پوسٹ تلاش کریں

ہم بھی فرشتے نہیں انسانوں جیسے انسان ہیں مگر

manzai-behlol-zai-mehsud-shaman-khail-neuton-einstein-stephen-hawking-shakir-shuja-abadi-president-of-pakistan-

ایک دن میں اپنی کار میں اکیلا ٹانک جارہا تھا۔ راستے میں ایک بوڑھا محسود پیدل جارہا تھا تو کسی واقف کار غالباً قاری نور اللہ محسود نے اس کو بھی اٹھانے کا کہہ دیا۔ میں نے پوچھا کہ پیدل کیوں جارہے تھے؟ ، بزرگ شخص نے جواب دیا کہ کرایہ نہیں تھا۔ مجھے دکھ ہوا اور جیب میں پڑے ایک دو ہزار روپے انکو دئیے تو وہ رونے لگا ،طالبان اور فوجیوں کو بد دعائیں دینے لگا کہ ہم غریبوں کو گھروں سے بھگادیا گیا ہے ۔ اس نے بتایا کہ ٹانک سے وہ پہلے کسٹم گیٹ تک جو کئی کلومیٹر کا فاصلہ ہے پیدل گیا تاکہ وہاں اپنے واقف کاروں سے راشن لے لیکن وہاں وہ نہیں مل سکے تھے ۔ یہ چشم دید واقعہ ہے اور بچوں ، خواتین اور بزرگوں کی ان گنت کہانیاں ہوں گی جن کے تصور سے بھی دل لرز جاتا ہے۔ میرے اخبار کا تمام ریکارڈ دیکھا جائے جس میں ایک ہی بات کی تلقین ہوتی تھی کہ طالبان اور فوج ایسا ماحول نہ بنائیں جس سے آپس کا نقصان ہو اور لوگ بھی دربدر ہوں۔
پچھلے شمارے میں میرا مقصد یہ ہرگز نہیں تھا کہ منزئی اور بہلول زئی قبیلے ہی طالبان تھے اور شمن خیل صرف سیاسی ہیں۔ میرا مقصد منظور پشتون کیخلاف اس سازش کو ناکام بنانا تھا کہ منظور پشتون کو شمن خیل ہونے کی وجہ سے مسترد کیا جائے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طالبان میں میرے دو دوست مولانا محمد امیر شمن خیل اور مولانا عبد اللہ نظر خیل تھے۔ مولانا محمد امیر افغانستان میں باغیوں کے ساتھ ہے اور مولانا عبد اللہ آج کل کوٹکئی میں سرنڈر طالبان رہنما بلکہ قائد ہے۔ دونوں پر مجھے یہ شبہ نہیں کہ وہ امریکہ ، بھارت اور پاکستان کے ہاتھوں بک سکتے ہیں بلکہ اپنے ضمیر کے مطابق جو درست سمجھتے ہیں وہی کررہے ہیں۔ دونوں طرح کی عوام کو درست ماحول فراہم کیا جائے تو اسلام اور ملک و قوم کیلئے بہترین کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔ پاک فوج کے سپاہیوں اور افسروں کو جو حکم ملتا ہے انہوں نے اس پر عمل کرنا ہوتا ہے، بعض اوقات بدلتی ہوئی پالیسیوں کے نتیجے میں اپنے بھی بدظن ہوجاتے ہیں۔ جب شروع میں تعلیم یافتہ بیوروکریٹ ، سیاستدان اور صحافی کھل کر طالبان کی حمایت کرتے تھے تو فوج کے اندر بھی بڑے پیمانے پر ایسے عناصر کا ہونا بعید از قیاس نہیں تھا جو طالبان کے مشن کو درست سمجھ کر تائید کرتے ہوں۔
جب ہمارے ساتھ واقعہ ہوا ، طالبان نے 13افراد شہید کردئیے تو مجھے اس کی خبر ہوئی، میرا پہلا رد عمل یہ تھا کہ اب مجھے زندہ رہنے کا حق نہیں لیکن اطلاع دینے والے نے منت کی کہ نہیں آپ نے نہیں نکلنا۔ پھر دوسرے نے آکر مزید حوصلہ دیا کہ جو باقی بچے ہیں وہ بھی آپ پر قربان ہوجائیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ صورتحال ملاحظہ کرنے کے بعد جب میں نے کسی کو پہلی مرتبہ انہی لمحات میں خبر سنائی اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ اب خلافت قائم ہوکر رہے گی تو مجھے کہا گیا کہ اب اس خلافت کا کیا فائدہ ہے؟۔ ماحول سے بہت کچھ بنتا اور بگڑتا ہے ۔ معاملہ کو مختلف پہلوؤں سے دیکھا جائے تو تضادات دور ہوجاتے ہیں۔ نیوٹن اور آئن اسٹائن کے نظریات میں تضادات تھے لیکن 14مارچ کو انتقال کرجانے والے سب سے بڑے سائنسی دماغ اسٹیفن ہاکنگ نے ان تضادات کو دور کرنے کا نیا نظریہ پیش کیا۔ مفلوج اسٹیفن ہاکنگ کیلئے کمپیوٹر کے ذریعے سے ایسے آلات لگائے گئے تھے جس سے وہ اپنا پیغام دنیا تک پہنچاتے تھے۔ اسٹیفن نے فلسطین کے مسلمانوں اور عراق کے مسلمانوں پر مظالم کے خلاف بھی احتجاج جاری رکھا۔
پاکستان میں ریاست کے فوائد غریب عوام تک پہنچانے کیلئے منظور پشتون کو وزیر اعظم اور ملک کے معروف شاعر شاکر شجا ع آبادی کو صدر مملکت کے عہدے پر بٹھایا جائے۔ شاکر شجاع آبادی کے خیالات کو عوام تک پہنچانے کیلئے اسٹیفن کے آلات کا اہتمام کیا جائے تو اس قوم کی تقدیر بھی بدلے گی۔ صدر مملکت کے مفلوج عہدے کو ایک مفلوج شاعر کے ذریعے سے بہت فعال بنایا جاسکتا ہے۔ محسود قبائل کے سب سے بڑے گھرانے کا سیاسی جانشین ہاشم خان عبدالائی محسود ہیں ، اگر منظور پشتون کو قومی اسمبلی کا ممبر اور ہاشم خان کو سینیٹر بنایا جائے تو محسود قوم بڑی خوشی سے اس جمہوری انقلاب کیلئے اٹھ کھڑی ہوگی۔ اس طرح سے وزیر اور داوڑ قبائل کے علاوہ بیٹنی اور سلمان خیل کے مستحق افراد کو زبردست نمائندگی دی جائے اور تمام پختونوں میں قیادت کے جھگڑوں کے بغیر ہم آہنگی پیدا کی جائے تو خون خرابے کے بغیر ایک پرامن انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ جن لوگوں کو سیاست ٹھیکے پر دیدی گئی تھی انہوں نے قوم کیلئے کچھ نہیں کیا۔ اسطرح سے پنجابی ، بلوچ ، سندھی ،مہاجر ، کشمیری اور سرائیکی علاقوں اور عوام میں ایک نیا انقلاب آسکتا ہے جو ریاستی اداروں میں میرٹ کی بنیاد اور عوام تک ریاست کے فوائد پہنچانے کا اچھاذریعہ بن جائے۔ طبقاتی تعصب قوم کیلئے ہرسطح پر تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔
منظور پشتون اور اسکے ساتھی اپنے لب و لہجے میں درشتی لانے کے بجائے اپنا مشن جاری رکھیں۔ اسلام آباد دھرنے کے بعد منظور پشتون نے فوج کی طرف سے مطالبات پر عمل کرنے کا ایک ویڈیو کلپ میں ذکر کیا ہے۔ جب بڑے جلسے ہوں تو بھی ان فوائد کو عوام کے سامنے رکھیں جس سے اعتماد کی فضا بڑھے گی۔ اس قوم نے جنت کے ٹکٹوں کے عوض بھی فوج کے آگے کھڑے ہونے کے بجائے اپنی دُم گھسیڑ رکھی تھی اور اگر پھر اس ڈگر پر ان کو لایا گیا تو یہ اپنے باشعور نوجوان طبقے کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ بلوچوں نے قومی حیثیت سے جس طرح کی قربانی دی اس کا پٹھان تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں لیکن نتیجہ میں اپنی قوم کو تباہ کیا۔ ہاں یہ بات اپنی جگہ پر ہے کہ فوج سے کوئی شکایات ہوں تو برملا اس کا اظہار کیا جائے۔ ایک فائدہ اس کا یہ ہوگا کہ فوج کو پتہ چلے گا کہ کسی کو مرغا بنا کر اس میں انگلیاں ڈالنے سے اس کو راحت نہیں ملتی۔ اگر اظہار نہیں کرے گا تو کیسے پتہ چلے گا کہ اس کو تکلیف ہوئی ہے۔ پھر یہ ظلم و ستم اور جبر وبے عزتی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ فوج کا سپہ سالار حکم کرے گا تو فوج کے سپاہی دوسروں کو مرغا بنانے کے بجائے خود بھی دوسروں کو عزت دینے کیلئے مرغے بننے سے نہیں کترائیں گے۔ شعور کی لڑائی کو بے شعوری سے لڑنے کے بعد دنیا و آخرت میں کبھی سرخروئی نہیں ملتی۔
اسلام کے درست تصورات سے ایک ایسا پر امن انقلاب آسکتا ہے جس سے زمین و آسمان والے دونوں کے دونوں خوش ہونگے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کی تعلیمات کے تقاضے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے بڑی بنیاد بن سکتے ہیں۔ میرے وہ اساتذہ جنہوں نے مجھے عربی ، قرآن و سنت ، فقہ و حدیث اور اُصول فقہ کی تعلیم دی ہے وہ مجھے کان سے پکڑ کر سیدھی راہ پر لانے کے مجاز ہیں لیکن اگر میری بات درست ہو تو یہ حضرت مولانا یوسف بنوریؒ کے تقوے کا کمال ہے۔ عتیق گیلانی

منظور پشتون ،خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لو!

allama-iqbal-budh-mat-waziristan-communist-arif-khan-mehsud-tank-di-khan-kidnapping-gulsha-alam-barki-in-waziristan-pti-chaudhry-afzal-haq-book-husn-e-lazawal-

علامہ اقبال ؒ نے شکوہ میں بندے کی طرف سے شکوہ لکھتے ہوئے یہ جملہ لکھ دیا تھا اور پھر جوابِ شکوہ بھی لکھا تھامگر عام طور سے لوگ اس کو شکوہ، جوابِ شکوہ کے بجائے پہلے تعریف اور پھر خوب تنقید کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ میرا مقصد تنقید کرنا بھی نہیں ہے۔ البتہ جب انسان اللہ کے سامنے سجدہ کرتا ہے تو اپنی چوتڑوں کو آسمان کی طرف اٹھالیتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دوسری قوموں کے نزدیک یہ بڑی بدتمیزی بھی ہو لیکن عبادات کا منہاج سب کا اپنا اپنا ہے۔ میں جرمنی میں کسی گرجا میں گیا تاکہ ان کے طریقۂ تعلیم وتربیت اور عبادت کو دیکھ لوں۔ وہاں مجھے ٹوپی کو اتارنے کا کہا گیا اور یہ شاید ان کے بے ادبی ہو۔ ہمارے ہاں ننگے سر کو باز لوگ ادب کے خلاف تصور کرتے ہیں۔ حج وعمرے میں احرام کی حالت میں بھی سر ننگا ہوتا ہے ۔ چین میں گیا توثناخوانِ تقدیس مشرق کے حامل بدھ مت مذہب کے افراد کو قبر یا قبر نما علامت پر سجدہ ریز ہوتے دیکھا۔ ہزار سال قبل ایک عربی عالم ابوالعلاء معریٰ گزرے ہیں جس نے اعلیٰ درجے کی صلاحیت پانے کے بعد ایک مایوسی کی زندگی کا آغاز کیا ۔ تمام مذاہب کو بشمول اسلام کے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کے نام پر علامہ اقبال نے جو اشعار لکھے ہیں اس میں ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘ کا ترانہ ہے۔ ابولعلاء معریٰ نے لکھا ہے کہ ’’ تمام قومیں ایک طرح کی ہیں ۔ یہود کہتے ہیں کہ خون بہانے سے ہماری مغفرت ہوگی۔ نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہمارا خدا مظلوم ہے اور مسلمان دور دور سے سفر کرکے پتھر مارنے اور چومنے کیلئے آتے ہیں‘‘۔ الحاد کی بنیاد بھی اسی شخص نے ہزار سال قبل رکھی تھی۔وہ کہتا تھا کہ ’’ انسان حضرت ابن عباسؓ کی ایک روایت کے مطابق نسیان سے ہے جس کا معنیٰ بھولنا ہے۔ حضرت آدمؑ کو جس درخت سے منع کیا تھا ، وہ اس حکم کو بھول گئے اور پھر جب زمین پر اتارے گئے تو جنت کی زبان عربی بھی بھول گئے۔ پھر ایک دور کے بعد زمین میں پھر سے یہ زبان وجود میں آگئی ہے‘‘۔
وزیرستان کے لوگ بہت آزاد منش تھے۔ زام پبلک سکول کے معروف ٹیچر عارف خان محسود نے وزیرستان پر باقاعدہ کتابیں لکھی ہیں۔ ایک زمانہ میں آپ پکے کیمونسٹ تھے۔ وزیرستان کے مرکز میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میں ہاتھ اٹھا رہا ہوں اگر اللہ ہے تو میرے ہاتھ کو نیچے کرکے دکھادے، جب اللہ کا چہرہ ، اس کی ناک ، کان ، ہاتھ پیر اور کچھ بھی نہیں تو یہ ایک بوتل ہے‘‘۔ اس گستاخانہ تقریر پر لوگوں کے ہاتھ اپنے کانوں تک گئے مگر عارف خان محسود کو کسی نے گریبان سے پکڑنے کی جرأت نہیں کی، یورپ وامریکہ میں بھی آزادی کا یہ تصور نہیں تھا جو وزیرستان میں تھا، پھر عارف خان کو بعد میں فالج کا اٹیک ہوا جسکے بعد خودہی سچی توبہ کرکے سچے اور پکے مسلمان بن گئے۔ میرے خلاف کئی انواع واقسام کے غلط اور بے بنیاد پروپیگنڈے کئے گئے لیکن کسی نے میرا راستہ نہیں روکا۔ پاکستان بھر کے علماء اور ٹانک کے سارے اکابر علماء میرے حامی تھے لیکن جب طالبان نے زور پکڑا تو ایک سے ایک شریف انسان کوشہید کردیا۔
مجھے میرے ایک بھائی نے کہا کہ’’ آپ جرأت کرلو اور ان دہشتگردوں کے خلاف کھڑے ہوجاؤ‘‘ میں نے کہا کہ مجھے پہلے اپنے بھائیوں کیخلاف جہاد کرنا ہوگا جو طالبان کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ جب میرے تعلیم یافتہ بھائی بھی طالبان کی حمایت کررہے ہیں تو زانگڑہ کے وہ محسود جنہوں نے سڑک تک نہ دیکھی ہو اس بین الاقوامی سازش کو کیا سمجھ سکتے ہیں؟۔ انہوں نے میری بات کو درست قرار دیدیا۔ ہمارے گھر میں 13 افراد کی شہادت سے پہلے مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ میرے بھائی اور عزیز وپڑوسی جان پر کھیل کر مجھ تک پہنچ گئے اورمجھے بحفاظت گھر تک پہنچادیا۔ اسکے بعد سے جب تک واقعہ نہیں ہوا تو ہم لوگوں نے خود ہی طالبان کو اپنے ہاں رکھا ہوا تھا۔ ٹانک شہر میں راکٹ لانچروں و میزائلوں کے حملے ہورہے تھے تو طالبان ہمارے ہاں پراٹھے کھاتے تھے۔ حادثہ میری وجہ سے ہوا یا یہ عوام کی بددعاؤں کا نتیجہ تھا ؟۔ اس کا جواب کسی موقع پر ملے گا۔
تحریک انصاف کے سرگرم کارکن اور آئی ایس آئی کے ایک موجودہ بریگیڈئر کے بھائی گلشا عالم خان برکی کو راستے میں دن دہاڑے طالبان نے اغوا کیا جس کا آج تک کوئی اتا پتہ نہیں چل سکا۔ کانیگرم کی برکی قوم نے جلوس کی شکل میں جاکر بیت اللہ محسود و غیرہ سے پوچھا لیکن انہوں نے اپنی لا علمی اور لا تعلقی کا اظہار کیا۔ کوٹکئی جنوبی وزیرستان کے ملک خاندان محسود اور وانہ کے مرزا عالم وزیر کو شہید کردیا گیا تو بہادر محسودوں نے دُم گھسیڑی ہوئی تھی۔ شکئی کے قاری حسن وزیر کو شہید کیا گیا تو ان کی مسجد کی بیٹھک میں ایک شہید صحافی غالباً میر نواب کے چچا کا کہنا تھا کہ وزیر تو شروع سے بے غیرت ہیں مگر محسود جو گالی پر قتل کردیتے تھے وہ بھی سب کچھ دیکھتے ہوئے اپنی آنکھوں کو بند کررہے ہیں۔ انسان غلطی کا پتلا ہے اور پاک ذات صرف رب کی ہے جونہ کھاتا ہے اور نہ پیشاب اور پوٹی کرتا ہے۔ اس کو سجدہ کرنے کا فائدہ اس وقت ہے جب انسان صدق دل سے صرف اسی ہی کو سبحان ربی الاعلیٰ اور سبحان ربی العظیم پکارے اور خود کو نہ سمجھے۔
انسان کے پاس دکھانے کیلئے چہرہ ہے جس سے وہ دیکھ اور بول سکتا ہے۔ اور اس کے پاس چوتڑ بھی ہے جس کو جائے ضرورت میں چھپا کر کھولتا ہے ۔ فوج ہو یا پختون قوم سب نے اپنی اپنی جگہ بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں اور اگر صرف اور صرف دوسرے کے عیوب کو آشکارا کیا گیا تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔ وہ لوگ بھی ہیں جو اس بات سے ڈر رہے ہیں کہ نقیب اللہ محسود اور راؤ انوار کا قصہ کوئی ڈرامہ نہ ہو جس کو بڑے پیمانے پر اچھالا گیا ۔ ڈان نیوز کے وسعت اللہ خان نے اپنے پروگرام میں ڈان اخبار کی رپورٹ بتائی کہ جہاں نقیب دکان خریدنا چاہتا تھا اس کی مالیت 3 کروڑ تھی ۔ نقیب 90لاکھ دے چکا تھا اور بقیہ رقم کیلئے اس پر اتنا تشدد کیا گیا کہ ورثا کو دکھانے کے لائق نہیں رہا تھا تو اس کو پولیس مقابلے کے نام پر قتل کیا گیا۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ طالبان لڑکوں کو بھی بد فعلی کیلئے اپنے پاس رکھتے تھے۔ جن غریبوں کے پاس صبح شام کا کھانا نہ ہوتا تھا ان کے پاس جو اتنی بڑی دولت آئی تھی جس کا خمیازہ پاکستان بھر کے لوگوں کے علاوہ خود پختون قوم کو بھی خود کش ، بھتہ خوری، چوری اور سینہ زوری کی صورت میں بھگتنا پڑتا تھا۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے ساتھی چوہدری افضل حق ؒ نے ’’حسن لا زوال‘‘ کے عنوان سے ایک قصہ لکھا ہے جس میں ایک کردار کو بھیانک پیش کیا جاتا ہے تو لوگوں کو اس کی شکل بھی منحوس لگتی ہے اور پھر منظر بدلتا ہے اور اس کو معصوم بنا کر پیش کیا گیا تو لوگوں کو وہ خاتون فرشتہ صفت دکھائی دینے لگی۔ اللہ خیر کرے۔

پاکستان کی ریاست اور سیاسی قیادت کا حال

amir-muqam-fawad-chaudhry-sheikh-rasheed-democracy-lanat-shame-on-democrats-zhob-balochistan-internet-social-media-haq-nawaz-jhangvi-shia-kafir-qazi-abdul-kareem-fatwa (1)

شیخ رشید، امیر مقام،فواد چوہدری، دانیال عزیز، بابر اعوان، جان اچکزئی، مشاہد حسین سیداور ، اور اور بہت سے سیاسی قائدین اور رہنماؤں نے کس کس کی گھاٹ کا پانی نہیں پیا ہے۔ عورت کیلئے طلاق اور خلع کے علاوہ بدکاری کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں تو وہ احتجاج کرتی ہیں کہ عورت کیوں نشانہ بنتی ہیں اسلئے طلاق ،خلع اور بدکار عورت کے بجائے ملوثی کا لفظ زیادہ موزوں لگتاہے۔ قرآن میں زنا کار مرد اور عورت کیلئے برابر کی سزا کا حکم ہے اور اگر مرد آپس میں برائی کا ارتکاب کریں تو ان کو اذیت دینے کا حکم ہے ، پھر اگر وہ باز آجائیں تو اللہ مغفرت والا ہے۔یورپ اور مغرب میں جنسی آزادی کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ اسلئے وہاں اس جرم کو جرم تصور نہیں کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں پارٹیاں بدلنا، وعدوں کی تکمیل نہ کرنا اور سیاسی مؤقف بدلنے کے دور سے گزر رہی ہیں۔ اخلاقیات تباہ ہوگئے ہیں اور اس صورتحال میں سیاسی قیادت کا بحران اور ریاست کا فقدان بڑا خطرہ دکھائی دیتا ہے۔ شیخ رشید جیسے لوگ رات کو برملا کہتے ہیں کہ میں جمہوریت اور پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتا ہوں، لعنت بھیجتا ہوں، لعنت بھیجتا ہوں، لعنت بھیجتا ہوں اور یہ ہے میرا استعفیٰ ۔ عمران خان بھی اس کی بھر پور تائید کردیتے ہیں ۔ اس جلسے میں زرداری نے بھی شرکت کررکھی تھی اورڈاکٹر طاہرالقادری میزبان تھے۔ علامہ طاہر القادری نے کہا کہ ’’ یہ محفل شیخ رشید نے لوٹ لی‘‘۔ پنجاب میں ناچ گانے والی ہوتی ہیں اور پختونخواہ میں لڑکوں اور مردوں سے یہ کام لیا جاتا تھا۔ گویا رنڈی کا نعم البدل ہوتا تھا۔ شیخ رشید نے ساری زندگی جمہوریت کی خدمت میں گزاردی اور آخر کار اس پر لعنت بھیج کر بڑی داد بھی حاصل کرلی مگر افسوس کہ دوسرے دن پھر چوتڑ پر ہاتھ مار کر کہا کہ میں یہ لعنت والا کام جاری رکھوں گا۔
یہی حال پارٹیاں بدلنے والے سیاسی رہنماؤں کا ہے۔ کیا ایسے لوگ فوج یا سیاستدان کے مورال کو بلند رکھ سکتے ہیں؟۔ عوام کے اندر صرف طاقت اور پیسے کی بنیاد پر زندہ ریاست اور سیاسی قیادت غریب عوام کی غربت میں ڈوب مری ہے لیکن اس کی آنکھوں میں شرم وحیاء کی چمک ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ژوب، قلعہ سیف اللہ اور کوئٹہ میں قیادت کی پیاسی عوام نے منظور پشتوں کا بھرپور استقبال کیا اور جو لوگ جلسہ میں نہیں پہنچ سکے تھے وہ جلسے کا احوال سن کر پیاسے ہوگئے کہ اس منظر کو دیکھنے سے کیوں محروم رہ گئے؟۔ اس جلسے میں ایک درد، ایک ولولہ اور حقیقی قیادت تھی۔ بلوچ رہنما اور ہزارہ برادری کی شیعہ رہنما نے بھی اپنے خطاب کے جوہر سے عوام کا لہو گرمایا اور اپنے ان جذبات کا اظہار کیا جس کا وہ پہلے اپنے خفیہ محافل میں کرتے ہونگے۔الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ کوئٹہ میں انٹرنیٹ بھی بند کیا گیا تھاتاکہ جلسے کی کوریج نہ ہو۔ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی لوگ برا بھلا کہہ رہے تھے۔ جمعیت علماء اسلام آئینی کے مولانا عبدالقادر لونی اور محمود خا ن اچکزئی کے بھیجے گئے نمائندے کو بھی شرکاء کی طرف بہت سخت ردِ عمل اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ عوام علماء اور قوم پرستوں سے بہت بیزار ہوچکے ہیں۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنا لیکن عوام کویہ احساس دلایا گیا کہ اسلام کے نام پر دھوکہ دیا گیا ۔ تحریکِ نظام مصطفی کے وقت بھی قومی قیادت نے نعرہ لگایا تھا۔ اسلامی جمہوری اتحاد نے بھی اسلام کا نعرہ لگایا تھا۔ طالبان نے بھی اسلام کا نعرہ لگایا تھااور متحدہ مجلس عمل نے بھی اسلام کا نعرہ لگایاتھا۔ میں جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کا طالب علم تھا۔ غالباً 1984ء کا سال تھا جب طلبہ میں ایک جماعت ’’جمعیۃ اعلاء کلمۃ الحق ‘‘کی بنیاد رکھی۔ میری پوری کوشش تھی کہ صدر کسی دوسرے کو منتخب کیا جائے کیونکہ صدر سے زیادہ کارکن کے طور پر کام ہوسکتا ہے مگر میری یہ کوشش ناکام ہوئی۔ میں نے کبھی جمعیت طلبہ اسلام اور علماء اسلام کی رکنیت کے طور پر بھی کام نہیں کیاہے لیکن ایک کارکن اور رہنما سے زیادہ اس کیلئے کام کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ مولانا فضل الرحمن بنوری ٹاؤن میں آتے تھے تو جمعیت طلبہ کا کوئی کارکن ہاتھ ملانے کی جرأت نہیں کرسکتا تھااور کسی رہنما کو ساتھ آنے کی جرأت نہ ہوتی تھی یا ساتھ لانا حکمت کے تقاضے کے منافی سمجھا جاتا تھا اور میں مولانا کو عزت دینے کیلئے ساتھ چلتا تھا۔ ممکن ہے کہ وہ خوفزدہ بھی ہوں کہ تعاقب کرنے والے کے کچھ اور مقاصد تو نہیں ہیں۔ تصویر کو ناجائز سمجھ کر میں شناختی کارڈ پھاڑ چکا تھا لیکن مولانا فضل الرحمن کو ووٹ دینے کیلئے شناختی کارڈ بنا ڈالا۔ مولانا حق نواز جھنگوی انجمن سپاہ صحابہ کے بانی و قائد تھے اور جمعیت علماء اسلام پنجاب کے نائب امیر بھی تھے۔ جب سپاہ صحابہ کے قائد شہید ہوگئے تو ایسا دن بھی آیا کہ ان کا نعرہ آگے بڑھا اور یہانتک پہنچا کہ ’’ کافر کافر شیعہ کافر اور جو نہ بولے وہ بھی کافر‘‘۔ میں نے 1992ء کے ابتدائی سال میں کتاب ’’ عروج ملتِ اسلامیہ کا فیصلہ کن مرحلہ‘‘ لکھ ڈالی اور اس میں تمام مذہبی فرقوں کے اتحاد کے علاوہ یہ بھی لکھ دیا کہ ’’ سپاہِ صحابہ کا ہدف صرف مولانا فضل الرحمن کیوں ہے؟۔ سعودیہ کے بادشاہ اہل تشیع کو حرم میں آنے دیتے ہیں ، یہ فتویٰ ان پر کیوں نہیں لگایا جاتا ہے؟۔ مولانا فضل الرحمن کے اسٹیج سے مولانا حق نواز جھنگوی شیعہ کافر کا نعرہ بھی نہیں لگاتے تھے تو اپنے قائد سے انحراف ہے‘‘۔ پھر وہ وقت آیا کہ جمعیت علماء اسلام ف اور س کے دونوں دھڑوں کو الیکشن کے موقع پر ایک ساتھ جلسے کیلئے جمع کرنیوالا عتیق الرحمن دونوں کے فتوے کا نشانہ بن گیا اور فتویٰ نہیں تھا ایک خط تھا جو قاضی عبدالکریم مرحوم نے اپنے شاگرد مولانا شیخ شفیع کے نام لکھ دیا تھا کہ ’’جس شخص کی آپ عوام کے اندر تقاریر اور تحریرات کے ذریعے حمایت کررہے ہیں ، اس سے مجھے بڑا افسوس ہوا، اسلئے کہ عتیق الرحمن کی طرف سے مہدی وغیرہ کی بات مسئلہ نہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ شیعہ کوکافر قرار دینے پر اجماع ہے اور یہ شخص اس اجماع کا منکر ہے اسلئے گمراہ ہے۔دوسرے لوگ جمعیت علماء اسلام ف کے رہنما تو قادیانیوں کا بھی استقبال کرینگے‘‘۔ جس کو مولانا شفیع نے تسلیم کرنے سے انکار کردیالیکن جمعیت علماء اسلام ف کے رہنماؤں نے الجواب صحیح لکھ دیا۔ یہ فتویٰ خود ہی انہی پر لگ رہا تھا اور مولانا فضل الرحمن ہمارے اخبار کے پرچے کو سائیڈ کی جیب میں رکھ کر علماء کرام پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ تم نے ایسی حمایت کیوں کی ہے؟۔ مولانا عبدالرؤف نے جرأتمندانہ بیان دیا تھا کہ قاضی عبدالکریم ان بھونڈی حرکتوں سے باز آجائے اور عتیق گیلانی سے کہتا ہوں کہ
تندئ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
مولانا عبدالرؤف نے مولانا فضل الرحمن سے کہا تھا کہ چھپ کر وار کرنے کے بجائے اگر عتیق گیلانی میں کوئی غلطی ہے تو ہم سیدھا کردیں گے۔

منظور پشتون کیلئے اعتدال کی راہ پر چلنا ضروری

manzoor-pashtoon-pashtun-dharna-islamabad-sham-e-ghariban-trailer-truck-shahid-khaqan-abbasi-baloch-sindhi-muhajir-panjabi-nawaz-sharif-joota-

محسود کے تین قبائل میں بہلول زئی اور منزئی بہادری اور شمن خیل سیاسی طور پر زیادہ سمجھدار شمار ہوتے ہیں، منظور پشتون نے اپنی شناخت محسود نہیں پشتون رکھ کر پشتون عوام کے دل جیت لئے۔ اسلام آباد دھرنے میں محسودوں کی اکثریت نے اس تحریک سے علیحدگی اختیار کر لی اور علیحدہ ہونے والے قبائلی ملکان اور علماء تھے۔ منظور پشتون نے پشاور ہی میں تحریک کا نام محسود تحفظ موومنٹ سے بدل کر پشتون تحفظ موومنٹ کردیا تھا۔ جس کا ہمیں انٹرویو سے پتہ چلاہے۔محسود اور وزیر بڑی تعداد میں آئے تھے لیکن وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کے بعدیہی فیصلہ ہوا تھا کہ’’ دھرنے کو ختم کردیا جائے‘‘۔ منظور پشتون نے قبائلی ملکان اور علماء کے سامنے یہ گزارش رکھی کہ’’ بہت سارے دیگر لوگ بھی ہماری داد رسی کیلئے یہاں پہنچے ہوئے ہیں، رات کی تاریکی میں دھرنا ختم کرنے پر لوگ کیا سمجھ لیں گے کہ کیوں راتوں رات دھرنا ختم کیا گیا؟۔یہ بہت غیر اخلاقی بات ہے کہ ہم اپنی مدد کیلئے آئے ہوئے لوگوں کو آگاہ کیے بغیر چلے جائیں ‘‘۔ لیکن ملکان اور علماء نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کے بعد اپنا اخلاقی فرض یہی سمجھ لیا کہ دھرنے کو ختم کیا جائے۔ راتوں رات اسٹیج جو پہلے سے ٹرالر پر بناتھاہٹا دیا گیا۔ بڑی تعداد میں لوگ چلے گئے۔ دوسرے دن مایوسی کی ایک فضا تھی خوف کا عالم تھااور دھرنے میں شریک تھوڑے سے لوگوں کو حضرت زینب کی طرح ہی شام غریباں کے لوگوں کو صرف حوصلہ دینا درکار تھا جو اپنی شکست، خوف اور مایوسی کوتسلی کا ذریعہ سمجھتے۔ کراچی سے اسلام آباد دھرنے میں شرکت کا مقصد تحریک کی کامیابی کیلئے اعتدال کا رستہ بتانا تھا۔ گہماگہمی کے عالم میں تین دن تک دھرنے والوں کے پاس گیا۔ سوشل میڈیا پر سب سے مقبول ایکٹویسٹ اور اس تحریک کے روح رواں اختر وزیر سے پہلے دن ملاقات ہوئی، جب دھرنے کی تقاریرکا سلسلہ ختم ہوچکا تھا۔ مختصر ملاقات میں میں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ لڑنے کا طریقۂ کار غلط ہے، کسی بھی تحریک کیلئے عوام کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن میں ہے کہ ’’ کھلی ہوئی فحاشی پر بیوی کو گھر سے نکالا اور اس کا خود نکلنا درست ہے‘‘۔ اور قتل کے بجائے لعان کرنے کا حکم ہے مگر مسلمان آج تک اللہ تعالیٰ کے اس حکم سے انکاری ہے۔ بیوی کو قتل کردیتا ہے لیکن جب مفتی فتویٰ دیتا ہے کہ ’’حلالہ کی لعنت ضروری ہے تو وہ مسلمان بے غیرت بن کر اپنی بیگم خود ہی پیش کردیتا ہے‘‘۔ اگر قوم کے اندر شعور آگیا تو وہ بڑی قربانی دینے کیلئے بھی تیار ہونگے اور اگر ان کو صرف لڑانے کی بات کی گئی تو وہ آپ کو اکیلا ہی چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ مجھے دوسرے دن اختر وزیر نے آنے کی دعوت دی اور کہا کہ اپنے خیالات پیش کردیں لیکن دوسرے دن موقع نہیں دیا گیا، تیسرے دن بلایا گیا اور پھر موقع نہیں دیا گیا، اسٹیج پر موجود ایک جواں کی آنکھوں میں آنسو آئے جو کہہ رہا تھا کہ ’’آپ لوگوں نے بھی تکلیف دیکھی ہے لیکن جو ہم پر گزری ہے جس طرح خواتین کی بے عزتی کی گئی اور جس طرح بزرگوں اور بچوں کیساتھ ہوا ، وہ بہت تکلیف دہ تھا‘‘۔ میں نے اپنے خاندان کی مشکلات کو سامنے رکھ کر کہا کہ واقعی محسود قوم نے سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کیا ہے تو دوسرے پختون بھائی نے کہا کہ ہمارا بھی یہی حال ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ سب کے ساتھ ہوا تھا مگر محسود قوم نے سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ پھر رات کو پتہ چلا کہ دھرنا ختم ہوا ہے لیکن قبائلی عمائدین سے میں نے کہا کہ دھرنا کس نے ختم کیا؟ وہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے ختم کردیا۔ میں نے کہا کہ دھرنا دینے کا محرک جوان طبقہ تھا اور دھرنے کو ختم کرنا یا نہ کرنا انہی کا کام ہے۔ پھر یہ دھرنا ختم نہیں ہواہے۔
جب شام کو میں پہنچا تو شامِ غریباں کی کیفیت تھی۔ مجھے ’’یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے‘‘ کا نعرہ اسلئے لگانا پڑا کہ پست حوصلوں کو بلند کرنا تھا اور خوفزدہ لوگوں کے دلوں سے خوف نکالنا تھا،مجھے ریاست اور تحریک کے درمیان دلالی کرنے کا شوق نہیں تھا لیکن دونوں میں اعتدال پیدا کرنا تھا۔ جب تحریک کا مورال ڈاؤن ہوا تو میں نے اس کی اُٹھان کو ضروری سمجھا۔ جن ملکان اور علماء نے اس تحریک کی سرپرستی کرنی تھی وہ بھاگ چکے تھے البتہ اس تحریک کی اصل لگام تو جوان اور تعلیم یافتہ طبقے کے ہاتھ میں ہی تھی ،جنکے پاس تجربے کی بہت کمی تھی اور اس خلاء کو پُر کرنیوالاطبقہ بھاگ چکا تھا۔ مجھے اسٹیج پر اطمینان کیساتھ بولنے بھی نہیں دیا جارہاتھا۔ میں صرف یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ دھرنے کے شرکاء کا درد ریاست تک پہنچے کیونکہ مقررین اپنے اپنے مقاصد بیان کرکے چلے جاتے تھے۔ میری چاہت تھی کہ اعتدال اور پُر اَمن طریقے سے درست سمت اور درست نعرے کی بنیاد پر یہ تحریک اپنا سفر جاری رکھے۔ صرف پختونوں کی ہی نہیں بلوچ، سندھیوں اور پنجابیوں کی مشکلات کا حل بھی یہی جوان تلاش کریں۔ خواتین کی طرح اپنے غم کا بین بجانے کی طرح ماتمی جلوس نکالیں گے تو قیامت تک بھی ان کی مشکل ختم نہ ہوگی۔ اپنے دکھوں پر اُف کرنے کی بجائے دوسروں کے غم میں برابر کے شریک ہونگے تو یہ مردانہ وار امامت کے قابل بن جائیں گے۔
منظور پشتون نے بھاگے ہوئے عمائدین کے بارے میں بہت خوبصورت انداز میں کہا کہ ’’وہ ثالث تھے جو چلتے بنے‘‘۔ منظور پشتون نے وزیراعظم سے جو باتیں کی تھیں وہ بھی ریکارڈ پر لانے کی ضرورت ہے۔ قبائلی ملکان اور علماء صرف زیارت کرنے کو بھی طواف سمجھ کر سعی کرنے لگتے ہیں۔ منظور پشتون نے اچھے انداز میں کہا کہ ’’ وزیراعظم صاحب! مجھے اپنے بزرگوں سے حیاء آتی ہے اگر انکا احساس نہ ہوتا تو میں تمہارے قدموں میں گرجاتا اور اس وقت تک لپٹا رہتا کہ جب تک میری قوم کے مشکلات کا حل نہ نکالتے۔ ہمیں سکولوں، سڑکوں اور ترقی کی ضرورت نہیں ہے ، بس ہماری عزتِ نفس بحال کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ یہی مطالبہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی امریکہ سے کیا تھا۔
ہمیں وہ دن یاد ہیں کہ جب دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانیوالوں کی عمران خان اور نوازشریف و شہباز شریف کی طرف سے مذمت بھی نہیں ہوتی تھی، میڈیا ریکارڈ دیکھا جائے ،زیادہ سے زیادہ صرف اور صرف افسوس کا اظہار کرتے تھے۔شکر ہے آج جب قائدین کو جوتے پڑ رہے ہیں تو مذمت کی توفیق مل جاتی ہے وہ بھی اس خوف سے کہ آج کسی مذہبی جماعت کے جذباتی نوجوان نے نوازشریف کو جوتا دے مارا ہے تو کل کسی گلوبٹ کی طرف سے ان پر بھی پڑ سکتا ہے۔وزیرستان تباہ ہوا لیکن کسی نے دکھ کا ایسا اظہار نہیں کیا اور جب سینٹ الیکش حکومت ہار گئی تو گویا مردہ بچے جننے والوں کی صفِ ماتم بچھ گئی ہے۔

صادق سنجرانی کے انتخاب سے اس ہاؤس کا منہ کالا ہوا، حاصل بزنجو کے بیان پر ارشاد نقوی کا تبصرہ

sadiq-sanjrani-election-house-hasil-bizenjo-raza-rabbani-politician-mujahideen-democracy-in--india-blackmailing--people-of-afganistan-JUI

حاصل بزنجو ایک بڑے باپ کابڑا بیٹاتھا مگرپہلے قوم پرستی کے بانی عبدالمالک بلوچ کا ساتھی تھا، جب ان لوگوں کے کہنے پر جوان طبقے نے ہتھیار اُٹھاکر بغاوت شروع کردی تو خود جمہوری سسٹم کا حصہ بن گئے۔ چلو دیر آید درست آیدمگر جب جمہوری دور میں بھی فنڈ کھانیوالا مشتاق رئیسانی 65کروڑ نقدی پر پکڑا جائے تو ارکان میں بغاوت کا پھیل جانا بھی فطری بات تھی۔ جب ن لیگ اور اچکزئی کیساتھ مل جمعیت علماء اسلام کو حکومت سے باہر رکھا گیا تھا تو بلوچستان میں جو کچھ ہوا تھا تو اس کو فطری کہا جاسکتا ہے،ایوانِ بالا کا منہ کالا ہوا تو جنہوں نے کالا کیا ہے انکا نام بھی بتاؤ۔ ڈرنے کی ضرورت اسلئے نہیں کہ آرمی چیف کا بیان میڈیا پر آگیا کہ’’ بلوچستان کی حکومت کو بدلنے میں جس فوجی نے کردار ادا کیا ہے اس کا نام بتاؤ، ہم قانونی کاروائی کرینگے‘‘۔ اس الیکشن میں حصہ نہ لیا جاتا تب بھی بات ٹھیک ہوسکتی تھی۔ نوازشریف کی دیگ پر رضا ربانی بیٹھا ہوتاتو انکامنہ کالا ہوتا۔
جمہوریت کی اصل تو یہی تھی کہ رضا ربانی کو نوازشریف کی طرف سے اس شرط پر پیشکش کی گئی کہ پیپلزپارٹی نے رضا ربانی کو نامزد کیا تو ہم بھی ان کی حمایت پر غور کرسکتے ہیں۔
جب پیپلزپارٹی نے فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے برداشت کرتے کرتے آخر اپنی سیاست بچانے کی کوشش کی تو اس کا یہ جمہوری حق تھا۔ خواجہ آصف طعنے دے رہاہے کہ جس تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا ہے تو اس نے اپنی مقبولیت کم کرکے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔
حاصل بزنجو نے جمہوریت نہیں بلوچوں کی بھی ناک کٹوادی ہے، اتنے پاپڑ تو ظفر اللہ جمالی نے پرویزمشرف کیلئے بھی نہیں بیلے تھے۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ بڑے باپ کا بڑا بیٹا بہت سمجھدار اور جمہوریت کیلئے انسانیت کا کردار ادا کریگا۔ شاہ سے زیادہ زیادہ شاہ کا وفادار بننے پر یقیناًبڑا افسوس ہوا ہے۔ انسان غلطی کا پتلا ہے اور حاصل بزنجو کو چاہیے کہ بلاتاخیر اپنے اس جذباتی بیان پر شرمندگی ظاہر کریں۔ ن لیگ والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا ضمیر، جن کی غیرت، جن کی عقل، جن کی دانش، جن کی روایت اور جن کا ایمان سب کچھ اسٹیبلشمنٹ نے چھین لیاہے لیکن اب جمہوریت پسند طبقات نے بھی بحیرۂمردارکے گھاٹ کا پانی پی لیا ہے۔ پختونوں اور بلوچوں میں جو لوگ پنجاب کے خلاف نفرت کا بازار گرم کرتے تھے۔ ان قوم پرستوں نے نوازشریف کے بغل میں جگہ بنالی ہے۔ فوج نے آخر اس کے علاوہ قصور کیا کیا تھا کہ نوازشریف و دیگر پنجابی کٹھ پتلی قیادت کو قوم پر مسلط کیا تھا۔ اس گناہ کو شاید اللہ بھی معاف نہیں کریگا ،اسلئے کہ اس کٹھ پتلی قیادت نے ریاست، سیاست، جمہوریت، صحافت سب کا بیڑہ غرق کردیا۔ نوازشریف مارشل لاء کی کال کوٹھڑی میں نظر بند نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں اپنی صفائی کیلئے جو تقریر کی تھی وہ جھوٹ تھی اللہ کا فضل وکرم نہیں تھا ۔
جی ٹی روڈ پر ایک بچے کو نادانستہ قافلے سے روند ڈالا تھا اور ڈرائیور کے پاس لائنس ہو تو بہت معمولی سا مقدمہ بنتا تھا لیکن وہ ڈرائیور آج تک پیش نہیں ہوسکا ۔ نامعمول وہ نہیں ہیں جن پر الزام لگایا جارہاہے بلکہ نامعلوم نے پہلے جو کردار ادا کیا تھا وہ اب نوازشریف کیلئے نہیں کررہے ہیں اور اس دکھ، قلق اور غم کا اظہار شیر دھاڑ کر نہیں کرتا بلکہ اس کی آواز گدھے کی طرح ڈھینچو ڈھینچو کرنے کی لگتی ہے اور دوسرے تو عادی ہیں، جنرل ضیاء الحق کی تو خیر پھر بھی کوئی مونچھ شونچھ تھیں جس کو شیر کہا جاتا تھا، نوازشریف تو یونہی شیر بناہوا ہے۔ ہمارا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اب قومی سیاسی قیادتیں ہوش کے ناخن لیں۔ اگر نوازشریف اپنے قاتل ڈرائیور کو معمولی دفعہ کیلئے حاضر نہ کرسکے ۔ محمود خان اچکزئی کا کزن پولیس والے کو نشے کی حالت میں قتل کردے اور رنگے ہاتھوں پکڑا جائے تب بھی رہائی پر شرمندہ ہونے کے بجائے گوانتا ناموبے کے قیدی یا کشمیر فتح کرنے اور یا پھر سیاسی قیدی کی طرح اس پر پھول بھی برسائے جائیں؟۔ یہ کونسے پختونوں کی روایات ہیں اگر محمود خان اچکزئی پختون روایات اور انسانیت کو قائم رکھتا تو مجید اچکزئی کو مجرم کی حیثیت سے غریب پولیس اہلکار کے سامنے پیش کرتا اور معافی مانگنے کیلئے منت کرتا۔ فوج کیخلاف بات کی جاتی ہے لیکن طالبان سے فوج نے عوام کو بچایاہے۔ عوام اٹھے گی تو سیاستدان اپنی بچت کیلئے اسی فوج سے مدد مانگیں گے۔

پختون آئین کے تحت پاکستان سے ناروا قتل، ظلم وجبر پر انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں، منظور پشتون

pakhtoon-history--constitution-pakistan-insaf-demand-manzoor-pashtoon-fc-police-army-court-quatta-media-balochistan--culture

پشتون تحفظ موومنٹ کے قائد منظور پشتین ایک تعلیم یافتہ ، بہادر ، نڈر ، جرأتمند ، دانشمند، ٹھنڈے دل و دماغ اور زبردست شعور رکھنے والا جوان ہے۔ ایک فوجی کی شہادت پر جب وزیرستان میں تشدد کرکے ایک محسود جوان کو اس کی ماں کے سامنے شہید کیا گیا اورگاؤں پر تشدد کی انتہاء کی گئی ، دور دراز کے علاقوں تک کرفیو لگایا گیا تو منظور پشتون نے اس تحریک کا آغاز کیا۔ عید کے دوسرے دن فوجی اٹھا کر اس کو لے گئے اور دوسرے جوان ساتھیوں کی طرف سے احتجاج کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ فوج کا کہنا تھا کہ تم ہمارے مورال کو ڈاؤن کررہے ہو ۔ منظور پشتون نے کہا کہ اب ڈر اور خوف کو ہم نے دل سے نکال دیا ہے۔ بچوں کے قتل ، گھروں کو مسمار کرنے، بزرگوں کی بے عزتی کے ہم عادی ہوچکے ہیں ۔
علاقے میں بارودی سرنگوں کی وجہ سے بہت اموات ہورہی تھیں ، کوئی دھماکہ ہوتا تو مرنے والے بھی علاقہ والے ہوتے اور تشدد بھی انہی پر کیا جاتا۔ جبکہ عوام کے پاس چھرے رکھنے کی اجازت بھی نہیں تھی اور پالے ہوئے دہشتگرد کو فوج کی حمایت حاصل تھی۔ مولانا ابو الکلام آزادؒ نے ہندوستان کی آزادی کیلئے جنگ لڑتے وقت کہا تھا کہ ’’جب کسی قوم کو دبایا جاتا ہے تو اسکی ایک انتہاء ہوتی ہے جسکے بعد قوم دباؤ کو قبول نہیں کرتی ہے‘‘۔ پہلے یہ بات ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑنے والوں پر کھلی تھی اور اب وزیرستان والوں نے خوف کو پھینک ڈالا ۔ تحریک کی قیادت منظور پشتون کو ملی ہے اور علی وزیر بھی انکے ساتھ ہیں جو محسود اور وزیر سے نکل کر تمام پشتونوں تک پھیل گئی ہے۔ اس تحریک کی حمایت ہزارہ برادری اور بلوچ عوام نے بھی کردی۔
منظور پشتون کے انٹرویوز اور تقاریر پشتو زبان میں ہیں۔ انکو اُردو اور دوسری زبانوں میں منتقل کرنا ضروری ہے۔ جن کا مدعا یہ ہے کہ ہم سے 100روپے موبائل بیلنس پر 25روپے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور ان پیسوں سے ریاست ہماری حفاظت کا ذمہ لیتی ہے۔ ہمیں ریاست مارے ، طالبان مارے یا خود کش حملوں میں ہم مریں ان سب کی ذمہ دار یاست ہے ۔ جتنے بھی قتل ہوئے ہیں ان سب کا حساب ریاست نے ہمیں دینا ہے ، پاکستان کے آئین کے تحت سب کے اپنے اپنے فرائض ہیں۔ دستورنے کسی کو حق نہیں دیا ہے کہ وہ کسی کو ماورائے عدالت قتل کرے۔ ہم ریاستی اداروں کی آنکھیں کھولنا چاہتے ہیں کہ ہم بھی انسان ہیں ، ہمارے بھی جذبات ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم جو اپنی زندگی سے تنگ آچکے ہیں ، بچوں کو قربان کرنا ہمارے لئے مسئلہ نہیں رہا۔ اس کا ہمیں عادی بنادیا گیا۔ گھروں کو مسمار کرنا ہو تو اپنے جہازوں اور توپوں کو آزمالو ، بزرگوں اور خواتین کی بے عزتی کرنی ہو تو اسکے بھی ہم عادی ہوچکے ہیں۔ یہ سب کچھ امریکہ سے ڈالروں کے وصول کیلئے ہورہا ہے۔ دنیا مانتی ہے کہ ہمیں استعمال کیا گیا،جرنیل بھی کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کو استعمال کیا۔ ہم بھی سمجھتے ہیں کہ پشتون سیدھے لوگ ہیں اور وہ اسلام ، جہاداور افغانستان کے نام پر استعمال ہوگئے۔ جنگ میں کس نے گھر بار ، جان و مال اور عزتوں کی قربانی دی؟ کون ڈالر کما رہا ہے؟۔ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
فوج کے افسر ہمیں کہتے ہیں کہ ہماری فوج تمہاری فوج ہے ، ہماری ریاست تمہاری ریاست ہے ، ہمارا ملک تمہارا ملک ہے مگر وہ ہمیں اپنا سمجھتے تو یہ کیوں کہتے؟۔ ظلم و بربربیت کا بازار گرم کیا گیا پھر بھی قبائل نے کہا کہ ہمیں پاکستان کی ریاست کا حصہ بنالو۔ وہ ہمیں اپنا حصہ بنانے کیلئے تیار نہیں۔ لوگ ایسی ریاستوں سے علیحدگی کیلئے تحریکیں چلاتے ہیں اور ہمیں شامل کرنے کیلئے یہ تیار نہیں ہیں۔ یہ ہماری کیسی ریاست ہے؟۔
2010ء میں ایک شخص کو پکڑا گیا جس نے جہاد سے توبہ کی تھی اور وہ فون کے بلاوے پر جا نہیں رہا تھا۔ پھر اس کو گرفتار کیا گیا اور جب 2016ء میں آرمی پبلک اسکول کاواقعہ ہوا تو اس کو سزا دی گئی۔ وہ قوم جو کبھی کسی سے خوفزدہ نہیں ہوئی ہے اس کو اتنا ڈرا دیا گیا کہ اپنے حق کیلئے بھی آواز اٹھانے کیلئے تیار نہیں ہورہی تھی۔ اس ظلم ، بربریت اور جبر کا اب خاتمہ ہونا چاہیے۔ منظور پشتون قوم کا درد لیکر اٹھا ہے اور اپنے ساتھیوں سمیت اسکا یہ درد پوری قوم کو بیدار کررہا ہے جو انقلاب کا ذریعہ بنے گا۔

اسمبلی سے بلا وجہ غیر حاضر رہنے والوں کو تین طلاق کی طرح مستقبل چھٹی دی جائے تو بہتر ہوگا.

naeema-kishwar-JUI-pakistani-senator-parliament-house-100-percent-attendance-Political-parties-Women-role-in-politics-teen-talaq-suspension

جمعیت علماء اسلام ف کی خاتون رکن قومی اسمبلی نعیمہ کشور کی اسمبلی میں 99فیصد حاضری ہے۔ وزیر اعظم اور وزیروں کی پریکٹس کرنے والے اور پریکٹس کے خواہشمند طبقے کیلئے بڑی معیوب بات ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں حاضری نہیں دیتے۔ بلا وجہ تین مرتبہ یا تین ماہ سے زیادہ غیر حاضر رہنے والوں کو تین طلاق کی طرح مستقل چھٹی دی جائے تو بہتر ہوگا۔

شطرنج کے مہرو! یہ تمہاری شکست ہے، مریم نواز کے ٹوئیٹ پر تیز و تند تبصرہ: عبد القدوس بلوچ

maryam-nawaz-tweet-abdul-quddos-buloch-property-establishment-army-seventy-year-hasan-nawaz-geo-tv-media-ISI-supreme-court-talk--show-quran-revolution

شطرنج کے مہرو! تم جیتے نہیں ہو، تمہیں بدترین شکست ہوئی ہے۔ذرا عوام کے سامنے تو آؤ۔ مریم نواز کے ٹوئیٹ پر عبدالقدوس بلوچ نے تیز وتند تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز نے اگر جمہوری سیاست کرنی ہے تو سچ بولنا ہوگا کہ نوازشریف کی ہڈیاں اور انکا گودا، گوشت اورچھیچھڑے، پھیپڑے، گردے اور کپورے اور اوجھڑی، آلائش اور چڑھی ہوئی بادی اور انکی رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کا ایک ایک قطرہ اور اندرون ملک وبیرون ملک جائیدادیں سب کی سب ڈکٹیٹر شپ کی سے نکل نہیں سکے ہیں۔ آج جن ٹی وی چینلوں اور صحافیوں کی خدمات ہم نے مستعار لی ہیں، ان کے پاس کیمرے کی گواہی موجود ہے کہ 2011ء میں جیوٹی وی کے پروگرام’’ لیکن‘‘ میں مَیں نے کہا ’’ میری اور میرے بھائیوں کی کوئی جائیدادنہیں ہے، پتہ نہیں یہ لوگ کہاں سے نکال کر لائے ہیں‘‘۔ جبکہ حسین نواز نے ٹی وی چینل پر کہا کہ ’’لندن کے فلیٹ میرے ہیں۔ 2006ء میں خریدے ہیں، میڈیا پر نہیں بتاؤں گا، عدالت کے سامنے بتاؤں گا‘‘۔ نوازشریف نے پارلیمنٹ میں تحریری دستاویزات کے ثبوت کا بھونڈا دعویٰ کیا ، کہ دبئی اور سعودی عرب کی وسیع تر اراضی بیچ کر لندن فلیٹ خریدے‘‘۔ جب ہمارے پا س اپنی گواہی کی کوئی دلیل نہیں ہے اور زرخرید وکیلوں کے ذریعے اپنی بھونڈی صفائی پیش کرتے ہیں، اکرم راجہ نے اصغر خان کیس میں ثابت کیا تھا کہ نوازشریف نے ISI سے 95 لاکھ روپے لئے تھے۔ آصف علی زرداری کو ہم نے لاکھ گالیاں دیں مگر وہ جانتا تھا کہ فوج اور نوازشریف ایک پیج پر ہیں اسلئے میرے ابا اور چاچا کو لوہاراور مولوی کہہ دیا مگر اپنے دورِ اقتدارمیں یہ کیس نہیں چھیڑا۔ اگر چھیڑ بھی دیدیتے تو عدالت نے نوازشریف کا کچھ نہیں کرنا تھا۔ عدالت کا تو کام بھی یہی تھا کہ پیسہ خرچ کرنے والوں کے پیمپر بھی اتر جاتے تو بھی پانی سے دھوکر پاجامہ پہنا دیتی تھی۔ بڑے لوگوں کا کبھی عدالت نے کچھ نہیں بگاڑاتھا بلکہ یہ عدالتیں تو بابا رحمتے بن کر خدمت کرتی تھیں۔ ترازو کے ایک پلڑے میں چیف جسٹس قیوم کی تصویر ہوتی تھی اور دوسرے میں شہباز شریف کی جو نوازشریف کے حکم اور تعمیلِ حکم کا عکاس ہوتا تھا۔ 70سال پہلے عوام کو انصاف ملنے کی توقع تھی لیکن70سال سے عدالت نے غریب عوام کی بجائے صرف اور صرف طاقتور طاقتوں کی خدمت کی ہے۔ اب نوازشریف پر بھی اس کی حکومت کے ہوتے ہوئے ہاتھ پڑ رہا ہے تو 70سالہ گدھے کو 70سالہ تاریخ بدلنے کی یاد آگئی ہے۔ جسکے سر کے تمام بال فوجیوں کی ٹانگوں میں رگڑتے رگڑتے گِر چکے ہیں۔ اب بھی بقیہ دوسرے بھائی شہبازشریف کوپارٹی سربراہ مقرر کرکے اسٹیبلشمنٹ کو رام کرنے کی مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔ زرداری اور عمران خان سے کہا جارہاہے کہ ’’تم گھوڑی نہیں گدھی کا دودھ پی رہے ہو‘‘۔ ابھی خود انہی کی ٹانگوں کے نیچے سر دبائے رکھنے کی کوشش جاری ہے جس کا طعنہ دوسروں کو دیا جارہاہے۔ جونہی دوسرا ہٹ جائے تو خود مزے مزے سے پینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اسلئے کہ گدھوں کی اولاد کو گدھی کا دودھ پینے اور دولتیاں کھانے کے تسلسل کی عادت پڑی رہتی ہے ، ان کو شرم نہیں آتی ہے۔
قرآن میں ہاتھ پیر اوراپنے اعضاء کی گواہی اور بولنے والی کتاب کا ذکر ہے جس کی ایک ادنیٰ مثال موجودہ دور میں ویڈیوز ہیں۔ میڈیا ٹاک شوز میں گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کا کردار ادا کرنے والے سیاستدانوں، صحافیوں اور دفاعی تجزیہ کاروں کی گواہیاں عوام الناس کا شعور بیدار کرنے کیلئے بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ جس کا نتیجہ ایک بڑے انقلاب کی شکل میں انشاء اللہ العزیز نکلے گا۔ مریم نواز جنس بدل کر صحافی سلمان غنی بنے تو کہہ سکتی ہے کہ میرے بھائی حسن نواز اور حسین نواز تو ببلو اور ڈبلو طرح کے ہیں۔ پنجاب میں خاص طور سے جنس بدلنے کی رسم بھی بہت ہے۔ مرد خود کو مصنوعی ہجڑے بنالیتے ہیں اور شوق میں آپریشن بھی کرلیتے ہیں۔ دنیا نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ خواتین نے بچے بھی جنم دینے کے بعد اپنی جنس بدل کر مردانہ زندگی اختیار کرلیتی ہیں۔ اگر مریم نواز نے کھلے عام شوہر چھوڑنے کا اعلان کرکے اپنی جنس بدل ڈالی تو جلسوں میں وہ رونق اور کشش نہیں ہوگی جو ایک خاتون کے چہرے پرنمایاں ہوتی ہے۔ سیدالشہداء حضرت امیر حمزہؓ کے بارے میں صحاح ستہ کی ایک حدیث ہے کہ’’ محفل سماں جاری تھی، ایک لڑکی نے اپنے گانے میں جب یہ شعر کہا کہ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ فربہ فربہ اونٹنی کے سر اور پیر یہ جواں کاٹ کیوں نہیں ڈالتے؟۔تو حضرت امیر حمزہؓ نے شراب پی ہوئی تھی اور خاتون کی آواز سے جوش میں اضافہ ہوا۔اور اٹھ کر اپنی تلوار سے حضرت علیؓ کی اُونٹنی کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔ حضرت علیؓ نے رسول اللہﷺ سے شکایت کی ،اس اونٹنی کو شادی کے اخراجات کیلئے رکھا ہوا تھا۔ رسول اللہﷺ نے حضرت امیر حمزہؓ سے پوچھا کہ یہ کیا کیا ہے؟، چچا امیر حمزہؓ نے کہا کہ جاجا ، تیرا باپ میرے باپ کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ واپس لوٹ گئے اور سمجھ گئے کہ نشے کی حالت میں ہیں‘‘۔ مریم نواز کی ٹوئیٹ جونہی سوشل میڈیا کے ذریعے وزیراعظم شاہد خاقان کے بیٹے عبداللہ عباسی کے پاس پہنچی تو فرطِ جذبات میں تحریک انصاف کے ایم این اے انجینئرحامدالحق کا گلہ سینٹ کی گیلری میں دبانے کی کوشش کردی۔ حامدالحق نے دانتوں سے چک مار کر اپنی جاں بخشی میں مدد کرائی۔ نوازشریف کو مدرسہ میں جوتا مارنیوالا اپنے دوساتھیوں کے ہمراہ 14دن کے ریمانڈ پرہے اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا صاحبزادہ اپنے متعدد گارڈز کے ہمراہ میڈیا پر ایک جھلک دکھانے کیلئے بھی تیار نہیں ہے۔ ایسی جمہوریت تو ڈکٹیٹر شپ سے بدتر ہے۔

375039_27662702

صحافیوں میں دنیا نیوز کے سلمان غنی ن لیگ کے اتنے حامی ہیں کہ اگر مریم نواز اپنی جنس بدل لے تو سلمان غنی سے زیادہ وہ بھی ن لیگ کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کرسکے گی۔ سلمان غنی نے کہا کہ ’’یہ پہلے سے معلوم تھا کہ حکومت کے پاس اپنا چیئر مین سینٹ منتخب کرانے کیلئے مطلوبہ تعداد میسر نہیں اسلئے اس نے رضا ربانی کا نام لیا اور بار بار اجلاسوں کے باوجود کسی کو نامزدنہ کیا۔ اس سے واضح تھا کہ حکومت ہار جائے گی‘‘۔ سلمان غنی کی اس گواہی کو سند کا درجہ حاصل ہے لیکن حکومت اور اسکے اتحاد ی کی طرف سے مہم جوئی جاری ہے کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ نے ہرایا ہے۔ اگر حکومت کے پاس اکثریت ہوتی تو بقول نواز شریف مفلوج وزیر اعظم کی طرح اسحاق ڈار کو مفلوج چیئر مین سینٹ بنا دیا جاتا۔ منظور پشتون نے پختونوں کیلئے جو راہ اپنائی ہے وہ بلوچوں اور دیگر قوموں کیلئے بھی انقلاب لانے کا مثبت ذریعہ بن سکتی ہے۔ سیاسی قیادت نے بدتمیزی کا جو طوفان برپا کیا ہوا ہے اس کا لازمی نتیجہ قوم میں بدترین انتشار کی صورت میں آئیگا اور پھر شام سے بھی زیادہ پاکستان کے حالات خراب ہونگے۔

خیر الناس من ینفع الناس (بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسروں کو نفع پہنچاتے ہیں)

manzai-behlol-zai-mehsud-shaman-khail-neuton-einstein-stephen-hawking-shakir-shuja-abadi-president-of-pakistan-scientist

عظیم سائنسدان آنجہانی اسٹیفن ہاکنگ کا انتقال ہوگیا۔ خیر الناس من ینفع الناس (بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسروں کو نفع پہنچاتے ہیں)۔ معذور اسٹیفن کمپیوٹر آلات سے اپنے خیالات کا اظہار کرتا تھا ، شاکر شجاع آبادی کو صدر مملکت بناکر معذور عہدے کو فعال بنایا جائے۔