مسکان کے چہرے پرنقاب اور اسلام!
اسلام میں حج وعمرے کی ادائیگی کرتے ہوئے عورت خانہ کعبہ کا طواف، صفا ومروہ کامخلوط میرا تھن ریس اور پنج وقتہ نماز ادا کرتے ہوئے چہرے کا پردہ نہیں کرتی ہے۔ اگر اس کے چہرے پر نقاب یا دوپٹے کا کوئی حصہ لگ جائے تو اس پر دَم (جانورذبح کرنے کا جرمانہ) واجب ہوجاتا ہے۔ اگر قرآن میں چہرہ چھپانے کا عورت کو حکم ہے توپھر کیا بنوامیہ وبنوعباس کے دورِ آمریت میں فقہاء نے عورتوں کو حج وعمرے میں چہرہ کھلا رکھنے کا حکم دیا تھا تاکہ باپردہ خواتین کے انتخاب میں آسانی ہو؟۔ لیکن عورت ہمیشہ سے اپنی روایات کی پکی رہی ہے اور یہ قرآن وسنت کا حکم نہ ہوتا تو عورت آمریت کے حکم اور فقہ کوبھی ٹھکرادیتی تھیں۔
سورہئ مجادلہ میں ظہار کی نام نہاد شریعت کے خلاف قرآنی حکم بھی عورت ہی کی مزاحمت اور مکالمے کے نتیجے میں نازل ہوا۔ حجرِاسود پربدتمیزی کے ماحول کی انتہاء دیکھنے کو ملتی تھی۔ اپنی بیگم سے اتنی ہڈی پسلی نہیں مل سکتی تھی جتنی اجنبیوں کے ماحول میں مردوعورت کا اختلاط ہوتا تھا۔ ڈاکٹر وحیدؒ نے بتایاتھا کہ منصوبے کے تحت حجرِ اسود کے پاس بعض لوگ شہوت رانی کیلئے جاتے ہیں۔ قربان اسلام پر جس نے چہرے کے نقاب پر حج و عمرہ میں چودہ سوسال پہلے پابندی لگادی تھی ورنہ نقاب کی آڑ میں پتہ نہیں کیا ہوتا؟۔ وزیراعظم عمران خان نے پہلی مرتبہ کسی مسجد میں تقریر کی تو کہا کہ تالی نہیں بج سکتی اسلئے کوئی بات پسند ہو توہاتھ اٹھالینا۔ طالبات کے چہرے چھپے ہوں تو استاذ کو معلوم نہیں ہوتا کہ سبق سمجھ آیا یا نہیں؟۔ اجتماع میں چہرے چھپانے کی آڑ میں دہشتگردی اور جنسی کرپشن بڑھ سکتی ہے۔
مسکان خان ایک سمجھدار بیٹی ایک معصوم چڑیا۔اجمل ملک ایڈیٹرنوشتہئ دیوار __
اجمل ملک لکھتے ہیں کہ بھارت کے علاقے کرناٹک کے ایک کالج میں مسکان خان کیساتھ پیش آنیوالے واقعہ کی وڈیو کلپ جب میں نے پہلی دفعہ دیکھی تو مجھے بالکل ایسے لگا جیسے میری اپنی بیٹی ہندو بلوائیوں میں گھری ہوئی ہے کیونکہ میری بیٹی بالکل اسی حلئے میں یونیورسٹی جاتی ہے۔ لہٰذا میں نے وہ وڈیو بار بار دیکھی مجھے لگا یہ بیٹی بہت سمجھدارہے،اس نے پہلے غور سے حالات کا جائزہ لیا اس نے دیکھ لیا کہ ان نعرے لگانے والوں میں میرے کلاس فیلو لڑکے بھی ہیں میرا پرنسپل بھی موجود ہے لہٰذا اسکی کچھ ہمت بندھی اور اس نے بھی انکے نعروں کے جواب میں اللہ اکبر کے نعرے بلند کئے اور پھر انتظامیہ کی سائیڈ پر چلی گئی جہاں اسکے پرنسپل نے سب کو روک کر اس کیلئے راستہ بقیہ صفحہ3پر
بقیہ ………… مسکان خان ایک سمجھداربیٹی ایک معصوم چڑیا: اجمل ملک
بنایا میں اس ذمہ دارہندو پرنسپل کو سلام پیش کرتا ہوں پھر جب کچھ لڑکے مسکان خان کی طرف بڑھے تو انتظامیہ کے ایک دوسرے شخص نے مسکان خان کو تحفظ دیا وہاں اس بچی نے شکوے کے انداز میں کہا کہ آخر حجاب سے کیا مسئلہ ہے؟ پھر کچھ آگے جاکر اس نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا جو بعد میں اس نے اپنے انٹرویو میں بھی کہا کہ میں ڈر گئی تھی اور جب میں ڈرتی ہوں تو اللہ اکبر کہتی ہوں اس معصوم مسلمان بچی نے کالج کے متعصب ماحول میں انتہائی حکمت، بردباری اور وقار سے صورتحال کا سامنا کیا۔ ہمارے برصغیر میں بیٹیاں سب سے کمزور سمجھی جاتی ہیں اور ان کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ انہیں ”چڑیوں“ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ہمارے کلچر میں کہا جاتا ہے ”دھیاں نماڑیاں“ دشمن بھی بیٹیوں کا خیال رکھتے ہیں اور کہا جاتا ہے ”دھیاں سانجھیاں ھوندیاں نے“ لیکن لگتا ہے کہ اب پاکستان کے مسلمانوں نے اپنی یہ ساری روایات بھلا دی ہیں اورہم بھارت میں آباد اپنی بیٹیوں کے تحفظ کا کوئی معقول بندوبست کرنے کے بجائے انہیں مشتعل کر رہے ہیں کہ یہ ”چڑیاں“ متعصب ھندوؤں سے ٹکرا جائیں۔ہمیں اتنی بھی بصیرت نہیں ہے کہ عالمی سطح پر مذہبی انتہا پسندی کو ابھارنے کیلئے اور ھندو مسلم کو آپس میں لڑوانے کیلئے اربوں ڈالر خرچ کئے گئے ہیں۔1979سے امریکیCIAاس ٹارگٹ پر کام کر رہی ہے جسکی پوری تفصیل آ چکی ہے لیکن دکھ کی بات ہے کہ ہم بھی بالواسطہ طور پر اس کیلئے استعمال ہو رہے ہیں،ہمیں بھارت میں بسنے والی اپنی مسلمان بیٹیوں کے تحفظ کیلئے کوئی حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے۔ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ بھارت میں آباد مسلمان کمزورہیں جب ہم نے اسلام کے نام پر ایک علیحدہ وطن بنایا تو پاکستان کیلئے اصل تحریک انہی علاقوں میں آباد مسلمانوں نے شروع کی تھی حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ ہمارے علاقے پاکستان میں شامل نہیں ہونگے لیکن وہ ایک مضبوط اسلامی ریاست کا قیام چاہتے تھے لیکن ہم پچھلے،74 سالوں میں قرآن کا ایک بھی قانون اس ملک میں نافذ نہ کر سکے اسی برٹش قانون کے تحت ہم زندگی گذار رہے ہیں جس کے تحت بھارت کا مسلمان زندگی گذار رہاہے بلکہ ایک لحاظ سے وہ ہم سے بہتر ہیں بھارت نے کم از کم ملک سے جاگیرداری نظام کا تو خاتمہ کر دیا لیکن اسلام میں جاگیرداری کے خاتمے کے واضح حکم کے باوجودہم نے اس ذلت کو سینے سے لگا رکھاہے اورہماری پارلیمنٹ پر انہی جاگیرداروں کا قبضہ ہے اگرہم پاکستان میں اسلام کا حقیقی روشن چہرہ دنیا کو دکھاتے تو ذات پات میں تقسیم ھندو سب سے پہلے اس اسلام کی آغوش میں پناہ لیتا ہم نے تو اسلام نافذ نہیں کیا لیکن بھارت کے مسلمانوں کو پاکستان بنانے کی قیمت آج بھی ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ وہ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان کے مسلمان ہماری مدد کریں لیکن کچھ قومی ذمہ داریاں ”ان کہی“ہوتی ہیں اور زندہ قومیں نہ صرف ان ذمہ داریوں کو یاد رکھتی ہیں بلکہ انہیں نبھاتی بھی ہیں 1924میں جب مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کیا جا رہا تھا تو مسلمانوں کے نظام خلافت کو بچانے کیلئے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں نے زبردست تحریک چلائی۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی والدہ ”بی اماں“ کی قیادت میں ایسی زبردست تحریک اٹھی کہ ھندوؤں نے بھی اس تحریک میں مسلمانوں کا ساتھ دیا اسوقت پورے ہندوستان میں یہ نعرہ مشہور ہو گیا ”اماں بولی محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پر دیجیو“۔ اسوقت متحدہ ہندوستان سے ہزاروں مسلمان عورتوں نے ترکی کی مدد کیلئے اپنے زیورات بھیجے، ترکی کانظام خلافت تو نہ بچ سکا لیکن ترک قوم نے آج تک مشترکہ ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ احسان یاد رکھا ہوا ہے اور جب2005میں پاکستان میں شدید زلزلہ آیا تو ترکی کی طرف سے دیگر امداد کیساتھ وہاں کی عورتوں نے اسی جذبے کے تحت اپنے زیور بھی بھیجے لیکن گردش زمانہ نے کیسے دن دکھا دیئے ہیں کہ تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے عظیم لیڈر ذولفقار علی بھٹو کی جماعت کا منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی تاریخ سے اتنا ناواقف نکلا کہ اس نے ترک خواتین کی جانب سے بھیجے گئے زیورات میں سے ایک نہایت قیمتی ہار اپنی بیگم کو دیدیا اناللہ واناعلیہ راجعون۔آج بحیثیت قوم ہم اپنی ذمہ داریاں بھول چکے ہیں۔ہمارا زور صرف نعرے لگانے اور تصادم کی فضا پیدا کرنے پرہے،مضبوط پاکستان بھارت میں آباد مسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت ہے لیکن بدقسمتی سے ہم تو اپنی کشمیر کی بیٹیوں کیلئے بھی سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں کر سکتے لہٰذا ہمیں ایسا ماحول پیدا کرنا ھوگا جس سے بھارت میں آباد مسلمانوں کو تحفظ ملے، حجاب مسلمان بیٹیوں کی عزت کے تحفظ کیلئے ہے اس نام پر بیٹیوں کا تماشہ لگانے کیلئے نہیں ہے۔ قرآن کھول کر دیکھیں اپنی عورتوں کی عزتوں کے تحفظ کیلئے کیسے کیسے جلیل القدر انبیاء نے کس حکمت سے کام لیا ہے۔ دوسرے یہ کہ بھارت میں حجاب کوئی اجنبی چیز نہیں ہے۔ ھندو کلچر میں اس کا بہت رواج ہے،وہاں بہت بڑی تعداد میں ہندو خواتین و حضرات مسلمانوں کا ساتھ دے رہے ہیں ہمیں حجاب کو مسلمانوں اور ھندوؤں کے درمیان رسہ کشی کا سبب بنانے کے بجائے اس حوالے سے ساتھ دینے والوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور دوسری طرف اپنے آپکو مضبوط کرنا چاہیے۔ہم نعرہ تو اللہ اکبر کا لگاتے ہیں اور قرآن کا یہ واضح حکم ہمارے سامنے ہے کہ”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں فرقہ فرقہ مت بنو“۔ لیکن ہم میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ ہم اپنے فرقے کی قربانی دیکر ایک اللہ کے دین پر متحد ہو جائیں، لہٰذا آج ہم مسلمان دنیا میں ذلیل و رسواء ہیں اگر ہم جہاد بھی کرتے ہیں تو امریکی مقاصد کی تکمیل کیلئے کرتے ہیں،ہمیں ڈرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہوکہ بقول ڈاکٹر اسرار احمد کہ اللہ ھندوؤں کوہدایت دیکر مسلمان کر دے اور انکے ذریعے اصل اسلام کو زندہ کر دے کیونکہ آج بھارت کی پارلیمنٹ میں تو قرآن کھلتا ہے اورہندو عورت قرآن لہرا کر کہتی ہے کہ تم مسلمان عورتوں کیساتھ حلالے کیوں کرتے ہو؟۔ قرآن پڑھو اس میں اس حوالے سے کتنا واضح حکم ہے۔ سورہ البقرہ کی آیت نمبر228،229اور آیت نمبر231،232اس حوالے سے بالکل واضح ہیں اور مزید اگرہم سورہئ طلاق کے شروع کی صرف دو آیات دیکھ لیں تو بات بالکل واضح ہے لیکن ہمارا مولوی قرآن کھولنے کو تیار نہیں ہے اس نے اپنی سوئی سورہ البقرہ کی آیت نمبر230پر اٹکا دی ہے تاکہ معصوم بچیوں کے حلالے کرتا رہے لہٰذا کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ مسلمان بیٹیوں کی عزتوں سے کھیلنے والے نام نہاد علماء کو عذاب دینے کیلئے ہندوؤں کو منتخب کر لے اور جس غزوہ ہند کی ہم مسلمان بات کرتے ہیں وہ ہمارے ہی خلاف ہو اورہماری ہی اشرافیہ طوق و سلاسل میں جکڑ لی جائے کیونکہ اس سے پہلے تاریخ یہ نظارہ دیکھ چکی ہے۔اللہ تعالیٰ نے چنگیز خان کی اولاد کو اسلام کی دولت سے نواز دیا اور پھر انہوں نے اسلام کو زندہ کیا جس پر اقبال نے کہا”ہے عیاں فتنہ تاتار کے افسانے سے۔ پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے“۔ اجمل ملک
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv