ہم بھی فرشتے نہیں انسانوں جیسے انسان ہیں مگر
ایک دن میں اپنی کار میں اکیلا ٹانک جارہا تھا۔ راستے میں ایک بوڑھا محسود پیدل جارہا تھا تو کسی واقف کار غالباً قاری نور اللہ محسود نے اس کو بھی اٹھانے کا کہہ دیا۔ میں نے پوچھا کہ پیدل کیوں جارہے تھے؟ ، بزرگ شخص نے جواب دیا کہ کرایہ نہیں تھا۔ مجھے دکھ ہوا اور جیب میں پڑے ایک دو ہزار روپے انکو دئیے تو وہ رونے لگا ،طالبان اور فوجیوں کو بد دعائیں دینے لگا کہ ہم غریبوں کو گھروں سے بھگادیا گیا ہے ۔ اس نے بتایا کہ ٹانک سے وہ پہلے کسٹم گیٹ تک جو کئی کلومیٹر کا فاصلہ ہے پیدل گیا تاکہ وہاں اپنے واقف کاروں سے راشن لے لیکن وہاں وہ نہیں مل سکے تھے ۔ یہ چشم دید واقعہ ہے اور بچوں ، خواتین اور بزرگوں کی ان گنت کہانیاں ہوں گی جن کے تصور سے بھی دل لرز جاتا ہے۔ میرے اخبار کا تمام ریکارڈ دیکھا جائے جس میں ایک ہی بات کی تلقین ہوتی تھی کہ طالبان اور فوج ایسا ماحول نہ بنائیں جس سے آپس کا نقصان ہو اور لوگ بھی دربدر ہوں۔
پچھلے شمارے میں میرا مقصد یہ ہرگز نہیں تھا کہ منزئی اور بہلول زئی قبیلے ہی طالبان تھے اور شمن خیل صرف سیاسی ہیں۔ میرا مقصد منظور پشتون کیخلاف اس سازش کو ناکام بنانا تھا کہ منظور پشتون کو شمن خیل ہونے کی وجہ سے مسترد کیا جائے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طالبان میں میرے دو دوست مولانا محمد امیر شمن خیل اور مولانا عبد اللہ نظر خیل تھے۔ مولانا محمد امیر افغانستان میں باغیوں کے ساتھ ہے اور مولانا عبد اللہ آج کل کوٹکئی میں سرنڈر طالبان رہنما بلکہ قائد ہے۔ دونوں پر مجھے یہ شبہ نہیں کہ وہ امریکہ ، بھارت اور پاکستان کے ہاتھوں بک سکتے ہیں بلکہ اپنے ضمیر کے مطابق جو درست سمجھتے ہیں وہی کررہے ہیں۔ دونوں طرح کی عوام کو درست ماحول فراہم کیا جائے تو اسلام اور ملک و قوم کیلئے بہترین کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔ پاک فوج کے سپاہیوں اور افسروں کو جو حکم ملتا ہے انہوں نے اس پر عمل کرنا ہوتا ہے، بعض اوقات بدلتی ہوئی پالیسیوں کے نتیجے میں اپنے بھی بدظن ہوجاتے ہیں۔ جب شروع میں تعلیم یافتہ بیوروکریٹ ، سیاستدان اور صحافی کھل کر طالبان کی حمایت کرتے تھے تو فوج کے اندر بھی بڑے پیمانے پر ایسے عناصر کا ہونا بعید از قیاس نہیں تھا جو طالبان کے مشن کو درست سمجھ کر تائید کرتے ہوں۔
جب ہمارے ساتھ واقعہ ہوا ، طالبان نے 13افراد شہید کردئیے تو مجھے اس کی خبر ہوئی، میرا پہلا رد عمل یہ تھا کہ اب مجھے زندہ رہنے کا حق نہیں لیکن اطلاع دینے والے نے منت کی کہ نہیں آپ نے نہیں نکلنا۔ پھر دوسرے نے آکر مزید حوصلہ دیا کہ جو باقی بچے ہیں وہ بھی آپ پر قربان ہوجائیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ صورتحال ملاحظہ کرنے کے بعد جب میں نے کسی کو پہلی مرتبہ انہی لمحات میں خبر سنائی اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ اب خلافت قائم ہوکر رہے گی تو مجھے کہا گیا کہ اب اس خلافت کا کیا فائدہ ہے؟۔ ماحول سے بہت کچھ بنتا اور بگڑتا ہے ۔ معاملہ کو مختلف پہلوؤں سے دیکھا جائے تو تضادات دور ہوجاتے ہیں۔ نیوٹن اور آئن اسٹائن کے نظریات میں تضادات تھے لیکن 14مارچ کو انتقال کرجانے والے سب سے بڑے سائنسی دماغ اسٹیفن ہاکنگ نے ان تضادات کو دور کرنے کا نیا نظریہ پیش کیا۔ مفلوج اسٹیفن ہاکنگ کیلئے کمپیوٹر کے ذریعے سے ایسے آلات لگائے گئے تھے جس سے وہ اپنا پیغام دنیا تک پہنچاتے تھے۔ اسٹیفن نے فلسطین کے مسلمانوں اور عراق کے مسلمانوں پر مظالم کے خلاف بھی احتجاج جاری رکھا۔
پاکستان میں ریاست کے فوائد غریب عوام تک پہنچانے کیلئے منظور پشتون کو وزیر اعظم اور ملک کے معروف شاعر شاکر شجا ع آبادی کو صدر مملکت کے عہدے پر بٹھایا جائے۔ شاکر شجاع آبادی کے خیالات کو عوام تک پہنچانے کیلئے اسٹیفن کے آلات کا اہتمام کیا جائے تو اس قوم کی تقدیر بھی بدلے گی۔ صدر مملکت کے مفلوج عہدے کو ایک مفلوج شاعر کے ذریعے سے بہت فعال بنایا جاسکتا ہے۔ محسود قبائل کے سب سے بڑے گھرانے کا سیاسی جانشین ہاشم خان عبدالائی محسود ہیں ، اگر منظور پشتون کو قومی اسمبلی کا ممبر اور ہاشم خان کو سینیٹر بنایا جائے تو محسود قوم بڑی خوشی سے اس جمہوری انقلاب کیلئے اٹھ کھڑی ہوگی۔ اس طرح سے وزیر اور داوڑ قبائل کے علاوہ بیٹنی اور سلمان خیل کے مستحق افراد کو زبردست نمائندگی دی جائے اور تمام پختونوں میں قیادت کے جھگڑوں کے بغیر ہم آہنگی پیدا کی جائے تو خون خرابے کے بغیر ایک پرامن انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ جن لوگوں کو سیاست ٹھیکے پر دیدی گئی تھی انہوں نے قوم کیلئے کچھ نہیں کیا۔ اسطرح سے پنجابی ، بلوچ ، سندھی ،مہاجر ، کشمیری اور سرائیکی علاقوں اور عوام میں ایک نیا انقلاب آسکتا ہے جو ریاستی اداروں میں میرٹ کی بنیاد اور عوام تک ریاست کے فوائد پہنچانے کا اچھاذریعہ بن جائے۔ طبقاتی تعصب قوم کیلئے ہرسطح پر تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔
منظور پشتون اور اسکے ساتھی اپنے لب و لہجے میں درشتی لانے کے بجائے اپنا مشن جاری رکھیں۔ اسلام آباد دھرنے کے بعد منظور پشتون نے فوج کی طرف سے مطالبات پر عمل کرنے کا ایک ویڈیو کلپ میں ذکر کیا ہے۔ جب بڑے جلسے ہوں تو بھی ان فوائد کو عوام کے سامنے رکھیں جس سے اعتماد کی فضا بڑھے گی۔ اس قوم نے جنت کے ٹکٹوں کے عوض بھی فوج کے آگے کھڑے ہونے کے بجائے اپنی دُم گھسیڑ رکھی تھی اور اگر پھر اس ڈگر پر ان کو لایا گیا تو یہ اپنے باشعور نوجوان طبقے کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ بلوچوں نے قومی حیثیت سے جس طرح کی قربانی دی اس کا پٹھان تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں لیکن نتیجہ میں اپنی قوم کو تباہ کیا۔ ہاں یہ بات اپنی جگہ پر ہے کہ فوج سے کوئی شکایات ہوں تو برملا اس کا اظہار کیا جائے۔ ایک فائدہ اس کا یہ ہوگا کہ فوج کو پتہ چلے گا کہ کسی کو مرغا بنا کر اس میں انگلیاں ڈالنے سے اس کو راحت نہیں ملتی۔ اگر اظہار نہیں کرے گا تو کیسے پتہ چلے گا کہ اس کو تکلیف ہوئی ہے۔ پھر یہ ظلم و ستم اور جبر وبے عزتی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ فوج کا سپہ سالار حکم کرے گا تو فوج کے سپاہی دوسروں کو مرغا بنانے کے بجائے خود بھی دوسروں کو عزت دینے کیلئے مرغے بننے سے نہیں کترائیں گے۔ شعور کی لڑائی کو بے شعوری سے لڑنے کے بعد دنیا و آخرت میں کبھی سرخروئی نہیں ملتی۔
اسلام کے درست تصورات سے ایک ایسا پر امن انقلاب آسکتا ہے جس سے زمین و آسمان والے دونوں کے دونوں خوش ہونگے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کی تعلیمات کے تقاضے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے بڑی بنیاد بن سکتے ہیں۔ میرے وہ اساتذہ جنہوں نے مجھے عربی ، قرآن و سنت ، فقہ و حدیث اور اُصول فقہ کی تعلیم دی ہے وہ مجھے کان سے پکڑ کر سیدھی راہ پر لانے کے مجاز ہیں لیکن اگر میری بات درست ہو تو یہ حضرت مولانا یوسف بنوریؒ کے تقوے کا کمال ہے۔ عتیق گیلانی