پوسٹ تلاش کریں

خواتین کے حقوق کا قرآنی آیات سے ٹھوس لائحہ عمل…. اداریہ نوشتہ دیوار خصوصی شمارہ معراج اپریل 2018

woman-rights-khawateen-huqooq-quranic-verse-aayat-khula-talaq-khan-nawab-king-badshah-imam-abu-hanifa-jail-ummhat-ul-mumineen-hazrat-muhammad-abu-jehal-ali-jamhoor-iddat-ela-umer-nikah-mutaa

خلع

بعض اوقات شوہر بیوی سے علیحدگی چاہتا ہے جسے طلاق کہتے ہیں، قرآن میں سورۂ طلاق بھی ہے اور طلاق کے حوالے سے سورۂ بقرہ اور دیگر سورتوں میں تفصیل سے احکام بھی ہیں۔ عورت علیحدگی چاہتی ہو تو اسے خلع کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء میں پہلے عورت کو خلع کا حق دینے کی وضاحت فرمائی ہے اور پھر بعد میں شوہر کیلئے طلاق دینے میں بھی عورت کے حقوق کو واضح فرمایا ہے۔ اگر دنیا نے قرآنی آیات کو سمجھ کر دستور العمل بنایا تو انقلاب آجائیگا۔
فرمایا: اے ایمان والو! تمہارے لئے حلال نہیں کہ اپنی عورتوں کے زبردستی مالک بن بیٹھواور ان کو اس لئے مت روکو کہ تم نے جو کچھ ان کو دیا ہے اس کا کچھ حصہ ان سے لے لو۔ مگر یہ کہ وہ کھلی ہوئی فحاشی کی مرتکب ہوں۔ اور انکے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ اگر وہ تمہیں بری لگیں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگے اور اللہ اس میں تمہارے لئے بہت سارا خیر رکھ دے۔ (سورہ نساء : آیت 19)۔
اللہ تعالیٰ نے نساء کا لفظ قرآن کے مختلف مقامات پر بیگمات کیلئے استعمال کیا ہے۔ اردو، پشتو وغیرہ میں بھی عورت کا لفظ بیوی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ جب بیوی سے نکاح ہوتا ہے تو شوہر معاشرے میں مالکانہ حقوق کی طرح طرز عمل رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں واضح کیا کہ زبردستی سے شوہروں کیلئے حلال نہیں کہ ان کے مالک بن بیٹھیں۔ اگر وہ خلع لے کر جانا چاہیں تو ان کو اسلئے نہ روکیں کہ حق مہر کے علاوہ جو کچھ ان کو دیا ہے ان سے وہ واپس لے لیں، مگر یہ کہ وہ کھلی ہوئی فحاشی کی مرتکب ہوں۔ ایسی صورت میں دی ہوئی بعض اشیاء سے محروم کرنا درست ہے۔ جب عورت خلع لے کر علیحدہ ہورہی ہو تو مرد کی طرف سے بدسلوکی کے خدشے کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے واضح کیا ہے کہ پھر بھی ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ اگر اس اقدام کی وجہ سے وہ تمہیں بری لگیں تو ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کو تم برا سمجھو اور اللہ اس میں تمہارے لئے بہت سارا خیر رکھ دے۔
دنیا کا کوئی مہذب معاشرہ اور ملک و قوم قرآن کے اس حکم سے انکار اور کفر کا روادار نہیں ہے۔ جب عورت اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہو تو اس شوہر سے بڑا بے غیرت کوئی نہیں ہوسکتا ہے کہ پھر بھی عورت کو خوامخواہ مجبور کرے کہ وہ اسکے ساتھ رہے گی۔ یہ ہوسکتا ہے کہ شوہر طیش میں آکر چپل اور کپڑے اتارنے تک کی بات کرے اور بعض دی ہوئی قیمتی اشیاء واپس لینے کیلئے دباؤ ڈالے لیکن قرآن نے اس آیت کے واضح حکم میں شوہر کو ایسا کرنے سے روکا ہے۔ البتہ اگر کھلی ہوئی فحاشی کی عورت مرتکب ہو توپھر بعض چیزوں کی گنجائش ہے۔ علیحدگی کی اس صورتحال پر اللہ نے حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور یقیناًاس میں اللہ نے بہت سارا خیر رکھا ہے۔ عورت کو زبردستی سے رُکنے پر مجبور کیا جائے تو وہ شوہر کو زہر کھلا سکتی ہے ، گلا دبا سکتی ہے ، اپنا خاتمہ کرسکتی ہے اوربچوں کی زندگی بھی ختم کرسکتی ہے، معاشقہ کرکے شوہر کی عزت کو داغدار کرسکتی ہے۔ سکون تباہ رہے گا ۔ عورت کا مقصد ہی سکون ہوتاہے اور متبادل میں کوئی دوسری عورت خیر کثیر بن سکتی ہے۔
عورت کمزور ہوتی ہے اور شوہر طاقتور ہوتا ہے ۔ خان ، نواب، سردار، بادشاہ اور طاقتور مردوں کے سامنے ایک کمزور مذہبی رہنما اور پیشوا کمزور عورت کے حق کی بات کرنے کی ہمت نہیں رکھتا ۔ گلی،محلہ ، گاؤں، شہر اور ملک سے طاقتور طبقہ ان کو بھگادے گا اور زکوٰۃ خیرات سے بھی محروم کردے گا۔ امام اعظم امام ابو حنیفہؒ کی سیرت میں لکھا ہے کہ عباسی خلیفہ نے اپنی بیوی کے سامنے ان سے پوچھ لیا کہ دوسری بیوی کی گنجائش اسلام میں ہے یا نہیں؟۔ امام ابو حنیفہؒ نے آیت پڑھی جس میں پہلے دو دو ، تین تین اور چار چار عورتوں سے نکاح کرنے کی گنجائش ہے لیکن پھر عدل قائم نہ کرنے کی صورت میں ایک ہی کی وضاحت ہے ، جس پر پہلے بادشاہ خوش ہوا اور ملکہ ناراض ہوگئی مگر پھر ملکہ خوش ہوئی اور بادشاہ سے کہا کہ آپ عدل نہیں کرسکتے ، اسلئے تیرے لئے دوسری کی گنجائش نہیں۔ اس واقعہ ہی کی بنیاد پر بادشاہ نے دل میں بغض رکھا اور امام ابو حنیفہؒ کو جیل میں ڈالا۔
رسول اللہ ﷺ سے زیادہ بڑی شخصیت کا تصور بھی نہیں ہوسکتاہے لیکن قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرات اُمہات المؤمنین ازواج مطہراتؓ کیلئے بھی واضح فرمایا تھا کہ ’’ان کو علیحدہ ہونے کا اختیار دے دیں‘‘۔ جب حضرت علیؓ نے ابو جہل کی لڑکی سے شادی کرنا چاہی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’پھر میری بیٹی کو طلاق دو اسلئے کہ اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں‘‘۔ پاکستان میں یہ قانون قرآن و سنت کے منافی ہے کہ دوسری شادی کیلئے پہلی سے اجازت لی جائے، لوگ پہلی کو مجبور بھی کرلیتے ہیں اور قتل بھی کردیتے ہیں البتہ یہ وضاحت ہونی چاہیے کہ دوسری شادی پر پہلی کو طلاق کا مکمل اختیار ہوگا۔ پاکستان میں بیوی خلع لینا چاہتی ہے اور شوہر طلاق نہیں دینا چاہتا ہے تو عورت عدالت سے رجوع کرتی ہے۔ عدالت سے خلع کاحکم جاری ہوتا ہے تب بھی حنفی مکتبہ فکر کے بہت سے علماء یہ فتویٰ جاری کرتے ہیں کہ طلاق نہیں ہوئی، نکاح بدستور قائم ہے جب تک شوہر خود طلاق نہیں دے۔ حالانکہ حنفی مکتب کے بڑے مدارس جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دار العلوم نعیمیہ کے علماء و مفتیان نے بھی عدالت کی طرف سے خلع پر طلاق کا فتویٰ جاری کردیا ہے۔ حنفی مکتب کی طرف سے خلع واقع ہونے کیلئے شاید دوسرے مسالک سے استفادہ ہوا ہے جبکہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کے مسلک کا بھی یہی بنیادی تقاضہ ہے کہ عدالت کے بغیر بھی طلاق ہو۔
قرآن کی آیت و ان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیم Oاور اگر ان کا عزم طلاق کا ہو تو اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔(البقرہ: 227)۔ قرآن کی اس آیت میں پہلی بات طلاق کا ذکر ہے ۔ اس سے پہلے والی آیت میں چار ماہ تک انتظار کا حکم ہے۔ امام ابو حنیفہؒ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے چار ماہ تک اس انتظار کے باوجود رجوع نہ کرنے کو طلاق قرار دیا ہے جبکہ جمہور کے نزدیک جب تک شوہر طلاق کا اظہار نہ کرے تب تک عورت زندگی بھر انتظار کرے گی۔ اس کا تقاضہ یہی ہونا چاہیے تھا کہ امام ابو حنیفہؒ کا مسلک کم از کم عدالتی خلع پر واضح ہوتا۔
ترقی یافتہ دنیا نے بہت بعد میں عورت کو خلع کا حق قانون قرار دیاجبکہ اسلام نے 14سو سال پہلے قرآن کی واضح آیات اور احادیث صحیحہ میں عورت کے اس حق کو بہت اچھی طرح سے واضح کیا۔ افسوس ہے کہ سورہ بقرہ آیت 229میں خلع کا تصور نہیں بلکہ عدت کے تین مراحل میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلے میں رجوع کا فیصلہ کرنے کے بجائے علیحدگی کا فیصلہ کیا جائے اور پھر دونوں آئندہ رابطہ نہ رکھنے پر متفق ہوں۔ معاشرہ بھی یہی فیصلہ کرے تو مرد کی طرف سے دی ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز واپس لینا گوکہ حلال نہیں لیکن جب وہ رابطے کا ذریعہ بنے اور دونوں کی طرف سے اس خدشے کا احتمال ہو کہ اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی گناہ نہیں،یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوز پراللہ نے ظالم قرار دیا ہے ۔یہ آیات محکمات ہیں مگرخلع میں مضحکہ خیز طریقے پر بلیک میلنگ کو بھی جائز کہا گیا۔

عدت

اللہ نے مختلف آیات میں خواتین کے حقوق کیلئے ہی عدت کے احکام واضح کئے ۔ جب شوہر طلاق کا اظہار نہ کرے اور زندگی بھر اس کو لٹکانا چاہے تو اللہ نے سب سے پہلے عدت کی اس صورت کو ہی واضح فرمایا ۔ عربی میں اس صورتحال کو ایلاء سے تعبیر کیا گیا، امام مالکؒ نے واضح کیا کہ ایلاء صرف شوہر کی ناراضگی ہے، حلف نہیں۔ اللہ نے واضح کیا کہ لغو قسم یا عہد پر اللہ نہیں پکڑتا مگر دل کے گناہ پر پکڑتا ہے۔ جو لوگ اپنی بیویوں سے نہ ملنے کی قسم کھاتے ہیں ان کیلئے چار ماہ کا انتظار ہے۔ پھر اگر وہ راضی ہوئے تو اللہ غفور رحیم ہے اور اگر ان کا عزم طلاق کا تھا تو اللہ سننے جاننے والا ہے۔ طلاق والی عورتوں کیلئے تین مراحل (طہر و حیض ) کا انتظار ہے۔ (البقرہ: آیت 228-227-226-225)
انتظار کیلئے تربص کا لفظ یکساں ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ آیت 226میں تربص سے کوئی چیز مراد لی جائے اور 228میں کوئی چیز مراد لی جائے، دونوں جگہ عدت ہی مراد ہے۔ اگر عورت کو حیض نہ آتا ہو تو پھر طلاق کی صورت میں انتظار یا عدت تین ماہ ہے۔ ناراضگی کی صورت میں شوہر کا پہلے سے عزم طلاق کا تھا تو اس دل کے گناہ پر اللہ کی پکڑ ہوگی اسلئے کہ انتظار ایک ماہ اسکی وجہ سے بڑھ جاتا ہے اور یہ عورت کی حق تلفی ہے۔ چنانچہ طلاق کی عدت تین ماہ اور ناراضگی کی عدت چار ماہ ہے، معاشرتی تعلق بحال رکھنے کیلئے یہ انتظار خواتین کے مفاد میں ہے۔ بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ انسان سوچ سکتا ہے کہ بیوہ چار ماہ دس دن انتظار کی پابند ہو تو طلاق کا عزم رکھنے کے باوجود چار ماہ انتظار پر پکڑ نہ ہونی چاہیے، لیکن ناراضگی و طلاق کی صورتیں مختلف نہیں اسلئے ایک ماہ کی مدت پر بھی پکڑ ہوگی۔
ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرد کو زیادہ شادی کرنے کی اجازت ہے لیکن اس کیلئے عدت کا کوئی تصور نہیں۔ عورت کا رشتہ ایک ہی شوہر سے ہوتا ہے اور پھر بھی عدت چار ماہ ، تین ماہ اور چار ماہ دس دن تک عورت ہی کو گزارنی پڑتی ہے۔ کمزور کے حق کا اس میں تحفظ ہے یا پھر یہ عورت کے ساتھ ظلم و زیادتی اور حق تلفی ہے؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ان تمام صورتوں میں خواتین کی فطرت ہی کا تحفظ ہے اور صحیح حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے وضاحت فرمائی ہے کہ ’’خلع کی صورت میں عورت کی عدت ایک حیض ہے‘‘۔ طلاق کی صورت میں شوہر علیحدگی چاہتا ہے اور خلع کی صورت میں بیوی علیحدگی چاہتی ہے۔ عورت خلع چاہتی ہو تو ایک حیض کی عدت بھی خواتین ہی کے مفاد میں ہے کیونکہ حیض کے بعد دوسری جگہ نکاح ہو تو پھر دوسرے شوہر کو اپنی اولاد کا یقین ہوگا۔ حمل کی صورت میں عورت کی عدت بچے کی پیدائش تک ہے۔ آیت میں طلاق سے رجوع کیلئے بالکل واضح ہے کہ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحا (اور انکے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کا حق رکھتے ہیں اصلاح کی شرط پر ) ۔ عورت کی رضا کے بغیر طلاق کے بعد عدت میں بھی شوہر کو رجوع کا حق نہیں۔ وان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما (اگر ان دونوں کا پروگرام اصلاح کا ہو تو اللہ تعالیٰ دونوں میں موافقت پیدا کردے گا)۔ یہ تونہیں ہوسکتا کہ عدت میں بھی اصلاح کی شرط پر شوہر کو رجوع کا حق ہو اور پھر عدت کی تکمیل پر بار بار اللہ نے غیر مشروط رجوع کا حکم دیا ہو۔ بڑی بات یہ ہے کہ اللہ نے صلح کی شرط پر شوہر کو رجوع کا حق نہیں دیا بلکہ اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق دیا ہے۔ طلاق کی وجہ یہ بنتی ہے کہ شوہر یا بیوی کو کسی معاملے میں اس کی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔
مثلاً عورت زبان چلاتی ہے اور شوہر مارتا پیٹتا ہے اور اس بگاڑ کی وجہ سے نوبت طلاق اور علیحدگی تک پہنچتی ہے۔ پھر عدت کے آخری مرحلے میں میاں بیوی کے درمیان صلح ہوجاتی ہے۔ دو مہینے گزرنے کے بعد جب صلح ہوجائے اور پھر عورت زبان چلائے اور مرد پیٹنا شروع کردے تو یہ دو ماہ کی عدت رائیگاں جائیگی۔ اسلئے قرآن نے اصلاح کے الفاظ کا انتخاب کیا ہے۔ اگر صلح ہوگئی مگر اصلاح نہیں ہوئی تو یہ صلح معتبر نہ ہوگی۔ دو ماہ کی عدت معتبر قرار دی جائے گی اور اصلاح نہ ہونے کی صورت میں ایک ماہ اور یعنی وہی تین ماہ کا انتظار ہوگا۔
حدیث ہے کہ تین چیزیں سنجیدگی اور مذاق میں معتبر ہیں طلاق، عتاق اور رجوع۔ عتاق غلام یا لونڈی آزاد کرنے کو کہتے ہیں۔ ایک مرتبہ آزاد کردیا اور پھر کہہ دیا کہ مذاق کررہا تھا تو مذاق میں بھی آزادی ملے گی۔ اگر نہ ملے تو یہ اس غلام یا لونڈی کی حق تلفی ہوگی۔ یہ بات سب کو آسانی سے سمجھ میں آتی ہے مگر مذاق میں طلاق اور رجوع کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر شوہر طلا ق دے اور پھر کہے کہ میں مذاق کررہا تھا اور عورت اس کو سنجیدگی سے نہ لے تو اس طلاق کی کوئی حیثیت نہیں البتہ اگر عورت نے سنجیدہ لیا اور ڈٹ گئی کہ اب شوہر کیساتھ نہیں رہنا ہے تو پھر یہ طلاق مذاق میں معتبر ہے۔ خلع و طلاق میں فرق معاملات کا ہے۔ خلع میں عورت کو اپنا گھر بار چھوڑ کر نکلنا پڑتا ہے اور طلاق میں ہر چیز سے شوہرہی کو دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ سورہ نساء کی آیت 21-20میں طلاق کی وضاحت ہے۔
حقوق پر خلع اور طلاق کی صورتوں میں بہت بڑا اور واضح فرق پڑتا ہے۔ جیسے لونڈی اور غلام کو آزاد کرنے میں حق کا معاملہ ہوتاہے اسی طرح سے طلاق کی صورت میں بھی اصل مسئلہ عورت کے حق کا ہوتا ہے۔ یہ قرآن و سنت اور فطرت کے ساتھ بڑا مذاق ہوگا کہ کوئی شوہر بیوی سے کہے کہ میں نے طلاق دی اور عورت ڈٹ جائے لیکن مرد کہے کہ یہ ایک مرتبہ کی طلاق کا مذاق ہے جبکہ دو مرتبہ کیلئے میرے پاس گنجائش ہے۔ طلاق مرد کا فعل ہے لیکن رجوع بیوی کے راضی ہونے سے مشروط ہے۔ اگر شوہرنے رجوع کرلیا اور عورت اس کیلئے راضی نہ ہو تو مذاق کیا سنجیدگی میں بھی رجوع معتبر نہیں ہے۔ اگر شوہر نے رجوع کرلیا، بیوی نے رضامندی ظاہر کردی تو پھر اگر شوہر کہے کہ میں نے مذاق کیا تھا تو رجوع کو معتبر سمجھا جائے گا۔ اس رجوع کی وجہ سے شوہر کو بیوی کے حقوق ادا کرنے ہیں۔ اس بات سے اس کو چھٹکارا نہیں مل سکتا ہے کہ میں نے مذاق کیا تھا۔
اگر شوہر کو یہ حق دیا جائے کہ ایک بار طلاق کے بعد رجوع کرسکے اور دوبارہ طلاق کے بعد پھر رجوع کرسکے اور پھر طلاق دے تو یہ عورت کیلئے ایک نہیں کئی عدتوں کا قانونی حق شوہر کو دینا ہے جو قرآن اور فطرت کے سراسر منافی ہے۔ نکاح و طلاق اور معاہدہ (متعہ،ایگریمنٹ) کے درست احکام کو واضح کیا جائے تو پوری دنیا اپنے غیر فطری اور انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو چھوڑ کر قرآن وسنت اور اسلام کی طرف بہت خوشی اور رغبت کیساتھ رجوع کریگی۔ مدارس کے ارباب علم و فتویٰ کو بڑے پیمانے پر اس نصاب کا جائزہ لینا ہوگا جو اسلام کے اجنبی بن جانے کے بعد بتدریج مختلف ادوار میں تشکیل دیا گیا ۔ بہت خوش آئند اور حوصلہ افزا بات ہے کہ بڑے مدارس کے بڑے علماء کرام و مفتیان عظام نے ہماری تحریک کو دل سے پسند کرنا شروع کیا ہے۔اُمید ہے کہ اعلان کردینگے۔
خواتین معاشرے کا پسا ہواکمزور ، مجبوراور مظلوم طبقہ ہے، جن پر حق حکمرانی کادرست تصور پیش کیا جائے اور بدترین جابرانہ غلامی اور ظلم سے نکالا جائے تویہ اسلامی انقلاب اور دنیا کو جبرو ظلم کے نظام سے نکالنے کا بہترین آغاز ہوگا۔

طلاق

شوہر نکاح کے بعد ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے تو نصف حق مہر دینا اللہ کا قانون ہے اور عورت پر عدت بھی نہیں ۔ مکان ، دکان، پلاٹ وغیرہ لیا جاتا ہے تو پانچ دس فیصد سے بھی کم بیانہ ہوتا ہے۔ اللہ نے نصف حق مہر کا بیانہ مقرر کرکے خواتین کے حقوق اور عزت کی کتنی پاسداری کی ؟ ۔ اگر نکاح پر آدھا حق مہر ہو تو ہمبستری پر پورے حق مہر سے انکارکون بدفطرت کرسکتا ہے؟۔ مردوں کیلئے عورتوں پر اس سے بڑا درجہ کیاہے کہ نکاح یا ملاپ پر جدائی کے اثر کا خمیازہ عورت کو بھگتنا پڑتا ہے اسلئے مردوں پر اس کی وجہ سے حق مہر کا جرمانہ عائد ہے اور صنف نازک نے اگر مغالطہ کھایا ہو تو اس کا معاوضہ بھی مقرر کیا گیا ہے۔
ترقی یافتہ مغربی ممالک میں یہ قانون ہے کہ باقاعدہ نکاح کے بعد عورت کو بھی طلاق کا حق حاصل ہے اور طلاق کے بعد مرد کو آدھی جائیداد سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ یہ رسک لینے کے بجائے گرل و بوائے فرینڈز کی صورت میں معاشرہ تباہی کے کنارے پر پہنچ چکا ہے۔ ایک پاکستانی نے امریکہ میں نکاح کے بعد لڑکی کی طرف سے طلاق کا سامنا کیا اور آدھی جائیداد گنوادی تو پھر دوسری لڑکی سے باقاعدہ نکاح کے بجائے ایگریمنٹ کرلیا۔ جس سے اس کے کئی بچے بھی ہیں۔ ایگریمنٹ میں مرد اور عورت کے علاوہ بچوں کیلئے بھی اطمینان بخش ماحول نہیں ہوتا۔ ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان ہو تو معاشرے کی حالت اتنی بہتر نہیں ہوسکتی ہے۔ مغربی معاشرہ بے اطمینانی کی اس کیفیت سے دوچار ہوا ہے۔
اگر قرآن و سنت کے مطابق حق مہر کی ایک معین مقدار ہو اور خلع و طلاق کی صورت میں اس رقم کومحور قرار دیا جائے تو ایگریمنٹ کے بجائے اعتماد کیساتھ نکاح کا ماحول قائم ہوگا۔ قرآن میں یہ وضاحت ہے کہ’’ شوہر کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہوتا ہے‘‘۔ اس کا مفہوم بالکل غلط لیا گیا ہے کہ عورت کو خلع کا حق حاصل نہیں ۔ اس آیت کا سیاق و سباق اور لب لباب یہ ہے کہ علیحدگی کی صورت کا ذمہ دار شوہر ہوتا ہے۔ عورت خلع لے یا مرد طلاق دے دونوں صورتوں میں اس کی ذمہ داری مرد ہی پر پڑتی ہے۔ عورتیں اپنی خفیہ رازداری،عزت ونفس کو شوہر کے حوالے کردیتی ہیں تو ان کی طرف و اخذن منکم میثاقا غلیظا (اور انہوں نے تم سے پختہ عہد و پیمان لیا ہے)اس مضبوط نکاح کی نسبت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی سے نکاح کرنا چاہتے ہو اوران میں سے کسی ایک کو ڈھیر سارا مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو۔ کیا تم بہتان لگا کر اور کھلا گناہ کرکے واپس لو گے ؟ ۔اور آخر تم کیسے واپس لے سکتے ہو جبکہ تم ایکدوسرے سے قربت اختیار کر چکے ہواور ان عورتوں نے تم سے پکا عہد و پیمان لیا ہے۔ (سورہ نساء: آیت21-20)
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے سودی بینکاری سے بد حواس ہونے کا دنیا میں بھی مظاہرہ کیا ہے اور اپنے ترجمہ میں ’’بہت سارا حق مہر‘‘ لکھ کر بد بختی کی ہے۔ طلاق کی صورت میں عورت کو صرف حق مہر نہیں دینا پڑتا بلکہ جو چیز بھی دی ہو ، چاہے خزانے دئیے ہوں تب بھی کوئی چیز واپس نہیں لی جاسکتی ہے۔ عورت سے کئی بچے جنوانے کے بعد اسکا سیٹ اپ خراب کرنے کی اجازت نہیں ۔ گھر اصل میں عورت ہی کا ہوتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کے حجرات کی نسبت اُمہات المؤمنینؓ کی طرف تھی۔ گنبد خضرا ء حضرت عائشہ صدیقہؓ کا حجرہ تھا۔ حضرت عمرؓ بھی ان کی اجازت سے وہاں مدفون ہیں۔ مغرب میں جائیداد کا آدھا تصور غلط ہے لیکن اسلام نے یہ تصور دیا ہے کہ اگر پوری جائیداد بھی بیوی کو دی ہو تو طلاق کے بعد اس سے آدھی بھی نہیں لی جاسکتی ہے۔ البتہ خلع کی صورت میں عورت کو اپنا سیٹ اپ بدلنا پڑتا ہے ، گھر اور جائیداد لے جانے کی چیز نہیں ۔ ہاں لے جانے والی چیزیں لے جانے میں اس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ فحاشی کی صورت میں خلع و طلاق کی صورتحال بدل جاتی ہے مگر ان کو حق سے محروم کرنے کیلئے جھوٹا الزام لگانا بہت بڑی زیادتی اور بے غیرتی ہے جس کی نشاندہی کی گئی ہے۔
سورہ بقرہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمائی ہے کہ طلاق کی صورت میں ان سے کوئی چیز واپس لینا جائز نہیں جو کچھ بھی ان کو دیا ہے۔ (آیت 229) اور سورہ طلاق میں بھی گھر کی نسبت عورت کی طرف کی گئی ہے ۔لا تخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینتۃ (ان کو ان کے گھروں سے مت نکالواور نہ وہ خود نکلیں مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی میں مبتلا ہوں)۔ یہ کونسا اسلام ہے کہ دس بچے جنوا کر بڈھی کو اسوقت اسکے باپ کے گھر بھیجا جائے جب اس کے والدین بھی انتقال کرچکے ہوں۔ شریف لوگ ایسا کرتے نہیں ہیں لیکن جب رذیلوں کو بھی اسلامی قوانین کا پتہ چل جائے تو اخلاقیات کا وہ نظام قائم ہوگا جسکی طرف پوری دنیا میں سب کے سب لوگ راغب ہونگے۔
مرد اپنی طاقت کے زعم میں بڑا نامراد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب بیوی کو خلع کا حق دیا ہے تو یہ قرآنی آیت پورے معاشرے پر اچھی طرح سے واضح کرنا چاہیے۔ چونکہ مرد اپنی طاقت کی بنیاد پر ماحول ، شریعت اور قانون کو بھی اپنے حق کیلئے استعمال کرتا ہے اسلئے عوام کی نظروں سے قرآن کی آیت اجنبی بنادی گئی ہے۔ طاقتور مرد ایسی صورت میں جب وہ کبھی رجوع بھی نہیں کرنا چاہتا ہو تو پھر بھی اپنی طلاق شدہ عورت کو دوسرے شوہر سے نکاح کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ اسلئے اللہ تعالیٰ نے بڑے واضح الفاظ میں اس صورتحال کو بیان کرتے ہوئے یہ حکم جاری کیا ہے کہ اس طلاق کے بعد پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرلے۔( البقرہ : آیت 230)۔ لیکن اس سے پہلے کی آیات میں اور متصل دوسری آیات میں اللہ تعالیٰ نے بار بار وضاحت کی ہے کہ عدت کے اندر بھی اصلاح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے ، عدت کی تین مراحل سے تین مرتبہ طلاق کا تعلق ہے اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے بالکل کھلا رکھا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیات 224سے 232 اور سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں کوئی تضاد نہیں۔ احادیث صحیحہ سے بھی قرآن کا کوئی تضاد نہیں، بخاری کی حدیث میں ذائقہ چکھنے کی روایت صرف اس صورت میں ہے کہ جب عورت کی عدت ختم ہوچکی ہو، نکاح منقطع ہوچکا ہو، عورت نے دوسرے شوہر سے شادی کرلی ہو۔ اس کیساتھ خلوت صحیحہ اختیار کی ہو۔یہ ضروری نہیں کہ عورت پہلے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہو تو وہ بھی قبول کرلے۔ سب امور کو مدِ نظر رکھ حدیث کی تشریح کرنی چاہیے ۔ صحابہؓ روزوں میں رات کوبیوی سے مباشرت کو ناجائز سمجھ کر بعض خود سے خیانت کرتے تھے۔ اللہ نے واضح کردیا کہ روزے کی رات کو مباشرت جائز ہے، البتہ مساجد میں معتکف ہوتو مباشرت جائز نہیں۔پہلے لوگوں نے حقائق سے تجاوز کیا۔ پہلے آخری عشرے میں معتکف کیلئے مباشرت جائز نہ تھی پھر آخری عشرے میں مباشرت کو ناجائز کہا پھر بات یہانتک پہنچی کہ پورے رمضان کو بھی اس میں شامل کرلیا۔ اللہ نے مساجد میں اعتکاف کی طرح طلاق پر حلال نہ ہونے کو واضح کیا۔ سورۂ طلاق کے حوالہ سے اُم رکانہؓ سے تین طلاق کے باجود بھی ابورکانہؓ کو نبیﷺ نے رجوع کا حکم دیا تھا۔

نکاح ومتعہ

نکاح مرد کی طرح عورت کی بھی ضرورت ہے۔ محرمات کی فہرست کے بعد پانچویں پارہ میں ہے و احل لکم ما وراء ذالکم ان تبتغوا باموالکم محصنین غیر مسٰفحین فما استمتعتم بہ منھن فاٰتوھن اُجورھن فریضۃ ولا جناح علیکم فیما تراضیتم بہ من بعد الفریضۃ ان اللہ کان علیمًا حکیمًاO’’حلال ہیں تمہارے لئے انکے علاوہ باقی خواتین کہ تلاش کرواپنے اموال کے ذریعے نکاح کی قید میں لاتے ہوئے نہ کہ خرمستی کرتے ہوئے اور جنہوں نے تم میں سے متعہ کیا تو ان کا مقرر کردہ معاوضہ دواور تم پر گناہ نہیں کہ طے شدہ معاوضہ کے بعد آپس میں جس پر تم راضی ہوجاؤ، بیشک اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘(النساء:24) ا بن مسعودؓ نے یہ اضافہ لکھ دیا کہ فمااستمتعتم بہ الی اجل مسمیٰ’’جس نے ایک مقرر مدت تک متعہ کیا‘‘۔ جلالین میں اضافی تفسیر کی طرح ابن مسعودؓ نے بھی لکھی تھی۔ صحیح مسلم میں بھی ابن مسعودؓ نے متعہ کو حلال قرار دینے کیلئے آیت کا حوالہ دیا ہے جبکہ میں نبیﷺ نے ہی آیت کا حوالہ دیا ۔(بخاری) والٰتی یاتین الفاحشۃ من نسائکم فاستشہدواعلیھن اربعۃ منکم فان شہدوا فامسکوھن فی بیوت حتٰی یتوفٰھن الموت او یجعل اللہ لھن سبیلًاO ’’اور جو فحاشی کی مرتکب ہوں تمہاری عورتوں میں سے توان پر چار افراد اپنے میں سے گواہ طلب کرو، اگر گواہی دیں تو ان کو گھروں میں بند کرو۔ یہانتک کہ وہ مریں موت سے یا ان کیلئے اللہ کوئی راہ نکال دے‘‘( النساء: 15) ۔تفسیر عثمانی میں ہے کہ ’’پہلے زنا کیلئے کوئی حد نہیں تھی اسلئے عورت کو گھر میں محصور کرنے کا حکم آیا۔ پھر سورۂ نور میں زنا کی حد نازل ہوئی ۔ شادی شدہ کیلئے سنگساری، غیرشادی شدہ کیلئے 100کوڑے‘‘۔ حالانکہ حقائق اسکے منافی ہیں، ایک طرف جب اللہ نے متعہ کی اجازت دیدی اور اس متعہ کو ملکت ایمانکم کا نام دیدیا۔ تفسیر عثمانی میں ہے کہ’’ لوگ شادی شدہ بیگمات سے شادی کرنے کو پسند کرتے تھے‘‘ غلط تفاسیر کیوجہ سے عوام وخواص، علماء اور مشائخ قرآن مجیدسے دور ہوگئے۔
قرآن کی تفسیر کیلئے عربی، قرآن کے الفاظ اور احادیث صحیحہ کی رہنمائی بہت ضروری ہے۔ یہ بات بالکل غیر فطری ہے کہ غیر شادی شدہ جوان لڑکیوں کو چھوڑ کر بیگمات کی طرف کسی کا رحجان ہو۔ محصنات بیگمات اور فتیات جوان لڑکیوں کو کہتے ہیں۔ وہ جوان لڑکیاں جو لونڈیاں ہوں یا جن کی متعہ کرنے کی عادت رہی ہو۔ ان کے مقابلے میں طلاق شدہ وبیوہ بیگمات کو بھی ترجیح دی جاتی ہے۔ فرمایا :ومن لم یستطع منکم طولًاان ینکح المحصنٰت المؤمنٰت فمن ما ملکت ایمانکم من فتےٰتکم المؤمنٰت واللہ اعلم بایمانکم بعضکم من بعض فانکحوھن باذن اہلھن واٰتوھن اجورھن بالمعروف محصنٰت غیر مسٰفحٰت ولامتخذان اخدان فاذا احصن فان اتین بفاحشۃ فعلھین نصف ما علی المصحنٰت من العذاب ذلک لمن خشی العنت منکم وان تصبروا خیر لکم واللہ غفور رحیمO
نکاح کیلئے طلاق شدہ وبیوہ بھی جوان لونڈی یا متعہ والی سے بہتر ہے لیکن جب میسر نہ آئے تو لونڈی و متعہ کرنے والی سے بھی مستقل نکاح کیا جاسکتا ہے۔ بعض بعض سے ہیں۔اللہ ایسے لوگوں کا ایمان جانتا ہے۔ نکاح اسکے سرپرست یا مالک کی اجازت سے ہو۔ مقصد نکاح ہو ، نہ کہ خرمستی اور نہ چھپی یاری۔ جب وہ نکاح کی قید میں لائی جائے تو اگروہ کھلی ہوئی فحاشی کی مرتکب ہوں تو ان کو نصف سزا دی جائے جو عام شادی شدہ خواتین کیلئے مقرر ہے۔ یہ سزا اس لئے ہے کہ جس کو مشکل میں پڑنے کا اندیشہ ہو۔ سزا کے بغیر آوارہ بن سکتی ہو لیکن اگر تم صبر کرو، یعنی سزا نہ دو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ اللہ غفور رحیم ہے۔( النساء:25)
زنا کی سزا یہود کے ہاں شادی شدہ کیلئے سنگساری تھی مگر عمل نہ کرتے تھے۔ پیسہ کے لین دین سے سزا کو معاف کردیتے تھے۔ جس طرح قبلہ اول کی طرف پہلے نماز پڑھی جاتی تھی اسی طرح جو احکام نازل نہیں ہوئے تھے ان کی رہنمائی یہود کی کتاب سے لی جاتی تھی۔ شروع میں نبیﷺ نے اس پر مسلم و غیر مسلم اور مرد وعورت سب پر یہ سزا نافذ کردی ۔غیرشادی شدہ کیلئے 100کوڑوں کے علاوہ ایک سال جلاوطنی کی سزا بھی تھی لیکن سورۂ نور نے ان خرافات کا قلع قمع کردیا۔ البتہ زنا بالجبر کیلئے رسول اللہ ﷺ نے سنگساری کی سزا رکھی تھی۔ قرآن کا بھی حکم نہ صرف قتل کا ہے بلکہ سابقہ امتوں کے حوالہ سے بھی یہی وضاحت ہے۔
سورۂ النساء کی اگلی آیات میں بھی بھرپور وضاحت ہے کہ یہ احکام واضح طور پر اسلئے بیان کئے جاتے ہیں تاکہ پہلے لوگوں کی راہ بھی تمہیں معلوم ہوجائے اور ہدایت مل جائے اور اللہ تمہاری توبہ کو قبول کرلے، انسان کو ضعیف پیدا کیا گیاہے اور اللہ چاہتا ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا ہوجائے۔ پھر اگلے نے یہ وضاحت بھی کی تھی کہ ’’ اگر اہل کتاب پر ہم اپنی جانوں کا قتل اور جلاوطنی لکھ چکے ہوتے تو اس پر وہ عمل نہ کرتے مگر ان میں سے کم لوگ‘‘۔ یعنی اللہ نے زنا پر قتل اور جلاوطنی کی سزا لکھی نہیں تھی اگر لکھ بھی دیتے تو بہت کم لوگ اس پر عمل کرتے۔ صحابہ کرامؓ نے خود کو حدود جاری کرنے کیلئے پیش کیا تھامگراللہ نے سخت احکام نازل نہیں کئے۔
شاہ ولی اللہؒ نے قرآن کا فارسی اور آپکے صاحبزادوں نے اردو ترجمہ کرکے ہم سب پر احسان کیا لیکن ان کی ہربات کو درست اور معیار قرار دینا فکر ولی اللٰہی والوں کی بہت بڑی حماقت ہے۔ امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے زیادہ تر حماقتوں میں اضافہ ہی کیا ہے لیکن اس کی وجہ سے ان کے مقام ومرتبہ پر اثر نہیں پڑتاہے۔ شاہ ولی اللہؒ کا خاندان علماء دیوبندؒ کی خدمات سے انکار ممکن نہیں ہے مگر قرآن وسنت کے داعی ہونا الگ بات ہے اور اسکے تقاضوں پر عمل الگ ہے۔
شاہ ولی اللہؒ نے لکھ دیا کہ ’’ اللہ نے صحابہؓ سے خلافت کا وعدہ کیا تھا جو صرف تین ابوبکرؓ، عمرؓ اور عثمانؓ سے پورا ہوا۔ عربی میں جمع کا اطلاق تین پر ہوتاہے ۔ علیؓ سے اللہ کا وعدہ پورا نہ ہوا جو خلافت اور خوف سے امن کیلئے ہوا تھا‘‘ حالانکہ جب حضرت عثمانؓ کا بھی 40دن تک محاصرہ کرکے شہید کیا گیا ، حضرت علیؓ تو پھر بھی مسجد میں جاتے ہوئے دہشت گردی سے شہید کئے گئے تو یہ لکھنا بڑی حماقت تھی اوراللہ نے افراد نہیں قوم کیساتھ وعدہ کیا تھا۔ مسلمان صدیوں تک سپر طاقت ہی رہے تو اللہ نے صحابہؓ، تابعینؒ ، تبع تابعینؒ ، بنی امیہ، بنوعباس اور عثمانی خلافت کی حد تک اپنا وعدہ پورا کیا، البتہ مسلمانوں نے قرآن سے انحراف کیااور پستی وذلت ان کا مقدر بن گئی۔ آج بھی افغانستان اور شام میں اپنوں کے ہاتھوں خوار ہیں۔
امریکہ غیر ملکی بچوں کو شہری حقوق دیتا ہے ، روس سے خواتین اسلئے بچے جننے کیلئے امریکہ پہنچتی ہیں۔ امریکہ نے ڈیلیوری کے اخراجات کو اپنا اثاثہ بنایا ہے ۔ مسلمان ممالک میں دوسرے مسلمان غلاموں کی طرح زندگی گزارتے ہیں اور مولانا سندھیؒ نے بھی نا سمجھی سے اسکی تائید کی ہے۔ انسانی حقوق کی وجہ سے اب مغرب انسانیت کی امامت اور مسلم ممالک ان کی غلامی کررہے ہیں۔ معاشرتی اقدار اور احکام جو قرآن نے دئیے ہیں اسی سے انسانیت کو آزادی ملے گی۔ عتیق

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور پی ٹی ایم کے منظور پشتین: تحریر محمد اجمل ملک ایڈیٹر نوشتہ دیوار

arm-chief-journal-qamar-jawed-bajwa-ptm-mnzoor-pashteen-editor-muhammad-ajmal-malik-supreme-court-marvi-memon-irshad-bhatti-hasan-nisar-abdul-haseeb-mqm-ayoub-khan-panama-leaks-isi

انسان ماحول سے بہت متأثر ہوتا ہے۔ بدر واُحد اور صلح حدیبیہ کا ذکر قرآن وسنت میں جلی عنوانات کیساتھ موجود ہے۔ قرآن وسنت مسلمانوں کیلئے عمومی طور پر اور پاکستانیوں کیلئے خصوصی طور پر مشعلِ راہ ہونے چاہیے۔ گھر بار چھوڑ کربے سر وسامانی کی حالت میں ہجرت کرنیوالے صحابہؓ نے نبیﷺ کی قیادت میں تاریخ کا دھارا بدل دیا تھا۔ حال میں سپریم کورٹ کی ججمنٹ میں قرآن کی آیات کا حوالہ بھی دیا گیاہے اور 100 بااثر شخصیات پر معروف مصنف کی معروف کتاب کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ جب تک درست پسِ منظر پیش نہ ہو بات سمجھ نہیں آسکتی ہے، کسی چیز کے ادراک کیلئے ماحول سمجھنا ضروری ہے۔
امتحان اگر معلوم ہو تو امتحان نہیں ہوتا۔ ساری زندگی جس طرح اداروں کے احترام میں نوازشریف نے کھپائی ہے، اس کا منظر روز مختلف چینلوں پر عوام دیکھتے ہیں۔ جب افتخار احمد کی طرف مریم نواز کے حوصلے، جرأت اور شاطربیانی کو داد دی گئی تو ارشاد بھٹی نے ماروی میمن کے پروگرام میں کہا کہ میں خود بھی پنجابی ہوں مگر اس ڈھٹائی پر مجھے شرم آتی ہے، یہ کونسا طرزِ عمل ہے کہ دن رات جھوٹ بولو، اداروں کو کرپشن پر قربان کردو۔
ایک دوسرے ٹی وی چینل پر حسن نثار نے سرائیکی صوبے کے حوالہ سے کہا کہ ’’ ایم کیوایم کے عبدالحسیب نے صوبوں پر کتاب لکھی تھی جس کو پڑھنے کے بعد میں نے کئی کالم بھی لکھے اور میں نجیب الطرفین پنجابی ہوں ، میری والدہ اور والد دونوں پنجابی ہیں لیکن مجھے شرم آتی ہے کہ بنگلہ دیش سے ہم نے سبق نہیں سیکھا‘‘۔ پنجاب کے ان باسیوں کے علاوہ وسعت اللہ خان، مبشر زیدی اور ضرار کھوڑو جیسے لوگ ایک مخصوص نظام اور مخصوص ذہنیت سے بہت مایوس ہیں لیکن اپنی سی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اچھے لوگوں کو سلامت رکھے۔
سرائیکی صوبے کی ڈیمانڈ اسلئے درست نہیں کہ وہ پسماندہ ہیں ، پسماندگی پر سندھ کے تھر اوربلوچستان کے پسماندہ بہت سے علاقوں کو صوبہ بنانے کی تجویز آسکتی ہے بلکہ پنجاب ملک کا 60 سے 65 فیصد ہے۔ باقی صوبوں یا علاقوں سے وزیراعظم منتخب ہوتا ہے تو وہ 35سے 40فیصد کا حکمران ہوتا ہے پنجاب کا وزیراعلیٰ 60 سے 65فیصد پر حکومت کرتاہے۔ پاکستان کا توازن برقرار رکھنے کیلئے صرف یہ ضروری نہیں کہ پنجاب کے کم ازکم 2 صوبے بنائے جائیں بلکہ اٹک سے بھکر تک پختونخواہ میں شامل کیا جائے۔ ڈیرہ غازی خان کاکچھ علاقہ اور آبادی کو بلوچستان میں شامل کیا جائے۔ کچھ علاقے کو سندھ کا حصہ بنایا جائے اور اسلام آباد سے دارالخلافہ اور پنڈی سے GHQ بھی پاکستان کے مرکز میں میں منتقل کیا جائے۔ تاکہ کوئٹہ لاہور اور پشاور کراچی کیلئے درمیانی اور مرکزی جگہ ہو۔ قائداعظم کے وقت میں ملتان کو دارالخلافہ بنایا جاتا تو جنرل ایوب خان اس کو ہزارہ کے قریب اسلام آباد منتقل کرنے کی زحمت نہ کرتے۔
پاکستان میں تمام دریاؤں کو ڈیم بنایا جاسکتا ہے اور سیورج کے گٹرکو بھی پینے کے پانی سے الگ کیا جاسکتاہے۔ سستی بجلی بھی پیداکی جاسکتی ہے اور آئندہ سب سے بڑی ترجیح یہی ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے صحابہؓ کی مشاورت سے مشرکین کا شام سے آنیوالے قافلے کو لوٹنے کا پروگرام بنایا۔بہت کم تعداد میں معمولی اسلحہ کیساتھ جب مطلوبہ مقام پر پہنچے تو قافلہ نکل چکا تھا اور کئی گنا بڑا لشکر مقابلے کیلئے موجود تھا۔ اس امتحان میں صحابہؓ اور نبیﷺ نے اللہ سے خوب دعائیں مانگیں۔ اللہ نے فرمایا کہ لڑانے کیلئے میں نے دونوں کو ایکدوسرے سے کم دکھایااور ایسا نہ کرتا تو تم لڑنے سے گریز کرتے۔ تلواروں کے سامنے جانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہوتا۔ ہمارے ریٹائرڈ دفاعی تجزیہ نگار بن کر ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہیں مگران کی ٹرینگ فوجی ہوتی ہے،ان کو نیٹو اور طالبان کے درمیان پیرا شوٹ سے اتار دیا جائے تو پتہ چل جائیگا کہ یہ کس کا ساتھ دیتے ہیں۔ ٹی وی پر پھسکڑیاں مارنے سے کچھ نہیں ہوتا، میدان میں پتہ چلتاہے۔
بدر کے میدان میں اللہ نے فرشتوں کے ذریعے بھی مدد کی اورموسمی حالات بھی مسلمانوں کے موافق کردئیے۔ 313 مجاہدین نے ہزار کو بدترین شکست دیدی۔70مار دئیے اور 70کو قیدی بنالیا۔ مدینہ میں مشاورت ہوئی کہ قیدیوں سے کیا سلوک کرنا ہے۔ حضرت عمرؓ اور حضرت سعدؓ نے مشورہ دیا کہ جو جس کا قریبی رشتہ دار ہے وہ اس کو قتل کردے۔ باقیوں نے یہ مشورہ دیا کہ اپنی قوم کے افراد ہیں، کل ان کو ہدایت بھی مل سکتی ہے۔ ہمیں مال کی ضرورت بھی ہے، فدیہ لیکر چھوڑ دیتے ہیں۔
نبیﷺ کو فدیہ کا مشورہ پسند آیا۔ پھر اللہ نے وحی اتاری کہ ’’نبی (ﷺ) کیلئے یہ مناسب نہیں کہ آپکے پاس قیدی ہوں، یہانتک کہ زمین میں خوب خون بہاتے۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے۔ اگر پہلے سے اللہ لکھ نہ چکا ہوتا تو بہت سخت عذاب نازل کردیتا۔ جن لوگوں سے فدیہ لیکر چھوڑ دیاہے اگر انکے دل میں خیر ہے تو اللہ اس سے زیادہ ان کو دیگا اور اگر انکے دلوں میں خیانت ہے تو اللہ ان سے پھر نمٹ لے گا‘‘۔
نبیﷺ زار وقطار رورہے تھے کہ مجھے نازل ہونے والے عذاب کا نقشہ بھی اللہ نے دکھا دیا ، اگر عذاب نازل ہوتا تو عمرؓ اور سعدؓ کے علاوہ کوئی نہیں بچتا۔ کہاں وہ بدر کا غزوہ اور کہاں یہ نوازشریف، اسکی صاحبزادی اور حواریوں کی جنگ؟۔ اللہ کی طرف سے ٹھیک فیصلہ آیا کہ پہلے شام کے قافلے سے جو جنگ شروع کی تھی ،اب اسکو فدیہ لینے پر ختم کررہے ہو؟ ن لیگ نے تو لندن کے فلیٹ ، پانامہ کی دولت اور نہ جانے کیا کیا 22 کروڑ عوام کیلئے بنایا ہے ۔ اب بھی عوام کی جنگ لڑرہے ہیں۔
قرآن وسنت کی تعلیمات اسلئے ہیں کہ جب صحابہؓ نے شام کے قافلے کا قصد کیا، فدیہ لینے کا مشورہ دیا اور اللہ نے کہا کہ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتاہے تو کسی اور کیلئے اس بات کی گنجائش باقی رہتی ہے کہ مجھے ذات کیلئے نہیں عوام کیلئے جنگ لڑنی ہے۔ ارے تمہارے رائیونڈ کے محل، پانامہ کی دولت اور لندن کے فلیٹ وغیرہ سے بہترین ہسپتال، تعلیمی ادارے ، بجلی بنانے اور دیگر اشیاء کے کارآمد کارکانے بن سکتے تھے۔ مگر تم نے اپنا خیال رکھا۔ ساری زندگی جن سازشوں میں گزاری اس کی بیماری ہوگئی ہے ، سازش کوئی بھی نہیں کررہا ہے۔
نبیﷺ اور صحابہؓ نے وحی کے بعد محسوس کیا کہ اس دفعہ وہ ہاتھ آگئے تو نہیں چھوڑنا ہے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ غزوۂ احد کی باری آگئی اور مسلمانوں کو سخت تکلیف پہنچنے کا سامنا ہوا، صحابہؓ میں بعض بھاگے۔ اللہ نے فرمایا:ومامحمد الا رسول قد خلت من قبلہ رسل أفان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ’’ اور محمد کیا ہیں مگر ایک رسول، آپ سے پہلے رسول گزرچکے ہیں ،اگر آپ فوت ہوجائیں یا قتل کردئیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤگے؟‘‘۔ نبیﷺ اور صحابہؓ نے کہا کہ ہم سخت انتقام لیں گے، حضرت امیر حمزہؓ کے بدلے 70کے ساتھ ایسا برتاؤ کرینگے۔ اللہ نے فرمایا: اگر تمہیں زخم پہنچا ہے تو اس سے پہلے ان کو بھی پہنچا ہے۔ کسی قوم کے انتقام کا جذبہ اس حد تک نہ لے جائے کہ اعتدال سے ہٹ جاؤ۔ اگر ان کو معاف کردو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے بلکہ معاف ہی کردو اور معاف کرنا بھی تمہارے لئے اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
شریف برادری کی اصلاح اس وقت ہوگی جب کوئی ان کا فرد کہہ دے کہ آصف علی زرداری نے بھی تو 11سال جیل میں گزاردئیے۔ سعودیہ میں سہیل وڑائچ سے کہا کہ ISIکے کہنے پر غلطی کی تھی اور پھر پیٹ پھاڑ کر، سڑکوں پر گھسیٹ کر اور چوکوں پر لٹکاکر سزائیں دینے کے اعلان کئے تھے۔ جب وہی زبان عمران خان نے استعمال کی تو تمہیں اخلاقیات یاد آگئے۔ فیصلہ چوکوں کے بجائے عدلیہ لے جانے کی تجویز بھی خود پیش کی تھی حالانکہ عاصمہ جہانگیر نے کہا تھا کہ عدالت کے دلدل میں نہیں پھنسنا چاہیے تھا۔ پارلیمنٹ میں جھوٹی تقریر کرنے کی ضرورت کیا تھی؟، جن سوالات کے جوابات مانگے گئے تھے وہ اب بھی دیدینا تو اگر سچے ہو تو عوام کی عدالت میں سرخرو ہوجاؤ گے۔
یہ بات عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بدر کے فدیہ پر اسلئے ڈانٹ پڑی تھی کہ صحابہؓ کو کتاب کی تعلیم دینی تھی، انکا تزکیہ کرنا تھا اور حکمت کی تعلیم دینی تھی۔ حکمت یہی تھی کہ اللہ نے فدیہ کو رد نہیں کرنا تھا بلکہ مشرکوں کے دل میں خوف بٹھانا تھا کہ آئندہ نبیﷺ نے بھی معاف نہیں کرنا ہے۔ غزوہ احد میں اللہ نے پھر صبر وتحمل کی تعلیم دی۔ پھر اللہ نے خواب میں دکھایا کہ مکہ میں عمرہ کیلئے جاتے ہیں۔ نبیﷺ کے خواب پر ایمان رکھ کر صحابہؓ نے عمرے کیلئے احرام باندھے۔ حدیبیہ کے مقام پر پہنچے توکچھ اور معاملے کا سامنا ہوا۔ جنگ کی خواب و خیال میں بھی تیاری نہ تھی ۔ عبادت کی غرض سے آئے تھے لیکن ان کو خبر دی گئی کہ ان کا سفیر حضرت عثمانؓ شہید کردئیے گئے ہیں۔ ایسی حالت میں جنگ کیلئے مجبور ہونا کس قدر آزمائش تھی؟۔ نبیﷺ نے ایک درخت کے نیچے بدلہ لینے کی بیعت لی۔ اللہ نے وحی اتاری کہ جن لوگوں نے آپکے ہاتھ پر بیعت کی ہے انکے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ تھا۔اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
پھر حضرت عثمانؓ کی شہادت کی افواہ جھوٹی نکلی۔ صلح حدیبیہ کا معاملہ ہوا، جس کو اللہ نے فتح مبین قرار دیا، حالانکہ صحابہ کرامؓ کے جذبات بالکل مختلف تھے۔ پھر وہ دن بھی دیکھنے کو مل گئے کہ حضرت عثمانؓ کو مدینہ میں تختِ خلافت پر شہید کیا گیا۔
انسان ماحول سے متأثر ہوتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ اس کو درست معلومات بھی مل جائیں اور فیصلہ بھی درست کرلے۔ یہ معلومات مقدمہ کے طور پر بیان کررہا ہوں تاکہ آرمی چیف اور پشتون تحفظ موومنٹ کے درمیان کسی غلط فہمی کے نتیجے میں قوم کا نقصان نہ ہو۔ نوازشریف اور عمران خان کی شخصیات ہرگز اس قابل نہیں کہ ملک وقوم کو درست طرف لے جائیں۔یہ بڈھے بڈھے اب سیاست کی بجائے کوئی ریٹائرمنٹ والا کام کریں۔ سیاست میں جوان دماغ اور قابلیت کی ضرورت ہے۔ سیاست ایک تجارت بن گئی ہے۔ ڈراینگ روم سے باتھ روم کے لوٹوں تک بات پہنچ گئی ہے۔ کوئی شریف آدمی یہ ڈرامہ بازی نہیں کر سکتا ہے۔۔۔۔اور بہروپئے یہ کام کررہے ہیں۔ جسکے پاس جتنے شرمناک لوٹوں کی تعداد ہوتی ہے وہ اتنے اسٹار کالیڈر ہوتا ہے اسکے پیٹ اورپیٹھ پر اتنے لوٹوں کے نشان بنانے ہونگے ۔
روزوں میں بنوں والوں کا دماغ کام نہیں کرتا اور لوگ قتل ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ مسلح بدمعاش گروپ آیااور اعلان کیا کہ کون کہتا ہے کہ روزہ تنگ نہیں کرتا تو ان کی ماں بہن کی ایسی کی تیسی کردینگے۔ وہ گروپ گیا تو تھوڑی دیر میں دوسرامسلح جتھہ آیا اور اسی چوک پر اعلان کہ کون کہتا ہے کہ روزہ تنگ کرتاہے تو اس کی ماں بہن کی ایسی کی تیسی کردینگے۔ بنوں والوں کی مثال اب ہمارے فوجی بھائیوں پر پوری اترتی ہے۔ ایک نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ’’ جنرل اشفاق کیانی انتہائی بے غیرت وبے ضمیر انسان تھا، حامد میر بھی CIA کا ایجنٹ ہے۔ ملالہ یوسفزئی کو امریکہ کے کہنے پر تیار کیا گیا۔ فوج میں بھی ایسے بے غیرت اور بے ضمیر عناصر تھے جنہوں نے جنرل اشفاق کیانی کا ساتھ دیا، اور ایک بڑے منصوبے کے تحت ملالہ یوسفزئی کو تیار کرکے بھیجا گیا لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل راحیل شریف کے اس پرتحفظات تھے، انہوں نے اس ڈرامہ کی مخالفت کی تھی‘‘۔ اس بیان کے بعد میجر عامر پنچ پیر صوابی کا ایک بیان آیا’’ جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ میں نے گورنری ٹھکرادی۔ اغیار کے ایجنڈے پر جنرل راحیل شریف نے پٹھانوں کو قتل کیا، 4ہفتے میں جنگ ختم کرنے کا کہا تھا لیکن اب چار سال ہوگئے ہیں وہ خود سعودیہ میں چھپ کر بیٹھ گیا ہے۔ میں نے امریکہ کی سازش پر پٹھانوں کو قتل کرنے سے انکار کیا ، سب سے بڑا ظالم اور قاتل راحیل شریف تھا‘‘۔ دونوں طرف سے فوج ہی کو برا بھلا کہا گیاہے۔
پاکستان تحفظ موومنٹ کے نام سے ایک بریگڈئیر کا بیٹا یہ الٹی سیدھی تقریر کررہاتھا کہ جس کا کوئی ربط اور ضبط نہیں تھا لیکن ایک بات واضح تھی کہ ’’میں پشاور میں کھڑے ہوکر کہہ رہا ہوں کہ قوم کی بیٹی ملالہ نہیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے‘‘۔ ٹھیک ہے لیکن اس میں فوج کے تحفظ اور بدظنی دور کرنے کی کوئی بات نہیں ہے اگر ملالہ ایجنٹ ہے تو بھی اشفاق کیانی اور فوج کو کریڈت جاتا ہے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہیرو ہے تو بھی پرویزمشرف کے دور میں آرمی چیف نے اس کو امریکہ کے حوالہ کرکے اپنا منہ کالا کیا تھا۔ اس سے فوج کے بارے میں اچھا تأثر قائم نہیں ہوتاہے۔
جس طرح سیاستدان بے سُر کے ڈھول بجاتے ہیں اسی طرح فوجیوں کی تعریف کرنیوالے بھی بے پر کی اڑاتے ہیں اور اس کی وجہ سے ریاست اور سیاست دونوں کمزور ہوتے ہیں مگر جوان کے بچوں کو کوئی پرواہی نہیں ہے۔ پرتعیش کھانوں اور آرام دہ جگہوں سے اٹھ کر بحفاظت تقریریں کرنے والوں کی عقل بھی ماری گئی ہے ۔ قوم کو بنانے کیلئے قرآن وسنت سے ہی استفادہ کرنا پڑے گا۔ فوجی کیپٹن بھرتی ہوتا ہے اور آرمی چیف تک پہنچنے سے پہلے صرف آرڈر ہی کو سمجھتا ہے۔ کوئی وردی ہی کو اپنی کھال قرار دیکرپرویزمشرف کی طرح بیٹھ جاتا ہے تو اس کو اپنے حق کیلئے بھی سالوں سال تک اٹھانے کی ہمت نہیں کر سکتا ہے۔ جب آرمی چیف بن جاتا ہے تو آدھی آزاد نوکری سکتے میں گرزرتی ہے اور بقیہ ایک آدھ سال رہ جاتا ہے تو اسکے ریٹائرڈمنٹ کا وقت پورا ہونے لگتا ہے۔
پاکستان میں سیاسی قیادت کا بحران آیا ہواہے۔ PTM کی اتنی بڑی حیثیت نہیں کہ ا سے ملک کو خطرہ لاحق ہو۔ اس سے اعتدال پر لانے کیلئے وہاں کے عوام بھی اپنا کردار ادا کریں گے لیکن اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ جو سیاستدان بہت پیسہ خرچ کرکے بھی باشعور عوام کو جلسے جلوس میں نہیں لاسکتے ہیں، یہاں کا ماحول دیکھنے کے بعد قوم میں ایک نیا ولولہ پیدا ہوگا۔ فوج کی طرف سے انکے کندھے پر بزرگوں کو ہاتھ رکھنے کا حکم دیا گیا تو جن کو ساری زندگی شعور نہیں مل سکا ہے وہ بھی سمجھ بوجھ لے لیں گے۔ درد مند وں کو پختون تحفظ موومنٹ کے ذریعے ڈھارس مل گئی تو پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بھی عوامی تحریکوں سے لوگوں میں مایوسی کی فضا ختم ہوگی۔ کسی کے خلاف نفرتوں سے اسکے جذبے کارخ غلط راستے کی طرف مڑ سکتا ہے۔ اگردلوں میں بغض رہ جائے تو بھی یہ پوری قوم کا نقصان ہے۔
منظور پشتین کو محسودوں کی اجتماعیت بھی قبول نہیں کرسکتی۔ اگر محسودوں نے قبول کیا تو وزیر کہاں قبول کرینگے؟۔ وزیر بھی قبول کرلیں تو بیٹنی کہتے ہیں کہ محسود پیغمبر بھی بن جائے تو اس کو قبول نہیں کرینگے۔ وہ اعتماد بھی نہیں کرتے کہ یہ بک جاتے ہیں اور اس کے علاوہ محمود خان اچکزئی، اسفندیار ولی خان، مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق وغیرہ کہاں قبول کرینگے؟۔ منصوبہ انکے خلاف سیاسی جماعتوں کا تھا مگر فوج استعمال ہوگئی۔ ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کو تعصبات کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیں گے۔ پاک فوج انکے بارے میں اپنا رویہ بالکل بدل دے۔ یہ ایک فکروشعور کی تحریک ہے اور اسکے دل و دماغ کو بھی شعور وآگہی سے درست کیا جاسکتا ہے۔
بندوق کا مقابلہ بندوق اور فکر کا مقابلہ فکر سے کیا جاسکتاہے اور اگر کسی غیر ملکی فنڈنگ کا پتہ چلے تو کوئی مسئلہ نہیں ان سے وہ فنڈ چھینا جائے، ہماری ریاست کا قرضہ اس سے چکایا جائے ۔ اُوچھے ہتکنڈوں سے یہ ملک اس تباہی کے کنارے پہنچ چکا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان کیساتھ پٹھان اورمحسود ہی خاص طور پر ملوث تھے۔ منظور پشتیں کے گرد وہی لوگ دکھ، درد لیکر پہنچ جاتے ہیں جو کسی نہ کسی غلط سر گرمیوں میں ملوث تھے۔ عام عدالتوں سے سزائیں مل سکتی تھیں تو فوجی عدالتوں کا جواز نہیں ہوتا۔ یہ فوج ہی کمال ہے کہ پختونوں کو طالبان سے اب نجات دلانے میں بہت حد تک کامیاب ہوگئے ہیں، بلوچستان اور کراچی کا امن لوٹانے میں بھی پاک فوج نے تاریخ ساز کام کیا ہے۔ پختونوں، بلوچوں اور کراچی کے مہاجر عوام کو فوج کا بہت شکریہ ادا کرنا چاہیے۔آج بھی پاکستان کے شہری علاقوں سے پاک فوج کا رعب ودبدبہ اور دہشت ہٹ جائے تو اپنے معاشرے کی تباہی کیلئے بیرونی دشمن کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کی ریاست میں پاک فوج واحد ادارہ جسے اللہ قیامت تک سلامت رکھے جس نے ریاست کے نظام کو سہارا دیاہے، طاقت کے بغیر کوئی ریاست ریاست کہلانے کے قابل نہیں۔
ہاں ریاست کو صرف طاقت کے بل بوتے پر کنٹرول کرنا بھی انتہائی غلط ہے، پھر آزادی نہیں غلامی کا تصور پیدا ہوتاہے اور جب پیپلزپارٹی ، ایم کیوایم اور اے این پی پر طالبان نے امریکہ کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگادیا اور دہشت گردانہ حملے شروع کردئیے تو مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف طالبان سے عقیدت ومحبت اور یکجہتی کا اظہار کررہے تھے لیکن جب دہشتگرد اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف آپریشن شروع ہوا توبہت افسوس کیساتھ پیپلزپارٹی کے ڈاکٹر عاصم حسین پر سہولت کار کے الزامات لگائے گئے۔ جن مریضوں کو دہشت گرد بناکر پیش کیا گیا تھا تو میڈیا نے سروے میں بتایا کہ وہ بھی بالکل عام لوگ تھے جن کو پتہ بھی نہیں تھا کہ انہی پر دہشت گردی کاالزام لگاکر ڈاکٹر عاصم حسین کو تین ماہ کیلئے رینجرز اٹھاکر لے گئی ہے۔
بندے کے پاس مال شال ہو تو وہ ریمانڈ میں بھی مار نہیں پیار کھاتا ہے۔ ڈاکٹر عاصم نے بھی کہہ دیا کہ ہسپتال میں جو آتا ہے اس کا علاج کرنا ہمارا کام ہے، ہمیں نہیں پتہ کہ کون دہشت گرد ہے اور کون نہیں؟۔ البتہ قصور کے ایک بے قصور شخص نے پولیس تشدد سے چھوٹی بچی کیساتھ زیادتی اور قتل کا اعتراف کیا تو اس کو پولیس ہی نے قتل بھی کردیا اور اسکے بھائیوں رشتہ داروں پر مقدمات قائم کرکے خاموش بھی کردیا گیا۔ عوام کیلئے عدالت بھی کسی کام کی نہیں ۔ اداروں کی طرف سے زیادتی پر ایکشن تو بہت دور کی بات ہے، مظلوم کو پیشیاں بھگتنے میں بھی جان کے لالے پڑے ہوتے ہیں اسلئے کہ ہمارا معاشرتی نظام بھی بہت زیادہ گراوٹ کا شکار ہے۔ مشال خان کے والد جس طرح سے بے بسی کی تصویر بنے کھڑے رہتے ہیں اگر آرمی چیف ان کے سرپر ہاتھ پھیرنے چلے جاتے تو بہت سی جماعتیں کتیا کی طرح اقبال خان کے پاس دُم ہلاتی نظر آتیں۔ اب بھی پاک فوج کا ہی دبدبہ ہے ورنہ دوپولیس اہلکار ان کی کیا حفاظت کرتے؟۔
پختون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین بذاتِ خود ایک اچھا انسان ہے ، اس کے اردگرد جمع ہونے والوں کی اکثریت اچھے لوگوں کی ہے۔ ان میں محسود تحفظ موومنٹ سے پشتون تحفظ اور پھر مظلوم تحفظ موومنٹ میں بدلنے کی صلاحیت بھی ہے،کچھ ہی سڑیل، بدبوداراور متعصب لوگوں کا گھیرا اس تحریک کو نقصان پہنچارہاہے مگرخیر کی روشنی برائی کے اندھیرے پر غالب آسکتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے برخودار سارا دن فوج کی برائی کریں جس میں انکی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں۔ پرویزمشرف ہی کا پروردہ عمران خان فوج کی تعریف کرے تو فوج کی بھی آنکھ نہیں کھل سکتی ہے اور قوم بھی بتدریج خرابیوں کا شکار بنے گی۔
ماحول میں مشاورت اور مخالف رائے کو برداشت کرنے پر معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے۔ امریکہ کردار سے سپرطاقت بنا ہے۔ بھارت نے من موہن سنگھ کے دور میں کھربوں ڈالر سے ایٹمی ٹیکنالوجی کا معاہدہ کیا اور ہم US AEDکے زکوٰۃ کی رقم کیلئے ترستے ہیں۔ فوج سے محبت رکھنے والا میڈیا یہی راگ الاپتا رہتا ہے کہ جمہوری حکمران امریکہ کے ایجنٹ ہیں اور ہمارا ڈی جی آئی ایس پی آر بیان دیتا ہے کہ ’’ امریکہ کو ہم نے مثبت انداز میں سپر طاقت بنایا‘‘۔ارے ! اتنی قربانی پر تو کشمیر آزاد ہوجاتامگر تمہارا دماغ نہیں ۔ قوم کی آزادی کیلئے آزاد عوام سے آزاد سیاسی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے بھی یہ ادارے فوج، عدلیہ، سول بیوروکریسی وغیرہ موجود تھے، پہلے انگریز کے ملازم تھے اور ملک آزاد ہوا تووہ بھی اس کی برکت سے آزاد ہوگئے۔ چیف جسٹس کسی بھی مثبت کام سے قابلِ تعریف بن سکتے ہیں لیکن نظام کو نہیں بدل سکتے۔ عراق کی عدلیہ صدام حسین کیساتھ کام کررہی تھی، جب امریکہ نے قبضہ کیا تو اسی عراقی عدالت نے صدام حسین کو پھانسی کے پھندے پر لٹکادیا۔ امریکہ کو مجاہدین اپنے جذبے سے نانی اماں کی یاد نہ دلاتے تو افغانستان، پاکستان اور اسلامی ممالک کو بڑی مشکل سے دوچار کرتے، قوم جذبہ جہاد سے زندہ رہ سکتی ہے، اداروں کا احترام بھی خوف نہیں بلکہ معروضی حقائق کی بنیاد پر لازم ہے اور ان کی غلطیوں کی نشاندہی بھی سب سے بڑا جہاد ہے۔ قوم کی بیداری کیلئے مظلوم پنجاب کا اٹھنا بھی بہت ضروری ہے۔ بعض طالبان نما افراد سے منظور پشتون کو شکایت ہے لیکن جبتک قوم کے اپنے افراد فوج کیساتھ نہیں ہونگے تو دہشتگروں سے وہ مقابلہ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ان کیلئے پہچان ممکن نہیں ہے۔

پاکستان میں ترقی کا خواب طبقاتی تقسیم کے بغیر ہی پورا ہوسکتا ہے: فاروق شیخ

ghq-islamabad-pindi-lahore-queta-jnral-hamid-gul-khalid-bin-waleed-gulbadeen-hikmat-yar-masood-azhar-hafiz-saeed-maleer-kund-keti-bandar-bait-ul-muqaddas-hazrat-ibrahim

نوشتۂ دیوار کے مدیر مسؤل فاروق شیخ نے کہا ہے کہ جب غباروں میں ہوا ہوتی ہے تو ان کو ایک جگہ اکھٹا کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ آپس میں لڑو مت ورنہ تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ پاکستان کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ طبقاتی کشمکش سے نکل کر اتحاد و اتفاق اور وحدت و یکجہتی کے ساتھ سب ملکر کام کریں۔ ہمارے اخبار میں بعض اوقات بلکہ اکثر و بیشتر سخت جملوں کا استعمال ہوتا ہے۔ منتشر قوم کی منتشر ذہنیت کا علاج اسی میں ہے کہ اس کے مختلف طبقات میں غباروں کی طرح بھری ہوئی ہوا کو نکال دیا جائے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو توڑا ، اور ان کیلئے آگ تیار کی گئی پھر جھولے سے آگ کے اندر پھینکنے کی تیاری کررہے تھے تو فرشتوں نے اللہ سے کہا کہ کیا ہم مدد کرسکتے ہیں؟ ۔ اللہ نے فرمایا کہ بالکل ! ۔ فرشتوں نے مدد کرنا چاہی تو حضرت ابراہیم ؑ نے ان کی مدد لینے سے انکار کیا۔ پھر جب آگ میں جھونکے گئے تو اللہ نے خود ہی آگ کو کہا کہ ’’اے آگ ابراہیم پر سلامتی والی ٹھنڈی ہوجا‘‘۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اس آگ کی آزمائش سے بچنے کیلئے اللہ کی بارگاہ میں بھی ہاتھ نہیں اٹھائے۔ پھر جب ایک بادشاہ کی طرف سے حضرت سارہؓ کی عزت کا معاملہ پیش آیا تو خوب اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑائے ۔
اس دعا کی برکت سے حضرت سارہؓ کی عزت بھی محفوظ رہی اور حضرت ہاجرہؓ بھی مل گئیں جن سے حضرت اسماعیل ؑ اور پھر پیغمبر کائنات رحمۃ للعالمین ﷺ پیدا ہوئے اور حضرت ابراہیم ؑ واسماعیل ؑ نے بیت اللہ کی تعمیر کے وقت نبی کائنات آخری پیغمبر ﷺ کیلئے دعا کی تھی۔ مشرکین مکہ کی جہالتوں سے نبی ﷺ کو مکہ سے ہجرت کرنی پڑی۔ معراج میں نبی ﷺ نے مکہ سے مسجد اقصیٰ اور عرش کا سفر براق پر کیا تھا مگر مدینہ ہجرت پر آپ ﷺ نے غار ثور اور بڑی مشکلوں سے سفر طے کیا۔ دین میں عقیدت ہے منطق نہیں ورنہ اُمت اس بات سے متذبذب ہوجاتی کہ ہجرت کے وقت اللہ نے براق کیوں نہیں بھیجا؟۔
علماء کرام اور مشائخ عظام نے اپنی قدامت پسندی سے دین اسلام کی خوب حفاظت کی ۔ سائنسی آیات پہلے متشابہات تھے اور اب قرآن سائنسی بنیاد پر بھی ثابت ہورہا ہے ۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسلام کے احکام اجنبی بنتے چلے گئے ہیں۔ جس کیلئے قرآن و سنت کی طرف رجوع کی ضرورت ہے۔ اداریہ اور صفحہ 3پر جو علمی مضمون لکھا گیا ہے اس کو تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام اور مفتیان عظام اچھی طرح سے پرکھ لیں۔ انشاء اللہ ان کی طرف سے خوب داد ملے گی ۔ باقی مضامین میں بھی یہ کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان سے ایک ایسے انقلاب کا آغازہو جس میں طبقاتی تقسیم کے بجائے ترقی و عروج کی سمت سفر کیا جائے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے گمراہ کن پروپیگنڈے سے عوام کے اندر تعصبات کی ایسی فضاء بن سکتی ہے جو نسلوں کیلئے تباہ کن ہوگی۔ ہماری کوشش ہے کہ میانہ روی ، اعتدال اور صراط مستقیم کی نشاندہی کردی جائے۔ ہم ہر نماز کی ہر رکعت کی سورہ فاتحہ میں کہتے ہیں کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں لیکن پھر تعصبات کا شکار ہوکر کسی ایک طبقے کی تعریف کرنے لگ جاتے ہیں۔ پھر اس کو رحمن اور رحیم قرار دیتے ہیں لیکن خود کو بے رحم اور غضبناک ہی ثابت کرتے ہیں۔ اللہ کو قیامت کے دن کا مالک کہتے ہیں مگر دنیا ہی پر مرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اللہ تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں تو ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرما ۔ لیکن صراط مستقیم کی بجائے افراط و تفریط اور کسی مخصوص طبقے کی وکالت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس سے بڑی گمراہی کیا ہے کہ قرآن کو مانیں مگر قرآن کی نہ مانیں؟۔
قرآن کہتا ہے کہ ان الذین اٰمنوا و الذین ھادوا و النصاریٰ و الصابئین من اٰمن باللہ و الیوم اٰخر و عمل صالحاً فلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولاھم یحزنون (البقرہ:62)’’بے شک جو لوگ مسلمان ہیں ، یہود ہیں ، عیسائی ہیں اور صابئین (حضرت نوح علیہ السلام کے اُمتی ہندو) ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے تو ان کیلئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے ۔ اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ حزن والے ہوں گے ‘‘۔ ہمارا یہ مسئلہ ہے کہ دوسرے مذاہب سے قرآن کے مطابق تعصبات نہ رکھنے کی تلقین پر یقین بھی نہیں ہے اور اپنے ہاں بھی سابقہ اُمتوں کے نقش قدم پر چل کر تفرقوں کا شکار ہیں۔ حالانکہ ان کی مذمت اسی متعصبانہ ذہنیت کی وجہ سے ہوئی تھی کہ وہ کہتے تھے کہ لن یدخل الجنۃ الا من کان ھوداً او نصاریٰ تلک امانیھم ۔۔۔ومن اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ وسعیٰ کی خرابھا اولئک ماکان لھم ان یدکلوھا الا خائفین لھم فی الدنیا خزی ولھم فی الاٰخرۃ عذاب عظیم
آج مسلمان درج بالا آیات کے مصداق بن گئے ہیں ۔ مساجد میں بھی دہشتگردی کی وجہ سے خوفزدہ ہوکر داخل ہوتے ہیں ۔ مختلف موضوعات پر ہمارے اخبار نوشتۂ دیوار اور سید عتیق الرحمن گیلانی کی ویڈیوزzarbehaq.comاور zarbehaq.tvپر دیکھئے ۔ اخبار کے اس خصوصی شمارے میں بھی جو مضامین ہیں وہ دیکھنے کے قابل ہیں۔

امریکی اتاشی کو عتیق کے مارنے پر سزا مل سکتی ہے مگر محمود خان اچکزئی اور نا اہل نواز شریف اگر تیار ہوں

americi-atashi-atiq-gilani-punishment-mehmood-khan-achakzai-na-ahl-nawaz-sharif-majeed-achakzai-murder-bewa-widow-son-nadir-shah-karnal-josef-colonal-shah-rukh-jatoe

مدیر منتظم نوشتۂ دیوار نادر شاہ نے کہا کہ امریکی اتاشی کرنل جوسف نے سگنل توڑ کر ایک جوان عتیق کو قتل کیا۔ اگر قانون کی حکمرانی ہوتی تو امریکی اتاشی خود کو قانون سے بالاتر قرار نہ دیتا۔ پچھلے رمضان میں محمود اچکزئی کے کزن مجید اچکزئی نے دن دہاڑے پولیس کے سپاہی کو اپنی گاڑی سے اڑادیا تھا۔ اس کی رہائی پرسیاسی کارکنوں نے اس طرح پھولوں کی بارش کردی جیسا کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہو۔ مجید اچکزئی اور امریکن اتاشی دونوں میں موازنہ کیا جائے تو اچکزئی زیادہ مجرم لگتا ہے۔ کیا امریکن اتاشی پر پھول برسائے جائینگے ؟ نااہل نواز شریف کے قافلے نے ایک بچے کو کچل ڈالا ، مریم نواز کے پتی کیپٹن صفدر نے اس کو شہید قرار دیا مگر آج تک ڈرائیور سامنے نہیں آسکا، ڈونلڈ ٹرمپ کہہ سکتا ہے کہ اچکزئی اور نواز شریف میرے پتر ہیں جب ان کا بال بیکا نہیں ہوسکا تو ہمارا کوئی کیا کریگا؟۔ شاہ رُخ جتوئی پر دہشتگردی کا مقدمہ اورمصطفی کانجو کو بری کیا ۔ بیوہ کہے گی کہ خواجہ آصف تو اچھوت ہوگا اسلئے منہ کالا کرنے کی پرواہ نہیں کی مگر میرا بیٹا اچھوت نہیں تھا نواز شریف کو جوتا مارنے پر دہشتگردی کا مقدمہ قائم ہوا مگر مصطفی کانجو پر دہشتگردی کا مقدمہ قائم نہ ہوا۔ تم پر تُف ہے۔

بہت فرسودہ درس نظامی والے علماء کیا کردار ادا کریں گے؟ ہیڈ ماسٹر الطاف الرحمن دو آبہ ہنگو

head-master-altafurr-ehman-do-aaba-hangu-pakhtoon-tahaffuz-movement-manzoor-pashteen-m-m-a-nizame-khilafat

ہنگو(نادرشاہ، جاوید صدیقی ) ہیڈ ما سٹر سیکنڈری اسکول دوآبہ کے الطاف الرحمن نے نمائندہ نوشتۂ دیوار سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ میں تقریباً1997 سے ضرب حق کا باقاعدہ قاری ہوں آپ لوگ اتحادامت اورنظام کی جو بات کرتے ہیں یہ عین قرآن وسنت کی دعوت ہے ۔ آجکل پختون تحفظ موومنٹ منظورپشتین کے حوالے سے ایک خبرہے اچانک سے تحریک چلتی ہے کیاپس پردہ محرکات ہوتے ہیں پتہ نہیں چلتاہے ۔ ماضی میں ایم ایم اے وجودمیں آئی اور پھر نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔ نام نہاد طالبان کے ہاتھوں گیلانی صاحب کا بہت بڑا نقصان ہواہے ، مجھے تھوڑی بہت معلومات ہیں گیلانی صاحب بہت بڑے دل گردے والے ہیں کہ حق پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ علما کیا کردار ادا کریں گے ان کا تو درس نظامی بہت فرسودہ ہے ۔ ایسی تعلیم لوگوں کو دلائی جائے توبالکل بے کارہے ، زیادہ تر چیزیں توہم فکری طورپرآپ کے اخبارسیکھتے ہیں ۔ مجھے اخبارمل جائے تومیں دوستوں کوبھی پڑھاتاہوں یہاں لوگ تعلیم یافتہ کم ہیں ، طالبان کا خوف ابھی تک لوگوں میں ہے ، میں بھی خطرے میں تھااب اللہ کا فضل ہے ۔ نظام خلافت ہی ہماری بنیادی ضرورت اورمسائل کا حل ہے۔

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی پر بچی سے زیادتی کا گھناؤنا اور جھوٹا الزام: ارشاد نقوی

jamia-binoori-town-karachi-girl-child-blame-criminal-syed-irshad-ali-naqvi-mudeer-social-media-dawn-news-video-clip-sale-10-thousand-rupees-kab-tak-noorani-basti-korangi

مدیر خصوصی نوشتۂ دیوارسید ارشاد علی نقوی نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ڈان نیوز کا ایک ویڈیو کلپ اور اس کے ساتھ یہ خبر چل رہی ہے کہ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اُستاذ نے ایک 6سالہ بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے 10ہزار میں فروخت کرنے کی کوشش کی اور رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ مدرسے والے پشت پناہی کررہے ہیں۔ یہ خبر دیکھتے ہی جھوٹی اسلئے لگی کہ جامعہ بنوری ٹاؤن میں کوئی بچیاں نہیں پڑتی ہیں۔ تاہم پھر بھی محمد اجمل ملک ایڈیٹر نوشتۂ دیوار نے جامعہ بنوری ٹاؤن کے مفتی مزمل صاحب سے یہ پوچھا کہ وہاں بچیاں پڑھتی ہیں یا نہیں؟ ۔ مفتی صاحب نے بتایا کہ ’’جامعہ کی عمارت میں بچیوں کو تعلیم دینے کا کوئی انتظام نہیں ہے تاہم ادارے کی شاخ میں بچیوں کو پڑھایا جاتا ہے اور ان کی اساتذہ بھی خواتین ہوتی ہیں۔ مجھے بھی دو دن پہلے پتہ چلا ہے کہ اس قسم کی کوئی خبر سوشل میڈیا پر چل رہی ہے۔ مجھے اس سلسلے میں کوئی معلومات نہیں ہیں‘‘۔
ہم نے سوشل میڈیا پر اس خبر کی تفصیل نکالی جو ڈان نیوز میں 6سال قبل ایک پروگرام ’’کب تک‘‘ میں چلی تھی۔ نورانی بستی کورنگی کا یہ واقعہ ہے جس میں ایک مولوی نما شخص نے 6سالہ بچی کیساتھ جنسی زیادتی کی اور پھر اس کو گھر کے پاس پھینک دیا۔ خاتون اینکر دلسوزی سے چیخ و پکار مچارہی تھیں کہ دنیا کی عدالت میں تجھے کوئی سزا نہیں ملے گی لیکن اللہ کی عدالت سے تم بچ نہ پاؤ گے ۔ 6سال قبل اس درندے کو سزا ملتی تو واقعات کا یہ تسلسل بھی نہ ہوتا۔

جنسی درندگی اور قتل پر سر عام بدلے میں زندگی ہے: فیروز چھیپا

maqbuza-jamuh-wa-kashmir-8-years-child-girl-asfa-chicha-watni-noor-fatima-sexual-assault-murdar-killing-hindu-shaheed-mafia

نوشتۂ دیوار کے ڈائریکٹر فنانس محمد فیروز چھیپا نے کہا ہے کہ آئے روز بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد قتل کی لرزہ خیز وارداتیں ہورہی ہیں ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی 8سالہ بچی آصفہ کوہندو درندوں نے ہوس کا نشانہ بنا کر شہید کیا اگر جرأت مند حکمران ہوتا تو کشمیر کو ہی فتح کرنے کیلئے کود پڑتا۔جبکہ چیچہ وطنی میں 8 سالہ بچی نور فاطمہ کو درندگی کا نشانہ بناکر آگ لگادی گئی۔ بدمعاش مافیا کے بل بوتے پر ہمارا حکمران طبقہ بے حس بن گیا ہے ۔ اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو آخر کار مشرکین مکہ کی طرح عوام اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کرنا شروع کرینگے۔ مریم صفدر نواز کو 2011ء میں اپنی جائیداد کا پتہ نہ تھا۔ نواز شریف نے پارلیمنٹ میں 2006ء کا اعتراف کیا اور اب پوری قوم کو حکمرانوں نے اپنے اقتدارکیلئے گمراہ کیا۔

ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور معاشرتی ابتری کے ذمہ دار علماء ہیں، مولانا واحد بخش میر پور میرس

maulana-wahid-bakh-meer-pur-meras-talaq-gilani-allama-ali-sher-rehmani-surgeon

خیرپورمیرس(نادرشاہ،جاویدصدیقی) فاضل دارالعلوم وفاق المدارس خیرپورمیرس مولانا واحدبخش نے کہاکہ میں سول ہسپتال میں سرجن حضرات کے ساتھ آپریشن اسسٹ کرتا ہوں ۔ آپ کا اخبارتمام سرجن پڑھتے ہیں اور تبصرہ یہی ہوتاہے کہ اشاعت اسلام کے حوالہ سے بہترین کاوش ہے ۔ اس پرفتن دورمیں یہ اخبارامید کی کرن ہے۔ میں برملا اس بات کا اظہارکروں گا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اورمعاشرتی ابتری کے ذمہ دار علماء ہیں ۔ علماء نے قرآن کو چھوڑا ہو ا ہے ۔ آپ کے اخبارکے ذریعے سے طلاق کے حوالے سے جوکچھ پڑھاہے وہ گیلانی صاحب نے بالکل صحیح لکھاہے ۔ یہاں خیرپورمیں بہت بڑی علمی شخصیت مناظراسلام جماعت اہلسنت کے مرکزی رہنما علامہ مولاناعلی شیر رحمانی صاحب کو بھی آپ کااخباردیاتھا انہوں نے بہت پسند کیا اور فرمایا کہ گیلانی صاحب ابن عمرؓ کی روایت کواورزیادہ واضح کرکے تحریرکریں۔ آخرمیں یہی کہوں گاکہ گیلانی صاحب جولکھ رہے ہیں بالکل صحیح لکھ رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کی صحت ، عمراور علم میں برکت عطافرمائے ۔ آپ کی جدوجہدمیں خیر پورمیرس کی سطح پرمیرے ذمہ کوئی کام ہوتویہ میرے لئے خوش نصیبی ہوگی۔

جسٹس اعجازالاحسن کا گھر دوبار نشانہ بنا:محمد حنیف عباسی

justice-aijaz-ul-hassan-hanif-abbasi-dgispr-dr-tahir-ul-qadri-dhool-dawn-news-wusat-ullah-khan-hussain-nawaz

سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر کوایک نہیں دو مرتبہ نشانہ بنایا گیا مگرنوازشریف و مریم نواز نے کوئی مذمت بھی جاری نہیں کی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان سے تأثر ابھر کر سامنے آیا کہ’’ فریقین حکومت اور اداروں کے درمیان ٹکراؤ کا یہ نتیجہ ہے‘‘۔ ایسا نہ ہو کہ جب کسی جج کے قتل کا سانحہ پیش آئے اور حالات بے قابو ہوں تو مارشل لاء لگانے کی نوبت آجائے۔ اس حقیقت کاریکارڈ موجود ہے کہ دھرنے کے دوران طاہرالقادری نے جنرل راحیل شریف سے مطالبہ کیا تو مشاہداللہ خان بار بار یہ مؤقف دہراہا رہاتھا کہ ’’ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں خفیہ ہاتھ ملوث تھے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کو ٹرینڈ لوگ دئیے گئے ۔وغیرہ‘‘۔
ایک فوجی دماغ سیاسی حکمت عملی نہیں سمجھتا ہے۔ جنرل باجوہ نے صحافیوں سے کہا تھا کہ ’’ بلوچستان کی سیاست میں کوئی ملوث ہو تو اس اہلکار یا افسر کا نام بتادو، ہم خبر لے لیں گے۔سیاستدان کسی سے بھی رابطہ نہ کریں ‘‘۔ مگر پھر بھی کہا گیا کہ ’’جنرل باجوہ ڈارکٹرائن کوئی نہ کوئی بات ہے‘‘۔ آخر کار ڈی جی آئی یس پی آر کو وضاحت کرنی پڑ ی کہ جنرل باجوہ کے کوئی عزائم نہیں ہیں‘‘۔ پھر نوازشریف کا بیان آیا کہ ’’ ہم تمام اداروں سے بات کرنے کو تیار ہیں‘‘۔ میاں رضاربانی نے بھی اس کی حمایت کردی تھی اور بعض نادان صحافی بھی یہ ڈھول پیٹ رہے تھے۔ اگر فوجی سمجھ کر بیان دینے کی صلاحیت رکھتا تو وضاحت کردیتا کہ ’’بھئی ہم نے واضح کیا ہے کہ ہم اپنے کام سے کام رکھیں گے۔ پرویزمشرف کے دور میں آرمی چیف صدر مملکت تھا، نوازشریف جیل میں تھے اور معاہدہ ہوگیا تو مسلسل جھوٹ الاپتے رہے کہ معاہدہ نہیں ہوا، پھر 5 سال کا مان لیا اور 10 سال کا انکار کیا۔اب تو تمہاری ہی حکومت ہے ، مذاکرات کس سے کیوں کرنے ہیں؟۔ پارلیمنٹ کی تقریر کسی نے زبردستی نہیں کروائی۔ عدالت میں خود جانے کا فیصلہ کیا، عدالت کو دھمکیاں دیں تو ہم اس پر شاباش نہیں دے سکتے تھے۔ عدالت نے نظریۂ ضرورت دفن کیا ہے تو اس پر خوش ہونا چاہیے تھا کہ ایکدوسرے پر الزام تراشی کے بجائے عدالت کے فیصلوں سے حقائق کی جانچھ پڑتال ہوسکے گی‘‘۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے نیک نیتی سے صلح کی کوشش کرنے کا سوچا ہوگا مگر یہ اس غلط ماحول کا نتیجہ ہے کہ میڈیا میں بار بار کہا جارہاہے کہ نوازشریف کو اداروں سے ٹکراؤ مہنگا پڑگیاہے‘‘۔ یہ انتہائی غلط مؤقف ہے۔ نوازشریف اداروں کیخلاف بیانبا زی کر رہاہے مگر اداروں نے اس کو ابھی تک سنجیدہ اس کو نہیں لیا ہے اور یہ بات غلط ہے کہ اداروں کوئی ٹکراؤ ہے۔ عدالت نے بہت ہی محتاط انداز میں صرف اقامہ پر فیصلہ دیا اگر پارلیمنٹ کی تقریر کو قطری خط سے جھوٹا قرار دیا جاتا تو سارا قصہ ختم ہوتا۔ ڈان نیوز اور معروف صحافی ، اچھی صحافت کیلئے سکہ کی حیثیت رکھنے والے وسعت اللہ خان نے بھی کہا کہ ’’ میں نہیں سمجھتا کہ یہ ٹکراؤ کا نتیجہ ہے‘‘۔ حامد میر نے کہا کہ ’’ حسین نواز کو روکتارہا کہ انٹریونہ دینا اور پھر سوال کچھ کرتا، جواب میں لندن کے فلیٹ کاذکر کریتا تھا۔

امام عبید اللہ سندھیؒ کے نام پر’’فکرشاہ ولی اللہ‘‘ تنظیم کی گمراہی اور قرآن و سنت کی درست تعبیر: تحریر عتیق گیلانی

shah-wali-ullah-fikr-e-waliullah-ubaid-ullah-sindhi-londi-muta-nikah-agreement-zina-biljibr-haq-e-meher

مولاناعبیداللہ سندھیؒ کو امام انقلاب تھے ، انکے بعض افکار سے اتفاق اور بعض سے اختلاف ہے۔ انہوں نے انقلاب کی کوشش کی ہے۔ کسی بات کا معقول جواب نہ ہو تو علماء اور مذہبی طبقہ گمراہی کا فتویٰ لگاتا ہے۔ مولانا سندھیؒ جید عالم تھے مگر آپ نے علماء و مذہبی طبقے کو ناقابلِ اصلاح و سخت الفاظ سے نوازا۔
مولانا سندھیؒ نے لکھا: ’’ شریعت میں بھائی سے بھی اپنی بیوی کا پردہ کرایاجاتاہے ، ہندوستان میں رائج پردہ شرعی نہیں۔ یہ ریاو شرفاء کا پردہ ہے جو خود کو عوام سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان کی خواتین بھی عام خواتین سے بدتر ہیں جن کو یہ جھوٹا زعم و تکبر ہے کہ ہم عوام پر فوقیت رکھتے ہیں، عوام کیلئے رائج پردہ ممکن نہیں۔ یہ پردہ غلط ہے۔ جس قوم میں یہ پردہ رائج ہے ان میں زنا کے بجائے لواطت رائج ہے۔ زنا منع ہے مگر غیرفطری نہیں، لواطت صرف منع اور غیر فطری بھی ہے، اسلئے نام نہاد پردے کا تصور ختم کردینا چاہیے۔( تفسیرالہام الرحمن: مولاناعبیداللہ سندھیؒ )
مولانا سندھیؒ نے قرآن و اسلام کا حکم نہیں، اپنی ہی منطق بیان کی ہے۔ ایک جماعت ’’ فکر ولی اللّٰہی‘‘ کے نام سے مولانا سندھیؒ کی منطق پر کام کررہی ہے۔ ان کو گلہ ہے کہ’’ عتیق گیلانی اور اسکے ساتھی علماء کیخلاف سخت لہجہ استعمال کرتے ہیں مگر علماء ان پر فتویٰ نہیں لگاتے ہیں جبکہ ہم انکے ہیں، ہم پر کفرو گمراہی کا فتویٰ لگاتے ہیں‘‘۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’میری امت گمراہی پر اکٹھی نہیں ہوگی‘‘۔ علماء کرام و مفتیانِ عظام اُمت کی اجتماعی ضمیر کی سب سے بڑی آواز ہیں۔سید مودودیؒ ، مولانا سندھیؒ ، غلام احمد پرویزؒ اور دیگر نابغۂ روزگار ہستیاں رہی ہیں لیکن علماء و مفتیان نے انکی گمراہانہ ذہنیت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
رسول اللہﷺ پر ہی وحی کا سلسلہ ختم ہوا، غلطیاں انسان سے ہوتی ہیں اور غلطیوں کی وجہ سے اسکے مقام اور مرتبہ پر بھی کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ حضرت آدمؑ کو جس شجرہ کے قریب جانے سے منع کیا تھا کہ ’’ بھوکے ننگے نہ ہوجاؤ‘‘ اور شیطان نے ہمیشہ والے اور نہ ختم ہونے شجرہ کا بتایا تو حضرت آدمؑ نے مغالطہ کھایا اور جنت سے نکالے گئے مگر ان کے مقام پر اثر نہیں پڑا۔ خلیفۃ الارض کا منصب پہلے سے متعین تھا اور اللہ نے وہاں پہنچادیا۔
مولانا سندھیؒ نے لکھا :’’ قرآن وسنت میں جن غلاموں و لونڈیوں کا ذکر ہے ،ان سے مراد دوسری قوم والے ہیں، جہاں ایک قوم کی اجتماعیت ہوتووہاں دوسری قوم والے لونڈی و غلام ہوتے ہیں۔ اپنی قوم کی چار خواتین کا ایک سے نکاح کی گنجائش ہے لیکن دوسری قوم کی لاتعداد اور بے شمار خواتین سے جنسی تعلق رکھنا جائز ہے کیونکہ وہ لونڈیاں ہے‘‘۔ پاکستان دو قومیتوں کے نظرئیے پر بنا تھا پھر بنگالیوں کو غلام ولونڈی کی طرح سمجھا گیا تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیااور بڑی رسوائی کا سامنا ہوا۔
مولانا سندھیؒ کی فکر اس بحث کا نتیجہ جو چل رہی تھی کہ قوم مذہب سے بنتی ہے یا وطن سے؟۔ علامہ اقبالؒ و مولانا مدنیؒ اور مولانا آزادؒ و مولانا تھانویؒ کی طرف سے شرعی مباحثے ہورہے تھے، پاکستان بنا تو رات گئی بات گئی، نظریات بھی دفن ہوگئے۔
دورِ جاہلیت میں غلام اور لونڈی کا تصور تھا۔ غلام کو عبد اور لونڈی کو اَمۃ کہا جاتاتھا۔ قرآن میں بھی اس کا ذکر ہے۔ قرآن اللہ کے سوا معبودوں کو نہیں مانتا۔ ایک طرف انکی نفی کرتاہے۔ دوسری طرف عبد نظام کی وجہ سے دوسرے انسان کا غلام ہوتا تھا تو اس غلامی کی حیثیت کو ایک معاہدے میں بدل دیاتھا۔ ایک آدمی کو اپنی گناہوں کا کفارہ ادا کرنا ہوتا تھا تو جتنے پیسوں کیوجہ سے لونڈی یا غلام گروی ہوتے تھے ان کی گردنیں چھڑا دی جاتی تھیں۔ آقا کا عبد سے تعلق اپنے پیسوں کی حد تک ہوتا تھا۔
ملکت ایمانکم قرآن میں لونڈی و غلام کیساتھ خاص نہیں بلکہ پڑوسی ، قرابتدار ، مسافر، کاروبار ی شراکت دار وغیرہ کے علاوہ مختلف انواع واقسام کے عہدوپیمان پر بھی اسکا اطلاق ہوتا ہے۔ متعہ ومسیار اور ایگریمنٹ بھی اس میں شامل ہے۔ قرآن وسنت میں یہ معاہدہ ہے۔ کچھ آیات ملاحظہ فرمائیے!
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَۃً أَوْ مَا مَلکََتْ أَیْمَانُکُمْ (النساء:3)’’اگر تمہیں خوف ہو کہ عدل نہ کرسکوگے تو ایک ہی سے شادی کرلو یا جو تمہاری عہد و پیمان والی ہوں‘‘۔ امام سندھیؒ کے نزدیک پاکستان میں ایک شخص چار خواتین سندھی، بلوچ، پشتون اور پنجابی سے شادی کرسکتا ہے لیکن ان سے زیادہ نہیں، البتہ بنگالی، ازبک، عرب، یورپین اور دیگر اقوام کی لاتعداد کی حیثیت لونڈی کی ہوگی۔ اس طرح انکے مردوں کی حیثیت بھی غلاموں کی طرح ہوگی، عرب میں بھی یہی صورتحال رائج ہے۔ لیکن مغرب میں ایک شادی اور بہت سی گرل فرینڈز کی حیثیت عہد وپیمان والیوں کی ہے، اسلام میں نکاح کے علاوہ متعہ مسیار والیوں کی تشریح پر سعودی عرب اورایران کو متحد کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں عادلانہ نظام ہوگا۔ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ ( النساء:24)اوربیگمات خواتین سے مگر جو تمہاری عہد وپیمان والی ہوں‘‘۔عرب کے بادشاہ اور بڑے لوگ اپنی طلاق شدہ اور بیوہ بیگمات سے بھی شادی نہیں کرنے دیتے ہیں۔ خواتین بھی بعض اوقات اپنا اسٹس برقرار رکھنے کیلئے بیوہ ہونے کے باوجود کسی ایرے غیرے سے نکاح نہیں کرنا چاہتی ہیں اور ڈھنگ کا کوئی رشتہ ملتا نہیں ہے۔ رشتہ کرنے پر وہ فوت شدہ شوہر کی مراعات ، پینش، جائیداد سے محروم ہوجاتی ہیں تو انکے ساتھ نکاح کرنے کی حرمت کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ اپنی مراعات سے محروم نہ ہوں۔ ایک بڑے سرکاری افسر کی بیوہ سے شادی کا دعویٰ کیا جائے اور وہ حقیقت مان لے تو مراعات سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ متعہ سے مسئلہ نہ ہو گا۔ قرآن زمان ومکان کی تنگیوں سے بہت بالاتر ہے۔ فَمِنْ مَا مَلَکَتْ أَیمَانُکُمْ مِنْ فَتَیاتِکُمُ الْمُؤْمِنَات( النساء:25)’’پس تم میں سے وہ جوان مؤمن خواتین جو معاہدے ولی ہوں‘‘۔آیت میں یہ پسِ منظر بیان کیا گیا ہے کہ ہر لحاظ سے قابلِ قبول آزاد لڑکیاں اور شادی شدہ خواتین نکاح کیلئے میسر نہ ہوں تو پھر ان لونڈیوں یا متعہ کرنے والیوں سے بھی نکاح کرسکتے ہو۔ جب تم ان سے نکاح کرلو، تو ان کو بھی کمتر مت سمجھو۔ تم بعض بعض سے ہو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو جانتا ہے کہ نفس کی پیاس بجھانا اور اپنی فوقیت دکھانا تمہارا کام ہے، ایسا قطعی نہیں ہونا چاہیے۔
وَالَّذِینَ عَقَدَتْ أَیْمَانُکُمْ فَآتُوھُمْ نَصِیبَھُمْ ( النساء: 33)اورجن سے تمہارا پختہ معاہدہ ہوتو ان کو ان کا حصہ دیدو‘‘۔ اس میں وراثت کے اعتبار سے ہرقسم کا ایگریمنٹ شامل ہے اور جن خواتین نے مردوں سے کوئی ایگریمنٹ کیا ہو یا مردوں نے خواتین سے کوئی پکا معاہدہ کیا ہو، وراثت میں اس کی قانونی حیثیت کو قرآن نے واضح کیا ہے وراثت کے قانون میں جو وصیت اور قرضہ کا ذکر ہے، یہ معاہدہ بھی اسی کے ضمن میں ہے اور حضرت ابراہیمؑ نے اپنی بیوی حضرت ساراؑ اور ان کی اولاد کو اپنی ملکیت ، جائیداد اور گھر کا وارث بنایا، لونڈی حضرت حاجرہؑ کو وادی غیر ذی زرع میں معصوم بچے اسماعیلؑ کساتھ چھوڑ کر چلے گئے۔ ام المؤمنین حضرت ماریہ قبطیہؓ نے بھی ایک لونڈی کی حیثیت سے زندگی گزاری۔ سورۂ تحریم میں ان کی وجہ سے وہ آیات نازل ہوئی تھیں۔ جس نے انسانیت کی تاریخ کو بدلا۔ حقائق سامنے آگئے تو کارٹون بنانیوالے سورۂ تحریم کی بنیاد پر اسلام قبول کرینگے۔ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیلِ وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ ( النساء:36)اور پڑوسی اور مسافر اور جو تمہارے عہدو پیمان والے ہوں۔یہ آیت انسانی حقوق کے حوالہ سے عالمی نوعیت کی ہے۔ پڑوسی ومسافر کیساتھ تحریری معاہدہ نہیں مگر انکا حق ہے۔ زکوٰۃ کے مصارف میں حادثات کا شکار ہونے والوں کا بھی ذکر ہے۔ دنیا کی سطح پر عالمِ انسانیت کے تمام مظلوم ومجبور وں کی مدد اس میں شامل ہے۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ اپنے مشرک حلیفوں کی وجہ سے نبیﷺ نے توڑ دیا تھا۔ حلف الفضول کی تائیدپر نبیﷺ نے خوشی کا اظہار فرمایا تھا۔
أَوْ بَنِي أَخَوَاتِھِنَّ أَوْ نِسَاءِھِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُھُنَّ او التابعین غَیر اُولِی الاربۃ مِن الرِجَال( النور:31)’’یا بھانجوں سے یا اپنی عورتوں سے یا جنکے عہد کی وہ مالک ہوںیا وہ تابع آدمیوں میں سے جو عورتوں میں رغبت نہ رکھتے ہوں‘‘۔
اس آیت میں پردے کاحکم ہے جن میں محارم کا ذکرہے۔ غلام سے زیادہ ملکت ایمانھن سے مرادایگریمنٹ والے مراد لینا جائز ہے۔ جب کسی آزاد عورت کا غلام سے نکاح ہو یا کسی بالادست عورت کا تعلق کسی کمزور حیثیت والے مرد سے ہو جائے تو معاہدے کی ملکیت کی نسبت عورت کی طرف ہوگی، مریم نواز کیپٹن صفدر کی بیگم ہے لیکن شوہر بااختیار نہیں۔
وَالَّذِینَ یَبْتَغُونَ الْکِتَابَ مِمَّا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ فَکَاتِبُوھُمْ ( النور: 33)اور عہد والوں میں لکھت کا معاہدہ کوئی چاہتے ہوں تو ان سے مکاتبت کرو۔اس آیت غلاموں کو آزاد کرنے کے حوالے سے معاہدے کی بات نہیں ہوسکتی ہے، اسلئے کہ غلام کو آزاد کرنے میں ویسے بھی خیر ہے۔ بیوہ و طلاق شدہ کیلئے کوئی آزاد میسر نہ ہو تو مؤمن غلام بھی بہتر ہے۔ اگر غلام بھی صرف پیسے لیکر متعہ کرنا چاہتے ہوں تو پھر اس میں خیر کا پہلو نظر آئے تو ان کے ساتھ مکاتبت تحریری معاہدہ کرنا چاہیے، کیونکہ کل وہ آزاد ہوگا تو اولاد کے حوالہ سے عورت کو پریشانی کا بھی سامنا ہوسکتا ہے۔ اسی طرح کسی غریب سے بھی معاہدے میں متعہ کے حوالہ سے بہت سی چیزیں طے ہوسکتی ہیں۔
یَا أَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا لِیَسْتَأْذِنْکُمُ الَّذِینَ مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ ( النور:58)’’اے ایمان والو! تم سے اجازت طلب کریں جنکے تم عہدوپیمان کے مالک ہو‘‘۔ اس آیت میں غلام مرد ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ غلاموں کو ایک معاہدے کی شکل میں قانونی حیثیت دی گئی ،تاکہ ان سے عبد جیسا رویہ ختم ہو ۔
ھَلْ لَکُمْ مِنْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ مِنْ شُرَکَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاکُمْ ( الروم:28)کیا جن سے تمہارا معاہدہ ہے ان میں کوئی تمہارا شریک ہے جو ہم نے تمہیں رزق دیا ؟۔یہاں پر کاروباری شریک مراد ہے۔اپنے حصے میں کوئی شراکت دار کو شریک نہیں سمجھتا۔وَلا تَجعلُو ا اللہ عُرضَۃ لِایمَنِکُم اَن تَبرُوا و تتقوا و تصلحوا بین الناس (البقرۃ: 224) اور نہ بناؤ،اپنے معاہدوں کیلئے اللہ کو ڈھال کہ تم نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور عوام کے درمیان مصالحت کرو۔یہ آیت طلاق کی حقیقت کیلئے ایک بنیادی مقدمہ ہے۔ ایلاء، اکٹھی تین طلاق، ظہار، حرام اور طلاق سے متعلق جتنے صریح وکنایہ الفاظ ہیں اس میں ایک عام حکم جاری کیا گیا ہے کہ میاں بیوی صلح کیلئے راضی ہوں تو کسی قسم کے الفاظ کو اللہ کا نام لیکر انکے درمیان رکاوٹ کی بات نہ کرو۔ یہ نیکی ، تقویٰ اور مصالحت میں اللہ کے نام پر کوئی رکاوٹ قرآن کے منافی ہے اور قرآن میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ جہانتک آیت230کاتعلق ہے تو اس سے پہلے اور بعد میں نہ صرف رجوع واضح ہے بلکہ یہ وہ صورتحال ہے جب دونوں ملنا نہ چاہتے ہوں۔ لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللَّہُ بِاللَّغْوِ فِي أَیْمَانِکُمْ ولکن ےؤاخذ کم بماکسبت قلوبکم البقرۃ: 225 نہیں پکڑتا اللہ تمہیں لغو عہدوپیمان سے مگر پکڑتا ہے جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے۔اس میں صریح وکنایہ کے الفاظ پرفیصلہ دیا گیاہے کہ علماء کے پیچھے گھومنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔
اِن الذِینَ یَشتَرُون بِعَھد اللہِ وَاَیمانِھم ثَمَناً قَلِیلاً اُولئک لَا خِلاقَ لَھُم فِی الاٰخِرۃِ، آل عمران: 77 بیشک جو لوگ تھوڑی قیمت لیتے ہیں اللہ کے عہد اور اپنے عہد و پیمان سے انکا آخرۃ میں حصہ نہیں ۔ انسان اللہ سے ہرنماز میں بار بار وعدہ کرتا ہے اگر وہ اللہ کے قوانین کو توڑ کر غلط فتوے دیتا ہے تو اس کا آخرت میں بالکل بھی کوئی نہیں ہوگا۔ تدبر کرو!۔ لایؤاخذکم اللہ با للغو فی ایمانکم ولٰکن یؤاخذکم بما عقدتم الایمان فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین من اوسط ما تطعمون اھلیکم او کسوتھم او تحریر رقبۃ فمن لم یجد فصیام ثلاثۃ ایامٍ ذٰلک کفارۃ ایمانکم اذا حلفتم واحفظوا ایمانکم کذٰلک یبین اللہ لکم اٰیتہٖ لعلکم تشکرون (المائدہ: 89)’’نہیں پکڑتا ہے اللہ تمہیں تمہارے لغو عہد پر لیکن جب تم اپنے عہد کو پختہ کرچکے ۔ تو اسکا کفارہ 10 مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے،اوسط درجے کا جو تم اپنے اہل کو کھلاتے ہویا انکا کپڑا،یا کسی کی گردن کو آزاد کرنا ہے ، یہ تمہارے عہدوپیمان کا کفارہ ہے جب تم قسم اٹھاؤ۔ اور اپنے عہدو پیمان کی حفاظت کرو، اس طرح اللہ واضح کرتا ہے اپنی آیات کو ، ہوسکتاہے کہ تم شکر ادا کرو‘‘۔
فقہ اور اصولِ فقہ کی کتابوں میں یمین کو صرف قسم قرار دیا گیا اور بہت فضول قسم کے اختلاف وتضاد کے مسالک ہیں،قرآن کاترجمہ وتفسیر میں بھی اپنے غلط افکار ڈال دئیے گئے ۔ یہ واضح ہے کہ پختہ عہدوپیمان کو توڑنا گناہ ہے لیکن اس پر کفارہ نہیں ہے اور جب ایمان حلف کے معنی میں ہو تو اس پر کفارہ ہے۔ یمین قسم کو بھی کہتے ہیں اور محض عہد کو بھی۔ یہ قرآن میں واضح ہے۔
واللہ فضلکم فی الرزق بعضکم علی بعض فَمَا الَّذِینَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِھِمْ عَلَیٰ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ فھم فیہ سوآء ( النحل:71)اور اللہ نے تمہیں میں بعض کو بعض پر رزق میں فضلیت دی ہے۔ جن لوگوں کو بالادستی ہے اپنے عہد وپیمان والوں کو انکے رزق کو لوٹانے کی تووہ اس میں برابر کے شریک ہیں۔’’ اس آیت کے ترجمہ وتفسیر میں بھی بڑا مغالطہ کھایا گیاہے۔اس میں وضاحت ہے کہ اگر کاروبار میں دوافراد شریک ہوں ۔ ایک کام ایک کرے اور دوسرا کام دوسرا کرے تو جب ایک کو منافع زیادہ ملے تو اس میں جس سے عہد و پیمان ہوا ہے وہ بھی برابر کا شریک ہے۔سیاق وسباق سے یہی اخذ ہوتا ہے لیکن آیت کا سوالیہ نشان بنایا گیاہے کہ کیا غلام بھی تمہارے ساتھ تمہارے رزق میں شریک ہیں پھر کیوں شرک کا ارتکاب کرتے ہو؟۔اس سے پہلے انسان کو رذیل عمر کی طرف لوٹنے کی خبر ہے اور اپنے شریکار کو برابر کا حصہ دینے کیلئے واضح کیا ہے کہ کیا تم اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہو؟۔ پھر ازواج اور بیٹوں وپوتوں کا ذکر کیا ہے۔ جس کا مطلب کاروبارمیں دھوکہ سے روکنا ہے۔ کاروباری شریک کا دھوکہ سے منع کیا گیاہے۔ واوفوا بعہداللہ اذا عٰھدتم اذاوَلا تَنقُضوا الاَیمانَ بَعد تَوکِیدھا (النحل:91)اورپورا کرو اللہ کیساتھ عہد کو جب تم عہد کرواور اپنے عہدکو نہ توڑ و،اس کو پختہ کرنے کے بعد اس آیت میں ایمان سے مراد عہدہی ہے لیکن قسم مراد لیاہے۔
تَتَّخِذُونَ أَیْمَانَکُمْ دَخَلًا بَیْنَکُمْ أَنْ تَکُونَ أُمَّۃٌ ھِيَ أَرْبَیٰ مِنْ أُمَّۃٍ ( النحل:92)کہ عہدوپیمان کو واردات بناؤ کہ ایک فریق دوسرے سے زیادہ نفع حاصل کرلے۔اس میں قسم کے ذریعہ سے نفع حاصل کرنا بھی ہے اور وعدوں سے بھی سیاستدانوں کی طرح دھوکہ دینا مراد ہے۔
وَلَا تَتَّخِذُوا أَیْمَانَکُمْ دَخَلًا بَیْنَکُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِھَا ( النحل:94)اورنہ بناؤاپنے عہدوپیمان کو واردات آپس میں کہ گراوٹ کا ذریعہ بنے قدم جمنے کے بعد اور پھر تم برائی کے مزے کو چکھ لو ، بسبب اللہ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے۔ اور تمہارے لئے برا عذاب ہوگا۔یہ اخلاقی تربیت ہے کہ جھوٹے وعدوں اور قسموں کو دھوکہ بازی کا ذریعہ نہ بناؤ۔
إِلَّا عَلَیٰ أَزْوَاجِھِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ فَإِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُومِینَ ( المؤمنون:6)جواپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں یا جن سے معاہدہ ہو تو ان پر ملامت نہیں۔وَمَا مَلَکَتْ یَمِینُکَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّہُ عَلیکَْ ( الأحزاب:50)اور وہ جوتیرے معاہدہ کی ہوں جو اللہ تجھے عطا کرے۔ قد علمنا ما فرضنا علیھم فی ازواجھم اوما ملکت ایمانھم لکی لا یکون علیک حرج و کان اللہ غفور اً رحیماً ( الاحزاب:50)بیشک ہمیں معلوم ہے جو ہم نے مقرر کیا ہے،ان پر ان کی بیویوں کا حق مہراور جن سے ان کا عہدو پیمان ہوا ہے ان کا اجر۔ تاکہ تجھ پر کوئی تنگی نہ ہو اور اللہ غفور اور رحیم ہے۔
ولایحل لک النساء من بعدوَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِھِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَکَ حُسْنُھُنَّ إِلَّا مَا مَلَکَتْ یَمِینُکَ ( الأحزاب:52)اوراسکے بعد آپ کیلئے عورتیں حلال نہیں اور نہ یہ انکے بدلے کوئی کرلیں اگرچہ ان کا حسن آپ کو اچھا لگے مگر جو آپ کی لونڈی ہو۔ وَلَا أَبْنَاءِ أَخَوَاتِھِنَّ وَلَا نِسَاءِھِنَّ وَلَا مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُھُنَّ ( الأحزاب:55) اور نہ انکے بھتیجوں سے ،نہ انکی خواتین اورنہ انکی لونڈیوں سے۔ قَدْ فَرَضَ اللَّہُ لَکُمْ تَحِلَّۃَ أَیْمَانِکُمْ وَاللَّہُ مَوْلَاکُمْ ( التحریم:6)اور اللہ نے مقرر کیا ہے تمہارے عہد کوحلال کرنا اوروہ تمہارا مولا ہے۔ نبی ﷺ نے حضرت ماریہ قبطیہؓ کو اپنے اوپر حرام قرار دیا تھا ، اس کو ایمان قرار دیا گیاہے۔ تحلۃ کفارہ کو بھی کہتے ہیں لیکن نبیﷺ نے اس کا کفارہ نہیں دیا۔ اسلئے کہ یہاں کفارہ مراد نہیں بلکہ عہد کو حلال کرنا مراد ہے۔
إِلَّا عَلَیٰ أَزْوَاجِھِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُھُمْ فَإِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُومِینَ ( المعارج:30)مگر اپنی بیویوں پر اور جوان کی عہدوپیمان والی ہوں تو ان پر کوئی ملامت نہیں۔
اصولِ فقہ ، فقہ، تفاسیر کی کتابوں میں قرآن کے مجموعی الفاظ پر نظر دوڑانے کے بعد علمی نکات اخذ کئے ہوتے تو بہت بڑے مغالطے، اختلافات اور تضادات میں مبتلا نہ رہتے۔ غلطی ہونا بڑی بات نہیں لیکن غلطیوں پر اصرار کرنا ابلیسی عمل ہے۔
فقہاء نے قسم کی تین اقسام بیان کی ہیں۔ 1:یمین لغو 2: یمین غموس،3: یمین منعقدہ۔ کس مسلک میں کس قسم پر کفارہ ہے اور کس پر نہیں؟۔ اختلاف کی حقیقت سمجھ کر ہنسی آئے گی۔ یہی نہیں بلکہ سورۂ بقرہ کی آیت229 اور 230 کے درمیان اتصال اور جوڑ پر جس طرح پاگل پن کامظاہرہ کیا گیا ہے ان کو دیکھ شیخ چلی کے لطیفے بھی بھول جاؤ گے۔ قرآن نے وضاحت کیساتھ مسائل واضح کردئیے ہیں ان سے پہلوتہی برتنے کیلئے جان بوجھ کر حماقت کا مظاہرہ نظر آتا ہے۔
متحدہ مجلس عمل کے علماء اور مذہبی جماعتوں کو اگر اسلام کی فکر ہے تو تمام مکاتبِ فکر کیلئے قابلِ قبول مسائل کا حل عوام کے سامنے پیش کریں،میری خدمات حاضرہیں اور مجھے معلوم ہے کہ انہوں نے صرف ووٹوں کی زکوٰۃ لینی ہے اور اتحاد کے نام پر دوسری جماعتوں سے پیسہ بٹور رہے ہیں، اپنے اداروں کیلئے خیرات ، صدقہ اور زکوٰۃ لینا بھی انکا مقصد ہے۔ تاہم پشتون تحفظ موومنٹ کی طرح ہم درست مقاصد کیلئے ان کو بھی سپورٹ کرینگے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے انقلاب آسکتاہے۔
سعودیہ عرب کی حکومت اسلامی تہذیب وتمدن کیلئے سب سے بڑی ماڈل تھی لیکن اب سینما، جوئے کے اڈے اور خواتین کی ریس وغیرہ کے علاوہ تمام حدود وقیود سے نکل رہے ہیں۔ اگر انکے علماء ومفتیان حکومتی فنڈپر صرف قرآن وسنت کی خدمت کرتے تو آج نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ پاکستان میں بالعموم پنجاب میں بالخصوص افسوسناک صورتحال ہے۔ روز بچے و بچیوں کو جبری جنسی زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کیا جا رہا ہے۔ سزاؤں کا کوئی اتہ پتہ نہیں، جرائم کی تشہیر سے جرائم میں اضافہ ہواہے اور نہ کریں تو مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ جبری نظام ہم نے گھر سے سیکھ کر معاشرے میں تشکیل دیا ۔ قرآن کی واضح آیات کے مطابق عورت کو گھر چھوڑنے اور خلع کیلئے حدیث میں ایک حیض کی عدت کافی ہو تو کوئی بیوی کو ایک تھپڑمارنے کی ہمت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا۔ اسلئے کہ عورت چھوڑ کر جاسکتی ہو تو مردتھپڑ نہیں مارے گا۔
اسلام میں جبری زنا کی سزا قتل اور سنگساری ہے۔ پاکستان میں عرصہ تک شکایت کرنے والی خواتین کو بھی قیدکردیا جاتا کہ گواہ لاؤ حالانکہ نبیﷺ نے متأثرہ خاتون سے گواہ طلب نہیں کئے، سچ کا یقین ہونے پر سزا کا حکم دیا لیکن پرویز مشرف کے دور میں مفتی تقی عثمانی نے من گھڑت دلائل دئیے تھے۔
ہمارے ہاں جب خاتون نکاح میں ہو تو اسکے حقوق اتنے غصب کئے گئے ہیں کہ ایک لونڈی بھی اسلام نے اسقدرغلامی میں نہیں پھنسائی ہے۔ طلاق کے بعد بھی نہ بسانے کا ارادہ ہو تو بھی دوسری جگہ شادی کرنے پر مار دیا جاتاہے۔ اس سے بڑی اور بدترین غلامی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ دوسری جانب اس کووہ حقوق حاصل نہیں ہوتے جو ایک منکوحہ کے طلاق کے بعد بھی ہوتے ہیں بلکہ حقوق کے لحاظ سے پھر وہ متعہ والی عورت سے بھی بدتر بنتی ہے۔ خلع کیلئے بھی منہ مانگی قیمت جائز ہوتی ہے۔