پوسٹ تلاش کریں

اجنبی کا تعارف حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں

قال رسول اللہ ﷺ: اذا حضر الغریبَ فالتفتُ عن یمینہٖ و عن شمالہٖ فلم یرالا غریباً فتنفس کتٰب اللہ لہ بکل نفس تنفس الفی الف حسنۃ و خط عنہ الفی الف السیءۃ فاذا مات مات شہیداً(الفتن: نعیم بن حماد)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اجنبی کو میرے پاس حاضر کیا گیا تو میں نے اس کی طرف دائیں جانب سے التفات کیا اور بائیں جانب سے التفات کیا ، وہ نظر نہیں آتا تھا مگر اجنبی، پس اللہ کی کتاب پوری عظمت کیساتھ اسکے سامنے روشن ہوگئی ، اس کو ہزارہا ہزار نیکیاں ملیں اور ہزار ہا ہزار گناہیں اسکی معاف کی گئیں۔ پس جب وہ فوت ہوا تو شہادت (گواہی) کی منزل پاکر فوت ہوا۔
یہ حدیث امام بخاری کے استاذ نعیم بن حماد ؒ نے اپنی کتاب الفتن میں نمبر 2002 درج کی ہے، یہ اجنبی کا تعارف بتایا گیاہے

کلمانٹ دوشیزہ کا بیرون ملک خواتین کے اجتماع سے خطاب۔ وطن کی مٹی گواہ رہنا !

کلمانٹ دوشیزہ کا بیرون ملک خواتین کے اجتماع سے خطاب۔ وطن کی مٹی گواہ رہنا ! میری لوہے کی بھٹی تھی گواہ رہنا ! اگر جے آئی ٹی اور عدلیہ نے آرمی کے اشارے پر میرے خلاف فیصلہ دیدیا تو گواہ رہنا! ۔میرے ایک چوتڑ پر عدلیہ اور دوسرے پر آرمی کا نشان ہے گواہ رہنا!۔ایک موقع آیا تھا کہ میں نے پرویز مشرف کو ہٹایا تھا گواہ رہنا!۔ اور پھر اس موقع سے فائدہ اٹھاتا اور ایگریمنٹ کرکے نہ جاتا تو میرے چوتڑوں پر آرمی اور عدلیہ کے نشانات مٹ جاتے گواہ رہنا!۔ اب مجھے وہی ہراساں کررہے ہیں جنہوں نے کندھے دیکر میرے دونوں کولہوں کو داغدار کیا گواہ رہنا! میں نے سراسیمگی میں میڈیا پر ، پارلیمنٹ میں اور قطری خط کے ذریعے کنپٹی پر بندوق رکھنے سے غلط بیانی کی، گواہ رہنا رہنا!۔

خبر کی تفصیلات پڑھنے کیلئے نیچے ہیڈنگ پر کلک کریں

کلمانٹ دوشیزہ نواز شریف کو فوج نے ہراساں کرکے متضاد بیانات لئے ہیں۔ قدوس بلوچ

کلمانٹ دوشیزہ نواز شریف کو فوج نے ہراساں کرکے متضاد بیانات لئے ہیں۔ قدوس بلوچ

جاوید غامدی کا قرآن کے بارے میں سراسر جھوٹا بیان اور حلوے میں زہر کی ملاوٹ اور ملمع سازی

نوشتۂ دیوار کے منتظم اعلیٰ فیروز چھیپا علمدار نے ڈاکٹر جاوید غامدی کے حالیہ بیان پریہ تبصرہ کیا کہ جاوید غامدی مسلمانوں کو قرآن کی آیت کا غلط مفہوم پیش کرکے مٹھائی کے اندر زہر کھلاتا ہے۔ قرآن مردہ قوموں میں زندگی کی روح پھونک کر دورِ جاہلیت سے علم وعمل، بلندی وعروج اور بڑے اعلیٰ درجے کے اقتدار کی منزل پر پہنچاتاہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک اچھوت نسل سے تعلق کی بنیاد پر آدمی وہی سوچے گا جو اسکے ماحول کیمطابق ہوگا، لیکن قرآنی تعلیمات کو غلط رنگ میں پیش کرنا بڑی زیادتی ہے۔ واقعۂ کربلا کے بعد ائمہ اہلبیتؒ بھی مھدی کے انتظار میں بیٹھ گئے مگر قرآن کو نہ بدلا۔ انبیاء کرامؑ نے مشکل حالات میں قوم کو بدلنے کی مثالیں قائم کیں۔ جاوید غامدی کے بیان پر تبصرہ صفحہ2میں اداریہ پر دیکھ لیجئے۔

جاوید غامدی کا قرآن کے بارے میں سراسر جھوٹا بیان اور حلوے میں زہر کی ملاوٹ اور ملمع سازی

یہ سوال ہے کہ یورپ کی جو عیسائی قومیں ہیں وہ پچھلے تین سو سالوں سے They have been rolling the planet. مسلمانوں کی باری کب آئیگی؟۔

غامدی: مسلمان اپنی باری لے چکے۔

سوال: اب دوبارہ نہیں آئیگی؟۔

غامدی: اور یہ میں محض تفنن طبع کیلئے نہیں کہہ رہا۔ قرآن مجید کہتا ہے، تلِکَ ایام نداولہا بین الناس ہم اس دنیا کے اقتدار کو اسی طرح ایک لائن میں ایک کے بعد دوسری قوم کو دے رہے ہیں اور یہ ایام اسی طرح اُلٹتے پلٹتے رہتے ہیں بلکہ مزید یہ کہتا ہے کہ دنیا کی قوموں کو ایک لائن میں رکھکر ہم ایک کے بعد دوسری قوم کو اسٹیج پر لارہے ہیں۔ یہ آخری زمانہ ہے، قرآن نے بتایا ہے کہ حضرت نوح کے تیسرے بیٹے یَافِس کی اولاد کے پاس حکمرانی ہو گی۔ پہلے دور میں انکے پہلے بیٹے حام کی نسلوں افریقی اقوام کے پاس دنیا کی حکمرانی رہی۔ دوسرے دور میں انکے دوسرے بیٹے سام کی سمیٹک نیشن کے پاس اقتدار رہا ہے اور اب یہ یافِس کی اولاد ہے جو امریکہ میں، آسٹریلیا میں، یورپ میں، وسط ایشیاء میں اور اسی طرح ہندوستان میں بھی بڑی حد تک آباد ہیں تو اللہ نے اپنے اسٹیج پر اب ان کو موقع دے رکھا ہے۔ مسلمان قومیں اپنا وقت لے چکی ہیں۔ یہ ہے آپکے سوال کے ایک حصے کا جواب۔دوسرا یہ کہ مسلمان سے ہٹ کے اسلام کو ذرا زیر بحث لائیں تو اسلام تو کسی قوم کا مذہب نہیں، آپکے اندر جذبہ یہ نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ وہ پٹی ہوئی مسلمان قومیں دوبارہ اقتدارحاصل کر لیں، پوری طاقت سے اٹھئے اور جنکے حق میں اقتدار کا فیصلہ ہو چکا ہے ان کو مشرف بہ اسلام کریں۔ اسلام کسی قوم کا نام نہیں میسج، پیغام ایک عالمگیر صداقت ہے تو آپ اٹھیں اور پیغام انکے پاس پہنچائیں جنکے حق میں اقتدار کا فیصلہ ہو چکا ۔میں کئی مرتبہ پاکستان میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ پاکستان پر جن کو اللہ نے حکومت کیلئے منتخب کیا، وہ تین چار سو خاندان ہیں اور انکی اولادیں ہیں ایک لمبے عرصے تک یہی رہنا ہے کیونکہ جب تک ایجوکیشن نہیں بڑھے گی بہت سے حالات نہیں ہونگے تو کوشش کریں کہ یہ کچھ تھوڑے سے دیندار ہو جائیں کچھ اخلاقی چیزوں کو مان لیں، لیکن لوگ الٹی کوشش کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مسجد کے مولوی صاحب کو ایوان اقتدار پر پہنچانا ہے۔ مسلمانوں کو اقتدار تک لیجانے میں بڑی مشکلات ہیں اسلئے کہ قدرت کا نظام تو اپنا فیصلہ کر چکا لیکن یہ موقع ہمارے پاس موجود ہے کہ ہم اپنے میسج کو ان قوموں تک پہنچا دیں اور کیا بعید ہے آپ کو معلوم کہ ایک زمانے میں یافِس کی اولاد حملہ آور ہوئی، عرب کی سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور آپکے علم میں ہے کہ بغداد کا سکوت ہوا اور سعدی نے اس موقع پر بڑا ہی درد انگیز مرثیہ کہا ، پوری مسلمان امت رو رہی تھی اور ترک چنگیزخان کی اولاد وہ حملہ آور ہو گئی آخری خلیفہ کو ٹاٹ میں اور قالین میں بند کر کے مار دیا گیا،اسکے بعد ہوا کیا؟۔ اسلام کی طاقت آگے بڑھی اقبال نے کہا کہ پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے۔ ترک مسلمان ہو گئے، سلطنت عثمانیہ وجود میں آئی اور پانچ سو سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔ میرے نزدیک اب یہ صحیح راستہ وہ نہیں، جسکی وجہ سے لوگ ایکدوسرے کو مار رہے ہیں، صحیح یہ ہے، اسکو اختیار کرنا چاہیے کیونکہ میسج میں بڑی طاقت ہے۔

سوال: سر ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ امام مہدی اور حضرت عیسیٰ نے آنا ہے وہ ہمیں دوبارہ سے ریوائیو کرینگے اور اینڈ آف ٹائم میں مسلمانوں کا غلبہ ہو گا۔

غامدی: اگر انھوں نے آنا ہے اور آکر یہ کام کرنا ہے تو تشویش کی کیا بات ہے؟

سوال: آ نہیں رہے یہ تو ابھی تک آ نہیں رہے؟۔

غامدی: پھر اطمینان کیساتھ سوتے ہیں۔ میں تو کئی بار یہ کہتا ہوں کہ بھئی کوئی اچھا کھانا وانا بنا کر فریج میں رکھ لیتے ہیں تاکہ انکی خدمت میں پیش کیا جائے۔ میرے نزدیک مسلمانوں کو ان افسانوں سے اب نکلنا چاہیے اور اس حقیقت کی زمین پر کھڑے ہونا چاہیے، مسلمان قومیں عالمی اقتدار کا خواب نہ دیکھیں۔ ان کیلئے پہلا کام یہ ہے کہ وہ اپنی جہالت دور کریں۔ سچا علم پھیلائیں۔پانچ سو سال سے ہم نے دنیا کو کچھ نہیں دیا۔ اچھا جمہوری نظام اور جمہوری کلچر پروان چڑھائیں لوگوں کو اس طرح تربیت کریں کہ وہ اعلی اخلاق کیساتھ جینا سیکھیں۔ اپنے گریبان میں اپنا منہ ڈال کر دیکھیں تو ہم جھوٹ بولتے بد دیانتی کرتے ہیں دھوکا دیتے ہیں، ہماری بنائی ہوئی دواؤں پر کوئی اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ تو اپنے آپ کو علم اور اخلاق کے لحاظ سے بلند کریں۔ جن ملکوں نے کچھ ہمت دکھائی توانکے حالات بدلے ۔ یعنی عالمی اقتدار الگ چیز ہے لیکن اپنی قوم کی حالت بدلنا، زندگی کی سہولتیں فراہم کرنا، علم کے دروازے کھولنا۔ میں جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہا ہوں اس قوم نے اپنے آپ کو بہتر جگہ پر کھڑا کر لیا ۔ باقی عالمی سطح پر اقتدار کا فیصلہ اب انکے حق میں ہو گا جن کا میں نے ذکر کر دیا۔ یہ بات خود قرآن نے واضح کر دی ہے۔ ایک ہی راستہ ہے جیسے ہمارے جلیل قدر علماء نے بہت صبر کیساتھ اسلام کی دعوت پیش کی اور ترک مسلمان ہو گئے ایسے ہی آپ کو ان قوموں تک خدا کا پیغام پہنچانا ہے اور سب سے بڑا موقع آپ لوگوں کو ملا ہے جو ان قوموں کے اندر آ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔

بلال قطب کی دوجہتوں سے جہالتوں کا پول کھل گیا ۔بول کا تول ومول کھل گیا: ارشاد نقوی

نوشتۂ دیوار کے مدیر خصوصی سید ارشاد نقوی نے دوجہتوں سے سید بلال قطب کی جہالتوں کا تعاقب کرتے ہوئے کہا کہ نام نہاد اسلامی اسکالر اور علاج معالجے کے نام سے جعلسازی کا مرتکب ہے۔ بڑا بچپن کے دودھ دودھ کی رٹ لگانیوالے نے اگر بچپن میں گدھی کا نہیں کسی انسان کا دودھ پیا ہو تو اعترافِ جرم کرنے میں دیر نہیں لگائے۔ جب نام نہاد اسلامی اسکالر کومحرمات کا بھی پتہ نہیں اور جس جبہ پوش اور دین فروش ذاکر کو اتنی بڑی بات کا بھی معلوم نہیں تو ایسوں کو علامہ بن کر بیٹھنے سے عوام کا بیڑہ غرق ہوسکتاہے۔مولانا طارق جمیل کی نقل اتارنیوالے کاپول کھل گیا مگر پھر بھی بول ٹی وی نے موقع فراہم کئے رکھا۔ جس سے میڈیا کا تول اور مول کھل گیاجنہوں نے لمبے چوڑے قصے اور دلفریب جملے ازبر کئے ہوں مگر ان کی جہالت کا حال یہ ہو کہ قرآن میں واضح اور عوام کو معلوم محرمات کا بھی پتہ نہ ہو۔ بہو کے بیوہ بن جانے کے بعد اس کی سسر سے شادی کرائیں کہ اگر کوئی دوسرا رشتہ دار نہ ہو تو بہو کی سسر سے شادی ہوسکتی ہے۔ کوئی سنجیدہ ملک ہوتا تو آزاد جمیل کی داڑھی مونڈھ کر اس کا چہرہ سیاہ کرکے عوام کے سامنے گدھے پر گھماتا اور ساتھ میں بیٹھے بلال قطب اور جبہ پوش ذاکر سے بھی یہی سلوک روارکھتا۔ اسلام کے حوالہ سے علم کا حال تو ان سب کا معلوم ہوگیا جن کو میڈیا میں ایک سازش کے تحت اسلام کی بدنامی کا باعث بنایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف بلال قطب روحانیت کے نام پر بھی ٹی وی پر بیٹھ کر مستقل جعلسازی کادھندہ کررہاہے۔ اے آر وائی کے سید وقار الحسن کو ایک دن اس پر بھی چھاپہ مار کاروائی کی ضرورت ہے۔
بلال قطب کی چکنی چپڑی باتیں سن کر کتنے لوگ مغالطہ کھاتے ہوں؟۔ شاہین ائر لائن کا ایک گارڈ نوید نے اپنی ضعیف والدہ کیلئے بڑی مشکل سے بلال قطب کا فون نمبر حاصل کیا تاکہ اس سے بات کرنے کا اعزاز حاصل ہو۔ بلال قطب نے جب اسے کہا کہ ’’تمہارے اوپر کالا جادو ہوا ہے‘‘ تو خاتون حیران ہوگئی کہ مجھ پر کون اور کس لئے جادو کرے گا؟۔ پھر بلال قطب کو برا بھلا کہنے لگی۔ کتنے لوگوں کو اس طرح ٹی وی کے ذریعے نفسیاتی مریض بنانے میں کامیاب ہوگا۔ حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ ہمارے مرشد حاجی عثمانؒ نے بھی روحانی علاج کا سلسلہ جاری کیا تھامگر کاروبار نہیں بنایا تھا۔ مسجدو مدرسہ اور خانقاہ کیلئے کبھی کوئی چندہ تک نہیں کیا۔ جن مریدوں نے کچھ دیا تو اس پر ہی گزارہ چلایا، اب نااہل قسم کے لوگوں نے اس مرکز کو بھی چندہ اور جنگ وجدل کا میدان بنالیا۔
جب سید عتیق الرحمن گیلانی مسجد کے امام اور خانقاہ کے منتظم تھے تو حاجی عثمانؒ نے فرمایا تھا کہ ہماری مسجد کو الحمد للہ مسجد نبوی ﷺ کے قرون اولیٰ کا اعزاز حاصل ہے، اس دور میں بھی تنخواہ دار کوئی امام نہ تھا اور آج اس سنت کو زندہ کیا گیا۔ حاجی عثمانؒ کے مخالفین درپردہ سازشوں کے پیچھے کھڑے ہیں لیکن جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکے۔ وہ دور زیادہ دور نہیں کہ خانقاہ چشتیہ، مدرسہ محمدیہ، خدمتگاہ قادریہ، مسجد الٰہیہ اور یتیم خانہ اصغر بن حسینؓ کے تمام شعبہ جات کو فعال بناکر بہت پرانی یادیں پھر سے تازہ کردی جائیں گی ۔انشاء اللہ ۔ حضرت حاجی محمد عثمان اپنے وقت کے عظیم مجددتھے ، جو ایک نالائق طبقے کے باعث مفاد پرستی اور جہالت پر مبنی فتوؤں کے شکار ہوئے۔ شیطان کو خوف تھا کہ یہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکز تباہ وبرباد نہیں کیا گیا تو یہاں سے دین حق کو ایک نئی زندگی مل سکتی ہے۔
مرکز رشد وہدایت منبع انوارِ حق
یا مدینہ پاک ہے یا خانقاہ چشتیہ

حاجی محمد عثمانؒ نے فرمایا کہ مسجدالہٰیہ نام توحید کی وجہ سے رکھا، تاکہ دیوبندی مکتبۂ فکر مانوس رہے۔ خدمتگاہ قادریہ سے بریلوی مکتبۂ فکر ، مدرسہ محمدیہ سے اہلحدیث اور یتیم خانہ اصغر بن حسینؓ سے اہل تشیع مانوس رہیں۔حاجی عثمانؒ کے مشن کی تکمیل پر تمام مکاتب فکر کے بڑے علماء کرام کی طرف سے ہماری تحریک کی تائید نے مخالفین کے حوصلے پست کردئیے ہیں ۔ ہمارا مقصد نہ کسی کو شکست ہے اور نہ ہی ہم کسی کو ملامت کرنا چاہتے ہیں البتہ دین خدمت ہے جس کو تجارت بنانے کے خلاف ہم سربکف مجاہدہیں۔ اسلام کی نشاۃ اول دین کو قربانیوں اور خدمت سے ہوئی تھی ۔
روش روش پہ ہراساں ہیں چاند کی کرنیں
قدم قدم پر سلگتے ہیں بے کسی کے چراغ
میرے چمن کو جہاں میں یہ سرفرازی ہے
ہر ایک پھول نئی زندگی کا غازی ہے
روش روش پہ ہیں برق وشرر کے ہنگامے
مجھے یقین ہے بہاروں کی کارسازی ہے
لکھو یہ عظمت ہستی کے باب میں ساغر
کہ غزنوی کی جلالت غم ایازی ہے
آلام کی یورش میں بھی خورسند رہے ہیں
نیرنگئی حالات کے پابند رہے ہیں
آفاق میں گونجی ہے میری شعلہ نوائی
نالے میرے افلاک کا پیوند رہے ہیں
ڈالی ہیں تیرے خاک نشینوں نے کمندیں
ہر چند محلات کے در بند رہے ہیں
ہر دور میں دیکھا ہے میری فکرِ رسا نے
کچھ لوگ زمانے کے خدا وند رہے ہیں
ساغر نہ ملی منزلِ مقصود خرد کو
ہاں قافلہ سالار جنوں مند رہے ہیں
وقار انجمن ہم سے فروغ انجمن ہم ہیں
سکوتِ شب سے پوچھو صبح کی پہلی کرن ہم ہیں
ہمیں سے گلستان کی بجلیوں کو خاص نسبت ہے
بہاریں جانتی ہیں رونقِ صحن چمن ہم ہیں
زمانے کو نہ دے الزام اے ناواقفِ منزل
زمانے کی نظر ہم ہیں زمانے کا چلن ہم ہیں
قریب و دور کی باتیں نظر کا وہم ہیں پیارے
یقین رہنما ہم سے فنون راہزن ہم ہیں
طلوع آفتاب نو ہمارے نام پہ ہوگا
وہ جن کی خاک کے ذرّے خورشید وطن ہم ہیں
بہر صورت ہماری ذات سے سلسلے سارے
جنوں کی سادگی ہم ہیں خرد کا بانکپن ہم ہیں
ہمارے ہاتھ میں ہے ساغر ادھر دیکھو!
ادھر دیکھو حریف گردش چرخ کہن ہم ہیں

کلمانٹ دوشیزہ نواز شریف کو فوج نے ہراساں کرکے متضاد بیانات لئے ہیں۔ قدوس بلوچ

نوشتۂ دیوارتیز وتند کے معروف کالم نگار قدوس بلوچ نے پامانہ لیکس پر سیاسی جماعتوں کی قیادت ، اے آر وائی نیوز کے عارف حمید بھٹی ،سمیع ابراہیم ،صابر شاکر و دیگر چینلوں کے ان اینکر پرسن کو خراج تحسین پیش کیا ہے جنہوں حکومت کے کرپٹ مافیا کو بے نقاب کرنے میں اپنا پورا پورا زور لگایا۔ نوازشریف سیدھے انداز میں اپنی پوری دولت قوم کے سامنے پیش کرکے اپنی تضاد بیانی، جھوٹ اور کرپشن پر معافی مانگیں توہماری سیاست بدلے گی، قوم بھی بدلے گی، یہ ملک بھی بدل جائے گا اورہماری ریاست بھی بدلے گی۔ زرداری اور کرپٹ حواری سب اس پر مجبور ہونگے۔ بھتہ خوری،چوری ، رشوت خوری سب کچھ ٹھیک ہوجائیگا۔(بقیہ صفحہ3نمبر11)
اس کنواری عورت کو جس کی شادی کی عمر گزری ہو،بلوچی میں کمانٹ کہتے ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ کوئی نہیں کہہ سکتاہے کہ فوج کا اس وقت عدلیہ پر کوئی دباؤ ہے کہ نوازشریف کو پانامہ کیس میں ٹنگا دیا جائے۔ جمہوریت کی بہتری کیلئے ضروری ہے کہ کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف عدلیہ بالکل کسی مصلحت ، مصالحت اور نظریۂ ضرورت کو سامنے رکھنے کے بجائے ضمیر سے فیصلہ دے اور جب آزاد عدلیہ اپنا یہ کردار ادا کرے گی تو اس سے جمہوری کلچر کو ہی فائدہ پہنچے گا۔ فوج کی مخالف سمجھی جانے والی آپا محترمہ عاصمہ جہانگیر کی بہادری، جمہوریت کے فروغ اور انسانی حقوق کیلئے جو جدجہد ہے اس کو سلام پیش کرتا ہوں لیکن اگر ان کو نوازشریف کا وکیل بنایا جائے تو کیا وکالت کریں گی؟۔ کیا وہ کہہ سکتی ہیں کہ میڈیا پر فیملی اور دوست سیاسی رہنماؤں کے اتنے سارے متضاد بیانات فوج نے کنپٹی پر بندوق رکھ کر ان سے کہلوائے تھے؟۔ کیا پارلیمنٹ میں لکھی تحریر پھانسی کی کال کوٹھری میں فوج نے زبردستی سے تیار کروائی تھی؟۔ کیا قطری شہزادے کے خط میں سنی سنائی حوالہ جات لکھ کر فوج نے زبردستی مجبور کیا تھا؟۔ کیااس کلمانٹ دوشیزے کا یہ رونا دھونا کوئی مانے گا؟۔ عاصمہ کو میڈیا پر میرے یہ سوالات کوئی پوچھے اور جواب طلب کرے تو بات بن جائے۔
اگر آمریت کو سپورٹ کرنے والے سیاسی جماعتوں اور شخصیات پر قانوناً پابندی لگائی جائے تو سر فہرست نوازشریف و شہباز شریف کے نام آئیں گے۔ پنجاب کی عوام سب سے زیادہ پسماندہ ہے اور اس کے سب سے بڑے ذمہ دار دونوں بھائی اور ان کی فیملی ہے۔ دوسرے لوگوں کو کھلونے بم سے اسلئے مارا جاتاہے کہ بڑے ہوشیار ہوتے ہیں اور بچے شکار بنتے ہیں۔ پنجاب کی عوام اسقدر پسماندہ ہیں کہ کھلے پیٹرول پر جاہلوں کی بھیڑ دیکھ کر بھی ذرا خوف نہیں کھایا۔ بعض یہ بکواس کرتے ہیں کہ چوری کررہے تھے ، ان کو شرم بھی نہیں آتی تھی کہ ٹرائلر گرگیا اور یہ لوٹ مار میں لگے تھے‘‘۔ حالانکہ پیٹرول ضائع ہورہاتھا، یہ چوری تھی، نہ بھتہ تھا، نہ چھینا جھپٹی۔ نقصان دے نہ ہوتا تو بالکل جائز ہوتا کہ زمین میں جانے کے بجائے عوام کے کام آتا۔ ڈرائیور اور کنڈیکٹر دھماکے کا خوف لئے بھاگ گئے ہوں گے کہ یہ انسان ہیں یا کوئی جانور، جو اتنی بڑی تعداد میں آرہے ہیں۔ کوئی ہوشمند اور قابل سیاستدان ہوتا تو اس واقعہ کی وجہ سے سیاست سے ریٹائرمنٹ لیتا کہ جہاں کئی دہائیوں تک حکمرانی کی ہو وہاں لوگوں کا اس طرح سے جہالت کا ارتکاب کرنا حکمران کی بڑی نااہلی ہے۔
شہباز شریف اس موقع پر کرپشن کو نہ بھولا اور زرداری کا نام لئے بغیر حادثے کے شکار ہونے والوں کے لواحقین سے کہا کہ ’’ یہ سب کرپشن کی وجہ سے ہوا ، جسکی وجہ سے تعلیم میں کمی آئی ہے‘‘۔
ایک یہ بھی انقلاب وقت کی تصویر ہے
رہزنی ، غارتگری ، بیداد کی تشہیر ہے
عاقبت ہے سر برہنہ آبرو نخچیر ہے
نعرۂ حق و صداقت لائق تعزیر ہے
ایک یہ بھی انقلاب وقت کی تصویر ہے
ایک شب اجڑا کسی بابا کی بیٹی کا سہاگ
اُڑ گئی پھولوں کی خوشبو ڈس گئے کلیوں کو ناگ
ظلمتوں میں سورہے چاندنی راتوں کے بھاگ
آدمیت ان دنوں اک لاشۂ تقدیر ہے
ایک یہ بھی انقلاب وقت کی تصویر ہے
ایک بیچارے نے دم توڑا شفا گھر کے قریب
برق کے جھٹکے سے ٹھنڈا ہوگیا اک بد نصیب
لاریوں کے ٹکر سے مرگئے کتنے غریب
آج ہر مظلوم کی فریاد بے تاثیر ہے
ایک یہ بھی انقلاب وقت کی تصویر ہے
ایک محلہ سے کسی کا لاڈلہ گم ہوگیا
وائے قسمت ایک بورھے کا عصا گم ہوگیا
کارواں سے بانگِ درا گم ہوگیا
یہ سب نظام جبر کی ایک زنجیر ہے
ایک یہ بھی انقلاب وقت کی تصویر ہے
چھن گئی مزدور کی پونجی بھرے بازار میں
اور مجرم ہوگئے مفرور فوراً کار میں
روز چھپتی ہیں بھیانک سرخیاں اخبار میں
دیکھئے اک خود کشی کی داستان تحریر ہے
ایک یہ بھی انقلاب وقت کی تصویر ہے
زندگی کرتی ہے جرموں کی تجارت آج کل
چیختی ہے شرافت راہگذاروں پر آج کل
علم کے ماتھے پر جہالت آج کل
آج بے نام ونشان اسلاف کی توقیر ہے
ایک یہ بھی انقلاب وقت کی تصویر ہے
ایک نابغہ حاجی عثمانؒ ، ایک فتویٰ، ایک الزام
غم دوراں! اے غم دوراں تجھے میرا سلام
زلف آوارہ ، گریبان چاک ، مستانی نظر
ان دنوں یہ تھا ہماری زندگانی کا نظام
فتوے چھوٹ کر دارالفتویٰ میں بکھر پڑے
میں نے پوچھا جو مشائخ سے اکابرؒ کا مقام
کہہ رہے ہیں چند بچھڑے مریدوں کے نقش پا
ہم کریں گے انقلاب جستجو کا اہتمام
پڑگئیں میرے روشن جبیں پر سلوٹیں
یاد آکر رہ گئی وہ بے خودی کی ایک شام
تیری عزت ہو کہ میری غیرت کی چاندنی
تاریخ کے ادوار میں ہر چیز کے لگے ہیں دام
ہم بنائیں گے یہاں ساغر نئی تصویر شوق
ہم تخیل کے مجدد ہم تصور کے امام

مجید اچکزئی ، جمشید دستی اور بہالپور وپاڑہ چنار کے واقعات میں فرق کیوں؟ اشرف میمن

پبلشرنوشتۂ دیوار محمد اشرف میمن نے کہا: یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ریاست اور حکومت کا قبلہ الگ الگ ہوتاہے۔ کوئٹہ میں نامعلوم کی معلومات نہ ہوتیں تو یہ بھی ایجنسیوں کے اس کھاتے میں ڈال دیا جاتا جو دھماکوں کے بعد افواہیں پھیلادی جاتی ہیں کہ خفیہ ہاتھ ملوث ہے۔ مجید اچکزئی نے جرأت کی یا مجبوری کی وجہ سے اعتراف کرنا پڑا؟۔ نامعلوم افراد پر ایف آئی آر درج کرنے سے پتہ چلنا چاہیے اگر محمود اچکزئی نے مطالبہ کردیا کہ اسی روڈ پر کھڑا کرکے مجرم کو یہی سزا ملنی چاہیے تو اسکے نتیجہ میں انقلاب آئیگا۔ کراچی کی سڑکوں پر12مئی کا واقع پرویز مشرف کے دور میں ہوا تو محمود خان اچکزئی بہت اچھا بولتے تھے کہ مجرموں کو سزا ملنی چاہیے۔ انسان، پٹھان اور مسلمان فطرت کے تقاضے پر چلیں تو دنیا امن و امان کا گہوارہ بن جائے۔ کوئی بھی ایسا نہیں ہوسکتاہے کہ اپنا استنجاء چھوڑ کر دوسرے کا عضو دھونے لگ جائے۔ اپنا گند سب کو خود ہی صاف کرنا پڑتاہے۔ 9/11کا واقعہ امریکہ میں ہوا، لیکن تباہ افغانستان ، عراق ، لیبیا اور دیگر ممالک کوکیا گیا جسکی وجہ سے مرض بڑھتا گیا ،جوں جوں دوا کی۔
محمود خان اچکزئی سب سے پہلے اپنے مجرم کو سزا دلانے میں پیش پیش رہے تو اپنی قوم اور پھر سب کا بھلا ہی بھلا ہوگا۔ پھر وہ نوازشریف کو بھی کہہ سکے گا کہ بابا ، آمریت کے دور میں کرپشن کی تو اس کی سزا بھی بھگت لو، طالبان تو اپنی شریعت کی بات کرتے ہیں تم نے تو ساری زندگی آمر کے گود میں گزاردی، جنرل ضیاء الحق خود کرپٹ نہیں تھا تو اس کا بیٹا بھی آپکے ساتھ نہیں ، اختر عبدالرحمن کی فیملی نے کرپشن کی تھی تو وہ آپکے ساتھ ہیں۔ آنکھیں نہ دکھاؤ اور نہ گھماؤ، سیدھا سیدھا حساب دو اور چلتے بنو تاکہ جمہوریت پر قوم کا اعتماد بحال ہوجائے۔ خوشحال کسان ،خوشحال پاکستان کے مد میں جو رقم اشہارات پر خرچ کردی ہے تاکہ میڈیا کو خریدا جاسکے ، اگر اس کا آدھا حصہ بھی غریبوں پر خرچ کیا جاتا تو کم از کم ان لوگوں میں اتنا شعور ہوتا کہ پیٹرول لینے کیلئے اس بے تحاشی کا کبھی مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔ افریقہ کے جنگلی انسانوں کو بھی پتہ ہوگا کہ پیٹرول کیلئے جاہلوں کی ایسی گہماگہمی بہت غلط اور آگ کے دریا میں کودنے کے مترادف ہے۔ ہر پیٹرول پمپ پر سگریٹ کی ممانعت لکھی ہوتی ہے۔ شہباز شریف فرنگی ہیڈپہن کر قوم کو بتانا چاہتا ہے کہ طالبان کے حامیوں کو کس طرح اپنا رنگ ڈھنگ بدلنا آتاہے اور جاہلوں کے سامنے جھوٹی سلیمانی ٹوپی پہننا بھی آسان ہے۔ سوشل میڈیا پر تعصب کو ہوا دینے کی بات ٹھیک نہیں ہے البتہ جاہل میں جہالت کی وجہ سے ہی تعصب ہوتاہے۔
پنجاب سے ووٹ ملتے ہیں جس کی وجہ سے اقتدار کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں جبکہ پاڑہ چنار کا تعلق قبائلی علاقہ سے ہے وہاں کے نمائندے ویسے بھی اپنا ووٹ فروخت کرتے ہیں تو عوام کو خوش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟۔ جو بھی قومی اسمبلی کا نمائندہ بن کر آئے اسکے دام لگادئیے جائیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ اس قوم کی مشکلات اس وقت دور ہوں گی کہ جب ریاست اپنا کام کرے گی اور حکومت اپنا کام کرے گی۔ غریب و امیر ، طاقتور و کمزور اور حکومت و اپوزیشن کی بات اپنی جگہ پر مگر ریاست طاقتور ہو تو بات بنے۔ حکومت خود ہی ریاست کو طاقتور بنانے سے ڈرتی ہے۔ حکمران اگر ریاست کو خود تسلیم کریں تو ہی ریاست طاقتور ہوگی۔ ماڈل ٹاؤن کے واقعہ پر مرکزی و صوبائی نامزد اور مجرم حکمرانوں کو ٹانگ دیا جاتا تو پارلیمنٹ کا دروازہ توڑنے، پی ٹی وی پر حملہ اور پولیس افسربری طرح زدوکوب پر مجرموں کو ضرور اور کھلے عام سزائیں بھی مل جاتیں۔ عدلیہ پر حملے، چیف جسٹس کو خریدنے اور آمریت کی حمایت کرنے پر سیاستدان نااہل قرار دئیے جاتے تو صاف ستھرے لوگوں کا اقتدار میں آنا بہت آسان ہوجاتا، ریاست بھی مضبوط ہوتی اور جمہوریت بھی مستحکم بن جاتی۔
آمریت کے پروردہ سیاستدانوں سے جمہوری کلچر کو پروان چڑھانے کی امید نامعقول منطق ہے۔ نوازشریف نے اپنے بچوں کے اثاثوں سے ہی لاتعلقی کا اعلان نہیں کررکھا ہے بلکہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ میرے بچے پاکستانی نہیں لندنی ہیں، ہم چاہیں تو وہ عدالت کے کہنے پر جوابدہ بھی نہیں ہوں گے۔جس طرح زرداری کے سوئس اکاؤنٹ بھی پاکستانی نہ تھے لیکن کرپشن کا پیسہ واپس لانے کا مطالبہ ہورہاتھا اسی طرح جن لوگوں نے کرپشن کے پیسوں پر باہر تعلیم اور نیشنیلٹی حاصل کی ہے وہ بھی قوم کو پورا پورا حساب دینے کے پابند ہیں، جو کرپٹ فوجی، بیوروکریٹ و جرنلسٹ ہیں وہ انہی کیساتھ ہیں سب کو پکڑنے کی بات بالکل درست ہے۔ جمشید دستی نے ایک دفعہ پانی کھول کر جس قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور اس کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہاہے ، وہ رونے کیساتھ ساتھ اس وقت ہنسے گا بھی سہی جب پانامہ لیکس میں شریف فیملی کو بھی اس طرح پنجاب پولیس عوام کے سامنے تذلیل کا نشانہ بنائے۔ زرداری کی زبان کاٹنے والے شریفوں کو مچھر کاٹنے کی تکلیف کبھی نہیں بھولتی ۔ جنرل راحیل ہی نہیں پاک فوج کی موجودہ قیادت نے بھی دہشت گردی کا شکار ہونے والے پاڑہ چنار کے متاثرین کو بڑی اہمیت دی لیکن سیاسی قیادت ڈھیٹ بن گئی ہے، حالانکہ قومی یکجہتی سیاسی قیادت کا فرض بنتاہے۔ مودی سرکار کی دوستی کو نبھانے کیلئے ہندو کی تقریبات میں شرکت کرکے رنگ پھینکنے کی دعوت دیتے ہو لیکن دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کے پاس نہیں جاتے۔ آخرکیوں؟۔عقیدہ کی جنگ اس بات پر ہے کہ کوئی جنت میں جائیگا کوئی جہنم میں، شرک کو اللہ معاف نہ کریگا۔ نوازشریف کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کہ جنت وجہنم کا فیصلہ ہم نے نہیں کرنا۔ عقیدہ میں زبردستی نہیں مگر جنت جہنم کی بنیاد پر بات ہے، پاڑہ چنار جنت کو دہشتگردوں نے جہنم بنا دیا اور تم نے پوچھا تک نہیں؟، جھوٹے!تمہاری کرپشن سے پنجاب کے عوام شعلوں کی نذرہوئے۔

ایک سے زائد شادیاں اور ایک خاتون کا درد بھرا خط

ایک سے زائد شادیاں
خاتون کے خط میں ایک کمی ہے وہ یہ کہ عورت میں ممتا کا جذبہ بھی ہوتا ہے ۔ خاتون اس عمر تک پہنچتی ہے جس میں قرآن کے مطابق نکاح کی رغبت نہیں رہتی لیکن بڑھاپے میں بھی ماں کیلئے سب سے بڑا اثاثہ اسکی اولاد ہوتی ہے ، خاتون بانجھ ہو تو اس کا دکھ جنسی خواہش سے زیادہ قابل رحم ہوتا ہے۔ عورت فطری طور پر شادی میں اولاد کو اولین ترجیح دیتی ہے۔

ایک خاتون کادرد بھرا خط
لاکھ دفعہ سوچا کہ یہ خط لکھوں یا نہ لکھوں کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ میری یہ باتیں بعض خواتین پسند نہ کریں بلکہ شاید وہ مجھے پاگل سمجھیں لیکن پھر بھی جو مجھے حق سچ لگا باقاعدہ ہوش وحواس میں لکھ رہی ہوں۔ میری ان باتوں کو شاید وہ خواتین اچھی طرح سمجھ پائیں گی جو میری طرح کنواری گھروں میں بیٹھی بیٹھی بڑھاپے کی سرحدوں کو چھو رہی ہیں۔ بہر حال میں اپنا مختصر قصہ لکھتی ہوں شاید میرا یہ درد دل کسی بہن کی زندگی سنورنے کا ذریعہ بن جائے اور مجھے اس کی برکت سے امہات المؤمنین رضی اللہ عنھن کے پڑوس میں جنت الفردوس میں ٹھکانہ مل جائے۔
میری عمر جب20 سال ہو گئی تو میں بھی عام لڑکیوں کی طرح اپنی شادی کے سہانے سپنے دیکھا کرتی اور سہانے سہانے خیالات کی دنیا میں مگن رہتی کہ میرا شوہر ایسا ایسا ہو گا۔ek-se-zyada-nikah-mohabbat-ki-shadi-kuwari-ladki-ibrahim-ismail-ishaq-islamic-scholars-triple-talaq-quran-syed-atiq-ur-rehman-gailani(2)

