مارچ 2021 - Page 2 of 4 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

اللہ تعالیٰ نے مردوں پر حق مہر کو فرض کیا ہے۔ یہ ہے اس کا درجہ

ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف..” اورانکے مردوں پر معروف طریقے سے ویسے ہی حقوق ہیں اور مردوں کا ان پر ایک درجہ ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے،طلاق دومرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یااحسان

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

کیساتھ چھوڑ ناہے اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جوبھی ان کو دیا کہ اس میں سے کچھ واپس لو مگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیںگے اوراگرتم ڈرو کہ اللہ کی حدود

پردونوں قائم نہ رہ سکیںگے تو دونوں پر حرج نہیں عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں،یہ اللہ کی حدود ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تووہی لوگ ظالم ہیںO

صفحہ نمبر( 3)کے نچلے حصے پر سورہ ٔبقرہ کی آیت(228)کا کچھ حصہ رہ گیا تھا وہ بھی درج بالا سرخی میں نقل کردیا۔ جس طرح سے طاقتورحکمران اور اسکی رعایا کے ایکدوسرے پر حقوق ہوتے ہیں لیکن حکمران اپنے درجے کا خیال رکھے بغیر رعایا کے حقوق کو غصب کرلیتا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں پختون قبائل مرگئے۔ پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بج گئی لیکن ن لیگ نے نہیں کہا کہ اگر مزید قتل اور غارتگری کا سلسلہ جاری رہا تو پھر ہمیں پاکستان نہیں چاہیے۔ مریم نواز نے جیل کے واشروم میں خفیہ کیمروں کاالزام لگایا کہ تصویریں اتاری گئیں ہیں لیکن پھر بھی ن لیگ نے یہ نہیں کہا کہ عزت کی قیمت پر پاکستان نہیں چاہیے ۔ پنجاب کے غیورخطیب اور آزادی کے مجاہد سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے فرمایا تھا کہ جب انسان کی جان پر آجائے تو اپنے مال کو قربان کرکے اپنی جان بچائے اور جب اس کی عزت پر بات آجائے تو اپنی جان دیکر اپنی عزت بچائے اور جب ایمان پر آجائے تو اپنامال،اپنی جان اور عزت سب کچھ اس پر قربان کردے۔
مکافاتِ عمل بھی ایک چیز ہے۔ بینظیر بھٹو کی ننگی تصاویر سے کردار کشی ہوئی ہے اور بلاول بھٹو زرداری کیساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اب ایسا نہ ہو کہ وقت پر مریم نواز کیساتھ بھی کوئی معاملات پیش آجائیں۔ زمانے کے زناٹے دار تھپڑ بہت بے رحم موجوں کی طرح بڑے بڑوں کا بیڑہ غرق کردیتے ہیں۔اسلامی جمہوری اتحاد کے صدر غلام مصطفی جتوئی الیکشن ہار گئے اور سینئر نائب صدر مولانا سمیع الحق نے آئی جے آئی (IJI) پنجاب کے صدرنوازشریف کیلئے وزیراعظم کی سیٹ چھوڑ دی تھی ، جب مولانا سمیع الحق نے سودی نظام کو ختم کرنے کے وعدے پر زور دیا تو میڈم طاہرہ سے اس کی عزت تارتار کردی گئی۔ (1988) میں عابدہ حسین نے جھنگ سے دونوں نشستوں کو جیتا تھا۔ جس نشست پر مولانا حق نواز جھنگوی کو شکست دی تھی وہی اپنے پاس رکھی تھی۔ مولانا حق نواز جھنگوی نے اعلان کیا تھا کہ شیعہ مجھے اپنا ووٹ نہ دیں۔ پھر (1990) میں جھنگ کی ایک نشست پر مولانا ایثار الحق قاسمی آئی جے آئی (IJI)کی ٹکٹ پر کھڑے تھے اور دوسری نشست پرعابدہ حسین آئی جے آئی (IJI)کی ٹکٹ پر کھڑی تھیں۔ مولانا حق نوازجھنگوی جمعیت علماء اسلام (ف) پنجاب کے نائب صدر تھے اور مولانا ایثارالحق قاسمی سپاہِ صحابہ کے قائد بن گئے تو آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے اہل تشیع سے اتحاد کے باوجود جمعیت علماء اسلام ف کے مولانا فضل الرحمن پر کفر کا فتویٰ اسلئے لگایا جارہاتھا کہ وہ شیعہ کو کافر نہیں کہتے۔ جب یہ نعرہ عروج پر تھا تو (1992) کی ابتداء میں اپنی کتاب ” عروج ملت اسلامیہ کا فیصلہ کن مرحلہ” میں سوال اٹھایا کہ سعودی عرب اہل تشیع کو حرم میں داخل ہونے دیتا ہے وہ کافر نہیں اور مولانا حق نواز جھنگوی کے قائد مولانا فضل الرحمن کافر؟۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ مولانا فضل الرحمن کی سرپرستی میں قاضی عبدالکریم کلاچی نے مجھ پر یہ فتویٰ لگایا کہ شیعہ کے کفر پر اجماع ہے اور اس اجماع کو نہ ماننے کی وجہ سے یہ شخص گمراہ ہے۔ اگر فضل الرحمن گروپ والے تائید کرتے ہیں تو وہ قادیانی کا بھی استقبال کریںگے۔مجھ سے زیادہ بڑا فتویٰ مولانا فضل الرحمن پر لگادیا تھا ۔ جب ہم نے فتوے کا پوسٹ مارٹم کیا تو قاضی عبدالکریم نے فتویٰ مجھ پر لگایا تھا اورمعافی مولانا عبدالرؤف گل امام جمعیت علماء اسلام کے ضلعی امیر سے مانگ لی۔ جس نے مجھے حوصلہ دیاتھا اور لکھا کہ قاضی صاحب بھونڈی حرکتیں چھوڑ دو۔
عمران خان نے نجم سیٹھی پر (35)پنکچر کا الزام لگایا تھا اور جب(2018) کے الیکشن ہوئے تو (35)سے زیادہ پنکچروں کاسہارا لیا جو جہانگیرترین کے جہاز سے پہنچارہے تھے۔ تحریک انصاف کے وزیر ریلوے اعظم سواتی نے ایم ایم اے (MMA) کے ارکان اسمبلی کو خرید ا ،پھر جمعیت علماء اسلام (ف) میں شامل ہوگئے۔ پاکستان میں کوئی کرپٹ بیوروکریٹ ریٹائرڈ ہونے کے بعد اپنے پاس زیادہ پیسے دیکھتا ہے تو الیکشن لڑتا ہے اور جب ہار جاتا ہے تو پارٹی اسکو اس خرچہ کے بدلے سینیٹر بنادیتی ہے۔
سینیٹ کے الیکشن میں وزیراعظم عمران خان نے جس طرح کی قلابازیاں کھائی ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ اگر عمران خان اعلان کردیتا کہ اکثریت تو یوسف رضا گیلانی کی ہے اور غلطی سے ووٹ کٹ گئے ہیں وہی چیئرمین ہیں تو مولانا عبدالغفور حیدری کی پیشکش سے یہ زیادہ بہتر ہوتا۔ اب تو ایسا ہے کہ جیسے دولتی مارکر جے یو آئی اور پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم ( PDM)کی طرف دھکیل دیا ہو۔سیاست میں ایک عمران خان سے کچھ لوگوں کو امید یں تھیں وہ سامنے آگیا ہے۔ہمارے حکمران اورسیاسی و مذہبی رہنماؤں کا مزہ نہیں ہے لیکن کارکن بہت اچھے ہیں۔
سورۂ بقرہ آیت(228) میں مردوں پر عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے ان پر ہیں۔ جس طرح حکمران طبقہ عوام کے حقوق غصب کرتا ہے اسی طرح علماء نے خواتین کے حقوق غصب کردئیے ہیں۔ مرد کو طلاق اور عورت کو خلع کے حق میں دیکھا جائے تو مردوں کا ایک درجہ زیادہ ہے لیکن عورت کے حقوق زیادہ ہیں۔ عورت ایک مرتبہ شادی کرلیتی ہے اور اسکے بچے ہوجاتے ہیں تو طلاق پر بڑی مشکل کا شکار ہوجاتی ہے لیکن مرد کو زیادہ فرق نہیں پڑتا ہے اسلئے اللہ تعالیٰ نے مردوں پر حق مہر کو فرض کیا ہے۔ یہ ہے اس کا درجہ ۔ باقی حقوق کے حوالے سے اللہ نے واضح کیا ہے کہ دونوں کے ایکدوسرے پر ایک جیسے معروف حقوق ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب مردیا عورت کی پوزیشن مضبوط ہوتی ہے توپھر اس کا اپنا ایک اثر ہوتا ہے۔ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی مثال بہت واضح ہے۔
البقرہ آیت(229) میں پہلے فرمایا کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے ،پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے”۔ اس میں راکٹ سائنس نہیں ہے کہ مطلب سمجھنے کیلئے بڑی ڈگریوں کی ضرورت ہو۔ آیت (228) میں عدت کے تین مراحل (تین طہر وحیض ) کی وضاحت تھی اور دوبارہ اس عدت میںمرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کا ذکر ہے۔ جب حضرت عبداللہ بن عمر نے اتنے بڑے مسئلے کو نہیں سمجھا تو رسول اللہۖ غضبناک ہوگئے اور پھر رجوع کا حکم دیا اور عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کی وضاحت فرمادی ۔ اس حدیث کو صحیح بخاری میں کتاب التفسیر سورۂ طلاق، کتاب الاحکام ،کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں مختلف الفاظ میں نقل کیا گیا ہے۔ ایک صحابی نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے ؟۔ تو نبیۖ نے فرمایا کہ آیت (229 ) البقرہ میں دومرتبہ طلاق کے بعداو تسریح باحسان (یاپھر احسان کیساتھ چھوڑ دو) ہی تیسری طلاق ہے۔ کوئی بھی عام انسان آیات کے تسلسل سے کوئی دوسرا نتیجہ نہیں نکال سکتا ہے۔ رحمة للعالمینۖ کا عبداللہ بن عمر پر غضبناک ہونا بھی اس بات کی نشاندہی ہے کہ قرآن کی سورۂ بقرہ اور سورہ ٔ طلاق میں عدت کے دوران مرحلہ وار طلاقوں کا تصور بالکل عام فہم تھا۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ عبداللہ بن عمر نے تین طلاقیں دی تھیں۔ محمود بن لبید کی روایت میں ایک شخص کی طرف سے ایک ساتھ تین طلاق پر نبیۖ کے غضبناک ہونے کا ذکر ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا کہ میں تمہارے درمیان میں ہوں اور تم اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل رہے ہو؟۔ جس پر ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل کردوں؟۔
حضرت عمر نے ہی عبداللہ بن عمر کی اطلاع دی تھی، جب رسولۖ غضبناک ہوگئے تو حضرت عمر نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔ احادیث پر شروع میں پابندی لگائی تھی اسلئے معاملات نایاب ہوگئے۔ حضرت حسن بصری نے کہا کہ ایک شخص نے مجھے کہا کہ ابن عمر نے تین طلاق دی تھیں ،پھر(20)سال تک کوئی شخص نہیں ملا جس نے اس کی تردید کی ہو۔ بیس سال بعد ایک اور شخص نے بتایا کہ ایک طلاق دی تھی۔ احادیث کی روایات پر صحیح تبصرہ کیا جائے تو ان کو اہلحدیث بھی نہیں مانیں گے۔ ابن عمر نے قرآن کے خلاف اہل کتاب سے بھی شادی کو ناجائز قرار دیا اور جماع فی الدبر کی بات بھی ان کی طرف منسوب ہے۔
عبداللہ بن عمر کی طرف منسوب بخاری میںہے کہ ” اگر میں دو مرتبہ کے بعد تیسری مرتبہ طلاق دیتا تو پھر مجھے اللہ کے رسول ۖ نے رجوع کا حکم نہیں دینا تھا”۔ اس روایت سے بھی قرآن کی تردید نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ مرحلہ وار دوبار طلاق کے بعد تیسری بار طلاق دیتا تو نبیۖ رجوع کا حکم نہ دیتے۔ یہ بھی ان کی اپنی فقہ ہے جبکہ حضرت عمر نے فرمایا کہ ”اس کو طلاق کی بات سمجھ میں نہیں آتی ہے اور آپ لوگ کہتے ہو کہ اس کو مسلمانوں کا خلیفہ بنادوں۔ اس کو خلیفہ بنانے پر میں نے پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے”۔
مذہبی بہروپیوں میں نااہل جانشینوں کا تسلط ایک عام سی بات ہے۔ جس کا نتیجہ امت بھگت رہی ہے۔ اگر مفتی محمد شفیع نے مفتی تقی عثمانی کو جانشین بنایا ہے تو معاوضہ لیکر بینک کے سود پر ایصال عذاب ملے گا۔اگر دو مرتبہ طلاق کے بعد یہ لیا جائے کہ تیسری بار عدت میں بھی رجوع نہیں ہوسکے گا تو پھر آیت (228) سے اس کا بڑا تضاد ثابت ہوگا۔ الگ الگ تین بار طلاق کے باوجود بھی عدت میں اگر رجوع کا دروازہ بند کردیا جائے تو قرآن میں بہت بڑا تضاد ثابت ہوگا۔ اللہ کی طرف سے یہ مراد بھی نہیں ہے کہ تیسری مرتبہ کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔
البتہ جب مرحلہ وار دو مرتبہ طلاق دینے کا فیصلہ کیا جائے پھر اگر رجوع کرنا ہو تو معروف طریقے سے رجوع ہوسکتا ہے۔جس کا مطلب باہمی رضامندی ہے۔ احناف کے نزدیک اگر رجوع کی نیت نہ بھی ہوتو شہوت کی نظر پڑنے یا نیند میں ہاتھ لگنے وغیرہ سے رجوع ہوجائیگا اور امام شافعی کے نزدیک نیت نہ ہوتو اس کے ساتھ جماع کرنے سے بھی رجوع نہیں ہوگا۔ یہ باتیں فقہ کی معتبر کتب میں موجود ہیں۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے شعبہ تحقیقات نے بھی اسے شائع کیا۔ معروف کی جگہ پر شیطانی القاکے منکر نے مذہب کا روپ دھار لیا ۔
جب تین مرتبہ مرحلہ وار طلاق دینے کا فیصلہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے اسکے بعد مزید فرمایا ہے کہ ” تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو۔ مگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیںگے………..”۔ طلاق کے فیصلے کے بعد حق مہر کے علاوہ عورت کے اس حق کو بھی محفوظ کیا گیا ہے کہ شوہر نے جو کچھ بھی دیا ہے اس میں سے کچھ واپس نہیں لے سکتا ہے۔ لیکن بعض اوقات کوئی ایسی چیز بھی ہوسکتی ہے کہ اگر وہ واپس نہیں کی گئی تو پھر طلاق کے بعد دونوں میں اختلاط کی وجہ سے وہ چیز اللہ کی حدود کو توڑنے کا خدشہ بن سکتی ہو۔ ایسی صورت میں اگر فیصلہ کرنے والے بھی یہ خدشہ محسوس کریں تو پھر شوہر کی دی ہوئی اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پرکوئی حرج نہیں ہے۔ آیت کا مطلب بالکل واضح ہے لیکن افسوس کہ فقہ اور اصولِ فقہ کی کتابوں میں حماقت کی انتہاء کرتے ہوئے یہاں خلع مراد لیا گیا ہے۔ فدیہ اور معاوضے میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔
مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ اس آیت کا ترجمہ کرنا بڑا دشوار ہے مگر جماعت ِ اسلامی کے بانی مولانا مودودی نے اس کا ترجمہ یوں کردیا کہ ” عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے ”۔ مولانا مودودی سید زادے تھے ،اگر وہ زندہ ہوتے تو اپنے ترجمے وتفسیر کی اصلاح کا اعلان کرتے لیکن اب جماعتِ اسلامی نے مولانا مودودی کو پیغمبر کے درجے پر فائز کردیا ہے۔ جب تک جماعت اسلامی کو پاک فوج کی طرف سے آرڈر نہ دیا جائے انہوں نے یہ غلطی جوں کی توں جاری رکھنی ہے۔ جس غلطی کا ارتکاب مولانا مودودی نے کیا تھا ، اب مفتی تقی عثمانی نے بھی آیات کے ترجمے و تفسیر میں بڑی تحریف کی ہے۔
علامہ تمنا عمادی بڑے حنفی عالم تھے اور انہوں نے قرآن اور اصول فقہ کی بنیاد پر اپنی کتاب ” الطلاق مرتان ” میں احادیث کا انکا ر کیا اور اس آیت سے خلع مراد لینے کے بعد یہ قرار دیا کہ حلالہ اس صورت میں ہوگا جب عورت نے خلع لیا ہوگا۔ اس کی کتاب کی ہمارے استاذ نے بہت تعریف کی تھی ۔ غلام احمد پرویز کی طرف سے انکارحدیث کا فتنہ بعد میں آیا لیکن احناف کی اصول فقہ میں حدیث کا انکار ہی تو پڑھایا جاتا ہے۔حالانکہ قرآن ، احادیث اور ائمہ اربعہ کے مؤقف میں فرق نہیں تھا البتہ بعد کے علماء وفقہاء نے افراط وتفریط کی رسیاں کاٹی ہیں۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition #2. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

جب ان غلیظ لوگوں سے عوام کی عزتیں حلالہ سے لٹوادیں تب تمہیں ہوش آیاہے؟

لایؤاخذکم…”تمہیں اللہ لغو عہدوپیمان پر نہیں پکڑتا مگر جو تمہارے دِلوں نے کمایا ہے اس پر پکڑتا ہے اور اللہ غفور حلیم ہےOجو لوگ اپنی عورتوں سے نہ ملنے کا عہد کریں توان کیلئے چار ماہ ہیں،اگر آپس میں مل گئے توبیشک اللہ غفور رحیم

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ہےOاور اگر انکا عزم طلاق کا تھا تو بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہےOاور طلاق والی عورتیں اپنی جانوں کوتین مراحل تک انتظار میں رکھیں اور ان کیلئے حلال نہیں کہ چھپائیں جو اللہ

نے ان کے رحموں میں پیدا کیا ہے اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں اور ان کے شوہر اس میں ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں اگروہ اصلاح کرنا چاہیں…………O

سورۂ بقرہ کی آیات(224)کے بعد پھر (225،226،227اور228) کو ایک نظر فقہ میں موجود القائے شیطانی کی عینک اتار کر دیکھ لیں۔جب سکول کالج یونیورسٹیاں ،مدارس اور جامعات کا کوئی تصور نہیں تھا تب اللہ تعالیٰ نے ان پڑھ لوگوں کو بھی ان کے ذریعے سے رشدوہدایت کے اعلیٰ درجے پر پہنچایا تھا۔
جب آدمی بیوی کے پاس نہ جانے کیلئے کسی قسم کا بھی کوئی عہد کرتا ہے تو پھر مذہبی بنیاد پر سوچتا ہے کہ عورت سے صلح کرنا حرام تو نہیں ہے؟۔ اللہ نے اس وجہ سے حفظ ماتقدم کے طور پر فرمایا کہ اللہ کو اپنے عہدوپیمان کیلئے ڈھال مت بناؤ کہ تم نیکی ،تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح نہ کراؤ۔ جس طرح نیکی اور تقویٰ سے پہلوتہی برتنے کیلئے مذہب کا استعمال منع کیا گیا ہے ،اسی طرح سے میاں بیوی میں بھی صلح کا دروازہ بند کرنے کیلئے اللہ نے اپنی ذات اور مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے روک دیا ہے۔ اس کا پہلا درجہ یہ ہے کہ مرد اور عورت خود اپنے لئے کوئی ایسا عہد کریں کہ آپس میں صلح نہ کریں گے اور دوسرابھیانک درجہ یہ ہے کہ مذہبی طبقہ یہ فتویٰ سازی کریں کہ ا ب میاں بیوی کے درمیان صلح کی کوئی صورت باقی نہیں رہی ہے۔ قرآن کی آیات بالکل واضح ہیں۔
عورت کو صلح کا فتویٰ نہ دینے پر کتنی اذیت پہنچتی ہے؟ ۔ اس کا اندازہ قرآن کی سورۂ مجادلہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ جاہلیت میں ایک مذہبی رسمی فتویٰ یہ بھی تھا کہ شوہر اپنی بیوی کی پیٹھ کو اپنی ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دیتا تو وہ حرا م سمجھی جاتی تھی۔ اس شیطانی القا کو اللہ نے واضح کردیا تو فقہاء نے مسائل گھڑے دئیے کہ اگر وہ بیوی کی ران، اگاڑی اور پچھاڑی کو ماں کی …..سے تشبیہ دے تو پھر کیا حکم ہوگا؟ اور ان شیطانی القاؤں کو پھر مذہب کے نام سے دل کے مریضوں اور حلالہ کے ذوق اور ذائقہ سے آشنا لوگوں نے لوگوں میں اپنا اقتدار قائم کرنے کیلئے بعثت کا درجہ دے دیا۔ آج اگرعلماء سوء کا اقتدار ہوتا تو مجھے کربلا کی طرح شہید کیا جاتا۔
یہ شکر ہے کہ ان مذہبی لوگوں کے ذاتی مفادات مذہب سے وابستہ ہیں ورنہ تو وہ لوگوں کو ورغلاتے ہوئے یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ ہمارے آباء واجداد پارسی اور ہندو تھے ،ہم بھی سید عتیق الرحمن گیلانی کے نانا رسول اللہ ۖ کے دین اور قرآن کو چھوڑ کر دوبارہ اپنے آباء واجداد کے مذہب کی طرف لوٹنے کا اجتماعی فیصلہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اپنی کید کے جال میں پھنسا دیا ہے۔
فتاوی قاضی خان ، فتاویٰ تاتارخانیہ اور ہندوستان وکوئٹہ کی خدمات سے چھپنے والے فتوے میں جس طرح میاں بیوی میں شرمگاہ کے حوالے سے بیہودگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طلاق اور لونڈی کی آزادی کو یمین قرار دیا گیا ہے تو اس کی وجہ سے مجبوری میں یمین کا اصلی اور صحیح مفہوم نقل کرنے کیلئے اخلاقی تباہی والا فتویٰ نقل کرنا پڑا تھا۔ تاکہ علماء ومفتیان پر اتمام حجت ہو اور عوام بھی حقائق تک پہنچ جائیں۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے، خطرہ ہوتا ہے، جس طرح ہماری ریاست کو گھر کے بھیدی نوازشریف اینڈ کمپنی سے خطرہ ہے ،اسی طرح ہم سے مدارس کے نظام کو بھی خطرہ ہے اسلئے ہم پر ایجنسیوں کے ایجنٹ کا الزام لگا کر ہماری تحریک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ہم ایجنٹ تو کسی کے نہیںمگر خیرخواہ سب کے ضرور ہیں اسلئے کہ نبیۖ نے فرمایاکہ”دین خیرخواہی کا نام ہے”۔
آیت(225) میں اللہ نے واضح فرمایا کہ ” اللہ تمہیں لغو عہدوپیمان سے نہیں پکڑتا ہے مگر جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے اس پر پکڑتا ہے”۔ یہاں پر شیطان اپنی القا سے پھر فقہاء اور مفسرین کو تباہی کے راستے پر لے گیا۔ طلاق کی بات کو چھوڑ کر قسم اور حلف کی بحث شروع کردی۔ قسم کی اقسام بنادئیے اور سورۂ مائدہ کی آیت اور سورہ بقرہ کی آیت پر اختلافات کے انبار لگادئیے۔ اگر اصول فقہ میں نصاب کی کتابوں سے بحث کا خلاصہ پیش کیا جائے تو جذباتی لوگوں کو قابو رکھنا مشکل ہوگا اسلئے کہ ایسی واہیات قسم کی بکواس کسی بھی عقل والے کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتی ہے اور لوگ مارپیٹ اور لوٹ مار کیلئے بہانے تلاش کرتے ہیں۔
حالانکہ جب اَیمان (عہدوپیمان) سے حلف مراد ہو تو یہ قسم ہے اور اس پر کفارہ بھی ہے لیکن اگر حلف مراد نہ ہو تو پھر کفارہ نہیں ہے۔ قرآن و حدیث اور فقہ کی کتابوں میں مسائل واضح ہیں لیکن بہت الجھاؤ بھی پیدا کیا گیا ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ علماء کرام اور مفتیانِ عظام وقت سے پہلے اقدام اٹھالیں ورنہ تو مفتی تقی عثمانی کو عالمی اداروں کی طرف سے تحفظ اور پناہ کی امید ہوسکتی ہے لیکن عام علما کرام اور مفتیان عظام بیچارے آزمائش اور مشکل میں کیا کرینگے؟۔مجھے یہ خطرہ ہے کہ ہمیں بھی مار پڑے گی کہ کھل کر سب کچھ کیوں نہیں بتایا؟۔ جب ان غلیظ لوگوں سے عوام کی عزتیں حلالہ سے لٹوادیں تب تمہیں ہوش آیاہے؟۔اس میں شک نہیں ہے کہ ہم آہستہ آہستہ دھیمے طریقے سے اپنی تحریک چلانے کا جرم بھی سمجھتے ہیں۔ دو ٹوک انداز میں عوام سے توقع نہیں تھی کہ وہ حق قبول کرینگے یا پھر ہمیں ماریںگے اور دوسرا یہ کہ علماء کو علمی انداز میں سمجھانابھی ضروری تھا۔
مندرجہ بالا آیت میں الفاظ کے معانی بہت واضح ہیں۔ لغو الفاظ کا تعلق بھی طلاق سے ہی ہے۔ جسکے مقابلے میں دل کے گناہ پر پکڑنے کی وضاحت ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ لغو الفاظ پر اللہ کی طرف سے پکڑ نہیں ہے لیکن اگر بیوی نے پکڑنے کا پروگرام بنالیا تو وہ پکڑ سکتی ہے ۔ طلاق اور خلع میں حقوق کا فرق ہے۔ شوہر طلاق دے تو عورت کے مالی حقوق بہت زیادہ ہیں اور اگرعورت خلع لے تو پھر عورت کے مالی حقوق کم ہوجاتے ہیں اسلئے اگر عورت طلاق کے الفاظ کا دعویٰ کرے اور شوہر انکار کردے تو پھر گواہی اور شواہد پر فیصلہ ہوگا ۔اگر شواہد سے طلاق کی بات جھوٹی نکلے ، عورت کے پاس گواہ نہ ہوں وغیرہ تو پھر اس پر خلع کا اطلاق ہوگا۔ اس حوالے سے فقہاء نے ایسے بکواس مسائل ایجاد کررکھے ہیں کہ اگر طالبان خیر کی حکومت قائم ہوجائے تو ان تعلیمات کو پڑھانے والوں پر ڈنڈے توڑنا شروع کرینگے کہ ایسے غلیظ گھڑے ہوئے مسائل پڑھاتے ہو؟۔
آیت(226) میں اللہ نے واضح کیا ہے کہ اگر شوہر نے طلاق کا اظہار کئے بغیر بیوی سے ناراضگی جاری رکھی تو یہ نہیں ہوگا کہ ایام جاہلیت کی طرح عورت کو زندگی بھر بٹھاکر رکھا جائیگا بلکہ طلاق کے اظہار کی صورت میں اس کے انتظار کی عدت تین ادوار یا تین ماہ ہے تو طلاق کا اظہار نہ کرنے کی صورت میں عورت کی عدت میں ایک ماہ کا اضافہ ہوگا۔ چناچہ چار ماہ تک عدت ہوگی اور اگر اس میں یہ لوگ آپس میں راضی ہوگئے تو اللہ غفور رحیم ہے لیکن اگر ان کا عزم طلاق کا تھا تو پھر آیت (227) میں اللہ نے سمیع اور علیم کے ذریعے خبردار کیا ہے کہ یہ دل کا گناہ ہے اور اس پر اللہ پکڑے گا اسلئے کہ عورت کو ایک ماہ زیادہ انتظار کروایا ہے۔
اگر قرآن کی واضح آیات سے امت مسلمہ کو رہنمائی فراہم کی جاتی تو ہماری خواتین دنیا بھر میں اپنے حقوق پر بہت خوش رہتیں۔ ناراضگی کی حالت میں چار ماہ کا انتظار کوئی بڑی بات نہیں لیکن یہ طلاق کے حوالے سے انتظار کی عدت ہے اور اگر عورت خلع لے تو صحیح حدیث میں خلع کی عدت ایک ماہ ہے۔ خاتون اول بشریٰ بی بی پر تحریک انصاف کے ایم این اے (MNA) ڈاکٹر عامر لیاقت ، جیو ٹی وی اور مولانا فضل الرحمن نے عدت میں شادی کرنے کا الزام لگایا۔ حضرت امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ ”اگر میرا مسلک حدیث صحیحہ کے خلاف ہو تو اس کو دیوار پر دے مارو”۔ جب میدان لگے گا تو مجھے یقین ہے کہ فقہ حنفی کے مسلک کو جھوٹ پر مبنی قرآن وسنت کے خلاف بنانے والے دُم دباکر بھاگیں گے اور انکے مسلک کو دیوار پر نہیں پیچھے سے دبر پر مارا جائے گا۔ وہ وقت اب قریب دکھائی دیتا ہے۔
قارئین کو پھر تشویش ہوگی کہ ان آیات میں شیطان نے کیا القا کرکے کام دکھایا ہے؟۔ تو عرض یہ ہے کہ ناراضگی کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے چار ماہ انتظار کی مدت رکھی ہے۔ فقہ حنفی والے کہتے ہیں کہ چار ماہ گزرتے ہی طلاق واقع ہو جائے گی۔ پھر میاں بیوی کا آپس میں تعلق حرام کاری ہوگا۔ جمہور فقہاء ، علامہ ابن قیم، اور اہلحدیث کہتے ہیں کہ جب تک طلاق کا اظہار نہ ہو توزندگی بھر میں بھی طلاق نہیں ہوگی۔ اس بڑی تضاد بیانی کی بنیاد یہ ہے کہ حنفی کہتے ہیں کہ شوہر جب چار ماہ تک قسم کھانے کے بعد نہیں گیا تو شوہر نے طلاق کا حق استعمال کرلیا ہے ،اسلئے عورت کوطلاق ہوگئی۔ جمہور کہتے ہیں کہ اگر طلاق کا عزم بھی کرلیا لیکن جب تک زبان سے طلا ق کا اظہار نہیں کرے گا تو مرد نے اپنا حق استعمال نہیں کیا اسلئے عورت کا نکاح بدستو ر باقی رہے گا۔ اسلئے اتنا بڑا تضاد پیدا ہوگیا۔
قارئین کی تشویش کو ختم کرنے کیلئے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اللہ نے تو یہاں عورت کا حق بیان کیا تھا،تاکہ تاعمر اور غیرمحدود انتظار کی اذیت سے محفوظ ہوجائے۔ بدبختی میں دور پڑجانے والے فقہاء نے عورت کی اذیت کو نظرانداز کردیا تھا۔ عدت کا تصور مردوں کیلئے نہیں عورتوں کیلئے ہوتا ہے۔ فقہاء نے اس کو عدت سمجھا ہی نہیں ہے اسلئے کہ دین انکے باپ کی کھیتی ہے۔ حالانکہ یہ عدت ہے اور اس انتظار میں اور عدت کے انتظار میں صرف ایک ماہ کی مدت کا اضافہ ہے۔ اگر فقہاء ومفسرین اللہ کی منشاء کے مطابق عورت کی اذیت کو مدِ نظر رکھتے تو آیت میں کسی باغیانہ اختلاف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا اسلئے کہ عورت اس مدت میں انتظار کی پابند ہے اور اس مدت کے گزرنے سے پہلے باہمی رضا سے صلح کا دروازہ کھلا ہے لیکن اگر اس مدت میں بھی عورت صلح کیلئے راضی نہیں ہے تو پھر اس کو مرد اور ملا مجبور نہیں کرسکتا ہے۔اور اگر اس مدت کے گزرنے کے بعد بھی عورت صلح کیلئے راضی ہے تو پھر شریعت نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی ہے۔
عورت کا شوہر مرجائے تب بھی عدت کے بعد قیامت تک اس کا نکاح بھی باقی رہتا ہے لیکن اگر عورت بیوہ بننے کے بعد عدت ختم ہونے پر دوسرے سے نکاح کرنا چاہے تو وہ آزاد ہے۔ حکومت پاکستان کا قانون بھی یہ ہے لیکن فقہاء نے ایک طرف میاں بیوی میں سے ایک کے فوت ہونے کے بعد ایکدوسرے کیلئے اجنبی قرار دیا ہے کہ شکل نہیں دیکھ سکتے اور دوسری طرف عین الھدایہ میں لکھا ہے کہ میت مرد کی چیز کا حکم لکڑی کاہے ہے اگر عورت اپنے آگے اور مرد میت کی چیز کو اپنے پیچھے سے ڈال دے تو غسل نہیں ہے۔ العیاذ باللہ
فقہاء کے بلوپرنٹ مسائل کا ذوق دیکھ لو۔ کس طرح سے یہ اپنی کتابوں کو حلالہ کی لعنت کے مزے لینے کیلئے مزین کیاہے؟ ۔ حلالہ کو توکارِ ثواب تک بھی قرار دیا ہے اور مفتی عطاء اللہ نعیمی نے اپنی کتاب میں حلالہ کی وجہ سے نبی ۖ پر بھی بہت شدید حملہ کیا ہے اور نشاندہی کے باوجود بھی کتاب کوپھر چھپوایا ہے۔
جاہلیت میں اکٹھی تین طلاق پر حلالے کا فتویٰ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی آیت(228) میں طلاق سے رجوع کیلئے باہمی رضامندی کی شرط پر جاہلیت کا قلع قمع کردیا۔ فقہ حنفی کے مزاج اور اصول کی روشنی میں اس آیت میں اکٹھی تین طلاق پر حلالے کا فتویٰ بالکل بھی نہیں بنتا ہے۔ اور ایک طلاق کے بعد بھی شوہر کو یکطرفہ طور پر رجوع کا حق نہیں مل سکتا ہے۔ قرآن میں دونوں باتیں بالکل واضح ہیں لیکن اگر اس سلسلے میں شیطانی القا سے الٹے سیدھے مسائل کے انبار دیکھ لیں تو قارئین کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ شوہر چاہے تو ایک بار طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع کرلے۔ پھر طلاق دے اور عدت کے آخر میں ہی رجوع کرلے اور اس طرح تیسری بار اپنا یہ حق استعمال کرلے جو اللہ نے اس کو نہیں دیا ہے لیکن فقہاء نے شیطانی القا سے اس کو دیا ہے۔ تو عورت عدت کے تین ادوار گزارنے پر مجبور ہوگی۔ علاوہ ازیں یہ کتنی بھونڈی بات ہے کہ اللہ نے تو عدت میں باہمی رضامندی سے رجوع کا حق دیا ہے مگر مولوی شیطان لعین کی بات مان کر عدت تک انتظار اور حلالے کی لعنت کا فتویٰ دیتا ہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہے اور قرآن کی آیت کے منکر ہیں وہ حلالہ کے نام پر خدمات جاری رکھ رہے ہیں اور جو اہل علم ہیں ،انہوں نے اللہ کی محکم آیات کی وجہ سے ابھی حلالہ کی لعنت کے فتوے چھوڑ دئیے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی کے دارالعلوم کراچی میں بھی وہ خدا ترس ہیں جنہوں نے اپنے طور پر اللہ کے احکام کو جاری کرنیکی کوشش کی ہے مگر ان کی بات نہیں مانی جارہی ہے۔ سانڈ قسم کے لوگوں سے قیمتی جانوں کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے۔ جان کو خطرہ ہو تو اللہ نے کلمۂ کفر کوبھی قابلِ معافی قرار دیا۔ جان بوجھ کر علماء ومفتیان نے ہٹ دھرمی کا سلسلہ جاری رکھا ہے لیکن اللہ کی ذات بہت طاقتور ہے اور وہ ان کا اچانک بڑا مؤاخذہ کرسکتا ہے ہماری کوشش سے بہت لوگ حلالہ کی لعنت سے بچ گئے ہیں۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition #2. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

