مارچ 2018 - Page 3 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

وزیرستان تاریخی آئینہ میں ایک بڑے مقام پر

pakistan-sazish-mehsood-qaum-imamat-wazeeristan-maqam-manzoor-pashtoon-qayadat-maulana-akram-awan-doctor-tahir-ul-qadri-3

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی    یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی
علامہ اقبال نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے وزیرستان کے محسود اور وزیر قبائل کا نام لیکر پیشگوئی کی ہے کہ کوئی ایک شخص بھی ان میں ایسا پیدا ہوسکتا ہے جو دنیا کے حالات کو بدل کر رکھ دے۔ علامہ اقبال نے بندۂ صحرائی سے رسول اللہ ﷺ کی طرف اشارہ کیا ہے اور مرد کہستانی سے آنیوالی شخصیت کا نقشہ پیش کیا ہے۔
پیر روشان بایزید انصاری کا تعلق کانیگرم جنوبی وزیرستان سے تھا۔ مغل اعظم اکبر بادشاہ کے دور میں شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی نے سجدۂ تعظیمی سے انکار کیا تھا اور پیر روشان نے عملی جہاد کیا تھا۔ بیربل اور مُلا دوپیازہ بھی اس معرکے میں مارے گئے تھے جس پر اکبر بادشاہ نے چند وقت کھانا تک نہ کھایا۔ مغل سلطنت کے بعد جب پنجاب پر سکھ رہنما راجا رنجیت سنگھ نے حکومت کی تھی تو بھی قبائل ان کی دسترس سے باہر رہے۔ پورے برصغیر پاک و ہند میں انگریز کو اتنی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا جتنا وزیرستان کی سرزمین پر کرنا پڑا۔ امریکہ کی دشمنی سب کی خواہش تھی اور خواہش تک رہی مگر وزیرستان نے اپنی خواہش کو عملی جامہ بھی پہنایا۔ راؤ انوار نے ایم کیو ایم سندھ اسمبلی کے پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہار الحسن کیساتھ بدتمیزی کی اور پیپلز پارٹی نے بھی ایم کیو ایم کا ساتھ دیا لیکن راؤ انوار کو کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکا۔ محسود قوم نے اس کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
محسود قوم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جھگڑے میں پہلے زباں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہی اسلام ، شریعت اور فطرت کا تقاضہ بھی ہے۔ قرآن میں ایک قانون یہ بھی ہے کہ مرد کے بدلے مرد ، عورت کے بدلے عورت اور غلام کے بدلے غلام کو قتل کیا جائے گا۔ اس قانون کو صرف قبائل کے لوگ ہی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ اگر قتل پر صرف مجرم ہی سے بدلہ لیا جائے تو لوگ اپنے بیکار افراد سے دوسروں کے کار آمد افراد کو قتل کروائیں گے اور یوں زمین میں فساد کا سلسلہ ایک دوسرے سے بدلہ چکانے کیلئے جاری رہے گا ، لیکن جب قبائل اس قانون پر اس کی روح کے مطابق عمل کرتے ہیں تو زمین فسادات سے بچی رہتی ہے۔ ہر ایک پر یہ خوف طاری رہتا ہے کہ کسی قبیلے کا کوئی فرد قتل ہوجائے تو مجرم کو نہیں پکڑا جائے گا بلکہ کسی ذمہ دار فرد کو نشانہ بنایا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قبائل کو امن کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا۔ اگر ماڈل ٹاؤن کے واقعے پر شہباز شریف کی پکڑ ہوتی تو پولیس والوں میں اتنی جرأت کبھی نہ ہوتی کہ کھلے عام بندوں کو مارا جاتا۔
محسود قبائل نے پیر آف وانہ کی سرکردگی میں کشمیر کا جہاد بھی کیا ہے۔ گو خان بدمعاش کی قیادت میں جمع ہوکر قومی تحریک بھی چلائی ہے۔ گل سا خان کی قیادت میں جمع ہوکر بھی بڑی مہم جوئی کی ہے۔ اگر منظور پشتون کی قیادت میں محسود قبائل اکھٹے ہوجائیں تو اس میں کوئی نام نہاد ملک اور قبائلی عمائدین ٹانگ نہیں اڑا سکتے ہیں۔ جب طالبان کا ٹائم تھا تو بہلول زئی اور منزئی نے جو تیر مارنا تھا وہ مارلیا۔ اب سیاست کا ٹائم ہے تو منظور پشتون کو ہی قیادت سونپ دینی چاہئے۔ کچھ افراد منظور پشتون کی جرأتمندانہ اور دانشمندانہ قیادت سے خوفزدہ نہ ہوں۔ جب محسود قوم منظور پشتون کو قومی اسمبلی میں بھیجنے کا متفقہ کرے گی تو پاکستان بھر سے پڑھا لکھا طبقہ قیادت کیلئے منتخب ہوکر آئے گا اور اس کا سہرا محسود کے سربندھے گا۔
جب برصغیر پاک و ہند آزاد ہواتھا تو افغانستان کے بادشاہ امیر امان اللہ خان کا بیٹا مدراس جیل سے دوسرے قیدیوں کے ساتھ آزاد ہوا۔ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے شیخ اتار ڈبرہ گومل ٹانک کے رہنے والے عبد الرزاق بھٹی نے بتایا کہ میں اس کو فقیر آف بٹنی کے پاس لیکر گیا ، فقیر صاحب نے کہا کہ ہماری یہ اوقات نہیں کہ اس کو پناہ دے سکیں۔ افغانستان اور پاکستان دونوں کی حکومتوں کیلئے امیر امان اللہ خان کا بیٹا مطلوب ہے۔ یہ صرف محسود قوم کے پاس کریڈٹ ہے کہ اس کو پناہ دے اور افغانستان و پاکستان کی حکومتوں کو حوالے نہ کرے۔ یہ ذہن بننے کے بعد وہ شمن خیل قبیلے کے سردار رمضان خان کے پاس لیکر گئے تو وہ پناہ دینے پر بخوشی اور اعزاز سمجھ کر راضی ہوئے۔ تاریخ کے دوراہے میں بڑے واقعات ہیں لیکن 1991ء کا واقعہ ہے کہ جب تحریک انصاف کے موجودہ ایم این اے داور خان کنڈی کے والد امان اللہ کنڈی کو کراچی میں ہیروئن کیس پر پکڑ لیا تھا تو وہ ڈی آئی خان جیل سے ہسپتال اور ہسپتال سے وزیرستان فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔ جب سیکورٹی فورسز نے اس گاؤں کا گھیراؤ کیا اور مطالبہ کیا کہ امان اللہ کنڈی کو حوالے کردو ورنہ سارے گاؤں کو مسمار کردیں گے۔
محسود قبائل کے جوان ڈھول کی تھاپ پر رقص کرنے لگے اور امان اللہ کنڈی کو دوسری جگہ منتقل کردیا۔ وزیر قبائل کے افراد تبصرے کررہے تھے کہ محسود قوم کی بہادری میں کوئی شبہ اسلئے نہیں ہے کہ مسلح دستوں کی موجودگی میں اپنے مہمان کو نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ سیکورٹی فورسز کے جوانوں سے کہا گیا کہ دن میں آپ ہمارے مہمان ہو لیکن رات کو مہمان اور چور کاپتہ نہیں چلتا۔ اسلئے تمہارے لئے بہتر ہے کہ اپنی راہ لو۔ سیکورٹی فورسز کے جوان بھی محسود قبائل کو داد دئیے بغیر نہ رہ سکے کہ جہاں ہمیں ایکشن کرتے ہوئے کوئی دیکھتے ہیں تو ان کی شلواریں گیلی ہوجاتی ہیں اور یہ جواں مرد ڈھول کی تھاپ پر رقص کررہے ہیں۔
حکومت پاکستان سے قبائلی عمائدین نے تاریخی مذاکرات کئے اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچے کہ اخبارات میں سرخیاں لگیں کہ ’’رشدی ہمارے حوالے کردو اور کنڈی تمہارے حوالے کردیں گے‘‘جس پر حکومت نے بی بی سی کے نمائندے سیلاب محسود کو رپورٹنگ پر ڈی آئی خان جیل بھیج دیا۔ مولانا محمد خان شیرانی نے اپنے ایک بیان میں ایک عالمی منصوبے کا انکشاف کیا ہے کہ محسود قوم کو تباہ و برباد کرکے صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے اور پھر وہاں عالمی دہشتگردوں کو آباد کرکے اس خطے میں عظیم جنگیں برپا کی جائیں۔ وزیرستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا واحد حل یہی ہے کہ پاک فوج محسود قبائل کو اعتماد میں لیکر ساری بارودی سرنگوں سے وزیرستان کو صاف کردے اور قدیم طرز پر ان کو آباد کرنیکا موقع فراہم کرے۔
اس قوم کے ہوتے ہوئے کوئی عالمی منصوبہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوگا جب تک ریاست پاکستان کیساتھ ایک اعتماد والی فضا موجود ہو۔ اب بہت ہوچکا اور اس میں شک نہیں کہ فوج سے زیادہ محسود قوم کی اپنی غلطیاں ہیں ، چور ، ڈکیت اور بیکار لوگوں کو طالبان کمانڈر کی حیثیت سے بزدلی کے ساتھ برداشت کیا اور اس کے نتائج بھگت لئے۔ یہ قوم نہ صرف اپنے علاقے ، ملک ، قوم اور خطے سے لا قانونیت ختم کرسکتی ہے بلکہ عالم اسلام و انسانیت کی امامت بھی کرسکتی ہے۔

محسود قوم میں امامت کی صلاحیت پیدا ہوگئی مگر

pakistan-sazish-mehsood-qaum-imamat-wazeeristan-maqam-manzoor-pashtoon-qayadat-maulana-akram-awan-doctor-tahir-ul-qadri-2

محسود ایک دانشور، محنت کش، بہادر، انسانیت کی علمبردار، فطرت کی شاہکار، اسلام سے محبت رکھنے والی، وطن سے پیار کرنے والی اور زبردست صفات سے مزین آزاد منش قوم ہے۔ بے پناہ خوبیوں کیساتھ ساتھ انتہائی پستی والی صفات بھی اس قوم میں موجود تھیں۔ سب سے بری اور بدترین صفت اس میں بے پناہ کی فرعونیت تھی۔ روئے زمین پر محسود خود کو گویا دوسرا امریکہ سمجھتے تھے۔ ہر خاندان اور ہر فرد اپنی اپنی جگہ فرعون بناہوتا تھا۔ طالبان اور فوج نے سب سے بڑا کمال یہ کرکے دکھایا کہ اسکی فرعونیت کو شکست سے دوچار کردیا، یہ اس قوم کی فرعونیت کا جنازہ تھا جو بڑی دھوم سے نکلا کہ ’’ایک ماڈل بننے کے خواہشمند نقیب اللہ محسود کی شہادت پر تاریخی احتجاج کیا، ورنہ یہ وہ قوم تھی کہ اس قسم کے حلیہ اور کردار کو اپنے لئے باعثِ شرم تصور کرتی تھی‘‘۔ جیوکی پٹھان صحافی رابعہ انعم جو اپنی ثقافت سے کسی طرح پختون نہیں لگتی ہے لیکن جب وہ نقیب اللہ محسود کے تعزیتی جرگے میں گئی توپتہ چلا کہ وہ خود بھی ایک پختون ہے۔ پشتو زبان میں انٹرویو لیتے ہوئے نقیب کے والد سے پوچھا کہ ایک پختون معاشرے میں اپنے لڑکے کو اسطرح کاحلیہ بنانیکی اجازت نہیں دی جاتی تو آپ اس حلیہ کی وجہ سے نقیب سے ناراض نہیں تھے؟ نقیب کے والد نے پریس کانفرسوں میں بھی بتایا کہ میرا بیٹا ماڈل تھا۔
جس طرح ڈاکٹر طاہر القادری کو کاندھے پر غارِ حراء چڑھانے والے نواز کا یہ حال ہواہے کہ مریم نواز کو شوہر سے چھڑا کر عوامی جلسوں کو پرکشش بنانے کی مہم جوئی میں مصروف ہیں جو کسی دور میں بینظیر بھٹو پر بے پردگی اور بے غیرتی کا الزام لگاتے تھے اور وہ خود کو اب آخری حد تک گرا رہے ہیں، اسی طرح طالبان کو اپنااثاثہ سمجھنے والے محسود قبائل نقیب اللہ کی تصاویر اٹھانے پر بھی نہیں شرمارتے۔ اگر نواز شریف کی فیملی دبے الفاظ میں شکریہ ادا کرتی کہ وقت نے اسٹیبلشمنٹ کی چاکری سے ان کی جان چھڑادی ہے تو ممکن تھا کہ یہ لوگ آئندہ نسل میں قائدانہ کردار ادا کرتے۔ شہباز شریف گیارہ برس قید کاٹنے والے زرداری پر گرج برس رہا تھا کہ چوکوں پر لٹکائیں گے، سڑکوں پر گھسیٹیں گے اور نشان عبرت بنائیں گے، لیکن جب نواز شریف کی پانامہ لیکس کا معاملہ آیا، جمہوریت کی سب سے بڑی مسند پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کی حیثیت سے غلط بیانی کی اور پھر عدالتوں پر تہمت لگادی کہ فوج نے ہمارے خلاف فیصلے پر مجبور کیا ہے تو یہ نہ صرف شریف برادری کیلئے انتہائی گراوٹ کا مقام تھا بلکہ پاکستان کی بھی ناک کٹ گئی ہے۔
اس کے برعکس محسود قوم نے افغانستان میں امریکہ کو شکست دینے کیلئے قدم اٹھایا اور وہ طالبان جس کی حمایت سب ہی کررہے تھے ، امریکہ کیخلاف سب سے زیادہ اور بڑی قربانی محسود قوم نے اپنی غیرت ، فطرت اور انسانیت کیلئے دی جو اسلام اور ایمان کا عین تقاضہ تھا۔ ان کو پتہ تھاکہ جس قوت سے مضبوط افواج کو بھی ٹکر لینے کی ہمت نہیں وہ ہماری نسلوں کو تباہ کرسکتی ہے۔ پاک فوج پر امریکہ نے جو خرچہ کیا ہے اس کا واویلا اب بھی امریکہ مچارہا ہے۔ افغان حکومت پر بھی امریکہ نے خرچہ کیا لیکن محسود قوم نے صرف قربانی ہی قربانی دی ہے۔ اپنے لئے نہیں عالم اسلام ، پاکستان اور اس خطے کو امریکہ کی دسترس سے بچانے کیلئے دی ہے۔ اس کے صلے میں محسود قوم کو کیا ملا؟ ۔ باہر سے آئے ہوئے دہشتگردوں کے ساتھ ملکر طالبان نے محسود قوم کا بیڑا غرق کیا ، فوج نے ان کی تذلیل میں تمام تر حدوں کو پار کرلیا اور جان مال، عزت و آبرو اور گھر بار ، وطن اور ایمان سب کچھ کا بیڑا غرق ہوگیا۔ قربانی کے بدلے میں جو ثمرات ملے وہ سب کے سامنے ہیں۔
کمال کی بات یہ ہے کہ محسود قوم نے اس قربانی اور اس کے نتائج کو منفی انداز میں لینے کے بجائے بہت مثبت انداز میں لیا۔ محسود قوم کہتی ہے کہ پہلے ہم بڑی مشکل سے کما کر لاتے تھے ، تھوڑے سے پیسے مل جاتے تھے تو اڑوس پڑوس اور رشتہ داروں کیساتھ اس کے بدلے میں دشمنیاں مول لیتے تھے ، پیسے بھی جاتے تھے ، جانیں بھی ضائع ہوجاتی تھیں اور نصیب میں جہالتیں بھی ختم نہ ہوتی تھیں ۔ جب سے ہم مصائب کا شکار ہوگئے ، ہم نے تہذیب و تمدن ، تعلیم و تربیت اور وہ سب کچھ حاصل کرلیا جو کسی قوم کی ترقی و عروج کیلئے معیار ہوتا ہے۔ جاپان نے بادشاہت کے خاتمے کو مثبت انداز میں لیا تو جاپانی قوم نے دوبارہ دنیا میں ترقی کرلی۔ محسود قوم اس آزمائش کے نتیجے میں دنیا میں امامت کے قابل ہوگئی مگر
اب کچھ معروضی حقائق کی طرف آنا ہوگا ۔ اس میں شک نہیں کہ محسودوں کی تین برادریوں میں بہادری اور جرأت کے لحاظ سے بہلول زئی اور منزئی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور اب اس میں بھی شک نہیں کہ طالبان اور فوج کی چکی میں جو پس کر رہ گئے ہیں ان کے ذہنوں سے فرعونیت کا خمیر نکل گیا ہے۔ ترقی و عروج کا تقاضہ یہی تھا کہ ان میں جاہلانہ تکبر اور رعونت کا خاتمہ ہوجائے۔ شمن خیل محسود کو سیاسی سمجھا جاتا ہے اور طالبان میں انہوں نے خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا۔ جب بندوق اور بارود کا دور تھا تو محسودوں کی دو شاخوں بہلول زئی اور منزئی نے بہت نام کمایا ۔ پوری دنیا کی سطح پر وزیرستان کا نام متعارف کرادیا۔ اگر پاک فوج ان کو اپنی ڈگر پر چلنے دیتی تو امریکہ کی رہی سہی افواج بھی افغانستان میں نہیں ٹک سکتی تھیں۔ اگرمحسود قوم کو پاک فوج کی طرف سے حوصلہ ملے تو امریکہ و دہشتگردوں کو کبھی وزیرستان میں پاؤں جمانے کا موقع نہ ملے۔ فوج نے یکے بعد دیگرے جو کھدڑی سیاسی قیادت پاکستان پر مسلط کی ہے اس کا فطرت میں کوئی جواز نہ تھا۔
وزیرستان میں طالبان کی وبا آنے سے قبل امریکہ کے آزاد شہریوں کی طرح انواع و اقسام کا اسلحہ موجود تھا، لیکن امریکہ میں جس طرح پے درپے روز روز دہشتگردیاں ہوتی ہیں وزیرستان اور قبائلی علاقہ جات میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ پاکستان کی ریاست کی ناک کے نیچے جس طرح کے جرائم پیشہ لوگ رہتے ہیں ان کا بھی قبائلی علاقہ جات میں کوئی تصور نہیں تھا۔ قبائل نے بلا معاوضہ ایک ایک انچ کی حفاظت کی ہے، عدالتوں اور پٹواریوں کے چکر میں جس طرح شہروں کی زمینوں پر قبضے ہوجاتے ہیں اور طاقتور لینڈ مافیا ظلم و جبر کی داستانیں رقم کررہی ہے اسکا کوئی تصور قبائلی علاقہ جات میں نہیں تھا۔ سندھ کے شہری علاقوں میں مہاجر قوم کو ایک عرصے تک سیاسی نمائندگی مل گئی لیکن بجائے فائدہ اٹھانے کے الٹا یہ تصور اجاگر کیا گیا کہ حکیم سعید جیسی محسن انسانیت شخصیات کی جگہ دوسروں نے لے لی یا ہتھیالی ۔ پیر پگارا اور پیپلز پارٹی نے سندھ کی غریب عوام کی تقدیر کو نہیں بدلا۔ مسلم لیگ کے مختلف روپ نے پنجاب کی غیرت کو بھی بگاڑ کر رکھ دیا۔ بلوچستان کے بلوچ قوم پرستوں نے اپنی قوم کو باہر بیٹھ کر مشکلات میں ڈال دیا۔

پاکستان کا وجود اسلام کیلئے لیکن سازش کا جال

pakistan-sazish-mehsood-qaum-imamat-wazeeristan-maqam-manzoor-pashtoon-qayadat-maulana-akram-awan-doctor-tahir-ul-qadri

جب دنیا میں برطانوی اقتدار پر سورج غروب نہ ہوتا، برصغیر پاک وہند پر بھی انگریز کی حکومت تھی۔ روس بھی یورپ میں واقع ہے اور ایک دور میں روس کو سب سے بڑا خطرہ سمجھا جاتا تھا۔ مفکرِ پاکستان علامہ اقبال نے کہا کہ’’ ماسکو سے آذان کی آواز آئے گی‘‘۔ علامہ اقبال نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ ابلیس کو خطرہ کمیونزم نہیں اسلام سے ہے ۔ ’’مزدوکیت فتنہ فردا نہیں اسلام ہے‘‘۔ایک بڑے اعلیٰ سطح ابلیسی دماغ نے باقاعدہ منصوبہ بندی کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا: انھم یکیدون کیدا واکیدکیدا ’’ بیشک وہ اپنا منصوبہ بناتے ہیں اور میں اپنا منصوبہ تشکیل دیتا ہوں‘‘۔ برصغیر پاک وہند میں گانگریس سے پہلے خلافت کی بحالی کیلئے تحریک چلی تو ہندو اور مسلمان شانہ بشانہ تھے، پھر آزادی کیلئے گانکریس نے تحریک شروع کردی تو ہندوپیش پیش تھے اور مسلمان بھی شانہ بشانہ تھے۔
مولانا محمد علی جوہر کا اخبار کامریڈ ہو، یا مولانا ظفر علی خان کا اخبارزمیندار ہو، علامہ اقبال کی طرف سے فرشتوں کا گیت ہو’’ جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی ، اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو‘‘ یا قائد اعظم محمد علی جناح کی گانگریس سے سیاست کا آغاز ہو، یا مولانا حسرت موہانی جیسے مسلم کمیونسٹ ہوں، سب ہی کی ہمدرددیاں اورتعلق کپٹل ازم کے مخالف سیاسی نظام کے مالک روس سے تھیں انگریز نے ہندو مسلم اتحاد میں منافرت کا بیج بونے کیلئے مشرقی بنگال کو علیحدہ صوبہ بنادیا تو ہندوؤں نے اسکا برامنایا، اگر ہندو بڑے دل کا مظاہرہ کرتے تو مسلمان ایک الگ جماعت مسلم لیگ نہ بناتے۔ انگریز کے وفادار سر آغا خان اور نواب وقارالملک نے 1906ء مسلم لیگ( مسلم تحفظ موومنٹ)کی بنیاد رکھ دی اور پھر یہی تحریک پاکستان اور تقسیم ہند کا فارمولہ بن گیا۔ ابلیس کا اصل منصوبہ یہ تھا کہ جو برصغیرہندوپاک کے سیاسی زعماء اور علماء دنیا میں ابھرتی ہوئی دو سپر طاقتوں کے درمیان روس سے تعلق رکھتے ہیں وہ آپس میں تقسیم ہوں۔ ایک ٹولہ ایسا ہو جو اس برِ صغیر پاک وہند کو روس کے بلاک میں شامل ہونے سے روک لے۔
اگر اسوقت پاکستان ایک آزاد مملکت نہ بنتا تو برصغرپاک وہند پورے کا پورا روسی بلاک کا حصہ ہوتا۔ یوں امریکہ اور دائیں بازو میں شامل بلاک کیلئے ممکن نہ ہوتا کہ افغانستان کی سر زمین پر روس کو ایسی شکست دیتے کہ وہ سپرطاقت بننے کا خواب بھول کر سمٹنے پر مجبور ہوتا۔ جو اسلام اسلام اور جہاد جہاد کھیل رہے تھے ان کا نمائندہ پاکستان کا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ میونخ جرمنی میں برملا کہہ رہا ہے کہ’’ 40سال پہلے روس کیخلاف جہاد کے نام پر جو کچھ ہم نے بویاتھا، اسی کو کاٹ رہے ہیں‘‘۔یہی نہیں بلکہ شروع سے ابلیس کی منصوبہ بندی پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریک پاکستان کاآغازاصل میں مشرقی پاکستان کے صوبہ بنگال سے ہوا تھا اور ہندوستان کی ان آبادیوں سے یہ آواز اٹھی تھی جہاں پر مسلمانوں کی اقلیت اور ہندوؤں کی اکثریت تھی۔ اگربنگال پاکستان نہ بنتا تو بھی ابلیس کو فرق نہ پڑتا تھا اسلئے کہ مغربی پاکستان کی پٹی ہی برصغرپاک وہنداور روس کے درمیان اصل رکاوٹ تھی۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بناتو روس کو امریکہ نے مغربی پاکستان کے ذریعے سے شکست سے دوچار کردیا ۔ ابلیس اپنے منصوبہ کو تکمیل تک پہنچنے میں بظاہر کامیاب نظر آتا ہے۔ امریکہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کو ہندوستان کے ذریعے تباہ کرنا چاہتا ہے اور ہماری مدد روس کرے بھی تو کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔ اسلام کے نام پر قربانیاں دینے والے مجاہدین کو بھی پاکستان سے کوئی ہمدردی نہیں رہی ہے۔ پاکستان اپنے بال وپر کاٹ چکا ہے۔
ابلیس کی منصوبہ بندی پر ایک تفصیلی بحث ہوسکتی ہے لیکن کچھ ذکر اسکا بھی ہو، جو اللہ نے منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ کا تعلق کانگریس سے تھا،وہ پاکستان بننے سے پہلے وفات پاگئے ، وہ تفسیر’’ المقام المحمود‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ سندھ، بلوچستان، پنجاب، فرنٹےئر، کشمیر اور افغانستان میں جس قدر قومیں بستی ہیں، یہ سب امامت کی حقدار ہیں، اسلام کی نشاۃ ثانیہ اس علاقے سے ہوگی۔ یہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا مرکز ہے، اگر ہندو پوری دنیا کو ہمارے مقابلہ میں لے آئیں تو ہم اس خطے سے تب بھی دستبردار نہ ہونگے‘‘۔ سورہ القدر کے ضمن میں یہ تفسیر لکھ دی ہے۔ اس کو اللہ کی طرف سے منصوبہ بندی کا حصہ قرار دیا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے آنے والے اردو اسپیکنگ مہاجر یہاں کے رولر کلاس تھے۔ قبائل نے مغل بادشاہ اکبر، راجہ رنجیت سنگھ اورانگریزکی حکومت کو تسلیم نہیں کیا لیکن جب پاکستان بن گیا تو قائداعظم کے حکم پر 1948ء میں کشمیر کے اندر بھی جہاد کیا اور مظفر نگر تک فتح کے جھنڈے بھی گاڑھ دئیے تھے۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان کو ایک بااختیار فوجی افسر کا اعزاز حاصل تھا اور اس کی ہندوانہ ذہنیت نے ہندوستان سے سازباز کرکے اقوام متحدہ کے بہانے قبائل کو کشمیر سے نکالنے کی چال چلی تھی۔
قبائل پاکستان کے بہت وفادار شہری ہیں۔ طالبان کی حمایت کرنیوالی تمام سیاسی جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ سمجھا جاتا تھا۔ نوازشریف، شہباز شریف، جماعت اسلامی ، عمران خان وغیرہ وغیرہ کھل کر طالبان کی حمایت کرتے تھے اور قبائل سمجھتے تھے کہ طالبان کو پاکستان کی ریاست کی اشیرباد حاصل ہے۔ طالبان کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان قبائل اور خاص طور پر محسود قبائل نے اٹھایاہے لیکن محسود قبائل نے کبھی اُف تک نہیں کیا۔ ایک مشہور واقعہ ہے کہ فوج کے سپاہی نے ایک محسود کو پکڑ کر کہا کہ سچ بتاؤ کہ تمہاری ہمدردی فوج کیساتھ ہے یاطالبان کیساتھ؟۔ محسود نے کہا کہ سچ بتاؤں گا تو آپ مجھے پیٹھ ڈالوگے، فوجی نے کہا کہ میرا وعدہ کہ بالکل بھی کچھ نہیں کہوں گا۔ محسود نے کہا : ’’صاحب! سچی بات پوچھتے ہو تو اس کا جواب سن لو۔ تم فوجی انبیاء کرام ہو اور طالبان صحابہ کرام ہیں، بس کافر ہم عوام ہیں، جن کو دونوں طرف سے مارپڑ رہی ہے‘‘۔
محسود دقوم میں تین قبیلے بہلول زئی، منزئی اور شمل خیل ہیں۔ بہلول زئی و منزئی بہادر، جرأتمند ، بے باک جبکہ شمن خیل سیاسی تصور ہوتے ہیں۔ طالبان میں بہلول زئی ومنزئی نے بڑا حصہ لیا جبکہ شمن خیل پیچھے رہے۔ طالبان کے عروج میں شمن خیلوں کو لدھا طلب کرکے کہاگیا کہ ’’تم محسود نہیں ہو، تمہارے اندر غیرت اور ایڈونچر کا جذبہ نہیں، سب نے طالبان میں اپنا حصہ ڈالا،اور تم پیچھے رہ گئے، تم پختون بھی نہیں ہو‘‘۔ ایک شمن خیل نے جواب دیا کہ’’ یہ تم غلط کہہ رہے ہو، ہم پختون بھی ہیں محسود بھی ہیں، غیرتمند اور جرأتمند بھی ہیں۔ البتہ ہمارے اندر کوئی چور نہیں ہے‘‘۔مقصد یہ تھا کہ طالبان چوروں کا ایک ٹولہ ہے۔

طلاق ثلاثہ پر حلالہ کا فتویٰ قرآن و سنت کیخلاف ہے. فاضل دار العلوم دیوبند مولانا حسین مبارک

talaq-e-salasa-maulana-husain-mubarak-fazil-darul-uloom-deo-band

کراچی (امیر حسین، قاری سلیم اللہ، طارق مدنی) فاضل دار العلوم دیوبند یوپی بھارت مولانا سید حسین مبارک ( خادم اعلیٰ مدرسہ فاطمۃ الزھرہ جامع مسجد مبارکیہ علی اکبر شاہ گوٹھ کورنگی ) نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ طلاق ثلاثہ کے بارے میں گیلانی صاحب نے جو قدم اٹھایا ہے بہت ہی قابل ستائش اور بہت ہی بہترین کام ہے کیونکہ موجودہ دور میں جن دار الافتاء سے طلاق ثلاثہ کے بارے میں فتویٰ جاری ہوتا ہے یہ قرآن و سنت کے بھی خلاف ہے اور فطرت و غیرت کے بھی خلاف ہے۔ قرآن و سنت میں کہیں بھی حلالے کا تصور اور جواز موجود نہیں حضرت عمرؓ نے جو فیصلہ صادر فرمایا وہ وقت اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعزیراً ایک فیصلہ صادر فرمایا وہ بھی لوگ عورتوں کو طلاق دیتے اور پھر ان کو ستانے کی غرض سے اور ان عورتوں کی بغیر رضامندی ان سے رجوع کرلیتے تھے میں آج سے تقریباً تیس سال سے طلاق کا مسئلہ حل کررہا ہوں جو دونوں فریقین کی باتوں کو سن کر فیصلہ یا فتویٰ دیتا ہوں اگر دونوں رجوع کرنے کیلئے رضامندی کا اظہار کرتے ہیں تو رجوع کا فیصلہ سناتا ہوں اور اگر دونوں میں تنازع نظر آتا ہے تو ان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ سناتا ہوں قرآن و سنت کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ اتحاد کے بارے میں انہوں نے کہا اس وقت علماء کرام تمام چھوٹے بڑے دینی مدارس ، یونیورسٹی کے دانشور حضرات کا مل بیٹھ کر گیلانی صاحب کے اس مشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا فرض عین سمجھتا ہوں۔صرف کاغذی اتحاد نہیں بلکہ عملی طور سے عوام کو سمجھانا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ علماء کرام طلاق کے بارے میں اصل حقائق عوام کے سامنے لائیں گونگا شیطان نہ بنیں اللہ تعالیٰ شاہ صاحب اور تمام ساتھیوں کی حفاظت فرمائے اور تمام اُمت مسلمہ کو قرآن و سنت اوردین کی سمجھ عطا فرمائے۔

حلالہ پر جو مسئلہ دوران تعلیم میری سمجھ میں آیا وہ غلطی پر تھا. مولانا شاہ عالم فاضل احسن العلوم گلشن اقبال

halala-maulana-shah-aalam-ahsan-ul-uloom-gulshan

کراچی (قاری سلیم ، محمد طارق) مولانا شاہ عالم فاضل جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال کراچی ، مہتمم مدرسہ عمر فاروقؓ و خطیب جامع مسجد مہران ٹاؤن انڈسٹریل ایریا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ حضرت علامہ سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب کا لٹریچر طلاق ثلاثہ و حلالہ کے حوالے سے مطالعہ کیا اور بغور جائزہ لینے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ حضرت علامہ صاحب کی تمام تحقیقات بحوالہ حلالہ و تین طلاق کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں جو مسئلہ میری سمجھ میں دوران تعلیم آتاتھا وہ غلطی پر مبنی تھا ۔
الحمد للہ حضرت کے تمام رسالے پڑھ کر سورۃ البقرہ کی آیت الطلا ق مرتان الخ والی آیت سے شرح صدد ہوچکا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ علامہ صاحب کی کاوشوں کو قبول اور منظور فرمائے اور امت پر سید صاحب کا سایہ تادیر قائم رکھے۔ آمین ثم آمین۔

ختم نبوت کیخلاف سازش پر جسٹس شوکت صدیقی نے کیا کارنامہ انجام دیا؟ ارشاد نقوی

khatam-e-nabuwat-justice-shaukat-siddiqui-raja-zafar-ul-haq-ghq

نوشتۂ دیوار کے خصوصی ایڈیٹر سیدارشاد نقوی نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی نے کہا تھا کہ ختم نبوت کیلئے احتجاج کرنیوالوں نے GHQ کے سامنے دھرنا کیوں نہیں دیا؟۔ اگر سازش فوج کی طرف ہوتی تو ریمارکس ٹھیک ہوتے۔
کمیٹی کا سربراہ راجہ ظفر الحق کہے کہ بہت ہوشیاری سے پارلیمنٹ میں ختم نبوت کیخلاف سازش ہوئی۔ اور اس کی رپورٹ بناکر نواز شریف کو دیدی مگر سوال فوج کے کردار پر اٹھایا جائے تو مناسب نہیں ہے۔
جسٹس شوکت صدیقی اگر صدیق اکبر حضرت ابوبکرؓ کی اولاد ہیں تو صداقت سے نواز شریف یا راجہ ظفر الحق کو طلب کرکے فوراً رپورٹ لیں اور ملوث لوگوں کو قرار واقعی سزا دے دیں تاکہ دوبارہ مسئلہ نہ اٹھے۔
ختم نبوت پر حقائق کو نظر اندازکیا گیا ، اگر اچھے ماحول میں ذمہ دار عناصر کے چہرے سے نقاب کھیچ لیا جائے تو عوام احتجاج نہ کریں مگر حکومت کو احساس نہیں۔
پارلیمنٹ میں 20ترامیم کا تعلق بھی عوامی مفاد کے خلاف تھا۔ 19ترامیم میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبروں کیلئے یہ ترامیم کی گئیں کہ الیکشن کے فارم سے ممبروں کے بارے میں تمام ضروری معلومات کا خاتمہ کردیا گیا۔عوام اور عدالت کو ان کی کانوں کان خبر تک نہیں ہوئی ۔ ختم نبوت کے مسئلہ پر مذہب کی وجہ سے شور ہوا تو باقی تمام جماعتوں نے اپنی بے خبری ظاہر کردی مگر اصل گھناؤنے جرم میں سب ہی شریک تھے۔ میڈیا میں پیپلزپارٹی کی رہنما سسی پلیجو نے حلف نامے کے حوالہ سے جمعیت علماء اسلام کے حافظ حمداللہ کی قرارداد پر اختلافِ رائے کو بڑا کریڈٹ قرار دیا تھا،مگر اس کو یہ رنگ دیدیا تھا کہ غیرمسلم کس طرح قرآن پر حلف لیں گے؟۔ ختم نبوت کے حلف میں ترمیم کی کوئی بات بھی ذکر نہیں کی گئی تھی۔
جب پارلیمنٹ ہی سازش کی آماجگاہ بن جائے اور عوام سے حقائق کو چھپایا جائے تو پھر کس پر اعتماد کیا جائے؟۔ ختم نبوت کا مسئلہ حل ہوگیا لیکن سازش کرنے والوں کو قرار واقعی سزا کیوں نہیں دی جارہی ہے؟۔ اور سازش نہیں کی گئی تھی تو راجہ ظفر الحق نے جھوٹ بولا تھا؟۔ سچ ٹی وی کے نصرت مرزا صاحب کو بھی راجہ ظفر الحق نے فون پر ختم نبوت کیخلاف سازش کا انکشا ف کیا تھا۔ جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان، اہلحدیث، اہل تشیع اور جماعت اسلامی متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے ختم نبوت کیخلاف سازش کو بے نقاب کریں اور خادم حسین رضوی اور پیر حمیدالدین سیالوی کو بھی ساتھ لیکر چلیں تو روز روز سازشوں کے دروازے بند ہوجائیں گے۔ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے فرزند فاروق حیدر مودودی نے محترمہ عاصمہ جہانگیر کا جنازہ پڑھایا ، جماعت اسلامی کے ادنیٰ کارکن پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ عاصمہ جہانگیر کا والد قادیانی تھا ،جنازہ پڑھانے والے کو اصل رشتہ داری کا پتہ ہوگا۔

مولانا فضل الرحمن کا سورج مکھی رومال چڑھتے سورج کا پجاری ہے. فیروز چھیپا

moulana-fazl-ur-rehman-feroz-chhipa-ptcl-dmg-commissioner-sargodha-corruption

نوشتۂ دیوار ڈئریکٹر فنانس فیروز چھیپانے کہاہے کہ قصور مولانا فضل الرحمن کا نہیں اس پیلے رومال ہے جوسورج مکھی کی طرح اپنے سر پر لپیٹا ہواہے، دماغ کو گھیرا ہواہے اور اس کوہر چڑھتے سورج کا پجاری بنادیا ہے۔ اب مولانافضل الرحمن مہربانی کرکے اس مخصوص شناخت سے اپنی جان چھڑائیں ۔اب مولانا الیاس قادری جیسے تنگ نظر جماعت کے بانی نے بھی اپنی محدود شناخت کا قصہ ختم کردیاہے جو دوسروں کو اس شناخت کی اجازت بھی نہیں دے رہے تھے، یہاں تک کہ سنی تحریک کو بھی ہری پگڑی پہنے سے منع کردیا تھا۔ میڈیا نے عوام کے شعور میں بہت اضافہ کردیا اور علماء کو چاہیے کہ اپنے عقیدتمندوں کو باشعور بنائیں۔ سیاست اور فرقوں کی بہت خدمت ہوچکی ہے اب دین کی بھی خدمت ہو۔
علماء کرام ، مفتیانِ عظام،مذہبی جماعتوں اور مشائخ عظام کا امت پر بڑا احسان ہے۔ دین اسلام کی جو شکل وصورت محفوظ ہے یہ انہی حضرات کا کرشمہ ہے۔ عوام میں ان کی قدرومنزلت کابڑا مقام ہے۔اپنے مقام کا ان کو خیال رکھنا چاہیے۔ کردار کا ایک اثر ہے جس کی وجہ سے قوموں کی تقدیر بدل جاتی ہے۔
جب بیوروکریٹ احد چیمہ کونیب نے گرفتار کیا تو پنجاب میں طوفان کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی۔ کیا نیب نے یہ پہلی مرتبہ کیا ہے؟۔ یا دوسرے صوبوں میں اس کا یہی معمول رہاہے؟۔ جو بلوچستان میں کروڑوں روپے بار بار دکھائے گئے تو احد چیمہ کی جائیداد کم گناہ ہے؟۔ باقاعدہ بینک ٹرانزکشن کیساتھ معاملہ تھا تو نیب کا ہاتھ ڈالنا قانون کی خلاف ورزی تھی؟۔ بلوچستان اور سندھ میں بھی یہ ہوتا رہاہے بلکہ اس سے بڑھ کر بہت کچھ ہوا۔
مولانا فضل الرحمن جمعیت علماء اسلام ف اورمتحدہ مجلس عمل کا امیر ہے، ن لیگ اور پیپلزپارٹی پر کرپشن کے الزامات سے اس کو خوش ہونا چاہیے تھا کہ مذہبی سیاسی جماعتوں اور اتحاد کیلئے یہ راہ ہموار ہورہی ہے لیکن بیوروکریٹ کی پکڑ پر پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھا؟۔ سوشل میڈیا پر معلومات ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کا ایک بھائی سرگودا پنجاب کا کمشنر ہے جو PTCLمیں ملازم بھرتی ہوا تھا، یہ قصہ سامنے لایا جائے کہ ٹیلیفون کے محکمہ میں جو لوئر گریڈ کا ملازم تھا وہDMGگروپ میں کیسے چلا گیا؟۔ اس طرح دوسرے بااثر سیاستدانوں اور افسروں کے رشتہ داروں کی بھی کوئی فہرست ہے یا یہ پیلے رومال اور سورج مکھی کا کمال ہے؟۔ غریب باصلاحیت تعلیم یافتہ طبقے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا ان بے ضمیر لوگوں کا وطیرہ بن چکا ہے ، میرٹ کیلئے اٹھنا ہوگا۔
مولانا فضل الرحمن پرویز مشرف کے بلدیاتی انتخابات کو ہی ملک توڑنے کی سازش قرار دے رہا تھا، بائیکاٹ کے باوجود وہ الیکشن میں گروپ تشکیل دینے میں ملوث تھا۔ پھر اسکے ماموں کو ناظم کی حیثیت سے کھلے عام بڑی کرپشن پر پکڑا گیا اوراقتدار کا فائدہ اٹھاکر کیس کو ختم کروادیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن پہلے اپنی سیاست کو پیغمبروں کی امانت قرار دیتا تھا اور دوسروں کو فرعون کہا کرتا تھا مگر اب ہرحکومت کے ساتھ ہوتاہے اور قصور اسکانہیں بلکہ سورج مکھی جیسے رومال کی اسکے سر پر گرفت ہے۔ قرآن کی آیات میں پیغمبروں کے مقابلے میں جن ملاء القوم کا ذکر ہے ان سے مراد قوم کے سردار اور مذہبی مشیرملاء ہیں۔ جب تک یہ لوگ درست راستے پر نہیں آتے ہیں قوم کی تقدیر نہ بدلے گی۔
اگر سیاستدان کہے کہ بیوروکریسی نے ملک کو کھالیا تو ہم کھا جائیں، فوج کہے کہ سیاستدان نے کھالیا تو ہم کھا جائیں، اور علماء ومذہبی طبقہ کہے کہ دوسروں نے کھالیا تو ہم کھا جائیں پھر ملک کا بنے گا کیا؟، غریب عوام اور بے بس طبقہ کہاں جائیگا؟۔ ملک میں چوری ہے اور سینہ زوری ہے جو جتنا بڑا چور ہے اتناہی اس میں زور ہے۔ نوازشریف کہتاہے کہ مجھے چور کہا گیا تو کیا تم بھول گئے کہ صدر زرداری کو کیا کیا نہیں کہا جاتاتھا؟۔ ایوان کے مہمان خانے میں جاؤ اور پارلیمنٹ میں جو تقریر کی تھی اسی کو واضح کرو، کوئی چور نہ کہے گا، عدالت کا مقدمہ بھی ختم ہوجائیگا۔
مولانا فضل الرحمن ہی دلائل کیساتھ حقائق کے تناظر میں جیو ٹی وی چینل پر شاہ زیب خانزدہ یا طلعت حسین کیساتھ اعداد اور شمار کیساتھ واضح کردے۔ صحافت، سیاست کیساتھ ملائیت بھی مل جائے تو نوازشریف کی صفائی نہیں دی جاسکتی ہے۔

محسود تحفظ موومنٹ کے قائد منظور پشتون کو وزیر اعظم بنایا جائے. اجمل ملک

mehssod-tahaffuz-movement-manzoor-pashtoor-wazeer-e-azam-malik-ajmal-jambhooriat-imran-khan-pervaiz

طاقتور راؤ انوار کو کنارے لگانے میں محسود قوم کا کردار

طالبان اور فوج کے درمیان چکی دو پاٹوں میں پسنی والی محسوداور پختون قوم نے نقیب اللہ کے بارے میں شروع سے احتجاج نہ کیا اسلئے کہ اس کی بے گناہی کا پتہ نہ تھا۔ پختون کی بڑی خوبی یہی ہے کہ محسود(پختون) تحفظ موومنٹ کی ابتداء اس بات سے کی کہ کسی گناہگار کو کسی طرح بھی تحفظ نہیں دینگے لیکن بے گناہ نقیب اللہ محسود کیلئے جب وہ اُٹھ گئے تو کراچی پولیس و ریاست اور حکومتی سیاسی جماعت کے سب سے بڑے ڈان کو کنارے لگادیا۔ اگر محسود قوم گناہگاروں کو تحفظ دینے میں اپنی صلاحیت ضائع کر دیتی تو نقیب کی شہادت پر بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکتی تھی۔
صلح حدیبیہ میں جھوٹی افواہ آئی تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے حضرت عثمانؓ کی شہادت کا بدلہ لینے کی بیعت لی، یہ بیعت رضوان صحابہؓ سے اللہ کے راضی ہونے کا تمغہ تھا۔ پھر نبیﷺ نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا، جب مشرکین نے معاہدہ توڑ ا تو پھر اس معاہدے کو قائم رکھنے کی کوشش بھی کرلی مگر نبیﷺ نے دوبارہ اس معاہدے کو قائم رکھنے کا کوئی وعدہ نہیں فرمایا اور پھر مکہ فتح ہوا۔
امریکہ نے جنگ مسلط کی توافغانستان وپاکستان کی عوام ، پختون قوم، خاص طور پر قبائل نے قربانی دی ، بدلے میں عزت ملتی مگر اچھے نتائج تو درکنار اُلٹا بدترین ذلت سے بھی دوچار ہونا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا: و لنبلونکم بشئی من الخوف والجوع والنقص من الاموال والانفس والثمرات فبشر الصٰبرین’’اور ہم تمہیں آزمائیں گے، کچھ خوف سے، کچھ بھوک سے، کچھ اموال کی کمی سے اور جانوں کی کمی سے اور نتائج برآمد ہونے سے ،پس خوشخبری ہے صبر کرنے والوں کو‘‘۔ قبائل، پختون اور خاص طور پر محسود قوم کو جن آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا، اس کی تاریخ میں مشکل سے کوئی مثال ملے گی۔ لیکن جس صبر وتحمل سے محسود قوم نے وہ تمام مصائب برداشت کرلئے، خندہ پیشانی سے حالات گزار لئے، شکوہ نہ شکایت، کوئی بغاوت نہیں کی، کوئی اونچے بول نہیں بولے، ملک وقوم سے کوئی غداری نہیں کی، کبھی پیشانی پر بل نہیں آیا۔ قربانیوں کے نتیجے میں قوموں کو امام بنایاجاتاہے، یہی بشارت مشکلات کے بعد قوموں کو صبر میں ملتی ہے۔ آیت کو غور سے دیکھا جائے اور پھر محسود قوم کی قربانی کو ملاحظہ کیا جائے۔ علماء نے آیت کے ایک لفظ کا ترجمہ غلط کیا ۔ ثمرات سے مراد میوے نہیں، میوے اموال میں شامل ہیں بلکہ ثمرات اردو میں بھی اسی طرح سے استعمال ہوتا ہے، کسی اچھے عمل کا نتیجہ بظاہراچھا نہ ملے تو یہ ثمرات کا امتحان ہے۔اللہ نے فرمایا: ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ان نجعلھم ائمۃ وان نجعلھم الوارثین’’اور ہمارا ارادہ ہے کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنایاجارہاہے کہ ان کو امام بنائیں اور ان کو زمین کا وارث بنائیں‘‘۔علامہ اقبالؒ نے محسود اور وزیر کا ضرب کلیم میں ’’ محراب گل افغان‘‘ کے عنوان سے ذکر کیاہے، آزمائش کے بعد یہ امامت کے قابل ماشاء اللہ بن گئے۔
دینا پڑے کچھ ہی ہرجانہ سچ ہی لکھتے جانا
مت گھبرانا مت ڈر جانا سچ ہی لکھتے جانا
باطل کی منہ زور ہوا سے جو نہ کبھی بجھ پائیں
وہ شمعیں روشن کرجانا سچ ہی لکھتے جانا
پل دو پل کے عیش کی خاطر کیا جینا کیا جھکنا
آخر سب کو ہے مرجانا سچ ہی لکھتے جانا
لوح جہاں پر نام تمہارا لکھا رہے گا یونہی
جالب سچ کا دم بھرجانا سچ ہی لکھتے جانا

منظور پشتون اور نوازشریف و عمران خان میں بڑا فرق

منظور پشتون کا تعلق محسود قبیلے کے غریب گھرانے سے ہے۔غریب کا درد غریب سمجھ سکتا ہے۔ پاکستان کی جمہورعوام غریب ہے۔قومی اسمبلی اور سینٹ میں ممبروں کا تعلق امیراقلیت سے ہے۔ ایوب آفریدی کو ٹکٹ اسلئے نہ دیا کہ تحریک انصاف کا کارکن تھا بلکہ اپنے ٹکٹ کی خاطر خواہ قیمت ادا کی ہوگی ۔ نظریہ نہیں دولت اور سیاسی لوٹوں کی ہیرا پھیری سے ایوان چلتے ہیں اسلئے قوم کی تقدیر نہیں بدلتی۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے پارلیمنٹ کا دروازہ توڑا، پی ٹی وی پر قبضہ کرلیا، پولیس افسر کی پٹائی لگادی، تھانہ سے ساتھی چھڑ لے گئے ، یہی نوازشریف نے بھی عدلیہ کیساتھ کیا۔ مولانا سمیع الحق کو سینٹ کا ٹکٹ دینے سے مکر گیا تو حکومت کے فنڈز سے مزید27کروڑ روپے مدرسہ کو دیدئیے۔ یہ سینٹ کی سیٹ کی قیمت بڑھ جانے کے بعد سرکار کے فنڈز سے جرمانہ تھا۔
پارلیمنٹ میں گھوڑوں کے خریدو فروخت کی اصطلاح بالکل عام ہے۔ جمہوریت کے علمبردار گھوڑے تو ڈکٹیٹر شپ کی پیداوار گدھے ہیں۔ گھوڑے اور گدھوں کے ملاپ سے خچر بنتے ہیں۔ جس رہنما کی بنیاد جمہوریت ہو اور ڈکٹیٹر شپ کے ملاپ سے تنزلی ہوجائے تو وہ خچر ہے اور اگر اس کی ابتداء ڈکٹیٹر شپ سے ہو اور پھر ترقی کی منزل طے کرکے اس کا ملاپ گھوڑے سے ہو تب بھی وہ خچر بنتا ہے۔ نوازشریف اور عمران خان دونوں کا تعلق درمیانے درجے سے ہے۔ جنرل ضیاء الحق کی پیداوار کون تھا ؟۔ اور جنرل پرویزمشرف کے ریفرینڈم کا حامی کون تھا؟۔
خچر کی حیثیت انسانوں میں تیسری جنس کھدڑے کی ہوتی ہے۔ کھدڑی قیادت کا تجربہ ہوگیا۔ نوازشریف کو معلوم ہے کہ منظور پشتون اور اس کی قوم نے برسوں سے کن مشکلات کا سامنا کیا ہے؟ لیکن زبان سے کسی نے اُف تک بھی سنا ہے۔ نوازشریف کو اتنی سزا ہوئی ہوگی کہ جتنا کھدڑے کو ختنہ کرنے سے ہوتی ہوگی لیکن شور مچاکر زمین وآسمان کی قلابیں ملادی ہیں۔ یہی حال عمران خان کا بھی ہوگا۔ اگر پاکستان بھر سے منظور پشتون کی طرح قوم کا درد رکھنے والے غرباء کو قومی اسمبلی میں منتخب کرکے بھیج دیا گیا تو پاکستان کی 70سالہ تاریخ بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔
پاکستان کے تمام قومی و صوبائی حلقوں سے باشعور نوجوانوں کی منظم تحریک سے ایک ایسی قیادت مہیا کرنی ہوگی کہ ریاست کے فوائد غریب، مظلوم اور بے بس عوام تک پہنچ سکیں۔ عوام، سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں اور رہنماؤں کی اکثریت موجودہ سیاسی نظام اور خانوادوں سے بہت تنگ آچکے ہیں۔ کوئی متبادل کے بجائے وہی لوگ پارٹیاں بدل بدل کر پھر سیاسی اُفق پر نمودار ہوجاتے ہیں جس سے نجات کیلئے ایک ہی راستہ ہے کہ ہر جگہ منظور جیسے کوہی کامیاب کیا جائے۔
دنیا ہے کتنی ظالم ہنستی ہے دل دکھا کے
پھر بھی نہیں بجھائے ہم نے دئیے وفا کے
ہم نے سلوک یاراں دیکھا جو دشمنوں سا
بھر آیا دل ہمارا روئے ہیں منہ چھپا کے
کیونکر نہ ہم بٹھائیں پلکوں پہ ان غموں کو
شام و سحر یہی تو ملتے ہیں مسکرا کے
تا عمر اس ہنر سے اپنی نہ جان چھوٹی
کھاتے رہے ہیں پتھر ہم آئینہ دکھا کے
اس زلف خم بہ خم کا سر سے گیا نہ سودا
دنیا نے ہم کو دیکھا سو بار آزما کے
جالب ہوا قفس میں یہ راز آشکارا
اہل جنوں کے بھی تھے کیا حوصلے بلا کے

راؤ انوار بہانہ تھا مگر اصل نشانہ فوج کی کارگردگی ہی تھی

پاک فوج کے سپاہی بدلتے رہتے ہیں اور پاک فوج کی پالیسی بھی بدلتی رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ ریاست کی پالیسی یہ تھی کہ طالبان کو بہت رعایت دے رکھی تھی اور پھر سخت آپریش بھی ہوجاتا تھا۔ عوام کی سمجھ بات نہیں آتی تھی کہ وہ کریں تو کیا کریں؟۔ بہرحال ریاست اپنی حکمت عملی کو بہتر سمجھ سکتی ہے۔ وزیرستان کی عوام خاص طور پر محسود قوم نے اس سلسلے میں بہت مصائب کا سامنا کیا، قبائل میں پولیس کا نظام نہیں ، فوج کو اپنے فرائض انجام دینے پڑتے ہیں۔پختونخواہ کی حکومتوں میں اتنی صلاحیت بھی نہیں تھی کہ سیٹل ایریا میں پولیس کے ذریعے حالات کو کنٹرول کرتی، لیکن جب حالات قدرے بہتر ہوئے تب بھی عمران خان کی حکومت نے پولیس کے بجائے اپنی عوام کو فوج کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ فوج چیک پوسٹوں پر چیکنگ کے دوران پولیس سے ذرا مختلف رویہ رکھتی ہے جو عادت سے مجبوری بھی ہے کیونکہ فوج پولیس جیسی بن جائے تو فوج نہیں۔
قبائل کو چوکیوں پر فوج کے سپاہیوں کی طرف سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاتھا تو وہ سمجھتے تھے کہ ہم اسکے مستحق ہیں، خود کش حملوں سے بچنے کی اسکے علاوہ کوئی تدبیر نہ تھی۔ البتہ حالات معمول پر آنے کے بعد قبائل کو درپیش مشکلات سے چھٹکارا دلانے کی ضرورت تھی مگرکسی نے اس احساس کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ عمران خان تو حکومت اور عوام سے اس طرح سے دستبردار ہوگئے تھے جیسے ریحام خان اورجمائماخان سے دست بردار ہوئے ہیں۔ کسی بھی روک ٹوک اور پرسان حال کا خیال کبھی نہیں آیا۔ محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمن اور اسفندیار ولی نے بھی کبھی حال تک نہیں پوچھا تھا۔ منظور پشتون کے اندر اپنی قوم کا درد اُٹھا۔ راؤ انوار کا بہانہ مل گیا لیکن اپنی جنگ کیلئے قانون اور دستور کے اندر رہتے ہوئے شرافت کیساتھ لڑنے کا اظہار کیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے فوج کی شکایات حل کرنے کا وعدہ کرنے کے بجائے اپنا رونا شروع کردیا۔ آئی ایس پی آر نے جی ایچ کیو بلایا تو پاک فوج کے افسر نے کہا کہ ’’ ہمیں فوج سے معلوم ہوا ہے کہ تم لوگوں کی طرف سے کوئی دھرنا دیا گیا ہے اور وہاں دہشتگردی کے پیچھے وردی کا نعرہ بھی لگا ہے‘‘۔ نوجوانوں نے ملاقات کے بعد محسوس کیا کہ جب اسلام آباد میں کئی دنوں کے دھرنے کے باوجود بھی ہمارے حال سے پاک فوج بے خبر ہے تو وزیرستان اور پختونخواہ کے چیک پوسٹوں کا کیا حال معلوم ہوگا؟ اور پھر جب مولانا فضل الرحمن نے معصوم لوگوں کو سمجھایا تو امیرمقام کے کہنے پر بھی دھرنا ختم کیا۔
پاک فوج نے جب دیکھ لیا کہ اتنے مہذب طریقے سے اسلام آباد میں اپنا احتجاج نوٹ کروایا اور امیرمقام جیسے فارمی بیل کے کہنے سے احتجاجی دھرنے کو ختم کردیا تو جو رعایتیں مانگیں تھیں ،ان سب کو منظور کرنے کاپاک فوج کے ترجمان آئی ایس پی آر نے خود ہی اعلان کردیا۔جالب نے کہا
فرنگی کا جو میں دربان ہوتا
تو جینا کس قدر آسان ہوتا
مرے بچے بھی امریکہ میں پڑھتے
میں ہر گرمی میں انگلستان ہوتا
مری انگلش بلا کی چست ہوتی
بلا سے جو نہ اُردو دان ہوتا
جھکا کے سر کو ہوجاتا جو سر میں
تو لیڈر بھی عظیم الشان ہوتا
زمینیں میری ہر صوبے میں ہوتیں
میں واللہ صدر پاکستان ہوتا

منظور پشتون کا ٹکراؤ فوج کے بجائے نظام سے ہوگا

منظور پشتون نے سوشل میڈیا پر اپنے ابتدائی بیان میں کہاہے کہ ’’ ہم اپنی جنگ پاکستان کے دستور کے نیچے لڑیں گے، ہم کوئی بغاوت نہیں کررہے ہیں ، ہم ملک اور قوم کے وفادار ہیں‘‘۔ اس بیان کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاک فوج کو عام عدالتوں میں گھسیٹا جاسکتا ہے؟، راؤ انوار کو توعدالت نے طلب کرکے رکھا ہے لیکن اگر فوج کے خلاف شکایت کی جائے تو کیا عدالت اس پر مقدمہ دائر کرسکتی ہے؟۔ اس کا جواب یہی ہے کہ پاکستان کے دستور میں ایسی کوئی شق نہیں ہے۔
جب نصیر اللہ بابر کی سرپرستی میں فیصلہ ہوا کہ ایم کیوایم کے دہشت گرد عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیں اسلئے پولیس مقابلے میں ان کو ماردیا جائے۔ اس وقت کے آئی جی پولیس افضل شگری نے پولیس سے اس قسم کا غیر قانونی کام کروانے کی مخالفت کی۔ باقی ریاست کے تمام اداروں کی طرف سے اس فیصلے کی توثیق کردی گئی۔ جیو اور جنگ کے معروف صحافی مظہر عباس نے میڈیا پر یہ بتایا کہ ’’ اس آپریشن میں ایک فوجی افسر نے عوام پر بے جا مظالم کئے تو اس کا کورٹ مارشل ہوا۔ اور فوجی عدالت نے اسے پھانسی کی سزا دی اور اس سزا پر عمل در آمد بھی ہوا، اس کو پھانسی پر لٹکایا گیا ‘‘۔
جب قبائل اور پشتونوں کی یہ تحریک دستور کے مطابق مظلوم کی مدد کیلئے اٹھے گی تو پاک فوج کو بھی اسکے جائز مطالبات ماننے میں کوئی انکار نہ ہوگا۔ جب اس تحریک کے فوج سے تعلقات بہتر ہونگے تو فوج پوری قوم کو ریلیف دینے میں بالکل بھی دیر نہیں لگائے گی۔ پھر طالبان کی شکل میں بدمعاش مافیا پالنے کی ضرورت بھی نہ رہے گی۔ فوج کے سپاہیوں اور افسروں کاتبادلہ ہوتا رہتا ہے اور جب ایک قوم یا قبیلے میں دہشتگرد پائے جاتے ہوں تو ان کو اپنی حفاظت کیلئے انہی میں سے کچھ لوگوں کو رکھنا پڑتا ہے اور جو لوگ اس طرح سے کٹھ پتلی بنتے ہیں تو وہ اس کا فائدہ بھی اٹھالیتے ہیں۔ جب اس تحریک کیساتھ پوری قوم کا فوج سے اعتماد بحال ہوجائیگا تو پھر پاکستان کی سطح پر بھی ان کو امامت دینے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی۔طالبان کی حمایت پوری قوم کررہی تھی مگر پختون اور عام طور پر قبائل اور خاص طور پر محسود قربانی کے بکرے بن گئے۔ بعض لوگوں کے دل میں فوج سے بغض تھا اور وہ پھر سے اس تحریک کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتے تھے لیکن تحریک کی قیادت تعلیم یافتہ جوان اور اسکے باشعور ساتھیوں کے ہاتھ میں تھی اسلئے یہ نہ ہوسکا۔ محمود خان اچکزئی کا پورا خاندان حکومت کی مراعات لیتا ہے لیکن وہ محسود قوم کے غریب کو تباہ شدہ گھروں کیلئے 4لاکھ نہ لینے کا حکم دے رہاتھا۔ مولانا زر ولی خان کے احسن العلوم گلشن اقبال میں مولانا فضل الرحمن نے مدارس کے علماء وطلباء کے جلسے کئے لیکن حکومت کی امداد منع کرنے پرشیخ الحدیث مولانازرولی نے مولانافضل الرحمن کی خوب خبرلی۔خود حکومتی امداد کے پیچھے دُم اٹھانے والے دوسروں کو منع کرینگے تو یہی ہوگا۔
جانا ہے تمہیں دہر سے ایمان ہے اپنا
ہم آکے نہیں جائیں گے اعلان ہے اپنا
انسان سے جو نفرت کرے انسان نہیں ہے
ہر رنگ کا ہر نسل کا انسان ہے اپنا
تم امن کے دشمن ہو محبت کے ہوقاتل
دنیا سے مٹانا تمہیں ارمان ہے اپنا
کیوں اپنے رفیقوں کو پریشان کریں ہم
حالات سے دل لاکھ پریشان ہے اپنا
اس شاہ کے بھی ہم نے قصیدے نہیں لکھے
پاس اپنے گواہی کو یہ دیوان ہے اپنا

ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کے بعد عمران خان اسٹیبلشمنٹ کا تیسرا بچہ جمورا ہے. اشرف میمن

talibanization-bushraization-insaf-justice-zulfiqar-ali-bhutto-nawaz-sharif-imran-khan-bacha-jamura-ashraf-memon-khatm-e-nabuwat-sheikh-rasheed-blame-jali-peer-ticket-hand-cuff-jmaat-e-islamiنوشتۂ دیوار کے پبلشر اشرف میمن نے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب خان نے دریافت کیا تھا، ایک ڈکٹیٹر کی گود سے بھٹونے جمہوری لیڈر نہیں ڈکٹیٹرہی بنناتھا۔ اس سے زیادہ ڈکٹیٹر شپ کیا ہوگی کہ جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی کو اپنے مقابلے میں لاڑکانہ سے الیکشن کے کاغذات جمع کرنے پر اغواء کیا گیا تھا۔ بلوچستان کی جمہوری حکومت کو ختم کیا اور تمام سیاسی لیڈر شپ پر بغاوت کا مقدمہ کیا اور سب کو جیل میں ڈال دیاتھا؟۔ بھٹو حکومت کا خاتمہ ہوا تو مارشل لاء میں سیاسی قائدین کو رہائی مل گئی۔ڈکٹیٹر کی پیداوارنوازشریف نے زندگی ڈکٹیٹر کے مشن کیلئے وقف کردی اور ایسا ڈکٹیٹر بن گیاکہ اداروں کو بھی تباہ وبرباد کرنے کی دھمکی دے رہاہے۔ قصور نوازشریف کا نہیں بلکہ اس تربیت کا ہے۔
پاک فوج نے ذوالفقار علی بھٹو کو بنایالیکن پھر اس کی ڈکٹیٹر شپ سے نبرد آزما ہونے میں اپنی صلاحیتں خرچ کر ڈالیں تھیں اور ان کوششوں کے نتیجے میں پاکستان کا بیڑہ غرق کردیا۔ ایک طرف مسلح جمعیت طلبہ کے بگڑے ہوئے کارکنوں سے کالجزاور یونیورسٹیوں کا ماحول تباہ کردیا اور ساتھ میں جماعت اسلامی کو بھی بگاڑ کر تباہ کیا،دوسری طرف ایم کیوایم سے قتل وغارتگری کا بازار گرم کروایا، سندھ میں لسانی تنظیموں کو پروان چڑھایا۔ جبکہ اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے اسلام اور جمہوریت دونوں کو بدنام کرکے رکھ دیا تھا۔ پیپلزپارٹی اور جمہوری پارٹیوں کو کمزور کرنے کیلئے جن کٹھ پتلی جماعتوں کو استعمال کیا گیا، انہی کے سربراہ نوازشریف اب حلق میں پھنسی ہڈی بن چکے ہیں۔
نوازشریف کو اپنے جرائم اور کرپشن کی قرارِ واقعی سزا ملے گی اور اسکے اثاثہ جات بحقِ سرکار ضبط ہوں توببانگِ دہل کہے کہ
جن کی راہوں میں بچھادی تھی اپنی آبروئے عزت           parliment-all-parties-amendment-section-62-63-waive-juditiary-media-channels-justice-saqib-nisar talibanization-bushraization-insaf-justice-zulfiqar-ali-bhutto-nawaz-sharif-imran-khan-bacha-jamura-ashraf-memon-khatm-e-nabuwat-sheikh-rasheed-blame-jali-peer-ticket-hand-cuff-jmaat-e-islami ان ہی کی بے وفائی نے مجھے مار دیاذلت کی موت
نوازشریف نے گدھے کی طرح ڈاکٹر طاہرالقادری کو غار حرا کی پہاڑی پر اپنی پیٹھ پر لاد کر چڑھایا تھا، پیر حمیدالدین سیالوی وغیرہ کو عمران خان کی طرف سے وہ عزت و توقیر نہیں مل سکتی جو نوازشریف نے دی کیونکہ پیرنی کو توعمران خان نے بیگم بنالیا، اب اس کو پیرانِ پیر بناکر پسماندہ گدی نشینوں اور جعلی پیروں کو اکٹھاکرکے عمران خان کیلئے گراؤنڈ تیار کیا جارہاہے۔ پنجاب میں جعلی پیروں کا کاروبار عروج پر ہے اور اس کاروبار میں کردار کی کوئی اہمیت نہیں ۔ کوئی روپ دھار کے بیٹھ جائے تو نفسانی خواہشات پوری کرنے کیساتھ ساتھ اپنے عقیدتمندوں کی بھیڑ میں بھی بے پناہ اضافہ کرے۔ARY نیوز کی سرِ عام کی ٹیم نے بہت سی جگہوں پر چھاپے مارے ۔ اگر عمران خان کی بیگم بشریٰ بی بی کی سرپرستی میں ایک نیا کھلواڑ قوم کیساتھ ہوجائے تو تصوف کے نام پر ایک نیا فتنہ کھڑا ہوگا۔ شدت پسندوں اور جہادیوں سے جان چھڑانے کاعالمی منصوبہ ہو تو قوم کو آگاہ کیا جائے اور یہ نئی سردردی اور بدنامی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ فوج کے خفیہ اداروں کے پاس سب کچھ ہے مگر دماغ نہیں۔ سیاسی قیادتوں کی تشکیل اس بھونڈے طریقے سے ہوگی تو روز روز کے نئے نئے تجربہ سے ملک کا بیڑہ غرق ہوگا۔
ختم نبوت کے مسئلہ پر عمران خان کی جماعت شریک مجرم تھی لیکن کتنی بے شرمی سے نوازشریف کو اکیلا مجرم قرار دیا جارہا تھا؟ اور اس کمیٹی ، قومی اسمبلی اور سینٹ کا سب سے بڑا جرم یہ بھی تھا کہ ’’ الیکشن کے فارم سے چوری کا راستہ روکنے کی ساری شقیں ختم کردی گئی ہیں‘‘۔ شیخ رشید بار بار پکار رہاہے لیکن عمران خان بھیگی بلی بن گیا ہے۔ اگر قوم اُٹھ گئی کہ کیا جمہوریت اسلئے ہے کہ سیاسی پارٹیاں ایوانوں کو عیاشی اور تجارت کا ذریعہ بنائیں؟ اور گھوڑے، خچر اور گدھے راج کریں؟۔ عمران خان کو موقع مل رہاہے لیکن وہ بھی الیکشن کی ترامیم میں پوری طرح ملوث ہے۔
جس طرح بچیوں کے روزانہ کی بنیاد پر ریپ اور قتل ہورہے ہیں اور سیاسی قائدین اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں ، کسی کو بھی ظلم وجبر کا نظام بدلنے کا خیال نہیں آرہاہے۔ اس کی بنیاد پر پوری قوم بغاوت کیلئے اٹھ کھڑی ہوگی تو معاملہ کسی سے بھی نہیں سنبھل پائیگا۔ قائد انہ صلاحیت والے آگے بڑھیں۔قائد بنایا نہیں جاتا بلکہ اللہ خود قائدپیدا کرتاہے ،بس قوم قدر کرے۔

پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں نے متفقہ ترامیم کے ذریعے دفعہ 62-63 کو ختم کردیا. قدوس بلوچ

parliment-all-parties-amendment-section-62-63-waive-juditiary-media-channels-justice-saqib-nisar

عدالت ، پارلیمنٹ اور ٹی وی چینلوں نے ریاستِ پاکستان کو رجواڑہ بنا دیا اور قانون کی حکمرانی کے نام پر لاقانونیت کا طوفان اٹھا ہوا ہے۔ عوام کی آنکھوں کی بینائی ہی نہیں سوچ وفکر کی بنیادیں ہی ختم کردی گئیں ۔ سیاست کی دہلیز پرجھوٹ ، چوری ،تمام حربوں کو اپنا قانونی اخلاقی اور شرعی حق سمجھا جاتا ہے۔ تُف ہے جو کچھ ہورہا ہے اس پر ۔ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو جماعت کی صدارت سے روکا تو نا اہل لیگ نے ش سے شیرلیگ کی قیادت ان کو سونپ دی ۔چشم بد دور! اقامہ کا الیکشن کے فارم میں ذکر نہ کرنے پر نااہل قرار دیا گیا تھا تو پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر الیکشن کے فارم سے ہی اس کو نکال باہر کیا ہے۔ اگر ثاقب نثار آج پھر نوازشریف کے وکیل بنے تو سپریم کورٹ میں کیس لڑینگے کہ وزیراعظم کیلئے نااہل قرار دینے کی بنیاد بھی اب نہ رہی لہٰذا پارٹی امارت نا اہل وزیر اعظم کیلئے اہل ہے۔ واہ واہ !