جون 2017 - Page 2 of 2 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

جامعہ مدنیہ لاہور کے مولانا رشید میاں سے ملاقات

لاہور( ذکاء اللہ) جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور میں ہم وفد کی شکل میں گئے ۔ مولانا رشید میاں نے کہا کہ ’’پہلے خانوں اور نوابوں کو بھی دین سے دلچسپی تھی ،اسلئے مدارس سے بھی صلاحیت والے علماء ومفتیان نکلتے تھے مگر اب معاشرے کا بالکل کچرا مدارس میں آتا ہے اور صلاحیت والے لوگوں کو سکول کالج میں پڑھایا جاتاہے تو مدارس سے کیا اُمید وابستہ ہوسکتی ہے۔عتیق گیلانی نے جب طلاق اور قرآن کی تعریف کے حوالہ سے مدارس کے نصاب کی نشاندہی کی تو انہوں نے کہا کہ اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بس جو بزرگوں نے کیا ہے اسی پر چلنا ہوگاپہلی بار میں یہ باتیں سن رہا ہوں، دیکھوں گا کہ علماء نے اس پر کیا لکھ دیا ہے۔ از ذکاء اللہ

اداریہ نوشتۂ دیوار(ملکی مافیا کا قومی بیانیہ)

صدر ممنون نے قومی اسمبلی میں کہا ’’ قومی بیانیہ کو پوری قوت سے متحد ہوکر پیش کرنا ہوگا‘‘ مگر قومی بیانیہ ہمارے ٹی وی ٹاک شوز پر مختلف خبروں اور تجزیوں میں بزبانِ حال یہ ہے کہ
اسٹیبلشمنٹ اور انکے کارندے پیپلز پارٹی کو بھارت ، محمودخان اچکزئی کو ایران اور مولانا فضل الرحمن کو افغانستان جبکہ ن لیگ کو امریکہ سمجھتے ہیں۔ زرداری نے 11 سال جیل کاٹی ، 450کھرب کرپشن اور دہشتگردوں کا سہولت کارڈاکٹر عاصم رینجرز کی تحویل میں رہا۔ ن لیگ نے ڈان لیکس میں فوج کو ناکوں چنے چبوادئیے تو اسٹیبلشمنٹ کے رضاکار وں نے کہا کہ اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن ن لیگ کیساتھ ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ امریکہ پاکستان تباہ کرتا تو ایران و افغانستان کو تکلیف ہوتی؟۔ گدھے گدھی کا رومانس بھی جنگ لگتاہے۔
محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کے نزدیک فوج ن لیگ کے ہاتھوں جتنی ذلیل و خوار ہوجائے تو مضائقہ نہیں، اسلئے کہ ن لیگ کی فوج سے امریکہ وپاکستان کی بڑی دوستی ہے۔ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے ۔نام نہادجمہوریت ،عدلیہ اور فوج ایکدوسرے کو ذلیل کرنیکی کوشش کرینگے تو دوسرے تالی بجائیں گے۔ پرویز مشرف اردو اسپیکنگ مہاجر تھا تو گومل ڈیم و تربت ڈیم بنایا ،بھاشاڈیم اور گوادر سی پیک کی بنیاد رکھی ، کراچی گوادر کوسٹل ہائی وے، بلوچستان اور وزیرستان کے دور دراز علاقوں میں ترقیاتی کام کئے، ملک کو قرضوں سے چھٹکارا دلایا ،سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگاکر پاکستان کو عالمی قوتوں سے بچایا۔ اشفاق کیانی پر خود کش حملہ نہ ہوا۔ کرپٹ جرنیل کو میڈیا نے بڑاامیج دیکر پیش کیا ۔ جنرل راحیل شریف نے کرپٹ مافیا کو لگام دینے کی کوشش کی اور فوج کے کردارکوبڑی حد تک بہتر بنایا۔
ن لیگ فوج کو اس حد تک زیر اثر لائی کہ آئی ایس پی آر نے رد الفساد کابیان دیا کہ ’’10 دہشتگرد مارے گئے، 3فوجی شہید ہوئے اور خود کش جیکٹ برآمد ہوئے‘‘۔ تو روزنامہ دنیا میں وزیر داخلہ چوہدری نثار کی بھی خبر لگی کہ ’’واہ کینٹ میں خود کش جیکٹ کیسے پہنچے؟، یہ سب جانتا ہوں مگر ایک ذمہ دار عہدے پر ہونے کی وجہ سے کھل کر بات نہیں کرسکتا ‘‘۔ ڈان لیکس کچھ بھی نہیں اسکے مقابلے میں لیکن کسی نے اس کو نہیں اٹھایا۔ شیخ رشید کو مولانا فضل الرحمن کی حیثیت افغانستان اور محمود خان اچکزئی کی ایران کی لگتی تھی اسلئے کہا اگر ڈان لیکس پر فوج نے قدم اٹھایا تو مولانا فضل الرحمن فوج کیخلاف نہیں جائیں گے، فوج خود لیٹ گئی تو مولانا فضل الرحمن کیا کرتے؟۔قومی بیانیہ کردار سے بنتاہے، گفتار سے نہیں۔
شہباز شریف جسطرح سابق صدر زرداری کو چوکوں پر لٹکانے ، سڑکوں پر گھسیٹنے اور انواع و اقسام کی گالی گلوچ سے نوازتا ، ڈوگر کیخلاف جالب کے اشعارگا کر دستوراور آئین کو نہ مانتا حالانکہ اسکی صوبائی حکومت بیساکھی پر کھڑی تھی تو موجودہ حکومت کے خاتمہ پر نہال ہاشمی اور وزراء کا رویہ کیا ہوگا؟۔ افتخار چوہدری کی عدالت میں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر جنرل اشفاق کیانی کیساتھ پیش ہوا ، جسٹس سجاد علی شاہ پر ہلہ بول دیا، جسٹس قیوم کو خرید لیا ۔ بھٹو کی پھانسی پر جنرل ضیاء کی برسیاں مناتا، اصغر خان کیس میں آئی ایس آئی سے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پر پیسے لئے، تو یہ کونسا مذہب ،نظریہ اور یہ کونسی سیاست ہوسکتی ہے؟۔
ن لیگی رہنما کبھی نہ کہتا کہ’’ آئی ایس پی آر جنرل باوجوہ اب بندوق کی نالی میں رسی ڈال کر صاف کریگا ‘‘ اگر ایجوکیشن آفیسر ڈاکٹر نعیم اللہ باجوہ کی بے عزتی پر ایکشن لیتا۔ ن لیگ کے ایم این اے پرویز خان کورنگے ہاتھوں پکڑلیا تو گلو بٹ سے زیادہ سزا کے لائق ڈاکٹر نعیم اللہ باجوہ کو ڈانٹنے پر عابد شیر علی تھا۔مارشل لاء کے گودی بچے ن لیگ کا وطیرہ ہے کہ انکے گناہوں سے چشم پوشی نہ کرنا بھی جرم ہے، اب یہ جے آئی ٹی اور عدلیہ کیخلاف چیخ و پکار اور دہشت مچائے ہوئے ہیں۔ یہ جمہوری کلچر نہیں مافیا سے بھی بڑا کردار ہے۔
کسی نے آنکھوں میں دھول کیا جھونک ڈالی اب میں پہلے سے بھی بہتر دیکھتا ہوں
قومی بیانیہ یہ ہے کہ عدلیہ نے 2/3سے مہینوں فیصلہ محفوظ رکھ کر عدالت نہیں سیاست کی اور پھر جے آئی ٹی بناکر مریم نوازکا نام نکال دیا۔ پارلیمنٹ کی تقریرکے ثبوت اور قطری خط کے تضادنے وزیراعظم کا احرام کھول دیا۔ کتاب سے صفحات غائب نہ تھے بلکہ جھوٹ کا پلندہ تھا۔ عدلیہ نے روزانہ کی بنیاد پر جو سماعت کی اور فیصلہ محفوظ کرنے کے بعد کافی وقت لگایا، یہ سب انصاف نہیں بلکہ نام نہاد سیاہ غلاف تھا۔ جن کو جے آئی ٹی قبول نہ تھی وہ اس کی حمایت میں آگئے، ججوں سے سوال پوچھا جائے کہ تم نے سیاست کرنی ہے یا عدالت؟، اب تو خواجہ سعد رفیق یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کو سازش اور سیاست قرار دیتاہے۔ یہ بتایا جائے کہ فوج ، عدلیہ اور ن لیگ سب مل کر مافیا کا کردار ادا نہیں کررہے ہیں؟۔ یہ سب آپس میں ایک ہیں، صرف عوام کی آنکھوں میں زیادہ دھول ڈالنے کی ضرورت اسلئے ہے کہ ’’ الیکٹرانک میڈیانے شعور کو بیدار کیاہے‘‘۔ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد اس کا بیٹا اور یوسف رضا گیلانی کا بیٹا اغواء ہوا۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد ڈاکٹر عاصم پر دہشت گردوں کی معاونت کا الزام لگا۔ ذوالفقار مرزا نے عذیر بلوچ کو پالا، زرداری پر الزام لگانے سے پہلے مرزا کو کیوں نہیں پکڑا گیا؟۔پیسوں سے بھری کشتیاں پکڑی گئیں تو پیسے کہاں گئے؟۔ کیا مافیا مل کر اس کو کھارہا ہے؟۔ ن لیگ کی فوج اور عدلیہ کے سائے میں پلنے اور نمک حرامی کی تاریخ رہی ہے۔جلاوطنی کے بعد نوازشریف آیا تورؤف کلاسرانے سکیورٹی فورسز کا لکھ دیا کہ ’’ ایک ڈکٹیٹر کے کہنے پر سپاہیوں نے کتوں کی طرح سابق وزیر اعظم کو گھسیٹا‘‘ ۔ اسوقت کوئی ن لیگی رہنما اور کارکن ائیرپورٹ نہ آیا۔دوبارہ نوازشریف آیا تو نعروں کے جواب میں کہا ’’چپ کرو، تم کہتے تھے کہ نواز شریف قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں مگر مجھے ہتھکڑی پہناکرلیجایا جارہا تھاتو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی بھی نہ تھا‘‘۔بھڑکیاں مارنے والوں نے میاں شریف کا جنازہ بھی نہ پڑھا ۔دھرنے کے موقع پر ن لیگی وزارء پناہ کیلئے حامد میرکے گھر گئے تھے۔ ڈوب مرنے کومیراجی چاہتاہے ، شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
ڈان لیکس کے مسئلہ پر پاک فوج کو فتح کرنے کے بعد عدلیہ اور جے آئی ٹی کے ارکان کیلئے تسلسل کیساتھ جوزبان وزراء استعمال کرر ہے تھے ،جوشیلے مہاجر نہال ہاشمی نے کلمہ پڑھ کر کہا کہ’’ میں نے کسی کو دھمکی نہیں دی‘‘ ۔ اعتزاز احسن نے پارلیمنٹ میں خوب کہا کہ ’’ضرورت پڑتی ہے تو یہ لوگ ٹانگ بھی پکڑ لیتے ہیں،ویسے تکبرو رعونت سے انکے گردنوں میں سریہ ہوتا ہے‘‘۔ ماڈل ٹاؤن میں بندے ماردئیے لیکن غریبوں کو انصاف نہ مل سکا۔ اب طاقتور فوج بھی ڈان لیکس کے معاملہ میں مظلوم عوام کی صفوں میں کھڑی ہوگئی ہے۔
امامت کے قابل بننے سے پہلے قوم کا تزکیہ ہے، پرویزمشرف کا دور تزکیہ میں گزرگیا، فوج کے جونئیر لوگ طالبان کے ہاتھوں شہید ہوتے مگر جواب نہیں دے سکتے تھے اسلئے کہ قوم طالبان کیساتھ کھڑی تھی ، ڈان لیکس کے معاملے پر فوج کے بڑوں کا بھی تزکیہ ہوگیا۔ بلوچستان کی بلوچ عوام، کوئٹہ میں ہزارہ اور دیگر لوگوں کا تزکیہ، قبائلی علاقہ جات و کراچی کی عوام اور عدلیہ کے ججوں کا تزکیہ اوراے این پی کے قائدین وکارکنوں کا تزکیہ، مساجد وامام بارگاہوں کا تزکیہ بھی ہوچکاہے۔ انقلاب کے ذریعہ پنجاب شریف کا بھی تزکیہ ہوگا۔شہباز شریف یہ کہنے کے بجائے کہ سپریم کورٹ صرف ایک شریف خاندان کا احتساب نہ کرے یہ کہتاکہ ’’پہلے ہمیں سڑکوں پر گھسیٹا ،چوکوں پر لٹکایا جائے، دوسروں کی باری بھی آجائیگی‘‘۔
قرآن کو عملی جامہ پہنانے کا نام سنت ہے۔ جس نے رسولﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ اللہ اور اسکے رسولﷺ کی اطاعت سے انقلاب برپا ہوگا۔ سفر میں 2، 3 افرادجارہے ہوں تب بھی ایک کو امیر بنانے کا حکم ہے، نمازکی امامت تربیت ہے، مختلف ممالک کے حکام بھی شریعت کا تقاضہ ہیں۔ حضرت معاذ بن جبلؓ نے پہلے قرآن، پھر سنت اور پھر اجتہاد کے ذریعے فیصلے کا کہا تونبیﷺ نے پسند فرمایا۔ قرآن کو چھوڑ کر احادیث کو مسلک بنایااور احادیث کو چھوڑ کر اجتہادی مسائل کی تقلید کی۔ یہ الٹی گنگا سیدھی کرنی ہوگی۔ گھر کاسربراہ مرد ہوتا ہے لیکن شوہر بیوی اورباپ بچوں کا مالک نہیں ۔ حکمران اوررعایا کے ایکدوسرے پر حقوق ہوتے ہیں۔ جب قرآن و سنت کے مطابق میاں بیوی کے درمیان حکمرانی اور حقوق کا درست تصور پیش ہوگا توملکی معاملات میں بھی حکمران ورعایا کے حقوق کا درست تعین ہوگا اورپھر عالم اسلام ہی نہیں، دنیا کے انسان بھی قرآن کے مطابق طلاق اور خلع کا معاملہ رائج کرینگے۔ علماء کرام علمی حقائق کی طرف توجہ دیں اور جاہلوں سے چھٹکارا پائیں۔ ایجنٹ علماء ومفتیان ، مذہبی سیاستدان اور مجاہدین آخرت نہیں دنیا کے طلبگار ہیں۔

رسول فرمائیگا اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا. القرآن

مسلم امہ کی گراوٹ کا یہ عالم ہے کہ دنیا کی واحد مسلم ایٹمی پاور کے وزیراعظم نوازشریف کو امریکی ٹرمپ کے سامنے چاکری کرنے کا موقع نہ ملنے پر طوفان کھڑا ہوا۔ کل نواز شریف طالبان کیساتھ فوج کے خلاف کھڑا تھاکہ فوج امریکی ایجنٹ ہے پھر ’’رات گئی بات گئی‘‘، قطر کی حکومت امریکہ اور دہشتگردوں کا مشترکہ اثاثہ تھا مگر اچانک عرب نے قطر سے تعلقات منقطع کرلئے کہ دہشتگردوں کا سرپرست تھا۔ حقائق کی سمجھ دیر سے آئی تو بھی یہ المیہ تھا اور اچانک معاملہ بگڑنے پردوسروں کیلئے بھی غیر یقینی کی کیفیت ہے۔جنرل راحیل شریف اور پاکستانی فوج کو چاہیے کہ وقتی طور سے گھمبیر صورتحال میں اُمہ کے مفادکوسامنے رکھیں۔ قیادت خدمت ہے، بچوں کیلئے باہر اثاثے بنانے والے لٹیروں کو عدالت سے سزا ہونے دیں ورنہ قوم تباہ وبرباد ہوجائیگی اور ملک قائم نہیں رہیگا۔نام نہاد لٹیری قیادت کو سزا ملے تو کوئی بھی قیادت کے حصول پرکبھی نہیں لڑیگا۔ سیاسی رہنماؤں نے اپنی وفاداری بدل بدل کر نظریاتی اور کردار کی سیاست کا قلع قمع کردیا ہے ۔میڈیا لوگوں کو مزید بے حسی کی طرف دھکیل رہاہے۔ مدارس و مساجد فکر وشعور ، عمل وکردار اور نظام خلافت کے قیام کیلئے بہترین پلیٹ فارم ہیں۔علماء کو اپنے نصاب، فرقہ وارانہ انتہاپسندی اورصرف پیٹ و جیب کا خیال رکھنے کے بجائے میدان میں متحد ہوکر اترناہوگا۔ بروزِ قیامت رسولﷺ کی قرآن کے بارے میں شکایت قابلِ غور ہے۔ جب تک اس شکایت کا ازالہ کرنے کی کوشش نہ کرینگے تو زوال وپستی سے نہیں نکل سکتے ۔ خواجہ سعد رفیق کا بیان قابلِ تعجب تھا کہ ’’ لیاقت علی خان، حسین سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو اور یوسف رضا گیلانی کیساتھ کیاہوا؟‘‘ نوازشریف کی تاریخ بڑی بھیانک ہے، دُم پر پاؤں پڑنے لگا تو چیخ نکلنا شروع ہوئی۔ علماء و مشائخ صرف اپنے پلیٹ فارم کی اہمیت کو سمجھ لیں اور قرآن وسنت کے منشور کو پیش کردیں تو وہ قائدہیں۔ آزادی کے وقت دو قومی نظریہ کاعلامہ اقبال اور قائداعظم نے قوم کو دیا ، کچھ علماء ومشائخ مسلم لیگ کیساتھ تھے اور کچھ کانگریس کیساتھ۔ آج پاکستان کا نظریاتی وجود بے کردار سیاسی قیادت کی نذر ہوا۔ بھٹو کی طرف سے اسلامی سوشلزم کا نعرہ اسلام تھا اور نہ سوشلزم۔ معجون مرکب ختم ہوا تو سود کیلئے حلالہ کی لعنت ہے۔اسلام منافقت کو جہنم کا پست ترین درجہ دیتا ہے مگر قوم منافقت در منافقت کی شکار ہوئی۔ سیاسی علماء نے بھی آخرت کے خیال کو دل سے نکال کر فیصلہ کرلیاہے کہ اسلام تو ویسے بھی نہ آئیگا، بس اقتدار کیلئے ہر دور میں کسی کا دُم چھلہ بن کر اپنا مفاد حاصل کرنے میں ہوشیارسیاست ہے۔
پاکستان کو نعمت سمجھ کر قرآن کے شعور کیلئے تحریک شروع کی تو عروج کی منزل ملے گی۔ قرآن شبِ قدر میں نازل ہوا، سورۃ القدرکی تفسیر میں مولانا سندھیؒ نے خطہ اسلام کی نشاۃ کا ذریعہ قرار دیکر لکھاکہ: امام ابوحنیفہؒ ائمہ اہلبیت کے شاگرد تھے، اسلئے ایران بھی ہماری ہی امامت قبول کرلے گا،یہ وقت آگیاہے۔
مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی تفسیر’’ مقام محمود‘‘ میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور امامت کیلئے سندھ، بلوچستان، کشمیر، پنجاب، سرحد اور افغانستان میں بسنے والی قوموں کو امامت کا حقدار قرار دینا بڑی بات تھی۔ مولاناسندھیؒ نے قرآن کی طرف متوجہ کرنے کیلئے حنفی مسلک کو بنیاد قرار دیا ہے۔ امام مہدی کے حوالے سے شیعہ سنی اپنے اپنے مسلک کے مطابق ضرور انتظار کریں لیکن قرآن کی طرف توجہ دینے میں آخر حرج کیا ہے؟۔ کیا قیامت کے دن ہمارا مواخذہ اسلئے نہیں ہوگا کہ ہم امام مہدی کے انتظار میں بیٹھے رہے ؟۔ ہرگز ہرگز نہیں۔
اصول فقہ کی شریعت کے چار دلائل ہیں۔ 1کتاب،2 سنت،3اجماع اور4قیاس۔ کتاب سے مراد پوری کتاب نہیں بلکہ 500 آیات ہیں جو احکام سے متعلق ہیں قرآن کی باقی تمام آیات قصے، نصیحت اور مواعظ ہیں۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان500آیات کو اپنے موضوع و ابواب کے حوالہ سے درج کیا جاتا۔ طلبہ کو قرآن کے متن سے بھرپور طریقے سے رہنمائی فراہم کی جاتی مگر افسوس کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ مثلاًصرف طلاق سے متعلق آیات کو ایک باب کے تحت جمع کرکے پڑھایا جاتا تو مسلم امہ گمراہی کی راہ پر گامزن نہ ہوتی۔ قرآن میں ہے کہ رسولﷺ کی اپنی امت کے حوالہ سے یہ شکایت ہوگی کہ انہوں نے قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ طلاق کے حوالہ سے آیات میں کافی وضاحتیں ہیں۔ صرف ان آیات ہی کو دیکھ لیجئے جو طلاق سے متعلق ہیں تو یقین ہوگا کہ اللہ نے سچ فرمایا کہ’’ قرآن ہر چیز کو واضح کرتاہے‘‘۔ تبیانا لکل شئی
امام ابوحنیفہؒ نے علم الکلام میں زندگی گزاری تھی پھر تائب ہوکر فقہ کی طرف توجہ دی تھی۔ اصول فقہ میں یہ گمراہانہ عقیدہ ہے کہ ’’ تحریری شکل میں قرآن لفظ ہے نہ معنی، بلکہ نقشِ کلام ہے‘‘۔ جسکی بنیاد پر فقہی مسئلہ ہے کہ ’’ قرآن کے مصحف پر حلف نہیں ہوتا اور اگر زبان سے کہا جائے کہ قرآن کی قسم تو حلف ہوتاہے‘‘۔ اگر علم الکلام کی موشگافی پڑھانے کے بجائے کتاب کی تعریف میں قرآن کی آیات کے حوالے ہوتے تو دینی مدارس اسلام کی حقیقت کو سمجھنے میں مغالطہ نہ کھاتے۔ اللہ نے فرمایا: الذین یکتبون الکتٰب بایدیہم ’’جو کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں‘‘۔ کتاب جو ہاتھ سے لکھی جائے ۔ پہلی وحی میں قلم سے علم سکھانے کا بتایا ۔ والقلم ومایسطرون ’’ قلم کی قسم اور جو سطروں میں ہے‘‘ کتاب لکھی چیز کا نام ہے، کتابت پر مختلف الفاظ آئے ہیں، فلیکتب کاتب بالعدل’’معاملہ انصاف سے کاتب لکھے‘‘۔ املاء کا بھی ذکر ہے کہ املاء کون کرائے؟۔باربار اللہ نے کتاب کا ذکر کیا ہے، جاہل مشرکین بھی یہ سمجھتے تھے کہ قالوا اساطیر الاولین اکتتبہا بکرۃ واصیلا ’’صبح شام لکھوائے جانیوالے پرانے قصے کہانیاں ہیں‘‘ کتاب کیا ہے؟۔
حنفی مسلک کی بنیادیہ تھی کہ قرآن اور حدیث میں تطبیق ممکن ہو تو تطبیق ضروری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہوسکے تو قرآن کو احادیث سے متصادم قرار دینے سے گریز کیا جائے مگر افسوس کہ اصول فقہ کا پہلا سبق اس اصول کے خلاف ہے۔ قرآن میں نسبی اورسسرالی رشتہ نعمت ہے، اگر لڑکی باپ کی اجازت کے بغیر بھاگ کر شادی کرلے تو رشتہ داری نعمت نہیں زحمت بنتی ہے۔ قرآن کیمطابق نبیﷺ نے فرمایا ’’ جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر شادی کرلی تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے‘‘۔ اس حدیث کو انسانی فطرت کے مطابق سمجھاجا سکتاہے۔ نبیﷺ نے یہ فرمایا کہ ’’ اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کا نکاح اسکی رضاکے بغیر کردے تو یہ نکاح نہیں ‘‘۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ معاشرہ قرآن وسنت کیمطابق ایک اچھے ماحول کا مظاہرہ کرتا۔ حال ہی میں ہمارے علاقہ گومل میں واقعہ پیش آیا کہ برسوں سے وہاں رہنے والے افغانی کوچے نے اپنی لڑکی کی منگنی کسی بوڑھے شخص سے کرادی تھی۔ وہ لوگ اپنی بیٹیوں کو جانوروں کی طرح مال سمجھ کر بیچتے ہیں۔ باقی پٹھانوں میں بھی یہ بے غیرتی پائی جاتی ہے اسلئے اس کو شریعت اور غیرت کے منافی نہیں سمجھا جاتاہے، چنانچہ وہ کوچی لڑکی ایک کم عمر مقامی وزیرستانی کے ساتھ بھاگ گئی۔ کوچوں نے اسکے ردِ عمل میں بڑی تعداد میں جمع ہوکر مقامی بچے کے گھر سے ایک 12سال کی بچی اٹھالی۔ عوام کا بس نہیں چلا تو پولیس کو طلب کیا مگر پولیس نے بھی مار کھالی۔ پھر پاک فوج نے 10منٹ کی وارننگ پر مقامی بچی کو کوچوں سے بازیاب کروایا۔یہ افسوسناک واقعات رونما ہوتے ہیں جو قرآن وسنت سے دوری کا نتیجہ ہیں۔
خاندان کی عزت، غیرت اور تہذیب وتمدن کے روایتی رسوم ورواج اگر اسلام و انسانیت کے بنیادی حقوق اور شرافت کے بالکل منافی ہوں تب بھی لوگ حقائق کی طرف اس وقت نہیں دیکھتے جب انکے ہاتھ میں طاقت ہوتی ہے۔ ایسے کھوکھلے معاشرے کو دنیا میں عروج کا ملنا تو بہت دور کی بات ہے، بسا اوقات ان کی عزت ایسی خاکستر ہوجاتی ہے کہ وہ جیتے جی مرنے سے بھی بدتر ہوتاہے۔ کانیگرم جنوبی وزیرستان میں ایک شخص نے اپنی چچا زاد منگیتر سے منگنی توڑ دی تویہ واقعہ پیش آیا کہ پیر گل اعظم شاہ نے منگنی کرلی۔ لیکن چچازاد کی طرف سے دوبارہ اپنی منگیتر سے شادی کا اعلان ہوا۔ علماء کرام نے بھی کہا کہ ’’یہ غلط ہے منگنی ٹوٹ گئی تھی اور پھر گل اعظم شاہ سے منگنی ہوئی تو یہ نکاح ہے‘‘۔ مگر طاقت کے زعم نے شادی بڑی دھوم سے کروائی۔ پیر گل اعظم شاہ نے کہا:’’ یہ میری شادی کے شادیانے بج رہے ہیں‘‘۔ اور موقع پاکر دلہن کو اٹھایا اور دوبئی پہنچادیا۔ دوسرا شخص ایسا غائب ہوا کہ پتہ نہ چل سکا کہ اسکو کیا ہوا؟، زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا؟۔
طالبان نے ایک کام بڑا زبردست کیا تھاکہ اگر کوئی لڑکی اپنے کزن سے شادی پر راضی نہ ہوتی تو اس کو اسکے اور اسکے گھروالوں کی مرضی سے شادی کرادیتے تھے۔ حالانکہ ایک غیرت مند معاشرے میں یہ گنجائش نہیں ہونی چاہیے کہ گھر والے اور لڑکی راضی نہ ہوں تب بھی غیرت سمجھ کر اسکی مرضی کے مطابق شادی نہ کرنے دیجائے۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے معاشرے کا کردار بڑااہم ہوتا ہے، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمودؒ صوبے کے وزیراعلیٰ رہے، متحدہ مجلس عمل کو حکومت ملی تو کسی عالم دین کو وزیراعلیٰ بنانے کے بجائے اکرم خان درانی کو داڑھی رکھواکر وزیراعلیٰ بنایا گیاتھا۔ جمعیت علماء اسلام ف کے رہنمامولانا مفتی کفایت اللہ نے اے این پی کے دور میں قرار داد پیش کی کہ ’’ پشاور، مردان، چارسدہ، سوات اور صوابی کے پانچ اضلاع میں خواتین کو نکاح کے نام پر بدکاری کیلئے بیچا جارہاہے ، ان پر پابندی لگائی جائے، جس کو پختونخواہ کی اسمبلی نے منظور کیا‘‘۔ اب حال ہی میں سندھ میں رینجرز سے دو خواتین نے بس میں تلاشی کے دوران مدد مانگ لی کہ ان کو بدکاری کیلئے بیچ دیا گیاہے، جس پر میڈیا میں پورے گینگ کی خبر بھی آئی مگر تحریک انصاف نے خبر پر ایکشن لینے کے بجائے سندھ اسمبلی میں یہ آواز اٹھائی کہ ’’ پہلے پنجاب میں پختونوں کو تنگ کیا جا رہاتھا، اب سندھ میں بھی وہی سلوک ہو رہا ہے‘‘۔ ہمارے استاذ مولانا محمد امین ہنگو شاہو وام کوہاٹ نے کہا تھا کہ ’’ اس دور کا مجدد وہ ہوگا جو پٹھان خواتین کو انکے حقوق دلائے‘‘۔
مدارس اپنے نصاب پر غور کرکے پاکستان کو دنیا کا امام بناسکتے ہیں۔اصول فقہ کی پہلی کتاب ’’ اصول الشاشی‘‘ میں پہلا سبق یہ ہے کہ آیت حتی تنکح زوجا غیرہ’’یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرلے‘‘۔ میں عورت کی طرف نکاح کی نسبت ہے۔ حدیث میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کو باطل قرار دیا گیا تو حدیث آیت سے متصادم ہے اسلئے حدیث کو ترک کیا جائیگا، قرآن پر عمل ہوگا۔ حالانکہ قرآن میں طلاق شدہ مراد ہے اور حدیث سے کنواری مراد لی جائے تو قرآن کا حدیث سے ٹکراؤ نہیں۔ مخلوط نظام تعلیم اور دیگر وجوہات کی بنیاد پر ہمارا معاشرہ کروٹ بدل رہاہے، پسند کی شادیاں کورٹ میرج کے ذریعے ہورہی ہیں، علماء کو پتہ نہیں کہ اسکے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ اگرقرآن وسنت کا پورا نقشہ پیش ہوتا تویہ سانحات نہ ہوتے۔ والدین بھی لڑکی کی رضامندی کو ضروری سمجھتے اور لڑکی بھی باپ کا خیال رکھتی۔ ہم غلط رسوم ورواج کیوجہ سے قرآن و فطرت اور معاشرتی اقدار سب کچھ بے سمت منزل کھو رہے ہیں۔
اصول فقہ کی دوسری کتاب’’ نوراالانوار‘‘ میں پڑھایا جاتاہے کہ ’’ قرآن میں طلاق شدہ کیلئے عدت 3قروء کی ہے۔ 3کا لفظ خاص ہے جو ڈھائی نہیں ہوسکتا، اسلئے احناف اس سے تین حیض مراد لیتے ہیں، طہر کی حالت میں طلاق دینا شریعت کے مطابق ہے ، جس طہر میں طلاق دی جائے تو وہ ادھورا شمار ہوگا اسلئے قرآن کے لفظ پر عمل کرنے کا تقاضہ ہے کہ پورے 3مراد ہوں ‘‘۔ حالانکہ اس طرح سے پاکی کے ایام میں طلاق دی جائے تو تین حیض کے علاوہ وہ ایام بھی شمار ہوں گے تو پھر عدت ساڑھے تین ہو گی۔ قرآن نے حیض نہ آنے یا اشتباہ کی صورت میں 3قروء کاقائم مقام 3 ماہ کو قرار دیا اور مہینہ طہرو حیض دونوں کا قائم ہے اسلئے دونوں مراد ہیں۔ طلبہ ان الجھنوں کو نہیں سمجھتے۔اگر قرآنی آیات و احادیث صحیحہ پڑھائی جاتیں تو معاشرہ بھی قرآن سے فائدہ اٹھاتا۔ لیکن افسوس کہ علماء خود بھی حقائق سے بے بہرہ ہیں۔عربی سیکھنے کا فائدہ اٹھایا جائے اورمعاشرے کو قرآن وسنت کے رنگ میں رنگا جائے، تو انقلاب عظیم آنے میں دیرنہ لگے۔
اہلسنت شیعہ پر الزام لگاتے ہیں کہ مہدئ غائب نے قرآن اپنے ساتھ چھپالیا ، جب وہ منظر عام پر آئیں گے تو پھرقرآن پر عمل ہوگا۔ شیعہ اہلسنت پر الزام لگاتے ہیں کہ احادیث کے مطابق قرآن اور اہلبیت کو سب پکڑ لیتے تو امت اس قدر زوال کا شکار اور قرآن سے دور نہ ہوتی۔ کیا اہلسنت رسول اللہ ﷺکی طرف سے قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں شکایت کرنے کا جواب دینگے کہ ہم سے سنت غائب ہوگئی، اسلام اجنبی بن چکا، گمراہانہ نصابِ تعلیم کی وجہ سے قرآن کو چھوڑ رکھا تھا؟۔ اور اہل تشیع جواب دینگے کہ مہدی غائب کے ظہور کا انتظار تھا اسلئے قرآن چھوڑ رکھا تھا؟۔ جماعتِ اسلامی والے کہیں گے کہ ہم علماء نہ تھے، بس علماء کے نصاب نے ہمیں قرآن سے دور رکھا تھا؟۔کیا اہلحدیث کہیں گے سلفی مذہب کی وجہ سے ہم قرآن کے قریب نہ جاسکے تھے؟۔ کون ہے جو خود کو نبیﷺ کی قوم نہیں سمجھتا ہے؟۔ نبیﷺ فرمائیں کہ سنت اور اہلبیت غائب لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ’’قرآن موجود تھا، اسکو ہدایت کیلئے ذریعہ کیوں نہیں بنایا تھا؟‘‘۔
قرآن ہدی للمتقین ہے اور ہدی للناسبھی، علماء ومشائخ متقین بن کر نماز کی صراط مستقیم کی دعا کریں مگر درست راستہ نظر آتا ہو اس پر خود چلنے کی کوشش نہ کریں تو پھر وہ متقین نہیں اور عوام الناس کے سامنے قرآن کے واضح وہ حقائق رکھے جائیں جس سے کوئی بھی قوم اپنا عروج حاصل کرسکتی ہے تو عوام ہدایت پائیں گے۔ بڑا المیہ ہے کہ علماء اکابر پرست اور عوام مقابرپرست بن گئے اور اس کا یہ فائدہ ضرور ہے کہ نصاب کو سمجھنے سے قاصر ہیں ، بس تضاد پر عقیدہ رکھاہے جس کی وجہ سے کھلی گمراہی سے محفوظ ہیں جبکہ ڈاکٹر منظور احمد جیسے لوگ انتہائی مخلص ہیں اور وہ نصاب کو سمجھ کر کھلی ہوئی گمراہی کا عقیدہ رکھ واضح طور سے گمراہ ہوگئے مگر جب پتہ چل گیا تو بات سمجھ میں آئی اور اللہ نے انکا خاتمہ بالخیر کرنے کا اہتمام کردیا۔ وہ اپنی بات پر ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کررہے تھے۔
تیسرا طبقہ جاوید غامدی جیسے لوگوں کا ہے جو مدارس کے نصاب کی اصل خامیوں سے بھی واقف نہیں اور تقلید کی افادیت بھی نہیں سمجھتے۔ ایسی آیات اور احادیث ہیں جن کو زمانہ ثابت کررہاہے، یہ تقلید کی افادیت ہے،قرآن کے احکام کی طرف توجہ تمام مسائل کا حل ہے۔
ہماری حکومت، اپوزیشن اور ریاست کیلئے یہ مشکل نہیں کہ میڈیا پر حقائق لانے میں کردار ادا کرے۔ بزرگ علماء ومفتیان حقائق لانے سے کنی کترارہے ہیں۔ دنیا کی مسلم ریاستوں میں انقلاب اور یکجہتی کی فضاء بن سکتی ہے۔

فقرا و مساکین کے حق زکوٰۃ کو ہتھیانے کیلئے بھی ہتھکنڈے استعمال ہورہے ہیں، فیروز چھیپا

نوشتۂ دیوار کے منتظم اعلیٰ فیروز چھیپا نے اپنے بیان میں کہاکہ نماز کی طرح زکوٰۃ اللہ کا حکم ہے ۔ زیادہ تر لوگ رمضان میں زکوٰۃ دینا پسند کرتے ہیں، قرآن میں فقراء ومساکین کا اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے ذکر کیا اور باقی مستحقین مسافروں، حادثات کا شکار ہونیوالے، گردنوں کی آزادی، مؤلفۃ القلوب اور زکوٰۃ کے عاملین کی وضاحت ہے۔ یہ بہت بڑا المیہ بن گیا کہ فقراء ، مسکین کا حق چھیننے کے ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ مسلم امہ کی عزتوں پر وار کیلئے طلاق کی غلط تعبیر اور حلالے کے حیلے سے بڑی مصیبت کوئی نہیں تھی جس پر ہم نے عوام کو زبردست طریقے سے آگاہی دی اور جنکے ہاتھ میں زکوٰۃ کاروبار بن کر رہ گیاہے وہ زکوٰۃ کا بھی حلالہ کرتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کے خلاف جہاد کیا تھا اور اگر موجودہ دور میں اس پر عمل ہوجائے تو بڑے نامی گرامی علماء ومفتیان زد میں آ جائیں گے۔ بڑے بڑوں نے زکوٰۃ کے مال کو ہتھیانے کیلئے اپنی منڈیاں بنارکھی تھیں۔ اب دوسرے چالاک وعیارلوگ بھی یہی کام کررہے ہیں۔ اگر امیر علماء کی زکوٰۃ غریب علماء کو مل جائے تو بھی زبردست خدمت ہوگی۔ سوشل میڈیا پر میں نے یہ پیغام دیا تھا۔جس کو عام کرنے بہت زیادہ ضرورت ہے۔ السلام علیکم۔۔۔رمضان کا مہینہ شروع ہونے کو ہے۔ صاحب ثروت اس مہینہ میں ایک خطیر رقم زکوٰۃ کی مد میں نکالتے ہیں، مگر افسوس کہ اللہ کے واضح حکم کے باوجود یہ رقم مستحق افراد تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مخیر حضرات اس انتہائی اہم فریضے کو خود اپنے ہاتھوں سے مستحق لوگوں تک نہیں پہنچاتے ہیں بلکہ مختلف قسم کی این جی او ، فرقہ وارانہ مدارس، لسانی و عصبی تنظیموں وغیرہ کو یہ رقم دیکر فرض کا قرض سمجھتے ہیں کہ فرض ادا ہوگیا۔ نتیجے میں زکوٰۃ کی رقم مستحقین تک فوری پہنچنے کے بجائے مختلف بینک اکاؤنٹس میں فکس ہوتی ہے۔ اب تو یہ بہت بڑا کاروبار بن چکا ہے، نوبت یہانتک پہنچ گئی کہ زیادہ سے زیادہ زکوٰۃ کی کے چکر میں زکوٰۃ ہی کی رقم سے لاکھوں کروڑوں کے اشتہارات پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور شاہراہوں پر بل بورڈز لگائے جارہے ہیں۔
آپ حضرات دل پر ہاتھ رکھ کر ضمیر سے سوال کریں کہ جب سے بے شمار این جی او، فرقہ وارانہ مدارس اور تنظیموں نے لوگوں کی فلاح و بہبود ، مفت کھانا کھلانے، علاج معالجے اور طرح طرح کے پیکیجز شروع کئے، غربت میں کمی آئی ہے یافقیروں میں اضافہ ہوا؟۔ لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوا ہے یا ا نکے مراکز پر منگتوں کی بھیڑ ہے۔ صحتوں میں استحکام آیا ہے یا ۔۔۔؟ زکوٰۃ لینے والوں کی تعداد کم ہوئی یا ۔۔۔؟ یقیناًحالات بد سے بدتر ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ جب کسی غریب کی عزت نفس بھی جاتی رہے اور وہ اداروں کے دروازوں پر بھکاریوں کی طرح سر عام لائنوں میں کھڑے ہونے پر مجبور ہو جائیں تو بالآخر وہ چوری، ڈاکا، صاحب حیثیت و مالکان کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ کیا آج کل کے حالات ایسے ہی نہیں؟۔
میں نہیں کہتا کہ سارے ادارے، مدارس اور تنظیمیں غلط ہیں، ایک سے بڑھ کر ایک اللہ کے ولی ہیں مگر اکثریت ذاتی مفادات اٹھانے والوں کی ہے۔ ورنہ یہ اتنا بڑا کاروبار نہ بنتا۔ آخر میں عرض ہے کہ اگر اسی رمضان المبارک سے مخیر حضرات خود اپنے ہاتھوں سے قریب و دور کے مستحق افراد دوست، رشتہ دار ، ملازمین ، ہمسائے اور قرآن کے مطابق وہ افراد جو’’ ہاتھ نہیں پھیلاتے مگر تم ان کے چہروں سے ان کی کسمپرسی کا اندازہ لگاسکتے ہو‘‘۔ کو دینا شروع کردیا تو مجھے بارگاہ رب سے پوری امید ہے کہ اسکی رحمت جوش ماریگی۔ یقیناًاللہ کریم برکتوں کے دروازے بھی کھول دیگا۔ ایسا ہوا تو وہ ایماندار اور انتہائی مخلص لوگ جو صرف اللہ کی رضامندی کیلئے این جی اوز، مدارس اور مختلف ادارے چلا رہے ہیں وہ بھی خوش ہوجائیں گے کہ اب کسی کیلئے دست دراز نہیں کرنا پڑے گا۔ اور ذاتی مفادات اور باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھانے والوں کا راستہ بھی رکے گا۔فقط ایک مخلص مسلمان