 ہم مل جل کر رہیں گے پھرہمارے بچے ہونگے اور ہم ان کی ایسی ایسی اچھی پرورش کرینگے وغیرہ وغیرہ. اور میں ان لڑکیوں میں سے تھی جوزیادہ شادیاں کرنیوالے مرد حضرات کو نا پسند کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی شدید مخالفت کیا کرتی ہیں کیونکہ میں اسے ظلم سمجھتی تھی.. اگر مجھے کسی مرد کے بارے میں پتہ چلتا کہ وہ دوسری شادی کرنا چاہتا ہے تو میں اس کی اتنی مخالفت کرتی کہ اسے نانی یاد آجاتی اور میں اسے بے تحاشا بد دعائیں دینے لگتی اور اس سلسلے میں میری اپنے بھائیوں اور چچا سے بھی اکثر بحث رہتی وہ مجھے زیادہ شادیوں کی اہمیت کے بارے میں بتاتے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں اور موجودہ حالات کے اعتبار سے سمجھانے کی بہت کوشش کرتے مگر مجھے کچھ سمجھ نہ آتی بلکہ میں انہیں بھی چپ کروا دیتی۔اسی طرح دن، ہفتے، مہینے سال گزرتے گئے میری عمر 30 سال سے تجاوز کر گئی اور انتظار کرتے کرتے میرے سر پر چاندی چمکنے لگی لیکن میرے خوابوں کا شہزادہ نہ آیا….!!!
یا اللہ! میں کیا کروں؟جی چاہتا کہ گھر سے باہر نکل کر آوازیں لگاؤں کہ مجھے شوہر کی تلاش ہے۔ جوانی کی ابتدا سے لے کرا ب تک میں نے نفس و شیطان کا کس طرح مقابلہ کیا اس بیہودگی اور بے حیائی کے ماحول میں کیسے بچی رہی میں اسے صرف اور صرف اللہ کا فضل اور والدین کی دعائیں ہی سمجھتی ہوں ورنہ۔۔۔۔۔اگرچہ گھر والے بھائی وغیرہ سب میری ضروریات کا خیال کرتے۔ ہر طرح کی دل جوئی کرتے میرے ساتھ ہنستے کھیلتے مجبوراً مجھے بھی انکے ساتھ ہنسی مذاق میں شریک ہونا پڑتا لیکن میری وہ ہنسی کھوکھلی ہوتی ہے ۔مجھے وہ حدیث یاد آتی جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ بغیر شادی کے عورت ہو یا مرد مسکین ہوتے ہیں اور واقعی میں نعمتوں بھرے گھر میں مسکین تھی۔ خوشی یا غمی کی تقریب میں رشتہ دار عزیز و اقارب جمع ہوتے تو جی چاہتا کہ ان کو چیخ چیخ کر بتاؤں کہ مجھے شوہر چاہیے لیکن پھر سوچتی کہ لوگ کیا کہیں گے کہ یہ کیسی بے شرم لڑکی ہے۔ بس خاموشی اور صبر کے سوا کچھ بھی چارہ نہیں تھا۔جب میں اپنی ہم جولیوں، سہیلیوں کے بارے میں سوچتی کہ وہ تو اپنے گھروں میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ خوش وخرم زندگی بسر کر رہی ہیں تو مجھے اپنی اس خلافِ فطرت زندگی پر شدید غصہ آتا۔ گھر کی محفلوں میں سب کے ساتھ مل کر ہنستی تو تھی لیکن میرا دل خون کے آنسو روتا تھا۔ لڑکے تو پھر بھی اپنی شادی کی ضرورت کا احساس گھر والوں کو دلا سکتے ہیں لیکن لڑکیاں اپنی فطری شرم وحیا میں ہی گھٹی دبی رہتی ہیں۔
وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ میرے بڑے بھائی کی شادی ایک عالمہ لڑکی سے ہو گئی جو ماشاء اللہ دینی اور دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ تقویٰ، پاکیزگی اور دیگر صفات حسنہ سے متصف تھی.. شادی کے چند دن بعد ہی گھر میں مدرستہ البنات شروع کر دیا گیا۔ میں بھی بی اے کے بعد فارغ تھی تو میں نے بھی اپنی پیاری بھابھی کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر سب سے پہلے داخلہ لے لیا۔ ان کی ترغیبی باتیں سن کر میراکچھ دھیان بٹا، تسلی ہوئی اور مدرسے کی پڑھائی کے ساتھ انہوں نے کچھ مسنون دعائیں و اذکار بھی بتائے جن کے پڑھنے سے دل کو کافی سکون محسوس ہوا۔ وہ تو میرے لیے کوئی رحمت کا فرشتہ ہی ثابت ہوئیں،اگر وہ نہ ہوتیں تو نجانے میں کن گناہوں کی دلدل میں دھنس چکی ہوتی یاخود کشی کی حرام موت مر کر جہنم کی کسی وادی میں دردناک عذاب سہہ رہی ہوتی۔
ایک دن میرے بڑے بھائی گھر آئے اور بتایا کہ آج آپ کے رشتے کیلئے کوئی صاحب آئے تھے لیکن میں نے انکار کر دیا.. میں نے تقریباً چیختے ہوئے پوچھا آخر کیوں؟ کہنے لگے وہ تو پہلے ہی شادی شدہ تھا اور مجھے آپ کا پتہ تھا کہ آپ کبھی بھی دوسری شادی والے مرد کو قبول نہیں کریں گی۔ آپ تو دوسری شادی کرنے والوں کے سخت خلاف ہیں.. میں نے کہا نہیں بھائی نہیں! اب وہ بات نہیں! جب سے میں نے بھابھی جان کے پاس قرآن وحدیث کا علم حاصل کرنا شروع کیا ہے،سیرت نبوی پڑھی ہے تو قرآن وحدیث کے نور سے میرے دماغ کی گرہیں کھلنا شروع ہوئیں اورمجھے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی حکمتیں سمجھ آنے لگیں،اب تو میں کسی مرد کی دوسری کیا تیسری یا چوتھی بیوی بننے کیلئے بھی خوشی سے تیار ہوں۔۔۔اور میں نے جو اب تک اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی مخالفت کی اس پر میں استغفار کرتی ہوں۔اللّہ کی قسم! جب تک زیادہ شادیوں والا اللہ کا حکم حضور ﷺاور صحابہؓ کے دور کی طرح عام نہیں ہوگا نکاح آسان ہو ہی نہیں سکتا.. جس مرد نے زندگی بھر ایک ہی شادی کرنے کا فیصلہ اور عزمِ مصمم کر رکھا ہے وہ کبھی بھی کسی مطلقہ، بیوہ،غریب، مسکین یا کسی بھی اعتبار سے کسی کمی کی شکار لڑکی سے شادی نہیں کرے گا۔!!!
ایک دن قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے یہ آیت نظر سے گزری:ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَرھوْا مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالہم …ترجمہ: یہ (ہلاکت) اس لیے کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات سے ناخوش ہوئے پس اللہ تعالیٰ نے(بھی) ان کے اعمال ضائع کر دیے۔ اس پر تو میرے تورونگٹے ہی کھڑے ہو گئے۔ میں نے تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو نہ صرف ناپسند سمجھا بلکہ اس کی شدید مخالفت کرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے میں اس خط کی وساطت سے مرد حضرات تک یہ پیغام پہنچانا چاہتی ہوں کہ اگر عدل کرنے کی نیت اور استطاعت ہو تو آپ ضرور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو زندہ کیجئے۔ دو، تین اور چار شادیوں کو فروغ دیجئے اور دکھی دلوں کی دعائیں لیجئے.. باقی جو عورت آئے گی اپنا نصیب ساتھ لیکر آئیگی اوراس سے جو اولاد ہوگی وہ بھی اپنا نصیب ساتھ لائے گی۔ رازق تو صرف ایک اللہ ہے اور اسی اللہ نے قرآن میں شادیوں کی برکت سے غنی کرنے کا وعدہ کیا ہے.. اور رسول اللہ ﷺنے بھی تنگ دستی دور کرنے کایہ ہی نسخہ بتایا ہے۔
اس موضوع پر ایک مثال ذہن میں آئی کہ ایک دفعہ حکومت نے فوجیوں کوڈوبتوں کو بچانے کی ایسی ٹریننگ دی کہ ہر فوجی بیک وقت چار چار ڈوبتوں کو بچا سکے!اچانک زور دار سیلاب آگیا بے شمار لوگ سیلاب کی زد میں آکر ڈوبنے لگے حکومت نے فوری ایکشن لیتے ہوئے فوج کو بھیجا کہ جا کر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بچائیں اب یہ فوجی جوان پانی میں کود کر بجائے چار چار آدمیوں کو نکالنے کے اگرصرف ایک ایک کو نکالنے پر اکتفا کریں اور باقی چیختے چلاتے رہیں بچاؤ بچاؤ، ہمیں بھی بچاؤ اور وہ ان بیچاروں کی سنی ان سنی کر دیں اور انہیں آسانی سے ڈوبنے اور مرنے دیں.تو آپ انہیں کیا کہیں گے؟حکومت انہیں کیا کہے گی؟کیاحکومت انہیں شاباش دے گی؟یا دوسری صورت:اگر کسی رحم دل فوجی کو ان پر ترس آجائے اور وہ کسی اور ڈوبتے کو بچانے لگے تو پہلے جو چمٹا ہوا ہے وہ کہے کہ خبردار کسی اور کی طرف ہاتھ بڑھایا بس مجھے ہی بچاؤ باقی ڈوبتے مرتے رہیں ان کی طرف دیکھو بھی مت اسے کیا کہا جائیگا۔؟کہیں اس معاملے میں ہمارے ہاں بھی کچھ ایسا تو نہیں ہو رہا…!!!
قال اللہ تعالیٰ:فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآء مَثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ….(سورہ النسا۔ آیت نمبر 3) قرآن میں زیادہ شادیوں والی اس آیت میں بالکل یہی واضح نظر آتا ہے کہ اصل حکم تو زیادہ شادیوں کا ہے مجبوراً ایک پر اکتفا کرنا جائز ہے۔
مثلاً اگر آپ اپنے ملازم کو بھیجیں جاؤ گوشت لاؤ ہاں اگر گوشت نہ ملے تو دال لے آنا۔ یعنی اصل حکم تو گوشت کا ہی ہے مجبوراً دال ہے۔ اسکی دلیل حضور ﷺ، خلفائے راشدین اور اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل ہے.. ان میں سے کوئی ایک بھی ہمارے مردوں کی طرح ایک والا نہیں سب کے سب زیادہ شادیوں والے ہیں۔ آپ اگر اپنی دینی اور دنیاوی مصروفیات کا بہانہ بنائیں تو بھی صحابہ کی زندگیوں کو دیکھئے وہ آپ سے زیادہ دینی اور دنیاوی مصروفیات والے تھے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمانِ عالیشان کی منشاء کو سمجھتے ہوئے ایک سے زائد نکاح کیے.پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر کچھ عرب خواتین پلے کارڈ اٹھائے باقاعدہ جلوس کی شکل میں نکل کر مردوں کو جھنجھوڑ تے ہوئے کہہ رہی تھیں:تزوجوا مثنی وثلاث ورباع ان کنتم رجالا ….کہ اے مردو! اگرتم واقعی مرد ہو تو دو دو،تین تین، چار چار شادیاں کرو اور بے شمار بے نکاحی عورتوں کیلئے حلال کا راستہ آسان کرو..ضروری نہیں کہ آپ کی پہلی بیوی میں کوئی عیب یا کمی ہو تو ہی آپ یہ قدم اٹھائیں۔ اس کے بغیر بھی آپ رسول ﷺ کی اتباع میں یہ عمل کر سکتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہر لحاظ سے پرفیکٹ تھیں پھر آپؐ نے اتنے نکاح فرمائے۔
اور چند باتیں میں ان مسلمان بہنوں سے کرنا چاہتی ہوں جن کواللہ تعالیٰ نے شوہر سے نوازا ہے وہ اللہ کا شکر ادا کریں کہ وہ مجھ جیسی کروڑوں بے نکاح مسکین خواتین میں سے نہیں ہیں۔ آپ کو شاید اندازہ ہی نہیں کہ بے نکاح رہنے میں کیسی کیسی مشقتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ٹھیک ہے آپ پر بھی کچھ مشقتیں آتی رہتی ہیں ان پر توآپ کو ان شاء اللہ اجر ملے گا لیکن یہ خلاف فطرت بے نکاح رہنا انتہائی خطرناک ہے.. میری آپ سے گزارش ہے کہ اگر آپ کے شوہر اس مبارک سنت کو زندہ کرنا چاہتے ہیں جسے لوگ میری طرح اپنی جہالت اورنادانی کیوجہ سے گناہ سمجھتے ہیں تو برائے مہربانی ان کیلئے ہر گز ہرگز رکاوٹ نہ بنئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پتہ چل جاتا تھا یہ جو خاتون حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو رہی ہے۔ اس سے آپ نکاح کر سکتے ہیں لیکن وہ تو کبھی بھی رکاوٹ نہیں بنیں اور پھر آپ ان خاتون سے نکاح کر بھی لیتے.. آپ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نقش قدم پرچلتے ہوئے اگر رکاوٹ نہیں بنیں گی تو اللہ تعالیٰ ان کیساتھ آپکا حشر فرمائیں گے۔ اللہ سے ڈریے ۔۔۔اللہ سے ڈریے ۔۔۔اللہ سے ڈریے۔ اللہ کے حکم کو پور اکرنے میں اپنے شوہر کی معاون بنیں اور کروڑوں عورتوں میں سے استطاعت کے بقدر کچھ تو کمی کا ذریعہ بن جائیں ۔
اس حکم کو برا سمجھنے والی میری بہنو! خدانخواستہ اگرآپ کا شوہر اللہ کو پیارا ہو جائے اور آپ عین جوانی میں بیوہ ہو جائیں اور آپ سے کوئی کنوارہ مرد شادی کرنے کوتیار نہ ہو تو آپ پر کیا بیتے گی؟ ذرا سوچئے! حدیث کی رُو سے ہم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں وہ دوسروں کیلئے پسند نہ کرنے لگیں۔ لہٰذا جیسے آپ کو شوہر اور بچوں کیساتھ رہنا پسند ہے اس طرح آپ دیگر خواتین کیلئے بھی یہ پسند کیجئے اور اگر آپ کو قربانی دینا پڑے تو اللہ کی رضا کیلئے قبول کیجئے ۔پھر اللہ کے خزانوں سے دنیا و آخرت کی خوشیاں حاصل کیجئے۔ میری پیاری بہنو! یہ دنیا فانی اور عارضی ہے اور دار الامتحان ہے.. آخرت باقی اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اور دار الانعام ہے۔
اس ایثار اور قربانی پر آخرت میں جواللہ آپ کو انعامات سے نوازیں گے آپ انکا اندزہ نہیں لگا سکتیں۔ اللہ تعالیٰ کے دیدار کی ایک جھلک آپ کو اس سلسلے میں آنے والی مشکلات، مشقتوں اورتکلیفوں کو بھلا دے گی۔ میری دل سے دعا ہے کہ اللہ کرے کہ میری کسی بہن کو اللہ کے اس حکم کو پورا کرنے اور فروغ دینے پر کبھی بھی کوئی تکلیف نہ آئے بلکہ راحت ہی ملتی رہے۔اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں سے ایک ماں سے بھی ہزاروں گنا زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہر ہر حکم میں اس کی طرف سے رحمتیں اور برکتیں ملتی رہیں گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی رحمۃ للعالمین ہیں وہ کبھی بھی ہمیں ایسا حکم صادر نہیں فرما سکتے جو ذرہ برابر بھی ہمارے لیے مشکل اور پریشانی کا باعث ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو اور اللہ میری جیسی تمام بہنوں کو خیر کے رشتے عطا فرمائے۔
ایک کتاب میں زیادہ شادیاں کرنے کے فضائل اور فوائد پڑھے وہ بھی آپ کی خدمت میں پیش کردوں:زیادہ شادیاں کرنے پر رسول اللہ کی کثرتِ امت والی چاہت پوری ہوگی۔ زیادہ بیویوں کے مل کر رہنے میں دین کی محنت آسان ہوسکتی ہے۔ سوکن رہنے سے ازواج مطہرات و صحابیات کی مشابہت اور اسکی برکت سے جنت میں ان کی رفاقت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مل سکتی ہے اگر اس کی وجہ سے خدانخواستہ کچھ مشقت اس دنیا میں آ بھی گئی تو آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی لامحدود زندگی میں ازواجِ مطہرات کے پڑوس والی جنت کی ایک جھلک سارے دکھوں کو بھلاسکتی ہے۔
پہلی بیوی میزبان بننے کا ثواب پاتی ہے۔ اگرچہ یہ حکم خواتین کو قدرے مشکل لگتا ہے لیکن وَقَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ میں جو تمام احکامات جو نفس کو پسند ہوں یا گراں سب ہی احکامات قبول کرنے کا جو دعویٰ ہے اس کی دلیل دینے کا موقع ملتا ہے۔ اسکے فروغ دینے سے بیوگان، مطلقات، شکل و صورت یا ذات پات وغیرہ کسی بھی کمی کا شکار خواتین کے لیے بھی نکاح کرنا آسان ہوسکتا ہے کیونکہ ایک ہی نکاح پر اکتفا کرنے کا جو مرد فیصلہ کرتا ہے تو وہ ہر اعتبار سے پرفیکٹ ہی کو پسند کریگا تو اس طرح آپ خود کشی اور غلط راستوں پر چلنے والی مجبور بہنوں کو حلال راستہ فراہم کرنے کا ثواب پاسکتی ہیں۔اس حلال راستہ کے بند ہونے کی وجہ سے بے شمار مرد حرام اور غلط راستوں سے اپنی خواہشات پوری کرنے پر مجبور ہیں تو جب مردوں کونکاح کے حلا ل طریقے سے اپنی خواہش پوری کرنے پر حدیث پاک کی روسے صدقہ کا ثواب ملے گا تو پہلی بیوی جو بخوشی اجازت دیتی ہے اس کو بھی پورا پورا ثواب ملے گا۔ میری نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کے والدین سے پر اصرار اور درد مندانہ گزارش ہے کہ میرے اس درد بھرے خط کو اپنے بیٹے یا بیٹی کی طرف سے سمجھئے..
اللہ کیلئے تمام رسوم ورواج (جوخود ساختہ ہیں۔ شریعت میں ان کا کوئی ثبوت نہیں۔ اکثررسوم ورواج تو ہندوؤں وغیرہ سے لیے گئے ہیں) ان سب سے توبہ کیجئے۔ شادی کو آسان بنا کر اس کی برکات ملاحظہ کیجئے۔ یہ تو حضور ﷺکا ارشادِ گرامی ہے جس کا مفہوم ہے کہ با برکت نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم خرچہ ہو … چنانچہ لڑکے والے لڑکی والوں کیلئے اور لڑکی والے لڑکے والوں کیلئے آسانیاں پیدا کریں تاکہ نکاح میں کم سے کم خرچہ ہو۔ اللہ پر توکل کیجئے اور دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ کیسے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے آپ کیلئے کافی ہوجاتا ہے۔ ومن یتوکل علی اللہ فھوحسبہ فقط و السلام آپکی گمنام بہن منقول

تین طلاق کے حوالہ سے حقائق کا ایک واضح آئینہ

انسانوں کے دلوں اور سننے پر مہریں لگ جائیں اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ جائے تو رحمت للعالمین ﷺ کااُسوہ حسنہ اور قرآن کی وحی بھی اثرانداز نہ ہو ان الذین کفروا سواء علیھم اانذرتھم ام لم تنذرھم لایؤمنوں Oختم اللہ علی قلوببھم وعلی سمعھم وعلی ابصارھم غشاوۃ
’’ بیشک جن لوگوں نے کفر کیا، ان کیلئے برابر ہے کہ ان کو آپ ڈرائیں یا نہ ڈرائیں،وہ ایمان نہیں لائیں گے، انکے دلوں اور قوت سماعت پر اللہ نے مہر لگادی اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ‘‘۔ انسان کی سمجھ میں بات نہیں آتی کہ دلوں اور سننے پر مہر کا کیا مطلب ہے؟۔ آنکھوں پر پردہ کیسے ہوسکتاہے؟۔ جب کوئی حق بات سمجھنے کے باوجود مفاد پرستی، ہٹ دھرمی، ڈھیٹ پن اور بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا انکار کرتاہے تو یہ بات خود بخود سمجھ میں آتی ہے کہ دلوں اور کانوں پر مہر اور آنکھوں پر پردہ سے کیا مراد ہے!۔
قرآن میں اسلام کی نشاۃ اول کے بعد مختلف سورتوں و آیات میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا کردار ادا کرنے والوں کاذکراوراحادیث صحیحہ میں وضاحت ہے ۔ فارس وخراسان اور سندھ وہند کی پاک سرزمین کے ہاتھوں فتح ہند کی بشارت سے لیکر بیت المقدس کی فتح تک کی تفصیل ہے، یہ سب نظر انداز ہو توبھی کوئی مسئلہ نہیں، پیش گوئی وقت پر پوری ہوتی ہے ، چاہے کوئی مانے یا نہیں مانے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم اللہ کی کتاب قرآن کریم کو محفوظ سمجھتے ہیں تو اس پر عمل کرنے کیلئے عوام کو صحیح دعوت کیوں نہیں دیتے؟۔ صحابہ کرامؓ نے قرآن کی حاکمیت کو مانا تو دنیا کے امام بن گئے ۔ہم خوار ہوئے ہیں تارک قرآن ہوکر۔
حضرت عمر فاروق اعظمؓ کا فیصلہ اور حضرت علیؓ کا فتویٰ قرآنی تعلیمات کے عین مطابق تھا۔ میاں بیوی میں لڑائی، جھگڑا، طلاق، علیحدگی اور جدائی کا مسئلہ جہاں تک بھی جس نام سے پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے عورت کیلئے عدت رکھ دی ہے اور اس عدت کے دوران باہمی رضامندی ، صلح اور معروف طریقے سے رجوع کا راستہ کھلا رکھاہے۔ میاں بیوی آپس میں راضی ہوگئے تو بھی یہ صلح ومعروف رجوع ہے اور معاملہ ہاتھ سے نکلنے کا اندیشہ ہو تو ایک ایک رشتہ دار دونوں کے خاندان سے فیصل مقرر کرکے بھی صلح و رجوع کا دروازہ کھلا ہے۔
قرآن میں عدت کے تین مراحل میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلہ میں معروف رجوع یا احسان کیساتھ رخصت کرنے کی وضاحت ہے۔ اگراس تیسرے مرحلہ میں طلاق کا فیصلہ برقرار رہے لیکن آخری لمحے جب تک عدت پوری نہ ہو، عورت دوسری جگہ شادی نہ کرنے کی پابند رہتی ہے بلکہ شوہر ہی اس کو صلح کی شرط پر لوٹانے کا حق رکھتاہے۔ وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحا (البقرہ:228)۔ رجوع کیلئے صلح شرط ہے۔ صلح اس صورت میں ہی ہوتی ہے جب دونوں فریق کو اختیار حاصل ہو۔ اللہ نے اسی لئے فرمایا کہ وان ارادا اصلاحا یوفق اللہ بینھما ’’اگر دونوں صلح چاہتے ہوں تو اللہ انکے درمیان موافقت پیدا کردیگا‘‘۔ معروف رجوع کا تعلق بھی باہمی صلح اور فریقین کی رضامندی کیساتھ ہے۔ اللہ نے طلاق کے بارے میں فتویٰ دیدیا کہ ’’عدت میں عورت انتظار کی پابند ہے اور شوہر ہی صلح کی شرط پر عدت کے دوران رجوع کرسکتاہے‘‘۔ جب مولوی دعویٰ کرے کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت قرآن کے اندر ہم نے محصور کرکے رکھی ہے، کوئی مسلمان بھی یہ جرأت نہیں کرسکتاکہ مُلا کی اجازت اور فتویٰ کے بغیر اپنی بیوی سے رجوع کرسکے اور عوام اسکے سامنے خود بھی لیٹ جائیں اور اپنی بیگمات کو بھی حلالہ کیلئے اسکے سامنے لٹا دیں تو ایسی بے غیرت قوم کی اللہ بھی پرواہ نہیں کرتا۔
بہت سے علماء ومشائخ ڈھیٹ نہیں بلکہ وہ اپنے مذہبی ماحول کی وجہ سے سمجھ رہے ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالہ کرنا اللہ اور اسکے رسولﷺ کا حکم ہے، حضرت عمرؓ نے ایک ساتھ تین طلاق کا حکم نافذ کرکے قرآن و سنت کو نظر انداز کیا ہوتا تو صحابہ کرامؓ کیسے اس پر خاموش رہ سکتے تھے؟۔بلاشبہ حضرت عمرؓ نے قرآن کے ہوتے ہوئے اجتہاد ی حکم ایجاد کرنے کی جسارت نہیں کی ۔ اہلحدیث اورشیعہ بکتے ہیں کہ ’’حضرت عمرؓ نے اجتہاد کیایابدعت اختیار کی‘‘۔ جب قرآن کا واضح حکم موجود ہو تو اجتہاد شریعت نہیں کفر کا درجہ رکھتاہے۔ جبکہ حضرت عمرؓ نے اسی اصول پر عمل کیا کہ پہلے قرآن میں مسئلے کا حل دیکھا، قرآن میں مسئلے کا حل نہ نکلا تو نبیﷺ کی سنت میں تلاش کیا اور سنت میں نہیں ملا پھر اپنے طور سے اجتہاد کیا یا مشاورت سے مسئلہ حل کرنے کی طرف توجہ کردی۔
ایک شخص اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دیتا ہے، بیوی ناراض ہوکر گھر چلی جاتی ہے، عدت کے دوران اللہ نے صلح کی شرط پر رجوع کا راستہ کھلا رکھا ہے لیکن عورت رجوع پر آمادہ نہیں ، اسکے گھر والے بھی رجوع کیلئے کوئی کردار ادا کرنے کیلئے تیار نہیں ، وہ برملا کہتے ہیں کہ آج ایک ساتھ تین طلاق دیدی ، کل کوئی حادثہ بھی پیش آسکتاہے، اس جذباتی سے رشتہ ناطہ جوڑنا نہیں چاہتے اور پورا خاندان صلح کے حق میں نہی۔ اگر شوہر زبردستی کرکے بیوی کو میکے سے نیزے و تلوار یا پستول و بندوق کے زور پر لانا چاہے تو فساد کا خدشہ ہوگا۔وہ بیوی کو لانے کے بجائے خود بھی موت کا شکار ہوسکتاہے۔ ایسی صورت میں شوہر حکمران سے فیصلے اور مدد کی توقع پر پہنچتا ہے۔ حکمران کا کام ہی عدل و انصاف کی فراہمی ہے۔ خلافت راشدہ میں فیصلے عدل ہی سے ہوتے تھے۔ حضرت عمرؓ کے سامنے ایک نئی صورتحال سامنے آئی۔ معاملہ ایک ساتھ تین طلاق کا تھا اور عورت رجوع کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔ اگر وہ خود راضی ہوتی یا اسکے خاندان والے صلح کیلئے رضامند ہوتے تو حضرت عمرؓ تک بات نہ پہنچتی بلکہ آپس میں رضامندی و صلح سے معاملہ طے کرلیا جاتا۔
اس واقعہ سے پہلے کوئی ایک ساتھ تین طلاق بھی دیتا تھا تو ایک طلاق قرار دی جاتی تھی، عدت کے تین مراحل میں تین طلاق کا تصور بالکل عام تھا، اب شوہر کی طرف سے ایک ساتھ تین طلاق کے بعدعورت کی طرف سے صلح نہیں ہورہی تھی تو مسندِ خلافت نے پہلے قرآن ،پھر سنت، پھر اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرنا تھا۔ حضرت عمرؓ کی آنکھوں سے فقہ واصول فقہ اور فتاویٰ کی کتابوں نے نہ تو قرآن چھپایا تھا اور نہ ہی سنت چھپائی تھی۔ قرآن میں اس معاملے کا بھرپور حل موجود تھا۔ اللہ نے شوہر کو صلح کی شرط پر رجوع کرنے کا حق دیا ، جبکہ عورت صلح پر رضامند نہیں تھی اسلئے حضرت عمرؓ نے عورت کے حق میں ہی فیصلہ دیدیا، اور ایسی ناچاکی کی صورت سے پھر بچنے کیلئے ارشاد فرمایا کہ ’’جب کوئی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے گا تو ہم اس پر تین ہی نافذ کر دیں گے، جس چیز کی اللہ نے وسعت دی تھی اس کا غلط فائدہ اٹھایا جارہاہے‘‘۔ اگر حضرت عمرؓ کے علاوہ دنیا کی کوئی بھی منصف عدالت ہوتی تو یہ یہی فیصلہ جج نے کرنا تھا، اسلئے کہ جب عورت صلح پر رضامند نہ ہواور کوئی بھی جج اس کو مجبور کرے تو یہ قرآن و سنت ، عقل و فطرت اور عدل وانصاف کی خلاف ورزی ہوگی۔ دنیا کو عورت کا حق اور عدل وانصاف کا تقاضہ قرآن وسنت اور خلافتِ راشدہ نے سکھایاتھا۔
حضرت عمرؓ نے دارالافتاء کی مسند پر بیٹھ کر فتویٰ نہیں دینا تھا بلکہ مسندِ اقتدار سے عدل وانصاف کیلئے قرآن و سنت سے فیصلہ کرنا تھا، اگر عورت ایک طلاق کے بعد بھی صلح پر آمادہ نہ ہوتی تو قرآن کے مطابق حضرت عمرؓ نے یہی فیصلہ دینا تھا کہ شوہر یک طرفہ رجوع نہیں کرسکتا، اسلئے کہ قرآن میں مشروط رجوع کا حق ہی شوہر کو دیا گیاہے، طلاق کے بعد صلح کے بغیر شوہر کو رجوع کا حق نہیں دیا گیا۔ حضرت عمرؓ کا یہ فیصلہ قرآن پر عمل کرانے کی بہترین مثال تھا۔ پھر وقت کے شیخ الاسلام، مفتی اعظم اور سب سے بڑے قاضی حضرت علیؓ نے فتویٰ دیا جو قرآنی آیات کے عین مطابق تھا کہ ’’ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد بھی باہمی رضا اور صلح سے رجوع ہوسکتاہے‘‘ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی شخص حضرت علیؓ کے پاس فریاد لیکر آتا کہ اس نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہیں تو حضرت علیؓ اس کی داد رسی اس انداز میں فرماتے کہ’’ تونے اپنا حق کھودیا ہے اور وہ تجھ پر طلاق ہوچکی ہے‘‘۔ وجہ یہ تھی کہ اگر حضرت علیؓ نے فتویٰ دیا ہوتا کہ وہ رجوع کرسکتاہے تو وہ صلح کئے بغیر بھی رجوع کرلیتا، پھر عورت دوسری جگہ شادی نہیں کرسکتی تھی۔فیصلے کے برعکس فتویٰ دینا بڑے درجہ کی جہالت ہوتی۔
حضرت عمرؓ نے صلح نہ ہونے کی صورت میں طلاق کا فیصلہ برقرار رکھا ، شوہر کو غیر مشروط رجوع کا حق نہیں دیااور حضرت علیؓ نے صلح کی شرط پر رجوع کے فتوے کی وضاحت فرمادی اور انہوں بھی غیرمشروط رجوع کا حق نہیں دیا تھا۔ اگر بالفرض محال حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ دونوں متفق ہوجاتے کہ صلح کی شرط پر رجوع نہیں ہوسکتاہے تو قرآن پر پھر بھی عمل ہوجاتا اور دونوں کی بات بالکل رد کردی جاتی۔ قرآن کے واضح الفاظ کے مقابلہ میں کوئی واضح وصریح حدیث ہو تب بھی اس حدیث کو بھی رد کردیا جائے گا۔ درسِ نظامیں اسی بات کی ساری ٹریننگ دی جاتی ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ نے ٹھیک اتفاق کیا کہ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کا مؤقف درست تھا۔ اگر شوہر کو صلح کے بغیر کسی بھی طلاق کے بعد یک طرفہ رجوع کا حق دیا جائے تو یہ قرآن کے خلاف اور عورت کے ساتھ بدترین ظلم ہوگا۔
ائمہ اربعہ نے حکمرانوں کے ہاتھوں بہت مشکلات کی زندگی گزاری۔ آج بھی ان کا درست مؤقف عوام کے سامنے موجود نہیں۔ وہ مزارعت کو سود اور ناجائز قرار دیتے تھے،قرآن کی تعلیم اور عبادات پر معاوضہ ناجائز سمجھتے تھے لیکن بعد والوں نے درباری بن کر اسلام کا حلیہ بگاڑنے میں کردارادا کیا تھا۔ ان بیچاروں کو پتہ ہی نہ ہوگا کہ جب میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہوں تب بھی حلالہ کا فتویٰ میاں بیوی کے درمیان رکاوٹ بنے گا۔ قرآن کی جس آیت میں طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کا ذکر ہے ، اس سے پہلے متصل تفصیل کیساتھ یہ وضاحت بھی ہے کہ دومرتبہ طلاق پھرمعروف رجوع یا احسان کیساتھ رخصت کرنے کا فیصلہ کرنا ہے۔ اگر رخصت کرنے کا فیصلہ کیا تو پھر تمہارے لئے جوکچھ بھی ان کو دیا ہے اس میں سے واپس لینا جائز نہیں مگر یہ کہ دونوں یہ خوف رکھتے ہوں کہ اگر وہ چیز واپس نہ کی گئی تو اللہ کی حدود پر دونوں قائم نہیں رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہ خوف ہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں، یہ اللہ کی حدود ہیں ،ان سے تجاوز نہ کرو اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرتاہے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔پھر اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے جائز نہیں یہاں تک کہ کسی اور شوہر سے شادی نہ کرلے۔۔۔‘‘۔
درسِ نظامی میں اصولِ فقہ کی کتاب ’’نورالانوار‘‘ میں حنفی مؤقف واضح ہے کہ اس طلاق کا تعلق متصل فدیہ کی صورت سے ہے۔ یہ اس طلاق کی ضمنی شئی ہے، دو مرتبہ طلاق سے اس طلاق کا براہِ راست تعلق نہیں ہوسکتا۔ رسول ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ دو مرتبہ طلاق کے بعد اوتسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے۔ علامہ ابن قیمؒ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی تفسیر نقل کی ہے کہ ’’اس طلاق کا تعلق مرحلہ وار دو طلاقوں کے بعد تیسری مرتبہ طلاق میں بھی اس صورتحال کیساتھ خاص ہے کہ جب دونوں میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والوں نے مل کر فدیہ دینے کا فیصلہ بھی کیا ہو اور قرآن کا حکم اپنے سیاق وسباق سے ہٹانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ( زادالمعاد: علامہ ابن قیمؒ )۔
قرآن کی ایک آیت کو سیاق وسباق سے ہٹایا گیا تو باقی آیات سے رہنمائی بھی حاصل نہیں کی گئی۔ مفتی حسام اللہ شریفی کا نام مولانا حسین احمد مدنیؒ نے رکھا تھا، مولانا احمد علی لاہوریؒ نے ان کوشرعی مسائل کا جواب لکھنے کا حکم دیا تھا۔ کئی دہائیوں سے اخبارِ جہاں میں قرآن وسنت کی روشنی میں طلاق کا فتویٰ عام کتابوں کے مطابق دے رہے تھے مگر قرآنی احکام کو پہچانتے ہیں ،ان میں تکبر نام کی کوئی چیز نہیں۔ ضعیفی میں بھی غربت کی زندگی ہے، مکان بھی بالکل دب چکاہے ،پانی کے نکاس کا مسئلہ ہوگا، انکے بیٹے کو حیدر عباس رضوی نے بڑا بلیک میل کیا، یہانتک مکان بیچنے تک نوبت پہنچ چکی تھی۔سپریم کورٹ کے شرعی اپلٹ بینچ اور شرعی کورٹ کے مشیردیوبندی مکتب کے مفتی حسام اللہ شریفی بریلوی مکتب کے ابومسعود مفتی خالدحسن مجددی ، اہلحدیث کے علامہ ارشد وزیر آبادی، جماعت اسلامی کے مفتی علی زمان کشمیری اور اہل تشیع کے ڈاکٹر محمد حسن رضوی وغیرہ کی تائیدات حق کی حمایت میں تاریخ کی بہت بڑی مثال ہے، بریلوی اور دیوبندی علماء ومشائخ کھل تائیدات کررہے ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ کے حکم کی کھل کر خلاف ورزی کی تھی لیکن وہ جان بوجھ کر اپنے عزم کیساتھ اس میں خطاء کار نہ تھے جبکہ ابلیس نے تکبر اور جان بوجھ کر اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی،یہ فرق ملحوظِ خاطر رہنا چاہئے۔
بھنور آنے کو ہے اے اہل کشتی ناخدا چن لیں
چٹانوں سے جو ٹکرائے وہ ساحل آشنا چن لیں
زمانہ کہہ رہاہے میں نئی کروٹ بدلتا ہوں
انوکھی منزلیں ہیں کچھ نرالے رہنما چن لیں
اگر شمس و قمرکی روشنی پر کچھ اجارہ ہے
کسی بیدار ماتھے سے کوئی تارِ ضیاء چن لیں
یقیناًاب عوامی عدل کی زنجیر چھنکے گی
یہ بہتر ہے کہ مجرم خود ہی جرموں کی سزا چن لیں
جفا و جور کی دنیا سنوردی ہم نے
زہے نصیب کہ ہنس کر گزار دی ہم نے
کلی کلی ہمیں حیرانیوں سے تکتی ہے
کہ پت جھڑوں میں صدائے بہار دی ہم نے
شریعت کی راہ میں بھول بھلیاں نہیں
دینِ حق کی عظمت نکھار دی ہم نے
علماء کرام و مشائخ عظام کو کھل کر میدان میں آنا چاہیے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

جاوید احمد غامدی کے انتہائی باطل نظرئیے کا تعاقب

جاوید غامدی نے حالیہ ویڈیو بیان میں کہا کہ’’ حضرت نوحؑ کے تین بیٹے تھے ، ایک بیٹے کی اولادافریقی اقوام ہیں، دوسرے بیٹے کی موجودہ مسلمان اقوام ہیں اور تیسرے بیٹے کی امریکی ویورپی اقوام ہیں۔ قرآن کے مطابق تلک ایام نداولھا بین الناس باری باری پہلے افریقی اقوام دنیا پر حکومت کرچکی ہیں، پھر نوح علیہ السلام کے دوسرے بیٹے کی اولاد مسلمانوں نے دنیا پر حکومت کی ، اب مسلمانوں کی باری کبھی نہیں آئے گی ، یہ قرآن کا فیصلہ ہے ، حضرت نوحؑ کے تیسرے بیٹے کی اولاد امریکہ وپورپ نے دنیا میں حکومت کرنی ہے البتہ مسلمان اپنی زندگی کے طرز کو بہتر کرنے کی کوشش کریں اور مسلمانوں کے عالمی غلبہ اور امام مہدی کے انتظار میں بیٹھنا ہوتو انکی مرضی‘‘۔
جاوید غامدی کو سند سمجھا جاتاہے، وہ اپنی ذہنی ساخت کو قرآنی تعلیم کا رنگ نہ دیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ یہود کا کام یہ تھا یحرفون کلم من بعد مواضعہ ’’ جملوں کو ان کی جگہوں سے ہٹا کر بات کرتے تھے‘‘۔ جاوید غامدی نے یہودی احبار کے طرز پر قرآنی آیت کو غلط رنگ میں پیش کیا۔ اللہ نے نوحؑ کے بیٹوں کی ترتیب کے لحاظ سے نہیں فرمایا کہ’’ ترتیب وار باری باری ان کو حکومت ملے گی ‘‘ بلکہ ونرید ان نمن الذین استضعفوا فی الارض ان نجعلھم الائمہ وان نجعلھم الوارثیں ’’ ہمارا پروگرام ہے کہ جن لوگوں کو دنیا میں کمزور کرنے کی پوری سازشیں ہورہی ہیں کہ انہی لوگوں کو من حیث القوم دنیا کا امام بنائیں اور انہی کو زمین کا وارث بنائیں‘‘۔ قرآن تو ان لوگوں کو حوصلہ دیتا ہے جنکے خلاف سازش پر دنیا متحد ہوتی ہے۔ یوسف علیہ السلام کو بھائیوں نے کنویں میں پھینکااور عزیز مصر کی بیگم نے جیل میں ڈلوادیا مگر جیل سے وہ اقتدار تک پہنچے۔ خمینی سے جیل میں شاہ ایران نے پوچھا کہ تیرے ساتھی کہاں ہیں؟، خمینی نے جواب دیا کہ ’’ماؤنوں کی گود میں‘‘ امریکہ میں کالوں کیخلاف بدترین قوانین تھے لیکن بارک حسین مشعل اوبامہ کیساتھ پورے 8 سال تک امریکہ کا صدر بن کر وائٹ ہاؤس میں رہے۔
جماعتِ اسلامی کے ڈاکٹر فرید پراچہ نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل پر کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نبیﷺ کو اذیت دینے والوں کا حکم دیاہے کہ اینما ثقفوا فقتلوا تقتیلا ’’ ان کو جہاں بھی پاؤ ، قتل کردو‘‘۔ حالانکہ یہ آیت بھی ڈاکٹر فرید پراچہ نے اپنی جگہ سے ہٹاکر پیش کی جو یہود کا وطیرہ تھا۔آیت میں خواتین کوزبردستی سے زیادتی کا نشانہ بنانے پر یہ خبر دی گئی ہے کہ پہلے بھی ایسے لوگ گزرے ہیں جو خواتین کو زیادتی کا نشانہ بناتے تھے لیکن پھر اللہ نے ان کو مغلوب کردیا اور اچھے لوگوں کے پاس طاقت آگئی تو خواتین سے زیادتی پر قتل کرنے کا سلسلہ آتا تھا۔ نبیﷺ نے ایک خاتون کی شکایت پر یقین کیا تو گواہ طلب کئے بغیر قرآن کے حکم کے مطابق اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا تھا۔ افسوس کہ زبا بالجبر کیلئے بھی علماء نے قرآن و سنت کیخلاف چار شرعی گواہوں کو ضروری قرار دیا تھا جس کی وجہ سے کوئی مجرم کیفر کردار تک نہیں پہنچتاتھا ۔ پرویز مشرف نے اس وجہ سے زنا بالجبر کو تعزیرات میں شامل کیا، جس پر مفتی تقی عثمانی نے انتہائی غلط تحریر لکھ ڈالی، وائل ابن حجرؓ کی روایت میں گواہی کے بغیر سنگسار کرنے کی وضاحت ہے ، اسی روایت کا حوالہ دیکر سنگسار کرنے کی حد کو ثابت کیا لیکن گواہی کے حوالہ سے اس حدیث کو نہ مانا۔ جماعتِ اسلامی نے اس کو پمفلٹ کی صورت میں خوب بانٹا، جس کا ہم نے جواب بھی لکھ دیا تھا،مذہبی طبقے کا معاشرے میں یہ سب سے بدتر کردارہے۔
مشعال خان کیس کے بعد جماعتِ اسلامی پختونخواہ علماء ومشائخ کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا، تقاریر کے دوران کوئی قافلہ داخل ہوتا تو نعرے بازی کا تکلف کرتے ہوئے عجیب وغریب چال ڈھال کا مظاہرہ کیا جاتا تھا، علماء اور مشائخ اس طرح کی ڈرامہ بازی سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ مشعال خان پر خوب تنقید کی گئی۔ جبکہ ڈاکٹر فرید پراچہ نے مشعال خان کیس کے بعد ٹی وی پروگرام میں کہا کہ ’’ بہت سی آیات ہیں جن میں نبیﷺ کو اذیت دینے پر قتل کا حکم ہے‘‘ ۔ ایک خاتون پوچھ رہی تھی کہ بتاؤ قرآن میں کہاں یہ حکم ہے۔ لیکن ڈاکٹر فرید پراچہ مسلسل اپنی بات دہرا رہا تھا کہ قرآن میں بہت سی آیات ہیں مگر حوالہ نہیں دے رہا تھا۔ سلمان تاثیر کے حوالہ سے بھی نبیﷺ کی اذیت پر جو آیت پیش کی تھی ،اس کا اس رکوع سے بھی تعلق نہیں، جس میں نبیﷺ کی اذیت کے حوالہ سے ذکر ہے۔ اس اذیت میں بھی بنیادی بات یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ مخاطب ہیں کہ جب نبیﷺ کھانے کی دعوت پر بلائیں تو پہلے سے آکر مت بیٹھو، کھانا کھانے کے بعد بھی باتیں بنابناکر زیادہ دیر تک نہ بیٹھو ، اس سے نبیﷺ کو اذیت ہوتی ہے۔۔۔ ‘‘۔ جماعتِ اسلامی جان بوجھ کر بے شعور عوام کے جذبات کو مذہبی بناکر اپنے مذموم سیاسی عزائم کے ذریعے اقتدار تک پہنچنا چاہتی ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تشدد کی سیاست اسلامی جمعیت طلبہ نے شروع کی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کی آمریت اور نوازشریف کے کرپشن میں جماعتِ اسلامی برابر کی شریک رہی۔ اسلامی جمہوری اتحاد وغیرہ کے نام سے جماعتِ اسلامی ہمیشہ استعمال ہوتی رہی ہے۔ جس طرح ہماری اسٹیبلشمنٹ نے شریف برادران کو پاک صاف رکھا تھا اور پانامہ لیکس میں اس کا پاجامہ لیکس ہوگیا ، اسی طرح جماعتِ اسلامی کو بھی پاک صاف رکھا ہے۔
پروفیسر غفور احمد ؒ جیسے اچھے لوگ جماعت اسلامی میں بہت ہیں لیکن انہیں بالکل بے خبر رکھا جاتاہے، اسلامی جمہوری اتحاد کے بارے میں بھی پروفیسر غفور احمد نے بعد میں بتایا تھا کہ وہ لاعلم رہے اور بعد میں حقائق کا پتہ چلاہے۔ مشعال خان کے والد صاحب کے پاس جماعت اسلامی دیر کا کوئی شخص آیاتھا تو اس نے کہا کہ ’’ہم دیر میں علماء کو بہت آگے آنے اور اہم معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرنے دیتے ، تم لوگ علماء کو کیوں اتنی اہمیت دیتے ہو؟ ‘‘۔ واقعی جماعت اسلامی میں علماء ومشائخ کی اوقات بھی نہیں، جماعت کاامیر کوئی عالم نہیں بن سکتا، سید منور حسن سے سلیم صافی نے ضمیر کی بات کہلوائی تو جماعت کی امارت سے انکو ہٹادیا گیا۔ جماعت اسلامی ضمیر رکھنے والے افراد کو بھی آگے نہیں لاتی جو باشعور اور مخلص ہوں، سید منور حسن کو سیدھا سادا ہونے کے علاوہ کراچی پر قابو پانے کی غرض سے لایا گیا۔جمعیت علماء اسلام نے بھی علماء کی بھیڑ کے ہوتے ہوئے اکرم خان درانی کو داڑھی رکھا کر وزیراعلی بنایاتھا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری پہلے نوازشریف کا غلام رہا، تمام جرموں میں شریک اور چشم دید گواہ،اب شریف برادری کی بھینس سے مولانا فضل دودھ پی رہاہے۔

جاوید غامدی پر تبصرہ: علماء ومشائخ کا کردار قرآنی حقائق کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :لعن الذین من الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان داؤد وعیسیٰ ابن مریم ، ذٰلک بما عصوا وکانوا یعتدونOکانوا لا یناھون عن المنکر فعلوہ، لبئس ماکانوا یفعلونOتری کثیرا منہم یتولون الذین کفروا، لبئس ماقدمت انفسھم اَن سخط اللہُ علیہم و فی العذاب ہم خالدونOولو کانوا یؤمنون باللہ والنبی وماانزل الیہ مااتخذوھم اولیاء ولٰکن کثیرا منہم فاسقونOلتجدن اشد الناس للذین اٰمنوا الیہودو الذین اشرکوا ولتجدن اقربھم مودۃ للذین اٰمنوا قالوا انا نصٰرٰی، ذٰلک بان منہم قسیسین ورھباناً وا نہم لایستکبرون Oواذا سمعوا ماانزل الرسول تریٰ اعنہم تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق،یقولون ربنا امنا فاکتبنا مع الشٰھدینOالمائدہ
’’داؤداور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت ہوئی ان لوگوں پر جنہوں نے بنی اسرائیل میں سے کفر کیا۔ یہ اسلئے کہ نافرمانی اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔ ایکدوسرے کو برائی سے نہ روکتے، جوکرتے تھے۔ برا ہے جو وہ کرتے تھے۔ آپ دیکھتے ہو کہ ان میں اکثر کافروں کو حکمران بناتے ۔کیاہی برا ہے جو اپنی جانوں کے مستقبل کیلئے آگے بھیجتے یہ کہ اللہ نے ان پر سختی(جبر وظلم) مسلط کردیا اور وہ عذاب(ظالمانہ نظام ) میں ہمیشہ رہیں گے۔اگر یہ اللہ، نبی اور جو اس کی طرف نازل کردہ پر ایمان لاتے توان کو حکمران نہ بناتے مگران میں اکثر لوگ فاسق ہیں، اورآپ پاؤ گے،دشمنی میں زیادہ سخت مسلمانوں کیلئے یہود اور جو لوگ مشرک ہیں اور آپ پاؤگے، مسلمانوں کیلئے محبت میں زیادہ قریب ان لوگوں کو جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں، یہ اسلئے کہ ان میں علماء و مشائخ ہیں اور یہ کہ وہ لوگ تکبر نہیں کرتے اور جب سنتے ہیں کہ جورسول پر نازل ہوا توآپ دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں، اسلئے کہ وہ حق کو پہچانتے ہیں،کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ ! ہمیں گواہوں کیساتھ لکھ دیں‘‘۔ المائدہ
بنی اسرائیل کے مشہور حکمران حضرت داؤدؑ اور ان کے فرزند سلیمانؑ تھے۔ آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے اور بنی آدم و ملتِ ابراہیمی کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ ہیں۔ جب قرآن نازل ہوا تو اس وقت یہود اور مشرک مسلمانوں کے سخت دشمن تھے اور نصاریٰ محبت میں زیادہ قریب تھے ،اسلئے کہ ان میں علماء ومشائخ تھے اورجن میں تکبر نہ تھا، وہ حق کوپہچانتے تھے اور گواہی دیتے۔ جب اسلام کو دوبارہ غلبہ نصیب ہوگا تو پھر علماء ومشائخ اہل حق سے محبت میں قریب اور کھل کر حمایت کرنے میں پیش پیش ہونگے۔ جس طرح اہل کتاب کے دو طبقے تھے ایک یہود اور دوسرے نصاریٰ اور یہود خود کو زیادہ باشعور، چالاک اور عیار سمجھتے تھے اور وہ اس وجہ سے متکبر بھی تھے۔ اسی طرح جدید تعلیم یافتہ مذہبی طبقہ اسلامی اسکالرز یہود سے زیادہ مشابہت رکھتاہے۔ یہ ظالم حکمران طبقہ کیلئے الۂ کار کا کردار ادا کرتاہے۔ ان میں بڑا غرور اور تکبر ہے اور مفادپرستی کے داؤ وپیج سے واقف ہوتے ہیں جبکہ اکثرعلماء ومشائخ سیدھے سادے ہوتے ہیں جو تکبر، مفادپرستی ، چالاکی وعیاری سے پاک اور حق سے دشمنی نہیں رکھتے ۔علماء ومشائخ حضرت عیسیٰ ؑ کے انصار و حواریوں سے مشابہت رکھتے ہیں جن کے قسیسین ورھبان کا سلسلہ جاری رہا۔ علماء اور مشائخ کو صحابہ کرامؓ سے ایک تسلسل کیساتھ عقیدت ومحبت کا تعلق رہاہے۔ حق کی معرفت کی ان میں صلاحیت بھی ہے اور وہ تکبر بھی نہیں رکھتے ہیں۔ قرآن میں جو صفت ان کے علماء ومشائخ کی بیان ہوئی ہے وہ ہمارے ہاں بھی ہے۔ جبکہ جدید تعلیم یافتہ طبقے نے جو اسلامی اسکالرز کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے،یہ پڑھا لکھا مگر اسلام کے مبادی سے جاہل طبقہ ہے، ان میں عقیدت اور معرفت نہیں اور یہ یہودیوں کی طرح تحریف کا مرتکب طبقہ ہے۔ یہ فاسق حکمرانوں کیساتھ ملکر مذہب کو سیاسی ڈھال کے طور پر استعمال کررہاہے یہ حق کو قبول نہیں کرتا۔
ہم پر ایک عرصہ سے چالاک وعیار طبقہ کی اسلئے حکمرانی ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست ہورہی ہے لیکن اصل شرعی احکام کی طرف مذہبی اور حکمران طبقہ توجہ نہیں کرتا۔ ظالمانہ وجابرانہ نظام کے عذاب سے نکلنے کیلئے قرآنی آیات کی طرف رجوع بہت لازمی ہے۔ جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا مودودیؒ پہلے داڑھی منڈاتے تھے، پھر بہت مختصر داڑھی رکھ لی اور پھر ساتھی علماء کے دباؤ پر داڑھی بہت بڑھالی۔ جماعت اسلامی نے طاقت کے حصول کیلئے پاکستانی ایجنسیوں سے امریکی سی آئی اے تک قوت کی وصولی اور اقتدار تک رسائی کیلئے سیاست وجہادکے میدان میں اپنی خدمات پیش کیں، جس کی وجہ سے بہت کم تعداد کے باوجود آئینۂ اقتدار میں حصہ بقدر جثہ سے زیادہ اپنا حصہ پاتے رہے۔ جاوید غامدی، ڈاکٹر اسرار، ڈاکٹر ذاکرنائیک،وحید الزمان، ڈاکٹرطاہرالقادری ودیگر وہ اسلامی سکالروں نے مدارس کی بنیادی تعلیمات اور علماء ومشائخ کا راستہ چھوڑ کر اپنے طرز پر اسلام کو مسلمانوں کے سامنے پیش کیا، ان کا طرزِ عمل اہل کتاب میں یہودیوں کی طرح ہے اور علماء ومشائخ کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ نصاریٰ کی طرح ہیں۔ نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ امت بھی سابقہ قوموں یہودونصاریٰ کے طرز پر چلے گی۔ مولانا سیدمودودی ؒ نے لکھا تھا کہ ’’ امام مہدی بالکل ایک عام شخص ہوگا، ہر میدان میں اپنا لوہا منوا دے گا، سب سے پہلے علماء و صوفی صاحبان ہی اسکے خلاف شورش برپا کرینگے وہ تمام جدیدوں سے بڑھ کر جدید ہوگا‘‘۔ حضرت ابراہیمؑ کی قوم مشرکین مکہ اسلام کی نشاۃ اول سے ختم ہوئے، حضرت نوحؑ کی قوم ہندو اسلام کی نشاہ ثانیہ سے ختم ہونگے۔ سچے علماء ومشائخ سے اہل حق کو بہت توقعات بھی ہیں جس پر وہ پورے اتر رہے ہیں ،علماء ومشائخ اربابامن دون اللہ کی شکل میں بتوں سے زیادہ خطرناک بھی ہیں اسلئے کہ دین میں غلو اور تحریف کے وہ مرتکب ہیں، اوران بتوں کا پیٹ، دل ودماغ، بیوی بچے اور رشتہ دار بھی ہیں جو مذہب کے نام پر کاروبار بھی کرتے ہیں اور جانتے بوجھتے حق کے مخالف بھی ہیں البتہ علماء ومشائخ کی اکثریت جدید اسلامی اسکالروں کے مقابلہ میں بہت اچھی ہے۔
اسلامی جمہوری اتحاد کے صدر غلام مصطفی جتوئی تھے، سینئرنائب مولانا سمیع الحق کو سود کیخلاف آواز اٹھانے پر نوازشریف نے اسکینڈل سے بدنام کیا تھا۔ مفتی تقی عثمانی کی برادری شروع سے حکومتی تانگہ ہے، اپوزیشن کی پہچان مولانا فضل الرحمن بھی میٹھاخان بن گیا۔ سیاستدان کھلونے ہیں ان کی کلوننگ کہیں اور سے ہوتی ہے،اسلامی احکامات کا معاشرے میں احیاء مسائل کا حل ہے۔