مارچ 2021 - Page 3 of 4 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

اسلام کی نشاة ثانیہ میں حلالہ سے چھٹکار ا ہوگا تو پھر برہمن بھی اسلام قبول کریں گے؟

اسلام کی نشاة اول میں قرآن کے لعان کا حکم دنیا کیلئے ناقابل عمل تھا،اسلئے پختونوں نے اسلام کو سمجھے بغیر قبول کرلیا لیکن ہند کے راجپوتوں نے قبول نہیں کیا،اسلام کی نشاة ثانیہ میں حلالہ سے چھٹکار ا ہوگا تو پھر برہمن بھی اسلام قبول کریں گے؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ تین (3)کروڑ خاندانوں کو مالی مدد فراہم کرینگے۔ ایک خاندان میں اوسطاً آٹھ (8) افراد ہیں ۔پاکستان کی چوبیس (24)کروڑ آبادی نہیں ،وزیراعظم نشہ میں بولتے ہیں کیا؟

رسول اللہۖ نے فرمایا کہ لوگ معدنیات کی طرح ہیںجو اسلام سے پہلے جاہلیت میںسونا ،چاندی، تانبہ اورکوئلہ تھے تو وہ اسلام کے بعد بھی ایسے ہی ہیں۔ اچھوت کی اپنی فطرت ہے

پٹھان اور سکھ اس بات میں مشہور ہیں کہ پہلے کام کر تے ہیں اور پھر سوچتے ہیں۔ جب طالبان کی دہشت گردی کا بازار گرم ہوا تو پاکستان بھر سے امریکہ کے مقابلے میں طالبان کی تائید ہوئی لیکن پٹھان نے بلاسوچے سمجھے اپنا تن ،من ،بدن اور وطن قربان کردیا۔عبداللہ محسود گونتاناموبے سے سزا کاٹ کر آیا تھا تو اسکے بھائی کو خودکش جیکٹ کیساتھ ٹانک سے گرفتارکیا گیا جو کراچی میں خود کش حملہ کرنے کیلئے جارہاتھا۔ امریکہ اس کے پیچھے افغانستان میں بیٹھا تھا اور یہ حضرت کراچی میں کسی مسجد، بازار اور سرکاری عمارت کوچوتڑ پر بارود باندھ کر اُڑا رہا تھا۔
وانا کے وزیر قوم نے ازبکوں کیساتھ رشتے ناطے بھی کئے تھے۔ پاک فوج نے اگر وزیرقوم کی مدد نہیں کی ہوتی تو القاعدہ اور طالبان کے دہشت گردوں نے ان کی خواتین کو بھی اٹھالینا تھا۔ جب بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سندھ میں وزیرستان کی عوام کے املاک کو نقصان پہنچا تو طالبان پر پشتون قوم کا دباؤ آیاجس کی وجہ سے بیت اللہ محسود نے بیان جاری کیا کہ عورت کو قتل کرنا ہمارا شعار نہیں ہے، حالانکہ فضول بک رہاتھا اسلئے کہ کوٹکئی جنوبی وزیرستان میں خاندان ملک کی فیملی کو مارا تو حافظہ بچی بھی شہید کی۔ ٹانک سے لیڈی ڈاکٹر کو اغواء برائے تاوان کیلئے جنوبی وزیرستان لے گئے تو ان کی غیرت سستی شہرت کے طالب شہیر سیالوی کی طرح تھی جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کادن مناتا ہے مگریہ نہیں دیکھتا کہ کن بے غیرتوں نے یہ کام کیا تھا؟۔
جب پاکستانی جرنیلوں نے نوازشریف کی حکومت ختم کر کے اقتدار سنبھالا تو عافیہ صدیقی کو پکڑکر امریکی فوج کے حوالہ کیا لیکن مہابھارت نے بھارتیوں سے بدسلوکی کا بدلہ امریکن کو ننگا کرکے لیا جس پر بھارت نے عزت کمائی اور ہمارے لئے امریکی نے درست کہا تھا کہ ”پاکستانی ماں کو بھی بیچ سکتے ہیں”۔
بھارتی ہندوؤں نے مسلمانوں کیساتھ تحریک خلافت کی بحالی میں بھی حصہ لیا تھا۔ جب اماں بولی کہ بیٹا جان خلافت پر دے دینا۔ محمد علی جوہر کے اخبار نے برصغیر میں”کامریڈ” کے نظرئیے کو پھیلایا تھا۔ آج لتا حیا جیسی راجپوت برہمن شاعرہ کا کردار ہندوستان میں مسلمانوں کے تحفظ کیلئے بہت واضح ہے لیکن اچھوت ہندو مسلمانوں کو ظلم کا نشانہ بنارہے ہیں۔افسوس یہ ہے کہ پاکستان میں اچھوت مذہبی، سیاسی اور فوجی طبقات کا اقتدار ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور پاکستانی عوام تباہ ہیں۔
پشتونوں کو چوتڑ تک بال رکھنے والے کم اصل اور بدکردار طالبان نے تباہ کیا اور پنجاب کو شہیرسیالوی جیسے تباہ کریںگے جن کی مونچھ ان کی دُم کی جگہ پر ہونی چاہیے۔ انگریز نے فوجی چھاؤنیوں کیساتھ لال کرتیوں کے ذریعے غیرتمند برصغیر کے ماحول کو خراب کردیا ۔شرابی جرنیل یحییٰ خان سے پرویزمشرف اور ڈانس پارٹی کے ذریعے عمران خان کو لانیوالوں تک ایک ایک معاملہ آبِ شرم سے لکھ کرگٹر کے نالے میں ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ پاک سر زمین پر ناپاک سودی نظام کیوں ہے؟۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی بیٹی اپنے ماحول کی وجہ سے غیرمسلم کز ن کیساتھ بھاگ گئی تھی۔ قائدملت نوابزادہ لیاقت علی خان کی بیوی بیگم راعنا لیاقت کا بس چلتا تو میراجسم میری مرضی کیلئے بہت پہلے خواتین کو نکال دیتی لیکن اس وقت نکلنے کیلئے جدید فیشن ایبل لڑکیاں اتنی تعداد میں موجود نہیں تھیں اور اب لاہور سے اسلام آباد، ملتان اور کراچی تک اگر عمران خان کے جلسوں کو فوجی افسران کی دلیر بیٹیاں کامیاب بناسکتی ہیں تو عورت آزادی مارچ میں بھی کامریڈ بن کر وہ نکل سکتی ہیں اور یہ جنسی آزادی اور ہم جنس پرستی کیلئے نہیں نکلتی ہیں کیونکہ اس پر پابندیاں نہیں۔ پاکستان سے دوبئی تک عزتوں کے سوداگریہ کام کررہے ہیں۔ بغیر ماں باپ جھولوں والے بچوں کے ایدھی سے لیکر سویٹ ہاؤس تک بہادر لوگوں نے ٹھکانے بنائے ہیں۔ جنرل حمیدگل اور عمران خان کی پیشکش عبدالستار ایدھی نے ٹھکرا دی تھی اور خلافت کا ڈرامہ رچانے والے کو سکیورٹی اہلکاردیکھتے رہ گئے اور زمرد خان نے پکڑکر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
پشتو شاعر رحمان بابا نے کہا تھاکہ ”دوسروں کی راہ میں کھڈہ مت کھودنا،تمہارا بھی وہی راستہ ہوسکتا ہے” طارق ساگر نے کہاہے کہ تحریکِ لبیک عورت مارچ والوں کو کیوں نہیں روکتی ہے؟۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ جمعیت علماء اسلام کے دھرنے میں افغان طالبان کا جھنڈاکون لے جاتاہے؟۔شاید فرانس کے جھنڈے کا عورت مارچ کی انتظامیہ کو پتہ بھی نہیں ہوگا لیکن کسی نے پہنچادیاہوگا۔ جس طرح ایک خواجہ سرا نے اپنا پوسٹر انکے خلاف اُٹھایا تھا جو اس کو زبردستی جنسی زیادتی کا نشانہ بنارہے تھے اور عورت مارچ والوں نے اس کی بھرپور طریقے سے وضاحت بھی کی لیکن پھر بھی عورت مارچ کے خلاف میڈیا پر پروپیگنڈہ کیا گیا تو مارچ میں سرپر کفن باندھ کر نکل آئیں۔ یہ اچھا ہوا کہ فرانس کے پرچم کا پروپیگنڈہ نہیں ہوا، ورنہ لاہور اور اسلام آباد میں فرانس کے پرچموں کی بہار نظر آتی۔
آئی ایس آئی کے خالد خواجہ اور کرنل امام کوطالبان نے قتل کیا تھا ،اوریامقبول جان اور شہیرسیالوی تحریک لبیک کے کام آسکتے ہیں۔ ایک کو داڑھی لمبی رکھنی پڑجائے اور دوسرا مونچھ ہی کاٹ ڈالے پھر بھی قدرت اپنی جگہ پریہ کرشمہ دکھاسکتی ہے۔
ہمارے خاندان نے طالبان کو بہت زیادہ سپورٹ کیا تھا اور اللہ کا شکر ہے کہ انہوں نے ہمیں بہت بے دردی کیساتھ مار دیا ورنہ تاریخ میں ہمارا شمار بھی ان ظالموں کو سپورٹ کرنیوالے انتہائی بزدل اور بہت ہی زیادہ بے غیرت لوگوں میں ہونا تھا۔ آج پختونوں اور پاکستان کے کرتے دھرتوں کا یہ فرض بن رہا ہے کہ اچھوت قسم کے شیخ الاسلام علماء اورمفتی اعظم کا غلط تصور ختم کرکے اجتماعی بنیادوں پر حلالہ کی لعنت اور بے غیرتی سے مذہبی طبقات کی جان چھڑائیں،جسکے نمایاںاثرات افغانستان کے علاوہ پوری دنیا پر بھی پڑینگے۔ سکھ اور برہمن راجپوت بھی اسلام قبول کرکے ہندسے ہندوانہ رسم کو خودہی مٹادیں گے۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

طلاق پر حلالہ کی لعنت سے نبیؐ کے دل میں اللہ نے جان چھڑانے کی تمنا پیدا کرکے آیات نازل کیں مگر شیطانی القا نے معاملہ اُلٹا دیا!

جاہلیت میں خواتین کے حقوق پامال تھے، عدت میں بار بار طلاق سے رجوع اور اکٹھی تین طلاق پر حلالہ کی لعنت سے رسول اللہۖ کے دل میں اللہ نے جان چھڑانے کی تمنا پیدا کرکے آیات نازل کیں مگر شیطانی القا نے معاملہ اُلٹا دیا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

رسول اللہۖ نے آخری خطبہ میں خواتین کے حقوق کا خاص خیال رکھنے کا حکم فرمایا مگر اللہ تعالیٰ نے قرآنی آیات میں خواتین کو جو تحفظ دیا تھا وہ بھی شیطانی القا نے خراب کرکے رکھ دیا!

اگر سابقہ رسولوں اور انبیاء کی طرح قرآنی احکام میں شیطانی القا سے بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش نہ ہوتی تو پھر قرآن اور ہمارے نبی ورسولۖ سے متعلق پیش گوئی کیسے پوری ہوسکتی تھی؟

قل یاایھاالناس انماانالکم نذیر مبینOفالذین اٰمنوا وعملوا الصّٰلحٰت لھم مغفرة ورزق کریمOوالذین سعوا فی آےٰتنا معٰجزین اُولٰئک اصحاب الجحیمOومآارسلنامن قبلک من رسولٍ ولانبیٍ الّآ اذاتمنٰی القی الشیطٰن فی امنیتہ فینسخ اللہ ما یلقی الشیطٰن ثم یحکم اللہ آےٰتہ واللہ علیم حکیمOلیجعل مایلقی الشیطٰن فتنة للذین فی قلوبھم مرض والقاسیة قلوبھم وان ظٰلمیں لفی شقاقٍ بعیدٍOولیعلم الذین اُوتوالعلم انہ الحق من ربک فیومنوا بہ فتخبت لہ قلوبھم وان اللہ لھادالذین اٰمنوا الیٰ صراط مستقیمOولا یزال الذین کفروا فی مرےةٍ منہ حتی تاتیھم الساعة بغتةً او یأتیھم عذاب یومٍ عقیمٍOالملک یومئذٍ للہ یحکم بینھم فالذین اٰمنوا و عملوا الصٰلحت فی جنٰت النعیمOوالذین کفروا وکذّ بوا باٰےٰتنافاولٰئک لھم عذاب مھینO
ترجمہ”کہہ دیجئے کہ اے لوگو! بیشک میں تو صرف تمہارے لئے بہت کھلا ڈرانے والا ہوں۔ پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے تو ان کیلئے مغفرت ہے اور عزت والی روزی ہے۔ جو لوگ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ اللہ کی آیات ناکام بنائیں تو یہی لوگ جحیم والے ہیں۔ اور ہم نے نہیں بھیجا آپ سے پہلے کسی رسول کواور نہ کسی نبی کو مگر یہ کہ جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس کی تمنا میں اپنا القا کردیا۔ پس اللہ مٹا دیتا ہے جو شیطان نے القا کیا پھر محکم بنادیا ہے اپنی آیات کو اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ تاکہ بنادے جو شیطان نے القا کیا ہو،ان لوگوں کیلئے فتنہ جن کے دلوں میں مرض ہے اور جن کے دلوں میں سختی ہے۔ اور بیشک ظالم لوگ دُور کی پھوٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔ اور تاکہ جان لیں وہ لوگ جن کو علم دیا گیا ہے کہ حق تیرے رب کی طرف سے ہے۔ پس اس پر ایمان لائیں اور ان کے دل اس کیلئے جھک جائیں۔ اور بیشک اللہ ہدایت دینے والا ہے ایمان والوں کو سیدھی راہ کی طرف۔ اور جنہوں نے کفر کیا ہے وہ برابر شک میں پڑے رہیںگے اس سے۔ یہاں تک کہ وقت اچانک ہی آن پہنچے یا پھر ان پر بانجھ پن کا عذاب ۔ اس دن ملک اللہ کیلئے ہوگا ،وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ پس جو لوگ ایمان والے اور عمل صالح والے ہیں تو وہ نعمتوں والے باغات میں ہوںگے اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا تو ان لوگوں کیلئے رسوا کن عذاب ہوگا”۔ (سورہ حج آیات49تا57)
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بہت وضاحت کیساتھ شیطانی القا سے متاثر ہونے والے دو قسم کے لوگوں کا ذکر کیا ہے ۔ایک ایمان اور عمل صالح والے ہیں ان کیلئے مغفرت اور عزت والی روزی کا وعدہ ہے۔ بینکوں کے سودی معاوضے کو عزت کی روزی کون کہہ سکتا ہے؟۔ مفتی تقی عثمانی کے سارے اثاثے چیک کئے جائیں تو پتہ چل جائیگا کہ اس میں روزی کے کیا بارودی دھماکے ہوتے ہیں؟۔ آیت میںدوسرے کافر ہیں جن کی کوشش یہ ہے کہ وہ اللہ کی آیات کو مغلوب کردیں۔ یہ لوگ جحیم والے ہیں۔میرے استاذ مفتی محمد نعیم نے بتایاتھا کہ مفتی تقی عثمانی نے دباؤ ڈالا کہ طلاق کے مسئلے میں قرآنی آیات کی تائید مت کرو۔ یہ حلالے کی لعنت میں ملوث لوگ کس طرح صالح عمل کا دعویٰ کرسکتے ہیں؟۔
اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ پہلے بھی لوگوں پر ایک وقت گزر جاتا تھا توپھر ان کے دل سخت ہوجاتے تھے۔ جب قرآن نازل ہورہاتھا تو جن کافروں کے دلوں میں مرض تھا ،ان کیلئے طلاق سے رجوع کے احکام میں بڑا فتنہ تھا ۔ اللہ بھی ان کو ہدایت نہیں دینا چاہتا تھا۔ کیونکہ دین میں جبر نہیں ہے۔ قرآنی آیات کے محکمات بھی ان کافروں اور منافقوں کیلئے قابلِ قبول نہیں تھے جن کے دلوں میں مرض تھااور جنکے دل سخت ہوچکے تھے۔ آج پھر جن لوگوں کے دلوں میں حلالہ کی لعنت کا مرض ہے اور جن کے دل سخت ہوچکے ہیں وہ کسی شادی شدہ عورت کی عزت خراب ہونے پر ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں تو یہ القائے شیطانی ان کیلئے فتنہ اور آزمائش ہے۔ جو دین کے نام پر تجارت اور اپنے نفس کی ہوس مٹانے کے مرض میں مبتلاء ہیں وہ واضح آیات کے مقابلے میں دل کے اندھے پن کا شکار ہیں ۔ یہ اب حق سے بہت دورجا پڑے ہیں۔
دوسری طرف ایمان والے ہیں۔ جن کو اللہ نے علم دیا ہے وہ اللہ کی آیات کو دیکھ کر سمجھ رہے ہیں کہ شیطانی القا باطل ہے اور حق تیرے رب کی طرف سے قرآن کی محکم آیات میں موجود ہے ۔پس وہ اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اور انکے دل اس کیلئے جھک جاتے ہیں۔ اور بیشک اللہ ایمان والوں کو ہی صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ آج کراچی کے مفتی محمد حسام اللہ شریفی سے لیکرگوجرانوالہ کے مفتی خالد حسن مجددی تک بہت سارے علماء دیوبند، بریلوی ،اہلحدیث اور شیعہ قرآنی آیات سے صراط مستقیم کی ہدایت پارہے ہیں۔
جب اسلام نازل ہوا تھا تو کفر کرنیوالے فتح مکہ تک شک میں پڑے تھے۔ فتح مکہ ہی ان کیلئے اچانک انقلاب کا بہت بڑا دن تھا۔ ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اہل حق اس طرح سے غالب آجائیںگے۔ وہ نبیۖ اور صحابہ کرام کیلئے سمجھتے تھے کہ تاریخ کا حصہ بن جائیںگے لیکن پھر بانجھ ہونے کا عذاب خود ہی دیکھ لیا، اللہ نے پہلے خبر دی تھی کہ دشمن کو بے نام ونشان کردوں گا۔ ابوجہل کے بیٹے عکرمہ نے اسلام قبول کیا ،ابولہب کے بچے تھے یا نہیں لیکن ان لوگوں کی اولادیں بھی یہ نہیں بتاتی تھیں کہ کس کی نسل سے ہیں؟۔ جبکہ نبیۖ کی طرف منسوب سادات آج بھی دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ جب پھر انقلاب آجائیگا تو دیکھنا مفتی تقی عثمانی کی اولادیں انشاء اللہ پھر قیامت تک بھی شرمندگی سے اپنی نسبت ظاہر نہیں کریںگی۔ پاکستان پر ہمیشہ سودی نظام اور حلالہ کی لعنت کا عذاب مسلط کرنے والے غالب نہیں رہیںگے۔
اب سیدھے سادے طالبان ، القاعدہ ، داعش اور جہادی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے اور فرقہ پرستی سے مخلصانہ تعلق رکھنے والے بھی بات سمجھ رہے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی زندگی میں پہلی مرتبہ چیخنے اور دھاڑنے کی کوشش میں ڈھینچو ڈھینچو کر رہے ہیں۔ ہم اس کے اعصاب پر سوار ہوگئے ہیں۔ وہ دن بہت زیادہ دور نہیں ہیں کہ جب اچھے لوگ نعمت والے باغات میں ہوں گے اور اللہ کی آیت کا انکار کرنے والے اور ان کو جھٹلانے والے رسوا کن عذاب کا سامنا کریںگے۔
بلا ان پر اچانک نازل ہوگی جو اللہ کی محکم آیات سے شک میں پڑے ہیں اور پھر دیکھ لیںگے کہ شیطانی القا اور حلالہ کی لعنت کا کیسے خاتمہ ہوجائے گا۔
جاویداحمد غامدی کا علم اتنا سرسری ہے کہ ایک ویڈیو میں کہتاہے کہ ”اللہ نے عوام پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں لیکن رسول اللہۖ پر چھ نمازیں فرض کی ہیں۔ آپۖ پر تہجدکی نماز بھی فرض کردی ہے، عام مسلمانوں کیلئے تہجدنفل ہے” ۔
حالانکہ اللہ نے واضح کیا ہے کہ اقم الصلوٰة لدلوک الشمس الی غسق الیل و قراٰن الفجر ان قراٰن الفجر کان مشھودًاOومن اللیل فتہجد بہ نافلةً لک ”نماز پڑھیںسورج کے ڈھلنے سے رات گئے تک۔ اور فجر کا قرآن،بیشک فجر کے قرآن کی شہادت ہے۔ اور رات میں سے آپ کیلئے تہجد کی نماز نفل ہے”۔ اگر غامدی صاحب یہ کہتے کہ سورج کے ڈھلنے سے رات کی تاریکی چھا جانے تک نماز پڑھنے کا حکم نبیۖ کیلئے خاص تھا اسلئے کہ یہی آپۖ کے شایانِ شان تھا۔ پھر فجر کے وقت کا قرآن اسلئے بہت ہی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں انسان کا دل ودماغ بالکل تروتازہ ہوتا ہے۔ تہجد کی نماز نبیۖ کیلئے بھی نفل ہی تھی۔ اگر علماء وفقہاء فجر کے وقت قرآن پر توجہ دیتے تو فقہی مسائل میں اتنا زیادہ اُلجھنا نہیں پڑسکتا تھا۔
دورِ جاہلیت میں ایک مسئلہ یہ تھا کہ ” شوہر اپنی بیوی کی پیٹھ کو اپنی ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دیتا تو اس کو ایسا حرام تصور کیا جاتا تھا کہ حلالہ سے بھی وہ حلال نہ ہوسکتی تھی، مذہب کا یہ فتویٰ رائج الوقت سکے کی طرح چلتا تھا”۔ رسول اللہۖ سے خاتون نے اس معاملہ میں مجادلہ کیا تو آپۖ کی رائے بھی رائج الوقت مذہبی فتوے کے مطابق تھی۔ یہ القائے شیطانی پہلی شریعتوں کے نام پر چل رہاتھا اور جب رسول اللہۖ کی رائے بھی اس سے متاثر تھی تو اللہ تعالیٰ نے اس شیطانی القا کا راستہ اپنی واضح آیات سے روک دیا۔ چنانچہ علامہ شبیر احمد عثمانی نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ ” اللہ نے سن لی اس عورت کی بات ،جو آپ سے اپنے شوہر کیلئے جھگڑ رہی تھی”۔ اس القائے شیطانی نے معاشرے میں اس درجہ سرایت کی ہوئی تھی کہ اس کے مذہبی ہونے اور القائے شیطانی میں امتیاز باقی نہیں رہ گیا تھا اور جب اللہ نے اس کوواضح فرمادیا، سورۂ مجادلہ کی آیت میں یہاں تک واضح کیا کہ”وہ ان کی مائیں نہیں ہیں،ان کی مائیں صرف وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے۔ یہ منکر اور جھوٹا قول ہے۔ جو تمہارے اپنے منہ کی بات ہے”۔سورہ ٔمجادلہ
جس تھوڑی بہت عقل اور سمجھ بوجھ رکھنے والے انسان سے کہا جائے کہ اس آیت میں اللہ کے احکام اور القائے شیطانی میں کیا فرق ہے ؟۔ تو صاف صاف بتادے گا کہ بیوی کو ماں قرار دینے اور اس پر شرعی حکم جاری کرنے پر اللہ نے منکر اور جھوٹ کا حکم جاری کیا ہے اور یہی القائے شیطانی بھی ہے۔ ماحول اس قدر شیطان نے خراب کردیا تھا کہ سورۂ الاحزاب میں پھر اللہ نے نبیۖ کو حکم دیا کہ اللہ سے ڈرو۔کفار اور منافقین کی مت مانو، اس پر حکم جاری کرو جو اللہ نے تمہاری طرف نازل کیا ہے۔ اللہ تمہارے اعمال کوجانتاہے اور اس کی وکالت کافی ہے۔ اللہ نے کسی کے شخص کے پیٹ میں دو دل نہیں رکھے ہیں اور نہ جن بیگمات سے تم نے ظہار کیا ہے ان کو تمہاری مائیں بنایاہے”۔
انسان کے پاس ایک دل ہوتا ہے ، ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ماں کو ایک دل سے اپنی ماں سمجھے اور دوسرے دل سے اس کو بیوی سمجھے۔ اللہ کی وکالت انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ کافروں اور منافقوں نے پھر بھی بڑا زور لگالیا تھا کہ القائے شیطانی کی رائج کردہ شریعت کی خلاف ورزی کردی تو یہ دین اور مذہب کے خلاف ہوگا۔ جس دور میں اللہ تعالیٰ نے پہلے شیطانی القا کے علاج کیلئے فرمایا ہوگا کہ ”مائیں نہیں ہیں مگروہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے” تو پھر شیطانی القا نے عوام کو مذہبی طبقات کی شکل میں الجھن میں ڈال دیا ہوگا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سوتیلی مائیں اور باپ کی لونڈیاں حرام نہیں ہیں۔ پھر اس القائے شیطانی کو ختم کرنے کیلئے اللہ نے وحی نازل کی کہ ولاتنکحوا مانکح اٰبائکم من النساء الی ما قد سلف ”اور نکاح مت کرو جس سے تمہارے آباء نے نکاح کیا ہو مگر جو پہلے گزر چکاہے”۔
عباسی دور کے حنفی شیخ الاسلام بہت بیوقوف تھے اسلئے کہ امام ابوحنیفہ نے جیل میں زندگی گزاری، دوسرے ائمہ کرام نے بھی سختیاں برداشت کیں لیکن یہ بادشاہ کو اس کے باپ کی لونڈی جائز قرار دینے کے حیلے بتارہے تھے۔ اگر اسکے پاس علم اور عقل ہوتی توسورۂ مجادلہ کی آیت سے استدلال کرتے کہ لونڈی نے انسان کو جنا نہیں ہے تو وہ ماں بھی نہیں ہے۔ حالانکہ یہ القائے شیطانی ہوتا مگر جس طرح مفتی تقی عثمانی نے سودی زکوٰة اور بینک کے سودی نظام کیلئے حیلہ بنایا ہے اسی طرح سے شیطانی القاء ہر دور میں مذہب کے نام پرکارگر ثابت ہوا ہے بات کچھ ہوتی تھی اور شیطان اس میں اپنے مقاصد پورے کرنے کیلئے اپنی القا کردیتا تھا۔ جب سود کی آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دے کر منع فرمادیا۔ علماء وفقہاء نے بعد میں رسول اللہۖ کی تمنا میں القائے شیطانی ڈال کر یہ مسئلہ گھڑ دیا کہ چونکہ لوگ مزارعت کی وجہ سے غلامی کا شکار ہورہے تھے اسلئے نبیۖ نے اس کو سود اور ناجائز قرار دیا تھا۔ اپنے اصل کے اعتبار سے یہ ناجائز نہیں تھا۔ حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک ،امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے مزارعت کو سود اور ناجائز قرار دیا اور بعد میں آنے والے حیلہ ساز فقہاء نے مزارعت کو جائز قرار دیا۔
رسول اللہۖ کی تمنا تھی کہ جس طرح انبیاء نے دین کی تبلیغ کو اپنا پیشہ نہیں بنایا ،اسی طرح امت مسلمہ مذہب کے نام پر تجارت اور کاروبار نہ کریں، پہلے کے علماء متفق تھے کہ قرآن، نماز اور دینی تعلیم کو تجارت بنانا جائز نہیں ہے لیکن پھر شیطان نے اپنا القا اس تمنا میں شامل کردیا اور مذہب آج ایک تجارت ہے۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

سورۂ النجم کے حوالے سے شیطانی القا کی طرح بخاری وابن ماجہ وغیرہ میں قرآن کی حفاظت کے منافی احادیث کو بھی مسترد کرنا ہوگا

سورۂ النجم کے حوالے سے شیطانی القاکی طرح بخاری وابن ماجہ وغیرہ میںقرآن کی حفاظت کے منافی احادیث کو بھی مسترد کرنا ہوگا،اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ پورا کیا ہے مگر شیعہ سنی ایکدوسرے پر تحریف قرآن کا الزام لگاتے ہیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سنی شیعہ کتب میں تحریف کا عقیدہ موجود ہے اور ایکدوسرے پر الزامات لگانے کے بجائے ان من گھڑت روایات کو بہت کھلے انداز میں اپنے دل اوردماغ سے نکالنے کی ضرورت ہے

امام جعفر صادق،امام ابوحنیفہ ،امام مالک ،امام شافعی اورامام احمد بن حنبل سب کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ قرآن کے مقابلے میں کسی اور قرآن کو رواج نہیں دیا،سب اسی قرآن پر متفق ہیں

مدینہ منورہ میں ایک کتب خانے والے سے میں نے کہا کہ میں شیعہ ہوں تو انہوں نے کہا کہ الحمد للہ ہم سنی ہیں۔ میں نے کہا کہ الحمدللہ میں شیعہ ہوںالحمدللہ کہنے سے تو کچھ فرق نہیں پڑتا ہے ،شیعہ سنی میں فرق کیا ہے؟۔ اس نے کہاکہ سنی شیعہ میں بہت فرق ہے، شیعہ قرآن کو نہیں مانتے۔ میں نے کہا کہ آپ قرآن کو مانتے ہیں؟۔ اس نے کہا کہ الحمدللہ ہم مانتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ابن ماجہ اٹھانا اور ابن ماجہ میں رضاعت کبیر کی روایات دکھائی کہ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ” جب رسول اللہ ۖ کا وصال ہوا تو آپۖ کی چار پائی کے نیچے دس آیات پڑی تھیں۔ جن میںرجم کرنے کا اور بڑے شخص کو دودھ پلانے کا ذکر تھا تو بکری نے کھاکر ضائع کردیں”۔یہ دیکھ کر اس کا رنگ اُڑگیا۔ میں نے کہا کہ ہم نہ سنی ہیں اور نہ شیعہ،بلکہ مسلمان ہیں۔ اس نے کہا ہم بھی بس مسلمان ہیں۔
سنیوں نے اپنے لوگوں کے دل ودماغ میں یہ بھردیا ہے کہ شیعہ قرآن کی تحریف کے قائل ہیں اور شیعہ اب لوگوں کے دل ودماغ میں یہ بھر رہے ہیں کہ سنی قرآن کی تحریف کے قائل ہیں۔ حقائق کے بجائے مذہبی وسیاسی اتحاد کی بات کرنا اسلام اور ملت کا تقاضہ نہیں بلکہ منافقت کا شاخسانہ ہے۔ ابن ماجہ اور صحیح مسلم میں کس کا درجہ اونچا ہے؟۔ ظاہر ہے کہ صحیح مسلم کا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کہ ”اگر مجھے لوگوں کا خوف نہ ہوتا کہ وہ کہیں گے کہ اللہ کی کتاب پر اضافہ کیا ہے تو رجم کی آیات کو قرآن میں لکھ دیتا”۔ ابن ماجہ میں ہے کہ بکری کے کھا جانے کی وجہ سے رجم کی آیت و رضاعت کبیر کی آیات ضائع ہوگئیں اور صحیح مسلم میں ہے کہ اگر رجم کا حکم قرآن میں درج کیا جائے تو پھر لوگ اسکو قرآن میں اضافہ سمجھ لیں گے۔ حالانکہ اگر یہ بات صحیح ہوتی کہ آیات بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوگئی ہیں تو قرآن میں درج کرنے پر کیوں اعتراض ہوتا؟۔
سوال یہ ہے کہ رجم ورضاعت کبیر کا حکم قرآن میں تھا یا پھرحدیث میں؟۔ اگر قرآن میں تھا تو پھر جس کا حکم موجود تھاتو اس کی تلاوت منسوخ کیسے ہوگئی؟۔ اہلحدیث حضرات امام ابوحنیفہ اور ائمہ فقہ کے سخت مخالف ہیں لیکن وہ یہ مسائل کبھی حل نہیں کرسکتے ۔ اہلحدیث کایہ مسلک ہے کہ” بڑا آدمی کسی عورت کا دودھ پی لے تو پھر ان کا آپس میں پردہ نہیں رہتا ہے لیکن اگر نکاح کرنا چاہیں تو پھر آپس میں نکاح کرسکتے ہیں”۔ جسطرح مدینہ منورہ میں کتب خانے والے نے ابن ماجہ میں قرآن کی تحریف کی آیت دیکھ کر سنی ہونے سے بھی برأت کا اعلان کردیا،اسی طرح اہلحدیث اپنے مسلک کی تقلید سے بھی پکی توبہ کرلیںگے۔
قرآن کے بارے میں حدیث ہے کہ سات حروف پر نازل کیا گیا ہے اور ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرطاس میں کتابت کی شکل میں نازل نہیں کیا تھا اور ایک حرف کو پڑھنے کا لہجہ مختلف تھا۔ جس طرح پختون اور بلوچ ف پر پ کا تلفظ کرتے ہیں۔ فعل کو پعل کہتے ہیں۔ انگریزوں ، عربوں اور ہندوستانیوں کا لہجہ بھی حروف میں مختلف ہے۔ فون کو اسلئے (Fone)کے بجائے(Phone) لکھا جاتا ہے۔ تاکہ پ اور ف دونوں سے پڑھنے کا آپشن باقی رہے۔ ہماری پشتو زبان کے بعض حروف میں دونوں طرح کے لہجے کی گنجائش ہے۔پشتو اور پختو پڑھ سکتے ہیں۔ جئی اور زئی،لژ اور لگ ، سہ اور چہ وغیرہ لکھنے میں ایک ہیں لیکن پڑھنے میں تلفظ بالکل مختلف ہے۔ بعض عرب ق کو ج اور غ بھی پڑھتے ہیں۔ امارات میں شارجہ لکھنے میں شارقہ ہے اور لیبیا کے صدر قذافی کسی افریقی عرب کا قرآن سن رہے تھے تو اناانزلنٰہ فی الیلة القدر کو لیلة الغدر پڑھا جارہا تھا۔ مصری ج کو گ پڑھتے ہیں۔ انگریزی میں بھی (G)گ اور ج کی آواز دیتا ہے۔
صحابہ کرام نے قرآن کے مصاحف پر کوئی اختلاف نہیں کیا تھا ۔ جہاں کسی کے مصحف میں کوئی اضافہ ہے تو یہ اس کی تفسیر ہے۔ جس طرح جلالین اور کسی اور تفسیر میں اضافہ قرآن کا اختلاف نہیں ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تورات، زبور اور انجیل کے علاوہ افلاطون کی کتاب کیلئے کاغذ اور محفوظ راستہ تھا مگر ہماری روایات میں قرآن ہڈیوں ، پتھروں، درخت کے پتوں پر لکھا جاتا تھا اسلئے اپنے قرآن کی حفاظت کے بارے میں اپنی روایات سے شکوک ڈال دئیے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ نبیۖ نے قرطاس ایک وصیت لکھنے کیلئے مانگا تھا لیکن قرآن کیلئے قرطاس نہیں تھا جس کا ذکر قرآن کی آیت میں بھی ہے؟۔
قرآن کی حفاظت کیلئے قرآن کی داخلی آیات بھی کافی ہیں لیکن احادیث کی کتب میں قرآن کی حفاظت کیلئے بخاری کی ایک ہی سب سے مضبوط روایت ہے کہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ رسول اللہۖ نے ہمارے پاس مابین الدفتین ”دو جلد کے درمیان قرآن” کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا تھا۔ صحیح بخاری کی اس روایت پر وفاق المدارس کے صدر مولاناسلیم اللہ خان نے اپنی شرح ”کشف الباری” میں لکھ دیا ہے کہ ” امام اسماعیل بخاری نے یہ روایت شیعوں کے رد میں لکھ دی کہ تمہارا عقیدہ غلط ہے کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے ، حالانکہ صحیح بخاری کا اپنا عقیدہ اور سنیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن ایک نہیں ہے ۔جب حضرت عثمان نے قرآن جمع کیا تو حضرت عبداللہ بن مسعود کی رائے شامل نہیں کی ۔ جس کی وجہ سے ابن مسعود ناراض تھے اور حضرت عثمان کی طرف سے کسی کنواری لڑکی سے شادی کی پیشکش بھی اسلئے قبول نہیں کی تھی”۔
مولانا مودودی کی تفسیرتفہیم القرآن، علامہ غلام رسول سعیدیکی تفسیر تبیان القرآن اور علامہ شبیر احمد عثمانی کی تفسیر عثمانی میں لکھا ہے کہ ” عبداللہ بن مسعود کے مصحف میں آخری دو سورتیں نہیں تھیں اسلئے کہ وہ اس کو قرآن نہ سمجھتے تھے”۔ روایات میں آخری دو سورتوں کے علاوہ یہ بھی ہے کہ سورۂ فاتحہ کو بھی مصحف میں نہیں لکھا تھا۔ جس طرح سورۂ نجم کے حوالے سے شیطانی القا کی آیات پر بہت بڑا اختلاف ہے، یہی اختلاف حضرت ابن مسعود کی طرف سورتوں سے انکار پر بھی موجود ہے۔ مولانا مودودی نے اس کی تردید بھی نہیں کی ہے۔ حالانکہ جب کسی آیت سے انکار کفر کا موجب ہے تو سورتوں سے انکار کفر کا موجب کیوں نہیں ہوگا؟ حضرت عبداللہ بن مسعود کے مصحف کو جن لوگوں نے دیکھا تھا تو اس کا پہلا اور آخری صفحہ پھٹ چکا تھا جس کی وجہ سے سورۂ فاتحہ اور آخری دو سورتیں اس میں موجود نہیں تھیں۔ حضرت مولانا حافظ مفتی محمدحسام اللہ شریفی کے پاس اورنگزیب عالمگیر بادشاہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن موجود ہے، اس میں فاتحہ اور آخری پانچ سورتیں نہیں ہیں اسلئے پہلا اور آخری دو صفحے پھٹ چکے تھے لیکن اس کا یہ مطلب لینا ہرگز درست نہیں کہ وہ قرآن کی آخری سورتوں کے منکر تھے۔
دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث ، جماعت اسلامی اور اہل تشیع مل بیٹھ کر اپنے اپنے پیروکاروں کے ذہنوں سے غلط فہمیاں دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور تفاسیر میں قرآن کے نص اور سورتوں سے متعلق اپنی غلطی کی بھرپور نشاندہی کرکے عقیدے کی صحت کیلئے ایک پلیٹ فارم سے جدوجہد کریں۔ اگر عوام کی طرف سے مذہبی طبقات کے خلاف رد عمل آنا شروع ہوگیا تو نہ صرف ان کے مدارس بند ہوں گے بلکہ ان کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہوجائیں گے۔
ہم بہت تسلسل کیساتھ ان ڈھیٹ قسم کے لوگوں کو سمجھا رہے ہیں لیکن انکی بھلے ٹیٹ نکل جائے مگر راہِ راست پر آنے کیلئے تیار نہیں ہورہے ہیں۔ چھوٹے علماء کرام اور مسلمان عوام کے نزدیک قرآن محفوظ ہے لیکن بڑے بڑے ڈھیٹ بنے پھرتے ہیں۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے اپنے دانت بدل دئیے ہیں اور اپنے شاگرد مفتی زبیر صاحب کے ہاں فارغ التحصیل علماء سے خطاب کیا ہے کہ ”آج بعض افراد سے بہت لوگ متأثر ہورہے ہیں لیکن معتزلہ وغیرہ فرقے آج کہاں ہیں؟۔ غلام احمد پرویز کی باتوں کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا سوائے اس کے کہ اس پر کفر کا فتویٰ لگایا جائے۔ آج پرویز کہاں ہے، اسی طرح یہ نئے لوگ بھی تاریخ کا حصہ بن جائیںگے”۔
دارالعلوم دیوبند کے سب سے بڑے مدرس شیخ الحدیث مولانا سیدانورشاہ کشمیری نے آخر ی عمر میں فرمایا تھا کہ ” میں نے فقہ کی الجھنوں میں اپنی ساری زندگی تباہ وبرباد اور ضائع کردی۔ قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی”۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے الائنس موٹرز میں حیلہ کرکے زکوٰة کے پیسے تجارت کیلئے دئیے۔ وقف مال شریعت میں بیچنے اور خریدنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے لیکن اس نے مدرسے میں اپنے لئے گھر بیچا اور خریدا۔ اسکے استاذ مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے فتویٰ دیا کہ وقف مال بیچنے اور خریدنے کی شریعت میں اجازت نہیں ہے ۔ یہ بھی نہیں ہوسکتا ہے کہ بیچنے والا اور خریدنے والا ایک ہی شخص ہو۔ مفتی محمد شفیع اپنے بچوں کیلئے دارالعلوم کی وقف زمین بیچنے والا بھی خود ہو اور خریدنے والا بھی خود ہو توپھر اپنی اصلاح کرنے کے بجائے مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی نے اپنے استاذ مفتی رشیداحمد لدھیانوی کی تاریخی پٹائی لگائی تھی۔ ہمارے استاذ جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مولانا شیر محمد صاحب اور ان کے ساتھ دوسرے طلباء نے اپنے استاذمفتی رشید احمد لدھیانوی کی مارپٹائی سے سوجھے ہوئے چہرے کو دیکھا تو بدلہ لینے کی پیشکش کردی تھی لیکن مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے اجازت نہیں دی اسلئے کہ اس کو جان کا خطرہ بھی ہوسکتا تھا۔ یزید نے صحابیوں کے بیٹوں سے حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں کو اقتدار کیلئے شہید کروایا تھا۔ بینکوں کی سودی زکوٰة، بینکوں کو اسلامی قرار دینے کے معاوضے، وقف مال پر اپنا ذاتی کاروبار اور حلالہ کی لعنت میں گرفتار لوگ ہی تاریخ کا حصہ بنیں گے ۔ انشاء اللہ
قارئین کرام! بہت مجبوری کے تحت اصل موضوع پر تفصیل سے بات کرنا ادھوری رہ جاتی ہے۔ حضرت مولانا انور شاہ کشمیری نے قرآن کی لفظی تحریف کا اعتراف نہیں کیا ہے بلکہ اس کی نشاندہی فرمائی ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی جس طرح بھی گزاری لیکن خاتمہ بالخیر ہوگیا تھا۔ ہماری جوانی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہی فضل سے قبول فرمائی اور ہم سے دین کے تحفظ کی خدمت لے لی ہے۔ حضرت مولانا انورشاہ کشمیری نے قرآن میں بہت زیادہ معنوی تحریف کا انکشاف کیا تھا تو یہ معنوی تحریف ہی دراصل وہ شیطانی القا ہے جس کا ذکر سورۂ حج کی آیت(52) میں موجود ہے۔ اصل موضوع کیلئے جگہ کم ہے لیکن قارئین سمجھ جائیںگے کیونکہ اس معنوی تحریف پر ہم نے کتابوں اور اخبار میں بہت وضاحتیں لکھ دی ہیں۔
یہ شکر ہے کہ کراچی کے اکابر علماء ومفتیان نے حضرت حاجی محمد عثمان پر فتویٰ لگادیا تھا ۔ ورنہ مخالفت کی فضاؤں میںشاہین کو اونچی اُڑان کا موقع نہ ملتا ۔ تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اڑانے کیلئے
سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے صرف اہلحدیث ہی مخالف تھے۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے شرح صحیح مسلم میں فتاویٰ شامیہ کیخلاف لکھ دیاتھا تو انہوں نے مجھے خود بتایا کہ بریلوی مسلک کے علماء نے اس کو گردن سے پکڑلیا تھا کہ وہ کون ہوتا ہے ،علامہ شامی کے خلاف لکھنے والا۔ اگر میں بھی باطل کی ہاں میں ہاں ملاتا اور سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز پر اہلحدیث کا منہ بند کرنے کیلئے کہتا کہ اہلحدیث کے نزدیک دودھ پیتے بچے کا پیشاب پاک ہے تو پھر اس پاک پیشاب پر سورۂ فاتحہ لکھنے میں کیا حرج ہے؟۔ اگر میں باطل کا دفاع کرتا تو مدارس اور مساجد کے علماء مجھے اپنے سرکا تاج بنادیتے لیکن میں نے کسی فرقے اور مسلک سے نہیں بلکہ اللہ اور اسکے رسول ۖ اور قرآن وسنت سے وفاداری کا ثبوت دیا۔ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے فتح اور مفتی تقی عثمانی کو شکست سے دوچار کردیا۔ ایم کیوایم کے بعض لوگوں کو پہلے استعمال کرکے ہمارے ساتھیوں کو خانقاہ چشتیہ ،مدرسہ محمدیہ ،یتیم خانہ سیدنا اصغر بن حسین اور مسجد الٰہیہ سے نکال دیا تھا لیکن جب ایم کیوایم کے رہنماؤں اور کارکنوں نے مفتی محمد تقی عثمانی کی طرف سے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کی جسارت دیکھ لی تو ہمارا ساتھ دیا۔
لبنا ن کے مشہور دانشور خلیل جبران نے کیا خوب کہا ہے کہ ”اگرمذہب محض جنت کی بشارت کا نام ہے، حب الوطنی ذاتی مفاد کیلئے ہے اور علم کا مقصد دولت اور آسائش کا حصول ہے تو میں کافر، غدار اور جاہل کہلانا پسند کروں گا”۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

القائے شیطانی کا وسیع پس منظر ہے جس نے اُمت مسلمہ کو گمراہی کے دلدل میں پھنسا کر قرآنی آیات کے تحفظ کے باوجود مدارس کو گمراہی میں ڈال دیا!

امام ابوحنیفہ عالمِ حق لیکن فقہاء احناف نے تقلید کیلئے علمی قابلیت کا حق ادا نہیں کیا۔ القائے شیطانی کا وسیع پس منظر ہے جس نے اُمت مسلمہ کو گمراہی کے دلدل میں پھنسا کر قرآنی آیات کے تحفظ کے باوجود مدارس کو گمراہی میں ڈال دیا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

آئیے جانِ من!بڑا حقیقت پسندانہ تحقیقاتی علمی جائزہ لیکر سورۂ جمعہ، بخاری ومسلم اور مولانا عبیداللہ سندھی کی تفسیر المقام المحمود کی روشنی میں پاکستان سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز کریں

آج درسِ نظامی ، مولانا انورشاہ کشمیریکی فیض الباری، قاضی عبدالکریم کلاچی کے سوال اور مفتی فرید کے جواب ”فتویٰ دیوبند پاکستان” میں گھمبیر مسائل کا بھرپور انداز میںحل تلاش کریں

مجھے بریلوی مکتبۂ فکر کے بانی امام احمد رضا خان بریلوی کے خلوص اور ایک اچھے قابل فقیہ ہونے میں شک نہیں ہے لیکن ان کی باتوں کو مان لینا بہت بڑے درجے کی حماقت اسلئے ہے کہ قادیانی، دیوبندی، وہابی ،اہلحدیث اور شیعہ سب میں کوئی فرق کرنارضاخانیت اور بریلویت کی نفی ہے۔ جس بریلوی نے پہلے سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے دور میں تحریک ختم نبوت میں حصہ لیا تھا ،اسے بریلوی مکتبۂ فکر کے بعض زعماء نے بریلویت سے خارج کردیا تھا۔ دیوبندی اور بریلوی حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکیاور پیر سید مہر علی شاہ گولڑہ شریف شدت پسند طبقہ سے مبرا بہت اچھے مسلمان تھے اور بہت سوں کیلئے اصل امام کی حیثیت یہی لوگ رکھتے تھے۔ حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تک دونوں مکتبۂ فکر کا سلسلہ ایک ہی مسلک سے تھا۔
حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک قرآن کریم کے تحفظ پر ایمان بہت ہی ضروری تھا اور قرآن کے مقابلے میں کوئی صحیح حدیث بھی آجائے تو سراسر غلط ہی ہے۔ یہی عقیدہ اہلسنت کے چار اماموں اور اہل تشیع کے بارہ اماموں کا بھی تھا۔ جب پاکستان میں اہل تشیع کا ایرانی لٹریچر پہنچنا شروع ہوا تو مدارس کے علماء نے بڑے پیمانے پر اہل تشیع کواسلئے کافر قرار دیا کہ وہ قرآن کی تحریف کے قائل ہیں لیکن مولانا حق نواز جھنگوی شہید کی ایک تقریر شائع ہوئی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ” شیعہ سے ہمارا صحابہ پر اختلاف نہیں ہے، ہمارا قرآن پر اختلاف نہیںہے، شیعہ سے ہمارا اصل اختلاف عقیدۂ امامت کی وجہ سے ہے۔ عقیدۂ امامت سے ختم نبوت کا انکار لازم آتا ہے”۔ شاہ ولی اللہ نے لکھ دیا ہے کہ رسول اللہۖ نے مشاہدے یا خواب میں فرمایا کہ” شیعہ کی گمراہی کی وجہ عقیدۂ امامت ہے” ۔ جب میں نے اس پر غور کیا تو یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ عقیدۂ امامت کی وجہ سے ختم نبوت کا انکار لازم آتا ہے،اسلئے نبیۖ نے ان کو گمراہ قرار دیا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ نے اپنے مشاہدے یا خواب کی تعبیر بہت غلط کی ہے کیونکہ گمراہ اور کافر میں فرق ہے۔ ختم نبوت کے انکار سے گمراہی نہیں کفر کا فتویٰ لگتا ہے لیکن اہل تشیع کے عقیدۂ امامت کو گمراہی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ جب ملت جعفریہ کے قائد علامہ ساجد علی نقوی بہت کھلے الفاظ میں کہتے ہیں کہ مجھے پتہ نہیں ہے کہ اہل تشیع نے برصغیر پاک وہند میںآذان اور کلمہ میں شہادت ثالثہ کا اضافہ کیوں کیا ہے؟۔ جبکہ عراق وایران اورکربلا میں شیعہ جو نسل در نسل اپنے کلمہ وآذان میں صرف توحید اور رسالت کی دو شہادتوں پر اکتفاء کرتے ہیں۔
پاکستان میں ایران و عراق سے اہل تشیع کے جید علماء ومجتہدین اور حضرت علامہ ساجد علی نقوی قائدملت جعفریہ و علامہ جواد نقوی ، علامہ شہنشاہ نقوی ، علامہ شہریار رضا عابدی ، علامہ حیدر نقوی وغیرہ کو بٹھاکر آذان وکلمہ میں شہادت ثالثہ کا مسئلہ حل کردیا جائے تو شیعہ ملت کے آپس کا بھی جھگڑا ختم ہوجائے گا اور بہت بڑی تبدیلی سنی مکتبۂ فکر کے ہاں آنے میں بھی دیر نہیں لگے گی۔ شیعہ نے برصغیر میں کلمہ وآذان میں اضافہ کیا تو وہی حال بریلوی مکتبۂ فکر نے اختیار کیا ہے۔
قندھار سے بریلی اور مردان سے کراچی تک پٹھان علماء سخت گیرتھے اور اگر مولانا احمد رضا خان بریلوی نے بڑے سخت فتوے دئیے ہیں جو قندھار کے پٹھان تھے تو شیخ الحدیث مفتی زرولی خان نے بھی اپنا حساب برابر کرتے ہوئے شیخ الحدیث مولانامفتی ڈاکٹر منظور مینگل پر علامہ خادم حسین رضوی کیلئے مغفرت کی دعا مانگنے اور ان کو خراج تحسین پیش کرنے پر تجدیدِ نکاح کا فتوی دیا ہے۔
پٹھان ناراض نہ ہوں ، ہندوستانی علماء خدائے کریم وجلیل کی قسم ان سے زیادہ جاہل ، چھوٹی کھوپڑی کے مالک ،مفاد پرست ، ہٹ دھرم اور ہڈ حرام تھے اسلئے کہ فتاویٰ عالمگیریہ پر (500)معتبر علماء نے دستخط کئے تھے جس میں بادشاہ کیلئے قتل، زنا، چوری ، ڈکیتی اور ہرقسم کی حد وسزا معاف تھی اسلئے کہ اورنگ زیب بادشاہ نے اپنے بھائیوں کو قتل کرکے اقتدار سنبھالا تھا۔ جس اسلام میں کسی خلیفۂ راشد کیلئے استثناء کی کوئی گنجائش نہیں تھی تو اس میں بادشاہ کیلئے کیسی ہوسکتی تھی؟۔ جب مسجد نبویۖ کے قریب حضرت عباس کے گھر کا پرنالہ نمازیوں کے لباس کو متاثر کررہا تھا تو لوگوں کی شکایت پر حضرت عمر نے اس پرنالے کی جگہ تبدیل کر دی، حضرت عباس نے اس کی شکایت سرکاری قاضی کے رجسٹر میں درج کردی اورقاضی انصاری صحابی تھے۔ انہوں نے حضرت عمر کیلئے حاضر ہونے کا حکم دیا۔ دونوں کی بات سن کر حضرت عباس سے کہا کہ اگر خلیفۂ وقت اپنے ہاتھ سے اس پرنالے کی مٹی تیار کرکے اہل مدینہ کے سامنے آپ کو اپنے کاندھے پر چڑھاکر اسی جگہ پر لگادے تو آپ معاف کردیںگے ؟۔ حضرت عباس نے کہا کہ مجھے یہ منظور ہے۔ حضرت عمر نے اپنے ہاتھ سے مٹی تیار کی اور سب کے سامنے اپنے کاندھے پرحضرت عباس کو چڑھایا اور پرنالہ لگادیا۔ حضرت عباس نے بتایا کہ میں نے گھر بنایا تو رسول ۖ کو اپنے کاندھے پر چڑھایا کہ وہ پرنالہ لگادیں لیکن مجھ سے بوجھ برداشت نہیں ہوسکتا تھا تو رسول اللہۖ نے مجھے اپنے کاندھے پر چڑھایا اور میں نے یہ پرنالہ لگادیا۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ خلیفہ انصاف کرتا ہے یا نہیں؟۔ اب میں اپنے مکان کو مسجد نبویۖ کیلئے وقف کرتا ہوں۔
ایک مولوی صاحب نے یوٹیوب پر موجودہ ریاستی نظام کو اس واقعہ کی بنیاد پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن مذہبی لوگوں کو جنونی شدت پسند بنانے سے بہتر یہ ہے کہ اسلام کی اجنبیت کے پل کے نیچے جتنا پانی بہہ چکاہے اس کو بھی دیکھ لیا جائے۔ اہل تشیع تو عقیدۂ امامت میں بہت غلوکی وجہ سے یہاں تک پہنچ گئے کہ اگر شہنشاہ حسین نقوی اتحادامت کانفرنس میں شرکت کرکے علامہ جواد نقوی کے جامعہ عروة الوثقیٰ کی مسجد البیت العتیق لاہور میں شیعہ سنی علماء کے سامنے خطاب میں کہہ دیں کہ ” بسم اللہ کے بعد میں الحمد للہ رب العالمین کہنے کی بجائے الحمد لعلی ابن ابی طالب کہنے میں فخر محسوس کرتا ہوں ” تو شیعہ شرکاء بڑی گرم جوشی سے نعرہ بھی لگادیںگے۔ اگر علامہ جواد حسین نقوی کو اس کی مخالفت میں کچھ کہنا ہو تب بھی وہ پہلے سے ہوشیار نہ کریں کہ میں ان غلط اقدار کی مذمت کرنے کی بات کررہا ہوں تو بات سننے سے پہلے مجمع سے وہی پرجوش آواز آئے گی۔
درسِ نظامی میں پڑھایا جاتا تھا کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک عربی پر قدرت رکھنے کے باوجود بھی فارسی زبان میں نماز پڑھنا نہ صرف جائز بلکہ افضل ہے مگر جب حضرت شاہ ولی اللہ نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کردیا تو شاہی خانوادے کے قابلِ اعتماد شہزادے شاہ ولی اللہ نے قرآن کا ترجمہ کرنے کے جرم کی پاداش میں دو سال تک روپوشی کی زندگی اختیار کرلی۔ شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم بھی فتاویٰ عالمگیریہ پردستخط کرنے والے علماء میں شامل بلکہ سہولت کار تھے۔ یہ ہندوستانی علماء کی ہٹ دھرمی اور ہڈ حرامی تھی جن کی آل واولاد ہم پر مسلط ہیں۔ ملاجیون جیسے لوگ سادہ لوح مگر متقی وپرہیزگار تھے لیکن آج چالاک وعیار لوگوں نے پتہ نہیں کونسے قاعدہ کلیہ کے تحت شیخ الاسلامی ومفتی اعظمی کا درجہ پایا ہے؟۔
فقیہ العصر قاضی عبدالکریم کلاچی ڈیرہ اسماعیل خان نے مفتی اعظم پاکستان مفتی فرید صاحب کے پاس خط لکھاکہ ” مولانا انور شاہ کشمیری کی فیض الباری شرح صحیح بخاری میں یہ عبارت پڑھ کر پاؤں سے زمین نکل گئی جس میں لکھا ہے کہ ”قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہے لیکن لفظی تحریف بھی ہے ،یہ انہوں نے غلطی سے کیا ہے یا عمداً کیا ہے”۔اس عبارت میں لفظی تحریف کی نسبت صحابہ کی طرف ہے کیونکہ کفار کی طرف اس جرم کی نسبت نہیں ہوسکتی ہے”۔
مفتی فرید صاحب نے اسکا بالکل غیر تسلی بخش جواب دیا تھا جو فتاویٰ دیوبند پاکستان میں شائع بھی ہوچکا ہے۔ بریلوی مکتب کے مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن سابق چیئرمین ہلال کمیٹی کے ساتھی علامہ غلام رسول سعیدی نے کئی جلدوں میں تفسیر تبیان القرآن لکھی ہے، صحیح مسلم کی شرح اور صحیح بخاری کی شرح بھی لکھی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ”شیخ انورشاہ کشمیری کی فیض الباری کا حوالہ دئیے بغیر دارالعلوم کراچی سے عبارت پر فتویٰ لیا تو مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی کے ہاں سے اس پر کفر کا فتویٰ بھی لگادیا گیا ہے ، جس کا ریکارڈموجود ہے ”۔جب ہم نے دارالعلوم کراچی سے قرآن کی اس تعریف پر فتویٰ لینا چاہاتھا جس کو درسِ نظامی کی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے تو فتویٰ دینے سے انہوں نے انکار کردیا۔
ہمارا اصل موضوع یہی ہے کہ قرآن میں جو معنوی تحریف ہوئی ہے جس کی نشاندہی امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری نے بخاری کی اپنی شرح میں کی ہے ۔ سورۂ حج کی آیت(52) میں جس القائے شیطانی کی مداخلت کی وضاحت ہے وہ قرآن کی معنوی تحریف ہے۔ جہاں تک سورۂ نجم کے حوالے سے کفارِ مکہ کے غلط پروپیگنڈے پر شیطانی آیات کی تائید یا تردید کا تعلق ہے تو اس پر مولانا مودودی کی تفسیر تھوڑی بہت عقل مگر علم سے عاری ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ وہ اتنا گھمبیر مسئلہ نہیں ہے جتنا اصول فقہ کی کتابوں میں قرآن کی تعریف میں بہت بڑی تحریف کا مسئلہ گھمبیر ہے۔ جب اصولِ فقہ میں کتاب سے مراد قرآن میں احکام سے متعلق (500) آیات ہیں اورباقی قصے کہانیاں ہیں تو حق یہ بنتا تھا کہ وہ آیات مختلف عنوانات کے تحت درج کردی جاتیں اور پھر اس کیساتھ احادیث اور فقہ کے اجتہادی مسائل پر بحث ہوتی مگر یہ تو نہ ہوا ،البتہ قرآن کی تعریف میں تحریف کاارتکاب ہے۔ قرآن کی تعریف کا پہلا جملہ یہ ہے کہ المکتوب فی المصاحف ”جو مصحاف میں لکھا ہوا ہے”۔ پھر اس کی تشریح ہے کہ لکھے ہوئے سے مراد لکھا ہوا نہیں ہے ۔کیونکہ لکھائی تو محض نقشِ کلام ہے۔ اللہ کا کلام صرف زبانی الفاظ میں ہے۔ حالانکہ قرآن کی ڈھیر ساری آیات اس احمقانہ نصاب کی نفی کیلئے کافی ہیں۔ اللہ نے یہاں تک فرمایا کہ ”اگر میں اس کو قرطاس میں نازل کرتا اور یہ مشرک اس کو چھولیتے تب بھی انہوں نے نہیں ماننا تھا”۔ مشرکینِ مکہ بھی اس کتاب کی نسبت پرانی کہانیاں صبح شام لکھوانے کی تہمت لگاتے تھے۔ فتاویٰ قاضی خان سے فتاویٰ شامیہ تک اور مفتی تقی عثمانی کی کتاب تکملہ فتح الملہم اور فقہی مقالات سے وزیراعظم عمران کے نکاح خواں مفتی سعید خان کی ریزہ الماس تک سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا جواز فقہ حنفی کا شاخسانہ موجود ہے۔
قرآن کی تعریف کا دوسرا جملہ المنقول عنہ نقلًا متواترًابلاشبہہے جس سے غیرمتواتر قرآنی آیات نکل گئیں اور بسم اللہ کو مشکوک قرار دیا گیا ہے۔ جب قرآن کے علاوہ دیگر آیات کا عقیدہ رکھا جائے تو قرآن کے تحفظ پر کتنا بڑا حملہ ہے۔ اگر سید مودودی نے درسِ نظامی کی تعلیم حاصل کی ہوتی تو اس بات پر برہم ہوتے کہ صحیح سند کیساتھ ایسی قرآنی آیات کا تصور ماننا بہت بڑا کفر ہے کہ جس سے قرآن کی صحت مشکوک ہوجائے۔ جس طرح امام شافعی نے انکا وجود کفر سمجھاتھا ،اسی طرح امام ابوحنیفہ قرآن پر اضافی آیات کو کفر سمجھتے تھے مگر جس طرح مفتی تقی عثمانی نے اپنے باپ ، اکابراور ہم عصر لوگوں جن میں انکے استاذ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان بھی شامل تھے اور بینک کے سودی نظام کو دیگر مدارس والے بھی سود قرار دے رہے تھے لیکن مفتی تقی عثمانی کا فتویٰ چل گیا اور ہم جیسوں پر ان کی مخالفت کرنے کی وجہ سے رافضی کا فتوی بھی لگادیا ہے۔ یہی فتویٰ امام ابوحنیفہ کی درباری پود نے امام شافعی پر بھی لگایا تھا۔
اگر امام ابوحنیفہ نے اپنے فقہ میں حلف توڑنے کے کفارے میں روزوں کا تسلسل ضروری قرار دیا تھا تو اس کی وجہ نعوذ باللہ من ذٰلک یہ نہیں تھی کہ قرآن کی کسی اضافی آیت کے قائل تھے بلکہ سورۂ مجادلہ میں کفارے کے روزوں میں تسلسل کی وضاحت ہے اور کسی صحابی نے اپنے مصحف کی تفسیر میں تفسیری اضافہ کیا تھا۔ جس طرح تفسیرجلالین میں تفسیری اضافے کا مطلب آیات کا اضافہ نہیں ہے۔ علاوہ ازیں عبداللہ بن مسعود نے اپنے مصحف میں عورت سے خاص فائدہ اُٹھانے کیساتھ الی اجل مسمٰی ”ایک مقررہ وقت کا اضافہ کیا ہے”۔ تو یہ بھی قرآن کے متن میں اضافہ نہیں ہے بلکہ قرآن کی تفسیر ہے جو بخاری ومسلم میں عبداللہ بن مسعود سے نبیۖ کی حدیث میں بھی موجود ہے۔ اگر احناف کا مذہب تفسیری اضافہ قرآن کے متن میں اضافہ ہوتا تووہ متعہ کے قائل ہوتے۔ امام ابوحنیفہ نے علم الکلام سے توبہ کی تھی اسلئے قرآن کی تعریف میں المکتوب فی المصاحفکی غلط تشریح پڑھانا اور مسائل کی تخریج کرنا بہت بڑی گمراہی ہے اور اس گمراہی سے نکلنے کیلئے کسی مہدی کا انتظار کرنا زیادہ بڑی گمراہی ہے۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

سورۂ نجم کے حوالے سے القائے شیطانی کااصل جھگڑا کیا ہے؟

مولانا مودودی اور دیگر مفسرین میں عقل وعلم کا کیا فرق تھا اورسورۂ حج میں سورۂ نجم کے حوالے سے القائے شیطانی کااصل جھگڑا کیا ہے؟، آج جماعت اسلامی اور تمام مدارس کے علماء کرام کا فرض ہے کہ مل بیٹھ کر معاملات حل کریں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مودودی کی عقل تیز اور حق پرست انسان تھے مگر علم کمزور تھااور مدارس کے علماء ومفتیان کے ہاں علم تھا مگر عقلی صلاحیتوں سے بالکل محروم ،پیدل اور تقلیدی روش کے انتہائی درجہ پابندتھے!

اگر امت مسلمہ نے اپنی موٹی موٹی غلطیوں کی اصلاح کرکے قرآن کی طرف رجوع نہیں کیا تو پھر ہم بڑے عذاب سے بھی دوچار ہوسکتے ہیںلمحوں نے خطا کی ہے صدیوں نے سزا پائی!

ہندوستان میں قومی اسمبلی کی ایک ہندو خاتون کہہ رہی تھی جس کا تعلق بھی اپوزیشن سے تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق پر مسلمانوں کو سزا دینے کا قانون اسلام کے منافی ہے۔ اس سے میاں بیوی کے درمیان دشمنی مزید پکی ہوجائے گی اور قرآن میں جو طلاق کے بعد عدت و رجوع کے اعلیٰ وارفع قوانین موجود ہیں وہ صرف دیکھ لئے جائیں وہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندو، عیسائی اور دنیا بھر کے غیرمسلموں کیلئے بھی طلاق ،رجوع اور عدت کے حوالے سے یہ قابلِ قبول ہیں بلکہ زبردست اور بہترین ہیں ،ان کو دنیا کا کوئی انسان مسترد نہیں کرسکتا ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ پاکستان بلد طیب مکہ اور مدینہ کی طرح ہے لیکن یہاں پر ابوجہل، ابولہب اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے کردار کے لوگ ریاست، حکومت، اپوزیشن، قوی سیاسی و مذہبی جماعتوں اورفرقہ پرستوں وقوم پرستوں کی شکل میں مخلص اور اچھے لوگوں پر مسلط کئے گئے ہیں۔ چن چن کر گندے اور ناپاک لوگوں کو بااختیار اور ذمہ دار جگہوں پر تعینات کیا جاتا ہے۔الا ماشاء اللہ
مجھے تو یہ خطرہ لاحق ہوگیاہے کہ کہیںہندوستان کے ہندو مسلمان بن کر اسلام نافذنہ کردیں اور پھر پاکستان کو فتح کرکے یہاں بھی اسلام نافذ کردیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی و موجودہ قبلہ ایاز صاحب اسلام کے نام پر روٹی اور بسکٹ توڑنے کیلئے بیٹھے ہیں۔ ان سے وہ ہندو خاتون لاکھ درجے بہتر ہے جو دنیا کو قرآن کی فطری طلاق کو قانون بنانے کا کہہ رہی تھی۔ ہمارا اسلام عقل، علم ، غیرت، حیاء ، شرم اور منطق سے عاری ہے۔
رسول اللہ ۖ کی تمنا تھی کہ بیت المقدس کی جگہ خانہ کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنایا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپۖ کی یہ آرزو بالکل پوری کردی اور ساتھ میں یہ بھی واضح کردیا کہ ” نیکی یہ نہیں ہے کہ مشرق یا مغرب کی طرف رُخ پھیرو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ جو اللہ سے ڈر گیا”۔ حضرت امام حسین کو اپنے کنبہ اور ساتھیوں کے ساتھ شہید کرنے والے یزیدی لشکر نے سمجھ لیا تھا کہ مسلمان پہلے گمراہ تھے اسلئے وہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے اور پھر راہِ ہدایت پر آگئے اسلئے قبلہ بدل دیا لیکن اللہ نے کہا کہ نیکی کا مدار تقوی پر ہے ،مشرق یا مغرب کی جانب اپنا رُخ پھیرنا نہیں ہے۔ یزیدی لشکر سمجھ رہاتھا کہ ہم قبلہ رُخ ہوکر نماز پڑھتے ہیں یہ نیکی ہے، باقی رسول خداۖ کے کنبے کو شہید کرنے سے اسلام پر اثر نہیں پڑتا ۔ رسول اللہۖ کی تمنا یہ نہیں تھی کہ اہل قبلہ ظالم اور مظلوم ایک ہوجائیں گے بلکہ دنیا سے ظالمانہ نظام ختم کرنا مقصد تھا اور مسلمانوں نے القائے شیطانی سے سمجھ لیا ہے کہ اہل قبلہ ظلم، منافقت اور خناس ہونے کی آخری حد پار کرے تو بھی اس کی ماں کا شوہر اور وہ اس کا سوتیلا یا حقیقی بیٹاہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ نہیں!، نہیں!،ہرگز نہیں!، اصلی وسوتیلے باپ کا ظالم ہونا الگ بات ہے لیکن اہل قبلہ کا یہ مسئلہ نہیں ہے۔ جس کے اندر کردار ہوگا نیکی ہوگی وہی اچھا ہے، قبلے سے کوئی فرق پڑتا تو جب ابوجہل وابولہب کا قبلہ خانہ کعبہ تھا تو رسول خداۖ کا قبلہ اس وقت بیت المقدس تھا۔ اہل قبلہ کے نام پر دھوکہ دہی کی گنجائش بالکل بھی نہیں۔
جس طرح رسولِ خداۖ کی تمنا قبلہ بدلنے کی تھی اور اللہ نے اس آرزو کو پورا کردیا، اسی طرح رسول اللہۖ کی ایک تمنا یہ بھی تھی کہ عورت کیساتھ بہت زیادہ ظلم ہوتا ہے، اس ظلم کا خاتمہ ہو۔ ایک ساتھ تین طلاق پر حلالہ کی لعنت اور بار بار مرد کو رجوع کا حق وغیرہ بڑا ظالمانہ نظام ہے اور اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولۖ کی اس تمنا کو بھی بھرپور طریقے سے پوراکردیا مگر القائے شیطانی نے وہ گل کھلائے ہیں کہ آج مسلمان قرآن کو چھوڑ کر اس شیطانی مہم جوئی کے دریائے مُردار میں غوطے کھا رہے ہیں۔
حضرت امام حسن نے اپنا اقتدار امیرمعاویہ کے حوالے کرتے ہوئے جن شرائط کو پیش کیا تھا،ان میں بنیادی باتیں دین کی پاسداری اور تحفظ کا معاملہ تھا۔ حضرت امام حسین نے بھی مدینہ سے کوفہ جانے کا عزم اسلئے کیا تھا کہ اسلام کے احکام پر القائے شیطانی کے غلبے کا خطرہ تھا۔ رسول اللہۖ کے ساتھیوں نے حبشہ ہجرت کی تو اس وقت سورۂ نجم کے حوالے سے مشرکینِ مکہ نے شیطانی القا کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا تھا جس کی وجہ سے حبشہ ہجرت کرنے والے غلط فہمیوں کا شکار ہوئے تھے۔ پھر رسول اللہۖ کو اللہ تعالیٰ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔ جب انگریز ہندوستان کوچھوڑ کر جارہاتھا تومسلمانوں نے اپنے دین کو تحفظ دینے کیلئے پاکستان بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ آج ہندوستان کے پنجاب میں جوان لڑکیوں اور جوان لڑکوں کے درمیان جس طرح سے کشتی ہوتی ہے ،اگر پاکستان نہ بنتا اور جنرل ضیاء الحق کوشش نہ کرتے تو حقوق کی جنگ لڑنے والی عورت آزادی آٹھ مارچ پر ” میرا جسم میری مرضی”کے غلط الزام بھی نہیں لگ سکتے تھے جس میں جبری جنسی تشدد کیخلاف آواز اُٹھائی جاتی ہے۔
سید مودودی نے اپنی عقل اور دینی غیرت کو بروئے کار لاکر سورۂ حج کی آیت کی تفسیر میںنہ صرف اکثر مفسرین کی طرف سے اس کی تردید کی تصدیق کی ہے بلکہ ان کی تردید کو ناکافی قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ” اگر اس کی سند صحیح ہوتی تو پھر اس شیطانی قصے کو مان لیا جاتا؟۔ اور محض اس وجہ سے اس کا انکار کرنا کہ اگر یہ مان لیا جائے تو پھر دین کا سارا معاملہ مشکوک ہوجائے گا۔ان لوگوں کیلئے تو فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے جو ایمان کیلئے پر عزم ہوں مگر ان کیلئے یہ فائدہ نہیں کہ جو دین کے منکر ہیں یا پھر تحقیق کرکے راہِ حق کے متلاشی ہیں۔ وہ کیوں اس عذر کو قبول کریںگے کہ یہ قصہ مان لیا تو دین پر اس کا منفی اثر پڑے گا۔ وہ تو کہیں گے کہ اگر تمہارے دین پر کوئی اثر پڑتا ہے تو بھلے پڑے ،ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ہم تمہارے دین کے غلط معاملات کے محافظ نہیں ہیں۔
مولانا مودودی نے جن اکابر مفسرین کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے دو باتیں کی ہیں ۔ایک یہ کہ اگر اس قصے کی سند صحیح ہوتی تو یہ اکابر مان لیتے؟۔ محض اس وجہ سے انکار کیا ہے کہ اس کی سند ان کے نزدیک درست نہیں ہے۔ پھر ان پر دوسرے لمحے میں سانپ کی طرح پلٹ کر یہ وار کردیا ہے کہ ا کابر مفسرین نے انکار کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اگر ہم نے اس کو مان لیا توسارے دین پراس کا بہت برا اثر پڑے گا اور ان کی اس بات سے ایمان کیلئے پرعزم لوگ مطمئن ہوجائیں گے لیکن کفار اور تحقیق کرکے حق تک پہنچنے والے اس سے مطمئن نہ ہوںگے۔
مولانا مودودی کی اپنی باتوں اور الزام میں بہت بڑا تضاد اور غلط بیانی ہے اور اس کی وجہ کوئی سازش نہیں بلکہ وہ کم عقلی ہے جس پر بھروسہ کرکے وہ دین کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ اگر اکابر کے ہاں اس قصے کی سند صحیح ہوتی تو پھر مان لیتے اور یہی دیانتداری کا تقاضہ بھی ہوتا۔ دین میں لوگ عقل نہیں روایت کے تابع ہوتے ہیں۔ رسول اللہۖ کو مذہبی اقوال کے ذریعے یہ روایت پہنچی تھی کہ ”اگر شوہر اپنی بیوی کو اپنی ماں کی طرح حرام قرار دے تو وہ حرام ہوجاتی ہے اور نبیۖ نے اس روایت پر بھروسہ کرتے ہوئے ایک خاتون کو مذہبی فتویٰ دینے پر اصرار بھی فرمایا لیکن اس خاتون کو اپنا حال اور مستقبل اس مذہبی فتوے میں تاریک نظر آرہا تھا اسلئے وہ نبیۖ کیساتھ اپنے حق کیلئے مسلسل الجھ گئی تھی ۔ اس مجادلہ کے دوران اللہ تعالیٰ نے سورۂ مجادلہ کے ذریعے سے عورت کے حق میں وحی نازل فرمائی اور اس مذہبی روایتی فتوے کی بہت زبردست الفاظ میں تردید فرمادی ہے۔ سورۂ مجادلہ کے علاوہ سورۂ احزاب کی آیات بھی دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس وقت کفار اور منافقین کی کیفیت کیا تھی۔ جس میں اللہ نے حکم دیا کہ ” اے نبی! اللہ سے ڈرو،اور اتباع مت کرو کافرین ومنافقین کی ۔ جو اللہ نے آپ پر احکام نازل کئے ہیں اسی کی اتباع کریں …………..”۔
دین کا تقاضہ یہی ہوتا ہے کہ عقل سے زیادہ روایت پسندی پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔ اکابر مفسرین نے بہت دیانتداری کیساتھ جب یہ دیکھ لیا کہ اس قصے کی سند میں کوئی جان نہیں ہے تو اس کو مسترد کردیا۔ اگر مولانا مودودی نے دیوبند کے رسالے میں ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرنے کے بجائے درسِ نظامی کی تعلیم بھی اساتذہ کرام سے حاصل کی ہوتی تو پھر روایت کی سند کی قیمت کا بھی اس کو پتہ چل جاتا۔ درسِ نظامی کے تعلیمی بورڈ میں شامل نصاب کی کتابوں میں قرآن کی جو تعریف پڑھائی جاتی ہے اس اصولِ فقہ میں قرآن کریم کے حوالے سے ایسی آیات ہیں جو متواتر نہ ہونے کی وجہ سے قرآن کی غیرمتواتر آیات سمجھی جاتی ہیں اور ان میں خبر احاد اور خبر مشہور کی آیات شامل ہیں۔ حنفی فقہاء کے نزدیک خبراحاد کی آیات معتبر ہیں لیکن امام شافعی کے نزدیک خبر احاد کی آیات پر بھروسہ کرنا ہی دین میں تحریف اور بہت بڑا کفر ہے۔ امام شافعی کے نزدیک خبر واحد کی حدیث معتبر ہے لیکن آیت معتبر نہیں ۔ جبکہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک خبرواحد کی آیت بھی معتبر ہے لیکن حدیث معتبر نہیں ہے۔
دین کا سارا ڈھانچہ عوام اور خواص میں جاہلانہ اور منافقانہ روش کا شکار ہے مگردین کے نام پر اپنے مفادات اُٹھانے والے حقائق کی طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ حضرت امام شافعی نے سورۂ نجم کے حوالے سے القائے شیطانی کے غلط پروپیگنڈے کی طرح ان تمام خبرواحد اور مشہور آیات کو بھی القائے شیطانی ہی قرار دیا تھا جو صحابہ کرام کے مختلف مصاحف کی طرف منسوب تھیں۔ اگر ان کو بھی آیات مان لیا جاتا تو پھر قرآن کے تحفظ پر ایمان باقی نہیں رہتا تھا۔ عالمِ حق کا کردار ادا کرنے کا یہ صلہ امام شافعی کو دیا گیا تھا کہ ان پر رافضی ہونے کی تہمت لگادی گئی تھی۔ حالانکہ آج بھی انہی کا نظریہ، عقیدہ اور عالمِ حق کردار اسلام اور ایمان کی درست ضمانت ہے۔ اصولِ فقہ میں ان کا مؤقف بھی پڑھایا جاتاہے اور حنفی مؤقف بھی پڑھایا جاتاہے۔ مثلاًحنفی مسلک یہ ہے کہ قرآن میں کفارے کے روزے میں تسلسل کا ذکر نہیں ہے لیکن خبرواحد کی آیت میں ہے اسلئے حنفی مذہب میں تین روزے کا تسلسل بھی ضروری ہے لیکن امام شافعی کے نزدیک خبر واحد کی آیت معتبر نہیں ہے اسلئے کفارے میں روزے کا تسلسل نہیں ہے۔
مولانا مودودی کے پاس عقل تھی مگر علم نہیں تھا اسلئے تجدیدواحیائے دین کی محنت میں کامیابی حاصل کرنے کے بجائے اپنے ناقص علم سے مزید گمراہی کا عوام کو شکار کردیا ہے۔ علماء نے تقلیدی ذہنیت کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کو ختم کیا ہے اور مدارس کو احیائے اسلام کے بجائے دین وایمان کا کباڑ خانہ بناکر رکھ دیا ہے۔ ہمارے اندر اپنی جانوں سے زیادہ دین اور ایمان کے تحفظ کا جذبہ نہ ہوتو پھر ہم کس بات کے مسلمان ہیں؟۔ ہمیں کوئی قتل کرنا چاہتا ہے تو اپنا شوق ضرور پورا کرلے لیکن یزید یت حسینیت کا دعویٰ کرے تو یہ بہت بڑی منافقت ہے۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

سورۂ حج کی آیت (52) کی تفسیر پر یہ پورا شمارہ ہے مگر اس رکوع اور پہلے و بعد کے رکوع میں بھی معاملہ واضح ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جس رکوع میں سورۂ حج کی آیت(52)ہے وہ بھی اس آیت کے مفہوم کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے ۔ اسی رکوع میں آیات(49، 50اور51)ہیں۔ فرمایا:
” کہہ دیجئے کہ اے لوگو! بیشک میں تمہارے لئے کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔ پس جن لوگوں نے ایمان لایا اور اچھے عمل کئے تو ان کیلئے مغفرت ہے اور عزت کی روزی ہے۔ اور جن لوگوں نے کوشش کی کہ ہماری آیات کو مغلوب کریں تو یہی لوگ جحیم والے ہیں”۔ ان تینوں آیات میں جو مقدمہ ہے وہ اللہ کی طرف سے نبیۖ کو کھلم کھلا ڈرانے والا ہونا ہے۔ پھر ایمان و عمل صالح والوں کو مغفرت اور عزت کی روزی کا وعدہ ہے۔ پھر ان لوگوں کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات کو شکست دینے کے درپے ہیں کہ یہ اصحاب جیحم ہیں۔
سورۂ نجم کی آیات اور القائے شیطانی کی یہاں کوئی گنجائش نہیں نکلتی ہے مگر اس کو زیرِ بحث لایا جائے تو جن کفارِ مکہ نے القائے شیطانی کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا تھا ،ان کا انجام بھی سامنے ہے اور جن لوگوں نے ایمان و صالح عمل کی راہ اپنائی تھی وہ تاریخ میں ایک روشن باب بن گئے۔ بے آب وگیاہ حجاز کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں سپر طاقت بناکر کہاں سے کہاں پہنچادیا تھا؟۔
اس مذکورہ رکوع سے پہلے والے رکوع میں اپنے علاقوں سے ظلم کیساتھ نکالے جانے والے مظلوموں کا ذکر ہے اور پھر مختلف قوموں میں ایکدوسرے کے خلاف مدافعت کا جذبہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے قوموں کی تقدیریں بدلنے کا ذکر ہے۔جس کی وجہ سے مختلف مذاہب کی عبادتگاہوں کی اللہ نے حفاظت کی ہے۔ پھر ان اچھے لوگوں کا ذکر ہے کہ اگر ان کو ٹھکانہ مل جائے تو نماز قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے کا فریضہ ادا کریں اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض پورا کریں۔ پھر اللہ نے فرمایا ہے کہ”( اے نبی!) اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلارہے ہیں تو آپ سے پہلے قوم نوح ، عاد اور ثمود نے بھی ایسا کیا۔ اور قوم ابراھیم وقوم لوط اور اصحاب مدین نے بھی ایسا کیا۔ اور موسیٰ کو بھی جھٹلایاگیا لیکن پہلے میں نے کفار کو مہلت دی اوران کو پکڑ لیا۔تو پھرکیسی تھی عقوبت؟۔ پھر کتنی بستیاں تھیں جن کو ہم نے ہلاک کر ڈالا، پھر وہ اپنے تختوں پرتلپٹ پڑی ہوئی تھیں اور ویران کنویں اور عالی شان بنگلے ۔ کیا وہ زمین میں سیر نہیں کرتے؟۔ تاکہ ان کے دل ہوں جس سے وہ سمجھ پائیں اور انکے کان ہوں جس سے وہ سن سکیں۔ لیکن بیشک آنکھوں کی بصارت اندھی نہیں ہوتی مگر وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں اور یہ آپ سے عذاب کی جلدی چاہتے ہیں اور اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔ اور بیشک ایک دن تیرے رب کے پاس ہزار دنوں کے برابر ہے جو تمہارے شمار کے برابر ہیں اور کتنی بستیاں تھیں جن کو میں نے مہلت دی اور وہ ظالمہ تھی پھر میں نے اس کو پکڑ لیا اور میری طرف ٹھکانہ ہے ”۔
انبیاء کرام کی قوموں نے بہت جلدعذاب کا مشاہدہ دیکھ لیا اور مشرکین مکہ نے بھی بہت جلد اپنے انجام کی خبر پالی۔ رسول اللہۖ رحمت للعالمین تھے اس لئے آپ کے خلفاء عظام نے بہت جلد دنیا کی سپر طاقتوں کو بھی شکست دی تھی۔ سورۂ حج کی آیت(52)سے پہلے والے رکوع کے بعد جس پسِ منظر میں یہ آیت نازل ہوئی ہے وہ ایک ہزار سال بعد دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نبیۖ کی تمنا کیا تھی اور آپ سے پہلے کے انبیاء ورسولوں کی تمناؤں کیساتھ بعد کے ناخلفوں نے کیا سلوک کیا؟۔ اس میں القائے شیطانی کے تصورات کیا تھے اور ہمارے قرآن کیساتھ کیا ہوا؟۔ اور ہم اس القائے شیطانی کے کیسے شکارہوئے اور اللہ نے ہمارے لئے بچاؤ کے کیسے راستے پیدا کئے ہیں؟۔نبیۖ کی یہ بھی تمنا تھی کہ بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ البیت العتیق کی طرف نماز میں رخ کیا جائے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا تھا۔ نبیۖ کی ایک تمنا یہ بھی تھی کہ لوگ ایک ساتھ تین طلاق میں حلالہ کی لعنت سے بچ جائیں اور اللہ نے اس کا بھی بندوبست کیا تھا۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دیگر انبیاء کرام کی قوموں نے اپنی اپنی شریعتوں کو مسخ کرکے رکھ دیا اور اس میں القائے شیطانی کا بڑا عمل دخل تھا تو ہمارے ساتھ بھی وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہی کچھ ہوا ہے۔
ہم قرآن کی محکم آیات کی روشنی میں ان لوگوں کو شکست دے سکتے ہیں جن کے دل ودماغ پر القائے شیطانی نے دین کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ مؤمن القائے شیطانی کے مقابلے میں محکم آیات کو مان لیں گے۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

سیدابوالاعلیٰ مودودی نے سورۂ حج کی آیت 52 میں معتبر مفسرین کی متضادرائے سے اختلاف کرکے جہالت کا مظاہرہ کیا ہے۔

سیدابوالاعلیٰ مودودی نے سورۂ حج کی آیت (52) میں معتبر مفسرین کی متضادرائے سے اختلاف کرکے عالمانہ کردار ادا نہیں کیا ہے بلکہ انتہائی جہالت کا مظاہرہ کیا ہے۔ پھر آیت کی اصل تفہیم وتفسیر کا مسئلہ بھی جوں کا توں چھوڑ دیا ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

بظاہر سیدمودودی کی تفسیر میں بڑا وزن ،سمجھ وفہم لگتا ہے لیکن قرآن وسنت کے وسیع ذخیرے سے کم علمی اور جہالت کا اتنا بڑا مظاہرہ پہلے علماء مفسرین نے بھی نہیں کیاجو انہوں نے کیا ہے!

اگر آیت کے مفہوم کی وضاحت میں بہت بڑی ٹھوکر نہیں کھائی جاتی اور اس ٹھوکر سے اُمت مسلمہ کا بیڑہ غرق نہ ہوتا تو ہم صرف نفسِ مسئلہ کو واضح کرکے مولانامودودی پر تنقید نہ کرتے۔

ایک عام جدید تعلیم یافتہ قاری جب مولانا مودودی کی تفسیر دیکھ لیتا ہے تو یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی نے تمام بڑے بڑے مفسرین سے اختلاف کرکے سب کو زبردست مات دی ہے مگر جن علماء کرام نے سید مودودی پر سخت اعتراض کیا تھا تو یہ مولانا مودودی سے حسد نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ رویہ تھا۔ ایک عام آدمی سوچتا ہے کہ تفہیم القرآن میں شیطانی آیات کا کتنا زبردست قلع قمع کیا گیا ہے کہ الفاظ میں بھی بہت فرق ہے اور مفہوم میں بھی بہت فرق ہے؟
حالانکہ الفاظ اور مفہوم کا فرق قرآنی آیات کے حوالے سے احادیث کے بہت ہی مستند ذخیرے میں بھی موجود ہے لیکن احادیث صحیحہ کے ذخیرے میں اجماعی قرآن کے مقابلے میں خبر احاد اور خبر مشہور کے قرآن کو رد کردیا جاتا ہے۔ اس طرح احادیث صحیحہ کے الفاظ اور مفہوم میں بہت سارے اختلافات ہیں۔ لیکن الفاظ اور مفہوم میں اختلافات کے باجود بھی وہ احادیث قابلِ قبول ہیں۔
جدید تعلیم یافتہ طبقے کا مولانا مودودی کی وجہ سے اسلاف پر اعتماد متزلزل ہوا ہے لیکن مولانا مودودی خودہی جاہل اور جاہلوں کے سرغنہ ثابت ہوئے ہیں۔ مولانا مودودی کی تفسیر کا آخری حصہ ہم نے نقل نہیں کیا ہے۔ بہت اچھے انداز میں انہوں نے بنی اسرائیل ، سورۂ نجم اور سورۂ حج کے زمانہ نزول کے حوالے سے اس کی تردید کردی ہے لیکن اس تردید میں دو اہم باتیں ہیں ۔پہلی بات یہ ہے کہ نفس مسئلہ اور آیت کے مفہوم کو واضح کرنے کی بجائے سورۂ نجم کا معاملہ ہی واضح کیا ہے، حالانکہ سورۂ نجم کی آیات میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ تو سورۂ حج کی اس آیت کی وجہ سے الجھا ہوا ہے۔ جس کے بارے میں سید مودودی نے” تمنا” کے دو معانی اور دو تفسیریں لکھ کر معاملہ مزید الجھا دیا ہے کہ اگر تمنا کے معنی عربی میں اردو کی طرح تمنا کے ہیں تو پھر آیت کی تفسیر یہ ہے اور اگر اسکے معانی تلاوت اور پڑھوانے کے ہیں تو پھر اسکے معانی یہ ہیں۔
حالانکہ مولانا مودودی نے غلط لکھا ہے کہ تمنا کے معانی تلاوت کے بھی ہیں۔ جن تفسیروں میں شیطانی آیت کی نبیۖ کی طرف تلاوت کی نسبت کی تھی تو اس وجہ سے مولانا مودودی نے ”تمنا” کے ایک معانی پڑھنے کے کئے ہیں۔ حالانکہ عربی لغت میں یہ معنی نہیں ہے۔ چونکہ سورۂ نجم کی تلاوت پر کفار مکہ نے نبیۖ کیساتھ سجدہ کیا تھا اسلئے اپنی خفت مٹانے کیلئے یہ جھوٹا دعویٰ کردیا تھا کہ نبیۖ نے شیطانی آیات کی تلاوت فرمائی۔ جب مشرکینِ مکہ کی بڑی تعداد فتحِ مکہ کے بعد مسلمان ہوئی تو ان میں حضرت عباس بھی تھے اور انہی مشر کینِ مکہ کی گھڑی ہوئی کہانی بھی اس وقت لوگوں کے دل میں آگئی جب انہوں نے نسل در نسل اس واقعہ کے کچھ مندرجات اپنے گھروں میں سن رکھے تھے۔ محقق مفسر کا یہ کہنا بالکل بنتا تھا کہ اس واقعہ کی کوئی اصل نہیں ہے۔ یہ زنادقہ کی طرف سے اسلام کے خلاف کوئی من گھڑت سازش ہے۔ جن مشہور مفسرین نے اس واقعہ کو ردّ کردیا تھا تو یہ انہوں نے بالکل زبردست اور صحیح کام کیا تھا۔
جن مفسرین نے اس روایت کو قبول کرلیا تھا تو یہ ان کی انتہائی دیانتداری تھی کہ ایک واقع بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق نقل ہوا ہے تو اصل کے ہوتے ہوئے جزیات میں اختلافات کی وجہ سے اس کی تردید نہیں کی جاسکتی ہے۔ ان کی رائے بھی بہت زبردست ہے اوران کے نزدیک بظاہر آیت کی تفسیر میں بھی زبردست مدد مل رہی تھی اس وجہ سے اس کو قبول بھی کرلیا۔ یہ خیانت اور کم عقلی نہیں تھی لیکن جہاں تک مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی طرف آیت کی تفسیر میں خلوص کی بات ہے تو ان کے خلوص پر بھی بالکل شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے مگر جس طریقۂ استدلال کا سید مودودی نے سہارا لیا ہے ،یہ انتہائی جاہلانہ اور علم کے ابجد سے بالکل ہی انوکھی اور نری جہالت کا شاخسانہ ہے۔
قرآن کی سورتوں میں آیات کی ترتیب نزول اور آیات کی تدوین میں بڑا فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی جمع وترتیب کا کام بھی قرآن ہی میں اپنے ذمے لیا ہے کہ اے نبی ! جلدی سے کام نہ لیں۔ان علینا جمعہ وقرآنہ (بیشک ہم پرذمہ داری ہے اس کی جمع وترتیب اورتدوین کی ) ۔ کئی جگہوں پر ایسا ہوا ہے کہ ایک سورة کے شانِ نزول کا زمانہ کچھ ہوتا ہے لیکن اس میں آیات کے نزول کا حوالہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ علماء ومفسرین نے اپنی اپنی کوشش بہت دیانتدارانہ انداز میں کی۔ آیات سے دوسری آیات کی تفسیر کو جوڑ دیا لیکن جب کہیں اس کے مفہوم کو واضح کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور کہیں روایات کا سہارا لینا پڑا تو بھرپور دیانتداری سے اپنی قیمتی آراء کو پیش کردیا۔ سید مودودی نے بھی اپنے طور پر بہت اچھے انداز میں ان کی رائے کو درج کیا ۔جہاں اتفاق تھا تو اتفاق کیا اور جہاں اختلاف تھا وہاں اختلاف کیا اور اپنی طرف سے بھرپور توجیہات بھی پیش کیں۔ البتہ جن علماء کرام نے مولانا مودودی سے اختلاف کیا تو اس کی وجہ بھی بغض وحسد نہیں بلکہ ان کی طرف سے جہالت کا کھلا مظاہرہ تھا۔
اگر آیت کی تفسیر کا مسئلہ حل ہوجاتا تو پھر کوئی وجہ نہیں تھی کہ علماء وفقہاء میں کسی قسم کا کوئی اختلاف باقی رہتا ۔ اساتذہ کرام کا سینہ بہ سینہ ایک دوسرے کو علم منتقل کرنے سے ایک فائدہ یہی ہوتا ہے کہ اگر کوئی نیا کارنامہ انجام نہیں بھی دیاجائے تو کم ازکم بڑی بڑی ٹھوکریں کھانے سے انسان بچ جاتا ہے۔ دیوبند یا بریلوی علماء کے ہاں درسِ نظامی کی تعلیم کا سلسلہ مکمل کرنے سے تقلید کی بیماری لگ جاتی ہے جس کی وجہ سے نئی تحقیق کا مادہ بھی دماغ سے نکل جاتا ہے مگر تجدید کا ایسا بھوت بھی سوار نہیں ہوجاتا ہے کہ بڑی بڑی کھائیوں میں بڑی بڑی ٹھوکریں کھانے والا سمجھے کہ وہ براق پر معراج کا سفر کررہاہے۔ علم کو ثریا سے کھینچ لارہاہے۔ ایسی غلط فہمیاں بھی اس کو لاحق نہیں ہوتی ہیں۔ ان کے نالائق شاگرد البتہ تفسیر، احادیث کے ابجد سے بھی ناواقف ہونے کی وجہ سے تجدیدی کارنامہ انجام دینے والے کی دُم پر لٹک کر کچھ فوائد بھی حاصل کرتے ہیں اور کہیں ان کو نئی نوکری بھی مل جاتی ہے۔
آئیے کسی بھی مفادات کے چکر سے ہٹ کرقرآن کی طرف امت کو متوجہ کریں اور ڈوبتی اور ڈولتی ہوئی امت کی کشتی کو زبردست سہارا فراہم کریں۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

قرآن کریم کی مشکل ترین آیات کی سب سے آسان تفہیم اور تفسیر: از سیدعتیق الرحمن گیلانی

وماارسلنا من قبلک من رسولٍ ولا نبیٍ الا اذا تمنّٰی القی الشیطٰن فی اُمنیتہ فینسخ اللہ ما ےُلقی الشیطٰن ثم ےُحکم اللہ اٰیتہ واللہ علیم حکیم OلیجعلOو لیعلم (سورة الحج52،53،54)

اور ہم نے نہ بھیجاکسی رسول اور نہ کسی نبی کومگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے القاء کیااس کی تمنا میں ،پس اللہ نے مٹادیا جو شیطان نے القاء کیاپھر آیات کو محکم کیااور اللہ علیم حکیم ہے

تاکہ بنادے جو شیطان نے القاء کیاان لوگوں کیلئے فتنہ جنکے دلوں میں مرض ہے اور جنکے دل کھوٹے ہیں اور بیشک ظالم بہت دور کی بدبختی میں ہیں۔اور تاکہ جان لے وہ لوگ جن کو علم

دیا گیا ہے کہ بیشک حق تیرے ربّ کی طرف سے ہے۔پس اس پر ایمان لائیںاور انکے دل اسکے آگے جھک جائیںاور بیشک اللہ ایمان والوں کو سیدھی راہ کی ہدایت کرتا ہے۔(الحج)
سورۂ حج آیت(52) پر ابولاعلیٰ مودودی نے” تفہیم القرآن” میں ”تمنا ” کے دو معانی اور تفسیر لکھی۔مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ” رسول اللہۖ نے سورۂ النجم کی تلاوت میںجب افر ء یتم اللٰت والعزیٰ ومنوٰة الثالة الاخرٰی۔ پر پہنچے تو یکایک آپۖ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے : تلک الغرانقة العلیoوان شفاعتھن لترجی۔( یہ بلند پایہ دیویاں ہیں ،ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے)۔ اس کے بعد آگے پھر آپۖ سورۂ نجم کی آیات پڑھتے چلے گئے ،یہاں تک کہ جب اختتام سورہ پر آپۖنے سجدہ کیا تومشرک اور مسلمان سب سجدے میں گرگئے۔ کفار قریش نے کہا کہ اب ہمارا محمدۖ سے کیا اختلاف باقی رہ گیا ؟۔ ہم بھی یہی کہتے تھے کہ خالق اور رزاق اللہ ہی ہے ،البتہ ہمارے یہ معبود اسکے حضور ہمارے شفیع ہیں۔ شام کو جبریل آئے اور انہوں نے کہا : یہ آپ نے کیا کیا؟۔ یہ دونوں فقرے تو میں نہیں لایا تھا۔ اس پر آپۖ سخت مغموم ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورۂ بنی اسرائیل ، رکوع آٹھ (8) میں ہے کہ وان کادوا لفتنونک عن الذی اوحینا الیک لتفتری علینا غیرہ …….ثم لاتجد لک علینا نصیرًا۔یہ چیز برابر نبیۖ کو رنج وغم میں مبتلاء کئے رہی، یہاں تک کہ سورۂ حج کی یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں نبیۖ کو تسلی دی گئی کہ آپۖ سے پہلے بھی انبیاء کے ساتھ ایسا ہوتا رہاہے۔ اُدھر یہ واقعہ کہ قرآن سُن کر آنحضرتۖ کے ساتھ قریشِ مکہ کے لوگوں نے بھی سجدہ کیا ، مہاجرین حبشہ تک اس رنگ میں پہنچا کہ آنحضرتۖ اور کفارِ مکہ میں صلح ہوگئی ہے۔چنانچہ بہت سے مہاجرین مکہ آگئے ۔مگر یہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ صلح کی خبر غلط ہے۔ اسلام اور کفر کی دشمنی جوں کی توں قائم ہے۔
یہ قصہ ابن جریراور بہت سے مفسرین نے اپنی تفسیروں میں، ابن سعد نے طبقات میں، موسیٰ بن عقبہ نے مغازی میں ، ابن اسحاق نے سیرت میں اور ابنِ ابی حاتم ، ابن المنذر، بزار، ابن مردویہ اور طبرانی نے اپنے احادیث کے مجموعوں میں نقل کیا ہے۔ جن سندوں سے یہ نقل ہوا ہے۔محمد بن قیس، محمد بن کعب قرطبی،عروہ بن زبیر،ابوصالح، ابولعالیہ، سعید بن جبیر،ضحاک، ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث ، قتادہ، مجاہد ، سُدی بن شہاب زہری ، حضرت ابن عباس۔ ابن عباس کے سوا ان میں کوئی صحابی نہیں۔ قصے میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کو چھوڑ کر دو بڑے اختلافات ہیں۔ ایک یہ کہ بتوں کی تعریف میں جو کلمات نبیۖ کی طرف منسوب کئے گئے ہیںوہ قریب قریب ہر روایت میں دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہم نے اس کا استقصا کرنے کی کوشش کی تو (15)عبارتیں الگ الگ الفاظ میں پائیں۔ دوسرا بڑا اختلاف یہ ہے کہ کسی روایت میں یہ الفاظ دورانِ وحی میں شیطان نے آپۖ پر القاء کردئیے اور آپۖ سمجھے کہ یہ بھی جبریل لائے ہیں۔کسی روایت میں ہے کہ یہ الفاظ اپنی خواہش کے زیر اثر سہواً آپۖکی زبان سے نکلے۔ کسی میں ہے کہ آپۖ کو اونگھ آگئی تھی اور اسی حالت میں یہ الفاظ نکلے۔ کسی کا بیان ہے کہ آپۖ نے قصداً استفہام ِ انکاری کے طور پر کہے۔ کسی کا قول ہے کہ شیطان نے آپۖ کی آواز میں آواز ملاکر یہ الفاظ کہہ دیے اور یہ سمجھا گیا کہ آپۖ نے کہے ہیں اور کسی کے نزدیک کہنے والا مشرکین میں سے کوئی تھا۔
ابن کثیر، قاضی عیاض ، ابن خزیمہ، قاضی ابوبکر ابن عربی ، امام رازی، قرطبی، بدرالدین عینی، شوکانی، آلوسی وغیرہ حضرات اس قصے کو بالکل غلط قرار دیتے ہیں۔ ابن کثیر نے کہا کہ جتنی روایتوں سے یہ نقل ہوا ہے ،سب مرسل اور منقطع ہیں۔ مجھے کسی صحیح متصل سند سے یہ نہیں ملا۔ بیہقی کہتے ہیں کہ ” ازروئے نقل یہ قصہ ثابت نہیں ہے”۔ ابن خزیمہ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ”یہ زنادقہ کا گھڑا ہوا ہے”۔ قاضی عیاض کہتے ہیں کہ ” اس کی کمزوری اسی سے ظاہر ہے کہ صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے کسی نے بھی اس کو اپنے ہاں نقل نہیں کیا اور نہ کسی صحیح، متصل، بے عیب سند کے ساتھ ثقہ راویوں سے یہ منقول ہوا ہے ”۔ امام رازی ، قاضی ابوبکر اور آلوسی نے اس پر مفصل بحث کرکے اسے بڑے پُرزور طریقے سے رد ّکیا ہے۔ لیکن دوسری طرف حافظ ابن حجر جیسے بلندپایہ فقیہ اور ابوبکر جصاص جیسے نامور فقیہ اور زمحشری جیسے عقلیت پسند مفسر اور ابن جریرجیسے امام تفسیروتاریخ وفقہ اس کو صحیح مانتے ہیں اور اسی آیتِ زیر بحث کی تفسیر قرار دیتے ہیں۔ ابن حجر کا محدثانہ استدلال یہ ہے کہ :
” سعید بن جبیر کے طریق کے سوا جن طریقوں سے یہ روایت آئی ہے وہ یا تو ضعیف ہیں یا منقطع، مگر طریقوں کی کثرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی کوئی اصل ہے ضرور۔ علاوہ بریں یہ ایک طریقے سے متصلاً بسند صحیح بھی نقل ہوا ہے، جسے بزار نے نکالا ہے ( مراد ہے یوسف بن حماد عن اُمیہ بن خالد عن شعبہ عن ابی بِشر عن سعید بن جبیر عن ابن عباس)اور دو طریقوں سے اگرچہ مرسل ہے مگر اس کے روای صحیحین کی شرط کے مطابق ہیں۔ یہ دونوں روایتیں طبری نے نقل کی ہیں۔ ایک بطریق یونس بن یزید عن ابن شہاب ، دوسری بطریق معمر بن سلیمان وحماد بن سلمہ عن داؤد بن ابی ہند بن ابی العالیہ”۔
جہاں تک موافقین کا تعلق ہے وہ اسے صحیح مان ہی بیٹھے ہیں۔ لیکن مخالفین نے بھی اس پر تنقید کا حق ادا نہیں کیا ہے۔ ایک گروہ ا سے اسلئے ردّ کرتا ہے کہ اس کی سند اس کے نزدیک قوی نہیں ہے ۔ اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ اگر سند قوی ہوتی تو یہ حضرات اس قصے کو مان لیتے۔ دوسرا گروہ اسلئے رد کرتا ہے کہ اس سے تو سارا دین ہی مشتبہ ہوجاتا ہے اور دین کی ہر بات کے متعلق شک پیدا ہوجاتا ہے کہ نہ معلوم کہاں کہاں شیطانی اغوایا نفسانی آمیزشوں کا دخل ہوگیا ہو۔ حالانکہ اس نوعیت کا استدلال ان لوگوں کو تو مطمئن کرسکتا ہے جو ایمان لانے کے عزم پر قائم ہوں مگر جو لوگ پہلے سے شکوک میں مبتلاء ہیں یا جواَب تحقیق کرکے فیصلہ کرنا چاہتے ہیںکہ ایمان لائیں یا نہ لائیں؟۔ ان کے دل میں یہ جذبہ پیدا نہیں ہوسکتا کہ ایک نامور صحابی اور بکثرت تابعین وتبع تابعین اور متعدد راویانِ حدیث کی روایت سے ایک واقعہ ثابت ہورہاہے تو اسے صرف اس بنا پر کیوں رد کیا جائے کہ اس سے آپ کا دین مشتبہ ہواجاتاہے؟۔اس کے بجائے آپ کے دین کو مشتبہ کیوں نہ سمجھا جائے۔ جب یہ واقعہ اسے مشتبہ ثابت کررہاہے؟۔
(تفہیم القرآن جلد سوئم، صفحہ نمبر240۔ سید ابولاعلیٰ مودودی)

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

رسول اللہۖ نے مسجد کی نماز باجماعت ، حج، جہاد ، سفر، تعلیم وتعلم اور تجارت میں خواتین کو شانہ بشانہ کردار ادا کرنے کا عملی نمونہ پیش کیا

خواتین آٹھ (8) آزادی مارچ

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

خواتین دنیا بھر میں حقوق کیلئے خاص طور پر جبری جنسی تشدد کے خلاف ہرسال آٹھ (8)مارچ کو جلسے ،جلوس اور ریلیاں نکالتی ہیں اورکچھ سالوں سے پاکستان میں بھی یہ رسم شروع ہوگئی ہے۔
آزاد منش ،سیکولر اور مارکسیزم کی پیروکارخواتین کے مقابلے میں جماعت اسلامی نے حیاء مارچ کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اگرجماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان اوردیگر مذہبی جماعتیں تصادم کی فضاء پیدا کرنے کے بجائے قرآن وسنت میں موجود خواتین کے حقوق سے آگاہی شروع کردیں اور اس پر عمل درآمد کیلئے معقول اور مؤثر آواز اُٹھائیں تو پھر مذہبی خواتین ہمیشہ کیلئے مذہبی جماعتوں کے حق میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہیںلیکن اگر ان کو مذہب میں موجود حقوق بھی نہیں دئیے گئے۔ حلالہ کی لعنت اور طلاق کے غلط مسائل سے بھی چھٹکارا دلانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تو پھر حیاء مارچ کا وہی حال ہوگا جو پختون تحفظ موومنٹ کے مقابلے میں نام نہاد پاکستان تحفظ موومنٹ کا ہوا تھا۔ صوابی میں استعمال ہونے والا طبقہ کھلے عام سوشل میڈیا پر استعمال ہونے کی معافیاں مانگ رہا تھا۔ پھر حیاء مارچ والی بھی انہی آزاد منش کا حصہ ہوںگی ۔ جس طرح مولانا کوثر نیازی نے امیرجماعت اسلامی لاہور کا عہدہ چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔
ہم اپنے ادارے کی طرف سے خواتین کی عزم وہمت کو بھی سلام پیش کرتے ہیں اور قرآن وسنت کے حوالے سے ان کے حقوق کی بحالی میں اپنا کردار بھی ادا کررہے ہیں۔ انسانوں کی تہذیب وتمدن میں فرق ہوسکتا ہے لیکن بنیادی حقوق میں کوئی فرق نہیں ہے۔ رسول اللہۖ نے مسجد کی نماز باجماعت ، حج، جہاد ، سفر، تعلیم وتعلم اور تجارت میں خواتین کو شانہ بشانہ کردار ادا کرنے کا عملی نمونہ پیش کیا۔ حضرت عائشہ سے حضرت زینب تک مقتول خلیفہ ثالث اور کربلا کے مقتولین کیلئے جس ہمت کا مظاہرہ کیا تھا وہ مردوں کے حصے میں بھی نہیں آسکا تھا۔
فرعون کی بیوی حضرت آسیہ، حضرت مریم ،حضرت حاجرہ ، حضرت سارا اور حضرت حواء سے لیکر قیامت تک آنیوالی تمام خواتین تمام مردوں کی مائیں ہیں جنکے قدموں کے نیچے جنت ہے اسلئے کہ بچوں کیلئے باپ سے زیادہ ان کی قربانی ہوتی ہے۔

NAWISHTA E DIWAR March Special Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

سنی شیعہ اتحاد کا مسئلہ بہت گھمبیر بھی ہے اور ناگزیر بھی

سنی شیعہ اتحاد کا مسئلہ بہت گھمبیر بھی ہے اور ناگزیر بھی۔معروضی حقائق کے نتیجے میں بہت دلگیر بھی اور اچھی اُمید کی زندہ تصویر بھی۔جب تک عدل واعتدال سے کام نہیں لیا جاتا تب تک صراط مستقیم پل صراط سے بھی زیادہ مشکل ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

شیخ الحدیث حضرت مولانامفتی محمدزرولی خان کا مولانا طارق جمیل صاحب پر اعتراض اور علامہ سید شہریار رضاعابدی کا علامہ سید جوادحسین نقوی پر اعتراض بڑا زبردست آئینہ ہے!

مفتی زرولی خان نے مولانا طارق جمیل کے مولیٰ کہنے پر اعتراض کیا اور علامہ شہریار عابدی نے علامہ سید جواد نقوی پر علامہ زاہدالراشدی سے ملنے اور پیچھے نماز پڑھنے پراعتراض کیا

سنی شیعہ مسئلہ شروع سے گھمبیر تھا لیکن اب انتہاء کی طرف پہنچ رہا ہے۔ برطانیہ اورامریکہ کی ایجنسیوں کی مشترکہ قینچی سے اُمت مسلمہ کے اتحاد کو کون نقصان پہنچارہاہے؟۔یہ لوگ ایک دوسرے پر اغیار کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگانے پر اُتر آئے ہیں۔ علامہ شہریار رضاعابدی بھی ٹھیک کررہے ہونگے جنہوں نے علامہ سید جواد نقوی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور مفتی زرولی خان نے بھی ٹھیک کیا کہ مولانا طارق جمیل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ مفتی زرولی خان نے کہا کہ اکابر اہل سنت نے حضرت علی کیساتھ مولا کا لفظ نہیں لگایا ہے تو اہل تشیع کی معتبر کتابوں میں ائمہ اہل بیت نے بھی حضرت علی کیساتھ کبھی مولا کے لفظ کا اضافہ نہیں کیا۔ بہت سارے صحابہ کرام کیساتھ ان الفاظ کا کبھی اضافہ نہیں لکھا گیا جو نبیۖ نے ان کیلئے استعمال کئے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص سے نبیۖ نے فرمایا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ جس کا ذکر مفتی زرولی خان نے نہیں کیا۔ لیکن بہت سے دوسرے صحابہ کرام کی صفات اور خصوصیات کا ذکر کیا۔
مفتی زرولی خان نے کہا کہ اہل تشیع کے فتنہ گروں نے حضرت علی کیلئے یہ تک کہا کہ کائنات کے خالق بھی حضرت علی ہیں اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے رب العالمین کو بھی مولا قرار دیا ہے۔ اہل تشیع جب اللہ اور علی میں فرق نہیں کرتے تو پھر علی کیلئے مولا کے لفظ کا استعمال ان کی خوشنودی کیلئے کسی امام باڑے کے ذاکر کا کام ہوسکتا ہے لیکن اہل سنت کا لبادہ پہن کر یہ کام بہت خطرناک ہے اور پھر اکابرین سلف کو اس وجہ سے مجرم کہنا شیعہ کی ترجمانی ہے۔ مفتی زرولی خان کے مدلل اور تفصیلی مؤقف کو یوٹیوب پر دیکھا جاسکتا ہے۔
علامہ شہریار رضاعابدی کی باتوں میںوزن ہ کہ زاہدالراشدی نے ہمیشہ سپاہ صحابہ کے مؤقف کی تائید کی جنہوں نے اہل تشیع کا خون بہایا ہے۔ زاہد الراشدی کے والد مولانا سرفراز صفدر نے اپنی کتاب میں امامیہ شیعہ کو کافر قرار دیا ہے اور جنہوں نے شیعوں کا قتلِ عام کیا ہے وہ دیوبندی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے تھے تو پھر دیوبندیوں پر اہل تشیع کا اعتماد بحال کرنے میں غور کرنا چاہیے۔
علامہ شہریاررضاعابدی نے بریلوی مکتبہ فکر کی طرف سے مولانا اشرف علی تھانوی کے ایک حیدر آبادی ماموں کا بھی حوالہ دیا جس نے شریعت کے معارف بیان کرنے کیلئے یہ شرط لگائی تھی کہ وہ مجمع میں برسربازار ننگا چلے گا اورایک آدمی اسکے عضوتناسل کو پکڑ کر آگے اور دوسرا اسکے پیچھے دبر میں انگلی ڈال کر پیچھے چلے گا اور لڑکے یہ آواز لگائینگے کہ بھڑوا ہے بھڑوا،بھڑوا ہے بھڑوا، بھڑوا ہے بھڑوا۔ اس میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب”الافاضات یومیہ ” کا حوالہ ہے۔ علامہ شہریار رضاعابدی کہتے ہیں کہ میں بریلوی کی زبان سے سنانے کے بعد اسکو دہراؤں گا نہیں لیکن اگر ہماری کسی کتاب میں یہ واقعہ ہوتا تو دیوبندی ہمارا کیا حشر کرتے؟ ۔ہم صرف ان کو ایک آئینہ دکھانا چاہتے ہیں۔
یہ ذہن نشین رہے کہ سپاہ صحابہ نے ایک کتابچہ نما پمفلٹ چھا پا تھا جس میں بریلوی مکتبۂ فکر کے مولانا احمد رضا خان بریلوی اور دیگر معتبر علماء کے فتوے ہیں کہ ”جو شیعہ کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے”۔ گوگل میں دیکھ سکتے ہیں۔
ہمارا تعلق علماء دیوبند سے ہے، دیوبندی اور اہلحدیث بہت بعد میںتوحید کی وجہ سے وہابی کہلائے ہیں جبکہ ہم اپنے جدامجد سید عبدالقادر جیلانی کے بعد تسلسل ہی کیساتھ توحیدی ہیں۔ جس ماحول سے انسان کا تعلق ہوتا ہے اسکے اثرات ہوتے ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں دیوبندی مسلک پھیل گیا تو دوسری طرف بریلوی مکتبہ فکر پھیل گیا۔ مولانا احمد رضاخان بریلوی نے جس طرح سے مزاروں پر خرافات کی مخالفت کی تھی تو اس کی تصویر عملی طور پر علماء دیوبند تھے۔ دوسری طرف ان خرافات کے دفاع میں بریلوی علماء بلکہ جہلاء نے مولانا احمد رضا بریلوی کی ایماء پر آذان سے پہلے صلوٰة وسلام پڑھنا شروع کیا ۔ مذہبی جذبہ اور مشن کاروبار بن گیا۔ جب دیوبندی و بریلوی اپنااپنا نظریہ برصغیر میں پھیلارہے تھے تو ہمارا تعلق علماء دیوبند سے نہیں تھابلکہ دیوبند کے فاضل نے ہماری مسجد کی امامت شروع کی۔ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب نے بہت بڑی ضخیم کتاب لکھ دی تھی جس میں نماز کی سنت کے بعد دعا کو بدعت قرار دیا تھا لیکن فاضل دیوبند مولانا اشرف خان صاحب نے جہاں ہمارے ہاں امامت کرائی وہاں علماء دیوبند کے مسلک کو مسلط نہیں کیا تھا۔ اگر مولانا احمد رضاخان بریلوی کا شاگرد ہوتا تو بھی صلوٰة وسلام کا آذان میں اضافہ نہ کرتا۔
مولوی بیچارا زیادہ تر ماحول کا غلام ہوتا تھا۔ اب تو دین ،ایمان اور اسلام سے ہٹ کر مولوی فرقہ پرست اور مفادات کا غلام بنتا جارہاہے ۔ مولوی کو جہاں سیاستدانوں اور فرقہ پرستوں نے بالکل بے وقعت بنادیا ہے وہاں منبر ومحراب ، مسجد ومدرسہ اور خانقاہ وامام باگارہ کی طاقت کا بہت غلط استعمال ہورہاہے۔ کچھ لوگ نیک نیتی سے سب کچھ کررہے ہیں اور کچھ ایک مفید کاروبار سمجھ کر چھپکلی بنے پھرتے ہیں۔ ظالموں کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگِ نمرود میں پھینکا گیا تھا تو یہ پھونکیں مارہی تھی۔ جو لوگ چڑیا بن کر یہ آگ بجھا رہے ہیں تو ان کی روح یانار کونی بردًا وسلامًا علی ابراھیم کی خلافت کا حق ادا کرنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ قادرمطلق ذات تو اللہ کی ہے۔
کانیگرم جنوبی وزیرستان میں پنچ پیر یکے شاگرد نے نماز میں سنت کے بعد دعا کو بدعت قرار دیا تو کانیگرم کے مولانا محمدزمان نے اس پر قادیانیت کا فتویٰ لگادیا ۔ ہماری مسجد کا امام مولانا اشرف خان شریف آدمی تھا اورمولانا محمدزمان بدمعاش تھا جس کی موت بہت عبرتناک ہوئی ہے۔کانیگرم کے مولاناشاداجان اب بھی بقید حیات ہیں جو بہت نیک اور اچھے آدمی ہیں۔ سنت کے بعد اجتماعی دعا کراچی کے معروف دیوبندی مدارس جامعہ بنوری ٹاؤن، دارلعلوم کراچی اور جامعہ فاروقیہ سمیت لاہور، ملتان، فیصل آباد، پشاور ، بنوں ڈیرہ اسماعیل خان اور پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں میں بھی اب نہیں ہوتی ہے۔
دیوبندی پہلے ہی تقسیم تھے۔اب بریلوی لوگوں نے ایکدوسرے پر یلغار شروع کردی ہے اور مولانا سید مظفر حسین شاہ نے علامہ الیاس قادری کو چیرنے کی دھمکی دیکر معافی مانگ لی ہے جو صبح کا بھولا ہوا شام کو گھر واپس آجائے تو کوئی حرج نہیں لیکن دوسری طرف علامہ آصف جلالی اور علامہ عرفان شاہ قادری کے پیچھے بریلوی شخصیات نے بھول بھلیوں کا سفر شروع کردیا ہے۔ یہ آغا ز ہے انجام سفر کیا ہوگا یہ فتنوں کے اس دور کے آخر میں پتہ چلے گا اور جب بیرون ملک کی ایجنسیاں اور مذہبی جاہلوں کا سامنا ہوتو معاملہ خطرناک ہوسکتا ہے اور ہماری ریاست کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ ان کو کنٹرول کرسکے۔
احسان اللہ احسان کے بارے میں سلیم صافی نے یہ خبر دی کہ فوج نے اس کو استعمال کرکے اپنا کام لے لیا لیکن اسکے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ پورا نہیں کیا اسلئے وہ فرار کروایا نہیں گیا بلکہ فرار ہوا ہے اور غفلت برتنے والے اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کاروائی ہوئی۔ بہت لوگوں کو یہ بہت عجیب لگتا ہوگا کہ احسان اللہ احسان سے آخر کیا کام لیا گیا اور اتنی بڑی غفلت کو کیسے آسانی سے برداشت کیا گیا؟۔ لیکن اس سے بڑے کام تو ان سرنڈر طالبان سے لئے جاتے ہیں جو آئے روز کبھی کبھافوج کو دھوکہ میں نشانہ بھی بناتے ہیں ۔ جس طرح پنجابی کے علاقے میں ایک پٹھان فوجی پنجابیوں کی پہچان نہیں کرسکتا ہے اسی طرح سے پنجابی فوجی بھی علاقہ غیر کے آزاد قبائل میں اچھے برے پٹھانوں کی پہچان نہیں کرسکتے ہیں اور مجبوری میں ایسے لوگوں سے کام لیا جاتا ہے جن کو گڈ طالبان کہا جاتا ہے مگر کوئی شریف آدمی اس کام کیلئے تیار نہیں ہوتا ہے اسلئے پلے پلائے پِلے اور جگریوں سے کام لیا جاتا ہے ۔فوجیوں کا قتل ہو یا عوام کا اس کو برداشت کرنا دل گردے کا کام ہے لیکن جس طرح مولانا کے حیدر آباد دکنی ماموں نے ملامتی صوفی بننے کیلئے عجیب کردار ادا کیا تھا اس سے زیادہ پاک فوج اپنے لئے سلیکشن کی قربانی دینے والوں کی شلواریں اترواکر ملامتی صوفی بنادیتے ہیں۔
بہت ہوچکا ہے ، عوام برداشت کی آخری حد کو پہنچ چکی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے تصوف کے تین واقعات دکھائے۔ خوامخواہ میں کشتی خراب کرکے تخریب کاری کا بہت کھلا مظاہرہ کیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام وعدے کے باوجود بھی اس پر خاموش نہیں رہ سکے۔ پھر بولنے پر یاد دلایا تو کہنے لگے کہ آئندہ سوال نہیں کروں گا۔ پھر جب بچے کو قتل کردیا تو حضرت موسیٰ نے سوال نہ کرنے کی خاموشی توڑ دی۔ جب یاد دلایا تو ایک موقع اور مانگ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی بھوک بھی انتہاء تک پہنچائی تھی۔ تخریب کاری اور قتل پر سوال نہ اٹھانے کا وعدہ تو کرچکے تھے لیکن ایک دیوار کو اُٹھانے پر معاوضہ طلب نہ کرنا اتنی بڑی بات نہیں تھی لیکن جب دیوار سیدھی کردی تو پھر سوال اٹھاکر معاملہ انجام تک پہنچادیا تھا۔ ریاست ، حکومت اور مذہبی طبقات کی ساری منطق صحیح ہے اور یہ تخریب کاری اور معصوم کے قتل تک سب کچھ برداشت کرلیتے ہیںمگر پیٹ پر لات مارنا اچھا نہیں لگتا ہے۔
حضرت ابوبکر اور حضرت علی کے قد بہت اونچے اونچے تھے۔ مذہبی بونوں کیساتھ یہ بات جچتی نہیں ہے کہ اپنے سے بڑی شخصیات کے قدکاٹھ ناپ کر فیصلہ کریں کہ کس کی کیا اوقات تھی اور کس کی کیا اوقات نہیں تھی؟۔ فرشتوں سے بڑھ کر ہے انسان زیادہ مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔ اصحاب رسولۖ نے کس کس مرحلے میں کیا کیا قربانیاں دیں؟ ان سے اہل سنت کے ماحول میں پیدا ہونے والے بڑی محبت کریں تو یہ فطری بات ہے۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی کو بہت مبارک ہو کہ وہ چرس کے نشے میں موالیوں کے جھرمٹ میں پہنچ کر جب علی کا نام لیتا ہے جہاں علامہ خود نہیں پہنچ سکتے تو وہ ملنگ بڑا اچھا لگتا ہے اور اچھا لگنا بھی چاہیے ۔ ہمیں بخدا اچھا ہی لگتا ہے لیکن جس صحابی نے مکی دور، بدر اور احد اور خندق کے علاوہ تمام جنگوں اور صلح حدیبیہ میں رسول اللہۖ کا ساتھ دیا وہ سنی کو کیسے اچھا نہیں لگے گا؟۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی قرآن سے نبیۖ کے ہم سفروں کو نکالنے پر بھی اصرار کرے اور ملنگوں کو داخل کرے تو اس پر بھی خوشی کے شادیانے بجائے جائیں لیکن علماء حق کی یہ ذمہ داری ہے کہ چرس کے نشے میں نہیں دین کے نشے میں پھانسی کے پھندوں کو چومنے کی سنت کو زندہ رکھیں۔ جہاں ریڈ بتی جلے وہاں اسٹاپ نہ کرنا موت کا باعث بن سکتا ہے۔ سڑک کی موت سے بڑی عقیدے اور نظریے کی موت ہے۔
اگر ایک کہتا ہے کہ مجھے اللہ نے اپنی بندگی کیلئے پیدا کیا ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ مجھے علی کی پرستش کیلئے پیدا کیا ہے تو دونوں کا راستہ ایک نہیں ہوسکتا ہے۔ علامہ شہنشاہ نقوی کی بات صحیح ہے کہ اہل تشیع کو مارو مت، انکے خلاف کتابیں لکھو، دلیل سے بات کرو۔ ہماری بھی اتنی گزارش ہے کہ اہل تشیع ایک تو اختلاف اور توہین کے درمیان تمیز کاپیمانہ بنائیں ۔ ہم نے مان لیا کہ قرآن میں حضرت موسیٰ کی طرف خوف اور ظلم کی نسبت ہے اور علی کے درجے کو اسلئے افضل مانتے ہونگے کہ علی کی طرف ظلم اور خوف کی نسبت نہیں ہے اور موسیٰ فرعون کے پاس اسلئے جانے سے ڈرے تھے کہ ایک قتل خطاء ہوا تھا اور حضرت علی نے کئی مشرکوں کو قتل کیا تھا تب بھی مشرکوں سے نہیں ڈرتے تھے۔ اگر اس کو افضلیت کی دلیل نہیں بناتے بلکہ جہاد اور تعصبات کی فضاء میںقتل خطاء کے اندر تفریق کرتے تو ذاکر نہیں علامہ کہلانے کے مستحق ہوتے۔ جب حضرت علی نے اپنے منصوص حق کیلئے تین خلفاء کے خلاف قیام نہیں کیا جو سب کو قتل کرکے منزل مراد تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے تھے اور حضرت حسین نے بہتّر ساتھیوں کیساتھ یزید کے چھوٹے لشکر کے سامنے شہید ہونا قبول کیا اور یزید کے لشکر کے سپاہ سالار حر نے حسین کیساتھ شہید ہونا قبول کیا لیکن کوفہ کے ذاکر دُم گھسائے بیٹھے رہے تھے تو پھر آنے والے وقت میں حسین کے مقابلے میں علی پر بھی ملامت کا خطرہ ہوگا۔ جس طرح بوہری و آغا خانی حضرت حسن کو نہیں مانتے ہیں۔
علامہ شہریار عابدی دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث ، آغاخانی ،بوہری سب کو مسلمان مانتے ہیں جو ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں لیکن اکابر صحابہ کیلئے کلمہ خیر نہیں مانتے۔ اہل سنت ائمہ اہلبیت کو مانتے ہیں لیکن جاہل شیعوں کو نہیں مانتے تو وقت نے فیصلہ کرنا ہے کہ اصل شدت پسند اور مجرم کون ہے کون نہیں ہے؟۔

NAWISHTA E DIWAR March Special Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat