اور پڑھائی ہے۔ تاریخ میں کوئی ایسا ملک نہیں جس کی اکثریت اس کو چھوڑ کر گئی ہو۔ ہمیشہ اقلیت علیحدہ ہوتی ہے۔ یہاں بنگالی جو اکثریت میں تھے اس ملک کو چھوڑ کر چلے گئے اپنا نام بھی ہمیں دیکر گئے ملک کا نام بھی نہیں لیا انہوں نے۔ یہ ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے تھا مگر ہم نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ آج ہماری مشکلات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمیں تاریخ کا علم نہیں ۔ میں بار بار یہ بات کرتا ہوں کہ(truth commission )ہونا چاہیے کسی کو سزا نہیں دینی حقائق تو سامنے آئیں ہوا کیا ملک کیساتھ؟۔ افراسیاب صاحب کو میں بچپن سے دیکھ رہا ہوں یہ پشاور میں یونیورسٹی کے صدر تھے میرے خیال میں73میں، بہت سے لوگ جب چلے جائیں گے تو پتہ نہ ہوگا کہ حقیقت ہے کیا؟۔ یہاں پر کیا ہوتا رہا ہے؟ آپ یقین کریں کہ جس دن ملک کے سیاستدان یہtruth commissionبنانے کے قابل ہوئے وہ دن اس ملک کی سیاسی ترقی میں بہت بڑا دن ہوگا۔ بد نصیبی ہے کہ اتنے کمزور ہیں(truth commission) ہم نہیں بناسکتے۔ عدلیہ اتنی کمزور ہے کہ وہ اس کی بات نہیں کرسکتی۔یہ صرف سیاستدانوں کا کام نہیں۔ صرف سیاستدان اس ملک کو درست نہیں کرسکتے ، صرف فوج نہیں کرسکتی، عدلیہ نہیں کرسکتی، بیوروکریسی صرف نہیں کرسکتی، سب کو ملکر بیٹھنا پڑیگا اور راستہ بنانا پڑیگا کہ ہم نے کیسے وہاں جانا ہے اور کیسے پہنچنا ہے۔ عبد الصمد خان کی جو تھوڑی بہت کتاب پڑھی ہے بات قربانیوںسے بنتی ہے اگر ایک شخص نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ جیلوں میں د یا ہو ، پھر بھی اصولوں پر قائم رہا ہو یہ ہم سب کیلئے سبق ہے۔ اس کتاب کا یہی سبق ہے اور یہی بات ہمیں یہاں سے حاصل کرنی چاہیے۔ یہاں پر مجھے عثمان کاکڑ صاحب کی یاد ضرور آتی ہے۔ وہ نوجوان ان اصولوں پر قائم رہے جو عبد الصمد خان صاحب نے سکھائے تھے۔ میں آپ سب کا بہت مشکور ہوں اور امید ہے کہ ہم سب یہاں سے کچھ سبق حاصل کرینگے۔ اور کم از کم اصولوں پر رہ کر اس ملک کو آئین کے مطابق چلانے کی کوشش کرینگے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ اپریل 2022
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv