ترقیاتی کام کیلئے پانی اور بجلی بنیادہے ۔ وجعلنا من الماء کل شیء حی
ترقیاتی کام کیلئے پانی اور بجلی بنیادہے ۔ وجعلنا من الماء کل شیء حی
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
ہر ملک وقوم کی کوئی نعمت ہوتی ہے اور پاکستان کی نعمت ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہاڑوں سے سمندر میں پانی کا بہاؤ ہے جس سے بہت سستی بجلی پیدا کرکے خوشحالی آسکتی ہے!
اللہ نے فرمایا: اللہ کے پاس خاص وقت( انقلاب) کا علم ہے،وہ بارش برساتاہے اور وہ جانتا ہے کہ رحموں میںکیا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا کمائے گا اور کس زمین پر وہ مرے گا۔ (القرآن)
پاکستان کے پاس پانی کا بہاؤ ایک کنارے کے پہاڑوں سے لیکر دوسرے کنارے کے سمندر تک قدرت کا عظیم تحفہ ہے ، اگر زراعت اور سستی بجلی پیدا کرنے کا وسیلہ بنایا توانقلاب آجائیگا!
مشہور ہے کہ قرآن حجاز میں نازل ہوا۔ مصر والوں نے اس کو پڑھا اور ہند والوں نے اس کو سمجھا۔ علامہ اقبال نے بھی طلوع اسلام میں شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی اور نطق اعرابی کی بات کی ہے۔ سعودی عرب کے مشہور عالم دین ڈاکٹر عائض قرنی کی کتابیں سعودی عرب، دوبئی اور دنیا کے ائیرپورٹ اور بک سٹالوں میں موجود ہیں۔ عربی میں کمال حاصل کرنے کیلئے ان کی کچھ کتابیں میں خرید ی تھیں ۔ جس میں ان کی تفسیر بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر عائض قرنی امریکہ سمیت دنیا بھر میں گھومے ہیں اور ایک عالم دین،عربی ادیب کے علاوہ جہاندیدہ شخصیت بھی ہیں۔پہلے عربی کی تفاسیر میں لکھا تھا کہ ” اللہ ہی کو معلوم ہے کہ بارش کب ہوگی”۔ اب جب دنیا نے ترقی کرلی ہے اور ڈاکٹر عائض قرنی کو معلومات ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں بارش کب ہوگی ،اس کا پتہ چلتا ہے تو اس نے تفسیر میں تبدیلی کرلی اور لکھ دیا کہ ” اللہ ہی قدرتی بادلوں سے بارش برسا سکتا ہے”۔ لیکن جب دنیا کچھ مزید ترقی کرلے اور قدرتی بادلوں سے بارش برسانے اور بادلوں کو ہنکاکر بھگانے کی صلاحیت بھی پیدا کرلے تو پھر تفسیر بدلنی پڑے گی؟۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”دجال اکبر میں یہ صلاحیت ہوگی کہ جہاں بھی چاہے گا تو بارش برسے گی اور جہاں چاہے گا تو بارش نہیں برسے گی”۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ قرآن کا مطلب ڈاکٹر عائض قرنی غلط لے رہے ہیں۔ حدیث میں دجال کے اندر ایسی صلاحیت کا ذکر ہے تو دوسرے لوگوں سے بھی صلاحیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس کو خدا کے ساتھ قرار دینا بھی قرآن کا مفہوم نہیں ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دنیا میں دوسرے لوگوں اور ممالک میں بھی بارش سے پانی نچوڑنے کی صلاحیت ہو لیکن دجال زیادہ طاقتور ہو اسلئے اس کا خاص طور پر نبی ۖ نے ذکرکیا ہو۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ سورج ، چاند ، ستاروں، بادل اور دنیا کی ہر چیز کیلئے فرمایا ہے کہ انسانوں کیلئے سب چیزیں مسخرات ہیں۔
قرآن کے الفاظ یہ ہیں کہ ” بیشک اللہ کے پاس الساعة کاعلم ہے۔ وہ بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے اور کوئی نفس نہیں جانتا ہے کہ کل وہ کیا کمائے گا اور کس زمین پر مرے گا”۔ پہلی بات یہ ہے کہ الساعة سے مراد قیامت بھی ہے اور انقلاب کا وقت بھی ۔ قرآن نے دونوں کے لئے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ جب فتح مکہ کا انقلاب آیا تو مشرکین ِ مکہ اور یہود ومنافقین کے وہم وگمان میں بھی نہیںتھا کہ حجاز کے حالات اتنے جلد تبدیل ہوجائیں گے اور مسلمانوں کو اتنی بڑی فتح اور برتری حاصل ہوگی اور وہ پھر قیصرروم اور کسریٰ ایران کو بھی شکست دیں گے جو مشرق ومغرب کی دو سپر طاقتیں تھیں۔ مدینہ سے مکہ تک حجاز میں پانی کا کوئی چھوٹا نالہ بھی نہیں تھا لیکن پھر وہ شام وعراق ، اسپین و ہندوستان اور ترکی کے پانی وباغات کے دنیا میں مالک بن گئے۔ دنیا میں انکے ساتھ حور وقصور اور جنت کے باغات کے وعدے پورے ہوگئے تھے۔ قرآن کی آیات میں باغات سے مراد صرف جنت مراد نہیں ہے بلکہ دنیا کے باغات بھی مراد ہیں اور جہنم سے مراد صرف قیامت نہیں بلکہ دنیا میں جہنم کی زندگی بھی ہے۔
پاکستان میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جنہوں نے دنیا میں یتیموں، اسیروں اور غریبوں کی مدد اسلئے نہیںکی کہ پھر وہ ووٹ دیں گے یا انکے حق میں زندہ باد کے نعرے لگائیںگے۔ کورونا کی طویل بیماری میں رضاکاروں کی ٹیمیں گھر گھر تک پہنچ رہی تھیں اور بہت لوگوں نے کھل کر اور چھپ کر امداد کا سلسلہ جاری رکھا ۔ ادیب رضوی کی SIUT،انڈس ہسپتال ، ایدھی، چھیپا، امن اور سیلانی کے علاوہ چھوٹے بڑے لاتعداد اداروں نے غریبوں کی ایسی خدمت کی جو ریاست سے بھی زیادہ عوام کیلئے سکون واطمینان کا باعث بن گئے۔ سورۂ الدھر میں بسہولت پانی کی نہریں نکالنا اور اللہ کیلئے قوم کی خدمت کے علاوہ زبردست انقلاب کے بہترین تذکرے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مصداق پاکستانی قوم بن سکتی ہے اور پوری قوم کو اس کا درس دینے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی سخت ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے الساعة میں اس بڑے انقلاب کا بھی ذکر کیا ہے جو ہمارے سر پرتیار کھڑا ہے۔ پہلے حجاز کے لوگوں نے انقلاب کے مناظر دیکھے ۔خلافت راشدہ کے بعد بنوامیہ ، بنو عباس اور خلافت عثمانیہ تک ایک طویل دورانیہ تک مسلمانوں نے دنیا کے مزے اُڑائے ہیں۔ پھر پاکستان سے برپا ہونے والا دوسرا انقلاب دنیا کی تاریخ پھر بدلے گا۔ قرآن کی تفسیر کے نکات کبھی ختم ہونے نہیں ہیں اور اگر الساعة کی تفسیر کی جائے تو اس میں عام طور سے وقت کی بات ہے۔ دن رات سے زمین کا اپنے گرد چکر لگانا اور ماہ وسال سے زمین کا سورج کے گرد چکر لگانا ثابت ہے اور یہ بھی ایک علم ہے۔ پھر سورۂ معارج میں روح و ملائکہ کے چڑھنے کی ایک دن کو یہاں کے 50ہزار سال کے برابر قرار دیا گیاہے۔ جس کا مشاہدہ نبیۖ نے معراج میں کیا تھا اور البرٹ آئن سٹائن نے نظریہ اضافیت کوریاضی اور سائنس کی بنیاد پر بھی دنیا میں ثابت کردیا جس سے علوم کے دروازے کھلے ہیں۔ نبی ۖ نے ان پانچ چیزوں کو علم غیب کی چابیاں قرار دیا۔ آسمان جب سر کے اوپر ہو تو اس کانام آسمان ہے اور جب پیروں کے نیچے آجائے تو یہی زمین ہے۔ جب تک علم پردہ غیب میں ہو تو وہ غیب ہے مگر جب دسترس میں آجائے تو پھر وہ غیب نہیں رہتا ہے۔ پہلے معراج پر مسلمانوں کا ایمان بالغیب تھا اور جب وہ نظریہ اضافیت تک پہنچ جائیں تو پھر وہ غیب بھی نہیں رہتا ہے۔ نبیۖ نے بہت کچھ دیکھ کرپانچوں چیزوں کو غیب کی چابیاں قرار دیا تھا۔ قرآن میں اس بات کی نفی نہیں ہے کہ اللہ کے علاوہ کے کسی پاس ساعة کا علم نہیں ہے اور نہ بارش نازل کرنا ایسی بات ہے کہ جس میں کسی اور کی نفی ہو اسلئے مصنوعی بارش پر کسی کو تعجب نہیں ہوتا ہے۔ بارش میں بجلی کی چمک اور بجلی کی تسخیر غیب کی چابی ہے۔ جس کی وجہ سے کائنات کے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھ گیا۔ افسوس کہ ہم نے سستی بجلی پیدا کرکے اپنی غریب عوام کو اتنی چھوٹی سی سہولت سے بھی محروم رکھا ہواہے اورپاکستان میں پانی کے بہاؤ سے سستی بجلی پیدا کرکے ایک انقلاب برپا کرسکتے ہیں لیکن ہمارا مفاد پرست حکمران طبقہ اور اشرافیہ اس کی طرف توجہ نہیں دیتا ہے۔ لوگوں کو سستی بجلی اور پانی کی سہولت مل جاتی تو وہ اپنا روزگار خود پیدا کرلیتے ۔
اللہ تعالیٰ نے تیسری چیز کا فرمایا ہے ” وہ جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے”۔
ہمارا مذہبی طبقہ آنکھیں بند کرتا ہے کہ الٹراساؤنڈ میں بچے یا بچی کا پتہ چلنا قرآن وسنت کے خلاف ہے اور اس سے عقیدہ خراب ہوجاتا ہے۔ اگر عقیدے کا واقعی مسئلہ ہے تو عقیدہ تو خراب ہوہی گیا ہے۔ آنکھیں بند کرنے سے عقیدہ سلامت نہیں رہ سکتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہی نہیں ہے کہ بچے بچی کا ماں کے پیٹ میں پتہ نہیں چلتا۔ اگر بدبخت ونیک بخت کی تفسیر ہوتی تو بھی بھلا ہوتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے تو کسی دوسرے کے علم کی نفی نہیں فرمائی ہے۔ حدیث میں ٹھیک بات ہے کہ یہ غیب کی چابی ہے۔ رحم حیوانات میں ہیں، نباتا ت میں بھی ہیں اور جمادات میں بھی۔ فارمی گائے ، مرغیاں اور پرندوں نے حدیث کی تصدیق کردی ہے۔ فارمی پھل اور اناج نے نباتا ت کی تصدیق کردی ہے اور ایٹم کے ذرے ایٹمی توانائی اور الیکٹرانک کی دنیا نے جمادات کی بھی تصدیق کی ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ” قرآن کی تفسیر زمانہ کرے گا”۔ زمانے کی طرف سے علم الساعة ، بارش برسنے اور علم ارحام کی تفسیر ہوگئی ہے۔ چوتھی چیز اللہ نے فرمایا کہ ” تم میں سے کوئی نہیں جانتا ہے کہ وہ کل کیا حاصل کرے گا”۔ تیز رفتار تبدیلیوں نے آنے والے کل کی ترقی سے یہ ثابت کردیا ہے کہ واقعی ہر آنے والا کل نت نئے انکشافات اور خبر نامہ لیکرآتا ہے اور یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ کون کس زمین پر مرے گا؟۔ آنے والے وقت میں ان کا غیب کی چابیاں ہونے کی بات بھی کسی نئے طرز پر آسکتی ہے اور فی الحال بھی آیت کی پوری تصدیق ہے۔
اگر مساجد ومدارس میں جمود کو توڑا جائے تو لوگ جوق درجوق اسلام سے محبت کا اظہار کریں گے۔ پس مردہ دلوں میں ایک ولولہ اٹھے گا اور زندگی کی نئی راہیں کھل جائیں گی، زمانہ کروٹ بدلے گا تو پاکستانیوں کے چودہ طبق روشن ہوجائیںگے۔ سیاسی قیادتوں کاتمسخر اور مقتدر طبقے کا مذاق اڑانے سے بہتر یہ ہے کہ قوم کا رُخ مثبت سر گرمیوں کی طرف پھیر دیا جائے۔
پورے دریائے سندھ کو ڈیم میں تبدیل کیا جاسکتا ہے جسکے دونوں طرف بڑی بڑی نہریں ہوں اور تمام شہروں کے گندے نالوں سے جنگلات آباد کرنے کا کام لیا جاسکتا ہے۔ گندے پانی کو صاف کرنے کے بہت سستے طریقے ہیں۔ اور صاف پانی کو محفوظ کرنے کے بھی بہت اچھے طریقے ہیں۔ ریاست کو اپنی ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کیلئے بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہماری سیاسی لیڈر شپ نالائق اور موروثی طبقے سے تعلق رکھے تو وہ کیا کیا گل کھلائیں گے؟۔
آنے والے طوفانوں سے پہلے مختلف جگہوں پر پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم بنائے جاسکتے ہیں۔ سندھ میں دادو ڈیم اور دوسرے ڈیموں کو بارشوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے مصنوعی نہروں کے ذریعے پانی پہنچانے کا طریقہ بنایا جائے تاکہ جب پانی کاطوفان آجائے تو بہت سار ا ذخیرہ کیا جاسکے۔ لوگ قدرت کی نعمتوں سے فائدے اٹھاتے ہیں اور حکمرانوں نے نعمتوں کو ضائع کرنا تھوڑے سے مفاد کیلئے وطیرہ بنایا ہے۔ سیلاب زدگان کا پیسہ کھا جاتے ہیں۔
جب پاکستان میں پانی کے وافر مقدار میں ذخائر ہوںگے اور نہروں سے زراعت اور باغات کیلئے وافر مقدار میں آسانی سے پانی پہنچے گا تو افغانستان اور ملحقہ علاقوں کی طرف سمگلنگ کرنے سے اناج کو نہیں روکا جائیگا بلکہ تاجر سپلائی کرکے اچھی مقدار میں زرمبادلہ کمائیں گے۔ اگر پاکستان کے لوگوں کیلئے اناج اور پھل سستے ہوں گے اور پانی پر بجلی کے پلانٹ لگاکر سستی بجلی فراہم کریںگے تو پھر دنیا میں پاکستان سے بڑی جنت کوئی نہیں ہوگی۔ پھر لوگ آئیں گے اور سیر و تفریح کیلئے عرب ممالک کی جگہ ہمارے ہاں تشریف لائیں گے۔ یہاں امن و امان کا مسئلہ بے روز گاری کی وجہ سے ہے اور جب بھوک وافلاس کا راستہ رُک جائیگا تو امن وامان بھی قائم ہوجائے گا۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ جون 2022