پاکستان میں ایک حقیقی انقلاب کی سخت ضرورت ہے!!
اداریہ: چوتھا کالم
تحری: سید عتیق الرحمن گیلانی
مریم نواز اور نوازشریف کا انقلاب یہ ہے کہ فوج عمران خان کی حمایت چھوڑ کر ہمارا ساتھ دے تو سب اچھا ہے۔ کچھ بے شرم ، بے غیرت، بے حیا، بے ضمیر اور بکاؤ مال قسم کے صحافی جن میں سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے کئی افراد شامل ہیں وہ فوج کی کردار کشی کرکے نوازشریف کو ایسا پیش کرتے ہیں جیسے بھوسہ سے گندم یا چاول کو نکالا جائے۔ شاہ زیب خانزادہ ، سید عمران شفقت اور راشد مراد وغیرہ کویہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فوج میں جرنیل بدلتے ہیں اور ان کی پالیسیاں بھی بدلتی ہیں۔ ایوب خان ، یحییٰ خان ، ضیاء الحق،اسلم بیگ،وحیدکاکڑ،شیخ جہانگیر،ضیاء بٹ، پرویز مشرف، اشفاق کیانی، راحیل شریف اور قمر جاوید باجوہ سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ نوازشریف وہی نوازشریف ہے بدلا نہیں ہے۔ عدالت کے سامنے پارلیمنٹ کے بیان پر قائم نہیں تھا اور قطری خط سے بھی مکر گیا۔ پیسے لیکر جتنے مرضی تجزئیے پیش کرو لیکن گدھے کو گھوڑا بنانا ممکن نہیں ۔ میڈیا بکاؤ مال بن گیاہے۔
عمران خان وزیراعظم اسلئے بناتھاکہ وہ اداروں کوسدھارنے کی بات کرتا تھا مگر جو تحریک انصاف کو بگاڑگیا وہ اداروں کو بھی بگاڑ رہاہے۔ سندھ پولیس اہلکار نے کارنامہ انجام دیا ،تو وزیراعظم زبان کی حد تک نہ کہتاکہ چومنے کو جی چاہتا ہے بلکہ جس طرح بی بی بشریٰ کے کہنے پر پاک پتن کے مزار پر عملیات کا مظاہرہ کیا اس سے زیادہ حاضری دیکر عمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ انٹریو میں کس قدر تضادات ہیں کہ باپ سے پیسہ نہیں مانگا ، ماں زبردستی سے پیسہ دیتی تھی ،خود کمایا، زندگی بھر پہلی مرتبہ ملک کی خاطر بھیک مانگی جس پر شرمندگی ہے۔ شوکت خانم کیلئے غیرملکیوں سے نہیں اپنوں سے بھیک مانگی۔ عوام اتنی بیوقوف نہیں ہے جتنا یہ لیڈر لوگ سمجھتے ہیں۔
عمران خانی دور میں ریاستی اہلکار رشوت کے ریٹ بڑھا کر کام کرتے ہیں۔ گورنر سندھ، وفاقی وزیرعلی زیدی،صوبائی رہنما علیم عادل شیخ اور سبھی لگے تھے کہ صفدر اعوان پر قائداعظم کے مزار کی بے حرمتی کا مقدمہ درج ہو۔ آخر کار رات گئے رینجرز اور آئی ایس آئی کو بھی استعمال کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آئی جی و پولیس کے اعلیٰ افسران سب چھٹی پر گئے۔ بلاول بھٹو نے آرمی چیف سے احتجاج کیا اور آرمی چیف نے نوٹس لیا۔ پولیس نے اطمینان کا سانس لیا۔ عمران خان اور اس کی حکومت کا یہ حال تھا کہ مفرور ملزم کے نام جھوٹی ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ جو عمران خان خود کو صادق کہتا ہے ،اس کی پوری ٹیم نے جھوٹ بول کر اپنے لئے لعنت کا اہتمام کرلیا۔ پاک فوج کی بھی شلوار اتاردی اسلئے کہ نواز شریف نے کہا کہ” ثابت ہوگیا کہ حکومت کے اوپر کسی اور کی حکومت ہے”۔ پھر شبلی فراز نے کہا کہ پولیس کو اپنی نااہلی پر ایکشن لینا چاہیے۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس تحریک انصاف کی جماعت اور حکومت کا کیا کردار ہے جس نے یہ سارا فتنہ برپا کیا تھا؟۔ اس کا بس چلے تو ابھی مزیدپاک فوج کی قمیص بھی اتارکر ننگا کردے کیونکہ یہ اس کا وطیرہ ہے۔ صحافی صابر شاکر نے گجرانوالہ جلسے کے بعد بتایا تھا کہ حکومت اور فوج کے درمیان اعلیٰ سطح کے اجلاس میں فیصلہ ہوگیا ہے کہ آئندہ ہم نے نمٹناہے اور عمران خان نے منہ پر ہاتھ پھیر کرکہا تھا کہ ایک نیا عمران خان دیکھوگے۔ پھر ایکشن ہوگیا تو عمران خان چھپ کر ایسے بیٹھا جیسے کھڑک مرغی انڈوں پر بیٹھی ہو۔ پھر ایکشن سے لاتعلقی کا اظہار بھی کردیا۔ پشاور ہائیکورٹ میں اس کی بیٹی کو چھپانے کا کیس زیرسماعت تھا، اطلاع کے مطابق اگلی پیشی پر سیٹھ وقار احمد نے فیصلہ کرنا تھا جس کو خاموشی میں کورنا نے نگل لیا۔ علامہ خادم حسین رضوی مولانا سمیع الحق کی طرح مارے نہ گئے ہوں۔ الطاف حسین، نواز شریف کو برطانیہ سے لایا جائے لیکن عمران خان کی بیٹی بھی لائی جائے تاکہ جھوٹے لیڈر عوام کے سامنے ایک دم بے نقاب ہوجائیں۔ صحافیوں کو بھی الٹی سیدھی صحافت کی پرواہ نہیں بلکہ لفافوں سے بھتے وصول کرکے اپنی خدمات انجام دیتے ہیں لیکن ایک بڑا طبقہ بہت اچھے صحافیوں کا بھی ہے اور وہ بالکل غیرجانبدار صحافت کرتاہے۔
ریاست کی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ شروع سے بیکار قیادت سے واسطہ پڑا۔ انگریز کی سول اور ملٹری بیوروکریسی نے بیجا ترقی پائی تو نابالغ مرغے وقت سے پہلے آذان دینے لگے۔ پہلے بھی جمہوریت نہ تھی۔صدر سکندر مرزا کو ایوب خان نے گرفتار کرکے مارشل لاء لگایا تو استقبال مادر ملت نے کیا جنرل ایوب نے جمہوریت کی بنیاد رکھی تو مادرملت فاطمہ جناح مقابلے میں آئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو غیر جمہوری عمل سے اقتدار کی دہلیز پر پہنچے تو اپوزیشن کی قیادت کو پھانسی گھاٹ تک پہنچایا۔ پھر اس ریاست گردی کا شکارہوگئے جس کو آلۂ کار بناکر دوسروں پر راج کیا۔ عدالت نے اپوزیشن قیادت کو چھوڑ کر اسی کو پھانسی دی۔ ریاست نے پھرنوازشریف کو پالا۔ زیادہ دن نہیں ہوئے کہ نوازشریف اور اس کی انقلابی بیٹی کڑک مرغی بن کر خاموشی سے انڈوں پر بیٹھے تھے۔ جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن بھی کردی مگر اچانک کڑک پن ختم ہوگیا اور سیاست کے میدان میں انقلابی بن گئے۔ خدا کا نام مانو،بس کروبس۔
تبلیغی جماعت نے حاجی عثمان کے خلاف شخصیت پرستی کا پروپیگنڈہ کیا لیکن خود صاحبزادگی کا شکار ہوگئی، مولانا انعام الحسن کے بیٹے زبیرالحسن اور مولانا الیاس کے پڑپوتے مولانا سعد کے درمیان کسی ایک کو نامزد کرنے پر جماعت دولخت بننے کے خطرے سے نہیں نمٹ سکتی تھی۔ جو جماعت چند منٹ کے گشت کیلئے امیر بنالیتی ہے وہ اپنا امیر بنانے سے بھی قاصر ہے ، یہ کسرِ نفسی نہیں شیطانی غلبے کی نشانی ہے۔ انصار ومہاجرین اور قریش واہلبیت میں خلافت پر اختلافات اور شدید تحفظات تھے مگر امیر پر متفق ہوگئے۔ ابوسفیان نے حضرت علی سے کہا تھا کہ ابوبکر سے خلافت چھین کر آپ کو حوالہ کرنے کیلئے مسلح جوانوں سے مدد کرسکتا ہوں مگر حضرت علی نے پیشکش حقارت سے ٹھکرادی تھی۔ مولانا فضل الرحمن نے امارت پر قبضہ کرنے کیلئے سیکرٹری جنرل کے عہدے سے چھلانگ لگائی تو حافظ حسین احمد کے خلاف منصوبہ بندی سے عبدالغفور حیدری کو جتوایا۔ جس کا بروقت ہم نے اظہار کیا تھا۔ اب شیرانی صاحب کو بلوچستان کی امارت سے ہٹادیا گیا تو شیرانی کو سازشیں یاد آنے لگیں۔ مولانا مودودی نے بھی میاں طفیل محمد کو منتخب کرواکر جماعت اسلامی کو طفیلی بنادیا تھا۔ پھر سید منورحسن کو ہٹاکر سراج الحق کو طفیلی بن کر اپنا فریضہ ادا کرنا ہے۔
ریاست نے طفیلی سیاستدان بنائے اور سیاسی جماعتوں نے طفیلیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ہر چیز دوسروں پر ڈالنے کی بجائے اپنی خامیوں کا اعتراف کرنا ہوگا۔ مولانا الیاس قادری کے فرانس میں مراکز ہونگے جسکا احتجاجی طریقہ یہ ہے کہ مزید مدرسے بناؤ۔ تحریک لبیک کے کارکن ہم مسلکوں کیساتھ فیصلہ کریں کہ تعلقات خراب کرنے یا مزید بڑھانے ہیں؟۔اگر صحافی عمران خان نے فرانس کی امداد کو بچانے کیلئے ویڈیو بنائی تو یہ زیادہ خطرناک کھیل ہے ۔ قادیانیوں کو پنجاب بدرکیا گیا تو اسرائیل ویورپ میں خوش ہونگے۔پختون ہاتھ صاف کردینگے کہ شاہ نعمت اللہ ولی کی پیش گوئی پر عمل ہوگا لیکن اگر مغربی بارڈر افغانستان سے مشرقی بارڈر کشمیر کیلئے بین الاقوامی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے پنجاب میں فساد کھولا گیا تو بہت خون خرابہ ہوگا۔ یہودی سازشوں سے پہاڑ بھی ہل سکتے ہیں۔ ریاستی اداروں کو حکمت عملی کا بھرپور مظاہرہ کرنا ہوگا ۔قادیانی مذہب کم مافیا زیادہ ہے مگر مسلم فرقوں کا بھی یہی حال ہے۔ اسلام سے ہی پاکستان عالمِ انسانیت کا دل جیت سکتاہے ۔ سید عتیق الرحمن گیلانی