پوسٹ تلاش کریں

تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل

حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کا مسک برحق
قرآن کریم کی آیات اور احادیث صحیحہ کے عین مطابق متفقہ حل
دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگاہ زلزلۂ عالم افکار
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
ایک ساتھ تین طلاق حضرت عمرؓ کے مطابق واقع ہونے اور حضرت علیؓ کے مطابق واقع نہ ہونے کا مؤقف قرآن کریم کی آیات کے عین مطابق 100%درست ہے اور ائمہ اربعہ حضرت امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کا متفقہ مسلک بھی 100%درست ہے، اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسلک بھی درست ہے لیکن افسوس کہ معاملے کو حقائق کی روشنی میں دیکھنے کے بجائے بعض فقہاء نے بلا وجہ حلالے کی لعنت سے اُمت کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ شکاعت فرمائیں گے کہ ’’اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ (القرآن)

کتاب پڑھنے کیلئے ٹائٹل پر کلک کریں

تین طلاق کی درست تعبیر

خوشخبری’’ تین طلاق کی درست تعبیر‘‘ شائع ہوچکی ہے جس میں طلاق اور خواتین کے حقوق کے مسئلے کو اس انداز میں اٹھایا گیا ہے کہ کسی کیلئے اختلاف کی گنجائش نہیں رہی ۔ مدارس کے ارباب فتویٰ اور دانشور حضرات خصوصی طور پر کتاب کے مندرجات کو غور سے پڑھیں ، انشاء اللہ قرآن و سنت کے حوالے سے اس مسئلے پر فطرت کے مطابق بہترین رہنمائی ہوگی۔ جس سے نہ صرف امت مسلمہ بلکہ دنیا کی تمام دوسری قوموں کو بھی قرآن اور اسلام کے معاشرتی نظام کی طرف راغب ہونے کا زبردست موقع ملے گا۔ اگر علماء و مفتیان اعلانیہ طور پر ایک ساتھ تین طلاق پر صلح نہ کرنے کے غیر فطری مسئلہ سے دستبردار ہوجائیں تو آئندہ مختصر کتابچہ میں صرف قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کو نقل کرکے بڑی تعداد میں شائع کیا جائیگا اور اس میں کسی کیلئے خفت اور شرمندگی کا احساس بھی نہ ہوگا۔ ہمارا مقصد مسلمانوں کے گھر اور عزتوں کو بچانا ہے۔ بصورت دیگر عنقریب ہم انشاء اللہ العزیز ذمہ دار علماء ومفتیان کو عوام، میڈیا اور عدالتوں کے کٹہرے میں لا کھڑا کردینگے۔ مسلمانوں کی عزت اور قرآن و سنت کے مقابلہ میں ہٹ دھرموں کو حیثیت دینا اپنی دنیااور آخرت تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ازماہنامہ نوشتۂ دیوار کراچی

وہ تعبیر جس پر اہل حق متفق ہوں اور اہل باطل بھی تعبیر کی غلطی کا اعتراف کریں
بہشتی زیور و بہار شریعت میں تین طلاق کا غلط مسئلہ اور دار العلوم کراچی کے غلط فتوے کی تردید
دیوبندی بریلوی مسالک کی مشہور کتب میں تین طلاق کا یہ مسئلہ عقل، فطرت، قرآن و سنت، حضرت عمر اور چاروں امام کے منافی
کہکشاوں کی گردش اور ثریا کی جھرمٹ میں گرفتار درخشندہ ستاروں کی قید سے آزاد تحریر

کتاب پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

عورت کے حقوق – عورت کے حقوق کی بنیاد پر دنیا میں عظیم انقلاب برپا ہو سکتا ہے

اسلام نے دنیا میں جو انقلاب برپا کیا تھا آج بھی
عورت کے حقوق
کی بنیاد پر دنیا میں عظیم انقلاب برپا ہوسکتا ہے
مصنف: سید عتیق الرحمن گیلانی
اس کتاب کا نام پہلے تین طلاق سے بغیر حلالہ کے ہی رجوع پر انقلابی تحریر تھا لیکن چونکہ خواتین کے حقوق بالکل نظر انداز کئے گئے ہیں۔ قرآن نے جو حقوق دئیے ہیں وہ معاشرے میں ان کو نہیں مل رہے ہیں۔ مغرب نے عورت کو مساوی حقوق دئیے ہیں جو خواتین کے ساتھ ظلم ہیں۔
نکاح کے بعد ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن مقررکردہ حق مہر کا نصف دینا ہوگا۔
حق مہر شوہر کی وسعت کے مطابق ہوگا۔ امیر پر اسکے مال ودولت اور غریب پر اس کی حیثیت کے مطابق۔ یہ حق مہر عورت کی سیکورٹی ہے۔ جب ہاتھ لگانے سے آدھا حق مہر ہو تو جماع کرنے کے بعد صرف پورا حق مہر نہیں بلکہ یہ وضاحت قرآن میں ہے کہ گھر عورت کا ہی ہوتا ہے۔ مرد اگر طلاق دے گا تو گھر بھی عورت کیلئے چھوڑ دے گا۔
عورت کو خلع کا بھی مکمل حق حاصل ہوگا۔ خلع میں اس کو حق مہر کے علاوہ شوہر کی طرف سے دی گئی منقولہ اشیاء ساتھ لے جانا اس کا حق ہوگا۔ لیکن غیر منقولہ دی گئی اشیاء مکان، دکان ، گھر ، باغ وغیرہ سب کچھ چھوڑ کر جانا ہوگا۔
طلاق میں مکان اور منقولہ وغیر منقولہ اشیاء دی ہوئی تمام اشیاء کی مالک عورت ہی رہے گی۔ اسلام نے عورت کی ناماموس کو وہ تحفظ دیا جس کے حقوق کو دیکھ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ ماں کے قدموں تلے واقعی جنت ہے۔
وزیرستان کے لوگ بیشک میری کتاب پر تمام علماء اور قوانین کے ماہرین کو دعوت دیں اور پھر فیصلہ کرلیں کہ یہ حقوق انکے بنتے ہیں یا نہیں؟۔ پھر اس پر عمل درآمد کیلئے ایک لائحہ عمل تشکیل دیں۔قرآنی آیات کی تعلیم اور عمل کے مناظر سوشل میڈیا پر لوگ دیکھ لیںگے تو پوری دنیا دوڑ کر وزیرستان کے لوگوں کے اسلام ، ایمان اور انسانیت کو تہہِ دل سے سلام پیش کرے گی۔ عرب چھوٹی بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے اور ہم نے ان کو قرآن اور انسانیت کے ان حقوق سے محروم کرکے زندہ گاڑھنے سے بھی برے حال پر پہنچایا ہوا ہے۔ ایک قبائلی اس بات کو زیادہ اچھی طرح سے سمجھ سکتا ہے۔عورت کو قانونی طور پر زیادہ تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ نبی کریمۖ نے اپنی ذات کے حوالہ سے ہمارے لئے ہی قربانیاں دی ہیں۔ اماں عائشہ پر بڑا بہتان لگایا گیا تو اس کی سزا80،80کوڑے دی گئی اور یہی سزا ایک عام غریب عورت پر بھی بہتان لگانے کی ہے اور اس بات کو قبائلی معاشرہ زیادہ بہتر سمجھ سکتا ہے۔ انگریز کے نظام میں مال ودولت کے لحاظ سے اونچ نیچ کا تصور تھا اور لوگوں سے اسلام کے اعلیٰ اقدار و قوانین بالکل اوجھل ہیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو حقیقی اسلام کا قلعہ بنادے،آمین

کتاب پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

ابرِ رحمت – قرآن و سنت کی روشنی میں نئ فیصلہ کن تحقیق

طلاق کی ملکیت کا باطل تصور
ایک مولانا نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی، عدت کے بعد ایک مفتی سے اس کا نکاح ہوا. حنفی فقہ میں وہ مولانا بھی بدستور دو طلاق کا مالک ہے، مفتی نے دو لاق دے کر عدت ہی میں رجوع کرلیا تو اب مفتی ایک طلاق کا مالک ہے اور پہلا شوہر مولانا دو طلاق کا. اگر طلاق کی ملکیت کا یہ غیر فطری تصور درست ہے تو مشترکہ مملوکہ بیوی پر پہلے شوہر دو طلاق کے مالک مولانا کا زیادہ حق ہے یا دوسرے شوہر ایک طلاق کے مفتی کا؟
اے نا معقول: شوہر طلاق کا مالک نہیں بلکہ طلاق اور اسکی عدت کا حق رکھتا ہے اور رجوع کا تعلق بھی عدت سے ہے

کتاب ابر رحمت پڑھنے کیلئے ٹائٹل پر کلک کریں

جس دن اُمت نے قرآن و سنت کو سمجھ کر اعلان کردیا کہ حلالے کا تصور نہیں تو آدھا چلّہ گزرتے ہیں21ویں دن دنیا میں انقلاب آجائے گا!

جس دن اُمت نے قرآن و سنت کو سمجھ کر اعلان کردیا کہ حلالے کا تصور نہیں تو آدھا چلّہ گزرتے ہیں21ویں دن دنیا میں انقلاب آجائے گا!

پہلے دن حلالے کی لعنت کا خاتمہ ہوگا اور دوسرے دن،تیسرے، چوتھے، پانچویں …… بیسویں دن تک ایک ایک اہم مسئلے کی وضاحت جاری رہے گی تو امت زندہ ہوجائے گی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ ” اہل غرب ہمیشہ حق پر قائم رہیں گے”۔ مغرب کی سب سے بڑی خوبی جمہوری اقتدار، غلامی اور ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ ہے۔ ہمارا خلیفہ بھی جمہوری انداز سے مقرر ہونا چاہیے۔ ڈکٹیٹر شپ سے امریکی ونیٹو فوج کو افغانستان میں کامیابی نہیں ملی۔ طالبان کے جنرل مبین نے کہا کہ” جب تک عوام ساتھ نہ ہو ،افغانستان میں کوئی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی”۔ دہشگردی کا خاتمہ جمہوری حکومت کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ اگر خواتین کو اسلامی حقوق دینے کی وضاحت اور پھر اس پر عمل درآمد کا اعلان کیا جائے تو جمہوری بنیادوں پر پوری دنیا کی خواتین خلافت علی منہاج النبوت قائم کرنے میں دیر نہیں لگائیں گی۔ پہلے دن اعلان کیا جائے کہ حلالہ کا خاتمہ ہے۔ باہمی رضامندی سے صلح کا راستہ اللہ نے کھلا رکھا ہے۔ تو مسلمانوں کی زندگی میں حرکت شروع ہوگی۔ پھر اگلے دن عورتوں کو اسلام کے مطابق خلع کا حق دیا جائے تو مزید تحریک کامیاب ہوگی۔اسلامی علوم کا بند اور فطری ذخیرہ عوام وخواص کے سامنے کھلے گاتو انقلابی رحجان پیدا ہوگا۔ پھر خواتین اور مردوں کے مخلوط معاشرے کی مثال خانہ کعبہ کے طواف، صفاومروہ کے سعی اور حرم کعبہ میں نمازباجماعت سے دی جائے تو مولوی کا ذہن بھی کھلے گا۔مرد اور عورت کو نظروں اور شرمگاہوں کی حفاظت کا حکم سمجھایا جائیگا تو حجر اسود چومتے وقت نامحرم آپس میں رگڑ ا نہیں کھائیںگے ۔ہر نیا دن انقلابی سورج طلوع ہوگا۔ نکاح میں مردوں پر فرائض اور خواتین کے حقوق سے دنیا بھر کی مسلم اور غیرمسلم خواتین اسلامی نظام کے حق میں ووٹ دیںگی۔پانچ دنوں میں انقلاب کے اثرات ہونگے۔والدین کی علیحدگی کی صورت میں بچوں پر ماؤں کا یکساں حق ہوگا تو مائیں خوشیوں سے سرشارہونگی۔
چھٹے دن پنجاب میں جہیز اور پشتونوں میں عورت کا حق مہر کھانے کا رواج ختم ہوگا اور عرب والدین بھی حق مہر کے مطالبے کی وجہ سے عورتوں کے حقوق کو ضائع کرنا چھوڑ دیںگے۔ افغان طالبان حکومت کو بھی دنیا تسلیم کرے گی اور عرب وعجم کی خواتین میں اسلام کوزبردست قبولیت کا درجہ حاصل ہوجائیگا۔7ویں دن اعلان ہوگا کہ عورت اور مرد کے ریپ پر سنگساری کی سزا ملے گی تو دنیا بھر کے غیور لوگ اسلام کے حق میں کھڑے ہوںگے۔8ویں دن اعلان ہوگا کہ سورۂ نور کے مطابق عورت اور مرد کو بدکاری پر اعلانیہ100کوڑے کی یکساں سزا دی جائے گی اور ماحول کے اعتبار سے کوڑے میں سختی اور نرمی ہوسکتی ہے تو دنیا کے کان کھڑے ہوںگے لیکن تحریک اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوگی۔ پھر9ویں دن لعان کے قانون کا اعلان ہوگاتو دنیا حیران ہوگی کہ اسلام میں قانون کی بالادستی کا چودہ سو سال پہلے سے یہ تصور تھا کہ جب عورت کیخلاف اسکا شوہر فحاشی کی گواہی دے اور عورت کو نہ صرف اسکے جھٹلانے کا حق ہو بلکہ اس کی وجہ سے سزا کا حکم بھی ہٹ جائے تویہ کتنا زبردست اور بہترین قانون ہے۔ سورۂ نور کی یہ آیت لوگوں کی نظروں سے کیوں اوجھل رکھی گئی؟۔ اگر یہ واضح احکام ہوتے تو مغرب کو ہوس پرستی کیلئے یہ مادر پدر آزادی دینے کے قوانین کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔وہ اسلام کے محفوظ خاندانی زندگی کی طرف دوبارہ پلٹنے میں دیر نہیں لگائیںگے کیونکہ انسان جانور نہیں بن سکتا ہے۔
10ویںدن اعلان ہوگا کہ نہ صرف شوہر کو اپنی وسعت کے مطابق حق مہر دینا ہوگا بلکہ جب عورت کو ہاتھ لگائے بغیر بھی شوہر طلاق دے گا تو نصف حق مہر پھر بھی دینا فرض ہوگا۔ البتہ اگر عورت اپنی طرف سے کچھ معاف کرنا چاہے لیکن ترغیب مرد کو ہے کہ جسکے ہاتھ میں طلاق کا گرہ ہے کہ وہ نصف حق مہر سے زیادہ دے تو بہتر ہے۔آیت کے ان الفاظ سے فقہاء نے جو مسائل نکالے ہیں کہ عورت حرامکاری پر مجبور ہو ،تب بھی عورت کو خلع نہ ملتا ہو تو وہ لذت اٹھانے پر گناہگار ہوگی۔ وغیرہ تو لوگ سابق مخلص علماء وفقہاء کی مغفرت کی دعاکرینگے۔
11ویں دن اعلان ہوگا کہ عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل کے بعد اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد میاں بیوی میں صلح کا دروازہ کھلا ہے تو یہ ایک ایسا انقلاب ہوگا جس کی وجہ سے عوام اور خواص کے خاندانوں میں دشمنی کا خاتمہ ہوجائیگا اورماحول کو بہت پاکیزگی اور تزکیہ مل جائیگا۔12ویں دن اعلان ہوگا کہ بیٹیوں کو باپ کی جائیداد میں بیٹے کے نصف کے برابر حصہ ملے گا تو ظالموں کے کلیجے منہ کو آجائیں گے اور مظلوموں کو انصاف مل جائیگا۔13ویں دن اعلان ہوگا کہ مزارعت ،ٹھیکہ ، مزدوری اور کرائے پر زمینوں کا دینا ممنوع ، ناجائز اور سود ہے تو روس کے دارالخلافہ ماسکو پر اسلام کا جھنڈا لہرائے گا اور سارے کامریڈ اور کمیونسٹ اسلامی نظام کو قبول کرنے کا اعلان کریں گے۔14ویں دن اعلان ہوگا کہ دنیا سے سودی نظام ختم ہے اور اصل رقم قرضہ کی شکل میں واپس کی جائے گی اور سودی لین دین دنیا میں منع ہے جس سے انسان دشمنی کے راستے اور غلامی کے آثار نمایاں ہوئے ہیں تو ایک جشن منایا جائیگا کہ انسانوں کی گردنیں غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہیں۔15ویں دن اعلان ہوگا کہ کالے گورے، عرب عجم سب بنی آدم ہیں ۔ کسی کو کسی پر نسل کی وجہ سے برتری حاصل نہیں۔ افضیلت کا معیار کردار ہے تو یہ بہت مثبت اثرات مرتب کرے گا۔16ویں دن اعلان ہوگا کہ وکیلوں کو چھوڑ دیں۔ اپنا مقدمہ خود پیش کریں۔ سیاسی جماعت کے قائدین ، جرنیل ،جج ،ملا، صحافی ، تاجر ، ٹھیکہ دار اور تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد صاف ہونگے تو ان کو دائیں ہاتھ سے اعمالنامہ جاری کیا جائیگا اور آسان حساب لیا جائیگا اور جو حاضر ہونے سے انکار کرے گا تو اس کو پیٹھ پیچھے اس کا اعمال نامہ دیا جائیگا اور وہ اپنی موت پکارے گا۔ کرپٹ عناصر نے ملک وقوم کو لوٹ کر کہاں سے کہاں پہنچادیا ؟۔ بڑے بڑے ہاتھ مارنے والوں سے حساب لیا جائے گا۔17ویں دن اعلان ہو گا کہ زکوٰة کو قرآن وسنت کے نصاب کے مطابق آٹھ قسم کے افراد میں تقسیم کیا جائیگا۔ حادثات کا شکار ہونے والوں میں مسلم و غیرمسلم کی تفریق نہیںہو گی۔مسلمانوں سے نہری اور بارانی زمینوں کا عشر اور غیرمسلموں سے اتنی مقدار میں جزیہ لیا جائیگا۔18ویں دن اعلان ہوگا کہ زکوٰة، حج، نماز اور خواتین کے پردے میں جبری نظام کا تصور نہیں۔ صرف اخلاقیات کی ترغیب ہوگی لیکن قانون اور زبردستی کا تصور قرآن وسنت میں نہیں۔19ویںدن اعلان ہوگا کہ مسلمانوں کی طرح اگر ہندو، بدھ مت، عیسائی، یہودی اور صائبین وغیرہ بھی اپنی مرضی سے اپنے اصل ادیان کی طرف لوٹ کر مسخ شدہ احکام کی اصلاح کرنا چاہتے ہوں تو یہ انکی اپنی مرضی ہے۔ وہ خود اپنی شریعت اور اپنی مرضی ہی کے مطابق اپنے احکام پر عمل کے پابند ہونا چاہیں تو ان کی مرضی ہے لیکن ہماری طرف سے جبر وزبردستی کاکوئی تصور نہیں اور نہ ہم ان کی کتابوں کے مطابق ان کا فیصلہ کرینگے اسلئے کہ اللہ نے منع فرمایا۔20ویں دن اعلان ہوگا کہ دنیا سے ظلم کا خاتمہ اور عدل قائم کریںگے تو مسلمانوں میں روح مکمل ہوجائے گی۔21ویں دن انڈے کا خول توڑ کر مسلم امت کے چوزے دوڑنے کے قابل ہوں گے۔
میری دائیں اور بائیں بازو دونوں سے صراط مستقیم پر چلنے کی نہ صرف ایک درخواست ہے بلکہ یہ یقین ہے کہ اسلامی احکام کی افادیت کے سامنے پوری دنیا کی طرح جلد ازجلد وہ بھی سرجھکائیں گے۔ عورت جب بیاہی جاتی ہے تو وہ کسی قوم، خاندان اور علاقہ میں رعایا کی زندگی بسر کرتی ہے۔ جو مظالم قانون، رسم و رواج اور شریعت کے نام سے عورت پر روا رکھے گئے ہیں ،اگر اسلام کی حقیقت سامنے آجائے تو وللہ باللہ تاللہ سب لوگ حقیقی اسلام قبول کریںگے اور ایمان کو دلوں میں داخل کریںگے۔ مولانا فضل الرحمن ووٹ مانگتا ہے تو کہتا ہے کہ اگر مرداور عورت کو فحاشی کی حالت میں ننگاایک ، دو اور تین مرد دیکھیںگے تو بھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ مگر جب اقتدار ہاتھ میں آتا ہے تو دوپٹہ سرکنے یا چہرے دکھانے پر کوڑے مارے جاتے ہیں حالانکہ حج وعمرہ میں عورتیں چہرہ دکھاتی پھرتی ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

انڈوں کو مطلوبہ حرارت فراہم نہ کی جائے تو چوزوں کی زندگی اور نشو و نما کا امکان نہیں ہوتا، مطلوبہ حرارت کے21دن بعد چوزے نکلتے ہیں!

انڈوں کو مطلوبہ حرارت فراہم نہ کی جائے تو چوزوں کی زندگی اور نشو و نما کا امکان نہیں ہوتا، مطلوبہ حرارت کے21دن بعد چوزے نکلتے ہیں!

اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین اس وقت ہمارے دلوں میں آسکتا ہے جب اللہ کے احکام کو سمجھ لیں۔اگر اللہ کے نام پر جعل سازی ہو تو جعلی احکام پرکامیابی کا یقین نہیں آئے گا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

نسل در نسل انڈوں اور چوزوں کی طرح علماء ومفتیان، خانقاہوں کے پیر، درگاہوں کے جانشین،مذہبی جماعتوں کے قائدین اور سیاسی جماعتوں کے لیڈر مختلف رنگ ونسل میں ایک پود سے دوسری پود جنم لے رہے ہیں لیکن اسلام کی دنیا میں بالادستی کا کوئی پودا نہیں لگاتے ہیں۔ ایک ایک فرقے میں انواع اقسام کی تنظیمیں، جماعتیں اور شخصیات ہیں لیکن مذہب کو ایک کاروبار بناکر رکھا ہے۔ جب چندے ، ہدئیے ، زکوٰة، خیرات اور فطرے مل رہے ہوں تو دین بھی بہت اچھا لگتا ہے۔ ایسے میں پنج وقتہ نماز، روزکی تلاوت، ذکر اور تہجد میں کیا دشواری ہوگی؟۔ ایسے لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی مختلف قوموں پر مختلف ادوار میں کیسے کیسے عذاب آتے رہے ہیں؟۔ آج یہ بخشے بخشائے بدھ مت کے بھکشوبھی اپنے معمولات کے مطابق بس نیکی وبدی کی فکر سے آزاد گشت کرتے پھر رہے ہیں۔ جب پیر وںوملاؤں نے تبلیغی جماعت کی سخت مخالفت کی تھی تو ہمارے خاندان نے ان کی بھرپور حمایت کی تھی اسلئے کہ ہمارے گھرانہ نے دم تعویذ اور مذہب کو اللہ کے فضل سے اپنا کاروبار نہیں بنایا تھا۔ ہم نے مرشد بھی وہ چن لیا جس نے ساری زندگی تبلیغی جماعت کے اکابر میں شمار ہونے کے باوجود کارکنوں کی طرح گزاری تھی۔ تبلیغی جماعت والے مسلک نہیں دین کی خدمت کی وجہ سے بڑے اچھے لگتے تھے۔ تبلیغی جماعت کی طرح دعوت اسلامی نے بھی دین کی خدمت کا بیڑہ اٹھارکھاہے اور یہ چلتی پھرتی خانقاہیں ہیں۔ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین کی رٹ لگانے والوں کو یہ پتہ نہیں ہے کہ ” اللہ کے احکام کیا ہیں؟”۔ مجھے تبلیغی جماعت سے جذبہ ملا۔ مدارس میں اللہ کے احکام کو اساتذہ کرام سے سیکھا تو یہ راز فاش ہوگئے کہ سب سے پہلے اللہ کے احکام کی حقیقت جاننا چاہیے ۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

تبلیغی جماعت کا حلالہ؟ ڈیڑھ چلّے پر چھکا 60 x6=360 پورا سال؟

تبلیغی جماعت کا حلالہ؟ ڈیڑھ چلّے پر چھکا60×6=360پورا سال؟

تبلیغی جماعت و دعوت اسلامی کے کارکن چلّہ کشی میں برداشت پیدا کرتے ہیںاور ایک حلالہ کی لعنت کرانے سے ان میں پورے سال کی محنت کے برابر برداشت پیدا ہوجاتی ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

دیوبندی بریلوی علماء کیلئے تبلیغی جماعت و دعوت اسلامی بڑا سرمایہ ہیں۔ انکے کارکن غصے میں بیگمات کو اکٹھی3طلاق دیں تو حلالہ کی لعنت کروانے کیلئے علماء کے پاس پہنچتے ہیں۔ علماء فتویٰ دیتے ہیں کہ ان کیساتھ شب باشی کی لعنت نہ کی جائے تو صلح حرامکاری ہے۔ قرآنی آیت کو سیاق وسباق کے بغیر اور حدیث کوبالکل غلط پیش کرکے بے گناہ خواتین کی عزتیں اسلام کے نام پر لوٹ لی جاتی ہیں۔مفتی حلالہ انجن تبلیغی جماعت و دعوت اسلامی کے ایندھن سے چلتا ہے۔ تبلیغی جماعت ودعوت اسلامی اعمال کو کروڑوں سے ضرب دیتے ہیں اور قوت برداشت پیدا کرتے ہیں، حلالہ سے ڈیڑھ چلہ60دنوں پر چھکے6کی ضرب لگتی ہے تو360دنوں سال کے برابر برداشت کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ علماء نے پہلے لاؤڈ اسپیکر پر نماز و آذان کیخلاف فتویٰ دیا مگر عمل نہ کیا۔ تصویر کا فتویٰ دیا مگر پھر جواز کے قائل ہوگئے۔ اب سود کو جائزقرار دیا۔بے ایمان علماء نے حلالہ کے درست مؤقف کو سمجھ لیا لیکن اس لعنت سے تبلیغی جماعت و دوعوت اسلامی کے کارکنوں کی عزتیں نہیں بچاتے ۔ علماء میںکسی نے توحید وسنت پر زور دیا۔ کسی نے رسول اللہ ۖ کیخلاف گستاخانہ لہجے کا تعاقب کیا۔ کسی نے اقامت دین کو مشن بنایا۔ کسی نے جہاد کی طرف توجہ دی۔کسی نے ختم نبوت کو تحفظ دیا۔ کسی نے صحابہ اور اہلبیت کا تحفظ اپنا فرض سمجھا۔ کسی نے ردِ بدعات کو مشن سمجھا۔ کسی نے تقلید کو تحفظ دیا۔کسی نے تفسیرقرآن اور کسی نے حدیث کو مشن قرار دیا۔ علماء نے مختلف میدانوں میں نمایاں کارنامے انجام دئیے ،علوم وفنون میں ان کی مہارت کا سکہ دنیا مانتی ہے۔قرآن و سنت، فقہ وعقائد، صرف ونحو، منطق و فلسفہ اور عربی ادب کے میدان میں مخصوص کتابوں کے ماہرین سے طلباء اپنی تعلیم کیلئے دور دور سے تشریف لاتے ۔ علمی شخصیات کے علاوہ مدارس کا وجود بھی تھا جن میں مختلف علوم اور کتابوں کے ماہرین طلبہ کو اسلامی علوم پڑھاتے تھے۔
کانیگرم وزیرستان میں ہماری آبائی مسجد کو ”درس” کہتے تھے۔ درس مسجدکو نہیں بلکہ جہاں تعلیم اورتدریس ہو ،اسے درس کہا جاسکتا ہے۔ کانیگرم کی مساجد میں رہائش پذیر طلبہ قرآن وسنت ، فقہ، عربی فارسی کتابیں اور مختلف علوم وفنون سیکھنے کیلئے مرکزی مسجد میں آتے ۔ علماء حکیم تھے۔ طلبہ کو گھروں سے صبح وشام وظائف کی طرح کھانا ملتا تھا ۔ علماء اپنے کاروبار اور حکیم ہونے کی وجہ سے زکوٰة لیتے نہیں تھے بلکہ غرباء کو دیتے تھے۔ طلبہ کو زکوٰة کی ضرورت نہ تھی۔ زکوٰة فقرائ، مساکین ،حادثات کا شکار ہونے والوں، گردنیں آزاد کرنے اور قرآن میں بیان کردہ آٹھ قسم کے افراد میں تقسیم ہوتی تھی۔ جن میں مولفة القلوب شامل تھے۔ لارڈ میکالے کاانگریزی تعلیمی نظام ہندوستان میں متعارف ہوا تو اس میں دینی تعلیم کا اہتمام نہ تھا۔ دنیاوی علوم کیلئے علی گڑھ نے کردار ادا کیا، مذہبی علوم کیلئے دارالعلوم دیوبند نے کردار ادا کیا۔ علی گڑھ کے بانی سرسیداحمد خان کی داڑھی علماء دیوبند سے زیادہ لمبی تھی۔ علی گڑھ نے چندہ اکٹھا کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ دارالعلوم دیوبند کو لوگ خود چندہ دیتے تھے۔ عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کیلئے بڑے پیمانے پر چندہ کیا لیکن مولانا فضل الرحمن نے اپنے مدرسہ جامعہ الشریعہ کیلئے چندہ نہیں کیا۔
دیوبندیوں کے بعد بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ کے بھی مدارس بن چکے ہیں اور مدارس نے بہت زبردست کاروبار اور انڈسٹری کی شکل اختیار کرلی ہے۔ دارالعلوم دیوبند طلبہ کو دنیاوی ہنربھی سکھاتا تھا تاکہ دین نہ بیچا جائے۔ کانیگرم ہماری مسجد کے امام مولانا اشرف فاضل دارالعلوم دیوبند درزی اور دکاندار تھے۔ کانیگرم کے دوسرے مولانا شادا جان کے بھائی عبدالرشید کی دکان تھی۔ البتہ کانیگرم کے مولوی محمد زمان اور اسکے بھائی قربانی کی کھالوں پر لڑے تھے۔
مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک نے مدرسہ سے پہلے انگریزی سکول کی بنیاد رکھ دی تاکہ لوگ دین کی بجائے دنیا کمانے کیلئے سکو ل کے ذریعے ہنر سیکھ لیں۔ ہمارے کانیگرم شہر میں دارالعلوم دیوبند کے فاضل پیر مبارک شاہ نے سکول کی بنیاد رکھ دی تھی۔ جن کی وجہ سے وزیرستان میں سکول کی تعلیم کا سلسلہ عام ہوگیا۔
ٹنڈواللہ یار سندھ میں مولانا ظفر احمد عثمانی کا مدرسہ تھا۔ مفتی شفیع نے نانک واڑہ کراچی میں دارالعلوم کراچی کی بنیاد رکھی ۔ مولانا محمد یوسف بنوری پہلے ٹنڈواللہ یار میں تھے۔ پھر نیوٹاؤن کی بنیاد رکھی تھی۔ مفتی ولی حسن ٹونکی اور مولانا بدیع الزمان وغیرہ پہلے دارالعلوم کراچی میں تھے، پھر نیوٹاؤن میں منتقل ہوگئے۔ دارالعلوم کراچی اور جامعہ العلوم اسلامیہ نیوٹاؤن کراچی کے درمیان دنیا داری اور تقویٰ داری کاواضح فرق تھا۔ دارالعلوم کراچی نے مذہب کو کاروباربنایا تھا اور بنوری ٹاؤن دین کی خدمت کا نام تھا۔ موازنہ پیش کرنے کی زبردست ضرورت ہے۔ دونوں جگہ زوال پر زوال آگیا تو اس کے بھی ہم بالکل چشم دید گواہ ہیں۔
پہلے مولانا اور مفتی میں فرق نہیں تھا۔ پھر مدارس نے فتوے کیلئے مفتی اور دارالافتاء رکھنے شروع کردئیے اور تخصص فی الافتاء کے کورس شروع کئے گئے۔ تو مولانا اور مفتی میں حدفاصل قائم ہوگئی۔ اس بدلتی ہوئی صورتحال کا نظارہ بھی کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے پہلے شاگرد شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور استاذ ملا محمود تھے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی نے مفتی کا کام کیا اور مولانا قاسم نانوتوی نے مفتی کا کام نہیں کیا،جو شیخ الہند کے اساتذہ تھے۔ جنکے پیر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی تھے۔ شیخ الہند کے نامور شاگرد مولانا عبیداللہ سندھی، مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا انورشاہ کشمیری، مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا محمد الیاس ، مولانا اعزاز علی اور دیگر حضرات تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی جمعیت علماء ہندنے کانگریس اورعلامہ شبیراحمد عثمانی جمعیت علماء اسلام نے مسلم لیگ کی سیاست سنبھالی۔ درس و تدریس کی خدمت مولانا انورشاہ کشمیری ، تصوف وطریقت کی خدمت کو مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے سرلیا اور فتوے کی خدمت مفتی کفایت اللہ نے انجام دی۔ انقلاب کیلئے مولانا عبیداللہ سندھی نے کام کیا۔ تبلیغی جماعت کی بنیاد مولانا الیاس نے ڈال دی۔ مولانا رشید احمد گنگوہی کے شاگرد مولانا حسین علی نے توحید وسنت اور عقائد کے محاذ پر کام کیا ،انکے شاگرد مولانا غلام اللہ خان و مولانا طاہر پنج پیری تھے۔ مولانا غلام اللہ خان اور مولانا پنج پیری کی اشاعت التوحید دو ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ مسئلہ توحیدوشرک پر علماء دیوبند ایک دوسرے کے مخالف بن گئے۔ صوابی میں پنج پیر اور شاہ منصور کا اختلاف بریلوی دیوبندی اختلاف سے زیادہ سخت ہے ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن میں پنج پیری تقیہ کرتے تھے اور وہ ڈاکٹر مسعودالدین عثمانی کی طرح سمجھے جاتے تھے ،ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کی کتاب ” توحیدِ خالص” کمال عثمانی کی جماعت ”حزب اللہ” سے مکمل مشابہت کے باوجود بھی پنج پیری ان کو عقائد میں شدت پسند سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر مسعودالدین عثمانی جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی و وفاق المدارس پاکستان کے فاضل تھے۔ اپنے استاذ علامہ یوسف بنوری سے اکابر کی کتابوں تک عبارات نقل کرکے ان پر شرک کے فتوے لگاتے تھے۔ پنج پیری وہی ہیں مگران میں جرأت وہمت نہیں ۔ مولانا طاہر پنج پیری جب کراچی ایک مرتبہ تشریف لائے تو ڈاکٹر مسعود عثمانی کی کتابوں کے حوالے سے کچھ سوالات کرنا چاہے مگر انکے چیلے رکاوٹ بن گئے۔ مجھ سے کہا کہ جامعہ بنوری ٹاؤن سے آپ کو نکلوادیں گے لیکن جب انکے تضادات بتائے تو شرمندہ ہوگئے۔ مولانا حسین علی کی تفسیر مولانا غلام اللہ خان نے لکھی جس میں مشاہدہ بیان کیا کہ ” رسول اللہ ۖ گر رہے تھے اور میں نے سہارا دیکر تھام لیا”۔ اگر یہی مشاہدہ اس کے برعکس ہوتا کہ ” مولاناحسین علی گررہے تھے اور رسول اللہ ۖ نے تھام لیا ” تو پھر اس کو شرک قرار دیتے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات قرآن میں ہیں، اگر مردوں کو زندہ کرنا اور برص ومادر زاد اندھوں کی بیماری کا علاج کرنا شرک نہیں بلکہ معجزہ ہے تو اولیاء کی کرامات کو شرک کہنا بھی اصول اور عقل کے خلاف ہے۔ یا تو سرسیداحمد خان، غلام احمد پرویز اور معتزلہ کی طرح قرآن کے اندر موجود تمام خرق عادت چیزوں کی بھی تأویل کرکے ان کو معجزہ ماننے سے انکار کیا جائے یا پھر قرآن کے معجزات کو بھی شرک قرار دیا جائے ۔یا پھر بزرگوں پر شرک کے فتوے لگاکر یا ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کا راستہ لیا جائے۔ کچھ تو اصول مان لیا جائے؟۔ نہیں تو دوسروں پر طعن وتشنیع کرنے کے بجائے دُم دباکے بیٹھا ہی رہا جائے گا؟۔
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی مثال سے بڑھ کر تصوف کی کتابوں میں بھی زیادہ کوئی بات نہیں کہ بچے کو قتل کر ڈالا اور آخر کار حضرت موسیٰ علیہ السلام صبر کے وعدے پر قائم نہیں رہ سکے اور فراق ہوگیا۔ علماء حق اور اہل تصوف میں فراق قرآن سے ثابت ہے اور اس پر برا منانے کی بھی ضرورت نہیں۔ جسد بشری اور روحانی سفر کا اختلاف مسلمانوں میں معراج پر بھی رہا۔ بعض اسے خواب قرار دیتے تھے اور بعض جسمانی سفر قرار دیتے تھے۔ حضرت سلیمان کے دور میں عفریت جن نے بلقیس کے تخت نشست کے دوران لانے کی بات کی تھی اور کتاب فطرت کے علم سے واقف شخص نے نظر ہٹانے کی دیر میں لانے کا دعویٰ سچ کرکے بتایا۔جنات کے ذریعے حضرت سلیما ن نے جو اشیاء بنائی تھیں اس کی آج کوئی افادیت نہیں ہے لیکن فطری علوم میں کمال حاصل کرنے والوں نے احرام مصر سے آج کے سائنسدانوں کو اوقات بتادئیے ہیں۔ آج دنیا میں جنات والے غائب ہوتے جارہے ہیں اور کتابِ فطرت کا علم رکھنے والوں نے قیامت سے پہلے دنیا میں قیامت ڈھادی ہے۔
تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کے مخلص کارکنوں کو حلالہ کی لعنت کا شکار ہونے سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کی بھرپور وضاحت کردیں۔ علماء اور مشائخ سے زیادہ چلتے پھرتے مدارس اور خانقاہیں بھی دیوبندیوں میں آج تبلیغی جماعت اور بریلویوں میں دعوت اسلامی ہیں۔ حلالہ کی لعنت کا شکار بھی زیادہ تر ان کے مخلص کارکن ہوتے ہیں۔ جب پہلا فتویٰ یہ پیش کیا جائے کہ اللہ نے صلح پر پابندی لگادی ہے تو پھر حلالہ کی لعنت بھی غنیمت ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے بار بار واضح فرمایا ہے کہ صلح پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد رجوع ہوسکتا ہے تو پھر حلالہ کی لعنت سے مخلص لوگوں کو دوچار کرنا بہت غلط ہے۔
شاہ ولی اللہ کو دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث مانتے ہیں۔ وہ ، انکے بیٹے اور پوتے مولانا اور مفتی نہیں کہلائے۔ شیخ الہند مولوی کہلائے لیکن شاگردوں میں دو دو شیخ الاسلام، شیخ العرب والعجم، حکیم الامت، مفتی اعظم ہندکے القابات اور سچے جھوٹے کرامات اور علمی کمالات کا سلسلہ شروع ہوا ۔ قرآن و سنت کی جگہ فقہ وتقلید میں گدھوں کی طرح جت گئے۔حلالہ کے گند میںبیکار فقیہ ملوث تھے۔ علماء حق نے کبھی اس کی طرف نظر التفات نہیں کیا۔ قرآن وسنت سے جب حلالہ کی لعنت کا خاتمہ ہوگا تو پھر دوسرے نقابوں سے بھی پردہ اُٹھ جائیگا۔ انشاء اللہ

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

گدھیڑی سیاسی، مذہبی قیادت اور صحافت ایک دن فوج کے سامنے دُم ہلاتی ہے اور پھر پیشاب کرکے وہ دُم کس کر اسکے منہ پر ماردیتی ہے!

گدھیڑی سیاسی، مذہبی قیادت اور صحافت ایک دن فوج کے سامنے دُم ہلاتی ہے اور پھر پیشاب کرکے وہ دُم کس کر اسکے منہ پر ماردیتی ہے!

جب عمران خان کے منہ سے بات نکلتی ہے تو میڈیا اس کو ایسی یلغار دکھاتا ہے کہ جیسے انتہائی باعزت پاکیزہ کنواری کو آنکھ ماری ہو بلکہ جبری جنسی زیادتی کرکے اسکی بکارت ختم کی ہو

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

عمران خان کی مقبولیت زرداری اور نوازشریف سے عوام کی مایوسی اور عربی کہاوت کل جدید لذیذ ” ہر نئی چیز لذیذ ہوتی ہے” اسٹیبلیشمنٹ نے نئی نویلی دلہن بناکر پیش کیا۔ تبدیلی نہ آئی اور نالائقی کا ریکارڈ توڑا گیا تو مایوسی پھیل گئی۔ عمران خان کھل کر کہتا تھا کہ ” میں اور باجوہ ایک پیج پر ہیں اور فوج کیلئے ڈھال کا کردار ادا کروں گا”۔ عمران خان نے کہا کہ حکومت سنھبالتے ہی فیصلہ کیا تھاکہ باجوہ کو ایکس ٹینشن دینی ہے۔ایوب، ضیاء ،مشرف اورکیانیX10ہوتے رہے اوریہX10”یاد ماضی عذاب ہے یارب، چھین لے مجھ سے حافظہ میرا” تھا۔ عمران خان نے رومانس کا اظہار کیا تو عدالت نے سیاسی قیادت کو امتحان میں ڈالا، عمران خان کی چوتڑ پر فوج کی مہر لگی تھی۔ نوازشریف اور زرداری نے آرمی چیف کیX10کا فیصلہ کیا تو فیصل واوڈا نے میز پر بوٹ رکھا کہ یہ چاٹو۔ سیاسی رہنما کو اپنی بے عزتی کا احساس ہوا تو واوڈا نے کہا کہ ” بے عزتی تو ہوئے گا”۔
پھرPDMکی گدھا گاڑی پر پیپلزپارٹی سمیت کئی پارٹیوں کے نام تھے۔ نوازشریف نے پہلے جلسے میں فوج کیخلاف ڈھینچو ڈھینچو کرنا شروع کیا تو زرداری نے کہا کہ ہماری یہ مجال نہیں، لاڈ پیار والا طبقہ جو بولے تو یہ آپس کی بات ہے۔ مریم نواز کا دروازہ توڑا گیا تو سندھ پولیس کے احتجاج سے آرمی کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ بلاول مریم کی دوستی گڑھی خدابخش تک جاپہنچی۔ قریب تھا کہ چوہدری پرویز الٰہی کووزیراعلیٰ اور شہبازشریف کو وزیراعظم بنادیا جاتا مگرمریم نوازکو یہ قبول نہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے دونوں ایجنٹ پنجاب اور مرکز پر قبضہ کریں۔مولانا فضل الرحمن کو پرویزالٰہی اور زرداری کے پیچھے لگادیا ۔ پیپلزپارٹی اورANPکوPDMسے نکالا ۔ مولانا اور مریم نواز نے اسمبلی سے استعفیٰ دلانا تھا۔ زرداری اورANPپر اسٹیبلشمنٹ ایجنٹ کا الزام لگادیا۔ جیو ، جنگ اور سوشل میڈیا پر تماشہ لگادیا کہ اصل جنگ کٹھ پتلی عمران خان سے نہیں فوج سے آزادی لینی ہے۔ پھر زرداری نے کایا پلٹی کہ اصل کو چھوڑ دو، کٹھ پتلی سے جان چھڑاؤ۔ اقلیت کو جوڑ کر حکومت بنائی ، جعلی اپوزیشن لیڈر چن لیا ، جو بیانیہ فوج سے آزادی کا بنایا وہ ہتھیار عمران خان کے ہاتھ میں آیا۔ کل تک جو نکھٹو ایکدوسرے کو چور، غدار اور مودی کا یار کہتے تھے توآج مجموعہ اضداد مذاق بن گئے ۔ مہنگائی کا شور مگرساڑھے3سال میں اتنی مہنگائی نہ تھی جتنی گدھیڑوں نے4ماہ میں کردی۔ ایک آنکھ کام نہ کرے تو دجالی بیلنس خراب ہوگا۔حکومت و اپوزیشن کی دو آنکھوں سے بیلنس قائم ہوتا ہے۔ مشاورت میں مختلف رائے سامنے نہ ہوں تویہ مشورہ نہیں ہے۔ نزول وحی کے دور میں مشاورت کا عمل تھا اور وحی بند ہوئی تو مشورہ وحی کا نعم البدل ہے لیکن حکومت کوچلنے نہیں دیا جاتا اور اپوزیشن کو دیوار سے لگادیا جاتا ہے۔پہلی مرتبہ جنرل باجوہ کی قیادت میں فوج نے فیصلہ کیا کہ سیاسی مداخلت نہیں کرنی لیکن اب کمبل ان کو نہیں چھوڑ رہاہے۔کسی نے دریا میں ریچھ کو کمبل سمجھ کر پکڑنا چاہا تھا تو ریچھ نے اس کو پکڑلیا ۔یہاں تو75سال گزرنے کے بعدفیصلہ کیا گیاہے۔ اگر پاک فوج نے بہت زیادہ حکمت عملی سے کام نہ لیا تو مشرقی پاکستان سے بھی زیادہ برا حشر ہوگا اسلئے کہ اندر باہر سبھی کواپنا دشمن بنایاہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ایوب نے جنم دیا، جب سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھٹو کو بقیہ پاکستان کا اقتدار مل گیا تو آئین بنا لیکن آئین پر عمل نہ ہوا۔ بلوچستان کی جمہوری حکومت کاخاتمہ کرکے گورنر راج لگایا۔سردار عطاء اللہ مینگل کے19سالہ بیٹے اور اسکے دوست کو اغواء کرکے قتل کیا۔ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین پر بغاوت کے مقدمات قائم کرکے پھانسی گھاٹ میں رکھا۔ لاڑکانہ میں بھٹو نے جماعت اسلامی کے رہنما کو الیکشن کے کاغذات جمع کرانے پر اغواء کیا تھا۔ پھر جنرل ضیاء نے جماعت اسلامی کو کڑک مرغی کے انڈوں کی طرح رکھا لیکن نواز شریف کو جنم دیا۔ جنرل ضیاء الحق ساتھیوں سمیت حادثے کا شکار ہوا توMRDکی مدد سے بینظیر بھٹو اقتدار میں آئی لیکن بینظیر بھٹو نے صدارت کیلئے نوابزادہ نصراللہ خان کی جگہ جنرل ضیاء الحق کے جانشین غلام اسحاق خان کو صدر بنوایا۔ پھر جب اس کی حکومت ختم کی گئی تواسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے نوازشریف کو اقتدار میں لایا گیا۔پھراس کو کرپشن کی بنیاد پر اقتدار سے باہر کیا گیا۔ بینظیر اقتدار میں آئی تو پھر اسکے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو ساتھیوں سمیت موت کے گھاٹ اتارا گیا اور حکومت بھی ختم کی گئی۔ پیپلزپارٹی کا جیالا صدر فاروق لغاری بھی ن لیگ سے مل گیا۔ پھر انتہائی بے شرمی اور بے غیرتی کیساتھ نہ صرف نوازشریف اقتدار میں آیا بلکہ اپوزیشن کی زیادہ ترسیاسی قیادت پارلیمنٹ سے باہر کی گئی۔
پرویزمشرف نے نوازشریف کاتختہ الٹا تو سپریم کورٹ نے اس کو تین سال تک قانون سازی کی اجازت دیدی۔ جب متحدہ مجلس عمل نے صوبہ سرحد میں سرکاری زبان اردو کو نافذکردیا تو سپریم کورٹ رکاوٹ بن گئی۔ صحافی عمران ریاض نے عید قربان کی وجہ سے چند دن کی داڑھی رکھی تو جج نے کہا کہ ” آپ کیساتھ داڑھی اچھی نہیں لگتی ”۔ عمران ریاض نے الزام لگایا تھا کہ مطیع اللہ جان کو فوجیوں نے ریپ کیا اور پھر عمران خان نے الزام لگایا کہ ” شہزاد گل سے جنسی زیادتی ہوئی ”۔ حامد میر کی طرف سے جنرل رانی کے طعنہ سے لیکر نواز شریف کی طرف سے تمام خرابیوں کے ذمہ دار ہونے تک کیا کیا الزامات فوج پر کس نے نہیں لگائے ہیں لیکن سورج مکھی کے پھول شعاعوں سے ڈر گئے۔
اس سے پہلے کہ ضابطہ اخلاق کی تمام رسیاں ٹوٹ جائیں تو یہ دیکھنا پڑے گا کہ مخرب الاخلاق الزامات کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور یہ کون لگاتا ہے؟۔ جب نوازشریف فوج کے کیمپ میں خرکار تھا تو بھٹو کے باپ پر انگریزوں کے کتے نہلانے کا الزام لگاتا تھا۔ زیادہ دور کی بات نہیں ، جب پنجاب میں زرداری کی مدد سے شہبازشریف پنجاب میں اقتدار میں آیا تب بھی لغت میں ایسی گالی نہیں تھی جس کی پریکٹس جلسوں میں شہبازشریف نے نہ کی ہو۔ پاک فوج زندہ باد کے نام سے چینل دوسروں کی خواتین پر بہتان سے دریغ نہیں کرتے۔ARYاور بول نیوز کے صحافی دم ہلا کر فوج کو سلام کرتے تھے ۔ پھر اپنی دم پیشاب میں ڈبولی تو فوج کے منہ پر مارنا شروع کردی۔ نوازشریف اور عمران خان کو بھی جس لاڈ سے پالا تھا اسی لاڈ سے پیشاب میں دُم بھگو کر فوج کے منہ پر ماری۔
نوازشریف کی زرخرید میڈیا جیو، جنگ گروپ اور سوشل میڈیا کے صحافیوں نے یکطرفہ طور پر عمران خان کا چہرہ بھیانک دکھانا شروع کیا جس کی وجہ سے فوج کے ترجمان نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ جب نوازشریف اور دوسرے رہنماؤں کے کلپ دکھائے تو پھر عمران خان کے الفاظ کچھ بھی دکھائی نہیں دیتے ۔ جنرل ضیاء کو ذوالفقار علی بھٹو نے عاجز اور کمزور سمجھ کر منتخب کیا تھا لیکن فوج کی طاقت نے اس کو مضبوط کردیا ۔ جب آئینی شق نہ تھی تب بھی آرمی چیف اپنی مدت میں خود توسیع کرتا تھا،جو جرنیلوں کی صلاحیت پر عدم اعتماد کا اظہاریا مفادپرستی تھی؟۔ پارلیمنٹ نے صدر اور وزیراعظم کی توسیع کیلئے قانون نہ بنایا تو آرمی چیف کیلئے بھی نہیں بنانا چاہیے تھا جہاں ایک کی جگہ پانچ پانچ چھ چھ اہلیت رکھتے ہیں۔ جنرل فیض حمید کی وجہ سے عمران خان اور ن لیگ نے یہ عہدہ بے شرمی کیساتھ متنازع بنادیا۔ فوجی جرنیل نیچ لوگوںکو مفاد کیلئے قوم کی تقدیر کا مالک بنائیں گے تویہی ہوگا۔احسان فراموشی اور احسان کے بدلے برائی کمینہ پن ہے جس کو کم نسل کامیاب سیاست سمجھتے ہیں جو ایکدوسرے کیساتھ بھی جاری رکھتے ہیں۔
پرویزمشرف نے قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی ،افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو ننگا کرکے امریکہ کے حوالے کردیا۔ عدالت نے سزا سنائی تھی توISPRنے فیصلے پر افواج پاکستان کو ایک فیملی قرار دیتے ہوئے غم وغصے کا اظہار کیا۔ کیا ریاست یہ ہوتی ہے کہ فوج اور عدالت جو کرے ٹھیک ہے، سب کچھ برداشت کیا جائے؟۔ ایسی ریاست پر آسمان و زمین والے دونوں صبح وشام لعنت بھیجتے ہیں جو عوام کو اپنا مالک سمجھنے کے بجائے اپنا غلام سمجھے۔ ریاستی کسٹڈی میں ریپ برداشت ؟۔ اپنے خلاف گیدڑ بھبکی پر معذرت قبول نہ ہو؟۔ ریٹارئرڈ غیرسیاسی جج اقبال کی بہو کا دروازہ رات کی تاریکی میں توڑ کر ہراساں ہو تو ٹھیک اور مجرم فیملی کی فرد مریم نواز کے ہوٹل کا دروازہ توڑنے پر سندھ پولیس فوج کو جھکنے پر مجبور کرے؟۔ عمران خان مرغا بنتا تو بھی اس سے زیادہ معذرت نہ ہوتی جو اس نے عدالت میںرویہ اختیار کیا۔ اچھا تھا کہ غیرمشروط معافی مانگ لیتا۔ علی وزیر کو رہائی بہت مبارک ہو۔ اسکے وکیل نے پشتو کی تقریر کا غیرپشتون کی مدد سے غلط ترجمہ کرنے کی بات کرکے بہت اچھا پینترا بدل دیا ہے لیکن ایسی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جس پر بندہ کھڑا رہنے کی سکت نہ رکھتا ہو۔
افغانستان میںامریکہ جیسا حشر کرنے کی دھمکی پر دُم دبائی جائے۔ تگڑے آرمی چیف کی بات پر ناراضگی ظاہر کی جائے؟۔ جوISIاور آرمی چیف کا نام لیکر تمام خرابیوں کی جڑ کہے تو ٹھیک ؟۔ عمران خان نے کہا کہ نیب کا مجرموں کو پکڑنے اور چھوڑنے کا سلسلہ تھا تو مجھے پتہ نہ تھا کہ یہ مال بنانے کا ذریعہ ہے ۔ مولانا فضل الرحمن نے نیب سوالنامے پر آرمی چیف جنرل قمر باجوہ پر شدید الزامات لگاکر دیگر جرنیلوں اور عمران خان کے کیسوں کا جواب مانگا اور کہا کہ نیشنل احتساب بیورو کی جگہ سیاسی یا اپوزیشن احتساب بیورو نام رکھاجائے۔
لمبی فہرست ہے جس میں تضادات، نالائقی، مفاد پرستی اور انتہائی گھناؤنے صفات ، کرتوت اور نظام کی ناکامی کو سامنے لایا جاسکتا ہے۔ میڈیا کا سب سے زیادہ گھناؤناکردار ہے جو ابلیس بن کر تماشۂ حیات اچھے اچھوں کی نظروں سے چھپا دیتا ہے۔ لائق اور نالائق صحافیوں کی اکثریت جس طرح کی گھناؤنی حرکتیں کررہی ہے لگتا ہے کہ قیامت سے پہلے قیامت آجائے گی لیکن کچھ اچھے صحافی بھی ہیں جن کی زبان میں معیاری صحافت ہے دلالی کا ڈھول نہیں بج رہاہے۔
پاکستان میں سندھی، پختون، بلوچ، پنجابی، سرائیکی، کشمیری، گلگت و بلتی، کوہستانی،ہزارہ اورمہاجر کے علاوہ ایک ایک قوم میں بھی انواع واقسام کے قبائل ہیں۔ جیسے افغانستان میں پختون، ہزارہ، تاجک اور ازبک ہیں ۔ حال ہی میں جب پاکستانی نے افغانی کرکٹ ٹیم کو ہرایا تو کوئٹہ کے پختون افغانیوں پر ہوٹنگ کررہے تھے جس پر ہمارے کوئٹہ کے ساتھی عبدالعزیز نے ان کو روکا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ گھر، محلہ ، علاقہ ، ضلع ، صوبہ اور ملک ٹھیک نہیں کرتے، بین الاقوامی حالات پر لگے رہتے ہیں۔ جب ہمارا معاملہ درست ہوگا توبین الاقوامی اور خطے کے حالات بھی ٹھیک ہونگے۔ اسلام نے عورت کے حقوق سے انسانیت کے تمام حالات ایسے درست کرنے کی بنیاد ڈالی ہے کہ ابلیس بھی اسی سے ڈرتا ہے۔ علامہ اقبال نے ابلیس کی مجلس شوریٰ میں سب مشیروں کے بعد ابلیس کا لکھ دیا:
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں
حافظِ ناموسِ زن مرد آزما مرد آفریں
پاکستان دنیا میں واحد ایسا ملک ہے کہ جہاں عورت کیساتھ بہت زیادہ بڑی زیادتیاں ہوتی ہیں۔ ان کے حقوق پامال ہیں۔ عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا۔ معاشرے میں انکو حقوق میسر نہیں۔ علماء ومفتیان نے انکے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے۔چوکیدار ، بدمعاش ، بااثرطبقات سبھی کی طرف سے ان پر مظالم ہوتے ہیں اور سکول، کالج، بسوں، راستوں، سڑکوں، بازاروں، گلی کوچوں، گاؤں دیہات اور شہروں میں ، دفاتر میں اور گھروں میں ان کے ساتھ ہرقسم کے مظالم ہیں لیکن پاکستانی قوم پھر بھی عورت کے معاملے میں بہت حساس ہے۔ سندھی، پنجابی اور پشتون ،بلوچ کے علاوہ ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجروں کے کلچر میں بھی یہ بڑا حساس معاملہ ہے اور عورت کی ناموس پر لوگ جان تک قربان کرتے ہیں۔
بہت لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ طلاق اور حلالہ کے علاوہ کوئی دوسرا موضوع نہیں ملتا؟۔ یہ دیکھ دیکھ آنکھیں جام ہوگئی ہیں اور سن سن کر کان پک گئے ہیں اور ان کی اس بات میں بڑا وزن بھی ہے لیکن جن خواتین، خاندانوں اور علماء حق کو اس حساس معاملے کا سامنا ہوتا ہے اور پھر وہ بیباک ہوکر اس لعنت سے چھوٹ جاتے ہیں تو عزت بچانا ان کی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتا ہے۔ قرآن کی آیات سے اور احادیث صحیحہ سے اور فقہ حنفی کے دلائل سے جس طرح آج لوگوں کی عزتیں لُٹنے سے بچ رہی ہیں وہ بہت بڑا سرمایہ اسلئے ہیں کہ بنام اسلام جن کی عزتیں نیلام ہورہی تھیں،آج بنام اسلام ان کی عزتوں کو تحفظ مل رہاہے۔ اگر دنیا میں ہمارے چند ساتھی کوئی دوسرا کام نہ بھی کرسکیں تو یہ بھی بہت ہے۔
حنفی مسلک کی بنیاد کو پہلے سمجھنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی ابن مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع نے کہاتھا کہ ” حنفی مسلک میں85فیصد مسائل امام ابوحنیفہ کے خلاف اور15فیصد انکے مطابق ہیں”۔ یہ بھی علماء کرام ، مفتیان عظام اور عوام قابل احترام کی اکثریت کو پتہ نہیں کہ امام مالک اورامام شافعیکی طرح احناف کے نزدیک امام ابوحنیفہ کے شاگرد بھی اپنی اپنی جگہ مستقل امام کا درجہ رکھتے ہیں۔ اصول میں اختلاف کی وجہ سے اصحابِ تخریج ایک دوسرے سے متضاد مسائل نکالتے ہیں۔ فقہاء کے7طبقے ہیں۔حنفی فقہاء کا ایک طبقہ اصحاب تخریج ہے جن کا کام اماموں کے اصولوں سے مسائل نکالنا ہے۔ مثلاً ”نورالانوار” میں حرف” ف” تعقیب بلامہلت کے عنوان سے لکھاہے کہ ” اگر ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جائے توجملے میں فاء کے حرف کے استعمال سے کس امام کے نزدیک کون کونسی طلاق واقع ہوگی؟۔ اور پھر اصولوں کے اعتبار سے مختلف مسالک لکھے ہیں۔ امام ابوحنیفہ وامام ابویوسف کے اپنے اپنے اصولوں کے مطابق کیا مسائل بن جائیںگے؟۔ کسی کے نزدیک پہلی اور تیسری طلاق واقع ہوگی اور دوسری طلاق واقع نہیں ہوگی اور کسی کے نزدیک دوسری ہوگی پہلی اور تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی اور عجیب و غریب قسم کے لایعنی بکواسات ہیں جو پڑھائے جارہے ہیں ۔ ایک ہی کتاب بیس بیس سالوں تک پڑھانے کے باوجود اساتذہ کو خود بھی سمجھ میں بات نہیں آتی ہے کہ کیا پڑھ اور پڑھارہے ہیں؟۔مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا ہے کہ” اگر کسی عقل والے کی نظر ان پر پڑگئی تو اصول فقہ کی کتابیں دھری کی دھری رہ جائیں گی اور سب کم عقلی اور بے اصولی کے راز فاش ہوجائیں گے”۔
سمجھانا یہ مقصود ہے کہ ” جو15فیصد فقہ حنفی کے مسائل امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب ہیں وہ بھی دوسروں نے نکال کر ان کی طرف منسوب کئے ہیں”۔ علامہ غلام رسول سعیدی بریلوی مکتب اور فقہ حنفی کی معتبر شخصیت تھے ۔ کئی بڑی جلدوں پر مشتمل شرح صحیح مسلم اور شرح صحیح بخاری لکھی اور کئی جلدوں میں قرآن کی تفسیر ”تبیان القرآن” بھی لکھ دی ۔جب وہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع پر تنقید کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ مفتی محمد شفیع فقہ حنفی سے بالکل نابلد تھے۔ لیکن علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں کہ ” اگر سورۂ بقرہ کی آیت230میں ف تعقیب بلامہلت کی بات نہ ہوتی تو پھر شریعت میں اکٹھی تین طلاق کا جواز نہ ہوتا”۔ حالانکہ اصولِ فقہ کی کتابوں میں دومرتبہ طلاق سے اس طلاق کو جدا کرکے فدیہ سے تعقیب بلامہلت کی وجہ سے جوڑ ا ہے۔ حدیث، تفسیر اور فقہ کے مسائل کا بیڑہ غرق کیا گیا ۔ اتنے متضاد مسائل ومعاملات بنائے گئے کہ تفسیر، حدیث اور فقہ کی شرح بھی آپس میں کوئی جوڑ نہیں رکھتے ۔ علماء کے فکری انتشار کی وجہ سے ڈاکٹر اسرار احمدMBBS، جاوید احمد غامدی، سابق کلین شیو صحافی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور انجینئر محمد علی مرزا جاہلوں پر راج کررہے ہیں۔
علماء کی ٹیم تشکیل دی جائے جس میں حنفی دیوبندی بریلوی علماء شامل ہوں، میری خدمات حاضر ہیں۔ کچھ عرصہ میں جامع نصاب سے انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ میں نے اطلاع دیکر محمد علی مرزا علمی کتابی کی مجلس میں شرکت کی تھی۔اس نے ساتھ تصویر کھینچوانے کیلئے آواز لگائی جس کی میں نے ضرورت نہ سمجھی ، شاید اس وجہ سے اس کی آنکھوں میں ذرا بھینگا پن آیا۔ میرے سوال کا جواب نہ دیا اور سوالات نہیں کرنے دئیے۔ مجھے ان سے مسئلہ نہیں، جس طرح بھی عوام میں دین کا شعور بڑھ جائے تو میں اس رحجان کے حق میں ہوں لیکن دین کو اجنبیت سے نکالنا ہوگا۔ جب علماء واضح نقشہ پیش کریںتو معاشرے میں اس پر عمل کی رغبت پیدا ہوگی اور پھراسکا راستہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔ جب گھروں اور معاشرے میں دین کا معاملہ مضبوط ہوگا تو اقتدار کی دہلیز تک پہنچنے میں بھی دیر نہیں لگے گی۔پھر منبر ومحراب کا بھی عوام میں بہت مؤثر کردار ہوگا۔
ایک طرف شیعہ صحابہ کرام کی ایسی گھناؤنی تصویر پیش کرتے ہیں کہ علی ، حسن ،امام حسین اور زین العابدین کے کردار پر بھی سوالات اُٹھ جاتے ہیں اور دوسری طرف اہل بیت کی مخالفت پر کمربستہ ایسے لوگ ہیں کہ عربی سوشل میڈیا پر ایک ویلاگ دیکھا جس میں علیکو ایک فرضی اور افسانوی کردار قراردیا گیا ہے۔
قرآن میں اللہ اور اسکے رسول ۖ کی اطاعت کا حکم ہے۔ اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش ہے۔ رسول اللہ ۖ اولی الامر تھے تو بھی خواتین سے لیکر بڑے صحابہ ، ذوالخویصرہ سے لیکر رئیس المنافقین عبداللہ ابن ابی اور نبوت کے دعویدار دجال ابن صاید تک سب کیلئے نبیۖ سے اختلاف کا دروازہ کھلا تھا۔ پاکستان کی دھرتی میں ریاست مدینہ کی یاد تازہ ہوسکتی ہے اسلئے کہ پاکستان میں اگرچہ جمہوریت نہیں لیکن جمہوری روح عوام وخواص ، سرکاری سطح پر اور مذہبی حوالوں سے یہاں موجود ہے۔جس کا ہم نے بالکل فائدہ نہیں اٹھایا ۔ کسی بھی مذہبی وسیاسی جماعت کے پاس اپنا پیش کرنے کیلئے کچھ نہیں لیکن دوسروں کی مخالفت پر کمربستہ رہنے کی کوشش میں اپنی زندگی کا مقصدسمجھتے ہیں۔ شیعہ ایک حسین کو چھوڑ کر باقی ائمہ اہل بیت کو ایسا پیش کرتے ہیں کہ موجودہ دور کے لوگ ان ائمہ سے کہیں بہتر ہیں؟۔ معذور ومجبور اور انتہائی بے بس، مظلومیت کی تصویر اور بالکل ہی معاشرے میں بے توقیر؟۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے لیکن شیعان علی نے اپنی صلاحیتین ائمہ اہل بیت کی رفعت وعظمت کی جگہ صحابہ کرام کی مخالفت اور دشمنی پر مرکوز کردی ہیں اور دشمنی بھی ایسی کہ خود ائمہ اہل بیت کے فضائل ومناقب پر بھی ایمان نہیں رہتا ۔ پروفیسر احمد رفیق اختر کی ایک ویڈیو سن کر بڑا مزہ آیا۔ امام حسن نے اپنی وفات سے قبل وصیت کی کہ اگر اماں عائشہ اجازت دیں تو مجھے روضہ رسول میں دفن کردیں اور اگر کوئی رکاوٹ کھڑی کرے تو جھگڑا نہ کریں ،جنت البقیع میں دفن کردیں۔ حضرت عائشہ نے اجازت دی اور جب مروان بن حکم نے رکاوٹ ڈالی تو جھگڑا نہ ہونے دیا۔ یہ وفات سے پہلے بصیرت کا فیصلہ تھا۔ مروان بن حکم کو پتہ تھا کہ اگر امام حسن کی تدفین روضہ رسول میں ہوئی تو بنوامیہ کے مقابلے میں اہلبیت مضبوط ہونگے۔ پروفیسر احمد رفیق اخترصاحب اپنے اعتدال کی وجہ سے بڑارتبہ اور مقام رکھتے ہیں۔
اصحاب شرع و طریقت زیغ وضلالت سے ہٹ کر کردار ادا کریں۔ صوفی یہ نہیں کہ سرمایہ دار مریدمل گئے تو مسلک کی وکالت شروع کی، یہ ایمان نہیں پیسہ بولتا ہے۔ اگر تمام قومیتوں و مسالک کو شعور و کردار کا درس ملا تو شعور کے نور سے ظلمت کا اندھیرا ختم ہوگا۔زمین کا اصل سورج اور آدمی کا اصل نور ہے اور سب سے پہلے اللہ نے نبیۖ کانور پیدا کیا۔سورۂ تین میں ہے کہ احسن تقویم سے انسان کی تخلیق ہوئی پھراسفل السافلین کی مٹی ہوا مگرایمان وعمل صالح والے!۔
انسان ماں باپ کے سفلی جذبات اور نطفۂ امشاج سے پیدا ہواہے تو اپنی شخصیت کیلئے ایمان اور عمل صالح کے علاوہ علوالمرتبت کا کوئی راستہ نہیں دیکھتا ۔ نجات اسی میںہے۔ تواضع کیلئے اپنی تخلیق کی یاد دہانی بہت زیادہ کافی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کیا ملکہ برطانیہ سلطان ظل اللہ فی الارض تھی؟ مولانا بانگِ سحر ہے یا پھر مُرغ کی دُم؟

