پوسٹ تلاش کریں

قبائلی علاقوں میں گڈ اور بیڈ طالبان کا تصور کب ختم ہوگا؟

قبائلی علاقوں میں گڈ اور بیڈ طالبان کا تصور کب ختم ہوگا؟، پاک فوج کی کیا مجبوری ہے کہ گڈ طالبان کو سپورٹ دیکر معاشرے میں بدترین بے چینی کی فضاء پیدا کئے ہوئے ہیں؟،ہم اپنی سمجھ اور معروضی حقائق کے مطابق بتاتے ہیں!

جب تک ہماری قوم طالبان بننے کی صلاحیت رکھے گی تو ان میں گڈ اور بیڈ پیدا ہوتے رہیںگے اور دونوں طرف سے استعمال بھی ہونگے اورآسمان سے کوئی بجلی نہیں گرے گی کہ روکے

جب تک اس علاقے میں پراکسی جنگ ختم نہ ہوگی اسوقت تک یہ خطہ اور اس میں بسنے والی پشتون قوم اس عذاب سے نہیں نکل سکتی مگر ہمت کرنے سے بہت کچھ کرنا بھی بالکل آسان ہوگا!

سوشل میڈیا میں نوازشریف کے تنخواہ دارآر ایم ٹی وی (RMTV) کے راشد مراد کھریاں کھریاں میں کہتا ہے کہ آرمی پبلک سکول پشاور میں جنرل راحیل شریف ملوث تھا، اس وقت کا وزیراعظم نوازشریف تھا جس نے جنرل راحیل کیخلاف سب کو متحد کردیا تو کیا ایسے بزدل وزیراعظم کو دوبارہ ہم اپنے ملک پر مسلط ہونے دیں اور جمعیت علماء اسلام کا حافظ حمدللہ اور مولانا غفور حیدری کہتے ہیں کہ مولوی ڈرتا نہیں ہے تو پھر مفتی کفایت اللہ کیا مولوی نہیں ہے؟۔ جھوٹ سے داڑھی رکھ کر مفتی اور مولانا کا اعزاز حاصل کیا ہے اور ڈرتے نہیں تو چھپ کیوں گئے ہیں؟۔
ہم عجیب لوگ ہیں۔ پہلے طالبان کے بڑے حامی اور فوج کے خلاف تھے مگر پھر کہا کہ طالبان فوج نے مسلط کئے ہیں۔ پھر قوم کا دانشور اور نوجوان طبقہ عمران خان پر جان نچھاور کرتا تھا کہ تبدیلی سرکار بڑا انقلاب لے آئیگا مگر جب عوام نے دیکھا کہ تبدیلی سرکار گدھے کی طرح مٹی میں لوٹ پوٹ ہوکر قلابازی کھارہاہے تو کہتے ہیں کہ فوج نے اس کو ہم پر مسلط کیا۔ جب بڑے دانشور اور سول بیوروکریسی کے بڑے عہدوں پر فائز رہنے والوں نے عمران خان کی سچائی اور دیانت سے مسلسل دھوکے کھائے تو کیا پاک فوج آسمان سے اترے ہوئے فرشتے ہیں کہ کوئی دھوکہ نہیں کھائیںگے؟۔ حضرت ابوبکر کے دور میں زکوٰة نہیں دینے پر ریاست نے اپنی رعایا کے خلاف طاقت کا استعمال کیالیکن حضرت عمر نے جاتے جاتے یہ خواہش ظاہر کی کہ کاش ہم رسول اللہۖ سے پوچھ لیتے کہ زکوٰة نہ دینے والوں کے خلاف قتال جائز ہے یا نہیں؟۔ ائمہ اربعہ نے قرار دیا کہ زکوٰة کے مانعین کے خلاف قتال جائز نہیں ہے لیکن نماز نہ پڑھنے والوں کا قتل ، زدو کوب اور قید کرنا ضروری ہے۔
طالبان نے کہا کہ نظام کی تبدیلی کیلئے جہاد اور قتال کرنا فرض ہے اور جب اعتماد کی فضاء موجود نہیں تھی تو عشرہ مبشرہ کے صحابہ کرام حضرت طلحہ وزبیر نے بھی خلیفہ راشد حضرت علی سے جنگ لڑی ہے۔ پھر اس وقت کے خوارج جو حضرت علی کے پہلے اپنے ساتھی تھے انہوں نے بھی حضرت علی سے جنگ لڑی ہے۔ ہم اپنے دور والوں کا کیا رونا روئیں؟۔ لوگوں کو اسلئے مذہب سے نفرت ہوگئی ہے۔
ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دال میں کیا کالا کالا ہے کہ جانی خیل بنوں میں کئی دنوں تک شمالی وزیرستان کی وزیر قوم کے چار بچوں کو بہیمانہ انداز میں قتل کرکے لاشوں کو مٹی کے نیچے دبایا گیا اور پھر کتوں اور جانوروں نے ان کو نکالا اور نوچ کھایا۔ لواحقین اور علاقہ کے مکینوں نے کئی دنوں تک احتجاج کیا اور ان لاشوں کو اسلام آباد لے جانے کی کوشش کی۔ ساری مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے بشمول پی ٹی ایم (PTM) کے احتجاج کرنے والوں سے اظہار یکجہتی کیا ۔ مفتی عبدالشکور بیٹنی اگر احتجاج والوں کیساتھ شریک نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ یہ پی ڈی ایم (PDM) کا مسئلہ نہ تھا تو قومی اسمبلی میں ضرور چند آنسو بہاتے ہوئے رونے کی حسرت پوری کرتا۔
جب کوئٹہ کے ہزارہ برادری کو الیکٹرانک میڈیا پر کوریج ملے اور پشتونوں پر پابندی ہو تو کنٹرول میڈیا کا تأثر اور پشتون قوم کی مظلومیت کا جواز بنتا ہے۔ اورجب قومی میڈیا پر کوئی بات نہیں آتی ہے تو سوشل میڈیا پر ہرقسم کی باتوں میں بڑا وزن لگتا ہے ،چاہے وہ پروپیگنڈہ کتنا ہی جھوٹ پر مبنی کیوں نہ ہو۔یہ صورتحال پشتون قوم کو مزید اندھیرے میں جینے کی طرف دھکیل رہی ہے۔ معصوم لڑکوں کا قتل بھی غلط ہے اور اگر یہ لوگ واقعی دہشت گرد تھے تو بھی قانون کی گرفت میں لیکر ان کی ذہن سازی کی ضرورت تھی لیکن فوج اور پولیس نے کس کی تربیت کرنی ہے۔ طالبان گڈ ہوں یا بیڈ معاشرے کیلئے ناسور سے کم نہیں ہیں۔ جب سرکار کی سرپرستی میں گڈ طالبان نہ صرف پرورش پارہے ہوں بلکہ اُلٹے سیدھے کاموں میں بھی ملوث ہوں تو پھر لوگوں کیلئے گڈ اور بیڈ ایک ہی ہوتے ہیں۔
سب سے بڑا بنیادی اور اہم سوال یہ ہے کہ ہماری ریاست نے گڈ طالبان کو کیوں رکھا ہے؟ وزیرستان کاایک محسود اور وزیر یہ جانتا ہے کہ ہمارے علاقے کا یہ شخص کون ہے؟، کس قبیلے سے تعلق رکھتا ہے اور کیا کام کرتا ہے؟۔ اگر کوئی یہ ظاہر نہ بھی کرے کہ وہ دوبئی ، اسلام آباد، کراچی یا لاہور میں کچھ عرصہ سے رہ رہا ہے تب بھی وہاں کے باشندوں کو پتہ چلتا ہے کہ اس پر آثار کیا بتا رہے ہیں کہ وہ کہاں رہ کر آیا ہے اور کس کام سے وابستہ ہے۔ جس طرح کراچی کے رہائشیوں میں پتہ چلتا ہے کہ یہ کورنگی کا ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنی جوانی،ادھیڑ عمر اوراپنا بڑھاپا یورپ میں گزارا ہوتا تب بھی کراچی والوں کو پتہ چلتا تھا کہ یہ کورنگی کے رہائشی ہیں۔ پہلے نانک واڑہ اور اب برمی پاڑہ کے قریب رہائش ہے تو مفتی تقی عثمانی پر اپنے اپنے علاقے کی فضاؤں کے اثرات بھی ضرور مرتب ہوتے۔ اور مفتی زرولی خان ایک عرصہ سے گلشن اقبال میں رہے تھے تو ان کی شکل وصورت پر گلشن اقبال کے اثرات نمایاں تھے۔ لالوکھیت لیاقت آباد ایک علاقہ کے دو نام ہیں۔ ایک بدمعاشی سے کہتے ہیں کہ میں لالو کھیتی ہوں ، پاکستان کی حکومتوں کی تبدیلی میں ہمارا بہت کردار تھا اور دوسرا کہتا ہے کہ میں لیاقت آباد کا رہنے والا ہوں اور وہ لالوکھیت کے نام پر شرم محسوس کرتا ہے۔ کراچی کے باسی جانتے ہیں کہ کون لالو کھیتی ہے اور کون لیاقت آبادی ہے۔ لاہور، کوئٹہ اور پشاور کے رہائشی کو کراچی کے باشندوں میں یہ تمیز نہیں ہوسکتی ہے کہ شاہ فیصل کالونی، کورنگی، ملیر، لانڈھی، ڈیفنس، لیاری، اورنگی ٹاؤن اور کراچی کے باسیوں میں کیا فرق ہے؟۔
جب حاجی عثمان پر آزمائش کا دور آیا تو مرید فوجی اپنی گاڑیوں میں ہمارے ساتھیوں کو پکڑ پکڑ کر تھانے لے جاتے تھے۔ شفیع بلوچ کو فوجی افسر نے دھمکی دی تو اس نے کہا کہ جو رات قبر میں ہو وہ باہر نہیں بسر ہوسکتی ہے جو کرنا ہو کرڈالو۔ اور جب عبدالقدوس بلوچ نے بدمعاشی کرنے والوں سے پنجہ آزمائی کی تو حضرت حاجی عثمان نے غصے میں فرمایا کہ ”اوہ لیاری تم کیا کررہے ہو؟”۔
وزیرستان میں لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ طالبان کو ختم کرنے کیلئے جب تک اسی قوم کے افراد نہیں رکھے جائیں تب تک پنجاب، سندھ، بلوچستان سے آئے ہوئے فوجی تو بہت دور کی بات ہے خیبر پختونخواہ کے سیٹل علاقہ سے تعلق رکھنے والے فوجی بھی دہشت گردوں اور شریفوں کی پہچان نہیں رکھتے ہیں اور اس مجبوری کو قومی سیاسی ومذہبی جماعتوں اور پارٹیوں کے علاوہ امریکہ اور نیٹو کی افواج بھی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے بھی افغانستان میں اسی طرح جنگ لڑی تھی اور اب تک نہ ان کی جان چھوٹ سکی ہے ، نہ افغانوں کی اور نہ ہماری جانیںآج تک محفوظ ہیں۔ اس جنگ سے نکلنے کیلئے مذہبی طبقات اور سیاسی جماعتوں نے بہت اہم کردار ادا کرنا تھا لیکن دونوں نے کوئی مثبت کردار ادا کرنے سے گریز کیا اور اپنی جانوں کو مشکلات میں ڈالنا بہت مشکل ہے۔
آرمی چیف جنرل قمرباجوہ کی طرف سے گھر ٹھیک کرنے کی بات درست ہے۔ اگر نوازشریف اور آر ایم ٹی وی (RMTV)کے راشد مراد سمجھتے ہیں کہ جنرل راحیل نے آرمی پبلک سکول کا واقعہ کروایا ہے تو کھلم کھلا اعلان کردیں ۔ وہ لندن میں بیٹھ کر اپنی اس جان کو بچائیں جو بچپن سے بڑھاپے تک فوج کی ٹانگوں میں گزری ہے اور اسٹیبلیشمنٹ کے فیڈر اور نپل پر زندگی بھر گزارہ کیا ہے اور ہم مقابلہ کریں گے لیکن اگر یہ بات نہیں ہے تو راشد مراد جیسے کتوں کو بھونکنے سے منع کردیں۔ اس قوم کی سب سے بڑی کم بختی بد اعتمادی ہے۔ پاکستان جیسی قوم دنیا بھر میں نہیں ہے۔ لیکن چند اشرافیہ نے اس کو تباہ کردیا ہے۔ ہماری فوج، ہمارے سیاستدان ، ہمارے صحافی، ہمارے دانشور، ہمارے تاجر، ہماری عوام ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ حقائق سمجھنے سے قاصر عوام کو معروضی حقائق سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔
جب طالبان شروع میں آئے تو شمالی وزیرستان میں حکیم خان اور اس کے بدمعاش ساتھیوں نے عوام کا جینا دوبھر کیا تھا۔ پولیٹیکل انتظامیہ اور قبائلی ملکان ان کے سامنے بے بس تھے۔ طالبان نے ان کو بہیمانہ طریقے سے قتل کیا تو دوبئی میں بھی لوگ ان ویڈیوز کو بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔ طالبان کی وجہ سے نامی گرامی بدمعاش بھی توبہ تائب ہوکر طالبان کا حصہ بن گئے۔ ابوجہل وابولہب کو مسلمان بننے سے کون روک سکتا تھا لیکن وہ خود مسلمان نہیں ہوئے ، فتح مکہ کے بعد ابوسفیان نے اسلام قبول کیا تو اس کو عزت بھی بخشی گئی اور یہ وہ قیامت کا منظر تھا کہ جب کافر کہتے تھے کہ کاش ہم اس سے پہلے مٹی میں مل چکے ہوتے۔
یہ ضمیر ضمیر کی بات ہوتی ہے، پہلے ابوجہل وابولہب اور ابوسفیان نے اسلام اور نبی رحمتۖ کے خلاف جنگ کو اپنے مشرکانہ ایمان اور جاہلانہ غیرت ہی کا تقاضہ سمجھ لیا تھا مگر فتح مکہ کے بعد ابوسفیان کے پاس اسلام قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔پہلے بھی اس میں صداقت تھی، قیصرروم سے نبیۖ کا حال بالکل درست بیان کیا تھا۔ جبکہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں کا بھی پیچھا کیا گیا تھا۔ اگر کوئی غلیظ قسم کی ذہنیت رکھنے والا شخص ہوتا تو ابوسفیان نے قیصر روم کو درست حال بتانے کے بجائے گمراہ کرنا تھا۔ سورۂ نجم کے حوالے سے تفاسیر کی کتابوں میں شیطانی آیات اس غلط پروپیگنڈے کا نتیجہ تھے جو پہلے غلیظ مشرکوں نے کیا تھا۔ جس کی وجہ سے حبشہ کے لوگ بھی ہجرت سے واپس آگئے تھے۔ آج کے دور میں غلط پروپیگنڈے کا بڑا زور ہے جو کسی کے بھی حق میں بہتر نہیں ہے۔ جب تک اپنے حالات کو نہیں سدھاریںگے تو کوئی آسمانی فرشتہ نہیں آئے گا۔
جب طالبان سے پہلے وزیرستان میں حالات خراب تھے تو لوگوں کے ہاں ایک بدمعاش گو خان کی وہ حیثیت اور عزت تھی جو سرکاری قبائلی عمائدین کی نہیں تھی۔ پھر بدمعاشوں کی جگہ طالبان نے لے لی تو عوام میں مقبولیت کے معیار پر بدمعاش طالبان لیڈر پہنچے۔ سرکاری ملکان کی انگریز کے وقت سے طالبان تک ایک کٹھ پتلی جاسوس سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں تھی۔ مجھ سے لنگر خیل قوم کے خان نے پوچھا کہ ممتاز بدمعاش کے خلاف ہم نے صاف کاغذ پر پولیٹیکل انتظامیہ کو دستخط کرکے دئیے تھے تو ہم سے حلف اُٹھانے کا کہہ رہا ہے۔ میں نے کہا کہ اس میں اتنی طاقت ہے کہ آپ کو زبردستی سے قرآن کا حلف اُٹھانے پر مجبور کرے تو اس نے کہا کہ وہ طالبان بن گیا ہے۔ میں نے کہا کہ پھر تم بھی طالبان بن جاؤ۔ پھر وہ لوگ طالبان میں شامل ہوگئے۔ بہت لوگ اس طرح مجبوری میں طالبان بن گئے۔ لیکن پاک فوج کو یہ پتہ نہیں تھا کہ سرکاری ملکان کے ذریعے طالبان کو راہِ راست پر لانے کیلئے کتنا مؤثر کردار ادا کیا جاسکتا ہے؟۔ پرویزمشرف نے بلدیاتی انتخابات کے ذریعے سے قبائل میں جمہوریت کی داغ بیل ڈالی تھی لیکن اس وقت طالبان اور سرکاری ملکان کے ہاتھوں معاملات خراب ہوچکے تھے۔
قاری حسین کو اپنے علاقہ کے نامور علماء کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست نہیں جانتے تھے لیکن ہمارے طالبان عزیزوں سے اسکے اچھے تعلقات تھے۔ پاک فوج نے جن مجبوریوں کی وجہ سے گڈ یا سرنڈرطالبان کو رکھا ہے ان کے بغیر چارہ نہیں ہے ۔ دہشت گردی سے بچاؤ کا یہ واحد راستہ تھا ۔اگر قبائل میں درست عوامی نمائندوں کا تصور ہوتا تو پھر گڈ طالبان کو رکھنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ کٹھ پتلی سرکاری جاسوس ملکان عوامی نمائندے نہیں تھے ،انگریز کی طرف سے قوم کو یہ ناسور موروثی انداز میں ملا تھا۔ نواب ایاز خان جوگیزئی کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ وہاں لوگ خانوں ، سرداروں اور نوابوں کو مانتے ہیں اور ہمارے سیٹل ایریا میں بھی نوابوں کی حیثیت تھی لیکن قبائل میں تو انگریزوں کی جاسوسی کے علاوہ ان کا کوئی کام نہیں تھا۔ ہمارا قریبی پڑوسی مثل خان بھی سرکاری ملک تھاجس پر کسی طرح سے بھی نمائندگی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے تھے۔
جب تک عوام کے سامنے دہشت گردی کی وجوہات اور عوامل کے معاملے کو اچھی طرح سے واضح نہیں کیا جائیگا تو لوگ معروضی حقائق سے بے خبر ہونگے اور ہر قسم کے دیدہ ونادیدہ افواہوں کے ذریعے سے وزیرستان کے محسود اور وزیر قوموں کو بدنام کیا جائیگا۔ میرے والد صاحب مرحوم سرکاری ملک نہیں تھے لیکن عوام کے بہت نمایاں نمائندے تھے۔ میرے دادا انگریز سے بہت نفرت کرتے تھے لیکن محسود قوم کا ان پر ایک اعتماد تھا۔ طالبان اور سرکاری ملکان قومی نمائندے بن گئے اور اصل نمائندوں کو قتل کیا گیا تو منظور پشتین جیسے لوگوں نے خلاء کو پورا کردیا۔ اگر باہمی اعتماد کیساتھ اچھے لوگوں کو منتخب کرکے قیادت سپرد کردی جائے تو پھر گڈ اور بیڈ طالبان سے جان چھوٹ جائے گی اور اس کیلئے اسلام کا درست تصور اجاگر کرنا بھی بہت زیادہ ضروری ہے ۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

NAWISHTA E DIWAR April Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی جان لیں کہ خٹک بچی کے قاتل 72 گھنٹوں میں گرفتار نہیں ہوئے تو انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور ہوں گے

آرمی چیف جنرل باجوہ ، دی جی آئی ایس آئی (DGISI) سن لیں کہ اگر (72) گھنٹوں میں خٹک بچی کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا تو انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور ہونگے، یہ گوجرانوالہ، فیصل آباد ،گجرات نہیں کہ برداشت کریں،مولانا شاہ عبدالعزیزکی تقریر

نواب ایاز جوگیزئی نے کہا کہ ہم تمام مظلوموں کیساتھ ساتھی ہیں،جمہوریت نہیں ہے اسلئے جانی خیل بنوں میں لاشوں کیساتھ احتجاج کرنے پر لواحقین مجبور ہیں۔سوشل میڈیاکاخطاب

ایک آدمی نے دوستوں سے کہا کہ گپ شپ نہیں کرنی مگر جب غیبت ہوتو ضرور نیند سے اُٹھالو کیونکہ اس میں مزہ آتاہے۔ مہاتما گاندھی نے انگریز سے کہا تھا کہ تم کب ملک چھوڑوگے؟

پشتون چیف نواب ایاز جوگیزئی نے کہا کہ پہلے آپس کا جھگڑا ہوتا یا بلوچ سے لڑائی ہوتی تو فیصلہ آرام سے ہوجاتا، جمہوری نظام نہیں اسلئے شر وفساد کا سلسلہ ختم نہیں ہورہاہے۔ ہم تمام مظلوم اقوام کیساتھ ہیں۔ جانی خیل بنوں میں سوشل میڈیا سے بات کرتے ہوئے نواب صاحب نے اچھی باتیں کہیں ۔ جبکہ کم سن خٹک بچی کا جنازہ پڑھانے سے پہلے سابق ایم ایم اے (MMA) کے سابق ایم این اے (MNA) نے کہا کہ ہم خٹک پرامن لوگ ہیں ، ہمیں بندوق اٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے۔ اگر(72) گھنٹوں میں قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا تو ہم راست اقدام اٹھائیںگے۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور آئی ایس آئی (ISI) چیف فیض حمید سن لیں یہ خٹک کلچر ہے یہ کوئی قصور، گوجرانوالہ، فیصل آبادگجرات نہیں کہ برداشت کریں۔ ولولہ انگیز خطاب
انگریز نے مسلمانوں اور ہندؤوں کے قائدین کی میٹنگ بلائی ہوئی تھی ، جب انگریز اور مقامی قائدین نے اپنی اپنی باتیں کرلیں تومہاتما گاندھی سے کہا گیا کہ کچھ تو آپ بھی بولو! اس نے کاغذ پر لکھا کہ” میں نے نہ بولنے کا روزہ رکھا ہے ، آپ یہ بتاؤ کہ آپ ہمارا ملک ہندوستان کب چھوڑوگے؟”۔ اس وقت کسی نے گاندھی کی بات کو اتنی اہمیت نہیں دی لیکن وقت نے ثابت کیا کہ بہت بڑی اہمیت کی بات یہی تھی۔ جب عراق پر امریکہ نے حملہ کیا تو کردوں کو عراق کے خلاف اٹھایاگیا، پھر نتیجہ یہ نکلا کہ تیل کے کنوؤں پر قبضہ کرکے اسرائیل منتقل کرنا شروع کیا۔ روس سے مسلم ریاستوں کو آزاد کرنے کے بعد یہودی تیل کمپنیوں کا تیل کے ذخائر پر قبضہ ہوااور پھر طالبان اور القاعدہ کے نام اس خطے میں جنگ مسلط کی اور یہ ان کے مفادات کی تکمیل تک جاری اور ساری رہے گی۔
جمعیت علماء اسلام کے کارکن ریاض محسود نے بالکل درست کہا ہے کہ جب چھوٹے چھوٹے بچوں بلکہ لڑکوں کے ہاتھوں میں ہتھیار ، موٹر سائیکل اور مہنگے موبائل فون ہونگے اور والدین ان سے نہیں پوچھیں گے کہ کہاں سے لائے ہو؟ اور پھر جب مارے جائیںگے تو واویلا کریںگے کہ چھوٹے بچے قتل ہوگئے۔
جب عوام کی مرضی سے متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی تو بھی امن وامان نہیں تھا، اے این پی (ANP) اور پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو بھی حال برا تھا اور تحریک انصاف کی حکومت میں بھی آخر کار پشاور آرمی پبلک سکول کا واقعہ ہوگیا۔ جاوید چوہدری اور عرفان صدیقی سمیت بڑے صحافیوں کے اس وقت کے کالم نکالے جائیں جب روز کئی کئی دھماکے ہوتے تھے، پھر جب جنرل راحیل نے راست اقدام اُٹھایا تو یہ سلسلہ ختم ہونا شروع ہوا، ضربِ عضب کے وقت بھی عمران خان پنجاب پولیس کے گلوبٹوں کو طالبان کے حوالے کرنیکی دھمکیاں دیتا تھا اور طالبان نے نواز شریف اور عمران خان کو اپنا نمائندہ اور ترجمان نامزد کیا تھا۔ آج پی ٹی ایم (PTM) میں بڑا نام ڈاکٹر گل عالم وزیر کا ہے جو شمالی وزیرستان کا بڑا ہے اور اس کی حیثیت ایسی ہے جیسے علی وزیر کے خاندان کی جنوبی وزیرستان کے وزیروں میں ہے۔
جب میرا ایک عزیزڈاکٹر طالبان اور القاعدہ سے عقیدت رکھتا تھا اور ان کا علاج کرتا تھا پھرجب خاندان کیساتھ بڑا واقعہ پیش آیا تو اس کو طالبان سے نفرت ہوگئی لیکن ڈاکٹر گل عالم وزیر پھر بھی اسکے پاس آیا کہ طالبان کا امیر بیمار ہے ، علاج کیلئے ساتھ چلو۔ اس وقت انکار بھی بڑا مسئلہ تھا لیکن غیرت بھی کوئی چیز ہوتی ہے ، ہمارے خانوں اورانگریز کے مقرر کردہ ایجنٹوں کی غیرت کا حال یہ تھا کہ جس خاندان کیساتھ طالبان نے زیادتی کی ہو،ڈاکٹر گل عالم وزیر کیسے یہ جرأت کررہا تھا کہ اس خاندان کے فرد کو علاج کیلئے بھی لے جاتا؟۔
وہ وقت ابھی لوگ بھول گئے ہیں کہ جب دن میں کئی کئی دھماکے ہوتے اور پھر ہفتوںاور مہینوں کے وقفے سے دھماکے ہوتے تھے۔ ردالفساد سے جنرل باجوہ نے امن وامان کی زبردست صورتحال پیدا کردی ہے لیکن پختون قوم کا اعتماد بحال کرنے کیلئے بڑے اقدامات کی ضرورت ہے۔ پی ٹی ایم (PTM) کا وجود بھی بہتر اسلئے ہے کہ قوم میں خود اعتمادی کی فضاء پیدا ہوگئی ہے ورنہ ایک طویل جنگ کے نتیجے میں بچے، جوان ، بوڑھے اور مرد عورتیں سب بہت خوف اور مایوسی کے شکار تھے۔ سردار بابک کے بھائی شمیم شاہد نے وائس آف امریکہ کیلئے میرا ایک انٹرویو لیا تھا لیکن مجھے پتہ تھا کہ یہ نشر نہیں ہوگا اسلئے کہ اگر میں پختون قوم کو پاک فوج کے خلاف لڑانے اور اکسانے کی کوئی بات کرتا تو پھر یہ انٹرویو نشر ہوتا۔
تحریک انصاف کے علی امین گنڈاپور اور سابق ایم این اے (MNA) داور خان کنڈی آپس میں کزن بھی ہیں۔ جب ایک لڑکی کو ننگا کرکے موٹر سائیکل پر ڈیرہ اسمٰعیل خان کے نواحی علاقے میں گھمایا گیا تو دونوں رہنماؤں میں اس واقعہ پر جھگڑا تھا لیکن پی ٹی ایم (PTM)نے اس میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ جمعیت علماء اسلام و دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اس میں کوئی کردار ادا نہیںکیا۔ جب لوگ مخصوص مقاصد میں تقسیم ہوں تو معاشرہ مضبوط کردار کا حامل نہیں بنتا ہے۔ وہ بھی وقت تھا کہ جب تحریک طالبان کراچی میں بھتہ مانگتی تھی تو ہماری نمبرون ایجنسی کی طرف سے بھی شکایت پر یہ جواب ملتا تھا کہ ان کے ساتھ خود ہی نمٹ لو، یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ اب ایک اچھا موقع ہے کہ امن وامان کی اس فضاء میں ہم ایک مخصوص ماحول میں ریاست کے خلاف کھڑے ہونے کیلئے تیاری سے پہلے کچھ تو اپنے آپ کو بھی سدھار لیں۔اگر ہمارا یہ رویہ رہا کہ مخصوص ایجنڈے پر لوگوں کو اُکساتے رہے تو پھر نیند خراب کرکے غیبت کا مزہ لینے کے سوا کچھ نہ ملے گا۔
ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اس فتنہ وفساد اور قومی دلدل سے ہم کس طرح نکل سکتے ہیں؟۔ مولانا شاہ عبدالعزیز نے پاک فوج سے توقع اور نفرت کا اعلان کیا ہے۔
فوج کے سپاہی اور کیپٹن بھرتی ہونے کے بعد افسر اور ماتحت کے چنگل میں زندگی گزارتے ہیں۔ سول سروس سے یہ رشوت یا چوری کے سوا کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں؟۔ میری ریٹائرڈ جنرل ظہیر الاسلام عباسی سے ملاقات رہی ہے جو انقلابی ذہنیت کے اچھے انسان تھے ۔ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو ادب کی زبان میں انتہائی سادہ اور بے تکلفی میں انتہائی بیوقوف کہلاسکتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ حزب اللہ کا قرآن میں ذکر ہے کہ یہ جماعت غالب ہوگی اسلئے میں نے اپنی جماعت کا یہ نام رکھا ہے۔ میں نے سمجھایا کہ کراچی میں ایک جماعت اس نام سے ہے اور قرآن میں جماعت کے نام سے نہیںکام سے اس جماعت کی پہچان ہے۔ کئی معاملات میں انتہائی بیوقوفانہ ذہنیت رکھتے تھے جس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان لوگوں میں صلاحیت بالکل بھی نہیںہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور نوازشریف جیسے بیوقوفوں پر بھروسہ کرتے ہیں اب ایک ایسے موڑ پر پہنچ گئے ہیں کہ اگر ہم نے خود کو نہیں بدلا تو پھر سب کچھ ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ اسلام سے دل ودماغ روشن ہوتا مگر مولوی نے تاریک کردیا۔ اگرحکومت اور اپوزیشن نے مشترکہ پلان تیار کیا تو ہماری خواہش ہوگی کہ اسلام کے بنیادی اور اہم معاملات کی طرف توجہ کریں اور اپنے معاشی اور معاشرتی نظام کو بدلنے میں اب دیر نہیں لگائیں۔ یہ وقت کھویا تو خدانخواستہ بہت رونا نہ پڑجائے۔
اسلام سلامتی ایمان امن دیتا ہے اور پاکستان کی تقدیر میں دنیا بھر کا امن اور انسانوں کی سلامتی لکھ دی گئی ہے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

NAWISHTA E DIWAR April Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

لولی، لنگڑی، اندھی، بہری سیاست کو چھوڑ کر اس قرآن کی طرف آؤ جومردہ قوم میں زندگی کی روح دوڑادے گا

لولی، لنگڑی، اندھی، بہری اور دل ودماغ سے عاری سیاست کو چھوڑ کر اس قرآن کی طرف آؤ جومردہ قوم میں زندگی کی روح دوڑادے گا، جس سے ریاست، عدالت، سیاست اورصحافت میں چلتی پھرتی لاشیں دردِ دل والے انسان بنیں!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

معصوم بچیوں کو بدکاری کے بعد قتل پرکسی مردہ لاش کے ہاں کوئی حرکت نظر نہیں آتی جو روز کا معمول بن چکا ہے، ایک دن کوہاٹ سے کرک کا جنازہ اٹھتا ہے دوسرے دن فیصل آباد سے!

مستونگ بلوچستان دھماکے میں دو سو (200)سے زائد افراد شہید ہوگئے مگر میڈیا نوازشریف کی آمد دکھا رہاتھا کہ شہباز شریف احتجاجی استقبالیہ جلوس گلیوں میں گھماتا رہامگر ائرپورٹ نہیں پہنچا

ہماری سیاست اور صحافت میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب نوازشریف کو عدالت سے سزا ملی تو میڈیا میں یہ تأثر پھیلایا گیا کہ عدالت کی سزا کے خلاف اپیل کیلئے نوازشریف کا ملک میں موجود ہونا ضروری ہے اور اگر نوازشریف نہیں آیا تو سزا بھی پکی ہوجائے گی اور اس کی سیاست بھی ختم ہوجائے گی۔
نوازشریف اپنی بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر وطن واپس آئے تو شہباز شریف نے اپنا احتجاجی جلوس لاہور ائرپورٹ پہنچانا تھا۔ پوری رات گزرگئی لیکن شہباز شریف کو ائرپورٹ پہنچنے کی بجائے جلوس کو بھول بھلیوں میں گھمانا تھا اور مبصرین پہلے سے اپنا یہ تجزیہ بھی دے چکے تھے کہ شہباز شریف نے پہنچنا نہیں ہے۔ اس دوران پھر مستونگ میں دھماکہ ہوا اور پاکستان کے جھنڈے کیلئے قربانی دینے والے اسلم رئیسانی(پیپلزپارٹی) لشکری رئیسانی (ن لیگ) کے بھائی سراج رئیسانی نشانہ بن گئے اور اس میں دو سو (200)سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔ میڈیانے اس بڑی خبر کو بھی کوریج نہیں دی اور نوازشریف کی آمد اور شہباز شریف کا ائرپورٹ پہنچنے کا تماشہ دکھاتا رہا۔ میڈیا کی اس بے غیرتی پر ہم نے شہ سرخی کیساتھ احتجاج کیا تھا لیکن زید حامد کی بیوقوفی پر کارٹون کا اثر پڑسکتا تھا مگر میڈیا کو پرواہ نہ تھی۔
نوازشریف کو سپورٹ کرنے والا میڈیا بھی کیا میڈیا ہے کہ جب کلثوم نواز بیمار تھیں تو خدمت کیلئے حسن نواز اور حسین نواز تھے جو اپنی ماں کی لاش کیساتھ بھی پاکستان عدالت کے خوف سے نہ آئے اور جب نوازشریف بیمار تھا تو تیمارداری کیلئے بیٹے حسن و حسین کی جگہ بیٹی مریم نواز کی ضرورت تھی۔ عمران خان کی بک بک میں اسٹیبلیشمنٹ کی مخالفت کی جھلکیاں منہ سے نکلنے والے جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں۔ ریاستِ مدینہ بھی بھول گیا، جنہوں نے حفیظ شیخ کی جگہ یوسف گیلانی کو ووٹ بیچا ان کی بھی خبر لینے کے بجائے اعتماد کا ووٹ لیکر بے غیرت بیٹھ گیا۔ زرداری جس ق لیگ کو بینظیر بھٹو کا قاتل لیگ کہتا تھا ،اپنی حکومت بچانے کیلئے چوہدری پرویز الٰہی کو راجہ پرویز اشرف کیساتھ نائب وزیراعظم بنادیا۔ شہبازوں اور نوازشات کی سیاست کا حال بھی کسی سے ہرگزڈھکا چھپا ہوا نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمن ، محمود خان اچکزئی اور اسفندیار خان وغیرہ کی سیاست تو لے پالکوں کی گود میں کھلونا بنی ہوئی ہے۔ اگر اسٹیبلیشمنٹ کی اہلحدیث یا سکھ کی طرح بہت لمبی داڑھی ہوتی تو بڑی بڑی پارٹیوں کے لیڈر گود میں بچوں کی طرح نظر آتے اور ان بچوں کے ہاتھوں یہ چھوٹی پارٹیاں کھلونے کی طرح کھیلتے دکھائی دیتیں۔ گودی بچے اور ان کے کھلونے کبھی داڑھی پر لٹکتے کہ انقلاب لاتے ہیں تو کبھی اس کے پیچھے چھپ جاتے کہ عوام کیساتھ کھیل رہے ہیں۔ باپ یا بزرگ کی داڑھی نوچی جائے اور وہ بھی اپنے بچے کے ہاتھوں تو تکلیف تو ہوگی نا؟۔
اگر مولانا فضل الرحمن چاہتے کہ پی ڈی ایم (PDM) میں اتحاد برقرار رہے اور عمران خان پر پریشر اور دباؤ مزید بڑھے تو منی مریم کو سمجھا سکتے تھے کہ پیپلزپارٹی نے سینیٹ الیکشن میں حفیظ شیخ کو شکست دیکر عمران خان کے پاؤں سے زمین اور چوتڑ سے قالین نکال دی ہے،سینیٹر اور سینیٹ چیئرمین کیلئے یوسف رضا گیلانی کی نامزد گی پر ن لیگ اورپی ڈی ایم (PDM)کی جماعتوں نے کوئی قربانی نہیں دی بلکہ پیپلزپارٹی نے چیلنج قبول کرکے عمران خان کو چت کردیا ہے ، اگر چیئرمین سینیٹ کیلئے ہماری جماعتوں نے اپنے ووٹ ضائع کرکے وفا نہیں کی تو صادق سنجرانی نے بھی اپنی حیثیت کھو دی ۔ عددی اقلیت کے باوجود صادق سنجرانی کا چیئرمین بنے رہنا اس جمہوری سرکس کابڑاتماشہ ہے جس کی باگ ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ پھر جنہوں نے ڈپٹی چیئرمین کے عہدے میں پی ڈی ایم (PDM)کے قائد کی جماعت کے نمائندے مولانا عبدالغفور حیدری کو شرمناک شکست سے دوچار کردیا تو اخلاقی قدروں کا تقاضہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم (PDM)کی قیادت پیپلزپارٹی ہی کو دی جائے۔ جو سینیٹر ڈپٹی چیئرمین کیلئے ووٹ نہیں دے سکتے ہیں وہ استعفیٰ کیا دیں گے؟۔ جب عمران خان دُم اُٹھائے اُٹھائے گھومتا تھاکہ ارکان استعفیٰ دیں گے تو جاوید ہاشمی نے کہا تھا کہ میں استعفیٰ دیتا ہوں لیکن دوسرا کوئی بھی اب استعفیٰ دینے کو تیار نہیں ہوگا اور پھر وہی ہوا تھا، اسپیکر قانون کے مطابق ارکان کو علیحدہ علیحدہ استعفیٰ دینے کیلئے طلب کررہاتھا اور وہ کہتے تھے کہ ہم اجتماعی طور پر ایک قبر میں دفن ہوں گے۔ آخر کار عمران خان سمیت سب پارلیمنٹ میں پہنچے اور کوئی شرم بھی ہوتی ہے، کوئی حیا بھی ہوتی ہے اور کوئی غیرت بھی ہوتی ہے والی طعنہ خیزتقریر سننے کو مل گئی۔ جس کی گونج سے آج بھی لوگوں کے کان لبریز ہیں۔
جس طرح سندھ کے تھرپارکر اور پنجاب کے ڈسکہ میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے ایکدوسرے کی اکثریت کا احترام کیا ،اسی طرح سے سینیٹ میں بھی اپوزیشن لیڈر کیلئے اکثریتی پارٹی پیپلزپارٹی کی تھی لیکن جس طرح اے این پی (ANP) کے خلاف نوشہرہ میں پی ڈی ایم (PDM)کے نام پر جمعیت علماء اسلام اور ن لیگ کا گٹھ جوڑ غلط تھا لیکن ن لیگ جیت گئی تو اسی طرح پیپلزپارٹی اوراے این پی (ANP)کے خلاف سینیٹ میں جمعیت علماء اسلام اور ن لیگ کا گٹھ جوڑ غلط تھا جس میں پیپلزپارٹی جیت گئی ہے۔ یہ اتحاد اپنے منہ کا نوالہ ایکدوسرے کو دینے کیلئے نہ تھا بلکہ تحریک انصاف کو مشکلات میں ڈالنے کیلئے تھا۔ جب پیپلزپارٹی کی سینیٹ میں اکثریت تھی پھر بھی اپوزیشن کی جماعتوں نے اسکے ساتھ ہاتھ کیا اور اس سے بڑا ہاتھ مولانا کی جماعت کے ڈپٹی چیئرمین کیساتھ ہوا تو ن لیگ کسی اور وجہ سے شور مچارہی ہے۔ ن لیگ کو خوف لاحق ہوگیا کہ پنجاب، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت نے اپنی اکثریت کھودی ہے اور لانگ مارچ سے اس کی رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی تو استعفوں کے ایشو کو جان بوجھ کر اٹھایا کیونکہ اس نے پہلے ہی فیصلہ کیا تھا کہ مرکز میں عمران خان، پنجاب میں عثمان بزدار اور سینیٹ میں صادق سنجرانی بہتر ہیں اور اگر تبدیلی آگئی تو پھر پیپلزپارٹی بھی ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔ تحریک انصاف سے زیادہ ن لیگ اسٹیبلیشمنٹ کی گود میں پیدا ہوئی ہے۔ بچپن، لڑکپن، جوانی، ادھیڑ عمر اور بڑھاپا گزارا ہے۔ جلاوطنی کے بعد بھی یوسف رضا گیلانی کے مقابل کالا کوٹ پہن کر نوازشریف کس طرح عدالت میں حاضر ہوا تھا؟۔ شہباز شریف سے بڑا مہرہ عمران خان بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر زرداری نے اسٹیبلیشمنٹ سے لڑائی لڑنے کیلئے نوازشریف کو وطن واپسی کی دعوت دی ہے تو اس میں کیا براتھا؟ اور جب مریم نواز نے کہا کہ نوازشریف کو جان کا خطرہ ہے تو پول کھل گیا کہ کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ بزدلی ہے۔ مریم نواز کو یہ تونظر آتا ہے کہ مشرف عدالت سے بھاگا ہوا ہے لیکن اپنا ٹبر نظر نہیں آتا ہے کہ بزدل نوازشریف اسکے بیٹے حسن ،حسین، صمدی اسحاق ڈاراور بہادر بھانجا عابد شیرعلی سب بھاگے ہیں۔
اسٹیبلیشمنٹ کیخلاف جیل بھرو تحریک کیلئے جیل سے بھاگے ہوئے قیادت کریںگے؟۔ مریم نواز کو ابھی اپنے چھوٹے سے آپریشن کے بہانے جانا تھا مگر سیاسی فضاء کا انتظار ہے۔ جو گیدڑ کی طرح کبھی معاہدہ کرکے سعودیہ بھاگ لیں اور کبھی بیماری کا ڈرامہ کرکے لندن بھاگ لیں ان جعلی شیروں اور ان کی اولاد کو مارنے کی ضرورت نہیں بلکہ راستہ دینے کی دیر ہوتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اپنی صلاحیت ان لوگوں پر ضائع نہ کریں جن کی ہڈیوں کے گودے میں بھی انقلاب کا کوئی تصور نہیں۔ مسلم لیگیوں کا ڈی این اے (DNA) انقلابی اور جمہوری نہیں ۔ ڈرائینگ روم کی سیاست میں جنم لینے والے مردِمیدان نہیں ہوسکتے ہیں۔ مولانا نے پہلے بھی ایک نہتی لڑکی بینظیر کے پیچھے اپنی جماعت کے بزرگوں کو بخرے کرکے رکھ دیا تھا لیکن جب غلام اسحاق خان کے مقابلے میں نوابزادہ نصراللہ خان صدارت کیلئے کھڑے ہوگئے تو نوازشریف اور بینظیر بھٹو دونوں نے غلام اسحاق خان کو سپورٹ کیا تھا،اپنے دائیں بائیںبلاول بھٹو اورمریم نواز کو دیکھ کرخوش ہونے کی ضرورت اس وقت ٹھیک ہوتی جب یہ لوگ واقعی انقلابی ہوتے۔ بلاول بھٹو نے تو پھر بھی اپنے نانا ذوالفقارعلی بھٹو کی قربانی دیکھی ہے ، پھانسی سے بچنے کیلئے ڈیل کرتا تو بچ سکتا تھا اور پھر بینظیر بھٹو نے جان پر کھیل کر قربانی دی، سرائیکستان کا غیرتمند صحافی رؤف کلاسرا بھی کہتا ہے کہ زرداری نے بینظیر کے قتل کی تفتیش میں سازش یا خوف کا مظاہرہ کیا ہے اور رانا ثناء اللہ بھی کہتا ہے کہ زرداری نے کہا کہ اسٹیبلیشمنٹ سے میں ڈرتا ہوں۔ رانا ثناء اللہ اور ن لیگی مافیا یہ مہربانی کرے کہ مریم نواز کے قتل کا جعلی ڈرامہ نہ رچائیں۔ نوازشریف اور اس کی بیٹی میں غباروں کی طرح ہوا بھرکر کم از کم جعلی شیر اور شیرنی بنانے کا ڈرامہ نہ کریں۔
مولانا فضل الرحمن دونوں کو ساتھ ملائیں یا دونوں کو خیرباد کہیں۔ ن لیگ کا ایک ہی شہید ہے وہ بھی نوازشریف کے قافلے کے نیچے کچلاجانیوالا معصوم شہر ی تھا جو کچلا گیا مگر قافلہ بھی نہ رکا اور عدالت تک جس کا ہاتھ اسٹیبلیشمنٹ کی وجہ سے نہیں پہنچ سکتا تھا تو مجھے کیوں نکالا ؟ کی رٹ لگاکر نکلا تھا۔ جنہوں نے عدالت پر حملہ کیا تھا تو مکافات عمل کے نتیجے میں ان ن لیگی کا بس چلے تو جی ایچ کیو (GHQ) پر بھی ہلہ بول دینے سے گریز نہیں کرینگے لیکن اس کیلئے ان کو مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کے کارکن چاہئیں۔ کرایہ کے گلوبٹ کمزوروں کو دبا سکتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر طاہر القادری سے دھرنے کا خطرہ ہو تو پولیس کے ذریعے مرواسکتے ہیں اور جب وہی طاہر القادری پیپلزپارٹی کے خلاف دھرنا دینے گیا تھا تو اس کو کھلی چھوٹ دیدی تھی۔ زرداری کا خوف بجا ہے کہ پیپلزپارٹی والے پھانسی پر چڑھتے ہیں، کوڑے کھاتے ہیں اورکارساز دھماکوں کی نذر ہوجاتے ہیں اور لیاقت باغ میں بینظیر کی شہادت سمیت کارکنوں کی قربانی دیتے ہیں اور پھر بھی اپنے ایک ہی اکلوتے بیٹے کو میدان میں اتارتے ہیں جبکہ نوازشریف اپنے بیٹوں کے نام حسن اور حسین رکھ کر بھی رفو چکر ہوجانے کے عادی بناتے ہیں۔ میڈیا سے کہتے ہیں کہ عدالتوں کو جواب دیںگے اور عدالتوں سے کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی نہیں ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اس ٹبر کو چھوڑ دیں اور مولانا محمد خان شیرانی ، حافظ حسین احمد، مولانا گل نصیب اور مولانا شجاع الملک کو اپنے ساتھ ملائیں، اطمینان بخش الیکشن کروائیں تاکہ نظریاتی لوگوں کے بخرے نہ ہوں۔ مولانا حق نوازجھنگوی کی شہادت کے بعد سپاہ صحابہ کے قائد مولانا ایثار الحق قاسمی نے آئی جے آئی کی ٹکٹ پر جھنگ سے الیکشن لڑا تھا، جس کی حمایت یافتہ اس سیٹ پر پہلے مولانا حق نوازجھنگوی کو شکست دینے والی شیعہ عابدہ حسین تھی جو جھنگ کی دوسری سیٹ پر آئی جے آئی کی ٹکٹ پر لڑرہی تھی۔ اگر مولانا محمد خان شیرانی کی بات اس وقت مان لیتے کہ مولانا حق نوازجھنگوی کی انجمن سپاہ صحابہ ختم کرکے جمعیت میں ضم کی جائے تو سپاہ صحابہ کی شکل میں دل کا اتنا بڑا ٹکڑا جے یو آئی سے جدا نہ ہوتا اور اب اس مریم نواز کی حمایت میں جنون کی حد تک جانا ان بزرگوں کو کھونے کا باعث بن رہاہے جو جمعیت علماء اسلام کا دماغ ہیں۔ یہ وہی ہیں جو وعدے کے باوجود بھی لاہور میں استقبال تو بہت دور کی بات ہے ملاقات کیلئے بھی آمادہ نہیں تھے۔
جمعیت علماء اسلام کے گروپوں ، جمعیت علماء پاکستان، جماعت اسلامی اور تمام مذہبی جماعتوں کو لیکر سب سے پہلے اسلام کے واضح احکام کو اجنبیت سے نکالا جائے۔ قرآن کے واضح احکام کی فہرست پیش کی جائے۔ ریاست کی نعمت موجود ہے۔ انتخابات ہوسکتے ہیں، عوام کے ذہن پلٹ سکتے ہیں۔ غریبوں نے اسلام کیلئے بہت کچھ قربانیاں دی ہیں۔ قرآن وحدیث اور جہاد کیلئے امیروں اور جرنیلوں کے بچوں نے کبھی قربانی نہیں دی ہے۔ فوجی چھاؤنیوں کیساتھ لال کرتیوں کے باسیوں اور فوجی پیرول پر چلنے والی سیاسی پارٹیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مدارس کے بچوں کو فضول کی سیاست کی نذر کرنے کا فائدہ نہیں ۔
نبیۖ نے فرمایا کہ اسلام کا آغاز اجنبیت کی حالت میں ہوا ، یہ عنقریب پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا ،پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے۔
جرنیل بدلتے رہتے ہیں اور سیاستدان وہی رہتے ہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جرنیل غلط اور غلیظ ہوں اور ان کی پیداوار سیاستدان پاک اور پاکیزہ ہوں؟ اورجنرل ایوب اور جنرل ضیاء الحق پر لعنت کی جائے اورپھربھٹو اور نوازشریف کو شاباش دی جائے۔ اس مخمصے میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ علماء ومفتیان اور مذہبی تنظیموں اور مذہبی سیاسی جماعتوں کا فرض بنتا ہے کہ خلفاء راشدین کے بعد دورِ آمریت سے جبری حکومتوں کے موجودہ دور تک جس طرح اسلام اجنبیت کی منازل طے کرتا آیا ہے اس کو اجنبیت سے نکالا جائے۔ آمریت کی ٹانگوں میں جننے اور پلنے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ہی بہترین راستہ ہے۔

NAWISHTA E DIWAR April Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

نوازشریف کی سیاست کتے کی دُم کی طرح کبھی سیدھی نہیں ہوسکتی, تحریک انصاف اور ن لیگ کا ڈی این اے DNA بالکل ایک ہے

نوازشریف کی سیاست کتے کی دُم کی طرح کبھی سیدھی نہیں ہوسکتی، پرویزمشرف سے معاہدہ، لندن فلیٹ کے دستاویزی ثبوت اوراسٹیبلیشمنٹ کے خلاف کھلم کھلا جنگ سب فراڈ تھا،میڈیا اورمولانا فضل الرحمن بھی اس پر خول چڑھانے کے بدترین مجرم ہیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ن لیگ کو یہ پتہ نہیں تھا کہ حفیظ شیخ کوسید یوسف رضا گیلانی سے شکست ہوگی، چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں ن لیگ نے دغا کیا اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ میں دغا بازی کی حدیں پار کیں

حفیظ شیخ کو آصف زرداری نے رکھا تھا، جب تحریکِ انصاف نے اس کو رکھا تو بلاول بھٹو زرداری نے اس کو اپنی کامیابی قرار دیا اور اب اس کو ہٹایا توبھی اپنی پی ڈی ایم (PDM)کی کامیابی قرار دیا

تعبیر الرویاابن سرین کی مشہور کتاب ہے جس میں خوابوں کی تعبیر کا علم ہے۔ خواب میں کتے کو دیکھنا وہ دشمن ہے جو بعد میں فرمانبردار ہوسکتا ہے۔ جب کتا کسی انسان پر بھونکتا ہے تو بعد میں اسکے ساتھ عہدِ وفاداری بھی نبھاتا ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک خواب وہ ہوتا ہے جو نیند کی حالت میں دیکھا جاتا ہے اور ایک خواب وہ ہوتا ہے جو جیتے جاگتے کسی انسان کا نصب العین ہوتا ہے اور دونوں پر اردو اور عربی اصطلاحات میں خوابوں ہی کا اطلاق ہوتا ہے۔
جب نوازشریف نے پی ڈی ایم (PDM) کے جلسوںگوجرانوالہ اور کوئٹہ میں پاک فوج پر بہت بڑے پیمانے پر بھونکنا شروع کردیا تو پاکستان کی عوام میں ملا جلا ردِ عمل تھا کہ ایک وفادار کتے کا اس طرح بھونکنا کیسا ہے؟۔ آرمی چیف ، آئی ایس آئی کا نام اس طرح سے لیا کہ پی ڈی ایم (PDM) میں موجود جماعتیں بھی ہوئیں پریشان اے قائد مریم تیرا احسان ہے تیرا احسان ۔ پطرس بخاری نے لکھا کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو کتا بھونکتا ہے وہ کاٹتا نہیں ہے ، لیکن کچھ پتہ نہیں کہ کب بھونکنا بند کردے اور کاٹنا شروع کردے۔ اور کوئی کتا تو بہت ہی کتا ہوتا ہے۔
نوازشریف کے بھونکنے نے ایک کمال کردیا کہ پنجابی لوگ صرف پنجاب کی مٹی کو ریاست اور وطن کا وفادار سمجھتے تھے، چوں فضل الٰہی میسر شودخواندہ و ناخواندہ برابر شود۔مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کی اس سیاست کو ماننا پڑے گا۔ پیپلزپارٹی کو مؤمن نہیں منافقت کی سیاست سے بدنام کیا گیا ہے اور سیاست میں منافرت کی منافقت ہوتی ہے۔ جس طرح کی منافرت دکھائی جاتی ہے ویسی منافرت ہوتی نہیں ہے اور جس طرح کی وفاداری دکھائی جاتی ہے تو ویسی وفاداری ہوتی نہیں ہے۔ اسلئے کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی بات بھی حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ دوستی اوردشمنی بدلنے سے عوامی شعور میں اضافہ ہوتا ہے۔
ایک بالکل پروفیشنل سیاسی تجزیہ نگار صحافی مظہرعباس نے بالکل سچ کہا ہے کہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کا ڈی این اے (DNA) الگ الگ ہے۔ تحریک انصاف اور ن لیگ کا ڈی این اے (DNA) ملتا ہے۔ یہ دونوں اسٹیبلیشمنٹ کیساتھ سازباز کرکے چل سکتی ہیں لیکن پیپلزپارٹی کا یہ ڈی این اے (DNA) بالکل نہیں۔ پیپلزپارٹی نے پرویزمشرف کو نکالنے کیلئے یہ قربانی دی تھی کہ پرویز الٰہی کیساتھ پنجاب میں مل کر پیپلزپارٹی کی حکومت نہیں بنائی بلکہ ن لیگ کیساتھ مل کر مرکز اور پنجاب میںحکومت بنائی۔ جب ن لیگ نے پنجاب اور مرکز میں دھوکہ دیا تو پھر مجبوری میں ق لیگ کا مرکز میں سہارا لیا تھا۔ آج اگر پرویزالٰہی کیساتھ مل کر پنجاب اور مرکز میں عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے تو اس کیلئے ن لیگ تیار نہیں ہے۔صحافی حامد میر سیاست کے بھی پیچ وخم نہ صرف جانتے ہیں بلکہ کسی حدتک استعمال بھی کرتے ہیں اسلئے کہا کہ اصل لڑائی پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں اس بات سے شروع ہوئی ہے کہ پرویز الٰہی کو عثمان بزدار کی جگہ لانا اسٹیبلیشمنٹ کی خواہش ہے اور نواز شریف اس کیلئے تیار نہیں۔حالانکہ جس طرح یوسف رضا گیلانی اور نوازشریف نے پنج سالہ مدت پوری نہیں کی اسی طرح عمران خان کو بھی ہٹایا جاسکتا ہے لیکن نوازشریف کا سمجھوتہ ہوا ہے کہ عمران خان کو مدت پوری کرنے دینی ہے۔ عثمان بزدار کو بھی ن لیگ پرویز الٰہی کے مقابلے میں اپنے حق میں بہتر سمجھ رہی ہے۔
تحریک انصاف اور ن لیگ کا ڈی این اے (DNA) بالکل ایک ہے۔ پیپلزپارٹی کبھی تو سنجرانی کی حمایت کرکے اس ڈی این اے (DNA) میں دراڑ ڈالتی ہے ، کبھی ن لیگ کو ساتھ ملاکر پرویزمشرف اور ق لیگ کو شکست دیتی ہے اور کبھی ق لیگ کو ساتھ ملاکر اسٹیبلیشمنٹ اور ن لیگ کا مقابلہ کرتی ہے۔ اب ن لیگ اور ق لیگ کو ساتھ ملاکر تحریک انصاف کا مقابلہ کرنا چاہتی ہے لیکن ن لیگ منہ میں دُم دبائے گول گول ناچ رہی ہے۔ ن لیگی ریلے میں پی ڈی ایم (PDM)کے ہرنوع اور ہرقسم کے سیاسی بل ڈاگ موجود ہیں اور انکو لانگ مارچ اور دھرنوں کی بھی ضرورت نہیں پڑیگی لیکن ن لیگ یہ کھل کر کہہ رہی ہے کہ ایک ریلے میں دس گیارہ کتے تو ہوسکتے ہیں لیکن دو کتیا نہیں ہوسکتی ہیں۔ ق لیگ کی رقابت کسی طرح بھی ن لیگ کو برداشت نہیں ہے۔ کتوں کے بھونکنے پرنہ جاؤ بلکہ ان کی دُم کے انداز سے حقیقت کا پتہ لگاؤ۔
نوازشریف نے پورے پاکستان میں موٹروے اور کوہاٹ میں ٹنل بنائے تھے۔ شہباز شریف کے مقابلے میں بہتر ہیں ،اس سے پہلے پہلے کہ عمران خان، شہباز شریف، پیپلزپارٹی ، ق لیگ، ایم کیوایم ، باپ کے ہاتھوں سیاسی شہید ہوجائیں تو ن لیگ کھل کر اعلان کردے کہ مرکز اور پنجاب میں ہم نے عمران خان کو پورا پورا سپورٹ کرنا ہے تاکہ بقیہ مدت کسی سیاسی بلیک میلنگ اور دباؤ کے بغیر پوری کرلے۔ ایم کیوایم ق لیگ کو بلیک میل کرتی تھی تو اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمن نے چوہدری شجاعت سے کہا تھا کہ اسمبلیوں اور حکومت کو ہم نہیں گرنے دیںگے ۔ کسی سے بلیک میل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہمارا اصل ہدف موجودہ سیاسی سیٹ اپ نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی ہے اور نظام کی تبدیلی کیلئے نصابِ تعلیم کی تبدیلی ضروری ہے۔ میاں نوازشریف بہت کم عقل انسان ہے۔پہلے محمود خان اچکزئی، عمران خان اور قاضی حسین احمد سے اے آر ڈی (ARD) کے نام پر اتحاد کرکے (2008) کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔ پھر پیپلز پارٹی کیساتھ مل کر اپنے اتحادیوں پر پدو مار کر چھوڑ دیا۔ اب بھی وہ مولانا فضل الرحمن ، محمود خان اچکزئی ، اے این پی (ANP) ، اختر مینگل اورپی ٹی ایم (PTM) کی مزاحمتی سیاست چھوڑ کر درحقیقت پیپلزپارٹی کی مفاہمتی سیاست پر گامزن ہوچکے ہیں۔ وہ چیخ چیخ کر کہتا تھا کہ بلوچستان کی عوام کیساتھ سوئی گیس کے معاملے میں ظلم ہوا ہے ۔ ڈیرہ بگٹی کی عوام سے مکران تک پورا بلوچستان پسماندہ ہے انکو گیس تک سے بھی محروم رکھا گیا ہے لیکن جب سی پیک کا معاملہ آیا تو زرداری اور مولانا فضل الرحمن نے گوادر سے چین تک کے راستے کیلئے مغربی روٹ کا تعین کیا جو چین کیلئے بھی فائدہ مند تھا اور پاکستان کیلئے بھی اور بلوچستان کیلئے بھی لیکن نوازشریف نے وہ روٹ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور سے چھین کر پنجاب کے دارالحکومت لاہور منتقل کردیا۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے باغی علاقے آواران سے موٹر وے گزارنے کیلئے گاؤں کے گاؤں مسمار کردئیے اور مزاحمت والوں یا مزاحمت کاروں کے بدلے میں پرامن لوگوں کو اجتماعی قبروں میں ڈال دیا گیا۔ میڈیا کی وہاں رسائی نہ تھی ،پھر اجتماعی قبریں نکل آئی تھیں۔ یہ سب نوازشریف کی منافقانہ ، احمقانہ اور مفاد پرستانہ سیاست کا شاخسانہ تھا۔
مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی چاہیں تو نوازشریف کے ٹٹوں کو بھی مالش کریں لیکن پاکستان کی عوام کو مزید بیوقوف بنانے سے پرہیز کریں۔ ہمارا مقصد تحریک انصاف اور عمران خان کو سپورٹ کرنا ہرگز نہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اگر انقلابی حکومت ہوتی تو سریا گرم کرکے عمران خان کے چوتڑوں کو داغا جاتا کہ بتاؤ ، جب تیل سستا تھا اور پاکستان میں پٹرول پمپوں پر پٹرول غائب تھاتو اس وقت کوکین کا نشہ کیا ہواتھا یا پٹرول کے غبن میں عوام اور پاکستان کی ریاست کا بیڑہ غرق کررہے تھے؟۔
اس وقت بھارت نے سستا تیل خرید کر اپنے تیل کے ذخائر بھردئیے اور ہمارے والے گدھے کے بچے بھیک مانگنے ، عوام کو لوٹنے اور اپنی ریاست کوبڑا نقصان پہنچانے کے پیچھے پڑے تھے۔ اگر اس وقت خلوص سے کام لیا جاتا توپھر آئی ایم ایف کی طرف سے بجلی اور گیس کی قیمت اتنی مہنگی کرکے عوام پر بوجھ ڈالنے کی نوبت بھی نہیں آسکتی تھی۔ سائیکل اور بھینس چور وں سے بڑا ریمانڈ حکومت ، اپوزیشن، ججوں ، بیوروکریٹوںاور جرنیلوں کا لینا چاہیے۔پولیس کے ادنیٰ سپاہی سے لیکر وزیراعظم تک سب کرپشن میں مبتلا ہوں تو بڑے بڑوں پر ہاتھ ڈالنا زیادہ ضروری ہے جو بڑے بڑے ہاتھ مارنے پر اصرار کرتے ہیں۔ عمران خان تو صرف یہی بھونکتا چلا جارہاہے کہ ” میں چھوڑوں گا نہیں سب کو جیل میں ڈالوں گا” لیکن نوازشریف اور مریم نواز پہلے سے جیل میں ڈالے جاچکے تھے ان کو بھی چھوڑ دیا اور ابھی تک جیلوں میں ڈالوں گا کی بھونک بھی بند نہیں کی ہے۔ ایک اچھے ذہنی امراض کے ماہر ڈاکٹر سے پہلے وزیراعظم عمران خان کا بہتر علاج کروایا جائے ،پھر اس کو بقیہ مدت وزیراعظم کے طور پر نوازوشہباز شریف کی مہربانیوں سے پوری کرنے دی جائے۔ قومی میڈیا کے بکاؤ مال صحافی بھی اپنا وقت اور قوم کا وقت ضائع کرنے کے بجائے کسی مثبت کام پر لگائیں اور چھوٹی بچیوں کا ریپ کرکے قتل کرنے کے واقعات کی روک تھام کیلئے کوئی زبردست قسم کا لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ ایک تاریک مستقبل کی طرف گئے تو پھر کسی کی بھی خیر نہیں ہوگی۔ اسٹیبلیشمنٹ انگریز کے زمانے سے یہی ہے لیکن ہمارا سیاسی طبقہ نااہل ہے اور اس نااہلی کی وجہ سے ہماری حالت بد سے بدتر ہے۔
عوام چڑھتے سورج کی پچاری ہے۔ ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف اور عمران خان کے پجاری اب سمجھ گئے ہیں کہ سارا سونا کھوٹہ نکل چکا اور تو اور جماعت اسلامی کے سراج الحق بھی سمجھ گئے ہیں۔
جماعت اسلامی کے سراج الحق نے کہا کہ ”اگر پاکستان میں شریعت کا نفاذ نہ ہو تو پھر متحدہ ہندوستان ہی بہتر تھا۔73سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا کہ ہم انگریز کے نظام کو بچارہے ہیں”۔ سراج الحق نے بجا فرمایا ہے اور اسی وجہ سے حکومت اور مولانا فضل الرحمن کی قیادت والی پی ڈی ایم (PDM) کی جگہ پیپلزپارٹی اور اے این پی (ANP) کو سینیٹ میں اپنا ووٹ دیا ہے۔ لیکن سراج الحق کو دیکھنا چاہیے کہ قرآن اور سنت کی جو تعبیر مذہبی طبقات نے کی ہے جس کی مولانا مودودی نے بھی اپنی تفسیر ”تفہیم القرآن” میں ترجمانی کی ہے وہ درست ہے یا غلط؟۔
اگر وہ غلط ہے اور اس قدر غلط ہے کہ انگریز کا نظام بھی اس سے بہتر ہے تو پھر پاکستانی قوم اس شریعت کو کس طرح قبول کریگی اور پاکستان کا ریاستی نظام اس کو کس طرح سے نافذ کرنے کی کوشش میں پیش پیش ہوسکتا ہے؟۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ مفتی محمود پر الزام تھا کہ وہ صدر ایوب خان کیساتھ پاکستان کے عائلی قوانین میں شریکِ جرم تھے۔ پیسوں کے لین دین کا الزام بھی تھا لیکن دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ خلع اور طلاق میں مذہبی طبقے کا اسلام قرآن وسنت کے مطابق ہے یا ریاست کے عائلی قوانین قرآن وسنت کے مطابق ہیں؟۔ اگر مذہبی طبقات کے عقائد اور مسالک قرآن وسنت کے بالکل منافی ہوں تو پھر یہ فرض بنتا ہے کہ سب سے پہلے مذہبی طبقات مل بیٹھ کر اپنی اصلاح کریں۔ سراج الحق جماعت کے امیر ہیں وہ منصورہ میں سب سے پہلے اپنی جماعت کاایک اجلاس بلالیں۔ مجھے بھی طلب کرلیں تو اصلاح کی طرف پیش رفت ہوگی اور بڑا انقلاب بھی آجائیگا۔ کشمیر کی آزادی تو دور کی بات کہیں بھارت اٹھ کر یہ فیصلہ نہ کرلے کہ بنگلہ دیش کی طرح سے اب مغربی پاکستان کو بھی اس ریاستی اور سیاسی مافیا سے آزاد کرانا ہے جو اپنی بھی دشمن ہے، اس قوم کی بھی دشمن ہے، اسلام کی بھی دشمن ہے، اس خطے کی بھی دشمن ہے اور پوری دنیا کی بھی دشمن ہے اور بنگالیوں سے زیادہ پنجابی، سندھی ، پختون اور بلوچ اسکا خیرمقدم نہ کریں۔
شاہ نعمت اللہ ولی کی پیش گوئی میں دواہم باتیں ہیں ایک یہ کہ پنجاب کے دل سے دوزخی نکال دئیے جائیں گے۔ اس سے مراد پنجابی اسٹیبلیشمنٹ ہے یا قادیانی ہیں یا دونوں ہیں یا ان کے کٹھ پتلی ہیں۔ بہر حال سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے اور تعبیر کا معاملہ ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اٹک کا دریا خون سے بھریگا اور اس میں یہ واضح ہے کہ دریائے سندھ مراد ہے۔ گنگا اور جمنا نہیں۔ سندھی ، بلوچ ،پختون اور مہاجر کے دل ودماغ میں جو آبلے پڑے ہیں وہ پنجاب اور اس کی فوج کے خلاف ہیں تختِ لاہور کے خلاف ہیں۔ روس کی جنگ اسلام کے نام پر لڑی گئی اور امریکہ سے ڈالر وصول کرکے افغانستان کا تیاپانچہ کردیا گیا اور پھر بھی پاک ،پاکیزہ ،شہباز اور پاکباز بنے پھرتے ہیں۔ہارون الرشید اور اوریا مقبول جان کے اسلام کو کون مانتا ہے؟ پنجاب کو بھروسہ تھا توسن پینسٹھ(65)کی جنگ جیت لی تھی، اب سن اڑتالیس (48) میں لڑنے والے پٹھان بھی نہیں رہے۔ ذرا سوچئے تو سہی!

NAWISHTA E DIWAR April Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

مولانا فضل الرحمن کا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو قرآن کے خلاف سازش کرنے پرچیلنج

مولانا فضل الرحمن کا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو قرآن کے خلاف سازش کرنے پرچیلنج اورچندچشم کشا حقائق جن سے یہ پتہ چل رہاہے کہ چور اُلٹا کوتوال کو ڈانٹ رہاہے،قرآن کیخلاف حقیقی سازش مذہبی طبقات کررہے ہیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ہماری ریاست ، حکومت اور صحافت اپنے منافقانہ روئیے کی وجہ سے ہی اپنے انجام کو پہنچ رہی ہیں۔ مریم نواز کیخلاف نیب کی بدترین پسپائی سے آغاز ہے خدا جانے اب انجام کیاہوگا؟

جنرل قمر جاوید باجوہ کا اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کی خواہش کا اظہار بہت خوش آئند ہے لیکن اس کیلئے انتہائی ایمانداری اور دیانتداری سے اقدامات اُٹھانے کی بروقت سخت ضرورت ہے

مولانا فضل الرحمن کی آڈیو تقریر یوٹیوب پر ہے جس میں قرآن کے خلاف سازش کرنے پر جنرل قمر باجوہ کو سخت تنبیہ ہے کہ 65ء میں قوم فوج کیساتھ تھی تو جنگ جیت لی اور (1971) میں فوج اپنی قوم سے لڑرہی تھی تو عبرتناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ فوج اسلئے نہیں رکھی جاتی ہے کہ وہ اغیار کے ایجنڈے پر عمل کرے ۔مذہبی طبقات کیخلاف اغیار کے ایجنڈے کے تحت اقدامات سے باز نہیں آئے اور قرآن کیخلاف سازش کی گئی تو پھر مذہبی طبقہ میدان میں اُتریگا۔

مولانا فضل الرحمن نے نیب کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا، ہم بھی نیب کو سیاسی طور پر استعمال کرنے کے خلاف ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی گرفتاری سے پی ڈی ایم (PDM)کی تمام جماعتوں کے سیاسی کارکن اور سوشل میڈیا والیکٹرانک میڈیا میں بیٹھے ہوئے صحافیوں کا جم غفیر وہی انداز اختیار کرتا جوپی ٹی ایم (PTM)نے کیا تھا۔ پشتون تحفظ موومنٹ کی قوم کیساتھ جو کچھ ہوا تھا وہ تنگ آمد بجنگ آمد کی آخری حد سے گزر چکے اسلئے رعایت کے مستحق تھے اور ان کیساتھ بہت رعایت والا معاملہ ہوا بھی اور پھر حد سے تجاوز کرنے پر روکنے اور کچلنے کی کامیاب کوشش بھی ہوئی۔ پیپلزپارٹی ، محمود اچکزئی، عوامی نیشنل پارٹی، اختر مینگل ، آفتاب شیرپاؤ اوردیگر پی ڈی ایم (PDM) میں شامل جماعتوں اور شخصیات کی خواہش کے برعکس ن لیگ اورمولانا فضل الرحمن نے پی ٹی ایم (PTM) کو آٹے سے بال کی طرح الگ کردیا۔ اسٹیبلیشمنٹ کیخلاف پی ٹی ایم (PTM) نے جو طوفان کھڑا کیا تھا تو زرداری نے پی ڈی ایم (PDM) کی تشکیل میں ان کو بھی ساتھ ملایا تھا۔ لیکن جب ن لیگ نے گجرانوالہ میں پی ڈی ایم (PDM) کا پہلا جلسہ کیا تھا تو پی ٹی ایم (PTM)کو دعوت نہیں دی تھی۔ گویا وہ اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف برپا ہونے والے طوفان سے اپنی بہت بڑی اونچی چھت یا منیار پر چڑھ گئی تھی۔

جس طرح کی زبان پی ٹی ایم (PTM) فوج اور لسانی تعصبات کی بنیاد پر پنجاب کے خلاف استعمال کرتی تھی تو اس کی متحمل ن لیگ جیسی اسٹیبلیشمنٹ کی پروردہ اور پنجاب کی نمائندگی کرنے والی جماعت نہیں ہوسکتی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ جب ن لیگ نے پی ٹی ایم (PTM)کو نہیں بلایا تھا تو پی ٹی ایم (PTM) میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی کہ پنجاب نے پختونوں کیساتھ تعصبات کی انتہاء دکھا دی کہ ہمیں پی ڈی ایم (PDM) میں شمولیت کے باجود بھی جلسے میں نہیں بلایا ۔ یہ ن لیگ کی طرف سے اسٹیبلیشمنٹ اورپارٹی ورکروں کیلئے اطمینان کا باعث تھا۔ اگر پی ٹی ایم (PTM) اپنے ایک بیانیہ اسٹیبلیشمنٹ کی مخالفت پر کھڑی رہتی اور پنجاب کی مخالفت چھوڑدیتی تو یہ بڑا بریک تھرو ہوتا۔ اسلئے کہ پی ٹی ایم (PTM)کی بنیاد پشتون قومیت ہے تو یہ اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف صرف اسلئے ہوسکتی ہے کہ جب پاک فوج سے پشتون قوم کو نقصان پہنچ رہا ہو لیکن اگر پاک فوج سے پشتون قوم کو فائدہ پہنچ رہا ہو تو پھر پی ٹی ایم (PTM)نے پاک فوج زندہ باد کا نعرہ لگانا ہے لیکن پنجاب سے دشمنی بین الاقوامی بھی ہوسکتی ہے۔

پنجاب کیخلاف سندھ ، بلوچستان، پختونخواہ اور سرائیکی تک میں بہت بڑی فضاء موجود ہے۔ جمہوریت اور اسٹیبلیشمنٹ دونوں میں پنجاب کی اکثریت ہے اسلئے مقتدر طبقے سے رعایا کے سارے گلے شکوے کامرکز تختِ لاہور بنتاہے۔ ہرقوم میں کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں ہوتی ہیں، پاک ذات صرف رب کی ہے اور یہ الگ بات ہے کہ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں اور اس کے ناپاک بدبودار پیشاب کو بھی پاک سمجھتے ہیں۔ جب کوئی قوم کسی مخلوق کو معبود کا درجہ دیتی ہے تو وہ اس کے پیشاب کو بھی پاک سمجھنا شروع کردیتی ہے اور اس کے گند کو بھی بہت مقدس ماننا شروع ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگ شاید مولانا فضل الرحمن، نوازشریف، مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری ، آصف زرداری ، ذوالفقار علی بھٹو، عمران خان اور دیگر سیاستدانوں اور پاک فوج کو معبود کی حد تک پاک مانتے ہوں اور انکے گند کو بھی تقدس کا درجہ دیکر پوجاپاٹ کرتے ہوں اسلئے کہ ہماری قوم بھی اپنے اصل کے اعتبار سے گاؤ ماتا کی پجاری تھی اور دیوتا اور دیوی کی تصاویر سے اپنی بے انتہاء عقیدت رکھتے ہوئے تصاویر اور مورتیوںکی پوجاپاٹ کرتی تھی اور یہ نہیں دیکھتی تھی کہ جس کو ہم نے بنایا ہے وہ پوجا پاٹ کے لائق کیسے ہوسکتے ہیں؟ جس کا اظہار علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں کیا کہ اپنے اصل کے اعتبار سے میں سومناتی ہوں۔ اس پوجا پاٹ کی جھلکیاں آج موجود ہیں۔سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے پر کوئی احتجاج نہیں ،یہ مذہبی طبقات میں منافقت کی آخری انتہاء ہے۔

جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر چڑھایا گیا تو لوگوں نے اس کی خاطر اپنے آپ کو جلانا شروع کردیا تھا۔ طالبان کے دہشت گرد اپنے امیر کے حکم پر خود کش کرتے تھے۔ جب جنون کی حد تک کسی سے عقیدت ہوجائے تو پھر بندے کی پوجا پاٹ شروع ہوجاتی ہے۔ ہمارے مرشد حضرت حاجی عثمان سے جب مریدوں کا تعلق عقیدت والا تھا تو وہ ان کی خاطر لڑنے مرنے کو تیار ہوجاتے تھے لیکن جب فتوؤں اور اپنوں کی بغاوت سے عقیدت کا رشتہ ٹوٹ گیا تو پھر حاجی عثمان کو گمراہ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ انسان کیلئے دونوں جانب کی شدت مفید نہیں ہوتی ہے۔ کبھی تو ایسی عقیدت کہ اپنے بیوی بچوں اور والدین ،اپنی جان تک اسلئے قربان کرنے کو تیار ہوں کہ حاجی عثمان اس وقت بھی ہمارے حالات سے واقف ہوتے ہیں کہ جب ہم بیوی کیساتھ ہمبستری کرتے ہوں اور پھر جب عقیدت کا غبارہ پھٹ جاتا ہے تو مریدی ہی نہیں شریعت کے دامن سے بھی بھاگ کر جان چھڑا رہے تھے۔ جب مجھے حاجی عثمان کے مریدوں سے پہلی مرتبہ ایک خطاب کا موقع مل گیا تو میں نے کہا تھا کہ ”جو کچھ ہوا ہے بہت اچھا ہواہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کا عقیدہ خراب ہوگیا تھا،جو لوگ بھاگ گئے ہیں اب ان کا عقیدہ درست ہوگیا ہے اسلئے کہ انکو پتہ چل گیا ہے کہ حاجی عثمان کے خلاف جن لوگوں نے اتنی بڑی سازش تیار کرلی تو ان کو اس کا بھی پتہ نہیں چلا ہے ۔ اور جہاں تک فتوے کا تعلق ہے تو اس میں ایک خلیفہ اول کے مشاہدے سے انکار کی بنیاد پر فتویٰ ہے۔ جب انکے علاوہ ہزاروں نے مشاہدات دیکھے تو اس شخص پر زبردستی کیسے ہوسکتی ہے؟۔ اور وہ بھی اتنے مضحکہ خیز طریقے سے”۔

آج ان لوگوں کی عقیدت بھی تہس نہس ہوگئی ہے کہ جن کا پاک فوج پر بڑا نیک گمان تھا۔ براڈ شیٹ میں نااہل جنرلوں کی نااہلی سامنے آگئی ہے اور پرویز مشرف نے جس طرح آفتاب شیرپاؤ کو پکڑنے کے باوجود نہ صرف چھوڑ دیا تھا بلکہ وزیرداخلہ بھی لگادیا تھا۔ آصف زرداری و نوازشریف کی کرپشن کے سامنے آفتاب شیرپاؤ کی کرپشن کیا ہوگی؟ مگر برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟۔ پی ٹی ایم (PTM) والوں سے کہا جائے کہ بیچارے پٹھانوں پر توبعض پٹھان خوش ہونگے کہ واقعی میڈیا صرف آفتاب شیرپاؤ کا نام کیوں لیتا ہے؟ بڑے بڑے مگر مچھ تو نوازشریف، زرداری اور جنرل کیانی ہیں؟۔ پھر جب ان سے کہا جائے کہ آفتاب شیرپاؤ کو نہ صرف چھوڑ دیا گیا بلکہ وزیرداخلہ بھی بنادیا گیا تو یہ برق تو نہیں گری بلکہ دوسروں کے نصیب کی بارش انکی چھت پر برس گئی توبہت ڈھیلے پڑجائیںگے البتہ ڈھیٹ بن کر کہیں گے کہ دوسرے کرپٹ لوگ ہمیشہ حکومت کرتے رہے ہیں تو آفتاب شیر پاؤ کا تو بھائی حیات شیر پاؤبھی شہید ہوا تھا۔

یہ ابھی بہت اچھی فضاء ہے کہ عوام الناس اور سیاسی کارکنوں میں بہت بڑا فاصلہ ہے۔ سیاسی کارکن اور کرائے کے گلوبٹوں میں بھی بڑا فرق ہوتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نوازشریف نے پارلیمنٹ میں اپنے اثاثوں سے متعلق تحریرپڑھ کر تقریر کرتے ہوئے جھوٹ کی تاریخ کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ پھر قطری خط لکھ کر اور اس سے انکار کرکے اپنے تابوت میں بھی آخری کیل ٹھونک دی۔ جب پی ٹی ایم (PTM) کو چھوڑ کر گجرانوالہ میںپی ڈی ایم (PDM)کی بہت بڑی اور اُونچی چھت پر چڑھ گئے تو آرمی چیف اورISI چیف کے خلاف تقریر کرکے بہت بڑی چھلانگ بھی لگادی۔ اگر کچھ عرصہ پہلے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع میں نوازشریف نے مکمل حمایت نہ کی ہوتی تو وہ بہت بڑے تیراک لگتے کہ کسی طوفان سے بچنے کیلئے چھت پر نہیں چڑھے بلکہ بہت بڑے مینار سے چھلانگ لگاکر بہت اچھے سیاسی کرتب دکھانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

جب لاہور میں ن لیگ نے جلسے کی میزبانی کی تو محمود خان اچکزئی اور اختر مینگل نے پی ٹی ایم (PTM)کی کمی پوری کردی۔ انگریزوں سے پاک فوج تک کے سفر کو عوام کے سامنے رکھا لیکن اس جلسے کو باہر سے آئی ہوئی عوام نے رونق بخشی لیکن لاہوریوں نے گریز کیا۔ جب مریم نواز نے مہنگااور گرم کوٹ پہن کر بھی کہا تھا کہ میری قلفی جم گئی ہے تو پھٹے پرانے کپڑے والے پنجابی اس سرکس کے دیکھنے کو کیوں نکلتے جن کیلئے مریم نواز کے علاوہ کوئی پرکشش شخصیت نہیں تھی اور وہ اس کو پہلے ہی گلی گلی کوچہ کوچہ دیکھ چکے تھے۔ عوام اسلئے نہیں نکلی تھی کہ انہوں نے یہ دیکھ لیا تھا کہ کل شہبازشریف جس زرداری کاپیٹ چاک کرکے سڑکوں پر گھسیٹنے کے بعد چوکوں پر لٹکانے کی بات کرتا تھا اور ان طالبان کا حامی تھا جو چوکوں پر ہی لوگوں کو لٹکاتے تھے تو پھر وہ منظر پنجاب میں بھی دیکھنے کو مل سکتا تھا۔ جب اس کے برعکس مریم اور بلاول بہن بھائی بن کر مخاطب کررہے تھے تو شہباشریف اور حمزہ شہباز نے اپنے کان اور چوتڑ کھجانا شروع کردئیے تھے کہ لاہوریوں کو ہم کیا منہ دکھائیںگے؟۔ نوازشریف اور مریم نواز تو سیاست نہیں عقل سے بھی پیدل ہیں۔ ایک دن مینار پر چڑھتے ہیں اور دوسرے دن مینار سے زیادہ گہری کھائی میں چھپ رہے ہوتے ہیں۔ ایک بیانیہ یہ بتاتے ہیں کہ عمران خان چھوٹا آدمی ہے ، ہماری بڑوں سے بات ہوگی اور اب بیانیہ میں اسٹیبلشمنٹ کو چھوڑ کر صرف عمران خان کو بڑابنایا ہوا ہے۔ عوام اس جھوٹ لوٹ کھسوٹ سے تنگ ہے۔ یہ تضادات کی انتہاؤں میں اپنی ٹانگیں کھول کر جمناسٹک کی کونسی حد تک اپنے کرتب دکھا پائیں گے؟ پھٹنا نہیں تو کوئی شرم حیاء وغیرت بھی ہوتی ہے۔

مولانا فضل الرحمن قادیانی ڈاکٹر مبشر سے دل کا آپریشن کروائیں اور مولانا عبدالغفور حیدری کہے کہ جب ن لیگ کیساتھ اقتدار میں شامل تھے تو قادیانیوں کے حق میں قومی اسمبلی سے بل پاس ہوچکا تھا۔ سینیٹ سے پاس ہوتا تو مجھے چیئرمین کی جگہ اس پر دستخط کرنے پڑتے۔ شیخ رشید اپوزیشن میں تھا بلکہ جب اقتدار میں آیا تب بھی کہتا تھا کہ مولویوں نے قادیانیوں کی حمایت میں سازش میں حصہ لیا تھا اور دو مرتبہ مجھے مار نے کو دوڑے تھے۔ اب وزیرداخلہ کی پوزیشن پر آگئے تو سیاسی مفاہمت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ مولوی اتنے سادہ اور پاگل نہیں ہیں جتنے دِکھتے ہیں۔ جب مولاناغفورحیدری نے کہا کہ ہم اسمبلیوں میں اپنے فرائض سے غافل نہیں ہیں اور پھر اپنا ماجراء سنایا کہ وہ بال بال بچ گئے ورنہ تو ختم نبوت کیخلاف سازش میں نمایاں دستخط کرنے پر مجبور ہوجاتے تو اپنی نمایاں کارکردگی بھی دکھادی۔ مولانا فضل الرحمن کو ایسا کم عقل اور فرمانبردار آدمی چاہیے تھا جس طرح مولانا غفور حیدری ہیں لیکن وہی اس کی کشتی میں سوراخ بھی کرچکے ہیں۔ جب لوگ اٹھیںگے تو جمعیت علماء اسلام منہ چھپاتی پھرے گی۔

آرمی چیف جنرل باجوہ کو ایک خوف یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر جنرل ضیاء الحق کی طرح ان پر قادیانی کے فتوے لگادئیے گئے تو مشکل میں پڑجائیںگے۔ اس وجہ سے نوازشریف نے ان کو ترجیح دی تھی کہ کسی وقت میں جنرل باجوہ پر الزام لگاکر کنارے لگانے میں بھی آسانی ہوسکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی حیثیت تو پی ڈی ایم (PDM)میں ڈھول بجانے والے ہمارے کانیگرم شہر جنوبی وزیرستان کے اس میراثی کی طرح ہے جس کی آواز پر قوم نکلتی ہے اور قوم نے اس کو جرنیل کا نام دیا ہے لیکن اپنی اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر میلے کا سماں ختم ہوجائے تو مولانا فضل الرحمن کی بھی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی لیکن ن لیگ نے ان کو ساتھ رکھ لیا تو یہ بھی اس کی بڑی کامیابی ہوگی۔ لاہور میں بھی ن لیگ کا رویہ دیکھ لیا تھا اور جب پیپلزپارٹی نے ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو ن لیگ نے بھی کیا اور جب پیپلزپارٹی نے استعفیٰ نہ دینے کا اعلان کیا تو ن لیگ نے بھی کہا کہ اگر پیپلزپارٹی نے استعفیٰ نہیں دیا تو ہم بھی نہیں دینگے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ استعفوں کے بغیر لانگ مارچ کا کوئی فائدہ نہیں۔ سب جماعتوں کا گراف بہت گرچکا ہے۔ عمران خان نے نوازشریف و مریم نواز کو جیل سے آزاد کردیا تو اب سرکس کے بندر پرکیا ڈگڈگی بجاتے رہیںگے؟۔ انقلاب آیا چاہتا ہے۔ ن لیگ نے پی ڈی ایم (PDM)کی مشاورت کے بغیر رمضان کے بعد لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے اور استعفے بھی نہیں دینے ہیں لیکن یہ سب سیاسی ڈرامے بازیاں ہیں۔

NAWISHTA E DIWAR April Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummatorbit

مولانا فضل الرحمن نے پتہ نہیں ن لیگ میں کونسی لیلیٰ دیکھی ہے جس نے دل مجنون بنادیا ہے

سیاست کا رہنمادماغ اور عشق کا بادشاہ دل ہوتا ہے، مولانا فضل الرحمن نے ہمیشہ دماغ سے سیاست کی ہے لیکن اب پتہ نہیں ن لیگ میں کونسی لیلیٰ دیکھی ہے جس نے مولانا فضل الرحمن کی سیاست کو دماغ سے نکال کر دل کا مجنون بنایا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلان

جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینے کے بعد نوازشریف کے دل ودماغ پر کونسا جادو چڑھا کہ اچانک پی ڈی ایم (PDM) گوجرانوالہ کے جلسے میں بھونکنا شروع کیا، یہ آدمی ہے یا پاجا مہ؟ اب رُخ مڑ گیا!

صحافیوں کا مضبوط ٹولہ ن لیگ اور ش لیگ کی کمزوریوں پر مسلسل پردہ ڈال کر مجرمامہ کردار ادا کررہا ہے،شہباز شریف نے تازہ بیان میں نوازشریف اور مریم نوازکے منہ پر زوردارطمانچہ مارا

درست ہے کہ ” بہترین ڈکٹیٹر شپ سے بدترین جمہوریت بہتر ہے”۔ قبائلی علاقہ میںفوجی ڈکٹیٹر شپ کے مقابلے میں سیٹل علاقہ میں جمہوریت بہت بڑی غنیمت ہے۔سیاستدان کے بچوں کو بھی فوج میں بھرتی کرنا ہوگا،تاکہ وہ بھی دہشتگردی کے مقابلے میں پاک فوج کیساتھ شانہ بشانہ کوئی قربانی دے سکیں۔ بیوروکریٹ اور صحافی کے بچوں کو بھی میدان میں لانا ہوگا تاکہ ڈنگ اورڈینگ مارنے والے منافقوں کے چہروں سے بالکل اچھی طرح نقاب اُترجائے۔
آصف زرداری نے کہا کہ نوازشریف کو وطن آکرپی ڈی ایم (PDM) کی تحریک میں عملی طور پر شریک ہونا چاہیے تو مریم نواز باجی نے کہا کہ میرے ابا نوازشریف نے سب سے زیادہ جیل کاٹی ہے، جس نے بات کرنی ہے مجھ سے کرے۔ حالانکہ آصف زرداری ، مولانا فضل الرحمن وغیرہ نے نوازشریف سے زیادہ جیل کاٹی ہے۔مریم باجی نے نانی بننے کے بعد سیاست میں قدم رکھا جبکہ نوازشریف نے ساری زندگی ڈکٹیٹر شپ کی خدمت میں گزاردی۔ اب تو اس کا حافظہ اتنا کمزور ہے کہ (90)کی دہائی کی سیاست ختم ہونے کی بات کرنے والے نواز شریف کو (2010) کی دہائی والی سیاست بھی یاد نہ رہی ، جب سعودیہ سے جلاوطنی کے بعد سید یوسف رضاگیلانی کو وزارت عظمیٰ سے نکالنے میں کردار ادا کیا اور زرداری کی لاش کو بازار میں گھسیٹنے اور چوک پر لٹکانے کی بات ہوتی تھی۔ اگر مولانا فضل الرحمن اور مولانا غفور حیدری ن لیگ کے دودھ پیتے بچے بننے کے بجائے بالغ حق رائے دہی کا استعمال کرتے کہ زرداری نے درست کہا ہے کہ نوازشریف، اسکے بیٹوں اور اسحاق ڈار کو وطن واپس آکر حکومت کی گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور لگانا چاہیے ، استعفوں سے زیادہ موثر جھٹکا یہ ثابت ہوگا تو اس سے پی ڈی ایم (PDM)کی قیادت میں مولانا کا پلہ بھاری ہوجانا تھا۔
مولانا فضل الرحمن جب تنِ تنہاء وزیراعظم عمران سے استعفیٰ لینے گیا تھا تو بھی ساری ڈیڈ لائن عبور کرکے واپس آگیا تھا اور اس وقت محمود خان اچکزئی نے بہت کہا کہ فیصل مسجد تک چلو ،مگر مولانا نے اپنے کارکنوں کو قمیض کی پچھاڑی جھاڑ کر واپس ہونے کا حکم دیا تھا، پیپلزپارٹی نے اس وقت بھی کہا تھا کہ لانگ مارچ کی ہم حمایت کرتے ہیں لیکن دھرنے میں ساتھ نہیں۔ مریم باجی کیلئے ایک کنٹینر کا اسٹیج تیار تھا مگر وہاں نہیں پہنچی تھی۔ اس وقت پیپلزپارٹی کا کردار ن لیگ سے بہتر تھا ،اسلئے کہ نوازشریف ، مریم باجی اور شہباز شریف نے لاہور میں مولانا کو ملاقات کا وقت تک بھی نہ دیا اور جب شہباز شریف بڑی مشکلوں سے اسٹیج پر خطاب کرنے آگیا تو مولانا ہٹ گئے تھے اور شہبازشریف نے اسی اسٹیج سے پاک فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جتنی سپورٹ عمران خان کو ہے اس کی دس فیصد بھی ہمیں مل جائے تو بہتر نتائج دکھاؤں گا۔ محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن پہلے نواز و شہباز کوایک کشتی کا سوار بنائیں۔ اگر نوازشریف نے انقلابی ناؤ میں قدم رکھا ہے اور شہباز شریف نے اپنا قدم انقلابی کشتی سے باہر رکھا ہے تو عوام اور کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے کہ ن لیگ کا ایک چوتڑ ننگا اور دوسرا ڈھکا ہوا ہے۔ زر خریدمیڈیا کے صحافی سمندر کی طرف سے کیمرہ لگاکر دکھا رہے ہیں کہ نوازشریف نے انقلاب کیلئے ازار بند سے پانچے تک ایک سائڈ کی شلوار اتار دی ہے لیکن عوام کو شہبازشریف کا سائڈ نظر آرہاہے جس نے پوری ٹانگ اوپر سے نیچے تک چوتڑ سمیت ابھی تک ڈھک کے رکھی ہے۔
شہباز شریف نے حال میں بیان دیا کہ میں (70) سال کا بوڑھا ہوں،پہلے بھی علاج کیلئے بیرون ملک گیا اور واپس آگیا، حمزہ شہباز کی طرح مجھے ضمانت پر رہا کیا جائے۔ شہباز شریف نے نوازشریف کے منہ پر طمانچہ مارا ہے کہ بیماری کا جھوٹا بہانہ کرکے واپسی سے مکر جانے والا بڈھا دغا باز نہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کے علاوہ پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم (PDM)کی تمام جماعتیں ن لیگ کی دورنگی ختم کرکے یا تو پوری طرح ننگا کریں یا پھر پوری طرح سے ڈھک دیں۔ ن لیگپی ڈی ایم (PDM)کا دھڑ اوردل ہے اور مولانا اس کا سراور دماغ ہے۔ پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتیں اس کے دو پر ہیں اور مولانا اویس نورانی اس کی دم ہے ۔ جب دماغ دل کے تابع ہوجائے تو عاشقی ہوسکتی ہے سیاست نہیں۔ سیاست میں دل کو دماغ کے تابع کرنا پڑتا ہے جس کا پی ڈی ایم (PDM)کی سیاست میں فقدان ہے۔مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام نے ہمیشہ اپنے دماغ سے بہترین سیاست کھیلی ہے لیکن اب ن لیگ میں پتہ نہیں کہ کس لیلیٰ کی چمک دیکھی ہے جس نے جمعیت کو مجنوں بناکر رکھ دیا ہے؟۔ اس کو ولایتی بلی کے خوبصورت ملائم جسم میں مختلف رنگوں کا بدنما آئینہ بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ن لیگ اور ش لیگ ایک ہیں جس کی واضح تصویر حمزہ شہباز و مریم باجی کا آپس میں بغل گیر ہونا تھا جس سے آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔ عاشق نامراد ہمیشہ اندھا اور عقل سے پیدل ہوتا ہے۔ شعراء کی طرح سیاسی کارکن بھی ہر وادی میں مارے مارے پھرتے ہوں تو سیاست پر اس سے زیادہ زوال نہیں آسکتا ۔
صحافیوں کا بہت بڑا اور مؤثر ٹولہ ن لیگ کو بالکل ناجائز سپورٹ کرتا ہے۔ سوشل میڈیا میں ن لیگ کے صحافی سید عمران شفقت نے یہ انکشاف کیاتھا کہ ”نوازشریف نے عمران خان کی حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا خفیہ معاہدہ کرلیا ہے، اسٹیبلیشمنٹ اور عمران خان کیخلاف سیاست کی حد تک تھوڑی بہت ڈرامہ بازی چلتی رہے گی۔ پنجاب میں پرویز الٰہی کیساتھ مل کر عثمان بزدار کی حکومت گرانا ن لیگ کے مفاد میں نہیں ہے”۔صحافی شاکر سولنگی نے بھی اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ ”آئندہ نوازشریف نے جنرل باجوہ اورآئی ایس آئی کا نام نہیں لیناہے”۔ مریم نواز نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنی توپوں کا رُخ پاک فوج سے پیپلزپارٹی کی طرف موڑ دیا ۔ یوسف گیلانی اور حفیظ شیخ میں نمبروں کا واضح فرق تھا۔اگر ن لیگ کو یقین ہوتا کہ حفیظ شیخ ہا رجائیگا تو پھر اسی کا ساتھ دینا تھا۔ استعفیٰ دینے کا فیصلہ سینیٹ الیکشن روکنے کیلئے ہوا تھا اور اس کیلئے پیپلزپارٹی نے سندھ حکومت کی قربانی دینے کا فیصلہ کیا مگرجب پتہ چلا کہ سینیٹ الیکشن نہیں رُک سکتا تو استعفیٰ کا آپشن متفقہ طور پر چھوڑ دیا۔ یہ کریڈٹ پیپلزپارٹی کے جمہوری دماغ کو جاتا ہے۔ آرمی چیف کیلئے قانون سازی کی بات آئی تو بھی پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے آرمی چیف کو توسیع دینے کا فیصلہ کیا ۔جب پی ڈی ایم (PDM) کے پلیٹ فارم سے ن لیگ نے گوجرانوالہ میں پہلا جلسہ کیا تو ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کیلئے پی ٹی ایم (PTM) کو نہیں بلایا جو پی ڈی ایم (PDM) کا حصہ تھی اور دوسری طرف جنرل باجوہ کے خلاف بھونکنا شروع کردیاجس کو توسیع دئیے ہوئے کچھ عرصہ بھی نہیں گزرا تھا۔ جیو ٹی وی اور ن لیگی صحافیوں میں ہمت ہوتی تو نوازشریف کاکہتے کہ یہ آدمی ہے یا پاجامہ؟۔ مولانا فضل الرحمن نے ن لیگ کو خوش کرنے کیلئے پی ٹی ایم (PTM) کو پی ڈی ایم (PDM) سے فارغ کیا اگر پنجاب میں عثمان بزدار کی جگہ پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنادیا جاتا تو مرکز میں بھی عمران خان کی حکومت فارغ ہوجاتی لیکن مولانا فضل الرحمن نے ن لیگ کی وجہ سے پرویزالٰہی اور پیپلزپارٹی دونوں سے پھڈہ کیا۔ اگر دھرنے سے حکومت ختم ہوگئی تو پھر آئندہ کوئی بھی حکومت نہیں کرسکے گا۔ پیپلزپارٹی نے آپشن کی حد تک استعفوں کا درست معاملہ رکھا ہے اور کوئی صورتحال ایسی ہوبھی جائے کہ حکومت کمزور ہو اور استعفیٰ سے حکومت چلی جائے تو یہ غیر قانونی اقدام نہ ہوگا۔ پی ڈی ایم (PDM) نے سیاسی انتخاب کیا ہوتاتو اے این پی (ANP) بلوچستان میں حکومت کا حصہ نہ ہوتی اور مولانا عطاء الرحمن بھی اے این پی (ANP) کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کی نوشہرہ میں حمایت نہ کرتے۔ پی ڈی ایم (PDM) نے سید یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ کا الیکشن لڑنے کیلئے نامزد کردیا تو جمعیت علماء اسلام کے مولانا غفور حیدری کو تحریک انصاف نے ڈپٹی چیئرمین کی پیشکش کردی اور پھرجمعیت نے از خود اپوزیشن کی طرف سے ڈپٹی چیئرمین کا الیکشن لڑنے کا اعلان کیا جس کی بعد میں پی ڈی ایم (PDM) نے حمایت کردی لیکن لگتا ہے کہ ن لیگ نے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں کچھ نہ کچھ ووٹ دئیے اور کچھ نہ کچھ ضائع کئے مگر مولانا عبدالغفور حیدری کو کچھ نہ کچھ ووٹ بھی نہیں دئیے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اپنے زخم چاٹنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو پی ڈی ایم (PDM) میں مریم نواز کی طرف جھکاؤ اورجانبداری بھی غلط ہے۔
مریم نواز کی پیشی کے موقع پر مولانا فضل الرحمن کی طرف سے کارکنوں کے پیش ہونے کا اعلان پی ڈی ایم (PDM)کی مشاورت کے بغیر غلط تھا، ن لیگ و پیپلزپارٹی نے سیاسی مخاصمت کے عروج کے بعد مفاہمت کا راستہ اپناکر دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے۔اگر اپوزیشن کے نمائندے مشترکہ لائحہ عمل کا فیصلہ کریں کہ وہ کاشف عباسی کے شو میں نہیں جائیں گے، جہاں وہ دوسروں کو اپنی بات نہیں کرنے دیتا ہے بلکہ اپنی باتیں ٹھونستا ہے تو زرد صحافت کو عبرتناک سبق مل جائیگا اور کاشف عباسی کی بیگم مہر بخاری بھی اپنے شوہر کے نامناسب روئیے پر افسوس کا اظہار کرنے میں دیر نہیں لگائیں گی۔ اچھی صحافت کا فروغ ہماری قوم کی تقدیر بدلے گا اور بے غیرت اور بے ضمیر قسم کے صحافیوں کو مسترد کرنا بہت ضروری ہے۔
ملک کے اچھے صحافی اور مخلص سیاسی کارکن ، رہنما اور قائدین سب سے بڑا اثاثہ ہیں لیکن جب تک ایک اچھے ماحول کی فضاء نہیں بنے گی ان جوہرِ نایاب قسم کے لوگوں کو عوام سرِ عام دیکھنے کے بجائے لفافوں میں ملفوف موتیوں کی طرح پہچاننے سے محروم رہے گی۔ جب اچھے مواقع پیدا ہوجائیںگے تو پھر پتہ چل جائیگا کہ یہ وہ چھپے ہوئے موتی تھے جو عوام کی نظروں سے پوشیدہ رہے ہیں جن کی مثال پوری دنیا کے کسی ملک میں بھی نہیں ہے۔ جب بولنے کیلئے کچھ نہیں ملتا ہو تو پھر رؤف کلاسرا کو بھی بینظیر بھٹو کے قتل میں زرداری اور رحمن ملک کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے اور یہ نظروں سے پوشیدہ ہوجاتا ہے کہ ایان علی کو پکڑوانے والے اہلکار مروائے جاسکتے تھے تو بینظیر کے قاتلوں میں طاقتور حلقوں کو شامل کرنے کے کیا نتائج نکل سکتے تھے؟۔اب گھر کو ہرسطح پر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر پی ڈی ایم (PDM) کے یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ اور غفور حیدری اسکے ڈپٹی بن جاتے تو سینیٹ میںاپوزیشن لیڈر ن لیگ اورپی ڈی ایم (PDM) کا کیسے بن سکتا تھا؟۔ پھر تو تحریک انصاف اپوزیشن میں ہوتی؟۔ ن لیگ نے سینیٹ میں عمران خان کی مدد سے اپوزیشن لیڈر بن کر مرکز اور پنجاب میں تحریک انصاف کو استحکام بخشنے کا پروگرام بنایا تھا؟ حمزہ شہباز وزیراعلیٰ اور شہبازشریف وزیراعظم ہوں پھر بھی مریم بی بی اور نوازشریف کو قبول نہیں اسلئے کہ ان کو آریا پار میں صرف اپناہی کٹھ پتلی بننا قبول ہے یا پھر عمران خان۔ اپنا بھائی اورکزن بھی قبول نہیں ہے۔

NAWISHTA E DIWAR April Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummatorbit

گھر کو ٹھیک کرنے کی ضرورت آرمی چیف کے بیان کوغلط انداز دیا جارہا ہے لیکن درست بات بالکل کچھ اور ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

پاکستان اسلام کی بنیاد پر بنا اور آئین میں قرآن وسنت کی بالادستی ہے لیکن ہمارے معاشرتی، معاشی، ریاستی اور سیاسی نظام کاقرآن وسنت سے کوئی دور دور کا بھی تعلق نہیں۔ قرآن کے تراجم میں قرآن کے برعکس معاملات پیش ہیں۔ علماء اور مذہبی جماعتوں کو اسلام سے نہیں اپنا مفادپیارا ہے۔ مذہبی رنگ وروپ میں شیطان کی جھلکیاں نمایاں ہیں۔ جن سیاسی جماعتوں کو ریاست سپورٹ کرتی تھی تو ان کی تائید درباری علماء ومشائخ اور جاگیردار طبقات کرتے تھے۔ کانگریس کا منشور یہ تھا کہ انگریز سرکار کی طرف سے خانوں اور نوابوں کو دی ہوئی جائیدادآزادی کے بعد بحقِ سرکار ضبط ہونگی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے منشور میں یہ نہیں تھا۔ آزادی کے متوالے قائدین ، رہنما اور کارکن بڑی تعداد میں کانگریس کے ساتھی بن گئے اور غدار بنگالی نواب میر جعفر کے متوالوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔ بھارت کے بانی مہاتما گاندھی نے لباس و اطوار میں عوامی رنگ وروپ دھارلیا لیکن قائداعظم محمد علی جناح اور مسلم لیگیوں نے ڈرائنگ روم کی سیاست کرتے ہوئے انگریزی لباس کو ترجیح دی تھی۔
جب مشرقی اور مغربی پاکستان میں سول بیوروکریسی کے ملازم میر جعفر کے پوتے سکندر مرزا نے اقتدارکی صدارت پر قبضہ کیا جس کا تعلق بنگال سے تھا تو آرمی چیف صدر ایوب خان نے اس کے چوتڑ پر لات مار کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ قائداعظم محمد علی جناح اور نواب زادہ لیاقت علی خان نے جمہوریت کی کوئی داغ بیل نہیں ڈالی تھی۔ جب برطانیہ کی انگریزسرکار نے پاکستان کو آزاد کردیا تو عوام کی تقدیر کے فیصلے سول وملٹری ملازمین اور انگریزوں کے ایجنٹ نواب،سردار اور پیروں فقیروں کے ہاتھ میں آگئے۔ پہلے مارشل لاء چیف صدر ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کی بنیاد ڈالی مگردھاندلی اور غلط الزام کے ذریعے فاطمہ جناح کو شکست دی۔ پھر فیئر الیکشن میں شیخ مجیب نے واضح اکثریت حاصل کرلی لیکن مارشل لاء کے پالتو ذوالفقار علی بھٹو نے ادھر ہم اُدھر تم کی پالیسی اپنائی تھی۔
سول وملٹری ملازمین اور سیاستدانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بنگلہ دیش الگ ہوا اور ہمیں تاریخ میں عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تو پاکستان کے ادھورے مغربی حصے میں شکستہ دلوں کیساتھ سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو نے اپوزیشن جماعتوں کیساتھ مل کر (1973) کے آئین کی بنیاد ڈال دی۔ پھر (1977) میں ڈیڈی جنرل ایوب کے نقش قدم پر چل کر ذوالفقار علی بھٹو نے آخری حد تک دھاندلی اور ڈکٹیٹر شپ کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ مخالف کو کاغذاتِ نامزدگی تک داخل نہیں کرانے دئیے ،بلکہ کراچی سے لاڑکانہ میں آئے ہوئے جماعت اسلامی کے امیدوار کو اغواء کرلیا۔ بلاول بھٹو حقائق سے آگاہی رکھتا ،یا اس میں ضمیرہوتا تو اپنے ڈی این اے (DNA) پر فخر نہیں کرسکتا تھا اسلئے کہ ننھیالی و ددھیالی تاریخ کوئی سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہرگز بھی نہیں ہے۔
جنرل ضیاء الحق نے نوازشریف اور جماعت اسلامی کی جس طرح آبیاری کی تھی ،اس کی ایک جھلک اسلامی جمہوری اتحاد میں جنرل ضیاء الحق کے بعد بھی عدالتی فیصلے کی شکل میں موجود ہے مگراب مفادپرست لوٹوں نے جماعتیںبدل بدل کر جماعتوں کی نظریاتی ساکھ بھی ختم کردی ہے جن کی قیادتوں کا تو پہلے سے مزا نہیں تھا لیکن مخلص مریدوں کی مانندسیاسی کارکنوں کو بھی مخمصے میں ڈال دیا ہے اور اب بھانڈ فیاض الحسن چوہان اور مراد سعید سیاسی رہنما بن گئے ۔ ایم کیو ایم (MQM) قائد الطاف حسین کو ٹی وی ٹاک شو میں ن لیگی رہنما زعیم قادری نے بھینس کہا تو جواب میں مصطفی کمال نے کہا تھا کہ تم نے عورتوں کو استعمال کرکے سعودیہ کا ریلیف حاصل کیا تھا۔ پھر وہی الزام مراد سعید پر بہنوں کے استعمال کے حوالے سے میاں جاویدلطیف نے بنی گالہ پر لگایا۔ حبیب جالب کے اشعار ابھی بھی گونج رہے ہیں کہ” لاڑکانہ چلو ورنہ تھانے چلو”۔سب اس حمام میں ننگے ہیں۔
آرمی چیف کی بات کو وسیع تناظر میں لینے کی ضرورت ہے ۔ سول وملٹری بیوروکریسی، مذہبی وسیاسی جماعتوں ،اپنے تعلیمی ، معاشی، معاشرتی نظام اور تہذیب وتمدن کا بیڑہ غرق ہے اورپھر نہ صرف ایک دوسرے کی پینٹ، شلواراور تہبند کھینچ رہے ہیں بلکہ الزامات کا سارا ملبہ بیرونی ایجنڈے کے سر ڈالتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہماری صحافت اور سیاست بڑی منافقت کا شکار ہے کیونکہ مریم نواز کا سینیٹ اپوزیشن لیڈر کیلئے اس قدر مشتعل ہونا اور پسِ پردہ حقائق مثال ہیں۔

NAWISHTA E DIWAR April Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummatorbit

پاکستان کے اہل اقتدار کوخوش فہمی اور خوابِ غفلت سے بیدار ہوکر اسلامی مزارعت کا آغاز کرنا چاہیے

اگر برصغیرپاک وہند کے علماء ومفتیان نے قرآن وسنت میں موجود طلاق وخلع اور حلالہ کی لعنت کے بغیر رجوع کی طرف توجہ نہیں دی تو ہندوستانی فوج پاکستان کو فتح کرکے غزوہ ہند کا خواب پورا کرکے اسلام کوبھی نافذ کرسکتی ہے؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

پنجاب کے دل سے جہنمیوں کو نکالنے اور دریائے اٹک کو خون سے بھرنے کی شاہ نعمت اللہ ولی کی پیشگوئی افغانی،ایرانی اورہندو برہمن پوری کرینگے یامذہبی طبقے کو منافقت چھوڑنا ہوگی؟

پاکستان کے اہل اقتدار کوخوش فہمی اور خوابِ غفلت سے بیدار ہوکر اسلامی مزارعت کا آغاز کرنا چاہیے اور قرآن وسنت کے مسائل نافذ کرکے پاکستان کوپوری دنیا کیلئے پاکستان بنانا چاہیے

امریکی ٹرمپ نے جاتے جاتے فساد پھیلانا چاہا تھا مگر امریکی قوم بچ گئی۔ نوازشریف کے گلوبٹ ،عمران خان کے غنڈے، جماعت اسلامی کے ٹھاہ اور مولانا فضل الرحمن کے طالبان صف بندی سے ریاست کو بلیک میل کرسکتے ہیں، عربی شاعر نے کہاکہ من لایظلم الناس یظلم ”جو لوگوں پر ظلم نہیں کرتا ،اس پر ظلم ہوتا ہے”۔ آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے کہا کہ میں تجھے قتل کردوں گا تو ہابیل نے کہا کہ میں بھی قدرت رکھتا ہوں مگر میں اپنے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا تو قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا۔ اگر ہابیل کہتے کہ میں تجھے اپنے قتل سے پہلے جہنم رسید کردوں گا تو قابیل کو قتل کرنے کی ہمت بہت سوچ سمجھ کر مشکل سے ہوتی۔
یہود نے تاریخ کے ہرموڑ پر مظالم کا بازار گرم کیا پھر ظلم کا شکار بھی بنے۔ نصاریٰ نے ہابیل کی طرح عیسیٰ علیہ السلام کے دین میں مظالم کو برداشت کرنے کا درس دیا لیکن پھر اس پر قائم نہیں رہ سکے۔ اسلام نے اعتدال کا درس دیا۔ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرنے کا رسول اللہۖ نے فرمایا۔ صحابہ کرام نے پوچھا کہ مظلوم کی مدد کرنے کا ہمیں علم ہے لیکن ظالم کی کس طرح سے مدد کریں؟۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ظالم کو ظلم سے روکنا ہی اسکی مدد کرنا ہے۔ سیاستدان اور فوج کے متحارب صحافیوں نے اپنے ظالم مؤکلوں کی وکالت جس طرح سے کی یہ انکی مدد نہیں بلکہ ان کو مزید اندھیرنگری کی طرف دھکیل دیا ہے۔
رسول ۖ نے فرمایاکہ : خوشامد کرنیوالے کے منہ میںمٹی ڈال دو۔ ہمارا بڑا المیہ ہے کہ کرایہ کے خوشامدیوں نے عوامی قیادت کو بھی فرعونیت کا شکار کیا۔ جب اپنے اوپر تنقید کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں تو اصلاح کی اُمید نہیں ہوسکتی ہے۔ رسول ۖ سے غزوہ بدرکے قیدیوں پر فدیہ لینے، غزوہ اُحد شہر سے باہر لڑنے، صلح حدیبیہ کے معاملے اور سورۂ مجادلہ میں ظہارپر اختلاف کیا گیااور اللہ نے ہرمعاملے میںرسول ۖ کو وحی سے رہنمائی فراہم کی تھی۔ اُسوۂ رسولۖ میں جمہوریت اور حریت کی روح انسانیت کیلئے قابلِ فخر اعزاز ہے۔حدیث قرطاس میں حضرت عمر کا نبیۖ سے یہ عرض کردینا کہ ہمارے لئے وصیت کی ضرورت نہیں بلکہ اللہ کی کتاب کافی ہے اُسوۂ حسنہ کا روشن پہلو ہے۔
ذوالخویصرہ کاکہنا کہ آپۖ نے انصاف نہیں کیا اور نبیۖ کافرمانا کہ اگر میں انصاف نہیں کرتا تو کون کریگا؟۔ اُسوۂ حسنہ کا روشن ترین پہلو ہے۔ اپنے ساتھیوں اور خیر خواہوں کے علاوہ دشمنوں کو بھی اختلافِ رائے کا حق دینا اُسوۂ حسنہ کا سب سے زیادہ وہ روشن ترین پہلو ہے جس سے دنیا میں اسلامی اورانسانی انقلاب کی توقع ہے۔ مشہور ہے کہ ہندو برہمن اورپٹھان بنی اسرائیلی قبیلے ہیں۔پٹھانوں نے اسلام کو قبول کیا لیکن پٹھان اور سکھ دو ایسی قومیں ہیں جو پہلے قدم اٹھاتے ہیں پھر سوچتے ہیں ۔ بنی اسرائیل میں پٹھان قبیلہ نے اجتماعی طور پر اسلام قبول کیا لیکن پھر پتہ چلا کہ اسلام میں غیرت کے نام پر قتل نہیں ہے بلکہ لعان کرنے کا حکم ہے اور یہ پٹھانوں نے قبول نہیں کیا اسلئے کہا جاتا ہے کہ پشتو ن کلچر آدھا کفر ہے اور یہی معاملہ بنی اسرائیل کا بھی تھا ،اللہ نے فرمایا: أفتؤمنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض الکتاب ”کیا تم بعض کتاب پر ایمان لاتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو”۔ برصغیرپر انگریز کا قبضہ ہوا تب بھی تعزیرات ہند میں عوام کو غیرت کے نام پر قتل کی اجازت دی گئی۔ برصغیر میں برہمن یہود کی طرح نسلی امتیاز کا شکار تھے ،وہ خود کو ابراہیمی سمجھ کر دوسروں کو اچھوت سمجھتے تھے۔ اچھوت نے نسلی امتیاز کی وجہ سے اسلام قبول کیا۔ مذہبی طبقے نے یہ مسئلہ بتایا کہ تین طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر رجوع نہیں تو اچھوت نسل کے لوگوں نے حلالہ کی لعنت کو عملی جامہ پہنانے میں زیادہ شرم محسوس نہیں کی ۔ پٹھانوں کو بے غیرتی میں اپنا مفاد لگا تو انہوں نے بھی حلالہ کی لعنت کو چوری چھپے قبول کرلیا کہ ساری زندگی بچے خوار ہونے یا بیوی چھوٹ جانے سے اچھوت کی طرح بے غیرت بننا بھی زیادہ بڑا مسئلہ نہیں۔ اچھوت نسل کے لوگ بھی بڑے پیمانے پر مذہبی، سیاسی ، سول وملٹری بیوروکریسی کی لیڈر شپ میں موجود ہیں۔
پاکستان اپنے بنیادی نظرئیے اورجمہوری، نسلی، انسانی اور اخلاقی بنیادوں پراس قابل ہے کہ سندھی، بلوچ، پشتون ، پنجابی ، سرائیکی،کشمیری اور ہندوستانی مہاجر یہاں اسلام کی حقیقی تعلیمات کو عملی جامہ پہنائیں۔ غیرت کے نام پر جس اسلام کو قبول کرنے سے انکار کیا گیا ،اب حلالہ کی بے غیرتی سے جان نہ چھڑائی گئی تو ایرانی ، افغانی اور ہندوستانی دریائے سندھ کو خون سے بھرسکتے ہیں۔ دنیا کی طاقتیں پاکستان کو مٹانے میں بڑی دلچسپی رکھتی ہیں۔ ہندوستان کے برہمن بھی حلالہ کی بے غیرتی کو سمجھ چکے ہیں ۔ لتا حیا جیسی شاعرہ مسلمانوں کو تحفظ دیتی ہیں اوراچھوت ہندو بھارت میں مسلمانوں پر مظالم ڈھاتے ہیں۔ ہماری فوج کو اپنے ہاں سیاستدانوں کی مخالفت اور سرپرستی سے فرصت نہیں ملتی ہے تو اسلام کو نافذکرنے میں کیا دلچسپی لے گی؟۔ پھر ہندوستان اور کشمیر کے مسلمانوں کیلئے کوئی اقدام کرنا مشکل نہیںبلکہ ناممکن لگتا ہے۔ اگر ہمارے اپنے ہاں اسلام نافذ ہوگا تو پھر بھارت اور دوسرے ممالک میں بھی اسلام کو پذیرائی مل سکے گی۔
مذہبی طبقہ قرآن وسنت میں بہت ساری آیات اوراحادیث کو رجوع کیلئے نہیں مان رہا مگر شیطانی القا کی وجہ سے باعزت لوگوں کی عزتوں کو حلالہ کے نام پر لوٹ رہاہے۔ مغرب میں کم سود کو غیر اسلامی اور اپنے ہاں زیادہ سود کو اسلامی قرار دینے کی منافقت سے اسلام نہیں کھلم کھلا کفر پھیلا رہاہے۔ اسلامی جمہوری اتحاد میں سود اور ریاستِ مدینہ میں شراب خانہ مذہبی ، سیاسی اور صحافتی طبقات میں منافقت کی انتہاء ہے۔اگر اسلام نافذ نہ کیا توبرہمن اسلام قبول کرکے معرکہ ہند لڑنے والی حدیث پر عمل کرینگے۔ شاہ نعمت اللہ ولی نے پنجاب کے دل سے دوزخی خارج ہونے اور اٹک کے دریا کے خون آلود ہونے کی پیش گوئی کی ہے جمنا،گنگا کی نہیں۔ غلط اعداد وشمارکا تخمینہ لگانے کے بجائے ن لیگ کیلئے زیادہ بہتر یہ ہے کہ ٹانگ اُٹھاکر ٹیٹ ماریں۔ پورا ملک سول وملٹری بیوروکریسی کیساتھ مل کر سیاستدانوں نے دیوالیہ بنادیا ہے مگر اب تک پیٹ نہیں بھرتا ۔ اس کا علاج اسلامی معیشت اور مزارعین کومفت کی زمینیں دینے کی شریعت ہے۔

NAWISHTA E DIWAR April Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummatorbit

تحریک انصاف کی اتحادی حکومت،PDM، جماعت اسلامی اور PTM کے زوال کی بالکل انتہاء

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے گھر کو ٹھیک کرنے ،اندرونی وبیرونی دفاعی معاملے میں بھی زیادہ خطرات کا اعتراف کیامگر مولانا فضل الرحمن، نوازشریف ،رؤف کلاسرا کے علاوہ سارے سیاستدانوں اور صحافیوں نے اعتراف کو غلط رنگ دیا

آرمی چیف کا مقصد پاکستان کی نظریاتی اساس ”اسلام” اور آئین کی روح ” قرآن وسنت” کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہندو برہمن سے توقع ہے مگرعلماء اور مذہبی جماعتوں سے نہیں ہے

وفاق المدارس کے قاری حنیف جالندھری نے کہا کہ عدالت میں عورت کے حقِ خلع کے خلاف ہم تحریک چلائیں گے ، حالانکہ علماء ومفتیان نے قرآن وسنت کیخلاف مسلک بنارکھا ہے

مولانا غفور حیدری نے کہا کہ مرزائیوں کے حق میں قومی اسمبلی سے قانون پاس ہوچکا تھا ۔ مجھے خوف تھا کہ چیئرمین سینیٹ کی غیر حاضری میں مجھے بل پاس ہونے پر دستخط کرنے پڑینگے !

پاکستان اسلام یا مسلمانوں کے نام پر بنا۔ اسلام اور مسلمان ایکدوسرے سے الگ نہیں، جو اسلام کو مانتا ہے وہ مسلمان اور جو نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں۔ اسلام احکامِ خدا کے آگے سرِ تسلیم خم کرناہے جو اللہ کی کتاب اور خاتم الانبیائۖ کی سنت میں ہیں۔ آئینِ پاکستان میں قرآن وسنت کی بنیادی حیثیت ہے۔
یہودونصاریٰ کے افراط وتفریط میں مسلمان اعتدال پر ہے۔یہودکا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں گستاخانہ اور عیسائی کا مشرکانہ عقیدہ تھا۔اسلام نے ان کی خواتین کیساتھ نکاح کو حلال قرار دیا ہے۔حضرت عائشہ کے حوالے سے روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہۖ سے پہلے مشرک سے رشتہ طے تھا اور پھر اس نے اسلام کی وجہ سے رشتہ ختم کیا۔ تب حضرت ابوبکر نے رسول اللہۖکا حضرت عائشہ کیلئے پیغام قبول کیا، اسوقت ایک اور خاتون نے بھی اُم المؤمنین بننے کا پیغام قبول کرلیا تھا اسلئے پہلے ان کی رخصتی ہوئی اور حضرت عائشہ کی رخصتی تین سال بعد ہوئی۔ منگنی و نکاح کا اسلام میں فرق نہیں کیونکہ ایجاب وقبول ہی نکاح ہے۔ نکاح کے فوراً بعد رخصتی اور ازدواجی تعلقات قائم ہوں تو پھردو گواہ کی ضرورت ہے۔ اعلانیہ منگنی کے بعد دو گواہوں کی حیثیت محض قانونی ہے۔
رسولۖ کے وصال کی مشہورتاریخ بارہ (12) ربیع الاوّل ہے۔ یومِ وصال نہیں یوم ولادت منایا جاتا ہے اور یومِ ولادت پر اختلاف کو اجاگر کیا جاتا ہے اوریومِ وصال میں بھی اختلاف ہے، شیعہ کے ہاں یومِ ولادت اٹھارہ (18) ربیع الاوّل اور یومِ وصال اٹھائیس (28) صفر ہے۔ جب رسول اللہۖ کے یومِ وصال میں تاریخ کا نہیں بلکہ مہینوں کا فرق ہے تو اس سے تاریخی یاد داشت کی کمزور ی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ قرآن وسنت اورا سماء الرجال سے یہ ثابت ہے کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمرسولہ (16)سال اور رخصتی کے وقت اُنیس (19) سال تھی۔ علماء حق کو کھلے عام جشن کی ضرورت تھی کہ رسول اللہۖ نے اس عمر میں حضرت عائشہ سے شادی کی تھی جو موجودہ پاکستان کے قانون سے بھی ایک سال زائد تھی۔ ایک طرف علماء کی ہٹ دھرمی اور دوسری طرف اسلام دشمن ایجنڈا رکھنے والوں کا گستاخانہ رویہ دنیا کو ایک نئے تصادم کی طرف لے جارہاہے۔
قرآن وسنت اور اصولِ فقہ کے درست قواعد کی روح سے حلالہ کی لعنت کا کوئی جواز نہیں لیکن اس بے غیرتی کو مذہبی طبقے نے مسلط کررکھا ہے۔ قرآن وسنت میں مرد کو طلاق اور عورت کو خلع کا حق ہے لیکن مذہبی طبقے نے عورت سے خلع کا حق چھین رکھا ہے اور عدالت کے خلاف بھی اپنے احتجاج کے حق کو محفوظ سمجھتے ہیں۔وفاق المدارس کے قاری محمد حنیف جالندھری نے عدالتی خلع کے خلاف احتجاج کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ قادیانیوں کی حمایت میں بل قومی اسمبلی سے منظور ہوچکا تھا اور سینیٹ سے منظور ہوجاتا تو مجھے دستخط کرنے پڑتے اسلئے کہ چیئرمین کی جگہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو یہ ڈیوٹی دینی پڑتی ہے لیکن الحمدللہ بل سینیٹ میں ناکام ہوا، پھر حکومت نے اس کو پاس کرنے کیلئے قومی اسمبلی وسینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا ۔اس وقت نوازشریف کی حکومت تھی اور مولانا لوگ اسکے اتحادی تھے۔ یہ مولانا حیدری نے اپنی حسنِ کارکردگی پیش کی تھی جو اپنے مذہبی طبقے کو سمجھا رہے تھے کہ جمعیت علما ء اسلام اپنے فرضِ منصبی سے غافل نہیں ۔
مذہبی اور سیاسی طبقے کے اس گٹھ جوڑ کے خلاف شیخ رشید نے آواز اٹھائی۔ آج شیخ رشید وزیرداخلہ ہے جس نے کہا کہ مولویوں نے مجھ پر اس وجہ سے حملہ کیا تھا۔عمران خان کی ناکامی سامنے ہے اور سیاسی رہنماؤں کیساتھ آئندہ کچھ ہو یا نہ ہو لیکن پاک فوج کے کرتے دھرتوں کی خیر نہیں۔ براڈ شیٹ سے تین فوجی جرنیلوں کی نالائقی کے علاوہ پرویزمشرف کا آفتاب شیرپاؤ کو معاف کرکے وزیرداخلہ بنانا فوج کے کردار کو ناپاک کرنے کیلئے کافی ہے۔ عدالتی نظام نے سیاستدانوں کا کچھ نہیں بگاڑنا۔ عمران خان نے حکومت کے خاتمے تک اپوزیشن کی زبان میں بک بک کے سوا کچھ نہیں کرنا ۔ اسٹیٹ بینک کے بعد پاک فوج اور ہمارے ریاستی اداروں کو عالمی اداروں کی تحویل میں دینے کا ایجنڈا ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقریر اس بکرے کی طرح چیخنا ہے جس نے عید کے دن قصائی کے ہاتھوں اپنے اور اپنے ساتھیوں کے کٹ مرنے کا بس انتظار کرنا ہے۔ اگر پاک فوج کی طاقت کا خوف نہیں رہا تو غیظ وغضب سے بھری ہوئی عوام جہاں فوجی جرنیلوں کا بنگلہ دیش سے برا حشر نشر کردینگے وہاں عدلیہ، پولیس، سول بیوروکریسی اور سیاستدانوں اور انکے ٹاؤٹ لوگوں کو بھی انقلابِ فرانس سے زیادہ سبق سکھائیں گے، مذہبی طبقے اور تاجر وں کی بھی خیر نہیں ہوگی۔ لوگ تنگ آمد بجنگ آمد کی طرف جارہے ہیں اور صحافیوں نے تجوریاں بھریں یا بھنگ کے نشے کاہدف حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ نوازشریف نے جیل سے جھوٹ کی بنیاد پر رہائی حاصل ہونے اور نظریاتی بننے کے بعد بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دیدی اور باپ بیٹی پھر نظریاتی بن گئے اور حسن نثار عمران خان کی ساری نالائقی کو سپورٹ کرنے کے بعد آج پھر بچکانہ باتوں کی ٹرٹر کرنے سے اپنے سامعین کو لوریاں دے رہاہے۔ جب تک کم بخت لوگوں کا منہ سرِ عام کالا کرکے ان کی تذلیل نہیں کی جائے کہ تم بیوقوف نہیں بلکہ بیوقوف بنانے کے جرم میں برابر کے شریک ہو۔ اب اس عمر میں لاہوریوں کے دماغ کی رگیں صرف اس وقت کھلیںگی جب وہ میڈیا پر ٹانگ اٹھاکر ٹیٹ مار کر دکھائیںگے۔ مریم نواز بتائے کہ اسکا باپ بزدلی کی وجہ سے نہیں آرہاہے یا کوئی بیماری ہے؟۔ سہیل وڑائچ ، حامدمیر ، سلیم صافی ، شاہ زیب خانزادہ اور دیگر اینکر پرسن اپنی نوکری کا نمک حلال کرنے کیلئے کچھ کریںگے یا پھرہم بتائیں؟۔
جانی خیل بنوں میں گڈ طالبان کے ہاتھوں مارے جانے والے چار بچوں کی لاشوں کا احتجاج اسلام آباد کی طرف جانے سے بڑی مشکلوں کے بعد روکا جاسکا۔ الیکٹرانک میڈیا نے کوریج نہیںدی ورنہ ہزارہ برداری کوئٹہ سے بھی ان لاشوں کا احتجاج خطرناک تھا اسلئے کہ شمالی وزیرستان کے لوگ بھی بہت تھک چکے ہیں۔ پاکستان بھر میں بچیوں کا ریپ ہوتا ہے مگر خٹک بچی پر سابق ایم این اے (MNA) مولانا شاہ عبدالعزیز نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو دھمکی دی کہ ہمیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے، یہ قصور، فیصل آباد، گوجرانوالہ ، گجرات نہیں۔

NAWISHTA E DIWAR April Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummatorbit

پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

فان طلقھا فلاتحلّ لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ…”پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے،پھر اگر اس نے طلاق دی تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں اگر رجوع کرلیں جب

دونوں کو گمان ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیں گے، یہ اللہ کی حدود ہیں جو ایسی قوم کو واضح کئے جاتے ہیں جو سمجھ رکھتے ہیںOاور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ

جائیں تو ان کو معروف طریقے سے روکویا معروف طریقے سے چھوڑ دو،اور ان کو اسلئے مت روکو تاکہ ضرر پہنچاؤ،جس نے ایسا کیا تو اپنے نفس پر ظلم کیااور اللہ کی آیات کو کھیل مت بناؤ….

قارئین ،علماء کرام اور مفتیانِ عظام! السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
سورۂ بقرہ کی آیات(230) اور(231)کے الفاظ پر اللہ کی محکم آیات پر تھوڑا سا غور کر نا اورالقائے شیطانی کو بھی مدنظر رکھناتو معاملہ بہت واضح ہوجائے گا۔ پچھلی آیات میں القائے شیطانی سے انکار کی گنجائش نہیں اور جب اس تسلسل کو دیکھا جائیگا تو یہاں بھی شیطانی القاکا پتہ چلے گا۔اللہ تعالیٰ نے آیت (230) میں بہت واضح انداز میں فرمایا ہے کہ ” پھر اگر اس نے طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے ، پھر اگر اس نے طلاق دیدی تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں اگر یہ گمان رکھیں کہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیں گے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں جو اس قوم کیلئے وہ واضح کرتا ہے جو سمجھ رکھتے ہیں”۔
سب سے بڑا مغالطہ یہ ہے کہ ہم اس آیت میں اس طلاق کو پہلی دومرتبہ طلاق کیساتھ شامل کرتے ہیں۔ علامہ جاراللہ زمحشری نے اپنی تفسیر کشاف میں لکھ دیا ہے کہ عقل اور شریعت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس تیسری طلاق سے پہلے کی دو مرتبہ طلاق الگ الگ واقع ہوں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ تینوں طلاقیں الگ الگ مراحل سے تعلق رکھتی ہوں۔ امام ابوبکر جصاص رازی حنفی نے احکام القرآن میں طلاقِ سنت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھ دیا ہے کہ الگ الگ مراحل میں طلاق کے بغیر چارۂ کار نہیں ہے کیونکہ یہ دو درہم کی طرح نہیں ہیں بلکہ طلاق فعل ہے جس طرح دو کھانے ،دو حلوے اور دو روزے ایک ساتھ دو نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ الگ الگ مرتبہ ضروری ہیں اسی طرح طلاق کا فعل بھی الگ الگ مرتبہ ضروری ہے۔
مفسرین کی ضرورت اس وقت ہو گی کہ جب مسئلہ قرآن و سنت میں واضح نہ ہو۔ جب احادیث سے ثابت ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق آیت (229) کے پہلے حصہ سے ہے کہ ”طلاق دومرتبہ ہے پھرمعروف رجوع یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے”۔ (3) طہروحیض میں(3) مرتبہ طلاق رسول اللہۖ نے احادیث صحیحہ میں ہے اور فرمایا کہ احسان کیساتھ چھوڑ دینا قرآن میںتیسری مرتبہ کی طلاق ہے۔
آیت (229) میں تین مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا ذکر نہیں ہے بلکہ طلاق کے بعد عورت کے حق کا ذکر ہے کہ جو کچھ بھی اس کو دیا ہے وہ اب اسی کا ہے، کوئی چیز بھی اس میں سے لینا جائز نہیںہے۔ ہاں البتہ اگر ان دونوں کو یہ خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیںگے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہ ڈرہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیںگے کہ تو شوہر کے دئیے ہوئے مال میں سے صرف وہی چیز عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جس کے ہونے کی وجہ سے اختلاط اور رابطہ ہوسکتا ہو اور اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا ڈر ہو۔
مولانا مودودی علیہ ما علیہ نے اس فدیہ کو معاوضہ قرار دیکر بہت ہی برا کیا۔ عورت کی طرف سے فدیہ کوخلع کا معاوضہ قرار دینا بہت بڑا شیطانی القاہے۔
اب آیت (229) کے بعد آیت (230) میں اس طلاق کی کیفیت کو بھی اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب عورت کو قرآن وسنت کے مطابق عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی گئی اور پھر شوہر کی طرف سے دیا ہوا مال واپس لینا حلال نہیں تھا مگر جس دی ہوئی چیز کی وجہ سے دوبارہ رابطے کا خوف تھا اور اس رابطے کی وجہ سے اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف تھا اسلئے وہ چیز بھی فدیہ کرنے میں حرج نہ ہونے کی وضاحت ہے۔یہ کیفیت بیان کرنے کے بعد آیت (230) میں طلاق کی جو وضاحت ہے وہ صرف اور صرف اسلئے ہے کہ شوہر کو اگر رجوع نہیں کرنا ہو تو وہ اس کو طلاق کے بعد بھی کسی اور سے اپنی مرضی کے مطابق اجازت نہیں دیتا ۔ رحمت للعالمینۖ کی ذات کے بارے میں قرآن نے واضح کیا کہ آپ کے بعد کبھی آپۖ کی ازواج سے نکاح نہ کریں،اس سے نبیۖ کو اذیت ہوتی ہے اور یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے۔ بہت کم لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کو بیوی چھوڑنے کے بعد کسی اور کیساتھ نکاح میں تکلیف نہ ہو لیکن انسان کو بہت تکلیف ہوتی ہے بلکہ جانوروں اور پرندوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ بشریٰ بی بی کے پہلے شوہر خاور مانیکا کو بھی تکلیف ہوئی ہوگی ،اللہ ہرکسی کواس اذیت سے بچائے۔صحافی عمران خان ہمیشہ تحریکِ انصاف کی تائید کرتا تھا لیکن خاور مانیکا کے بیٹے پر فائرنگ کا نوٹس لے لیا ہے۔ آرمی چیف باجوہ کا نام لینے پر معافی مانگی تھی۔ جمہوریت بہتر نظام ہے۔
مجھے بہت زیادہ خوشی ہے کہ اصول فقہ کی کتابیں ”اصول الشاشی” اور ”نورالانوار” شیخ التفسیر استاذ حدیث مولانا بدیع الزمان صاحب نوّراللہ مرقدہ سے پڑھی تھیں۔ اصول فقہ کے پہلے سبق میں آیت (230) البقرہ حتی تنکح زوجًا غیرہ سے حدیث صحیحہ کا ٹھکراؤ ہے کہ قرآن میں عورت کو آزادی دی گئی کہ جہاں چاہے نکاح کرلے اورحدیث ہے کہ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے، باطل ہے ، باطل ہے ”۔ قرآن کے مقابلے میں حنفی حدیث صحیحہ کو رد کرتے ہیں۔ اسلئے کہ قرآن میں عورت نکاح میں خود مختار ہے اور حدیث میں اس پر ولی کی اجازت کی پابندی لگائی گئی ہے۔
آیت (230) میں طلاق کے بعد عورت کیلئے دوسرے نکاح میں رکاوٹ اپنا ولی نہیں بلکہ سابقہ شوہر بنتا ہے۔اس سے تحفظ کیلئے اللہ تعالیٰ نے دوسرے کے ساتھ نکاح کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ عورت کسی اور کے نکاح میں چلی جائے تو پہلے کی دسترس سے وہ مکمل طور پر نکل جائے۔
ہمارے بچپن میں ہمارے عزیزوں کے مزارع خان بادشاہ کے بیٹے کریم نے اپنی بیوی کو اچانک تین طلاق دی اور پھر اس کو حلالہ کیلئے پڑوس کے گاؤں کوٹ حکیم کی مسجد کے ملا کے پاس لے گیا۔ عورت نے کہا کہ ملا سے طلاق نہیں لینا چاہتی ہے تو کریم نے اپنے رشتہ داروں کیساتھ مل کر ملا کو پیٹ ڈالا اور عورت بھی زبردستی سے لائے یا پھر اس کو زبردستی سے طلاق بھی دلا دی تھی۔
حال ہی میں بنوں کی سوشل میڈیا پر دو فریق کی طرف سے ایکدوسرے پر الزامات لگائے گئے ۔ دوبئی سے شوہر نے طلاق دی تھی اور پھر مولوی سے فتویٰ لیکر اس عورت کیساتھ زبردستی حلالہ کیا گیا، جس پر مولوی کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔ وہ مولوی وہاں کی معروف شخصیت، مدرسے کا مہتمم اور ختم نبوت کاامیر تھا۔
یہ واقعات اسلئے لکھ رہا ہوں تاکہ قرآن کی آیت کے حکم کی روح سمجھنے میں بہت آسانی ہو۔ کیا زبردستی سے حلالہ کرنے سے وہ عورت پہلے شوہر کیلئے حلال ہوسکتی ہے؟۔ عورت آزادی مارچ ”میرا جسم میری مرضی” کی سرخیل پختون خاتون محترمہ عصمت شاہجہاں ہے۔ عوامی ورکر پارٹی کومذہب سے نفرت ہے لیکن مذہب کا کردار کتنا اہم ہے ؟ ۔ اس کو سمجھنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
کیا آیت (230) میں پہلی بار عورت کو مرد کے چنگل سے آزادی دلانے میں اتنا اہم کردار ادا کیا گیا ہے؟۔ نہیں ہرگزہرگز نہیں۔ آیت (226) میں عورت اور اسکے شوہر میں ناراضگی ہوجائے تو جب تک عورت راضی نہ ہو تو شوہر عدت میں بھی اس پر زبردستی نہیں کرسکتا ہے۔ آیت (230) میں بہت ہلکا لفظ استعمال ہوا ہے جبکہ شریعت کی روح یہ ہے کہ اگر عورت ناراضگی کے بعد راضی نہ ہوجائے تو اس پر زبردستی مسلط کرنا حرام ہے۔ جس طرح کسی اجنبی عورت کیساتھ زبردستی کا کوئی تصور نہیں ہے اسی طرح سے اپنی بیوی کیساتھ عدت میں بھی زبردستی سے ازدواجی تعلقات اور نکاح کی بحالی قطعی طور پر حرام ہے۔ آیت (228) میں بھی زبردستی سے تعلق کی بحالی حرام ہے اور اصلاح کی شرط کیساتھ صلح کرنے کی اس میں وضاحت ہے۔ آیت (229) میں بھی معروف طریقے سے ہی رجوع کی اجازت ہے۔ زبردستی سے اس میں بھی رجوع کرنا ایسا حرام ہے جس طرح کسی اجنبی عورت کو زبردستی سے مجبور کرنا حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ حج کی آیات (52،53اور54) میں القائے شیطانی کی وضاحت فرمائی ہے۔ آیت (230) سے تیسری طلاق مراد لینا اور اس کیلئے یہ کہنا کہ ف تعقیب بلامہلت کیلئے آتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے اگر دو طلاق کے بعد فوری طور پر تیسری طلاق دیدی تو پھر عورت حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے۔ اگر ف تعقیب بلا مہلت فان طقہا میںنہ ہوتی تو پھرتین الگ الگ مرتبہ طلاق ہوتی۔ بریلوی مکتب کے معتبر عالم دین شیخ التفسیر والحدیث علامہ غلام رسول سعیدی نے یہ لکھ دیا ہے۔ حالانکہ نورالانوار میں حنفی مؤقف یہ لکھاہے کہ” ف تعقیب بلامہلت کی وجہ سے اس طلاق کا تعلق فدیہ دینے کی صورت سے ہے۔ پہلے دو مرتبہ طلاق کیساتھ نہیں ہوسکتاہے”۔
بریلوی دیوبندی دونوں حنفی ہیں اور دونوں مکتبۂ فکر مل بیٹھ کر مسئلہ حل کریں تو صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر میں اسلام کا ڈنکا بجے گا۔ القائے شیطانی سے وہ لوگ زیادہ متأثر ہیں جنکے دلوں میں حلالہ کی حلاوت کا مرض تھا۔ بہت سارے علمائِ حق نے اس طرف دھیان بھی نہ دیا اور یہ سمجھ لیا کہ بس اللہ کا حکم ہے تو ایمان پر ہماری عزتیں بھی قربان ہوں۔ بہت لوگوں نے اس نیک نیتی سے حلالہ کی لعنت کو جواز بخشا کہ اگردو خاندان اور بچوں کے ماں باپ اس کرب سے گزرنے کے باوجود بھی اکٹھے ہوں تو یہ بہت بڑی غنیمت ہے۔ نیکی نیتی سے اجتہادی خطاء پر نیکی بھی ملتی ہے لیکن حق واضح ہونے کے بعد شیطانیت ہے۔
سورہ بقرہ کی آیت (231) میں پھر اللہ نے یہ واضح کیا ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے اللہ نے رجوع سے نہیں روکا ۔کیایہ ممکن ہے کہ قرآن میں اتنے سارے تضادات ہوں؟۔ اللہ نے فرمایا کہ اللہ کی آیات کو مذاق مت بناؤ۔ اوراللہ کی اس نعمت کو یاد کرو ،جو اس نے تمہارے اوپر کی ہے اور جو اللہ نے کتاب میں سے احکام نازل کئے ہیں اور حکمت عطاء کی ہے۔ ہم نے نہ تو اس کی نعمت عورت کی عزت کا خیال رکھا اور نہ رجوع سے متعلق کتاب کی ان آیات پر غور کیا اور نہ اپنی ذہنی صلاحیت حکمت سے کام لیا۔ جس کی وجہ سے تنزلی اور بربادی کا شکار ہوگئے ہیں۔عوام نے قرآن کے حکم لعان کو پہلے قبول نہیں کیا تھا مگر اب شیطانی القا حلالہ کی لعنت کو ٹھکرانے میں بالکل دیر نہیں لگائیںگے۔
سورۂ بقرہ کی آیت (230) سے پہلے کی آیات (228اور229) اور بعدکی آیات (231اور232) دیکھ لی جائیں تو معاملہ بالکل واضح ہے کہ عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے اللہ نے رجوع کی گنجائش حلالے کے بغیر باقی رکھی ہے۔سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی اس کا خلاصہ موجود ہے۔ ابوداؤد کی روایت میں نبیۖ نے مرحلہ وار تین طلاق کے باوجود سورۂ طلاق کی آیات پڑھ کر رجوع کا حکم دیا۔
رفاعة القرظی نے جس عورت کو طلاق دی تھی تو صحیح بخاری کی تفصیلی روایت میں ہے کہ اس کو دوسرے شوہر نے بہت سخت مارا تھا، حضرت عائشہ نے اس کے جسم پر نیل پڑنے کے نشانات دیکھے، اس نے کہا تھا کہ اس کا شوہر نامرد ہے اور اسکے شوہر نے اسکے دعوے کو غلط قرار دیا تھا اور اپنے دو بچوں کو بھی ساتھ لایا تھا۔ بعض اوقات وقتی طور پر میاں بیوی میں جھگڑا ہوتا ہے اور عورت جھوٹے الزام لگاکر اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے لیکن انکے مفاد میں علیحدگی نہیں ہوتی ہے اسلئے یہ فیصلہ کرنا مصلحت کا تقاضہ ہوتا ہے کہ ماردھاڑ کی شکایت بھی ختم ہوجائے میاں بیوی بھی ایک ساتھ خوشی خوشی زندگی گزاریں۔ میرے ساتھیوں میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ پہلے عورت کو طلاق دیکر فارغ کیا تھا اور پھر عورت نے پشیمان ہوکر رجوع کرنے کیاتھا۔ مفتی قرآن وحدیث کا غلط حوالہ دیکر فتویٰ دیتے ہیں۔
احادیث کی کتب فقہی مسالک کے بعد مرتب کی گئی ہیں۔ شیطانی القا کی ایک زبردست مثال صحیح بخاری میں علماء کا یہ اجتہاد ہے کہ حرام کے لفظ سے تیسری طلاق واقع ہوجائے گی اور طلاق میں حرام کا حکم کھانے پینے کی اشیاء کی طرح حرام ہونا نہیں ہے۔ اصول فقہ کی کتابوں میں بعض صورتوں تیسری طلاق کا پڑجانا اور پہلی دو طلاق کا واقع نہ ہونا بھی لکھا ہے۔ القائے شیطانی سورۂ نجم کے حوالے سے جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار ہونے میں نہیں مل سکتی ہے بلکہ جس طرح مذہبی طبقے نے واضح آیات کے مقابلے میں بقول مولانا انورشاہ کشمیری کے معنوی تحریف کا ارتکاب کیا ہے ، یہی معنوی تحریف القائے شیطانی ہے اور اہل علم کو سورۂ حج کی آیت (53) میں حلالہ کے مرض کا شکار ہونے والوں کا راستہ روکنے کیلئے آیت (54) الحج کے مطابق اپنا زبردست کردار ادا کرنا پڑے گا۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition #2. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat