پوسٹ تلاش کریں

ڈی جیISPRکی9مئی پر تفصیل سے بریفنگ اوربار بار ایک طرح کے سوال کا جواب

ڈی جیISPRکی9مئی پر تفصیل سے بریفنگ اوربار بار ایک طرح کے سوال کا جواب

پاک فوج کے ترجمانDGISPRکا عہدہ بہت اہم ہے۔جنر ل آصف غفور جب اس عہدے پر تھا تو اس نے الزام لگایا تھا کہ منظور پشتین اورPTMکو انڈیا اور افغانستان کے جاسوسی ادارے کی طرف سے بھاری رقم مل گئی ہیں۔ منظور پشتین نے بار بار چیلنج کیا کہ ثبوت پیش کئے جائیں۔
فوج کو دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار بنایاگیا تھا تو بندوق اوربارود کے مقابلے میں آواز اٹھانے کی حدتک بات زیادہ قابل برداشت تھی طالبان کی دہشت گردانہ کاروائیوں میں بھی اسلئے نرمی تھی کہ پوری قوم طالبان کے ساتھ تھی اور امریکہ کا ساتھ مجبوری میں دیا گیا تھا۔ پھرPDMنے بھی فوج پر اپنے ہاتھ صاف کردئیے اور آخر کار تحریک انصاف نے بھی بڑھ چڑھ کر حملے کرنا شروع کئے۔75سالہ تاریخ میں پاک فوج بھی کوئی معصوم نہیں تھی ، جنرل ایوب خان سے پہلے جتنے گورنر جنرل اور وزیراعظم آئے قائداعظم اور قائد ملت سے سکندر مرزا تک کوئی ایک بھی پاکستان کے کسی ایک حلقے سے بھی منتخب نمائندہ نہیں تھا۔ جنرل ایوب خان نے عوامی اقتدار پر شب خون نہیں مارا تھا بلکہ سول بیوروکریسی میں اسسٹنٹ کمشنر سے ترقی کرکے گورنر جنرل کا عہدہ ختم کرکے صدر بن جانے والے سکندر مرزا سے اقتدار چھین لیا تھا۔ جمہوریت کی تاریخ جنرل ایوب خان کے دور سے شروع ہوتی ہے ،جب فاطمہ جناح کو مولانا مودودی نے سپورٹ کیا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کی گود میں بیٹھا تھا۔ ن لیگ کے وفاقی وزیر کے والد نے فاطمہ جناح لکھ کر کتیا کے گلے میں پٹی ڈالی تھی اور فاطمہ جناح کے خلاف جلوس نکالا تھا۔اب یہ جمہوریت کے علمبردار بن گئے۔
بلاول بھٹو پیدا نہیں ہوا تھا لیکن اس کو تاریخ کی درست رہنمائی کوئی کیوں نہیں کرتا ہے کہ1988کے الیکشن میں اس کی ماما بینظیر بھٹو الیکشن لڑرہی تھی تو مولانا فضل الرحمن کیساتھMRDکی سطح پر الیکشن کا انتخابی اتحاد اس حد تک تھا کہ مرکزی رہنماؤں نے ایک دوسرے کے خلاف کسی کو پارٹی کا ٹکٹ نہیں دیا تھا اور مولانا فضل الرحمن پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کے اتحاد سے کامیاب ہوا تھا اور بینظیر بھٹو کے مقابلے میں ڈاکٹر خالد محمود سومرو نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا تھا۔ جمعیت علماء اسلام نے اس کو ٹکٹ نہیں دیا تھا اور مولانا فضل الرحمن اور جماعت کے اکابرین ڈاکٹر خالد محمود سومرو سے سخت ناراض ہوگئے تھے۔
جب پیپلزپارٹی نے اکثریت حاصل کرکے حکومت بنالی تو صدارت کیلئے نوابزادہ نصر اللہ خان کے مقابلے میں غلام اسحاق خان کو اپنے ووٹ دیدئیے۔ جمہوریت کی جگہ جنرل ضیاء الحق کے بیوروکریٹ ساتھی کو پیپلزپارٹی نے جتوایا تھا اور مولا بخش چانڈیو جیسے لوگوں سے بلاول بھٹو کچھ سیکھے تو اس پر سیاسی نابالغ ہونے کا دورہ نہیں پڑے گا۔ اس وقت جماعت اسلامی اور ن لیگ والے جب مولانا فضل الرحمن کو تنقید کا نشانہ بنارہے تھے تو جواب میں مادر ملت فاطمہ جناح کو ووٹ دینے کا حوالہ جماعت اسلامی کا اعتراض اٹھانے کیلئے دیتے تھے۔
اگر مسلم لیگ ن کے ساتھ جمعیت علماء اسلام یا جماعت اسلامی کی ڈیل ہوگئی تو پھر مریم نواز کو وزیراعظم بنانے میں اپنے تاریخی کردار کا حوالہ دے سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو کیلئے تیسری جنس کے شبے کا مسئلہ بھی کھڑا ہوسکتا ہے۔ انتخابی دنگل میں ہر جائز وناجائز حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ پہلے بلوچ بینظیر بھٹو سے بہت محبت رکھتے تھے لیکن اب بلاول کو باجی بلاول کہنے والے بھی بہت ہیں۔ سوشل میڈیا پر کسی کی زبان کو کون لگام دے سکتا ہے۔ سیاسی قائدین اخلاقیات کو تباہ وبرباد کرنے میں اپنا پورا پورا کردار ادا کرتے ہیں اور پھر شکوے کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کی سیاسی خوف کی وجہ سے13پارٹیوں کی حکومت الیکشن سے خوفزدہ ہے۔ الیکشن سے حکومت بھاگ رہی ہے لیکن الزام اسٹیبلیشمنٹ پر بھی لگ رہاہے۔ جب ڈی جی آئی ایس پی آر سے پوچھا گیا تو متعدد بار سوال کو دہرایا گیا۔ بڑی مشکل سے اس سوال کا جواب دیا کہ ہم نے وزارت دفاع میں اپنا مؤقف پیش کیا لیکن اگر حکومت ہمیں بلالیتی تو الیکشن کیلئے آتے اسلئے کہ الیکشن کے اصل اسٹیک ہولڈر الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتیں اور حکومت ہیں اور ہم صرف اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ باقی ان کے پابند ہیں۔ سوال یہ بھی تھا کہ چیف جسٹس پر الیکشن کے حوالہ سے دباؤ کی خبروں میں کتنی صداقت تھی؟۔
سپریم کورٹ کے سامنے مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز نے چیف جسٹس پر حکومت میں ہوتے ہوئے دفعہ144کے سائے میں جو پریشر ڈالا تھا وہ بھی اپنی نوعیت کا انوکھا احتجاج تھا۔ جسکے سامنے سپریم کورٹ کی عزت نہیں وہ فوج کی کیا عزت کریگا؟۔ عمران خان اور طاہرالقادری کو پارلیمنٹ پر حملہ اورPTVپر قبضہ کرنے کی پاداش میں سزا ئیں دی جاتیں تو9مئی کے واقعات نہ ہوتے۔
DGISPRنے واضح کیا کہ فوجی عدالتیں بہت پہلے سے قائم ہیں اور اپنا کام مختلف ادوار میں تسلسل کیساتھ جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ جھوٹ کے ذریعے حقائق کو نہیں بدلا جاسکتا ہے۔ جنگ اور جیو نیوز نے خود کو بڑا بدنام کردیا ہے، اب ان کی طرف کوئی دیکھتا بھی نہیں ہے ، انکے سچ کو بھی جھوٹ سمجھ رہے ہیں۔ ہارون الرشید سمیت صحافیوں کا جوطبقہ پاک فوج کی حمایت کرتا تھا وہ اب دوسرے بلاک کا حصہ بن چکا ہے۔ عمران ریاض خان کے بارے میں افغانستان تک پہنچنے کی خبریں تشویشناک تھیں۔ اب تک لاپتہ ہے اور بہت سارے وہ لوگ بھی لاپتہ ہیں جو فوج کے خلاف بولتے ہیں۔ ایک طرف بلوچ خواتین کی طرف سے بھی خود کش حملوں کی خبریں آرہی ہیں اور دوسری طرف طالبان بھی اپنی کاروائیاں کررہے ہیں۔بھارت کی طرف سے بھی خطرات کا سامنا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے بھی خوف کی فضا پیدا کررکھی ہے تو فوج کی کسی معقول بات کو بھی ایسے ماحول میں لوگ غیرمعقول قرار دیتے رہتے ہیں۔
فوجی کوئی صحافی یا خطیب نہیں ہوتے ہیں کہ اپنی صفائی پیش کرنے کا درست گر سمجھتے ہوں۔ جب تسلسل کیساتھ مخالفانہ ماحول پیدا کرنے سے تنگ آجاتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ جب وہ اپنا ایکشن دکھاتے ہیں تو انکو زیبرا کہنے والے گدھے کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں مشہور ہے کہ ”گدھے کی محبت لات مارنا ہوتی ہے”۔ فوج کی ٹریننگ کا حصہ ہے کہ جب وہ کاروائی کرتے ہیں تو اپنی فوج کے خلاف بھی وہی کرتے ہیں جو عوام پر کرتے ہیں۔ اب سب سے پہلے اپنے فوجیوں کا احتساب کیا ہے جن میں بڑے رینک کے افسران بھی شامل ہیں اور ان کا قصور غفلت کا برتنا یا درست طریقے سے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی ہے۔ اس پر بھی صحافیوں نے بار بار سوالات کئے کہ جب تمہارا پروگرام یہ تھا کہ تحمل کا مظاہرہ کرنا ہے تو پھر فوجیوں کو سزا کیوں دی ہے؟۔
DGISPRکی بات میں تضاد نہیں تھا بلکہ سانحہ9مئی کے واقعات کے کئی پہلو تھے۔ ایک طرف مسلسل فوج کے خلاف الزامات اور نفرت کی فضا تھی۔ دوسری طرف عوام مشتعل ہوگئی تو خلاف توقع جناح ہاوس اورGHQمیں بھی لوگ داخل ہوگئے۔ پھر خواتین کو آگے کیا ہوا تھا۔ اگر بڑے پیمانے پر رد عمل دیا جاتا تو انتشار کی فضا مزید پھیل سکتی تھی۔ یہ بات بالکل درست تھی۔ یہ بھی درست ہے کہ جن لوگوں نے زیادہ ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیا یا غفلت برتی تو ان کے خلاف ایکشن بنتا ہے۔ یہ بھی درست تھا کہ یہ واقعہ مسلسل فوج کے خلاف بولنے کی وجہ سے ہوا ہے لیکن صحافی ان سوالوں میںDGISPRکو الجھاتے تھے۔
ایک فوج کو یہ مہارت ہوتی ہے کہ کمانڈوایکشن کے ذریعے دہشت گردی کا مقابلہ کرے لیکن صحافیوں کی طرف سے الجھا ؤ پیدا کرنے سے اس میں صرف اشتعال آسکتا ہے۔ جس کا تھوڑا بہت احساس سامعین کو ہورہا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر سانحہ9مئی کے مجرموں کو چھوڑ دیا گیا تو کل دوسری سیاسی جاعتوں کی طرف سے بھی یہ روز روز کا تماشا بن سکتا ہے۔
فوج کا ان کو سزا دلوانے کیلئے پر عزم ہونا اس کا حق ہے۔ البتہ فوجی عدالتوں سے خوفزدہ لوگ جب تحریک انصاف کو چھوڑ دیتے ہیں اور ان کو کلین چٹ ملتا ہے تو اس سے یہ تأثر ابھرتا ہے کہ اصل معاملہ مجرموں کو سزا دینا نہیں بلکہ عمران خان کی سیاسی قوت کو توڑنا ہے۔ پرویز الٰہی تحریک انصاف کا صدر ضرور ہے لیکن اس کے گھر کو اس طرح نشانہ بنانے سے ایک غلط فہمی جنم لے رہی ہے اور اس پرDGISPRکا جواب بالکل ٹھیک ہے کہ حکومت اگر غلط فائدہ اٹھاکر ایسا کر رہی ہے تو یہ نہیں ہونا چاہیے مگر اس کی وجہ سے اصل مجرموں کو چھوڑنا بھی غلط ہے اور اس سے پاک فوج کا بھرپور طریقے سے پر عزم ہونے کا اظہارہوتا ہے۔
DGISPRسے منصوبہ ساز کا نام پوچھا گیا تو اس نے بات ٹال دی ہے اور اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ اگر عمران خان کا نام لے لیا اور پھر بوجوہ چھوڑ دیا تو ایک لکیر کھچ جائے گی کہ اصل مجرم کو کیسے چھوڑ دیا اور اگر کٹہرے میں لایا تو پھر اس کو پہلے سے بری الذمہ قرار دینے سے بھی معاملات بگڑ سکتے ہیں۔
اگر ملک میں اچھی حکومت یا اچھی اپوزیشن ہوتی تو پاک فوج کو اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ جب ایک مقبول لیڈر شپ تھی اور لوگوں کو فوج سے محبت تھی تو بھارت کی قید سے آنے والے فوجیوں کابھی شاندار استقبال کیا گیا تھا اور ان کو نوکریوں پر بھی بحال رکھا گیا تھا۔ اب حالات مختلف ہیں۔ تسلسل کیساتھ سیاسی جماعتوں اور صحافیوں نے ون پوائنٹ ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے فوج کی وہ مخالفت کی کہ ایسے پروپیگنڈے کی دنیا کی تاریخ میںکوئی مثال نہیں ملتی۔ سب سے زیادہ ہم نے مخالفت میں اپنا کردار ادا کیا لیکن دجال کی طرح صرف ایک نظر سے نہیں دیکھا بلکہ جہاں ان کی طرف سے خیر کا پہلو اور دفاع ہوتا تھا تو اس کو بھی اجاگر کرتے رہے ہیں۔ اگر فوج پر خود کش حملے ہوں اور دہشت گردی کا نشانہ بنایا جائے تو ردعمل میں مسنگ پرسن ایک معمولی بات ہے۔ جب ایک طرف مسنگ پرسن کا تذکرہ ہو اور دوسری طرف فوج پر دہشت گردانہ حملوں کے خلاف بات نہ کی جائے تو توازن اور اعتدال کی فضا قائم نہیں ہوسکتی ہے۔ جب فوج کے خلاف حملوں اور فوج کی طرف سے ظالمانہ کاروائی دونوں کا تذکرہ کیا جائے تو پھر اس سے صحافت کا حق بھی ادا ہوتا ہے اور صلح واصلاح اور اعتدال کی فضا بھی بنتی ہے۔ ارشد شریف شہید اور عمران ریاض خان سمیت صحافیوں کا بڑا ٹولہ صابر شاکر ، سمیع ابراہیم اور ہارون الرشید وغیرہ نے اتنا اللہ کا ذکر کیا ہوتا جتنا وہ پاک فوج کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے تو آج اپنے کئے کا ازالہ کرنے کیلئے ضمیر ضمیر کی باتیں نہیں کرتے تھے۔ ہماری چاہت ہے کہ کسی سے بھی زیادتی نہ ہو لیکن جس فوج نے میڈیا میں ایک اعلیٰ مقام تک پہنچایا ہے ، اگر اس کی مخالفت کروگے تو الٹی گنتی شروع ہونا یقینی ہے۔ ہم بھی اس مقام پر بیٹھ کر بہت شہرت اور دولت حاصل کرسکتے تھے لیکن اپنی اوقات میں رہنا اچھا لگتا تھا۔
آج بھی ہماری ایماندارانہ رائے یہی ہے کہ تحریک انصاف کے مجرموں کو بھی فوجی عدالتوں کے ذریعے سزا دینا فوج کے ایک پر کو توڑنے کی طرح ہے۔ ن لیگ اور تحریک انصاف دونوں فوج کے دو بازو اور پرواز والے پر ہیں۔ اگر کوئی ایک بھی ناکارہ ہوگیا تو فوج کی پرواز بالکل ختم ہوجائے گی، اسلئے کہ پاک فوج نے ہی ان کو ڈیزائن کیا ہوا ہے۔ پہلے نوازشریف نے تنقید کا نشانہ بنایا اور پھر عمران خان نے بنایا ۔ نوازشریف اپنے پارلیمنٹ کے بیان اور قطری خط کو بھی فوج کے کھاتے میں ڈال کر کہہ رہاتھا کہ مجھے کیوں نکالا ؟۔ حالانکہ فوج نے اس کو کوئی سزا نہیں دی تھی لیکن پنجاب کا آدھا حصہ فوج کا مخالف بن گیا۔ باقی ماندہ تحریک انصاف کی وجہ سے فوج کا حامی تھا اور اب وہ بھی گیا۔ بازو زخمی ہوجائے تو ٹھیک ہوسکتا ہے لیکن کٹ جائے تو دوبارہ لگ نہیں سکتا ہے۔
پہلے جن سول لوگوں کو فوجی عدالتوں نے سزائیں دی ہیں وہ کسی سیاسی پارٹی کے کارکن نہیں تھے۔ اب معاملہ بالکل مختلف ہے۔ سیاسی پارٹی کے کارکنوں کو ایسی حالت میں فوجی کورٹ سے سزا دینا جب عدالت پر بھی پریشر ہوکہ آئین کے مطابق انتخابات نہ کرائے تو اس کا بہت زیادہ ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
فوجیوں کا دماغ زیبرے کی طرح ہوتا ہے اور سیاسی جنگ میں وہ کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔ اگر گدھا ہو اور وہ بھی جنگلی تو اس کو سیاست کا کیا پتہ ہے؟۔ عمران خان کے ورغلاوے میں بھی آگئے تھے اور نواز شریف کے ورغلاوے میں بھی آسکتے ہیں۔ حامد میر نے خبر دی ہے کہ عمران خان کیساتھ عید کے بعد بہت کچھ ہوسکتا ہے۔یہ اکسانے کا ایک حربہ بھی ہوسکتا ہے لیکن پاک فوج کو اس کی باتوں میں نہیں آنا چاہیے۔ بعد میں حامد نے کسی کو آنکھ مار کر کہنا ہے کہ اس طرح سے کام نکالے جاتے ہیں۔ جب حامد میر چاہتا ہے تو مولانا فضل الرحمن کو بہت بڑا کریڈٹ دیتا ہے کہ رقم سے بھرا ہوا بریف کیس نہیں لیا اور جب چاہتا ہے کہ اس کی ایسی کی تیسی کردے تو انصار عباسی کو بٹھا کرGHQسے ملنے والی زمینوں کے دستاویزی ثبوت میڈیا پر علامہ راشد محمود سومرو کے سامنے دکھاتا ہے۔
جن سیاسی کارکن کا تعلق فوجی خاندانوں سے ہے ان کا ٹرائیل فوجی عدالت اور جن کا فوجی خاندان سے تعلق نہیں انکا ٹرائیل دہشت گردی کی عدالتوں میں ہوجائے تب بھی زیادہ برا نہیں ہوگا۔ لیکن اگر پوری پارٹی کو فوج کے سامنے کھڑا کیا گیا تو فوج کیلئے نیک شگون نہیں ہوگا۔ حامد میر کہتا تھا کہ نوازشریف یہاں قدم بھی رکھ سکتا ہے لیکن عمران خان کو عبرتناک سزا دی گئی تو نوازشریف کیلئے بھی سزا کا کوئی راستہ نکل آئے گا۔ اگر عدالت نے کہہ دیا کہ فوج کے خلاف زبان کھولنے والوں کو فوجی عدالتیں نمٹ لیں تو عدالت کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے؟۔
بیانات کی حد تک تو عمران خان سے زیادہ نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن پر مقدمات قائم ہوسکتے ہیں۔ ہم بھی انقلاب چاہتے ہیں لیکن ایسے انقلاب میں مزہ بھی نہیں آئے گا کہ اسٹیک ہولڈرز کو سزائیں دی جائیں اور ہمارے لئے راہ ہموار ہوجائے۔ اسلام کے اندر ایسی صلاحیت ہے کہ مشرکین عرب کے جاہلوں کو جب ایمان کی دولت سے مالامال کیا تو سپر طاقتوں کو انہوں نے شکست دی تھی۔ آج اسلام اور مسلمانوں میں زیادہ صلاحیت ہے کہ اسلام کے عظیم دین کو استعمال کرکے دنیا میں ایسی خلافت کا نظام قائم کردیں جس سے زمین والے بھی خوش ہوں اور آسمان والے بھی۔ سیاسی پارٹی کا خلاء استحکام پاکستان پارٹی کے ذریعے پورا نہیں ہوسکتا ہے بلکہ ایک ایسی پارٹی کی ضرورت ہے جو قوم پرستی اور فرقہ پرستی سے بالاتر اس قوم کے بچوں کو الو بنانے کے بجائے شاہین بنادے۔
ہم اللہ تعالیٰ سے قوی امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری کمزوریوں کو نہیں اپنے فضل کو سامنے رکھ کرپاکستان کے بہترین مستقبل کیلئے اچھائی کے راستے پیدا کردیگا اور پاکستان کی وجہ سے عالم اسلام اور عالم انسانیت کو ایک نئے سورج کا انقلاب دیکھنے کو ملے گا۔ اسلام کے فطری قوانین کے ذریعے یورپ اور مغرب بھی بہت اعتدال پر آسکتے ہیں لیکن جب تک نمونہ نہیں دیکھیںگے تووہ کیسے آسکتے ہیں؟۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت صلح چاہتی ہو تو مفتی رکاوٹ، علیحدگی چاہتی ہو تومفتی رکاوٹ کیا یہ اسلام ہے یا مولوی کا پاجامہ؟

عورت صلح چاہتی ہو تو مفتی رکاوٹ، علیحدگی چاہتی ہو تومفتی رکاوٹ کیا یہ اسلام ہے یا مولوی کا پاجامہ؟

رسول اللہ ۖ نے فرمایا : یہ امت بھی سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چلے گی اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے زنا کیا ہوگا تو اس امت میں بھی ایسے لوگ ہوں گے اور اگر ان میں سے کوئی گوہ کے سوراخ میں گھسا ہوگا تو اس میں بھی ایسا شخص ہوگا۔ صحابہ نے پوچھا کہ کیا یہود ونصاریٰ ؟۔ فرمایا کہ پھر اور کون ہیں؟۔
جب قرآن کی آیت نازل ہوئی کہ اہل کتاب نے اپنے علماء ومشائخ کو اپنا رب بنالیا تھا توایک صحابی (جو پہلے یہودی تھا )نے عرض کیا کہ قرآن کی اس خبر علماء ومشائخ کو اپنا رب بنانے کی بات کیسی ہے؟۔ نبی ۖ نے فرمایاکہ کیا تم جس چیز کو وہ حلال یا حرام قرار دیتے تھے تم ان کے حلال کردہ کو حلال اور حرام کردہ کو حرام نہیں قرار دیتے تھے؟۔اس نے عرض کیا کہ یہ تو ہم کیاکرتے تھے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” یہی تو رب بنانا ہے”۔
پورے اسلام کی کایا پلٹ دی گئی ہے ، یہاں تک سودی نظام جس کو قرآن نے اللہ اور اس کے رسول ۖ سے جنگ قرار دیا ہے اور نبی ۖ نے اس کے بہت سارے گناہوں میں ایک گناہ خانہ کعبہ میں اپنی ماں کیساتھ36مرتبہ زنا بھی قرار دیا ہے۔ سراج الحق جماعت اسلامی ، شجاع الدین شیخ تنظیم اسلامی اور مفتی تقی عثمانی کا ٹبر قرآن وحدیث کی وعیدوں کو سناتے ہیں لیکن سود کو معاوضے کے تحت جائز قرار دیا ہے۔ عام آدمی اور علماء کی بھاری اکثریت اس کو سودہی کہہ رہی ہے لیکن پھر بھی سرِ بازار امت مسلمہ سے جھوٹ بولا جاتا ہے جس کی وجہ سے عوام کا علماء اور مذہبی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔
جس طرح یہ بات عوام وخواص کو اچھی طرح سے سمجھ میں آتی ہے کہ سودی نظام سے پاکستان میں اسلام کے نام پر کتنا پیسہ کمایا جارہاہے جس کا سُود عالمی یہودی نظام کے پاس جاتا ہے اور علماء ومفتیان بھی اس میں سے اپنی فیس وصول کررہے ہیں۔ اسی طرح سے فقہ کے نام پر عورت کیساتھ بڑی زیادتیاں ہیں۔
عوام بے حس اسلئے ہوچکی ہے کہ جب ہمارا پورا نظام سود کی وجہ سے مفلوج ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اسلام کا نام دیا جائے یا نہیں دیا جائے؟۔ لیکن وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ منحوس لوگوں نے کس طرح دین کے بدلے دنیا خرید لی ہے؟۔ ہم کچھ دوسرے مسائل کی طرف علماء کرام اور عوام کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ کس طرح درباری ملاؤں نے حکومتوں کی سرپرستی میں اسلام کا کباڑہ کرکے طاقتور لوگوں کیلئے مظلوم خواتین کو ہوس کا نشانہ بنانے کی اجازت دی ہے؟۔
مفتی عبدالرحیم اورمفتی تقی عثمانی نے لکھ دیا کہ حاجی محمد عثمان کے معتقد کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے اور اس نکاح کا انجام کیا ہوگا ؟۔ عمر بھی کی حرام کاری اور اولاد الزنا۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی ان غلیظ فتوؤں کے بعد حاجی عثمان کی قبر پر اپنے دامادوں اور بیٹیوں کیساتھ جاتے تھے۔ مفتی اعظم امریکہ کہلانے والا مفتی منیراحمد اخون مفتی تقی عثمانی کا شاگرد اور مولانا یوسف لدھیانوی کاداماد اور مرید ہے۔ یہ فتویٰ مفتی اعظم امریکہ سے لیکر میرے جلالین اور مشکوٰة کے استاذ مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید پر بھی لگتا ہے جو فتوؤں کے بعد حاجی عثمان سے بیعت ہوگئے تھے۔ اور ان کے بڑے بھائی مفتی حبیب الرحمن درخواستی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے حاجی عثمان کے حق میں فتوؤں کے بعد فتویٰ دیا تھا۔ مولانا محمد مکی حجازی مدظلہ العالی ، مدرسہ صولتیہ مکہ کے مولانا سیف الرحمن نے بھی فتوؤں کے بعد عقیدت کا اظہار کیا تھا۔ مجھے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اپنے استاذ حضرت مولانا بدیع الزمان نے حاجی عثمان کیلئے علماء ومفتیان کے خلاف اہم کردار ادا کرنے پر تھپکی دی تھی۔ جمعیت علماء اسلام ف اور س دونوں کے اکابر نے کھل کر ہمارا ساتھ دیا تھا۔ تبلیغی جماعت کراچی کے امیر ،انکے صاحبزادے مفتی شاہد اور شیخ الحدیث مولانا زکریا کے خلفاء مولانا یحییٰ مدنی بھی حاجی محمد عثمان کے ساتھ تھے۔ ختم نبوت کے مرکزی امیر مولانا خان محمد کندیاں، جمعیت علماء اسلام ف کے امیر مولانا عبدالکریم بیرشریف، مولانا عبداللہ درخواستی اور مولانا سرفراز خان صفدرسیمت سندھ ، پنجاب اور پختونخواہ کے علماء کرام نے ضلعی اور صوبائی سطح سے لیکر مرکزی سطح تک ہماری زبردست تحریری اور بالمشافہہ ملاقات میں تائید فرمائی تھی۔ جن میںہمارے استاذ پرنسپل بنوری ٹاؤن کراچی ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ، مفتی محمد نعیم جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی، مفتی عبدالمنان ناصر لورالائی بلوچستان کے علاوہ تمام مکاتب فکر اور جماعتوں کے اہم قائدین بھی شامل تھے۔ ڈاکٹرا سرار احمد، پروفیسر غفور احمد ، مولانا سمیع الحق شہید ، مولانا شاہ احمد نورانی ، پروفیسر فریدالحق ، علامہ طالب جوہری ، مولانا حسن ظفر نقوی اور تمام مکاتب کے بڑے بڑے حضرات کی ہمارے اخبار میں سرخیاں لگی ہیں۔
جب یکم جون2007کو اخبارات کی زینت یہ خبر بن گئی کہ نامعلوم افراد نے پیر عتیق الرحمن کا پوچھا اور نہ ملنے پر گھر پر حملہ کردیا اور14افراد موقع پر جان بحق اور دوافراد زخمی ہوگئے تو جولائی2007میں مجھے اپنے انجام تک پہنچنے کی توقع پر مولانا محمد زبیر حق نواز نے ” فتاوی عثمانی جلددوم ” میں حاجی عثمان کے معتقد کے خلاف فتویٰ بھی شائع کردیا۔ حاجی عثمان کے خلاف مفتی عبدالرحیم اور مفتی تقی عثمانی نے اپنے مفادات کی وجہ سے فتوے لگائے تھے، ان کا بڑاسرمایہ ڈوب رہا تھا۔ لیکن مفتی زبیر لونڈے نے کس طرح یہ حرکت کر ڈالی؟۔ اس کے محرکات تلاش کرکے مفتی زبیر کو اپنے کئے کی سزا انشاء اللہ ضرور ملے گی۔
جب اپنے خلاف فتویٰ دیکھنے کیلئے فتاویٰ عثمانی جلد دوم لی تو پھر ایسے بہت انکشاف ہوئے کہ تقی عثمانی نے کتنے غلط فتوے دیکر اسلام کا کباڑ بنادیا ہے ؟ اس ذخیرے میں کچھ فتوے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اگر اس کو جلی حروف کیساتھ شائع نہیں کیا تو آخرت میں مواخذہ ہوگا۔ برما سے بے وطن بعض غریب لوگ اپنی بیٹیاں بیچتے تھے، برما کے لوگ بہت اچھے اور غیرتمند مسلمان ہیں لیکن غربت کی وجہ سے بعض لوگ اپنی بچیوں کو دلالوں کے ذریعے فروخت کررہے تھے۔ ایک شخص نے70عورتوں کو فروخت کیا تھا اور باقی بھی کچھ دلال تھے جو نہیں شرماتے تھے۔
سوال : ایک عاقلہ بالغہ مسلمان لڑکی پنچائیت، عدالت وغیرہ ( یعنی بیچنے والے دلالوں کے نکاح کرانے کے بعد یہ بیان دیتی ہے کہ ” اس نے نکاح اپنی بلوغت کی عمر میں اپنی مرضی سے نہیں کیا تھا بلکہ اپنی حقیقی ماں کا دل رکھنے کیلئے کیا تھا تو اس نکاح کی قرآن وسنت کی روشنی میں کیا حیثیت ہے؟۔
جواب : جب لڑکی بالغ ہو اور اس نے نکاح کی منظوری دے دی ہو تو نکاح ہوگیا ، بعد میں یہ کہنا کہ میں نے والدہ کا دل رکھنے کیلئے کہا تھا ،اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، نکاح قائم ہے۔ (فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ274)
سوال: ۔………مسئلہ : فرض کیا اگر میری بیوی اور اس کے گھر والے وغیرہ یہ محسوس کرلیتے ہیں کہ اب کسی بھی طریقے سے اور بذریعہ عدالت بھی اس خاوند سے جان نہیں چھوٹ سکے گی تو اگر میری بیوی اور اس کے گھر والے اپنی لڑکی یعنی میری بیوی کی دوسری جگہ شادی کرنے کیلئے مجھے قتل کرادیتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ان حالات میں قتل کا گناہ کبیرہ تو میری بیوی اور اس کے گھر والوں وغیرہ پر ہوگا ہی لیکن کیا مجھے قتل کروانے کے بعد میری بیوی جو بیوہ ہوگی اس کا نکاح کسی دوسرے مرد کیساتھ جائز ہوگا یا نہیں ؟۔
جواب: قتل کا سخت گناہ ہے مگر عدت گزارنے کے بعد دوسرے شخص سے نکاح ہوجائے گا۔ فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ(274،275)
اگر فتاویٰ عثمانی جلد دوم کا علمی جائزہ لیا جائے تو اس میں بہت تضادات والے فتوے بھی ہیں جن کو دیکھ کر علماء ومفتیان بھی حیران ہوں گے کہ پیسوں کے لین دین کی وجہ سے مختلف لوگوں کو مختلف اور متضاد فتوے دئیے ہیں۔ جب چاہا لڑکی کے حق میں فتویٰ دیا اور جب چاہا لڑکے کے حق میں فتویٰ دے دیا۔
لیکن یہاں اس بات کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے کہ جب عورت جان کی خلاصی چاہتی ہو تو جب تک اس کے شوہر کو قتل نہ کیا جائے تب تک اس کی جان نہیں چھوٹ سکتی ہو اور جب میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہوں لیکن مولوی فتویٰ دے کہ صلح نہیں ہوسکتی ہے۔ تو کیا اس اسلام کو دین فطرت کہا جاسکتاہے؟۔
مفتی زبیر میڈیا پر عورت کے حقوق کی علمبردار خواتین سے بات کرتا ہے۔ اگر عورتوں کو فتاویٰ عثمانی جلد دوم تھمادی جائے اور پھر مجلس عام میں لوگوں کے سامنے ان فتوؤں کا ذکر کیا جائے تو مفتی زبیر کو لوگ جوتے ماریں گے کہ یہ کیا کیا بکواس اسلام اور قرآن وسنت کے نام سے لکھے ہیں؟۔جو شائع کی گئی ہیں۔
جب اللہ نے سورہ النساء آیت19میں پہلے عورت کو خلع اور پھر مرد کے طلاق کا ذکر آیت20،21میں کیا ہے اور دونوں صورت میں عورت کو مالی تحفظ بھی دیا ہے تو یہ فتوے دینا کہ جب تک شوہر کو قتل نہیں کیا جائے ،کسی صورت بھی عورت فتوے یا عدالت کے ذریعے خلع نہیں لے سکتی ہے ؟۔ اس دشمنی اور قتل کا ذمہ دار طبقہ بھی یہ دین فروش مفتی ہیں۔ اب تو یہ اسلام کے نام پر چندے کھا کھا کر اپنی اوقات بدل چکے ہیں لیکن وہ وقت بھی آنے والا ہے کہ مفتی تقی عثمانی اور دیگر علماء ومفتیان کو اسلئے معاف کردیا جائے گا کہ بڑی عمر کے شریف ہیں لیکن مفتی زبیر جیسے لونڈے زدگی میں مبتلاء افراد کو اوقات یاد دلائی جائے گی۔
ایک طرف سورۂ بقرہ کی آیت229سے غلط خلع مراد لیا گیا ہے اور اس کو ٹکڑے کرکے ایسا ترجمہ وتفسیر مراد لی گئی ہے کہ جو بالکل ممکن ہی نہیںہے۔ جب وہ خلع مراد ہونہیں سکتا ہے تو پھر اس سے خلع مراد لینے سے بہت سے مسائل نے جنم لیا ہے۔ جماعت اسلامی کا منبع تو ایک مولانا مودودی ہے اور اس نے ترجمہ وتفسیر غلط لکھی دی ہے اور اس کی غلطی تسلیم کرنے پر جماعت اسلامی کو اپنی ساری عمارت گرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جب لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ مولانا مودودی نے بھی قرآن کے متن کو سمجھنے میں اتنا بڑا مغالطہ کھایا ہے تو جماعت اسلامی ایک منافع بخش ادارہ ہے ، اس سے لوگوں کو بڑی مراعات مل رہی ہیں اور اس سے وہ حکومت تک پہنچنے کے وسائل پیدا کرتے ہیں۔ وہ اپنے طرزِ عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلاف نے مولانا مودودی کو فتنہ قرار دے کر بالکل ٹھیک کیا تھا۔
سوال : لڑکی کی شادی کم سے کم کتنی عمر میں کرسکتے ہیں۔ازروئے شرع مطلع فرمائیں۔
جواب : شادی کیلئے کوئی عمر مقرر نہیں ، ہر عمر میں نکاح کرنا جائز ہے مگر بہتر یہ ہے کہ بلوغ کے بعد نکاح کیا جائے۔ (فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ308)
سوال : لڑکی نابالغہ کا نکاح چچا نے کردیا۔ جب تقریباً بائیس سال کی ہوئی تو تنسیخ نکاح کا دعویٰ کیا کہ میرے چچا نے میری مرضی کے مطابق نکاح نہیں کیا ، اب یہ نکاح قابل فسخ ہے یا نہیں ؟۔
جواب : ۔ لڑکی کو خیارِ بلوغ کے تحت فسخ نکاح کا حق اسی وقت حاصل تھا جب اس پر بلوغ کے آثار ظاہر ہوئے تھے، جب اس نے اس وقت نکاح فسخ نہیں کیا تو ا سکے بعد سالہاسال گزنے پر خیار بلوغ کا حق استعمال نہیں کرسکتی ۔ واللہ سبحانہ اعلم احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ (فتاوی عثمانی جلددوم صفحہ287)
اللہ نے قرآن میں یتیم لڑکوں کا فرمایا ہے کہ اس وقت ان کا مال انکے حوالہ کردو جب وہ نکاح کو پہنچ جائیں۔حتی اذا بلغوا النکاح ، اس سے مراد صرف بالغ ہونا نہیں بلکہ ذمہ داری کا فرض ادا کرنے کے قابل ہونا مراد ہے۔
جہاں تک فقہی کتابوں میں مسائل کا ذکر ہے تو مفتی تقی عثمانی نے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کو جائز قرار دینے والی کتابوں کے حوالے سے بھی عبارت نقل کی تھی لیکن جب جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا مخالفت میں فتویٰ اور عوام نے پریشر ڈال دیا تو اپنی اردو کتاب ” فقہی مقالات جلد چہارم ” اور عربی کتاب ”تکملہ فتح الملہم شرح صحیح مسلم ” سے اپنی ان عبارات کو ایسے نکال دیا جیسے اپنے منہ کے آگے والے دونوں بدنما دانت نکال دئیے ہیں۔ اگر علماء ومفتیان اور عوام کی طرف سے پریشر پڑے گا تو سب بکواسات سے دستبردار ہوں گے۔
مجھے ایسے دیندار شخص کا پتہ ہے جس نے کہا کہ یہ مشہور ہے کہ دوسالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے میں بڑی لذت ہے۔ پاکستان میں آئے روز کیس میڈیا میں رپوٹ ہوتے ہیں لیکن لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ علماء ومفتیان نے فتوے بھی دے رکھے ہیں۔ اب تو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا رعب ودبدبہ بھی نہیں رہاہے لیکن حکومت کو بڑے پیمانے پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کہ جب پاکستان کے آئین اور عائلی قوانین میں بچپن کی شادی پر پابندی ہے لیکن جب جماعت اسلامی والے پروپیگنڈہ کریں گے کہ مفتی محمود نے جنرل ایوب خان سے ایک لاکھ روپے کے عوض شور نہ مچانے کا معاہدہ کیا تھا اور دارالعلوم کراچی سے بچپن کے نکاح کیلئے فتوے دئیے جائیں گے۔ غریب الدیار برمی بچیاں اور خواتین دلالوں کے ہاتھوں مفتی تقی عثمانی کے فتوؤں پر بکیں گی تو پاکستان اور اس اسلام کی دنیا میں کیا وقعت رہ جائے گی؟۔
افغان طالبان بھی مفتی تقی عثمانی کے فتاویٰ عثمانی جلد دوم کو اپنے ہاں منگواکر قرآن وسنت پر اس کو تولیں۔ مسلک حنفی کی اصول فقہ اس بات سے بھری ہوئی ہے کہ قرآنی آیات کے منافی احادیث صحیحہ کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے ۔علامہ انور شاہ کشمیری نے کہا کہ قرآن و حدیث کی خدمت نہیں فقہ کی وکالت میں عمر ضائع کردی۔ جب قرآن کے مقابلے میں صحیح حدیث کو مسترد کرنے کا اصول ہو توپھر فقہ کی کتابوں کی کیا اوقات ہے؟۔ مفتی تقی عثمانی پر سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا دباؤ پڑگیا تو فوراً روزنامہ اسلام کراچی و ہفت روزہ ضرب مؤمن کراچی میں اپنی کتابوں سے نکالنے کا اعلان کردیا۔ اس طرح جب بچیوں اور خواتین کے حوالہ سے بیہودہ اور غلیظ فتوؤں کے خلاف تحریک اٹھے گی تو یہ سرنڈر ہونے میں دیر نہیں لگائیںگے۔ جب عیسائی اور یہودی کے مذہبی طبقات اس حد کو پہنچ گئے تو مغرب کی عوام نے مذہب کو چھوڑ کر سیکولر کا راستہ اختیار کرنے میں راہ نجات ڈھونڈ نکالی۔ ایسے غلط اور بدفطرت مذہبی مسائل سے سیکولر ہونا بہت اچھا ہے۔
صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ نبی ۖ نے فرمایا: اہل غرب ہمیشہ حق پر رہیں گے قیامت تک ۔اس حدیث سے ان کا غیرفطری دین سے بغاوت کرنے کی تائید ہوتی ہے۔ نبی ۖ کا دین آخری دین ہے ۔ جو فطرت کے مطابق ہے اور اس سے سیکولر ازم کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جو بگاڑ پیدا کیا گیا ہے یہ علماء اور مذہبی طبقات کی اپنی اختراع اور صراط مستقیم کے موٹر وے سے گمراہی کا شکار ہونے کی وجہ سے ہے۔ مجھے امید ہے کہ سارے فرقوں کے علماء کرام ایک مرتبہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اسلام اور پاکستان کو مشکلات سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں گے ۔پھرافغانی ، ایرانی اور ہندوستانی بھی ساتھ دیں گے۔
کیا افغانی ، ایرانی اور ہندوستانی یہ قبول کرسکتا ہے کہ وہ عرب نہیں۔ اگر اس کی بالغ لڑکی کو اغواء کیا گیا اور ڈرا دھماکر نکاح پر مجبور کیا گیا تو نکاح شرعاً منعقد ہوگیا۔اب اگر لڑکی یا اس کے رشتہ دارنکاح ختم کرنا چاہتے ہوں تو سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ لڑکے سے طلاق حاصل کریں۔ فتاوی عثمانی280
لڑکے کو قتل نہ کیا جائے تو خلع بھی نہیں ہو سکتا؟۔ غیرتمند علماء غلط اسلام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوجائیں ورنہ داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

جنرل قمر جاوید باجوہ اور اس کی بیگم کی افغانی کے ہاتھوں توہین کا مسئلہ کیا تھا؟ حقائق جان لیجئے گا

جنرل قمر جاوید باجوہ اور اس کی بیگم کی افغانی کے ہاتھوں توہین کا مسئلہ کیا تھا؟ حقائق جان لیجئے گا

پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو جب ایک افغانی نے فرانس میں گالیاں دیں تو اس نے کہا کہ میں پاکستان کی آرمی کا سربراہ نہیں ہوں۔ لیکن افغانی مسلسل گالیاں دے رہاتھا اور کہہ رہا تھا کہ اگر پولیس نہ ہوتی تو میں تمہارے ساتھ بہت کچھ کرتا۔ تم نے چالیس سال سے افغانستان میں جہاد جاری رکھا ہواہے اور یہاں اپنی بیوی کیساتھ گھوم رہے ہو۔ وہ قارئین کو بتارہاتھا کہ اس کی بہو نیکر میں گھوم رہی تھی اور ہم پر اسلام نافذ کرنے کیلئے جہاد کا حکم جاری کررکھاتھا۔یہ ویڈیو دنیا بھر میں بہت وائرل ہوگئی۔
یوٹیوب پر پیسہ کمانے کے چکر میں بھی لوگ انواع واقسام کی بہت بیہودہ قسم کی ویڈیوزپھیلاتے ہیں۔ افغانستان کے جہاد کا فتویٰ جن علماء ومفتیان نے جاری کیا تھا وہ بھی دنیا بھر میں گھومتے ہیں۔ شیعہ پر جنہوں نے فتوے جاری کئے تھے وہ مفتی عبدالرحیم وغیرہ بھی اپنے مدرسہ میں شیعوں کا استقبال کررہاہے،جس پر سپاہ صحابہ کے رہنماؤں نے بہت برا بھی منایا ہے۔ مولانا حق نواز جھنگوی شہید نے بیگم عابدہ حسین کے خلاف الیکشن لڑا تھا تو اعلان کیا تھا کہ کوئی شیعہ مجھے ووٹ نہ دے۔ اور یہ بھی کہا تھا کہ مجھے قتل کیا گیا تو ذمہ داروں میں بیگم عابدہ حسین بھی ہوگی۔ بیگم عابدہ حسین نے جھنگ کی دونوں سیٹوں سے الیکشن جیت لیا تو مولانا حق نواز جھنگوی کو جس نشست سے شکست دی تھی وہ اپنے پاس رکھ لی۔ یہ1988کا الیکشن تھا جب مولانا حق نواز جھنگوی نے جمعیت علماء اسلام ف سے کتاب کے نشان پر الیکشن میں حصہ لیا۔پھر ان کو شہید کردیا گیا تو مولانا فضل الرحمن نے قتل کا الزام بیگم عابدہ حسین اور نوازشریف پر لگایا تھا۔ شاعر جمعیت سیدامین گیلانی بھی بیگم عابدہ حسین اور تہمینہ کا نام لیکر جلسوں کو اشعار سے گرماتا تھا کہ یہ بیہودہ عورتیں ہیں ۔1990ایثارالحق قاسمی نے بیگم عابدہ حسین کیساتھ مل کر اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم پہلی مرتبہ نشست جیت لی تھی۔
جب مولانا فضل الرحمن متحدہ مجلس عمل میں ایک ووٹ سے وزیراعظم کا الیکشن ہار گئے تھے تو اس وقت مولانا اعظم طارق نے اپنا وہی ووٹ ظفراللہ جمالی کو دیا تھا۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنا ایک ووٹ مولانا فضل الرحمن کو دیا تھا۔ جمہوریت کفر وغداری کے سب داغ مٹادیتی ہے اور نسل در نسل جن خصائل اور شمائل کاپتہ نہ چل سکے جمہوریت چند سال میں انسان کے رگ رگ کا پتا دیتی ہے۔ خلافت کے قیام کا وقت قریب لگتاہے لیکن اس سے پہلے مختلف لوگوں کے چہروں سے نقاب کا اترنا بھی اللہ کی سنت رہی ہے۔ اگر شیطان جنت تک پہنچ کر فرشتوں کا استاذ اور بہت زیادہ عبادت گزار نہ بنتا تو کیسے ابلیس کا پتہ چل سکتا تھا؟۔
افغانستان میں روس وامریکہ کے خلاف جہاد کے فتوے پاک فوج نہیں علماء ومفتیان نے دئیے ہیں مگر کیا اس افغانی کی طیش کے حقدار علماء ومفتیان تھے یا پاکستان کی فوج ؟۔ یا پھردونوں ذمہ دار تھے؟۔سینیٹر مشتاق احمد خان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور وہ قوم پرستوں سے مل کر پاک فوج کو بہت برا بھلا کہتا ہے۔ فوج سے بہت لوگوں کو نفرت ہے اور اس بہتی گنگا میں سب ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اگر سوات یا وزیرستان میں طالبان نے قبضہ کیا تو پاک فوج ذمہ دار ہوگی یا علماء ومفتیان؟۔ کیا فوج نکل جائے تو طالبان سے عوام اپنی حفاظت کرسکتے ہیں؟۔ عمران خان نے کہا کہISPRپاک فوج کے ترجمان نے مجھے دوغلا کہہ دیا لیکن دنیا جانتی ہے کہ پاک فوج نے دوغلا کردار اداکیا۔ میں نے دنیا بھر میں پاک فوج کا دفاع کیا۔ جب عمران خان نے طالبان اور پاک فوج دونوں کا دفاع کیا تو اس وقت کتنے دوغلے پن کی مشقیں کی ہوں گی؟۔
ہر طرف سے بے ایمانی ، بے غیرتی، بدفطرتی اور انسانیت سوز معاملات کا غلغلہ ہے۔ عمران خان نے کوئی اچھا کردار ادا نہیں کیا ہے تودوسرے بھی دودھ کے دھلے نہیں ہیں اسلئے قوم کو حق وسچ بتانا چاہیے ۔
رؤف کلاسرا کے کالم کتابی شکل میں چھپ چکے ہیں، اس میں فوجی سپاہیوں کی قربانی کا بھی ذکر ہے اور طالبان کیلئے دوغلی پالیسیاں رکھنے والے ماڈرن پاکستانی خواتین کا بھی ذکر ہے۔سچ لکھنے پربڑی مشکلات کا بھی ذکر ہے اور حق گوئی کے دعویدار صحافیوں کے چہروں سے اس وقت نقاب اتر سکتی ہے کہ جب حقائق کی بھرپور نشاندہی عوام کے سامنے کی جائے۔ حکومت، ریاست ، عدالت اور صحافت سب کو چاہیے کہ مل بیٹھ کر اس دور کے درست معاملات عوام کے سامنے لائیں۔ ایک فوج پر سارا بوجھ مسلط کرنا ٹھیک نہیں ہے ۔ جب ہمارے خاندان کے غیر فوجی اور غیرمذہبی لوگ طالبان کو سپورٹ کررہے تھے جن کو یہ معلوم تھا کہ1948کے کشمیری محسودمجاہدکی بیوی پیرآف وانہ نے چھین لی تھی تو کرایہ کے ٹٹو کس طرح قابلِ اعتماد ہوسکتے ہیں؟۔ پھر جاہل محسود وں کا کیا قصور تھا کہ وہ بارود اپنے دبر میں بھر کر مساجد، علمائ، بازاروں اور گھروں پر دھماکے کرتے تھے۔ علی وزیر کو گرفتار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ کوئٹہ پریس کلب میں بلوچ قوم کو یہ کہنا کہ” ہم مورچہ سنبھالیں گے اور آپ کو پیچھے رکھیں گے”۔ بالکل بے تکی بات تھی۔ بلوچ چھاپہ مار جنگ لڑرہے ہیں۔ بلوچ خاتون تک نے خود کش حملہ کردیا۔ علی وزیر قومی اسمبلی میں کہتا ہے کہ ”میرے خاندان نے پاک فوج کی وجہ سے قربانیاں دیں”۔ مضبوط فوج کے خلاف بغاوت کیلئے بڑی ہمت چاہیے۔ مرد پہاڑپرلڑیں اور خواتین احتجاجی دھرنے دیں تو مشکل بات ہے۔PTMایک طرف طالبان کو فوج کے کھاتے میں ڈالتی ہے اور دوسری طرف طالبان کے مسنگ پرسن کیلئے آواز اٹھاتی ہے۔ لوگ ان کواس ٹرائیکاکا حصہ سمجھتے ہیں ۔اگر فوج طالبان کے پیچھے ہے اور طالبان کو مسنگ کردیتی ہے اور یہ طبقہ ان مسنگ کیلئے آواز اٹھاتا ہے تو یہ تینوں آپس میں مربوط ہیں اور سپیرے کا ساز سانپ کو پکڑنے کیلئے ہے۔یہ روزی روٹی چلانے کااچھا دھندہ لگتاہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

لے لو ایک روپے میں دو فتوے، آٹھ آنے آٹھ آنے ، آ ٹھنڈے ،آٹھنڈے :شربتِ انار

لے لو ایک روپے میں دو فتوے، آٹھ آنے آٹھ آنے ، آ ٹھنڈے ،آٹھنڈے :شربتِ انار

فتویٰ فروشان اسلام بہت کھلے دل کے ساتھ پوری دنیا کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ
فتویٰ فروشی کی تمنا ازل سے ہمارے دل میں ہے
باز نہیں آنا لگالو زور جتنا بازوئے قاتل میں ہے

رسول اللہ ۖ کے حوالہ سے انصار مدینہ نے شکایت کی کہ مشکلات کے دور میں ہم نے ساتھ دیا اور اب جب آسانیوں کے دروازے کھل گئے تو مہاجر قریش کو نوازا جارہا ہے۔ نبی ۖ تک بات پہنچی تو انصار کے بزرگوں سے پوچھا انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے یہ بات نہیں کی ہے لیکن نوجوانوں کے ہاں گردش کررہی ہے۔ پھر نبی ۖ نے سارے انصار کو بلایا اور ان سے خطاب فرمایا کہ جب میں یہاں نہیں آیا تھا تو تمہارے آپس کے جھگڑے رہتے تھے اب تم شیر و شکر ہوگئے ہو۔ پہلے تمہارا غربت سے بہت برا حال تھا اب دولت مند بن گئے اور پہلے حالت کفر میں تھے اب صاحب ایمان بن گئے ہو، پہلے جاہل تھے اب تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ بن گئے ہو۔ مختلف چیزیں سامنے رکھیں اور انصار نے سب کی تصدیق کی۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ جو مہاجرقریش اپنا گھر بار چھوڑ آتے ہیں تو ان کی مدد کرنا ایک مجبوری ہے اگر تمہاری یہ حالت ہوتی تو تمہیں بھی اسی طرح سے مدد دی جاتی۔ کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ بے سہارا مہاجرین کو مال دیا جائے اور میں خود تمہارے مدینے کا باشندہ بن جاؤں ؟۔ انصار نے تقریر سنی اور ایک ایک بات کو سمجھ کر اس کا جواب دیا تو زار و قطار رونے لگے۔ عرض کیا رضینا باللہ ربًا و بنبیی محمد ًا وبالاسلام دینًا ”ہم اللہ کے رب ہونے پر راضی ہیں ،محمد ۖ کے نبی ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر ”۔
نبی ۖ نے شکوے شکایت کی وجہ سے انصار پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا بلکہ ان کو اصل صورتحال سے آگاہ فرما کر غلط فہمیاں دور کردیں۔ خوارج نے پہلی مرتبہ خلافت راشدہ کے دور میں کفر کے فتوے شروع کردئیے ، یہ لوگ پہلے حضرت علی کے ساتھی تھے اور پھر علی کیلئے سود اللہ وجہہ (اللہ اس کا چہرہ کالا کرے) کہتے تھے۔ جس کے مقابلے میں کرم اللہ وجہہ (اللہ اس کے چہرے کو تکریم بخشے) کہنا شروع ہوگئے۔ جب حضرت علی اور امیر معاویہ کے درمیان جنگ ہوئی تو شمر علی کا سپہ سالار تھا۔ کسی ریاست میں سول اور ملٹری بیوروکریسی کا کردار ایک ملازم کا ہوتا ہے۔ ہندوستان کو غلام رکھنے والے سول و ملٹری بیورو کریسی آزادی کے بعد پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم ہوگئے۔ پہلے دو آرمی چیف انگریز تھے۔ جنرل باجوہ کو نواز شریف نے نامزد کیا اور پھر عمران خان اور سب نے مل کر ایکس ٹینشن دی تو سب کا مشترکہ اثاثہ بن گیا۔ جس کی وجہ سے پھر فوج کے پروجیکٹ عمران خان سے مراسم خاص نہیں رہے بلکہ سب کے ساتھ مشترکہ بن گئے تھے۔
کراچی صدر میں ایک انار شربت فروش تھا جو آواز لگاتا تھا کہ آٹھ آنے، آٹھ آنے … کوئی سیدھا سادہ سمجھ لیتا کہ پانچ روپے کا شربت اتنا سستا مل رہا ہے اور پینا شروع کردیتا تھا تو شربت والا اپنی آواز آٹھ آنے سے آ ٹھنڈے ، آ ٹھنڈے میں بدل دیتا تھا۔ اپنے پاس بدمعاش بٹھائے تھے جو پانچ روپے دینے سے انکار کرتا تھا تو اس سے زبردستی سے بھی لے لیتے تھے۔ کچھ لوگ اپنی شرافت سے پانچ روپے دے دیتے تھے۔ ٹھگوں کا یہ سلسلہ چلتا رہتا تھا۔
سواد اعظم اہل سنت کی تحریک کو عراق نے پیسہ دیا تو اہل تشیع پر کفر کا فتویٰ لگادیا۔ مولانا سلیم اللہ خان نے سپاہ صحابہ کے مولانا اعظم طارق کے سوتیلے والد مولانا زکریا لنگڑے کی ڈنڈے سے پٹائی لگائی تھی اور مولانا زکریا نے سواد اعظم کے رہنماؤں اور مولانا سلیم اللہ خان پر بہت بڑے کرپشن کا الزام لگایا جو مختلف اخبارات کی زینت بنا۔ پھر وہ وقت آیا کہ ہمارے استاذ ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر نے دوران تعلیم ہم سے کہا کہ یہ باہر فسادی آئے ہوئے ہیں مولانا بنوری کے وقت میں اہل تشیع کا ماتمی جلوس گزرتا تھا تو ان کے بڑے دفتر میں آتے تھے اور نیوٹاؤن مسجد کے مٹکے صاف کرکے پانی سے بھردئیے جاتے تھے اور غسل خانے صاف کردئیے جاتے تھے تاکہ ماتمی جلوس کے شرکاء کیلئے آسانی ہو۔
پھر جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے اہل تشیع کے خلاف فتویٰ لکھا گیا کہ شیعہ تین وجوہات کی بنیاد پر قادیانیوں سے بدتر کافر ہیں۔1:شیعہ پورے قرآن کی تحریف کے قائل ہیں اور قادیانی ایک آیت میں تاویل کرتے ہیں۔2:شیعہ کا عقیدہ امامت ختم نبوت کا انکار ہے۔3:شیعہ صحابہ کرام کو کافر کہتے ہیں۔
دار العلوم کراچی نے سواد اعظم کی تحریک میں پیسوں کی وصولی نہیں کی اسلئے انہوں نے اس پر دستخط نہیں کئے۔ پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش کے سارے مدارس نے اس فتوے پر دستخط کئے تھے اور آج بھی وہ کتابی شکل میں مارکیٹ کی زینت ہے۔ پھر دار العلوم کراچی نے سودی بینکاری کو اسلامی قرار دیا تو اکیلے رقم وصول کرلی تو باقی مدارس نے مفتی تقی عثمانی اور اسلامی بینکاری کے خلاف متفقہ فتویٰ دیا جو مارکیٹ کی زینت ہے۔ ان فتویٰ فروش علماء و مفتیان کا حال کراچی صدر کے شربت فروش سے مختلف نہیں ہے۔ روپے کے دو فتوے ، آٹھ آنے اور آٹھ آنے سے معاملہ بدل کر آٹھنڈے آٹھنڈے پرآجاتا ہے۔ اہل تشیع پر جن لوگوں نے فتویٰ لگایا تھا انہوں نے اتحاد تنظیمات المدارس کے نام پر شیعہ کے ساتھ اتحاد کرلیا اور کفر کا فتویٰ اسلام میں بدل دیا۔ جن مدارس نے اسلامی بینکاری کے خلاف فتویٰ دیا تھا وہ اسلامی بینکاری کانفرنس میں مفتی تقی عثمانی کی تائید کررہے تھے۔ ان لوگوں کا دین ایمان اور علم صرف پیسہ اور ماحول ہے۔
خلیل جبران نے قصہ لکھا ہے کہ ایک پادری کسی وادی سے گزر رہے تھے تو کسی شخص کے کراہنے کی آواز آئی ، اس نے سوچا کہ کون ہے اور قریب سے دیکھا تو ایک اجنبی بہت شدید زخمی حالت میں پڑا تھا۔ پادری کا نام لے کر اس نے کہا کہ مجھے بچاؤ ۔ پادری نے کہا کہ اپنا تعارف کراؤ ۔ اجنبی زخمی کہہ ر ہا تھا کہ تجھے میں اچھی طرح سے جانتا ہوں اور تو بھی مجھے اچھی طرح سے جانتا ہے، جلدی مجھے اٹھاکر لے جاؤ نہیں تو میں مرجاؤں گا۔ پادری نے کہا کہ اگر تو اپنا تعارف نہیں کرائے گا تو میں تجھے چھوڑ کر جارہا ہوں۔ زخمی نے بتایا کہ میں ابلیس ہوں اور اسرافیل علیہ السلام نے مجھے اپنی دو دھاری تلوار سے شدید زخمی کردیا ۔ پادری نے خوب لعن طعن کی تو ابلیس نے سمجھایا کہ جب میں لوگوں کو ورغلاتا ہوں تو پھر وہ تجھے کفارہ کے طور پر صدقے اور خیرات دیتے ہیں۔ اگر میں نہ رہا تو تیرا بھی گزر اوقات نہیں ہوگا۔ پادری کی سمجھ میں بات آگئی اور اسے کاندھے پر اٹھالیا ، رات کی تاریکی میں ابلیس کاخون رستا رہا اورپادری کے جوتے بھر گئے۔
کراچی میں حاجی محمد عثمان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں خود پر لگنے والے فتوؤں کی داستان سامنے رکھ دی تو تاریخ کے ہر موڑ پر علماء حق اور علماء سُو ء کی سمجھ آجائے گی۔ یہ میڈیا کا دور ہے، لوگوں میں تعلیم عام ہے اور علماء و مفتیان نے وقتی مفادات حاصل کرنے کے بعد اپنا اعتماد کھودیا ہے۔ چند افراد کے غلط کردار سے سب کی بدنامی ہوئی ہے اور ہم سب اہل حق کی عزت بحال کرنا چاہتے ہیں

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حضرت حسین کے قاتلوں سے بے نمازیوں کے قتل کرنے تک اسلام کی داستانِ اجنبیت ؟

حضرت حسین کے قاتلوں سے بے نمازیوں کے قتل کرنے تک اسلام کی داستانِ اجنبیت ؟

اسلام کے کٹھن مراحل میں مکی دور اور شعب ابی طالب کامرحلہ بہت سخت تھا۔ مدنی دور میںبدر، احد اور دیگر غزوات فتح مکہ تک کا سفر مشکل تھا۔ فتح مکہ کے بعد آسانی کا دروازہ کھل گیا ۔ ابوسفیان ، اس کی بیگم ہند ،اس کا غلام وحشیاور مکہ کے سردار ابوجہل کے بیٹے حضرت عکرمہ نے بھی اسلام قبول کرلیا۔
ابوسفیان کومکہ کے سرداروں کی موت نے سردار بنادیا۔ ابوجہل اور بڑے بڑے سردار بدر اور احد وغیرہ میں قتل کئے جاچکے تھے، ابولہب بھی بیماری سے مرا تھا۔ نبیۖ نے فتح مکہ پر سب کواور خاص طور پر ابوسفیان کو عزت بخش دی۔ نبی ۖ کو احساس تھا کہ آپۖ کے دنیا سے اُٹھ جانے کے بعد خلافت پر کوئی مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے۔ اگر نبی ۖ حدیث قرطاس لکھوادیتے تو انصار ومہاجرین میں خلافت کے مسئلے پر دراڑ پیدا نہ ہوتی۔ انصار نے کہا کہ نبوت اللہ کی طرف سے ہے لیکن خلافت ہمارا حق ہے۔ پھر حضرت ابوبکر و عمر اس قومی تعصبات کے خاتمے میں وقتی طور پر کامیاب ہوگئے۔ پھر حضرت ابوبکر نے اپنے بعد حضرت عمر کو خلیفہ نامزد کردیا۔ حضرت عمر نے قاتلانہ حملے کے بعد اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش نبی کریم ۖ سے خلفاء کی فہرست پوچھ لیتے۔ شوریٰ خلیفہ منتخب کرنے کیلئے بنائی تو اس میں ایک بھی انصاری صحابی نہیں تھے۔ حضرت عثمان خلیفہ بن گئے اور پھر ان کا چالیس دن تک محاصرہ کرکے گھر سے نہیں نکلنے دیا گیا۔ خواب دیکھا تھا کہ خلافت کی قمیض مت اُتاریں۔ پھر حضرت علی نامزد ہوگئے تو جنگیں شروع ہوگئیں۔ مدینہ سے خلافت کا مرکز کوفہ منتقل کرنا پڑگیا۔ آپ نے شہادت کی منزل پائی تو حضرت حسن خلیفہ بن گئے۔ امام حسن نے نبیۖ کی بشارت سے مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں میں صلح کرنے کیلئے خلافت سے دستبرداری اختیار کرلی۔ امیر معاویہ کے دور میں مستحکم حکومت تھی لیکن قاتلین عثمان سے کوئی قصاص نہیں لیا گیا۔ پھر یزید نامزد ہوگیا تو سانحہ کربلا پیش آیا اور حرم نبوی مدینہ میں بھی انتہائی ناگفتہ بہ واقعات پیش آئے۔ اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ سے پہلے اور بعد میں مسلمان ہونے والوں کو خلافت سے سر فراز کرکے آزمائش میں ڈال دیا تھا اور کس نے کتنے درجہ اس میں کامیابی حاصل کی؟۔ حضرت عمر کی وفات کے بعد علی نے حضرت عمر کی تعریف میں جو کلمات کہے وہ نہج البلاغہ میں ہیں۔
اسلام اس قدر اجنبی ہوا کہ قاتلانِ حسین پوچھ رہے تھے کہ ”اگر احرام کی حالت میں مکھی مار دی تو دَم (قربانی) واجب ہوگی یا نہیں؟”۔ بادشاہوں اور ان کا کٹھ پتلی حجاج بن یوسف غصے کی حالت میں نہیں خوشی کی حالت میں بڑی تعداد میںمسلمان رعایا کے قتل میں ملوث تھا۔ پھر بنوامیہ کا خاتمہ ہوا تو بنوعباس نے بھی مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ یہ تو اپنے سابقین کے لواحقین تھے اور ان سے زیادہ اچھائی کی امید بھی نہیں رکھی جاسکتی تھی۔
قرآن وسنت میں جان کے بدلے جان کا معاملہ تھا۔ قتل وغارت گری نے معاملہ یہاں تک پہنچادیا تھا کہ جان کے بدلے جان کو قتل کرنے کا تصور ختم کردیا گیا تھا ،البتہ بے نمازی کو قتل کرنے اور نہ کرنے پر مسائل گھڑے جارہے تھے۔ عمل درآمد تو نہیں ہوسکتا تھا لیکن ذہنی عیاشیوں کیلئے فقہی غارت گری نے اسلام کی حالت ناگفتہ بہ بنادی تھی۔ شکر ہے کہ خلافت بنوعباس کے بعدارتغرل نے خلافت عثمانیہ کی بنیاد ڈالی ، جس کے مرشد سیدعبدالقادر جیلانی کے خلیفہ شیخ محی الدین ابن عربی نے صوفیانہ اسلام پیش کیا۔ اگر شافعی یا مالکی مسلک کے خلفاء کو اقتدار ملتا تو بے نمازیوں کے قتل پر عمل در آمد کراتے۔ انہوں نے خانہ کعبہ میں چار مسالک کے الگ الگ امامت کیلئے جائے نماز رکھ دئیے تھے۔ پھر وہ سلسلہ سعودی عرب نے قبضہ کرنے کے بعد ختم کردیا تھا۔ شکر ہے افغانستان میں پہلے طالبان کی حکومت حنفی مسلک والوں کی تھی جو بے نمازیوں کے زد وکوب تک اپنی شریعت محدود رکھتے تھے۔ اگر شافعی یا مالکی ہوتے تو پتہ نہیں کتنے بے نمازیوں کو قتل کرچکے ہوتے۔اب طالبان نے بہت اچھا کیا کہ ملاعمر کے نظام کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ بے نمازیوں کی مارپیٹ اور زبردستی سے داڑھی رکھوانا اجنبی اسلام کا شاخسانہ تھا۔خلافت راشدہ کے دور میں نہ صرف جنگیں ہوئی ہیں بلکہ انصار کے مکان اور جائیدادیں بھی ضبط ہوئی ہیں۔ ابوایوب انصاریکا گھر ضبط ہوا تو مدینہ کی گلی میں بال بچوں سمیت آپ نے آواز لگائی کہ آج مجھے کوئی پناہ دے سکتا ہے؟۔ میں نے رسول اللہ ۖ کی میزبانی کی تھی۔ پھر ابن عباس نے روتے ہوئے اپنا گھر خالی کرکے ان کو دیا تھا، یہ صحاح ستہ کی صحیح الاسناد بڑی خبر کوئی اسلئے نہیں بتاتا ہے کہ انصار کے دفاع میں کس کو فائدہ ہے؟۔
قرآن کہتاہے کہ جنہوں نے نبیۖ کو ٹھکانہ دیا اور مدد کی تو وہی لوگ سچے مؤمن ہیں۔ ابوطالب کے بارے میں ہے کہ جہنم کے نچلے درجے میں تھے اور نبی ۖ کی دعا وسفارش سے اوپر آگئے۔ کیا مشرک کیلئے قرآن نے سفارش کی اجازت دی ہے؟۔ یا ابوطالب کو کافر بنانے کیلئے روایات گھڑی گئی ہیں؟۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ذوالفقار علی بھٹو کے اسلامی سوشلزم سے مفتی تقی عثمانی کے اسلامی بینکاری کیپٹل ازم تک

ذوالفقار علی بھٹو کے اسلامی سوشلزم سے مفتی تقی عثمانی کے اسلامی بینکاری کیپٹل ازم تک

ذوالفقار علی بھٹو ایک جاگیردار تھا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے خلیفہ حضرت شاہ عنایت شہید نے سندھی جملے سے کہ ”جو فصل بوئے گا وہی کاٹے گا”تحریک کا آغاز کیا تھا ۔ اگر وہ تحریک کامیاب ہوجاتی تھی تو برصغیر پاک وہند سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز اس وقت سے ہوجاتا۔ پھر دنیا میں کارل مارکس کوایک نیا معاشی نظریہ سوشلزم اور کمیونزم ایجاد کرنے کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔ جس کو لینن نے سویت یونین میں عملی جامہ پہنایا تھا اور جس سے پوری دنیا کے سودی نظام کو خطرات لاحق ہوگئے تھے۔ برصغیر پاک وہند میں انگریز کے خلاف دیوبندی اور بریلوی علماء ومشائخ نے مالٹا اور کالا پانی میں جیلوں کی سزا کاٹی تھی۔ مولانا جعفر تھا نیسری اور مولانا فضل الحق خیرآبادی وغیرہ نے کالے پانی کی سزا بھگت لی اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن ، مولانا عزیرگل، مولانا حسین احمد مدنی نے مالٹا کی قید کاٹی تھی۔1920میں اسیرانِ مالٹا آزاد ہوئے تو شیخ الہند کا اسی سال انتقال ہوا۔1921میں مولانا حسین احمد مدنی نے فتویٰ جاری کیا کہ انگریز کی فوج میں بھرتی ہونا جائز نہیں ہے۔ مولانا محمد علی جوہر نے مولانا حسین احمد مدنی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ اشعار کہے تھے ۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے کہ
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے
کیا غم ہے اگر ساری خدائی ہو مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے
جب مولانا حسین احمد مدنی نے انگریز کی عدالت سے معافی مانگنے کے بجائے اپنے فتوے پر ڈٹ گئے تو ان اشعار کے واقعی وہ بڑے مستحق تھے۔ اس وقت انہوں نے ہندو مسلم فسادات کو روکنے کیلئے اور انگریز کو برصغیر پاک وہند سے بھگانے کیلئے فتویٰ دیا تھا کہ ”ہندوستانی ایک قوم ہیں”۔ سر علامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ ”دیوبند سے حسین احمد کہتا ہے کہ قوم وطن سے بنتی ہے ،مذہب سے نہیں تو کیا بولہبی ہے؟”۔ علامہ اقبال نے بھی کیمونزم کو سپورٹ کرنے کیلئے اپنی غزل ” فرشتوں کا گیت” لکھ دیا تھا۔ جس میں کھل کر کمیونزم کی تائید تھی۔
اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو!
کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو!
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو!
محمد علی جوہر کے اخبار کا نام کامریڈ تھا اور مولانا ظفر علی خان کے اخبار کانام زمیندار تھا۔تاج برطانیہ اور امریکہ ویورپ کے سودی نظام کو شکست دینے کیلئے دنیا بھر میں کمیونزم کا ولولہ موجود تھا۔ انگریز نے جب تقسیم ہند کا فیصلہ کیا تو روس کو روکنا اس کے پیشِ نظر تھا۔ افغانستان آزاد ملک تھا اور جرمنی اور روس کے مقابلہ میں انگریز سے نفرت رکھتا تھا۔ انگریز آئے روز افغانستان کے خلاف سازشوں کے جال بچھاتا تھا۔ امیر امان اللہ خان کی حکومت بھی انگریزی سازش کا شکار بنی اور اس کیلئے ملاشور بازار اور شیر آغا جیسے لوگوں نے علماء ومشائخ کی قیادت کی۔
پنجاب میں آزادی سے پہلے مسلم لیگ کی نہیںمخلوط حکومت تھی۔ سندھ میں مسلم لیگ کو پانچ ارکان میں3یعنی ایک ووٹ کی برتری حاصل تھی۔ بلوچستان ایک الگ ریاست تھی۔ سوات ، بہالپور اور جوناگڑھ وغیرہ بہت ساری ریاستیں خود مختار لیکن انگریز کی طفیلی تھیں۔ پختونخواہ میں کانگریس کے غفار خان کے بھائی ڈاکٹر خان کی حکومت تھی۔ مغربی پاکستان سندھ کے ایک ووٹ کی برتری سے بن گیا۔ اس وقت کی اسٹیبلیشمنٹ کا یہی فیصلہ تھا ورنہ پاکستان نہیں بن سکتا تھا۔ پختونخواہ کی حکومت کو توڑ کر زبردستی سے بدنام زمانہ ریفرینڈم کرایا گیا تھا۔
بنوامیہ کے ابوسفیان اور امیر معاویہ نے فتح مکہ سے پہلے اسلام کے خلاف جنگیں لڑی تھیں لیکن پھر خلافت راشدہ کے بعد بنوامیہ کا قبضہ ہوگیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جو مروان کے پوتے تھے ،پھر اسلام کی روح کو زندہ کردیا تھا۔
پاکستان کی آزادی سے پہلے جن عدالتوں، فوج، پولیس، سول بیوروکریسی اور انگریز کے ٹاؤٹ نوابوں ، خانوں، گدی نشین پیروں اور مدارس کے علماء کے خلاف آزادی کے مجاہدین جنگ لڑرہے تھے ، آزادی کے بعد وہی انگریز کے ملازم اقتدار میں آگئے۔ پہلے دو آرمی چیف بھی انگریز تھے۔ جنرل ایوب خان بھی ان کی باقیات تھے لیکن مقامی ملازم تھے۔ جنرل ایوب نے فیلڈ مارشل کی حیثیت سے ملک کے صدارتی نظام کا انتخاب لڑا تھا اور فاطمہ جناح کو مقابلے میں غدار قرار دیا تھا۔ جنرل ایوب کی کوکھ سے ذوالفقار علی بھٹو نکل آیا۔ بھٹو نے کمیونزم اور اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا۔ مولانا احمد علی لاہوری کی امارت میں جس جمعیت علماء اسلام نے سیاست کا آغاز کیا تھا وہ مولانا حسین احمد مدنی کی فکر سے تعلق رکھتے تھے۔مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا عبداللہ درخواستی، مولانا مفتی محمود اور ملک بھر کے بڑے بڑے مفتیان کرام اور شیخ الحدیثوں پر جمعیت علماء اسلام کی وجہ سے1970میں مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع، مولانا احتشام الحق تھانوی، مفتی رشیداحمد لدھیانوی اور مفتی تقی عثمانی وغیرہ سینکڑوں علماء ومفتیان نے کفر کا فتویٰ اس بنیاد پر لگادیا کہ اسلامی سوشلزم پر فتویٰ لگائیں؟۔ جماعت اسلامی بھی اس میں پیش پیش تھی۔ البتہ ان کی حیثیت فتویٰ لگانے کی نہیں تھی۔
مولانا غلام غوث ہزاروی مرد درویش تھا،جب ا س نے بھانپ لیا کہ مفتی محمود اور جمعیت کو رجعت پسند طبقہ اپنے مفادات کیلئے بھٹو کے خلاف استعمال کر رہا ہے تو قومی اتحاد کی جگہ انہوں نے بھٹو کا ساتھ دیا۔ پھر مفتی محمود نے آخر میں محسوس کیا تو جنرل ضیاء الحق کے مقابلے میں نصرت بھٹو کیساتھ مل کر جمہوریت کی بحالی کیلئے تحریک چلانے کا عزم کیا لیکن ان کو پان میں زہر دیکر شہید کیا گیا۔ پھر مولانا فضل الرحمن نے اپنے باپ کے مشن پرMRDکا ساتھ دیا اور نام نہاد زکوٰة کو آب زم زم کے لیبل میں شراب قرار دے دیا۔ اب مولانا فضل الرحمن، نوازشریف، جماعت اسلامی اور مفتی تقی عثمانی نے سودی نظام کو مشرف بہ اسلام قرار دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔ مفتی محمود قومی اتحاد میں تحریک نظام مصطفی ۖ کے نام پر استعمال ہوا تھا اور فرزند ارجمند مولانا فضل الرحمنPDMکے سربراہ کی حیثیت سے پھر استعمال ہورہاہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ نوازشریف کو جیل سے لندن بھجوانے میں اسٹیبلشمنٹ نے مدد کی ۔ ہم نے پہلے مولانا فضل الرحمن کو استعمال ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ اب اللہ کرے کہ آرمی چیف بنوامیہ میں عمر بن عبدالعزیز کے کردار کو زندہ کریں۔ مفتی اور مذہبی سیاسی جماعتوں نے سود کو اسلامی قرار دیا جو اللہ اور اسکے رسول ۖ سے اعلان جنگ ہے تو رہ کیا گیا؟۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

صدقہ بلا اور مولوی صدقہ کھاجاتا ہے،مولوی سے دنیا ڈرتی ہے اور مولوی ہم سے ڈرتا ہے؟

صدقہ بلا اور مولوی صدقہ کھاجاتا ہے،مولوی سے دنیا ڈرتی ہے اور مولوی ہم سے ڈرتا ہے؟

علماء حق کا تعلق کسی خاص مسلک اور فرقہ سے نہیں بلکہ دیندار طبقہ علماء حق اور دنیا دار طبقہ علماء سو ہے۔ ائمہ اہل سنت میں بھی مسلک وعقائد کا بڑا اختلاف ہے مگر اہل حق کہلاتے ہیں

پشتو کے مشہور شاعر عالم صوفی رحمان بابا نے فرمایا : زہ رحمان دہر عالم خادم یم کہ اعلیٰ وی کہ اوسط وی کہ ادنیٰ۔ میں رحمان ہر عالم دین کا خادم ہوں، چاہے وہ اعلیٰ،متوسط یا ادنی ہو!

