عدالتی فیصلہ عدالت کے منہ پر کالک….. اشرف میمن کا بیان
نوشتہ دیوار کے پبلشر اشرف میمن نے کہا پانامہ لیکس پرعدالتی بینچ نے عدلیہ ، وزیر اعظم اور عدلیہ سے توقعات رکھنے والوں کے منہ پر کالک ملی ہے۔ قوم کی تقدیر بدلنے کیلئے نظام مصطفی ﷺ کی ضرورت ہے۔ دو ججوں نے وزیر اعظم کو کرپٹ اور نا اہل قرار دیا، تو تین ججوں نے دو ماہ کیلئے ادھورا احرام پہنا کربڑا حاجی بنادیا ہے۔ عدالتی بنچ کوئی پانچ ٹانگوں والا گدھا یا فیصلے سے وزیر اعظم کو شیر کے بجائے گدھا بنادیا ؟ ، بالفرض تین جج نا اہلی کا فیصلہ کرتے تو ن لیگ کے رہنما فیصلے کو من و عن قبول کرتے؟۔ وزیر اعظم اور ن لیگی رہنما واضح طور پر کہتے ہیں کہ عوام نے منتخب کیا ،عوام ہی ہٹا سکتے ہیں، جسکامطلب ہے کہ چار جج بھی نا اہلی کا فیصلہ کرتے تو پانچویں ٹانگ کے زور پر وزیراعظم نے عدالتی فیصلہ نہیں ماننا تھا بلکہ پانچوں جج بھی فیصلہ کرتے توعدالیہ کو بھی گدھا قرار دیا جاتا کہ یہ خوامخواہ میں ڈھینچو ڈھنچو کررہاہے۔ فوج نے پہلے ڈان لیکس پرایکشن لیا مگر کیاڈھینچو ڈھنچو سے معصوم کو ڈرایا تھا؟لگے گا کہ فوج گدھی تھی جو ڈھنچو ڈھنچو کر رہی تھی،پہلے عاصمہ جہانگیر حکومت کو کہتی تھی کہ تم بہو بن کر رہو،ریٹائرڈ فوجی خود کو شوہر اور حکومت کو بیوی کہتے تھے۔ اب قوم کو کیا غرض ہے کہ ڈھینچو ڈھینچو گدھا کرے یا گدھی ؟عوام تماشہ دیکھ رہی ہے کہ ن لیگ نے ذو الفقار علی بھٹو کی غیر جمہوری برطرفی اور عدالتی فیصلے سے وزیر اعظم کی موت کو قبول تھا، بینظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کیا تو بھی عدالتی فیصلہ مان لیامگر اپنے خلاف عدالت پر چڑھائی کردی ، یوسف گیلانی کو برطرف کیا تو بھی نواز شریف نے خیر مقدم کیا، حالانکہ یوسف گیلانی نے بے اختیاری میں چھینک ماری تھی جبکہ پانامہ کے پاجامے نے جو دستیاب دست تھے ،سب اگل دئیے۔
سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی، وزیر اعظم پارلیمنٹ میں شیر کی طرح دھاڑا ،قوم کے سامنے قطری شہزادے کے بغیر اپنے خون پسینے کی کمائی کا حساب دیامگر عدالت نے شیر کے پنجے توڑ دئیے تو پارلیمنٹ کے بیان کو ڈھینچو ڈھینچو کہنے میں عافیت ہے۔ شیر کے پنجے اور گدھے کی پچھلی دو لتی مضبوط ہوتے ہیں، خان عبد القیوم خان کی مسلم لیگ کا نشان بھی شیر تھا۔ پشتو والے اسکے بارے میں شعر کہا کرتے تھے
شیر دے ربڑ شیر دے چہ در بزہ نہ شی
ٹول پاکستان بہ پاکیزہ نہ شی
ترجمہ: تمہارا شیر ربڑ کا شیر ہے کہیں یہ پھٹ نہ جائے۔ توپھر پورا پاکستان سے صاف نہیں کیا جاسکے گا۔(مملکت خدادا واقعی گند سے بھرگئی)
وزیر اعظم نواز شریف کی کانگریس و جمعیت علماء ہند کے محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن سے دوستی ہوگئی ۔ امریکی دوست کی طرح یہ لوگ مشترکہ گدھے کے نشان پر انتخاب لڑیں ۔ جسکا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ڈھینچو ڈھینچو کئے جاؤ ، زور دار ہوا بھی خارج کرو مگر کسی کی کوئی پرواہ نہ کرو۔ سپریم کورٹ کے دو سینئر ججوں نے پہلی مرتبہ وزیر اعظم کو اس طرح سے نا اہل اور کرپٹ قرار دیا ہے مگر اسکے باوجود اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ جیسے خواجہ آصف نے عمران خان کیخلاف پارلیمنٹ میں تقریر کی کہ کوئی شرم بھی ہوتی ہے،کوئی حیاء بھی ہوتی ۔۔۔اخلاق کا بھی تقاضہ
شاعر ملت علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
پولیس اہلکار،سول وملٹری بیوروکریسی، عدالتی ججوں میڈیا بلیک میلروں، سیاستدانوں ، غریب و امیر طبقوں ، ڈاکٹروں اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی طے کرچکے ہیں کہ اقبال کے سراغ زندگی کا مطلب یہ ہے کہ خوب بے غیرتی کیساتھ کرپشن کرو، اشتہارات میں خادم اعلیٰ شہبازشریف اور وزیراعظم نواز شریف قوم کیلئے آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں،کرپشن کے عالمی الزام کے بعد عدالتی فیصلوں سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس یہی جینے کا مزہ ہے ،جہاں بس چلے حلال و حرام کی تمیز نہ کرو، پیسہ ہو تو عوام ووٹ دیتی اور گلو بٹ پنجاب پولیس جان لیتی ہے۔ عدالتی فیصلہ سیاسی ہے، مریم نواز کانام جی آئی ٹی میں نہیں۔ اللہ ہماری حالت ،عدالت، سیاست کو اسوقت بدلے گا جب ہم خود کو بدلنے کیلئے اٹھیں۔پانچ ججوں میں سے دو نے نا اہل قرار دیا ہے اور تین ججوں نے فیصلہ التوا میں ڈالا ہے۔ اگر پھر دو جج اہلیت اور بے گناہی کا فیصلہ کریں اور ایک جج درمیانی راہ اپنائے تو پھر؟۔ جیو پر ن لیگ کے رہنما نے کہا کہ 13 میں سے 8سوال میاں شریف اور 5حسین نواز سے ہیں جبکہ نواز شریف اور اسحق ڈار بیگناہ ہیں۔ حسین نوازنے میڈیا کے سامنے جھوٹ بولا تھا کہ قرض لیکر کاروبار شروع کیا، اور وزیر اعظم نے جو تقریر پارلیمنٹ یا اسکے علاوہ کہیں کی ہے تو اسکو استثنیٰ حاصل ہے۔ قوم حیران ہے کہ عدلیہ کے ترازو کو گدھے کی پانچویں ٹانگ سے تشبیہ دے یا پھر وزیر اعظم کیلئے سمجھے کہ وہ گدھے کی ٹانگ سے نہ صرف جمہوریت ، عدلیہ کو ہنکاتا ہے بلکہ ڈان لیکس میں پاک فوج کی بھی ایسی کی تیسی کرتا ہے
بھنور آنے کو ہے اے اہل کشتی نا خدا چل لیں
چٹانوں سے جو ٹکرائے وہ ساحل آشنا چن لیں
زمانہ کہہ رہا ہے میں نئی کروٹ بدلتا ہوں
انوکھی منزلیں ہیں کچھ نرالے رہنما چن لیں
اگر شمس و قمر کی روشنی پر کچھ اجارہ ہے
کسی بے درد ماتھے سے کوئی تار ضیاء چن لیں
یقیناًاب عوامی عدل کی زنجیر چھنکے گی
یہ بہتر ہے کہ مجرم خود ہی جرموں کی سزا چن لیں
(ساغر صدیقی)