کیا ملکہ برطانیہ سلطان ظل اللہ فی الارض تھی؟ مولانا بانگِ سحر ہے یا پھر مُرغ کی دُم؟

22جنوری1901ملکہ برطانیہ الیگزینڈریا وکٹوریہ کی وفات پر حکیم اُالامت حضرت علامہ سر محمد اقبال کی مرثیہ خوانی
اے ہند تیرے سر سے اٹھا سایہ خدا
اِک غمگسار تیرے مکینوں کی تھی گئی
ہلتا ہے جس سے عرش یہ رونا اُسی کا ہے
زینت تھی جس سے تجھ کو جنازہ اُسی کا ہے
صورت وہی ہے نام میں رکھا ہوا ہے کیا؟
دیتے ہیں نام ماہِ محرم کا ہم تجھے
میت اٹھی ہے شاہ کی تعظیم کیلئے
اقبال اُڑ کے خاک سرِ رہگزار ہو

اقبال نے کہا: ” دیوبند سے حسین احمد کہتا ہے کہ قوم مذہب نہیں وطن سے ہے۔ یہ کیا بولہبی ہے؟”۔اور ملکہ برطانیہ کوسایۂ خدا کہا ۔ اللہ نے فرمایا کہ ”یہود ونصاریٰ کو اپنا ولی نہ بناؤ”۔ ولی سے ولایت و اختیارمراد ہے۔ ولی سے دوست مراد نہیں کیونکہ اہل کتاب کی خواتین کو بیوی بناسکتے ہیں۔بیٹی کا باپ اسکا دوست نہیں ولی ہے۔جس کی اجازت کے بغیر نکاح باطل ہے۔ مدارس کے طلباء اپنے اساتذہ کو مولانا کہتے ہیں۔ نبیۖ نے فرمایا” میں جسکا مولیٰ علی اسکا مولیٰ ہے”۔ کورٹ میرج اور باپ کی اجازت سے نکاح میں فرق ہے اوراغواء کا معاملہ جدا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا:جس نے زبردستی اقتدار پر قبضہ کرلیا اس پراللہ ، جبریل اور فرشتوں کی لعنتیںہوں۔

مولانا بانگِ سحر ہے یا پھر مُرغ کی دُم؟
نبی ۖ نے فرمایا : السلطان ظل اللہ فی الارض من اھان سلطان اللہ فقد اھان اللہ ”بادشاہ زمین میں اللہ کا سایہ ہے ،جس نے اللہ کے بادشاہ کی توہین کی، اس نے اللہ کی توہین کی”۔ مغل کے بادشاہ سبھی ظلِ الٰہی تھے۔ انگریز کا قبضہ، سلطلنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو جمعہ کی نماز کیلئے ایک شرط خلیفہ یا اسکے نائب کی موجود گی تھی۔ پھر حیلہ نکالا کہ خلیفہ کے بغیر جمعہ پڑھا جائے۔ احتیاط سے ظہر کے فرائض کی جگہ چار سنتیں پڑھی جائیں تاکہ اگر جمعہ نہ ہو تو متبادل چار رکعت ہوں۔ملکہ برطانیہ کو خدا کا سایہ قرار دینے کی جگہ خلیفہ مقرر کرتے۔
شاہ و لی اللہ نے ” فک النظام ” کا نعرہ لگایا تو انگریز کا اقتدار نہ تھا بلکہ قرآن وسنت سے ہٹ کر باطل فقہی مسائل تھے۔ تقلید نہیں شاہ ولی اللہ کے فک النظام پر علماء دیوبند عمل کرتے تو اسلامی نظام نافذ ہوتا۔ مولانا کے معنی ”ہمارا مولا” ہے۔ شیخ الہند مالٹا کی جیل میں تھے۔ شاگرد نے لکھا کہ ”شیخ الہندنے کہاکہ امت کی اصلاح نہ ہوگی، خراسان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مہدی آئیگا جو اپنی روحانی قوت سے دنیا کے حالات کو بدل دیگا”۔ (امداد المشتاق:مولانا اشرف علی تھانوی ) مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا کہ ” یہ اپنے استاذ شیخ الہند کی بات نہیں مانتے کہ لایعنی مسائل چھوڑ کر قرآن کی طرف رجوع کریںجب مہدی آئیگا تو یہ مخالفین کی صف میں ہونگے”۔سب علماء ”مولانا ” ہیں۔ مولانا طارق جمیل نے حدیث کے مطابق علی کو ” مولا” کہا تو ہم مسلک علماء نے فتوے لگادئیے۔ غائب شوہر کیلئے حنفی مسلک میں80سال کا انتظار عورت کی بغاوت سے مالکی مسلک4سال میں بدل دیا اور شیعہ نے ہزار سال سے زیادہ امام کا انتظار کیا نہ آئے تو خمینی کو امام بنادیا۔ غور کریں کہ ملکہ الزبتھ دوم کئی ممالک کی بادشاہ اور ان کیلئے سایہ خدا تھی تو مسلمان امام کا تقرر کریں۔ نبیۖ نے امیرمعاویہ کیلئے ہادی ومہدی کی دعا کی مگر خلافت راشدہ میں شمار نہ ہوا۔ عمر بن عبدالعزیز پر مہدی و خلافت راشدہ کا اطلاق تھا۔ خلفاء راشدین مہدی تھے۔انصار ومہاجرین کا اختلاف تھا اور زیادہ شدت کا اختلاف شیعہ سنی اور سنیوں میں آپس کا ہے۔ بقول علامہ اقبال
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق جو تجھے حاضر وموجود سے بیزار کرے
خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو مولانا احمد رضا خان بریلوی نے فتویٰ دیا کہ امام کا قریشی ہونا ضروری ہے۔ خلافت عثمانیہ شرعی خلافت نہیں تھی۔ جب انصار نے اپنا خلیفہ نامزد کرنا چاہا تو حضرت ابوبکر و عمر نے کہا کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ خلیفہ قریش میں سے ہوگا۔ جب سے اہل سنت کا اجماع تھا کہ غیر قریشی خلیفہ نہیں بن سکتا۔ اگر کوئی بنے تو وہ قانونی ہوگا شرعی نہ ہوگا۔ ملا عمر امیر المؤمنین بنے تو اُستاذ مولانا فضل محمد جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے لکھا کہ ”مُلا عمر ہوتک قبیلے سے ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ قریشی ہو اور جنکے پاس شجرہ ہے ہوسکتا ہے وہ قریشی نہ ہوں”۔ مُرغ آذان سحر دیتا ہے اسلئے اسکو برا کہنا منع ہے۔مُلا مرغ کی دُم بنتا ہے جو ہوا کے رُخ کیساتھ پھرتا ہے تو اس کی اوقات نہیں ہوتی۔اگر خلیفہ نامزد کیا جائے مگر اس کے پاس قوت نافذہ نہ ہو تو وہ شرعی ہوگا مگر قانونی نہیں۔ حضرت علی کے بعد امام حسن نے اسلئے دستبرداری اختیار کی تھی۔ اگر کوئی قریشی خلیفہ زبردستی سے اپنا تسلط جمالے تو بھی اسکا اقتدار نہ صرف غیر شرعی بلکہ ناجائز بھی ہوگا۔ اسلئے خلفاء قریش کے دور میں بغاوتیں ہوتی رہیں۔ اگر غیر قریشی امیر المؤمنین کو دنیا کیلئے نامزد کیا جائے اور لوگ اس کو برضاو رغبت قبول کرلیں تو اس کی امامت شرعی اور قانونی ہے۔ مسلمان ممالک کو قبضے کے بجائے طرز عمل کو درست کرنا ہوگا۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

محمود خان اچکزئی کے جرگہ سے صحافی رضیہ محسود کا لیڈران کو بہت جھنجھوڑنے والا خطاب

محمود خان اچکزئی کے جرگہ سے صحافی رضیہ محسود کا لیڈران کو بہت جھنجھوڑنے والا خطاب

اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
سب سے پہلے ہمارے بڑے محمود خان اچکزئی ،یہاں بیٹھے دوسرے بڑے ، ہمارے بھائی اور ہماری بہنیں جو بیٹھی ہیں۔ سب کو السلام علیکم کہتی ہوں۔ میں آج اپنے بڑوں اور بھائیوں کے سامنے کھڑی ہوں تو مجھے بہت فخر محسوس ہورہا ہے۔ بہت خوش ہوں کہ ہمارے پختون بھائی سب جرگہ میں شامل ہیں اور اپنی رائے پیش کررہے ہیں۔ اپنے بڑوں اور بھائیوں کی تقاریر سن رہی تھی تو میں معذرت کیساتھ ہم ان لوگوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں جو اچھی تقریر کرسکتا ہو، بلند آواز کیساتھ جذباتی باتیں کرسکتا ہو ، اس طرح کہ اسٹیج ہلے۔ ہم اس کو بہت زیادہ داد دیتے ہیں۔ ابھی تک جو ہم برباد ہوئے اور پسماندہ رہ گئے،ان تقاریر اور جذباتی باتوں سے ہم برباد ہوئے ۔ اگر چھوٹے بچے کو یہاں کھڑا کردو تو وہ بڑی اچھی اچھی باتیں کرلے گا مشکلات کو بھی بہت اچھے اندار میں بیان کریگا۔ ہماری مشکلات کا دنیا اور ہر ایک کو پتہ ہے لیکن عملی اقدامات نہیں۔ ہمارے جو بڑے اور بھائی بیٹھے ہیں اگر ان میں آدھے بھی گراؤنڈ پر صحیح کام کرلیں تو بہت زیادہ تبدیلی آئے گی۔ یہاں ہمارے علماء بیٹھے ہونگے آج میں ان سے اپیل کرتی ہوں کہ قبائلی علاقے کے لوگ دنیاوی تعلیم زیادہ پسند نہیں کرتے وہ دینی تعلیم پسند کرتے ہیں۔ ہمارے بچے زیادہ تر دینی مدارس میں ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں ہم یہ بات کرتے ہیں کہ ہم امریکہ کو فتح کرینگے بڑی باتیں کرینگے مگر ہماری بہنیں جدید تعلیم سے بھی محروم ہونگی اور ٹیکنالوجی سے بھی محروم ہونگی ۔وہ دنیا کیساتھ چل نہیں سکیں گی۔ جب تک ہم اپنی فکر تبدیل نہ کرلیں اور حقیقت تسلیم نہ کرلیں کہ ہمیں صرف باتیں نہیں کرنی چاہیے ، باتیں بہت کرلیں اور باتیں ہر جگہ ہوتی ہیں۔ ہمیں عملی اقدامات چاہئیں۔ زنانہ کے حوالے سے بات کروں گی۔یہاں اگر ہم دیکھ لیں تو کس تعداد میں ہمارے بڑے اور بھائی موجود ہیں اور کتنی تعداد میں خواتین ہیں؟۔6،7افراد ہیں۔ اس سے بھی اندازہ لگتا ہے کہ ہم نے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو کتنا محروم رکھا ہے۔ ہم نے ان کو حقوق نہیں دئیے ۔ یہاں پر ایسے بڑے بیٹھے ہیں جن کو میں جانتی ہوں جن کے گھر میں ان کی بیٹیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ اس کی اتنی ہمت نہیں کہ گھر کے پاس نزدیک لڑکیوں کا سکول فعال بنادے، ہم اس پر کبھی نہیں سوچتے۔ ہمارے ہاں بڑوں میں علماء بہت زیادہ ہیں مفتی بہت زیادہ ہیں اور ایسے لوگ بھی بہت زیادہ ہیں جو عبادات میں بہت آگے ہیں ۔ لیکن اگر انکے معاملات کی طرف دیکھیں تو ہم بہت پیچھے رہ گئے ۔ ہم بیٹیوں ، بہنوں کو وہ حقوق نہیں دیتے جو اسلام نے دئیے ۔ اس میں تعلیم شامل ہے۔ اسلام نے کہا ہے کہ اپنی بہنوں بیٹیوں کو تعلیم کی روشنی دو۔ جائیداد کا حق ہم قبائلی علاقے میں بہنوں اور بیٹیوں کو نہیں دیتے ۔ جب اس پر کوئی بات کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ ہماری روایات نہیں۔ رسم و رواج میں یہ بات نہیں، کس پختون نے بیٹیوں اور بہنوں کو حق دیا ہے؟۔ افسوس ہے کہ مفاد کی بات آتی ہے تو پھر ہم اسلام کو آگے لاتے ہیں۔ جب ہم محسوس کرتے ہیں کہ اگر اپنی بہن بیٹی کو حق دیا تو یہ ہمیں نقصان ہے کیونکہ وہ بہن بیٹی کسی اور گھر میں جارہی ہے۔ اگرچہ وہ نقصان نہیں لیکن اپنے مفاد کیلئے ہم رسم و رواج کو پیش کرتے ہیں۔ بڑا افسوس ہے کہ میں جہاں بھی جاتی ہوں اور جہاں گراؤنڈ پر دیکھتی ہوں تو عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔ یہ جو جذباتی تقریریں ہیں یہ جو داد ہم وصول کرتے ہیں جس پر واہ واہ لوگ کررہے ہوتے ہیں لیکن جب اس شخص کے عمل کو دیکھیں تو اس میں وہ خود کو شمار نہیں کرے گا۔ ہم کس سے گلہ کریں گے؟۔ میں تو اس بات پر حیران ہوں اردو میں کہتے ہیں کہ ایک بار آزمائے ہوئے کو دوبارہ آزمانا بیوقوفی ہے۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کون ہمارے ساتھ کررہا ہے اور کس طریقے سے کررہا ہے۔ ہم پھر بھی ان سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے ترقیاتی کام کریں گے؟ وہ ہمیں حقوق دیں گے؟۔ ہم کبھی بھی اس طرح گلے شکوے سے اپنی پسماندگیوں کو ختم نہیں کرسکتے ہیں۔ جب تک ہم اپنے حالات خود نہیں بدلیں اور اپنے آپ کو نہ پہچان لیں۔ پہلے خود کو پہچانو کہ ہم میں کونسی ایسی خصوصیات ہیں کس طرح سے ہم اپنے لوگوں کو اپنے علاقے کو فائدہ پہنچاسکتے ہیں؟۔ ہم اس پر کام کریں۔ ہم تعلیم پر کام کریں کہ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو تعلیم کی روشنی دیں۔ میں نے بہت دیکھا کہ قبائلی علاقے میں جب کوئی اِکا دُکا کیس ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ موبائل کا نتیجہ ہے جب موبائل بیٹیوں اور بہنوں کو دیا تو یہ ہوگا۔ ہم ٹیکنالوجی کو الزام دیتے ہیں۔ جب سیاحت کی بات ہوتی ہے کہ باہر سے لوگ آئیں گے جو وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں کی خوبصورتی دیکھیں تو پھر ہم کہیں گے کہ یہ لوگ ہمیں نہیں چاہئیں۔ اسلئے کہ خوف ہے کہ اگر یہ آگئے تو ہماری خواتین راستے سے ہٹ جائیں گی۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ اپنی خواتین کو تعلیم اور تعلیم کیساتھ ان کو ایک پختہ فکر دیں، پختہ فکر اچھی تربیت سے ملے گی۔ وہ خالی گھر کے کاموں تک محدود نہ ہوں بلکہ ایک ایسی سوچ دی گئی ہو کہ وہ جس طرح کے حالات بھی ہوں تو اس پر اثر انداز نہ ہوں۔ کب تک ڈریں کہ وہ آگئے اور ہماری خواتین کو راستے سے ہٹادیا۔ ہم ٹیکنالوجی پر الزام لگاتے ہیں۔ چیخ کر چھلانگیں لگائیں گے کہ انٹر نیٹ نہیں چاہئے اسلئے کہ اس کی وجہ سے ہماری عورتیں یا کوئی اور ایسا کام ہوگا جس کی وجہ سے بدنامی ہوگی۔ یہ موبائل یہ انٹرنیٹ ہمارے ہاتھ میں ہے ہم جیسے استعمال کرنا چاہیں اگر ہماری سوچ مثبت ہو تو نیٹ سے ہم علاقے کو بہت زیادہ فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔ اگر ہم اچھے نہ ہوں اور ہماری سوچ اچھی نہ ہو تو پھر نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ مجھے موقع ملا ہے کہ اپیل کروں کہ تم اپنی بہنوں ، بیٹیوں پر اعتماد کرلو۔ ان کو تعلیم دو ان کیساتھ کھڑے ہوجاؤ یہی بہنیں بیٹیاں تمہاری طاقت بنیں گی۔ ہمیں شرم آتی ہے کہ اپنی بہنوں ،بیٹیوں کیساتھ جائیں کہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ یہ اس کی بیوی یہ بیٹی ہے کہ لوگ کیا باتیں کریں گے۔ اسی نے ہمیں پسماندہ رکھا ہواہے۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟۔ یہاں بیٹھے لوگ ایک بھی گراؤنڈ پر کام کرے تو وہ تبدیلی لاسکتا ہے۔ میں اس حق میں نہیںکہ ہم شور کریں، چلائیں اور گلے کریں۔ ہمیں شعور چاہئے۔ ہمارے پاس ڈگری والے بہت ہیں لیکن ہمیں نہیں چاہئیں۔ ہمیں تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ چاہئیں۔ قبائلی علاقوں کے بڑے جن کا تعلق حکومت سے ہو جنکے پاس پاور ہو۔ ان سے اپیل ہے کہ وہ ہمارے اسکولوں کو عورتوں اور بچیوں کیلئے فعال کریں ۔ اگر ہسپتالوں کو دیکھیں تو ہم جنگوں میں اتنے نہیں مرے، جتنے غیر فعال ہسپتالوں کی وجہ سے خواتین وبچے فوت ہوتے ہیں، ہمیں عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ علماء سے خاص درخواست ہے کہ دینی مدارس میں بچیوں کودینی تعلیم کیساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم بھی دو۔ جدید ٹیکنالوجی سکھاؤ تاکہ ہر پہلو میں مکمل تربیت یافتہ ہوں۔ بیت الاسلام تلہ گنگ مدرسہ میں دینی تعلیم کیساتھ جدیدتعلیم اور ٹیکنالوجی پر کام ہوتا ہے ،ایسے مدرسہ سے بچیاں فارغ ہوں تو وہ ہماری طاقت ہونگی۔ ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا اور بہنوں کوتعلیم دینی ہوگی۔ ہمیں ان کی طاقت بننا چاہیے اور ان کا سہارا بننا چاہیے۔ پھر وہ طاقتور مائیں بنیں گی اور طاقتور قوت بنیں گی اگر تمہاری سپورٹ ہو اور محبت ہو اور تمہاری ہر طرح سے ان پر نظر ہو اور ان کو ایک پختہ سوچ دو اور اچھی تربیت کرو ۔ میں بہت شکریہ ادا کرتی ہوں میں زیادہ وقت بھی نہیں لیتی بس یہ میری ایک سوچ تھی اور میں نے سمجھا کہ تمہارے ساتھ شیئر کروں اور میں اُمید رکھتی ہوں کہ یہ جو ہمارے بڑے ہیں اور جو ہمارے بھائی ہیں تو وہ ہماری بہنوں کیلئے کچھ سوچیں گے اور ان کیلئے کچھ راستہ ہموار کریں گے۔ بہت بہت شکریہ۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv