پوسٹ تلاش کریں

بیداری کسی عنوان کے بغیر اور شیطان پر ایک حملہ

یقضة بلا عنوان وھجمة علی شیطان
من اتخذاِلٰہ وحید الھوائِ
ھزَّ جمجمة رَصِید الرَمَائِ
کل قرض ینفع ھوالربا
لوباسم الاسلام جدید الکرائ
اعطی الربح صُورَة السودائِ
ذمّ العُلمائُ قَصِید الِاجرَاء
حلّل ارباح و اکل الزکوٰة
ارمل القوم فقید الغذائ
فاز ابوحنیفہ اسیر فی سجن
ثرثر ابویوسف وطید الخرسائ
جاز الفاتحة بالبول کتابًا
تداول بینھم تھدید الاستنجائ
قھقر المفتی تقی من ضربتی
فیدغمہ شدید العصائ
درّسوا کلام اللہ لیس مکتوبًا
فکتب بالقذرحفید النَھدائ
وُلِدَ الخبیث دبرًا بدبر
جرو الکلب تخلید البغائ
فمثلہ کمثل کلب یلھث
ھو بَعلَم ولید باعورائ
ان شاء لرفعہ اللہ لکن
اخلد الی الارض عمید الجلائ
قسا قلبہ رشاطلبہ فاترک جلبہ
فھداےة اللہ بعیدالاشقیائ
فضیحة الشیخ ما فضیلة الشیخ
اجیرالبَنوکِ عبید الشَرَائ
صنع العَظمَة الکَاذِبَة
حاشیة الملوک تفنید العلمائ
فتن المؤمنین ثم لم یتب
فلہ عذاب جہنم غرید الاعدائ
ما رفع العلم الا بقبض العلمائ
اتخذوا رئیساً نشید الجہلائ
الاسلام عادی فصار الغریب
فطوبٰی بشارة عدید الغربائ
لایبقی من القراٰن الارسمہ
فالتحلیل باقٍ سعید الافتائ؟
من طَلَّقَ زوجتہ ثلاث
فطَلبُہا غلط رید الکَحلَائ
کَفَی الرِسَالةُ الخَطَیِّة
تمحص عنہا قعید الخفائ
یتعد الظٰلمون حدود اللہ
ماالحلالة الا عقید الزنائ
اَدخَلَ علیھا ذَاقَت الزَلَاء
فلیقطعوا ورید النسائ
المدارس فی عصرنا مصانع
کم حُلَّلت زِید الحَسَنَائ
عَلَی التِیسِ المُستَعَارِ لَعنَة
اتخذوااربابًا تقلید الفُضَلَائ
اَشرَقَتِ الَارضُ بنورربھا
اَلخَفَاشُ ندید الطِرمِسَائ
اَلرُجعَةُ بلا اعداد والحساب
اُتلو اٰےَاتِ اکلید الطُلَقَائِ
فِتنَتان للناس فی القراٰن
اولٰی رُؤےَاالنبی معید الِاسرَائ
والثانیة فیہ الشَّجَرَةُ المَلعُونَة ُ
یقیم بھا اللہ تمھید الخلفائ
قال لَا تَقرَبَا ھٰذہ الشَّجَرة
عصٰی آدم ربہ مستفید الحوائ
حب الشھوٰت من النساء
الرجال بھٰذا رشید الضعفائ
یجتنبوا کبائرالاثم والفواحش
الا اللمم اکید الاتقیائ
الذین قتلوا وزنوا ثم تابوا
بدل سیئة بحسنة فرید الجزائ
لایمکن القاء الشیطٰن فی وحی
لکن اَلقَی فی رد ید الأسوائ
ھواجتبٰکم وجاھدوافی اللہ
حق جہادہ علیکم شھید الشہدائ
سَلَام عَلَی اَسَاتِذَتِی جمیعًا
ورحمة اللہ تعالیٰ سدید النجبائ
بالاخص بجَامِعةِ بِنَورِی تَاؤن
اُسست بالتقوٰی مفید الطلبائ
الکنز لاتضیع والحق لاتبیع
الباطل لاتطیع مرید السفہائ
ان اللہ اشترٰی منا اموالنا
وانفسنابالجنة نرید الوفائ
الذین یکفّرون باٰیات اللہ
ترفرف لھم لدید اللوائ
البیعة للہ وخلقہ عیالہ
لسائر الناس تحدید البلائ
منع الحسین بیعة الجبروالخوف
فی کل مکان ھنا یزید الغوغائ
تناول الحسن عن الخلافة
تخلخل الامیة حصید السعدائ
ترک معاویہ ابن یزید امارتہ
عمر بنی مروان محید الاعتنائ
کمثل الحمار یحمل اسفارا
زفیر شھیق لھید ھٰؤلاء
العصر یبحث عن ابراھیمہ
اصنام انعام توحید العَلائ
علیکم بالعلم علیکم بالعتیق
ولاتفرقوا توکید الی اللقائ

"بیداری کسی عنوان کے بغیر اور شیطان پر ایک حملہ” جس نے بنالیا ہے اپنا معبوداکلوتے ہوا (خواہش)کو۔کھوپڑی ہل گئی ہے سود ی بیلنس سے۔
ہر وہ قرض جو نفع دے وہ سود ہے۔اگرچہ اسلام کے نام پر کرائے کا جدید( ترین حیلہ ) ہو۔ سود کو بہت بھونڈی شکل دی ۔علماء نے سرزنش کردی، کاروائی کرتے ہوئے میانہ روی سے۔اس نے حلال کردیا سود اور کھا گیا زکوٰة۔ قوم کا توشہ ختم ہوگیا غذا تک کے مفقود ہونے سے ۔ ابوحنیفہکامیاب ہوا جیل کی قید میں،ابویوسف نے جھک ماری بک بک والوں کو پختہ کرکے۔ جائز کہا سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا ، اس مسئلہ کو آپس میںپہنچایا ،استنجے کا خطرہ بھی پیدا ہوا ۔ مفتی تقی پیچھے لوٹا میری ضرب لگانے سے، تو اسکا بھیجہ (دماغ)نکا ل کررکھ دیا لاٹھی کی سختی نے۔ پڑھاتے ہیں کہ کلام اللہ لکھائی نہیںہے توگند سے لکھا ابھری پستانوںوالیوں کے پوتے نے پیدا ہوا ہے خبیث پچھواڑے سے پچھواڑا ملانے پر،کتے کا بچہ ہے ہمیشہ کی بدکاری سے۔تواس کی مثال کتے کی مثال ہے جو ہانپا ہے(قرآن میں)۔ وہ(عالم) بَعلَم بن باعوراء تھا ۔اگر وہ چاہتا تو اللہ اس کو بلند کردیتامگراس نے زمین میں ہمیشگی اختیار کی کھلی صدارت کیساتھ۔اسکا دل سخت ،اسکی طلب رشوت، اس کو کھینچ لانا چھوڑ و۔اللہ کی ہدایت بدبختوں سے دورہے۔ شیخ کی انتہائی رسوائی کوئی فضلیت نہیں ہے، بینکوں کا مزدورہے، سودی لین دین کا غلام ہے ۔اس نے جھوٹی عظمت بنانے کا ڈھونگ رچایا ہے۔درباری ہے، علماء کو جھٹلانے والاہے۔ مؤمنوں کو فتنے میں ڈالااور پھر توبہ نہ کی، اس کیلئے جہنم کا عذاب ہے، دشمنوں کاگانا گاتا ہے۔علم نہیں اُٹھتا ہے مگرعلماء کی فوتگی سے ۔اب بنالیا ہے لوگوں نے سربراہ جاہلوں کی آواز کو ۔ اسلام فطری ہے پس بن گیا ہے اجنبی۔ تو خوشخبری بشارت ہے گنے چنے منتخب اجنبیوں کیلئے۔ قرآن میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا مگر اسکا رسم الخط،پھر حلالہ کرنے کی سعادت باقی ہے ؟۔جو بیگم کو 3طلاق دے تو غلط ہے اس (خاتون) کو بلانا سرمگین آنکھوں والیوں کی تلاش میں۔ تحریری استفتاء کافی ہے۔ غلط اس عورت سے تفتیش کرنافتویٰ کی طلب میں خفیہ ہم نشین بناکر۔ ظالموں نے اللہ کے حدود پامال کردئیے، حلالہ کچھ نہیںہے مگر معاہدے کرنے والے کا زنا۔ اس میں ڈالتا ہے تو ہلکے سرین والی مزا چکھ لیتی ہے تو پھرضرورعورتوں کی شہہ رگ کاٹ لیں۔ مدارس ہمارے زمانے میں فیکٹریاں ہیں۔ توکتنی حلال کرلی ہیں حسینہ سے زیادتی کرکے ۔ کرائے کے سانڈ پر لعنت ہو ،انہوں نے رب بنایاہے فارغ التحصیل علماء فضلاء کی تقلید کو۔ اللہ کی زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھی۔ چمگادڑ سخت تاریک رات کی نظیرو مثال ہے۔ رجعت کسی عدد اور حساب کے بغیر ہے، تلاوت کرو آیات کو چابیاں ہیں طلاق والوں کیلئے۔ لوگوں کیلئے دو آزمائش ہیں قرآن میں۔پہلی نبیۖ کاخواب ہے جومعاون ہے معراج کا۔اور دوسری اس (قرآن)میں شجرہ ملعونہ ہے۔اسکے ذریعے اللہ قائم کرے گا خلفاء کا مقدمہ۔ فرمایا:دونوں اس درخت کے قریب نہ جاؤ،آدم نے اپنے رب کا عصیان کیا حواء کا استفادہ۔ عورتوں کی شہوات سے محبت فطری ہے۔مرد حضرات اس کی وجہ سے ضعفاء کے باہوش ہیں۔اجتناب کرتے ہیں بڑے گناہ وفواحش سے مگرکچھ نہ کچھ۔یہ محکم وثابت ہے اتقیاء کی صفت۔ جو قتل وزنا کرتے ہیں پھر توبہ کرتے ہیں تو بدل دیتاہے( اللہ) گناہ نیکی میں، نرالی جزاء ہے۔ شیطان کاوحی میں القاء ممکن نہیں اوروہ ڈال دیتا ہے اپنا حیلہ بدشکلوں کے بُرے کرتوتوںمیں۔ اس نے تمہیں منتخب کیا اوراللہ کیلئے جہاد کرو، جہاد کا حق ادا کرو،تم پر گواہ ہیں شہداء کے شہیدۖ سلام ہو میرے تمام اساتذ ہ پر اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ۔اصیل لوگوں میں معقول وپختہ تھے۔ خاص طور سے جامعہ بنوری ٹاؤن پر جس کی بنیاد تقویٰ پررکھی گئی ہے، فائدہ مندہے طلباء کیلئے خزانہ ضائع نہیں کیا جاتااور حق کو بیچا نہیں جاتا،باطل کی اتباع نہیں ہوتی بیوقوفوں کے مرید۔ بیشک اللہ نے خرید لئے ہم سے ہمارے اموال و جانیں جنت پر، ارادہ ہے کہ فرض پورا کریں جو اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں (حلالہ کی لعنت سے) ان کیلئے لہرا رہا ہے جانی دشمنی کا جھنڈا۔ بیعت اللہ کیلئے ہے اوراللہ کی مخلوق اس کی عیال ہے۔یہ تمام انسانیت کیلئے بلا پر قابو پانا ہے۔ منع کردیا حسین نے زبردستی اورخوف کی بیعت کو۔ ہر جگہ یہاں پرشورو غل کا یزید موجود ہے۔دستبرداری اختیار کرلی حسن نے خلافت سے۔جھول ہے امیہ میں نیک بختوں کو کٹی فصل بنایا۔معاویہ بن یزید نے اپنی امارت ترک کی،عمر بنو مروان نے الگ راستہ اختیار کیا توجہ حاصل کی گدھے کی طرح کتابیں لادی ہیں ۔ڈھینچوکی ابتداء وانتہائ،بوجھ سے نڈھال یہی لوگ ہیں۔ یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے۔بت ہیں،حیوان ہیں، توحید (لاالہ الا اللہ)بلند ہے۔تم پر علم کی اتباع اور عتیق کی اتباع لازم ہے اور تفرقے میں نہیں پڑو! تاکیدآئندہ ملاقات تک

یر رجوع کا حکم ہے مگر گدھے بالکل نہیں سمجھتے۔ سورۂ بنی اسرائیل :60دوآزمائش ہیں،ایک معراج النبیۖ کا خواب کہ دین غالب ہوگا۔ جس پر ایمان ہے لیکن غامدی کا یقین نہیں۔ دوسری آزمائش حلالہ کی لعنت ہے۔ قرآن پر غورہوگا۔ غیرت جاگ جائے گی۔نئی روح بیدار ہوگی ۔ خلافت راشدہ کیلئے راستہ ہموار ہوگا۔ قرآن میں شجرۂ نسب کی قربت سے منع کیا گیا،فرمایا کہ شیطان تمہیں ننگا نہ کرے، جیسے تمہارے والدین کو ننگا کرکے جنت سے نکلوادیاتھا۔ عورتوں سے شہوانی چاہت مردوں کی فطرت میں ودیعت ہے۔اگر مواقع ملنے پربچت ہو تو یہ مردوں کا کمزوری پر قابو پانے میں کمال ہے ۔ اچھوں کیلئے بھی فواحش سے بچنے کے باوجود خالی جگہ رکھی۔ اللہ نے فرمایا:فلا تزکوا انفسکم ”اپنے نفسوں کی پاکی کا دعویٰ مت کرو۔ بنی آدم کیلئے قرآن میں اتنا پیکج ہے کہ جب وہ توبہ کریں تو نہ صرف گناہوں کو معاف کیا جائیگا بلکہ گناہوں کے بدلے میںنیکیاںبھی ملیں گی آیت سورۂ حج میں انبیاء کی تمنا یہ تھی کہ حلالہ کی لعنت نہ ہو۔ بعد میں بدشکلوں ردی مال نے شیطان کی مداخلت سے انبیاء کی تمنا کا خون کیا۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا: ” اللہ (کی کتاب )میں جہاد کا حق ادا کرو، اس نے تمہیں منتخب کرلیاتاکہ رسول ۖ تم پر اور تم لوگوں پر گواہ بنو”۔ پنجاب، پختونخواہ، بلوچستان، سندھ سے تعلق رکھنے والے تمام اساتذہ کو دل کی گہرائیوں سے سلام۔ بڑے اصلی اور نسلی اچھے لوگ تھے۔ علامہ سیدمحمدیوسف بنوری بہت عظیم تھے، ان کی قیادت میں ختم نبوت کا مشن پورا ہوا۔سود کیخلاف زبردست مزاحمت جامعہ نے کی ہے۔مفتی محمد شفیع نے مفتی تقی و رفیع کیلئے دارالعلوم میں ناجائز گھر خریدے۔ بیٹے سودکافتویٰ بیچتے ہیں ،داماد شادی بیاہ کے لفافوں کو سود کہتاہے ۔ اگر حلالہ ،سود کے جواز اور مدارس کے غلط نصاب کیخلاف آواز اٹھانے پر مالی جانی نقصان ہوتو اللہ نے ہمارے ساتھ جنت کا سودا کیاہے ۔ آیات کو جھٹلاکر حلالہ کے نام پرعزتوں سے کھلواڑ ہے،غیرتمند لوگوں کو پتہ چل رہاہے اور حلالہ کے مرتکبوں کے خلاف خون کھول رہاہے۔ مؤمن اللہ کیلئے خود کوبیچ چکا ۔ مخلوق اللہ کا کنبہ ہے ۔ ایک عزت بچانے کیلئے محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کیا ، مدارس کو کون فتح کرے گا؟۔ حسین نے زبردستی کی بیعت سے امان نہیں مانگی۔یہاں پر شور وغل کا یزید ہرجگہ ہے اور حسین کے کردار کی بہت زیادہ سخت ضرورت ہے۔ امام حسن نے امت کو متحد کیا۔ بنی امیہ نے معاملہ امارت میں بدل ڈالا۔ حجاج کہتا تھا کہ لوگو! سروں کی فصل پک چکی ،کٹائی کا موسم آگیا۔ یزید کا بیٹا معاویہ با ضمیر تھا ۔ عمربن عبدالعزیز نے خلافت راشدہ قائم کی ۔بنویزید وبنومروان میں اچھے تھے تو علماء کی اولاد میں بھی ہونگے۔ مولانا ابوالکلام آزاد وزیر تعلیم ہندوستان نے علماء کا بہت بڑا اجلاس بلاکر کہا تھاکہ مدارس کا نصاب علماء کو کوڑھ دماغ بنانے کیلئے کافی ہے۔ علماء کرام ومفتیان عظام نے اگر لاالہ اللہ کی حقیقی صدا بلند کرتے ہوئے مساجد سے حق کی تعلیم شروع کردی توجلد اسلامی انقلاب آجائیگا۔سنن داری سے عبداللہ بن مسعودکے قول کو مولانا یوسف لدھیانوی نے عصر حاضر میں نقل کیا، علم کی اتباع سے تفرقہ بازی ختم ہوجائے گی۔ نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ اگست 2022۔

 

ایک عالم ہے ثنا خواں آپ ۖ کا۔ مغرب کے دانشوروں کا رحمہ للعالمین ۖ کو خراج عقیدت

ایک عالم ہے ثنا خواں آپ ۖ کا۔ مغرب کے دانشوروں کا رحمہ للعالمین ۖ کو خراج عقیدت

”ایک عالم ہے ثناخواں آپۖ کا”
مغرب کے دانشوروں نے رحمت للعالمین ۖ کے بارے میں ایک عرصے تک سخت معاندانہ رویہ اختیار کیے رکھا ، مگر بالآخر آج وہ اعترافِ حقیقت پر مجبور ہوگئے ہیں۔ان کی حقیقت بیانیوں کا نچوڑ پہلی مرتبہ پیش کیا جارہا ہے ۔
مرتب :ستارطاہر۔موسم اشاعت: نومبر1995ء تعداد: ایک ہزار
دوست پبلی کیشنز ۔8۔ اے ، خیابان سہروردی پوسٹ بکس نمبر2958 ۔

”آربیل”
محمد(ۖ) نے پوری زندگی میں کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ معجزہ کر دکھانے کی طاقت رکھتے ہیں۔آپۖ نے اس حوالے سے اپنی کوئی ”علامت” بھی قائم نہ کی۔ آپۖ ہمیشہ یہ فرماتے تھے کہ تمام علامتیں اور نشانیاں اللہ کی ہیںاور خدا کے کلام کا ان پر نزول سب سے بڑا معجزہ ہے۔

” جارج برناڈ شا”
از منہ وسطیٰ میں عیسائی راہبوں نے جہالت و تعصب کی وجہ سے اسلام کی نہایت بھیانک تصویر پیش کی۔ یہ سب راہب اور مصنف غلط کار تھے،کیونکہ محمد(ۖ)ایک عظیم ہستی اور صحیح معنوں میں انسانیت کے نجات دہندہ تھے۔
محمد(ۖ) کے مذہب کو میں نے ہمیشہ اسکی حیران کن قوت اور صداقت کی وجہ سے اعلیٰ ترین مقام دیا۔ میں نے اس کی حیران کن اور صداقت کی وجہ سے اعلیٰ مقام دیا ہے۔میرے خیال میں محمد (ۖ)کا مذہب دنیا کا واحد مذہب ہے جو ہردور کے بدلتے ہوئے تقاضوں کیلئے کشش رکھتا ہے۔میں نے اس حیران کن انسان (ۖ) کا بغور مطالعہ کیااور اس سے قطع نظر کہ انہیں ” مسیح کا دشمن” قرار دیا جاتا ہے۔محمد (ۖ) ہی انسانیت کے نجات دہندہ ہیں۔میرا ایمان ہے کہ اگر آپ (ۖ) جیسا شخص دنیا کا حکمران ہوتا تو ہماری دنیا کے سارے مسائل حل ہو چکے ہوتے اور یہ دنیا خوشیوں اور امن کا گہوارا بن جاتی۔محمد(ۖ) کے مذہب کے بارے میں میں یہ پیش گوئی کرتا ہوں کہ یہ کل کے یورپ کیلئے بھی اتنا ہی قابل قبول ہے جتنا آج کے یورپ کے لیے ۔۔۔جو اسے قبول کرنے کا آغاز کر چکا ہے۔میری خواہش ہے کہ اس صدی کے آخر تک برطانوی ایمپائر کو محمد(ۖ) کی تعلیمات مجموعی طور پر اپنا لینی چاہییں۔انسانی زندگی کے حوالے سے محمد (ۖ) کے افکار و نظریات سے احتراز ممکن نہیں۔

”آرلی روژ”
انسانی تاریخ کو سامنے رکھیے اور اس کا بغور مطالعہ کیجئے تو ایک زبردست حقیقت کا انکشاف ہوگا ۔ یہ محمد(ۖ) تھے جو پہلے سماجی بین الاقوامی انقلاب کے بانی تھے،جن کا حوالہ ہمیں تاریخ میں ملتا ہے۔ آپۖ سے پہلے کی تاریخ میں کوئی ایسا نہیں ملتا جو بین الاقوامی سماجی انقلاب کا بانی ہو۔
آپ نے ایسی ریاست قائم کی کہ جب تک پوری دنیا کی ریاستیں اور حکومتیں اس کی تقلید نہیں کرتی ہیں ،عالمی امن قائم نہیں ہوسکتا اور سماجی انصاف فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ آپۖ نے انصاف اور جود وسخا کے جو قوانین مرتب اور نافذ کیے ،جب تک دنیا انہیں نہیں اپناتی ،یہ نہ تو خوشحال ہوسکتی ہے اور نہ پرسکون۔ آپۖ نے بین الاقوامی مساوات کا نظریہ دیااور دنیا کے سب انسانوں کو برابر ٹھہرایا۔ آپ ۖنے درس دیا کہ انسان کو انسان کی مدد کرنی چاہیے۔

”ای بلائیڈن”
محمد(ۖ) کے دین کا پورا سسٹم دو بنیادوں پر استوار ہے اور یہی قرآن کی روح ہے۔ جزا اور سزا کے ستون۔ ………اچھے کام کی جزا اور برے کام کی سزا….. امید اور خوف۔ امید کہ اچھائی باثمر ہوگی اور خوف کہ برائی کا ارتکاب ہوا تو سزا ملے گی۔ ایسا مکمل نظامِ حیات دنیا کے کسی مذہب نے پیش نہیں کیا۔
ولیم پین، پادری جارج وائٹ فیلڈ، صدر ایڈورڈز ،……. یہ سب لوگ کئی اہم کتابوں کے مصنف تھے اور ان کی شہرت عالمگیر ہے۔ مسیحی دینیات کی دنیا میں انہیں ممتاز مقام حاصل ہے۔ یہ سب کیسے انسان تھے؟ سب غلامی کے حامی تھے اور سینکڑوں غلام ان کی ملکیت تھے۔حبشی ان کے نزدیک انسان تھے ہی نہیں بلکہ وہ انہیں ”شیطان کی اولاد” سمجھتے ہوئے ان سے نفرت کرتے اور ان پر ہر ظلم روارکھنا جائز سمجھتے تھے۔ کتنی صدیوں نے ظلم کا بازار دیکھا ، صرف اسلئے کہ یہ دیندار، نیک طینت ،سفیدفام اس نظرئیے پر یقین رکھتے تھے کہ خدا نے انہیںیہ حق دیا ہے کہ وہ افریقہ کے حبشیوں کو اپنا غلام بناسکتے ہیں۔
ان عیسائی عالموں کا خدا محمد(ۖ) کے خدا سے کتنا مختلف ہے!
محمد(ۖ) نے انسانوں کو بتایا کہ حبشی اور کالے بھی انسان ہوتے ہیں۔ ان کی اپنی جانیں اور روحیں ہوتی ہیں۔
اس کے برعکس دینداروں اور کلیسا کے عہدیداروں نے حبشی غلاموں کو بتایا تھاکہ ” تمہیں جان لینا چاہیے کہ تمہارے جسم بھی تمہارے اپنے نہیں،بلکہ تمہاری جانوں اور روحوں کے مالک بھی وہی ہیں جنہیں خدا نے تمہارا آقا بنایا ہے”۔
اور پھر اسلام اور محمد(ۖ) پر گھٹیا باتیں کرنے والے بہت کچھ جان بوجھ کر بھلا دیتے ہیں…… ڈاکٹر میکلر ہمیں بتاتا ہے کہ پروشیا میں اسلاف کی توہم پرستی اس حد تک گہری ہوچکی تھی کہ ہر شخص کو تین شادیاں کرنے کا حق حاصل تھااور ان بیویوں کی حیثیت کنیزوں اور باندیوں سے زیادہ نہ تھی۔اور پھر جب ان کا خاوند مرجاتا تو اس کی بیواؤں سے یہ توقع رکھی جاتی تھی کہ وہ اسکے ساتھ جل مریں۔ اگر وہ یہ توقع پوری نہیں کرتی تھیں تو مرنے والے کے لواحقین قتل کردیتے تھے۔
محمد (ۖ) نے حکم دیا: جب تک تمہیں اپنی پہلی بیوی کی اجازت حاصل نہ ہو اور جب تک اس کی کوئی جائز شکایت نہ ہو اور جب تک دوسری بیوی کے ساتھ ساتھ پہلی بیوی کی کفالت نہ کرسکو اور دونوں میں انصاف کا توازن برقرار نہ رکھ سکو ،تمہیں دوسری شادی کی اجازت نہیں ۔
سچا اور اصلی اسلام ….. جو محمد (ۖ) لے کر آئے ۔اس نے طبقۂ اناث کو وہ حقوق عطا کیے جو اس سے پہلے اس طبقے کو انسانی تاریخ میں نصیب نہیں ہوئے تھے۔اس کے بعد …… اسلام نے انسانیت کو متحد کیا ۔ اسلام صرف عربوں تک محدود نہیں تھا ۔ محمد(ۖ) کا مشن پوری انسانیت کیلئے تھا۔
مسیح کے نام لیواؤں نے انسانیت کو جس قعر مذلت میں دھکیل دیا تھا، محمد (ۖ) نے اس انسانیت کو امن ومسرت اور مساوات کی فضا میں جینے کا برابر حق دیا ۔افریقہ میں اسلام اور محمد(ۖ) کے شیدائیوں نے جمہوری حکومتیں قائم کیں۔ مسلم فتوحات کی روشنی میں کالے خطے میں اسلام کی روشنی پھیلی اور تعلیمات محمدی ۖ نے انسانوں کو جینے اور سر اٹھانے کا حق بخشا۔ عیسائیت جہاں بھی گئی وہاں انسانوں کو غلام بنایا گیا اور طاقت اور جارحیت کے ذریعے ان پر حکمرانی کی گئی۔ محمد(ۖ) کا دین جہاں بھی پہنچا وہاں حقیقی جمہوری حکومتوں کا قیام معرض وجود میں آیا۔ محمد (ۖ) کے دین اور انۖ کی تعلیمات کو کن الفاظ میں سراہا جاسکتا ہے ۔………حقیقی انقلاب جو ذہن بدل دے، دل بدل دے، اس کی تعریف کیسے ممکن ہے؟۔شمالی افریقہ میں مسلمانوں کی فتوحات کے بعد ، جنوبی افریقہ میں اسلام ….. تلوار کے ذریعے نہیں بلکہ مدرسوں، کتابوں، مسجدوں باہمی شادیوں ، رشتہ داروں اور تجارت کے ذریعے پہنچا۔ محمد(ۖ) کی روحانی فتوحات کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
محمد(ۖ) کے ساتھ ہی اس جمہوریت اور مساوات نے جنم لیا جو اس سے پہلے دنیا میں موجود نہیں تھی۔ اب دولت اور حسب نسب کے پیدائشی دعوؤں کی کوئی اہمیت نہ رہی۔ غلام …مسلمان ہوکر آزاد ہوجاتا۔ دشمن ….اسلام قبول کرکے خون کے رشتے دار سے زیادہ عزیز سمجھا جاتا۔ اور کافر …..اسلام قبول کرنے بعد دین کا مبلغ بن جاتا۔ محمد (ۖ) نے ایک حبشی بلال کو موذن بنادیا کیونکہ وہ اسلام لے آئے تھے۔ اور ان کے ہونٹوں سے خوبصورت کلمات سنائی دیے۔” نماز نیند سے بہتر ہے”۔محمد (ۖ) نے خوابیدہ انسان کو بیدار کردیا۔ انسانی بیداری کی یہ صدا آج بھی دنیا کے ہر ملک میں سنی جاتی ہے۔محمد(ۖ) نے دھتکارے ہوئے غلاموں کو آقا بنادیا۔

”ڈبلیو ڈبلیو کیش”
عیسائیوں کو یہ حقیقت قبول کرلینی چاہیے کہ اسلامی اخلاق مسیحی اخلاقیات سے بدرجہا بہتر اور قابلِ عمل ہیں۔ ………..
محمد(ۖ)! یہ آپ ۖ کا دَین ہے کہ اسلامی دنیا میں انسانوں کی راہ میں اوج کمال اور ترقی کے اعلیٰ ترین مناصب تک پہنچنے کیلئے حسب نسب حائل ہوتا ہے نہ رنگ، غربت، امارت، بلکہ اسلام نے تمام نسلوں کو مواقع فراہم کیے ہیں کہ وہ ایمان لائیں اور ایسی جمہوریت اور مساوات کا حصہ بن جائیں جس میں کسی قسم کی اونچ نیچ سرے سے موجود نہیں !۔ آج کے دور میں محمد(ۖ) کی تعلیمات ہی کا یہ اثر ہے کہ ایشیا و افریقہ میں ایسی بیداری کی لہر دکھائی دے رہی ہے جس سے مغرب کا خدا کو نہ ماننے والا لزراں وترساں ہے۔

”ای ڈرمنگھم”
عرب بنیادی طور پر انارکسٹ اور انتہا پسند تھے ۔ محمد(ۖ) نے زبردست معجزہ دکھایا کہ انہیں متحد کردکھایا۔ بلاشک وشبہ دنیا میں کوئی ایسا مذہبی رہنما نہیں گزرا جسے محمد (ۖ) جیسے سچے اور جانثار پیروکار ملے ہوں۔ اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ محمد(ۖ) نے عربوں کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ اس سے پہلے طبقۂ اناث کو کبھی وہ احترام حاصل نہیں ہوا تھا جو محمد(ۖ) کی تعلیمات کے نتیجے میں ملا۔ جسم فروشی، عارضی شادیاںاور آزادانہ محبت ممنوع قرار دئیے گئے۔ لونڈیاں اور کنیزیں جنہیں اس سے پہلے محض اپنے آقاؤں کی دل بستگی کا سامان سمجھا جاتا تھا،وہ حقوق ومراعات سے نوازی گئیں۔ غلامی کا ادارہ بوجوہ اس دور میں باقی رہا لیکن غلام کو آزاد کرنے والے کو سب سے بڑے نیکوکار قرار دیا گیا۔ غلاموں کیساتھ برابری کا سلوک روا رکھا جانے لگااور غلاموں نے دین کی تعلیم سے فیضاب ہوکر اعلیٰ مناصب حاصل کیے۔ ……….

” کتاب کے مندرجات پر تبصرہ”
کتاب میں موجود تمام مغربی دانشوروں کے تبصرے اس قابل ہیں کہ ان کو تمام مسلمانوں تک پہنچایا جائے۔تاہم اس بات کو بھی ذہن نشین ہونا چاہیے کہ جس انسانیت کا مظاہرہ رسول اللہ ۖ اورصحابہ کرام کے بعد مسلمانوں نے کیا ہے،وہ غیر مسلموں کے ہاں بھی قابلِ قبول اور بہترین رویہ قراردیا گیا ہے۔ اور یہ بات پیشِ نظر رہے کہ سلطان عبدالحمید خلافت عثمانیہ کے بادشاہ نے اپنے حرم میںساڑھے چار ہزار کنیزیں رکھی تھیں اور محمد شاہ رنگیلا نے محل کے بالاخانہ تک سیڑھیوں پر ننگی لڑکیوں کا اہتمام کیا تھا جن کے سینوں کو پکڑ پکڑ کر وہ زینے چڑھتا تھا اور انفرادی وااجتماعی زیادتیوں اور قتل وغارتگری سے تاریخ بھری پڑی ہے۔
یہاں اسلام ، مسلمانوں اور نبی کریم ۖ کے دفاع کیلئے نہیں بلکہ پوشیدہ حقائق تک عالم انسانیت کی فکر ونظر اور اسکے دل ودماغ تک کچھ حقائق پہنچارہا ہوں۔ حضرت حسین کی زوجہ محترمہ شیربانو شاہ ایران کی صاحبزادی اور شہزادی کو کس طرح مالِ غنیمت میں تقسیم کرکے پیش کیا گیا؟۔ غلامی ولونڈی کا سسٹم کیوں بوجوہ باقی رکھا گیا؟۔ جب ایران کے ظالم بادشاہ کا تخت الٹ گیا تو اپنے لوگوں میں بھی اسکے خاندان کیلئے کوئی جگہ اور نرم گوشہ نہیں تھا۔ایرانی انقلاب کے بعد اگر ایران کی شہزادی کا ایسی معزز شخصیت سے رشتہ ہوتا تو لوگ اس کو معیوب بھی نہیں سمجھتے تھے۔ اصل بات یہ تھی کہ غلام ولونڈی بنانے کا ادارہ جاگیردارانہ نظام تھا۔ نبی ۖ نے مزارعت کو سود قرار دیکر عالم انسانیت سے غلام ولونڈی بنانے کی فیکٹریاں ختم کرنے کا اقدام فرمایا تھا لیکن مسلمانوں نے حیلہ کرکے جواز نکالا تھا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ قرآن میں ملکت ایمانکم سے کہیں لونڈی و غلام مراد ہیں اور کہیں ایگریمنٹ۔ جو خواتین خرچے کا بوجھ خود اٹھاسکتی ہوں تو ان کیلئے نکاح کی جگہ ایگریمنٹ کی اجازت بھی ہے۔ نکاح میں نان نفقہ ، گھربار سب کچھ شوہر کے ذمے ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ معاشرے میں شدت سے اس کی ضرورت ہو لیکن اس کی جگہ بدکاری نے لے لی ہے۔ لونڈی وغلام کی حیثیت بھی جانور کی طرح ملکیت اور عبدیت کی نہیں رہی بلکہ ایگریمنٹ کے مطابق جب بھی کوئی مطلوبہ رقم ادا کردے تو مالک اس کو اپنے ہاں رکھنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔
تیسری اہم بات جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ ایک طرف دہشت گردی کی فضاء پیدا کرکے مسلمانوں کو انتہاپسند بنایا گیا اور دوسری طرف عالمی سطح پر سودکی منڈیوں میں پھنسی ہوئی دنیا کیلئے ایسے شیخ الاسلام پیدا کئے گئے ہیں کہ اب عالمی صہیونیت کے ظالمانہ معاشی نظام کے صف اول میں مسلمانوں کو بھی کھڑا کیا گیا ہے۔ جو اسلام جاگیردارانہ نظام کو ختم کررہاتھا وہ خاندانوں کو ہی نہیں پورے پورے ملک وخطے کو غلام اور بڑی بڑی قوموں کولونڈیاں بنار ہاہے تو اس سے بڑھ کر اسلام ، مسلمانوں اور خاتم الانبیاء ۖ کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوسکتی ہے۔ ہمیں غرور کی جگہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی ہوگی۔
چوتھی بات یہ ہے کہ فقہ اور مسلکوں کے نام سے قرآن وسنت کا جو حلیہ بگاڑا گیا ہے،جب تک ان کی طرف توجہ نہیں دی جائے مسلمانوں کا حال کسی طرح سے بھی دوسری قوموں کے مقابلے میںاچھا نہیں ہوسکتا اسلئے کہ انہوں نے اپنا مذہب چھوڑ کر جمہوریت کے ذریعے سے اپنے قوانین بنانے شروع کئے ہیں۔
پانچویں بات یہ ہے کہ کتاب میں بعض جگہ حضرت عیسیٰ کی ذات پر رکیک حملہ کئے گئے ہیں جن کا تعلق عیسائیت کی بگڑی ہوئی تحریف سے ہوسکتا ہے۔ ہم رسولوں میں تفریق کے قائل نہیں،البتہ اللہ نے انبیاء ورسل میں بھی بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس فضیلت کا اقرار غیر مسلموں کی زباں سے زیادہ اچھا تھا لیکن ہمیں اپنے اعمال اسلام کی حقیقی تعلیمات کے مطابق ٹھیک کرنے ہونگے اور پھر دنیا میں ہرکوئی نبیۖ کی تعریف کرتا پھرے گا اور اللہ نے قرآن میں جو مقام محمود کا ذکر کیا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ نبیۖ کی تعریف کی جائے۔
جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے علاوہ اسلام کا معاشرتی نظام اہمیت کا حامل ہے اور اس کی طرف بالکل بھی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ پاکستان، افغانستان کے طالبان اور ایران کے علاوہ سعودی عرب، مصر، عرب امارات، قطر، سوڈان، عراق،ملائشیا، انڈونیشیا، افریقہ ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی، کینیڈا، امریکہ اور آسٹریلیا،روس سمیت دنیا بھر میں اسلامی احکام کو پہنچانے میں ابھی دقت نہیں ۔

دعا زہرہ کیس کو اگر اسلامی تعلیم کے مطابق حل کیا گیا تو نہ صرف مسلمانوں بلکہ دنیا بھرکی خواتین کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

دعا زہرہ کیس کو اگر اسلامی تعلیم کے مطابق حل کیا گیا تو نہ صرف مسلمانوں بلکہ دنیا بھرکی خواتین کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ولاتکرھوھن علی البغاء ان اردن تحصنًا ” اور ان کوبدکاری (خفیہ تعلق رکھنے پر)یا بغاوت ( کھل کربھاگ کر نکاح )پر مجبور مت کرو،اگر وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں”۔

حدیث میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کو باطل قرار دیا گیاہے۔ قرآن کی آیت میں مسلکی اختلافات اور بہت پیچیدہ صورتحال کا بہترین حل ہے لیکن قرآن کی طرف توجہ نہیں

ہمارے معاشرے میں ایک طرف والدین بچیوں اور بچوں کی شادی ان کی مرضی کے بغیر کردیتے تھے اور دوسری طرف بچے اور بچیاں بھی اپنے والدین کی مرضی کے بغیر رشتہ ازدواج میںخود کو جوڑ لیتے ہیں۔ اسکے نقصانات کیاہیں؟۔
مغرب اور ترقی یافتہ دنیا نے نکاح کے حقوق کو قانونی تحفظ دیا ۔طلاق وخلع میں مشترکہ جائیدادبرابر برابر تقسیم ہوتی ہے۔ جائیدا د کی تقسیم کے خوف سے گرل و بوائے فرینڈز کا کلچر بن گیاہے۔اور یہ بھی ہے کہ جب تک شناختی کارڈ نہیں بنتا تو قانونی نکاح نہیں ہوسکتا ہے اسلئے کہ کم عمری میں طلاق کے قوانین جائیداد کی تقسیم کا معاملہ سخت ہے لیکن اس عمرتک پہنچنے سے پہلے جنسی آزادی دی گئی ہے۔
ہمارے ہاں مشرقی مسائل ہیں لیکن قرآن سورۂ نور میں اللہ نے واضح کردیا کہ اسلام پر مشرق ومغرب کا ماحول اثر نہیں ہے۔ اس کی مثال طاق میں رکھے چراغ سے دی جو شیشہ میں بند ہو۔ مشرقی اور مغربی ہواؤں سے محفوظ ہو۔
عیسائیوں میں طلاق کا تصور نہیں تھا،پھر اجتہاد سے طلاق کی اجازت دی۔ ہندو بیو ہ عورت ستی کردی جاتی تھی۔ انگریز نے بیوہ کو زندہ جلانے پر قانوناًپابندی لگاکریہ رسم ختم کی۔ اسلام نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے بیوہ کو نہ صرف کھل کر حق دئیے بلکہ انسانی معاشرے کو ترغیب دی کہ بیوہ وطلاق شدہ خواتین اورنیک غلاموں اور لونڈیوں کا نکاح کراؤ۔ عربی میں الایم(بیوہ وطلاق شدہ) کے مقابلے میں بکر (کنواری )آتا ہے۔ بخاری کی حدیث میں بھی اس کی وضاحت ہے کہ شوہر دیدہ طلاق شدہ وبیوہ سے زبانی وضاحت پوچھ کر اس کا نکاح کیا جائے اسلئے کہ وہ شرماتی نہیں اور کنواری کی اجازت خاموشی کافی ہے۔ کنواری کو عربی میں فتاة اور شوہر والی کو محصنة کہتے ہیں۔ قرآن اور عربی کی عام زبان میں فتاة لونڈی اور محصنة پاکدامن کو بھی کہتے ہیں۔نوکرانی کی ضرورت ہو تو ”لڑکی چاہیے” سے مراد نوکرانی ہے اور ” ہماری لڑکیاں ” سے مراد بیٹیاں ہیں۔ نکاح کیلئے لڑکی چاہیے تو اس سے مراد کسی اور کی لڑکی ہے اور جہاں لونڈیوں کا ماحول ہو تو وہاں لڑکیوں سے لونڈیاں بھی ماحول کے مطابق ہیں۔
ساڑھے چودہ سو سال پہلے بیوہ وطلاق یافتہ ، لونڈی ، غلام اور اپنی کنواری لڑکیوں کا جس طرح قرآن وسنت نے معاملہ حل کیا اگر اس پر عمل ہوتا تو پھر ہمارے معاشرے کو یہ دن دیکھنے کو نہیں ملتے کہ خود بھی پریشان ہیں اور دوسروں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔ ہم تماشہ بن گئے اور دنیا ہمارا تماشہ دیکھ کر عبرت پکڑ رہی ہے۔ پہلے یورپ میںہمارا جیساہی ماحول تھا لیکن آج ان کی پوزیشن بالکل مختلف ہے اور ہم آج ان کیلئے قابلِ رشک بھی نہیں ہیں لیکن وہ بھی اپنے ماحول سے مطمئن نہیں ہوسکتے ہیں۔ قرآن وسنت نے ہمیں جو بالکل فطری اسلام دیا تھا وہ تمام مسائل کا دنیا بھر کیلئے زبردست، بہترین اور واحد حل ہے۔
ایک طرف نبیۖ نے فرمایا کہ ” زبردستی سے عورت کا نکاح کرانا بالکل جائز نہیں ”۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے لڑکیوں کانکاح زبردستی سے کردیا تو اس نکاح اور اسکے اولاد کی حیثیت کیا ہے۔ جائز یا ناجائز؟۔ اس کا جواب قرآن نے بہت عمدہ انداز میں دیاہے کہ عورت پر اس کی ذمہ داری نہیں ہوگی اور اس کی مجبوری کی وجہ سے یہ نکاح جائز اور اس کی اولاد درست ہے لیکن اس پر جبر والے معاشرے کی پکڑ ہوگی۔ اس کی زندگی اجیرن بنانے کے اثرات سے وہ دنیا وآخرت میں خلاصی نہ پاسکیں گے۔ ہمارے معاشرے کا بھیانک پہلو یہ ہے کہ آج تک یہ مجرمانہ فعل موجود ہے اور اس کا ذمہ دار طبقہ صرف دنیاداراشرافیہ اور جاہل طبقہ نہیں بلکہ مولوی بھی ا سکا حصہ ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی کی بیٹی کا واقعہ دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل عالم نے بتایا تھا۔ مسئلہ بتانا نہیں ہوتا بلکہ اس پر عمل کرنا ہوتاہے، معاشرے میں بیماری عام ہو تو خواص حصہ ہوتے ہیں۔ مولانا یوسف بنوری کی صاحبزادی ڈاکٹر حبیب اللہ مختار پرنسپل جامعہ بنوری ٹاؤن کی بیوہ کا کسی رانگ نمبر پر رابطہ ہوا، پھر معاملہ ضد کرکے شادی تک پہنچ گیا۔ اقارب نے سمجھایا کہ نوسر باز ہوسکتا ہے اور مدرسہ والوں نے سب کچھ سے تحریری طور پر اس کو دستبردار کروانے کے بعد اجازت دی تو اس کو زیادتی کرکے قتل کیا گیا تھا۔
نبیۖ نے فرمایا کہ ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے، باطل ہے ، باطل ہے”۔ اس حدیث کو حنفی مسلک والے قرآنی آیت سے متصادم قرار دیکر رد کرتے ہیں لیکن اس پر عمل کرتے ہیں اور اس کے خلاف عمل کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔جب علماء نے قرآن وسنت کو مسلک سے منسلک یا رد کرنے کو اپنا پیشہ بنالیا تو قرآن وسنت دل ودماغ سے نکل گئے اور ایک اچھے ماحول کی تشکیل کیلئے قرآن وسنت کورہنمائی کا ذریعہ نہیں بناسکے۔ میرے آباء واجدادمیں سید عبدالقادر جیلانی اور اوپر تک میں علماء ومشائخ آئے ہیں۔ ہمارا ماحول بھی عوام سے مختلف نہیں ہے۔ جب قرآن وسنت کے علوم کو پورے معاشرے میں رائج نہیں کیا جائے تو ایک گھر اور گھرانے میں اس کو رائج کرنے کا رواج ایک بہت مشکل کام ہے۔
اصل بات موضوع سے متعلق یہ ہے کہ ” جب ایک عورت یا کنواری لڑکی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی ہے تو اسکا قرآن وسنت میں کیا حکم ہے؟ اور دعا زہرہ کے نکاح پر کیا شرعی رہنمائی ہوسکتی ہے؟”۔ جب یہ بات مسلمہ ہے کہ لڑکی یا عورت پر زبردستی سے اپنی مرضی مسلط کرنے کا حق ولی کو نہیں ہے توپھر سب سے پہلے اس بات کو ثابت کرنا ہوگا کہ لڑکی پر زبردستی مسلط نہیں کی گئی ہے اور کھلی عدالت میں ججوں کے سامنے معروضی حقائق کی روشنی میںحق بات تک پہنچنا کوئی مشکل کام نہیں۔ اگرلڑکی کا دعویٰ ہو کہ زبردستی مسلط کی گئی تھی تو آزاد ماحول میں حقائق تک پہنچنا مشکل نہیں ہے۔ لڑکی کیلئے دور استے ہیں۔ ایک یہ کہ ولی اجازت نہیں دیتا ہو تو وہ نکاح کے بغیر خفیہ تعلق رکھے اور بدکاری کرے اور دوسرا یہ کہ وہ کھل کر بغاوت کردے اور نکاح کرلے۔ دعا زہرہ نے بغاوت کا راستہ اختیار کیا ہے ، اس پر حرامکاری کا فتویٰ نہ لگاؤ۔اسکا اچھا اثر ہمارے ملکی قوانین پر بھی پڑیگا۔ متأثرہ لڑکی اور اس کے تمام متعلقین پر بھی پڑے گا۔ بغاوت جائز اور ناجائز ہوسکتی ہے لیکن حرامکاری جائز اور ناجائز نہیں ہوسکتی ہے۔
جہاں تک شیعہ مسلک کا تعلق ہے اور قانون کا معاملہ ہے تو قانون میں کھل کر والد صاحب کی طرف سے دعا زہرہ کو اجازت مل سکتی ہے کہ وہ جہاں چاہے رہ سکتی ہے۔ والد کی اجازت نہ ہو تو قانونی عمر تک پہنچنے کا دارلامان میں انتظار کرنا پڑیگا۔شیعہ کے ہاں متعہ کی بھی اجازت ہے ۔ جب والدراضی ہوگا تو والد مذہبی اور قانونی طور پر دعا زہرہ کو ظہیر کیساتھ جانے کی اجازت دے سکتا ہے۔
سورہ نور کی آیت:32میں بیوہ وطلاق شدہ خواتین ، لونڈیوں اور غلاموں کا حکم بیان ہوا ہے اور پھر آیت33کے آخر میں جوان کنواری لڑکیوں کا بیان ہے ولا تکرھوا فتےٰتکم علی البغآء ان اردن تحصنًا لتبتغواعرض الحےٰوةالدنیاومن یکرھھُّن فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیمO”اور اپنی لڑکیوں کو بدکاری یابغاوت پر مجبور مت کرو۔ اگر وہ خود نکاح کرنا چاہتی ہوں اسلئے کہ تم دنیا کی زندگی چاہو۔ اور ا گر کسی کو ان لڑکیوں میں سے مجبور کیا گیا تو اللہ ان کی مجبوری کے بعد غفور رحیم ہے۔ (سورہ نور آیت33)
آج اگر دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی نے اپنا ، سندھ حکومت اور شیعہ کی کمیونٹی کاپورازور استعمال کرتے ہوئے دعا زہرہ کی مرضی کے بغیر نکاح کردیا تویہ غلط اور قرآن کی خلاف ورزی ہوگی لیکن دعا زہرہ کیلئے اس میں گناہ نہیں ہوگا کیونکہ وہ مجبور کی گئی ہوگی۔ اگر دعا زہرہ شادی کرنا چاہتی تھی اور اس کو اجازت نہ ملتی تو پھر چھپ کر تعلق کرنا بدکاری تھا اور اس کا ذمہ دار ولی بھی ہوتا۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ دعا زہرہ نے کھل کر بغاوت سے نکاح کیا تو اس پر بدکاری کا نہیں بلکہ بغاوت کا اطلاق ہوتا ہے۔ البغاء لفظ کی تفسیر میں دونوں معانی اپنی اپنی جگہ پر مراد ہوسکتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مفسرین اور مترجمین نے اس آیت میں بہت بڑی معنوی تحریف کا ارتکاب کیا ہے۔ لکھا ہے کہ ” اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی لونڈیوں کو زبردستی سے بدکاری پر مجبور نہ کرو”۔ جبکہ اس سے ایک آیت پہلے اللہ نے فرمایا کہ لونڈیوں کا نکاح کراؤ۔ اور اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ آزاد مشرک مرد اور عورت سے نکاح کیلئے مؤمن غلام اور لونڈی بہتر ہے۔ مہدی علی کاظمی کے دکھ ، درد اور مشکلات کو ہر انسان سمجھ سکتا ہے اور دعا زہرہ پوری قوم کی بیٹی ہے،اس کی عزت پوری انسانیت کی عزت ہے۔ بیٹی اور بہو دعا زہرہ پر شیعہ سنی علماء حرامکاری کے نہیں بغاوت کے فتوے لگائیں۔ جج کا کام قانون کا پاس کرنا ہوتا ہے اور شریعت کی رہنمائی کرنا علماء کرام کا کام ہے۔
اگر معاشرے میں اسلام رائج ہوتا۔ بیٹیوں کو نکاح کیلئے بغاوت یا چھپ کر معاملہ نہ کرنا پڑتا تو ہم قابل رشک ہوتے۔ ایک طرف حدیث میں ایسے نکاح کو باطل قرار دیا گیا جو ولی کی اجازت کے بغیر ہو اور دوسری طرف قرآن نے اس کو بغاوت قرار دیا ۔ بغاوت و باطل کے الفاظ میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ ایسے میں لڑکی اپنے خاندان کی بہت بڑی سپورٹ سے محروم ہوجاتی ہے۔ خاندانوں میں مشترکہ بچوں کی مٹھاس کا مزہ کر کرا ہوجاتا ہے۔ پوتے اور نواسے اپنے دادا،دادی، نانا،نانی، چچا،پھوپھی، ماموں، خالہ اور اپنے مشترکہ رشتہ داروں سے محروم ہوں تو اس سے بڑھ کر باطل اور بغاوت کیا ہوسکتی ہے؟۔ قرآن وسنت نے صرف بغاوت سے نہیں روکا بلکہ اسکے اسباب کو ختم کیا ہے۔ جب لڑکی اورعورت پرمرضی مسلط نہیں کی جائے گی تو بغاوت اور باطل نکاح کی نوبت نہیں آئے گی۔ فقہ کی کتابوں میں ہے کہ ” اگر لڑکی اپنے خاندان سے نیچے کے طبقے میں شادی کرے تو اس کا نکاح ولی کی اجازت پر موقوف ہوگا۔ اگر ولی مان گیا تو نکاح درست اور نہیں مانا تو نکاح نہیں ہوگا”۔ عدالت اس اونچ نیچ کو تسلیم نہیں کرتی۔ جن فقہاء نے ہمیشہ طاقتوروں کا ساتھ دیکر کمزوروں کے ہاتھ مزید باندھ دئیے ہیں ان کی اجتہادی صلاحیت بھی کسی کام کی نہیں ہوتی ہے۔ ان کے چیلے چپاٹے اور عقیدت مند ومرید بھی چمگادڑوں کی طرح اندھیر نگری میں رہنے کو پسند کرتے ہیں اور سورج کی روشنی کی طرح قرآن کے نور سے بھی ان کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ مفتی محمد تقی عثمانی کے مدرسے میں اس کا بہنوئی مفتی عبدالروف سکھروی خلیفہ مفتی محمد شفیع مریدوں کو تعلیم دیتا ہے کہ کیمرے کی تصاویر پر احادیث کی یہ یہ وعیدیں ہیں جبکہ مفتی محمد تقی عثمانی نے تصاویر کیلئے اپنے دانت نکلوادئیے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی عالمی سودی بینکاری کو جواز فراہم کررہا تھاتو مفتی عبدالروف سکھروی شادی بیاہ میں لفافے کے لین کو سود قرار دیکر اسکے کم ازکم گناہ کو اپنی سگی ماں سے زنا کرنے کے برابر قرار دیتا تھا جس کی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ اسلامی معاشرے کو ان کے ٹھیکے پر نہیں دیا جاسکتا ہے ورنہ مجھے قبر اور آخرت میں اپنے نانا جان رسول اللہ ۖ کا سامنا کرنے میں مشکل ہوگی جبکہ قرآن نے واضح کیا کہ آپ ۖ ہم پر اور ہم لوگوں پر گواہی دیں گے۔
جب راضی خوشی لڑکی کی شادی کرادی جاتی ہے تو بھی اسکا مستقبل غیرمحفوظ ہوتا ہے۔ اسلام نے نکاح کے بعد طلاق یا خلع کی صورت میں صنف نازک عورت کے مالی حقوق محفوظ بنائے مگر ملاؤں نے عورتوں کے تمام حقوق غصب کردئیے ہیں۔ شہید اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی کتاب ” عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں” بہت بہترین کتاب ہے جو مارکیٹ سے غائب کردی گئی ہے جس میں لکھا ہے کہ ” جب علماء اٹھ جائیں گے تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے جو خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے”۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتاب ” تقلید کی شرعی حیثیت ” میں لکھ دیا ہے کہ ” اس حدیث کا اطلاق ائمہ مجتہدین کے بعد ہوتا ہے”۔ اسلئے تقلید کرنا ضروری ہے۔ امام ابوحنیفہ نے علم الکلام کی گمراہی سے توبہ کی تھی پھر کیوں اصول فقہ میں قرآن کے مصاحف کو اللہ کا کلام ماننے سے انکار پڑھایا جاتا ہے؟۔مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی کتابوں ”فقہی مقالات جلد چہارم” اور” تکملہ فتح الملھم” سے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جوازکا مسئلہ نکال دیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قاضی ابویوسف، صاحب الھدایہ، فتاویٰ قاضی خان، فتاویٰ شامیہ نے لکھا کیوں ہے؟ عمران خان کے نکاح خواں مفتی سعیدخان نے2008میں کتاب ”ریزہ الماس” شائع کی ہے تو اس میں بھی سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” ضرورت کے وقت سؤر کھانا بقدر ضرورت حلال ہے جو جسم کا حصہ بنتاہے تو سورہ فاتحہ پیشاب سے لکھنا جسم کا حصہ بھی نہیں بنتا”۔
امام ابوحنیفہ کی تقلید کرنے والوں کو ساری بکواسات سے توبہ کرنا چاہیے یہ بعد کی خرافات ہیں اور اب سودی بینکاری کے جواز تک بات پہنچادی گئی ہے۔
معاشرے میں زبردستی کی شادی کا رواج ختم ہوگا تو کوئی لڑکی گھر سے بھی نہیں بھاگے گی اور جب قرآن وسنت کے مطابق نکاح کے بعد عورت کو حقوق مل جائیںگے تو بیٹیوں کا رشتے دینے میںکسی قسم کے تحفظات نہیں ہوںگے اور عورت جب چاہے گی نہ صرف خلع لے سکتی ہے جس کی عدت صحیح حدیث کے مطابق ایک حیض یا ایک مہینہ ہے اور شوہر کی طرف سے دی ہوئی ہر لے جانے والی چیز بھی اس کی ہوگی البتہ غیرمنقولہ جائیداد گھر، فلیٹ، پلاٹ، باغ اور زمین وغیرہ سے دستبردار ہونا پڑے گا اور طلاق کی صورت میں شوہر کے اس گھر سمیت جس میں اس کو رہائش دی تھی تمام دی ہوئی جائیداد میں سے کچھ واپس نہ ہوگا۔

حلالہ کی لعنت اسلام کے غلبے میں رکاوٹ اور اس کے خاتمے کے دلائل

حلالہ کی لعنت اسلام کے غلبے میں رکاوٹ اور اس کے خاتمے کے دلائل

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

”حلالے کے خاتمے کیلئے پہلا مقدمہ”

”حلالہ کی غلط بنیاد قرآنی آیت اور بخاری کی حدیث سے”
فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ ” پھر اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔ آیت230البقرہ
قرآن کی اس آیت میں واضح طور پر اس طلاق کے بعد جب تک دوسرے شوہر سے وہ عورت نکاح نہ کرلے تو پہلے کیلئے وہ حلال نہیں ہے۔ پھر جب وہ اس کو طلاق دے دے تو پھر پہلے شوہر سے وہ دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔
بخاری کی حدیث ہے کہ رفاعة القرظی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں ۔ پھر اس نے دوسرے شوہر سے نکاح کرلیا۔ پھر نبی ۖ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ میرے شوہر کے پاس ایسا ہے اوراپنے دوپٹے کے پلو سے اشارہ کیا۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” کیا آپ اپنے شوہر رفاعةکے پاس واپس جانا چاہتی ہو؟۔ آپ نہیں جاسکتی ہو ،یہاں تک کہ یہ دوسرا شوہر تمہارا مزہ نہ چکھ لے اور اس کا مزہ نہ چکھ لو”۔ بخاری کی اس حدیث کو علماء کرام اور مفتیان عظام حلالے کیلئے پیش کرتے ہیں۔
کوئی بھی عام انسان قرآن وحدیث کے ان واضح احکام سے یہ سمجھنے میں مغالطہ کھالیتا ہے کہ قرآن کی آیت بھی بہت واضح ہے اور حدیث میں بھی کوئی ابہام نہیں ہے تو پھر حلالے کا تصور کیوں نہ مان لیا جائے؟ ۔ پہلے میرا بھی یہی خیال تھا۔پھر فقہ کی کتابیں اور احادیث کی کتابوں کو کھنگالنے کی بھرپور کوشش کی لیکن مسئلے کا کوئی حل نکلنے کے بجائے معاملہ جوں کا توں تھا اور فقہ کی کتابوں سے بہت بدظن ہوااور احادیث کی کتب سے خود کو بالکل بے بس پایا اور اپنے ہتھیار ڈال دئیے۔
پھر سوچا کہ قرآن کی طرف توجہ کرکے فکر وتدبر سے کام لیا جائے اسلئے کہ اللہ نے قرآن میں تدبر کرنے کا گلہ کیا ہے؟۔ جب قرآن پڑھنا شروع کیا تو البقرہ228نے ذہن کھلنے میں پہلے مدد نہیں ملی اسلئے کہ تقلیدی ذہنیت نے تالے لگادئیے تھے۔ حالانکہ اس میں لکھا ہے کہ ” طلاق والیاں عدت کے تین ادوار تک اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں ……..اور ان کے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کا حق رکھتے ہیں بشرط یہ کہ وہ اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں”۔ آیت228البقرہ۔ حنفی اصول فقہ کی تعلیمات میں آیت کے یہ جملے محکمات میں سے ہیں۔ اسکے مقابلے میں کوئی صحیح حدیث آئے تو بھی قابلِ عمل نہیں ہے۔لیکن ہماری بدقسمتی یہ تھی کہ اصول فقہ میں یہ پڑھایا گیا کہ ”پانچ سو آیات احکام سے متعلق ہیں” مگر یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ کون کونسی آیات محکمات میں سے ہیں۔ ایک چھوٹی سی فہرست بتادی جاتی تو طلبہ کیلئے قرآن کے محکمات کی فہرست کا پتہ چل جاتا ۔
مسئلے کے دو پہلو بن گئے۔ ایک پہلو یہ تھا کہ طلاق ہوئی کہ نہیں؟۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ رجوع ہوسکتا ہے کہ نہیں؟۔ جب دوسرے پہلو پر دھیان نہیں گیا تو آیت228البقرہ کے واضح حکم کی طرف توجہ نہیں گئی۔ اگر اس طرف توجہ جاتی تو پھر اس کا فتویٰ دینے میں دھڑلے سے بیباک ہوکر فتویٰ دیتا کہ عدت میں باہمی اصلاح کی بنیاد پر حلالہ کے بغیر رجوع ہوسکتا ہے اور اس میں طلاق کے عدد کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اب اگر کوئی حدیث بھی اس راستے میں حائل ہو تو قرآن کی محکم آیت کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ پہلے تأویل کریںگے ،اگر تأویل نہ ہوسکے تو حدیث کو چھوڑ کر قرآن پر عمل کریں گے اور یہی مسلک حنفی کی بنیادی تعلیم ہے اور اس سے دوسرے فقہ والے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتے ہیں۔
جب پہلے پہلو پر دھیان تھا کہ طلاق ہوئی یا نہیں؟۔ تو آیت229میں اس بات پر نظر گئی کہ ” الطلاق مرتٰن: طلاق دو مرتبہ ہے”۔ جس سے میری آنکھوں میں چمک،دل میں روشنی اور دماغ میں خوشبو پھیل گئی کہ جب اللہ نے فرمایا ہے کہ طلاق دومرتبہ میں ہے تو پھر ہم ایک مرتبہ میں تین طلاق کا حکم کیسے جاری کرسکتے ہیں؟۔ جب دو طلاقیں ایک ساتھ واقع نہیں ہوسکتی ہیں تو تین طلاق ایک ساتھ کیسے واقع ہوں گی؟۔ پھر دوبارہ غور کیا تو پھر احساس ہوگیا کہ جب اللہ نے عدت کے تین مراحل رکھے ہیں اور ان تینوں مراحل میں باہمی اصلاح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے تو احادیث صحیحہ کو بھی دیکھ لیا۔ پھر پتہ چلا کہ رفاعة القرظی نے الگ الگ مراحل میں تین طلاقیں دی تھیں اور عدت کے بعد دوسرے سے نکاح کرلیا تویہ واقعہ پیش آیا۔ پھر تو شرح صدر ہوا کہ قرآن وحدیث میں تضاد نہیں ۔ مولوی ظلم کرتے ہیں کہ اکٹھی تین طلاق پر رجوع نہ کرنے کا حکم جاری کرکے حلالے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ قرآن میں رجوع کی گنجائش اصلاح و معروف کی شرط پر ہے۔ ماہنامہ ضرب حق میں شائع کیا ، یکم مئی2007اخبار بند کردیا گیا اور31مئی میرے گھر پر حملہ کرکے کئی افراد شہید کردئیے۔
ضرب حق اخبار کی بندش اور جان کو خطرات کے پیش نظر کئی سالوں تک بیرون ملک اور اندرون ملک روپوشی کی زندگی گزارنی پڑی اور پھر دوبارہ ضرب حق کے نام سے اخبار نکالنے کی اجازت نہیں ملی اور نوشة ٔ دیوار کے نام سے مل گئی۔ سالوں کی تحقیقات کے نتیجے میں چند کتابیں لکھیں جو بغیر حلالہ کے تین طلاق سے رجوع کے دلائل پر تھیں۔ جن کے نام یہ یہ ہیں۔1۔ابر رحمت۔ بہت مدلل کتاب ہے۔ شائع کرنے سے پہلے دارالعلوم کراچی ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر مدارس میں بھیجی۔ مفتی محمدحسام اللہ شریفی مدظلہ العالی نے تائید میں لکھا کہ” طلاق کے مسئلے میںاتنی عمدہ تحقیقات پر سید عتیق الرحمن گیلانی کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری عطا کی جائے”۔ شریفی صاحب اخبار جہاں جنگ کراچی میں آپ کے مسائل اور ان کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں کئی عشروں سے لکھ رہے ہیں۔ اخبار جہاں میں بھی میری کتاب ” ابررحمت” کی طرف طلاق کے مسئلے پر رجوع کیلئے تبصرہ لکھا۔ اب دنیا بھر سے تشفی کیلئے تین طلاق پر مسئلے آتے ہیں تو شریفی صاحب کی تائید کے ساتھ بغیر حلالہ کے رجوع کیلئے جواب دیا جاتا ہے۔ شریفی صاحب شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے شاگرد مولانا رسول خان ہزاروی کے دیوبند میں شاگرد تھے ۔جبکہ مولانا رسول خان قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند،مولاناسید محمد یوسف بنوری، مفتی محمود، مفتی محمد شفیع، مولانا سیدمحمد میاں، مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک، مفتی محمود قائد جمعیت علماء اسلام کے بھی استاذ تھے۔
نمبر2۔”تین طلاق کی درست تعبیر”۔ نمبر3۔” تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل ”۔4۔” عورت کے حقوق”۔

”قرآن کی آیت230البقرہ کا بالکل سادہ علمی جواب ”
آیت فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیر ”پھر اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرلے”۔ (البقرہ 230) اس طلاق کا تعلق مسلک حنفی کے مطابق آیت229البقرہ کے آخری حصے سے ہے۔ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیماافتدت بہ ” پس اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں عورت کی طرف سے اس چیز کو فدیہ کرنے میں”۔ ف تعقیب بلا مہلت کیلئے آتا ہے۔ اسلئے اس طلاق کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہے اور یہ مسئلہ اصولِ فقہ کی کتاب ”نور الانوار :ملاجیون” چوتھے درجے میں درسِ نظامی کا حصہ ہے۔ اس وضاحت کے بعدمسئلہ روزِ روشن کی طرح واضح ہونا چاہیے تھا کہ حنفی مسلک والے حلالے کا حکم صرف اس صورت میں دیتے کہ جب اس طلاق کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہوتا۔ برصغیر پاک وہند کے معروف عالم دین اور شاعر علامہ تمناعمادی نے اس بنیاد پر کتاب بھی لکھی ہے جس کا نام ”الطلاق مرتان” ہے۔ جس میں صرف خلع کی صورت تک حلالے کا حکم محدود ہے۔ خلع میں غلطی عورت کی ہوتی ہے اسلئے اس کی سزا بھی وہ بھگت لے۔ علامہ تمنا عمادی نے یہ تصور پیش کیا کہ قرآن نے تین طلاق کا تصور ختم کیا ہے اسلئے دو مرتبہ سے زیادہ طلاق نہیں ہوسکتی اور احادیث کو عجم کی سازش قرار دیا۔ اور یہ واضح کیا کہ اگر مرد کی طرف سے طلاق ہو تو حلالے کا کوئی تصور نہیں لیکن عورت کی طرف سے خلع ہو تو پھر حلالے کا حکم ہے۔ انکے افکار پربھی کسی کو تبصرے کی جرات نہیں ہوئی۔ لیکن قرآن واحادیث صحیحہ میں کوئی ٹکراؤ بھی نہیں ہے اور انشاء اللہ سب کیلئے قابلِ قبول دلائل بھی پیش کریں گے۔
امام شافعی کے مسلک سے تعلق رکھنے والے فرماتے ہیں کہ ” آیت:230کی طلاق کا تعلق آیت229کے پہلے حصہ سے ہے۔ الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان ” طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر اس کو معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے”۔ (نورالانور: ملاجیون) ۔ اس صورت میں جب تک دو الگ الگ مرتبہ کی طلاق کے بعد تیسری طلاق نہ دی جائے تو اس پر حلالے کا اطلاق نہیں ہوگا۔ علامہ جاراللہ زمحشری اور دیگر معروف مفسرین کا بھی کہنا ہے کہ قرآن کی تفسیر کا یہی تقاضا ہے۔ اگر اپنے مسلک کے پیروکاروں کو حلالہ سے بچانے کا پروگرام ہوتا تو پھر ایک طرف حنفی علماء اس طلاق کو فدیہ یا خلع تک محدود کرتے اور دوسری طرف شافعی علماء اس کو الگ الگ تک محدود رکھتے۔
علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے حضرت ابن عباس کے قول کو نقل کیا ہے کہ ” حلالے کا حکم سیاق وسباق سے ہٹ کر نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ اسلئے جب اس طلاق سے پہلے دو الگ الگ مرتبہ طلاق ہو اور پھر اس سے پہلے فدیہ کی صورت بھی ہو تب اس پر حلالے کا حکم لگے گا”۔(زادالمعاد:جلد چہارم ۔ فصل فدیہ کے حوالے سے۔ علامہ ابن قیم )
اختلاف کا پہلا حل قرآن کی تفسیر قرآن ہے اور دوسرا حل قرآن کی تفسیر حدیث ہے۔ جب ہم اس آیت:230کے سیاق وسباق کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آیات228اور229میں عدت کے اندر صلح واصلاح اور معروف کی شرط پراللہ تعالیٰ نے بہت کھل کر رجوع کی اجازت دی ہے اور آیات231اور232میں عدت کی تکمیل کے فوراًبعد اورکافی عرصہ بعد بھی باہمی اصلاح ورضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دی ہے۔ سورۂ بقرہ کی ان آیات کا بہت ہی مختصر خلاصہ سورہ ٔ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی موجود ہے ۔ جس میں عدت کے اندر، عدت کی تکمیل کے فوراً بعد اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بہت واضح الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے رجوع کا راستہ کھلا رکھا ہواہے۔ جہاں تک آیت230میں طلاق کا تعلق ہے تو یہ بالکل ایک خاص صورتحال تک محدود ہے جو تیسری طلاق ہر گز ہرگز بھی نہیں ہے۔
قرآن میں تیسری طلاق کا تعلق صرف اور صرف طہروحیض کی صورت میں پہلے دو مراحل میں دو مرتبہ طلاق کے بعد پھر تیسرے مرحلے میں تیسری طلاق سے ہے۔ صحابہنے رسول اللہ ۖ سے پوچھ لیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ رسول اللہ ۖ نے یہ جواب نہیں دیا کہ میری امت کے جاہلوں کو بھی پتہ ہوگا کہ سورۂ بقرہ کی آیت230کا تعلق تیسری طلاق سے ہو اور آپ لوگ عربی معاشرے کا حصہ ہوکر قرآن کی اتنی بڑی بات نہیں سمجھتے ہو؟۔بلکہ رسول اللہ ۖ نے اس کا یہ جواب عنایت فرمایا کہ ” آیت229البقرہ میں الطلاق مرتٰن کے بعدفامساک بمعروف او تسریح باحسان کے ساتھ ہے۔ احسان کیساتھ رخصت کرنا ہی تیسری طلاق ہے”۔ جب نبی کریم ۖ نے یہی واضح فرمایا کہ تیسری طلاق کا تعلق حلالہ کیساتھ جوڑنا انتہائی غلط اور فاش غلطی ہے تو پھر اس کے بعد اور کیا بات رہ جاتی ہے؟۔حنفی مسلک اور عربی زبان کے قاعدے کے مطابق بھی ف تعقیب بلامہلت کی وجہ سے تسریح باحسان ہی تیسری طلاق بنتی ہے۔
جب حضرت عبداللہ بن عمر نے صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق ایک ساتھ تین طلاقیں دیں اور بخاری کی روایت کے مطابق حیض کی حالت میں طلاق دی تو بخاری کتاب التفسیر سورۂ طلاق کے مطابق نبیۖ کو حضرت عمر نے اطلاع دی تو رسول اللہ ۖ بہت غضبناک ہوگئے اور پھر عبداللہ بن عمر سے فرمایا کہ رجوع کرلو۔ پھر طہر کی حالت تک اپنے پاس رکھ لو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر طہر یعنی پاکی کے ایام میں آجائیں اور پھر حیض آجائے۔ اس کے بعد پھر پاکی کے دنوں میں چاہو تو رجوع کرلو اور اگر طلاق دینا چاہو تو ہاتھ لگائے بغیر طلاق دے دو۔یہ وہ عدت ہے جس میں اس طرح طلاق کا اللہ نے امر کیا ہے۔ یہ روایت الفاظ کے اختلاف کیساتھ بخاری کتاب الاحکام، کتاب ا لطلاق اور کتاب العدت میں بھی ہے۔
رسول اللہ ۖ کے غضبناک ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن میں عدت کے اندرمرحلہ وارتین طلاقوں کا مسئلہ بہت زیادہ عام فہم تھا۔ اس کو نہ سمجھنے پر حضرت ابن عمر کے فعل پر نبیۖ غضبناک ہوگئے۔ جب یہ تعین ہوگیا کہ عدت کے تین مراحل ہیں تو اس بات کا تعین کرنے میں بھی دقت نہیں ہونی چاہیے تھی کہ تین مرتبہ طلاق کاتعلق بھی عدت کے تین مراحل سے ہے۔جب نبی کریم ۖ نے اچھی طرح سے سمجھادیا تو پھر اس کے بعد ابہام پیدا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

” آیت230البقرہ پر چبھتا ہواسوال اور مفصل جواب ”
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ”پھر آیت230میں کونسی طلاق ہے جس کے بعد بیوی کے حلالہ نہ ہونے کا واضح حکم ہے۔ اس سے بھی بڑا اہم سوال یہ ہے کہ اس آیت میں کیا حکمت تھی؟۔ جس کی وجہ سے اتنے لوگوں کی زندگیاں تباہ ہوگئیں؟”۔
اس کا پہلاجواب یہ ہے کہ حلالہ کروانے سے کم وقت میں قرآن کی طرف رجوع کرکے اپنی عزتیں بچائی جاسکتی تھیں۔ جب امت مسلمہ نے قرآن کو چھوڑ دیا تو اس کی ذمہ داری قرآن پر نہیں امت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ قرآن میں ذکر ہے کہ وقال الرسول یارب انی قومی اتخذوا ھذالقرآن مھجوراً ”اور رسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا”۔ اگر ہندوستان کے علماء اس آیت میں نبیۖ کی قوم کا ذکر دیکھ لیتے تو پھر ایک دوقومی نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو علماء کرام تقسیم نہ کرتے۔ حلالہ سے زیادہ واضح الفاظ میں قوم کا مسئلہ اس آیت میں واضح ہے لیکن قومی مسئلہ تو حل نہ ہوسکا اور حلالہ سے مسلمانوں کی عزتوں کو چھید کرکے جنازے نکلوادئیے ۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے مولانا مودودی کا بتایا کہ ” پہلے مسلمان ایک قوم نہیں تھی مگر اب ایک قوم بن چکی ہے”۔ جہالتوں پر جہالتوں کے انبار لگے نظر آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورة البقرہ آیات:222،223،224،225،226،227،228،229تک مختلف حدود بیان کئے ہیں اور عورتوں کوزبردست حقوق دئیے ہیں لیکن بدقسمتی سے حجة الوداع کے آخری خطبے میں خواتین کے حقوق کا خاص لحاظ رکھنے کی نصیحت کو بھی مفسرین اور فقہاء نے ان واضح قرآنی آیات میں بالکل نظر انداز کردیا تھا اسلئے کہ معاشرے سے عورت کو حقوق دینے کی طرف مسلم معاشرے نے کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی۔ ترتیب وار حیض میں عورت کی اذیت وناپاکی کا لحاظ رکھنا، مباشرت میں درست راستے کا انتخاب، اللہ نے میاں بیوی سمیت کسی قسم کی صلح پر بھی پابندی نہیں لگائی، طلاق کے الفاظ پر اللہ نہیں پکڑتا مگر دل کے گناہ سے پکڑتا ہے۔ طلاق کے عزم کا اظہار کئے بغیر عورت کی عدت چار مہینے کا تعین اور عزم تھا تو یہ دل کا گناہ ہے اسلئے کہ طلاق کے اظہار کے بعد عدت تین ماہ ہوتی۔ ناراضگی اور طلاق کے اظہار کے بعد عورت جب تک راضی نہ ہو تو شوہر کو رجوع کا حق نہیں۔ تین طلاق کے فعل کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے اور باہمی اصلاح سے عدت میں رجوع کا دروازہ کھلا ہے۔پھرجب مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بعد ایسی صورت پیش آئے کہ شوہر اور بیوی دونوں آپس میں رابطے کا بھی کوئی ذریعہ نہ رکھیں اور اس کی وجہ سے شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیز بھی واپس کی جائے توپھر یہ سوال پیدا نہیں ہوتا ہے کہ رجوع کرلیا جائے تو ہوجائے گا یا نہیں؟۔ کیونکہ رجوع کرنے کا تو سوال ہی ختم کردیا ہے کہ کوئی ذریعہ بھی رابطے کا نہیں چھوڑاہے۔ قرآن نے ان آیات میں بہت ساری جاہلیت کی رسمیں ختم کیں تو اس رسم کو ختم کرنے کی بھی تعلیم دی کہ جب شوہر رجوع نہیں کرنا چاہتا تب بھی عورت کو طلاق کے بعد کسی اور شخص سے نکاح نہیں کرنے دیتا تھا۔
آیت230کی روح اگلی پچھلی آیات میں بھرپور طریقے سے ان تمام آیات میں موجود ہے جن میں رجوع کیلئے شوہر نہیں عورت کی رضامندی بھی ضروری ہے۔ اگر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد یہ حکم لگے گاکہ ”جب تک کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے تو پہلے کیلئے بالکل حلال نہیںہے”۔ اس آیت شریفہ ومبارکہ کی برکت سے دوسری آیات کے مطالب اور مقاصد واضح ہونے میں بھی زبردست مدد ملی ہے۔ ایک ایک آیت اور ایک ایک حدیث کی فطری وضاحتیں موجود ہیں لیکن حلالہ کی لذت دماغ پر سوار ہوجائے تو پھر نشے میں حقائق دکھائی نہیں دیتے ہیں۔

” حلالہ ختم :دوسرا مقدمہ”

”سیدناعمر نے قرآن میں تحریف کی؟”
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت عمر نے قرآن کے احکام میں تحریف کر ڈالی کہ عدت میں رجوع ہوسکتا تھا اور طلاق مرحلہ وار دینے کا حکم تھا اور آپ نے اس کے بالکل برعکس ایک ساتھ تین طلاق دینے کی بدعت جاری کردی؟۔
حضرت عمر فاروق اعظم تھے اور ان کا یہ اقدام قیامت تک مسلمانوں کیلئے مشعلِ راہ ہے۔ شیعہ حضرت عمر کے کسی کردار کو مانیں یا نہیں مانیں لیکن اس کردار کو مانیںگے بلکہ اپنے ہاں اس کورائج کرنے میںذرا بھی دیر نہیں لگائیں گے۔
جب میاں بیوی میں جھگڑا ہو اور اس جھگڑے کو حکمران کے پاس نہیں لیکر جائیں تو قرآن کا تقاضہ یہی ہے کہ ایک مرتبہ طلاق دینے کے بعد جب تک کوئی عورت راضی نہ ہو تو اس کا شوہر رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ اگر بیوی راضی ہو تو شوہر رجوع کرسکتا ہے۔ چاہے ایک طلاق دی یا ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہوں ۔ یہی رائج بھی تھا جس کا حضرت ابن عباس کی روایت میں ذکر ہے۔
جب شوہر نے ایک ساتھ تین طلاق دیں اور اس کی بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو اسکے شوہر نے معاملہ حضرت عمر کے دربار میں پہنچادیا۔ حضرت عمر نے معاملے کی نزاکت کو دیکھ کر فیصلہ دیا کہ ” شوہر کو رجوع کا کوئی حق نہیں ہے۔ مزید یہ کہ آئندہ کوئی اکٹھی تین طلاقیں دے گا تو اس کو کوڑے بھی مارے جائیںگے ”۔
دنیا کی کوئی بھی عدالت ہو تو قرآن کی آیت اور حضرت عمر کے فیصلے پر اپنے اطمینان کا اظہار کرے گی کہ ” شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے”۔ حضرت عمر کے اس اقدام کو حقائق کی نظر سے دیکھنے کے بجائے اس پر بحث شروع ہوگی کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوسکتی ہیں یا نہیں؟۔ ایک ساتھ تین طلاق سنت ہے یا بدعت ہے؟۔ جو قرآن کا اصل مسئلہ تھا کہ باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع ہوسکتا ہے اور عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ وہ بالکل ہی امت مسلمہ نے اپنی نظروں سے چھپالیا۔ جس کے خطرناک نتائج اُمة مسلمہ نے اس وجہ سے بھگت لئے کہ قرآن کی طرف رجوع کرنا چھوڑ دیا تھا۔
قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ ” اپنی زبانوں کو جھوٹ سے ملوث مت کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے”۔ کیا صحابہ کرام اپنی طرف سے حلال وحرام کے مسائل بناکر اس میں ملوث ہوسکتے تھے؟۔ حضرت عمر کے دور میں فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں کے علاوہ فتوحات کی وجہ سے نئے نئے لوگ بڑی تعداد میں اسلام قبول کرچکے تھے۔ عیسائیوں کے ہاں اس وقت طلاق کا کوئی مذہبی تصور نہیں تھا۔ اسلام نے دینِ ابراہیمی کے دعویدارمشرکینِ مکہ، یہود اور نصاریٰ کے مسخ شدہ مسائل کے درمیان حق کا بالکل واضح راستہ بتادیا تھا۔ طلاق اور رجوع کے احکام کی سمجھ بہت واضح الفاظ میں عام تھی لیکن نبیۖ نے یہ خبر بھی دی تھی کہ
” اسلام کی ابتداء اجنبیت کی حالت میں ہوئی اور یہ عنقریب پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائے گا۔ پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے ”۔ پھر آہستہ آہستہ لوگوں کا رحجان قرآن کے اصل حکم سے ہٹتا گیا ،اب یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ مدارس حلالوں کے اڈے، سینٹر ، فیکٹریاں اور قلعے بن گئے ہیں۔

” عمر فاروق اعظم کااُ مت پر احسان ”
جب اللہ تعالیٰ نے محض ایک طلاق کے بعد بھی عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کا حق نہیں دیا ہے تو تین طلاق کے الفاظ سے استعمال کرنے اور عورت کی طرف سے صلح پر رضامند نہ ہونے کے باوجود شوہر کو رجوع کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے؟ اوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضرت عمر نے پوری امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد جب عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو قرآن کی روح کے مطابق شوہر سے رجوع کا حق چھین لیا۔ اسکے بعد فقہی بحث مطمعٔ نظر اس بات پر مرکوز ہونا چاہیے تھا کہ اگرطلاق کے بعد عورت رجوع پر راضی نہ ہو تو شوہر رجوع کرسکتاہے یا نہیں؟۔ قرآن کی طرف رجوع کیا جاتا تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ فقہاء اس بات پر متفق ہوتے کہ ایک طلاق کے بعد عورت کی رضامندی کے بغیر شوہر کو رجوع کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اس سے دو مرتبہ طلاق رجعی کا باطل تصور ختم ہوجاتا۔ جس میں شوہر کو عورت پر ایک عدت نہیں تین عدتوں کا شرعی حق مل جاتا ہے اسلئے کہ اگر شوہر ایک طلاق دے اور پھر عدت کے آخر میں رجوع کرلے اور پھر دوسری طلاق دے اور عدت کے آخر میں پھر اس سے رجوع کرلے، دوعدتیں گزارنے کے بعد پھر شوہر تیسری طلاق دے تو تیسری عدت بھی گزارنی پڑیگی اور اس سے بڑھ کر اگر اس ہتھیار کو اس سے بھی زیادہ مدت کیلئے استعمال کرنا چاہے تو ایک ایک طلاق رجعی میں عورت کی پوری زندگی کو برباد کرنیکا شوہر کو حق مل جاتا ہے مگر یہ قرآن نہیں جہالت ہی جہالت ہے۔
حضرت عمر کے اقدام کی طرف درست توجہ دینے کے بجائے فقہاء نے یہ بحث شروع کردی کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوسکتی ہیں کہ نہیں؟حالانکہ اصل معاملہ یہ تھا کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ اگر رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ تو پھر قرآن وسنت کی طرف توجہ جاتی۔ جب قرآن میں باہمی رضامندی کی صورت میں عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل کے فوراًبعد اور عدت کی تکمیل کے عرصہ بعد رجوع کی گنجائش رکھی ہے اور باہمی رضامندی کے بغیر نہیں رکھی ہے تو فیصلہ باہمی اتفاق رائے سے ہوجاتا کہ اصل معاملہ عورت کی رضامندی پر منحصر ہے۔
حنفی اور مالکی مسلک والوں نے قرار دیا کہ ایک ساتھ تین طلاق بدعت اور گناہ ہے اور دلیل محمود بن لبید کی روایت کو بنایا کہ ” ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی ، جب رسول اللہ ۖ کو خبر پہنچی تو آپ ۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان میں ہوں اور تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو؟۔ اس پر ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟”۔ اس روایت کی وجہ سے احناف اور مالکیہ کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق بدعت ہیں۔
اس روایت میں جس شخص نے کہا تھا کہ ” کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟” عمر تھے اور جس کے بارے میں خبر دی تھی وہ حضرت عبداللہ بن عمر تھے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسن بصری نے کہا کہ مجھے ایک مستند شخص نے کہا کہ ” عبداللہ بن عمر نے اپنی بیگم کو ایک ساتھ تین طلاق دی تھیں اور پھر20سال تک کوئی دوسرا شخص نہیں ملا جو اس کی تردید کرتا۔20سال بعد ایک زیادہ مستند شخص نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی”۔ اسی طرح یہ تصریح بھی موجود ہے کہ قتل کی پیشکش کرنے والے حضرت عمر تھے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبیۖ نے جس طرح غضبناک ہونے کا مظاہرہ فرمایا اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے بلکہ یہ تھی کہ ایک ساتھ تین طلاق دیکر فارغ کرنے کی ضرورت کیا ہے؟۔ کیونکہ نبیۖ نے غضبناک ہونے کے باوجود صحیح روایت کے مطابق رجوع کا حکم دیا تھا۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر، سورہ ٔ طلاق )۔اس بات پراتفاق تھا کہ ابن عمر نے رجوع کیا تھا لیکن اس بات پر اختلاف تھا کہ تین طلاق دی تھی یا ایک؟۔ اس سلسلے میں ضعیف ومن گھڑت روایات کی بھرمار ہے مگر ایک صحیح روایت ہے کہ حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ ” اگر میں تین مرتبہ طلاق دیتا تو نبیۖ مجھے رجوع کا حکم نہ دیتے؟”۔ اس سے مراد ایک ساتھ تین طلاقیں نہیں بلکہ جیسا نبیۖ نے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کا حکم دیا تھا اور وضاحت دی تھی اس طرح ابن عمر تین مرتبہ طلاق دیتے تو نبیۖ رجوع کا حکم واقعتا نہ دیتے۔ حضرت عمر سے کہا گیا کہ عبداللہ کو جانشین نامزد کردیں تو حضرت عمر نے فرمایا کہ اس کو طلاق کا پتہ نہیں اور اسکو امت مسلمہ کی خلافت سونپ دوں؟ جس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ ہر دور میں چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیںجو بڑوں کو انکے بیٹے کیلئے جانشین بنانے کا مشورہ دیتے ہیں اور یہ بھی کہ حضرت عمر نے ایک قلندرانہ بات کردی کہ جس کو خلیفہ بنایا جائے تو اس میں مسئلہ طلاق کو سمجھنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ حیض میںطلاق ہوتی ہے یا نہیں؟۔ اس پربڑے بڑوں کا اختلاف ہے لیکن یہ معمولی اختلاف نہیں بلکہ جس طرح اس بات پر اختلاف ہو کہ رات کو روزہ رکھا جاسکتا ہے یا نہیں؟۔ ظاہر ہے کہ نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح طلاق فعل بھی ہے اور قول بھی۔ فعل تو تین مرتبہ طلاق کا عدت کے تین مراحل میں دینا ہے۔ تین مرتبہ طلاق کا تعلق ہی عدت کے تین مراحل سے ہے اور یہ قرآن و صحیح بخاری کی مختلف کتابوں میں موجود عبداللہ بن عمر کے واقعہ سے ثابت ہے۔ شوہر کی طرف سے طلاق کے قول کے بعد عورت کا حق شروع ہوتا ہے۔اگر اس کا پروگرام رجوع نہ کرنے کا ہو تو ایک طلاق دی یا تین لیکن وہ رجوع نہیں کرسکتاہے اور اگرعورت رجوع کیلئے راضی ہو تو عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعدبھی باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے۔ یہ قرآن میں بالکل واضح ہے اور جہاں تک آیت230البقرہ کا تعلق ہے تو اس سے پہلے اس صورتحال کی وضاحت ہے کہ ” وہ دونوں اور فیصلہ کرنے والے نہ صرف جدائی پر متفق ہوں بلکہ آئندہ کیلئے بھی رابطے کی کوئی چیز نہ چھوڑیں۔ یہاں تک کہ دی ہوئی چیز واپس لینا جائز نہیں لیکن جب اس کی وجہ سے رابطے کایقین اور اللہ کے حدود پردونوں کے قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو تو وہ چیز واپس فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے”۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر رفاعة القرظی نے جس خاتون کو طلاق دی تھی تو اس نے دوسرے شوہر سے طلاق اور رفاعة القرظی سے رجوع کی خواہش رکھی تھی لیکن نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ ” جب تک تم ایکدوسرے کا ذائقہ نہ چکھ لو تو رفاعة کے پاس واپس نہیں لوٹ سکتی”۔ اس روایت میں نمایاں بات یہ ہے کہ دوسرے شوہر کے پاس دوپٹے کے پلو کی طرح چیز تھی تو اس سے وہ حلال نہیں ہوسکتی تھی تو نبیۖ کیسے یہ حکم دیتے؟۔ دوسری بات یہ ہے کہ بخاری کی دوسری روایت میں یہ تفصیل بھی ہے کہ اس کا دوسرا شوہر آیا اور ا س نے بتایا کہ میں نامرد نہیں ، اس کی چمڑی ادھیڑ کر رکھ دیتاہوں اپنی مردانی قوت سے اور یہ میرے بچے ہیں جوساتھ لایا ہوں۔ حضرت عائشہ نے بتایا کہ اس عورت کے جسم پر مارپیٹ کے نشان تھے جو اس نے دکھائے تھے۔ اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبیۖ نے دونوں میں صلح کروائی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رفاعة القرظی نے مراحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے عمل سے جدا کیا تھا اور جب وہ رجوع نہیں کرنا چاہتے تھے تو وہ عورت رجوع کی امید پر کیسے چھوڑی جاتی؟۔ اس میں کہیں دور تک شائبہ بھی نہیں کہ نبی ۖ نے اکٹھی تین طلاق پر حلالے کا حکم دیا ۔مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس نے لکھا کہ” یہ حدیث خبر واحدہے اور احناف نکاح کیساتھ مباشرت کا حکم اس کی وجہ سے نہیں دیتے بلکہ آیت میں نکاح کوجماع سمجھتے ہیں”۔ (کشف الباری) اگر نکاح سے جماع مراد لینے پر بات کی جائے تو ایک اور پنڈورا بکس کھلے گا۔
جو علماء ومفتیان حلالہ میں ملوث نہیں تو وہ کھل کر مساجد اورمدارس میں حلالہ کے خلاف قرآن واحادیث صحیحہ کے معاملات کو اپنے عقیدتمندوںاور عوام میں بتائیں تاکہ دین سے مایوس مسلم اُمہ میں اُمید کی ایک نئی روح زندہ ہوجائے۔

”حلالہ ختم: تیسرا بہت فیصلہ کن مقدمہ”

” رجوع عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد”
مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھاہے کہ ” اسلام کی نشاة ثانیہ عرب نہیں عجم سے ہوگی اور اس کیلئے مرکزی علاقہ سندھ ، پنجاب، بلوچستان ، فرنٹیئر(خیبر پختونخواہ) ، کشمیر اور افغانستان ہے۔ یہاں جس قدر قومیں بھی بستی ہیں یہ سب امامت کی حقدار ہیں۔ یہاں امام ابوحنیفہ کے مسلک پر قرآن کی طرف توجہ کرنے سے انقلاب آئیگا اسلئے کہ امام ابوحنیفہ کے مسلک کے علاوہ دوسرا کوئی مسلک یہاں کے لوگ قبول نہیں کریںگے۔ ایران کے شیعہ بھی ساتھ دیں گے اسلئے کہ امام ابوحنیفہ بہت سارے ائمہ اہلبیت کے شاگرد تھے۔احادیث میں اس علاقے کا ذکر ہے۔ کشمیر سے کراچی تک سندھ تھا جس کا مرکز ملتان تھا اور پنجاب کے پانچوں دریا سندھ کی شاخیں ہیں۔ ہند کے مقابلے میں سندھ ایک علیحدہ تشخص رکھتا تھا۔ اگر ہندو ساری دنیا بھی ہمارے مقابلے پر لے آئیں تو ہم اس علاقے سے دستبردار نہیں ہوسکتے ہیں”۔تفسیرسورة القدر:المقام المحمود
واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او سرحوھن بمعروف ولا تمسکوھن ضرارًا لتعتدوا ومن یفعل ذلک فقد ظلم نفسہ ولا تتخذوا اٰےٰت اللہ ھزوًا واذکروا نعمة اللہ علیکم وما انزل اللہ علیکم من الکتٰب والحکمة یعظکم بہ واتقوا اللہ و اعلموا ان اللہ بکل شی ئٍ علیمOواذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلاتعضلوھن ان ینکحن ازواجھن اذا تراضوا بینھم بالمعروف ذٰلک یوعظ بہ من کان منکم یؤمن باللہ والیوم الاٰخر ذٰلکم ازکٰی لکم و اطھر واللہ یعلم وانتم لاتعلمونO”اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور انہوں نے عدت اپنی پوری کرلی تو معروف طریقے سے رجوع کرلو یا معروف طریقے سے ان کو چھوڑ دو۔ اور اس لئے ان کو مت روکو تاکہ ان کو تکلیف پہنچاؤ اور جس نے ایسا کیا تو اس نے بیشک اپنے نفس پر ظلم کیا۔ اور اللہ کی آیات کو مذاق مت بناؤ۔ اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر کی ہے ۔اور جو اللہ نے (رجوع کے احکام ) نازل کئے ہیں کتاب میں سے اور حکمت ۔ جس سے وعظ کیا جاتا ہے۔اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بیشک اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ اور جب تم طلاق دے چکے عورتوں کو ،پھر وہ اپنی عدت پوری کرچکیں تو ان کو مت روکو کہ اپنے شوہروں سے نکاح کریں، جب وہ آپس میں معروف طریقے سے راضی ہوں۔ یہ وہ ہے جس کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے اس کیلئے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔ اس میں تمہارے لئے زیادہ تزکیہ اور زیادہ پاکیزگی ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔( سور ہ البقرہ آیات 231اور232)۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی آیات228اور229میں عدت کے اندر بھی رجوع کو باہمی رضامندی کیساتھ جائز قرار دیا اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے باہمی رضامندی سے جائز قرار دیا اور یہ احکام سورۂ طلاق کی پہلی اور دوسری آیت میں بھی بعینہ ایسے ہیں تو پھر آیت230کے اس حکم کاکیا بنے گا کہ” اگر پھر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے؟”۔ اسکا جواب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طلاق کے حوالے سے بہت سی رسموں کا خاتمہ کردیا تھا جس کی تفصیل قرآن میں واضح ہے اور ایک غلط رسم یہ بھی تھی کہ جب شوہر بیوی کو طلاق دیتا اور پھر شوہر بھی رجوع نہیں کرنا چاہتا تھا اور بیوی بھی رجوع نہیں کرنا چاہتی توپھر بھی عورت کو کسی سے نکاح نہیں کرنے دیتا تھا۔یہ مرد کی غیرت کا مسئلہ تھا اور لوگ منگیتر تک کو چھوڑنے کے بعد کسی اور سے نکاح نہیں کرنے دیتے ہیں۔اس رسم کو بھی قرآن نے ملیامیٹ کرکے رکھ دیا تھا۔ قرآن نے تو یہ بھی واضح کردیا تھا کہ ناراضگی کے بعد شوہر عورت کو مجبور نہیں کرسکتا ہے اور عدت کے بعد دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے، اسی طرح ایک طلاق کے بعد عورت رجوع پر راضی نہ ہوتوشوہر کیلئے عدت کے اندر اور عدت کے بعد زبردستی کرنا حلال نہیں ہے۔ جب تک230آیت میں حلالہ کی لالچ مولویوں کو نہیں دکھائی تو انہوں نے دوسری آیات میں عورت کے حق کی طرف دیکھا تک بھی نہیں ہے۔ آیت کے حکم کو سمجھنے کیلئے آگے پیچھے کی آیات اور معا ملات کو دیکھے بغیر مولوی سے حلالے کروائیںگے تواسی طرح عزتیں لٹتی رہیں گی۔
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تواگرمیرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
لوگ اپنی غیرت ، عزت اور عظمت بچانے کیلئے قرآن کی طرف توجہ دینگے تویہ معاملہ حل ہوجائیگا۔جتنی بھی احادیث صحیحہ اور ضعیفہ ہیںان کی تطبیق ہوسکتی ہے تو تطبیق کرنا ضروری ہے لیکن جو قرآن کے خلاف ہیں تو ان کے ناقابلِ قبول ہونے میں تردد کرنا ایمان کا بہت بڑا زوال ہے۔ مسلک حنفی کو سب سے بڑا کریڈٹ یہی جاتاہے۔
ضعیف حدیث یہ ہے کہ فاطمہ بنت قیس کے شوہر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں۔ حدیث صحیحہ یہ ہے کہ اس کو الگ الگ تین طلاقیں مرحلہ وار عدت کے مطابق دی تھیں۔ دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دیں لیکن شمار تین نہیں کی گئیں بلکہ ایک شمار کی گئی اور پھر باقاعدہ دوسری طلاقیں بھی دیں۔صحیح مسلم کی جس روایت میں ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی اور حضرت عمر نے ایک ساتھ تین کا فیصلہ کیا تو اس میں بھی یہ تطبیق ہے کہ جب عورت رجوع کرنے پر راضی ہو تو ایک شمار ہوتی ہے اور رجوع ہوسکتا ہے اور جب عورت رجوع پر راضی نہ ہو توتین شمارہوتی ہیں اور شوہر رجوع نہیں کرسکتاہے۔ اسی طرح ابن عباس کے قول وفعل اور شاگردوں میں بھی کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ تطبیق ہی تطبیق ہے۔
حضرت عمر کی طرف منسوب ہے کہ حرام کے لفظ کو ایک طلاق سمجھتے تھے اور حضرت علی کی طرف منسوب ہے کہ حرام کے لفظ کو تین طلاق سمجھتے تھے۔ صحابہ کرام اپنی طرف سے قرآن کے واضح حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حلال وحرام پر اس طرح کے اختلافات کیسے کرسکتے تھے؟۔ جنہوں نے رجوع کو ایک طلاق کا استعارہ سمجھ لیا ،انہوں نے اس کو ایک طلاق قرار دیا اور جنہوں نے عدم رجوع کو تین طلاق کا استعارہ سمجھ لیا انہوں نے تین طلاق قرار دیا۔ دونوں واقعات میں تطبیق یہ ہے کہ حضرت عمر سے جس شخص نے حرام کے لفظ پر رہنمائی حاصل کرنا چاہی تھی تو اس کی بیوی رجوع کرنا چاہتی تھی اور جس کی بیگم رجوع کیلئے آمادہ نہیں تھی اس کو حضرت علی نے رجوع نہ کرنے کا فتویٰ دے دیا۔ دونوں کا مقصد قرآن پر عمل کرنا تھا۔

”القائے شیطانی اور حلالے کا بگڑا ہوا موجودہ تصور”
وماارسلنا من قبلک رسول ولانبی الا اذا تمنٰی القی الشیطان فی امنیتہ فینسخ اللہ مایلقی الشیطٰن ثم یحکم اللہ اٰیٰتہ واللہ علیم حکیمOلییجعل مایلقی الشیطٰن فتنةً للذین فی قلوبھم مرض والقاسیة قلوبھم ان الظٰلمین فی شقاقٍ بعیدٍOولیعلم الذین اوتواالعلم انہ الحق من ربک فیومنوا بہ فتخبت لہ قلوبھم وان اللہ لھاد الذین اٰمنوا الی صراط مستقیمOآیات:52،53سورہ الحج۔
ترجمہ ” اور ہم نے نہیں بھیجا آپ سے پہلے کوئی رسول اور نہ نبی مگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس کی تمنا میں اپنی بات ڈال دی۔ پس اللہ مٹادیتا ہے جو شیطان نے ڈالا ہوتا ہے ۔ پھر اپنی آیات کو محکمات بنالیتا ہے اور بہت جاننے والا حکمت والا ہے۔تاکہ بنائے جو شیطان نے ڈالا ہے فتنہ ان لوگوں کیلئے جنکے دلوں میں مرض ہے اور جن کے دل سخت ہوچکے ہیں۔بیشک ظالم لوگ بہت دور کی بدبختی میں ہیں۔اور تاکہ جان لیں وہ لوگ جن کو علم دیا گیا ہے کہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے اور اس پر ایما ن لائیں اور اس کیلئے انکے دل پلٹ جائیںاور اللہ ہدایت دیتا ہے ایمان والو ںکو سیدھی راہ کی”۔
انبیاء کرام اور رسل عظام نے اپنی اپنی قوموں کو گمراہانہ تصورات سے نکالنے کی تمنائیں کی ہوتی ہیں لیکن پھر شیطان نے ان کی تمناؤں میں اپنی معنوی تحریف ڈال کرمعاملہ سبوتاژ کیا ہوتا ہے۔ پھر نئے نبی پر آیات نازل کرکے شیطان کے ڈالے ہوئے معاملے کو اللہ مٹادیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شیطان وحی میں اپنی خواہش ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ یہ مطلب واضح ہے کہ ” نبیۖ سے پہلے کوئی بھی رسول اور نبی آیا ہے تو ان کی تمناؤں کے برعکس بعد والوں میں شیطان اپنی بات ڈال دیتاہے اور جب دین کی تحریف کرکے مسخ کرکے رکھ دیتے تھے تو پھر دوسرے نبی و رسول پر وحی نازل کرکے اللہ کی آیات کو اللہ خود محکمات بنادیتا تھا”۔ پہلے جتنے بھی انبیاء کرام اور رسل عظام تشریف لائے ہیں تو شیطان بعد والوں کے دلوں میں اپنی تمنائیں ڈال کر احکام کو مسخ کردیتا تھا جیسے یہودو نصاریٰ کے علماء ومشائخ نے کیا تھا۔
دارالعلوم دیوبند کے مولانا انور شاہ کشمیری نے اپنی شرح بخاری ”فیض الباری ” میں لکھا ہے کہ ” قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہوئی ہے لیکن لفظی بھی کی گئی ہے یا توجان بوجھ کر یا پھر مغالطے سے”۔ احادیث کی کتب اور اصول فقہ کی کتابوں میں لفظی تحریف بھی پڑھائی جاتی ہے لیکن مسلک حنفی کا کمال ہے کہ روایات کو بے اہمیت کر دیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ” قرآن کو اللہ نے لفظی تحریف سے محفوظ رکھا ہے”۔ اسلئے کسی نبی اور کتاب کی ضرورت نہیں ہے لیکن معنوی تحریفات کا عوام کو اس وقت پتہ چلے گا کہ جب امام مہدی کا ظہور ہوگا اور دنیا میں فطری اسلامی انقلاب آجائیگا۔
جب سورہ حج کی ان آیات کی تفسیر علماء پر مشکل ہوگئی تو معروف مفسرین نے ابن عباس کی روایت ہی کا سہارا لیا کہ ”سورۂ النجم نازل ہوئی تو شیطان نے نبیۖ کی زبان پر لات ومنات اور عزیٰ کو اللہ کے ہاں شفاعت کے قابل کہا”۔ جس پر مشرکینِ مکہ نے نبی ۖ کے ساتھ سجدہ کیا لیکن پھر پتہ چلا کہ شیطان نے آیات کی شکل میں اپنی تمنا نبی ۖ کو القاء کردیا یا زبان سے کہلوایا۔ حالانکہ یہ مشرکینِ مکہ کابالکل ناجائز پروپیگنڈہ تھا۔ ہوا یہ تھا کہ پہلی مرتبہ سجدہ کی آیت سورہ نجم میں نازل ہوئی تو نبیۖ اچانک سجدے میں گئے۔ مشرکین نے بے ساختہ ناگہانی آفت کے خوف سے سجدہ کرلیا۔ پھر جب دیکھا کہ معاملہ بالکل معمول کے مطابق چل رہا تھا اور کوئی آفت نہیں آئی۔ نبی ۖ نماز میں مشغول تھے۔جس کی وجہ سے جن مشرکینِ مکہ نے اچانک سجدہ کیا تھا انہوں نے اپنی شرمندگی مٹانے کیلئے پروپیگنڈہ کیا کہ نبیۖ نے شیطانی آیات پڑھ لیں جس کی وجہ سے ہم نے سجدہ کیا۔ جب نبی ۖ ہمارے معبودوں کواہمیت نہیں دیتے تو ہم بھی نہیں مانتے۔ اس پروپیگنڈے کا اتنا اثر ہوا کہ حبشہ ہجرت کرنے والے مسلمان بھی اس کا شکار ہوگئے اور واپس آگئے۔ کچھ مکہ کے قریب سے دوبارہ حبشہ بھی چلے گئے۔ ابن عباس کے والد حضرت عباس نے بعد میں اسلام قبول کیا تھا۔ اسلئے مشرکین مکہ کے مسلمان ہونے کے بعد اس پروپیگنڈے کو سچ سمجھ کر ابن عباس نے شیطانی آیات کو نقل کیا۔ آپ کے علاوہ کسی صحابی نے یہ بات نقل نہیں کی۔ جن مفسرین نے حدیث سمجھ کر اعتبار کرلیا تو انہوں نے اپنی تفسیر میں نقل کردیا اور جن کو قرآن کی بنیادی تعلیمات کے خلاف بات لگی تو انہوں نے رد کردیا۔ سورہ نجم کا اپنا مضمون بھی شیطانی مداخلت کی سختی سے تردید کیلئے کافی ہے۔
رسول اللہ ۖ کی بعثت کا مقصد قرآن میں واضح ہے کہ ” تمام ادیان پر غلبہ ہوگا”۔ نصب العین کی تکمیل کیلئے معراج میں تمام انبیاء کرام کی امامت بھی فرمائی۔ نبیۖ کا یہ خواب دنیا میں کیسے پورا ہوسکتا ہے؟۔ یہ لوگوں کیلئے بہت بڑی آزمائش ہے ؟۔ نبیۖ کو حلالہ کی لعنت کے احوال کا آنے والا منظر بھی دکھایا گیا تھا اسلئے آپ ۖ نے حلالے کرنے اور کرانے والوں پر لعنت فرمائی۔ نبی کریم ۖ کی تمنا میں معنوی تحریف کرکے شیطان نے کیسے حلالے کو رائج کردیا ہے؟۔ جو اسلام کی سربلندی اور ترویج میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لندن اور امریکہ میں حلالہ سینٹر دیکھ کر کون پاگل اس کو اپنے مذہب کے مقابلے میں بہتر قرار دے سکتا ہے؟۔ سورہ حج کی ان آیات کی واضح تفسیر یہ ہے کہ شیطان نے انبیاء کے ذریعے دین کی درست تبلیغ کے بعد آنے والوں میں حلالہ کی لعنت رائج کردی تھی۔ جس طرح سامری نے بچھڑے کے ذریعے ان کو شرک میں مبتلاء کیا ،اسی طرح انبیاء کے بعد شیاطین نے حلالہ کی لعنت کے ذریعے مذہبی بدشکل لوگوں سے شیطانی کھیل کے دھندے کھول دئیے۔شیطان نے نبیۖ کی تمنا حلالے کی لعنت میں اپنی تمنا ڈال کر اس کوعلامہ بدرالدین عینی اور علامہ ابن ھمام کے ذریعے کارثواب قرار دیا ہے۔البتہ اللہ تعالیٰ آیات محکمات کے ذریعے شیطانی جال کو مٹاتا ہے۔
قرآن وسنت میں حلالے کی لعنت کا جواز نہیں تھا، طلاق سے رجوع کیلئے کافی وضاحتیں قرآن میں ہیں ۔ایک طرف سورۂ حج کی ان آیات کے مطابق وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں مرض ہے اور ان کے دل سخت ہوچکے ہیں وہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ جن میں سرفہرست مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی محمد رفیع عثمانی ہیں۔ دوسری طرف پشین کوئٹہ سے لاہور تک، تربت گوادر سے چترال تک اور کراچی سے سوات تک ایسے بہت علماء حق ہیں جن کا دیوبند، بریلوی، اہل حدیث ، اہل تشیع اور جماعت اسلامی سے تعلق ہے اور وہ حمایت کررہے ہیں۔ حضرت مفتی محمد حسام اللہ شریفی ، حضرت مولاناقاری اللہ داد صاحب، حضرت شیخ مفتی محمد انس مدنی کراچی،مولانا عبدالقدوس ڈیرہ اسماعیل خان اور گجرانوالہ کے حضرت مولانا مفتی خالد حسن قادری مجددی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ہمارے استاذمفتی محمد نعیم صاحب نے بھی تائید کی تھی جن کو مفتی محمد تقی عثمانی نے ڈانٹ پلائی تھی۔ مفتی زر ولی خان سے بھی تائید کی امید تھی جنہوں نے میری کتاب” عورت کے حقوق” کے مسودے کی تعریف فرمائی تھی لیکن پھر ان کا انتقال ہوگیا تھا۔جس دن مدارس اور مساجد سے حق کا سیلاب اُٹھے گا تو آئندہ الیکشن بھی اسلام کے فطری نظام کی بنیاد پر بالکل نئے لوگ بہت بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے ۔ انشاء اللہ
جب تک تقابلی جائزہ نہیں ہوتا تو علمی حقائق تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ سورۂ مجادلہ میں اللہ نے نبیۖ کی سیرت طیبہ کے ذریعے یہ تعلیم دی ہے کہ سیرت کا تقاضہ یہ نہیں کہ گدھے کی طرح کوئی اپنی ناحق بات پر بھی ڈٹ جائے کہ میں جو بول چکا ہوں وہی حق ہے۔ نبی ۖ نے ایک خاتون کو موقع دیا اور پھر وحی اسی کے حق میں اللہ نے نازل فرمائی ہے۔ اگر اکابر کسی غلط فہمی کا شکار تھے تو ان کی توقیر اور عزت واحترام میں کوئی فرق نہیں آتا ہے۔ جتنے بھی ایسے ملحد ہیں جو توہین آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں ان میں اکثریت مولویوں کی ہی نظر آتی ہے۔ شدت پسندی کا رخ بدل جاتا ہے، باقی وہی ہوتا ہے۔
جب احادیث میں ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کے دلائل جمہور کے نزدیک دیکھتے ہیں تو ڈھیر ساری احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ نظر آتا ہے کہ یہ رفاعة القرظی نے بیوی کو طلاق دی تھی، فاطمہ بنت قیس کو اکٹھی تین طلاق دی گئی اور حضرت حسن نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دی۔ حضرت علی نے حرام کے لفظ کو تین طلاق قرار دیا۔ ابن عباس نے بھی ایک ساتھ تین طلاق پر فتویٰ دیا۔ ابن عمر نے بھی کہا کہ تین طلاق کے بعد رجوع کا حکم نہیں مل سکتا تھا۔ غرض بہت روایات اور فتوے موجود ہیں۔ کیونکہ جمہور کے مقابلے میں تقابلی جائزہ رکھنے والے کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے۔
جب یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق سنت ومباح ہیں یا بدعت وگناہ؟۔ تو پھر احادیث کا ذخیرہ بھی پسِ منظر میں چلا جاتا ہے۔ امام شافعی کے نزدیک ایک روایت ہے کہ عویمر عجلانی نے لعان کے بعد اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دی۔ لیکن امام مالک وامام ابوحنیفہ کے نزدیک لعان کی وجہ سے اس میں ایک ساتھ تین طلاق دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ محمود بن لبید کی روایت ان کی دلیل ہے جس میں نبیۖ نے فرمایا تھا کہ کیا میری موجودگی میں قرآن کیساتھ کھیل رہے ہو؟۔ یہ دو روایات بھی حلالہ کی توثیق نہیں کرتی ہیں اور نہ ہی ان سے قرآن کی آیات میں رجوع کے احکام سے روگردانی کا جواز بنتا ہے۔ ان سے صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ بلاضرورت ایک ساتھ فارغ کرنا گنا ہ اور معقول وجہ ہو تو پھر کوئی مسئلہ نہیں۔سورة طلاق میں عدت اور عدت کے بعد رجوع کا خلاصہ بہترین الفاظ میں موجود ہے اور ابوداؤدشریف کی روایت میں ہے کہ نبیۖ نے ابو رکانہ سے فرمایا کہ ام رکانہ سے رجوع کیوں نہیں کرلیتے؟۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو تین طلاق دے چکا ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور پھر سورۂ طلاق کی آیات پڑھ لیں۔ علماء حق سے اپیل ہے کہ اپنے اسلاف کی لاج رکھتے ہوئے حلالہ کیخلاف علمی وضاحتوں کا اعلان کرکے سرخرو ہوجائیں۔

میرے تین گھر ہیں کوئٹہ میں، پشاور میں اور لاہور میں لیکن کہیں حلالہ سینٹر کا نام نہیں سنا۔ سمیحہ راحیل قاضی

میرے تین گھر ہیں کوئٹہ میں، پشاور میں اور لاہور میں لیکن کہیں حلالہ سینٹر کا نام نہیں سنا۔ سمیحہ راحیل قاضی
نیٹ پر حلالہ کلک کرو تو پاکستان، لندن اور دنیا بھر میں حلالہ سینٹروں کی تفصیل ملے گی۔ محمد مالک ہم نیوز

پروگرام کا عنوان ”کیا حلالے کی کوئی شرعی و قانونی حیثیت ہے؟”
شرکائ: علامہ امین شہیدی، مفتی ضمیر احمد ساجد، عنبرین عجائب، ڈاکٹر خالد ظہیر
ہم نیوز پر معروف صحافی محمد مالک نے پچھلی مرتبہ حلالے پر پروگرام ایمرجنسی میں کیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ21سالہ شوہر نے اپنی19سالہ بیگم کو اکھٹی3طلاقیں دیں ۔ جب لڑکی کو پتہ چلا کہ ایک رات کیلئے کسی سے ہمبستری کرکے حلالہ کرنا پڑے گا پھر وہ اپنے شوہر کے پاس واپس جاسکے گی۔ اس پر اس نے خودکشی کرلی۔ اب یہ دوسرا پروگرام حلالہ سینٹروں پر تھا۔ علامہ امین شہیدی اور ڈاکٹر خالد ظہیر نے کہا کہ اسلام میں کوئی حلالہ نہیں ہے۔ مفتی ضمیر احمد ساجد بھی حلالہ کی مخالفت کررہے تھے۔ عنبرین عجائب نے بھی اس کو کھلا استحصال قرار دیا مگر سمیحہ راحیل قاضی اس کو اچھالنے کے خلاف نظر آرہی تھیں۔ مریم نواز کے انتخابی جلسے کی وجہ سے دوسرا پروگرام ختم ہوگیا۔

 

جمہوریت یا خلافت

جمہوریت یا خلافت
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
امریکیCIAہیروئن کی ا سمگلراورIMFسودکا دونمبرہے۔پاکستان اورافغا.نستان کو بلیک میل کرکے لڑائے گا اوربیش بہا خزانوں پر قبضہ کریگا؟
خلافت بیعت کے ذریعے جمہوریت ووٹ کے ذریعے آسکتی ہے۔خلیفہ ایک ہی ہوسکتا ہے اور جمہوری اقتدار مختلف لوگوں کے ذریعے مختلف ممالک اورصوبے میں ہوسکتا ہے!

پاکستان و افغا.نستان کے خزانوں سے لوگوں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ پوری دنیا میں اس خطے کی قوم بہت عظیم ہے ۔ سندھی، بلوچ،پنجابی، پشتون، افغانی اور کشمیری دنیا کی امامت کے قابل لوگ ہیں۔ پشتونوں کی غیرت بہت مثالی ہے اور پشتون قوم میں بہت قبائل ہیں۔ محسود قوم نے بہت ہی تکالیف اُٹھائے ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں محسود اور وزیر دونوں قبائل اپنی الگ الگ روایات اور اقدار کے حامل ہیں۔تحریک طا.لبان پاکستان میں بیت اللہ محسود سے مفتی نور ولی محسود تک طا.لبان لیڈر شپ کا نمایاں کردارتھا۔ اگرچہ نیک محمد وزیرسے مولوی نذیر یا موجودہ قیادت کا بھی نمایاں حصہ تھا۔ محسود طا.لبان نے ہمیشہ پاک فوج سے بھی ٹکرلی ہے اور وزیر طا.لبان کے تعلقات پاک فوج سے اچھے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے جنوبی وزیرستان کے وزیر ایریا میں کبھی آپریشن کیلئے نقل مکانی کرنے کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ محسود قوم نے طا.لبان اور پاک فوج دونوں کے ہاتھوں تاریخی مار کھائی ہے۔ بے عزتی برداشت کی ہے۔ تکالیف اٹھائی ہیں لیکن جنگ نے ان کو خالص سونا اور کندن بنادیا ہے۔حکومت نے بارہا پیش کش کی ہے کہ تم اسلحہ اُٹھاؤ اور اپنی حفاظت کرو مگرمحسود قوم نے اجتماعی طور پر اس کو مسترد کیاہے۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمیں بھلے ماردیا جائے لیکن ہم اپنے علاقے اور قوم کی فضاء میں جنگ کا ماحول نہیں بنائیں گے۔ اگر پاکستان اور افغا.نستان نے محسود قوم کی عظیم فطرت اوروسیع تجربات سے کچھ سیکھ لیا تو بیرونی قوتیں ہمیںلڑانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی ہیں۔ نبی کریم ۖ نے ہجرت کرلی لیکن اپنی قوم سے مکہ میں لڑائی کی فضاء نہیں بنائی۔ حالانکہ امیر حمزہ، عمرفاروق اعظم، علی، ابوبکر اور ابوطالب ایک سے ایک بہادر طاقتور شخصیت وبنوہاشم کی قوت تھی۔

محسود قوم نے اپنے وسیع تجربے اور بہت نقصانات اٹھانے کے بعد فطرت کے تقاضوں سے جو کچھ سیکھا ہے وہ عرب کے ابتدائی مسلمانوں نے اللہ کی وحی اور پیغمبر اسلام ۖ کی حکمت سے شروع میں حاصل کرلیا تھا۔ اگر اسلام کی وجہ سے ابتدائی سالوں میں اہل مکہ آپس میں لڑمر کر کھپ جاتے تو پھر اسلام کا چراغ پوری دنیا کی سپر طاقتوں کو شکست سے دوچار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھ سکتا تھا۔ جب حضرت بلال اسلام کی وجہ سے مصائب جھیل رہے تھے۔ حضرت سمیہ کو دواونٹوں سے باندھ کر مشرکینِ مکہ نے دو ٹکڑے کردئیے تھے ۔ صحابہ مشکلات کی وجہ سے پہلے بھی حبشہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ وہاں بھی دشمن نے پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس پہنچ کر شکایت کردی تھی۔ جب رسول اللہ ۖ کا اجتماعی سوشل بائیکاٹ کرکے شعب ابی طالب میں تین سالوں تک مسلمان سخت ترین مشکلات کا شکار بنائے گئے۔جب رسول اللہ ۖ کو ابوجہل نے برا بھلا کہا تو امیرحمزہ نے اس وقت اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن وہ سیدھا کعبے پہنچے اور ابوجہل کو کمان مار کر کہا کہ ” اے چوتڑ پر خوشبو لگانے والے! میدان میں آجاؤ، میں نے اسلام قبول کیا ہے اور دیکھتا ہوں کہ تمہارے اندر کیا ہمت ہے کہ اسلام قبول کرنے پر کسی کو کچھ بول سکو!”۔ یہ کاروائی کرکے نبیۖ کو بتایا تو آپۖ نے فرمایا کہ مجھے اس پر کوئی خوشی نہیں ہے۔ مجھے اس وقت خوشی ہوگی کہ جب تم اسلام قبول کرلو۔ پھر امیر حمزہ نے اسلام قبول کرلیا۔ دوسری طرف ابوجہل سے ساتھ والوں نے کہا کہ ” امیر حمزہ نے اتنی غلیظ گالی بکی اور تم نے جواب تک نہیں دیا”۔ ابوجہل (جو ابولحکم کہلاتا تھا) نے کہا کہ ” اس وقت وہ اسلام کی وجہ سے نہیں آیا تھا بلکہ میں نے اس کے بھتیجے کی سخت بے عزتی کی تھی وہ اپنے بھتیجے محمد(ۖ) کا بدلہ لینے آیا تھا، اگر میں بحث وتکرار میں لگتا تو پھر یہ لڑائی عقیدے کی نہیں قبائل کے درمیان بن جاتی اور محمد مضبوط ہوجاتا”۔

مشرکینِ مکہ دشمن تھے لیکن اہل مدینہ اور اعرابیوں کی طرح ان میں منافقت نہیں تھی۔ نبیۖ نے ان کیساتھ صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا۔ بنوبکر مشرکینِ مکہ کا حلیف قبیلہ تھااور بنوخزاع مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا، بنوخزاع مسلمان نہیں تھا۔ معاہدے میں یہ طے تھا کہ حلیف قبائل کے درمیان جنگ ہوگی توان کی مدد نہیں کریںگے لیکن پھر مشرکینِ مکہ کے بعض لوگوں نے بنوخزاع کے خلاف بنو بکر کی مدد کی تھی،جس پر ان کو یہ توقع نہ تھی کہ مسلمان کا.فر حلیف قبیلے کی وجہ سے معاہدہ توڑ دیں گے۔ نبی ۖ نے کا.فر قبیلے بنوخزاع کیساتھ زیادتی پر بھی معاہدہ توڑ دیا تو مشرکین مکہ کے سردارابوسفیان نے مدینہ جاکر معاہدے کو قائم رکھنے کی بڑی منت سماجت کی۔ ابوبکر، عمر ، علی اور فاطمہسے بھی سفارش کی درخواست کی لیکن نبیۖ نے بات نہ مانی ۔ یہ بنوخزاع کا.فر کے حق کی خلاف ورزی کا معاملہ تھا۔

مضبوط اور اچھے اقدار معاشرے کے ماضی ،حال اور مستقبل کی عکاس ہوتی ہیں۔ نبیۖ کی بعثت سے پہلے اہل مکہ نے حلف الفضول میں غریبوں اور مظلوموں کی مدد کا معاہدہ کیا تھا اسلئے کہ جب حالات بگڑتے جا رہے تھے تو ان میں اپنے ماضی کے اقدار کو باقی رکھنے کا زبردست احساس پیدا ہوا تھا۔ جب اسلام کی شکل میں نئے دین نے کعبہ سے بھرے ہوئے بتوں کے خلاف آواز بلند کی تو مشرکینِ مکہ کو انتہائی ناگوار لگاتھا لیکن مضبوط اقدار کی وجہ سے مسلمانوں پر ایک دَم ہلہ بول دینے کی ہمت نہیں کرسکتے تھے۔ نبیۖ سے سخت نفرت ہوگئی تھی ۔اللہ نے فرمایا: قل لااسئلکم علیہ اجرًا الا مودة فی القربیٰ ”کہہ دیجئے! میں تم سے اپنے مشن کا معاوضہ نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت”۔یہ قرابتداری،ایک قوم، ایک زبان، ایک شہر اور آپس کی رشتہ داریوں کی محبت کے بارے میں تلقین تھی کہ اور کچھ نہیں مانگتا لیکن اس فطری محبت کا خیال رکھ لو۔ اگر مشرکینِ مکہ میں کچھ شرپسند عناصر نہ ہوتے تو نبیۖ مکہ سے ہجرت نہ کرتے۔ ان شرپسندوں اور دہشت گردوں نے نبیۖ کی ذات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کرلی تھی۔ ہجرت کی رات جب علی نے نبیۖ کے بستر پر رات گزاری تو نبیۖ کو پتہ تھا کہ علی سے ان کی کوئی غرض نہیں ہے۔ جب فاروق اعظم نے ان بزدلوں کو چیلنج کیا کہ میں اعلانیہ ہجرت کررہاہوں، ہے کوئی جو اپنے بچوں کو یتیم اور بیگم کو بیوہ بنائے؟۔ ابوجہل جیسوں کے دروازوں تک پر دستک دی تھی۔

قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ وماقدروا اللہ حق قدرہ ” اورا نہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسے اس کی قدر کا حق تھا”۔ بنی اسرائیل پر بیشمار نعمتیں اللہ کی طرف سے کی گئیں لیکن وہ ان نعمتوں کی قدر نہیں کرسکے۔ انبیاء کرام کی بعثت سے فرعونوں کے ظلم سے بچایا۔ معاشرے میں امن وامان کی نعمت سب سے بڑی دولت ہے۔ مشرکینِ مکہ میں جب اپنی فطری اقدار کا توازن بگڑ گیا تو سب سے پہلے حلف الفضول کے ذریعے ان کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ پھر نبیۖ کے ذریعے پہلے آزمائش کا شکار کیا اور پھر خوف کے بعد امن کا تحفہ دے دیا تھا۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ظلم کی حکومت میں اللہ نے حضرت ابراہیم اور حضرت موسٰی کے ذریعے نمرود اور فرعون کا مقابلہ کیا۔اور حضرت یوسف کے ذریعے مصر کے بادشاہ اور عزیز مصر کی اصلاح فرمائی۔رسول اللہۖ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے اور قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔

ہماری ریاست پہلے بھی امریکہ کی بادل ناخواستہ حمایت اور دہشتگردی کے ماحول کا سامنا کرچکی ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے پرویزمشرف کی طرف سےIMFسے جان چھڑانے کے بعد پھر اس دلدل میں خود کو آہستہ آہستہ پھنسادیا۔ پرویزمشرف نے6ارب ڈالر کا سودی قرضہ لیا تھا۔ زرداری نے16ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ نوازشریف نے چین کے سی پیک کی مد میں اتنا پیسہ لیا تھا کہ اگر وہ چاہتا توIMFکا قرضہ مزید بڑھنے نہیں دیتا لیکن چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں بڑے میاں سبحان اللہ شہبازشریف اور میاں نوازشریف نے پنجاب حکومت اور پاکستان کی مرکزی حکومت کو سودی قرضوں میں غرق کردیا۔IMFکے قرضے کو بھی30ارب ڈالرتک پہنچایا۔ عمران خان نے کہا تھا کہ مرجاؤنگامگرIMFسے قرضہ نہیں لوں گا۔ پھر موت کے کنویں میںموٹر سائیکل پر چکر لگاکر ساڑھے تین سالوں میں قرضہ48ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ اتنی بڑی دلدل میں پھنسنے کے بعدیہ کہنا کہ ”ہمیں غلامی قبول نہیں ہے” اس سے بڑی حماقت کیا ہوسکتی ہے؟۔
امریکہ نے افغا.نستان اُسامہ کی تلاش میں تباہ کیا تھا، پھر عراق پر جھوٹے الزامات لگاکر حملہ کیا اور عراق کی مقامی عدالت کے مقامی جج سے صدام حسین کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا۔ لیبیا پر بھی اٹیک کیا اور عراق ولیبیا کا تیل لوٹ کر لے گیا۔ خیبر پختونخواہ کی زمین میں بہت ذخائر ہیں۔ اگر پختونخواہ ہی میں ایسے مل لگ جائیں کہ چین خام مال منتقل نہیں کرنا پڑے تو پورا پاکستان اس کے ذریعے خوشحال ہوسکتا ہے اور خیبر پختونخواہ بھی جنت کی نظیر بن سکتا ہے۔ مولوی اور فوجی طبقہ جتنی زیادہ مشقت بھی اٹھاتا ہے لیکن ان کی قربانیاں ان کی کم عقلی اور مفاد پرستی کی وجہ سے ہی رائیگاں جاتی ہیں۔

افغا.نستان کے طا.لبان اور پاکستان کے حکمران مشترکہ طور پر ایک خلیفہ کی بیعت اور نامزدگی کا اعلان کردیں جو کھلے عام خلافت کا فریضہ اور شریعت کے نفاذ کیلئے لوگوں میں تبلیغ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس سے معاشرے کی فضاء اسلامی حوالے سے بہت بہتر ہوجائے گی۔ اگر امریکہ ڈرون سے اس کو نشانہ بھی بنالے تو مسئلہ نہیں دوسرا نامزد کردیں۔ اس طرح بیس افراد کی قربانی ہوجائے تو اکیسواں فرد خلافت کے قیام اور فریضے میں کامیاب بھی ہوسکتا ہے۔ بیعت کیلئے بہت لوگ بھی تیار ہوجائیں گے۔ جب میدان جنگ میں سپہ سالار جھنڈے بھی گرنے نہیں دیتے تھے تو مسلمان خلیفہ کی نامزدگی کے فریضے کیلئے قربانی کیوں نہ دیںگے؟۔ خلیفہ اعلان کرے کہ ہم مکی دور میں ہیں، ہم نے مزاحمت نہیں کرنی ہے توامریکہ کتنے ڈرون مار کر کتنوں کو شہادت کے منصب پر سرفراز کرے گا؟۔
شہادت ہے مطلوب ومقصود مؤمن
اقتدار کی خرمستیاں اور نہ کشورکشائی

پاک فوج کے اعلیٰ افسران شہید ہوگئے لیکن قوم کو کچھ نہیں ہوا۔ غم میں برابر کی شرکت ضروری تھی،اگر مریم نواز کو حادثہ پیش آتا تو قوم میں بھونچال پیدا کیا جاتا؟۔ بینظیر بھٹو کی شہادت پر سندھ کھپے کا نعرہ لگانا واقعی بہت ضروری تھا۔ ہم تو کرایہ کے بھاڑے سے اب لیڈر شپ پیدا کرنے اور ختم کرنے کے چکر میں ہی رہتے ہیں، پنجاب میں میت پر بین بجانے کیلئے کرائے کی عورتیں دستیاب ہوا کرتی تھیں اور اب ہماری بعض سیاسی پارٹیوں نے بھاڑے کے صحافیوں کو کردار سونپ دیا ہے۔ بدمعاشی اور زبردستی مسلط ہونے کے جذبات الگ ہیں۔

خلیفہ کی بیعت کے بعد خلیفہ قوم میں حقیقی جمہوری اقدار کیلئے راستہ ہموار کرے۔ کوئی بھی مسجد کا امام یا کوئی اچھے لوگ اپنی بیٹھک سے ابتداء کریں اور کسی کے ہاتھ پر بیعت کریں کہ ہم جھوٹ نہیں بولیںگے۔ اقتدار کیلئے اپناعہدہ طلب نہیں کریںگے۔ طاقت اور مال کمانے کے چکر میں اس بیعت سے نہیں پھریںگے۔ کسی پر بہتان نہیں باندھیں گے۔ گالیاں نہیں دیں گے۔ حرام خوری نہیں کریںگے۔ اچھائی پر تعاون اور برائی سے عدم تعاون کے پابند ہوں گے۔ اسی کی باتوں پر بیعت لینے کے بعد کثرت رائے اور ووٹ سے کسی کو امیر مقرر کریں گے۔ پھر یہ سلسلہ یونین کونسل، ڈسٹرکٹ کونسل ، صوبائی اور قومی اسمبلی کی حدوں تک بڑھائیں اور عوام کے اندر سے قیادتوں کو ابھار کر مضبوط بنائیںگے تو حقیقی جمہوریت کا راستہ بھی ہموار ہوجائے گا اور اقتدار کے مروجہ طریقے پر بھی کوئی اثر نہیں آئے گا لیکن عوام کی حقیقی رائے سے نہ صرف اصل قیادت سامنے آئے گی بلکہ لیڈر شپ کی غلط وکالت اور اخلاق باختہ رویوں کا بھی خاتمہ ہوگا۔

آسمان سے اصلاح کیلئے فرشتہ نہیں آئے گا۔ قوم کے اچھے لوگوں نے ہی اس سیلاب کا راستہ روکنا ہے جسکے عوام وخواص ، غریب وامیر اور کمزوروطاقتور سبھی شکار ہورہے ہیں۔ ورنہCIAاورIMFخطے کو جنگ وجدل کا میدان پھر سے بنادیں گے اور اس مرتبہ پنجاب اور سندھ کے علاوہ ریاست اور حکمرانوں کا بھی پتہ صاف ہوجائے گا۔ حضرت یوسف نے انتہائی حکمت عملی کیساتھ مصر کی حکومت کو قحط سالی اور غریبوں کو ظلم سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ آج ہم ریاست اور امریکہ سے لڑے بغیر اس خطے کو معاشی مشکلات سے نکال لیں تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔ محسود جیسی عظیم قوم پوری دنیا میں کہیں بھی آج نہیں ہے اسکے اقدار کو طا.لبان اور ہماری ریاست نے تباہ کردیا لیکن اس میں ان کی اپنی غلطیوں کا بھی بڑا عمل دخل تھا۔ ان غلطیوں کو نہ دوہرانے کا عزم ہی انقلاب اور ہمارے معاشرے کی اصلاح کیلئے عظمت کی بہترین بنیادیں فراہم کرتا ہے۔

ایک طرف خلیفہ کی بیعت اور دوسری طرف دنیا کے جمہوری نظام سے وابستگی اور جمہوری طریقے سے اقتدار کا قیام امت مسلمہ کے ممکنہ مفادات میں سب سے بڑا مفاد نظر آتا ہے۔ شرعی خلیفہ کی تقرری کے بعد دہشت .گردی کی بنیاد پر انقلاب کا راستہ نہیں اپنایا جائے گااور جمہوریت سے مطلق العنان بادشاہت کا تصور ختم ہوگا۔ خلافت عثمانیہ بھی خاندانی لیڈر شپ تھی اور اس کے زیر سایہ مغلیہ سلطنت بھی خونی ڈکٹیٹر شپ تھی۔ اورنگزیب بادشاہ نے اپنے بھائیوں کو قتل اور باپ کو قید کیا اور فتاویٰ عالمگیری میں یہ دستور لکھوادیا تھاکہ ”بادشاہ پر قتل، چوری ، زنا وغیرہ کی حد نہیں لگے گی”۔جبری حکومتیں خلافت کیلئے مقدمہ ہیں ۔ خلافت راشدہ کے بعد امارت وبادشاہت کے ادوار تھے۔ جبابرہ عربی میں ہڈی جوڑنے کی پٹی کو کہتے ہیں۔ جمہوریت اور جبری حکومتوں میں بھی عدالت کے ذریعہ انصاف نہیں ملتا ہے لیکن مرہم پٹی کردی جاتی ہے۔ احادیث میں جبری حکومتوں کے آخر میں ایک خلیفہ کو جابر کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور یہ اس کا لقب بھی ہوسکتا ہے اور اس لقب کی وجہ جبری طرز عمل کی جگہ مرہم پٹی کے کام والا لگتا ہے۔ جس کے بعد دوسرے کئی ناموں کا ذکر ہے۔ عربی میں ایک سوشل میڈیا کا چینل اسلام ایچ ڈی (ISLAM HD)کے نام سے ہے اس میں مہدی آخری امیر سے قبل کئی خلفاء اور ادوار اور درمیان میں مختلف فتنوں کا ذکر ہے۔

آخر میں محسود قوم کیلئے وزیرستان کی پشتو زبان میں کچھ اشعار ہدیہ ہیں۔
اوال خالقے ویل چے ماسید قوم ڈیر لابا غڑائی دائی
ویس ویائی چے نن ماسید قوم ڈیر بے غڑائی دائی
پہ ژواندی کشے دائی ژوان دائی او پہ مڑکشے دائی مڑائی دائی
پارین پہ دنیا کشے لاکا غاٹ مانگور او نن دائی پڑائی دائی
ڈیر ہشیور دی دے غیرت نہ ڈاک یونیم سرغنڑائی دائی
شہ خلق او عالمون یے مڑہ کڑل چہ بے غیریاتا چھنڑائی دائی
1: پہلے لوگ کہتے تھے کہ محسود قوم بہت جلد باز اور ایمرجنسی والی ہے۔
2: اب لوگ کہتے ہیں کہ محسود قوم کے اعصاب بہت ڈھیلے ہوگئے ہیں۔
3: زندوں میں اب یہ زندہ ہیں اور مردوں میں اب یہ مرے ہوئے ہیں۔
4: کل دنیا میں ان کی حیثیت بڑے سانپ کی اور آج یہ رسی بنے ہیں۔
5: بہت ہوشیار ہیں اور غیرت سے بھرپور لیکن ایک آدھ بے ننگ ہے۔
6: اچھے لوگوں کو اور علماء کو قتل کردیا یہ کیسے بے غیرت طا.لبان ہیں۔
امریکہ نے ایک نمبر القا.عدہ اور دو نمبر القا.عدہ ، گڈ طا.لبان اور بیڈ طا.لبان کے درمیان اپنی پالیسیاں چلائیں۔ پاکستان میں سرنڈر طا.لبان اور باغی طا.لبان کا بڑا کردار رہا۔ جب لوگوں کو دبانے کیلئے سرنڈر طا.لبان نے بھی اپنا کردار ادا کیا تو باغی طا.لبان کا ان پر کتنا خوف ہوگا؟۔ مٹہ سوات میں بھی طا.لبان کی رٹ قائم ہونے کی خبریں ہیں اوراب وزیرستان میں بھی مہمان طا.لبان کو ٹھہرانے کی اجازت ملنے کی اطلاعات ہیں۔طا.لبان کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جنہوںنے بہت خلوص کے ساتھ امریکہ کے خلاف جہا.د کرکے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اور دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے طا.لبان کے لبادے میں جرائم پیشہ عناصر کا بڑا کردار ادا کیا ہے۔ عوام کو دونوں کے درمیان فرق و امتیاز کا کوئی پتہ نہیں ۔ اسلئے بہتر ہے کہ اچھے اور باکردار طا.لبان اپنے سے بیکار اور بدکردار طا.لبان کو الگ کردیں۔ جب خشک لکڑیوں کو آگ لگتی ہے تو گیلے درخت بھی اس کے ساتھ جل جاتے ہیں۔ موت تک اللہ تعالیٰ توبہ کا دروازہ بند نہیں کرتا۔ جو لوگ مظالم کے مرتکب رہ چکے ہیں وہ خود ہی اپنے جرموں کی سزا کیلئے قوم و ملک کے سامنے خود کو پیش کریں۔ پاکستانی قوم اور پاکستانی ریاست ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے جدا اور الگ تھلگ نہیں ہیں۔ جب اسلامی احکام کی اصلاحات قوم و ملک کے سامنے پیش ہوں گی تو نہ صرف پاکستان کی ریاست بلکہ پوری دنیا کے تمام ممالک اس کا استقبال کریں گے۔ شیطانی قوتوں کی سب سے بڑی چاہت یہ تھی کہ اس خطے میں رہنے والی تمام قوموں کو اس حال پر پہنچایا جائے کہ کسی میں سر اٹھاکر جینے کی ہمت نہ ہو اور اس کیلئے سب سے زیادہ جانے یا انجانے میں طا.لبان دہشت گرد استعمال ہوئے ہیں۔ آج لوگوں کو ان سے کئی طرح کی نفرتیں ہیں لیکن اچھے کردار سے یہ محبت میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔

 

واقعہ کربلا کو سمجھنے کیلئے آج کے شیعہ کوفی اور یزیدی سنی کا ایک آئینہ

واقعہ کربلا کو سمجھنے کیلئے آج کے شیعہ کوفی اور یزیدی سنی کا ایک آئینہ

جب قرآن کی حفاظت اور سورۂ نور کی روشنی کیخلاف آج کی مجلس میں شیعہ سنی بھیگی بلیاں بن جائیں تو کربلا کا واقعہ بھی سمجھ سکتے ہیں!

پنجابی خطیبوں پر پیسے نچھاور کرتے ہیں، اسلئے محفل لوٹنے کی کہاوت ہے، اگر پنجاب ہوتا تو مجلس لوٹنے کا قرعہ میرے ہی نام نکل آتا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
صحابہ کرام و اہل بیت عظام کے نام سے شیعہ سنی کے اختلافات مشہور ہیں، ان میں بنیادی اختلاف قرآن کے لفظی اور معنوی تحریف پرہے۔ دیوبندی مکتب کے قاضی عبدالکریم کلاچی نے اکوڑہ خٹک کے مفتی اعظم مفتی فرید کوخط لکھا کہ ”دارالعلوم دیوبند کے علامہ انور شاہ کشمیری کی ”فیض الباری شرح بخاری” میں ہے کہ” قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہوئی ہے مگر لفظی تحریف بھی ہوئی ہے یا تو جان بوجھ کر کی ہے یا مغالطے سے” ۔اس عبارت میں قرآن کی تحریف کی نسبت کفا.ر کی طرف نہیں ہوسکتی ۔ صحابہ کی طرف قرآن کی تحریف کی نسبت پر میرے پیروں سے زمین نکل گئی اور سر چکرا گیا ”۔ مفتی فرید نے جواب میں لکھا کہ ” فیض الباری علامہ انور شاہ کشمیری کی تقریر نقل کرنے والے نے لکھی ہے”۔

مفتی زر ولی خان نے مجھ سے بالمشافہہ ملاقات میں کہاتھا کہ علامہ انورشاہ کشمیری نے قرآن کی لفظی تحریف کی بات نہیں کہی۔ بیماری کی وجہ سے زیادہ بحث کرنامناسب نہیں تھااور آئندہ نشست کیلئے وقت مانگا تو فرمایا کہ ” چشم ما روشن دل ماشاد،علمی نکات پر بحث کیلئے جب چاہیں آئیں” ۔انکا چند دنوں بعد انتقال ہوا ۔ بریلوی علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر ”تبیان القرآن” میں لکھا کہ ”دارالعلوم کراچی کورنگی سے شیخ انورشاہ کشمیری کا حوالہ دئیے بغیر فتویٰ لیا تو اس پر کفر. کا فتویٰ لگا دیا گیا ہے”۔ میں نے اپنی کتاب ”آتش فشاں” اور ” ابر رحمت ” وغیرہ کے علاوہ اپنے اخبار ضرب حق اور نوشتۂ دیوار میں اس موضوع پر بہت کچھ لکھاہے اور علماء کرام سے اپنی گزارشات کی ہیں۔ مولانا محمد خان شیرانی جب اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے تو قصر ناز کراچی میں مولانا شیرانی، مولانا عطاء الرحمن اور قاری محمد عثمان سے بھی اس موضوع پر بات ہوئی تھی۔

شیعہ پر پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے بڑے مدارس نے کفر. کا فتویٰ لگایا ۔ مولانا محمد منظور نعمانی نے االاستفتاء میں تحریف قرآن کے عقیدے کا تفصیل سے ذکر کیا جس کا جواب جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی نے دیا۔ جس پر بڑی تعداد میں مشہورمدارس کے تائیدی دستخط ہیں۔ سپاہ .صحابہ کے علماء اور جوانوں نے قربانیاں دیں۔ مولانا حق نواز جھنگوی شہید جمعیت علماء اسلام ف پنجاب کے نائب صوبائی امیر تھے۔جمعیت کے پلیٹ فارم سے شیعہ کا.فر کا نعرہ نہیں لگاتے تھے۔ متحدہ مجلس عمل کو شیعہ سنی اتحاد کی ضرورت پڑی تو جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی سے اتحاد کا فتویٰ لکھنے والے مفتی شاہ فیصل برکی تھے جو ہمارے شہر کانیگرم شہر جنوبی وزیرستان کے ہیں۔ میں نے فتوے پراخبار میں تبصرہ کیا تھا اور اس پر مفتی شاہ فیصل برکی بات کرنے کیلئے میرے پاس کبیر پبلک اکیڈمی جٹہ قلعہ علاقہ گومل ضلع وتحصیل ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان تشریف لائے تھے لیکن دو رنگی پر مجھے مطمئن کرنے کی کوشش میں وہ ناکام ہوئے تھے۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں ہمارا سپاہ .صحابہ سے پھڈا ہواتھا تو انکے پیچھے دیگر علماء اور جماعتوں کا کردار تھا۔ سپاہ صحابہ والے نے پوچھا کہ شیعہ کا.فر ہیں یا نہیں؟۔ میں نے پوچھا، کیوں؟۔ اس نے کہا کہ وہ تحریفِ قرآن کے قائل ہیں!۔ میں نے کہا کہ قرآن کی تحریف کا قائل سنی ہو تو وہ بھی کا.فر ہے۔ طے یہ ہوا کہ دیوبندی مکتب ڈیرہ اسماعیل خان و ٹانک کے اکابر علماء کی میٹنگ ہوگی ۔پھر ایسی فضاء بنادی گئی کہ حکومت نے مولانا عبدالرؤف امیر جمعیت علماء اسلام ضلع ٹانک اور سرپرست اعلیٰ مولانا فتح خان پر دوماہ تک ڈیرہ اسماعیل خان آمدپر پابندی لگادی اور16MPOکے تحت میری گرفتاری کا حکم جاری کردیا۔ یہ الگ داستان ہے اور پھر قاضی عبدالکریم کلاچی نے اپنے مولانا شیخ محمد شفیع کو خط لکھ دیا کہ ” جس شخص عتیق گیلانی کی آپ تحریری اور جلسۂ عام میں حمایت کرتے ہیں اسکے متعلق مہدی کی بات مسئلہ نہیں ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امت کا اجماع ہے کہ شیعہ کا.فر ہیں اور اس اجماع کا یہ شخص قائل نہیں اور اجماع کا انکار گمراہی ہے۔ جمعیت علماء اسلام ف کے اکابر علماء اگر اس کی تائید کرتے ہیں تو یہ لوگ قادیانیوں کا بھی استقبال کریںگے۔ مجھے اپنے شاگرد ہونے کے ناطے آپ سے گلہ ہے۔ جس کے جواب میں شیخ مولانا محمدشفیع نے میری حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا لیکن جن پر قاد.یانیت کے استقبال کا فتویٰ لگایا وہ خط پر بھی فتوے کی طرح ”الجواب صحیح ” لکھ کر دستخط کرچکے تھے۔قاضی عبدالکریم کیخلاف میری حمایت میں مولانا عبدالرؤف نے لکھا کہ ” اپنی بھونڈی حرکتیں چھوڑ دو” اور پھر قاضی صاحب مولانا عبدالرؤف سے معافی مانگنے انکے پاس پہنچ گیاکہ ہمارایہ فتویٰ غلط تھا۔

میں نے جواب میں لکھ دیا تھا کہ ” آپ کے اپنے بھائی قاضی عبداللطیف ملی یکجہتی کونسل کے صوبائی امیر ہیں۔ جس کا شیعہ سے معاہدہ ہے کہ ایکدوسرے کی تکفیر نہیں کریںگے اسلئے پہلا نشانہ اپنا بھائی ہے اور حرم کے حدود میں کا.فر کا داخلہ ممنوع ہے اسلئے سعودی عرب کے حکمرانوں پر بھی یہ فتوی لگتاہے”۔

علامہ عابد حسین شاکری نے یہ وضاحت کی کہ ”ہم تحریف قرآن کے قائل نہیں اور جو تحریفِ قرآن کا قائل ہے وہ کا.فر ہے” ۔جب میں نے واضح کردیا کہ تم عام محفلوں میں کچھ مؤقف اور مدارس کے ماحول میں کچھ اور مؤقف پیش کرتے ہو۔مولانا سلیم اللہ خان کا حوالہ بھی دیااور درس نظامی میں اس سے زیادہ وضاحت کیساتھ قرآن کی تعریف میں تحریف کا عقیدہ پڑھایا جاتاہے جہاں ”المکتوب فی المصاحف سے مراد لکھی ہوئی کتاب نہیںبلکہ یہ نقش کلام ہے اور اس پر حلف بھی نہیں ہوتا المنقول عنہ نقلًا متواترًا سے غیر متواتر آیات نکل گئیں جن میں خبراحاد اور خبر مشہور کی آیات ہیں اور بلاشبة سے بسم اللہ نکل گئی اسلئے کہ درست بات یہی ہے کہ بسم اللہ قرآن کا جزء ہے لیکن اس میں شبہ ہے”۔

ابن ماجہ میں ہے کہ رجم اور رضاعت کبیر کی دس آیات رسول اللہۖ کے وصال کے وقت بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوگئیں۔ بخاری میں ہے عبداللہ بن مسعود ناراض تھے کہ جمع قرآن میں ان کوکیوں شریک نہیں کیا گیا؟۔ حقائق کی روشنی میں جامع مسجد درویش صدر پشاور ، اہلحدیث ،قاری روح اللہ سابق صوبائی وزیر مذہبی اموراور مولانا نورالحق قادری سابق وفاقی وزیرمذہبی امور وغیرہ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ تحریف قرآن کے مسئلے پر اکٹھے ہوجائیں اور مجھے بھی دعوت دیںاور قرآن کے واضح احکام کی طرف رجوع کے مسئلے پر نشست رکھیں اور احکامِ قرآن کے واضح مسائل اور عظمت قرآن سے لوگوں کومتفقہ آگاہ کریں۔

شیعہ سنی اس پر الجھتے ہیں کہ کس نے امام حسین کیساتھ دھوکہ کیا اور کس نے امام حسین کو شہید کیا لیکن اس نشست سے شیعہ سنی نے یہ ثابت کیا کہ قرآن کے حقائق کی روشنی میں طاغوت کے خلاف دونوں نے اکٹھا نہیں ہونا ہے بلکہ اپنے پیٹ اور اپنی جیب بھرنے سے ہی ان کا سروکار ہے اور بس!۔شیعہ سنی کے تمام شدت پسندوں کو یہ کھلا پیغام ہے کہ جذباتی پن کا نقصان دونوں طرف کے مخلص لوگوں اور بے گناہ عوام کو ہی پہنچتاہے۔ شیعہ اقلیت کی وجہ سے پاکستان کی سر زمین پر تقیہ اختیار کرتے ہیں اور سنی اکثریت کی وجہ سے بدمعاشی پر اترتے ہیں۔ بنوامیہ ، بنوعباس اور سلطنت عثمانیہ کے ادوار میں بھی یہ کھیل جاری رہاہے لیکن جب افہام وتفہیم سے مسائل حل ہوجائیںگے تو پاکستان کی سرزمین سے طرزِ نبوت کی خلافت کے قیام میں بالکل بھی کوئی دیر نہیں لگے گی۔ اور مجھے یقین ہے کہ شیعہ بھی دلائل کی بنیاد پر اپنے غلط عقائد سے دستبردار ہوں گے۔

اگر قرآن کانفرنس میں سنی شیعہ علماء میں تھوڑی سی بھی ایمانی غیرت ہوتی تو کھل کر میری حمایت کرتے لیکن جس طرح میڈیا میں میچ فکس ہوتے ہیں، اسی طرح علماء ومفتیان کی مجالس میں بھی میچ فکس ہوتے ہیں۔ قوم پرستوں پر قومی میڈیا میں غیر اعلانیہ پابندی ہے لیکن ان کوBBCاوروائس آف امریکہ پر بڑی کوریج ملتی ہے۔ ہم حقیقی اسلام اور انسانیت کے درست نظام کی بات کرتے ہیں اسلئے فیس بک بھی ہماری محنتوں پر پانی پھیرتا ہے ۔BBC، وائس آف امریکہ اور قومی میڈیا میں ہم پر غیراعلانیہ پابندی لگائی گئی ہے۔ یہی حال سبھی کا دِکھتاہے۔

شیعہ کوفی +یزیدی سنی
کوفے کا پشاور میں جب منظر دیکھا
کربلا کے آئینے میں تب شمر دیکھا
دربار میں حسین کا کٹا سر دیکھا
امام باڑے میں یزید کا خنجر دیکھا
ضربِ حق سے باطل کو کھنڈر دیکھا
رونق میں بھی فضا کو بنجر دیکھا
سورۂ نور سے شریروں کا ڈر دیکھا
خرقہ پوش ایک ایک گداگر دیکھا
بڑے بڑوں کو پسینے میں تر دیکھا
کھدڑوں کو اچھا نہ لگا کہ نر دیکھا
بھیڑ بھیڑئیے کا نکاح سرِمنبر دیکھا
لگڑ بھگوں میں دھاڑتا شیر ببر دیکھا
مردہ ضمیروں کا مندر دیکھا
سبطِ حسن کا بڑا جگر دیکھا
شیعہ سنی اکابر کا اللہ اکبر دیکھا
حسین سے عمرسعد کو معتبر دیکھا
قرآن اور راہِ حق سے مفر دیکھا
سنی شیعہ کو خلاف حق برابر دیکھا
قرآن سے کھلے عام ہجر دیکھا
پیٹ پوجا کا بس بڑا لنگر دیکھا
ایمان اسلام سے کھلا غدر دیکھا
فرقہ پرستوں کا پورا ٹبر دیکھا
رسول ۖ کو صادق مخبر دیکھا
آسماں تلے ائمہ مساجد کو بدتر دیکھا
فتنہ فروش خناس کا جبر دیکھا
مذہبی لباس میں زباں کا شر دیکھا
عوام کو حقائق سے بے خبر دیکھا
بھیس بدلے ابلیس کو مضطر دیکھا
ڈھینچو ڈھینچو کرتا ہوا خر دیکھا
دیوبند بریلی وہابی شیعہ لشکر دیکھا

اسلام کے نام پر مرغن کھانے اور لفافے وصول کرنے والے کچھ تو قربانی دے دیں۔

اسلام کے نام پر مرغن کھانے اور لفافے وصول کرنے والے کچھ تو قربانی دے دیں۔

جہادِ ہند کے خواہشمند قرآن کی واضح تعلیم کا ایک ائیرکنڈیشنل ہال میں ساتھ نہیں دے سکے تو کیا قتا.ل وجہا.د کیلئے اپنے آپ کو قربان کرنے کیلئے پیش کرنا اتنا آسان ہوگا؟۔ ذرا سوچئے تو سہی

اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نازل کیا اور میزان کو بنایا۔ انسانیت میں میزان کی فطرت موجود ہے اور قرآن ومیزان کی باہمی مطابقت سے آج عالم انسانیت میں بہت بڑا اسلامی انقلاب برپا ہوسکتاہے!

پشاور کانفرنس میں شریک نہ ہوسکنے والے عالم دین پیر طریقت جے یوآئی کے رہنما نے شاہ وزیر کو بتایا کہ شاکری صاحب ایران کا پیسہ خود کھا جاتے ہیں اور ہمیںچند ہزار کا لفافہ تھماتے ہیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
سنی وشیعہ مکاتبِ فکر حقیقت ہیں۔ محترم قبلہ ایاز چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل، مولانا نورالحق قادری ، علامہ عابد حسین شاکری و دیگرحضرات کی جرأت وہمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ اس فورم پر شرکت شدت پسندی کے خلاف عدل واعتدال اور شرافت کی دلیل ہے ۔ یہ حضرات پشاوردارالخلافہ خیبرپختونخواہ کی مقدس زمین پر ہدایت کے ستارے ہیںاور انکے دَم سے امن وامان ہے لیکن
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

حسنات الابرار سیئات المقربین ”نیک لوگوں کی اچھائیاں مقربین کی برائیاں ہوتی ہیں”۔ مقرب لوگوں کو مخالفین کیساتھ شریکِ جرم تصورکیاجاتا ہے۔ اس مارا ماری کا علاج یہ نہیں ہے کہ اپنے اورپرائے عقائدونظریات کے جرائم پر پردہ ڈالا جائے بلکہ سب سے پہلے اپنی کمزوریوں کا اعتراف کیا جائے اور دوسرے کو بھی اچھے انداز میں آئینہ دکھایا جائے۔ ان کمزوریوں کو اجاگر کرنے کے نتیجے میں نہ صرف اپنی اصلاح ہوگی بلکہ شدت پسندی کا خاتمہ بھی ہوسکے گا۔

میں نے اس کا نفرنس میں دو بنیادی نکات کو اٹھایا۔ ایک قرآن کی حفاظت اور دوسرا ہندو عورت کی گستاخی کے حوالے سے سورۂ نور کے ذریعے سے دنیا میں ازل سے ابد تک مساوات کا ایک اعلیٰ ترین اور سب کیلئے قابل قبول قانون۔ میں نے جو عرض کیا وہ اس شمارے میں وضاحت سے شامل ہے۔ میری تائید کی جگہ بھرپور مخالفت کی فضاء قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ مقصود سلفی کو چاہیے تھا کہ اعلان کرتا کہ قرآن کی حفاظت کیخلاف اگر احادیث ہیں تو سب سے پہلے ہم اہلحدیث انکے انکار کرنے کااعلان کرتے ہیں۔ ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہیں تاکہ انکا پوسٹ مارٹم کیا جاتا۔منتظم احسان اللہ محسنی نے ہندو عورت کی مذمت کا اعلان کچھ اس انداز سے کیا کہ گویا میری وجہ سے یہ مجلس شریکِ جرم نہ بن جائے۔ دلیل کی بات کا جواب دلیل سے دینا چاہیے اور جب شیعہ پر اپنی مجالس میں غلط خوف قائم ہو تو وہ ائمہ اہل بیت پر کوئی درست مؤقف نہیں پیش کرسکتے ہیں۔ درویش مسجد کے مولانا نے قرآن کی حفاظت کے مسئلے کو کسی کی ذاتی تحقیق تک قابلِ گرفت نہیں سمجھا لیکن یہ ذاتی تحقیق کا مسئلہ نہیں۔ اس پر درسِ نظامی میں پڑھایا جانے والا قابلِ گرفت نصاب ہے۔ سورۂ نور کے ذریعے پہلے انقلاب آیا تھااور آج بھی طاغوتی نظام کا خاتمہ سورۂ نور کی مساوات کے نظام سے ہوگا لیکن اس کیلئے مردانہ جرأت وہمت اور پرزور انداز میں ابلاغِ عامہ ضروری ہے۔

اہل تشیع نے اپنے جامعہ شہید پشاور کی ویب سائٹ پر کانفرنس کی مجھ سمیت بہت سی تقاریر کو دینے میں عار محسوس کی۔ علامہ عابد حسین شاکری جرأت کا مظاہرہ کریں اور تمام تقاریر ویب سائٹ پر دیں۔ شیعہ سنی جراتمندانہ تقاریر یا تعصبات کا جائزہ لیںگے تو فرقہ واریت کی آکاس بیل سے اُمت مسلمہ کی جان چھوٹ جائے گی۔ کربلا کے واقعہ میں ویڈیو نہیں تھی لیکن آج ایک نعمت اللہ نے عطاء کی ہے اور اس کا فائدہ اٹھانے کیلئے ہم سب کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔

حضرت علی نے دارالخلافہ مدینہ سے کوفہ منتقل کیا۔ کوفہ میں شیعان علی تھے۔ امام حسین مدینہ میں تھے۔ کوفیوں نے خطوط لکھ کر بلایا تھا، جب حالات بدل گئے توانہوں نے آنکھیں پھیر لیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کا بیٹا عمر سعد لشکرِیزید کا قائدتھا۔ امام حسین نے عمر سعد سے کہا تھا کہ انعام واکرام کے چکر میں شہید کردوگے تواپنی آخرت کیساتھ دنیا میں بھی انعام سے محروم ہوگے۔ جب حسین کو شہید کرکے یزید کے دربار میں امام حسین کے سر کو پیش کیا گیا تو یزید نے انعام کے بجائے ڈانٹا۔ حسین کے سرکویزید نے مخاطب کیا کہ ”اگر آپ میرے مقابل نہ نکلتے تو اس انجام کو نہ پہنچتے ”اور اپنی تلوار سے آپ کے دانت بھی کٹکٹائے۔

تاریخی واقعات پر اتفاق اور تضادات ہیں لیکن کوئی یہ بات سمجھنے کیلئے تیار نہیں کہ اس دور میں مسلمانوں نے اس طرح کھل کر حق کی مخالفت کیسے کی تھی؟۔ آج ایک طرف د.ہشتگردوں کے مظالم اور دوسری طرف شیعہ کی دعوت پر عظمتِ قرآن کانفرنس کے آئینے میں تاریخی حقائق سمجھنے کی ضرورت ہے۔شاعرنے کہا:

جراحات السنان لہا التیام ولایلتام ما جرح اللسان
” تلواروں کے زخم کیلئے مرہم ہوتا ہے مگرزبان کے زخم کا مرہم نہیں ہوتا”۔ اس کانفرنس میں سامعین سے داد وتحسین لے سکتا تھا لیکن نرم ونازک لوگوں کو مشکلات کی گھاٹیوں میں دھکیلنے کیلئے جان بوجھ کراس موضوع کا انتخاب کیا جس سے خرقہ پوشوں میںایمان کا بجھتا دیا جلے۔ انقلابی انسان کو بلبل کے ترانے اور کوئل کے راگ سے زیادہ دلچسپی قومی مفادسے ہوتی ہے جس سے اجتماعی زندگی کا گہرا تعلق ہے۔ عالمی طاقتیں شیعہ سنی کو لڑانے اور نابود کرنے کے چکر میں ہیں اور اس حال میں ہمارے لئے مشکل فیصلے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں۔ قرآن مردہ ضمیرفرقہ فروشوں کی شجرہ خبیثہ پر اکاس بیل نہیں ڈالتاہے بلکہ دنیا میں شجرہ طیبہ کے پھلدار درخت کے ذریعے انسانوں کو حیاتِ نو فراہم کرتاہے۔

اسلام کو کفار نہیں مسلمانوں سے خطرہ ہے۔ قرآن کہتاہے کہ دوسروں کے خداؤں کو برا بھلا مت کہو،پھر وہ تمہارے الٰہ برحق کو برا بھلا کہیں گے۔ جب ایک مسلمان نے ایک ہندو عورت کے سامنے اسکے مذہب کی توہین کی تو اس نے جواب میں کہا کہ ” میرا منہ مت کھلواؤ۔6سال کی عمر میں نکاح اور9سال کی عمر میں شادی کی بات جانتی ہوں”۔ جب میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے توہین رسالت کا جذبہ ابھارا گیا تو بھارت میں مسلمانوں نے احتجاج شروع کردیا۔ اس عورت کو حکمران جماعت نے اپنی پارٹی سے نکال دیا، اس کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ عورت نے کہا کہ اگر اس بات کی سزا سرتن سے جدا ہو توپھر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بھی یہ بات کی اس کو بھی سزا دی جائے۔ مسلمانوں کا احتجاج جاری رہا تو حکومت نے ان کی سخت مار پیٹ کی۔ انکے گھر گرائے اور احتجاج پر قابو پالیا۔ مغرب اور دنیا بھر کے طاقتور ممالک مسلمانوں کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں اور اب حال ہی میں القاعدہ نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں خود .کش. حملوں کا اعلان بھی کردیا ہے اور امریکہ نے اپنے ذرائع سے اس کو کنفرم کیا ہے۔

پتہ نہیں القا.عدہ نے یہ اعلان کیا بھی ہے یا امریکہ اس خطے میں اسلام سے د.ہشت پھیلانے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے چکر میں ہے؟۔ اگر سورۂ نور کی آیات کے احکام کا پیغام دنیا میں عام کردیا جائے تو اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کی جگہ دنیا میں محبت کا دم بھرا جائے گا۔ یہود ونصاریٰ کی ایکدوسرے سے شدید نفرت تھی۔ اسلام آیا تو یہودی خواتین سے نکاح کی اجازت دی گئی جو عیسیٰ پر ولدالزنا اور مریم پر بدکاری کی تہمت لگاتے تھے۔ عیسائی خواتین سے بھی نکاح کی اجازت دی گئی جو حضرت عیسیٰ کو خداکا بیٹا اور حضرت مریم کو خدا کی بیوی اور تین خداؤں کے قائل تھے۔ اسلام کا دنیا سے شدت پسندی ختم کرنے میں بنیادی کردار رہاہے لیکن مذہبی طبقات اپنی دکانیں چمکانے میں مصروف ہیں۔

رسول اللہۖ کو طائف میں پتھر کھاکر لہولہان ہونے سے اتنی اذیت نہ پہنچی جتنی حضرت عائشہ صدیقہ پر بہتان عظیم لگانے سے پہنچی لیکن اسکے باوجود قرآن نے بہتان لگانے والوں پر80،80کوڑے لگانے کی سزا کا حکم نازل کیا۔ اگر کسی عام جھاڑو کش عورت پر بہتان لگایا جائے تو اس کیلئے یہی سزا کا حکم ہے۔ بہتان سے عورت کو اذیت ملتی ہے ۔80کوڑوں کی سزا علاج ہے۔ کوڑے امیر غریب کیلئے یکساں سزا ہے۔ ہتک عزت کے قانون میں کروڑوں، ا ربوں کے جرمانے لگانا معقول سزا نہیں ہے اسلئے کہ امیر کیلئے زیادہ رقم بڑی سزا نہیں ہے اور غریب کیلئے کم رقم بھی بڑی سزا ہے۔ اگر پاکستان میں آئین کی پاسداری کی جاتی اور امیر غریب کیلئے قرآن کے مطابق اس سزا کو نافذ کردیا جاتا تو طاغوت کا نظام اپنے انجام کو پہنچ جاتا لیکن ہمارے ہاں جب تک عوامی مقبولیت یا ریاستی بیانیہ کی پشت پناہی حاصل نہ ہو تو روایات کے خلاف چلنا غیرضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں مجھے غلط روئیے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مجھے اس پر گلہ نہیں بلکہ خوشی ہے کہ تاریخی حقائق کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔

کچھ اشعار احادیث صحیحہ کے آئینے اور فرقہ واریت کے ناسور کو واضح کرنے کیلئے لکھ دئیے۔ شیعہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ امام حسین سے ہمارا اکابر طبقہ کیسے انحراف کرسکتا تھا؟۔ اس محفل میں شیعہ کے کردار سے ان کی مجبوری کو واضح کیا گیا ہے جو انکے اکابر سے بھی سرزد ہوئی تھی۔ جب کسی پر مشکل پڑتی ہے تو دوسرے کی مشکل کو سمجھنے میں دیر نہیں لگاتا۔ جبکہ سنی علماء کو بھی آئینہ دکھانا مقصد ہے کہ قرآن اور سورۂ نور کے احکام سے ان کی کتنی ہمدردیاں ہیں؟۔ ان کا ضمیر بتائے گا کہ کیا کرنا چاہیے تھا اور کیا انہوں نے کیا؟۔ مولانا نورالحق قادری نے تقریر شاید اس وجہ سے نہیں کی کہ اگر حق کا ساتھ نہیں دے سکتے تو مخالفین کی صفوں میں بھی شامل نہ ہوں، جن لوگوں نے تذکرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور ان کی ہمدردی ہمارے ساتھ تھیں تو وہ بھی لائق تحسین ہیں۔ رسول اللہۖ نے دین کو سمجھ کر اس کی کھل کر ہاتھ، زبان اور دل سے حمایت کرنیوالوں کو السابقون میں شامل فرمایا ہے اور دوسرا درجہ ان لوگوں کا رکھا ہے جنہوں نے اللہ کے دین کو پہچانا اور اس کی زبان سے کھل کر حمایت بھی کی اور تیسرا درجہ ان لوگوں کا رکھا ہے جنہوں نے اللہ کے دین کو پہچانا اور کسی سے دین کی خاطر محبت رکھی اور کسی سے نفرت رکھی لیکن یہ سارے معاملات چھپائے رکھے۔ ان کیلئے بھی خوشخبری ہے۔ محفل میں اکثریت ان لوگوں کی ہی معلوم ہورہی تھی جن میں صدر مجلس علامہ عابد شاکری ،ڈاکٹر قبلہ ایاز ، مولاناسیدالعارفین، مولانامحمد طیب قریشی اور حفیظ الرحمن بھی شامل تھے لیکن دوسری طرف جل بھن کر بیان دینے والے حق کی مخالفت پر کمر بستہ نظر آتے تھے جن میں منتطم مجلس علامہ احسان اللہ محسنی ، درویش مسجد کے مولانا اور علامہ مقصود سلفی کے علاوہ سنا ہے کہ قاری روح اللہ مدنی بھی شامل تھے اور ان لوگوں کو دلیل کیساتھ سامنے آنا چاہیے۔ ہمارا اخبارنوشتۂ دیواران کیلئے حاضر ہے۔

بعض قارئین یہ سمجھتے تھے کہ اخبار میں درسِ نظامی کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جارہاہے لیکن قرآن کے خلاف یہ درست کیسے ہوسکتاہے؟۔ مولوی اکثر اپنی کتابوں کو سمجھ کر علماء نہیں بنتے۔ ہمارے دور کے اساتذہ اللہ والے تھے جو ہماری حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ آج حالات بدل گئے۔ مدارس کے علماء وطلبہ کی ایک اچھی خاصی تعداد حقائق کو سمجھ چکی ہے۔ وہ وقت دور نہیں کہ مدارس و مساجد سے اسلامی انقلاب کا آغاز ہوگا۔ کالج و یونیورسٹیوں کے اساتذہ و طلبہ بھی شانہ بشانہ ہوں گے۔ ہماری ریاست کا موجودہ ڈھانچہ مکمل ناکام ہوچکا۔ تاہم افراتفری سے ریاست کا موجودہ پسماندہ ڈھانچہ بھی بہت بہتر ہے۔ تمام ریاستی اداروں میں مخلص لوگ موجود ہیں لیکن وہ اندھیرے میں کھڑے ہیں۔ جب اسلام کی درست روشنی پھیل جائے گی تو اندھیرا خود بخود ختم ہوجائے گا۔ کانفرنس کے دن مجھے تھکاوٹ کی وجہ سے جلدی جانا پڑا تھا۔ کانفرنس کے آخر میں اس موضوع پر مزید وضاحت اور غیرت دلائی جاسکتی تھی لیکن تحریر دیکھ کر بھی فضا بدل سکتی ہے۔

اصل معاملہ فرقوں کا نہیں اسلام کی سربلندی کا ہے اور اس کیلئے فرقہ پرستی کو قربان کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ فرقہ پرستی سے فرقہ پرستوں کو روزی روٹی مل جاتی ہے لیکن دنیا کا نظام نہیں بدل سکتا ہے۔ جب اسلام کے ذریعے دنیا کا نظام بدل جائے گا تو عزت والی روزی فرقہ پرستی کے بغیر ہی ملے گی۔

ISI چیف جنرل ظہیرالاسلام نے ریٹائرڈ ہوکر کہا کہ”75سالوں سے ہماری پریکٹس جاری تھی لیکن اچھے حکمران نہیں لاسکے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے بعد ہم نے تیسری پارٹی کو آزمایا اورPTIسب میں بہتر ین ہے”۔

قومی اسمبلی میں میاں ریاض حسین پیرزادہ نے2020کے بجٹ اجلاس میں جو تاریخی خطاب کیا تھا وہ بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ انہوں نے شکایت کی کہ سیاستدانوں کو بدنام کیا جاتاہے کہ نوکریاں دی ہیں لیکن اگر ہم نوکریاں بھی نہیں دیںتو اور کیا کرینگے؟۔ دریاؤں کے بیچنے سے لیکر ملک وقوم کوخسارے میں ڈالنے والے فوجی جرنیل ہیں۔ میرے باپ کو گولی ماردی گئی مجھے بھی گولی ماردی جائے گی۔ زمینداروں کو بدنام کرکے ان کی سیاسی بساط لپیٹ دی گئی اور اب وہ جنرل ہیںجو فرنٹ لائن پر لڑکر ترقی کرگئے ہیں لیکن چولستان میں زمینوں اور اس کے پانی پر جنرلوں اور کرنلوں کا راج ہے۔ محافظ تھانیدار بن گئے اور زبردستی سے غریب لوگوں کے ٹریکٹر چھین رہے ہیں اور لوگوں کو ڈنڈے مارے جارہے ہیں، جس سے فوج عزت نہیں کمارہی ، ہمیں اپنے علاقے میں غلام بنا دیا گیا ۔ بجٹ عوام کو دھوکہ دینے کا ڈرامہ ہے۔ کاشتکاری تباہ ہو توملک ترقی نہیں کرسکتا ہے۔

;

قرآن کی تعلیم احادیث صحیحہ سے متصادم نہیں اور فقہ سمجھ کا نام ہے جو ہدایت دیتا ہے۔

قرآن کی تعلیم احادیث صحیحہ سے متصادم نہیں اور فقہ سمجھ کا نام ہے جو ہدایت دیتا ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

فقہ حنفی میں قدوری کے مصنف کا درجہ فقہی حساب سے کنزالدقائق، ہدایہ اور درسِ نظامی میں فقہ کی دوسری کتابوں کے مصنفین سے بڑا ہے۔ قدوری میں فرض نماز وں کا ذکر ہے اور جن نمازوں کو سنت سمجھا جاتاہے ان کو قدوری میں نوافل لکھا گیا ہے۔ فرض نماز پڑھنا اللہ کا حکم ہے اور فرض نمازوں کی رکعتوں اور طریقہ کار کی ادائیگی کا نام سنت ہے۔ اگر نبیۖ کی سنت نہ ہوتی تو پھر فرض نماز کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں تھا۔ اسلئے اللہ نے قرآن میں بار بار فرمایا ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور اسکے رسول کی اطاعت کرو۔ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ” جس نے رسول کی اطاعت کی تو بیشک اس نے اللہ کی اطاعت کی”۔ اللہ کے احکام پر عمل کرنا سنت رسول ۖ ہے۔ نبیۖ نے نمازوں میں کبھی رفع یدین کیا ہوگا اور کبھی نہیں کیا ہوگا لیکن نمازوں کی رکعتوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

فقہ وسمجھ کے اعتبار سے صحابہ کرام میں بھی اختلاف تھا۔ تیمم سے نماز پڑھنے کے اختلاف کا ذکر صحیح بخاری میں حضرت ابن مسعود اور حضرت ابوموسیٰ اشعری کے حوالے سے موجود ہے۔رسول اللہ ۖ نے ایک سفر سے واپسی پر حضرت عمر سے فرمایا کہ ” غسل واجب ہوا تھااور نماز پڑھنا چھوڑ دی تو بہت اچھا کیا ”۔ اور حضرت عمار سے فرمایا کہ ” غسل میں تیمم کیلئے سارے جسم کو مٹی میں لوٹ پوٹ کرنے کے بجائے وضو کی طرح دو ضرب کافی تھے کہ صرف چہرے اور ہاتھوں پر مسح کرلیتے”۔ ابن مسعود نے حضرت عمر کے مؤقف کو ہی درست سمجھ رکھا تھا اور ابوموسیٰ اشعری نے حضرت عمار کی بات کو صحیح سمجھ رکھا تھا۔

مولانا مناظر احسن گیلانی نے ‘تدوین فقہ” میں شاہ ولی اللہ کے حوالے سے اس اشکال کا ذکر کیا کہ ” جب نبی کریم ۖ نے حضرت عمار سے فرمایا کہ تجھے وضو کی طرح تیمم کرکے نماز پڑھنا کافی تھا ‘تو پھر حضرت عمر نے کیوں اس بات کو تسلیم نہیں کیا بلکہ یہ واضح طور پر کہا کہ عمار کی حدیث اس کے منہ پر پڑے۔ یہ بات بہت قابلِ تعجب ہے کہ حضرت عمر نے حضرت عمار کی بات تسلیم کرنے سے کیوں انکار کیا؟۔ اور اس سے زیادہ تعجب اس بات پر ہے کہ نبیۖ نے حضرت عمارکی طرح حضرت عمر پر یہ معاملہ کیوں واضح نہیں فرمادیاتھا؟”۔

شاہ ولی اللہ نے برصغیرپاک وہند میں عوام وخواص کو فقہ کی جگہ قرآن وسنت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اہم کردار ادا کیا ہے اور فقہاء کے بارے میں لکھا ہے کہ ” بہت سارے بات کو سمجھنے کی کوشش کرنے کی جگہ پر ایک ایسے قول کو گدھوں کی طرح مضبوطی سے جبڑوں میں پکڑلیتے ہیں جس کی کوئی بھی اہمیت نہیں ہوتی ہے”۔ پھر دوسرے علماء ومفتیان کے کیا حالات ہوں گے؟۔

حالانکہ قرآن وسنت میں کوئی تضاد نہیں۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ” نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم سمجھوجو تم کہہ رہے ہو اور نہ جنابت کی حالت میں مگر جو مسافر ہو یہاں تک کہ نہالو”۔ اس آیت میں واضح ہے کہ جنابت میں نماز پڑھنامنع ہے مگر مسافر کو اجازت ہے یہاں تک کہ نہالیا جائے۔ اللہ نے نماز پڑھنے سے نہائے بغیر روکا ہے مگر مسافر کو نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے۔

حضرت عمر نے اپنی فطرت کے مطابق گنجائش کا فائدہ اٹھایا اور سفر میں نماز نہیں پڑھی اور حضرت عمار نے اپنی فطرت کے مطابق اس گنجائش کا فائدہ اٹھایا اور نماز پڑھ لی۔ آیت میں نماز پڑھنے کا حکم نہیں ہے بلکہ نماز پڑھنے کی مسافر کیلئے گنجائش رکھی گئی ہے۔ دونوں صحابہ کرام نے اپنے اپنے طبائع کے اختلاف سے اللہ کے حکم پر درست عمل کیا۔ نبیۖ نے بھی توثیق فرمائی۔ قرآن وسنت، صحابہ کرام کے عمل میں تضاد نہیں بلکہ تطبیق ہے۔ آج بھی بعض لوگ سفر کی حالت میں جنابت کی وجہ سے نماز نہ پڑھیں تو مسئلہ نہیں اور اگر کوئی تیمم کرکے پڑھ لیتے ہیں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ بعید نہیں کہ دعوت اسلامی و تبلیغی جماعت کے افراد حضرت عمارکی طرح نماز پڑھیں اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکن حضرت عمر کی طرح نماز نہ پڑھیں۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے تقلید کو چوتھی صدی ہجری کی بدعت قرار دیا۔ جس پر دیوبندی بریلوی اکابرتقسیم ہوگئے۔ اگر پیٹ پوجا نہ ہوتو سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ یوٹیوب پر شیخ ابوحسان اسحاق سواتی صحابہ پر بھی انکار حدیث و قرآن کا فتویٰ نہ لگادیں۔ جاہلوں سے ایک طرف حضرت عمر وابن مسعود اور دوسری طرف حضرت عمار وابوموسیٰ اشعری پر منکر حدیث وقرآن کا فتویٰ لگانے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

بریلوی مولانا نے ” بہارشریعت ” میں لکھ دیا کہ غسل اور وضو وغیرہ کے فرائض ظنی ہیں۔ دلیل کیساتھ ان کا انکار کرنا درست ہے لیکن دلیل کے بغیر ان سے انکار کرنا گمراہی ہے۔احناف کے نزدیک غسل کے 3 فرائض ہیں۔ منہ بھر کر کلی کرنا۔ ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا اور ایک مرتبہ بدن پر پانی بہانا۔ شافعی مسلک میںپہلے 2فرائض سے اتفاق نہیں۔ انکے نزدیک وضو کی طرح غسل میں بھی کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا سنت ہے۔ امام مالک کے نزدیک جب تک مل مل کر جسم نہیں دھویا جائے تو پانی بہانے سے غسل ادا نہ ہوگا۔

کسی ایک فرض پر بھی اتفاق نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جس آیت میں اللہ نے وضو کا حکم دیا ہے تو اسکے بعد فرمایا کہ وان کنتم جنباً فطھروا ” اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہوتو خوب پاکی حاصل کرو”۔ قرآن میں اللہ نے واضح کیا تھا کہ جنابت سے غسل کرنا ہوگا اور وضو کے مقابلے میں نہانا اچھی طرح سے پاکی حاصل کرنا ہے۔ قرآن کے احکام میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ وضو اور غسل دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ وضو میں چند اعضاء دھوئے جاتے ہیں، سر پر مسح کرنا ہے اور غسل یا نہانا پورے جسم کا ہوتا ہے۔ یہ مبالغہ بہت ہے۔ صحابہ کرام دورِ جاہلیت میں نہانا جانتے تھے، تمام اقوام اور مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کیلئے نہانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ چرندے ، پرندے اور وحشی درندے بھی نہانا جانتے ہیں۔ حضرت عمر نے اسلام قبول کرنے سے پہلے قرآن کے اوراق مانگے تو آپ کی بہن نے نہانے کا کہہ دیا۔ حضرت عمر کیلئے نہانا کوئی نئی بات نہیں تھی۔

نبیۖ اور صحابہ نے غسل اور وضووغیرہ کے فرائض ایجاد نہیں کئے تھے۔ فرائض کی ایجاد وبدعت صحابہ ، تابعین، تبع تابعین کے بعد کی کہانی ہے۔ فقہ کے ائمہ کی طرف بعد والوں نے مسائل منسوب کئے۔ جب پچکاری لگانے کا مسئلہ آیاتو سوال پیدا ہوا کہ معدے تک پانی پہنچا تو روزہ ٹوٹے گا یا نہیں؟۔ پھر بگڑتے بگڑتے بات یہاں تک پہنچی کہ بریلوی علامہ شاہ تراب الحق قادری نے نماز جمعہ کی تقریر میں کہا کہ ” روزے میں پاخانہ کیا تو اسکے ساتھ ایک آنت کا سرا نکلتاہے جو پھول نما ہوتا ہے۔ پھول کو دھونے کے بعد کپڑے سے سکھایا جائے اور اگر کپڑے سے سکھائے بغیر یہ پھول اندر گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ پورا زور لگاکر اس کو مقعد کے اندر جانے سے روکا جائے۔ورنہ روزہ ٹوٹے گا”۔پھر بعد میںدعوت اسلامی کے مفتیوں نے سوشل میڈیا پر دھوم مچائی کہ” استنجا ء کرتے وقت سانس روکی جائے ورنہ پانی اندر جائے گا اور روزہ ٹوٹ جائیگا”۔

مولوی خوش ہوتے ہیں کہ کوئی انوکھی بات بتائیں لیکن پھر عوام کو عملی طورپر بھگتنا پڑتا ہے۔ علامہ شاہ تراب الحق قادری کے مرید نے پوچھا کہ پہلے روزوں کا کیاہوگا؟۔اور اس پر عمل بس سے باہر ہے اسلئے کہ آنت کو کنٹرول رکھنا ممکن نہیں۔ علامہ شاہ تراب الحق نے بھگادیا کہ میرا کام مسئلہ بتانا تھا باقی تم جانو اور تمہارا کام جانے۔ پھر ہم نے اپنے اخبار ضرب حق میں اس کا پوسٹ مارٹم کیا اور بریلوی مکتب کے علماء کرام نے بھی ہماری تائید اور اس مسئلے کی تردید کردی تھی۔ طلاق کے حوالے سے اس سے زیادہ عجیب وغریب مسائل گھڑے گئے ہیں۔

میرے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر پرنسپل جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری کراچی وصدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے ہماری تحریک کی تائید میں لکھا کہ” اس امت کی اصلاح اس چیز سے ہوگی جس سے اس امت کی پہلے دور میں اصلاح ہوئی تھی”۔اور امام مالک کے قول کا حوالہ دیا ۔ جب تک ہماری تعلیم کی اصلاح نہ ہوگی تو علماء ومفتیان ایک دوسرے سے لڑتے رہیں گے۔ سر کے مسح پر اختلاف ہے۔ مسلک حنفی میں سر کا ایک چوتھائی مسح وضو میں فرض ہے۔ مسلک شافعی میں ایک بال کے مسح سے فرض ادا ہوگا۔ مسلک مالکی میں ایک بال رہ جائے تب بھی فرض ادا نہیں ہوگا۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا : وامسحوا برء وسکم ” اور مسح کرو اپنے سروں کا”۔ حنفی مسلک کے نزدیک حرف ”باء ” الصاق کیلئے ہے۔ ہاتھ سر پر رکھ دیا تو مسح ہوجائیگا اور یہ ایک چوتھائی ہے۔شافعی مسلک میں باء سے مراد بعض ہے ۔ مالکی مسلک میں باء زایدہ ہے۔ عوام وخواص ان بکھیڑوں میں پڑنے کے بجائے تقلید کرنے لگے لیکن اگر ذرا غور کرتے تو تیمم میں یہی جملہ ہے لیکن اس میں سروں کی جگہ چہروںکا ذکر ہے۔ وامسحوا بوجوھکم باء کے حوالے سے اگر یہ خود ساختہ اختلافات درست ہوتے تو پھر تیمم میں چہروں پر مسح کرنے میںبھی فرائض کایہ اختلاف ہوتا؟۔

اگر اللہ چہرے کیساتھ ہاتھوں کو کہنیوں تک وضو میں دھونے کا حکم دیتے تب بھی سروں کا مسح کرنے کیلئے لوگوں کے ہاتھ خود بخود جاتے۔ علماء و فقہاء نے اپنی طرف سے فقہی مسائل کے بکھیڑے بناکر مسلمانوں کا بیڑا غرق کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں تسخیر غسل، تسخیر وضو اور تسخیر استنجاء کا حکم نہیں دیا تھا۔ نبی ۖ اور صحابہ نے امت کو اس راہ پر نہیں لگایا تھا۔ خلفاء راشدین نے دنیا کی سپر طاقتوں کو مسخر کردیا اور ہم سردی گرمی میں استنجے کے ڈھیلوں کو آگے پیچھے سے گھمانے کی تعلیم دیکر عوام کو ذہنی مریض بنانے کی تسخیر پر لگ گئے حالانکہ قرآن کی کئی آیات میں تسخیر کائنات، تسخیر شمس وقمر، تسخیر بادل اور دیگر چیزوں کی تسخیر کی وضاحت ہے جس پر اغیار نے عمل کرکے دنیا کو اپنے سامنے مسلمانوں سمیت رام کرلیا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ” جو چیز لوگوں کو نفع دیتی ہے تو وہ زمین میں اپنا ٹھکانا بنالیتی ہے اور جو نفع بخش نہیں ہوتی تو جھاگ کی طرح خشک ہوکر اڑ جاتی ہے”۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسرے لوگوں کو نفع پہنچائیں”۔ فقہ میں فرائض اور واجبات کی بدعات ایجاد کی گئی ہیں لیکن وہ جھاگ کی طرح ناپید ہیں اور اغیار نے سائنسی ایجادات کرکے ہمیں بھی سہولیات پہنچائی ہیں۔ علماء منبر ومحراب سے اپنارویہ بدلیں۔ زکوٰة و خیرات ،ہدیات سے حالات کا بدلنا معراج نہیں استدراج ہے۔ اسلام عالم انسانیت کے مسائل حل کرنے کا پہلا اور آخری آپشن ہے۔

قرآن ہدی للمتقین ”پرہیزگاروں کیلئے ہدایت ہے”۔ ہدی للناس ”عوام کیلئے ہدایت ہے”۔فرقوں کے خواص کی مخصوص تراش خراش ہے اور ایک دوسرے کیلئے گمراہ اور ناقابل قبول ہیں جو بالکل درست ہے اسلئے کہ ان میں آج تک قرآن کی رہنمائی سے امام ہدایت پیدا نہ ہوسکا۔ جبکہ قرآن عوام و خواص کیلئے ہدایت ہے۔ جو قرآن کی واضح آیات سے انقلاب لائے وہی امام ہدایت ہے۔ قرون اولیٰ میں خلفاء راشدین قرآن کی وجہ سے سب کے سب امام ہدایت تھے۔ جب یہ اُمت قرآن کو چھوڑ کر روایات اور خرافات میں کھوگئی ہے تو نماز کی ہر رکعت میں صراط مستقیم کی ہدایت کیلئے دعا مانگتے ہوئے بھی اُمت مسلمہ کے عوام و خواص نشے کے بغیر بھی نشے کی حالت میں ہوتے ہیں۔ اسلئے وہ کسی امام مہدی کا انتظار کررہے ہیں۔ کوئی ان کو اس نشے کی حالت سے نکالنے میں کامیاب ہوجائے تو پوری اُمت صاحب ہدایت و مہدی بن سکتی ہے۔ اللہ کرے کچھ تو سمجھے کوئی۔

حنفی مسلک کی کتب میں حرمت مصاہرت کے عجیب و غریب مسائل ہیں۔ درسِ نظامی میں مُلا جیون کی کتاب”نور الانوار” میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ اگر اپنے بچوں یا ساس کو نیند میں یا غلطی سے شہوت کا ہاتھ لگ گیا تو بیوی بیٹی کی طرح حرام ہوجائے گی۔ اگر ساس کی شرمگاہ کو اوپر سے دیکھا تو شہوت میں عذر ہے لیکن اندر سے دیکھا تو بیوی حرام ہوگی۔حنفی اصولِ فقہ میں یہاں تک ہے کہ اپنی بیوی سے ایک اولاد پیدا ہوجائے تو اصولی طور پر وہ بیوی بھی شوہر پر اسکے بعض کا جزء ہونے کے سبب سے حرام ہوجاتی ہے لیکن ضرورت کے تحت حلال قرار دیا گیا ہے۔

ایک طرف عجیب و غریب قسم کے شرمناک اور بھیانک حرمت مصاہرت کے مسائل لکھے تو دوسری طرف وفاق المدارس پاکستان کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خان نے بخاری کی اپنی شرح ”کشف الباری” میں لکھا ہے کہ ”ایک شخص نے حضرت علی سے کہا کہ میری بیوی فوت ہوگئی اور شادی کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت علی نے کہا کہ مرحومہ بیوی کی بیٹی ہے؟۔ اس نے کہا کہ ہاں! ۔ علی نے پوچھا کہ وہ بیٹی آپ سے ہے یا کسی اور شوہر سے؟۔ اس نے کہا کہ کسی اور سے!۔ علی نے کہا کہ وہ آپ کے حجرے میں پلی ہے یا دوسری جگہ ؟۔ اس نے کہا کہ دوسری جگہ!۔ حضرت علی نے کہا کہ پھر اسی سے شادی کرلو۔ کیونکہ قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ جو تمہارے حجروں میں پلی ہوں ۔ مصنف عبد الرزاق۔ مولانا سلیم اللہ خان نے علامہ ابن حجر کے حوالے سے لکھا کہ اس میں اتنا وزن ہے کہ اگر دوسرا مسلک معروف نہ ہوتا تو اسی پر فتویٰ دیتے۔ جس میں بڑا وزن ہے”۔ قرآن کی آیات کی من گھڑت تفسیری روایات اور اُصول فقہ سے انکے تضادات کا تجزیہ اگر پیش کیا جائے تو مولوی صاحبان میں ذرا بھی شرم ہو تو بیہوش ہوجائیں گے۔

نبیۖ نے فرمایاکہ ” بنی قریظہ میں عصر کی نماز پڑھ لو” صحابہ دیرسے پہنچے تو کسی نے وقت پر نماز پڑھی ،کسی نے قضاء کرلی”۔ بے نمازی کیلئے سزا نہ تھی، پھر بعد میں قتل اور زد وکوب کی سزائیں گھڑی گئیں۔طا.لبان آج پریشان حال ہیں۔
پڑھیں ہم نے نمازیں بہت
مگرہم میں روح محمدی نہ رہی

 

آئی ایم ایف سے قرضہ لیتے جاؤ لیتے جاؤ اور ملک و قوم کو ڈبوتے جاؤ ڈبوتے جاؤ!

آئی ایم ایف (IMF) سے قرضہ لیتے جاؤ لیتے جاؤ اور ملک و قوم کو ڈبوتے جاؤ ڈبوتے جاؤ!

سعودیہ و عرب امارات میں دریا نہیں، سمندر کے پانی کو میٹھا اور جدید سائنسی طریقے استعمال کرکے بڑے پیمانے پر ہریالی اور گندم اگائی گئی ،اپنی ڈفر ریاست نے تباہی مچادی!

ایک روپیہ پٹرول بڑھتاہے تو نوازشریف کے دل میں درد اٹھتاہے۔ مریم نواز۔ جب شہباز شریف نے پٹرول84روپے بڑھایا تو نواز شریف کو2014کے جنرل کا دورہ پڑا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ہماری معیشت پر سودی نظام کے ذریعے قبضہ کیا گیا ۔1989میں پہلی باربینظیر بھٹو دور میںIMFسے قرضہ لیا گیا۔ پھر نام نہاداسلامی جمہوری اتحاد کے نوازشریف نے مزید قرضہ لیا۔ باری باری دونوں جماعتوں نےIMFسے نہ صرف قرضے لئے بلکہ کرپشن میں ایک دوسرے سے آگے نکل گئے۔ مشرف کی حکومت آئی تو2004سے2007تکIMFسے جان چھڑائی گئی۔ مگر پھر2008میں جنرل مشرف نے6ارب ڈالر کا قرضہ لیا۔ زرداری نے اس کو16ارب ڈالر تک پہنچایا اور نوازشریف نے30ارب ڈالر تک پہنچایا۔ عمران خان نے48ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ اب مفتاح اسماعیل سب کے ریکارڈ توڑنا چاہتا ہے۔ عوام پرمہنگائی کا بوجھ اسلئے پڑ رہاہے کہ سودکی مد میں دی جانے والی رقم اب دفاعی بجٹ سے دگنی ہوچکی ہے۔ عوام دفاعی بجٹ کا رونا روتے تھے اور سودی رقم دفاعی بجٹ کے دگنی سے بھی بڑھ جائے تو ہمارا دفاع کن کے ہاتھ میں ہوگا؟۔ جب قومی اثاثے گروی رکھے جائیں گے تو ایسٹ انڈین کمپنی کی طرح ایک دن ہماری قوم، ملک اور سلطنت پھر اغیار کے ہاتھوں میں ہوگی۔

اب 20سال بعد پھر شریعت کورٹ نے سودی بینکاری کو اسلامی بینکاری میں بدلنے کا جو فراڈ فیصلہ کیا ہے وہ بھی بڑا مضحکہ خیز ہے۔ وفاق المدارس عربیہ پاکستان کے سابق صدرشیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان استاذ مفتی محمد تقی عثمانی اورسابق صدر ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے بہت کھل کر اسلامی بینکاری کے نام پر خالص سودی نظام کی شدید الفاظ میں مذمت اور دلائل سے تردید کی ہے لیکن یہ ستم ظریفی ہے کہ پورے پاکستان کے تمام مدارس کے علماء کرام و مفتیانِ عظام نے سودی بینکاری کو اسلام کے نام پر جواز بخشنے کی مخالفت کی تھی لیکن دارالعلوم کراچی اور جامعة الرشید کراچی نے سودی نظام کو حیلے کے ذریعے اسلام کے نام پر جواز بخشا تھا اور اب وفاق المدارس پاکستان سے الگ بورڈ بھی بن گیا ہے تو ایک کا سربراہ مفتی محمد تقی عثمانی اور دوسرے کی سربراہی جامعة الرشید والے کر رہے ہیں ۔ گویا چت بھی حیلہ بازوں کی اور پٹ بھی حیلہ سازوں کی۔اسلامی سودی بینکاری کے ساز باز میں اب شریعت کورٹ بھی شامل ہوگئی ہے۔

سعودیہ اور عرب امارات میں کوئی دریا، نہر،ندی اور نالہ نہیں لیکن وہاں پر سمندر سے کھارا پانی اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کھیتوں کو آباد اور بڑی مقدار میں گندم اگائی گئی ہے۔ہمارے ہاںقدرت کے عظیم نظام سے دریاؤں اور نالوں کا سلسلہ موجود ہے ۔ انگریز دور سے نہروں کا بھی سلسلہ ہے لیکن بہت طریقے سے جنگلات کو کاٹا گیا ہے۔ وزیرستان کے صحافی شفت علی محسود نے جنگلات کی بے دریغ کٹائی پر آواز اٹھائی لیکن ہماری ڈفر ریاست اور حکمران طبقے نے کوئی نوٹس نہیں لیا جس کی وجہ سے ایسا حال ہوگیا کہ کانیگرم بدر کی ندی تک میں پانی ناپید ہوگیا تھا جس کے خشک ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ہم نے تصاویر شائع کی تھیں کہ کس طرح لکڑیاں جلانے کیلئے بٹے بنائے گئے ہیں جس کا کوئلہ بناکر ا.فغا.نستان کے راستے روس سے نوآزاد ممالک میں سمگلنگ کیا جارہاہے؟۔

حال میں تخت سلیمان پختونخواہ سے بلوچستان تک بڑے پیمانے پر جنگل کو آگ لگنا ،بونیر، سوات اور کشمیر کے جنگلات میں آگ لگنا اسی ہوس پرستی کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔ اب ہمارے مقتدر طبقات کوئلے کی اسمگلنگ کرکے چلغوزے اور دیگر جنگلات پر اپنی ذاتی جیبیں بھرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ جب اس ملک سے ہریالی و جنگلات کا خاتمہ ہوگا تو قدرتی خشک سالی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس سازش میں کوئی اور نہیں ملک کے محافظ حکمران طبقات کی ہوس اور نااہلی کی قیمت ہماری نسلیں چکائیں گی۔ جب جنرل ظہیرالاسلام سابقDGISIریٹائرڈ ہوگئے ہیں تو مریم نواز کا پاپا میاں نوازشریف کہتا ہے کہ مجھے2014کے دھرنے میں آدھی رات کو اس نے فون کیا تھا کہ اقتدار چھوڑ کر استعفیٰ دیدو۔ میں نوازشریف کسی کی غلامی نہیں مان سکتا۔ حالانکہ جب وزیراعظم بن کر تمہارا یہ حال تھا تو کیا غلام نیلے پیلے رنگ رنگیلے انڈے دیدتے ہیں؟۔ یہ سیاسی مرغیاں ہمیشہ کڑک رہتی ہیں جب بھی ان کو انڈوں پر بٹھاؤ تو خوش رہتی ہیں لیکن ان کو قومی مفادات سے کوئی غرض نہیں ہوتی ہے۔ چین نے پاکستان کو اہم کانفرنس میں اسلئے نہیں بلایا کہ زرداری اور مولانا فضل الرحمن نے سی پیک کے مغربی روڈ کا افتتاح کیا تھا اور پھر کوئٹہ وپشاور کے مختصر راستے کو چھوڑ کر تحتِ لاہور کو نوازنے کیلئے سی پیک سے شیطان کی آنت بناڈالی۔19ارب ڈالر کی پہلی قسط میں10ارب ڈالربندر بانٹ کی نذر ہوئے اور9ارب ڈالر لگے تھے۔ سی پیک سے ہمIMFسے بھی جان چھڑاسکتے تھے۔ اب اگر دریاؤں میں جگہ جگہ بند بناکر پانی کو ذخیرہ کرنے کا کام کیا جائے اور پھر کالاباغ اور دیگر ڈیم بنائے جائیں جس کے فائدے متعلقہ و متاثرہ عوام کو دئیے جائیں اور اسلامی مزارعت شروع کی جائے تو بعید نہیں ہے کہ سستی بجلی اور سستی اناج سے ملک وقوم کی غربت ختم ہوجائے۔