مارچ 2018 - Page 2 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

ہارون الرشید اور شیخ رشید جیسے لوگ اسٹیبلشمنٹ کی بدنامی کا باعث ہیں. نادر شاہ

haroon-ur-rasheed-mamu-najumee-pakistan-cricket-match-final-tigni-ka-naach-establishment-chori-or-seena-zori-chashm-e-baddoor-firdous-ashiq-awan-pti

مدیر منتظم نوشتہ دیوار نادر شاہ نے کہا ہے کہ بعض صحافی اور سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کو بدنام کررہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ پاکستان ایک مرتبہ میچ جیتنے کے بالکل قریب پہنچ گیا تھا اور نجومی ماموں بھی پیشگوئی کررہے تھے کہ فائنل کو پاکستان نے بہر صورت جیتنا ہے۔ آخر میں کھیل کا پانسا پلٹا اور ماموں نجومی بھاگتا ہوا نظر بھی نہیں آیا۔ ہارون الرشید اس وقت اچھا لگتا تھا جب اسٹیبلشمنٹ سیاست میں کردار ادا کررہی تھی ۔ اب جب خفیہ ہاتھوں نے اپنا کھیل خود ختم کردیا ہے اور برأت کا اظہار بھی کیا جارہا ہے تو شیخ رشید اور ماموں ہارون الرشید نہ جانے کس لئے تگنی کا ناچ ناچ رہے ہیں؟۔ ایک تخمینہ تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور تحریک انصاف و پیپلز پارٹی کو آخری راؤنڈ کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے لاہور میں کردار دیا ہے لیکن شیخ رشید کی لعنتوں نے دوسروں پر لعنت بھیجنے کے بجائے خود پر ہی لعنت بھیج دی۔ یہ کوئی دانشمندی اور اسٹیبلشمنٹ کا کھیل ہوسکتا تھا؟۔ نہیں ہرگز ہرگز نہیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے صحافیوں کو طلب کرکے واضح طور سے کہا کہ ’’اگر بلوچستان کی حکومت کو بدلنے میں کسی فوجی افسر یا اہل کار کا کردار ثابت ہوجائے تو اس کو بھرپور سزا دی جائے گی۔ فوج سیاست میں کوئی مداخلت نہیں کرتی ، جبکہ سیاستدانوں کو بھی فوج کو ملوث کرنے کیلئے کسی سے رابطے نہیں کرنے چاہئیں‘‘۔ بلوچستان کی حکومت بدلنے میں مولانا فضل الرحمن کا کردار درخت کے تنے کی طرح ہے۔ اور یہ تنا حکومت نے اپنے پاس نصب کر رکھا ہے۔ ماشاء اللہ چشم بددور ۔
صحافت کے ماموں ہارو ن الرشید نے کہاکہ ’’عمران خان کی طرف سے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو کو اپنا اختیار دیا گیا تھا اور قدوس بزنجو نے اپنا اختیار آصف زرداری کو دیا تھا۔ یہ تو بعض دوسرے لوگوں نے کردار ادا کرکے عمران خان کو سمجھا دیا ورنہ عمران خان اور قدوس بزنجو کھیل بگاڑ چکے تھے‘‘۔
ہارون الرشید کے اس تجزئیے نے جمہوریت میں ہارے ہوئے سیاستدانوں کوحوصلہ دیا کہ وہ خفیہ ایجنسیوں پر الزامات تھوپ سکیں۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ عمران خان نے کہا کہ’’ وہ زرداری سے مل نہیں سکتا اور نواز شریف کے آدمی کو ناکام بنانے کیلئے بھرپور کوشش کریگا‘‘۔ پھر جب مریم نواز نے تقریر کی کہ ’’عمران خان تم کہتے ہو کہ تم جھکتے نہیں ہو اور بکتے نہیں ہو لیکن تم سیدھا سیدھا لیٹ جاتے ہو‘‘ تو عمران خان نے اپنا مؤقف بدلا اور کہا کہ زرداری سے میں کسی صورت اتحاد نہیں کروں گا۔ زرداری کو پتہ تھا کہ ایسی صورت میں ڈپٹی چیئر مین کا عہدہ بھی نہیں مل سکتا اسلئے اپنا مؤقف تبدیل کیا۔ اگر پچھلی مرتبہ مولانا غفور حیدری کو بلوچستان کا دل رکھنے کیلئے ڈپٹی چیئر مین بنایا تھا تو اس مرتبہ چیئر مین کا عہدہ بلوچستان کو دینے میں کیا حرج تھا؟ جبکہ بصورت دیگر نواز شریف کی بالادستی قائم ہوجاتی۔
جمہوریت اپنے منطقی انجام کی طرف جارہی ہے۔ محمود خان اچکزئی نے زندگی بھر پنجاب سے تعصب کی بنیاد پر سیاست کی لیکن اب وہ ایک پنجابی اوراسٹیبلشمنٹ کے سب سے بڑے کارندے کی گود میں بیٹھ گئے ہیں۔ پنجابی اور اسٹیبلشمنٹ سے لوگ نفرت اسلئے نہیں کرتے تھے کہ وہ مسلمان اور انسان نہیں بلکہ پنجابی سیاستدانوں نے رنگ و روپ بدل بدل کر فوج کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کیا۔ آج اسٹیبلشمنٹ نے ان کٹھ پتلیوں سے اپنے ہاتھ اٹھالئے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کے مخالفین کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ جاری رکھو۔ دیانتدارانہ صحافت کا یہ تقاضہ ہے کہ پیسے لئے بغیر جو تجزیہ ٹھیک لگے وہ پیش کرے۔ نواز شریف نے اب صحافت کو بھی خرید لیا ہے۔ جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام اور محمود خان اچکزئی و حاصل بزنجو سب کے سب اس کے گرد اسلئے نہیں گھوم رہے ہیں کہ نواز شریف نے پارلیمنٹ میں اپنے اثاثہ جات کا ٹھیک ٹھیک حساب دیکر عوام کو مطمئن کیا بلکہ چوری اور سینہ زوری سے عدالت کو دبایا جارہا ہے اور ن لیگ نے مریم نواز کو ججوں پر چھوڑا ہوا ہے۔ قوم پرستی اور مذہب کو سیاست اور مفادات کیلئے استعمال کرنے والوں کا جنازہ ایک ساتھ نکل رہا ہے۔ عمران خان کے پاس بھی وہی لوگ ہیں جو دوسری سیاسی پارٹیوں کے پاس ہیں۔ بابر اعوان ، فردوس عاشق اعوان ، فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور علی ترین وغیرہ وغیرہ وہی سیاست کررہے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں کہ اچھے صحافی اور اچھے لوگ میدان میں نکل کر قوم کو نجات دلائیں گے انشاء اللہ

پگڑی کے رنگ طوطوں کی وجہ سے بدلے گئے،سیدمحمد شاہ

dawat-e-islami-chicken-chick-colorful-green-and-colorful-parrot-molana-ilyas-asri-ahle-hadees-gujranwala-farmi-choozee-zarbehaqtv

سفید اور کالے عمامے کو دیکھ کر خوشی ہوئی تھی کہ سنت بھرے اجتماع کے نام نے کام دکھادیا

اب پتہ چلا کہ ہرے طوطوں نے بین الاقوامی طوطوں کے رنگ دیکھ کر اپنا رویہ بدل دیاہے

کراچی( نمائندہ خصوصی) ضرب حق ڈاٹ ٹی وی کے ایڈٹنگ ایڈیٹر سید محمد شاہ گیلانی نے کہا کہ دعوت اسلامی سنتوں بھرا اجتماع سے پہچانی جاتی ہے۔یہاں لوگ اپنی اصلاح کرلیتے ہیں، تبلیغی جماعت کی یہ فسٹ کاپی ہے، اہلحدیث کے مولانا الیاس اثری نے گجرانوالہ سے اس کی سیکنڈ کاپی بھی تیار کرلی ہے۔ قرآن کا حکم اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت ۔ ان جماعتوں نے نظامِ خلافت کا متبادل پیش کیا۔اللہ کی حدود سے اجتناب اور وقت لگانے اور لبادے میں جرائم کو چھپانے پر توجہ ہے۔اچھا ہوتا کہ دعوتِ اسلامی سنت کا نام لیتی کہ سفید وسیاہ عماموں کے علاوہ لباس کی سنت بے تکلفی ہے۔ خصائل نبویﷺ میں ہے کہ لباس میں نبیﷺ کوئی تکلف نہیں کرتے تھے۔ صحابہؓ نے اسی پر عمل کیاتھا اور رنگ برنگی طوطوں کی بہار سے عوام کو تماشہ نہیں دکھایا۔
دعوت اسلامی نے سنی تحریک کو اپنی شناخت ہرے عمامے سے منع کیا تھااور اب رنگ برنگے عماموں سے یہ فرق نہ آئے کہ پہلے طوطے لگتے تھے اور اب فارمی چوزوں کا منظر پیش کریں۔ یہ ایک مخلصانہ مشورہ ہے باقی عمل کرنا نہ کرنا سب کا اپنا کام ہے۔ محمد گیلانی ، ایڈیٹر ضرب حق ٹی وی

hen-chick-colorfull

سینٹ الیکشن سے جمہوریت ناکام ہوئی ہے مولانا فضل الرحمن کے بیان پر فیروز چھیپا کا تبصرہ

senate-elections-2018-molana-fazal-ur-rehman-azam-swati-mandi-jui-blackmailing-changa-manga-ghulam-ishaq-khan-nawabzada-nasrullah-baghal-geer-shirin-rehman

ڈائریکٹر فنانس نوشتۂ دیوار فیروز چھیپا نے مولانا فضل الرحمن کے بیان پر تبصرہ کیا کہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھیوں نے وقت پر احتجاج کیا کہ ہمیں ڈپٹی اسپیکر کے عہدے پر نظر انداز کیا گیا اسلئے سینٹ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے۔ تین مولانا کے نام پکارے گئے لیکن وہ غیر حاضر تھے، جس پر ن لیگی رہنما پریشان ہوکر تلاش میں نکلے اور فون کرنے لگے، پھر مولانا صاحبان تشریف لائے اور اپنا ووٹ بھی کاسٹ کیا۔ جب زیادہ تعداد میں اپوزیشن کے نامزد چیئر مین کو ووٹ مل گئے تو یہ چہ مگوئیاں شروع ہوئیں کہ کس نے دغا کیا ہے؟۔ کچھ لوگ ن لیگ کے اپنے ارکان کی طرف انگلی اٹھانے لگے اور کچھ نے مولانا کی عزت افزائی کی۔ مولانا نے کہا کہ ’’میں بھی حیران ہوا کہ یہ کیسے ہوا؟۔ میں اپنے ارکان کے بارے میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا‘‘۔ گرچہ مولانا فضل الرحمن اپنی حکمت عملی اور طریقہ کار کے مطابق سرخیوں میں رہتے ہیں اور میڈیا ان سے بغض رکھتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمن کے بغیر پاکستان کی سیاست کا باب نہیں کھلتا ہے۔ ایم آر ڈی کی تحریک میں بہت زیادہ قربانیاں مولانا نے دیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ علماء کرام کے فتوؤں کی زد میں بھی رہتے تھے۔ جب 1988ء کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو پہلی مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو پہلے مولانا ان کے اتحادی تھے۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنیوالے موسم لیگی تھے۔ نواز شریف نے چھانگا مانگا میں منڈی لگائی تھی اور اپنے جانوروں کو حصار میں بند کیا تھا۔ بینظیر بھٹو نے اپنے ممبروں کو بچانے کیلئے سوات میں قید کیا تھا۔ عمران خان کی موجودہ بیگم کا سسر غلام محمد مانیکا اور ایک دوسرا لیگی پیپلز پارٹی والوں کا شکار ہوا جسکی وجہ سے تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی۔ مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا سو فیصد درست تھا کہ ان کے ممبروں کی کوئی قیمت نہیں لگا سکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے جانشین غلام اسحاق خان کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں نے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کے مقابلے میں جتوایا۔ جس کی وجہ سے دونوں کے منہ کو اسٹیبلشمنٹ کی تاریخی کالک لگ گئی، لیکن مولانا فضل الرحمن نے جمہوریت کی کمان سنبھالی رکھی تھی۔
جب متحدہ مجلس عمل کے تحت ڈھیر سارے علماء جیت گئے تو اکرم خان درانی کوداڑھی رکھوا کروزیر اعلیٰ کا منصب دیا گیاتھا ۔ جس میں پیسہ بنانے کی صلاحیت زیادہ تھی۔ پھر علماء نے بھی یہ صلاحیت پیدا کرلی اور تحریک انصاف کے موجودہ رہنما اعظم سواتی کو اپنا ووٹ بیچ کر سینیٹر منتخب کروایا۔ اعظم سواتی کو تجارت لن تبور کا پتہ چلا تو وہ جمعیت علماء اسلام میں شامل ہوا۔ مولانا کو اپنی تاریخ کا اتنا بھی پتہ نہیں تو یہ بڑھاپے کی وجہ سے حافظے کی کمزوری ہے یا دولت گنتی سے باہر ہوگئی ہے؟۔ مولانا فضل خود قومی اسمبلی کے ممبر ہیں ، ایک بھائی سینیٹر اور دوسرا صوبائی اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن ۔ بیٹے کو بھی ٹکٹ دیا تھا مگر کامیاب نہیں ہوسکا۔ ایک بھائی ٹیلیفون کے محکمے میں بھرتی ہوا جو نیم سرکاری ادارہ تھا ، پھر کونسے اصول کی چھڑی چلائی کہ پی ایم ایس کے افسروں میں شامل کیا گیا۔ پھر سی ایس ایس کے افسروں میں شامل ہوکر میرٹ کو روندتا ہوا کمشنر تک پہنچ گیا۔ لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن کو بلیک میل کرنے کیلئے سینٹ کے انتخابات کے عین موقع پر ڈرامہ رچایا اور شاید پھر مسلم لیگیوں کی طرف سے بلیک میلنگ میں آنے کے بجائے چٹہ بٹہ کھولنے کی دھمکی سے اپنے مقام پر آگیا۔ اسلئے مولانا کی حیرت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔
سیاستدانوں کی ان حرکات کی وجہ سے سیاست بدنام ہوگئی ہے، سینٹ کے ڈپٹی چیئر مین سلیم مانڈی والا نے اسلامی آئین کا حلف اٹھایا تو شیریں رحمان نے مبارکبادی کیلئے اس سے بغل گیر ہوگئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ شیریں رحمن کا سلیم مانڈی والا سے کیا رشتہ ہے؟۔ اور ان کی رسم و روایت کیا ہے؟ لیکن یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر سلیم مانڈی والا کے بجائے تھر کی ہندو سینٹر کرشنا کماری ہوتی تو وہ کسی مرد کو اس طرح بغل غیر نہ ہوتی، بلکہ ہاتھ بھی نہ ملاتی۔ ہمارے ہاں تو گوہ کا نام لو حلوہ رکھ دو اور شراب کا زم زم ، سودکا زکوٰۃ یا سودی بینکاری کا اسلامی بینکاری تو سب کچھ اسلام کے نام پر جائز بن جاتا ہے۔ فضل الرحمن نہ جانے کیوں یہ بات کہہ رہے ہیں کہ جو زرداری پر بھاری ہے، اس نے صادق سنجرانی کو منتخب کروایا۔ اگر اپنے ارکان پر شبہ نہیں تو بلوچستان کی حکومت کو بدلنے میں مرکزی کردار انہی کا تھا؟۔

سینٹ الیکشن میں تحریک انصاف و پیپلز پارٹی کا اتحاد بالکل فطری تھا. حنیف عباسی

ppp-pti-fitri-ittehad-mian-ateeq-raza-rabbani-social-media-jaali-jihad-zia-ul-haq-geo-tv-londi-saleem-mandi-wala

منتظم خصوصی نوشتہ دیوارحنیف عباسی نے کہا : مجھے حیرت ہوتی ہے کہ صحافی و سیاستدان اتنی موٹی بات کو کیوں نہیں سمجھ رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتیں ہیں۔ قومی اسمبلی کی طرح سینٹ میں بھی دونوں جماعتوں نے ہی اصل اپوزیشن کا کردار ادا کرنا تھا۔ اگر دونوں جماعتیں رضا ربانی پر متحد ہوجاتی تھیں تو اس کو نوازشریف اور حکومت کی کامیابی قرار دیا جاتا لیکن دونوں نے مل کر حکومت کی سازش ناکام بنادی۔ وزیرخارجہ خواجہ آصف نے کہا تحریک انصاف نے سینٹ میں پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا اور خود کو بدنام کردیا ہے۔ حالانکہ ن لیگ خود تو پیپلزپارٹی کی دُم کو بھی اپنی پگ بنانے کیلئے تیار بیٹھی ہوئی تھی۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ خود پیپلزپارٹی سے اتحاد کیلئے مررہے ہوں اور تحریک انصاف کو اتحاد کے طعنے دیں؟، مگر سچ کہا تھا کہ کوئی شرم بھی ہوتی ہے کوئی حیا بھی ہوتی۔جبکہ پکار تھی کہ ہمیں تحریک انصاف نہیں پیپلزپارٹی سے ہی گلہ ہے۔
ن لیگ نے نااہلی کے خاتمے کیلئے اسمبلی میں ترمیمی بل ایک سازش سے منظور کروایا تھا جس میں صرف ایک ووٹ کی برتری تھی ۔ وہ بھی ایم کیوایم کے میاں عتیق نے کہا تھا کہ ’’ خواجہ سعد رفیق نے بتایا کہ فاروق بھائی سے بات ہوگئی ہے۔ مجھے دھوکہ نہ دیا جاتا تو اپنی جماعت کے حکم کی خلاف ورزی نہ کرتا‘‘۔ اس ترمیم کو پھر سینٹ نے بھاری اکثریت سے مسترد بھی کیا تھاجس کے بعد اصولی طور پر حکومت کو چاہیے تھا کہ ترمیم کو واپس لیتی۔ لیکن ن لیگ نے سازش میں کمال کرکے جمہوری نظام کو چت کردیا تھا۔ سینٹ میں اقلیت ہوتے ہوئے بھی اپنے مقصد کی ترمیم پاس کر ڈالی تھی۔ رضاربانی کے جمہوری اقدامات سے ن لیگ کو پیار ہوتا تو اپنی پارٹی میں بھی کسی صاحبِ کردار کو تلاش کرتے لیکن وہ تو پرویز رشید کو بے گناہ سمجھ کر بھی ڈان لیکس میں قربانی کی بھینٹ چڑھا چکے تھے۔ رضاربانی کی یہی ادا ان کو بھاگئی تھی کہ ترمیمی بل پاس کرنے میں اپنے بڑھاپے کیوجہ سے کوئی فعال کردار ادا نہیں کرسکے۔ جمہوریت کا تقاضہ تھا کہ اس ترمیم سے پہلے حکومت اخبارات میں اشہتار شائع کرتی۔پھر سب پارٹیوں کو اعتماد میں لیکر اپنا گول کرنے کی کوشش کرتی۔
ایسی سازش تو ڈکٹیٹر شپ کے لبادے میں بھی نہیں ہوتی کہ ووٹ ڈالنے والوں کو بھی پتہ نہ ہو کہ اس کی جماعت کا کیا حکم تھا اور اس بھونڈے طریقے سے سینٹ ترمیمی بل منظور کردے جو سینٹ کی بھاری اکثریت کیلئے قابلِ قبول ہی نہ ہو۔ رضا ربانی کو اپنی اس کمزوری کا کھل کر اعتراف کرنا چاہیے ۔ نوشتہ دیوار کا پیغام سوشل میڈیا کے ذریعے سے بروقت ہم نہ پہنچاتے تو ممکن بھی نہ ہوتا کہ پیپلزپارٹی رضا ربانی کو چیئرمین بنانے کی پیشکش کو مسترد کرتی۔ اخبار آنے میں دیر تھی اسلئے ایک صفحہ کے ذریعہ پیغام کو ہم نے پہنچادیا ۔ جب خواجہ آصف جیسے نااہل انسان بھی وزیرخارجہ بن گیا ہے تو خفیہ ایجنسیوں کا کونسا کردار باقی رہ جاتا ہے؟۔ خواجہ آصف نے درست کہا کہ ’’ جنرل ضیاء الحق نے جعلی جہادکے ذریعے قوم کو دھوکہ دیا تھا‘‘ لیکن یہ آدھا سچ ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ’’ جنرل ضیاء الحق نے جعلی سیاست کے ذریعے بھی ریاست کا بیڑہ غرق کیا۔ نوازشریف کے جھڑے ہوئے بالوں کو چھوڑ کر کیونکہ وہ شروع میں تحریکِ استقلال اصغر خان کے کارکن تھے، باقی سراپا نوازشریف جنرل ضیاء کا رہین منت تھا، خواجہ آصف کا والد جنرل ضیاء کی شوریٰ کا چیئرمین تھا جبکہ احسن اقبال کی والدہ محترمہ جنرل ضیاء الحق کے محافل کی نعت خواں تھی اور جنرل ضیاء الحق کے علاوہ پرویزمشرف کی باقیات بھی اب نااہل لیگ کا حصہ ہیں۔خواجہ آصف کی قابلیت کا یہ عالم ہے کہ جیو ٹی وی چینل پر حامد میر سے کہا کہ ’’ برما کے لاکھوں پناہ گزین مسلمانوں کو بنگلہ دیش سے پاکستان لانے کیلئے ہماری طرف سے طیارے تیار کھڑے ہیں بس صرف اجازت مل جائے‘‘۔ یہ بات جیو نیوز پر کسی اور وزیرخارجہ کی طرف سے ہوتی تو خوب مہم جوئی کی جاتی مگر زر خرید لونڈی کا کردار ادا کرنے والی اس صحافت نے صحافت کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔
زرداری نے ربانی کو مسترد کرکے سلیم مانڈی والا کو ڈپٹی بنایا تو یہ بہت زبردست قدم اٹھایا اور تحریک انصاف نے زبردست قدم اٹھاتے ہوئے ڈپٹی چیئرمین بھی حکومت کا نہیں آنے دیا تو یہ بالکل فطری جمہوریت کا تقاضہ تھا۔ دونوں لڑتے تو حکومت کو کامیابی ملتی اور دونوں خود ہی مرتے، فطری اتحاد ضروری تھا۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین کو وزیر اعظم بنایا جائے، سید عتیق الرحمن گیلانی

pashtun-tahaffuz-movement-ptm--prime-minister-of-pakistan--manzoor-pashtoon--gullu-batt--sadiq-sanjrani--tablighi-jamaat--taliban--hindu--che-kalme--mehsood

چیف ایڈیٹر نوشتہ دیوارسید عتیق الرحمن گیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں جو قیادتیں ریاست نے پال رکھی ہیں ان کٹھ پتلی قیادتوں نے پوری قوم اور ریاست کو تباہی کے دہانے پہنچادیا ہے۔ جنرل ایوب خان کے بغل سے نکل کر ذو الفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے بغل سے نکل کر نواز شریف قائد بن گئے، یہی وجہ ہے کہ ریاست کے فوائد عوام تک نہیں پہنچے اور آج عوام اور ریاست کے درمیان بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ منظور پشتون نے محسود قبائل کی دہلیز سے نکل کر سوات سے کوئٹہ تک بہت بڑی جگہ اپنے لئے بنالی ہے۔ محسود تحفظ موومنٹ کو پشتون تحفظ موومنٹ سے بدلا ہے اور یہ اب مظلوم تحفظ موومنٹ بھی بن سکتی ہے جس کے پیچھے پاکستان کی تمام قومیں کھڑی ہوں۔ اس میں تعصب نہیں درد ہے۔
عدالت ، فوج ، حکومت اور صحافت سب کا اپنا اپنا دائرہ کار ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی قیادت کے گرد سب ہی گھوم رہے ہیں لیکن اگر سیاسی قیادت بندوق کی نالی میں گولی کی طرح کسی پر مسلط کی جائے تو قوم کبھی قوم نہیں بن سکتی ہے۔ 70سال سے ہماری تاریخ اسلئے نہیں بدلی کہ جس اسلام کے نام پر پاکستان بنا تھا ، اس اسلام سے سیاسی قیادت خود بھی آشنا نہیں تھی۔ تبلیغی جماعت کا مشہور لطیفہ ہے کہ کسی مولانا نے کہا کہ جس نے ایک ہندو کو مسلمان بنادیا تو اس کو اتنا اتنا اجر ملے گا اور ایک پٹھان نے یہ فضیلت سن لی تو ہندو کو تلوار کے زور پر ہی مسلمان کرنے کیلئے نکل پڑا۔ کہیں اس کو راستے میں ہندو مل گیا تو خوش ہوا کہ فضیلت حاصل کرنے کیلئے شکار مل گیا۔ ہندو کو زمین پر پٹخ کر اس پر تلوار تان لی کہ خو کلمہ پڑھو۔ ہندو نے جب جان کا خطرہ محسوس کیا تو کہا کہ خان صاحب مجھے کلمہ پڑھاؤ ۔ خان صاحب کو خود بھی کلمہ پڑھنا نہیں آتا تھا تو ہندو سے کہہ دیا کہ منحوس جاؤ تم نے مجھ سے بھی بھلادیا۔ یہی حال پاکستان کی تشکیل دینے والوں کا بھی تھا۔ جس اسلام کے نام پر ملک بنایا تھا وہ خود بھی اس اسلام سے واقف نہ تھے۔ جب فوجیوں نے وزیرستان میں پڑاؤ ڈالا تھا تو عوام سے چھ کلمے پوچھتے تھے اور لوگ کہتے کہ اگر ایک کلمہ سے جاں بخشی ہوسکتی ہے تو ایک کلمہ آتا ہے مگر چھ نہیں آتے۔ فوجی سپاہی ماں بہن کی گالیاں بکتے کہ تم اسلام کا نام لیتے ہو اور چھ کلمے پڑھنے بھی نہیں آتے؟۔
اس شرمندگی کے بعد عوام کی بڑی تعداد نے تبلیغی جماعت کا رُخ کرنا شروع کیا۔ وہاں جنرل جاوید ناصر سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور جنرل محمود جیسے لوگ بڑی داڑھیاں رکھ کر طالبان بنانے کی فیکٹریاں بنائے بیٹھے تھے۔ جمال خان لغاری نے یہ منظر نامہ ایک میڈیا ٹاک شو پر پیش کیا تھا۔ اب لوگ اس قدر اعتماد کھو بیٹھے ہیں کہ منظور پشتون پر بھی شک کرتے ہیں کہ کسی سازش کا حصہ تو نہیں جو کھلم کھلا ریاست کیخلاف بول رہے ہیں اور غلطی عوام کی اسلئے نہیں ہے کہ جو فوج کیخلاف لڑ رہے تھے ان کو بھی تعلیم و تربیت دینے والے فوجی ادارے ہی تھے۔
منظور پشتون سے میری ملاقات تک نہیں ہوئی مگر مجھے اس بات کا یقین ہے کہ فوج سیاسی قیادتیں ، مجاہدین جنتے جنتے اور پیدا کرتے کرتے بیزار ہوچکی۔ وہ اب منظور پشتون کو بھی ایک غنیمت سمجھ کر برداشت کررہی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ پاک فوج کی تاریخ کے سب سے نرم خو آرمی چیف لگتے ہیں اور یہ منظور پشتون اور اسکے ساتھیوں کی بھی بڑی خوش قسمتی ہے۔ اگر سینٹ کے چیئر مین صادق سنجرانی بن سکتے ہیں جو پھر بھی نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے ہاں گھسے ہوئے ہیں اور ان پر اسٹیبلشمنٹ سے قربت کا الزام سب سے بڑا الزام ہے۔ اس الزام کو عائد کرنے والے بھی وہی لوگ ہیں جو خود اسٹیبلشمنٹ ہی کی پیداوار ہیں۔ سیاست کیلئے سب سے بڑی مصیبت اسکا کٹھ پتلی ہونا ہے۔منظور پشتون کا سب سے بڑا کمال کٹھ پتلی نہ ہونا ہے۔ وہ ایک نوجوان ہے، درد، جذبے اور شعور کیساتھ جو بات کرتاہے اس میں بناوٹ نہیں ہوتی۔ سیاسی قیادتیں بناوٹی انداز سے اپنا وقار، اپنی عزت اور اپنا اعتماد کھو بیٹھی ہیں۔ جب ان کو تکلیف ہوتی ہے تو چوتڑ سے عوام کے درد کی آوازیں نکالنا شروع کردیتے ہیں۔ جذبات کو اشتعال دلاکر عوام سے روز روز بیوقوف بننے کی توقع رکھتے ہیں، منظور پشتون حقیقی قائد ہے

تھرکی کرشنا کماری کا سینٹ میں انتخاب سیاسی جماعت کیلئے قابل تحسین ہے. اجمل ملک

Krishna-Kumari-Kolhi-moinuddin-qureshi-prime-minister-tribal-voting-rights-dictator-pervez-musharraf

ایڈیٹر نوشتہ دیوار محمد اجمل ملک نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا اقدام بہت ہی قابل تحسین ہے جس نے سندھ کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی ہندو خاتون کو سینیٹر بنادیا ہے جو ایک سوشل ورکر بھی ہیں۔ حکومت ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے علاوہ مذہبی جماعتیں بھی ایک ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی طرف سے اسمبلی میں خواتین کے کوٹے کو سراہتے ہیں۔ اگر یہ سب ملکر کرشنا کماری کو متفقہ طور پر سینٹ کی چیئر پرسن بنادیتیں تو کوئی اچھا کام ان کے کھاتے میں بھی آتا۔ قبائل میں بالغ رائے دہی کا حق کسی سیاسی جماعت نے نہیں دیا تھا۔ چند ملکان اپنے ووٹوں کے ذریعے سے اسمبلی کا ممبر منتخب کرتے تھے۔ جبکہ عبوری وزیر اعظم معین قریشی نے چند ماہ کیلئے اقتدار سنبھالا تھا تو قبائل کو بالغ رائے دہی کا حق دیدیا۔ ہماری سیاسی جماعتیں اپنے خاندانوں کے علاوہ کسی کا نہیں سوچتیں۔ بھٹو کے اصل جانشین مرتضیٰ بھٹو کے فرزند ذوالفقار جونیئر کے ناچ گانے کی ویڈیوز دیکھنے سے عبرت پکڑنا چاہیے۔

جماعت اسلامی اسٹیبلشمنٹ کی وہ نشانی ہے جس کا انکار ممکن نہیں. فاروق شیخ

jamaat-e-islami-pakistan-establishment-muttahida-majlis-e-amal-sirajul-haq-labbaik-ya-rasool-allah-mumtaz-qadri-sheikh-rasheed-raja-zafar-ul-haq-article-62-and-63

مدیر مسؤل نوشتہ دیوار فاروق شیخ نے کہا: اللہ کی مہربانی سے جماعت اسلامی نے بالکل آخری وقت میں راجہ ظفرالحق کی تائید کردی۔ اسٹیبلشمنٹ کا موڈ معلوم کرنے کیلئے جماعت اسلامی کا ترازو بہت اچھا پیمانہ ہے۔ جس کا انکار وہ خود بھی نہیں کرتے ہیں اور اچھی بات بھی یہی ہے کہ حقائق کا اعتراف کیا جائے۔ خواجہ آصف نے انکشاف کیا تھا کہ سراج الحق نے مجھ سے کہا کہ ’’فوج تو آپکے ساتھ ہے ‘‘، اگر اسٹیبلشمنٹ کی چاہت ہوتی تب بھی اس بات کا امکان نہیں تھا کہ جماعت اسلامی اپنی حمایت حکومت کے پلڑے میں ڈالتی۔لیکن جب اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار تھی تو سراج الحق نے ن لیگ کو ووٹ دینا اسلئے مناسب سمجھا تھا کہ وہ ضمنی الیکشن میں دیکھ چکے تھے کہ ن لیگ کی حمایت نہ ہونے کے بعد کی پوزیشن کا کیا حال تھا؟۔ جماعت اسلامی نے ممتاز قادری کی شہادت کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا لیکن تحریک لبیک یارسولﷺوالوں نے اپنی سیاست شروع کردی ۔
جمعیت علماء اسلام س اور جماعت اسلامی نے مذہب کوزندہ رکھنے کیلئے ممتازقادری کی شہادت کو سیاسی حربے طور پر اسلئے استعمال کیا کہ عوام کے پاس جانے کیلئے ان کو دوسرا کوئی ایشو نہیں مل رہا تھا۔ سلمان تاثیر نے توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کی بات اسلئے کی تھی کہ کوئی بے گناہ سزا کی زد میں آنے سے بچ جائے۔ تبدیلی کی تجویز رکھنے اور تبدیلی کیلئے اقدامات اٹھانے میں بھی بڑا فرق ہے۔ ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم ایک مذہبی مسئلہ تھا تو پالیمنٹ میں شیخ رشید واحد آدمی تھا جو اس مسئلے کو اجاگر کررہا تھا۔ سینٹ میں جمعیت علماء اسلام کے حافظ حمد اللہ نے بھی اس مسئلے کو اٹھایاتھا۔ پھر لبیک پاکستان کی طرف سے فیض آباد دھرنا اور ملک گیر سطح پر احتجاج ہوا تو حکومتی وزیر زاہد حامد کوسازش میں ملوث ہونے کے جرم پر برطرف کیا گیا۔ حکومت اور اسکے نمائندوں نے وعدہ کیا تھا کہ جو لوگ بھی اس سازش میں ملوث قرار پائے ان کو قرار واقعی سزا دی جائیگی لیکن تاحال وہ وعدہ جمہوری حکومت نے پورا نہیں کیا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو ترمیم کی گئی تھی اس کو راجہ ظفر الحق نے باہوش و حواس ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا۔ لیکن کمیٹی کی رپورٹ راجہ صاحب نے نواز شریف کو دے دی۔ عدالت میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ نواز شریف سے اس رپورٹ کو طلب کرسکے۔ علاوہ ازیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ختم نبوت کے حلف نامے کے علاوہ پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں نے دیگر حلف نامے بھی تبدیل کردئیے ہیں۔ پہلے ضروری تھا کہ الیکشن میں حصہ لینے والا حلف نامہ تحریر کرتا کہ اس نے کوئی قرض نہیں لیا ہے جو معاف کرایا ہو۔ بیرونی و اندرونی ممالک میں اس کی یہ جائیداد ہے ۔ اسکے پاس دوہری شہریت نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔
نواز شریف کو بھی وزارت عظمیٰ سے اسلئے نااہل قرار دیا گیا تھا کہ اس نے اپنے اقامے کا ذکر نہیں کیا تھا۔ اپنے اقامے کا ذکر نہ کرنا آئین کی دفعہ 62، 63کی اتنی خلاف ورزی نہیں ہے جتنی دوہری شہریت دفعہ 62،63کی خلاف ورزی ہے۔ نواز شریف کو اقامہ چھپانے پر نا اہل قرار دیا گیا تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی بہن اور دیگر سینٹ کے ممبران کو دوہری شہریت چھپانے پر زیادہ نا اہل قرار دینا چاہیے تھا۔ صادق اور امین کا تعلق اس سے نہیں ہے کہ عوامی بیت الخلاء میں کوئی بندہ پدو مارے اور جھوٹ بولے کہ ساتھ والے نے مارا ہے۔ بلکہ اس کا تعلق حلف نامے کے ساتھ درج کئے جانے والے حلف نامے کے ساتھ ہے۔ جب حلف نامہ نہیں رہا تو آئین کی یہ دفعات بھی خود بخود غیر مؤثر ہوگئی ہیں۔ چیف جسٹس بابا رحمتے اگر ریٹائرڈ ہوگئے تو اپنے بال بچوں کی روزی کیلئے پھر وکالت کرنے لگیں اور نواز شریف نے ان کو وکیل کرلیا تو یقیناًعدالت میں اس کیس کی وکالت کریں گے کہ اب حلف نامے سے تمام پارٹیوں نے متفقہ طور پر قانون پاس کردیا ہے کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ کسی کے پاس اقامہ ہے یا نہیں ، اسی طرح کوئی جائیداد ہے یا نہیں اور سچ جھوٹ کا بھی اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہٰذا جس بنیاد پر نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا تھا اب وہ بنیاد ہی ختم کردی گئی ہے لہٰذا اس کی نااہلی بھی ختم کی جائے۔ پچھلی مرتبہ محترم عبد القدوس بلوچ نے بھی اس نکتے کو اٹھایا تھا جس کی شہ سرخی شاید میڈیا کی نظروں میں نہ آئی ہو اور بعض لوگ تو کہہ رہے تھے کہ یہ دفعات ختم نہیں ہوئیں ہیں۔

سینٹ الیکشن میں‌جمہوری نظام کی زبردست اور عالیشان فتح ہوئی ہے. اشرف میمن

horse-trading-raza-rabbani-jamiat-ulama-islam-establishment-balochistan-assembly--mehmood-khan-achakzai--saleem-bukhari--javed-hashmi-baghi-

پبلشرنوشتۂ دیوار اشرف میمن نے کہاکہ سینٹ الیکشن میں جمہوریت کی زبردست اور عالیشان فتح ہوئی ہے۔ رضا ربانی نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ’’ ارکان کے بیلٹ پیپر پر اسکا نام لکھ دیا جائے۔ پھر اگر جماعت کے سربراہ کو اپنے کسی رکن پر شک ہو کہ اس نے جماعت کے خلاف ووٹ دیا ہے تو اس پر ضابطہ کے مطابق کاروائی کی جائے، ہارس ٹریڈنگ اس طرح سے روکی جا سکتی ہے‘‘۔ تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر محترم رضا ربانی کی تجویز مسترد کردی کہ ’’ اس طرح رکن کی رازداری قائم نہ رہے گی اور اس کی آزادی پرحرج آئیگا‘‘۔کیا سینٹ الیکشن میں جمہوریت کا بھرپور تقاضہ پورا نہیں ہوا؟۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت بلوچستان میں اپوزشن میں تھی اور بلوچستان کی حکومت کو جمعیت علماء اسلام بچانا چاہتی تو وہ بچاسکتی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کے حوالہ سے واویلا کرنیوالے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جسکا بنیادی کردار ہے وہ مولانافضل الرحمن تو نوازشریف کے بغل میں بیٹھا اتحادی ہے۔
نااہل نوازشریف اور اسکے بگڑے ہوئے بے غیرت ٹولے میں کوئی غیرت ہوتی تو دوسروں کو گالی گلوچ سے نوازنے کے بجائے مولانا فضل الرحمن کو بھگادیتے کہ اسٹیبلشمنٹ کا کھیل تم ہی نے کامیاب بنایا ہے۔ اگر بلوچستان میں آپ ہمارا ساتھ دیتے تو یہ کھیل کامیاب نہ ہوتا اور عین موقع پر تمہارے ارکان احتجاج نوٹ کرانے کیلئے باہر نہ جاتے تو ہمارے اپنے ارکان کے دل بھی نہ بیٹھتے ۔ پچھلی مرتبہ بھی تمہارا کوئی حق نہیں تھا لیکن بلوچستان کیلئے زکوٰۃ کے طور پر ڈپٹی چیئرمین کا قرعہ تمہارے نام نکلا تھا۔ اس دفعہ اگر محمود خان اچکزئی کی پارٹی کو زکوٰہ دینے کا فیصلہ کیا گیا تو وہ مضبوط اتحادی تھے۔ تمہاری طرح دگرگوں نہیں تھے کہ فیصلہ بھی نہ کریں پائیں کہ جانا کس کیساتھ ہے؟۔
ن یا ش لیگ کی حکومت اور اسکے اتحادی جو لڑائی دوسروں کی بساط پر لڑ رہے ہیں ،پہلے اپنے اندرونی معاملات پر تو حقائق پر فیصلہ کرلیں۔ مولانا فضل الرحمن نے جمہوریت کا ایک لمبا سفر طے کیا ہے اور اسکے پاس ہر ایک کا معروضی حقیقت کے وسیع تر تناظر میں ایک معقول جواب ہوتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کہہ سکتے ہیں کہ بلوچستان کی ہر حکومت میں ہم حصہ دار رہے ہیں حتیٰ کہ پرویزمشرف کے دور میں اپوزیش لیڈری بھی میرے حصہ میں آئی تھی پھر بھی سینئر وزیر مولانا عبدالواسع تھا۔ جب ہمیں تم نے مرکزی حکومت اور کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رکھا لیکن بلوچستان میں تمہاری ضد تھی کہ ہمیں اپوزیشن کا مزہ پہلی مرتبہ چکھایا۔ اس میں محمود خان اچکزئی کی بہت بڑی خواہش ہوسکتی تھی لیکن ہمارا خیال تم نے نہیں رکھا۔ جب ن لیگ کے اپنے ارکان باغی بنے تو جمعیت علماء اسلام کی اپوزیشن سے بلوچستان کی حکومت کیلئے سہارا بننا غیرت و حمیت کے بھی منافی تھا۔ اگر ہم اپنے ارکان کو بھی مجبور کرتے تو پھر ہمارے ارکان بھی تمہارے ارکان جیسے باغی بنتے۔ جاوید ہاشمی ایک شریف آدمی تھا لیکن تمہاری روش نے باغی اور داغی کے مختلف مراحل سے گزار کر کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے؟۔اپنی دُم کا بوجھ اپنی پیٹھ پر رکھ کر اس بڑھاپے میں بھی وہ مسلم نواز کو دوبارہ شمولیت کی دعوتِ گناہ دے رہاہے لیکن پھر بھی ن لیگ دوبارہ رسک لینے کی ہمت نہیں کررہی ہے
یہی تو جمہوریت کی روح ہے کہ مرکز، صوبے، سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے لیکر اقتداراپنے مطلق العنان قائد کی دستر س سے باہر رہنے کیلئے خفیہ رائے شماری تک آزادی سے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنیکا اختیار ہر ایک کو حاصل ہو۔ بلوچستان میں اگر اسٹیبلمشنٹ کا ہاتھ تھا تو صوبائی سطح کی تبدیلی سے لیکر مرکز میں سینٹ کے الیکشن کے آخری لمحات تک مولانافضل الرحمن کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن ان کیساتھ کھڑے ہیں جو تبدیلی کیلئے زرداری پر بھی بھاری قوت کا نعرہ لگارہے ہیں۔ شکر ہے کہ ن لیگ کے یعقوب ناصر پزائیڈنگ افسر تھے ورنہ تو سینٹ میں بھی خفیہ والوں پر دھاندلی کا الزام لگنا تھا۔ن لیگ کے وزیروں اور رہنماؤں نے الیکشن کے موقع پر ووٹ پول کرنے کے وقت بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ اگر وہ اپنی فتح یقینی سمجھتے تو بہت پہلے کسی کو نامزد کردیتے۔ جمہوریت کو ن لیگ ایک ایسا کھلواڑ سمجھتی ہے کہ اس میں بھڑوی عورت کی طرح سب کچھ جائز قرار دیتی ہے ۔صحافی سلیم بخاری نے کہا تھا کہ ’’ پارلیمنٹ بھڑوں سے بھری ہوئی ہے‘‘۔ جمہوریت کے نام پر جمہوریت کے خلاف سازش ہورہی ہ

منظور پشتون کی قیادت میں سب پختون متحدمگر

pakistan-sazish-mehsood-qaum-imamat-wazeeristan-maqam-manzoor-pashtoon-qayadat-maulana-akram-awan-doctor-tahir-ul-qadri-4

امریکہ نے گڈ اور بیڈ طالبان کا تصور پیش کیا تھا۔ تاپی گیس پائپ لائن پر پاکستان ، افغانستان ، طالبان اور بھارت کا امریکہ کی قیادت میں مشترکہ معاہدہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ جب تک پختون قوم کی قیادت باشعور لوگوں میں نہیں آئے گی اس خطے کے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے جمہوری قیادت کو گھوڑے سے خچر بنادیا اور جن گدھیڑوں کو قیادت کیلئے میدان میں اُتارا تھا وہ جب باغی بن گئے تو زیادہ سے زیادہ گھوڑوں کے ملاپ سے وہ بھی خچر بن گئے۔ خچروں میں وزن اٹھانے کی صلاحیت ہوتی ہے مگر قیادت کی نہیں۔ قیادت کی صلاحیت اللہ کی طرف سے فضل اور مہربانی کے نتیجے میں ملے تو حقیقی قیادت ہوتی ہے۔ اگر کسی اور کی طرف سے مداخلت ہو تو اپنی فطری صلاحیت بھی کھودی جاتی ہے۔ صحافت کیلئے بنیادی قانون غیر جانبدارانہ تجزئے ہیں ۔ سردار امان الدین خان کی قیادت میں شمن خیل قوم نے چھوٹے پیمانے پر ایک تحریک اٹھائی تو پختونخواہ کے مقبول ترین اخبار روزنامہ مشرق پشاور میں ہردلعزیز کالم میں مریم گیلانی نے اس تحریک کو پاکستان میں تبدیلی کی نوید کا نام دیا تھا۔ ایک مرتبہ اس کے زیر اہتمام مولانا اکرم اعوان ، مولانا نور محمد وزیر ایم این اے جنوبی وزیرستان اور مجھے (سید عتیق الرحمن گیلانی) کو بھی ایک جلسے میں مدعو کیا تھا۔
مولانا اکرم اعوان نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’’میں ایک کسان ہوں اور کاشتکاری کے فن کو جانتا ہوں ، جب ہم فصل اٹھاتے ہیں تو کچھ فصل زمیندار بیچ دیتا ہے ، کچھ اپنی گزر بسر کیلئے رکھتا ہے اور کچھ آئندہ فصل کیلئے محفوظ رکھتا ہے۔ جو سب سے بہترین گندم ہوتی ہے اس کو بیج کیلئے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ اس خطہ کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے قیادت کیلئے بیج کی طرح محفوظ رکھ دیا ہے‘‘۔ جب محسود قوم گو خان ، گلسا خان اور علماء و قبائلی عمائدین کی قیادت قبول کرسکتی ہے تو منظور کی قیادت بصد چشم اسلئے قبول ہونی چاہئے کہ پوری پختون قوم نے بھی منظور پشتون کو اپنا قائد تسلیم کرلیا ہے۔ محمود خان اچکزئی ، اسفندیار ولی ، مولانا فضل الرحمن اور دیگر رہنماؤں کو چاہئے کہ وہ بھی اس قیادت کو نہ صرف اپنے لئے بلکہ پشتون قوم اور پاکستان کیلئے دل کی گہرائیوں سے قبول کرلیں۔ اکرم خان درانی کو اس وقت وزیر اعلیٰ بنایا گیا جب علماء سے پختونخواہ اسمبلی بھری پڑی تھی۔ مال ٹال بنانے میں جن کو مہارت حاصل ہو اگر یہی قیادت کا معیار ہے تو ایسے جاہلوں کو سلام کرنا چاہئے۔ جو لوگ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے نام پر نواز شریف کاساتھ دے رہے ہیں ان میں ذرا بھی غیرت کی رمق ہو تو اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار کو کبھی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے نام پر سپورٹ نہ کریں۔ اسلئے سیاست کو منافقت کہاجاتا ہے۔
جب پختون قوم نہ صرف منظور کی قیادت پر متحد ہوگی بلکہ پورے پختونخواہ اور بلوچستان کے پختون علاقے سے غریب اور پڑھے لکھے تعلیم یافتہ طبقے کو ہی اسمبلی میں کامیاب کروائے گی تو نہ صرف پختون کی تقدیر بدلے گی بلکہ دوسری قوموں کے اندر بھی شعور پیدا ہوگا اور پاکستان کی سطح پر ایک بڑی تبدیلی آجائے گی۔ بلوچ ، سرائیکی ، پنجابی ، سندھی، مہاجر ، کشمیری، گلگت و بلتستانی ، چترالی اور ہزاروی سب کے سب باشعور تعلیم یافتہ قیادت کو میدان میں لائینگے تو ہمارے سیاسی میدان سے منافقت و تجارت اور بد اخلاقی و بدکرداری کا صفایا ہوگا۔
پاکستان کو تعصب نہیں انتظامی اعتبار سے متوازن بنانے کی ضرورت ہے۔ جہاز کا سر ، دُم، پیٹ ، پر اور کچھ بھی توازن کے خلاف ہو تو وہ پرواز نہیں کرسکتا ہے اور پاکستان میں انتظامی اعتبار سے کوئی توازن نہیں۔ پنجاب کا وزیر اعلیٰ پورے ملک کے وزیر اعظم سے اس وقت زیادہ طاقتور ہوتا ہے جب وزیر اعظم کا تعلق دیگر صوبوں سے ہو۔ کیونکہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ 60%کا حکمران ہوتا ہے اور وزیر اعظم 40%کا حکمران ہوتا ہے۔ پورے ملک سے 40%کے 75سینیٹر منتخب ہوتے ہیں اور پنجاب کے 60%سے صرف 25سینیٹر منتخب ہوتے ہیں، پنجاب میں سرائیکی علاقہ کے لوگ ایسی زندگی گزارتے ہیں جیسے ہندوؤں میں اچھوت، یہی صوتحال اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی طرف سے دیگر صوبوں کے ساتھ روا رکھی جاتی ہے۔ گلگت بلتستان کو الگ صوبے کا صرف نام دینا مسئلے کا حل نہیں تھا۔ سینما کے ٹکٹوں کو بلیک سے بیچنے والوں کو ملک چلانا نہیں آتا۔ نہ لوہے کی بھٹیوں سے کسی میں ملک چلانے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور نہ کرکٹ کھیلنے سے۔
ملتان کو نہ صرف الگ صوبے کی حیثیت دینا ضروری ہے بلکہ سرائیکیوں کو یہ حق دینا بھی ضروری ہے کہ 25سینیٹر وہ بھی اپنی مرضی سے منتخب کرسکیں۔ علاوہ ازیں پہلے کراچی پاکستان کا دارالخلافہ تھا اور پھر جنرل ایوب خان اسکو اسلام آباد منتقل کرگیا۔ میرٹ کا تقاضہ یہ ہے کہ ملتان کو دنیا کا جدید ترین شہر اور پاکستان کا دار الخلافہ بنانے سے پاکستان کی ترقی کا آغاز کیا جائے۔ GHQکو راولپنڈی سے ڈیرہ غازیخان کے کوہ سلیمان میں منتقل کیا جائے۔ جو لاہور، کوئٹہ، کراچی اور پشاور کے درمیان سب کیلئے مرکزی مقام ہے۔ پھر پورے پاکستان کے تمام ہی شہروں کو بالکل دنیا کے جدید سے جدید ترین طرز پر بنایا جائے۔ ایک شخص ملک ریاض اسلام آباد ، لاہور اور کراچی میں جدید شہر بحریہ ٹاؤن آباد کرسکتا ہے تو ہماری ریاست میں اتنی صلاحیت بھی نہیں؟۔ ریاست اپنی سرپرستی میں بڑی بلڈنگوں کی تعمیر کرواتی ہے اور پھر آباد ہونے کے بعد مسماری کا حکم دیتی ہے۔ کوئی بنانے پر پیسے بناتا ہے اور کوئی گرانے میں بلیک میل کرتا ہے شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں نقیب اللہ محسود کے کزن آفتاب محسود کے قتل پر آئی جی خیبر پختونخواہ صلاح الدین محسود نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’یہ ذاتی دشمنی کا نتیجہ لگتا ہے‘‘۔ بعض لوگ جھوٹی افواہوں کے ذریعے سے اس کو ISIکے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ اس طرح کی افواہوں سے شیطان اور ابلیسی ٹولے کو فائدہ ہوسکتا ہے لیکن یہ پختون قوم ، ریاست اور پاکستان کے ساتھ زیادتی ہے۔ طالبان سے وابستگی ملک اور دنیا کی سطح پر ایک منافقانہ کھیل تھا۔ جسکے نتائج سب نے بھگتے ہیں لیکن منظور پختون کے زیر قیادت تعلیم یافتہ باشعور نوجوانوں کی تحریک بہت مثبت ہے۔ جب پاک فوج اور پاکستان کی عوام کو حقائق کی بنیاد پر مظلوم قوموں کا صحیح احساس اور ادراک ہوجائے تو یہ ملک و قوم اور ریاست کی بڑی خدمت ہے۔ بڑا عرصہ ہوا کہ پاک فوج کے جوان اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور جب بھی کوئی ناخوشگوار صورتحال ہوتی ہے تو فوج کو بلایا جاتا ہے اگر مستقل تعیناتی مسائل کا حل ہوتی تو پولیس کو بھی فوجی تربیت دی جاتی۔ گلے شکوے کا اظہار ہوگا تو اس کا ازالہ بھی ہوسکے گا۔ اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ہوگا۔ سید عتیق گیلانی