اپریل 2017 - Page 2 of 5 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

موٹر سائیکل امپورٹ نہ ہوتا تو بھی معیشت مضبوط ہوتی

ذوالفقار علی بھٹو میاں شریف برادری کی اتفاق فونڈری اور دوسری پرائیویٹ انڈسڑی کو تباہ نہ کرتا اور جنرل ضیاء الحق شریف برادری کو کاروبار سے نکال کر سیاست میں نہ لاتا تو آج شریف فیملی کو پانامہ لیکس کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ایٹم بم بنانا ریاست اور سائنسدانوں کا کام تھا۔ نوازشریف اور شہباز شریف کا تعلق لوہے کی صنعت سے تھا۔ صرف موٹر سائیکل بنانے میں پاکستان کو خود کفیل بناتے تو آج اس ملک کی معیشت بہت مضبوط ہوتی۔ جب پرویزمشرف نے گوادر پورٹ چین کو دیا اور طالبان و بلوچ شدت پسند پاکستانی فوج اور چینیوں کو ماررہے تھے تو نوازشریف انکے ساتھ کھڑے تھے۔ تقریریں کرتے تھے کہ سوئی گیس سے پنجاب نے بلوچستان کی عوام کو محروم کیا ، اسکا ہم ازالہ کرینگے۔ پھر سی پیک سے کوئٹہ کو محروم کرکے لاہور کو نواز دیا۔ دنیا صنعتی علاقہ اس کو بناتی ہے جہاں آبادی نہ ہو، دنیا آلودگی کے خاتمے کیلئے منصوبہ بندی کررہی ہے اور ہمارے ملک میں لوہے کی صنعت سے وابستہ شریف برادری کے ہاتھ میں سیاست آئی تو ساہیوال جیسی زرخیز زمین کو کوئلے کی پلانٹ سے آلودہ کرنے کیلئے سلیمانی ٹوپی کے بجائے انگریزی ہیڈ پہن لیا۔ عوام کو یہ بھی بتادیا کہ بجلی کا وعدہ ہم نے پورا کرلیاہے ، اب اگلی مرتبہ ووٹ دو گے تو استعمال کا طریقہ بھی بتادیں گے۔ عدلیہ شریف فیملی کی ساری دولت اور خاندان کو باہر سے لاکر لوہے کی صنعت لگانے پر مجبور کردے تو پاکستان ترقی کی منزل طے کریگا۔ حضرت عمرؓ اپنے عروج کے دور میں عوام کو پیشہ بدلنے سے جبراً منع کرتے تھے۔ ریاست مذہب اور سیاست کو پیشہ بنانے پر سخت پابندی لگادے۔
ملت اسلامیہ کے داخلی مسائل کا جب تک حل نہیں نکالا جاتا ہے ،اس وقت تک سیاست اور مذہب محض تجارت اور مفاد پرستی کا شاخسانہ ہے۔عوام کے مسائل کے حل کی طرف توجہ کرنا ہوگی۔

امام مہدی کا کردار اور عصر حاضر کی احادیث

حدیث نمبر72۔ عنوان ’’خدا کی زمین تنگ ہوجائے گی‘‘۔ ترجمہ ’’ حضرت بوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آخری زمانہ میں میری امت پر ان کے حاکموں کی جانب سے ایسے مصائب ٹوٹ پڑینگے کہ ان پر خدا کی زمین تنگ ہوجائیگی، اس وقت اللہ تعالیٰ میری اولاد میں سے ایک شخص( مہدی علیہ الرضوان) کو کھڑاکرینگے، جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دینگے جس طرح وہ پہلے ظلم وستم سے بھری ہوئی ہوگی، ان سے زمین والے بھی راضی ہونگے، آسمان والے بھی، انکے زمانہ میں زمین اپنی تمام پیداوار اُگل دے گی، وہ ان میں سات یاآٹھ یا نو سال رہیں گے‘‘درمنثور ج:6ص:58 عصر حاضر حدیث ۔۔۔ مولانا لدھیانویؒ
حدیث نمبر36’’ ارباب اقتدار کی غلط روش کے خلاف جہاد کے تین درجے‘‘
عن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ انہ تصیب اُمتی فی اخر زمان من سلطانھم شدائد لاینجو منہ الا رجل عرف دین اللہ فجاھد علیہ لسانہ ویدہ وقلبہ، فذٰلک الذی سبقت لہ السوابق ، ورجل عرف دین اللہ فصدّق بہ ، ورجل عرف دین اللہ فسکت علیہ ، فان رای من یعمل الخیر احبہ علیہ ،وان رای من یعمل بباطل ابغضہ علیہ ، فذٰلک ینجو علی ابطانہ کلہ ( رواہ البیھقی فی شعب الایمان ، مشکوٰۃ شریف صفحہ 438) عصر حاضر صفحہ 43
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آخری زمانے میں میری امت کو ارباب اقتدار کی جانب سے بہت سختیوں کا سامنا کرنا پڑیگا، ان سے کوئی نجات نہیں پائے گا مگر وہ شخص جس نے اللہ کادین پہچانا اورپھر اس کیلئے اپنی زبان،اپنے ہاتھ اور اپنے دل سے جدوجہد کی، یہ وہ شخص ہے جس کیلئے پہلے سے ہی پیش گوئیاں ہوچکی ہیں۔ اور وہ شخص جس نے اللہ کا دین پہچانا اور پھر اسکے ذریعے سے تصدیق کرنے کا اعلان بھی کیا، اور وہ شخص جس نے اللہ کا دین پہچانا اور پھر اس پر خاموشی اختیار کرلی، کسی کو اچھا عمل کرتے دیکھ لیا تو اس سے محبت رکھی اور کسی کو باطل عمل کرتے ہوئے دیکھا تو اس سے دل میں بغض رکھا۔ یہ شخص اپنے معاملات کے چھپانے یعنی حق کا اظہار نہ کرنے کے باوجود بھی نجات پاگیا۔
جب حاجی عثمانؒ پر فتوے لگے تو کچھ لوگوں نے حقائق کو سمجھنے کے باوجود محبت و بغض کا معاملہ چھپائے رکھا، جس کی مثال مولانا یوسف لدھیانویؒ خود بھی تھے، کچھ لوگوں نے برملا ساتھ دیا ، پھر جب حاجی عثمانؒ کاوصال ہوا تو اللہ کے فضل سے سب سے پہلے ہم نے خلافت کی احیاء کیلئے اللہ کے دین کو پہچان کر جدوجہد کا آغاز کیا،وہ زبان، ہاتھ اور دل کے تمام مراحل طے کرلئے جس کی درج بالا حدیث میں پیشگوئی ہے۔ بہت سے لوگوں نے دین کی حقیقت کو پہچان کر ہماری کھل کر تائید فرمادی اور بہت سے لوگوں نے ہمارے اچھے عمل کو دیکھ کر ہم سے دل میں محبت رکھی اور مخالفین سے بغض رکھا۔ اس حقیقت کے بغیر دنیا میں ہم بڑے مشکلات کا شکار ہوتے۔ اللہ کا کرم ہے کہ ہمیں ارباب اقتدار کی جانب سے مشکلات کا کوئی سامنا نہیں کرنا پڑا۔
جب دین کو پہچان کر اس کیلئے دنیا میں زبردست جدوجہد کی جائے تو اسلام کی خاصیت ہی ایسی ہے کہ دنیا میں ایسا نظام عدل وانصاف قائم ہوگا کہ جس سے آسمان اور زمین والے سب خوش ہونگے۔ ایران کا شیعہ اور افغانستان کا دیوبندی انقلاب اسلئے دنیا میں ناکام ہوئے کہ وہ اللہ کے دین اسلام کو پہچاننے سے خود بھی قاصر تھے۔ جمعیت علماء اسلام کا کارکن معراج کاکڑ ولد باز محمد خان کاکڑ کچلاک شہر بلوچستان اپنی جماعت سے اسلئے باغی بن گیا کہ جمعیت علماء قرآن وسنت کیلئے کوئی کام نہیں کرتی، اس نے رسول اللہﷺ کو خواب میں دیکھا کہ پاکستان خراسان کی طرف سے امام مہدی کا ظہور ہوگا اسلئے کام کرو، حدیث کے مطابق وہ سیاہ جھنڈے لگارہا تھا تو لوگوں نے اس پر شیعہ ہونے کا الزام لگایا۔ پھر اس نے جھنڈے پر چاند اور تارے بھی بنالئے۔ خواب میں نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’یہ کیا ہے؟۔ تو اس نے عذر پیش کردیا کہ لوگ شیعہ کی تہمت لگاتے ہیں‘‘۔ علماء اور صوفیاء نے امام مھدی کے حوالے سے اپنے اپنے حلقۂ ارادت کوبہت گمراہ کررکھا ہے۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنے استاذ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے حوالہ سے لکھ دیا کہ ’’ اب دنیا میں اصلاح کی کوئی تحریک کامیاب نہیں ہوگی، مزید بگاڑ بڑھتا جائیگا، ایک امام مہدی کی شخصیت ایسی ہوگی کہ وہ اپنی بلند ترین روحانی قوت کے بل بوتے پر پوری دنیا کے حالات بدل سکیں گے‘‘۔ یہ صرف مولانا اشرف علی تھانوی اور شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کی بات نہیں بلکہ علماء وصوفیاء کی اکثریت کا یہی گمراہانہ عقیدہ ہے جسکی وجہ سے لوگ مرزا غلام احمد قادیانی اور اسکے پیروکاروں سے زیادہ گمراہ ہیں ، کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر رسول اللہ ﷺ تک کوئی ایسی شخصیت نہیں آئی ہے جو اپنی روحانی قوت کی بنیاد پر ساری دنیا کے حالات کو بدل سکے ہوں۔
مھدی کے ذریعے سے دنیا کی حالات میں تبدیلی کی بڑی بنیاد کسی روحانی شخص کا ظہور نہیں ہوگا بلکہ زمانے کا عروج اور قرآن وسنت کے ذریعے دین کی پہچان اس انقلاب کا ذریعہ بنیں گے۔ بنی آدم انسان کو غلطی کا پتلا کہا جاتا ہے، حضرات انبیاءؑ تو معصوم ہوتے ہیں ، مہدی معصوم بھی نہیں ہوگا، بلکہ جس رات انقلاب آئے گا تو اسی رات کو اس کی اصلاح ہوجائے گی۔ جس طرح حدیث میں اس کی وضاحت ہے مگر اس کا بھی علماء نے غلط مفہوم بیان کیا ہے کہ ایک رات میں اس کو صلاحیت سے نوازا جائیگا، ایک حدیث میں آتا ہے کہ’’ میرے اہلبیت میں سے ایک شخص ضربیں لگائے گا یہاں تک کہ لوگ حق کی طرف آنے پر مجبور ہوں‘‘۔ ضرب لگانے میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو یہ خطاء کی دلیل ہے ،ضرب کی ضرورت نہ رہے توپھر اس کو اصلاح کرنے میں بھی حرج نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرون اولیٰ میں بھی مسلمانوں کو انتقام میں اعتدال سے ہٹنے کو منع فرمایا تھا تو آخری دور میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز کرنے والے بھی اپنی ضربوں میں اعتدال سے ہٹ سکتے ہیں۔
پاکستان میں سیاست اور مذہب کو خدمت کے بجائے زیادہ تر خالص تجارت بنالیا گیاہے۔ خدمت پر لڑائی بھڑائی نہیں ہوسکتی ہے۔ مساجد ومدارس اور سیاسی اور مذہبی جماعتیں خدمت پر نہیں تجارت، شہرت، دادا گیری اور لیڈر شپ پر لڑرہی ہیں اور جب تک کوئی ایسی قیادت وجود میں نہ آئے کہ مذہب اور سیاست کو تجارت سے پاک کرکے خدمت کا جذبہ اجاگر کرے اسوقت تک گروہ بندیوں اور تنزل کا خاتمہ نہیں ہوسکتاہے۔ شریف خاندان کی عزت کا کچومر اتر گیا لیکن قیادت نہیں چھوڑ رہا ہے، یہی حال دوسروں کا بھی ہے۔پانامہ کے عدالتی فیصلے میں دو ججوں نے لکھا کہ وزیراعظم نااہل ہے۔ تین نے لکھا کہ اتنے عرصہ سے ہم جس کیس کو سن رہے تھے، یہ ہمارا اختیار ہی نہیں کہ وزیراعظم کی نااہلیت کافیصلہ کرسکیں ۔پھر جی آئی ٹی کے نام پر دھوکہ کیوں دے رہے ہیں؟۔ وزیراعظم نے ٹھیک کہا کہ عوام نے عدالتی برطرفی کیلئے منتخب نہیں کیا مگر یہ بات وہ دوسرے وزیراعظموں کیلئے بھی کرتے؟ عدلیہ وزیر اعظم کو باہرسے پیسہ لانے کا حکم دے باقی سارا معاملہ حل ہوجائیگا۔جنکا باہر پیسہ ہواور وہ پاکستان میں سیاست کریں تو انکی فیملی کا پیسہ یہاں ہوناچاہیے۔ عتیق گیلانی

مشال کا قتل یا بے گناہ شہادت کا معمہ کیسے حل ہو؟

اگر مشال خان مجرم تھا تو اس کی عبرتناک ہلاکت موم بتی جلانے والوں کیلئے عبرت ہے، کوئی مشعلِ راہ نہیں، اس نے اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو تباہ کردیا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ وہ ادارہ ہے جہاں ارکان پارلیمنٹ کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ وزیراعظم قوم کے سامنے جھوٹی صفائی پیش کرے، کوئی ریاست کا قلع قمع کرنے کی بات کرے، کسی پر جس قسم کی بھی تنقید کی جائے تو کسی عدالت میں اس کو چیلنج نہیں کیا جاسکتاہے۔ مسلم لیگ ن کے میاں جاوید لطیف نے کہا کہ ’’جب دوسروں کو ہم ایسے بیان پر غدار کہتے ہیں، الطاف حسین کو غدار کہتے ہیں تو اسی رویہ پر عمران خان کو غدار کیوں نہیں کہہ سکتے؟‘‘۔ جس پرتحریک انصاف کے رہنما مراد سعید نے میاں جاوید لطیف کومُکا کی سوغات رسید کردی۔ عمران خان نے کہا کہ’’ اگر میں ہوتا تو اس کو قتل کردیتا، پٹھان گولی کھا سکتاہے لیکن گالی برداشت نہیں کرسکتا ہے‘‘۔
مشال خان کے قتل پر سب سے مضبوط اسٹینڈ عمران خان نے لیا مگر پھر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ جن سیاسی رہنماؤں کی برداشت کا یہ عالم ہو ،کہ غدار کہنے پر بھی قتل کرنے کی بات کرکے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں تو پھر اس قوم کے جوانوں میں یہ برداشت کہاں سے آئے گی کہ ’’رسول اللہ ﷺ کی توہین اور گالی کے مرتکب کو قانون کے حوالے کرنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کرلیں؟‘‘۔ غدار کی گردان تو سیاستدان کا وظیفہ ہوتاہے ، مراد سعید کو میاں جاوید لطیف نے جو عمران خان کو اپنی بہنیں سپلائی کرنے کی گالی دی تھی تو میاں جاوید لطیف اور خواجہ سعد رفیق نے یہ گالی گواہی میں تبدیل کی کہ ’’ہم نہیں کہتے کہ جو کہاوہ سچ تھا یا جھوٹ؟مگر ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے‘‘۔ پھر حامد میر نے جیو پر مراد سعید کو لیگی رہنمادانیال عزیز کیساتھ بٹھا کرہنسی مذاق کا ماحول دکھایا تو دنیا نے دیکھ لیا کہ اس الزام کاکوئی سنجیدہ اثر نہ تھا۔ مطلب یہ ہوا کہ پٹھان گالی برداشت نہیں کرتا ،باقی بہت کچھ برداشت کرتاہے۔
مشال مجرم تھا تو دیوث تھا اسلئے کہ ذاتی جذبے کو متأثر کرنابھی غلط ہے، ماں بہن کی گالی پر بھی اشتعال میں اقدامِ قتل کیا جائے تو مقتول کو معصوم کا درجہ نہیں ملتا۔ رسول اللہﷺ کی توہین کا حق کسی کو بھی نہیں دیا جاسکتا، کوئی بھی ایسی مہم جوئی فساد فی الارض کے زمرے میں آتی ہے جسکے غلط مقاصد ہوں۔ حق کا علمبردار قربانی سے مشعلِ راہ بنتاہے ،باطل اپنی دنیااور آخرت کی تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں کرتا۔ اب سوال یہ نہیں کہ مشال مجرم تھا یا نہیں؟۔مجرم نہیں تھاتوبھی سزا تو اس کو ملی۔ سوال یہ ہے کہ جنہوں نے مجرم سمجھ کر قتل کیاوہ خود کو کیوں چھپا رہے ہیں، کیا ممتاز قادری ؒ جیسی عزت کے طلبگار خود کو چھپاکر عزت بناسکتے ہیں؟غازی علم الدین ؒ نے راجپال کو مارا، تو اقرارِ جرم سے انگریز کے سامنے بھی نہیں گھبرایا لیکن مردان کے مردِ میدان فخریہ ویڈیو بناکر کیوں خود کو چھپا رہے ہیں؟۔ ممتاز قادریؒ نے پنجابی ہوکر غیرت کا مظاہرہ کیا تو یہ پٹھان ہوکر کیوں غیرت کے تقاضوں پر عمل کیوں نہیں کرتے؟۔
مشال خان کے سوگوار والد اقبال خان اور بردبار خاندان ہمدردی کا لائق نہیں بلکہ بہت داد کا بھی قابل ہے جس نے جرأت وبہادری کی مثال قائم کردی، بیٹے کو بے گناہ قرار دیا، مجرموں کو قرار واقعی سزا کا مطالبہ اور عبدالولی خان یونیورسٹی کو اپنے بیٹے کے نام پر منسوب کرنے کی تجویز پیش کردی۔ بہادری کامظاہرہ ابوجہل کو بھی تاریخ میں امر کردیتاہے۔ جن والدین کے اچھے یا برے سپوتوں نے مشال کو قتل کرنے کے بعد بھی مسخ کرکے لاش کی بے حرمتی سے دریغ نہ کیا ، میرے بیٹے اس کا حصہ ہوتے اور مجھے انکے حلالی ہونے کا یقین ہوتا تو انکی اس بزدلی پر ہزاروں لعنت بھیجتاکہ بے یارومدد گار لاش کیساتھ بہیمانہ سلوک کے بعدچھپنے کا کیا جواز ہے؟۔ جس کو تم نے توہین رسالت کا مرتکب سمجھ کر قتل کیااور مرنے پر بھی جذبے کی تسکین نہیں ہورہی تھی ،ننگاکرکے لاش سے انتقام لیتے رہے تو اگر قانون تم کو معاف بھی کردے تو خود کشی کرکے عالمِ برزخ میں بھی اس کا پیچھا کرو، اسلام کی طرف سے خود کشی کے عدمِ جواز کا مسئلہ اسلئے نہیں کہ اسلام میں لاش کیساتھ بدسلوکی بھی جائز نہیں ۔ رسول اللہﷺ کے نام پر غیرت اچھی لگتی ہے، بے غیرتی نہیں۔
دنیا میںیہ پیغام پہنچا کہ الزام کی تحقیق کے بغیر رسول اللہﷺ کی توہین کے نام پر بے گناہ قتل ہوا، سرِ عام ویڈیو بنانیوالے تحفظ کے طلبگار ہیں تو مسلمان اور پٹھان کی غیرت پر بہت سوالات اٹھیں گے، یورپ وامریکہ کے عیسائی قانون میں ویسے بھی قتل کا بدلہ قتل نہیں۔ چیف جسٹس نے طیبہ تشدد کیس میں بھی تشدد کرنیوالی جج کی اہلیہ سے سوال تک نہیں پوچھا بلکہ طیبہ کو لاوارث بچوں کے مرکز میں داخل کردیا۔ قبائل میں ابھی تک 40ایف سی آر کا قانون ختم نہیں۔پشتون قوم اسلام اور غیرت کی بہت بڑی علمبردار ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑ کر امریکہ کے حوالے کرنیوالے بے غیرت ریاستی اہلکاروں نے بھی اسلام کا سہارا لیا،قومیں غیرت سے زندہ رہتی ہیں ۔ اگر ریمنڈ ڈیوس کو اکرام وانعام دیکر رخصت کیا جاتا کہ ہمارے لاہور، ملتان، کراچی اور کوئٹہ وپشاور سے لوگ اغواء ہوجاتے ہیں تم نے شجاعت کی مثال قائم کردی تو ہمارا قومی وقار بلند ہوجاتا لیکن صداقت، شجاعت اور عدالت نام کی کوئی چیز ہمارے بے غیرتوں کے پاس نہیں ورنہ ہم دنیا میں کب سے امامت کے منصب پر بیٹھ جاتے؟۔
قبائلی علاقہ میں طالبان نے اسلام کو تو زندہ نہیں کیا بلکہ پختون کی غیرت کو بھی تباہ کردیا، اب لویہ جرگہ کے ذریعے مشال خان کے والد اور قاتلوں کے وارثین یہ تاریخی فیصلہ کردیں کہ قاتل ، قتل کی سازش کرنیوالے، اشتعال دلانے والے سب کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ورثاء خود ہی گولی مارنے کیلئے اقدام کریں اور اگر والد کی طرف سے معافی مل جائے تودیت یا بلامعاوضہ معاف کر دیا جائے،اس سے دنیا میں اسلام ، پٹھان، پاکستان اور انسان کی طرف سے فطرت کیمطابق پیغام جائیگا۔ امریکہ نے افغانستان میں بڑا بم گرا نے کے بعد پاک فوج کو پراکسی جنگ ختم کرکے جو سفارتی طریقہ اختیار کرنے کا پیغام دیا جسکی پاک فوج نے تردید کی ، اسکے بعد حالات گھمبیر سے گھمبیر ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں، قوم کے اندر بڑے اعلیٰ پیمانے کے اخلاقیات اور اقدار کے بغیر کوئی ریاست کچھ بھی نہیں کرسکتی ہے۔
مشال خان کے قتل کو مخصوص چینل سازش نہ قرار دیتے تو عمران خان نے بھی اس کو سازش نہیں قراردینا تھا، اقوام متحدہ کی طرف سے مذمت کے بعد نوازشریف و مریم نواز کو مذمت کا خیال آگیا، توہین رسالت کیلئے قربانی دینے والے مزید جرأت کا مظاہرہ کرتے تو نمازِ جنازہ پڑھانے کی بھی نوبت نہ آتی اور نمازجنازہ پڑھانیوالا طبقہ ماردیا جاتا تو پولیس اور فوج بھی اپنے ہیڈکواٹروں میں دبک جاتی۔ یزید نہیں طالبان کے دور میں بھی لوگوں نے مظالم کے آگے بے بسی کا مظاہرہ دیکھا، فضل اللہ اور حکیم اللہ نے بہت کچھ ریاستی سرپرستی میں کیا تھا ۔جھوٹ کی سیاست و صحافت قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے میں کردار ادا نہیں کرسکتی ۔ امریکہ افغانستان میں آیا تو ان میں منافقت کے بیج بودئیے اور ہماری طرف رخ ہوا تو ہماری ریاست مرغا بن کرہی انکے سامنے کھڑی ہوجائیگی۔ مسلم قوم کو دنیا کی لالچ اور موت کے خوف نے بزدل بنادیاہے، اعلیٰ اخلاقی اقدار کیلئے بکبک کرکے بکنے والے بے غیرت صحافی کوئی بھی مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔اسلام اور قومی مفاد کا نام لینا جوک بن گیا۔

عصر حاضرحدیث نبویﷺ کے آئینہ میں

مولانا محمدیوسف لدھیانویؒ کی کتاب پر بعنوان عرض ناشر مولانا جلال پوری لکھتے ہیں’’ رسالہ ’’عصر حاضر حدیث نبوی ﷺ کے آئینہ میں ‘‘ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس کی اسی افادیت کے پیشِ نظر اُسے ۱۴۰۵ھ میں کتابی شکل میں شائع کیا گیا ، جسے اللہ تعالیٰ نے بے حد مقبولیت سے نوازا، اور بلامبالغہ لاکھوں کی تعداد میں شائع اور تقسیم ہوا۔اب جبکہ کمپیوٹر کمپوزنگ کا دور ہے تو احباب کا اصرار ہواکہ۔۔۔
*عربی متن پر اعراب لگاکر ۔۔۔* اب ترجمہ کا لفظ بڑھایا گیا۔ ۔۔۔*سابقہ ایڈیشنوں میں جہاں کہیں عربی یا اردو کی کتابت کی اغلاط تھیں۔۔۔ * احادیث کے متن کو اصل سے ملاکر اس کی تصحیح کردی گئی ہے۔۔۔ *احادیث کے نمبرات کو واضح کرنے کیلئے ان کو چوکٹے میں واضح کردیا گیا ہے۔
اگرچہ ناقص کا ہر کام ناقص ہوتاہے ، تاہم بہتر سے بہتر کرنے کی اپنی سی کوشش کی گئی ہے ، اللہ تعالیٰ اس رسالہ کو امت کی راہ نمائی اور ہماری اصلاح کا ذریعہ بنائے آمین ۔خاکپائے حضرت لدھیانوی شہیدؒ سعید احمد جلال پوری ۲۰/۲/۱۴۲۵ ھ
’’پیش لفظ‘‘ کے عنوان سے مولانا یوسف لدھیانویؒ کا مقدمہ قابلِ غور ہے۔
دورِ حاضر کو سائنسی اور مادی اعتبار سے لاکھ ترقی یافتہ کہہ لیجئے لیکن اخلاقی اقدار روحانی بصیرت، ایمانی جوہر کی پامالی کے لحاظ سے یہ انسانیت کا بدترین دورِ انحطاط ہے۔ مکر وفن، دغا وفریب، شر وفساد، لہو ولعب، کفر ونفاق اور بے مروّتی ودنائت کا جو طوفان ہمارے گرد وپیش برپا ہے، اس نے سفینۂ انسانیت کیلئے سنگین خطرہ پیدا کردیا ہے۔ خلیفۂ ارضی (بنی نوع انسان) کی فتنہ سامانیوں سے زمین لرز رہی ہے اور بحر و بر ، جبل و دشت اور وحوش و طیور ’’ الامان والحفیظ!‘‘ کی صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں، انسانیت پر نزع کا عالم طاری ہے،اس کی نبضیں ڈوب رہی ہیں، لمحہ بہ لمحہ اس جاں بلب مریض کی حالت متغیر ہوتی جارہی ہے، یہ دیکھ کر اہلِ بصیرت کایہ احساس قوی ہوتا جارہاہے کہ شاید اس عالم کی بساط لپیٹ دینے کا وقت زیادہ دور نہیں۔ ذیل میں احادیث نبویہ ( علیٰ صاحبہا الف الف صلوٰۃ و سلام) سے ایک آئینہ پیش کیا جارہا ہے جس میں دورِ حاضر کے تمام خدو خال نظر آتے ہیں اور علماء ، خطباء ، حکام اور عوام سبھی کے قابلِ اصلاح اُمور کی نشاندہی فرمائی گئی ہے، اس کی جمع وترتیب سے مقصود کسی خاص طبقہ کی تنقیص نہیں، لالچ صرف یہ ہے کہ ہم اس شفاف آئینہ میں اپنا رخِ کرداردیکھ کر اصلاح کی طرف متوجہ ہوں۔
یہ سلسلہ ماہنامہ بینات میں شروع کیاگیاتھا، اورمندرجہ بالا ابتدائیہ بھی اس کی قسطِ اوّل میں آیاتھا۔ ۔۔۔ حق تعالیٰ شانہ اسے قبول فرمائے اور تمام فتنوں سے امت کی حفاظت فرمائے ۔ واللہ ولی التوفیق محمدیوسف لدھیانوی۱۵/۱۰/۱۴۰۵ھ
1: ہلاکت کا خطرہ کب؟۔ عن زینب بنت جحشؓ قالت۔۔۔ قیل : انھلک و فینا الصالحون ؟، قال : نعم اذا کثر الخبث ’’ حضرت زینب بنت جحشؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا گیا : کیا ہم ایسی حالت میں بھی ہلاک ہوسکتے ہیں جبکہ ہمارے درمیان نیک لوگ موجود ہوں؟۔ فرمایا: ہاں جب خباثت کی کثرت ہوجائے ۔ بخاری ج۲، ۱۰۴۶۔ مسلم ج۲، ۳۸۸
عصر حاضر کی یہ پہلی حدیث ہے۔ جب جمعیت علماء اسلام کے اکابرین پر مفتی رشید احمد لدھیانوی، مفتی محمد شفیع، مولانا سلیم اللہ خان وغیرہ نے کفر والحاد کا فتوی لگایا تھا تو علامہ یوسف بنوریؒ نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ یہ1970ء کی بات تھی۔ پھر حاجی عثمانؒ پر علماء ومفتیان نے جب فتویٰ لگادیا تو مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ حاجی عثمان کوئی اچھے انسان ہونگے ، پیسہ کھاکر یہ فتویٰ لگایا ہوگا جیسے70میں کیا تھا۔ جب میں نے علماء ومفتیان سے ایسا فتویٰ لیا ہے جس میں وہ حضرت شاہ ولی اللہؒ ، حضرت عبدالقادر جیلانیؒ ، علامہ یوسف بنوریؒ اور شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ پر کفر والحاد اور قادیانیت کے فتوے لگاکر پھنس رہے تھے تومولانا فضل محمد نے کہا کہ مفتی رشید نے علامہ یوسف بنوریؒ کو بہت ستایا تھا، حدیث قدسی ہے کہ اللہ نے فرمایا کہ جس نے میرے ولی کو اذیت دی ، میرا اس کیساتھ اعلانِ جنگ ہے۔اب مفتی رشید احمد لدھیانوی اس کی سزا بھگت رہاہے۔ مولانا فضل الرحمن نے مجھ سے کہا تھا کہ’’ دنبے کو آپ نے لٹادیا، چھرا تمہارے ہاتھ میں ہے ، اس کو ذبح کردینا، اگر ٹانگیں ہلائیں تو ہم پکڑ لیں گے‘‘علماء ومفتیان جمعیت کے رہنماؤں سے بھیک مانگ رہے تھے کہ ’’ ہم پھنسے ہیں ، کسی طرح سے ہمیں بچاؤ‘‘۔مفتی رشید لدھیانوی کے جانشین مفتی عبدالرحیم کی وہ تحریراور فتویٰ ان لوگوں کیلئے وبال جان اور عذاب بن کر رہ گیا تھا۔
ہفت روزہ تکبیر کراچی کو انہوں نے خود مہیا کیا تھا جس پر ثروت جمال اصمعی نے لکھاکہ ’’یہ فتویٰ حاجی عثمان کے خاص مرید سید عتیق الرحمن گیلانی نے لیا، جنکے اس قسم کے عقائد ہوں تو حکومت کو اس پرپابندی لگانی چاہیے‘‘۔ مگر علماء اپنے دام میں صیاد کی طرح پھنس گئے تو مفتی تقی عثمانی نے اپنے ذمہ معاملہ لیا، مفتی تقی عثمانی نے حاجی عثمانؒ کے وکیل کی طرف سے نوٹس کے جواب میں لکھا کہ ’’ہم نے نام سے کوئی فتویٰ نہیں دیا‘‘۔ پھر تکبیر کراچی نے لکھا کہ ’’ اگرعلماء کی طرف سے کوئی بے احتیاطی ہوئی ہے تو غلط بیانی کے بجائے اعتراف میں عزت ہے‘‘۔ ہم چاہتے تو عوام میں ان کو بہت خراب کرسکتے تھے لیکن ہمارا طرزِ عمل پھر بھی ادب واحترام اور بہت پردہ پوشی والا ہی رہا ۔ حاجی عثمانؒ نے ثبوت دیا کہ ’’دین خیر خواہی کا نام ہے‘‘۔ ورنہ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کی چاہت بھی تھی کہ انکی عزت خراب ہوجائے۔
پھر ایک شخص نے مختلف الفاظ میں مفتیان سے الگ الگ فتویٰ لیا ، جس میں وہ حاجی عثمانؒ کے مریداور ہونے والے داماد کو شریعت کا پابند بتاتے ہوئے نکاح کے جواز اور منعقد ہونے کا فتویٰ پوچھ رہا تھا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے فتویٰ دیا کہ ’’نکاح بہرحال جائز ہے، جو فتویٰ منسوب ہے، وہ درست نہیں تو فتویٰ نہیں لگتا‘‘۔ اسرار، مفتی عبدالسلام چاٹگامی اور مفتی ولی حسن ٹونکی کے دستخط تھے۔ دارالعلوم کراچی سے نکاح منعقد ہونے کا لفظ پوچھا گیا تو فتویٰ لکھ دیا کہ ’’نکاح منعقد ہوجائیگامگر بہتر یہ ہے کہ علماء نے جو فتویٰ لگایا ہے، انکے حالات سے آگاہ کیا جائے‘‘۔ مفتی رشید لدھیانوی کی دارالافتاء نے نکاح کے ناجائز ہونے کا فتویٰ لگادیا۔ پھر تینوں فتوؤں کے بعد مفتی رشید لدھیانوی کے شاگرد نے ایک ہی قلم سے سوال وجواب فتویٰ لکھا کہ ’’ اس نکاح کا انجام کیا ہوگا ؟، عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا‘‘۔ پھر مجذوب مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکیؒ نے بھی دستخط کردئیے، مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی نے لکھ دیا کہ ’’نکاح جائز نہیں، گومنعقد ہوجائے‘‘۔ مفتی نظام الدین شامزئی جامعہ فاروقیہ میں تھے تو حاجی عثمانؒ کے حق میں فتویٰ دیا اوربنوری ٹاؤن آئے تو دارالعلوم دیوبند انڈیا کی طرف سے ہمارے حق میں اور علماء ومفتیان کی مخالفت آئی تو مفتی شامزئی نے کہا کہ ’’ابھی میں نیا نیا آیا ہوں اسلئے رسک نہیں لے سکتا ہوں‘‘۔ مفتی رشید کی خباثت کا طوطی بول رہا تھاتو امت کے اکابر اور پھر عوام کی ہلاکت کا جو سلسلہ شروع ہوا، اسے عصر حاضر کی پہلی حدیث کی روشنی میں دیکھ لیجئے۔ قیوم آباد کے قریب محمودآباد کے ایک مولانا نے بتایا کہ ’’امریکی کونصلیٹ کا ملازم اور مفتی رشید کا مرید کہتاہے کہ مفتی رشید کیلئے جو گناہ کئے، اللہ مجھے معاف نہیں کریگا‘‘۔

مجدد ملت ودین حضرت حاجی محمد عثمان قدس سرہ

دیوبندی مولانا اشرف علی تھانویؒ کومجدد کہتے ہیں حالانکہ انکے ہم عصر مولانا شبیر عثمانی، مولانا مدنی، مولانا کشمیری، مفتی کفایت اللہ، مولانا سیوہاری، مولانا خلیل احمد، مولانا محمد الیاس، مولانا سندھی کے علاوہ انکے استاذ شیخ الہند اور انکے اساتذہ مولانا گنگوہی و مولانا نانوتوی کے سامنے مولانا تھانوی کی حیثیت نہ تھی ، انکے مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ مجدد تھے۔ فیض کیوجہ سے سب مجدد نظر آئے۔ مجدد الف ثانیؒ نے مرشد خواجہ باقی باللہؒ کو مجدد قرار دیا۔ مجدد کے مرید علماء نے دین کو غلو سے پاک کرنے کا کارنامہ انجام دینا ہوتا ہے۔ حاجی امداداللہؒ کے مریدعلماء نہ ہوتے تو حاجیؒ کو کوئی مجدد نہ سمجھ سکتا تھا ۔ حاجی عثمانؒ کے مرید علماء ہوائی فائرنگ کے مانند فتوؤں سے بھاگ گئے۔ وہ وقت دور نہیں کہ حاجی عثمانؒ کو مخالف بھی مجدد مان لیں گے۔
تصوف کے سلسلے کا جوفیض مولانا اشرف علی تھانویؒ کے توسط سے عام ہوا ، اسکی مثال حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ کے کسی دوسرے خلیفہ میں نہیں ملتی، جس طرح نبیﷺ کے صحابہؓ میں حضرت علیؓ عمر کے لحاظ سے چھوٹے تھے لیکن تصوف کے حوالہ سے حضرت علیؓ کو بہت امتیازی حیثیت حاصل تھی،مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ایک خلیفہ مولانا فقیر محمد صاحبؒ تھے، ان پر عام طور سے گریہ کی کیفیت طاری رہتی تھی مگر مکہ و مدینہ میں حاجی عثمانؒ کا بیان سن کر جذب وکیف میں گھومنے لگ جاتے تھے۔ حاجی عثمانؒ سے کہا کہ مجھ پر بار بار الہام وارد ہوتاہے کہ آپ کو حاجی امداد اللہ ؒ کی نسبت سے خلافت دوں، حاجی عثمانؒ منع کرتے تھے کہ مجھے اجازت نہ ملے ،تو اس نسبت سے خلافت نہیں لے سکتا۔ پھر حاجی عثمانؒ کو بھی اجازت مل گئی اور مولانا فقیر محمدؒ نے لکھا کہ ’’مدینہ منورہ میں 27رمضان المبارک کو ورود ہو ا، اور اس کی تکمیل ہوئی، حاجی عثمانؒ صاحب حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ سے بہت مشابہت رکھتے ہیں، یہ ان کی مہربانی ہے کہ سلسلہ کی خلافت کو قبول فرمالیا ۔‘‘۔ پھر کافی عرصہ بعد بعض حاسدین نے مولانا فقیر محمدؒ سے کہا کہ خلافت واپس لے لو، انہوں نے خلافت کے واپس لینے کا اعلان کردیا، مگر اس کی وجہ سے حاجی عثمانؒ کے حلقہ ارادت پر کوئی اثر نہیں پڑا، لوگ مولانا فقیرمحمدؒ کی وجہ سے نہیں حاجی عثمانؒ کی اپنی شخصیت سے متأثر تھے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے علماء ومفتیان نے مولانا فقیر محمد سے پوچھ لیا کہ خلافت ورود کی نسبت سے دی تو کسی کے مشورے سے واپس لی، یا دوبارہ ورود ہوا؟ تو انہوں نے کہا کہ دوبارہ ورود تو نہیں ہوا، کسی نے مشورہ دیا ، جس پر انہوں نے کہا کہ شرعی طور سے آپ کو خلافت واپس لینے کا حق دوبارہ ورود پر ہے، مشاورت سے یہ خلافت واپس نہیں لے سکتے۔ جس پر مولانا فقیر محمد نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے لیٹر پیڈ پر لکھ دیا کہ ’’ جو خلافت میں نے حاجی عثمانؒ کو ورود کی نسبت سے دی تھی وہ تاحال قائم اور دائم ہے‘‘۔ اس پر مولانا فقیرمحمدؒ کے دستخط کے علاوہ مفتی احمد الرحمنؒ ، مفتی ولی حسن ٹونکیؒ اور مفتی جمیل خانؒ کے بھی بطورِ گواہ کے دستخط موجود ہیں۔
پھر حاجی عثمانؒ کے خلفاء نے بغاوت کرلی اور علماء ومفتیان نے فتویٰ لگا دیا اور مولانا فقیرمحمدؒ کو بھی مشورہ دیدیا کہ خلافت واپس لے لو، تو خلافت واپس لینے کا بھی اعلان شائع کیا گیا۔ اقراء ڈائجسٹ کی مجلس مشاورت میں حاجی عثمانؒ کا نام بھی تھا۔ حاجی عثمان ؒ کے مریدوں میں فوجی افسران 8بریگڈئیرز،کورکمانڈر جنرل (ر)نصیر اختر، جنرل ضیاء بٹ، پولیس افسرڈی آئی جی وغیرہ شامل تھے۔ جماعت اسلامی، اہلحدیث، تبلیغی جماعت ، دیوبندی مدارس کے علماء ومفتیان بڑی تعداد میں بیعت تھے، مفتی محمد تقی عثمانی ومفتی محمد رفیع عثمانی کے استاذدارالعلوم کراچی کے مدرس مولانا عبدالحق ؒ بھی بیعت اور بڑے خلیفہ تھے، وہ کہتے تھے کہ’’ بیعت کے بعد پتہ چلا کہ نئے سرے سے علم حاصل کروں‘‘۔ مولانا اشفاق احمد قاسمیؒ دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور دارالعلوم کراچی کے ملازم فتوؤں کے بعد بیعت پر قائم رہے۔ مولانا عبداللہ درخواستیؒ کے نواسے مشکوٰۃ اور جلالین کے میرے استاذمولانا انیس الرحمن درخواستی شہیدؒ فتوؤں کے بعد بیعت ہوئے تھے۔
مولانا محمد مکی اور جامعہ صولتیہ مکہ کے مولانا سیف الرحمن فتوؤں کے بعد حاجی عثمانؒ سے تعلق رکھتے تھے ، خطیب العصر مولانا سید عبدالمجید ندیم بھی فتوؤں کے بعد حاجی عثمانؒ سے ملاقات کیلئے تشریف لائے اور کہا کہ حضرت عثمانؓ کی مظلومیت نام کی وجہ سے آپ کو بھی بھگتنا پڑی ہے۔ فتوؤں کے بعد میں نے خواب دیکھاتھا کہ ’’حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ مسجدالٰہیہ خانقاہ چشتیہ خدمت گاہ قادریہ مدرسہ محمدیہ یتیم خانہ اصغر بن حسینؓ تشریف لائے ہیں اور آنے کا مقصد مجھے دیکھنا تھا، میں اپنی جگہ لیٹا رہا اور ملنے کیلئے دل سے آمادہ نہ تھا، آخر کار آپؒ کمرے کے دروازے پر تشریف لائے تو مجھے مجبوراً اٹھنا پڑا‘‘۔حاجی عثمان ؒ نے زندگی میں اپنا جانشین بنانے کیلئے بہت زور ڈالا مگر میں راضی نہ تھا، پھر انکے وصال سے پہلے میں نے رضامندی ظاہر کی تو خوش ہوگئے۔ پھر میں نے وزیرستان سے خلافت کیلئے کام کرنے کا فیصلہ کیا تو خواب میں فرمایا کہ ’’خانقاہ سے آکر کام شروع کرلو‘‘۔ وفات سے قبل مجھ سے فرمایا کہ’’ مولانا یوسف لدھیانوی ؒ سے معلوم کرلینا، انکی طرف سے فتویٰ میری سمجھ میں نہیں آتا‘‘۔
دین کا کام شروع کیا تو مولانا یوسف لدھیانویؒ کی خدمت میں حاضری دی، مولانا لدھیانویؒ نے فرمایا کہ’’وہ میرا فتویٰ نہیں تھا، مفتی جمیل خان نے لکھ کر میری طرف منسوب کیا، میں حاجی عثمانؒ سے بہت عقیدت رکھتا ہوں، فتویٰ دینے والوں کا نام دنیا میں اس طرح سے نہیں رہے گا جیسے امام مالکؒ کیخلاف فتویٰ لگانے والوں کا آج نام نہیں ، تاریخ میں حاجی عثمانؒ کا نام امام مالکؒ کی طرح رہے گا۔ ان کے خلاف ساری خباثت مفتی رشید احمد لدھیانویؒ نے کی ہے‘‘۔ پھر جب میں اپنے کچھ ساتھیوں کو توحید آبادصادق آباد دورۂ صرف کیلئے مولانا نصراللہ خانؒ کے پاس لے گیا تو میری غیر موجودگی میں ساتھیوں پر مختلف جگہوں سے آئے علماء وطلباء نے تہمتوں کا سلسلہ شروع کیا، آخرکار مولانا نصراللہ ؒ سے مطالبہ کیا کہ ہم نکلیں گے یا ان کو نکال دو، پھر وہ نکل کر چلے گئے۔ مولانا نصراللہ نے دوسروں کو مطمئن کرنے کیلئے مولانا لدھیانویؒ کے پاس بھیجا۔ مولانا لدھیانویؒ نے فرمایا کہ مخالفت کرنے والوں کو ہی نکال دو۔ اگر فتوؤں کی داستان شائع کردی تو بھی بہت سے خود کو شیخ الاسلام اور مفتی اعظم پاکستان سمجھنے والے منہ چھپاتے پھریں گے۔ ہمارے ظرف کا کمال ہے کہ ہم ان کو دیوار سے نہیں لگارہے ہیں ورنہ عدالتوں میں بھی ناک رگڑ وادیتے۔
مشاہدات بیان کرنے میں علماء وخلفاء ،تبلیغی جماعت میں چار ماہ لگانے والے اوراہلحدیث تک بھی شامل تھے، ان پر دارالعلوم کراچی کی طرف سے’’ الاستفتاء‘‘ مرتب کرکے لکھا گیا کہ ’’ ایک پیر اپنے خلیفہ کو مجبور کرتے کہ نبیﷺ کو دیکھتے ہو یا نہیں؟‘‘۔ کیا یہ ممکن تھا کہ سہارے سے اُٹھنے کا محتاج پیر کسی پر اس طرح کی زبردستی کرے کہ وہ خودتو نہ دیکھ سکے لیکن ہٹے کھٹے مرید کومجبور کردے؟۔ الائنس موٹرز کے ایجنٹ دنیادار علماء ومفتیان نے کتوں کی طرح بہرحال ہانپناتھا، دنیا و آخرت کی ذلت سے بچنے کیلئے جب تک علی الاعلان توبہ نہ کریں یہ فتویٰ پیچھا نہیں چھوڑے گا۔
اللہ کے ولی کو ستاکر معافی مانگ لیتے تو آج اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں ان کو ذلت کی چماٹوں کے بجائے دنیا میں بھی عزت ملتی اور آخرت میں بھی سرخرو ہوتے۔

بھارتی مسلم لڑکی کا تین طلاق اور حلالہ کے خلاف زبردست غصہ کا اظہار

اس کی ویڈیو نیٹ پر دستیاب ہے اور مسلمانوں کیلئے بہت شرم کا مقام ہے جب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تین طہروں میں تین مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع کا حکم واضح کیا ہے تو مسلمانوں کو کیوں ایسی بے غیرتی پر مجبور کیا جاتا ہے؟۔ حلالہ کے رسیا علماء و مفتیان پتہ نہیں کس قماش کے ہوتے ہیں کہ ان کو قرآن و سنت کی واضح تعلیمات کے بعد بھی رجوع کا مسئلہ سمجھ میں نہیں آتا۔حکومت کو چاہیے کہ ان پردہ نشینوں کے نقاب کھینچ کر ٹی وی پر میرے سامنے مناظرے کیلئے پیش کریں۔ عتیق