پوسٹ تلاش کریں

جانِ استقبال ارضِ پاکستان ہے مگر کیسے؟

یہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکز، پوری دنیا میں خلافت علی منہاج النبوۃ کا قیام یہاں سے ہوگا۔

اسلام کو اجنبیت کے گرد وغبار سے نکالنے کی دیر ہے، عوام کو یکجان ہونے میں دیر نہ لگے گی

دنیا کے سامنے اسلام کا اصل ماڈل پیش کیا جائیگا تو روس وامریکہ نہیں اسرائیل بھی قبول کریگا

اس خلافت کی خوشخبری نبیﷺ نے دی ہے جس سے آسمان و زمین والے خوش ہونگے

اسلام دینِ فطرت ہے، روس وامریکہ، یورپ واسرائیل کے یہود ونصاریٰ کے دانشوروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سودی نظام سے دنیا کی معیشت تباہ ہوجائے گی، دنیا سود کو کم سے کم کرنے پر عمل پیرا ہے ، ہمارے حکمران طبقے بھاری بھرکم سودی قرضے اور علماء و مفتیان سودی نظام کو اسلامی قرار دینے میں مگن ہیں، یہ اس وقت سجدے میں گرے ہیں جب بقول علامہ اقبال کے وقتِ قیام آیا۔ دین میں زبردستی نہیں ہے اور نظام باہمی رضا مندی اور مشاورت سے حکومت تشکیل دینے کا نام ہے۔ روزہ، نماز، حج، زکوٰۃ، نکاح و طلاق، شرعی حدوداور پورا اسلامی ڈھانچہ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو جس طرح حبشہ کے بادشاہ نے سورۂ مریم کی تلاوت سننے کے بعد کہا تھا کہ ’’ ہمارا اعتقاد تنکے کے برابر بھی قرآن سے ادھر ادھر نہیں‘‘۔ اسی طرح دنیا بھر کے حکمران بھارت سمیت اسلامی نظام کو اسلام قبول کئے بغیر بھی اپنے ہاں نافذ کرنے پر برضا ورغبت راضی ہونگے۔ اچھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’مشرکوں سے نکاح مت کرو، ان سے مؤمن غلام اور لونڈیاں بہتر ہیں اگرچہ وہ تمہیں بھلے لگیں‘‘۔ جس کی وجہ سے بھارت کے ہندؤں سے رشتہ ناطہ کرنے سے دور ہیں، کشمیر کا مسئلہ بھی نہ ہوتا تو ہم انکے ساتھ پھر بھی شیروشکر ہوجاتے، جنرل راحیل شریف نے درست کہا کہ ’’کشمیر تقسیمِ ہند کا نامکمل ایجنڈہ ہے‘‘۔
یہ یاد رہے کہ معرکۂ ہند بھارت کی ہٹ دھرمی کے نتیجہ میں فتح مکہ کی طرح ہوگااور مشرکینِ مکہ کی طرح شکست سے پہلے ان کو روحانی و اعصابی شکست ہوگی، اسرائیل کسی مزاحمت کے بغیر بیت المقدس پر جھنڈے کو نصب کرنے دیگا۔ ہندو مشرکین مکہ کی طرح اسلام میں داخل ہونگے اور ہندو مذہب اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے ختم ہوجائیگا۔ اسلام زمین میں جڑ پکڑلے گا اور دنیا میں آنے والے بارہ قریش و اہلبیت کے خلفاء وقفہ وقفہ سے دنیا کی تاریخ پر نمودار ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ آخری امیر مہدی تک سلسلہ جاری رہیگا۔ جن دیوبندی اکابرینؒ نے لکھا ہے کہ ’’ چھوٹے بڑے مجدد سے کام نہ چلے گا، اب امت کی اصلاح امام مہدی کے ذریعہ سے ہوگی، جس کی روحانی قوت اتنی زیادہ ہوگی کہ وہ پوری دنیا کے حالات کو بدل دینے کی صلاحیت رکھتا ہوگا‘‘۔ روحانی مشاہدہ کے اعتبار سے اس طرح کی باتیں بڑے بڑے بزرگوں نے بھی لکھی ہیں لیکن یہ سوچ اپنی جگہ پر بہت گمراہانہ تھی اسلئے کہ ایساعقیدہ روحانی قوت کی بنیاد پر ہو تومہدی کی حیثیت تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے بھی بڑھ جاتی ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی گمراہی نہیں ہوسکتی، مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب ’’تجدید واحیائے دین‘‘ میں اس گمراہانہ سوچ کی نفی کی تھی جس میں عوام و خواص مبتلا تھے۔ علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں بھی مہدئ برحق، امامِ زمانہ ، مہدی اور آخرزمانی کے مؤقف کو زبردست طریقہ سے اجاگر کیا ہے۔
قرآن، اسلام ،نبی کریمﷺ کی سیرت اور خلافت کے نظام کیلئے دہشت گردانہ کاروائیوں کی نہیں اس فکر سے پردہ اٹھانے کی ضرورت ہے جسکی وجہ سے اسلام دین فطرت ہونے کے باوجود مذہبی طبقات کی کجروی کا شکار ہوچکا ہے۔ فرقہ واریت کی بجائے اتحاد واتفاق اور وحدت کا راستہ اس وقت سجھائی دیگا جب لوگوں کو راہ دکھائی جائیگی، اہل تشیع سمجھتے ہیں بارہ خلفاء قریش واہلبیت کا ذکر احادیث میں موجود ہے لیکن اہلسنت کے پاس کوئی معقول جواب نہیں، اسلئے اپنے لب ولہجہ میں درشتی اختیار کرلیتے ہیں حالانکہ ان کے ہاں بارہ امام کا جو تصور ہے، عقیدہ اور اصول کے اعتبار سے کلمہ و آذان بھی وقت کے امام کیساتھ بدلتے رہنا چاہیے تھامگر ان کے پاس اس کا معقول جواب نہیں، علاوہ ازیں بارہ اماموں پر امت کے اکٹھا ہونے کی خوشخبری ہے جبکہ اہل تشیع اپنے بارہ امام پر بھی متفق نہیں ہیں۔ اس معقول نقشِ انقلاب سے امت مسلمہ کا مستقبل روش نظر آتا ہے، قرآن وسنت کا راستہ ہدایت کیلئے کافی ہے۔قرآن اتنا بلیغ ہے کہ صحابہ کرامؓ ان پڑھ تھے مگر پھر بھی ہدایت پاکر دنیا پر چھاگئے تھے اگر موجودہ ترقی یافتہ دور میں قرآن کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کوئی اہلبیت ذریعہ بن جائے تو قباحت کیاہے؟۔

قرون اولیٰ کی تاریخ دہرانے کا یہ دور ہے

شاہ اسماعیل شہیدؒ ، مولاناآزادؒ ، مولانا مودودیؒ ،ڈاکٹر عبداللہ ناصح علوانؒ وغیرہ کا اتفاق تھا

موجودہ دور میں پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی، حدیث کی روشنی میں پاکستان مرکز!

دنیا بھر کے مسلم ممالک میں اتنی مذہبی اور سیاسی آزادی نہیں جتنی پاک سرزمین شاد باد میں!

قوم ملک سلطنت ،پائندہ تابندہ باد،مرکزیقین ،نشانِ عزم عالیشان،سایہ خدائے ذوالجلال

یہ ارض پاکستان ہے، جو لیلۃ القدر کی رات کو آزاد ہوا، رات کی تاریکی میں اس کاپرچم ستارہ و ہلال رہبرِ ترقی و کمال قرار دیا گیا۔ 14اگست کی انتہاء اور 15اگست کی ابتداء اپنی جگہ مگر 27رمضان المبارک کولیلۃ القدر میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ برصغیر پاک وہند کی آزادی کے وقت معنوی اعتبار سے بھی گھپ اندھیرے والی رات تھی، مذہب کے نام وجود میں آنے والی سیاسی جماعت ’’جمعیت علماء ہند ‘‘ متحدہ ہندوستان سیکولر ملک کی تشکیل کے حق میں تھی، سیکولر ذہنیت رکھنے والے قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال مذہب کے نام پاکستان کو وجود بخشنے کے حامی تھے جن پر کفر کے فتوے بھی لگادئیے گئے تھے۔یہ اختلاف بڑا رحمت تھا، اگر مذہبی طبقات کی بالادستی میں یہ پاکستان بنتا تو ہمارے تعلیمی اداروں سمیت ترقی یافتہ دور میں بھی یہاں تصویر پر پابندی ہوتی اور ترقی کی ساری راہیں رُک جاتیں، ریاست نے اللہ کی توفیق سے بانی پاکستان بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر کرنسی پر لگادی۔ کرنسی کے آگے ملاصاحبان کا اسلام زیرو بن جاتا ہے۔ غریب بچوں کیلئے مفت کی دوائی پر تصویر کا خاکہ بھی ہو تو طالبان پابندی لگادیتے تھے مگر کرنسی میں جناح کی تصویر کیا ڈالر پر بھی تصویر قابل قبول تھی اور یہ کوئی طعنہ نہیں بلکہ اصل حقائق کی طرف علماء و طلبہ اور مذہبی طبقات کی توجہ مبذول کرانا مقصدہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’ اسلام اور اقتدار دو جڑواں بھائی ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر درست نہیں ہوسکتے، اسلام بنیاد ہے اور اقتدار اس کی عمارت، اسلام اصول کا درجہ رکھتا ہے اور اقتدار محافظ و نگران کا ‘‘۔ جب نبیﷺ کو مکہ میں اقتدار حاصل نہ تھا تو اللہ نے ریاست کے قیام کیلئے سچائی کیساتھ داخل ہونے کا (مدینہ میں) اورسچائی کیساتھ (مکہ سے) نکلنے اور اقتدار کو اپنا مددگار بنانے کا حکم دیا۔ مدینہ کی ریاست سے اسلام کی نشاۃ اول کا آغاز ہوا، پاکستان دنیا میں واحد ریاست ہے جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے وجود میں آئی ہے۔مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے حدیث لکھی ہے ’’ وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کے اول میں مَیں ہوں، درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ مگر درمیانہ زمانہ میں کج رو جماعت ہوگی، میں اسکے راستے پر نہیں وہ میرے راستے پر نہیں‘‘ اور حدیث کا جزء بھی لکھاہے ’’ پھر میرے اہلبیت میں سے ایک نیک شخص نکلے گا جو اس امت کا آخری امیر ہوگا‘‘ یہی جزء ڈاکٹرطاہرالقادری نے بھی نقل کیا، حالانکہ پوری حدیث یہ ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ مہدی کے بعد قحطانی امیر ہوگا، جس کے دونوں کان سوراخدار ہوں گے، وہ چالیس سال تک رہیگا، پھر امت کے آخری امیر کا ذکرہے، مفتی رفیع عثمانی نے یہ حدیث بھی نقل کی ہے کہ ’’ دجال سے زیادہ خطرناک حکمران اور رہنما ہونگے‘‘۔ علاماتِ قیامت اور نزول مسیحؑ ۔ ’’عصرِ حاضر حدیثِ نبویﷺ کے آئینہ میں: مولانا یوسف لدھیانوی‘‘ کو دیکھ لیجئے، جس میں حکمرانوں، رہنماؤں اور علماء ومفتیان کے حالات کا تذکرہ ہے۔
علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں مہدی، امام، شاخ ہاشمی کے برگ وبار، فطرت کے مقاصد کا ترجمان مردِ کوہستانی، شکوہ ترکمانی،ذہن ہندی،نطق اعرابی اور طلوعِ اسلام کے خدوخال بیان کئے ہیں۔ جنرل راحیل کو اگر پاکستان ، امت مسلمہ اور عالمِ انسانیت میں اچھے کردار ادا کرنے کی نعمت کا موقع مل رہا ہے تو سودی قرضہ پر نوازشریف کی دہشت گردی کا نوٹس لیں، مدارس کے کفریہ اور گمرانہ نصاب کو میڈیا پر پیش کریں اور علماء ومفتیان کو صفائی اور دفاع کا موقع دیں۔ مفتی رفیع عثمانی نے مجیب الرحمن شامی کے پروگرام میں بتایا :’’ باہر کا فنڈدوفیصد بلکہ ایک فیصد بلکہ آدھا فیصد ہے‘‘۔ فنڈز کے اعداد وشمار بتانے کی بجائے کہا کہ ’’جب بھی طلبہ اور اساتذہ کی تنخواہ اور سہولت میں اضافہ کیا، اللہ نے مجھے اور نوازا، اور زیادہ دیا‘‘۔ کیا مدرسہ کسی کے باپ کی فیکٹری ہے کہ جو چندہ بڑھ جائے، اس کو اپنی ذات کو نوازنے سے تعبیر کیا جائے؟۔ حکمرانوں نے حکومتوں کو اور علماء نے مدارس کو ذاتی جاگیر سمجھ رکھا ہے ، ان کے احتساب سے پاکستان کی عوام اور غریب غرباء کی مشکلات میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔

قرون اولیٰ کے ادوار کی زبردست تاریخ

سورۂ واقعہ، سورۂ جمعہ، سورۂ محمداور دیگر سورتوں میں صحابہ کرامؓ اور آخری جماعت کا ذکر ہے۔

السٰبقون السٰبقون اولئک المقربون.. ثلۃ من الاوّلین و قلیل من الآخرین

سبقت لے جانے والے…مقرب ہیں…پہلوں میں سے بڑی جماعت ، آخر میں تھوڑے

سبقت لے جانے میں اولین مہاجر و انصار میں سے اور جو ان کی اتباع احسان کیساتھ کریں

نبی کریم ﷺ نے تعلیم وتربیت اور تزکیہ و حکمت سکھاتے ہوئے صحابہ کرامؓ کی جو جماعت تیار کی، اس کا تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے، دنیا کی تاریخی شہادت بھی رد کرنا ممکن نہیں ہے، سورۂ جمعہ میں ان لوگوں کا بھی ذکر ہے کہ جو آخر میں ہیں اور پہلے والوں سے مل جائیں گے۔ احادیث میں وضاحت ہے کہ اس سے فارس کے لوگ مراد ہیں، بعض نے امام ابوحنیفہؒ اورآپ کی جماعت کوقرار دیا ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے پارہ عم کی تفسیر میں سورۃ القدر کے ذیل میں تفصیل سے لکھا ہے کہ ’’سندھ، بلوچستان، پنجاب، کشمیر، فرنٹئیراورافغانستان کے خطہ میں جس قدر قومیں ہیں یہ سب امامت کی حقدار ہیں، اسلام کی نشاۃ ثانیہ یہیں سے ہوگی، اگر ہندو پوری دنیا کو بھی ہمارے مقابلہ میں لائیں تو اس سے ہم دستبردار نہیں ہوسکتے، یہاں حنفی مسلک رائج ہے، اہل تشیع بھی اس کو قبول کریں گے‘‘۔ مولانا سندھیؒ قرآنی انقلاب کے داعی تھے، انہوں نے وضاحت کی ہے کہ قرآن کا اصل معجزہ اللہ کی آیات کا وہ مفہوم ہے جس کا کسی بھی زبان میں ترجمہ کیا جائے تو اس کے ذریعہ سے کوئی بھی پستی اور زوال کی شکار قوم عروج وترقی کی منزل پائے، عربوں کو اسی معجزے نے عروج وکمال تک پہنچایا تھا، اسکے اولین مخاطب بھی عرب ہی تھے لیکن قرآن کا ایک خطاب عالمگیر انقلاب اور پوری انسانیت کیلئے بھی ہے، جب اسلام کی نشاۃ اول کا آغاز ہوا تو عربوں کی اچھائیوں کو برقرار رکھا گیا اور ان کے اندر موجود برائیوں کا خاتمہ کیا گیا، پھر نشاۃ ثانیہ ہوگی تو قرآن کا خطاب پوری انسانیت سے ہوگا، پھر دنیا بھر کے انسانوں کی اچھائی برقرار اور برائی کا خاتمہ کیا جائیگا۔ مولانا سندھیؒ نے حنفی مسلک کو قرآن کی بنیادپر قانون سازی کی وجہ سے ترجیح دی ہے۔
جب تک صحابہ کرامؓ سے حسنِ عقیدت نہ رکھی جائے تو قرآن کی بنیاد پر انقلاب کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا ہے۔ جب ہم خو د ہی اس بات کی نفی کریں گے کہ صحابہؓ کی بڑی جما عت ثلۃ من اولینکی کوئی حیثیت نہ تھی تو قلیل من الاٰخرین کی جماعت کیسے بن سکیں گے؟۔ جب ہم السابقون اولون من المہاجرین و الانصار ہی کو نہیں مانیں گے تو والذین اتبعوھم باحسان کے مصداق بننے کی کوشش کیسے کریں گے؟۔جب تک عربوں نے اسلام کی خدمت کی ، نبوت، خلافت، امارت کے ادوار میں دنیا پر چھائے رہے، ترک کی خلافت عثمانیہ کے بادشاہ غیر عرب تھے، وہ اگر اسلام قبول نہ کرتے تو ان کی حکومت چل بھی نہیں سکتی تھی۔ پھر ترکی خلافت کے خلاف بغاتوں کا سلسلہ شروع ہوا ، اور امت مسلمہ برطانوی سامراج کے زیرنگیں ٹکڑیوں میں بٹ گئی۔ اقوام متحدہ میں قطرہ قطرہ دریا بنا مگر ہم سمندر ہوکر بھی چلو چلو بن گئے ہیں۔
سورۂ محمد میں اسلام کی نشاۃ اولیٰ عربوں کے موجودہ افرادکو مخاطب کرکے کہا گیاہے کہ اگر تم نے اسلام کا کام نہ کیا تو کوئی اور قوم اُٹھے گی جو ثم لایکون امثالکم ’’پھر تم جیسی نہ ہوگی‘‘۔اس کا مطلب یہی ہے کہ نشاۃ ثانیہ کے وقت دوسری قوم کی کنڈیشن عربوں سے بہتر ہوگی۔ ایرانی انقلاب کے بانی امام خمینی اگر اپنے ساتھیوں کو صحابہؓ سے بہتر بلکہ صحابہ کرامؓ کو طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بناتے اور امامیہ کے فقہی مسلک کی بجائے قرآن کو بنیاد قرار دیتے تو آج امت مسلمہ کی حالت بہتر ہوتی۔ اہل تشیع ہونے کے ناطے ایرانی انقلاب کے بانیوں کو صحابہ کرامؓ اور قرآن سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی، افغانستان کے طالبان سنی ہونے کے ناطے صحابہؓ سے عقیدت رکھتے تھے مگر محض عقیدت بھی کافی نہ تھی، قرآن کو سمجھ کر اسکے مطابق قوانین بنائے جاتے تو دنیا کیلئے افغانستان کے طالبان کا انقلاب بھی بڑی تبدیلی کا باعث بنتا۔ صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کے ادوار میں بتدریج کمال سے زوال کا سفر شروع ہوا، پہلی، دوسری، تیسری صدی ہجری میں شخصی تقلید کا کوئی نام ونشان نہ تھا،محدثینؒ اور فقہاء میں بھی فرضی مسائل گھڑنے پر اختلاف تھا، پھر چوتھی صدی ہجری میں شخصی تقلید کا تصور وجود میں آیا، ساتویں صدی ہجری علم وعرفاں کے زوال کا سال تھا، ہمارے درسِ نظامی میں جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں وہ زوال کے دور کی یادگار ہیں،اس نصاب سے فارغ التحصیل ہونے والا طبقہ بہت کوڑھ دماغ ہوتاہے، مفتی محمد شفیعؒ نے مدارس کو بانجھ قرار دیا تھا،مولاناسندھیؒ ،مولاناآزادؒ ،علامہ انورشاہ کشمیریؒ اوراستاذالاساتذہ شیخ الہندؒ کی آخرمیں یہی رائے تھی۔

پاکستان اپنے سفرکے اہم ترین چوراہے پر

14اگست 1947ء تاریخ کا آخری سیاہ ترین دن تھا جسکے گزرتے ہی یہ وطن عزیز آزاد ہوا، لیکن ہم نے رٹ لگائی ہے کہ رات 12بجکر1منٹ پر پاکستان آزاد ہوا، ٹی وی چینلوں پر روزانہ رات 12بجتے ہی تاریخ بدل جاتی ہے۔ یوں ہم ہر سال 13اگست کو 12بجتے ہی یومِ آزادی مناتے ہیں جسمیں غلامی کا آخری سورج طلوع وغروب ہوا۔ جب ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کی تقریرو تصویر پر پابندی نہ تھی تو جلسۂ عام میں کہا کہ’’ پاکستان 15اگست کو آزاد ہوا تھا‘‘۔ جسکے جواب میں حامد میر نے وضاحت کی کہ’’ پاکستان رات 12بجکر1منٹ پر آزاد ہوا، برطانیہ کی چاہت یہ تھی کہ آزادی کی خوشی اس دن منائی جائے جب امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرائے تھے لیکن قائداعظم نے اسکی خواہش کیخلاف آزادی کو 14اگست کو منانے کا اعلان کیا‘‘ ۔ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کی تقریر وتصویر پر پابندی لگی اور حامد میر کو اپنی منافقہ وکالت کے صلہ میں گولیاں ماری گئیں۔
مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے والے جنرل نیازی بھارت کی قید سے آزاد ہوئے تو کراچی میں شاندار استقبال ہوا تھا ۔ اب باقی ماندہ پاکستان بھی اس اہم چوراہے پر کھڑا ہے جس میں جھوٹ کے سہارے چلنے والی قوم ، ریاست اور حکومت کو معروضی حقائق سمجھ کر اپنی اصلاح کی طرف آنا ہوگا ، یا خاکم بدہن دوسرے ممالک اور قوموں کی طرح ہمارا بھی حشر نشر ہوگا، ہمارا ہوش ٹھکانے نہ آیا توبہت بُرا ہوگا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ریاستی دہشت گردی کی تھی اسکے نتیجے میں بھٹو کے ڈیرے پر زرداریوں کا بسیرا ہے۔اصل بھٹو خاندان تنہائیوں کا شکار ہے جو مرتضیٰ بھٹو کی اولاد ہے، ذولفقار علی بھٹو کے والدشاہنوازبھٹو کے وارث ذوالفقار جونئیرو فاطمہ بھٹو کا گھر 70کلفٹن ہے، آصف زرداری نے اپنے بیٹے بلاول کا نام اپنے دادا کے نام پر رکھا اسلئے بلاول ہاؤس پر بھٹو کی چھاپ درست نہیں، گڑھی خدابخش لاڑکانہ میں بھٹو کے ڈیرے پر زرداریوں کا بسیرا بھٹو کی یتیم اولاد کیساتھ بڑی زیادتی ہے جو شہیدوں کی قربانیوں کا نہیں بلکہ جن کیساتھ بھٹو نے زیادتی کی تھی ان کی بددعاؤں کا نتیجہ ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے میں پیپلزپارٹی کے رہنما ذوالفقارکھوسہ نے کہا کہ ’’ قدرت نے جنرل ضیاء الحق سے شہید ذوالفقار علی بھٹو کا انتقام لیا، جسکے جسم کے ٹکڑے بھی نہ ملے اور جھوٹ سے قبر بھی بنادی‘‘۔ معروف ٹی وی چینلوں نے یہ سچ قوم کو دکھانے کے بجائے نشریات کا رخ موڑ دیا۔ قوم کے سامنے سچ بولنے والا کوئی نہ تھا جو اتنا کہہ دیتا کہ بھٹو نے بھی کم مظالم نہیں کئے ہیں حبیب جالب نے اس پر شاعری بھی کی تھی اسلئے بھٹو اپنے انجام کو مکافات عمل کی وجہ سے پہنچے ، البتہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہتھوڑا گروپ جیسے واقعات ہوئے تھے تو گمنام قاتل اور مقتول کا انتقام قدرت نے جنرل ضیاء اورجنرل اختر وغیرہ سے لیا تھا۔فوج اورسیاستدان کی طبقاتی کشمکش کا آئینہ خناس بن کر میڈیا پر دکھایا جاتا ہے ، عوام الجھ جاتی ہے کہ کس کا قصور ہے اور کس کا نہیں؟۔ مگر عوام کیساتھ ہونے والی زیادتیوں کا انتقام تو گویا خدا بھی نہیں لیتا، بس اللہ سیاستدانوں کا ہے یا فوجیوں کا ہے، دونوں عوام کی ہمدردیاں بھی سمیٹتے ہیں اور عوام کو پتلی تماشہ بھی دکھاتے ہیں، مشرقی پاکستان ہاتھوں سے گیا لیکن جنرل نیازی اور بھٹو قوم کے ہیرو یا زیرو ٹھہرے ، عوام تماشہ دیکھتی رہ گئی۔
وزیردفاع وبجلی خواجہ آصف نے کہا کہ ’’ افغانیوں کو ہم نے پناہ دی ، اب آنکھ دکھا رہے ہیں‘‘۔ خواجہ آصف کاباپ جنرل ضیاء کی شوریٰ کا چیئرمین تھا،امریکہ کے ایجنٹوں نے افغانی دلے گل بدین حکمت یار اور پاکستانی دلے ہارون الرشید جیسے لوگوں کے ذریعہ اپنے مفاد کیلئے خطہ کو تباہ کیا،کرایہ کے جہاد کی قیادت اور حمایت کی سعادت حاصل کرنے والوں نے دوسروں کے بچے مروا نے کی قیمت پر اپنے بچوں کیلئے جائیدادیں بنادیں ہیں۔ فتنوں کی آگ سلگانے اور پھونکیں مارنے والوں کے چہروں سے نقاب اٹھ جائے تو عوام کو پتہ چل جائیگا کہ حبیب جالب اور ڈاکٹر نجیب اللہ پاکستان اور افغانستان کے ہیرو تھے جو اپنی قوم اور مٹی سے محبت کا دم بھرتے تھے اور سفید چمڑی کے گلبدین حکمت یار اور کالی دمڑی کے ہارون الرشید اس خطے میں اپنی قوم، وطن، ریاست ، ملک کے دشمن اور اغیار کے ایجنڈہ پر چلنے کے مجرم اور ایجنٹ ہیں،بہت نقصان اٹھاچکے ،اب مزید اس کردار وافکار سے بچیں۔
تحریک انصاف کے شہریار آفریدی نے کہا کہ ’’ پشاور میں کوئی مکان بکتا ہے تو افغانی مہنگے دام خریدنے کیلئے کھڑا ہوتا ہے‘‘۔ تاجر برادری نے افغانستان کیخلاف جلوس نکالے لیکن جب ہمارے فوجی اور سیاسی حکمرانوں نے دنیا بھر میں اثاثے خریدے، تو افغانی بیرون ملک محنت مزدوری کرکے اپنا سرمایہ پاکستان میں لگائیں تو اس میں کونسی برائی ہے؟۔ مسلم لیگ(ن) کی وہ حکومت جس نے بھارتی جاسوس کلب (کتا) ہوش (پکڑو) ن (لیگ) پر چپ کا روزہ رکھا تھا، جب بھارت نے مسلسل پاکستان کی سرحدوں پر گولہ باری کرکے بے گناہ لوگ شہید کیے تو کوئی خاص ردِ عمل سامنے نہیں آتا۔ دنیا کودکھایاکہ افغانستان و پاکستان کی جنگ کتنی آسانی سے ہوسکتی ہے؟،مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے کہا’’ افغان طالبان رہنما پاکستان میں ہیں‘‘ افغانستان نے واضح کیا کہ ’’پاکستان مخالف طالبان پر ہمارا کنٹرول نہیں ہے‘‘۔
امریکہ پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کیخلاف مؤثر کاروائی کا مطالبہ کر رہا ہے اور پاکستان اپنے مخالف طالبان کو ٹھکانے نہ لگانے پر امریکہ سے خفا ہے مگر ہماری حیثیت پشتو کی کہاوت کیمطابق’’ گاؤں کے میراثیوں کی طرح ہے جن سے گاؤں والے ناراض ہوجائیں تب بھی میراثیوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میراثی ناراض ہوجائیں تب بھی میراثیوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘‘۔امریکہ کی ہمدردیاں بھارت کیساتھ ہیں، ایران سے بھی لڑائی نہیں رہی ، بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کی سرپرستی میں بھارت، افغانستان اور ایران کا سہہ فریقی اتحاد کھل کر قائم ہوگیا ہے، پاکستان چین کیساتھ ساتھ روس سے بھی تعلق استوار کررہا ہے اور اس نئی صف بندی میں پاکستان وافغانستان کو ڈیورنڈ لائن پر لڑانے کی کوشش ہوگی تو پاکستان کے مقابلہ میں افغانستان کو ایران اور عالمی قوتوں کی حمایت حاصل ہوگی۔ اٹک سے میانوالی تک کے علاقہ پر افغانستان کا دعویٰ ہے۔ تیسری بار وزیراعظم پر پابندی کے خاتمہ کیلئے (ن) لیگ’’سرحد‘‘کا نام بدلنے پر راضی ہوئی، سرحد تنازعہ کا نشان تھا۔اگر نیٹو نے اس جنگ میں افغانستان کا ساتھ دیا تو پاک فوج کو حکم دیا جائیگا کہ متنازعہ علاقہ خالی کرو اور وہ اقوام متحدہ جو 1948سے مقبوضہ کشمیر میں استصوابِ رائے نہ کراسکا مگر سوڈان میں اپنی فوج بھیج دی، جسمیں پاکستانیوں نے بھی حصہ لیا۔ یہاں بھی اقوام متحدہ کی فوج آئے تواس میں اسلامی ممالک کے علاوہ بھارت کا حصہ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر اقوام متحدہ کے زیرِ نگرانی ہماری فوج اور پولیس کو پاکستان کا بٹوارہ کرنے کیلئے زیادہ تنخواہ ملے تو ہماری ریاست بھی حصہ دارہو گی۔
امریکہ کی ریاست اسلحہ سے چلتی ہے، دنیا بھر میں جہاں لوگوں کو مرغے، کتے، بٹیر، تیتر،اونٹ ، بیل،دنبے، بھینسے اور دیگرجانور اور پرندے لڑانے کا شوق بلکہ کمائی کا ذریعہ اور پیشہ بھی ہوتا ہے ،امریکہ ریاستوں کو لڑانے، ڈھانچے تباہ کرنے اور قوموں کو لڑانے کاخوگر و پیشہ ور ہے۔پاکستان میں فرقے و لسانی لڑائی کے علاوہ سیاسی تعصب اور میڈیا کے ذریعہ خناس کا کردار ادا کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ اگرہم نے قوم کے سامنے سچ کو واضح کیا تو جھوٹوں کے منہ کالے اور عوام قومی مفاد ، پاکستان کی تعمیر اوردنیا میں سرخروئی کے متوالے ہونگے۔ پاکستان واقعی عظیم ملک، پاکستانی عظیم قوم ہے اورآئندہ اپنی عظمت منوانے کے دن آرہے ہیں۔ انشاء اللہ ، سید عتیق الرحمن گیلانی

پاک فوج سے بدگمانی کے عوامل اور اسکے نتائج

پاکستان میں مختلف ادوار کے اندر فوج نے اقتدار سنبھالا ہے، ایوب خان کے دور سے پہلے بھی عوامی قیادت نہیں تھی، بیوروکریسی کے سکندر مرزا سے حکومت چھین لی گئی تو عوام کا مسئلہ نہیں تھابلکہ انگریز کے تیار کردہ سول اور فوجی قیادت کی لڑائی تھی، ذوالفقارعلی بھٹو نے بھی جنرل ایوب خان کی ٹیم سے نکل کر بعد میں عوام کا رخ کیا تھا اور بھٹو جب فوج کے ہاتھ سے تختہ دار تک پہنچے تو جنرل ضیاء الحق کے آغوش میں نواز شریف نے پرورش پائی، بھٹو نے فوج اور قوم پر قابو پانے کی کوشش کی ، نوازشریف بھی آنکھیں دکھا رہا ہے، اسلئے نوازشریف کامتبادل تلاش کیاجارہا ہے۔ نوازشریف کی خواہش ہے کہ باقی فوج جو کچھ کرتی پھرے خیر ہے مگر فوج اسکے برے وقت میں کام آئے، مخالف تحریکوں کو دبائے، پانامہ لیکس پرمٹی ڈال دے اور حکومت کے خلاف بولنے والوں کو لگام دے، نہیں تو فوج کی یہ نوازشریف سے بے وفائی ہے۔
پاک فوج ضربِ عضب میں تنہائی کا شکار تھی، حکومت کسی کام میں مشورہ بھی نہ دیتی تھی، سول لوگوں کیساتھ سیاسی طور سے نمٹ لینا فوج نہیں سیاستدان کا کام ہے، وزیرستان میں فوج کو کوئی بات ناگوار گزرتی ہے تو وہ ان کیساتھ ویساہی سلوک کرتی ہے جیسے فوج کی ڈسپلن، تربیت اور جو خودپر بیت چکی ہوتی ہے، مشہور ہے کہ گدھے کی محبت لات مارنا ہوتا ہے۔ فوجی طرز کی سزا ؤں میں پاک فوج کے جوان اپنائیت محسوس کرتے ہیں لیکن عوام میں ان سے نفرت بڑھ جاتی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جان بوجھ کر ہماری توہین کی جاری ہے۔ حالانکہ یہ سزائیں فوجی خود بھی بھگتے ہیں اور دوسروں کو دینے کا مقصد بھی دشمنی نہیں ہوتی بلکہ ڈسپلن اورتربیت ہوتی ہے۔
وزیرستان میں گھروں کے چھتوں سے برف نہ ہٹائی جائے توخراب ہوجاتے ہیں، کئی سالوں سے عوام کو جانے نہیں دیا جارہا تھا تو شہروں اور گاؤں کا ملبہ ٹھیکہ پر بیچاگیا، عوام نے گھروں کا حال دیکھا تو بہت پریشان ہوگئے کہ فوجی بھوکے ہوتے ہیں ، ہمارے گھروں، دکانوں اور بڑے بڑے درختوں کو کاٹ کر کھا گئے ہیں لیکن ان کو یہ کام کرتے ہوئے ذرا بھی شرم نہ آئی کہ ایک تو پناہ گزین بنایا گیا ، دوسرا ٹھیکوں پر سب کچھ بیچ ڈالا گیا۔ پرویزمشرف کے دور سے ایسا لگتا تھا کہ فوج کو ایک مہم کے تحت بدنام کرنے کیلئے ایسا کردار دیا گیا ہے تاکہ عوام ان سے نفرت کریں۔ سرکاری محکموں ، روڈ کے ٹھیکوں اور بدترین سلوک کی ان گنت کہانیاں عوام کے دل و دماغ پر نقش ہیں، فوج پرکوئی آفت آئے تو لوگ اس کو خدا کی طرف سے پکڑ اور قہر سے تشبیہ دیں گے۔ عوام کے دل ودماغ کو مثبت انداز میں سوچنے کیلئے مؤثر قیادت ہوتی تو پھر مشکلات حل کرنے میں بہت آسانی ہوسکتی ہے ورنہ عالمی منصوبہ سازوں نے یہ کسر نہیں چھوڑی ہے کہ کسی بڑی سازش کا مقابلہ ہوسکے۔
جس طرح ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے کہ دوسرے کی عزت کوئی عزت نہیں لگتی، دوسرے کا نقصان کوئی نقصان محسوس نہیں ہوتا، قتل وغارتگری، مال ودولت کی پوجاو پاٹ ،اخلاقی بے راروی اور ہرقسم کی گراوٹوں کی آماجگاہ ہیں، فوج بھی اسی قوم وملت کا حصہ ہے، بس فرق جنگلی اور شہری انسانوں میں ضرور ہوتا ہے۔ قیادت اگر درست ہاتھوں میں رہے تواسکو ٹھیک ہونے میں زیادہ عرصہ بھی نہ لگے ۔ قبائل کو اس نے سدھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے تو اس پر گلہ کرنے کی بجائے خوش ہونا چاہیے۔ گاؤں ٹھیکے پر دئیے ہیں تو یہ نسبتًا سلجھا ہوا طریقہ ہے ورنہ تو ہمارے ہاں جس کو سزا دی جاتی تھی اسکے گھر کی لوٹ مار کی جاتی تھی، اب آئندہ قبائل کسی کو بھی سزا دینگے تو لشکرکشی کے ذریعہ لوٹ مار کی بجائے معروف طریقہ سے اشتہار دیکر ٹھیکہ پر گھر دینگے۔ امریکہ نے چاہا تھا کہ ہماری قوم کو بالکل خصی بنادے لیکن اب ہم بہت سلجھ گئے ہیں ، انشاء اللہ آنے والے وقت میں ہماری قوم امریکیوں کی امامت اسلئے کرے گی کہ وہ سلجھے ہوئے نہ ہونگے ایک دوسرے سے رنگ، نسل ،قوم اور مذہب کی بنیاد پر لڑیں گے اور ہم انکے درمیان بھی مصالحت کا کردار ادا کرینگے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہم یکیدون کیدًا واکیدکیدًا ’’بیشک وہ اپنی چال چلتے ہیں اور میں اپنی چال چلتا ہوں‘‘۔ مہدئ سوڈانی نے انگریز کوشکست دی تو اب سوڈان سے مغرب نے اپنا بدلہ لیا ہے، پختونخواہ کے لوگوں نے انگریز سے لڑائیاں لڑی تھیں تو انکے خلاف بھی بہت سازشیں کی گئیں۔ پختون قوم کو منصوبہ بندی کے تحت تباہ کیا گیا لیکن اس سے ان میں بین الاقوامی معیار کا شعور بھی آیا ہے، اب پھر افغانستان اور پاکستان کو لڑانے اور پختونوں کو مزید کچلنے کی سازش تیار ہورہی ہے۔ ہماری افغانوں سے کوئی لڑائی نہیں مگر جہاں تک ڈیورنڈ لائن کا تعلق ہے تو اگر ہمیں یہ اختیار دیا جائے کہ افغانستان یا پاکستان میں کس کیساتھ رہنا پسند کرینگے تو اب ہمیں افغان پر حکمرانی بھی نہیں چاہیے لیکن پاکستان کی رعایابن کر رہنا ہی پسند ہوگا۔ پنجابی، سندھی، بلوچ اور کشمیری سے جو انسیت ہے وہ افغانوں سے نہیں، اگر بالفرض پاکستانی اسلام کا نام چھوڑ دیں تب بھی راجہ رنجیت سنگھ کی اولاد کے نام پر بھی انگریز نے پنجاب کو نہیں چھوڑنا ،ہم انکے مقابلہ کی سکت نہیں رکھتے، علامہ اقبال کی بکواس ؂کافر ہے تو شمشیر پر کرتا ہے بھروسہ مؤمن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی کسی کام کی نہیں ، قرآن کیمطابق اپنی استطاعت سے دفاع کی طاقت حاصل کرکے اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن پر رعب طاری کرنا ہے، بھارت کی حد تک ایٹم بم اور میزائل پروگرام تشکیل دیا لیکن اپنی استطاعت سے بڑھ کر دفاع کا بجٹ بنانے کے باوجود امریکہ کے دست نگر رہتے ہیں۔ ایسے اقدامات کرنے ہونگے جن میں امریکہ کی چبائے ہوئے چیونگم کی طرح امداد کے نشے کا انتظار نہ رہے۔کوئی امداد روکنے کا بل پیش کرتا ہے اور کوئی مسترد کرتا ہے تو ہماری روح ہی تڑپ جاتی ہے کہ جان نکلے گی یا جان بچے گی، ایسی دفاعی امداد پر لعنت بھیجو۔
پاک فوج نے کم عقل سیاستدانوں کو استعمال کرکے بہت مشکلات پیدا کی ہیں، اگر وہ شہروں سے باہر اپنے ٹھکانے بنالیں تو شاید بیرونی دشمنوں سے خطرہ لگتا ہے اور اگر عوام کیلئے راہیں کھول دیں تو اندرونی دشمن کا خوف مسلط ہے۔ جب تک اس طرز زندگی کو تبدیل نہیں کرینگے تو عوام اور پاک فوج میں محبت کی جگہ نفرت پیدا ہوتی رہے گی۔ فوج کی ٹریننگ دشمن سے نمٹنے کیلئے ہے۔ خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور کراچی میں ایسے حالات بنائے گئے کہ دشمن بھی اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا،موجودہ فوجی قیادت نے اس چیلنج کو قبول کرکے کافی حد تک معاملات کو حل کردیا ، فوجی سپاہیوں اور افسران سے پولیس کی طرح توقع رکھنا بھی ایک غلطی ہے۔ اب تو فوج کو اتنا عرصہ قبائلی علاقوں ، بلوچستان اور کراچی میں ہواکہ ان کو پولیس کی طرح ٹریننگ دی جائے اور بطور پولیس بھرتی کرنے میں بھی حرج نہ ہونا چاہیے۔ اسلئے کہ اب یہ جنگلوں میں نہیں رہ سکتے ، البتہ شہروں میں جنگلی بن کر نہ رہنا چاہیے۔ یہی فوج ،قوم، ملک، سلطنت کے مفاد میں ہوگا۔قبائل کالے قانون کے عادی تھے اسلئے کہ پولیٹیکل انتظامیہ کرپشن کرکے قوم کو ناکردہ گناہوں کی اجتماعی سزا دیتے تھے۔
پاک فوج کامطلب پاکیزہ نہیں بلکہ پاکستان کا مخفف پاک ہے، فوج دوسروں کی طرح خود کو بھی پاکیزہ نہ سمجھے اور نہ دوسروں کو یہ حق ہے کہ فوج پاکیزہ نہیں اور وہ خود پاک ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لاتزکوا انفسکم اپنی جانوں کو پاک مت قرار دو۔ ہماری سیاست قیادتیں پاکی کے دعوے کرکے منتخب ہوتی ہیں حالانکہ ان کا کردار درست ہوتا تو قوم بھی ٹھیک ہوجاتی۔وزیرستان، بلوچستان اور کراچی والے بھی خود کو پاک نہ سمجھیں ،اندرون سندھ اور پنجاب کوپاک ہونے کی ضرورت ہے، جہاں خواتین کی عزتیں تک محفوظ نہیں، پاک فوج اپنی غلطیوں کو وہاں نہ دھرائے مگر وہاں بھی بدمعاشی کے نظام کو ختم کرنے کی سخت ضرورت ہے۔سید عتیق گیلانی

جنرل راحیل شریف کا کردار اور پختون قوم کی شکایت

پختون قوم کی اکثریت اپنے گناہوں کی سزا کھا رہی ہے ظھرالفساد فی البر والبحر بماکسبت ایدی الناس ’’ فساد ظاہر ہوا خشکی اور سمندر میں بوجہ لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے ‘‘۔ مگر اسکو گلہ پاک فوج کے جوانوں سے ہے۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو پوری پاکستانی قوم کی ہمدردیاں طالبان کیساتھ تھیں اور پختون من حیث القوم طالبان بن گئے۔طالبان کے شدت پسند حامی کہتے تھے کہ ’’ اللہ کرے کہ انڈیا ہماری فوج کو پکڑلے‘‘۔ فوج کی طرف سے طالبان کیخلاف کوئی موثر کاروائی ہوتی تو بغاوت بھی پھیل سکتی تھی۔پوری قوم کی طرح پاک فوج بھی طالبان کیخلاف نہ تھی، امریکہ بھی القاعدہ کا مخالف تھااور طالبان رہنماؤں کو دنیا بھر میں آزادی سے نقل وحمل کی اجازت تھی ،امریکہ و طالبان کی مشترکہ منڈی کامرکزقطر تھا،اس اندھی لڑائی میں دوست دشمن کی تفریق ممکن نہ تھی، پاکستان اور امریکہ بھی ایک دوسرے کے برابر دشمن بھی رہے اور دوست بھی۔
جنرل راحیل شریف سے پہلے پرویزمشرف کے دور میں پاک فوج کو عوام نے بہت قریب سے دیکھا، جنرل کیانی کے چھ سالہ دورِ اقتدار میں پاک فوج نے عوام کو اپنا چہرہ اورقریب سے دکھایا، فوج کے اہلکار بوتلوں میں پیٹرول اور ڈرموں میں ڈیزل سڑکوں پر بیچتے تھے، پولیس کی طرح جرائم پیشہ عناصر سے تانے بانے بھی کھل کر ملتے تھے، ریاست کی رٹ بالکل ختم ہوگئی تھی۔ ایک نابینا مولوی کا لطیفہ تھا کہ اپنے شاگرد سے کہا کہ جب لوگ کھانے کے مشترکہ تھال میں کھانا شروع کریں اگردوسرے تیز کھائیں تومجھے بھی ہلکا سا اشارہ کردیں، پسلی پر ہاتھ مار دیں ،پھر میں بھی تیز کھانا شروع کرونگا۔ شاگرد طالب کو اس کی بات ناگوار لگی اور اسکے ذہن سے بات بھی نکل گئی، جب کھانا شروع ہوا تو نابینا نے پہلے سے بڑے بڑے نوالے لینا شروع کردئیے، شاگرد نے سوچا کہ اشارے سے سمجھا دیتا ہوں کہ بُرے لگتے ہو اور ہلکا سا ہاتھ مار کر اشارہ کردیا، مولوی نے سمجھا کہ تیز کھانے کیلئے کہہ رہا ہے۔ اس طرح شاگرد اس کو منع کرنے کیلئے اپنا ہاتھ مارتا رہا اور مولوی مزید تیز ی سے کھاتا رہا اور آخر شاگرد نے زور دار طریقہ سے مکا مارا،کہ بس کرے اور اس نے کھانا اپنے دامن میں دونوں ہاتھوں سے ڈالنا شروع کیا اور گالیاں بھی دے رہا تھا کہ میں رہ گیا اور سب نے لوٹ کر کھانا کھایا ہے جبکہ لوگ اس حریص ہی کا تماشہ دیکھتے رہ گئے۔
جنرل اشفاق کیانی کی قیادت میں بس یہی جملہ کراچی کے رینجرز سے فوج کے تمام اداروں میں مشہور تھا کہ اگرملک زرداری اور اسکے ساتھی کھالیں، لوٹ مار کریں تو ہم کیوں کر مستحق نہیں ہیں، جنرل راحیل شریف کی قیادت میں سب سے پہلے جو ہاتھ ڈالا گیا وہ اپنے ادارے اور اسکے لواحقین پر ڈالا گیا۔ ایگزیکٹ کی طرح دنیا بھر میں جعلی تعلیمی ادارے اسناد بیچنے کا کاروبار کرتے ہیں اور بڑے کھل کر کرتے ہیں مگر جنرل راحیل شریف کی ٹیم نے سارے مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر ان تمام افراد پر پہلے ہاتھ ڈالا،جنکے تانے بانے اپنوں سے ملتے ہوں۔ اس انتھک محنت، جدو جہد اور مؤثر کاروائیوں کے نتیجے میں ملک تاریکی سے اجالے، دہشت گردی سے امن وامان اور کرپشن سے دیانت وامانت کی طرف گامزن ہوا ہے۔
ایک شخص جنرل راحیل شریف اپنی ٹیم کیساتھ بہت کچھ کر گیا اور ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، چیف جسٹس انور ظہیرجمالی بھی بذاتِ خود ایک بہت اچھے انسان ہیں، جن سیاستدانوں کو کرپشن کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا، ان پر ہاتھ ڈالے بغیر قوم کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے، سازشوں کی لہریں اٹھ رہی ہیں، موجودہ حکمرانوں میں اہلیت نہیں ، قوم کو صرف اس طرف لگایا گیا ہے کہ زیادہ کرپٹ، بدمعاش، بداخلاق اور بدکردار سیاستدان ہیں یا پاک فوج ہے؟۔ دونوں اسی دھرتی کے باسی اور ماشاء اللہ وسبحان اللہ ہیں۔دونوں میں اچھے برے ہیں، دونوں نے غلطیاں کی ہیں،دونوں کو قربانیاں دینی پڑیں گی اور پاکستان کی ترقی کیلئے ایک نئے سرے سے لوگوں میں انسانیت، اخلاقیات، صداقت، عفو و درگزر ، شجاعت ، دیانت ،امانت اور ایمانیات کا احساس اجاگر کرنا ہوگا۔
یہ قوم مردہ ، ضمیر فروش، اخلاق باختہ ، انسانیت کُش اور تمام طرح کی روحانی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہوچکی ہے۔ تہذیبِ اخلاق کیلئے صرف جذبہ سے نہیں بلکہ مؤثر قانون سازی اور کردار سے اس میں اعلیٰ انسانیت کی روح پھونکی جاسکتی ہے۔ یہ کس کی سازش ہے کہ ہم سڑکوں پر انسانیت کے تمام معیارات بھول جاتے ہیں؟۔ یہ ہمارے رول ماڈلز کا تحفہ ہے جن کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں عوام کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جہاں سڑک کشادہ ہونی چاہیے تھی، وہاں بااثر طبقہ کی طرف سے اپنی جان کی امان کیلئے رکاوٹیں کھڑی کرکے عوام کا جینا دوبھر کرنے کا سامان کیا گیا ۔رائے ونڈ محل کی سیکیورٹی سے عوام کو مشکلات کا سامنا نہیں لیکن تحریک انصاف کی جہاں حکومت ہے وہاں کے صدر مقام پشاور میں کورکمانڈر ہاؤس کے سامنے ایک طرف کی سڑک رات کو بند کی جاتی ہے، ہمارے دفاعی ادارے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ہیں یا اپنے تحفظ کیلئے عوام کا جینا دوبھر کرنے کیلئے؟۔
ایسے سیاسی حکمران بھٹو، نواز شریف اور عمران خان تک کسی کام کے نہیں جو فوجی افسران کا دم چھلہ ہوں، فوج کا کام عوام پر حکمرانی کرنا نہیں اپنی ڈیوٹی انجام دینا ہے اور سیاسی حکمران اگر عوام کے درست معنیٰ میں خادم اور نوکر ہوں تو فوج عوام کی غلام ہونی چاہیے۔ انگریز نے اپنی غلامی کیلئے جن کو بنایا ہے ، یہ اپنی عوام پر حکمرانی کرینگے تو گدھوں کی دولتی سے عوام کی ناک بھی ٹوٹے گی، ناک نہ رہے تو عزت کیا رہے گی؟۔ حکمران غلاموں کے غلام ہونگے تو ان میں اخلاقیات کا کیا معیار ہوگا؟۔ پاک فوج کا سربراہ اپنے غلام حکمران کو کیا سلام کریگا؟۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان جیسے لوگ شرم ، حیاء، اخلاقیات، انسانیت اور اسلام کے کسی اصول کو نہیں مانتے۔جسطرح نوازشریف نے کاروبار سیاست سے فائدہ اٹھاکر اخلاقیات کیلئے کوئی رول ماڈل کا کردار ادا نہ کیا، اسی طرح فلاحی اداروں کے بل بوتے پر اپنا مفاد حاصل کرنے والا کوئی ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان قوم کی تقدیر نہیں بدل سکتاہے۔ پاکستان میں شریف اور اچھے لوگوں کی کسی بھی ادارے میں کمی نہیں مگر اہل لوگوں کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے اور بک بک کرنے والوں اور بے شرمی سے گھناؤنا کردار ادا کرنے والوں کو ہی آگے لایا جاتا ہے۔
سوات میں افضل خان لالا مرحوم نے دہشت گردی کے خلاف جو کردار ادا کیا، اگر حکومت ،میڈیا،سیاستدان اور عوام ان کو پذیرائی بخشتے تو ملالہ یوسف زئی کو آدھا نوبل انعام ملا، اس سے پہلے افضل خان لالا پورے نوبل انعام کے مستحق تھے، اس طرح میاں افتخار حسین نے جن مشکلات کے دور میں جو کردار ادا کیا ، تحریک انصاف کے کارکنوں نے اسکے گھر پر تماشہ لگاکر کتنا مضحکہ خیز کردار ادا کیا؟۔ اس پر قتل کا پرچہ کٹوایا گیا۔ کوئی شریف آدمی تحریک انصاف کے بداخلاق رہنماؤں کیساتھ کسی ذمہ دار عہدے پر کام کرنے کیلئے بھی آمادہ نہیں ہوتا ۔ مولانا فضل الرحمن کا حال تو اتنا بُرا ہوا کہ ہمارے ہاں ایک ریٹائرڈفوجی حوالدارہے جس کو بالآخر یہ تک شرارتی بچہ پارٹی کہتی تھی کہ دو روپیہ میں اپنا چوتڑ دیوار سے ٹکراؤ، وہ رقم کی خاطر ریورس گیر لگاکر چوتڑ کو دیوار سے ٹکرا دیتا تھا، مسلم (ن) کا ایک گھٹیا کارکن بھی مولانا فضل الرحمن کی طرح نہ کہتا کہ ’’پنجاب کے شیروں کو پختونخواہ کے چوہوں نے للکارا ہے‘‘۔ فوج تبدیلی کی خواہش رکھتی ہو تو خود بھی حکمرانی کی کوشش نہ کرے اور گھٹیا سیاستدانوں کو بھی نہ لائے، شریف لوگوں کے ذریعہ نظام کو درست کرنے کیلئے قومی حکومت ہو تو اچھے نتائج نکلیں گے۔عوام چہروں کی نہیں نظام کی تبدیلی چاہتی ہے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

ڈاکٹر طاہرالقادری کا دھرنااورکچھ معروضی حقائق

یوں تو پتہ نہیں چلتا کہ خودکش حملوں اور پلانٹ کردہ بموں کے اصل کردار کون ہیں مگرماڈل ٹاؤن کے 14 شہداء کی انکوائری مشکل نہیں ، البتہ لاہورکے تازہ واقعہ میں شہید ہونے والے70افراد حرفِ غلط کی طرح بھُلادئیے گئے جن کی چپقلش بھی نہ تھی بس تاریک راتوں میں مارے گئے۔اسلام آباد دھرنے میںPAT کے کارکنوں نے ایس ایس پی کی جس طرح ٹھکائی کردی، اسلام آباد ائرپورٹ پر جس طرح ڈاکٹر طاہرالقادری کے جیالوں نے پولیس کو مارا، وہ کسی سے مخفی نہیں، ماڈل ٹاؤن میں پہلی مرتبہ ڈنڈے مارنے اور جوش کا مظاہرہ کیا ہوگا تو پولیس نے گولیاں چلائی ہونگی۔ اس سانحہ کی ذمہ دار صرف ریاست نہیں بلکہ PAT بھی ہے جس نے غریبوں کو ڈنڈے مارنے اور گولیاں کھانے کیلئے ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔
پہلی مرتبہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اسلام آباد دھرنے کا اعلان کیا تو کراچی آئے اور ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین گویا اسکے فسٹ کزن تھے جبکہ دوسرے دھرنے کے دوران عمران خان فسٹ کزن قرار پائے جو الطاف حسین کو ہزاروں افراد کا قاتل ، ظالم اور جابر کہتا ہے۔ اب اس سوال کا جواب چاہیے کہ 14افراد کے قتل پر آسمان و زمین کی قلابیں ملانے اور انقلابیں برپا کرنے والے کو اس وقت ہزاروں افراد کا قاتل الطاف اپنی طرح ایک مسیحا اور بھائی لگتے تھے اور نظام کی تبدیلی کیلئے اسی کا ساتھ چاہیے تھا ؟۔ اگر یہ سب جھوٹ اور غلط پروپیگنڈہ ہے تو اپنے بھائی کے حق میں آواز کیوں نہیں اُٹھائی جارہی ہے؟۔ تقریر و تصویر پر پابندی تو دنیا کے بڑے بڑے دہشت گردوں کی بھی نہیں لگی تو کیا اس پابندی نے الطاف حسین کو دنیا کا واحد مقبول لیڈر نہ بنایا؟۔ کراچی کی عوام لکھی پڑھی ہے، اگر ڈاکٹر طاہر القادری کی طرح الطاف حسین کا متضادرویہ اور تقریروں کا عجب انداز سامنے لایا جاتا تو عقیدت و محبت میں کیا اضافہ ہوتا؟۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی ویڈیو دکھائی جاتی ہے جسمیں سینہ کھول کر وہ کہتے ہیں کہ گولی مار دو میں نہیں ڈرتا، اور پھر لوڈسپیکر پھٹنے پر حواسہ باختہ دکھایا جاتا ہے،حالانکہ قوتِ مدافعت سے اچانک لرز جانا کوئی بزدلی بھی نہیں ۔
البتہ جب ڈاکٹر طاہرالقادری امارات کے جہاز میں چپک کر بیٹھ گئے اور کہاکہ ’’میں اتروں گا نہیں ورنہ ماردیا جاؤں گا‘‘۔ تو اتنا کہہ دیا جاتا کہ تم نے اس وقت خوف کا مظاہرہ کیا ،اپنے عقیدتمندوں کے سامنے بھونڈی حرکت کی ضرورت نہ تھی کہ کوٹ کھول کر سینہ دکھایا اور کہا کہ میں گولی سے ڈرنے والا نہیں۔ یہ کہنا اسوقت ججتا ہے جب کوئی بزدل دشمن بندوق لیکر نشانہ بنانے سے ڈراتا ہے کہ میں بزدلوں کے ڈرانے سے نہیں ڈرتا ۔ قوم کا درد رکھنے اور خاندانی سیاست نہ کرنے کی بات وہ کرے جو خود ملوث نہ ہو۔ جب اسلام آباد کی سردی میں دودھ پیتے بچے ٹھنڈ سے بدحال تھے تو ڈاکٹر طاہرالقادری کے جوان بیٹے ، بیٹی محفوظ کنٹینر میں دندناتے تھے۔ ابھی تک قوم کو پتہ نہیں کہ حکومت کو ڈھیل اسلئے دی کہ ڈاکٹر طاہر القادری بیمار تھے یا حکومت کو وقت دینا چاہتے تھے؟ اور تیسرا دھرنا اسلئے ملتوی کیا کہ خرم نواز گنڈہ پور کی زبان کی پاسداری کی، یاپھر رمضان میں لوگوں کوتکلیف نہ دینا چاہتے تھے؟۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ ’’میرے لئے کرسی پر بیٹھ کر تقریر کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا لیکن میں نے کھڑے ہوکر تقریر اسلئے کی کہ یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ میں بالکل فٹ ہوں، میں بیٹھ کر تقریر محض اپنے سہولت کیلئے کرتا ہوں، یہ میری مجبوری نہیں‘‘۔ جب ڈاکٹر صاحب نے فجر کی نماز پڑھائی تو سجدے میں جانے کی بجائے کرسی ہی پر بیٹھ جاتے تھے، یہ انکا عذر اور مجبوری ہے یا ان کی کرسی سے محبت اللہ کے سامنے سجدہ کرنے سے بھی روکتی ہے؟۔جنرل راحیل شریف اپنی چھڑی سے نوازشریف کو سبق سکھائیں تو ڈاکٹر طاہرالقادری کو بھی اللہ کے سامنے سجدے کا اشارہ کریں ، اللہ کیلئے نہیں تو جنرل کیلئے ضرور مصلے پر سجدہ کریں گے۔ڈاکٹر طاہرالقادری مصلہ پر بیٹھ کر سجدہ نہیں کرسکتے توکیسے کہا کہ ’’میں نے مصلہ پر گڑگڑا کر بہت دعائیں مانگ لیں کہ اے اللہ! میری عزت کا پاس رکھنا، اگر 14غریب شہداء کے لواحقین میں سے کوئی ایک بھی بک گیا تو میری عزت خاکستر ہوجائیگی، شکر ہے اللہ نے میری عزت رکھ لی ، حکومت نے بہت پیشکش کی کہ دیت لے لو لیکن کوئی ایک بھی نہ بکا‘‘۔
کارکنوں کی کیا حیثیت ،رہنماؤں کے بدل جانے سے بھی قائدین پر کوئی اثر نہیں پڑتا، یہ بات ہوتی تو پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ،تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی کیا عزت رہتی؟،کتوں کے ریلوں کی طرح سیاسی رہنما پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں۔ اور جب رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ مرتد ہوگئے تو اس پر بھی نبیﷺ کی عزت پر کیوں کر اثر پڑتا؟۔ البتہ جب نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ شہر میں جنگ لڑیں تو اچھا رہیگا اور نوجوان صحابہؓ نے ضد کی کہ ہم باہر نکل کر مقابلہ کرینگے تو نبیﷺ کا ارادہ بدل گیا اور شہر سے نکلنے کیلئے زرہ زیبِ تن فرمایا، نوجوانوں کو بڑوں نے ڈانٹا کہ اپنی رائے پر اصرار کیوں کیا تو وہ عرض کرنے لگے کہ ہماری رائے بدلی ہے، شہر میں جنگ لڑیں گے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ جب نبی ایک دفعہ زرہ پہن لے ،پھر مناسب نہیں کہ اس کو اتاردے۔ اب شہر سے باہر ہی جنگ لڑیں گے۔ پھر گھمسان کی جنگ میں بعض صحابہؓ کے پیر اُکھڑ گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا انا نبی لاکذب انا ابن عبدالمطلب ’’ میں نبی ہوں جھوٹا نہیں ،میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں‘‘۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے قوم کے سامنے کفن لہرایا کہ ’’ اس کو میں پہنوں گا یا اس کو نوازشریف کی حکومت پہنے گی‘‘۔ دونوں باتیں نہیں ہوئیں بلکہ جسکو فسٹ کزن قرار دیا تھا اسکو بھی چھوڑ کر بھاگا، کیونکہ بھکر میں انتخابات کانتیجہ دیکھ لیا تھا۔ عزت رکھنے کی بات ہوتی تو اپنی بات پر قائم رہ کر خود اپنی عزت رکھ لیتے۔ کارکن دیت لیتے بھی تھے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس کی اجازت اسلئے نہ دی تھی کہ غریب کے عمل سے باتوں کے سکندروں کی عزت پامال ہوتی۔البتہ جب ریمن ڈیوس نے صرف شہریوں کو قتل نہیں بلکہ ریاست کی بھی خلاف ورزی کی تو اس وقت صوبائی ومرکزی حکومت اور فوج وعدلیہ کے کردار نے اپنی عزت داؤ پر لگادی۔ عمران خان اگرچہ نیازی ہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری کی طرح باپ سے زیادہ ماں اور ماں کے خاندان کا نام لیتے ہیں، جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا نسب قادری نہیں تو کس اعتبار سے فسٹ کزن ہیں؟۔ کیا امپائر کی انگلی اٹھنے یا توقعات کے حوالہ سے فسٹ کزن ہیں؟۔
خرم گنڈہ پور نے میڈیا پر مسلسل کہا ’’ اگر ہمارے پاس اسلحہ ہوتا تو انکو بھی نشانہ بنادیتے، میں تربیت یافتہ فوجی ہوں، میری نااہلی پاکستان آرمی کی نااہلی ہے‘‘۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے خرم نواز گنڈہ پور کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا اور کہا کہ ’’ہمارے پاس پاک آرمی کے ریٹائرڈ تربیت یافتہ کمانڈوز تھے میرے بیٹے حسن اور حسین نے منتیں کرکے ان کو کمروں میں بند کیا کہ ہمارے ابا کا حکم ہے، سب کو بھی مار دیا جائے تو پُر امن رہنا۔ اگر اس وقت ان کی اجازت ملتی تو 14لاشیں ان کی بھی گرجاتیں‘‘۔ اگر ایک بیٹا گارڈز کو روکتا اور دوسرا گولی کھانے والوں کیساتھ گولی کھا لیتا تو شاید پروفیسر طاہرالقادری کو اسی وقت پاکستان آنے کی توفیق مل جاتی لیکن جو غریب مرتے ہیں ان کی کیا اوقات ہوتی ہیں، اگر حکمرانوں میں عقل ہوتی تو وہ یہی کہتے کہ اسلام آباد کی بجائے لاہور ہم زبردستی سے اسلئے لائے ہیں کہ دعا اور تعزیت کا خیال تو رکھو۔ عمران خان اسپیشل جہاز سے کراچی آئے تو ایم کیوایم کیخلاف ایک لفظ بھی نہ کہا اور اپنی جماعت کی خاتون رہنما زہرہ شاہد کی تعزیت بھی نہیں کی۔ ہمارا مستقبل ان لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہونا چاہیے جن کا اپنا کوئی حال نہیں ۔
جمہوریت کی بساط لپیٹی جائے توتمام سیاسی مقاصد و فوائد حاصل کرنے والے طبقے کو ایک ہی چھڑی سے سیدھا کیا جائے تاکہ ماضی کی غلطیاں نہ دھرائی جائیں۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

قرآن میں اہم ترین معاشرتی مسائل کا حل اور امت کا اس سے کھل کر انحراف

دنیا میں ایک طرف امریکہ اور اتحادی ریاستیں ہیں جو دہشت گردی کی روک تھام کیلئے ایک ہی نعرہ لگارہی ہیں تودوسری طرف دہشت گردی ختم نہیں ہورہی ہے بلکہ پھیل رہی ہے۔ ریاستوں کی منافقت یا مجبوری کی یہ حالت ہے کہ سب ایک دوسرے پر الزامات بھی لگارہے ہیں، اچھے اور برے دہشت گردوں کے بھی تصورات موجودہیں اور دہشت گردوں کی شر سے بچنے کیلئے دہشت گردوں کا ہی سہارا لیا جاتا ہے۔اس گھناؤنے کھیل میں ہیروئن اور اسلحہ کا کاروبار کرنے والے جو فائدہ حاصل کررہے ہیں انہوں نے اس کو جاری وساری رکھنا ہے۔ امریکہ ڈرون حملے سے ایران سے آنے والے طالبان کے امیر ملااختر منصور شہید کرتا ہے یا ہلاک کردیتا ہے، جہنم رسید یا جنت کو پارسل کردیتا ہے؟۔ یہ فیصلہ کرایہ کے جہادکے بانی امریکہ کے ایماء پر ہمارے ریاستی اداروں اور میڈیا کے کرتا دھرتا لوگوں نے کرنا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ’’ پاکستان کی سرزمین پر یہ ڈرون حملہ قبول نہیں اور اس کیلئے مذمت کے الفاظ بہت معمولی ہیں‘‘۔ اگر ہمارے پاس قیادت کا فقدان نہ ہوتا تو جنرل راحیل شریف کو اس طرح کے بیان کی ضرورت نہ پڑتی۔ ضربِ عضب کے دوران بھی شمالی وزیرستان میں ڈرون ہوتے تھے، ایران پاکستان کی طرح امریکہ کا نہیں کھاتا۔
جنرل راحیل شریف نے شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کے بڑے اڈے کو ختم کرکے دنیا کو دکھا دیا کہ اسکے پیچھے ہم نہیں افغانستان میں موجود نیٹوکی افواج دہشت گردوں کو پال کر اپنے مقاصد حاصل کررہی ہیں۔ میڈیا کو سوال کرنا تھا کہ نیٹو افغانستان کی سرزمین پر کیا کررہا ہے؟۔ دہشت گردوں کو پال رہا ہے، ہیروئن کی اسمگلنگ کررہا ہے یا اس خطہ میں حالتِ جنگ کو دوام دیکر دنیا بھر کی طرح یہاں امریکہ کو اسلحہ فروخت کرنے کا ریکارڈ توڑنے کا موقع فراہم کررہا ہے؟۔ اسلام امن وسلامتی کا دین ہے اور دنیا بھر میں دہشت گردی کا فلسفہ امریکی سی آئی اے کی سرپرستی میں ہمارے ریاستی ڈھانچوں کے ذریعہ سے عام کیا گیا ۔ عوام کے جذبات کو امریکہ بھڑکارہا ہے اور اس کی آلۂ کار قوتیں دہشت گردی کی آبیاری کررہی ہیں۔یہ اتفاق نہیں کہ ملامنصور کو امریکہ نے ڈرون حملے سے مارا اور افغانی عمر متین کو امریکیوں سے بدلہ لینے کا موقع ملا بلکہ یہ اس جنگ کو جاری رکھنے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔شیطان خوفزدہ ہے بقول علامہ اقبالؒ کے
الحذر آئینِ پیغمبرؐ سے سوبار الحذر حافظِ ناموسِ زن مرد آزما مرد آفرین
اگر یہ آشکارا ہوا تو سب کچھ دھرا کا دھرا رہ جائیگا۔ اسلئے اس امت کو ذکر صبح گاہی میں مست رکھو اور مزاج خانقاہی میں پختہ تر کردو‘‘۔( شیطان کا اپنی مجلسِ شوریٰ سے خطاب: علامہ اقبالؒ )۔
ہمارا حال یہ ہے کہ پرویزمشرف کے دور میں عورتوں کو جبری جنسی تشدد سے بچانے کا قانون لایا گیا کہ ’’اس کو حدود سے نکال کر تعزیرات میں شامل کیا جائے،اسلئے کہ چارمرد گواہوں کو اکٹھے لانا بہت مشکل کام ہے، جس کی وجہ سے کوئی مجرم سزا نہیں پاسکتا ‘‘۔ اس پر مفتی محمد تقی عثمانی نے مخالفت میں ایک بہت ہی بھونڈی تحریر لکھ دی جس کو جماعتِ اسلامی نے پملفٹ کی شکل میں بانٹا، اسکے جواب میں سید عتیق الرحمن گیلانی نے بہت مدلل انداز میں تردیدلکھ دی جو ہم نے شائع کردی لیکن اس کو مذہبی حلقوں، ہماری ریاستی اداروں اور حکومت واپوزیشن نے کوئی اہمیت بھی نہ دی۔
مفتی تقی عثمانی کی تحریر کا خلاصہ یہ تھا کہ’’ اللہ نے سورۂ نور میں زنا کی حد بیان کی ہے اس میں جبری زنا اور زنا برضا کی کوئی قید نہیں‘‘۔ حالانکہ یہ سراسر بکواس ہے، اللہ نے زنا برضا کی وضاحت کی ہے’’مرد یا عورت میں سے کوئی بھی زنا کا ارتکاب کرے تو اس کو 100کوڑے کی سزا ہے‘‘۔ علماء ومفتیان کا وطیرہ ،تعلیم اور تربیت ہی یہ ہوتی ہے کہ اپنی مرضی سے جہاں چاہیں وہاں کہہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ مطلق حکم بیان کیا ہے، اس میں کوئی قید نہیں ہے، حالانکہ وہ یہ دھوکہ منافقوں کی طرح خود کو بھی دیتے ہیں اور اپنے عقیدتمندوں اور عوام کو بھی دیتے ہیں۔
قرآن میں بالکل واضح ہے کہ جو مردیا عورت فحاشی کا ارتکاب کرے، یہ جبری نہیں بلکہ برضا ورغبت کی بات ہے۔ جہاں تک جبر کی بات ہے تو اللہ نے واضح کردیا ہے کہ جو لونڈی زبردستی سے بدکاری پر مجبور کی جائے تو اس پر اسکی پکڑ نہ ہوگی بلکہ اگر کلمۂ کفر پرکسی کو مجبور کیا جائے تو بھی اللہ نے اس کو مستثنیٰ قرار دیا ۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے خواتین کو زبردستی سے تنگ کرنے والوں کو مدینہ سے قریب کے دور میں نکالنے کی خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ پہلے بھی ایسے لوگ ہوا کرتے تھے، فاینما ثقفوا فقتلوا تقتیلاً ’’ پھر جہاں بھی پائے گئے،تو وہ پھر قتل کئے گئے‘‘۔خاتون نے رسول اللہﷺ کو شکایت کردی کہ ایک شخص نے زبردستی سے اس کی عزت لوٹی ہے،نبیﷺ نے اس شخص کو پکڑ لانے اور سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ وائل ابن حجرؓ کی یہ روایت ابوداؤد کے حوالہ سے مشہور کتاب ’’موت کا منظر‘‘ میں زنا بالجبر کی سزا کے عنوان سے ہے۔بعض روایتوں میںیہ اضافہ ہے کہ ایک دوسرا شخص کھڑا ہوا کہ’’ اس نے نہیں میں نے یہ کام کیا ہے تو نبی ﷺ نے پہلے کو چھوڑ کر اس کو سزا کا حکم دیا۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت اور قرآن سے یہ واضح ہے کہ زنا بالجبر کی سزا 100 کوڑے نہیں بلکہ قتل ہے اور یہ کہ جج یا قاضی کوچار گواہوں کی بجائے دل کا اطمینان ہونا چاہیے کہ یہ جرم ہوا ہے۔ کوئی بھی کسی عورت سے زبردستی جنسی زیادتی کی اس سزا کو فطرت کے منافی نہ قرار دیگا جو قرآن وسنت میں موجود ہے۔ علماء ومفتیان ایک طرف غیرت کے نام پر عورت کے قتل کو جائز سمجھ رہے ہیں اور معاشرے میں اس کو سپورٹ کرتے ہیں تو دوسری طرف زبردستی سے جنسی تشدد کیلئے شرعی حدود اور چار گواہوں کو لازم قرار دیتے ہیں جو قرآن وسنت کے بالکل سراسر منافی ہے۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے پرویزمشرف کے دور میں زنا بالجبر کیلئے اسی حدیث کا حوالہ دیا جس میں ایک عورت کی ہی گواہی قبول کی گئی۔ سید عتیق گیلانی کی حق بات قبول کی جاتی توآج جنرل راحیل کو اس قدر مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا بلکہ دنیا بھر میں مسلمان سکون، عزت اور ایک فعال کردار کی زندگی گزارتے۔ گیلانی صاحب نے مفتی عثمانی کو حدیث کے کھلے مفہوم سے انحراف پر مرغا بننے کا مشورہ دیا تھا۔ جماعتِ اسلامی اپنی منافقانہ کردار کی وجہ سے پسِ منظر میں جارہی ہے۔ ڈاکٹر فرید پراچہ جماعتِ اسلامی کے اہم رہنما ہیں، وہ میڈیا پر قرآن کی اس آیت کو رسول اللہ ﷺ کی اذیت سے جوڑ رہے تھے جس میں خواتین کو تنگ کرنے کے حوالہ سے قتل کی وضاحت ہے۔حالانکہ نبیﷺ کی اذیت کا ذکر اس سے پہلے والے رکوع میں ہے، جس میں قتل کا کوئی حکم نہیں ہے، لعنت کا مستحق تو جھوٹے کو بھی قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عائشہؓ پر بہتان سے بڑھ کر نبیﷺ کو کیا اذیت ہوسکتی تھی؟ مگر بہتان لگانے والے صحابہؓ حضرت حسانؓ، حضرت مسطح ؓ اور حضرت حمناؓ وغیرہ میں سے کسی کو قتل نہ کیا گیا بلکہ جب حضرت ابوبکرؓ نے قسم کھائی کہ آئندہ اس اذیت کی وجہ سے اپنے عزیز مسطح کی مالی اعانت کا احسان نہ کروں گا تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں ایسا کرنا مؤمنوں کی شان کے منافی قرار دیتے ہوئے روکا اور حکم دیا کہ احسانات کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
البتہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں زناکار مرد وعورت کیلئے شادی شدہ یاغیر شادی شدہ کی قید کے بغیر 100کوڑے سزا کا حکم دیا ، جس پردل میں رحم کھانے سے روکا گیا اور مؤمنوں کے ایک گروہ کو گواہ بنانے کا حکم بھی دیا ہے۔ اسکے برعکس توراۃ میں شادی شدہ بوڑھے مردو عورت کو زنا پر سنگسار کرنے کا ذکر ہے۔ علامہ مناظر احسن گیلانی ؒ نے قرآن کے مقابلہ میں توراۃ کے تحریف شدہ حکم کو مسترد کردیا ہے اور ان کی کتاب ’’تدوین القرآن‘‘ پر بنوری ٹاؤن کراچی کے عالم نے حاشیہ لکھ دیا ہے جوبازار میں دستیاب ہے۔ توراۃ کا حکم لفظی اور معنوی اعتبار سے بہت ناقص اور ناکارہ ہے۔ اگر جوان شادی شدہ بھی زنا کریں تو اس کی زد میں نہیں آتے اور بوڑھے شادی شدہ نہ ہوں تب بھی زد میں آتے ہیں،جو بوڑھے نکاح کے قابل نہیں رہتے تو زنا کہاں سے کریں گے؟۔ صحیح بخاری میں ایک صحابیؓ سے پوچھا گیا کہ ’’سورۂ نور کی آیات کے بعد کسی زناکار کو سنگسار کیا گیا؟۔ تو جواب دیا کہ میرے علم میں نہیں کہ اسکے بعد کسی کو بھی سنگسار کیا گیا ہو‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں شادی شدہ لونڈی کیلئے آدھی سزا کا حکم دیا ہے تو سنگسار ی میں آدھی سزا نہیں ہوسکتی۔ البتہ 100 کی جگہ 50 کوڑے ہیں، امہات المؤمنین ازواج مطہراتؓ کو مخاطب کرکے دوہری سزا سے قرآن میں ڈرایا گیا ہے تو 100کا دگنا200ہیں، سنگساری میں ڈبل سزا کا تصور نہیں ہوسکتا۔
یہود کے ہاں شادی شدہ کیلئے سنگساری اور غیرشادی شدہ کیلئے 100کوڑے اور ایک سال جلاوطنی کی سزا تھی۔ قرآن میں قتل اور جلاوطنی کی سزا کا سورۂ نور میں کوئی تذکرہ نہیں بلکہ بہت تاکید کیساتھ صرف 100کوڑے کی سزا سے یہود کے ہاں رائج قتل اور جلاوطنی کی سزاؤں کی تردید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لونڈی کو آدھی سزا کے پسِ منظر میں ہی یہ وضاحت بھی قرآن میں کردی ہے کہ ہم نے پہلے والوں کو قتل نفس اور جلاوطنی کی کوئی سزا نہیں دی تھی۔یعنی یہ ان کی طرف سے گھڑی ہوئی سزائیں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ سے فرمایا کہ’’ اگر یہ اہل کتاب اپنی بات کا فیصلہ کرانے کیلئے آپکے پاس آجائیں اور آپ انکے درمیان فیصلہ کرنے سے انکار کردیں تو یہ آپکو نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں‘‘۔ پھر فرمایاکہ ’’ انہوں نے اپنی کتاب میں تحریف کی ہے اور آپکے پاس جو حکم ہے وہ محفوظ ہے۔ ان کو فیصلہ کرکے دینا ہو تو ان کی کتاب سے نہیں اپنی کتاب کے مطابق فیصلہ کرو۔ اگر ان کو انکی کتاب سے فیصلہ کرکے دیا ،تب یہ آپ کو اپنی کتاب سے بھی فتنہ میں ڈال دیں گے‘‘۔ اور پھر اسی تناظر میں اللہ نے فرمایا کہ ’’ اے ایمان والو! یہود ونصاریٰ کو اپنے اولیاء مت بناؤ، جو انکو ولی بنائے تو وہ انہی میں سے ہے‘‘۔ ولی سے مراد عام دوستی نہیں بلکہ مذہبی معاملہ وحدود میں ان کو اختیار سپرد کرنا مراد ہے۔ جیسے حدیث میں ہے کہ ’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکا ح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے‘‘۔ علماء ومفتیان ومذہبی بہروپیوں نے مشہور کیا کہ’’ یہود ونصاریٰ سے دوستی قرآن میں منع ہے‘‘۔ پاکستان کی فوج ، حکومت، ریاست اور سعودیہ سے بڑھ کر امریکہ کے دوست بلکہ چاکری کرنے والے کون ہوسکتے ہیں؟۔ مگر مذہبی بہروپیوں نے کبھی بھی یہ فتویٰ نہیں لگایا ہے کہ یہ ان کے دوست ہیں اور انہی میں سے ہیں۔ بلکہ روس کیخلاف جہاد کے نام پر استعمال ہونے والے امریکیوں کو اہل کتاب کہتے تھے اور روس کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ ملحد اور ماں ، بہن ، بیٹی کو نہیں پہچانتے ہیں، حالانکہ چین بھی روس ہی کا نظریہ رکھتا تھا لیکن وہ پھر امریکہ سے بھی زیادہ اچھا دوست تھا۔
جب یہود ونصاریٰ کی پاکدامن خواتین سے قرآن نے شادی کی اجازت دی ہے تو دوستی کی کیوں نہیں؟۔ کیا بیوی سے بڑھ کر دوستی کا کوئی تصور ہوسکتا ہے؟۔ جس بات سے قرآن نے منع کیا تھا کہ ان کو ولی مت بناؤ، اس کی وجہ تو صاف ظاہر تھی کہ انہوں نے اللہ کے احکام کو بدل دیا تھا، اگر ایک مؤمن اپنی بیوی یا کسی دوسرے کو سنگسار کرنا چاہتا تو اللہ کے قرآن میں اسکی اجازت نہ تھی اور توراۃ میں یہ تحریف شدہ حکم موجود تھا۔اللہ نے ان سے فیصلہ کروانے کیلئے یہودونصاریٰ کو ولی اور حاکم بنانے سے منع کردیا۔ اب تو یہودونصاریٰ کو ولی بنانے سے منع کرنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہی ، اسلئے کہ مسلمانوں نے انہی کے نقشِ قدم پر چل کر قرآن کے حکم میں توراۃ کے ذریعہ مذہبی نصاب میں تبدیلی کردی ہے۔ مذہبی طبقات کی حکومت قائم ہوگئی تو سنگسار کرنے پر ہی عمل ہوگا۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ طلاق میں بیوی کو کھلی ہوئی فحاشی کے ارتکاب پر قتل کرنے کا حکم نہ دیا بلکہ گھر سے نکالنے اور اس کو نکلنے کی اجازت دی، اس کے خلاف گواہی دینے پر لعان کا حکم دیاتھا جس پر نبیﷺکے دور میں ایک مرتبہ عمل بھی ہوا۔ انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ کا کھل اس آیت کے خلاف عمل کرنے کے اعلان کا بھی بخاری شریف میں ذکر ہے۔ مذہبی طبقہ کو شرم بھی نہیں آتی ہے کہ کھل کر اللہ کے حکموں سے انحراف کو عوام کے سامنے بیان کرنے سے ڈرتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کی حمایت قرآن کا حکم نہیں بلکہ جاہلانہ غیرت کا نتیجہ ہے۔ مذہبی طبقہ نے پرائے گو پر پاد مارنے کے کارنامے ہمیشہ انجام دئیے ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کی اجازت ہو تو پھر مدارس اور مساجد میں بچوں کیساتھ جبری جنسی زیادتی پر قتل کا فتویٰ دیا جائے۔ مفتی محمدتقی عثمانی کے دوست شیخ الحدیث مفتی نذیر احمد جامعہ امدادالعلوم فیصل آباد کیخلاف کئی طلبہ نے روتے ہوئے جبری جنسی تشدد کا نشانہ بننے کا مسجد میں اعلان کیا۔ علماء وفقہاء نے یہ بکواس لکھ دی ہے کہ لواطت کی سزا کا ذکر قرآن وسنت میں نہیں، اسلئے اس پر آگ میں جلاکر مارنے یا دیوار گرانے کے ذریعہ سزا پر اختلاف ہے۔ حالانکہ قرآن میں اذیت دینے کا ذکر ہے، البتہ زبردستی سے زیادتی کی سزا تو کسی خاتون کے مقابلہ میں بچے یا مرد کیلئے بھی قتل ہی ہونی چاہیے۔ علماء ومفتیان نے اسلام کو اپنے گھر کی کھیتی سمجھ کر کھانے یا اجاڑنے کو اپنا حق سمجھ رکھا ہے،جس کی جتنی مذمت کی جائے بہت کم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے وضاحت کردی ہے کہ طلاق کے بعد عدت میں بھی شوہر کو مشروط رجوع کا حق حاصل ہے، صلح کی شرط پر ہی رجوع ہوسکتا ہے۔ اسکے بعد کوئی کم عقل انسان بھی یہ تصور نہیں کرسکتا کہ ’’عدت کی تکمیل پر شوہر کو غیرمشروط رجوع کا حق دے‘‘۔ جہاں ایک طرف رجوع کیلئے صلح کی شرط واضح کرنے کے بعد کہاگیا ہے کہ عدت کی تکمیل پرشوہر معروف طریقہ پر رجوع کرے یا اس کومعروف طریقہ سے چھوڑدے۔ علماء ومفتیان عقل کے اندھوں بلکہ دل کے اندھوں نے کہا ہے کہ شوہر کو مطلق رجوع کا حق حاصل ہے لیکن عدت میں باہمی رضامندی سے بھی یہ مطلق رجوع کا حق ان کو اس وقت نظر نہیں آتا جب حلالہ کروانے کی بات آرہی ہو۔ لوگوں کو حقائق کا پتہ چلے تو یہ نہیں کہ دوسرے لوگ بلکہ اپنے عقیدتمند ہی قرآنی آیات کو جھٹلانے والوں سے حساب لیں گے۔
ایک عرصہ سے ہم نے طلاق کے مسئلہ پر حقائق عوام اور علماء کرام کے سامنے رکھے، بہتوں کی سمجھ میں بات بھی آئی لیکن محض ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں، جو بے وقوف ،کم علم ، جاہل اور بے خبر ہیں ان کا کوئی قصور بھی نہیں ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ بڑے بڑوں کا یومِ حساب قریب ہے، ان کو بہت ڈھیل مل چکی ہے اور درجہ بدرجہ استدراج کا عمل ان کو گرفت سے بچانے کیلئے نہیں ، اللہ کو اپنی مخلوق سے بہت محبت ہے، کافر، مشرک، ہٹ دھرم اور سب ہی لوگ اللہ کی مخلوق ہیں، ایک طبقہ کواتمامِ حجت کے بعد بھی اچھی خاصی ڈھیل دینا اللہ کی ہمیشہ سنت رہی ہے۔ اگر وہ وقت پر حق کا ساتھ دے کر خود کو بچالیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ مغفرت اور بہت رحم کرنے والا ہے۔مگر دین کے نام پر لوگوں کے گھروں کو تباہ کرنے، بلاجواز حلالہ کی لعنت پر مجبور کرنا اور قرآن وسنت کے مقابلہ میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنا بہت سنگین جرم ہے، ایسے لوگوں کے چہروں سے نقاب ہٹانا ضروری ہے اور یہ ہماری مجبوری ہے، اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ کرکے جینے سے مرجانا مہنگا سودا نہیں ہے۔
1: یہ بات ذہن نشیں بلکہ دل نشین رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ازواجی تعلق قائم ہونے کے بعد طلاق کیلئے عدت کا لازمی تصور رکھا ہے۔ عدت کا یہ حکم صرف صلح ورجوع کی گنجائش کیلئے ہی ہے جس کی اللہ نے بار بار قرآن کی مختلف سورتوں کی بہت سی آیات میں کھل کر وضاحت فرمائی ہے۔ شوہر اور بیوی دونوں کے ایک دوسرے پر برابر حقوق کی وضاحت ہے البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ ہے۔ یہ درجہ بالکل واضح ہے اسلئے کہ شوہر طلاق دیتا ہے اور بیوی عدت گزارتی ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا درجہ ہوسکتا ہے؟۔ شوہر کو صلح کی شرط پر ہی رجوع کا حق دیا گیا ہے، بیوی راضی نہ ہو تو شوہر اس کو عدت میں بھی رجوع پر مجبور نہیں کرسکتا ہے۔ عدت میں رجوع کے حق کی وضاحت اسلئے ہوئی ہے کہ عدت کے بعد عورت دوسری جگہ بھی شادی کرسکتی ہے لیکن باہمی رضامندی سے عدت کے بعد بھی رجوع اور ازدواجی تعلق کو معروف طریقہ سے قائم رکھنے کی اجازت اللہ نے واضح کردی ہے بلکہ رکاوٹ ڈالنے سے منع کیا گیا ہے اسی میں معاشرے کیلئے تزکیہ اور پاکی کا ماحول ہے۔یہ وضاحتیں قرآن کی سورۂ بقرہ اور سورۂ طلاق میں تفصیل سے دیکھی جاسکتی ہیں۔
2: طلاق مرد کا حق ہے اور خلع عورت کا حق ہے۔ طلاق اور خلع دونوں میں زبردست مغالطہ مذہبی طبقات نے کھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں صرف طلاق ہی کا ذکر کیا ہے مگر افسوس کہ مغالطہ سے وہاں خلع مراد لیا گیا۔ جس کی وجہ سے قرآن کی واضح آیات کے مفہوم کو توڑ مروڑ کر ایسا پیش کیا گیا ہے، جس کا سیاق وسباق سے معنوی اور لفظی اعتبار سے کوئی تعلق بن ہی نہیں سکتا ہے۔
سورہ بقرہ کی آیت نمبر229الطلاق مرتان فامساک بمعروف اوتسریح باحسان ، ولایحل لکم ان تأخذوا ممااتیتموھن شئی الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدوداللہ شئی فلا جناح علیھما فیمافتدت بہ تلک حدود اللہ فل تعتدوھا ومن یتعد حدوداللہ فأولئک ھم الظٰلمون
(طلاق دو مرتبہ ہے ، پھر معروف طریقہ سے روکنا یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے)۔ اس آیت کا یہ حصہ اس سے قبل آیت نمبر228کی ہی تفسیر ہے، جس میں عدت کے تین مرحلوں کی وضاحت ہے۔ اللہ نے اس میں فرمایا کہ حمل کی صورت نہ ہو تو عدت کے تین مراحل ہیں، حمل کی صورت میں عدت حمل ہوتی ہے، حمل کا تین مراحل سے تعلق نہیں ۔ عدت کا تعلق حمل سے ہو یا طہر وحیض کے تین مراحل سے بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس میں رجوع کو صلح کی شرط پر شوہر ہی کا حق قرار دیا ہے۔ بخاری کی احادیث میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے وضاحت ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق طہرو حیض کی عدت میں طلاق کے عمل سے ہی ہے۔طلاق کے الفاظ اور اس میں اختلاف کا گورکھ دھندہ قرآن وسنت نہیں بعد کے ادوار کی پیداوار ہے جس میں اختلافات کے انبار ہیں۔
اگر شوہر نے عدت کے تین مراحل میں رجوع کا فیصلہ کرلیا تو مسئلہ نہیں اوراگر طلاق کا فیصلہ کیا تو پھر اس صورت میں آیت کے دوسرے حصہ میں اس کی مکمل تفصیل ہے جس کا خلع سے کوئی تعلق نہیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’ اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے، اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر یہ دونوں کو خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہ کی گئی تو اللہ کی حدود پر قائم نہ رہیں گے اوراگر تمہیں( اے فیصلہ کرنے والو!) یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہیں گے تو پھر دونوں پر کوئی حرج نہیں جو عورت کی طرف سے وہ چیز فدیہ کی جائے، یہ اللہ کی حدود ہیں،ان سے تجاوز مت کرو، جو اس سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔ آیت کا یہ دوسرا حصہ مقدمہ ہے اس طلاق کی صورت کیلئے جس کا ذکر اور وضاحت آیت نمبر230میں فوراً ہے کہ فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ’’ اگر پھر اس کو طلاق دی تو اس کیلئے اس کے بعد حلال نہیں ، یہاں تک کہ کسی دوسرے سے نکاح کرلے۔۔۔‘‘۔ شوہرایسا ظالم ہوتا ہے کہ جب ایسی طلاق ہوجائے جس میں آئندہ ملنے کی کوئی راہ نہ چھوڑی جائے تب شوہر عورت کو مرضی سے دوسرے شوہر کا حق نہیں دیتا، سعد بن عبادہؓ تو انصار کے سردار تھے،جو طلاق کے بعد بھی بیوی کو شادی نہ ہونے دیتے تھے، برطانیہ کے شہزادہ چارلس نے لیڈی ڈیانا کو قتل کروایا، جبکہ ریحام خان نے عمران خان سے طلاق کے بعد برملا کہا کہ’’ پٹھان کو جان پر کھیلناآتاہے ،پاکستان آئی ہوں‘‘۔ عمران خان نیازی ضرورہیں مگر روایتی غیرتمند نہیں، اگر ریحام کسی مخالف سے شادی کرنا چاہتی اوربنی گالہ کے محل میں عمران خان نے ایک کمرہ دیا ہوتا اور اگر عمران خان کہتا کہ میں کنگلا ہوں تو طلاق کے حتمی فیصلہ پر وہ کمرہ ریحام کی طرف سے فدیہ کرنے پر دونوں اور سب کا اتفاق ضرور ہوجاتااسلئے کہ آئندہ ملنے جلنے اور ساتھ رہنے پر دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہنے سے ڈرتے۔
3:اللہ نے سورہ النساء میں خلع کا ذکر فرمایا : لاترثوا النساء کرھا فلا تعضلوھن۔۔۔ ’’اور عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو اوران کو مت روکو(جانے سے) تاکہ بعض وہ چیزیں ان سے واپس لے لو جو تم نے ان کودی ہیں مگر یہ وہ کھلی ہوئی فحاشی کی مرتکب ہوں۔۔۔‘‘۔ اس آیت میں علماء ومفتیان جس فریب ودجل سے کام لیا ہے، اللہ کی پناہ۔النساء سے مرادیہاں اپنی بیویاں ہی ہیں، اللہ تعالیٰ نے بار بار النساء سے آیات میں بیویوں کا ذکر کیاہے، دوسری مراد ہوتی تو پھر کیونکر کہاجاتا کہ اسلئے ان کو مت روکے رکھو کہ جوتم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے بعض واپس لو مگر اس صورت میں واپس لے سکتے ہو جب کھلی ہوئی فحاشی میں مبتلا ہوں۔خلع کے مسائل اور احادیث کو اس آیت کے ضمن میں لکھا جاتا تو قرآنی وضاحت سے معاشرتی مسئلے حل ہوتے۔
پاکستان واحد وہ نظریاتی ، اسلامی اور جمہوری ملک ہے جہاں مسلک، قرآن کی درست تعبیر اور فکر کی مکمل آزادی ہے لیکن افسوس کہ اسکا فائدہ نہیں اٹھایاگیابلکہ عوام کو دام فریب میں الجھایاگیا اور اسلام کے نام پر ریاست اور معاشرے کو دھوکہ دیاگیا، اس میں سب سے زیادہ قصور ہٹ دھرم علماء ومفتیان کا ہے۔جنرل راحیل شریف نے عوامی سطح پر اگر علماء حق کو ٹی وی اسکرین پر موقع دیا تو عوام کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر تمام سیاسی قیادتوں اور مذہبی بہروپیوں کو بہا لے جائیگا۔ پاکستان اور اُمت کی قسمت جاگے گی، سیاسی اشرافیہ سے نجات کے دن بہت ہی قریب لگتے ہیں۔ اجمل ملک

پاکستان لیلۃ القدر میں اپنے حریف بھارت کے ساتھ بنا تھا ، ڈاکٹر سید وقار حیدر شاہ سیالکوٹی

مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے ’’المقام المحمود‘‘سورۃ القدر کی تفسیر میں سندھ پنجاب فرنٹیئر بلوچستان ، کشمیر افغانستان میں بسنے والوں کو امامت کا حقدار قرار دیا

پاکستان اور افغانستان میں پہلے ایک سپر طاقت روس اور پھر دوسری سپر طاقت امریکہ کو نیٹو سمیت بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ، کچھ کھویا ہے توپایا بھی

علاقہ غیرمیں 40FCR کا قانون تھا ، چھ سات ہزار بارود کی فیکٹریاں تباہ کی گئیں تو ضرب عضب میں وزیرستان کو تاریخ کی بڑی سزا کا سامنا کرنا پڑا

پوری دنیا کو خود کش بمباروں نے خوف و ہراس میں مبتلا کیا ہے جسکے حل کیلئے پاکستان کی باشعور قیادت ہی زبردست ذہنی اور عملی کردار ادا کرسکتی ہے

دوسروں سے پہلے اپنی اصلاح کرنی ہوگی اور جب پاکستان امن و سلامتی ، دیانت و امانت اور عدل و انصاف کا گہوارہ بنے گا تو دنیا کی امامت کریگا

قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کے ذریعہ سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکزی کردار ادا کیا جائیگا تو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے مسلمان اٹھ کھڑے ہونگے

پاکستان اسلام کی بنیاد پر بنا ، علماء نے فرقہ بندی سے اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل کر منفی کردار ادا کیا ، اب مثبت رویہ اپنانا ہوگا،ڈاکٹر سیدوقارشاہ

 

مولانا عبید اللہ سندھیؒ سورۃ القدر مکیہ کے ضمن میں لکھتے ہیں:
*قرآن مجید کی پہلی سورت ’’اقراء باسم ربک الذی خلق‘‘ لیلۃ القدر میں نازل ہوئی ۔ لیلۃ القدر کا اگر آج کی زبان میں ترجمہ کیا جائے تو کہا جائیگا کہ بجٹ کی میٹنگ میں خطیرۃ القدس میں ایک کام پیش ہوتا ہے، پھر اس پر فیصلہ ہوتا ہے تو یہ کام جو خطیرۃ القدس میں پیش ہوا ایک ہزار ماہ کیلئے ہوا ۔ غرض اس مجلس میں (خطیرۃ القدس) قرآن کے نازل ہونے کا فیصلہ ہوا تو قرآن مجید کا اثر شخصی (لفظی یعنی صورت کا اثر) ایک ہزار ماہ تک دنیا میں قطعی طور پر کامل ہوکر رہیگا(یعنی یوں تو یہ کتاب ہمیشہ کیلئے دنیا میں رہیگی مگر صحیح لفظوں میں اس پر عمل ایک ہزار ماہ تک کامل ہوکر رہیگا)۔ ہماری سمجھ میں ایک سال دس ماہ کا ہوتا ہے ۔ رمضان اور ذی الحج کے دو ماہ شمار میں نہیں آتے، انہیں چھٹی کے دو ماہ سمجھنے چاہئیں اور سال میں عملی مہینے دس ماہ سمجھنے چاہئیں تو اس طرح ایک ہزار مہینے ایک سو سال کے برابرہوجائیں گے۔ جیسا کہ سورۃ ق و القرآن المجید میں پہلے بیان کیا جاچکا ہے، اور اسی کی مساوی یوں سمجھئے کہ ۸۶ ؁ھ میں یہ سو برس پورے ہوتے ہیں۔ اسی سال ولید نے عمر بن عبد العزیزؒ کو مدینہ منورہ کا حاکم مقرر کیا اور انہوں نے مدینہ کے علماء کو جمع کرکے سنت (حدیث) لکھنے کی بنیاد ڈالی۔ اس وقت تک مسلمانوں کے پاس قرآن مجید کے سوا کوئی اور قانون نہیں تھا۔ اب یہ قانون اقصائے چین سے لیکر مغرب تک پہنچ گیا متمدن اقوام عالم میں اس قانون کو اپنا دستور العمل بنالیا اور اپنا سمجھا۔(مسلم امہ نے قرآن کی شکل مسخ کی ہے)
شروع میں سنت کو قرآن کا ایک شارح (Bye.Laws) بنایا گیا ،اساسی قانون قرآن اور سنت اسکی شارح، مگر آگے چل کر قرآن کا صرف اتنا حصہ مسلمانوں میں باقی رہا جواس سنت کے مطابق تھا اور بہت سا حصہ چھوٹ گیا۔ اس سنت میں عربی قومیت کے خواص خاص طور پر نمایاں ہیں۔ دوسری صدی میں قرآن عربی قومیت کا ایک قسم کا قانون تھا اور سنت اسکی پوری شارح۔ قرآن مجید کی بین الاقوامی روح اس دوسری صدی میں اتنی نمایاں نہیں رہی جتنی پہلی صدی میں تھی۔ تیسری صدی میں جب بنو ہاشم کی سرپرستی میں عجمی قومیں آگے بڑھیں تو قرآن مجید کی انٹرنیشنل روح زیادہ نمایاں ہونے لگی۔(آج سادہ ترجمہ سمجھ میں آئے تو بات بنے)
* آیت انا انزالناہ فی لیلۃ القدر ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا یعنی جس رات انسانیت کی فطرت کا بجٹ تیار ہوا ،اس رات یہ پروگرام منظور ہوا ہے۔ وماادراک ما لیلۃ القدر القدر کی تفصیل ہے۔ لیلۃ القدر خیر من الف شہر لیلۃ القدر ایک ہزار مہینہ سے بہتر ہے ۔ انسان کسی کام کے کرنے کا مصمم ارادہ کرلے تو وہ کام نصف سے زیادہ ہوجاتا ہے۔ اب صحیح فیصلہ کے بعد اس کا صحیح دور شروع ہوگا تو آدھے سے بھی کم کام رہ جائیگا۔ ہمارا خیال ہے کہ اس لیلۃ القدر کی رات میں سو سال کے کام کا فیصلہ تھا تو فیصلہ کی رات اس زمانہ سے بہتر ہونی چاہیے۔ یعنی پروگرام بنانے والی رات اس زمانہ سے تو اچھی ہے جس زمانہ میں یہ کام عملی طور پر شروع کردیا جائے۔ (کیونکہ مصمم ارادہ کرنے سے آدھے سے زیادہ کام ہوجاتا ہے) غرض کہ جس وقت یہ فیصلہ رسول کریم ﷺ پر نازل ہوا تو آپ نے اپنی فطرت کے مطابق عمل کیا، آپﷺ کی فطرت تھی کہ جب علم ہوجائے کہ اللہ کی طرف سے فلاں فیصلہ ہے تو آپ اپنی پوری قوت اس کام کے سر انجام دینے میں صرف کردیتے تھے اور پوری طرح اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے جھک جاتے تھے۔ غرض یہ رات زمین پر بھی ہزار مہینے سے بہتر ہے کیونکہ رسول ﷺ کا فیصلہ بھی اسی طرح مکمل ہے جس طرح ملاء اعلیٰ میں مکمل فیصلہ ہوا۔
*آیت تنزل الملٰئکۃ و الروح فیھا باذن ربھم من کل امرٍ مصمم فیصلہ کا یہ اثر ہوتا ہے کہ ہرقسم کا کام کرنے والے فرشتے اور روح اس ہزار مہینے کا کام کرنے کیلئے اسی وقت نازل ہوجاتے ہیں اور وہ اللہ کے حکم سے اس کام کی بنیاد ڈالنی شروع کردیتے ہیں اور تمام شعبوں میں کام کرنے لگ جاتے ہیں اور اس کام کے مبادی شروط اور علل کے مہیا کرنے میں وہ فوراً اپنا کام شرو ع کردیتے ہیں، اور وہ کام ایک ہزار ماہ میں پوری طرح مکمل ہوجاتا ہے، جیسا کہ فیصلہ ہوا تھا۔ سلام ھی حتی مطلع الفجر اس رات جس کام کی بنیاد رکھی جاتی ہے اس میں کامیابی ہی کامیابی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کام میں ناکام بنانے والے کوئی طاقت آہی نہیں سکتی۔ اگر ادنیٰ آدمی کو بھی اس کام پر مأمورکیا جائے تو بھی صحیح سلامت کام ہوجائیگا اسلئے کہ لوگوں (انسانیت) میں روحانیت اور ملکیت کی تشنگی اس رات نازل کی گئی ۔ اب آنحضرت ﷺ کو اس کام کے چلانے میں تکلیف نہ ہوگی۔ سورۃ العلق میں آیت ۱۹ کل لا تطع میں جو ذکر ہے کہ تم مخالفوں سے صلح نہ کرو ، اسکے متعلق اس سورۃ میں یقین دلایا گیا ہے کہ اس سو برس کے عرصہ میں کوئی چیز تم کو ناکام نہ بناسکے گی۔ اس واسطے تم کو ڈٹ کر اپنا کام کرنا چاہیے۔ اگر کوئی مخالفت کریگا تو اس کا ہم سر توڑ دیں گے۔ مطلع الفجر سے اگر قیامت مراد لی جائے تو معنیٰ ہوں گے کہ تشنگی ، ملکیت اور روحانیت انسانوں میں نازل ہوتی رہیں گی۔ ملکیت کا تقاضہ ہے نظام احسن ، طہارت اور عدالت ۔ روحانیت کا تقاضہ ہے تعلق باللہ اور اس کے نور میں فنائیت۔ اگر روحانیت فقط ہے تو رہبانیت ہے۔
* دنیا کا انٹرنیشنل مرکز سو برس میں مضبوط ہو تو اسکے بعد کیا پروگرام دیا جائے اسکے متعلق ذکرکرنے کی ضرورت نہیں ،دوسری نسل والے خود سوچیں گے اور اس پر وقت کے اقتضاء کیمطابق کام کرینگے، اس واسطے اسکے متعلق ذکر کرنے کی حاجت نہیں ۔ بعض لوگ عمر بن عبد العزیزؒ کو مجدد مانتے ہیں اور وہ 100 ؁ھ میں خلیفہ اسلام ہوئے تو اس زمانہ کو ان کی تجدید کا زمانہ کہتے ہیں کہ دوسری صدی کے سر پر ایک مجدد آگیا۔ مگر ہم اس کی تجدید 87 ؁ھ سے گنتے ہیں جو نبوت کے 100 برس بعد ہوئی اور 14 برس مسلسل رہی۔ یہاں تک کہ خلافت پر پہنچے، خلافت کا کام صرف دو سال کے قریب انہوں نے سر انجام دیا، مگر ان کا کام درحقیقت نبوت کی صدی سے شروع ہوتا ہے ۔ انہوں نے انٹرنیشنل روح قائم کرنے کیلئے آیت ان اللہ یامر بالعد ل و الاحسان الاٰیۃ کا خطبہ جمعہ میں داخل کردیا جس کا مسلمانوں کے خطبہ میں آج تک اعلان ہوتا ہے۔ عمر بن عبد العزیز ؒ کی تجدید کا جو دور ہے اسکے متعلق ہمیں خوشی ہے کہ اسی زمانہ میں سندھ فتح ہوا۔ آپ کی خلافت کے زمانہ میں جو دو سال کے قریب رہی سندھ کا اکثر حصہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ ہندوستان میں اسلام کا یہ اول بیج ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ پنجاب ، کشمیر ، سندھ ، فرنٹیئر اور افغانستان وغیرہ میں جس قدر قومیں بستی ہیں یہ ہندوستان کے مسلمانوں کی مرکزی جماعتیں ہیں اور یہی امامت کی حقدار ہیں۔ دریائے سیحون درحقیقت یہی دریائے سندھ ہے جس کا حدیث میں ذکر آتا ہے ، ہندی میں اس کا نام سے سین ۔اور رسول کریم ﷺ نے اس کانام سیحون ذکر کیا ہے یہ زیادہ اختلاف نہیں ہے ملکی زبانوں میں ایسے اختلافات عموماً ہوتے ہیں۔ پنجاب کے پانچوں دریا اور کابل کا دریا وغیرہ دریائے سندھ کا احاطہ ہیں۔ ہندوستان ہم تمام ہندوؤں کے لئے چھوڑ سکتے ہیں مگر اس علاقہ یعنی پنجاب ، کشمیر ، سندھ ، فرنٹیئر ، بلوچستان اور افغانستان سے ہم کبھی دستبردار نہیں ہوسکتے خواہ وہ تمام دنیا کو ہمارے مقابلے پر لے آئیں۔ غرض مسلمانوں کا مرکزی حصہ یہی ہے ۔ اس طرح عربی قوموں کا مرکز نیل اور فرات کا درمیانی حصہ ہے۔ اور عجمی قوموں کا مرکزی حصہ جیحون اور سندھ کا درمیانی حصہ ہے۔ امام ابو حنیفہؒ اس عجمی سرزمین سے تعلق رکھنے والے تھے ۔
*عمر بن عبد العزیزؒ نے قرآن کے ماتحت عربی ذہنیت کو مہذب کردیا ہمارا خیال ہے کہ عجمی ذہنیت کو امام ابو حنیفہؒ نے زندہ اور مہذب کردیا۔ آپ بہت بڑے امام ہیں۔ آپ عجمی قوم کو قرآن مجید اور فقہ کے مطابق اور حدیث پر عمل کرانے کیلئے عجمی ذہنیت مدنظر رکھتے ہیں۔ مثلاً ایک عورت ہے اس کو حمل ہے ۔ اس کی شادی نہیں ہوئی اور وہ زنا کی بھی قائل نہیں اور اسکے خلاف شہادت میسر نہیں، حضرت عمرؓ اسکو رجم کی سزا دیتے مگر امام ابو حنیفہؒ اس کو رد کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب وہ زناکی مرتکب ہونے کی قائل نہیں اور اسکے خلاف ثبوت بھی نہیں ملتا تو اس حالت میں اسے کیسے رجم کیا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر حضرت مریم علیہا السلام کا واقعہ لیجئے کہ آپکو حمل تھا اور آپ زنا کی بھی مرتکب نہیں ہوئیں، آپکی دینداری کی دنیاگواہ ہے۔ غرض اسی طرح اس عورت کا بھی معاملہ ہے، شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو دینا چاہیے۔امام ابوحنیفہؒ نے نہ امامت کا دعویٰ کیا، نہ حکومت سے منصب لیا اور نہ کسی سے کوئی پیسہ لیا بلکہ اپنا تمام علم مسلمانوں کو دیدیا۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے ایک آیت تھی کہ اس نے عجمی قوموں کی ہدایت کیلئے ابوحنیفہؒ جیسے برگزیدہ انسان پیدا کیا، جس نے قرآن کو سمجھنے کیلئے عجمی لوگوں کی ذہنیت بدل دی، ہم امام ابوحنیفہؒ کے فقہ کی تقلید اسلئے نہیں کرتے کہ ہمارے آباواجداد اسکے مقلد تھے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان ،ایران، افغانستان اور ترکستان میں ابوحنیفہ کے فقہ کے سوا کوئی حکومت قائم نہیں ہوسکتی اس میں اگر اختلاف ہے تو صرف ایران کے شیعوں کا۔ مگر ہم امام ابوحنیفہؒ کے فقہ کو ائمہ اہلبیت کیساتھ ملاسکتے ہیں۔شیعوں کے دو فرقے ہیں، ایک زیدی اور دوسرا امامیہ، زیدی فرقہ کے امام حضرت زیدؒ ہیں اور امامیہ فرقہ کے امام حضرت امام جعفر صادق ہیں۔ اور امام ابوحنیفہ ؒ ان دونوں بزرگوں کے براہِ راست شاگرد ہیں، اسکے علاوہ امام ابوحنیفہؒ امام باقرؒ کے بھی شاگرد ہیں۔
*ان بزرگوں کے علاوہ دو حسنی امام ہیں (ا) : محمد بن عبداللہ بن حسن(۲):ابراہیم بن عبداللہ بن حسن بن حسن بن علیؓ۔ انہیں حسن مثنیٰ کہتے ہیں۔ یہ دونوں بزرگ خلیفہ منصورسے لڑتے ہیں اور امام ابوحنیفہؒ ان دونوں کے شاگرد اور ان دونوں بزرگوں کی تحریکِ خلافت کے مؤید ومعاون ہیں اور ان کو مدددیتے رہے۔ان دونوں اماموں کے والدعبداللہ بن حسن بھی امام ابوحنیفہؒ کے استاذ تھے۔ غرض حضرت علیؓ کی اولاد میں جتنے امام گزرے ہیں امام ابوحنیفہؒ کا تعلق ان تمام اماموں سے ثابت ہے۔ اسی طرح عبداللہ بن مسعودؓ کی اولاد میں جتنے امام پیدا ہوئے، امام ابوحنیفہؒ کا ان تمام کیساتھ تعلق تھا۔اور یہ تمام ائمہ اہلبیت ظالم مسلمان بادشاہ سے لڑنا فرض سمجھتے تھے۔ اسی واسطے آپ خلیفہ منصور کے خلاف سید حسن مثنیٰ کی تحریک کے مؤید تھے۔ امام مالکؒ بھی مدینہ میں امام ابو حنیفہؒ کی مانند اس تحریک خلافت کے مؤید تھے۔ منصور کے نائب مدینہ نے امام مالکؒ کو تو خود سزا دی اور خلیفہ منصور نے امام ابو حنیفہؒ کو جیل میں ڈال کر کوڑے کی سزا دلائی۔ حتیٰ کہ آپ جیل ہی میں فوت ہوگئے۔تفسیر المقام محمود ( آخری پارہ)تفسیر سورۃ القدر۔ مولانا سندھیؒ
مولانا عبید اللہ سندھی ؒ پاکستان بننے سے پہلے فوت ہوئے، وہ کانگریس کے رکن بھی تھے۔ اسلام کی نشاۃ اول عرب سے ہوئی تھی،اس کی نشاۃ ثانیہ کی پیشگوئی عجم سے ہے، جس کا ذکر قرآن کے سورۂ محمد ، سورۂ واقعہ اور سورۂ جمعہ میں بھی ہے۔ جب ایرانی انقلاب آیا تو قرآن کے الفاظ ثم لایکون امثالکم ’’ پھر وہ تمہارے جیسے نہ ہونگے‘‘۔ کی تفسیر میں مغالطہ کھاکر خمینی نے کہا کہ ’’ میرے ساتھی اصحاب محمدؐ سے افضل ہیں‘‘ حالانکہ آیت سے مراد نشاۃ اول کے مقابلہ میں نشاۃ ثانیہ کے افراد نہ تھے ۔ سورۂ جمعہ میں وضاحت ہے کہ نبیﷺ کی بعثت اولین کے مسلمانوں کیلئے بھی ہے اور آخرین کیلئے بھی۔ آخرین کا اعزاز ہوگا کہ پہلوں سے مل جائیں۔ جب پہلے والوں سے بدظنی ہوگی تو انکے نقشِ قدم پرچلنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ حالانکہ اللہ کی طرف سے کھل کر وضاحت ہے کہ السابقون اولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان سبقت لے جانے والوں میں سے پہلے مہاجرینؓ و انصارؓ میں سے اور جن لوگوں نے نیکی کیساتھ انکی اتباع کی۔ سورۂ واقعہ میں سبقت لے جانے والوں میں سے پہلوں میں بڑی جماعت اور آخر میں تھوڑوں کا ذکر ہے۔ ثلۃ من الاولین وقلیل من اٰخرین یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک عظیم قائد ہوں ۔ آپﷺ کی جماعت میں سے کم لوگ سبقت لے جانے والے ہوں اور آخر میں آپ ﷺ کی طرف منسوب کسی قائد کی جماعت میں زیادہ اکثریت والی بڑی جماعت نے سبقت حاصل کی ہو؟۔پاکستان کا قومی ترانہ بھی حقائق کا ترجمان ہے۔
ایران کے انقلاب نے شیعہ سنی کے درمیان تفریق وانتشار کی فضاء کو مزید بڑھا دیا، حالانکہ بانی انقلاب کا یہ نعرہ تھا کہ شیعہ سنی کو لڑانے والے طاغوت کے ایجنٹ ہیں۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اہل تشیع کے بڑے عالم دین علامہ طالب جوہری نے اپنی کتاب ’’ظہور مہدی‘‘ میں اپنے ائمہ اہلبیت کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ’’ ہمارے قیام قائم سے پہلے اگرہم میں سے کسی نے قیام کیا تو وہ طاغوت کا ایجنٹ اور دوسروں کے ہاتھوں کاپلا ہوا پرندہ ہوگا‘‘۔ اہل تشیع کے ائمہ اہلبیت کا تعلق حسینی سادات سے ہے، انکے نزدیک مہدی غائب سے قبل حسینی خاندان کیلئے خروج اور قیام کی کوشش یقیناًقابل غور ہے۔ حضرت حسنؓ کی اولاد میں پہلے جس نے خروج کی کوشش کی ہے، ان پر اس پیشگوئی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ علامہ طالب جوہری نے مہدی غائب سے پہلے کئی قیام قائم کا ذکر بھی کیا ہے۔جس میں ایک مشرق سے دجال اور اسکے مقابلہ میں سید حسنی کا ذکر ہے جو علامہ طالب جوہری کی وضاحت کے مطابق ’’سید گیلانی بھی مراد ہوسکتے ہیں‘‘۔ یہ تفصیل ان سے معلوم کی جاسکتی ہے کہ طاغوت کے ایجنٹ اور سید حسنی سے کون کیسے مراد ہوسکتے ہیں؟۔
پاکستان میں جو سیاسی، مذہبی اور کارکردگی کی آزادی ہے کسی دوسرے مسلم ملک میں اس کا تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ رسول اللہ ﷺ اور اسلام کو تقویت بخشنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر فاروق اعظمؓ کی شخصیت عطاء کردی تھی، جس نے کھلم کھلا آذان دی، کھل کر مکہ سے مدینہ ہجرت کی، بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے،صلح حدیبیہ، حدیث قرطاس میں اختلاف کا کردار ادا کیا۔ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مردوں میں کسی کا والد نہیں بنایا، ایک بچے کا بچپن میں وصال ہوا، حضرت علیؓ چچازاد اور داماد تھے لیکن خلافت کی مسند پر حضرت ابوبکرؓ بیٹھ گئے۔ انصار کے سردار نے نبیﷺ اور مسلمانوں کو مدینہ میں پناہ دی لیکن وہ خود کو منصب کا حقدار سمجھنے کے باوجود محروم رہے۔
حضرت عمر فاروقؓ ایک طاقتور انسان تھے جس میں بے پناہ صلاحیتیں تھیں، حضرت ابوبکرؓ خلوص کا مرقع تھے لیکن اتنی صلاحیتوں کے مالک نہ تھے۔ جب قیامت میں لوگوں کی طرف سے اللہ سے سوال کیا جائیگا کہ صلاحیت دینا تمہارا کام تھا، ہم پیچھے رہ گئے تو ہمارا کوئی قصور نہیں۔ تو ابوبکرؓ و عمرؓ سامنے ہونگے۔ خلوص والا ابوبکرؓ حضرت عمرؓ سے آگے ہوگا، حضرت ابوبکرؓ پر جتنا اعتماد خلوص کے مرقع ہونے کی وجہ سے تھاحضرت عمرؓ کی صلاحیت پر اتنا صحابہؓ کو نہیں تھا۔ حضرت عثمانؓ نے نبیﷺ پر اپنا بہت مال خرچ کیا لیکن اللہ نے عمرؓ کی صلاحیتوں کو مالی احسانات پر ترجیح دی، حضرت علیؓ کی رشتہ داری بہت قریب تھی لیکن اللہ نے علیؓ کو بالکل آخر میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع دیا۔ وجہ اس کی ظاہر ہے کہ خلافت راشدہؓ کے زمانہ میں آئندہ آنے والے مسلمانوں کیلئے مشعل راہ بننا تھا، آج خانقاہوں و مدارس پرناخلف صاحبزادوں اور دامادوں کا قبضہ اسلام کے نام پر کیا جاتا ہے جو خلافت راشدہ کے منافی اور استعداد نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کو اندھیر نگری کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔ جب ناخلف صاحبزادگان اور داماد جانشینی کے منصب سے دستبردار ہونگے تو خلافت علی منہاج النبوۃ کے دور کا آغاز ہوجائیگا،اصل شیعہ تو یہی لوگ ہیں۔
بانئ پاکستان کی ایک بہن اور ایک بیٹی تھی، پاکستان میں اللہ نے موروثی نظام قائم نہیں کرنا تھا، اسلئے بیٹی اور نواسے کے نام سے پارٹی بازی کی گنجائش یہاں موجود نہ تھی۔ مدارس اور خانقاہوں والے اہل تشیع سے بدتر اسلئے ہیں کہ وہ تو حسینؓ کے مقابلہ پر یزید کو برا بھلا کہتے ہیں، یہ تو خود یزید بن کر وقف شدہ مدارس ، مساجد اور خانقاہوں پر قبضہ کرکے بیٹھ گئے ہیں۔ مسلمانوں نے اپنی قیمتی سرمایہ سے دینی اداروں کو چندے اسلئے نہیں دئیے ہیں کہ کوئی ذاتی اور موروثی سمجھ کر اپنی دنیا سنوارلے اور آخرت بگاڑ دے۔مفتی سعید خان نے بھی اس پر بڑا اچھا لکھا ہے۔
پاکستان نے مشکل ترین دور میں جس طرح اپنی حکمت عملی سے دنیا کی سپر طاقتوں کو شکست دی ۔ یہ کسی فرد ، جماعت ، ادارے اور مذہبی فتوؤں کا کریڈٹ نہیں بلکہ محض اللہ کا فضل ہے۔ دنیا میں پاکستان کے خطے کی حیثیت ہی کیا ہے؟ ۔ ایسے بڑے مقاصد کیلئے کام کرنا چھوٹی بات نہیں۔ رو س کیخلاف جہاد میں عتیق گیلانی نے شرکت کی اور بتایا ہے کہ ’’روسی ٹینکوں کی گولہ باری ایسی لگتی تھی جیسے یہ زندگی اور موت کا کھیل نہیں ہو بلکہ کسی فلم کیلئے شوٹنگ ہورہی ہو۔ حرکت الجہاد الاسلامی کے خالد زبیر شہید وغیرہ اس وقت بھی روس سے زیادہ امریکہ سے نفرت کا اظہار کررہے تھے۔‘‘ جس طرح مجاہدین میں اللہ کیلئے کام کرنے والے موجود تھے اسی طرح پاک فوج میں بھی اسلام کی سربلندی کا جذبہ تھا۔ کسی کے جذباتی عمل سے اختلاف کرنا ہی رحمت ہے لیکن اختلاف کی وجہ سے کسی کے خلوص پر دھبہ لگانا اور بدظنی کا اظہار کرنا کوئی درست رویہ نہیں ہے۔
آج ہماری ریاست نازک موڑ پر کھڑی ہے اس پر صرف تنقید نہیں بلکہ حوصلہ دلانے کی ضرورت ہے،قوم کو ریاست کیساتھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے،اگر یہ اغیار کی سازش سے بکھیر دی گئی تو پھرہماری عزتیں،اقدار، آزادی اور سب کچھ پامال ہوجائے گا۔۔۔۔
تاریخ میں قوموں نے وہ دور بھی دیکھے ہیں لمحوں نے خطاء کی ہے صدیوں نے سزا پائی
پختون، بلوچ، سندھی اور مہاجر کے دلوں میں اس نظام سے گلہ شکوہ اور بغاوت کے رحجانات ، جذبات اورولولے موجود ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ہو، جمہوری حکومت ہو یا اپوزیشن پنجاب ہی پنجاب سے کھیل رہا ہے۔ عوام کی خواہشات کے برعکس جن جن کو اقتدار ، میڈیا اور اپوزیشن میں لایا جاتا ہے یہ سب مخصوص ہاتھوں کا کھیل ہے، حکومت کبھی کمزوراور کبھی توانا بنتی ہے تو اس میں عوام کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ ماڈل ٹاؤن کے واقعہ پر ڈاکٹر طاہرالقادری شہداء کے جنازوں پر بھی نہیں آئے، گرم خون ٹھنڈا ہوجائے تو سیدالشہداء حضرت امیرحمزہؓ کا کلیجہ نکالنے اور چبانے والوں سے بھی انتقام کا جذبہ وہ نہیں رہتا،جسکے بدلہ میں سرکار دوجہاں ﷺ نے 70افراد کیساتھ ایسا سلوک کرنے کی قسم کھائی تھی۔ یہ سیاست کا کرشمہ ہے اور اسکے پیچھے کھیل اور کھلواڑ کرنے والوں کی رسی ہل رہی ہے کہ پہلی برسی پر سال گرے منائے گئے اور دوسرے سال حالات کا فائدہ اٹھانا ضروری سمجھا گیا یا کسی نے ڈور ہلا کر حکومت گرانے کا تماشہ لگانے کی ڈیوٹی لگادی۔ پاکستان میں اس قسم کی سیاست سے ملک کو نقصان ہی ہوسکتا ہے۔
چراغ تلے اندھیرا، پنجاب پورے ملک کو شعور، سیاست، حکمرانی، انسانی حقوق اور انواع واقسام کی حب الوطنی، اسلام دوستی اور اخلاقیات کے درس وتدریس کا مرکزومحور ، منبع ومینار سمجھا جاتا ہے، اس میں کوئی شک وشبہ بھی نہیں کہ پنجاب کے لوگ وسیع القلب، خلوص کا مرقع، وفا شعار، محنت کش، تہذیب یافتہ اور بہت سے ان صفات سے متصف ، مزین اور آراستہ ہوتے ہیں جن کی مجموعی حیثیت تک دوسری کوئی قوم نہیں پہنچ سکتی ہے مگر ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پنجاب میں بدمعاشی، بداخلاقی، بد تہذیبی ، زبردستی سے عزتیں لوٹنے کے واقعات ، دھوکہ بازی، فراڈ اور بہت ساری وہ خرابیاں ہیں جن کی ہوا سے بھی اللہ تعالیٰ دوسرے صوبوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ وجہ اس کی یہی ہے کہ نظام کی تبدیلی کیلئے جہاں حبیب جالب، مولانا سیدعطاء اللہ شاہ بخاری، شورش کاشمیری، علامہ عنایت اللہ مشرقی،شاہ احمدنورانی اور انکے والدشاہ عبدالعلیم صدیقی ،غلام احمد پرویز، مولانا سید مودودی،مولانا احمدعلی لاہوری، مفتی محمود،اصغر خان،نواب زادہ نصر اللہ خان، ڈاکٹر مبشرحسن،مہدی حسن،ڈاکٹر اسرار،اکرم اعوان، صوفی برکت علی لدھیانوی وغیرہ کی ایک فہرست ہونی چاہیے تھی وہاں نوازشریف، شہبازشریف،چوہدری شجاعت، شیخ رشید، ڈاکڑطاہرالقادری، عمران خان کی ایک لمبی لائن کی ایک فہرست اپنے اکابرین جنرل ضیاء الحق، اخترعبدالرحمن،جنرل پاشا سے ہوتی ہوئی وہاں پہنچتی ہے جن کی وجہ سے پاکستان کا بیڑہ غرق ہوا ہے۔میڈیا پر اچھے لوگوں کو سامنے بھی لانے نہیں دیا جاتا تو عوام بک بک کرنے والوں کے واعظ، تقریراور ٹاک شوز سے ڈھیٹ ہوگی یا سدھرے گی؟۔
شہبازشریف جس لہجہ میں زرداری کیخلاف بات کرتا تھا ، اسی لہجے میں پانالیکس پر تقریریں کرے تو قوم کو پتہ چل جائے کہ واقعی جالب کی ناراض روح شوبازمیں جاگ گئی ہے، یہ زیادہ مکروہ اور گھناؤنی بات ہے کہ دوسروں کو چوکوں پر لٹکانے والوں کا اپنا دامن اس قدر داغدار ہو اور اپنے جرائم کو چھپانے کیلئے دوسروں کو اوقات میں رہنے کی بات کیجائے، سیدعتیق گیلانی میڈیا پر آجائے تو انقلاب آئے،قوموں کی اصلاح کیلئے بنیادی نظریے اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے اس میں کٹھ پتلی لوگوں کو قائد بناکر کھڑا کرنے سے بات نہیں بنتی۔ ڈاکٹرسیدوقار حیدر شاہ سیالکوٹی