ستمبر 2022 - Page 2 of 2 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

ساؤتھ ایشیاء میں جمہوریت کو پروان چڑھانے کیلئے عوام اور خاص طور پر نوجوانوں پر زور۔

ساؤتھ ایشیاء میں جمہوریت کو پروان چڑھانے کیلئے عوام اور خاص طور پر نوجوانوں پر زور۔

عمار :یہاں جو ہیرو بنائے جاتے ہیں ۔سعدیہ بلوچ : چھوٹا سا ہی آنسر دونگی ہم نے تو انہیں ہمیشہ قاتل کی نظر سے دیکھا ہے ہمارے تو وہ محافظ کبھی تھے ہی نہیں۔
منظور پشتین :ہمارے وطن پر خود کو طاقتور سمجھنے والے آئے لیکن آج وہ نہیں ہیں اور ہم ہیں۔ چنگیز سے انگریز تک اور فرنگ سے اورنگ تک سب واپس گئے۔

پروگرام کا تعارف صحافی منیزے جہانگیر: ساؤتھ ایشیاء میں جمہوریت کو پروان چڑھانے کیلئے عوام اور خاص طور پر نوجوانوں پر زور۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ پاکستان کے پسماندہ علاقوں سے ان لوگوں کو لیکر آئیں جن کی آواز آپ نے مین اسٹریم میڈیا پر کبھی نہیں سنی۔ عمار جان آپ کا بہت بہت شکریہ اور اپنا پروگرام اب شروع کریں۔ عمار جان نے کہا کہ اس وقت یوتھ کا سوال صرف ایج سے نہیں جڑا ہے بلکہ وہ اس سے بھی جڑا ہے کہ کیا مستقبل ہے برصغیر کا؟ اور اوور آل ساؤتھ ایشیاء کا؟۔ کیونکہ ایسا لگ رہا ہے کہ انکے جو آج سے15،20سال پہلے بہت سارے خواب تھے ۔نوجوان کیا سوچ رہے ہیں، ایک لہر ہے جو ہراول دستہ ہے وہ چاہے آپ سری لنکا میں چلے جائیں ، چاہے آپ نیپال میں چلے جائیں یا آپ ہمارے یہاں فاٹا میں چلے جائیں، بلوچستان میں چلے جائیں تو وہ نوجوان ہی ہیں جو اس وقت مزاحمت کررہے ہیں۔ میں پہلے سعدیہ بلوچ کو دعوت دوں گا جو کہ ایکٹی وسٹ ہیں اور خاص طور پر مسنگ پرسنز کے حوالے سے انکا بہت کام ہے اور بلوچ اسٹوڈنٹ رائٹس کے حوالے سے۔ یہاں پر لاہور میں صحیح طرح پتہ نہیں چلتا یہاں پر بجلی کا مسئلہ یا مہنگائی کا مسئلہ ہوتا ہے ، بلوچ خواتین کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو سیاست میں ایکٹو ہیں ۔
سعدیہ بلوچ: میرا تعلق بلوچستان سے ہے اور مسنگ پرسن کیلئے کام کرتی ہوں۔ مسنگ پرسن میں90فیصد سے زیادہ تعلیم یافتہ نوجوان اور طالب علم ہیں جو ٹارچر سیلوںمیں ہیں ، زندانوں میں ہیں اور غائب ہیں۔ میری خواہش ہے کہ ہمارے پاس ڈگریاں ہوتیں تو ہمیں استحکام ملتا۔لیکن جونہی ہمیں ڈگریاں ملتی ہیں تو ہماری مائیں فکر مند ہوتی ہیں کہ میرے بیٹے کو کہیں لاپتہ نہ کردیں یا اسکی لاش نہ گرادیں۔ ہمارے یہاں یہ سلسلہ چلتا ہے۔ اب میں بلوچ خواتین کی بات کرتی ہوں جو اس وقت سیاسی طور پر ایکٹو ہیں۔ میں ابھی50دنوں کے دھرنے سے اُٹھ کر آئی ہوں ، فلڈ کی وجہ سے بھی ہمارے لئے مشکلات ہیں۔ بلوچ عورتیں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ اسٹیٹ کا ٹارچر برداشت کرتی ہیں ، دھمکیاں اور خوف و ہراس بھی۔ اگر آج میرا بھائی لاپتہ ہے تو اس کو بچانے کیلئے میں نہیں آؤں گی تو کون آئیگا۔ اگر سمی نکلتی ہے تو پیچھے سیما آئیگی اور سب کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیںکہ اگر ایک جدوجہد ہورہی ہے تو سب کا حصہ ہوتا ہے ۔
عمار جان: آپکا شکریہ ۔ آپ لوگوں کو آئیڈیا ہوگیا ہوگا کہ کس قسم کے مسائل کا یہ لوگ سامنا کررہے ہیں۔ جبری گمشدگی کی تحریک کی خاصیت یہی ہے کہ اس میں خواتین لیڈنگ رول ادا کررہی ہیں۔ چاہے وہ آمنہ جنجوعہ پنجاب میں ہوں یا بلوچستان میں سعدیہ، سمی اور ماہ رنگ ہیں۔ اس طرح بہت ساری خواتین ہیں۔ پھر منظور کو دعوت دی اور کہا کہ امید ہے کہ آپ منظور احمد پشتین کو جانتے ہوں گے اور اگر نہیں جانتے تو پھرARYنیوز پر کافی ساری معلومات ان کے متعلق مل جائیں گی۔ قہقہہ۔جب منظور احمد نے تحریک شروع کی2018میں تو اس وقت ملک میں قبرستان جیسی خاموشی تھی۔ اور اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ یہاں پر شہری آزادی پر بات کرنا مشکل ہوجائے گا اور ان کا نام لینا مشکل ہوجائیگا جو ہمارے اصل حکمران ہیں۔ اس تحریک نے نہ صرف اس ادارے کو بے نقاب کیا جو75سال سے حکمرانی کررہا ہے اور ایک طرح سے ہم پر انہوں نے ذلت نافذ کی ہوئی ہے اس کیخلاف یہ بغاوت تھی ۔ لاہورمیں بھی جلسے ہوئے، کراچی میں بھی ہوئے اور جہاں جہاں منظور گئے ہزاروں لوگوں نے انکا استقبال کیا۔ آپ سے سوال ہے کہ نوجوانوں کا اس تحریک میں کیا کردار تھا سوشل میڈیا کا کیا کردار تھاBOLاورARYآپ کو کوریج دیتے تھے اسکے علاوہ کوئی نہیں دیتے تھے۔ اور وہ کس قسم کی دیتے تھے آپ کو معلوم ہے۔ اور علی وزیر کے بارے میں بھی کچھ بات کریں جو اس وقت جیل میں ہیں۔
منظور پشتین: میں یوتھ کی بات کروں گا ،یوتھ کا مطلب میل اور فی میل دونوں۔ فی میل پر تو پہلے ہی روایات اور دوسرے ناموں سے ایک قسم کی پابندی ہے اور جرنل سیاست کی بات کروں گا،اس پر بھی پابندی ہے۔ ریاست نے ایک فریم بنایا ہے اسکے اندر اگر کوئی سیاست کرنا چاہے تو ایک حد تک اجازت ہے کہ یہاں تک جاسکتے ہیں اور یہاں تک نہیں جاسکتے۔ ایک آئین ہے اور باقی انکے اپنے ریڈ لائنز ہیں۔آئین کی بات تو نہیں، بات ہے اصل میںانکے ریڈ لائنز کی۔اس ریڈ لائن کے اندر فریم بنادیا گیا۔ اس ریڈ لائن سے باہر اگر کسی نے بھی سیاست کرنا چاہا تو پھر تشدد ہے، مسنگ پرنسز ہے اور لاپتہ کردیا جاتا ہے یا اسکو مار دیا جاتاہے۔ میں کس کی مثال دوں؟، آپ کی مثال دوں گا کہ جبPTMنے بالکل آئینی حقوق مانگے آپ نے ساتھ دیاتو آپکے اوپر چھاپے اورFIRکاٹی گئی آپ کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ نہ آپ نے کسی کو تھپڑ مارا تھا اور نہ کوئی غیر قانونی کام کیا تھا۔ انسانی حقوق مانگے تھے۔ میرا مطلب ہے کہ ایک قوم کے اوپر سیاست ہوتی ہے اور ایک قوم کیلئے سیاست ہوتی ہے۔ قوم کے مفادات اور انکی زندگی کیلئے سیاست کرنا انتہائی مشکل ہے ۔ یہاں پر اسٹوڈنٹس ہونگے ان کو پتہ ہے کہ جو قوانین بنتے ہیں اور برٹش دور میں جو قوانین بنائے گئے تھے وہ اپنی کالونیاں بنانے کیلئے انہوں نے بنائے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر ہم نے ان کو سیاسی آزادی تو یہ بلاسٹ ہوجائیں گے۔ آپ نے بات کی کہ وہی علاقے جن کی آواز ممنوع ہے وہاں پر تویہ بہت مشکل ہے ۔پہلے تو تعلیم نہیں، سیاست کو سمجھنے کیلئے تعلیم بہت ضروری ہے۔ پھر نہ کالج ہیں نہ یونیورسٹیاں ہیں، تعلیم نہیں ہے تو ایک جو دوکاندار ہے ، جو ریڑھی والا ہے ، ایک نوجوان ہے وہ اس کو اس سیاست اور اپنے لیول میں بہت فاصلہ محسوس ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میری تعلیم نہیں میں سیاست کو کیا کروں گا۔ جب میں نے تحریک شروع کی تو میری عمر23سال تھی۔ آج میری27سال ہے شناختی کارڈ بلاک ہے، پاسپورٹ بلاکFIRبہت سارے۔ECLمیں نام ہے۔اور ایک سم کارڈ رہ گیا تھا وہ بھی چند مہینے پہلے بند ہوگیا۔ یہ یہاں پر سیاست میں حصہ لینے کے ثمرات ملتے ہیں۔ آپ نے یہاں ”ساؤتھ ایشیاء میں پارٹی سپیشن ”کے موضوع پر بات رکھی ، ہم آپس میں ایک دوسرے سے بات نہیں کرسکتے۔ میرے بلوچستان جانے پر پابندی ہے، کشمیر جانے پر پابندی ہے۔گلگت بلتستان پر پابندی ہے۔ آپ لوگوں نے نوٹیفکیشن دیکھیں ہوں گے سوشل میڈیا پر۔ بونیر سے لیکر کرم ضلع تک پابندی ہے۔ یہ جو آپ لوگ ساؤتھ ایشیاء کی بات کررہے ہیں اس میں کسی بھی ملک کا نام بھی لیا تو آپ غدار ہیں۔ نہیں لیا تو بھی آپ کواسکے ساتھ جوڑ کر غدار بنادیں گے۔ اتنی مشکل سچویشن میں جو آپ نے عنوان رکھا اس کا نام لینا بھی جرم ہے۔ یہاں تو بلوچ کا نام نہیں لے سکتے ، اگر پاکستان کے اندر کے کشمیر میں یوتھ سے آپ نے بات کی تو آپ کو انداز ہ لگ جائیگا۔میرا مطلب سیاست سے اگر آپ اس سے ہٹ کر بات کررہے ہو تو وہ غداری ہے وہ ایک ایسی ناروا حرکت ہے جس کا معاشرے میں کوئی تصور نہ کرے۔ اور پھر ایسی سزائیں دی جاتی ہیں کہ لوگوں کیلئے مثال بن جائے۔ مجھے یقین ہے کہ لاہور میں کافی نوجوان ہونگے جوPTMکو چاہتے ہونگے مگرPTMکیساتھ اپنے کو ایفی لیٹ نہیں کرسکتے۔ کیونکہ اس کیلئے مثال بنادی گئی عمار علی جان کی طرح نوکری چلی جائے گی اورFIRہونگے وغیرہ وغیرہ۔ بیروزگاری میں رکھ کر بے تعلیم معاشرہ رکھ کر تشدد کے ذریعے یہ جو نظام چلایا جارہا ہے اس میں اگر کوئی عوام کیلئے حقیقی سیاست کرنا چاہے جو صرف سیٹ جیتنے کی بات نہیں کررہے بلکہ عوام کو کچھ دینے کی کوشش کررہے ہیںتو ان میں کافی مشکلات ہوتی ہیں لوگ مسنگ پرسن بن جاتے ہیں۔ سعدیہ بلوچ بیٹھی ہیں۔ کافی سارے بلوچ ایکٹیوسٹ ڈاکٹر ہیں ابھی وہ کیا کرے کونسے پیشنٹ کی بات کرے معاشرہ ابھی ایک مریض بن چکا ہے اور پورے معاشرے کی بات کرنا انتہائی بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔
عمار علی جان: ہندوستان پنجاب میں کسانوں کی بڑی مشہور تحریک نے دلی جاکر دھرنا دیا۔ نئی بڑی عام آدمی پارٹی وجود میں آئی۔ چیف منسٹر کا جو کینڈیڈیٹ تھا اسکے خلاف صفائی کرنیوالے کا بیٹا موبائل شاپ پر کام کرتا تھا چند ہزار روپے لگا کر الیکشن جیت گیا۔ یہ بڑی کامیابی تھی۔ سعدیہ بلوچ یہ بتائیں کہ بلوچستان میں سیلاب سے کیا تباہی آئی ہے؟ اور کل پرائم منسٹر گئے اسلام آباد ہائیکورٹ اور انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ ہم مسنگ پرسن پر کوئی کاروائی کریں گے۔ اس سے کیا آپ کو کوئی امید ملی ہے اور بلوچ موومنٹ کے کیا تاثرات ہیں؟۔
سعدیہ بلوچ: ماضی میں بھی بہت سارے پرائم منسٹر اور کمیٹیاں ہمارے پاس آئی ہیں ، کمیشن بنے ہیں ، ری کنسی لیشن تک بات پہنچی ہے۔ قرآن پر بھی ہاتھ رکھا ہے بہت کچھ ہوا ہے لیکن جب بلوچ کی بات ہوتی ہے تو جو اسٹیٹ کے اندر اسٹیٹ ہے وہ چاہتی نہیں کہ مسئلہ حل ہو یا اس پر کام کیا جائے۔ جب تک اُن کی مرضی نہ ہوگی میرا نہیں خیال کہ کوئی پرائم منسٹر ، کمیٹی، جوڈیشل کمیٹی یا کوئی بھی ادارہ کچھ کرسکتا ہے جب بات بلوچ مسنگ پرسن کی ہو۔ بلوچ مسنگ پرسن کا معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا ہمیں دکھتا ہے ، مسنگ پرسن کے ٹیک ٹکس کو بلوچ یوتھ میں خوف پھیلانے، ایک ٹریلر دینے کیلئے استعمال کیا گیا۔ جو ٹیک ٹکس اسٹیٹ نے اپنایا وہ اتنی آسانی سے کبھی نہیں چھوڑے گا۔ بلوچ نوجوان آج سے نہیں سالوں سے سیاست کررہے ہیں،ریڈیکل نیشنلسٹ پالیٹکس بھی کررہے ہیں۔ اسٹیٹ نے ہر پالیسی اپنائی کہ یوتھ کو خوفزدہ کریں۔ میں اس جنریشن سے ہوں جوایک جنریشن کی ماس کلنگ کے بعد آئی ۔ ہمارے رہنما ذاکر بلوچ ، زاہد بلوچ لاپتہ ہیں۔ بہت سارے رہنماؤں کو مارا گیا، لاپتہ کیا گیا۔ ہم شاید اسی لئے بچ گئے کہ تب ہم بچے تھے۔ بڑے ہوئے تو دیکھا کہ ہمارے پاس گراؤنڈ میں کچھ نہیں بچا ۔ ہمارے دانشور ، اسٹوڈنٹس لیڈر ، رہنما سب کی ماس کلنگ ہوئی صرف اسلئے کہ وہ بلوچ قوم کیلئے سیاست و بات کررہے تھے ۔ مجھے نہیں لگتا کہ ریاست کے اندر ریاست کبھی چاہے گی کہ بلوچ مسنگ پرسن یا بلوچ مسئلے پر بات یا کام ہو، تب تک پرائم منسٹر کچھ نہیں کرسکتے۔ خیر پرائم منسٹر کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ ہم بلوچ ہیں بلوچی نہیں۔ سیلاب پر بات ہوتو بلوچستان میں نقل و حرکت اسلئے زیرو ہوئی کہ برٹش کا انفرااسٹرکچر چلا گیا۔ ہم کنگ کا انتظار کریں کوئن تو چلی گئی ۔ ہر10سال بعد سیلاب آتا ہے یہ نئی بات نہیں لیکن جہاں ریاست ہمیں مار رہی ہے وہاں کلائمیٹ چینج ہمارے لئے اسی طرح خطرناک ہے۔ میرا تعلق جھل مگسی سے ہے، ہیٹ ویو ہر سال بڑھتی ہے۔ نہیں لگتا کہ ریاست کچھ کام کریگی۔ جو ریاست سیدھا روڈ بناتی ہے وہ پانی لیجاتا ہے تو کلائمیٹ چینج پر کیا کام کریگی؟۔ بلوچستان کے گرین بیلٹ جہاں پر سیلاب نے زیادہ متاثر کیا وہاں پر اسٹیٹ کے تعاون سے قبائلی اشرافیہ پیدا کیاگیا، اشرافیہ کبھی نہیں چاہے گی کہ وہاں کے عام کسان ، عام بلوچ تک کچھ پہنچے۔ قبائلی اشرافیہ اپنا اسٹاک جمع کررہی ہے، پی ڈی ایم اے انہیں دے رہی ہے۔ انکے ویئر ہاؤسز تو ابھی تک بھرگئے، لوگوں تک تو خیر ریلیف نہیں پہنچا مگر سوشل میڈیا کی مدد سے ہم ڈونیشن وصول کررہے ہیںہم رضاکارانہ طور پر کام کررہے ہیںاور اس پر بھی کل گورنمنٹ نے پابندی لگادی ہے کہNOCکے بغیر کوئی بھی رضاکارانہ طور پر کام نہیں کرسکتا۔
عمار علی جان: بالکل ٹھیک بات کی کہ ریاست ایکٹو ہونے کی علامت ملتی ہے وہviolenceکے ذریعے سے لیکن جب لوگوں کے خیال رکھنے کا ٹائم آتا ہے تو کافی عرصے سے ریاست غائب ہے بلکہ آپ کو بتاتے چلیں کہ جولائی میں یہ فلڈ شروع ہوچکے تھے۔ میڈیا ، سوشل میڈیا پر ماسوائے حمزہ شہبازبمقابلہ چوہدری پرویز الٰہی ، شہباز شریف بمقابلہ عمران خان جی ٹی روڈ کی جو سیاست تھی اسکے علاوہ کوئی بات نہ ہوئی۔23اگست کو پہلی دفعہ ایک ٹی وی چینل پرفلڈ کے حوالے سے ہیڈ لائن آتی ہے تب تک ڈھائی کروڑ لوگ متاثر ہوچکے تھے۔ اس لیول کی سنسر شپ ہے میڈیا پر کہ بہت بڑا سیلاب آیا مگر توجہ نہ دی گئی، جی ٹی روڈ کی سیاست ہی چلتی رہی۔ اب میں منظور پشتین کی طرف آؤں گا۔PTMپہلی موومنٹ دیکھی ہے پاکستان میں جس میں کوئی خان ، سردار، وڈیرہ اس کو لیڈ نہیں کررہا۔ آپ کے والد صاحب ایک ٹیچر ہیں۔ اور آپکے ارد گرد کے لوگ بھی کچھ مڈل کلاس، کچھ ورکنگ کلاس سے ہیں۔ اتنی جلدی یوتھ کو آرگنائز کیسے کرلیا۔ ایک تو ہمارے پاسARYکا بیانیہ ہے کہ کوئی سازش چل رہی تھی۔ علی وزیر کیلئے ہم ادھر کیا کرسکتے ہیں اورPTMکو کس طرح سپورٹ کرسکتے ہیں؟۔
منظور پشتین: لوگ تنگ تھے ان کو ایک آواز چاہیے تھی ۔ ایک دن بحث تھیKPKمیں کہ فلانی پارٹی طالبان کو بھتہ دیتی ہے۔ فلانی پارٹی کے لیڈرز کو کال آتی ہیں مگر بھتہ نہیں دیتے۔ موقع نہیں ملا مگر میں یہ بات کرناچاہتا تھا کہ ہمارے کسی لیڈر یا ورکر کو کال نہیں آتی۔ وہ یہ چار آنے ہم پر ضائع نہیں کرنا چاہتے کہ انکے پاس کیا ہے جو ہمیں دیں گے۔ انتہائی غریب طبقہ ہے۔PTMکے پاس وسائل نہیں اگرچہ افرادی قوت انتہائی زیادہ ہے۔ انتہائی قابل، ایم فل، پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ ہیں۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ آواز اٹھائی تو مار دئیے جائیں گے مگر انہوں نے اتنا مارا کہ لوگوں کو پتہ چل گیا کہ اگر آواز نہ اٹھائی تو مار دیں گے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ تم لوگ اینٹی اسٹیٹ ہو۔ بھائی کوئی اسٹیٹ کو کنٹرول کرے وہ ہمیں مار رہے ہیں ہم ان کو نہیں مار رہے۔ کس اسٹیٹ کے ہم اینٹی ہیں یہاں تو اسٹیٹ اور نظام نہیں سچ پوچھو تو مکمل غنڈہ گردی ہے۔ آج بات کرو آپ کے پیچھے ویگو ڈالا آئیگا ، قانون حرکت میں آجائیگا ، آئین وغیرہ یہ نہیں بتایا جائیگا۔ یہ غنڈہ گردی ہے۔ لوگ کہتے ہیں یہ نظام فرسودہ ہوچکا ہے۔ کونسا نظام؟ نظام ہے ہی نہیں۔ ابھی تو ہمیں فوج کے علاوہ باقی سارے نان اسٹک ایکٹرز لگتے ہیں۔ جیسا چاہیں وہ ان سے کام لیں۔ علی وزیر پارلیمان کو مان رہا تھا۔ سیاسی پارٹیاں پارلیمان کو نہیں کسی اور کو مان رہی ہیں۔ ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ؟ ریاست پارلیمنٹ کو نہیں مان رہی۔ ابھی وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ میں مسنگ پرسنز کو رہا کردوں گا۔ بھائی آپ علی وزیر کے پراڈکشن آرڈر نہیں جاری کرسکتے ہو تو مسنگ پرسنز کو کیسے رہا کرو گے؟۔ اختلاف نہیں مگر یہ حقیقت ہے مخصوص لوگ ہیں ، مخصوص مائنڈ سیٹ ہے۔ وہی برطانیہ کی غلامی، جہاں سے جیسے ہو آج تک ان کو مراعات مل رہی ہیں۔ آج تک وہی خان، وہی سردار، وہی وڈیرے ہیں۔ انکے بچے کوئی جرنیل ہے تو کوئی سیاستدان۔ لیکن ملک کے بڑے وہی ہیں۔ عام عوام کی بات کیا کہیں۔ ہمیں تو بتایا جاتا ہے کہ اگر فلانا کرسی سے ہٹ گیا اور فلانا آگیا تو پھر حقوق ملیں گے ۔ سب آگئے سب چلے گئے کچھ نہیں ملا ہمیں تو۔اگر پاکستان کی عدالتوں کے نظام کو اسٹڈی کرنا ہو تو پھر علی وزیر کے کیس کو اسٹڈی کریں۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ130نمبر پر عدالتوں کی جو بات ہورہی ہے تو اتنا اچھا گریڈ کیسے ملا ان کو؟۔ وہ تو بیٹھے ہیں کہ کب اشارہ ملنا ہے اسلئے تاریخ پر تاریخ دیتے ہیں۔ یہ جو محکوم و مظلوم لوگ ہیں انکے ساتھ جو مذاق سیاسی طور پر کیا گیا وہ تاریخی ہے۔ انتہائی بے اختیار لوگوں سے ہم سن رہے ہیں کہ مسائل حل کریں گے۔ سچ میں اگر ان کو الگ سے بٹھا کر پوچھیں کہ آپ کے کیا کیا مسائل ہیں تو ہم سے زیادہ انکے اپنے مسائل ہونگے۔ تو آرگنائزڈ ہونے کے سوا ہمارے پاس راستہ نہیں۔ مسائل حد سے زیادہ غنڈہ گردی انتہاء پر ہے مگر ایک بات سنیں شاید یہ بات آپ کو جھوٹی لگ رہی ہو ہمیں مکمل یقین ہے انقلاب کا، ہم لائیں گے ضرور لائیں گے۔ ابھی جدوجہد کا وقت ہے مصائب تو آتے ہیں ہمیں جلدی نہیں جو لوگ ظلم جبر بربریت کررہے ہیں یا کروڑوں کی تعداد میں جو لوگ ہم کو کمزور اور خود کو طاقتور سمجھ رہے ہیں ہم ان کو اتنا کہتے ہیں کہ ہماری سرزمین پر دنیا کی ہر طاقت آئی ہے چنگیز سے لیکر انگریز تک، اورنگ سے لیکر فرنگ تک، ہم کو کمزور سمجھتے تھے اپنے کو طاقتور۔ آج ہم اپنی سرزمین پر رہ رہے ہیں وہ نہیں ۔ ٹرائی کرلیں جتنا ظلم کریں اتنا ری ایکشن ہوگا۔ ری ایکشن ان آرگنائز اور غنڈہ گردی پر مبنی نہ ہوگا انسانی حقوق کا لحاظ رکھا جائیگا۔ علی وزیر کو جیل میں رکھا اگر وہ کمزورتھا اب اتنا (طاقتور) ہوگیا۔ اس کو تقویت ملی ہے۔ ایک بارمظلوم اُٹھ گیا، صدا بلند کی اسکے بعد ظالم کا ہر طریقہ کار اسکی ناکامی کی طرف لیکر جائیگا۔ وہ ہمیں محدود کرنا چاہتا تھا، ہم نے اسکی سوچ کو محدود کیا۔ ہمارا سوچ پھیلا، مزید پھیلے گا۔ عوامی، سیاسی نظرئے کو طاقت سے کوئی نہیں دبا سکتا۔
سوال نمبر1:میں لاء کا اسٹوڈنٹ ہوں۔ سعدیہ بہن نے کہا کہ بلوچستان میں ہر دس سال بعد فلڈ آتا ہے ،بھائی نے کہا کہ انتشار بہت گندی سیاست ہے پاکستان میں۔ اگر ہم نے اسٹینڈ نہ لیا تو یہ آگے بھی چلتا رہے گا۔ تو آپ کالاباغ ڈیم بنانے پر بات کیوں نہیں کرتے جس سے تینوں صوبوں کو فائدہ ملے گا؟۔
سوال نمبر2:میرا نام عباس علی، ڈیجیٹل میڈیا کا اسٹوڈنٹ ہوں پنجاب یونیورسٹی لاہورمیں۔ آپ نے مسنگ پرسن کی بات کی تو آپ کیلئے کتنا مشکل ہوتا ہے اپنے وطن پاکستان کے محافظوں کیخلاف آپ کو لڑنا پڑتا ہے۔ جنکے ہم ترانے سنتے ہیں23مارچ کو۔ دوسرا سوال منظور سے ہے کہ آپ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ کو فارن فنڈنگ خصوصاً انڈیا کی طرف سے فنڈنگ ہوتی ہے۔ اورKPKاور بلوچستان کی جتنی بھی آرگنائزیشن ہیں ان پر را سے فنڈنگ کا الزام لگایا جاتا ہے ۔ تو یہ فارن فنڈنگ ہے یا ویسے ہی الزام لگایا جاتا ہے؟۔
منظور پشتین کا جواب: اب ”را” والے اتنے پاگل ہیں کہ پاکستان کے آئین کو مضبوط کرنے کیلئے ، حقوق مانگنے کیلئے کسی کو پیسے دیں گے کہ آپ وہاں امن کی بات کریں ، آپ لینڈ مائنز کو نکالنے کی بات کریں، مسنگ پرسنز کی بحالی کی بات کریں، پاکستان میں کوئی ایکسٹرا جوڈیشنل کلنگ نہ ہو اس کیلئے پیسے دیں کسی کو، یہ کونسی بات ہے۔ اگر پاکستان کے اداروں کو واقعی یہ لگ رہا ہے کہ یہاں پر آئین کی بالادستی کیلئے سب سے زیادہ کام انڈیا کی ایجنسی ”را” کررہی ہے۔ تو پھر وہ ڈائریکٹ ججز کو پیسے دیں باقی جو اسٹیٹ چلانے والے ہیں انکو پیسے دیں کیونکہ وہ زیادہ انوال ہیں۔ فارن فنڈنگ والی بات میرے خیال میں یہ33بلین ڈالر لینے والے لوگ کررہے ہیں۔ آج تک انہوں نے پیسے لئے ۔ ایک بادشاہ کی بیٹی بھوکی تھی تو بادشاہ نے کہا بیٹی کیا حال ہے اس نے کہا کہ پورا شہر بھوکا ہے۔ اس کو کھلایا پھر پوچھا کہ کیا حال ہے تواس نے کہا کہ شہر کو اب بھوک نہیں۔ یہ جو خود کھارہے ہیں ان کو لگ رہا ہے کہ سب کھا رہے ہیں۔ ہم چیلنج کرتے ہیں کہ فارن فنڈنگ ہم پر ثابت کردیں جو بھی سزا مجرم کی ہو وہ ہمیں دیں مگر ہم ثابت کرینگے اس پر فارن فنڈنگ دنیا کے ہر ملک سے لیا۔
عمار جان: مختصر سا جواب دے دیجئے کہ کیا یہاں پر جو ہیروز بنائے جاتے ہیں وہ وہاں پر اس طرح کی ایکٹی ویٹیزکرتے ہیں۔
سعدیہ بلوچ: چھوٹا سا ہی آنسر دوں گی ہم نے تو انہیں ہمیشہ قاتل کی نظر سے دیکھا ہے ہمارے تو وہ محافظ کبھی تھے ہی نہیں۔
عمار : سوال جو کالاباغ ڈیم پر کیا تو کوئی ایکسپرٹ اس پر بات نہیں کررہا۔ چھوٹے ڈیم کیساتھ جو آپکا ریئل اسٹیٹ ہے اس کو ریور بیلٹ سے دور کیسے کرنا ہے۔ کالاباغ ڈیم سے پاکستان کے تمام مسائل کیا حل ہو جائینگے ۔ ایک نے سوال کیا کہ ٹائم لگے گامگر انقلاب آئیگا۔ ہم نے دیکھا کہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ ہو تو ناکام ہوئے، کووڈ آیا تو ایکسپوز ہوئے۔ تخت سلیمان کے جنگلات میں آگ لگی تو ایران سے جہاز آئے آگ بجھانے کیلئے۔ ریاست ایکسپوز ہوئی۔ فلڈ آیا تو ریاست ایکسپوز ہوئی سسٹم ایکسپوز ہوا کام نہیں کررہا۔ تو سر وہ کونسا ٹائم ہے کہ عوام اس حد تک بھر جائے گی کہ پھر انقلاب آئیگا۔ یہ منظور سر سے سوال ہے۔
سعدیہ بلوچ: جب تک جوڈیشری کو آزاد نہیں کیا جائے گا مجھے نہیں لگتا ہے مسنگ پرسنز کا معاملہ حل ہوسکے۔ ایک اور بات ہمیں ضرور کرنی چاہئے چاہے جتنی خطرناک ہو مگر حقیقت ہے کہ بلوچستان میں تنازعہ ا ور شورش ہے جب تک اس پر بات نہیں ہوگی اس وقت تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
منظور پشتین: سوال تھا کہ کب آئیگا چینج؟ دیکھو! جب تک عوامی شعور نہ ہو ، جب تک قومیں بیدار نہ ہوں، تب تک اگر انقلاب آئے بھی تو انقلاب کے ثمرات پر ایکدوسرے کیساتھ لڑیں گے۔ اس کیلئے باشعور طبقہ چاہیے۔ ہم پہلے دن سے ایک ہی سوچ میں ہیں کہ ہم وہ مورچے نہیں لے سکتے ہیں ہم نے یہی مورچے لینے ہیں(دماغ کی طرف اشارہ کرکے کہا)۔ یہاں اگر سوچ مضبوط ہو، تقویت ہو، شعور ہو عوام میں پھر انقلاب آسانی سے آسکتا ہے۔ ظالم لوگوں کیلئے5،10بندوقیں کنٹرول کرنا اتنا مشکل نہیں ہوتا مگر قومیں بیدار ہوجائیں باشعور ہوجائیں اس کو کنٹرول کرنا ان کیلئے بہت مشکل ہوتا ہے۔ جدید فلاسفی بھی یہی کہتی ہے کہ انقلاب عوام کی فکر ی تبدیلیوں میں آتا ہے۔ تو ہم نے کوشش کرنی ہوگی کہ عوامی سطح پر شعور زیادہ ہوجائے اور پڑھے لکھے لوگ ہوں۔ اور ہمارے دوست زیادہ ہوجائیں۔ ہماری تعداد بڑھ جائے۔ دوسرا سوال یہاں پر پی ٹی ایم غیر سیاسی ہے۔ ایک توPTMغیر سیاسی نہیں۔ میرے خیال میں اس وقت بہترین سیاستPTMہی کررہی ہے۔ عوام کو شعور دلانا ہوگا، اگر اسٹیبلشمنٹ کو پریشرائز رکھنا ہو، اگر اس کو کوئی سیاست کہتا ہے عوام کے مسائل کو اجاگر کرنا ، عوام کو اجتماعی کام میں لگا کر اجتماعیت کیساتھ محبت پیدا کردینا۔ لوگوں کو لیڈر شپ کا احساس دلانا کہ جہاں بھی مسئلہ ہو آپ انکے ساتھ ہو۔ اگر یہی سیاست ہے تو میرے خیال میںPTMبہترین سیاست کررہی ہے۔PTMغیر سیاسی نہیں غیر پارلیمانی ہے۔PTMکے غیر پارلیمانی رہنے کے کچھ اُصول ہیں۔ عوام میں نفاق پارلیمانی سیاست کی وجہ سے ہے۔ اس وجہ سے وہ ایکدوسرے کیساتھ لڑتے ہیں۔ ہم نے وہ عنصر سائڈ پر کردیا۔ پی ٹی ایم سیاسی ہم آہنگی قائم کرتی ہے۔ اتحاد و اتفاق میں لوگوں کو زیادہ لانا یہ کام بھی اس سے ہوجاتا ہے۔ البتہ میں گرینڈ الائنس کا جو اتحاد ہے اسکے حق میں ہوں۔ جتنی بھی محکوم قومیں ہیں ان کا ایک ساتھ چلنااور ایک ساتھ جدوجہد کرنا انتہائی فائدہ مند سمجھتا ہوں۔
سوال: میرا آپ سے سوال ہے کہ جتنے بھی لاہور یں لیفٹ ونگ کی تنظیمیں ہیں، مارکسسٹ ہیں، بائیں بازو کی تنظیمیں ہیں وہ آپ کا ساتھ دینے کیلئے بالکل تیار ہیں آپ لاہور میں ممبر شپ اسٹارٹ کریں۔ اگر آپ کو براہ راست یا کھلے عام ایکٹی ویٹیز کرنے میں مسئلہ ہے تو آن لائن ممبر شپ اسٹارٹ کریں۔
منظور پشتین: پنجاب کے جو دوست کہہ رہے تھے کہ ہم بھی ساتھ ہیں۔ پورے پنجاب نے اٹھنا ہوگا سب نے ساتھ دینا ہوگا۔ محکوم لوگوں کے جو مسائل ہیں اس سے کم از کم لوگوں کو آگاہ کریں۔ لوگوں کا مائنڈ بنادیںتاکہ عوامی سطح پر یکجہتی پیدا ہوجائے۔ڈیرہ اسماعیل خان پولیس سب سے زیادہ ٹارگٹ کلنگ میں ماری جارہی ہے۔ سرائیکی بیلٹ سب سے زیادہ مشکل میں ہے۔ آپ خود سرائیکی ہو آپ بتاسکتے ہیں یہاں شرکاء کو کہ مدینہ کالونی میں جو طالبان رہ رہے تھے کیا وہ فوج کے انڈر نہیں تھے؟۔ سچ بتائیں یار(قہقہے)۔ دہشتگردی کو اگر اسٹڈی کرنا ہو تو ڈی آئی خان کا چکر لگائیں اگر میں نے ان کو نہیں بتایا کہ یہ جو کالے شیشوں میں گاڑی کینٹ سے آرہی ہے اس میں نوکنگ کرو اندر کون بیٹھا ہے پھر آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ جو ہم باتیں کررہے ہیں کیوں کررہے ہیں اسکی وجوہات ہیں؟۔ ڈی آئی خان کے شہری اٹھیں کیوں اپنے نوجوانوں پر خاموش ہیں؟۔ ڈی آئی خان اور دوسرے شہروں میں مذہبی فرقہ واریت کی بنیاد پر مختلف گروپس بنادئیے گئے جو لوگوں کو مار رہے ہیں۔ ہم آواز اٹھائیں گے اور ڈی آئی خان والوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریں گے۔
سعدیہ: اگرآپ بڑے لیول پرہمارے لئے کچھ نہیں کرسکتے توکم از کم احساس رکھیں درد کا۔یہ بھی بہت بڑا رشتہ ہے اور یہی ہمارے لئے کافی ہے۔
عمار جان: بہت بہت شکریہ۔ اسکے ساتھ ہم پروگرام کا اختتام کرتے ہیں اس امید کیساتھ کہ جو منظورکی جدوجہد ہے، سعدیہ صاحبہ کی، پرابودھا(سری لنکا) کی، سدھو صاحب کی ، ہمارے پنجاب کے لیبر لیڈر بابا لطیف، یہ تمام لوگ جو یہاں پر موجود ہیں وہ ایک بہتر ساؤتھ ایشیاء کی بنیاد بھی رکھیں گے اورپاکستان کو مضبوط کریں گے اور جس طرح سعدیہ نے بہت خوبصورت بات کی کہ دکھوں کا رشتہ ہے اگر دکھ ملیں گے تو یہ مزاحمتیں بھی انقلاب میں بھی تبدیل ہوں گی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بلوچستان زیرو ہے، برٹش کا انفرا اسٹرکچر چلا گیا، کنگ کا انتظار کریں کوئین چلی گئی۔ سعدیہ بلوچ

بلوچستان زیرو ہے، برٹش کا انفرا اسٹرکچر چلا گیا، کنگ کا انتظار کریں کوئین چلی گئی۔ سعدیہ بلوچ

حجاج بن یوسف ظالم نے لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کو قتل کیا مگر اسکے خلاف مسلح جہاد کاکوئی فتویٰ کسی نے نہ دیا۔ مفتی عبدالرحیم

جو زبان عمران خان، نوازشریف فوج کے خلاف بولتے ہیں وہ ہم نےPTMاور بلوچ بہن بھائیوں کی زبان سے نہیں سنی :اصغر خان اچکزئی

پختونخواہ میں نہتے عوام کی مسلح طالبان آمدکیخلاف احتجاج،خوف وہراس اور نفرت ومایوسی کا اظہار جاری ہے۔ چین امریکہ گریٹ گیم میں پختونوں کی تباہی پر میڈیا خاموش ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

دور نبوی ۖ میں6قسم کے لوگ :مؤمن، مسلم، کافر ،مکذبین ، منافق اور جن کو پیغام نہ پہنچاتھا۔ وماکنا معذبین حتی نبعث رسولًا ” اور ہم کسی کو عذاب نہیں دیتے جب تک کسی رسول کو مبعوث نہ کردیں” ۔ ویل یوم اذن للمکذّبین ”تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کیلئے”۔یہ انقلاب کے دن کی دھمکی تھی۔ قل عسٰی ان یکون قریبًا ” کہہ دو ہوسکتا ہے کہ قریب ہو”۔ اس سے قیامت مراد نہیں۔ انبیاء کو جھٹلانے پر دنیاوی عذاب تھا۔ شاہ اسماعیل شہید نے لکھا کہ ” رسول اتمام حجت ہے اور امام کا جھٹلانا عذاب کا ذریعہ ”۔ شیعہ عقیدہ ہے کہ امام کی بعثت اللہ کرتاہے مگرامام نبی نہیں ہوتا۔ مرزا غلام ملعون کو قادیانی نبی مانتے ہیں۔ رسول ۖ کی تکذیب پر مشرکین مکہ و یہود مدینہ پر عذاب آیا۔ سپہ سالارحر نے حسین کیلئے وہ قربانی دی جو زین العابدین نہ دے سکے۔ حسین کے بعد سے مہدی غائب تک کسی امام نے قیام کیا اور نہ قیام جائز سمجھا ۔ عظمت اہل بیت کے قائل شیعہ اور صحابہ کی تکفیر والے رافضی ہیں۔پشتون حقوق اور امن مانگتے ہیں اور کچھ بلوچ نے ہتھیاراُٹھائے ہیں ۔بیرسٹراعتزاز احسن نے پارلیمنٹ میں کہاتھاکہ” تھانے میں بدمعاش کو خوب مارا تو اس نے پکارا، اماں اماں۔ ماں نے تھانیدار سے کہا کہ شکریہ کہ میرے بیٹے کو ما ںیاد دلادی۔ عمران خان کا شکریہ کہ نوازشریف کو پارلیمنٹ یاد دلادی”۔ ریاستی مظالم نے سعدیہ بلوچ کوملکہ برطانیہ یاد دلادی۔ پہلے خوارج لڑے تھے ۔ مفتی عبدالرحیم نے کہا: حجاج نے لاکھوں قتل کئے لیکن اسکے خلاف مسلح جہادجائز نہ تھا ۔جب ضرورت میں عضوء کاٹنا ، خنزیر کھانا جائز ہے تو اجتماعی مفاد کیلئے ریاست کچھ بہت کرسکتی ہے، یعنی پٹھان مٹھان بلوچ ملوچ مفادکیلئے قربان کرسکتی ہے۔
جامعة الرشید کے مفتی عبدالرحیم کو اس انداز میں سلیم صافی نے پیش کیا جو دین اور صحافتی تحقیق پر سوالیہ نشان ہے؟۔یہ کس کا جانشین ہے؟۔ مفتی رشیداحمد لدھیانوی بدنامِ زمانہ تھا ۔ مولانا یوسف بنوری سے مفتی محمود تک ، تبلیغی جماعت سے حاجی عثمان اور حکیم اختر تک، مفتی شفیع سے مفتی احمد ممتازاور مولانا مسعود اظہر تک کون شر سے محفوظ رہا؟۔ مفتی عبدالرحیم کے جھوٹ اور کرتوت کے ثبوت ہمارے پاس ہیں۔سودی نظام کو جائز قرار دیا تو مولانا احتشام آسیاآبادی ومفتی احمد ممتاز نے بھی اسلامی بینکاری کی مخالفت کی جو مفتی رشید لدھیانوی کے خلفاء اور مفتی عبدالرحیم کے سینئر تھے۔ یہ شخص مذہب اورریاست کا اثاثہ نہیں بلکہ کلنک کا ٹیکہ ہے۔ جیو نے عمران خان کے بغض میں اسکے مکروہ چہرے سے عوام کو دھوکہ دینا شروع کیا ہے۔ عوام غلط کام کرتی ہے تو وہ بھی غلط ہے اور اگر ریاست غلط کام کرتی ہے تو اس کو جواز نہیں بخشا جاتا بلکہ اس پر ڈبل گرفت ہوتی ہے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ علی کی موجودگی میں ابوبکر ، عمر اور عثمان کو اقتدار کا حق نہ تھا۔ اگر علی نے ان تینوں کے مقابلے میں خود کو زیادہ حقدار سمجھاتھا توصحابہ جنگ تک بھی پہنچے ہیں اور سنی ان کی کماحقہ تأویل کرتے ہیں۔ نہج البلاغہ کو مصر کے سنی عالم علامہ عبدہ نے مرتب کیا اور عبارات کی تصحیح وتحقیق کی جس کا شیعہ عالم نے ترجمہ کیا۔ علامہ سید جواد نقوی نے اس پر اچھی گفتگو کی ہے۔ پہلی اور آخری مرتبہ ایک ہی دفعہ علی نے اپنے استحقاق خلافت کیلئے دلائل دینے شروع کئے تو کسی نادان نے غیرمتعلقہ سوال کیا، جس کے بعد علی نے بحث چھوڑ دی۔ ابن عباس نے کہا کہ اپنی بات مکمل کریں لیکن علی نے کہا کہ نہیں۔ بس دل میں جو ابھار آیا تھا ،اب وہ نہیں رہا۔ اس سے پہلے اور اسکے بعد پھر کبھی اس موضوع پر بات نہیں کی تھی۔ شیعوں کی تمنا ہم پوری کردیںگے کیونکہ علی کے بیٹے میں اللہ نے صلاحیت پیدا کی ہے لیکن شیعہ انتشار کو چھوڑ کر اتحاداور وحدت کی طرف اب آجائیں۔
سنی کہتے ہیں کہ ہم سعد بن عبادہ کیلئے اچھا جذبہ رکھتے ہیں جو ابوبکر و عمر کے پیچھے نمازتک نہ پڑھتے تھے ۔جنّات یا نامعلوم خلائی مخلوق نے قتل کیا ؟۔ خلافت راشدہ دور میں ایک جلیل القدر صحابی کو انتشار پھیلانے پر عدالت میں پیشی کے بجائے قتل کیا گیا؟تویہ گناہگار ریاست کرسکتی ہے؟۔ سعد بن عبادہ نے منظم حملے نہیں کئے۔ بلوچ سرماچارفوج کو دشمن کہیں اور حملہ آوروں کی مذمت نہ کریں؟۔ تعلیم یافتہ شاری بلوچ نے چینی خواتین اساتذہ پر خود کش کیا۔ اگرچہ کئی بلوچوں اور شاری بلوچ کی فیملی نے مذمت کی لیکن کئی اس کو اعزاز سمجھتے ہیں۔ ایک طرف مہمان اساتذہ پر خود کش اور دوسری طرف واویلا کہ ریاست بلوچ دشمن ہے تعلیمی اداروں میں پڑھنے نہیں دیتی ؟۔ یہ دوغلاپن غیرتمند بلوچ پر دھبہ ہے۔ انصار عباسی، ہارون الرشید،اوریا مقبول افغانستان کیلئے طالبان کا نظام اور پاکستان کیلئے نسل در نسل انگریز کے غلام جرنیل، انکے بنائے گئے سیاستدان اور خاندانی غلام پیروں اور چوہدریوںکے خانوادوں کے غلامانہ نظام کو بہترین قرار دیں تو جیسا دیس ویسا بھیس اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس میں یہی چل سکتا ہے۔
سعد بن عبادہ کے قتل کو جواز بخشناغلط ہے۔ بے گناہ صحابی کے قتل کی سزا پوری خلافت کو مل گئی۔انصارمدینہ اقتدار سے باہر تھے توحضرت عثمان چالیس دن محاصرے کے بعد شہید کئے گئے۔ علی نے مدینہ چھوڑ کر کوفہ کو دارالخلافہ بنایا۔ بنو امیہ نے دارالخلافہ شام میںدمشق کو بنایا۔ بنوعباس نے عراق میں بغداد کو دارالخلافہ بنایا۔چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد کو تہس نہس کردیا۔ پھر ترکیوں نے دارالخلافہ استنبول منتقل کیا ۔ حجاج دورمیں ہمت ہوتی تو بنوامیہ کا خاتمہ جائز تھالیکن بعد میں ہمت کی گئی۔اگر حسین کیساتھ لوگ کھڑے ہوجاتے تو یزیدی خاندانی نظام اور عباسی خاندانی نظام مسلمانوں پر مسلط نہ ہوتا۔ آج بھی انکے اثرات سے مسلمان نکل نہ سکے ۔ مولوی لمبی سایڈ کی جیب میں ہدیہ وصول کرکے منبر رسول پر خطبہ دیتا ہے کہ ظالم بادشاہ زمین پر خدا کا سایہ ہے ۔ اگر کافر عادل بادشاہ کو زمین میں خدا کا سایہ کہا جائے تو مسئلہ نہیں۔ حدیث میں مسلم کی قید نہیں۔حبشہ کے بادشاہ نجاشی صحابہ کے سائبان بنے تو سایہ خدا کہنے میں حرج نہ تھا۔ مگر ظالم ، جابر اور بربریت والے حکمران کو اللہ کا سایہ قرار دینا گھٹیا پن ہے۔ اسد طور نے مولانا طارق جمیل پر پروگرام کیا ہے، مفتی عبدالرحیم پر بھی تحقیق کرکے لوگوں کو آگاہ کردے۔ مفتی عبدالرحیم کا تعلق اس مذہبی ٹبر سے ہے جو ہلاکو خان اور چنگیز خان کے مظالم کو بھی ضرور سپورٹ کرتا۔ الطاف حسین نے کہا کہ ” نوازشریف دور میں آئی ایس آئی چیف جنرل ضیاء الدین بٹ کے متعلق ڈان میں کامران خان کی رپورٹ شائع ہوئی کہ اس نے حکیم سعید کو شہید کروایا تھا اور پھر نوازشریف کو پرچی تھمادی تھی کہ ایم کیوایم کارکنوں کا نام لو۔
ظلمت کو ضیائ، صر صر کو صبا ،بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہما کیا لکھنا
ایک حشر بپا ہے گھر میں دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں
ایک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ور! اس ذلت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیائ، صر صر کو صبا ،بندے کو خدا کیا لکھنا
لوگوں پہ ہی ہم نے جاں واری ،کی ہم نے ہی انہی کی غمخواری
ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم شاعر نہ بنیںگے درباری
ابلیس نما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیائ، صر صر کو صبا ،بندے کو خدا کیا لکھنا
حق بات پہ کوڑے اور زنداں باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیںخونخوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم وستم کو لطف وکرم ،اس دکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیائ، صر صر کو صبا ،بندے کو خدا کیا لکھنا
ہر شام یہاں شام ویراں،آسیب زدہ رستے گلیاں
جس شہر کی دھن میں نکلے تھے وہ شہر دل برباد کہاں
صحرا کو چمن بن کو گلشن بادل کوردا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیائ، صر صر کو صبا ،بندے کو خدا کیا لکھنا
اے میرے وطن کے فن کارو! ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو
یہ محل سراوں کے باسی قاتل ہیں سبھی اپنے یارو!
ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا،اس غم کو نیا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیائ، صر صر کو صبا ،بندے کو خدا کیا لکھنا
فتح مکہ سے قبل اور بعد والے صحابہ میں فرق تھا۔ ابوسفیان، امیر معاویہ اور یزید سیدنا بلال کے پیروں کی خاک کو نہیں پہنچتے تھے۔ جبر سے خلافت کو خاندانی لونڈی نہ بناتے تو بلال میں زیادہ قابلیت تھی۔ سعد بن ابی وقاص عشرہ مبشرہ کے ہوتے ہوئے ظالم جابر وں کا اقتدار غلط تھا۔ البتہ حر اور یزید کے بیٹے معاویہ نے جو قربانی دی، مفاد پرست شیعہ انکو نہیں پہنچ سکتا۔ان میں لیلیٰ کیلئے قربانی کا جذبہ رکھنے والے بھی بہت ہیں لیکن جو نمایاں ہیں وہ دودھ پینے والے مجنون ہیں۔
بلال حبشیسیدنا تھے۔ شیدی بلال کی وجہ سے سیدی تھے۔ س کو ش بنادیا۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا کہ ” عرب میں عجم غلام تھے۔ اسلام نے ہم وطن چار خواتین سے شادی کی اجازت دی اورغیر ملکی لونڈیوں سے شادی کی تعداد متعین نہیںکی ”۔ مولانا سندھی سے اتفاق نہیں لیکن مغربی پاکستان نے بنگالیوں کو دل سے قبول نہ کیا۔ گو وزیراعظم محمد علی بوگرہ، حسین شہید سہروردی بنگالی تھے اور صدر سکندرمرزا بھی بنگال کے غدار میر جعفر کے پڑپوتے تھے۔جن گٹرصاف کرنے والے پنجابیوں کو کراچی والے چوہدری کہتے ہیں، عزت کی بنیاد پر نہیں کہتے ہیں۔ اسلام نے سیدنا بلال اور حبشیوںکو واقعی بہت عزت بخشی تھی۔
شیعہ ائمہ اہل بیت اور پشتون قوم پرست باچا خان وصمد خان شہید اچکزئی کے خاندانوں کو امام مانتے ہیں۔ جب یزید کا لشکر حسین کے کٹے سر اور قافلہ اہل بیت کو قید کرکے دمشق شہر لایا تو سپاہی کھانے پینے کی خریداری میں لگ گئے۔ ایک حبشی خاتون فضاء نے یہ منظر دیکھا تو قیدیوں کیلئے کھانے پینے کا سامان اور دوپٹے ، چپل، سامان ضرورت تحفہ میں دئیے۔ مشکل وقت میں خواتین آگے آتی ہیں۔ عثمان کے بدلے کا مطالبہ اماں عائشہ نے کیا۔ یہاں سالارکا کردار زینب نے ادا کیا۔ زینب نے پوچھا : یہ مدد کیوں کی؟۔ پورے راستے میں کسی نے ہمیں نہیں پوچھا ؟۔ فضاء بولی: فاطمہ کی خادمہ تھی، رخصتی لیکر شام آرہی تھی تو نصیحت کی کہ جب قیدیوں کو دیکھو تو خوراک ، پوشاک اور ہرممکن خدمت کرنا۔ مجھے پہلی مرتبہ ان کی نصیحت پر عمل کا موقع ملا ”۔ زینب بولی: بدلہ دینا ممکن نہیں مگر ہم دعا کرسکتے ہیں۔ بتاؤ کیا دعا کریں؟۔ فضاء بولی: فاطمہ کے تین بچے حسن، حسین اور زینب کی زیارت کا بڑاشوق ہے۔ جب دیکھا تھا تو چھوٹے چھوٹے تھے۔ آپ میرے لئے ان کی زیارت کی دعا کرنا۔ زنیب بولی: تمہاری تمنا پوری ہوگئی یہ کٹا ہوا سر حسین کا ہے ، میں زینب ہوں۔ یزید نے دربار میں قافلہ اہل بیت سے بدتمیزی شروع کردی کہ بدر کا بدلہ ہم نے لیا ۔ تو فضاء نے یزید کو سخت جواب دیا کہ ” شرم نہیں آتی کہ اسلام کے نام پر خلیفہ بن بیٹھے ہو، نبیۖ کی اولاد سے یہ کہتے ہو؟۔ یزید نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ گستاخ عورت کو عبرت کا نشان بنادو۔ کچھ سپاہی لپکے تویزیدی لشکر میں حبشی سپاہیوں نے بپھر کر دھمکی دی کہ خبردار ! یہ خاتون ہماری ناموس ہے ۔ اگر تم نے تکلیف پہنچائی تو تمہاراتیاپانچا کریں گے۔ مشتعل حبشیوں کو دیکھ کر یزیدنے پینترا بدلا۔ زینب نے کہا کہ ” کیا رسول ۖ کیلئے کوئی قربانی دینے والا نہیں؟”۔ تنخواہ دار سپاہی قوم پرستی کیلئے سب کچھ کرنا اپنی قومی غیرت سمجھتے تھے لیکن ریاست اور حکومت نے دین کا جذبہ مٹادیا تھا۔
جب طالبان نے ٹانک سے ایک پشتون لیڈی ڈاکٹر کو اغواء کیا اور مظالم کا سلسلہ جاری رکھا تھا اگر فوجی آپریشن سے پہلے محسود قوم غیرت کرتی تو ذلت کے انتہائی دن دیکھنے نہ پڑتے۔ حبشیوں نے عورت پر غیرت کی توسیدی بن گئے۔
پختونوں کے بارے میں ہے کہ رسول اللہ ۖ کے دور میں مکہ کو فتح کیا تھا اور بلوچوں کے بارے میں ہے کہ اسلامی لشکر کا حصہ بعد میں بن گئے لیکن جب امام حسین کی شہادت کا واقعہ پیش آیا تو انہوں نے دوبارہ اپنے وطن مکران کا رخ کیا تھا۔ محمد بن قاسم سے پہلے بلوچ اورکافی سندھی پہلے سے مسلمان تھے۔
راشدمراد کھریاں کھریاں نے جرنیلی نظم پڑھی:اک آمر تخت پر بیٹھا تھا
میرے دریا جب نیلام ہوئے اور بنجر میرے کھیت ہوئے اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا
میرے لشکر کو جب مات ہوئی اور دیس میرا تقسیم ہوا، اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا
جب مذہب اک ہتھیار بنا اور کلمہ گو ہی قتل ہوئے ۔ایک آمر تخت پہ بیٹھا تھا
سچ بولنے والے لوگوں کو جب کوڑے مارے جاتے تھے،ایک آمر تخت پہ بیٹھا تھا
ایک ظالم لشکر کے ہاتھوں ایک سورج جب مصلوب ہوا،اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا
جب ایک بہادر عورت پر اپنوں نے چھپ کر وار کیا،اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا
جب گلیوں میں بارود بچھا گھر گھر میں قتل عام ہوا،ایک آمرتخت پہ بیٹھا تھا،پھر بھی سادہ لوگوں کوآمر اچھے لگتے ہیں جھوٹوں سے بڑھ کر یہ جھوٹے اب بھی سچے لگتے ہیں
راشد مراد نے نوازشریف کے ایما پر جنر ل قمر باجوہ کو دبانے کیلئے نظم پڑھی مگر باجوہ کو ایکس ٹینشن کس نے دی ؟۔ کیا سیاسی طرم خانوں کیلئے عوام فوج سے لڑے؟۔اقتدار ہوتو فوج سے محبت اور اقتدار چھن جائے تو خرابیوں کی جڑ ؟۔ آرمی، قومی ، سیاسی و مذہبی قیادت جلد ازجلد مثبت فیصلہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرے ورنہTTPاورپشتون ریاست کیلئے وہ مشکل کھڑی کرسکتے ہیں جس کا تصور بھیانک ہے۔افغان اور پاکستانی طالبان ایک ہیں۔ بلوچ، مہاجر ، سندھی اور پنجابی سبھی میں خوبیاں ہیں لیکن بیکار کرداروں نے ان کی شکل مسخ کی ہے۔
اللہ نے فرمایا؛” بیشک جولوگ مسلمان، یہودی ، نصاریٰ اور صائبین ہیں۔ جس نے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اچھا عمل کیا تو ان کیلئے اجر ہے، ان پر خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غمگین ہونگے”۔ (البقرہ آیت62) اسلام واحد دین اور نظام ہے جو دنیا کو قبول ہے لیکن مذہبی وحکمران طبقے نے مسخ کردیا۔
اعرابیوں سے کہا ” یہ نہ کہو کہ ہم ایمان لائے بلکہ کہو! ہم اسلام لائے اسلئے کہ ابھی ایمان دلوں میں داخل نہیں ہوا”۔یہ مسلمان اور صحابہ سچے مؤمن تھے۔ کچھ منافق اور کافر تھے۔ صرف کچھ جھٹلانیوالے دشمن تھے۔ کافی دنیا تک اسلام نہ پہنچاتھا۔ مقابلہ جھٹلانے والوں سے تھا۔ جھوٹی نبوت کے دعویدارابن صائد اور رئیس المنافقین عبداللہ ابن ابی اور ذوالخویصرہ گستاخ سے بھی جنگ نہیں تھی۔
وزیرستان محسود ایریا میں طالبان کی رٹ ہے۔ ننگے سر کعبہ کا طواف ہوسکتا ہے مگرکوئی وزیرستان میںٹوپی نہیں اتارسکتا ۔دنیا بھر کی طرح امریکیCIAکے بلیک واٹر نے پنجابی لڑکیوں کو شام میں داعش کیلئے بھرتی کیا۔ فوج نےTTP،PTMاور عوام کو ایکدوسرے کے رحم وکرم پر چھوڑ اہے۔ قوم جب تک دین کی درست تشریح کی طرف نہ آئے، مظالم سے بچنے کا راستہ نہیں۔ مرکزمیں شہبازشریف وزرداری اور پنجاب میں عمران خان و پرویزالٰہی کاا قتدار ہے۔ اگر طالبان کو بھارت کی سرحد پر گھر بناکر دیدئیے اور شیڈول فور میں رکھاتو فتنے پر قابو پانا آسان ہوگا۔ پنجاب ، اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کا پختون قوم پر نہ صرف احسان ہوگا بلکہ گزشتہ غلطیوں کا ازالہ بھی ہوگا۔افغانستان اور پاکستان کو فتنے وفساد سے نہیں بچایا تو کشت وخون ہوگا اسلئے کہ طالبان کے ہمدرد بھی اس مرتبہ زبردست طریقے سے بہت بے دردی کیساتھ نشانہ بنائے جاسکتے ہیں۔
موٹے مولوی نے طالبان سے کہا کہ جہاد کی بڑی فضیلت ہے لیکن میری ٹانگیں کام نہیں کررہی ہیں۔ حالانکہ اس کی ڈگی میں طالبان بارود بھر کر خود کش کرواسکتے ہیں۔ جب تک سہولت کاری کے نتائج نہ بھگتنے پڑیں ظالم اورسہولت کار بے گناہوں کو نشانہ بنائیںگے۔ فوج اچھے اور بروں کے علاوہ وفادار آلۂ کار اور اغیار کے آلۂ کارمیں تمیز نہیں کرسکتی اسلئے کچھ لوگ رکھنے پڑتے ہیں۔ جب عوام کی طرف سے فیصلہ ہوگا کہ گندے کرداروں کو ہم نے نہیں چھوڑنا ہے تو ریاست بھی کسی آلۂ کار کو ٹھکانے دینے کی مجبوری سے باز آجائے گی۔ رضیہ محسود صحافی نے سکولوں اور ہسپتالوں کی بحالی کیلئے آواز اٹھائی تو قوم پرست بہت برا مان گئے۔ ان کی تقریر کو بھی نشر نہیں کیا۔ قدرت نیوز مختلف قسم کا موادنشر کرنے میں دیر نہیں لگاتی ہے لیکن خاتون صحافی کی مثبت باتوں کو بھی سنسر کردیا ہے۔
شہبازگل اور علی وزیر کی بات میںفرق تھا۔ منظور پشتین اور علی وزیر کی تقریر میں بھی تضاد ہے۔ تضادات کو دور کئے بغیر دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنانا سب سے آسان کام ہے۔ خطرناک یہ ہے کہ ریاست ظلم کرے اور مفتی جواز فراہم کرے لیکن اسکے خلاف آواز نہ اٹھائی جائے اور اس سے زیادہ خطرناک یہ ہے کہ جب مولوی حضرات ریاست کی سپورٹ کے بغیر اسلام کی غلط تشریح سے معاشرے کے اندر کمزورعورت کو کمزور تر کردیں اور طاقتورمرد کو مزید ناجائز طاقتور بنادیں اور اس پر خاموشی ہو تو کوئی تنظیم اپنے نام ونمود اور اللے تللے کیلئے کام کرے تو کرے لیکن یہ دعویٰ کرنے کا حق نہیں کہ وہ عوام میں شعور اجاگر کرنے کی خدمت کررہی ہے۔ کامیابی کادعویٰ تو دور کی بات، خدشہ یہ ہے کہ آج بلوچ خواتین اور لڑکیاں مسنگ پرسن کیلئے پنجابی اور پختونوں کیساتھ کھڑی ہیں کلPTMکے رہنماؤں کیلئے ان کی خواتین اور لڑکیاں مسنگ پرسن کیلئے کھڑی ہوں گی۔ پشتو فلموں کی فحاشی کے سین پنجاب میں بھی مشہور تھے۔ بلوچ سینما کو بلوچی فلم چلانے پر آگ لگاتے تھے۔ بلوچ قوم پرست وطن کو آزاد نہ کراسکے لیکن لڑکیوں کو دنیا کے سامنے لاکھڑا کیا ۔ بلوچ پہاڑوں میں لڑ یں تولڑکیوں کی مجبوری ہے کہ مسنگ پرسن کیلئے نکلیں ۔ علی وزیر نے صرف ایک بار دھمکی دی کہ میں بندوق اٹھاؤں گا لیکن پھر ا س کے وکیل نے کہا کہ تقریر کا ترجمہ غلط کیا ۔ غلط بیانی سے معافی مانگنا بہتر ہے۔ اسلام کی درست تشریح سے ریاست، مولوی، دہشتگرد،قوم پرست اور سب نمونے اپنی اپنی جگہ پر درست ہوسکتے ہیں۔ عمار علی جان جیسے قابل اور غیرمتعصب لوگ اپنا قبلہ درست کرکے اچھا کردار اداکرسکتے ہیں۔ عمار جان کی یہ بات غلط ہے کہ ”ریاست نے میڈیا پرسنسر شپ لگایا کہ سیلاب کے معاملات کی جگہ جی ٹی روڈ کی سیاست میں عمران خان، شہباز گل ، نوازشریف اور مریم نواز کے گرد خبروں کا فوکس رکھا جائے”۔ عوام سندھ کے سیلاب متأثرین ، پختونوں اور بلوچوں کے دھرنوں سے زیادہ اداکارہ ایان علی کی عدالت میں کیٹ واک کو دیکھنا چاہتی تھی تو ریٹنگ سے میڈیا کو اشتہارات کے ریٹ ملتے ہیں اور دنیا پیٹ اور جنسی خواہش پر جی رہی ہے۔باقی قبروں کی طرح دنیا میں بھی سب کا اپنا اپنا معاملہ ہے۔حقیقی اسلام کیلئے لوگ اپنے مفاد کیلئے اٹھیں گے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

فرقہ وارانہ دلائل کی یک طرفہ وکالت سے معاملہ پیچیدہ بنا مگر حل نہیں ہوسکا۔

فرقہ وارانہ دلائل کی یک طرفہ وکالت سے معاملہ پیچیدہ بنا مگر حل نہیں ہوسکا۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

شیعہ سمجھتے ہیں کہ وہ خود کچھ بھی ہیں لیکن انکے بارہ ائمہ اہل بیت بنوامیہ وبنوعباس کے ادوار میں بھی مظلوم تھے اور خلافت راشدہ کے دور میں بھی انکے ساتھ ظلم وزیادتی ہوئی ہے!
جب شیعہ کے وہ موٹے موٹے دلائل منبر ومحراب پر بیان ہوں جن سے صرفِ نظر ممکن بھی نہیں تو اہل تشیع کی شدت میں خاطر خواہ کمی آئیگی اور اتحاد واتفاق کی راہ بھی ہموارہوگی
جب سنی اپنی اصلاح کریں اور شیعہ کو چھوڑ دیں تو دنیا میں خلافت کانظام قائم کرنے کے اہل بن جائیںگے۔پھر شیعہ بھی صحابہ کرام کا پیچھاچھوڑکر اپنی اصلاح کرنے لگیںگے!

علی سے یہودی نے سوال کیا کہ تمہارے نبی (ۖ) کا انتقال ہوا تو غسل دینے ،کفنانے اور دفنانے سے پہلے تم جانشینی پر لڑے اور فتنے کا خدشہ پیدا ہوا ؟، تفریق وانتشار کے اختلاف کا کیا جواز تھا؟۔ اس پر ذرا بھی شرمندگی کا احساس نہیں ؟۔ حضرت علی نے تاریخی جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا فروعی مسئلے پر اختلاف ہے۔ اولی الامر کیساتھ اختلاف کی گنجائش اللہ نے رکھی ہے۔ خلافت کا مسئلہ عقیدے کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ انتظامی مسئلہ ہے جس میں اختلاف کی گنجائش بھی ہے لیکن تمہارے تو ابھی دریائے نیل سے پیر بھی خشک نہیں ہوئے تھے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیھماالسلام کی موجودگی میں سامری کی سازش سے بچھڑے کو اپنا معبود بنالیا۔ جس پر یہودی بہت زیادہ شرمندہ ہوگیا تھا۔
آج ہم نے اپنے عقیدے ومسلک کا دفاع نہیں کرنا بلکہ اپنی اصلاح کرنی ہے۔ اقبال نے کہاکہ” علماء و مشائخ کا احسان ہے کہ ہم تک دین اسلام پہنچایا مگر جس اللہ نے جبرائیل کے ذریعے حضرت محمدۖ پر یہ دین نازل کیا تھا جب وہ اس کی حالت دیکھیں گے تو حیران ہوں گے کہ کیا یہ وہی اسلام ہے؟۔
یہ انتہائی خطرناک ہے کہ اپنی اصلاح کی بجائے دوسروں کا کردار بھیانک پیش کرکے اپنی غلطی پر پردہ ڈالا جائے۔ بارہ ائمہ اہل بیت کی بدولت شیعہ بہتر ہوتے مگر بے جا تنقید نے ان کو دنیا کے سامنے تماشا بنادیا ہے۔ رسول اللہ ۖ کی وفات پر انصار کے سعد بن عبادہ نے اپنا لشکر جمع کرکے نبیۖ کا جانشین بننے کا اعلان کرنا تھا تو یہ درست تھا؟ اور اس کی وجہ سے بعد میں بھی حضرت سعد بن عبادہ نے کبھی حضرت ابوبکر و عمر کے پیچھے نماز تک نہیں پڑھی۔ کیا یہ ٹھیک تھا؟۔ حالانکہ حضرت سعد بن عبادہ السابقون الاولون کی پہلی صف میں کھڑے تھے۔ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس کے بیٹے مولانا محمد یوسف نے اپنے وفات سے تین دن پہلے ”اُمت پن” کے نام سے اتحاد امت کیلئے آخری تقریر کی تھی جس میں انتہائی دردناک اور غم آمیز لہجہ ہے۔ اس میں سعد بن عبادہ کے کردار کا ذکر ہے جس نے امت میں توڑ پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اسلئے ان کو جنات نے قتل کردیا، جب اللہ نے صحابی پر رحم نہیں کیا تو امت میں انتشار پیدا کریںگے تو ہماری خیر ہوگی؟۔ مولانامحمد یوسف کی یہ تقریر بہت مشہور ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ قلم اور کاغذ لیکر آؤ ۔ میں تمہیں ایسی چیز لکھ کر دیتاہوں کہ میرے بعد تم گمراہ نہ ہوجاؤ۔ حضرت عمر نے کہا کہ ہمارے لئے قرآن کافی ہے۔ (صحیح بخاری ) اگر انصار نے اپنی خلافت کیلئے ایک مجلس کا اہتمام کیا اور حضرت ابوبکر و عمر نے وہاں پہنچ کر اپنا مؤقف پیش کیا کہ ” خلافت قریش کا حق ہے اور نبی ۖ نے فرمایا: الائمة من القریش (امام قریش میں سے ہوں گے)” ۔ توسوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر نبیۖ نے مجمع عام میں یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح کردینی تھی۔ جب نبیۖ کی وصیت لکھوانے کی ضرورت نہیں تھی اور قرآن کافی تھا تو پھر یہ حدیث انصار مان سکتے تھے؟۔ لیکن انصار کی اکثریت نے بات مان لی اور حضرت ابوبکر سے ہنگامی بنیاد پر بیعت قابلِ قبول قرار دے دی گئی۔ صحابہ کرام نے نبیۖ کی تدفین پر خلیفہ مقرر کرنے کا مسئلہ مقدم کردیا لیکن وہ خود فرماتے ہیں کہ ابھی قبر کی مٹی ہمارے ہاتھوں میں تھی کہ خود کو فتنوں میں مبتلا محسوس کررہے تھے۔حضرت علی و ابن عباس اور کچھ دیگر صحابہ نے بھی اس اقدام کو ناگوار سمجھا کیونکہ عام قریش کے مقابلے میں اہل بیت کو زیادہ حق دارسمجھتے تھے۔ اہل بیت کے فضائل کی احادیث بھی ہیں اور ابوسفیان نے بھی علی سے کہا تھا کہ اگر آپ چاہو تو ابوبکر سے یہ مسند چھین لیتے ہیں لیکن علی نے نہیں مانا۔ پھر حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کو خلیفہ نامزد کردیا اور حضرت عمر نے خلافت کیلئے جو شوریٰ بنائی تھی اس میں ایک بھی انصاری نہ تھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت عثمان کا 40دنوں تک محاصرہ ہوا۔ پانی پہنچانے میں رکاوٹ اور نماز کیلئے نہیں جاسکتے تھے۔ حضرت علی نے کوفہ کو دارالخلافہ بنالیا ۔
پاکستان میں محمد علی جناح، لیاقت علی خان ،محمد علی بوگرہ، خواجہ نظام الدین ، حسین شہید سہروردی اور سکندر مرزا کا تعلق ہندوستان یا بنگال سے تھا۔فیروز خان نون اور ایوب خان کا تعلق پنجاب و پختونخواہ سے تھا۔ 75سالوں سے جو پاکستان کیساتھ ہوا اورسواچودہ سو سال سے جو اسلام کیساتھ ہوا، دونوں کی کہانی ایک ہے۔ قرآن میں انصار ومہاجرین کے مقام ومرتبہ میں فرق نہیں تھا مگر جس طرح سامری نے بچھڑے کو معبود بناکر حضرت موسیٰ وہارون کی موجود گی میں بنی اسرائیل کو آزمائش میں ڈال دیا اور اس کی وجہ سے حضرت موسیٰ نے پیغمبر بھائی حضرت ہارون کو داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑ لیا۔ اسی طرح سقیفہ بنی ساعدہ کی میٹنگ نے صحابہ کرام میں ایک وسیع تر مشاورت کا موقع گنوادیا تھا۔
فتح مکہ سے پہلے اور بعدکے صحابہ کرام میں قرآن وسنت نے فرق رکھا تھا۔ 30سالہ خلافت راشدہ کے بعد فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہونے والے حضرت حسن و حسین اور دوسرے صحابہ کی موجودگی میںفتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والے امیرمعاویہ نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ حضرت علی کیلئے باقاعدہ بیعت غدیر اور پھر حدیث قرطاس سے انحراف کا معاملہ سنی شیعہ کے درمیان متنازع فیہ ہے۔بنوہاشم پر حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی ترجیح پہلا مرحلہ تھا لیکن اس وقت خاندانی بنیاد پر قبضہ نہ تھا۔ بنوامیہ کے بعد بنوعباس واہل بیت کے درمیان ترجیحات کی بات آئی تو فیصلہ علی ، حسن اور حسین کی اولاد کے حق میں نہیں ہوابلکہ بنوعباس کے حق میں ہوا۔ دلیل یہ دی گئی کہ حضرت عباس نبیۖ کے چچا اور علی چچازاد تھے اور چچا کے ہوتے ہوئے چچا زاد وارث نہیں بن سکتا ہے۔ لیکن یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ پھر حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور بنوامیہ کا کیا بنے گا جو چچا تھے اور نہ چچازاد تھے؟۔ پھر جب سلطنت عثمانیہ قائم ہوگئی تو قریشی کی شرط بھی نظرانداز کی گئی تھی۔
اگر غدیر خم پر علی کی بیعت کا لحاظ رکھا جاتا۔ صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق قرآن کیساتھ دوسری بھاری چیز اہل بیت کو تھام لیا جاتا جس کی وضاحت ہے کہ اہل بیت سے ازواج مطہراتیہاں مراد نہیں تو بھی بات ہوتی، حدیث قرطاس لکھنے دی جاتی تو بھی معاملہ بن جاتا۔ خلافت راشدہ کے دور میں عثمان کی تخت خلافت پر شہادت ، علی کا دارالخلافہ چھوڑ دینا اور پھر بنوامیہ وبن عباس کا خاندانی بنیاد پر قبضہ کرنا بالکل بھی معقول بات نہیں تھی لیکن بعد میں جب سلطنت عثمانیہ، مغلیہ سلطنت، بادشاہوں ،خانقاہوں ،مدارس ، درگاہوں اور جماعتوں کی روش بھی موروثی بن گئی تو ایک طرف خلافت راشدہ سے زیادہ بنوامیہ کا دفاع کیا گیا اور دوسری طرف خلافت راشدہ پر ایمان کو متزلزل کردیا گیا۔ حالانکہ ایران میں امام آیت اللہ خمینی کے بعد اس کی اولاد کوجانشین نہیں بنایا گیا۔ جب اہل بیت کے چھٹے امام جعفر صادق کی اولاد اورماننے والوں میں انکے بڑے بیٹے اسماعیل اور چھوٹے بیٹے امام موسیٰ کاظم کے درمیان خلافت کے مسئلے پر اختلاف ہوا تھا تو شیعہ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ اسماعیلی شیعہ جماعت خانے میں نماز کو ممنوع قرار دیتے ہیں اور اثناعشریہ کی جگہ سنی مکتبۂ فکر کی مساجد میں نماز پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب امام جعفر صادق کو اقتدار نہیں ملا تھا تب بھی ان کے انکے پیروکار اور اولاد تقسیم ہوگئے تو پھر صحابہ کیلئے بھی ان کو نرم گوشہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ جب علی، حسن، حسیناور دیگر ائمہ اہل بیت کے قریبی ساتھیوں سے شیعہ خوش نہیں تھے تو نبیۖ کے ساتھیوں سے بھی خوش نہیں ہوسکتے ہیں۔
ہمیں ایک نکتہ سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جب ائمہ اہل بیت کو مظلوم سمجھنے کے باوجود بھی اہل تشیع کا ایک بڑا طبقہ اپنے ہی دوسرے طبقے کو مشرک اور نصیری کہتا ہے تو پھر اگر ان کو خلافت ملتی تو سبھی نصیری بن جاتے۔ جس پیریڈ میں بنی اسرائیل بچھڑے کو معبود بنانے سے گمراہ ہوگئے تھے تو اس میںوہ حضرت ہارون کی صحبت میں تھے۔ حضرت موسیٰ نے ان کو مشرک بنتے دیکھ کر حضرت ہارون کی داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑلیا تھا۔قدرت نے مہربانی کی کہ امت مسلمہ کی تقدیر میں شرک کی جگہ تفریق کا بیج بودیا تھا۔نبیۖ نے فرمایا کہ کسی قسم کا عذاب امت پر نہیں آئے گا لیکن آپس کی تفریق وانتشار سے بچانے کا اللہ نے وعدہ نہیں کیا ہے۔ تبلیغی جماعت کے مرکز بستی نظام الدین انڈیا میں مولانا الیاس کے پڑپوتے مولانا سعد اور رائیونڈ کے درمیان بھی انتشار ہے اور مولانا حق نواز جھنگوی کے بیٹے کو بھی سپاہ صحابہ نے سائیڈ لائن پرلگادیاہے۔
حضرت علی نے فرمایا تھا کہ ” مور مرغ کی طرح مورنی پر چڑھتا ہے” لیکن مور حرام ہے یا حلال ہے؟۔ اس پر شیعہ اثناعشریہ کے مجتہدین کا اتفاق نہیں ہے اور دونوں اپنی اپنی روایات ائمہ اہل بیت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ بہت سارے دیگر مسائل وفرائض میں بھی اہل تشیع میں حلال وحرام اور جائز وناجائز کا اختلاف ہے۔ حالانکہ تین سو برس تک ائمہ اہل بیت کا سلسلہ موجود تھا۔ سنی مکتبۂ فکر کے ائمہ بھی اہل بیت کے شاگرد تھے۔ ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلانے سے زیادہ اپنی اصلاح اور حقائق کی طرف رُخ کرنے سے معاملہ بنے گا۔ جب خمینی کے بعد ایران میں جمہوریت ہے اور نبیۖ کے بعد خلافت راشدہ نے جمہوری انداز میں خلفاء مقرر کئے تھے تو اس پر بات ہوسکتی ہے کہ کونسی جمہوریت بہتر ہے اور کونسی بہتر نہیں ہے لیکن جمہوری نظام کے ذریعے بیعت خلافت سے معاملہ حل ہوسکتا ہے۔ مذہبی جماعتوں ، مدارس اور خانقاہوں نے دو دو انچوں کے گھروندے بناکر اپنے بال بچوں کی روزی کا بندوبست کر رکھا ہے اور ہر فریق اپنے عیش وعشرت اور اللے تللے پر خوش ہے لیکن امت مسلمہ کی اجتماعیت کی کوئی بھی فکر نہیں کرتا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ” اہل غرب ہمیشہ حق پر رہیں گے ”۔ (صحیح مسلم)۔ امریکہ میں جمہوری نظام کے ذریعے سے بارک حسین اوبامہ ایک سیاہ فام اجنبی مسلمان کا بیٹا دو مرتبہ صدر بن سکتا ہے۔ لندن کا میئر ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کا بیٹا بن سکتا ہے تو حق کی روایت اسلام نے دنیا میں ڈالی تھی جب بڑے بڑے سرداروں سے سیدنابلال حبشی کا مقام بڑا تھا۔
پاکستان نے جنرل ایوب خان سے پہلے میر جعفر کے پڑپوتے سکندر مرزا سے پہلے جن لوگوں کو اپنا حکمران تسلیم کیا وہ بھی بڑی قربانی اور اچھائی تھی اور پھر ایوب خان سے پرویزمشرف تک فوجی حکمرانوں اور انکے کٹھ پتلی سیاستدانوں کو آج تک برداشت کررہے ہیں تو بھی بڑی بات ہے لیکن اب عوام کے جم غفیر کو نکل کر خانقاہوں سے رسم شبیری ادا کرنا ہوگی۔ بیعت کے ذریعے سے سچوں کو پارلیمنٹ تک پہنچانا ہوگا ۔ اللہ نے حکم دیا کہ یا ایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین ”اے ایمان والو! اللہ کیلئے تقویٰ اختیار کرو اور سچو ں کیساتھ ہوجاؤ”۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹے اور سچوں میں تفریق کرنا اب کوئی مسئلہ نہیں رہاہے۔ نبیۖ نے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا تھا، کسی سے زبردستی سے زکوٰة نہیں لی تھی اور نہ کسی کو زبردستی سے نماز پڑھنے پر مجبور کیا تھا اور افغان طالبان نے بھی ملاعمر کے وقت سے اپنے اندر بہت تبدیلی پیدا کرلی ہے اور اب مزید بھی بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگائیںگے۔ انشاء اللہ العزیز۔
پاکستان کا ماحول ، ریاست، علماء ومشائخ اور سیاستدان وسیاسی کارکن اور عوام دنیا بھر میں بہت زبردست اور الگ تھلگ ہیں۔ یہ سبھی امامت کے حقدار ہیں لیکن اب بہت نااہل بھی بن گئے ہیں۔JUIکے سابق سینٹر صوبائی امیر مولانا گل نصیب خان نے کہا کہ ” مولانا فضل الرحمن نے اسرائیل مردہ باد کا نعرہ لگایا ہے اسلئے مسلمان نہیں رہا۔ اسرائیل یعقوب کا نام تھا”۔جن چرواہوں اور نوابزادوں کو جمعیت میں شامل کیا گیا پھر ان کا کیا ہوگا؟، ذرا سوچئے توسہی!۔
یزیدکے دور میں شہداء کربلا کیساتھ کیا ہوا تھا؟۔ اور خان عبدالقیوم نے بھی بابڑہ میں ایک کربلا برپا کیا تھا۔ روس کی مخالفت کے نام پر پیسے لیکر مجاہد پیدا کئے اور امریکہ سے پیسہ لیکر مجاہدین کو سپرد کیا۔ بیرونِ ملک جائیدادیں بنائیں۔ اب سو چوہے کھا کر بلی حاجن بن گئی ہے۔ کہیں لگڑ بگاکے شکار نہ ہوجائیں۔ وقت کی مہلت سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتاہے تو ”لمحوں نے خطاء کی ہے صدیوں نے سزا پائی ” کے مصداق بھی بن سکتے ہیں۔ اگر فتح مکہ کے بعد صحابہ کرام مقدس تھے تو فتح مکہ سے پہلے تھوڑے لوگوں کی وجہ سے سب اچھے بن گئے۔ پاکستان کا تھوڑا اشرافیہ ٹھیک نہیں، عوام اور اداروں کی اکثریت بڑی اچھی ہے اور جب خوشگوار انقلاب آجائے گا تو پوری دنیا کی کایا بھی پاکستانی پلٹ دیں گے اور افغانستان، ایران، بنگلہ دیش اپنے بلاک کا حصہ بنیںگے اور عرب ہمارا ساتھ دیں گے۔ ہندوستان دوستی سے مسلمان ہوجائیگا اور روس نظام سے دوست بن جائیگا۔ کچھ اچھاکرکے ہی اچھا بن سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ملک اور غریب کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہوگا۔اسلام کی یہی خوبی سب سے زیادہ دنیا کیلئے قابل قبول ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

جیسے دوسرے مذاہب مسخ کردئیے گئے اسی طرح اسلام بھی مسخ کردیا گیا۔

جیسے دوسرے مذاہب مسخ کردئیے گئے اسی طرح اسلام بھی مسخ کردیا گیا۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اسلام کی ایسی حالت مولوی نے کردی جیسے لاوڈ اسپیکر پر خراب سبزی اور پھل ریڑی پر بیچنے کی ہوتی ہے کہ کچھ لاچار وغریب لوگ اسکے خریدار ہوتے ہیںمگراور کوئی نہیں پوچھتا

تازہ پھل خوش رنگ، خوش ذائقہ اور صحت بخش ہوتے ہیں لیکن جب ان کا حلیہ بگاڑ دیا جائے، باسی ، بدرنگ اور بدذائقہ ہوجائیں تو وہ مضر صحت بن جاتے ہیں۔ فیروز بھائی نے بتایا کہ بھارت میںان کا گاؤں غریب تھا، سبزی والا پکارتا تھا کہ خراب سبزی لے لو۔ آج مختلف فرقوں، جماعتوں، مسلکوں اور دانشوروں کا اسلام انسانوں کیلئے قابلِ التفات نہیں ۔ایک مولوی نے گاؤں میں نمازِجمعہ کی تقریر کرنے سے گریز شروع کردیا۔ عربی خطبہ پڑھ لیتا تھا، پہلے لوگ خوش تھے کہ جلد جان چھوٹ جاتی ہے لیکن پھر ان میں مولوی صاحب کی سریلی آوازنے تشنگی کا احساس پیدا کردیا۔ ہاتھ جوڑ کر لوگوں نے فرمائش کی کہ مولوی صاحب کچھ ہمیں بتائیں، وعظ کریں، نصیحت کریں،ہماری تعلیم وتربیت کریں۔ جب مولوی صاحب نے دوبارہ منبر پربیٹھ کر تقریر کرنیکا فیصلہ کیا تو جمعہ کے دن عوام سے مسجد کھچاکھچ بھر گئی۔ مولوی صاحب کے دل ودماغ پر یہ بات چھاگئی تھی کہ یہ لوگ مردہ ضمیر بن چکے ہیں۔ ان کی آنکھیںہیں مگر اس سے دیکھتے نہیں۔ انکے کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں۔ ان کے دل ہیں مگر اس سے سمجھتے نہیں۔ ان کی مثال جانوروں کی بن چکی ہے بلکہ ان سے بھی یہ لوگ بدتر حالت پر پہنچے ہیں۔ چنانچہ مولوی صاحب نے جب تقریر شروع کی تو لوگ ورطہ حیرت میں پڑگئے۔ فرمایا : حاضرین مجلس! میری بات غور سے سن لو!۔ دوسروں تک بھی میرایہ پیغام پہنچادو۔ آج کے بعد زنا کرو، قوم لوط کا عمل کرو، قوم ثمود اور قوم عاد کا عمل کرو۔ جو غلط کام جی میں آئے ،بالکل بلاسوچے سمجھے کر گزرو۔ چوری ، ڈکیتی، قتل، رشوت اور جس گناہ کا بس چلے تو موقع ہاتھ سے مت جانے دو۔ مولوی نے وہ ایک ایک برائی گن گن کر اس پر عمل کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے اپنی تقریر ختم کی تو لوگ بہت حیران تھے۔ نمازِ جمعہ کے بعد لوگوں نے پوچھا کہ آج آپ کو کیا ہوا تھا کہ ساری باتیں الٹ کررہے تھے؟۔ مولوی نے کہا کہ تمہیں معلوم تھا کہ یہ سب باتیں غلط ہیں؟۔ انہوں نے کہا کہ بالکل ۔ کچھ تو پہلے سے پتہ تھیں اور کچھ آپ سے سنی تھیں کہ غلط ہیں۔ مولوی نے کہا کہ پھر تمہارا عمل کیا تھا؟۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان سب منکرات میں ملوث ہیں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ جب آپ کو سب معلوم ہے اور منع نہیں ہوتے تو خوامخواہ مجھے کیوں بھونکواتے ہو؟۔
جب انسانوںپر برائی کے کاموں سے موت کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے تو اللہ بھی قرآن میں کبھی بنی اسرائیل سے فرماتا ہے کہ ” اپنے نفسوں کو قتل کرو”۔ کبھی قرآن کے مخالف دشمنوں سے فرماتا ہے کہ ” اپنے غصے کے سبب مرجاؤ”۔ انسانی ضمیر مردہ ہوجاتا ہے تو اس کو جگانے اور بیدار کرنے کیلئے حکمت عملی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اسلام نے انسانوں کو جان ، مال اور عزت کا تحفظ دیا ہے لیکن جب اسلام پر عمل نہیں ہوگا تو جان ، مال اور عزت کو تحفظ نہیں مل سکتا ہے اور آج کشمیراور فلسطین کے مسلمانوں کی بات صرف نام کی حد تک ہے۔ مسلمان دہشتگردوں سے مسلمانوں کی جان ، مال اور عزتوں کو تحفظ حاصل نہیں تو امریکہ کے افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کی کاروائی پر کیا ماتم کیا جائے؟۔سراج الحق کہتا ہے کہ سود کو اللہ نے اپنی ماں سے 36مرتبہ زنا کے برابر گنا ہ قرار دیا ہے۔
لاہور کے مولانا محمد مالک کاندھلوی نے کہاتھا کہ ” جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء اسلام کے مطابق ہے۔ پہلا مارشل لاء حضرت ابوبکر صدیق نے لگایا تھا”۔ حضرت ابوبکر صدیق نے جبری زکوٰة لینے کا حکم نافذ کیا تھا اور چاروں فقہی ائمہ امام ابوحنیفہ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے جبری زکوٰة کو ناجائز قرار دیا لیکن جبری نماز پڑھانے کو فرض قرار دیا۔ جنرل ضیاء الحق نے زکوٰة کے حکم پر عمل کو زندہ کیا یا اس کو مزید ملیامیٹ کرکے رکھ دیا؟۔ جب جنرل ضیاء الحق نے بینکوں سے زکوٰة کی کٹوتی کا حکم جاری کیا تو اہل تشیع نے احتجاج کیا جس کی وجہ سے شیعہ کے اکاؤنٹ سے زکوٰة کی کٹوتی روک دی گئی اور پھر ایسے دیوبندی عالم کو بھی ہم جانتے ہیں جس نے اپنی بیگم کو جھوٹ سے شیعہ لکھ کر اکاونٹ کھولا، تاکہ اس کی زکوٰة نہیں کٹے۔ شیعوں کی اس تحریک سے لوگوں نے سمجھا کہ شاید وہ زکوٰة کے منکر ہیں۔ حالانکہ زکوٰة کے منکر کو کون مسلمان سمجھ سکتا ہے؟۔
اسلام کے اجنبی بننے کی کہانی تو بہت پہلے شروع ہوئی تھی۔ جن ائمہ فقہ نے حضرت ابوبکر صدیق سے جبری زکوٰة پر اختلاف کیا اور نماز کیلئے جبری تصور گھڑ لیا وہ ہدایت کے مقابلے میں گمراہی کی بڑی سیڑھی پر چڑھ گئے تھے۔ جنرل ضیاء الحق اور اس کی تائید کرنے والے مفتی محمد تقی عثمانی ومفتی محمد رفیع عثمانی نے اسلام کو اجنبیت کی آخری حد تک پہنچانے میں زبردست کردار ادا کیا۔ سود اور زکوٰة ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ 10لاکھ کی رقم پر سالانہ 25ہزار زکوٰة بنتی ہے۔ اور اگر 10لاکھ پر بینک سے ایک لاکھ سود ملے تو یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی بالکل اُلٹ اور ضد ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے جب بینکوں سے زکوٰة کی کٹوتی کا حکم جاری کیا تو 10لاکھ پر ایک لاکھ سود کی رقم ملتی تھی اور 25ہزار زکوٰة کے نام سے کٹتے تھے۔ نتیجے میں اصل رقم 10لاکھ اپنی جگہ پر محفوظ رہتی تھی اور 75 ہزار مزید سود کی رقم بھی ملتی تھی اسلئے زکوٰة کی ادائیگی کی جگہ سود میں تھوڑی کمی تھی۔
ایک پانچویں جماعت کے بچے اور ان پڑھ شخص کو بھی یہ معاملہ سمجھ آسکتا تھا اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود نے مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی کو سمجھایا بھی تھا لیکن جب انسان کے دل ودماغ پر مفادات کے پردے پڑجائیں تو اس کی آنکھیں، کان اور دل سب چیزیں کام کرنا چھوڑدیتی ہیں اسلئے کہ دماغ میں اپنا مفاد اٹکا ہوا ہوتا ہے۔ کہاں حضرت ابوبکر کی طرف سے جبری زکوٰة کی ہدایت؟ اور کہاں سود کے نام سے زکوٰة کی کٹوتی اور زکوٰة کی عدم ادائیگی کی بڑی بدترین گمراہی ؟،دونوں مارشل لاء میں آسمان وزمین کا فرق تھا۔ مولانا فضل الرحمن کہتا تھا کہ ”مدارس یہ زکوٰة نہ لیں ، یہ آب زم زم کے لیبل میں شراب کی بوتل ہے”۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے کروڑوں روپے ، مدرسے کی لائبریری اور ایک بہت بڑا پلاٹ لیکر فتویٰ جاری کردیاتھا۔ جب بات مالی مفادات کی آتی ہے تو اس پر علم وفہم کے اختلاف کی بات کرنا بھی فضول ہے۔حاجی عثمان ایک بڑے اللہ والے تھے اور ان کے مریدوں کا صاف ستھرا کاروبار تھا لیکن جب مفتی محمد تقی عثمانی نے اس میں یہ گندے پیسے ڈال دئیے تو کاروبار سودی لین دین میں بدل گیا۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے ان کے ساتھ مل کر انتہائی بیہودہ اور ناممکن الزامات بھی لگا دئیے تھے۔ پہلے مالدار لوگ زکوٰة کو فرض سمجھ کر ادا کرتے تھے تو غریبوں کو اس کا بہت فائدہ پہنچتا تھا۔ دیندار لوگ بینکوں کا سود بھی علماء کو لیٹرین بنانے کیلئے دیتے تھے۔پھر جب زکوٰة کی ادائیگی بھی نہیں رہی اور حکومت کے مختلف اداروں میں زکوٰة کے نام پر وہ سودی رقم بھی حرام خوری کیلئے استعمال ہونے لگی تو پاکستان سے دینداری کا نام ونشان بھی ایک خول کی طرح رہ گیا لیکن اس میں مغز نہیں رہا۔ اب یہ معاشرہ بے روح وجان لاش کی طرح بن کررہ گیاہے۔
پھر کرائے کے مجاہدین نے روس کے جانے کے بعد افغانستان میں بڑی بدمعاشی اور غنڈہ گردی قائم کی جس کے خلاف طالبان میدان میں آگئے تھے۔ طالبان نے جبری نماز کے فقہی مسئلے پر عمل کرکے جس کو اسلام کی نشاة ثانیہ سمجھ لیا تھا وہ تصور بھی مزید دنیا میں اسلام کا تماشا کرگیا۔ اسی طرح سنگساری کرنے کا مسئلہ دنیا کیلئے بالکل ناقابلِ قبول تھا۔ جس کی وجہ سے طالبان کے مثالی امن کو بھی ایک خوف کی علامت قرار دیا گیا۔ تصاویر پر پابندی بھی دنیا کیلئے عجوبہ تھی۔ زبردستی داڑھی رکھوانے کا عمل بھی تاریخ اسلامی کی پہلی نادر چیز تھی۔ عورتوں پر زبردستی سے شٹل کاک کی پابندی اور بچیوں کی تعلیم پر پابندی بھی ناقابل فہم تھی۔
افغان طالبان نیٹو افواج کے انخلاء اور برسر اقتدار آنے کے بعد اگرچہ کچھ تو بدل گئے ہیں لیکن جدت اور قدامت پسندی کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ افغان طالبان اور دارلعلوم دیوبند کے اساتذہ کے درمیان ایک اعتماد کا رشتہ ہے اور پاک فوج سے بھی افغان طالبان کو زبردست مدد ملتی رہی ہے۔ کچھ کم بختوں نے اپنے مفادات اٹھائے اور بے ضمیری کے ریکارڈ قائم کئے لیکن ایسے لوگ ہر معاشرے، طبقے اور جگہ میں ہوتے ہیں۔ جب نیٹو کی سپلائی کراچی سے کابل جاتی تھی تو پاکستان کے حدود میں ان کو زیادہ خطرات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔قطر سے ڈرون اُڑ سکتے ہیں تو قطر سے طالبان کابینہ نے بھی پرواز کرکے افغانستان کے اقتدار تک پہنچنے تک براستہ پاکستان اڑان بھری۔ اسامہ بن لادن پرحملہ کیا گیا تو امریکہ کو پاکستان اپنی سرزمین پر کاروائی سے نہیں روک سکا۔ بھارت نے میزائل چھوڑ دیا تو پاکستان نہیں روک سکا۔ امریکہ کے خلاف جو جنگ طالبان نے افغانستان میں لڑی ہے وہ دراصل پاکستان ہی میں لڑی گئی ہے۔ پاکستان کا ایک ایک فرد سرکاری ،غیر سرکاری، مرد ، عورت، بوڑھا، جوان اور بچہ نے کھل کر طالبان کا ساتھ دیا۔ اس کی سزا بھی قوم نے بھگت لی۔ اب اگر طالبان کوپاک فوج سے لڑایا گیا جس کے بھرپور خدشات ہیں تو پھر اس خطے کے باسی نیٹو لڑائی کو بھول جائیںگے۔ شیروں ، چیتوں، بھیڑیوں اور لگڑ بگھا کی لڑائی میں جنگل کے معصوم جانوروں کی خیر نہیں ہوگی۔ فضائی حملوں اور دہشت گردانہ کاروائیوں میں آبادیوں کو نقصان پہنچانے میں جو ہولناک مناظر ہوں گے اس کا فائدہ انہی قوتوں کو جائے گا جن کا منصوبہ ہے کہ یہاں کے وسائل پر قبضہ جمایا جائے ۔
اسلام دشمن طاقتوں کو سب سے بڑا خطرہ اصلی اسلام سے ہے اور طالبان بھی اصلی اسلام کا نام لینے سے نہ صرف ڈرتے ہیں بلکہ مکمل توبہ بھی کرچکے ہیں اور اصلی اسلام پوری دنیا میں خلافت کے نظام کا قیام ہے۔اغیار دہشت گردوں سے خوف زدہ نہیں بلکہ دہشت گرد پیدا کرتے ہیں۔ دہشت گردی پر مجبور کرتے ہیں تاکہ مسلمان آپس میں لڑ جھگڑ کر عالمی اسلامی خلافت کے قیام سے پہلے نابود ہوجائیں یا اس قابل نہیں رہیں کہ وہ خلافت نافذ کرسکیں۔ ان کے نزدیک دشمنی کی بنیاد یہ ہے کہ مسلمان زبردستی سے اسلام قبول کرنے پر مجبور کریںگے یا جزیہ لیںگے اور اگر ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات نہیں مانی جائے تو عورتوں کو لونڈیاں اور مردوں کو غلام بنایا جائیگا۔ جب تک مسلمان اس تصور سے دستبردار نہیں ہوتے ہیں اس وقت تک غیر مسلموں نے اسلام اور مسلمان دشمنی کا تصور قائم رکھنا ہے۔ شیعہ سمجھتے ہیں کہ برمودہ ٹرائی اینگل سے امام مہدی غائب برآمد ہوں گے اور وہ اصلی اسلام کو دنیا میں نافذ کریںگے اور سنی سمجھتے ہیں کہ کوئی عام مسلمان خلافت قائم کرکے امام مہدی کا کردار ادا کریںگے۔ اغیار نے یہ تصور نوٹ کرلیا ہے اور شیعہ سنی تفریق کے علاوہ ممالک ، علاقوں ، قوم پرستی اور مختلف بلاکوں میں بٹے رہنے کو غنیمت سمجھ رکھا ہے۔ اگر چہ کسی بھی ملک میں خلافت کے قیام کی ہمت نہیں ہے اور ترکی وغیرہ نے اسرائیل تک کو تسلیم کیا ہے لیکن طالبان کو تسلیم کرنے سے بھی اسلامی ممالک کتراتے ہیں اور طالبان کو بھی مسلم ممالک سے زیادہ اغیار کے تسلیم کرنے کا فائدہ لگتا ہے۔ جب طالبان کو سعودی عرب، عرب امارات اور پاکستان نے تسلیم کیا تھا تب بھی امریکہ ونیٹو نے کیا حشر کیا؟۔ عراق ولیبیا، شام ویمن اوردیگر ممالک کا کیا حشر ہوا؟۔ پاکستان کٹھ پتلی کی طرح استعمال ہوا لیکن پھر بھی کیا حشر ہوا؟۔ اگر دیکھا جائے تو اسلامی ممالک کی عوام کو بھی اسلامی نظام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ طالبان اس خوف سے انتخابات بھی کرانے کو تیار نہیں ہیں۔ پاکستان میں مذہبی پارٹیاں اپنے اسلام کو چھوڑ جائیں تو بھی عوام کیلئے ان کا کردار قابلِ قبول نہیں ۔ عورت کی آواز کو پردہ کہنے والوں کی خواتین کو قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں اور ٹی وی اسکرین پر دیکھ کر طالبان کو عبرت پکڑنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اب بھی علماء خود کو محکوم سمجھتے ہیں۔ جب سود کے طاغوتی نظام کے خلاف ناکامی ہوئی تو سود کو اسلامی قرار دے دیا۔
امت مسلمہ پر پوری دنیا میں موت کی سی کیفیت طاری ہے۔ ان میںروح دوڑانے کیلئے ایسے اقدام کی ضرورت ہے کہ جس سے ان میں زندگی کی رمق دوڑ جائے۔ انڈوں کو مہینوں، سالوں اور صدیوں محفوظ کرکے رکھ لو تو وہ مردہ ہی رہیں گی لیکن جس دن اس کو مطلوبہ حرارت مل جائے اور پھر اس کو مسلسل قائم بھی رکھا جائے تو ٹھیک 21دن بعد چلتے پھرتے ، کھاتے پیتے اور دوڑتے ہوئے چوزیں دکھائی دیں گے۔ جن برائیوں کا پتہ ہونے کے باوجود بھی لوگ اس کے مرتکب بنتے ہیں تو وہ وعظ ونصیحت اور تلقین وتقریر سے نہیں نظام بدلنے سے رک سکتے ہیں۔ حلالہ ایک ایسی لعنت ہے کہ جو پوری دنیا کے کسی مذہب، ملک اور قوم کیلئے قابل قبول نہیں لیکن طالبان کے اساتذہ اس کے مرتکب ہیں۔ جب فیصلہ ہوجائے کہ حلالے کا تصور غلط ہے اور قرآن نے حلالے کے بغیر رجوع کو واضح کیا ہے تو اُمت میں زندگی کی حرارت پیدا ہوجائے گی اور پھر عورت کے حقوق کے حوالے سے سب چیزیں اجاگر ہوں گی تو امت مسلمہ اٹھ کھڑی ہوگی۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف نے 9/11کے 5دن بعد 16ستمبر 2001کو علماء و مشائخ اور صحافیوں کو بلایا تو مجھے بھی دعوت دی۔ میں نے کہا کہ(1) جب تک طالبان پر جرم ثابت نہ ہو تو ان کو سزا دینا غلط ہے۔ یہی بات دوسروں نے بھی کی تھی۔ (2) امریکہ کے کہنے پر ہم نے طالبان کو بنایا ۔ وہ بینظیر کا دور تھا اور نصیر اللہ بابر وزیر داخلہ تھے۔ تو اب ہمارے لئے یہ بے غیرتی بھی ہے کہ ان کے کہنے پر طالبان سے لڑیں۔ (3) یہ اسلام کے خلاف ہے کہ مسلم ملک پر غیر مسلم کا اتحادی بن کر لڑیں۔ پرویز مشرف نے کہا کہ امریکہ ہمیں کشمیر دلادے گا اور ایٹمی پروگرام میں مدد کرے گا۔ میں نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن امریکہ کے پیچھے اسرائیل ہے اور اسرائیل پاکستان کا اصل دشمن ہے اسلئے ایک دن ہماری باری بھی آئے گی۔ ڈاکٹر اسرار نے اپنی آنکھیں نکال نکال کر بہت تفاخر کے ساتھ یہ باتیں کہیں لیکن کہنا یہ چاہیے تھا کہ امریکہ کے کہنے پر جہاد بھی بے غیرتی تھی، طالبان کو کھڑا کرنا بھی بے غیرتی تھی اور اب اس بے غیرتی کے تیسرے مرحلے میں پہنچنا بھی بے غیرتی ہے۔ ہندوستان کیخلاف امریکہ کا اس طرح ساتھ دینا بھی بے غیرتی ہے۔ اپنے مفادات کیلئے دوسروں کو قربان کرنا اگر بے غیرتی نہیں ہے تو غیرت پھر کس چیز کا نام ہے؟۔ علامہ اقبال نے کہا تھا
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
اقبال کے شاہینوں نے خود کو طوفان سے آشنا کرنے کے بجائے دوسروں کو آزمائش میں ڈال کر اپنی بچت کا سامان کیا ہے۔ جب شہر میں بارش زیادہ ہوتی تو نبی ۖ فرماتے کہ ہم پر نہیں ہمارے ارد گرد پر بارش برسا۔ ہمارے کم عقل یہ دیکھ رہے تھے کہ ارد گرد والے ڈوب رہے ہیں پھر بھی یہی دعا کررہے تھے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بینظیر بھٹو صاحبہ سے کہا عرب افغان عورتوں کو لونڈی بنانا چاہتے ہیں۔ خان عبد الولی خان

بینظیر بھٹو صاحبہ سے کہا عرب افغان عورتوں کو لونڈی بنانا چاہتے ہیں۔ خان عبد الولی خان

عبدالولی خان قائدANPکی تقریر نیٹ پر ہے جس میں قومی قائدین، منٹو صاحب اور محمودخان اچکزئی وغیرہ سے خطاب کیا کہ جنرل ضیاء الحق سے میں نے کہا کہ ” تم لوگوں کی اس ملک سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ اپنے باپ دادا کے ملک کو چھوڑ آئے ہو اور باہر جائیدادیں بنائی ہیں، جب تم پر مشکل پڑے گی ، بات نہیں بنے گی تو آپ اس ملک کو چھوڑ کر چلے جائیں گے۔مرنا اور جینا توہم نے ہے ، ہمارے بچوں نے یہاں پررہنا ہے اسلئے جن کا ملک ہے ،انہوں نے اس کا سوچنا ہے۔میں نے وزیراعظم صاحبہ (بینظیر بھٹو) سے پو چھا کہ ہمارے ملک کے اتنے مسائل ہیں۔ روٹی نہیں،کپڑا نہیں، تعلیم نہیں ، صحت نہیں۔ میں نے کہا کہ پینے کا پانی نہیں ہے۔اسلام آباد شہر میں لوگ قمقموں کے نیچے اور غاروں میں زندگی گزارتے ہیں۔ شرم آنی چاہیے ہم کو اپنے مسائل کی فکر نہیں ہے اور ا.فغانستان کی فکر پڑگئی ہے۔ میں نے ادب سے پوچھا کہ حضور ! کیا افغانستا.ن ہمارا پانچواں صوبہ ہے؟۔ایک خود مختار حکومت ہے۔ تو کہنے لگے کہ ہم تو اس میں انوال نہیں ۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ میں نے کہا: اس دن میں اسلام آباد گیا تو پتہ لگا کہ اسلام آباد میں دو پارلیمنٹیرین بیٹھے ہوئے تھے ۔ تومیں نے پوچھا کہ میں کونسی پارلیمنٹ میں کھڑا ہوں ۔ دوسرا پارلیمنٹ کہاں ہے؟۔ تو کہنے لگے کہ جی بھول جائیے،وہ تو کابل کا پارلیمنٹ بیٹھا ہے اسلام آباد میں۔ کبھی ایسی چیز دیکھی کہ کابل کا پارلیمنٹ اسلام آباد میں بیٹھے؟۔ اگر یہ بات آپ چلائیںاس کیلئے جواز ڈھونڈیں تو کل اگر کابل میں پاکستان کا پارلیمنٹ بیٹھے۔ اگرکل آپ کا پارلیمنٹ ایران میں بیٹھے اور سب سے خطرناک بات ہے کہ کل آپ کا پارلیمنٹ دلی میں بیٹھے تو آپ کی کیا حالت ہوگی؟۔
اس نے کہا کہ آپ یہ کیا کررہے ہیں؟۔ میں نے کہا کہ ان باتوں کا آپ کو سنجیدگی سے نوٹس لینا پڑے گا۔یہ جو ہم نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں پارلیمنٹ میں میں نے کہاکہ ہمارے پشتو میں کہتے ہیں کہ جب گدھے کا سامنا شیر سے ہوتا ہے تو گدھا اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے اور سمجھتاہے کہ اگر گدھا شیر کو نہیں دیکھتا تو شیر بھی اس کو نہیں دیکھتا ہے لیکن اس کا نتیجہ جو ہوگا وہ ظاہر ہے۔
آج اس ملک میں دو واضح مسلک قوم کے سامنے آئے ہیں۔آپ نے بھی فیصلہ کرنا ہے کہ کونسا راستہ اختیار کرنا ہے۔ ضیاء الحق نے اسلام آئیزیشن کے سلسلے میں اور امریکہ کے کہنے پر اپنی خارجہ پالیسی کو صرف اور صرف انقلاب روس اور انقلاب ا.فغانستان کے خلاف یعنی انقلاب روس اور انقلاب افغانستا.ن کے خلاف ایک ہی اسلحہ ہے انکے پاس اور وہ اسلام کا اسلحہ ہے اوریہ اسلامی نہیں ہے کیونکہ میں نے پہلے پوچھا تھا ۔جنرل ضیاء نے مجھ سے کہا کہ میں سچا پکا متقی پرہیزگار مؤمن ہوں۔ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بناکر روس کا خاتمہ کروں گا۔ میں نے کہا کہ حضور ! آپ روس کے خلاف ہیں یا اس کے نظرئیے کے؟۔ اس نے کہا کہ میں اس کے نظرئیے کا مخالف ہوں۔ میں نے کہا کہ پھر چین کا نظریہ بھی وہی ہے لیکن چین کے اعلیٰ وفد آتے ہیں تو تم انکے سامنے دخترانِ اسلام کو نچواتے ہو؟۔تمہیں امریکہ نے جو حکم دینا ہے اسی پر عمل کرنا ہے۔ اب توروس بھی افغا.نستان سے گیا اور چین وروس کی دوستی ہورہی ہے اب تمہارا کیا بنے گا؟ اور روس کے خلاف کیا لڑوگے ، بھارت سے پہلے پنجہ آزماچکے ہو۔ دس ہزارکے سامنے ایک لاکھ فوجیوں نے ہتھیار ڈال دئیے اور تمہاری پتلونیں وہیں رہ گئیں، اب قوم واضح لکیر میں تقسیم ہے ۔ ایک وہ ہیں دلی کے لال قلعے پرجھنڈا لہرانے کی بات کرتے ہیں اور دوسر ے جو ہندوستان سے صلح کی بات کررہے ہیں۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ” ولی خان کو غلط فہمی ہوئی ہے، ہم ا.فغانستان کے جہا.د نہیں اسلام کے جہاد کی بات کررہے ہیں اور تاشقند بھی فتح کریںگے”۔ یہ جو فاتح کا جشن منارہے ہیں، ان سے اب کمانڈرز نہیں سنبھل رہے ہیں۔اسلئے کہ امریکہ اب براہ راست کمانڈروں کو اسلحہ دے رہاہے۔ اب یہ لوگ جہاد بھی نہیں کریںگے اسلئے کہ مال ملنا بند ہوگیا تو جہاد کو کیا کرنا ہے؟۔ عالمی سامراجی قوتیں کسی پر بکتی نہیں ہیں بلکہ اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں کو استعمال کیا اور جب ضرورت نہیں رہی تو ان کو ساتھیوں سمیت راستے سے ہٹادیا۔ استعمال ہونے والوں کیساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ تاریخ کے ہر دور میں عبرت کا نشان بنتے ہیں۔پاکستان کو اسلئے نہیں بنایا گیا کہ انگریز کو اسلام اور مسلمانوں سے ہمدردی تھی بلکہ سوشلزم کے نظرئیے کا راستہ روکنے کیلئے بنایا گیاہے۔
ایک معتبر اخبار دی مسلم (انگریزی) میں یہ خبر چھپی ہے کہ ا.فغانستان میں آئے ہوئے عربوںنے فتویٰ دیا ہے کہ ا.فغانستان کے جو لوگ جہاد نہیں کرتے وہ کا.فر ہیں ،ان کی جائیداد مال غنیمت ہے ۔ ان کی خواتین بھی مالِ غنیمت ہیں۔ ہماری وزارت خارجہ نے اس خبر کی تصدیق بھی کی ہے۔ وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو سے میں نے کہا کہ ”آپ خود بھی ایک خاتون ہیں۔ ہماری بہو بیٹیوں کیلئے جس قسم کے منصوبے بن رہے ہیں آپ ان کو کیوں سپورٹ کررہی ہیں؟”۔
مجھے کسی نے کہاکہ ”یہ عرب اسرائیل میں کیوں نہیں لڑتے؟”۔ میں نے کہا کہ ” یہ ہم پشتونوں کومسلمان بنانے آئے ہیں۔ ان کی شلواریں اسرائیل میں رہ گئی ہیں اور ازاربند اپنے سروں پر باندھ کر ہمیں مشرف بہ اسلام کرنے کیلئے آئے ہیں۔ چلے جاؤ پہلے اپنی شلواروں کا پتہ کرو ، پھر ازار بند سروں پر باندھ کر ہمارے پاس آجاؤ”۔ہم پشتونوں سے زیادہ اچھے مسلمان کون ہوسکتے ہیں؟۔
قاضی حسین احمد اور اس طرح کے لوگ تاشقند اور دلی فتح کرنے کی باتیں کررہے ہیں ۔ اپنے بچے بھوک سے مررہے ہیں۔ بجلی جن لوگوں کو دی ہوئی تھی ان کو بھی پوری نہیں ہورہی ہے۔ بجلی پیدا کرنے کی فکر نہیں اور دئیے جارہے ہیں۔ داخلی اور خارجہ امور دونوں کا پتہ نہیں ہے۔ ملک وقوم کو کس طرف لے جارہے ہیں؟۔ ہندوستان سے جنگ کی بات صرف اسلئے ہورہی ہے کہ فوج کو زیادہ سے زیادہ اسلحہ ملے گا ۔ مراعات ملیں گی اور وہ خوشحال ہوںگے لیکن قوم کا کیا بنے گا ؟۔ اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ایکF16طیارے کی قیمت پرپورے بلوچستان میں زرعی انقلاب آسکتا ہے جس سے بلوچستان کے عوام کی غربت ختم ہوجائے گی۔ ترقی پسند پارٹیوں کے متحد ہونے کا وقت آگیا ہے ،اسلئے کہ ملک وقوم کی بربادی کیلئے بیرونی قوتوں نے یلغار شروع کردی ہے اور بروقت قوم کو بیدار کرنا ہوگا۔ پشتون قوم آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں جب بیرون سے خطرات کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اپنی چھوٹی موٹی لڑائی پر پتھر رکھ دیتے ہیں۔ یہ اپنے اختلافات پر پتھر رکھنے کا وقت آگیا ہے۔ اگر ہم بادشاہ خان کے سچے پیروکار ہیں تو پھر امن کیلئے کام کرنا پڑے گا۔ امن کے ایوارڈ کیلئے روس کے صدر گورباچوف کا انتخاب ایک اچھا اقدام ہے۔ میں مبارکباد پیش کرتا ہوں اپنی ضلعی انتظامیہ کو کہ ملکی وقومی سطح پر ایک بہترین کانفرنس کا اہتمام کردیا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

خلافت کی اب معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ

خلافت کی اب معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ

ہم نے جہادکے نام پر بہت بڑے طبقے کو انتہا پسند بنادیا، انہیں اسلحہ اورسیاسی طاقت دیکر مضبوط کیا،انہیں ہم ایسے نہیں چھوڑ سکتے، ہم نے 40سال میں جو بویااب کاٹ رہے ہیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جنرل قمر جاوید باجوہ کو انتہاپسندی کیخلاف جنگ لڑنے پر دنیا میں اعزازی تمغوں سے نوازا جارہاہے۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف،عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام ، جماعت اسلامی انتہاپسندی کے خاتمے میں برابر کی شریک ہیں۔APSپشاور واقعہ کے بعد ریاست، حکومت اور سیاسی جماعتوں نے مل کر قومی ایکشن پلان بنایا۔ جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاویدباجوہ نے دہشتگردانہ ماحول کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن خلافت کی روک تھام پر جنرل باجوہ کو بیان دینا اسکے اپنے دائرہ کار سے باہر ہے۔ ایک فوجی کی تعلیم و تربیت کا مخصوص ماحول ہوتا ہے وہ اپنے ماحول کے مطابق بات کرنے میں مخلص ہے لیکن جہالت قوم کی کشتی کو ڈبوسکتی ہے۔40سال تک امریکہ کے کہنے پر دہشت گردی کی فصل تیار کرنا غلط تھا اور 40سال تک اسکے کہنے پر فصل کاٹنا بھی غلط ہے۔ آزادی ہند کی تقدیر کا فیصلہ خدا نے کیا اور تدبیر کا فیصلہ سیاسی قائدین نے۔ فوج کا اس میں کوئی کردار نہ تھا۔ وزیرستان کے لوگ کہتے ہیں کہ بھیک مانگنے والا ملنگ کہتا ہے کہ ” تمہاری خیرات سے ہماری توبہ ہے لیکن اپنے کتوں کو روک لو”۔ جنرل باجوہ اپنے پالے ہوئے دہشتگردوں کو روک لے جو ان کیساتھ مل کر بھتہ خوری اور فکری آزادی کو دبانے پر لگے ہیں۔ یہ پالیسی بہت ہی خطرناک ہے عوام اور سیاستدانوں کیلئے ہر گز قابلِ قبول نہیں۔
پشاور سے مشہور صحافی وادیب خالد خان کا ویڈیو بیان سوشل میڈیا پر آیا کہ اسکے پاس میجررستم بٹ کے نام پرایک کروڑ روپیہ بھتہ کیلئے فون آیا اور اس نے اس کو جوک سمجھا۔ پھر ٹھیک ٹائم پر کالی گاڑی میں لوگ آئے۔ جس میں ایک وہی میجر اور دوسرا ایک پٹھان تھا۔ جس کا مخصوص حلیہ تھا۔ اسکے پاس30بور کی پسٹل تھی اور مجھے تھپڑ مارے کہ اگر یہ رقم نہیں دی تو بال بچوں سمیت مار دیں گے۔ میں نے کہا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میرے پاس اتنی رقم کہاں سے آئے گی؟۔ ایک قلم کار ہوں اور مشکل سے گزارہ ہوتاہے۔ میرے ساتھ پولیس اور ملٹری انٹیلی جینس نے بہت خوش اسلوبی کیساتھ تعاون کیا اور یہ پیشکش بھی ہوئی کہ حفاظت کیلئے پولیس دیدیتے ہیں۔ یہ تلقین بھی ہوئی کہ اپنے گھر کی چاردیواری بلند کرکے اس پر خار دار تار لگادو۔ مگر میں اپنی حفاظت کیلئے اتنے خرچے نہیں کرسکتا اور ایک شریف آدمی ہوں ،اسلئے اپنے ساتھ گارڈز بھی نہیں گھماسکتا ہوں۔ اور نہ ا نکے کھانے پینے کے خرچے اٹھاسکتا ہوں۔ مجھے معلوم ہوا کہ آفتاب خان شیرپاؤ اور شیخ الحدیث مولاناادریس کو بھی بھتے کی دھمکیاں ملی ہیں۔ مجھے دشمن کا پتہ نہیں بتایا گیا ہے ، حالانکہ ٹیلی فون نمبر اور گاڑی کی تصاویر بھیCCTVکیمروں کی مدد سے پکڑنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ خالد خان کا کہنا ہے کہ مجھے اپنے دشمن نہیں بتائے گئے جو بہت افسوسناک بات ہے۔
جب عمران ریاض خان کہتا ہے کہ ” میری ماہانہ آمدن کروڑوں میں ہے تو پھر بھتہ خور صحافیوں کا تعاقب کریں گے”۔ جب مولویوں نے زکوٰة خیرات کے علاوہ سودی بینکاری سے بھی کمانا شروع کردیا ہے تو بھتہ خور بھی اپنا حصہ وصول کریں گے۔ بھتہ خور کس کس سے بھتہ وصول کریںگے؟۔ اور وہ کن کن طاقتور لوگوں کے مرہون منت ہوں گے ؟۔ یہ بھی ایک مشترکہ کاروبار ہوسکتا ہے؟۔ اگر ان کو40سال تک اپنا پٹھو بناکر ہتھیار اور طاقت سے نوازا گیا اور اب ان کو40سال تک کسی دوسرے دھندے پر لگاکر بدنام کیا گیا کہ بھتہ خور معاشرے میں اخلاقی طاقت کھو بیٹھیں تو یہ ان کو تنہا نہ چھوڑنے اور اپنے انجام تک پہنچانے کا اہم ذریعہ ہوسکتا ہے اور یہ وسائل پر قبضہ کرنے کی اچھی حکمت عملی بھی ہوسکتی ہے مگرکیا قوم یہ بوجھ برداشت کرسکتی ہے؟۔ یہ بھی ایک سوال ہے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھتہ خوروں کو کھلم کھلی آزادی ملنے اور شکایت لگانے کی جگہ عوام ٹھکانے بھی لگانا شروع کردیں۔ جب ایک مرتبہ قومی سطح پر لوگ اُٹھ جائیں تو مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہوسکتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت بھی بالکل صلاحیت سے محروم ہے۔ قومی ایکشن پلان میں مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے اتنا تعمیری کام بھی نہیں کیا جتنا پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے چندنوجوانوں نے قیام امن کا جذبہ پیدا کرنے کیلئے کیا۔ لیکن اس کا کوئی زیادہ فائدہ اسلئے نہیں ہوا کہ تعصبات کے رنگ میں نعرے لگائے گئے۔ پشتون قوم پرست اور مذہب پرست کے نام سے آج آمنے سامنے ہیںاگر پھر ان میں قتل وغارتگری کا سلسلہ جاری ہوا جس کے شدید خطرات ہیں تو بھی قوم وملک کا نقصان ہے اوراگر متحد ہوکر ریاست کے خلاف کھڑے ہوگئے تو بھی ملک وقوم کا نقصان ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ پہلے آرمی چیف ہیں جس کو آئین کے تحت توسیع مل گئی اور پونے دو سال تک مزید توسیع کی بھی گنجائش ہے۔ ملک جس سیاسی دہرائے پر کھڑا ہے ،اس کو کٹھ پتلی سیاستدانوں کے رحم وکرم پر بھی نہیں چھوڑا جاسکتا ہے اور کسی نئے نظام کا نیا تجربہ بھاری پڑنے کا اندیشہ ہے۔ پرانے نظام کو چلانا بھی ممکن نہیں رہاہے۔ ایسے میں پارلیمنٹ حکومت واپوزیشن جنرل قمر باجوہ کو ایک مزیدتوسیع دینے کا فیصلہ کریں تو بھی برا نہیں۔ اوریا مقبول جان نے یہ خواب بیان کیا تھا کہ پہلے نبیۖ کی طرف سے تحفہ ملتا ہے تو جنرل قمر باجوہ اس کو بائیں ہاتھ سے لیتا ہے اور پھر حضرت عمر کے سمجھانے پر دائیں ہاتھ سے لیتے ہیں۔ اسلام کے بنیادی احکام کو معاشرے تک پہنچایا جائے تو ہمارے ملک وقوم کا بھلا ہوسکتاہے۔خلافت کی تشریح جنرل باجوہ اور دہشتگردوں کو سمجھ میں آئے تو دنیا میں خلافت کے نفاذ کا راستہ بھی ہموار کرینگے اور لوگ بھی خوش ہونگے۔

www.zarbehaq.comا
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tvCaliphate has no place in society anymore. General Qamar Javed Bajwa

خلافت یا امامت

خلافت یا امامت

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سنی شیعہ شدید اختلاف کو کم کرنیکی ادنیٰ کوشش علامہ اقبال نے ان الفاظ میں کی۔ اے کہ نشناسی خفی را ازجلی ہشیار باش اے گرفتار ابوبکر وعلی ہوشیار!

مملکت خدادادپاکستان اگرواقعی اغیار کی سازش تھی تب بھی یہ اللہ کا منصوبہ ہی تھا۔ انہم یکیدون کیدًا واکید کیدًا”وہ اپنا جال بچھاتے ہیں اور میں اپناجال بچھاتا ہوں”۔فرقوں اور مفاد پرستی سے بالاتر ہوکر اسلام کی بنیاد پر انسانیت کی خدمت کرنا ہوگی!

فرقہ پرستی سے بالاتر اسلام کا آئینہ دکھائیں جس سے دنیا پرہمارا غلبہ تھا۔ سنی کے نزدیک خلیفہ کاا نتخاب عوام پر فرض ہے، شیعہ کے نزدیک امام کو اللہ منتخب کرتا ہے۔ سنی کے نزدیک ابوبکر، عمر، عثمان ، علی اور حسن کو عوام نے منتخب کیا۔30سال خلافت راشدہ رہی۔ شیعہ کے ہاں پہلا امام نبیۖ کا خلیفہ بلا فصل علی، دوسرا حسن، تیسرا حسین ، چوتھا زین العابدین اور…… بارواں مہدی ٔغائب محمد بن حسن عسکریموجودہ دور تک امامت کا سلسلہ جاری ہے۔ سنیوں کے ہاں خلافت راشدہ کے بعد بنوامیہ و بنوعباس کی امارت اور سلطنت عثمانیہ کی باشاہت تک خلافت کا سلسلہ جاری رہا۔1924میں سقوطِ.خلافت کے بعد مسلمانوں نے تحریک سے خلافت کا احیاء کرنا چاہا لیکن اس میں ناکام رہے۔ پاکستان تحریک.خلافت کا تسلسل ہے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا :” آسانی پیدا کرو، تنگی نہ کرو، خوشخبریاں سناؤ، آپس میں نفرت پیدا مت کرو”۔ (صحیح بخاری) پاکستان کو مملکتِ خداداد کہنا ٹھیک ہے یا یہ کفر وگمراہی ہے؟۔ پاکستان کی نعمت پاکستان کے مسلمانوں کو مل گئی لیکن اس نعمت کا شکر ہم نے ادا کیاہے یا نہیں؟۔
75سالہ سرکاری تقریب میں قوم کی بچیوں کو بیہودہ ڈانس سے وزیراعظم اور حکومت کے وزیرومشیر محظوظ ہوئے تو کچھ نے خاصا اعتراض کیا اور صفِ ماتم بچھادیا۔ مریم نواز اور مولانا طارق جمیل جن شادیوں میں شرکت کرتے ہیں تو ان میں کیا یہ سب کچھ نہیں ہوتا؟۔ گزارش ہے کہ دوسرے کی بچیوں کو نچوانے کی جگہ اپنی بیگمات ، بہو اور بیٹیوں کیساتھ ہی شرکت کرتے۔ غم اور خوشی منانے کا جب ایک کلچر کسی معاشرے میں انسانی جبلت کا حصہ بن جاتا ہے تو پھر وہ اپنی عادت سے مجبور ہوجاتا ہے۔ تیسری جنس خواجہ سراؤں کو جب تالی بجانے کی عادت پڑتی ہے تو حج میں ٹھوکر لگنے پر بھی تالی بجادیتے ہیں۔
اگر مہدی غائب کی حکومت ہواور عاشورہ کے جلوس سے منع کریں تو خطرہ ہے کہ شیعہ امامت سے انکار کردیںگے۔اسلئے کہ امام کی بات ماننے سے زیادہ اب ان بیچاروں کو عاشورہ ماتم منانا دین کی پہلی حداور آخری سرحد لگتی ہے۔
جن صحافیوں اور علماء ومفتیان میں تقویٰ نہیں بلکہ تقوے کا حیض ہے وہ بھی سرکاری تقریب میں ناچ گانے پراسلئے ناپسندیگی کا اظہارنہیں کرتے کہ وہ متقی و پرہیزگارہیں، ورنہ خانہ کعبہ کے طواف میں حجر اسود پر جس طرح جنونی مرد اور غیر محرم عورتیںآپس میں رگڑ کھاتے ہیں وہ سرکاری تقریب میں ناچ گانے سے کئی درجے زیادہ بدتر ہے جس پر انہوں نے کبھی بھی آواز نہیں اٹھائی ہے اور سود کو اسلام کے نام پر جواز بخشنا زیادہ خطرناک اور تقویٰ کے انتہائی منافی ہے۔
جب پبلک سروس کمیشن کا امتحان ہوتا ہے تو پاکستان میں بہت سے غریب اور بے سہارا ملازمین کو قابلیت کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے۔ کوئی بچپن ، لڑکپن اور جوانی میں تعلیمی جدوجہد کا حق ادا کرتاہے تو پاکستان کی سطح پر منتخب ہوکر اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں تک پہنچتا ہے اور بعض لوگ اعلیٰ عہدوں پر منتخب ہونے کے بعد اپنی نااہلی اور خود غرضی کی وجہ سے معزول کردئیے جاتے ہیں۔ دنیا کے نظام سے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں بھی انتخاب کیلئے جدوجہد کا حق ادا کرنا پڑتا ہے اور پھر نااہلی کے سبب لوگ اپنے منصب سے معزول ہوتے ہیں۔
اللہ نے فرمایا: وجاہدوا فی اللہ حق جہادہ ھو اجتبٰکم وما جعل علیکم فی الدین من حرج ملت ابیکم ابراہیم ھو سمٰکم المسلمین من قبل وفی ھٰذا لیکون الرسول شہیدًا علیکم وتکونوا شہداء علی الناس ” اور اللہ کے احکام میں جدوجہد کا حق ادا کرو، اس نے تمہیں منتخب کرلیا اور تمہارے لئے دین میں کوئی مشکل نہیں رکھی۔تم اپنے باپ ابراہیم کی ملت ہو، اس نے پہلے بھی تمہارا نام مسلمان رکھا اور اس میں بھی۔ تاکہ تمہارے اوپر رسول خدا گواہ ہوں اور تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ”۔
صحابہ کرام نے رسول اللہ ۖ کی قیادت میں جدوجہد کا حق ادا کردیا۔ اپنے وطن سے ہجرت کی۔ کلمة الحق بلند کرنے میں قربانیاں دیں۔ مالی اور جانی قربانیوں کے علاوہ کوئی ایسی قربانی نہیں تھی جن کا ان کو سامنا نہ کرنا پڑا ہو اور انہوں نے اس قربانی سے دریغ کیا ہو۔ اسلئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو مسلسل ہر چیز میں مکمل رہنمائی وحی کے ذریعے سے فراہم کررہا تھا۔
فرمایا: قل ان کان اٰبآء کم وابناء کم واخوانکم و ازواجکم وعشیرتکم واموالکم اقترفتموھا وتجارة تخشونہ کسادہا ومساکن ترضونھا احب الیکم من اللہ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یأتی اللہ بامرہ ان اللہ لا یھدالقوم الفاسقین ”فرمادیجئے کہ اگر تمہارے باپ ، تمہارے بیٹے ، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان ، تمہاراوہ مال جو تم نے اکٹھا کررکھا ہے، تمہاری وہ تجارت جس کے خسارے سے تم ڈرتے ہو اور وہ ٹھکانے جن میں رہنا تم پسند کرتے ہو۔ تمہارے لئے زیادہ پسندیدہ ہیں اللہ اور اسکے رسول اور اس کی راہ میں جدوجہد کرنے سے تو پھر تم انتظار کرو ،یہاں تک کہ اللہ اپنے حکم کے ساتھ آجائے اور بیشک اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ہے”۔ (القرآن)۔
صحابہ معیار پر پورا اترے تو لوگوں کے دلوں میں کھٹک پیدا ہوئی کہ ساری دنیا کے لوگ ان کو عزت کے اعلیٰ درجے پر فائز کرینگے۔ اس خوف سے ان کے خلاف افواہیں پھیلا نے اور ہرطرح کی مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھا تا کہ یہ لوگ زمین میں کمزور پڑجائیں لیکن اللہ نے ان کو منصب امامت کے عہدے پر فائز کیا اور دشمن کی خواہش اور مزاحمت کی تمام کوششیں بالکل رائیگاں گئیں۔
ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجلھم الائمہ ونجلعلھم الوارثین ”ہمارا ارادہ ہے کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنایاجارہا ہے کہ ان کو امام بنائیں اور انہیں زمین کا مالک بنائیں”۔ (القرآن) صحابہ کرام، تابعین ، تبع تابعیناور مسلمان پوری دنیا میں سپر طاقتوں کو شکست دیکرصدیوں منصبِ امامت اور زمین کی وراثت کے مالک رہے ہیں۔
حجاز کے باسی یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ایسے خطوں پر ہماری حکمرانی ہوگی کہ جہاں دنیا میں جنت کے وعدے پورے ہونگے۔عربی میں جنت باغ کی جمع جنات ہے اور ایسے باغات جنکے نیچے نہریں بہہ رہی تھیںاسکا وعدہ اللہ نے دنیا کی دوسپر طاقتوں کو شکست دیکر پورا کیا تھا۔
شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب”منصبِ امامت ” میں امام کیلئے اللہ کے انتخاب کی وضاحت کی۔ جب پاکستان بن رہا تھا تو باطن میں اولیاء کرام کے دو گروہوں میں کشمکش دیکھنے والے مولانا حسین احمدمدنی نے فرمایا کہ ” حامی گروپ غالب آگیا اسلئے پاکستان بنے گا لیکن میری بصیرت ہے کہ تقسیم ہند پر خون ریزی اور عزت دریوں کی مخالفت جاری رکھی جائے”۔ اگر پاکستان کا مخالف طبقہ پاکستان کو اولیاء کرام کی تائید قرار دیتا ہے تو یہ بہت بڑی بات ہے لیکن اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ شیاطین الانس والجن نے یہ منصوبہ تیار کیا تھا تو بھی اس کو مملکتِ خداداد کہنے میں کوئی حرج اسلئے نہیں کہ اللہ نے فرمایا : انھم یکیدون کیدًا واکید کیدًا ”بیشک وہ اپنی چال چلتے ہیں اور میں اپنی چال چلتا ہوں”۔ (القرآن) شاہ اسماعیل شہید نے” منصب امامت” میں قرآنی آیت کے حوالے سے ملاء اعلیٰ کے فرشتوں میں جھگڑے کی بات لکھ دی کہ ”اللہ کبھی ایک گروہ کے حق میں فیصلہ کرتا ہے اور کبھی دوسرے گروہ کے حق میں”۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ” وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کے اول میں مَیں ، درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ ہیں”۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ میرا اہل بیت ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دے گا۔ حضرت محمد بن عبداللہ ۖکے بعددرمیانے زمانے کا مہدی پہلا شخص ہوگا جو نبیۖ کے بعد پہلی مرتبہ طرز نبوت کی خلافت قائم کریگا جس سے زمین وآسمان والے دونوں خوش ہوں گے۔ یواطئی اسمہ اسمی واسم ابیہ اسم ابی ”اس کا نام میرے نام کیساتھ اور اسکے باپ کا نام میرے باپ کے نام کیساتھ جڑے گا”۔ اور مطلب یہ نہیں کہ اس کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا۔دنیا میں پہلے نمبر پر نبیۖ کا نام ہوگا اور جب وہ عدل وانصاف قائم کریگا تو دنیا میں دوسرانام اسکا نام ہوگا۔
اگر مرزاغلام احمد قادیانی دجال نبوت کا دعویٰ نہ کرتا تو علماء دیوبند اس کا پیچھا کرنے کی جگہ فقہی مسائل اور تصوف کی اصلاح کرتے۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے ماموں کا قصہ لکھا کہ وہ کہتا تھا کہ میں ننگا ہوکر مجمع عام میں ایک ہاتھ سے اپنا آلہ تناسل پکڑ لوں گا اور دوسرے ہاتھ کی انگلی اپنے مقعد میں ڈالوں گا اور تم لوگ مجھے بھڑوے بھڑوے کہہ پکارو۔ یہ نیٹ پر بھی مل جائے گا لیکن اس کی زیادہ ضرورت اسلئے نہیں ہے کہ حیلہ ناجزہ میں عورت کو جس طرح حرامکاری پر مجبور ہونے کا فتویٰ جاری کیا گیا وہ اس بھڑوے سے ہزار گنازیادہ بدتر ہے۔
مولانا احمد رضا خان بریلوی اگر علماء دیوبند کو اپنے فتوے ” حسام الحرمین” سے نہ ڈراتے تو اکابر دیوبند نے فقہ چھوڑ کر قرآن وسنت کی طرف متوجہ ہونا تھا۔ مولانا مودودی اسلئے فتنہ تھا کہ فقہی احکام کو سدھارنے کی جگہ قرآن وسنت کے گمراہانہ مفہوم سے پڑھے لکھے طبقے کو متاثر کردیا۔ ڈاڑھی منڈھے صحافی نے داڑھی رکھ کر مولویوں کو اپنے پیچھے لگایا اور غلط گمراہانہ اسلام کو سلیس انداز دیا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اس گمراہانہ اسلام سے متحدہ ہندوستان کا سیکولر نظام بہتر تھا تو جمعیت علماء ہند کے اکابر نے اس کو سپورٹ کیا اور قائداعظم کا اسلام بہتر تھا ،اس وجہ سے جمعیت علماء اسلام کے علامہ شبیراحمد عثمانی نے اس کو سپورٹ کیا۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے کہاکہ” اپنی ساری زندگی فقہ کی وکالت سے ضائع کردی”۔ جب دارالعلوم کا شیخ الحدیث اور مفتی محمد شفیع ، مولانا سید یوسف بنوری ، مولانا عبدالحقا کوڑہ خٹک اور مفتی محمود کے استاذ مولانا انورشاہ کشمیری نے زندگی ضائع کرنے کی بات کردی تو پھر شاگردوں نے اسی تعلیم وتعلم سے طلبہ کی زندگی کیوں تباہ وبرباد کردی؟۔ ظاہر ہے کہ مدرسہ دین کی خدمت سے زیادہ روزگار کا مسئلہ تھا۔ اس میں شک نہیں کہ مولانا یوسف بنوری نے تقویٰ پر مدرسے کی بنیاد رکھی اور ختم نبوت کا مسئلہ جب ریاست پاکستان نے حل کرنا چاہا تو علامہ بنوری کی قیادت میں حل بھی ہوگیا لیکن جس سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے ختم نبوت پر اپنا سب کچھ قربان کیا وہ ان سے زیادہ اہلیت اور قربانی کا جذبہ رکھتاتھا۔جنگ کے مالک میر شکیل الرحمن کا یونیورسٹی میں ایک قادیانی لڑکی سے معاشقہ ہوا تو اس نے مفتی ولی حسن ٹونکی سے فتویٰ مانگا کہ قادیانی لڑکی سے مسلمان کا نکاح ہوسکتا ہے؟۔ مفتی ولی حسن نے کہا کہ قطعی طور پر نہیں۔ اگر مفتی محمدتقی عثمانی ہوتا تو جنرل ضیاء الحق کے بیٹے ڈاکٹر انوارالحق سے قادیانی مبلغ جنرل رحیم الدین کی بیٹی کا نکاح پڑھانے کی طرح میرشکیل الرحمن کا نکاح پڑھانے سے دریغ نہ کرتا۔
میر شکیل الرحمن کی عاشقہ ومعشوقہ قادیانی لڑکی مرزا غلام قادیانی کے خلیفہ حکیم نورالدین کی نسل سے تھی اور اس نے کہا کہ مجھے قائل کرو، میں قادیانیت چھوڑ نے کوتیار ہوں۔ مولانا یوسف بنوری، مفتی ولی حسن ٹونکی ، مولانا عبدالرشید نعمانی تینوں نے بہت زور لگایا لیکن ایک قادیانی لڑکی کو قائل نہ کرسکے اور پھر ملتان سے مناظر ختم نبوت مولانا لعل حسین اختر کو بلوایا اور اس نے منٹوں میں قائل کردیا۔پھر وہ قادیانیت چھوڑ کر مسلمان ہوگئی۔ قادیانی ایک تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے قائل ہیں اور دوسرے ان کے باپ کے بھی قائل ہیں۔ قادیانیوں کا سخت مخالف طبقہ غلام احمد پرویز اور اسکے پیروکار بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ جنگ اخبار میں مولانا محمد یوسف لدھیانوی کا جواب چھپ گیا کہ ” عیسیٰ علیہ السلام کے چچا نہیں تھے لیکن دو پھوپھیاں تھیں”۔ جس پر بڑا شور مچ گیا تو مولانا یوسف لدھیانوی نے لکھاکہ ” یہ میں نے نہیں لکھاہے”۔
لوگ قادیانی اسلئے بن رہے ہیں کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ مفتی محمد شفیع نے لکھا کہ ” حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ نہ تھا، مزرا غلام احمد قادیانی کا باپ تھا۔ حضرت عیسیٰ کی ماں کا نام مریم اور قادیانی کی ماں فلانہ تھی” اور پھر قادیانی کہتے ہیں کہ ہم جب عیسیٰ علیہ السلام کی طبعی موت کے قائل ہیں تو کیسے عیسیٰ علیہ السلام کا خود دعویٰ کرسکتے ہیں؟۔ یہاں مسلمان متزلزل ہوتے ہیں۔ پھر جب بڑے معتبر ناموں کو دیکھتے کہ ابن خلدون اور جمال الدین افغانی ، مولانا ابوالکلام آزاد اور دیگر حیات عیسیٰ کے قائل نہ تھے ۔ احادیث کی کتابوں میں اسرائیلیات سے یہ روایات آئی ہیں تو ان کو بڑا جھٹکا لگتا ہے۔ پھر جب قادیانی کہتے ہیں کہ تم بھی عیسیٰ کی آمد کے قائل ہواور ہم بھی ہیں۔ لیکن ہم قرآنی آیات پر یقین رکھتے ہیں کہ جب عیسیٰ سے خدا پوچھے گا کہ کیا آپ نے اپنے پیروکاروں کو گمراہ کیا تھا کہ آپ کو اور آپ کی ماں کو دومعبود بنالیں؟۔ تو عیسیٰ جواب دیں گے کہ جب تک میں انکے درمیان رہا تو میں نے یہ نہیں کہا اور جب آپ نے مجھے وفات دی تو میں نگران نہیں تھا۔ قادیانی جب قرآن میں حضرت عیسیٰ کے اٹھالینے کو موت سے تعبیر کرتے ہیں تو بھی اس میں وہ اکیلے نہیں ۔ بڑے بڑے لوگوں نے یہ باتیں لکھ دی ہیں اور جب نظر آتا ہے کہ ختم نبوت کے مفہوم پر اتفاق رائے موجود ہے لیکن ایک عیسیٰ کی ذات سے دوبارہ آنے کی امید رکھتے ہیں اور دوسرے یہ عقیدہ بتاتے ہیں کہ جس طرح کہا جاتا ہے کہ ہر فرعون کیلئے موسی ہوتا ہے تو اس کا معنی یہ نہیں ہوتا کہ دوبارہ فرعون اور حضرت موسیٰ کی آمد متوقع ہے بلکہ یہ عام محاورے کی زبان ہے تو لوگ قائل ہوجاتے ہیں اور قادیانیوں کی طرف سے ان کو مراعات ملتی ہیں تو مولوی بھی اپنی مراعات کو دیکھ کرچلتا ہے۔
جس دن قرآن وسنت کے مقابلے میں فقہ کے گمراہانہ مسائل کا خاتمہ ہوا تو قادیانی بالکل ملیامیٹ ہوجائیںگے اسلئے کہ وہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں دوسروں کی تحقیقات کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہودی اسی وجہ سے ان کو سپورٹ بھی کرتے ہیں۔ بنوری ٹاؤن سے چھپنے والی کتاب میں شیعہ کو قادیانیوں سے تین وجوہات کی بنیاد پر بدتر کا.فر قرار دیا گیا تھا۔ قرآن میں تحریف، صحابہ کی تکفیر اور عقیدۂ امامت۔ لیکن پھر شیعہ کیساتھ متحدہ مجلس عمل اور اتحاد تنظیمات المدارس کی سطح پر سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر اکٹھے بیٹھ گئے۔
مولانا حق نواز جھنگوی نے کہا تھا کہ شیعوں سے ہمارا اختلاف قرآن اور صحابہ پر نہیں بلکہ عقیدۂ امامت پر ہے۔ ماموں کے جس تصوف کی مولانا اشرف علی تھانوی نے بات کی ہے اور جس طرح کے فقہی مسائل لکھ دئیے ہیں وہ قرآن وسنت اور صحابہ کے بالکل منافی ہیں۔ دیوبند کے مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے سنت نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت قرار دیا تھا لیکن افغانستان، پختونخواہ ، بلوچستان اور اندرون سندھ کے دیوبندی مراکز نے یہ فتویٰ قبول نہیں کیا تھا۔ علماء دیوبند، بریلوی، اہلحدیث اور اہل تشیع نہ صرف ایک دوسرے سے بلکہ آپس میں بھی بدترین فرقہ واریت کے شکار ہیں۔ سب اپنی اصلاح، اسلام کی حقیقت اور ہدایت کی طرف آجائیں۔ عورت کے حقوق ہونگے تو جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، تحریک لبیک، جمعیت علماء پاکستان مذہبی جماعتوں کو ووٹ ملیں گے لیکن جب اپنے چوتڑ پر پوٹی کی پپڑیاں جمی ہوں اور دوسروں کے ریح خارج ہونے پر اعتراض کریںتو امت کی اصلاح نہیں ہوسکے گی۔
عمران خان نے کہا کہ ”جب ایک سردار نے ایک غلام کو تھپڑ مارا تو نبیۖ نے بدلہ لینے کا حکم دیا”۔ مفتی سعید خان نے عمران خان کے نئے استاذ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ حضرت عمر کے دور کا واقعہ ہے۔ جب وہ سردار مرتد ہوگیا تو حضرت عمر نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس کو بدلے میں تھپڑ نہ مارتے اور جب حسان بن ثابت نے کہا کہ اچھا ہوا کہ اس کو تھپڑ مارا ہے تو حضرت عمر نے حضرت حسان ہی کو درہ مارا ”۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا کہ حضرت عمر کے دور میں امت طبقاتی تقسیم کا شکار کی گئی۔ نبیۖ سے صحابی نے کہا تھا کہ مجھے آپ سے انتقام لینا ہے اور پھر مہر نبوت کو چوم لیا تھا۔ نبیۖ کے بعد خلافت راشدہ میں بھی جبری ماحول مسلط ہوگیا تھا۔ اگر آزاد عدلیہ ہوتی تو حضرت عمر کو بھی حضرت حسان کے بدلے میں درہ مارا جاتا۔ صحابہ کرام کے مجموعی تقدس کے عقیدے کو معمولی معمولی واقعات کی وجہ سے پامال نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن ایک رسول ۖ کی ذات ایسی تھی کہ درہ مارنا تو بہت دور کی بات تھی جب عبداللہ ابن مکتوم کی آمد پر پیشانی پر ناگوار ی کے اثرات مرتب ہوئے تو اللہ نے سورہ عبس نازل فرمائی۔ حضرت ابوبکر وعمر اور حضرت عثمان وعلی پر وحی بھی نازل نہیں ہوسکتی تھی اور ان کی شخصیتوں کو نبیۖ سے بالاتر بھی نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔
شیخ الہند نے مالٹا سے رہائی کے بعد قرآن کی طرف توجہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن زندگی نے وفا نہیں کی۔ امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی نے اپنے استاذ کی بات مان کر قرآن کی طرف توجہ کی لیکن اپنے علماء نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا اور اب قرآن کی عام فہم آیات اور پڑھے لکھے دور سے انقلاب آسکتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی، حنفی اہلحدیث، پاکستانی، افغانی، ایرانی قرآن کی طرف توجہ کریں توانقلاب آئے گا۔

شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی، حنفی اہلحدیث، پاکستانی، افغانی، ایرانی قرآن کی طرف توجہ کریں توانقلاب آئے گا۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

قرآن میں اللہ نے طلاق کے مقدمہ میں خواتین کے حقوق کی وضاحت کو ترجیحات میں شامل کرکے جاہلیت کی تمام رسوم کو ملیامیٹ کردیا ہے لیکن جہاں سے چلے تھے آج پھر وہیں کھڑے ہیں ۔ جتھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی۔
آیت222البقرہ میں دو چیزیں واضح ہیں۔ اذیت اور گند۔ حیض عورت کیلئے اذیت ہے اور گند بھی۔ اللہ نے اذیت سے توبہ اور گند سے پرہیز والوں کو پسندیدہ قرار دیا۔ آیت222سے228تک قرآن کا ایک رکوع ہے اور پھر آیت229سے231تک دوسرا رکوع ہے ، پھر232سے تیسرا رکوع شروع ہوتا ہے۔ آیت222میں اذیت کا ذکر ہے جس کا تسلسل بھی سورۂ بقرہ کے تینوں رکوع میں جاری ہے۔ آیت نمبر232میں اللہ نے فرمایا کہ ” طلاق شدہ عورتوں سے رجوع میں تمہارے لئے زیادہ تزکیہ اور زیادہ طہارت ہے”۔ اذیت سے دور ی معاشرے کیلئے تزکیہ اور گند سے دوری طہارت ہے۔
اذیت سے توبہ کی بات سمجھ میں آتی تو عمل آسان ہوتا ۔ اللہ نے سچ فرمایا: وماجعل علیکم فی الدین من حرج ”اور تمہارے لئے دین پر چلنے میں کوئی مشکل نہیں رکھی ہے” ۔ ملاؤں کی نا سمجھی نے دین پر عمل مشکل ترین بنادیا۔
کسی عربی چینل میں شیعہ عالم نے سنیوں کے اعتراض کا جواب دیا کہ ”شیعہ عورت کیساتھ پیچھے کی طرف سے مباشرت کو مکروہ سمجھتے ہیں تو یہ تمہاری احادیث کی کتب میں ہے کہ عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ بیوی سے پیچھے کی طرف سے مباشرت کے جواز کیلئے آیت223نازل ہوئی کہ جہاں سے چاہو آگے پیچھے سے مباشرت کرسکتے ہو،جس کا ذکرصحیح بخاری میں ہے اور فقہ کی کتابوں میں امام مالک کی طرف بھی اس کی نسبت ہے جو مکروہ بھی نہیں سمجھتے تھے”۔
شیعہ ایرانی نژاد امریکن خاتون نے کتاب لکھی جس میں یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام میں عورت کے کوئی حقوق نہیں ۔ لونڈی ہو تو نکاح کی ضرورت نہیں۔ نکاح میں ہو تو اس کی جسم پر مرضی نہیں۔ شوہر چاہے تو اس کی مرضی کے بغیر پیچھے سے مباشرت کرے۔ متعہ میں استعمال ہونے والی عورتوں کی حیثیت بدکار عورتوں کی ہے۔ یہ واقعہ بھی لکھا ہے کہ ایک شخص نے 40ہزار تمن میں ایک عورت سے نکاح کیا تھا۔ اس کو پیچھے سے جماع کی علت تھی اور اس کی بیوی کی جنسی تسکین کا حق ادا نہیں کرتا تھا۔ بیوی نے خلع کا مطالبہ کیا اور وہ خلع دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔ پھر بیوی نے 50ہزار تمن دینے کی پیشکش کردی تو اس نے طلاق دے دی ۔
نکاح سے عورت بلیک میل ہو تو کتنا براہوگا؟۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے فقہی مسئلہ لکھا اورحنفی مدارس آج فتویٰ دیتے ہیں کہ ” اگر شوہر نے بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دی اور اس کا کوئی گواہ نہیں تھا تو بیوی اس پر حرام ہوگی اوربیوی کو جان چھڑانے کیلئے دو گواہ پیش کرنے ہونگے۔ اگر دو گواہ نہ تھے اور اگر شوہر قسم کھائے تو عورت حرام ہوگی لیکن بیوی رہے گی اور عورت پر فرض ہوگا کہ وہ ہر قیمت پر خلع لے اور اگر شوہر خلع پر راضی نہ ہو تو عورت حرامکاری پر مجبور ہوگی۔ جب شوہر اسکے ساتھ مباشرت کرے تو وہ لذت نہ اٹھائے ورنہ گناہگار ہو گی”۔ یہ بکواس، یہ اذیت اور گند مولوی نے خود گھڑا ہے، اسلام سے اس کا تعلق نہیں۔
عربی ، اردو اور انگلش میں اثاثہ کے دو معانی ہیں۔ ایک مال، مویشی، کھیتی اور دوسرا زندگی کا نچوڑ اور انسان سے جدا نہ ہونے والا رشتہ۔ اللہ نے فرمایاکہ ”تمہاری بیویاں تمہارے لئے اثاثہ ہیں”۔ مولوی نے اس کا ترجمہ کھیتی کردیا۔ جب عورت کے گدھی کی طرح حقوق بھی نہ ہوں تو مولوی نے اس کا ترجمہ کھیتی کرکے درست کیا ۔ کھیتی پاؤں تلے روند ی جائے تو یہ عربی میں وطی کہلاتا ہے۔ قرآن وسنت اور عربی میں عورت سے مباشرت کیلئے کہیں بھی وطی کا لفظ نہیں مگر فقاء نے مباشرت کو وطی قرار دیا۔ جب عورت کھیتی ہو تو اس میں وطی پر اختلاف بھی ہوگا کہ حل کہاں چلایا جائے اور کہاںنہیں ۔ فقہ میں یہی اختلاف ہے۔
اگر آیت222البقرہ میں اذیت اور اس سے توبہ کی درست تفسیر ہو تو پھر آیت223البقرہ میں پیچھے کی مباشرت پر اختلاف اور بکواس بھی نہ ہوتی۔ اس اختلاف کو قرآن نے بغےًا بینھم آپس کی بہت فحش غلطی کا نام دیا ہے ۔
آیت224میں اللہ نے جوہری بات طلاق کے مقدمے میں فرمائی کہ ”اللہ کو اپنے عہدکیلئے ڈھال نہ بناؤ کہ تم نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرواور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ”۔ آیت میں یمین سے مراد قسم نہیں بلکہ طلاق کے جملہ الفاظ صریح وکنایہ مراد ہیں اسلئے کہ یہ آیت طلاق کامقدمہ ہے ۔ یمین عربی میں عہد وپیمان کو کہتے ہیں۔ بیگم کو چھوڑنا بھی یمین ہے۔ فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ ”اگر شوہر نے بیوی سے کہا کہ اگر میری شرمگاہ تیری شرمگاہ سے خوبصورت نہ ہو تو تجھے طلاق اور بیوی نے کہا کہ اگر میری شرمگاہ تیری شرمگاہ سے خوبصورت نہ ہو تو میری لونڈی آزاد۔ اگر دونوں بیٹھے ہوں تو لونڈی آزاد اور دونوں کھڑے ہوں تو عورت کو طلاق ہوگی کیونکہ کھڑے ہونے کی صورت میں عورت کی شرمگاہ خوبصورت اور بیٹھنے کی صورت میں مرد کی شرمگاہ خوبصورت ہے۔ اور اگر مرد کھڑا ہو اور عورت بیٹھی ہو تومجھے پتہ نہیں لیکن امام ابوبکرالفضل نے کہا ہے کہ مناسب ہے کہ دونوں کے یمین نافذ ہوں اسلئے کہ اس صورت میں دونوں کے حسن کی زیادتی ثابت نہیں ہوگی”۔فتاویٰ تاتار خانیہ۔اشاعت کوئٹہ بلوچستان
یہ عبارت اللہ کے احکام کامذاق اور فقہاء کاخبث باطن بغےًا بینھم ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یمین سے طلاق کے الفاظ مراد ہیں۔ اللہ نے مذہبی بنیاد پر عورت کو طلاق دینے کے الفاظ اور آپس کی صلح میں رکاوٹ کا تیاپانچہ کردیا ۔اور جب اللہ نے خود صلح کیلئے اللہ کو اپنے یمین کو ڈھال نہ بنانے کا حکم دیا ہے تو اس سے بڑی بات کیا ہوسکتی ہے؟۔ اگر علماء ومفتیان قرآن کو چھوڑنے کے بجائے اس کی طرف رجوع کرتے تو تمام گھمبیر مسائل سے ان کی جان چھوٹ جاتی۔
آیت225البقرہ میںجاہلیت کی رسم کا خاتمہ کردیا کہ اللہ طلاق میں الفاظ کے عہدوپیمان پر نہیں پکڑتا بلکہ دل کے گناہ پر پکڑتا ہے۔ یہ طلاق صریح وکنایہ کے جملے الفاظ اور گنتی کا توڑ ہے کہ اللہ نے صلح پر کوئی پابندی نہیں لگائی کہ جب میاں بیوی راضی ہوتو الفاظ سے صلح کا راستہ نہیں رُک سکتاہے۔
سوال ہے کہ پھر نبی ۖ نے کیوں فرمایا کہ طلاق ، رجوع اور لونڈی وغلام کی آزادی میں سنجیدگی اور مذاق دونوں معتبر ہیں؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان تینوں کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ جب شوہر طلاق دے اور عورت اپنے حق کے حصول کیلئے اس پر ڈٹ جائے تو مذاق کی طلاق بھی طلاق ہے اسلئے کہ طلاق میں شوہر کو منقولہ وغیر منقولہ دی ہوئی جائیداد سے محروم ہونا پڑتاہے اور خلع میں عورت کی غیرمنقولہ دی ہوئی جائیداد گھر ، دکان اور باغ وغیرہ واپس کرنا پڑتا ہے۔ جب عورت طلاق کا دعویٰ کرے تو اس کو دو گواہ لانے پڑیں گے اگر دو گواہ نہیں لاسکے تو شوہر کو قسم اٹھانا پڑے گی اور جب شوہر قسم اٹھالے گا تو پھر جج کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ یہ خلع ہے اور عورت کو خلع کے حقوق ملیںگے۔ اسلام اندھا نہیں بلکہ اندھے فقہاء نے اس کو سمجھا نہیں اسلئے گمراہی پھیلا ئی ہے۔ اگر اسلام کی سمجھ ہوتی تو عورت کو حرامکاری پر مجبور کرنے کی گمراہی نہ پھیلتی۔قرآن نے ایک ایک رسم جاہلیت کی اصلاح کردی بلکہ گمراہی اور اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیلنے کا کوئی موقع بھی نہیں چھوڑا تھا۔ سب سے زیادہ سخت ترین طلاق یہ تھی کہ جب کوئی شوہر اپنی بیوی کی پیٹھ کو اپنی ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دیتا تھا۔ سورۂ مجادلہ اور سورۂ احزاب میں اس کی نزاکت کو دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ نے فرمایا: ” ان کی مائیں نہیں ہیں مگر وہی جنہوں نے ان کو جنا ہے”۔ اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ سوتیلی ماں جس نے اس کو جنا نہیں، ماں نہیں ۔ باپ کی منکوحہ کو جائز سمجھا جاتا تھا تو اللہ نے محرمات کی فہرست میں کہا : ولاتنکحوا مانکح آباء کم من النساء الاماقد سلف ”اور نکاح نہ کرو،جن عورتوںکیساتھ تمہارے آباء نے نکاح کیا مگر جو گزر چکا ”۔ غیبت کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا قرار دیا گیا اور اس کو زنا سے بدترقرار دیا گیا ہے لیکن غیبت کی سزا نہیں اور بہتان کی سزا80کوڑے اور زنا کی سزا 100کوڑے قرآن میںہے تو ظاہر بات ہے کہ زنا حقیقت میں غیبت سے کہیںزیادہ بڑا جرم ہے۔
جاہلیت کی ایک رسم یہ تھی کہ عورت کو طلاق کے بغیر زندگی بھر رکھا جاتا تھا۔ اللہ نے اس کی عدت چار ماہ رکھ دی اور اگر اسکا طلاق کا عزم تھا تو پھر اس کا دل گناہگار ہے اسلئے کہ عدت میں ایک ماہ کا اضافہ کردیا اور اگر طلاق کا اظہار کرتا تو عدت تین ماہ ہوتی۔ سورۂ بقرہ کی آیات 225، 226 اور 227میں دل کے گناہ کا مطلب واضح ہے اور یہ بھی کہ ناراضگی میں عورت چار ماہ تک کی عدت کی پابند ہے اسکے بعد وہ دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے اور اس کو طلاق کے مالی حقوق ملیںگے کیونکہ ناراضگی مرد کی طرف سے ہے۔ ناراضگی کے بعد عدت میں اور عدت ختم ہونے کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع کرسکتے ہیں۔ فقہاء نے تو ان آیات کے واضح مفہوم میں بگاڑ ، اختلاف اور تضاد پیدا کرکے فطری اسلام کا بیڑہ غرق کردیا۔ احناف کے نزدیک چار ماہ کی مدت گزر جائے تو عورت کو طلاق ہوگی اور جمہور فقہاء کے نزدیک زندگی بھر بھی عورت کو طلاق نہیں ہوگی۔ یہ تضاد قرآن کے طالب علم کے ذہنوں کو قتل کرکے مفلوج کرکے رکھ دیتا ہے۔
عورت خلع لے تو صحیح حدیث کے مطابق اس کی عدت ایک حیض ہے اور اس پر سعودی عرب میں عمل ہے۔ شوہر کی ناراضگی کو عربی میں ایلاء کہتے ہیں۔ نبیۖ نے ایک ماہ ایلاء کے بعد رجوع کرلیا تو اللہ نے فرمایا کہ ” ان کو طلاق کا اختیار دیدو”۔ شرعی مسائل قرآن وسنت میں واضح ہیں۔ اگر ایلاء کے بعد عدت میں اور عدت کے بعد عورت کو اختیار دیا جاتا تو تضادات پیدا نہ ہوتے ۔ اللہ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے یہ احکام بیان کئے لیکن فقہاء نے عورتوں کا سارا حق سلب کرکے رکھ دیا۔ جس طرح آیت228میں انتظار سے مراد عدت ہے ، اسی طرح آیت226البقرہ میں بھی انتظار سے مراد عدت ہے۔ سورہ بقرہ آیات225، 226، 227 میں عورت کو تحفظ تھا ۔ فقہاء نے عورت کے حقوق کو نظر انداز کردیا۔ جسکے نتیجہ میں عجیب و غریب تضادات کا شکار ہوگئے۔ کوئی کہتا تھا کہ چار ماہ بعد طلاق ہوگئی اور کوئی کہتا تھا کہ چارماہ بعد بھی طلاق نہیں ہوئی۔
آیت228میں جاہلیت کی دو اہم رسم کا خاتمہ ہے۔ اکٹھی تین طلاق پر حلالہ کی لعنت تھی اور شوہر جتنی مرتبہ چاہتا تو عورت کی رضا کے بغیر رجوع کرتا۔ اللہ نے واضح کیا کہ ” طلاق سے رجوع کا تعلق عدت سے ہے عدد سے نہیں۔ باہمی اصلاح سے ہے ،شوہر کے اختیار سے نہیں”۔ حضرت عمر نے اکٹھی تین طلاق کے نفاذ کا فیصلہ اسلئے کیا کہ عورت رجوع کیلئے راضی نہ تھی اور یہی فیصلہ ایک طلاق کے بعد عورت کے رجوع کیلئے راضی نہ ہونے کی صورت میں ہوتا۔ قرآن نے باہمی رضاسے رجوع کی وضاحتوں کو سورہ بقرہ اور سورۂ طلاق میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد بہت اچھے انداز میں واضح فرمایا ۔
آیت229میں یہ واضح کیا کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق اس عدت سے ہے جسکے تین مراحل ہیں اور تیسری مرتبہ طلاق کے بعد شوہر نے جو کچھ بھی دیا بیوی سے کچھ واپس لینا جائز نہیں۔ جاہلیت کی یہ رسم تھی کہ عورت سے خلع کیلئے مال کا مطالبہ کیا جاتا اور طلاق میں عورت کو دئیے ہوئے اشیاء سے محروم کردیا جاتا تھا۔ سورۂ النساء آیت :19 میں خلع کی صورت میں عورت کو مالی تحفظ دیا گیا ہے اور آیات:21، 22 میں طلاق کی صورت میں عورت کو مالی تحفظ دیا گیا ہے۔
جاویداحمد غامدی نے آیت229البقرہ کا انتہائی گمراہ کن ترجمہ کیا۔ ایک طرف طلاق کے بعد عورت سے شوہر کے دئیے مال میں سے کچھ بھی واپس لینے کو ناجائز قرار دیاگیا اور دوسری طرف اسی آیت سے خلع بھی مراد لیا ہے جس میں عورت کو حق دینے کے بجائے الٹا بلیک میل کرنے کاحق شوہر کو دینا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے عورت کے جتنے حقوق بیان کئے ہیں وہ سب فقہاء ومفسرین نے اپنی طرف سے غصب کئے ہیں۔ اللہ نے ایک ،دواور تین مرتبہ طلاق کے بعد معروف ، اصلاح کی شرط اور باہمی رضامندی سے رجوع کی بار بار وضاحت کردی ہے لیکن شافعی وحنفی فقہاء اس بات پر تضادات کا شکار ہیں کہ طلاق سے رجوع کیلئے نیت شرط ہے یا نہیں؟۔ شافعیوں کے نزدیک نیت نہ ہوتو مباشرت سے رجوع نہیں ہوگا اور حنفیوں کے نزدیک غلطی سے شہوت کی نظر پڑجائے تو بلانیت رجوع ہے۔ معروف کی جگہ فقہ میں منکر رجوع نے لے لی۔ عورت کے حق کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے اسلام کو اجنبیت کا شکار کیا گیاہے۔
اللہ نے آیت 229میںواضح کیا کہ 3مرتبہ طلاق کے بعد دی ہوئی چیزوں میں سے کچھ واپس لینا جائز نہیں مگر جب دونوں اور فیصلہ کرنیوالے بھی متفق ہوں کہ اگر کوئی خاص چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر اس خاص دی ہوئی چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں حرج نہیں یہی وہ صورتحال ہے کہ میاں بیوی اور فیصلہ کرنیوالے نہ صرف جدائی پر متفق ہوں بلکہ رابطے کیلئے بھی کوئی چیز درمیان میںنہ چھوڑ یں۔ اس صورتحال کی وضاحت کے بعد سوال یہ پیدا نہیں ہوتا کہ رجوع کرلیا جائے تو ہوجائیگا بلکہ ایک دوسری معاشرتی برائی کی اصلاح اللہ نے فرمائی کہ طلاق کے بعد عورت کو اس کی مرضی سے نکاح کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ اس جاہلیت کا خاتمہ کرنے کیلئے فرمایا کہ ” اگر اس نے طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ عورت اپنی مرضی سے کسی اور سے نکاح کرلے”۔ اس کا تعلق تین مرتبہ طلاق سے نہیں ہے بلکہ عورت کو اپنی رضامندی سے دوسرے شوہر سے نکاح کا حق دلانا ہے اور یہ رسم آج بھی معاشرے میں موجود ہے۔ لیڈی ڈیانا کو بھی اسلئے قتل کیا گیا۔
اگر اللہ نے باہمی رضا ، اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کا راستہ روکنا ہوتا تو پھر آیات231، 232میں عدت کی تکمیل کے فوری بعد اور عدت کی تکمیل کے عرصہ بعدباہمی رضامندی سے رجوع کی وضاحت کیوں کرتا؟۔ سورۂ طلاق میں بھی عدت میں ، تکمیل عدت کے بعداور تکمیل عدت کے کافی عرصہ بعد اللہ نے رجوع کا دروازہ باہمی صلح سے کھلا چھوڑ نے کی وضاحت فرمائی۔ اس مسئلے پراحادیث صحیحہ کا قرآن سے کوئی ذرا بھی تصادم نہیں ہے ۔
مغرب کو بڑا خطرہ خلافت سے یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی عورتوں کو انکے اسلامی حقوق نہیں دئیے تو اگر ان کی خواتین کو لونڈیاں بنایا گیا پھرکیا ہوگا؟۔ خلافت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید نے ساڑھے چار ہزار لونڈیا ں ہر رنگ ونسل کی رکھی تھیں۔ حالانکہ غلام و لونڈی پیدا کرنے کا ادارہ جاگیرداری نظام تھا جس کو نبی ۖ اور فقہ کے چاروں ائمہ نے سُود قرار دیا تھا۔ آج بھی مزارعین میں غلامی کی روح ویسے کی ویسی ہے۔ فقہاء نے حیلہ کرکے مزارعت کو حلال کردیا۔
قرآن نے جس طرح آزاد عورت کیساتھ نکاح کا تصور دیا ہے اسی طرح سے لونڈی سے بھی نکاح کا حکم دیا ہے۔ جس طرح آزاد عورت اور مرد میں ایک معاہدہ یا ایگریمنٹ ہوسکتا ہے جس کو ایرانی متعہ اور سعودیہ ومصر والے مسیار کے نام سے جواز بخشتے ہیں۔ نکاح میں عورت کی ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے ۔ دوسری صورت میں عورت کی پوری ذمہ داری مرد کے ذمہ نہیں ہوتی۔ اسلئے نکاح محدود عورتوں کیساتھ اس شرط پر ہوسکتا ہے کہ جب ان کو عدل فراہم کیا جاسکے ، نہیں تو پھر ایک ہی پر اکتفاء کرنے کا حکم ہے۔ جبکہ لونڈیاں لاتعداد ہونے کی وضاحت قرآن میں قطعی طور پر بھی نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ایگریمنٹ والیاں ہیں اور مغرب نے اس تصور کو کچھ زیادہ ہی فحاشی وآزادی کیساتھ رائج کردیا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

نا اہل حکومت و ریاست

influencer social media, government of pakistan, government of pakistan, government of pakistan, qamar javed bajwa, sindh government, pakistan army, pakistan army, pakistan army

نا اہل حکومت و ریاست

بہت سے لوگوں کے انفرادی اور اجتماعی sindh governmentکردار میں انتہائی خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی ہیں جن پرفرداً فرداً سوشل میڈیا میں تجزئیے بھی ہیں

عدلیہ ، سولand و ملٹری بیوروکریسیsindh government اور سیاسی قیادت جیسے عام influencer social media لوگوں کو انصاف دینے اور ظلم و ستم سے بچانے میں ناکام ہیں مشکل وقت میں بہت سی جانیں بچ سکتی تھیںمگر نااہلی چھاگئی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اللہ نےand فرمایا : ”جس نے ایک جان کو بغیر کسی جان یا فساد کےinfluencer social media قتل کیا تو گویا اس نے Qamar javed bajwaتمام لوگوں کو قتل کیا اور جس نےsindh government ایک کوزندہ کیا تو گویا اس نے تمام لوگوں Qamar javed bajwaکو زندہ کردیا”۔ حکمران کیلئے موقع تھا کہ Pakistani Politiciansمشینری کو متحرک کرکے غریبوںand کی جانوں کو .بچانےPakistani Politicians میں بھرپور کردار ادا کرتےpakistan army تو گناہوں کا کفارہ بھی ادا ہوجاتا۔


حکمرانوں کی شہ خرچیاں قرضوں pakistan armyپر چلتیand ہیں ۔ قرضوںso Qamar javed bajwaکا سود عوام پر مہنگائی کی شکل میں پڑتا ہے۔ جب عوامPakistani Politicians کو ضرورتinfluencer social media ہوتو ان کو بے. حسی soکا دورہ پڑجاتا ہے۔ نظام کو بدلنےsindh government کی جتنیso ضرورت اب ہے اس سے پہلے اتنی sindh governmentشدت soسےPakistani Politicians عوام میں کبھی احساسQamar javed bajwa پیدا نہ .ہوا تھا۔ جو سیاسی andقیادت شکایتand کرتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹso ان کی sindh governmentراہ میں رکاوٹ ہےso تو یہ بھی معلوم influencer social mediaہے sindh governmentکہ یہ سیاسیPakistani Politiciansso قیادتand اسٹیبلشمنٹand ہی Qamar javed bajwaکی پیداوار ہے۔ ان کا آپس soمیں تعلق مرغی اور انڈےPakistani Politicians کا ہے۔

government of pakistan

جو قائد sindh governmentاسٹیبلشمنٹ pakistan armyکے سانچے Pakistani Politiciansمیںso بن کر یا ڈھل Qamar javed bajwaکر نکلا ہواور پھر اسٹیبلشمنٹ پر اجارہPakistani Politicians داری قائم Qamar javed bajwaکرنے کی. کوشش کرتا ہوsindh government اس کی Pakistani Politiciansمثال مرغی کے بالغ چوزے کیPakistani Politicians ہے andجو اپنی. ماں کا خیال نہ Pakistani Politicians رکھے۔ پیپلز پارٹی، ن soلیگsindh government اورPTIسب andآزمائی ہوئیso وہ مرغیاں ہیں جن میں انقلابinfluencer social media Qamar javed bajwa اور آذان soسحر کیPakistani Politicians صلاحیت نہیں۔ بارش سے پہلے اطلاعات sindh governmentملتی ہیں ، سیلابیso sindh government ریلہ جب آتا ہے تو پہلے پتہ چلتا ہے اور ٹرانسپورٹ کے ذریعے Pakistani Politiciansمتاثرین کو .بروقت منتقل کیاand جاسکتا ہے۔

TEST

بے حسی کا یہ عالم ہے توinfluencer social media بیرونی دنیا کی طرف سے so اچانک حملوں کا دفاعinfluencer social media کیسےsindh government کیا جائیگا؟۔حکمرانوں Qamar javed bajwa کو. شرمand سے ڈوب soمرنا چاہیے۔مالی گوشوارےinfluencer social media چیک کرکے. اشرافیہ سے Pakistani Politiciansلوٹی ہوئی دولت چھینQamar javed bajwa کر متاثرین. کیPakistani Politicians بحالی کا کام .ہوسکتا ہے۔ متاثرینinfluencer social media کے اکاونٹsindh government کھول کر براہِ راست ان کوامدادیsindh government رقوم منتقل کی جائیں۔ اشرافیہ .کا پیٹ soبھرنے andکا نام نہیں لیتا ہے۔.

TEST

بے حسی کا یہ عالم ہے توinfluencer social media بیرونی دنیا کیsindh government طرف سے. soاچانک حملوں andکا دفاع کیسےsindh government کیا جائیگا؟۔حکمرانوں Qamar javed bajwa کو. شرم .سے ڈوبso مرنا چاہیے۔مالیand گوشوارےinfluencer social media چیک کرکے اشرافیہ سے Pakistani Politiciansلوٹی andہوئی دولت چھینQamar javed bajwa کر متاثرین .کیPakistani Politicians بحالی influencer social mediaکا کام ہوسکتا ہے۔ andمتاثرین کے اکاونٹ کھولsindh government کر براہِ راستso ان کوامدادیsindh government رقوم منتقل کی جائیں۔ اشرافیہ کاinfluencer social media پیٹ بھرنے کا نام نہیں لیتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

zarbehaq.com/blogs