قرآن کریم کے ناظرہ ، ترجمہ، تفسیر اور کتابت سے لیکر احادیث کے تحفظ تک کا خوش قسمت طبقہ ہمارے عزت مآب علماء کرام حضرات گرامی ہیں۔ ہمیں دل وجان سے ان کی عقیدت ومحبت ، عزت واحترام اور ان کی ضروریات زندگی کا خیال رکھنا اپنے ایمان واسلام کا حصہ سمجھنا چاہیے۔ اگر یہ حضرات نہ ہوتے تو لوگ شلوار بابا کے ہاں خواتین وحضرات کی شلواریں ٹانگنے کے نظارے جگہ جگہ دیکھ رہے ہوتے۔ علماء کرام کا تعلق دیوبندی ، بریلوی، اہل حدیث اور اہل تشیع کسی بھی فرقے سے ہو،ان کا اسلام اور مسلمانوں پر بڑا احسان ہے۔ اللہ نے فرمایا: ان تنصر اللہ ینصرکم ” اگر تم اللہ کی مددکروگے تو تمہاری مدد ہوگی” ۔ صحابہ کرام واہل بیت عظام سے محبت اسلام کی وجہ سے ہے اور اسلامی تعلیمات کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے، سمجھانے اور محفوظ کرنے میں ان حضرات کا کردار ہے۔ اللہ نے فرمایا: وماکان المؤمنون لینفروا کافة فلو لا نفر من کل فرقة منھم طائفة لیتفقھوا فی الدین ولینذراقومھم اذارجعواالیھم لعلھم یحذرون ” اور مؤمنوں کیلئے مناسب نہیں کہ سب نکل جائیں ، پس اگر ان میں ایک ایک چھوٹا گروہ ہر فرقہ میں سے نکل جائے تاکہ دین میں سمجھ حاصل کرے۔تاکہ اپنی قوم کو خوف دلائیں جب وہ ان کی طرف لوٹ آئیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ان کی تیاری کرائیں”۔ (التوبہ:122)
اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کا ادارہ قوم کی روٹیاں توڑنے کے سوا کچھ نہیں کرتا۔ مولانا محمد خان شیرانی اور قبلہ ایاز دونوں چیئرمین سے تفصیلی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ مختلف فرقوں کے نمائندوں کی چھوٹی جماعتوں کو چند دنوں کیلئے ایک جگہ اکٹھا کیا جائے تو افہام وتفہیم کے ذریعے سے زبردست راستہ نکل سکتا ہے۔
اگر نام صحابہ کرام اور اہل بیت عظام کا لیا جائے اور کام ذوالخویصرہ کا ہو تو پھر بلاشبہ ذوالخویصرہ نے نہ صرف نبیۖ کے دور میں بظاہر اسلام قبول کیا تھا بلکہ جب اس نے نبیۖ سے کہا کہ آپ نے انصاف نہیں کیاتو نبیۖ نے فرمایا کہ اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو کون کرے گا؟۔ ایک صحابی نے عرض کیا کہ میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔ نبیۖ نے فرمایا کہ یہ اکیلانہیں، اس کے اور بھی ساتھی ہیں، اگر تم ان کی نماز اور روزوں کو دیکھوگے تو اپنی نماز وروزہ سے مایوس ہوجاؤگے۔ یہ قرآن پڑھیںگے مگر قرآن انکے حلق کے نیچے نہیں اترے گا اور یہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ صحیح بخاری اور دوسری کتابوں میں ذوالخویصرہ کے ساتھیوں کے بارے میں مختلف ادوارمیں نکلنے کی وضاحت ہے۔ مذہبی طبقات احادیث کے آئینے میں خود بھی دیکھ لیں۔
مفتی طارق مسعود کہتا ہے کہ ” اگر صحیح حدیث کے مقابلے میں امام ابوحنیفہ کے مسلک کو ترجیح دی تو گمراہ نہیں کافر ہوجائے گا”۔ احناف قرآن کے مقابلے میں خبرواحد کی حدیث کو تصادم کی صورت میں ناقابلِ عمل سمجھتے ہیں۔ حضرت عمر نے نبیۖ سے کہاکہ ہمارے لئے قرآن کافی ہے۔ تو کیا فتویٰ ہوسکتا ہے؟۔ حدیث قرطاس کو نہیں مانا تو خبرواحد کا تصور نہ تھا اسلئے کہ خبرواحد ومتواتر ہمارے لئے ہے۔صحیح بخاری میں ہے کہ ابوطالب جہنم کے نچلے طبقے میں تھا ،پھر نبیۖ نے سفارش فرمائی تو اوپر کی طرف آگیا۔ قرآن میں منافقین کو جہنم کے نچلے طبقہ میں قرار دیا گیا ہے ۔ جنہوں نے نبی ۖ کو ٹھکانہ دیا اور نصرت کی ان کااللہ نے قرآن میں اُولٰئک المؤمنون حقاً ”یہی سچے مؤمن ہیں”قرار دیا ۔
مولانا سمیع الحق شہید سے روزنامہ جنگ نے انٹرویو لیا تھا کہ شریعت بل منظور کیوں نہیں ہورہا ہے؟۔ مولانا سمیع الحق: کچھ منافقین ہیں وہ رکاوٹ پیدا کررہے ہیں۔ سوال : ان منافقین کے خلاف آپ کیا اقدام کریںگے؟۔ مولاناسمیع الحق: ہم ان کے خلاف جہاد کریں گے۔ سوال : کون منافقین ہیں جن کے خلاف آپ جہاد کریںگے؟۔ مولانا سمیع الحق: منافقین موجودہ دور میں کوئی نہیں ہیں۔ منافقین مدینہ میں رسول اللہ ۖ کے دور میں تھے۔
ابوطالب کی وفات مکی دور میں ہوئی اسلئے منافق نہ تھے۔ کہانی گھڑی کہ ابوطالب نے کہا کہ عورتیں طعنہ دیں گی کہ جہنم کے ڈر سے کلمہ پڑھ لیا۔بنو امیہ کے بعد بنوعباس کو خلافت کا حقدار اسلئے قرار دیا گیا کہ ابوطالب نے اسلام قبول نہیں کیا اور عباس نے اسلام قبول کیا۔ چچا کی موجودگی میں چچازاد وارث نہیں بن سکتااسلئے علی کی اولاد خلافت کی مستحق نہیں عباس کی ہے۔ حضرت ابوبکر وعمر اور عثمان چچااور چچازاد کی اولاد نہیں تھے تو انکا کیا بنے گا؟۔ یا بنوامیہ کی یزیدیت نے اسلام کو موروثی بنادیا اور اس کے بعد الگ شریعت ایجاد ہوگئی ؟۔
حضرت عمر نے بھی ابتداء میں اسلام قبول کیا اور ابوطالب نے مسلمانوں کو ٹھکانہ دیا۔ بعثت سے پہلے حضرت ابوطالب نے نبیۖ کو اپنی بیٹی ام ہانی کا رشتہ نہ دیا۔حضرت ام ہانی نے ہجرت نہ کی مگر مؤمن تھیں۔ دیانت سے کوئی کسی کو کافر یا مسلمان سمجھتاہے تو یہ ماحول کا مسئلہ ہے مگر انتشار کا رویہ نہیں اپنانا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا :” النبی اولی بالمؤمنین من انفسہم ”نبی مؤمنوں کیلئے ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ مقدم ہیں”۔ شاہ عبدالقادر نے ایک جملہ میں اس کی تفسیر لکھ دی ہے کہ ” آگ میں کودنا حرام ہے لیکن اگر نبی حکم دے تو امتی کو آگ میں بھی کودنا چاہیے ”۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا: جس چیز کا نبی حکم دیں وہ کرواور جس چیز سے منع کریں اس سے رُک جائیں”۔
مولانا فضل الرحمن کہہ سکتے ہیں کہ ابوطالب نے نبی ۖ کو بیٹی کا رشتہ نہیں دیا تو ہم ان کو کیسے مؤمن مان لیں؟۔ جس کا شیعہ کے پاس جواب نہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے سامنے شیعہ حدیث قرطاس رکھیں تولاجواب ہیں۔ مولانا فضل ہمدرد اور انجینئر مرزا محمد علی سے یہ پوچھا جائے کہ ذولخویصرہ نے نبی ۖ کو صرف زبان سے کہا کہ آپ نے عدل نہیں کیا تو شیطان کی طرح مردود ہوگیا اور حضرت عمر نے نبی ۖ کو حدیث لکھنے نہیں دی ۔ اگر نبیۖ نے کسی کو نامزد نہیں کیا یا کسی کو نہیں کرنے دیا گیا تو حضرت عمر کیسے نامزد ہوگئے؟۔ اگر حضرت عمر نامزد نہ ہوتے تو تم ذولخویصرہ سے بدتر شیعہ کی طرح حضرت عمر کو کہتے؟۔ تم بھی شیعہ سے زیادہ تقیہ کرتے ہو۔تووہ اپنی دُم گھسیڑ کر منہ سے لٹکا دیں گے کہ یہ ہماری داڑھیاں ہیں اور بدمعاشی پر اتریں گے کہ تم کون ہو؟۔
گمراہی یہ ہے کہ علی کیساتھ جنگ میں امیر معاویہ کے لشکر نے حضرت عمارکو شہید کیا تو یہ اجتہادی غلطی تھی۔ نبی ۖ کو حدیث قرطاس حضرت عمر نے نہیں لکھنے دی تو یہ اجتہادی غلطی تھی لیکن حضرت ابوبکر وعمر و عثمان سے اختلاف کرنے والے کافر ومرتد تھے؟۔ اکابر صحابہ و سیدشباب اہل الجنة حضرت حسین کے ہوتے ہوئے یزید خلیفہ بن گیا جس کی سزا آج تک امت مسلمہ کومل رہی ہے کہ صالح ومتقی اور باصلاحیت علماء کے دور میں فاسق ،فاجر ، قاتل حکمران بن گئے۔ مجدد الف ثانی، شاہ عبدالرحیم ،شاہ ولی اللہ ، شاہ عبدالعزیز کے وقت اکبر بادشاہ ، شاہجہاں، اورنگزیب تخت پر بیٹھے۔ قائداعظم ، لیاقت علی خان، محمد علی بوگرہ، سکندر مرزا، جنرل ایوب اقتدار میں آگئے۔ علامہ شبیراحمد عثمانی، سیدعطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا احمد لاہوری ، مولانا ابولحسنات احمد قادری، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور دیگر علماء بیٹھے رہے۔ فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مقابلہ میں سپورٹ کیا۔
قاضی حسین احمد، مولاناایثارالحق قاسمی ، مولانا سمیع الحق کے اسلامی جمہوری اتحاد کا سربراہ غلام مصطفی جتوئی ۔وزیراعظم نوازشریف بن گیا۔ حافظ حسین احمد نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا جب سجدے سے سر اٹھاکر دیکھا تو مریم نوازشریف تھی ۔ نبی ۖ نے علم اور قضاء کے اعتبار سے پہلے نمبر پر حضرت علی کو رکھا اور فرمایا کہ میں جس کا مولا علی اس کا مولا۔ اگر علی اقتدار میں پہلے سے ہوتے تو انصار ومہاجریناور اہل بیت میں دراڑ نہ پڑتی۔ نبی ۖ کو وصیت نہ لکھنے دی اور انصار کے سامنے دعویٰ کیا کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ ائمہ قریش سے ہونگے، حالانکہ اہل بیت کے بارے میں نبی ۖ نے فرمایا کہ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ۔ قرآن اور میرے اہل بیت۔ اگر علی نے اقتدار سنبھالا ہوتا تو مانعین زکوٰة پر قتال نہ ہوتا جس پر حضرت عمر نے آخری دور میں افسوس کا اظہار کیا اور چاروں مسالک کے ائمہ نے بالاتفاق اس کو رد کردیا کہ زکوٰة کیلئے قتال کیا جائے۔ جب صحابہ نے آپس میں اختلاف بلکہ قتال کیا تو صحابہ سے اختلاف رائے رکھنے کا حق کون چھین سکتا ہے؟۔
اہل تشیع کا مقدمہ ہمیشہ ہم نے لڑا ہے اور پھر بھی لڑیںگے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ شیعہ ہدایت پر ہیں۔ جتنے اختلافات شیعہ میں آپس کے ہیں اتنے تو صحابہ اور اسلاف میں نہیں تھے۔ یزید کا سپاہ سالار حسین کے لشکر میں پہنچ گیا اور کوفیوں نے وفا نہ کی۔ یزید کے شہر میں خطبہ جمعہ امام زین العابدین نے دیا تھا۔ زین العابدین سے لیکر حسن عسکری تک بنوامیہ اور بنوعباس کے نااہل حکمرانوں نے قبضہ کیا تو انہوں نے کیا کردار ادا کیا؟۔ کیا مسلمانوں میں انتشار پھیلایا؟۔ آگے پیچھے اماموں کا سلسلہ ہے تو فقہ جعفریہ کی تدوین اور نسبت اہل سنت کی نقل میں ہوئی ہے؟۔ جب زندہ امام کا سلسلہ ہو تو پھر کسی ایک امام کے اجتہاد یا احکام کی طرف نسبت درست ہے؟۔ اہل سنت کے ہاں اجتہادی غلطیوں کا امکان ہے لیکن وہ شیعہ اپنے اماموں کے اندر اختلاف کا کیا حل نکالیںگے جن میں اختلاف ہے؟ جبکہ وہ ائمہ کو اجتہادی خطاء سے معصوم سمجھتے ہیں؟۔
اگر انبیاء کرام کے ساتھ کلمہ بدلتا ہے تو ائمہ کیساتھ کیوں نہیں بدلا؟۔ علی کے بعد حسن، حسین، علی زین العابدین ………. موجودہ دور میں مہدی غائب کا کلمہ ہونا چاہیے تھا؟۔ علامہ طالب جوہری کتاب ” ظہور مہدی” میں قیام قائم سے پہلے بہت سارے قیام قائم اور دجالوں کا ذکر ہے۔ جن میں سے ایک مشرق کا دجال اور اس کے مقابلے میں اہل بیت کے جس فرد کا ذکرہے وہ حسنی سید ہوگا۔ اس کتاب میں لکھا ہے کہ ” حسنی سید کی بہت روایات ہیں اور اس سے مراد سیدگیلانی ہے”۔ ایک طرف شیعہ ذاکرین اور علماء کی طرف سے اہل سنت کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا ذکر ہے ۔ دوسری طرف قرآن وسنت کی اہل تشیع ایسی غلط تفسیر کرتے ہیں کہ اس کا کوئی تک نہیں بنتا ہے۔
جب سورۂ مجادلہ میں ایک خاتون نے نبی ۖ سے مجادلہ کیا اور وحی خاتون کے حق میں نازل ہوئی تو اس سے شیعہ کا عقیدہ ٔامامت کے بارے میں غلو سے توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جب نبی ۖ سے شرعی مسئلے میں ایک خاتون کیلئے اختلاف کی گنجائش تھی تو حدیث قرطاس کے حوالے سے زیادہ گنجائش اسلئے تھی کہ اللہ تعالیٰ نے بدری قیدیوں کے بارے میں صحابہ کرام کی وسیع مشاورت اور حضرت ابوبکر و علی و عثمان اور دیگر سمیت فیصلہ کیا کہ ان سے فدیہ لیا جائے تو پھر جب نبی ۖ نے فیصلہ کیا تو وحی حضرت عمر وسعد کے حق میں نازل ہوئی اور اللہ نے فرمایا کہ ” نبی کیلئے مناسب نہیں تھا کہ آپ کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ خوب خون بہاتے ۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے۔ اگر پہلے اللہ لکھ نہ چکا ہوتا تمہیں دردناک عذاب کا مزہ چکھا دیتا”۔ (قرآن کریم)
نبی ۖ نے فرمایا کہ اگر عذاب نازل ہوجاتا تو حضرت عمر و سعد کے علاوہ کسی کی بچت نہ ہوتی۔ صحابہ کرام نے نبی ۖ کی قرابتداری کا لحاظ رکھ کر مشورہ دیا تھا لیکن قرآن سے ایسی تربیت ہوئی کہ خلافت راشدہ کے دور تک پھر اس قسم کی غلطی کا ارتکاب نہیں کیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دور فتنہ وفساد کے باوجود بھی خلافت راشدہ کہلایا اور امیرمعاویہ کے دور پر امن وسکون کے باوجود بھی خلافت راشدہ کا اطلاق نہیں ہوسکا۔ اسلام کا بنوامیہ وبنوعباس کے بعد خلافت عثمانیہ کی موروثیت میں بدل جانا بالکل غلط تھا لیکن تقدیر کی لکیر کو کون مٹا سکتا ہے؟۔
اب مذہبی وسیاسی جماعتوں، خانقاہوں، مدارس، مساجد اور درگاہوں کیلئے موروثیت کا کوئی جواز نہیں ہے۔ عوام کے چندوں سے بننے والا شوکت خانم ہو یا کوئی مسجد ومدرسہ اس میں موروثیت کا کوئی جواز نہیں۔ غریبوں کا زیادہ مال تو یہ لوگ کھا جاتے ہیں۔ فوج کا سربراہ ایک غریب ہیڈ ماسٹرکا بیٹا بن سکتا ہے توپھر سیاسی ، مذہبی جماعتوں اور مدارس وخانقاہ کے سربراہ اور بڑے باصلاحیت لوگ کیوں نہیں بن سکتے ہیں؟۔ سوشلزم اور کمیونزم کی ضرورت نہیں ہے اسلام کا نظام بذات خود بہت زبردست ہے لیکن جب کیپٹل ازم کا بھی اصول ہے کہ ٹرسٹ کا مال موروثی نہیں ہوتا ہے تو پھر چندوں سے بنائی جانے والی پارٹی اور مدارس کیوں موروثی ہیں؟۔ پاک فوج کو اپنے حدود تک محدود کرنے کی ضرورت ہے لیکن عوامی چندوں پر پلنے والی جماعتوں کو موروثی بنانا کہاں کا انصاف ہے۔
شیعہ سنی اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کیلئے ضرور اپنی جدوجہد جاری رکھیں لیکن صحابہ کرام واہل بیت کے نام پر اپنے دھندے چلانے کے بجائے عوام کو درست راستے پر لگانے کی ضرورت ہے۔ حضرت عمر اور ذوالخویصرہ کے اختلاف میں یہ فرق تھا کہ ذوالخویصرہ میں مال کی لالچ تھی اور مال کے لالچی کیلئے کسی بھی فرقہ میں کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ فرقہ واریت اسلئے بڑھتی ہے کہ مال کی لالچ میں خطیب اپنی الٹی سیدھی وکالت کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں اور عوام ان پر زیادہ سے زیادہ مال لٹاتی ہے۔ مولانا فضل ہمدرد اگر کسی لالچ کا شکار نہ ہوں تو شیعہ کو بھی بیلنس کریں۔ محمد علی مرزا نے مفتی تقی عثمانی کی سودی بینکاری کو حلال قرار دیا ہے تو پھر صحابہ کے اختلاف کو اچھالنے کا فائدہ سستی شہرت کے سوا کیا ہے؟۔ ہم غلط فقہی مسائل سے عوام کو نجات دلانا چاہتے ہیں تاکہ مشکلات حل ہوجائیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حتی تنکح زوجًا غیرہ کو سمجھنے کیلئے غیرتمند معاشرہ ضروری ہے؟

حتی تنکح زوجًا غیرہ کو سمجھنے کیلئے غیرتمند معاشرہ ضروری ہے؟

اللہ نے فرمایا : فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ (البقرہ آیت230)
ترجمہ:۔” پس اگر اس نے طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے ”۔ جب شوہر بیوی کو طلاق دے دیتا ہے تو مدارس کے مفتی صاحبان فقہ کی کتابوں سے اس آیت کا حوالہ دے کر فتویٰ دیتے ہیں کہ جب تک وہ کسی اور شوہر سے شرعی حلالہ نہ کروائے تو اس کیلئے حلال نہیں۔
یورپ وامریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے مسلمان اور مشرقی اقدار کے غیور لوگ جب اس معاشرے کا حصہ بنتے ہیں اور ان کے بچے بچیاں اسی ماحول اور تعلیمی اداروں میں جوان ہوجاتے ہیں تو ان کو خاص طور پر لڑکیوں کے بارے میں فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ وہ دوسرے لڑکوں کیساتھ آزادانہ دوستی کریں گے تو ان کی غیرت بالکل غارت ہوجائے گی۔ مغرب کے گورے سے غیرت نکل گئی ہے تو انگریزی میں اب غیرت کیلئے کوئی موضوع لفظ بھی نہیں ہے۔ اگر مارپیٹ اور دوسرے طریقوں سے لڑکی کے ناجائز فرینڈشپ میں رکاوٹ ڈالی جائے تو انگریز کو یہ انسانیت کے خلاف جنگل کا قانون لگتا ہے اور سمجھتے ہیں کہ یہ غلط ہے۔
اللہ کا بہت بہت شکر ہے کہ ہمارے معاشرے میں شرم، حیاء ، غیرت، ضمیر اور مشرقی اقدار باقی ہیں اور اس سلیم الفطرت کی وجہ سے ہم قرآنی آیات اور سنت کے عمل کو اچھی طرح سے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ حکم کیوں دیا ہے کہ ” پس اگر اس نے طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔
کیا انسان میں یہ غیرت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی عورت سے ازدواجی تعلق قائم کرلیتا ہے تو پھر اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد بھی اس میں یہ غیرت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی اور شخص سے نکاح کرلیتی ہے تو اس کو اذیت ملتی ہے، غیرت محسوس کرتا ہے اور اس کے ضمیر میں خلش پیدا ہوتی ہے؟۔
قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ ” نبی کو اذیت مت دو۔آپ کی ازواج مطہرات سے کبھی نکاح نہ کرو”۔
جب سورہ ٔ نور میںلعان کی آیات نازل ہوئیں تو انصار کے سردار سعد بن عبادہ نے کہا کہ میں لعان پر عمل نہیں کروں گا۔اپنی بیوی کیساتھ کسی شخص کو کھلی فحاشی کا مرتکب پاؤں تو دونوں کو قتل کردوں گا۔ نبیۖ نے انصار سے کہا کہ تمہارا صاحب کیا کہتا ہے ؟۔ انصار نے عرض کیا یارسول اللہ ۖ اس میں غیرت بہت زیادہ ہے اسلئے اس سے درگزر فرمائیں۔ اس نے کبھی کسی طلاق شدہ یا بیوہ سے نکاح نہیں کیا ہے اور جس کو بھی طلاق دی ہے تو اس کو کسی اور سے نکاح نہیں کرنے دیا ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ میں اس سے زیادہ غیرتمند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرتمند ہے۔ (صحیح بخاری) علماء نے اس حدیث کی غلط تشریح کردی کہ نبی ۖ نے سعد بن عبادہ کی غیرت کی تائید کردی اور فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول بھی غیرتمند ہیں۔
قرآن کی واضح آیت لعان پر مسلمانوں کے اندر آج تک عمل در آمد کا سلسلہ نہیں ہوسکا ہے۔ غیرت ہی کے نام پر خواتین کو قتل کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ قرآن نے اس کی گنجائش بھی بالکل ختم کردی ہے۔ جب برصغیر پاک وہند میں انگریز کی حکومت تھی تو ہندو، مسلمان، سکھ ، عیسائی اور تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے اپنی بیگمات کو کسی غیر کیساتھ دیکھ کر قتل کردیتے تھے تو انگریز نے تعزیرات ہند میں غیرت کی بنیاد پر قتل کرنے میں گنجائش اور معاف کرنے کا قانون بنایا تھا۔ برطانوی شہزادہ چارلس نے لیڈی ڈیانا کو طلاق دے دی توجب وہ دودی الفائد عرب مسلمان کیساتھ پیرس فرانس میں حادثے کا شکار ہوگئی تو برطانیہ کی عدالت میں اس پر قتل کا مقدمہ درج کیا گیا کہ شاہی خاندان نے غیرت کی وجہ سے قتل کیا ہے۔
لوگ منگیتر سے شادی نہ کرسکنے پر بھی اس کی دوسری جگہ شادی کرنے پر قتل کرتے ہیںتو اپنی بیوی کیلئے دوسرا شوہر برداشت کرنا بہت بڑے دل گردے کا کام ہے۔ جب شہباز شریف اور غلام مصطفی کھر بیرون ملک سے پرویزمشرف کے دور میں پابندی کے بعد ایک پرواز میں سفر کرکے آئے تو پیپلزپارٹی کے جیالے صحافی اطہر عباس نے اس پر طعنہ زنی کے خوب تیر برسائے تھے کہ شہبازشریف نے تہمینہ کھر سے رشتہ کیا ہے اور دونوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟۔ خاور مانیکا کا بشریٰ بی بی کو چھوڑ کر عمران خان سے رشتہ بھی پنجابی عوام کو بھی بہت عجیب اور انوکھا لگ رہاتھا۔ خیر یہاں بنیادی مقصد قرآنی آیت کے اصل مفہوم کو سمجھانا ہے۔
آیت229البقرہ میں تفصیل ہے کہ” دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق دے دی تو تمہارے لئے حلال نہیں کہ عورت کو جو کچھ بھی دیا کہ اس میں سے کچھ واپس لو، مگر کوئی ایسی چیز ہو کہ اگر واپس نہ کی گئی تو دونوں میں اس سے رابطہ ہوجائے گا اور دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہی خوف ہو تو پھر دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ میں دی جائے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں،ان سے تجاوزمت کرو اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہ لوگ ظالم ہیں”۔
اس میں زبردست حدود بیان کی گئی ہیں۔1:تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے اور تیسرے مرحلہ میں عدت کے اندر رجوع نہیں کیا بلکہ طلاق دے دی۔ آیت کا یہ حصہ احادیث میں تفصیلی ہے اور نبی ۖ نے فرمایا کہ قرآن میں تیسری طلاق آیت229البقرہ میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ تسریح باحسان ہے اور یہ واضح فرمایا کہ تین طہروحیض کی عدت کیساتھ تین مرتبہ طلاق کا تعلق ہے۔
2:آیت میں یہ حد بھی واضح کی گئی ہے کہ اس حتمی طلاق کے بعد شوہر کیلئے جائز نہیں کہ جو کچھ بھی دیا ہو اس میں کچھ بھی واپس لے مگر جب دونوں اور فیصلہ کرنیوالے خوف رکھتے ہوں کہ اللہ کی حدود پر یہ دونوں قائم نہیں رہ سکیںگے۔ یعنی جدائی کے بعد شوہر دی ہوئی چیزواپس نہیں لے سکتا اس جدائی میں باہوش وحواس دونوں کا نہ صرف کردار ہو بلکہ فیصلہ کرنے والوں کا بھی کردار ہو۔اور اس پر اتفاق ہوجائے کہ آئندہ کیلئے صلح کا دروازہ بند ہے، اختلاط کی کوئی صورت نہ چھوڑی جائے۔ یہ آیت کے ظاہری الفاظ میں واضح حدود ہیں۔
قرآن میں آیت229میں جن حدود کی وضاحت کردی گئی ہے تو پھر آیت230میں معاملہ واضح ہے کہ اللہ نے صرف اور صرف اسلئے اس طلاق کے بعددوسرے شوہر سے نکاح کرنے کو ضروری قرار دیا ہے کہ جب سابق شوہر سے رجوع کرنا نہیں تو پھر سابق شوہر اس عورت کی اپنی مرضی سے نکاح میں کوئی رکاوٹ نہ بنائے۔ جبکہ اس کے علاوہ قرآن کی تمام آیات میں طلاق کے بعد عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی اور اصلاح وصلح کی شرط پر معروف طریقے سے رجوع کی کھل کراجازت دی ہے۔
جب یزیدی آمریت کے بعد لوگوں میں قتل و غارت گری کا خوف، زبردستی سے نکاح اور جبری طلاق کارواج عام ہوگیا اور لوگوں میں غیرت وحمیت کا وہ معیار نہیں رہاہے جس کا اسلام تقاضہ کرتا ہے تو پھر سب سے بڑا معاملہ یہ بھی وقت کے گزرنے کیساتھ ساتھ پیش آیا کہ قرآن کی سمجھ ختم ہوتی گئی۔ لوگوں نے آیت کو سمجھ لیا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ” جب شوہر اپنی بیوی کو تین طلاق دیدے تو اس کیلئے تب حلال ہوگی کہ جب کوئی دوسرا شخص اس میں اپنا آلۂ تناسل داخل کرے گا اور جس طرح چھری ذبح کرنے سے مرغا یا بکرا حلال ہوتا ہے اسی طرح عورت کو بھی دوسرا شوہر دخول کے ذریعے پہلے کیلئے حلال کرسکتاہے”۔
حالانکہ قرآن کی آیات بالکل واضح تھیں کہ یہ صرف اس صورت میں ہے کہ جب صلح کا پروگرام نہ ہو اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے بار بار واضح کردیا ہے کہ صلح کی شرط پر عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع ہوسکتا ہے۔ ان تمام آیات میں بھی یہ واضح ہے کہ صلح واصلاح ، باہمی رضامندی اور معروف طریقے کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے لیکن افسوس کہ تمام آیات میں صلح اور معروف کی شرط کو بھی نظر انداز کیا گیاہے۔
میرے دادا سیدامیر شاہ اور پردادا سید حسن شاہ ہماری جامع مسجد کانیگرم وزیرستان کے امام اور خطیب تھے۔جب میرے والدسید مقیم شاہ نے مسجد گرادی تاکہ تعمیر نو کرلے تو دادا سیدامیر شاہ نے کہا تھا کہ مسجد گرائی ہے اور اب بنا نہیں پائے گا۔ اچھی عمارت کی تعمیر میں دیر لگتی ہے ۔ پھر میرے والد نے مسجداچھی تعمیر کردی۔
علماء کرام فکر مند ہیں کہ سید عتیق الرحمن گیلانی نے مدارس کے نصاب کا کباڑ خانہ بنادیا۔اب اس کی تعمیر کیسے کرے گا؟۔ میرے دل میں علماء کرام کا بہت احترام ہے ۔ میرے اجداد علماء ومشائخ تھے اور میں نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی ودیگر مدارس کے اساتذہ کرام سے نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ نصاب کے معاملے میں بہت حوصلہ بھی پایا ہے۔ دیوبند اور بریلوی بعد کی پیداوار ہیں۔ سیدعبدالقادر جیلانی سے میرے پردادا سید حسن شاہ اوردادا سیدامیر شاہتک علماء اور دینی وقومی پیشوا تھے۔ اگر زندگی رہی تو مدارس کے نصاب میں کلیدی کردار ادا کروں گا اورمنبر ومحراب عوام کیلئے دینی اوردنیاوی پیشوائی کا مرکز ہوں گے ۔انشاء اللہ تعالیٰ
تین طلاق اور اس سے رجوع کے حوالہ سے اپنی کتابوں اور اخباری مضامین کے علاوہ سوشل میڈیا کی ویڈیوز کے ذریعہ قرآنی آیات، احادیث صحیحہ ، صحابہ کرام اور اصول فقہ کے حوالہ سے وضاحتیں کرچکا ہوں اور یہ سلسلہ جاری ہے تاکہ مسلمان ایک بہت بڑی غلط فہمی کی دلدل سے نکل جائیں۔ عورت کے اختیارات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح کیا ہے اور مذہبی طبقات نے ان کے اختیارات کو سلب کرلیا ہے اسلئے قرآن کی آیات کے ترجمہ اور تفاسیر پر بہت منکر قسم کے اختلافات ہیں۔ سنی مکتبہ فکر اختلافات کا حل دیکھ کر حقائق بھی مان لیںگے لیکن شیعہ مکتب کے لئے اپنے مسلک سے انحراف تھوڑا مشکل ہوگا اسلئے کہ ان کی فقہ جعفریہ ایک ہے اور جب ان کو اپنا فقہ قرآن کی واضح آیات کے بالکل خلاف لگے گا تو وہ بھی وحدت امت میں آجائیں گے۔ مشکل یہ ہے کہ قرآن کی طرف تمام مکاتب نے رجوع نہیں کیا جس کی قرآن میں شکایت بھی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عتیق گیلانی کی نظم "شاہین درویش”

شاہین درویش

شاہیں پرندوں کا وہ درویش ہے
فرقہ حاجت جس کا نہ جیش ہے

کائیں کائیں کرے نہ کڑ کڑ
پھڑک مارتا ہے اور نہ نیش ہے

امن کا داعی نہ لڑاکا سپاہی
قوم پرست نہ اس کا دیش ہے

ٹھکانے کی فکر نہ ظلم کا شکوہ
خودی پر بھروسہ کم و بیش ہے

زلزلہ آئے یا اقتدار پلٹ جائے
اِس پر خوش نہ اُس پر طیش ہے

من کی دنیا انتھک اڑان
عزیز کنبہ نہ بزم خویش ہے

نظر بڑی تیز ، شکار ہنگامہ خیز
جاں پُرسوز نہ جگر ریش ہے

فضا کا مسافر زمیں کا یہ کافر
مدرسہ خانقاہ چندہ نہ کیش ہے

دستار نہ رومال نہ بڑے بال
طرہ جبہ ٹوپی نہ ریش ہے

نظر میں سمائے نہ دل کو بھائے
بے خبر اسے گرد و پیش ہے

دما دم مست وہ دست بہ دست
غم نیستی نہ طمعِ عیش ہے

کمال سے پلٹنا غضب کا جھپٹنا
ہرن، لومڑ، مچھی بہا بیش ہے

زندہ تابندہ رہے پرندوں کا شاہ
کمال نیٹ کا ٹیکس ھیش ہے

پَر چونچ ناخن اپنے توڑ ڈالے
تازہ دم عدو زیر زبر پیش ہے

صدقہ ردبلاء اے وارث انبیائ
زکوٰة باسی چھوڑ ہدیہ فریش ہے

ابراہیم تا حسین عید قرباں
ڈنگروں کو خطرہ در پیش ہے

غیبت مردے بھائی کا کھانا لحم
ارے گدھ بھی دُور اندیش ہے؟

ماں کے زنا سے بدتر سودی حیلہ
یہودی مفتی تقی پیش پیش ہے

زور دار دھماکے سے کوئی نہ جاگا
قبرستاں میں طیارہ کریش ہے

آخرت سے یقیں اُٹھا بعلم کا
زمیں خلد بریں ہمیشہ ہمیش ہے

بلوچستان سے پاکستان ہے آباد
سمگل راج تربت تا ویش ہے

سورۂ دہر ہے انقلاب کی خبر
وردی میں ریشم کی گرنیش ہے

چھپکلی کی پھونک چڑیا کا پانی
ہر ایک کی اپنی کاویش ہے

مہنگائی ناچ جاری حکومت کا
مہا راج بوٹ کا پالیش ہے

جسے دھو ڈالا وہ بھولا بھالا
عمل تو سبھی کا مالیش ہے

حضرتِ آدم سے کہا امن چاہیے
چار وزیر گورنر قد بالیش ہے

ہر طبقے کا ہے مقام اپنا
گوشت اوجھ کوئی الائش ہے

گئی فرقہ پرستی سیاست کی بستی
زمیں پر امامت کی فرمائش ہے

بگاڑ دیا بالکل اسلام کا حلیہ
نشاة ثانیہ دین کی زیبائش ہے

قرآن و سنت کو فروغ دو
پھر ممبر تیری افزائش ہے

ہے دار فتویٰ گمراہی کا اڈہ
حلالہ کی لعنت اگر خواہش ہے

بنایا ملا عمر کو خراسان کا مہدی
کہتے تھے مدینہ جائے پیدائش ہے

گدھا مان لیں فرقوں کا امام
بازارِ تجارت مذہب نمائش ہے

آگ ٹھنڈی نہ ہو پائے گی
دہشت گرد دنیا کی گرمائش ہے

مسئلے مسائل کا حل ہے کہاں
موجودہ نظام اور نہ داعش ہے

نمرود و یزید کا فانی استدراج
عتیق حق کی فتح دائم ستائش ہے

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv