اہل کتاب میں سے اکثروں کی چاہت یہ ہے کہ کسی طرح تم کو ایمان کے بعد کافر بنادیں۔ بسبب اپنے دلی حسد کے، اس کے بعد کہ ان کیلئے حق ظاہر ہوچکا ہے ۔ سو تم درگزر کرو اور خیال میں نہ لاؤ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم بھیج دے۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہےO اور قائم رکھو نماز اور دیتے رہو زکوٰۃ ۔ اور جو کچھ آگے بھیج د و گے اپنے پاس سے بھلائی تو اللہ کے پاس اس کو پاؤ گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ جو کچھ تم کرتے ہو ،سب دیکھتا ہےO اور کہتے ہیں کہ ہرگز جنت میں داخل نہ ہوں گے مگر جو ہوں یہود یا نصاریٰ ۔ یہ ان کی آرزوئیں ہیں ۔ کہہ دیجئے کہ کوئی دلیل لے کر آؤ اگر تم سچے ہوO کیوں نہیں جس نے تابع کردیا اپنا منہ اللہ کیلئے اور وہ نیک کام کرنے والا ہے تو اس کیلئے اسکے رب کے پاس اجر ہے۔ نہ ڈر ہے ان پر اور نہ وہ غمگین ہونگےO اور یہود کہتے ہیں کہ نصاریٰ نہیں ہیں کسی راہ پر اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہود نہیں ہیں کسی راہ پرباوجود یہ کہ وہ کتاب پڑھتے ہیں ۔ اسی طرح کہتے ہیں وہ لوگ جو نہیں جانتے انہی کی طرح بات۔ اللہ فیصلہ کرے گا،قیامت کے دن، ان کے درمیان جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ کی مسجدوں سے روکے کہ اس میں اس کا نام لیا جائے۔ اور کوشش کرے ان کو ویران کرنے میں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ داخل نہ ہوں گے ان مساجد میں مگر ڈرتے ہوئے۔ ان کیلئے دنیا میں ذلت ہے اور ان کیلئے آخرت میں بڑا عذاب ہےO اور اللہ کیلئے مشرق اور مغرب ہے سو جس طرف تم منہ کرو وہاں اللہ کی توجہ ہے ، بیشک اللہ وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے O (سورہ البقرہ : آیات109تا 115)
حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے لوگ خیر کے بارے میں پوچھتے تھے اور میں شر کے بارے میں سوال کرتا تھا کہ کہیں مجھے نہ پہنچ جائے۔ میں نے کہا کہ ہم جاہلیت و شر میں تھے پھر اللہ نے یہ خیر بھیجی۔ کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہے؟ فرمایا کہ ہاں! میں نے کہا: کیا اس شر کے بعد کوئی خیر ہے؟ فرمایا کہ ہاں! اور اس میں دھواں ہے۔ میں نے کہا : اس کا دھواں کیا ہے؟ فرمایا: لوگ میری سنت کے بغیر راہ پر چلیں گے اور میری ہدایت کے بغیر ہدایت اپنائیں گے ، ان میں اچھے بھی ہونگے اور برے بھی۔ میں نے کہا : کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہوگا؟ فرمایا: ہاں! داعی ہونگے جو لوگوں کو جہنم کے دروازوں پر دعوت دینگے جو انکی دعوت قبول کریگا اسکو اس میں جھونک دینگے۔ میں نے کہا : ذرا انکا حال تو بیان فرمائیے۔ فرمایا: وہ ہمارے چمڑے میں ہونگے اور ہماری زبان بولیں گے ۔ میں نے کہا اگر میں انکو پاؤں تو کیا حکم ہے ؟ ،فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور انکے امام سے مل جاؤ۔ میں نے کہا اگر مسلمانوں کا امام ہو اور نہ انکی جماعت تو پھر؟، فرمایا: ان تمام فرقوں سے الگ ہوجاؤ ، چاہے تمہیں درخت کی جڑ چوس کر پناہ لینی پڑے، یہاں تک کہ موت آجائے۔ (مشکوٰۃ، بخاری، عصر حاضر ، مولانا یوسف لدھیانویؒ )
جب سے میں نے اس مسیحی خاتون اسکالر کی یہ تحریر پڑھی ہے مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اسکی تردید کروں تو کس طرح، تائید کروں توکس طرح ؟ ۔ مسیحی خاتون اسکالر لکھتی ہیں ’’امریکی صدر نے دو مذاہب کے مراکز کے دورے کئے ہیں۔ ایک سعودی عرب جو مسلمانوں کا مرکز ہے اور دوسرا ویٹی کن سٹی جو کہ ہمارا ہے۔ ہمارے مرکز سے برداشت اور امن کی بات کی گئی اور ہمارے رہنما نے امریکی صدر کو دنیا میں پائیدار امن کیلئے کردار ادا کرنے کا مشورہ دیا۔ اسلامی دنیا کے مرکز سے عدم استحکام اور بدلے کی بات کی گئی اور امریکی صدر کو جنگوں میں تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی۔ ہمارے مرکز سے دنیا میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں اور اس کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والے مسائل کی نشاندہی کی گئی جبکہ اسلامی مرکز (سعودیہ)سے ایک سو بلین کے ہتھیاروں کاسودا کیا گیا اور وہ ہتھیار دوسرے اسلامی ملک پر استعمال کے غرض سے خریدے گئے۔ ہمارے مرکز سے غربت کے خاتمے اورسماجی انصاف کی ضرورت پر زور دیا گیا جبکہ اسلامی مرکز سے امیروں کو امیروں نے امیرانہ تحائف دینے کے باوجود اسلامی دنیا میں عدم استحکام ، غربت سے دوچار شہریوں کو بری طرح نظر انداز کیا گیا اور ان کے متعلق کوئی بات نہیں کی گئی جو اسلامی دنیا میں جنگوں سے بری طرح متاثر ہیں۔ کیا یہ فرق وہ ہے جسے آسانی سے نظر انداز کیاجائے؟