قرآن کی تفسیر اور ترجمہ میں اذی کے معنی گند کے یہ شیطانی القا ہے

ویسئلونک عن المحیض قل ھواذیً…”اور تجھ سے حیض کا پوچھتے ہیں،کہہ دو کہ وہ اذیت ہے،پس کنارہ کش رہو عورتوں سے اور انکے قریب مت جاؤ،یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں،جب پاک ہوجائیں تو جاؤانکے پاس جیسے اللہ نے حکم دیا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

بیشک اللہ پسندکرتا ہے توبہ والوں کو اور پاکبازوں کوOتمہاری عورتیں تمہارا اثاثہ ہیں،اپنے اثاثہ کے پاس آؤ جیسے چاہو،اپنے نفسوں کیلئے آگے بھیجواور اللہ سے ڈرواور جان لوکہ تم نے

اس سے ملنا ہے اورخوشخبری دو مؤمنوں کوOاورمت بناؤتم اللہ کواپنے عہد وپیمان کیلئے ڈھال کہ تم نیکی کرو،تقویٰ اختیار کرواور لوگوں میں صلح کراؤاور اللہ سننے والاہے جاننے والا ہےO

سورۂ بقرہ کی مندرجہ بالاآیات(222)سے(224)تک عورتوں کے حقوق کا مقدمہ ہیں۔قرآن کی سب سے بہترین تفسیرآیات سے آیات کی تفسیر ہے اور آیت (222)میں اذی کے معنی اذیت کے ہیں۔ قرآن میں کہیں پر بھی اذی کے معنی گند کے نہیں۔ سید مودودی بریلوی دیوبندی علمائ نے اذیت کا ترجمہ گند کیا۔ عربی کی لغت کی کتب میں بھی اذی کے معنی گند نہیں ۔ عربی بہت وسیع ہے،شیر کے عربی میں (500) نام ہیں لیکن گند کیلئے اذیت کا کہیں ایک بھی لفظ نہیںہے۔
اب مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن وسنت اورعربی لغت میں اذی کے معانی گند کے کہیں نہیں تو پھر قرآن کی تفسیر اور ترجمہ میں اذی کے معنی گند کے کیسے اور کہاں سے آئے؟۔ اس کا بالکل دو ٹوک جواب یہ ہے کہ یہ شیطانی القا ہے جس کا ذکر سورہ ٔ حج کی (آیت52)میں اللہ نے بہت واضح طور سے کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس شیطانی القا کا نقصان کیا ہے؟۔ جواب یہ ہے کہ اس کی وجہ سے عورتوں کے حقوق کی ساری بنیادیں ختم کردی گئیں ہیں۔
جماع فی الدبرکی اذیت سے لیکر ،عورت کی شوہر سے صلح، عدت میں اذیت کا خیال ،طلاق کے بعد رجوع کیلئے عورت کی رضامندی اور عورت کے مالی حقوق کا تحفظ سب کے سب کواس شیطانی القا نے پامال کرکے رکھ دیا ہے۔ آیت(222)سے (232) تک ہم نے بار بار وضاحت کی ہے۔ علماء کا ضمیر اسلئے نہیں جاگتاہے کہ ان کو اپنے مذہبی ریاست کا پوراڈھانچہ گرتا دکھائی دیتا ہے۔ بادشاہوں کے دربارمیںایک طرف علماء حق کا زبردست، دوسری طرف علماء سوء کابدترین کردار تھا۔ درباری علماء نے ہر دور میںاسلام کا حلیہ بگاڑ دیاہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اورمفتی اعظم پاکستان مفتی محمدرفیع عثمانی تو درباری علما ء کا ٹولہ تھا مگر حضرت مولانا سیدمحمد یوسف بنوری اور انکے استاذ مولانا سیدانورشاہ کشمیری اور انکے شاگرد حضرت مفتی محمد زرولی خان ، حضرت مولاناقاری اللہ داد مدظلہ العالی تو درباری علماء نہیں ،پھر وہ اس القا شیطانی کے کیوں شکار ہوئے ہیں؟۔
علامہ سید سلیمان ندوی نے معارف اعظم گڑھ میں جاندار کی تصویر کو جواز بخشنے کیلئے زبردست دلائل دئیے۔ دارالعلوم دیوبند کا ماہنامہ جریدہ تھا جس طرح مولانا محمد یوسف لدھیانوی کا تعلق تعلیم و تدریس اور فتویٰ سے نہیں تھا بلکہ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے ماہنامہ البینات سے تھا۔ یا جن کا تعلق دارالعلوم کراچی کے ماہنامہ البلاغ سے ہے۔ ڈاکٹر اسرار کی تنظیم اسلامی کے جرائد، جماعت اسلامی کے ترجمان القرآن اور غلام احمد پرویز کے ماہنامہ طلوع اسلام لاہور وغیرہ ہیں۔ اسی طرح مولانا ندوی نے معارف اعظم گڑھ میں اپنی تحقیق لکھ دی تو دارالعلوم دیوبند کے ماہنامہ کے ایڈیٹر پہلے سید ابولاعلیٰ مودودی تھے، اس کی شکل اورداڑھی ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کی طرح تھی۔دارالعلوم دیوبند کے علماء کے پاس جب علامہ سید سلیمان ندوی کی طرف سے جاندار کی تصویر پر کوئی علمی جواب نہیں تھا تو مفتی محمد شفیع جو اس وقت ان کے بقول طالب علمی اور عالم ہونے کے درمیانی درجہ میں تھے، اساتذہ نے علامہ ندوی کے معارف کا جواب لکھنے کا کہا کہ اس کوماہنامہ رسالے میں چھاپ دیا جائیگا۔ چناچہ مفتی محمد شفیع نے جاندار کی تصویر پر ایسی بچکانہ خرافات لکھ دیں کہ پانچویں جماعت کے بچے کو بھی اس پر ہنسی آئے گی۔ علامہ سید سلیمان ندوی اورمولانا ابواکلام آزاد نے ان جاہلوں کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے اور سیدابوالاعلیٰ مودودی نے انکی علمی اوقات کا اندازہ لگایا اور خود بتدریج ایک لمبی داڑھی رکھ کر جماعت اسلامی کے نام سے ایک جماعت کی بنیاد ڈال دی اور بڑے بڑوں کو پہلے ہنکایا لیکن پھر مولاناعلی میاں ابوالحسن علی ندوی، مولانا محمد منظور نعمانی اور دیگر لوگ چھوڑ کر گئے اور سید مودودی نے لکھا کہ ” مجھے پتہ تھا کہ جس ہاون دستے میں اپنا سر میں نے دیا ہے یہ بدھ مت میں بخشو قسم کے لوگ اس کی دھمک کی آواز دور سے سن کر بھاگ جائیںگے”۔ پھر مولانا مودودی سے الگ ہونے کے بعد ڈاکٹر اسرار اور جاویدغامدی جیسے لوگوں نے اپنی اپنی دکانیں دین کے نام پر چمکائیں۔
اگر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع، شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی چاہتے تو حکومت پاکستان کی طرف سے کرنسی پر قائداعظم کی تصویر کو ختم کردیا جاتا اسلئے کہ شب قدر میں بننے والے پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنا تھا، فرشتوں کو نہیں بھگانا تھا لیکن مفتی شفیع نے کرنسی کے نوٹ اور تجارت کی اشیاء پر تصاویر کو اپنی کتاب میں جائز قرار دیا۔ جے یو آئی ف کے مرکزی امیر مولاناعبدالکریم بیرشریف نے حج وعمرے کئے لیکن شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کیلئے بھی تصویر نہیں نکالی تھی لیکن جب ہم نے کرنسی کے حوالہ سے فقہ کی معتبر کتاب مجموعة الفتاویٰ کا حوالہ دیکر پاکستانی کرنسی پر تصویر کے ناجائز ہونے کا فتویٰ مانگا تو انکار کردیا اسلئے کہ شکرانے کے نوٹ پھر جیب میںنہیں پڑسکتے تھے۔ شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جب مولانا فضل الرحمن نے یہ دیکھا تو جے یو آئی کے امیرکے عہدے پر اس کو شکست بھی دیدی۔ یہ سارا دیمک زدہ ماحول ہے جس کے خول سے بھی لوگ ڈرتے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ تاریخی درباری علماء سے آج کی جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی اور جاوید غامدی سب کے سب ٹی وی پر پیش ہونے والے اشتہار کی طرح بادشاہوں ، عالمی قوتوںاورریاستی اداروں کیلئے کنڈوم ہیں تو اس سے ان لوگوں کو کتنی اذیت پہنچے گی؟۔ یا اگریہ کہا جائے کہ اسلام کی خدمت نہیں کرتے بلکہ عالمی قوتوں و ریاستی اداروں کیلئے ٹشوپیپر ہیں تو کس قدر اذیت ہوگی؟۔
جب دہشتگرد وں نے قتل وغارتگری کا بازار گرم کررکھاتھا، پیپلزپارٹی اور اے این پی (ANP) کو مرکز اور صوبہ پختونخواہ میںنشانہ بنارہے تھے تو جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم ،ڈاکٹر فریدپراچہ اور جمعیت علماء اسلام کے مفتی کفایت اللہ وغیرہ کس طرح طالبان کو سپورٹ کررہے تھے؟۔ شہباز شریف اور عمران خان نے کس طرح سپورٹ دی تھی؟۔ انصار عباسی کس طرح اسلام پسند تھے؟۔ جس کی وجہ سے پنجاب میں جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ قسم کے چیف جسٹس خواجہ شریف کو قتل کرنیکی سازش تخلیق کرکے گورنر پنجاب سلمان تاثیراور آصف علی زرداری کو صدارت کی کرسی سے فارغ کرکے پھانسی پر لٹکانا تھا؟۔ یہ وہی انصار عباسی ہے جس کوجماعت اسلامی کا تربیت یافتہ اورمشرف کا جھوٹا وزیر اطلاعات محمد علی درانی واحد ایماندار صحافی کہتا تھا۔ جس نے کہا تھا کہ خلافت راشدہ میں کسی خلیفہ کو استثنیٰ حاصل نہیں تھا تو صدر مملکت آصف علی زرداری کو اسلامی آئین کے تحت استثنیٰ نہیںمل سکتا ہے لیکن پاک فوج پر تنقید آئین کے خلاف ہے۔
آج ن لیگ کہتی ہے کہ آصف علی زرداری نے بینظیر بھٹو کے قتل پر کہا تھا کہ پاکستان کھپے لیکن اگر مریم نواز کو کچھ ہوا تو ہم پاکستان کھپے کا نعرہ نہیں بالکل بھی نہیں لگائیںگے۔ انصار عباسی پاکستان، اسلام اور پاک فوج کی وفاداری کو نوازشریف پر قربان کریںگے اسلئے تو نذیر ناجی نے میڈیا پر اس کو کتے کا بچہ کہا تھا حالانکہ دونوں کا تعلق جیو ٹی وی سے تھا۔ ریاستی اداروں نے جن ضمیر فروشوں کو پالا تھا، آج سب سے زیادہ بے ضمیری کا مظاہرہ یہی لوگ کررہے ہیں۔
حضرت علی کا قول ہے کہ کسی پر طنز مت کرو اسلئے کہ جب سمندر میں پتھر پھینک دیا جاتا ہے تو یہ پتہ نہیں چلتا ہے کہ وہ کتنا گہرا ئی میں جاتا ہے۔
جب ایک عورت کو حلالے کی ضرورت نہ ہو اور اس کو اس لعنت کی اذیت سے گزارا جائے تو اس خاتون، اسکے بچوں، اسکے والدین، اسکے بہن بھائیوں، اسکے سسرال والوں اور اسکے عزیز واقارب اور جاننے والوں پر کیا گزرتی ہے؟ لیکن ان مردہ ضمیر لوگوں میں احساس تک نہیں ہے۔ بہت لوگ تو اسلام چھوڑ چکے ہیں اور وہ خوف اور ڈر کے مارے مسلمان ہیں کہ مرتد کا فتویٰ لگاکر ماردیا جائیگا۔ ایک بڑی مسجد کے امام نے کہا کہ اسلام سمیت تمام مذاہب باطل ہیں ، ان سے لوگوں کو فائدہ نہیں نقصان ہی پہنچا ہے۔ ہمارا ساتھی سیدھا سادا تھا اس نے کہا کہ تمہارے لاؤڈاسپیکر کی آواز خراب ہے ،اس کو ٹھیک کرو۔ میں نے کہا کہ اس سے یہ کہنا چاہئے تھا کہ ”پھر مسجد میں لوگوں کو بندر کی طرح پریڈ کرانے کی امامت کا کیا فائدہ ہے۔ پھر مسجد کے مقتدیوں میں اعلان کرکے مسجد کی جان کیوں نہیں چھوڑتے ہو”۔ بہت سارے مذہبی لوگ ابھی چھپے رستم بنے ہوئے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ شیطان نے قرآن کی آیت کی تفسیر اور ترجمے میں یہ نقب کیسے لگائی اور اس کا حل کیا ہے۔ اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ قرآن کی آیت کے غلط استنباط سے شیطان نے القاء کا فائدہ اُٹھایا۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو اللہ نے حیض کو اذیت قرار دیا ہے اور ساتھ میں یہ بھی فرمایا ہے کہ عورتوں سے کنارہ کشی اختیار کرو ،حیض میں ان کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں۔ اس تناظر میں یہ استنباط کیا گیا ہے کہ حیض اذیت ہے اور اذیت کا معنی گند ہے۔ حالانکہ اللہ نے آیت میں توبہ کرنے والوں کو بھی پسند کرنے اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو بھی پسند کرنے کا فرمایا ہے۔ اذیت سے توبہ ہوتا ہے اور گند سے دوری پاکیزگی ہوتی ہے۔ حیض میں عورت کو تکلیف بھی ہوتی ہے اور ناپاکی بھی۔ قرآن نے شیطانی القا کو راستہ بھی دیا ہے تاکہ جن دل کے مریضوں نے فتنہ میں مبتلا ء ہونا ہو ،ان کو گمراہی کا موقع ملے اور آیات سے محکم احکام کو بھی واضح کیا ہے تاکہ اہل علم اس سے رہنمائی حاصل کرکے اللہ کے احکام پر چلیں۔ انبیاء کرام اسلئے معصوم تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بروقت رہنمائی کی تھی لیکن علماء وفقہاء معصوم نہ تھے اور اللہ نے آیات میں دین کو محفوظ کیاہے۔
پھر سورۂ بقرہ کی اگلی آیت(223)میں فرمایا کہ ” تمہاری عورتیں تمہارا اثاثہ ہیں، اپنے اثاثہ کے پاس آؤ جیسے چاہو”۔ اگر عورت کو کھیتی قرار دیا جائے تو اسکے حقوق جانور سے بھی بدتر ہونگے۔ لاہور میں ایک بلی کے بچے پر زیادتی کا شور ہوا تھا لیکن کم سن بچیوں کی شادی اور ان کو اذیت پہنچانے کا خیال کبھی فقہاء کرام اور علماء عظام کے دل ودماغ میں نہیں آیا اسلئے کہ عورت کی اذیت اور اس سے توبہ کرنے کا کوئی سوال نہیں بنتا تھا، حیض کی اذیت محض گند تھا اورشب زفاف سے بچے کی پیدائش تک تقدیر نے اس کی قسمت میں ویسے بھی اذیت ہی اذیت رکھی ہے تو پھر ایک حیض کی اذیت کو گند سے بدلنے میں کیا فرق پڑتا ہے جبکہ حیض ایک گند ہے بھی سہی؟۔ پھر فقہاء نے جماع فی الدبر میں بھی اذیت کا خیال نہیں رکھا بلکہ کسی نے کہا گند ہے اور کسی نے کہا جماع فی القبل میں کونسی پاکی ہے وہ بھی تو پیشاب کا راستہ ہے۔ یہ تو خیال رکھا ہی نہیں کہ عورت کا بھی کوئی حق ہے یا نہیںہے؟۔ واضح آیات پر حلال و حرام میں تفرقے قائم کئے گئے ہیں۔
عربی میں حرث اثاثہ کو بھی کہتے ہیں اور کھیتی کو بھی۔ اثاثہ کا لفظ انگریزی اور اردو میں بھی دونوں معانی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ سائنس میں عناصر کی صفات کوا ن کا ایسٹ اثاثہ کہتے ہیں۔ عناصر سے ایسٹ کا تعلق دائمی ہوتا ہے اسلئے جب کوئی اپنے قابل بیٹے کو اپنا اثاثہ یا ایسٹ کہتا ہے تو یہ مالی اثاثہ جات کی طرح نہیں ہوتا ہے۔ بیگمات کو بھی اثاثہ اس خاص معنی میں کہا گیا ہے جس سے اولاد کا شجرہ خلد بھی وابستہ ہے اور جنت تک یہ تعلق نیکوکاروں کیلئے بحال رہتا ہے۔
پھر آیت(224)میں اللہ نے اَیمان یعنی عہدو پیمان کا ذکر کیا ہے۔ کوئی عہد کرتا ہے کہ میں مولوی کو دوروپے نہیں دوں گا، پیرصاحب کو شکرانہ نہیں دوں گا اور اس مذہبی طبقے سے لاتعلق رہوں گا یا انکے درمیان صلح نہ کراؤں گا تو پھر علماء ومفتیان اپنے لئے فوری طور پر سورہ ٔ بقرہ کی آیت(224) نکال کر حقیقت واضح کرینگے۔ لیکن جب میاں بیوی کے درمیان صلح کا معاملہ آئے گا تو پھر فقہ کی کتابوں سے مسئلہ کی تلاش شروع کرینگے۔ فقہی مسائل ایک دو نہیں سب کے سب شیطانی القا کا ملغوبہ ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں عورت کی اذیت کو ہی مدنظر رکھ کر واضح کیا ہے کہ مذہبی بہروپیوسے ہوشیار بنو اور مذہب کو ڈھال بناکر یہ فتویٰ مت دو کہ اللہ صلح میں رکاوٹ ہے۔ ظہار کے معاملے میں باطل مذہبی قول صلح میں رکاوٹ تھا تو اللہ نے عورت کو اذیت سے نجات دی۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition #2. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی، اہلحدیث حنفی اور مسلمان عیسائی میں غلط فہمیوں کا ازالہ بہت ضروری ہے

شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی، اہلحدیث حنفی اور مسلمان عیسائی میں غلط فہمیوں کا ازالہ بہت ضروری ہے،جب ہم اپنے علم اور عمل کو درست کرلیںگے تو دنیا بھر کے عیسائی یہود کے مقابلے میں مسلمانوں کو سپورٹ کریںگے، انشاء اللہ!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

امریکہ میں بارک حسین اوبامہ نے بھی حکومت کی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جیل سے رہائی کے بعد سو فیصد ووٹوں کیساتھ پہلی خاتون امریکی صدر کا اعزاز بہت آسانی کیساتھ مل سکتا ہے!

اہلیان پاکستان سے نظام بدلنے کی درخواست ہے لیکن ہماری حکومت، ریاست اور سیاستدانوں کی اب مجبوری بن چکی ہے کہ اس فرسودہ نظام کو بدلنے میں دیر نہ لگائیں ورنہ خیر نہ ہوگی

یسئلک اھل الکتٰب ان تنزِّل علیھم کتٰبًا من السماء فقد سالوا موسیٰ اکبر من ذٰلک فقالوا ارنا اللہ جھرةً فاخذتھم الصّٰعقة بظلمھم ثم اتخذوا العجل من بعد ماجآء تھم البےّنٰت فعفونا عن ذٰلک واتینا موسٰی سلطٰنًا مبینًاOو رفعنا فوقھم الطّور بمیثاقھم وقلنا لھم ادخلوا الباب سجدًا وقلنا لھم لاتعدوا فی السّبت و اخذنا منھم میثاقًا غیلظًاOفبما نقضھم میثاقھم و کفرھم باٰےٰت اللہ وقتلھم الانبیآء بغیر حق وقلولھم غلف بل طبع اللہُ علیھا بکفرھم فلایؤمنون الاقلیلًاOوبکفرھم وقولھم علی مریم بھتانًا عظیمًاOوقولھم انا قتلنا المسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ وماقتلوہ وماصلبوہ ولٰکن شبّہ لھم وانّ الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الا اتباع الظنّ وماقتلوہ یقینًاOبل رفعہ اللہ الیہ و کان اللہ عزیزًا حکیمًاOوان من اہل الکتٰب الا لیؤمننّ بہ قبل موتہ ویوم القیٰمة یکون علیھم شھیدًاOفبظلمٍ من الذین ھادوا حرّمنا علیھم طےّبٰت اُحلت لھم وبصدّ ھم عن سبیل اللہ کثیرًاOواخذھم الربٰواوقد نھوا عنہ واکلھم اموال الناس بالباطل واعتدنا للکٰفرین منھم عذابًا الیمًاOلٰکن الرّٰ سخون فی العلم منھم والمؤمنون یؤمنون بماانزل الیک ومآانزل من قبلک و المقیمین الصلوٰة والمؤتون الزکٰوة والمؤمنون باللہ والیوم الآخر اُولئک سنؤتیھم اجرًا عظیمًاO(سورہ النساء آیات153سے162تک)
ترجمہ ” اہل کتاب آپ سے پوچھتے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے کوئی تحریر نازل کراؤ۔ پس یہ موسیٰ سے بڑا سوال کرچکے ہیں اس سے پہلے۔ تو انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں اللہ کو ظاہری طور پر دکھادو۔ پھر بجلی نے ان کو پکڑلیا انکے ظلم کی وجہ سے۔ پھر انہوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنالیا۔ پھر ہم نے ان سے درگزر کیا اور موسیٰ کو کھلا غلبہ دیا۔ اور ان پر کوہ طور اٹھایا ان کے عہد کی وجہ سے اور ان سے کہا کہ دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوجاؤ۔ اور ان سے کہا کہ سبت میں داخل مت ہو۔ اور ان سے بہت پختہ عہد لے لیا۔ پس ان کی عہد شکنی کے سبب اور اللہ کی آیات سے انکار کے سبب اور انبیاء کو بغیر حق کے قتل کرنے کے سبب اور ان کے اس قول کے سبب کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں۔بلکہ اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپّا لگادیا ہے ان کے کفر کے سبب ۔پس وہ ایمان نہیں لائیں گے مگر ان میں کم لوگ۔ اور انکے کفر کے سبب اور انکے اس قول کے سبب جو مریم پر بڑا بہتان لگادیا ہے۔ اور انکے اس قول کے سبب کہ ہم نے مسیح ابن مریم اللہ کے رسول کو قتل کردیا ہے۔ اور انہوں نے نہ اس کو قتل کیا ہے اور نہ سولی دی ہے بلکہ ان پر معاملہ ان کیلئے مشتبہ کردیا ہے۔ اور جو لوگ اس میں اختلاف کررہے ہیں تو اس میں شک میں پڑے ہیں۔ ان کو اس حوالے سے علم نہیں ہے مگر اپنے گمان کا اتباع کرتے ہیں۔ اور انہوں نے یقینی طور پر اس کو قتل نہیں کیا ہے۔ بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اُوپر اُٹھالیا ہے۔اور اللہ تو تھا ہی زبردست حکمت والا۔ اور اہل کتاب میں سے بعض لوگ ان پر ان کی موت سے پہلے ایمان لائیں گے۔ اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوگا۔ پس ظلم کے سبب ان لوگوں میں سے جو یہود ہیں ہم نے ان پر حرام کردیاپاک چیزوں کو جو ان کیلئے حلال تھیں، اور بسبب اس کے کہ انہوں نے اللہ کی راہ میں بہت رکاوٹیں کھڑی کیں۔ اور بسبب انکے سود لینے کے اور تحقیق کہ ان کو اس سے منع کیا گیا تھا اور بسبب انکا لوگوں کے اموال باطل طریقے سے کھانے کے۔ اور کافروں کیلئے درد ناک عذاب تیار کررکھا ہے جو ان میں سے ہیں۔ لیکن جو علم میں راسخ ہیں ان میں سے اور جو مؤمنین ہیں ایمان لاتے ہیں اس پرجو تیری طرف نازل کیا گیااور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور جو نماز کو قائم کرتے ہیںاور زکوٰة دیتے ہیں اور ایمان رکھتے ہیں اللہ وآخرت کے دن پر ، یہ وہ ہیں جن کو عنقریب بہت بڑا اجر ملے گا”۔
سورۂ النساء کے اس رکوع کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے بہت کھلی کھلی باتیں کی ہیں۔ یہود کے جرائم کی فہرست گنوائی ہے اور اہل کتاب کے مطالبات اور حضرت مریم پر بہتان عظیم کے جرم کا ذکر کیا اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل اور اس پر شبہات کا ذکر ہے ۔ اللہ نے اس حوالے سے واضح کردیا کہ اس پر اختلاف کرنے والے ظن کا اتباع کرتے ہیں۔ یہود کے مقابلے میں نصاریٰ کا مؤقف قرآن نے درست قرار دیا ہے۔ قادیانی اوریہود ایک مؤقف رکھتے ہیں اور اس وجہ سے مل جل کر دنیا پر اپنے باطل غلبے کی توقع رکھتے ہیں۔ اللہ نے ہفتہ کے دن پاک مچھلیوں کے شکار کو یہود پر ان کی عہد شکنی ، ظلم اور کفر کی وجہ سے حرام کردیا تھا وہ اللہ کی راہ سے کثرت سے روکتے تھے۔ سودلینے سے منع کرنے کے باوجود بھی نہیں رُکتے تھے اور لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے تھے۔ ان کے ذہن میں یہ تھا کہ انکے دل محفوظ ہیں لیکن اللہ نے ان پر ٹھپے لگادئیے تھے۔
آج مفتی محمد تقی عثمانی اور جامعة الرشید والے سودی کاروبار کی ٹریننگ دے رہے ہیں۔ لوگوں کے اموال کو باطل طریقے سے کھارہے ہیں لیکن اپنے دلوں کے محفوظ ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ یہی یہود کی اتباع نہیں تو کیا ہے؟۔
اللہ تعالیٰ نے سارے یہود نہیں بلکہ یہودی کافروں میں سے بعض کیلئے عذاب کی خبر دی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے سود خوری اور باطل طریقے سے ساری دنیا کے اموال واسباب کو ہتھیانے اور فسادات کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن ان میں کچھ لوگ علم میں راسخ ہیں۔ ان کو عذاب دینے کی اللہ نے بات نہیں کی ہے اور ان میں جو بڑے جرائم میں ملوث نہیں ہیں وہ بھی دردناک عذاب کے مستحق نہیں قرار پائے ہیں۔ قرآن کے الفاظ میں بہت زبردست طریقے سے اس کی وضاحت ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے بعد ان مؤمنوں کا ذکر کیا ہے جن کو دنیا اور قرآن کی زبان میں امت مسلمہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ لوگ بھی دردناک عذاب کے مستحق نہیں ہیں۔جن کی صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ نبیۖ پر نازل کردہ کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور آپ سے پہلے کی نازل کردہ کتابوں پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ اور زکوٰة دیتے ہیں اور اللہ و آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کو عنقریب بڑا اجر مل جائے گا۔
اسلام کی نشاة اول میں بھی دنیا نے خلافت راشدہ کی فتوحات سے قرآن میں موجود اللہ کے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے دیکھا ہے اور اب بھی بعید نہیں کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ شاندار فتوحات سے نوازدے ۔ لیکن ہمیں اپنی غلطیوں کی اصلاح کیلئے قرآن کریم اور سنت رسول ۖ کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ نبیۖ نے عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی خصوصی تعلیم فرمائی تھی اور قرآن میں انکے حقوق کی زبردست وضاحت ہے لیکن شیطانی القا نے معاملہ خراب کردیا ہے۔
جب یہود کی مذہبی کتابوں میں (12)سال سے پہلے لڑکی سے نکاح جائز نہیں ہو اور ہماری مذہبی کتابوں میں( 9)سال اور اس سے کم عمر بچیوں کا نکاح بھی جائز ہو۔ انگریزی نظام کی جمہوریت ، سیاست اور عدالت نے نابالغ بچیوں کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی ہو لیکن ہماری فقہ میں بچی کی شادی اس کی مرضی کے بغیر زبردستی سے بھی جائز ہو۔ مغربی نظام نے اس میں قانونی رکاوٹ ڈالی ہو مگر پاکستان میں عملی طور پر ڈارک ویب کیلئے کام کرنے والے اور جنسی خواہشات کی تسکین کیلئے کم عمر بچیوں کو ریپ کرکے قتل بھی کیا جاتا ہو۔ اگر مذہبی لوگوں میں علم کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں تو پھر سب سے زیادہ اچھے لوگ یہی نکلیں گے۔
صحیح مسلم شریف کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ” اہل غرب ہمیشہ حق پر رہیںگے ”۔ مغرب میں قبولیتِ حق کا جذبہ ہے ، وہ اپنی طاقت سے فائدہ اٹھاکر ہمیں اور ہمارے مذہبی مقامات کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں لیکن وہ ایسا کرنے کو خلافِ حق سمجھتے ہیںجبکہ ہمارے دہشتگردوں کا بس چلے تو حرمین شریفین اور اچھے لوگوں کی قبروں کو بھی معاف نہ کریں۔
جب فرشتے قوم لوط کو عذاب دینے کیلئے آگئے تو حضرت لوط علیہ السلام کو اپنے مہمانوں کی بے حرمتی کا خوف ہوا،کیونکہ فرشتے لڑکوں کی صورت میں آئے تھے۔حضرت لوط نے کہا کہ ” یہ میری بیٹیاں ہیں،اگر تم کرنا چاہتے ہو تو”۔ وہ کہنے لگے کہ ہمیں ان سے کوئی غرض نہیں ہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ قوم کی بیٹیاں اور ان لوگوں کی بیویاں بھی حضرت لوط کی بیٹیوں کی طرح تھیں اسلئے ان کو جائز طریقے سے اپنی خواہشات پوری کرنے کی تلقین فرمائی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس بات کی بہت سختی کیساتھ مخالفت کی ہے کہ کوئی اپنی طرف سے کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دے۔ اہل تشیع نے جماع فی الدبر پر احتیاط سے کام لیکر سخت ترین مکروہ قرار دیا ہے لیکن اہل سنت کے فقہ حنفی نے اس کو حرام قرار دیا ہے اور امام مالک نے حلال قرار دیا ہے۔ اہل سنت کے نزدیک اس پر صحابہ کے درمیان بھی حلال اور حرام کا اختلاف تھا۔ اگر عورت کے حقوق کا اصل مسئلہ ذہن نشین بلکہ دل نشین ہوجائے تو اختلاف کا مسئلہ بھی نہیں رہے گا۔ جب مسئلے کو بنیاد سے ہی خراب کردیا جائے تو پھر الجھنیں بڑھتی جاتی ہیں۔
جہاں اللہ تعالیٰ نے عورت کے تحفظ کیلئے آیات محکمات نازل کی ہیں لیکن آیات محکمات کا بھی فقہی مسالک کے ذریعے سے بیڑہ غرق کیا جائے تو پھر اور کیا ایسی چیز ہوسکتی ہے کہ عورتوں کا تحفظ کرنے کا باعث بن سکتی ہوں سوائے اس کے کہ عورت مارچ میں خواتین اپنے حقوق کا نعرہ لگائیں؟۔القائے شیطانی نے پہلے بھی مذاہب کو مسخ کردیا تھا ۔ دنیا بھر کے مذاہب سے خواتین نے اسلئے اپنی بغاوت کا اعلان کیا ہے کہ وہ انکے حقوق میں رکاوٹ بنے تھے۔ پچھلے سال بھی عورت مارچ کو روکنے کی ہرممکن کوشش ناکام ہوئی تھی اور اس دفعہ مشکلات کھڑی کرنے والوں نے اپنی ہمت بھی نہیں دکھائی ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت رک سکتا ہے کہ جب مذہبی طبقات مساجد، مدارس، مذہبی اجتماعات اور سیاسی پلیٹ فارم سے گلی کوچوں اور میڈیا پر ان حقوق کی بات کریں جو قرآن نے ان کودئیے ہیں اور مذہبی طبقات اس پر متفق ہوکر ایک زبردست لائحۂ عمل بناکر پیش کریں۔
جب مذہب نے جھوٹ اور منکر قول سے عورت کو اس اذیت میں مبتلاء کیا تھا کہ” اگر شوہر اپنی بیوی سے کہے کہ آپ کی پیٹھ مجھ پر اپنی ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔ تو بیوی اپنے شوہر پر اپنی حقیقی ماں کی طرح حرام ہوجاتی ہے”۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ۖ کی سیرت کو نہ صرف مسلمانوں کیلئے بلکہ عالم ِ انسانیت کیلئے اعلیٰ نمونہ بنایا ہے۔ ایک خاتون حضرت خولہ بنت ثعلبہ سے اسکے شوہر نے ظہار کیا تو رسول اللہ ۖ نے مذہبی ماحول کے مطابق سمجھ لیا کہ وہ اب اپنے شوہر پر حرام ہوچکی ہے۔ وہ عورت اپنے حق کیلئے بارگاہِ رسالت ۖ میں مجادلہ کرنے بیٹھ گئی۔ آج کا مولوی ہوتا تو سیرت رسول سمجھ کر عورت کی ہڈیاں طالب علموں سے تڑوادیتا کہ شریعت کے خلاف اپنے حق کی بات کیسے کررہی ہے؟۔ اسلام کو اسلئے اللہ نے لازوال دین بنادیا کہ سورۂ مجادلہ میں اس واقعہ کو محفوظ کردیا ہے۔
امریکن ایرانی نژاد خاتون نے واقعہ لکھ دیا کہ عورت کیساتھ جماع فی الدبر کا ارتکاب ہورہاتھا۔ حق مہر سے زیادہ قیمت دے کرخلع لینے پر مجبور ہوگئی لیکن کسی مولانا، مولوی ، مفتی، علامہ ، ڈاکٹر، ذاکر اور نائیک کے کان پر جوں تک بھی نہیں رینگی کہ کیا یہ ظلم ہے؟ اسلئے کہ اس سے زیادہ تباہ کن فقہی مسائل ہیں لیکن مذہبی طبقات خراب انڈوں پر کڑک مرغی کی طرح تشریف فرماہے۔
اگر جماع فی الدبر میں شیعہ سنی علماء متفق ہوکر حلال حرام اور مکروہ کی بحث سے نکل جائیں اور نکاح کے بعد شوہروں کو عورتوںکے نعرے کے عین مطابق ”میرا جسم میری مرضی ”کاپابند بنائیں تو دنیا بھر کی خواتین اسلام کو دل سے سلام پیش کریںگی۔ جس سے اسلام نے شوہر کو اپنی بیگمات کیساتھ جماع فی القبل پر بھی عورت کی مرضی کا پابند بنایا ہے ۔اگر فقہی مسائل میں یہاں تک ہو کہ عورت حرام ہوچکی ہے لیکن شرعی نکاح بحال ہے۔ عورت خلع لینا چاہتی ہو مگر شوہرنہیں دے تب بھی فقہاء کی وہ شریعت زندہ باد ہوگی؟ جو القائے شیطانی کا شاخسانہ ہے؟۔ بالکل بھی اچھا نہیں لگتا لیکن شریعت کے نام پر القائے شیطانی نے ڈیرہ ڈال رکھاہے اسلئے اپنی جان خطرات میں ڈال کر کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition #2. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

رسول اللہۖ کی تمنامیں شیطان کے القا کی مداخلت اور اللہ کی طرف سے آیات کی حفاظت

پچھلے شمارے میں قرآن میں سورۂ حج (کی آیت52) میں رسول اللہۖ کی تمنامیں شیطان کے القا کی مداخلت مگر اللہ کی طرف سے آیات کی حفاظت پر کچھ وضاحت کی جو ایک مقدمہ تھا ،اب مزیداور بنیادی وضاحت ملاحظہ فرمائیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے حقوق کا تحفظ فرمایا اور نبیۖ نے عورتوں کے حقوق کیلئے اپنی آخری وصیت فرمائی لیکن شیطان نے اپنے القا سے امت مسلمہ کا کیسے بیڑہ غرق کیا؟

رسول اللہۖ اپنی خوشی سے رفیق اعلیٰ کی طرف گئے۔شیعہ حدیثِ قرطاس کا گلہ کریںمگر علی کے بعد امام حسن کی امامت کو بھی مانیں ،اپنا کلمہ وآذان بھی عراق وایران کیمطابق کریں!

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” اور (اے نبی مکرمۖ) ہم نے آپ سے پہلے نہیں بھیجا کوئی رسول اور نہ نبی مگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس کی تمنا میں القا کردیا۔ پس اللہ مٹاتا ہے جو شیطان القا کرتا ہے پھر اپنی آیات کو محکم کردیتا ہے۔ اوربہت جاننے والا حکمت والا ہے۔Oتاکہ شیطان کی ڈالی ہوئی بات کو فتنہ بنادے، ان لوگوں کیلئے جن کے دلوں میں مرض ہے اور جن کے دل سخت ہیں۔ اور بیشک ظالم بہت دور کی شقاوت(بدبختی) میں ہیںOاور تاکہ جان لیں وہ لوگ جن کو علم دیا گیا ہے کہ بیشک حق تیرے ربّ کی طرف سے ہے۔ پھر اس پر ایمان لائیں اور اس کیلئے ان کے دل جھک جائیں۔اور بیشک اللہ ہدایت دیتا ہے ان لوگوں کو جنہوں نے ایمان لایا ہے صراط مستقیم کی طرف”۔ سورہ ٔ حج
سورہ حج کی مندرجہ بالا آیات (52،53،54)میں پہلی آیت(52)ہے۔ جس میں رسول اور نبی کی تمنا میں شیطانی القا کی بات واضح ہے۔ اب یہ شیطانی القا کیا ہے؟۔ اس پر مفسرین نے آپس میں بہت اختلاف کیا ہے۔
مولانا سید ابولاعلی مودودی نے اسکے حاشیہ نمبر(97)اور(98)میں لکھا ہے کہ تمنٰیکا لفظ عربی زبان میں دو معنوں کیلئے استعمال ہوا ہے۔ ایک معنیٰ تو وہی ہے جو اردو میں لفظ تمنا کے ہیں ، یعنی کسی چیز کی خواہش اور آرزو کرنا۔ دوسر ے معنیٰ تلاوت کے ہیں، یعنی کسی چیز کو پڑھنا۔ ”تمنا کا لفظ اگر پہلے معنیٰ میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ شیطان نے اس کی آرزو پوری ہونے میں رخنے ڈالے اور رکاوٹیں پیدا کیں۔ دوسرے معنیٰ میں لیا جائے تو مراد یہ ہوگی کہ جب اس کلام الٰہی کو لوگوں کو سنایا ،شیطان نے اس کے بارے میں شبہے اور اعتراضات پیدا کیے، عجیب عجیب معنیٰ اس کو پہنائے اور ایک صحیح مطلب کے سوا ہر طرح کے الٹے سیدھے مطالب لوگوں کو سمجھائے۔ (تفہیم القرآن جلدسوم)
مولانا مودودی نے اس (آیت 52)کی یہ تفسیر لکھ کرکوئی حوالہ نہیں دیا ہے مگر ایک لفظ کے دو معانی نکال کر دونوں کی الگ الگ تفسیریں لکھ دی ہیں، اس میں بدنیتی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ہے لیکن اس تفسیر میں تضاد بھی ہے اور تضاد ہی اس بات کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے کہ ایک صحیح مطلب کی نشاندہی نہیں ہے۔
مولانا مودودی نے تمنا اور تلاوت دونوں مفہوم اسلئے مراد لئے ہیں کہ جن تفاسیر کی انہوں نے تردید کی ہے تو ان میں دوچیزیں تھیں۔ جبکہ تمنا کے معنی تمنا ہی کے ہیں،تلاوت کے ہرگز نہیں ہیں۔ سورہ نجم کے حوالے سے جس تلاوت کا غلط بہتان مشرکینِ مکہ نے لگایا تھا وہ تو آیت کے ظاہری مفہوم سے بھی مراد نہیں ہوسکتا ہے اور سورۂ نجم کا اپنا مفہوم بھی اس بہتان کی تردید کیلئے کافی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ پہلے انبیاء اور رسولوں کیلئے ایسی کونسی تمنائیں تھیں جن میں شیطان نے مداخلت کی تھی؟۔ حقیقت جاننے کیلئے ہمیں قرآن وسنت سے ایسی تمناؤں کا نمونہ پیش کرنا ہوگا جس میں شیطان نے مداخلت کی ہو۔ اسی طرح پہلے انبیاء کرام کے حوالے سے بھی ایسی تمنا کا واضح مفہوم پیش کرکے ثابت کرنا ہوگا کہ یہ ان کی تمنا تھی اور یہ اس میں شیطان کی مداخلت تھی۔
حضرت آدم کا شجرہ ممنوعہ کے قریب نہ جانے کی تمنا میں شیطان کا القا تھا۔ جب رسول اللہۖ سے حضرت خولہ نے ظہار کے حوالے سے عرض کیا تو ایک خود ساختہ شریعت کے گھمبیر ماحول میںرسول اللہۖ کی تمنا یہ تھی کہ خواتین کو اس مصیبت سے چھٹکارا ملے لیکن ساتھ ساتھ خود ساختہ شریعت میں شیطان کے سخت ترین القا کا بھی مسئلہ تھا۔ جب عورت نے اپنے حق کیلئے مجادلہ کیا تو انسانی فطرت اور شریعت مقدسہ کا تقاضہ یہی تھا کہ عورت کو اس مصیبت سے چھٹکارا مل جائے ، دوسری طرف خود ساختہ شریعت اور اس میں شیطانی القا کا تقاضہ یہ تھا کہ عورت اس مصیبت سے نجات نہ پائے۔
جب رسول اللہ ۖ کی تمنااور شیطانی القا کی کشمکش جاری تھی تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورۂ مجادلہ کی آیات نازل کرکے القائے شیطانی کا خاتمہ کیا اور اپنی آیات کو محکم کردیا۔ رسول ۖ کی تمنا اور شیطان کے القا کی اس مثال سے یہ ثابت ہوگیا کہ رسول اللہۖ کی تمنا میں شیطانی القا سے کیا مراد ہے اور اللہ نے اپنی آیات کو کس طرح سے محکم کردیا تھا۔ یہ آیت(52)کی تفسیر ہے اور پھر آیت (53)میں جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہے یا جو منافق ہیں اور جو کافر ہیں انہوں نے اس حکم سے فتنے میں پڑکر کیا کردار ادا کیا۔ تو اس کی واضح مثال سورۂ احزاب میں ہے کہ اللہ نے نبیۖ سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کی اتباع مت کرو۔ جو اللہ نے نازل کیا ہے اسی پر فیصلہ کرو۔کافی ہے اللہ کی وکالت ۔ اللہ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے ہیں کہ ایک دل سے ایک عورت کیلئے بیوی کا جذبہ رکھتا ہو اور دوسرے دل سے اسی عورت کیلئے ماں کا جذبہ رکھتا ہو۔ جن بیویوںسے تم نے ظہار کیا ہے ،اللہ نے ان کو تمہارے لئے ماں نہیں بنایا ہے اور نہ منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹے بنایا ہے۔
رسول اللہ ۖ کے دل میں تمنا تھی کہ اگر زید طلاق دینے سے نہیں رُک سکا تو اس کی دلجوئی کیلئے خود شادی کرلیں مگر ساتھ ساتھ یہ ماحول بھی تھا کہ اس وقت لے پالک یا منہ بولے بیٹے کو بھی حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا تھا اور اس کی طلاق شدہ بیوی کو بھی حقیقی بہو کی طرح سمجھا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہۖ کے دل میں یہ تمنا خود ہی پیدا کی تھی لیکن شیطان نے اپنے القا کے ذریعے سے خوف پیدا کردیا تھا کہ لوگ کیا بولیں گے؟۔ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں پر آسانی پیدا کرنے کی سبیل نکالی اور اس ماحول کو ختم کردیا اور جس تمنا کو نبیۖ چھپارہے تھے تو اللہ نے اس کو ظاہر کردیا۔ اس واقعہ کو اللہ نے اہل علم کیلئے دلیل بنایا کہ بیشک حق نبیۖ کے رب کی طرف سے ہے اور مؤمنوں کے دل اس حقیقت کیلئے جھک گئے اور اللہ ہدایت دینے والا ہے ایمان والوں کو صراط مستقیم کی طرف۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نے طوعاً وکرھاً نبیۖ کی سیرت اور قرآن کو مان لیا ؟۔ حالانکہ کفار اور معاندین کا اعتراض آج تک ختم نہیں ہوا کہ حضرت زید کی بیوی سے طلاق کے بعد کیسے شادی کرلی؟۔
اس کا جواب بہت کرارا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے حقیقی باپ کی بیگمات سے شادی کرنے کو جائز بلکہ اپنا حق سمجھتے تھے لیکن منہ بولے بیٹے کی طلاق شدہ بیوی سے نکاح کرنے کو حرام سمجھتے تھے۔ مؤمنوں کی تو دل وجان سے اصلاح ہوگئی۔ انہوں سورۂ حج کی آیت54کے عین مطابق حق بات کو دل سے قبول کرلیا اور صراط مستقیم کی ہدایت بھی مل گئی ۔ اگررسول اللہۖ چاہتے تو پھر حضرت زنیب کو حضرت زید کے نکاح میں دینے کے بجائے خود بھی نکاح میں لے سکتے تھے اور ایک طرف حضرت زینب نے یہ قربانی دیدی کہ جس پر غلامی کا دھبہ تھا تو اس کے نکاح میں جانا قبول کیا۔ جس کی وجہ سے اللہ نے ام المؤمنین کے شرف سے نواز دیا اور ان کی یہ قربانی بہت کام آئی۔ دوسری طرف مؤمنین کیلئے شریعت کا روشن راستہ واضح ہوگیا کہ باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنا غلط اور منہ بولے بیٹے کی طلاق شدہ سے نکاح درست ہے۔ تیسری طرف رسول اللہۖ کی تمنا میں جس طرح شیطان نے اپنا القا کیا تھا کہ لوگ کیا کہیںگے؟ ۔اور اللہ نے فرمایا کہ وتخشی الناس واللہ احق ان تخشٰہ ” اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے اور اللہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرا جائے”۔ (سورہ الاحزاب)
صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہۖ کیلئے سب سے زیادہ سخت یہ آیت تھی اگر آپ کسی آیت کو چھپانا چاہتے تو اسی کو چھپاتے”۔ حضرت عائشہنے اس تناظر میں کہا کہ اللہ نے قرآن میں رسول اللہ ۖ سے فرمایا کہ بلغ مانزل الیک ان لم تبلغ فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس ”تبلیغ کریں جو اللہ نے آپ پر نازل کیا ہے ،اگر آپ نے (اللہ کی نازل کردہ آیات کی) تبلیغ نہیں کی تو آپ نے اس کی رسالت کو نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کی لوگوں سے حفاظت کر یگا”۔ اہل تشیع کا دعویٰ ہے کہ ”یہ آیت حضرت علی کی ولایت پرنازل ہوئی ، رسول ۖ کی یہ تمنا یہ تھی کہ علی ہی کو خلیفہ بنایا جائے مگر شیطان نے حدیث قرطاس میںمزاحمت کی۔ قریش میں اہل بیت کی خلافت مأمور من اللہ تھی”۔ رسول اللہ ۖ کے بیٹے کو اللہ نے بچپن میں اٹھالیا تھا اور آپۖ نے فرمایا کہ ہر نسب باپ کی جانب منسوب ہوتا ہے لیکن فاطمہ کی اولاد میری جانب منسوب ہوگی۔ حضرت علی اور حضرت ابوطالب کی دوسری اولاد سادات نہیں کہلاتے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے منصب امامت سے سرفراز فرمایا تو آپ علیہ السلام نے بھی دعا فرمائی کہ ”اور میری اولاد میں سے بھی”۔ اللہ نے فرمایاکہ ” میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا”۔ حضرت ابراہیم کیساتھ بڑا مشروط وعدہ کیا گیا اور پورا ہوا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کہا کہ اللہ آپ نے مجھ سے میرے بچوں کو بچانے کا وعدہ کیا تھا؟۔ اللہ نے فرمایا کہ وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے ،وہ عمل غیر صالح ہے۔ جس پر حضرت نوح نے معافی مانگ لی اور حضرت داؤد کے دل میں اوریا مجاہد کی بیگم سے شادی کی تمنا شیطان نے ڈال دی تھی اور اللہ نے (99) دنبیاں اور ایک دنبی سے تنبیہ فرمائی تو آپ نے اللہ سے معافی مانگی اور اللہ نے معاف کردیا۔ شیعہ سنی اپنے پرانے جھگڑوں کو اب چھوڑ دیں اور اپنے اپنے مکاتبِ فکر کی شریعت کو قرآن کی آیات اور سنت کے مطابق درست بنائیں تو جس کی بات فطری اور درست ہوگی وہ قبول کرنے میں عوام کو کوئی عذر نہیں ہوگا۔اگر حنفی علماء صحیح راہ پر آگئے توپھر بازی لے جائیںگے۔
عورت کے حقوق طلاق وخلع اور ماملکت ایمانکم کی تفسیر میں حنفی مسلک کی درست تعبیراسلام کو دنیا بھر میں مقبول بنادے گا۔ عراق میں یزیدی فرقہ اپنے منفردعقائد رکھتا ہے۔جوقرآن ،عیسائی اور ہندومذہب کاملغوبہ ہیں۔ دین میں زبردستی نہیں۔ ایک پرامن فضا کی ضرورت ہے۔قرآن میں اہلبیت یا قریش کے امام بننے کی وضاحت حضرت ابراہیم کی دعا تک ہے اور احادیث میں بھی اس کی وضاحت ہے ۔ابوجہل اورحضرت ابوبکر میں واضح فرق تھا، یزید و حسین میں فرق تھا اور خلافت عثمانیہ کے خلفاء قریش نہ تھے اور سعودیہ اور ایران کی حکوت میں بھی قریش واہلبیت کا خلیفہ ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگرخلافت کی اہلیت ہوگی تو دنیا میں اللہ موقع دیگااور اہلیت ہو لیکن اللہ نے موقع نہیں دیا تو اس کا گلہ عوام سے اس وقت بنتا ہے کہ جب معاملہ انسانوں کے ہاتھ میں ہو۔ اگرمعاملہ انسانوں کے ہاتھ میں ہو تو پھر اللہ کی طرف سے اہلیت کو انسانوں میںبھی ثابت کرنا ہوگا۔ اہل تشیع کا ائمہ اہلبیت کو چھوڑ کر علیولی اللہ کہنا عراق اورایران کے شیعہ سے بھی مختلف ہے۔امام حسن کو بھی تسلیم کرنا ہوگا۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition #2. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

عورت کے حقوق کی ضرورت؟

علمی مغالطے کے ازالے اور کردار سازی کے مراکز آج فکروعمل سے محروم کیوں؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

رسول اللہۖ نے آخری وصیت نماز کے اہتمام اور عورت کے حقوق کی فرمائی تھی۔ اللہ نے فرمایا کہ ”نماز فحاشی اورمنکرات سے روکتی ہے”۔ وہ نماز کیا نماز ہے جو فحاشی اور منکرات سے نہ روکے؟۔ رسول اللہۖ نے معراج میں تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی تھی۔ اس کی تعبیر پہلی مرتبہ اس وقت پوری ہوئی کہ جب پہلی مرتبہ حضرت عمر نے بیت المقدس کو فتح کرکے دنیا کی دونوں سپر طاقتوں قیصر وکسریٰ کو شکست دی تھی۔ دوسری مرتبہ بیت المقدس فتح ہوگا اور دنیا کی کوئی ایسی جگہ گھر اور جھونپڑی نہ ہوگی کہ جہاں اسلام داخل نہ ہو۔ پوری دنیا پر خلافت قائم ہوگی۔ شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ دین کا غلبہ دنیا پر ہوکر رہے گا ۔یہ وعدہ قرآن میں ہے۔ قیصر وکسریٰ کی حکومتوں کا وعدہ نبیۖ سے تھا اور اللہ نے آپ ۖ کے خلفاء کے ہاتھوں اس کو پورا کیا تھا۔ آئندہ بھی خلافت قائم ہوگی اور نبیۖ سے تمام ادیان پر دین کے غلبے کا وعدہ پورا ہوگا۔
شیخ الحدیث مولانا زکریا نے مدارس میں قوم لوط کا عمل زیادہ ہونے کی وجہ سے ذکرو اذکار کا سلسلہ شروع کیا ۔ خانقاہی نظام تزکیہ نفس کا ذریعہ تھا اور دیوبند کے علماء بھی حاجی امداداللہ مہاجر مکی سے تزکیہ نفس کیلئے بیعت تھے۔ دیوبندی خطیب شاہی مسجدلاہور مولانا عبدالقادر آزاد کے سسرمولانا عبدالمالک قریشی اور مولانااکرم اعوان کے مرشد مولانا اللہ یار خان بھی اللہ والے تھے۔ مولانا عبدالقادر رائے پوری اور مولانا خان محمد کندیاں امیر مجلس تحفظ ختم پاکستان سے کافی علماء کرام بیعت تھے۔ڈاکٹر عبدالحی اور مولانا حکیم اخترنے بیعت کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ حضرت حاجی عثمان نے ایک دن بھری محفل میں کہاتھا کہ” ایک عالم مسجد کا امام اپنی بیگم سے دبر میں جماع کرتا ہے ،اگر اس نے توبہ نہیں کی تو میں اس کو پھر بھری محفل میں اُٹھاکر ذلیل کروں گا”۔ یہ شاید اس کی بیوی کی طرف سے شکایت ہوگی ، کیونکہ خواتین بھی بڑی تعداد میں بیعت تھیں۔ لیکن اگر کھل کر اس بات کا اظہار کیا جاتا کہ بیوی نے شکایت کی ہے تو گھر میں معاملہ خراب ہوسکتا تھا ۔ اگر طلاق ہوجاتی ہے تو اس کا نقصان عورت ہی کو اٹھانا پڑتا ہے اسلئے کہ عورت کے حقوق معاشرے میںمحفوظ نہیں۔ سادہ لوح مریدوں نے سمجھ لیا تھا کہ مرشد جی کی کرامت ہے کہ میاں بیوی کے خاص عمل کے وقت بھی حاضر ہوتے ہیں۔حاجی عثمان فرماتے کہ نبیۖ کے حاضر ناظر پر دیوبندی بریلوی اختلاف کی شدت فضول ہے۔ اگر مطلق حاضر ناظر مان لیں تو یہ نبیۖ کی توہین ہے اسلئے کہ بیگمات سے لوگ مباشرت کرتے ہیں اور اللہ کیلئے انسان کے کپڑے کی حیثیت بھی نہیں اور اللہ جنسی معاملے سے پاک ہے، بشری آنکھوں کیلئے حیاء ایک اہم چیز ہے۔اگر بالکل انکار کریں تو قبر میں نبیۖ کی ذات مبارکہ کی زیارت کرائی جائے گی اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو؟۔
ایک ایرانی نژاد امریکی خاتون نے بڑی ضخیم کتاب ”اسلام میں عورتوں کے حقوق ” لکھی ہے۔ جس میں یہ واقعہ بھی ہے کہ ایک عورت کو اس کا شوہر اس کے پیچھے کی راہ سے استعمال کرتا تھا جس سے اس کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی اور پھر اس نے حق مہر سے زیادہ خلع کی رقم دیکر جان چھڑائی۔ یوٹیوب پر ایک شیعہ عربی نے اہل سنت کے بہت معتبر حوالہ جات دیکر کہا ہے کہ شیعہ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ بیوی کیساتھ دبر میں جماع کو جائز سمجھتے ہیں لیکن اہل سنت کے علامہ ابن حجر، ملاعلی قاری اورصحیح بخاری تک میں کذاو کذا ، ثم مضی تک یہ روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کہا کہ جب ایک شخص نے عورت کیساتھ اسکے دبر میں جماع کیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نساء کم حرث لکم فأتوا حرثکم انی شئتم ”تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں جیسے مرضی ان کے پاس آؤ”۔ شیعہ عالم نے عربی میں کہا ہے کہ ہمارے ہاں جماع فی الدبر جائز ہے مگر سخت مکروہ ہے لیکن ہم شیعہ پر اعتراض کرنے والے اپنے معتبر لوگوں کے حالات کو بھی دیکھ لیں۔ امام مالک نے کہا تھا کہ میں اپنی بیوی کیساتھ ابھی یہ کام کرکے آیا ہوں۔ وغیرہ۔ آج عورت مارچ میں میرا جسم میری مرضی کی بات بھی چل پڑی ہے، عورتیں اپنے شوہروں کا حال دوسری خواتین سے بیان کرتی ہیں اور نبیۖ کی وصیت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے علمی مغالطے کا ازالہ بھی کرنا ہوگا۔ علماء ومفتیان اپنی علمی کمزوری سے واقف ہیں لیکن ہمت کرنے کی جرأت نہیں رکھتے اور اگر انہوں نے جرأت دکھائی تو خاتم النبیینۖ سے وفاداری ہوگی۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition #2. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

رسول اللہۖ نے آخری وصیت میں نماز اور عورت کے حقوق کی تلقین فرمائی تھی۔

مہاجرمکی کے نا نوتوی اور گنگوہی میں اختلاف تھا، شیخ الہند اورمولانا حسین علی اور انکے شاگردوں کے شاگرد مولانا غلام اللہ خان،سرفراز صفدراورمولاناطاہرپنج پیری میں اور مولانا طیب اور مفتی منیر شاکرمیں بھی اختلاف ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مولانامحمد طیب طاہری کی طرف سے قرآن کے ترجمے میں گالیاں یوٹیوب پر دی گئی ہیں جو مفتی منیر شاکر اور انکے اختلاف کا شاخسانہ ہے۔ مذہبی طبقات میں نفرت بہت بڑھ رہی ہے

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟ قرآن کی تجلیوں سے رہنمائی ہو اب ایسی کہ پیوندِ خاک قوم بھی عروجِ ثریا پر جا پہنچے

رسول اللہۖ نے آخری وصیت میں نماز اور عورت کے حقوق کی تلقین فرما دی اور پھر کچھ فرمایا جس کی سمجھ کسی کو نہیں آئی لیکن حضرت ابوبکر نے بات سمجھ لی اور حضرت ابوبکر بہت پھوٹ پھوٹ کر روئے اسلئے کہ نبیۖ نے اپنی رخصتی کی خبر اس میں دی تھی کہ اللہ نے اختیار دیا اپنے بندے کو کہ بندوں کیساتھ رہے یا اپنے ربّ کے پاس جائے تو بندے نے اپنے رب کو ترجیح دی۔ رسولۖ کو جب طائف میں بہت اذیت پہنچائی گئی توفرشتوں نے عرض کیا کہا آپۖ جس قسم کے عذاب کا حکم فرمائیں،ہمیں اللہ نے ہرقسم کیلئے بھیج دیا ہے لیکن رسولۖ نے اہل طائف کے حق میں ہدایت کی دعا فرمائی اور فرمایا کہ اگر ان کی تقدیر میں ہدایت نہیں تو لکھ دینا اور اگر قطعی منظور نہیں تو ان کی اولاد کو ہدایت عطاء فرما۔
ہمارے ہاں مذہبی طبقات تہہ در تہہ گمراہی کا شکار ہیں۔ تبلیغی جماعت پہلے مسلمانوں کا مشترکہ اثاثہ تھی۔ پنجاب کے دیہاتوں میں ہم نے بریلوی مسلک کی مساجد میں خود بھی پڑاؤ ڈلا ہے۔ دیہات کے ائمہ مساجد تبلیغی جماعت کو غیر جانبدار اور مسلکوں سے بالاتر سمجھتے تھے۔ فضائل درود شریف بھی اس وقت تبلیغی نصاب میں شامل تھی جس سے متأثر ہوکر بہت سے بریلویوں کے ہاں اس غلط فہمی کا ازالہ ہوجاتا تھا کہ ”یہ وہابی ہیں اوریہ رسول ۖ سے بغض رکھتے ہیں”۔ پنجاب میںبریلوی دیوبندیوں کو وہابی کہتے ہیں۔ تبلیغی جماعت نے نصاب سے فضائل درود شریف کو نکال کر اس کا نام فضائل اعمال رکھ دیا۔ شیخ الحدیث مولانازکریا نے اپنی آپ بیتی میں لکھا کہ رسول اللہۖ نے خواب یا مشاہدے میں فرمایاکہ شیخ زکریا اپنے معاصرین میں فضائل درود کی وجہ سے سبقت لے گئے ہیں۔ یہ کتابچہ اتحاد امت کیلئے بڑا کردار ادا کرتا تھا۔ جسکے اندر ایک واقعہ ہے کہ ایک بزرگ غالباً عبدالوہاب شیرانی نے لکھا کہ میں حج کے سفر میں والدہ کیساتھ جارہاتھا راستے میں میری والدہ کا انتقال ہوگیا، اسکا پیٹ سوجھ گیا اور منہ کالا ہوا میں بہت سخت پریشان تھا کہ میں نے حجازسے ابر آتا ہوا دیکھا جس میں ایک شخص تھے اور آپ نے میری والدہ کے چہرے اور پیٹ پر ہاتھ پھیر ا۔ جس کی وجہ سے اس کا منہ چمکدار سفید نورانی بن گیا اور پیٹ بھی درست ہوگیا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کون ہیں جس نے اس مصیبت میں میرا ساتھ دیا۔ فرمایا کہ میں تیرا نبی محمد(ۖ) ہوں۔(فضائل درود)
دیوبندی میں دو گروہ ہیں ایک توحیدی ہیں جو دوسروں کو مشرک سمجھتے ہیں۔ توحیدیوں کی بنیاد میانوالی کے مولانا حسین علی تھے جو شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور مولانا طاہر پنج پیری کے استاذ تھے۔ مولانا حسین علی اور شیخ الہند دونوں مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی کے شاگرد تھے۔ مولانا شیخ الہند کے شاگرد مولانا عبیداللہ سندھی مولانا الیاس، مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا شبیراحمد عثمانی،مفتی کفایت اللہ اور مولانا اشرف علی تھانوی وغیرہ تھے۔ مولانا نانوتوی اور مولانا گنگوہی دونوں کے شیخ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی تھے۔ مولانا قاسم ناناتوی کہتے تھے کہ میں نے حاجی صاحب کے علم کی وجہ سے بیعت کی ہے اور مولانا گنگوہی کہتے تھے کہ میں ان سے زیادہ بڑا عالم ہوں ،ان کے علم کو نہیں مانتا ہوں۔ مولانا گنگوہی اور مولانا نانوتویکے درمیان جو فکری اختلاف تھا شیخ الہند اور مولانا حسین علی کے شاگردوں میں وہ اختلاف کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہے۔مولانا طاہر پنج پیری مولانا سندھی کے بھی شاگرد تھے۔
شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان ہمارے مرشد حاجی عثمان کو عبدالرحمن بن عوف کہتے تھے۔ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان کے آخری دور میں مولانا طاہر پنج پیری سے اختلافات بڑھ گئے تھے اور وہ شیخ الہند کے شاگردوں کے قریب تھے۔ حاجی عثمان سے مولانا فضل محمد استاذ حدیث جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی بیعت تھے اور خلیفہ تھے۔ میرے استاذ ہیں۔جب حاجی عثمان پر آزمائش آئی تو کہنے لگے کہ میں چندے کیلئے سعودیہ گیا ، چندہ نہیںملا،مقروض ہوگیا۔ میں نے حاجی عثمان کیخلاف بغاوت کی خبر سنی تو کئی دنوں تک کھانا نہیں کھایا اور الائنس موٹرز والوں کو حرمین میں بہت سخت جھاڑ دیا ۔ اب مقروض ہوں ، الائنس موٹرز یا آپ لوگ جو بھی میرا قرضہ ادا کرے ، اسکے ساتھ ہوں۔ میں نے بتادیا کہ جن علماء ومفتیان نے حاجی عثمان پر فتوے لگائے ۔وہ شاہ ولی اللہ ، مولانا محمد یوسف بنوری ، شیخ زکریا اور شیخ عبدالقادر جیلانی پر فتویٰ لگاکر پھنس گئے تو مولانا فضل محمد نے کہا کہ مفتی رشید احمد لدھیانوی نے مولانا یوسف بنوری کو بھی بڑا ستایا تھا ،جو اللہ کے ولی کو ستاتا ہے تو اللہ کا اسکے ساتھ اعلان جنگ کی حدیث ہے۔ پھر بتایا کہ میرے پاس الائنس والے آئے تھے(قرضہ دیدیا) اور میں تو پیری مریدی کو نہیں مانتاہوں، پہلے سے پنج پیری تھا۔ مولانا فضل محمد بنوری ٹاؤن کے شیخ الحدیث ہوتے مگر مرشد کی بیوفائی نے اس منصب تک پہنچنے نہ دیا۔ مفتی تقی عثمانی کے استاذ مولانا عبدالحق حاجی عثمان کے خلیفہ تھے۔ خواجہ ضیاء الدین جس کو چند لمحات کے بعد آرمی چیف کے عہدے سے ہٹادیا گیا اور جنرل نصیر اختر بھی حاجی عثمان کے مرید تھے۔
خطیب العصر مولانا عبدالمجید ندیم نے فتوؤں کے بعد حاجی عثمان سے کہا تھا کہ شہیدحضرت عثمان کے نام کی وجہ سے آپ بھی مظلوم بن گئے ۔ مولانا طیب پنج پیری کی آڈیو کسی نے یوٹیوب پر شیئر کی ہے جس میں وہ دیگر دیوبندی یا باغی پنج پیری مفتی منیر شاکر کے ساتھیوں سے متعلق کہتا ہے کہ” ان کو یہ شکایت ہے کہ ہمیں مسجد میں نہیں چھوڑتے ہیںجبکہ اللہ نے مشرکوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ ان کا مسلمانوں سے مقابلہ ہو تو لیولون الادبار ” یہ اپنی پشت پھیر دینگے”۔ اسکا مطلب ہے کہ مشرکوں سے مقابلہ ہو تو مساجد میں …مارنے کے عادی ہیں اور یہ اپنی …. دینے کیلئے آمادہ ہوجاتے ہیں کہ ہمیں نہ مارو”۔
آج علماء میں نظریاتی ہم آہنگی اور کردار سازی کی بہت ضرورت ہے۔اگر مذہبی طبقے ایکدوسرے کے خلاف اشتعال انگیزی کرتے رہے اور یہ سلسلہ بڑھ گیا تو پھر ریاست اور عوام کیلئے کنٹرول مشکل ہوگا۔ رسول اللہۖ نے اپنی چاچی حضرت فاطمہ بنت اسد کی میت کو لحد میں اُتارتے ہوئے فرمایا کہ یہ میری ماں ہیں۔ فقہاء نے جس طرح محرم کے مسائل بنائے ہیں ان پر غور کرنا ہوگا۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition #2. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

سیاسی ،لسانی اور فرقہ پرستی کے تعصبات عروج پر ہیں کارکن اپنے بڑوں کو ہی اب لڑنے دیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

قال اللہ تعالٰی جدہ: الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلٰم دینًا
وقال رسول اللہ خاتم الانبیاء ۖ : ایھا الناس اقرأ وامنی السلام من تبعنی من امتی الا یوم القیامة

بلندشان والے خدا نے فرمایا: ” آج میںنے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تم پراپنی نعمت کو پورا کردیا اور میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کیا ہے”۔

اور خاتم الانبیاء رسول خدا ۖ نے ارشاد فرمایاکہ:”اے لوگو! میری طرف سلام پڑھو جو میری اتباع کرے میری اُمت میں سے قیامت کے دن تک”۔ رسول اللہۖ کا آخری پیغام

وزیراعظم کا ذہنی توازن چیک کرنے سے پہلے اس کوکنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، کہیں تمام ریاستی و حکومتی اداروں اور انکے سربراہوں کو فارغ کرکے پوری دنیا میںتماشہ نہ بن جائیں

بلند شان والے خدا نے فرمایاکہ ”آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیااور اپنی نعمت کوتمہارے اُوپر پورا کردیااور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کیاہے”۔ (القرآن المجید)جد کا معنی دادایا نانا نہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ سورج،چاند اور گیارہ ستارے مجھے سجدہ کررہے ہیں۔ پھر اس خواب کی تعبیر اس وقت پوری ہوئی کہ جب دس ستارے بھائیوں نے آپ کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا۔ پھر ایک ویران کنویں میں پھینک دیا۔ پھر قافلے نے اٹھایا اور مصر کے بازار میں ایک غلام کی حیثیت سے فروخت کردیا۔ عزیز مصر اور اس کی بیوی کے گھر میں جوان ہوئے۔ پھر بے گناہ جیل کی سلاخوں میں بند ہوئے۔ جس گناہ کی طرف بلایا جارہاتھا تو آپ نے فرمایا کہ السجن احب الیی مما تدعوننی الیہ ” جیل مجھے زیادہ پسند ہے اس بات سے کہ جس کی مجھے آپ دعوت دے رہی ہو”۔
وزیراعظم عمران خان کو کرکٹ کے میدان اور شوکت خانم پر چندوں کے باران سے اللہ تعالیٰ ، اس قوم اور ہماری ریاستی اداروں نے وزیراعظم کے ایوان تک پہنچادیا۔ کتنے وعدے کس سے پورے کئے اور کس کے سامنے سرخروہوا؟۔ یہ بات چھوڑئیے،اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں لگتا ہے۔ سینیٹرز کے الیکشن میں ووٹ خریدنے اور الیکشن کمیشن سے کوئی معجزہ دکھانے کی استدعا ٹھیک تھی یا نہیں مگر کہنے کی حد تک ایک بات تھی لیکن جب سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت تھی تو بھی یہ شخص کہہ رہا تھا کہ زرداری ہمارے ووٹ خرید کر ہماری اکثریت کو اقلیت میں بدلنا چاہتا ہے۔ نظام قدرت کو پتہ تھا کہ اگر صادق سنجرانی پھر ہار گیا تو یہ شخص پارلیمنٹ کو توڑ دے گا جس کی ہوائیاں بھی اسکے چہرے پر اُڑرہی تھیں۔ بشریٰ بی بی نے پتہ نہیں کیا وظائف پڑھ کر اس شخص کو سنبھالنے میں اپنا کردار ادا کیا؟۔ ہمارے ہاں تو پہلے بھی نوازشریف اور بینظیر بھٹو کو اقتدار کیلئے ڈنڈی والی سرکار سے جتنے ڈنڈے پڑتے تھے اتنے سال کی مدت تک وزیراعظم بنتے تھے۔ ایک پیر پینچرسرکار بھی لکھ پڑھ کر کچھ پیش گوئیاں سنانے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔
کچھ باکمال لوگ لاجواب سروس والے صحافیوں نے بھی وزیراعظم کے حوالے سے بڑی مثبت خبروں کی رہنمائی کی کہ عمران خان میں بڑا حوصلہ ہے اور وہ اپوزشن کی بینچوں پر بھی بیٹھ سکتا ہے لیکن اس سے پہلے پہلے کہ آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی ، چیف جسٹس ، صدرمملکت ، چیف الیکشن کمشنر اور سارے گورنرز اور سینیٹ وقومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کو بیک وقت فارغ کردے اس شخص کا دماغی توازن صرف چیک نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنی جگہ پر لانا چاہیے۔
انصار و قریشاور قریش واہلبیت میں خلافت کے مسئلے پر چپقلش ہورہی تھی۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد تو صف بندی کرکے لڑائی کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اس میں شک نہیں ہے کہ رسول اللہ ۖ نے اُمت کے اختلاف کو بھی رحمت سے تعبیر فرمایا تھا لیکن اختلاف میں اعتدال کی حد سے بڑھ کر انتقام تک اعتدال سے ہٹ جانا رحمت نہیں عذابِ خداوندی ہے۔ اللہ نے امت مسلمہ پر سابقہ امتوں کی طرح کوئی اجتماعی عذاب نازل نہیں کرنا ہے لیکن آپس کی لڑائی کے عذاب سے بچنے کیلئے رسولِ خداۖ نے فرمایا کہ اللہ کا کوئی وعدہ نہیں ۔
جب بھی کسی قوم پر عذا ب کا وقت آیا ہے تو اللہ نے عذاب کو نہیں ٹالا ہے مگر قومِ یونس سے ۔اسلئے کہ انہوں نے مشاورت کے بعد کہا تھا کہ جس طرح کا عذاب خدا نے ہم پر نازل کرنا ہو ،ہم نہیں ڈرتے مگر آپس کی لڑائی کا نہیں۔ جس کی وجہ سے اللہ نے اس قوم سے عذاب کو ٹال دیا تھا۔ آپس کی لڑائی اللہ کا واقعی بڑا عذاب ہے لیکن یہ عذاب انسانوں کے اپنے ہاتھوں میں بھی ہے۔ جب تک کوئی قوم اپنی پرامن حالت بدلنے کیلئے بدامنی کا راستہ اختیار نہیں کرلیتی ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی حالت کو نہیں بدلتا ہے۔ اسی طرح جب تک کوئی قوم خراب حالت کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتی ہے تو اللہ تعالی بھی اس کی حالت نہیں بدلتا۔
آج افغانستان، عراق ، شام اوریمن کی قومیں آپس میں فیصلہ کرلیں کہ انہوں نے اپنی حالت بدلنی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت ان کو نہیں لڑا سکتی ہے۔ ہم پاکستانی بھی اپنے دشمن آپ ہیں اور پشتون بھی ایک دوسرے کے دشمن خود ہیں لیکن اگر ہم آپس کی دشمنی ختم کرنے کے بجائے ”یہ جرنل کرنل دہشت گرد” کے نعرے لگائینگے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کیلئے کوئی کوشش نہیں کرینگے تو پھر مزید تباہی اور بربادی کا خدانخواستہ سامنا کرناپڑسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی قوتوں نے ہمیں کمزور کرنے کیلئے آپس میں لڑانے کی سازشیں کیں ہیںمگر جب تک ہم خود ان قوتوں کے آلۂ کار بننے کا کردار ادا نہ کرتے تو بات نہ بنتی۔
رسول اللہ ۖ نے آخری وعظ میں امت کو بڑی دعائیں دینے کے بعد اپنا آخری پیغام قیامت کے دن تک آنیوالے رسول ۖ کا اتباع کرنے والوں کو اپنی طرف سے سلام پہنچانے کا حکم فرمایا تھا، مسجد کے علماء کواپنے نمازیوں کا حال بھی معلوم ہے اور اپنا حال بھی معلوم ہے اسلئے رسول اللہ ۖ کے پیغام اور سلام کو پہنچانے کی ہمت نہیں رکھتے ہیں۔ رسول اللہۖ نے سلام پھیلانے کا حکم دیا تھا اور اپنے آخری پیغام سے بھی امت میں سلام کو عام فرمایا ہے۔
پاکستان میں سیاسی جھگڑے بھی عروج پر ہیں۔ لسانیت اور فرقہ پرسی کے تعصبات بھی عروج پر ہیں۔سیاسی، لسانی اور فرقہ پرستی کے بیوقوف کارکن آپس میں لڑنے کے بجائے بڑے بڑوں کو آپس میںلڑائی کا شوق پورا کرنے دیں۔ ہزارہ میں منظور پشتین کے خلاف اشتعال انگیزی اور انجینئر محمد علی مرزا پر قاتلانہ حملہ قابل مذمت ہیں۔ گالی گلوچ، بدتمیزی اور اخلاق باختگی کا مقابلہ دلائل سے کیا جاسکتا ہے لیکن چاقو اور پتھروں سے حملوں کا مقابلہ دلائل سے نہیں ہوسکتا۔ مذہبی اور لسانی ماحول کی خرابی پاکستان کو عراق کی طرح تباہ وبرباد کرسکتی ہے۔
اپوزیشن اور حکومت دونوں طرف سے لڑائی جھگڑے کا ماحول بنایا جارہا ہے۔ پاکستان میں چند سیاسی رہنماؤں کے سوا باقی سب موروثی اور پیسہ کی بنیاد پر سیاست کررہے ہیں۔ لوٹوں سمیت ان سب سیاسی رہنماؤں اور قائدین سے خیرکی کوئی توقع نہیں جنہوں نے عوام اور سیاسی حالات دیکھے بغیر مفادات کیلئے سیاست میں قدم رکھا ہے۔ یہ لوگ عوام کی خیرخواہی کیلئے پارلیمنٹ میں قانون سازی نہیں کرینگے۔ ان کو گدھوں کی طرح رسی نہیں روپیہ سے باندھا جاتا ہے ۔

NAWISHTA E DIWAR March 2021 – Ilmi Edition Number#2
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

قرآن میں رسول اللہۖ کی تمنا پرالقائے شیطانی سے کیا مراد ہے؟، اسکا جواب بہت آسان ہے۔

قرآن میں رسول اللہۖ کی تمنا پرالقائے شیطانی سے کیا مراد ہے؟، اسکا جواب بہت آسان ہے لیکن علماء اور مذہبی طبقے خود ہی اسکے بری طرح شکار تھے اسلئے قرآن وسنت کا اسلام ان کی نظروں سے ثریا ستاروں تک پہنچنے کے مانند غائب ہوا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

لعان پر غیرت کا معاملہ ہو یا تین طلاق کے پڑجانے کا مسئلہ ، طلاق سے رجوع کا مسئلہ ہویا خلیفہ بنانے کی بات ہو، حضرت علی واہلبیت کی تعریف ہویا اپنے بعد آپس کے قتل پر تنبیہ ہو۔

اسلام کی اجنبیت کا بہت ہی جلد آغاز ہوگیا تھا اور اب معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ دجال کا کردار ادا کرنے والے سے وہ حکمران اور علماء بدتر ہیں جو اسلام کے نام پر کھیل رہے ہیں!

مفتی اعظم پاکستان ابن مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ” دجال سے زیادہ خطرناک حکمران اور لیڈرہیں”۔ ( علامات قیامت اور نزول مسیح: تصنیف مفتی محمد رفیع عثمانی)
مفتی رفیع عثمانی نے لیڈر سے سیاسی رہنما مراد لئے ہیں ،حالانکہ لیڈر ہی تو حکمران بنتے ہیں اسلئے لیڈر سے مراد مذہبی علماء ہیں۔ مولانا یوسف لدھیانوی کی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” بہت کچھ موجود ہے۔ نوازشریف ، زرداری، جرنلوں کے بعد عمران خان کو بھی دیکھ لیا ہے۔ اس کتاب میں سبھی کو اپنا چہرہ صاف دکھائی دے گا اسلئے اس کو بہت عام کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس میں احادیث کے ترجمے اور تشریحات میں کچھ غلطیاں بھی ہیں اور معاملات پہلے سے زیادہ اب واضح بھی ہوگئے ہیں۔ اگرموقع مل گیا تو غلطیوں کی وضاحت کیساتھ اس کی مختصر شرح لکھ دوں گا۔انشاء اللہ العزیز
رسول اللہۖ کا وصال ہوا تو انصار سردار سعد بن عبادہ نے مسندِ خلافت سنبھالنے کا فیصلہ کرلیا۔ حضرت ابوبکر وعمر نے موقع پر پہنچ کر قابو پالیا لیکن ہنگامی خلافت کی وجہ سے اُمت کو بنیاد ی دھچکا پہنچا۔ لعان کی آیت نازل ہوئی توسعد بن عبادہ نے کہا تھا کہ میں لعان کے بجائے بیوی اور اسکے ساتھ ملوث شخص کو قتل کردوںگا۔ نبیۖ نے انصار سے شکایت کی تو انصار نے عرض کیا کہ یہ بہت غیرت والے ہیں، آج تک ہمیشہ کنواری ہی سے شادی کی،کسی طلاق شدہ یا بیوہ سے نکاح نہیں کیا اور جس کو طلاق دی تو اس سے کسی اور کو نکاح نہیں کرنے دیا۔اس پر نبیۖ نے فرمایا :میں اس سے زیادہ غیرتمند ہوں اوراللہ مجھ سے زیادہ ہے۔
نبیۖ کی یہ تمنا تھی کہ امت اللہ کے قرآن پر عمل کرے مگر فقہاء نے اس تمنا کی غلط تشریح کرتے ہوئے لکھ دیا کہ نبیۖ نے حضرت سعد کی غیرت کی تائید فرمائی۔ حالانکہ نبیۖ نے اس کی غیرت کو بالکل غلط قرار دیا ۔نبیۖ کا حضرت خدیجہ اور دوسری طلاق شدہ وبیوہ خواتین سے نکاح غیرت کے منافی نہ تھا۔ جب رسول اللہۖ کو شک ہوا تھا تو حدیث میں آتاہے کہ حضرت علی سے فرمایا کہ حضرت ماریہ قبطیہ کے ہم زبان کو قتل کردو، حضرت علی نے اس کو کنویں سے نکالا تو وہ مقطوع الذکر تھا اسلئے چھوڑ دیا۔ فتح مکہ کے موقع پر حضرت علی نے اپنے مشرک بہنوئی کو قتل کرنا چاہاتھا لیکن رسول اللہۖ نے روک دیا تھا۔
جب اسلام نازل ہوا تھا تو دورِ جاہلیت میں بعض بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے اور دنیا کے مختلف مذاہب میں طلاق کا تصور بھی ناجائز تھا اور کہیں طلاق کے بعد عورت کو دوسری جگہ نکاح سے روکا جاتا تھا۔ یہود ،نصاریٰ اورمشرکین مکہ خود کو حضرت ابراہیم کی طرف منسوب کرتے تھے لیکن طلاق اور اس سے رجوع کے حوالے سے بہت افراط اور تفریط کا شکار تھے۔ ہندوستان میں حضرت نوح کی اولاد آباد ہوگئی لیکن برہمن اسرائیلیوں نے ہندو، بدھ مت اور دوسرے مذاہب کی طرح اسلام بھی قبول کیا ہوگا۔ البتہ جس طرح فتح مکہ کے بعد مشرکین مکہ نے مجبوری کا نام شکریہ کے طور پر اسلام قبول کیا تھا جس کی وجہ سے بنوامیہ ،بنوعباس نے بعد میں مسندِ خلافت پر خاندانی قبضہ بھی کیا ، یہ وہی تھے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد ہی اسلام قبول کیا تھا۔ اگر ہندوستان کے برہمن بھی اسی طرح اسلام کو قبول کرتے تو پھر خاندانی بنیادوں پر مغل سے زیادہ خودہی بادشاہت کرتے۔
حضرت مولانا سیدضیاء اللہ شاہ بخاری درست کہتے ہیں کہ قرآن میں فتح سے پہلے اور فتح کے بعد میں مسلمان ہونے والوں کے درمیان فرق کیا گیاہے ۔ اس سے بڑا فرق اور کیا ہوسکتا ہے کہ فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہونے والوں نے خلافت راشدہ کا نظام قائم کیا اور بعد والوں نے خاندانی بادشاہت قائم کرلی؟۔ سعودی عرب کو حضرت معاویہ سے پیار اور یزید سے سروکار نہیں بلکہ بادشاہت کو سپورٹ کرنے کی فکرمیں اپنا خیال رکھ رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کتا مالک کیلئے بھی بھونکتا ہے اور اپنے لئے بھی لیکن کچھ کتے ایسے بھی ہوتے ہیں جو صرف اپنے ہی لئے بھونکتے ہیں۔ سعودی شاہی خاندان اور انکے پالتو اہلحدیث بھی یزید سے زیادہ ہل من مزید کی جہنم بھر رہے ہیں ۔ شیعوں سے نہیں حضرت حسین کے کردار سے ان کو خطرہ ہے اسلئے بھارتی فوج سے معاہدے کررہے ہیں۔
رسول اللہۖ نے حضرت علی کی نامزدگی چاہی بھی تو حدیث قرطاس نے اس تمنا کو عملی جامہ نہیں پہنانے دیا۔ اگر نبیۖ اس کو اسلام اور کفر کا مسئلہ سمجھتے تو غدیر خم کے بجائے آخری خطبے میں حضرت علی کو نامزد کردیتے ، حضرت علینامزد ہوئے اور نہ قریش کو اپنے بعد امام مقرر کرنیکاا علان ہوا تھا۔ ورنہ انصار وقریش اور اہلبیت کے درمیان خلافت کے مسئلے پر اختلاف کی نوبت نہ آتی۔ حضرت علی ہی کو مقرر کرنا ہوتا تو پھر نبیۖ اس کیلئے باقاعدہ بیعت لیتے جس طرح حضرت عثمان کی شہادت پر صلح حدیبیہ سے پہلے صحابہبیعت ہوگئے اورصلح حدیبیہ کے بعد خواتین سے اصلاح کیلئے بیعت لینے کی اللہ نے وضاحت فرمائی ہے۔
رسول اللہۖ نے اہلبیت اور اپنی عترت کو قرآن کیساتھ دوسری بھاری چیز بھی قرار دیا اور اپنے اہل بیت کو کشتی نوح کے مانند بھی قرار دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خلافت راشدہ سے لیکر بنوامیہ وبنوعباس کے ادوار تک اہلبیت پر بہت مظالم بھی ہوئے ہیں لیکن اگر اقتدار سے محروم کرنے کو بنیاد بنایا جائے توپھر یہ دین کیلئے درست کردار ادا کرنے کے بجائے محض خاندانی جھگڑے کا معاملہ ہی باقی رہ جاتا ہے۔ بعض معاملات کا بالکل انکار کرنا بھی درست نہیں کہ حضرت موسیٰ نے بھائی حضرت ہارون کو کیسے داڑھی اور سرکے بالوں سے پکڑا ہوگا؟، مگر اس کی وجہ سے اتنی کہانیاں گھڑنا بھی درست نہیں کہ انسانیت دم بخود رہ جائے۔
نبیۖ کی تمنا حضرت علی اور قریش کے حوالے سے امامت کی تھی مگر اس میں شیطان نے جو القا کیا ہے اس کی گلوکاری پر بھی بہت ہی بڑی حیرت ہے۔ رسول اللہۖ نے لعان کے بعد ایک ساتھ تین طلاق پر ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا اور ایک ساتھ تین طلاق اور حیض میں طلاق دینے پر غضبناک بھی ہوئے مگر اُمت جس طرح رسول اللہۖ کی معتدل تمنا سے ہٹ کر افراط وتفریط کا بری طرح شکار ہوگئی ہے اس القائے شیطانی پر بھی کوئی لانگ مارچ کرے گا؟۔
اگر میاں بیوی میں کھلی ہوئی فحاشی کے الزام کی طرح کوئی ناچاقی ہوتو پھر قرآن اچانک جدائی وتفریق کی واضح الفاظ میں اجازت دیتا ہے۔ سورۂ طلاق کی پہلی آیت میں اس کی بھرپور وضاحت ہے۔ اگر بلاوجہ ایک ساتھ تین طلاق سے فارغ کیا جائے تو نبیۖ کی طرف سے غضبناک ہونے کی وجہ صرف یہ تھی کہ قرآن میں عدت کے اندر مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کی جس طرح وضاحت ہے اسکے ہوتے ہوئے جاہلانہ طرزِ عمل کو اپنانا بہت بڑی کوتاہی کا پیش خیمہ تھا۔
رسول اللہ ۖ کی تمناؤں کا شیطانی القا سے خون کرنے والے مذہبی طبقے نے عجیب روش اپنالی ہے۔ جب شوہر اور بیوی جدا ہونا چاہتے ہوں تو پھر طلاق میں بھی حرج نہیں ہے۔ خلع کی صورت میں رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ایک ہی حیض کی عدت کافی ہے۔ جمہور فقہاء اور سعودی عرب میں اس پر عمل ہوتا ہے۔ جب شوہر تین طلاق دے اور عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو توپھر شوہر کو اللہ نے رجوع کا حق نہیں دیا ہے۔ تین طلاق ہی نہیں ایک طلاق پر بھی رجوع کا حق نہیں دیا ہے اور ایک طلاق ہی کیا؟، اگر ایک مرتبہ ناراضگی شروع ہوئی تو پھر جب تک باہمی رضامندی سے دونوں راضی نہ ہوں تو شوہر کیلئے رجوع کرنا حرام ہے۔
قرآن میں ایک ایک بات کی زبردست وضاحت ہے لیکن شیطان نے اپنے القا سے جس طرح مذہبی طبقات کے مسالک کوبھر دیا ہے تو اس کا انجام یہ نکلا ہے کہ امت قرآن سے بالکل دور ہٹ گئی ۔ اللہ نے فرمایا کہ ” اوررسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔(القرآن)
یمین کا مفہوم بہت وسیع اور واضح ہے۔ فتاویٰ قاضی خان میں فتویٰ لکھاہے کہ شوہر نے بیوی سے کہا کہ اگر میری شرمگاہ تیری شرمگاہ سے خوبصورت نہ ہو تو تجھے طلاق اور بیوی نے کہا کہ اگر میری شرمگاہ تیری شرمگاہ سے خوبصورت نہ ہو تو میری لونڈی آزاد ہے۔ اگر دونوں کھڑے ہوں تو مرد کی طلاق ہوگئی ،عورت بری ہوگئی ۔ دونوں بیٹھے ہوں تو مرد کی طلاق نہیں ہوئی اور عورت کی لونڈی آزاد ہوگئی اسلئے کہ کھڑے ہونے والی حالت میںعورت کی زیادہ خوبصورت ہوتی ہے اور بیٹھنے کی حالت میں مرد کا زیادہ خوبصورت ہوتا ہے۔ اور اگر عورت کھڑی ہو اور مرد بیٹھا ہو تومجھے بھی نہیں پتہ کہ کیاہوگا؟۔امام ابوبکر بن فضل نے کہا ہے کہ مناسب ہے کہ دونوں حانث ہوں کیونکہ دونوں نے اپنے یمین میں اپنی شرمگاہ کے زیادہ خوبصورت ہونے کی شرط لگائی ہے جبکہ اسکے برعکس میں حانث ہونگے اور باقی اللہ صحیح بات جانتا ہے۔ یہ فتویٰ سلطنت عثمانیہ کے ”فتاویٰ تاتار خانیہ” میں چھپ گیا ۔ پھر ہندوستان کے شاہی مدرسہ مراد آباد سے مزید قرآن وحدیث کی تخریج وتالیق سے علماء دیوبند نے آراستہ کرکے شائع کیا تھا اور پھر کوئٹہ سے یہ فتاویٰ تاتارخانیہ شائع ہوا ہے۔ اگر صادق سنجرانی نے مولانا عبدالغفور حیدری اور مولانا عطاء الرحمن سے پوچھ لیا ہوتا کہ پی ڈی ایم (PDM)کے مولانافضل الرحمن نے مریم نواز اور کیپٹن صفدر ، نوازشریف اور بیگم کلثوم کو مسئلے کا کیا جواب دینا تھا؟۔ تو پھر قومی اسمبلی اور سینیٹ سے اسلامی آئین سازی کا آغاز ہوسکتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے القائے شیطانی کے دریامردار میں غرق علماء ومفتیان کو بہت واضح انداز میں قرآنی آیات سے رہنمائی فراہم کی ہے لیکن ایک طرف درباری علماء نے قرآن وسنت کے مقابلے میں انتہائی گھٹیا قسم کا کردار ادا کیا ہے تو دوسری طرف حکمرانوں نے بھی استنجے کے ڈھیلوں کی طرح ان کو استعمال کرکے پھینکا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے طالبان دہشت گردوں پر خراسان کے دجال والی روایت بالکل درست فٹ کی تھی مگر ان جاہلوں کو سیدھی راہ نہ دکھانے والے علماء اور انکو غلط راہ پر ڈالنے والے حکمران دجال سے زیادہ بدتر اور خطرناک ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ جو طالبان مولانا فضل الرحمن پر بھی خود کش حملے کررہے تھے تو پھر وہ پیپلزپارٹی کے دور میں میاں نواز شریف اور عمران خان نیازی کو اپنی طرف سے نمائندہ نامزد کررہے تھے۔ اگر پیپلزپارٹی، ن لیگ، تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام کے حکمران اور لیڈر ، پاکستان کی مذہبی اور سیاسی قیادت اُمت مسلمہ کو قرآن کی طرف رجوع کرنے پر راغب کرتے تو ایکدوسرے سے لوٹ مار میں اضافے اور سبقت لے جانے کے بجائے انسان جیسے انسان بن کر رہتے۔
دورِ جاہلیت میں ایک ساتھ تین طلاق پر حلالہ کی لعنت کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور طلاق کا اظہار نہ کرنے کی صورت میں عورت کو زندگی بھر انتظار کرنا پڑتا تھا مگر قرآن نے ایک ایک مسئلے کو کچھ اس انداز سے حل کردیا ہے کہ جب عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو تو پھر ایک مرتبہ نہیں دس مرتبہ حلالہ کرانے کے بعد بھی وہ حلال نہیں ہوسکتی ہے، کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر بنوں کے اندر زبردستی سے حلالے کی لعنت والے کیس پر عدالت نے مولوی اور ملوث شخص کو جیل بھیج دیا تھا۔
جب عورت راضی ہو تو پھر حلالہ کی لعنت کا کوئی تصور اسلام میں نہیں تھا لیکن شروع میں عورت کو قرآن کے مطابق تحفظ دیکر حضرت عمر نے طلاق کا فیصلہ کردیا اور صحابہ کرام اہل زبان تھے اسلئے عدت میں رجوع کرلیا کرتے تھے اور تنازع کی صورت میں حرام کے لفظ پر تین طلاق کا فتویٰ دیتے تھے۔ صحابہ کرام اور ائمہ اربعہ نے تنازعہ کی صورت میں بالکل ٹھیک فتویٰ دیا لیکن جب امت نے قرآن کو چھوڑ دیا اور میاں بیوی صلح پر راضی ہونے کے باوجود بھی فقہاء سے فتویٰ طلب کرنے لگے تو پھر بہت بڑا فاصلہ کھڑا ہوگیا۔ اس فاصلے کی بنیاد اس طرح بن گئی کہ بادشاہ سے عورت جان چھڑانا چاہتی تھی اور جب بادشاہ مشروط طلاق دیدیتا تھاتو مولوی فجر کی آذان کا مغالطہ دیکر تہجد کے وقت میں آذان دیتا تھا۔ پھر فتویٰ دیا جاتا تھا کہ طلاق نہیں ہوئی ہے۔ پہلے دنیا میں عورت کے حقوق نہیں تھے اسلئے لعان کا قرآنی قانون لوگوں نے مسترد کردیا تھا۔ یہاں تک کہ تعزیرات ہند میں انگریز نے بھی غیرت کے نام پر قتل کی اجازت دی تھی ۔ اب حلالہ کی لعنت سے جان چھڑانے کیلئے قرآن کی آیات میں بہت وضاحت ہے جس سے شیطانی القا کا نہ صرف خاتمہ ہوسکتا ہے بلکہ اسلام کوبرصغیر پاک وہندکے غیرتمندلوگوں اور دنیا بھر کے مسلمان،کافر سمیت سب قبول کرینگے۔دجال سے بدتر حکمران اور علماء ومفتیان کو اپنی روش بدلنا پڑے گی اور خلافت کا نظام دنیا میں قائم ہوگا۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

برصغیر پاک وہند سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز ہونیوالا ہے۔ پشتون قوم کہتی ہے کہ ہم نے مشاورت سے اسلام قبول کیاتھا لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پشتو نیم کفر ہے۔ اور یہ حقیقت بھی ہے اسلئے کہ اسلام میں ایک لعان کا قانون ہے۔ قرآن کا یہ حکم ہے کہ اگر بیوی کو شوہر کھلے عام کسی کیساتھ فحاشی میں مبتلاء دیکھ لے تو اس کے خلاف قتل کا اقدام نہیں کرسکتا ۔ پشتون نے اسلام کا یہ حکم نہیں مانا ہے۔ وہ کہتاہے کہ پٹھان غیرت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا ۔ دوسری طرف نام نہاد اسلام میں حلالہ کی لعنت ہے تو پشتون نے اپنے وسیع ترمفاد کیلئے اس بے غیرتی کو قبول کرلیا ہے۔ بنی اسرائیل میں یہ خصلت تھی کہ وہ اللہ کے بعض احکام پر ایمان لاتے اور بعض کا انکار کرتے۔ یہی حشر پشتونوںنے اسلام اور غیرت کیساتھ بھی کررکھا ہے۔
حضرت خالد بن ولید بڑے بہادر تھے ،ان کا تعلق بھی اصل میں بنی اسرائیل سے تھا۔ قریش بنی اسماعیل تھے۔ جس طرح (1948) میں پشتون قبائل نے کشمیر کو فتح کیا تھا اسی طرح خالد بن ولید نے مکہ فتح کرنے کیلئے پشتونوں کا لشکر بلایا تھا۔ ہندی برہمن کا ذہن بہت تیز ہوتا ہے۔ جب اسلامی اقتدار دنیا میں آیا تو برہمن نے اسلام قبول نہیں کیا لیکن اچھوتوں نے اسلام کو قبول کرلیا،جس طرح امریکہ کے گورے مسلمان نہیں ہوتے مگر کالی نسل والے اسلام قبول کرتے ہیں۔ اسلام میں نسلی امتیاز کا تصور ایک تعارف کے طور پر ہے ،انسانی حقوق میں کوئی فرق نہیں ہے اور اصل اہمیت نسل کی نہیں کردار کی ہے لیکن معروضی حقیقت یہ ہے کہ نسلی شرافت اپنے رنگ ڈھنگ دکھاتی ہے۔
عرب میں ایک نبوت کا دعویدار گزرا تھا جس کی شاعری کی کتاب ”المتنبی” درس نظامی میں پڑھائی جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ”اگر شریف انسان کی عزت کرلی تو گویا اسکے آپ مالک بن گئے اور اگر رذیل کی عزت کرلی تو وہ خراب ہوجاتا ہے”۔ اسی طرح وہ عجم میں حکمران خاندانوں کا کہتا ہے کہ ” ان کی نسل اور حسب نہیں ہے ، لوگوں پر حکومت ایسے کرتے ہیں جیسے جانوروں کو چراتے اور ہنکاتے ہوں”۔اگر اچھے خاندان سے برصغیرپاک وہند میں حکمران آگئے تو اسلام کی نشاة ثانیہ کاچرچا ہوگا اور دنیا بھر میں اسلام کے ڈنکے کا صوربہت جلد بجے گا۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat