پوسٹ تلاش کریں

USA & Israel planted Taliban & Al-Qaeda as a conspiracy against Muslim community. The Quran already revealed severity of conspiracies designed by Jewish and Christ that even rocks could get demolished.

rustam shah mohmand
dr afia siddiqui
rauf klasra
asad toor journalist
osama bin laden
usman kakar
majeed achakzai

اللہ نے فرمایا : اے ایمان والو! کہو سیدھی بات ، تمہارے اعمال کی اصلاح اور گناہوں کی مغفر ت کردیگا۔ القرآن: آؤ سیدھی بات کریں

طالبان اور القاعدہ کے نام پر امریکہ اور اسرائیل نے اُمت مسلمہ کیخلاف سازش کی ۔قرآن میں یہودونصاریٰ کی اس سازش کا ذکر ہے کہ جس سے پہاڑ بھی ہل جائیں

تحریر : سید عتیق الرحمان گیلانی
وزیراعظم کی تقریر کو خوش آئند کہا گیامگر یہ جنگ کی کوئی نئی سازش نہ ہو۔ رؤف کلاسرا نے کہاکہ” القاعدہ و طالبان نے پولیس،فوج، عوامی مقامات، کھیل کے میدانوں، مساجد، گھروں ، بازاروں، ہوٹلوں اور کچہریوں کو نشانہ بنایا۔ دجالی لشکر کے ظلم کی انتہاء ہوگئی تو فوج نے انکا قلع قمع کیا۔ وزیراعظم کا ان کو مظلوم اور فوج کو ظالم کہنا قابلِ مذمت ہے۔ پرویزمشرف(parvaiz musharraf) نے امریکہ کو ہاں کی تو اسکے ریفرینڈم کی حمایت کیا ایوبیہ کے بندروں نے کی تھی؟۔ دھرنے سے پنجاب پولیس کے گلوبٹوں کو طالبان (taliban)کے سپرد کرنے کا اعلان کس نے کیا؟”۔ رؤف کلاسرا (rauf clasra)نے طالبان کے کرتوت کی تفصیل اور باقی بے گناہ افراد کی فہرست کا ذکر نہیں کیا مگر طالبان کے مظالم کوخالی فوج کی شہادت تک محدود کرنا غلط ہے۔
افغانستان کو خونریزی کا سامنا ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ریاست، حکومت ،عوام کا ترجمان ہوتا ہے۔ کسی میں اشرف غنی اور اس کی حکومت سے ہمدردی ہے۔توزیادہ تر اشرف غنی(ashraf ghani) اور اس کی ٹیم کو کچلنے کے خواب دیکھتے ہیں۔کچھ طالبان کو کچلنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت ، ریاست اور عوام کو چاہیے کہ بڑھ چڑھ کر امریکی انخلاء سے پہلے اس خانہ جنگی کو روکنے میں اپنا کردارادا کرے۔ امریکہ نے پیسہ دیا تو ہم نے افغان وار لڑی۔ امریکہ نے مجبور کیا تو طالبان کی حکومت کو گرانے میں کردار ادا کیا اور اب کچھ نہیں مل رہاہے تو افغانیوں کی صلح کیلئے کلمات تک ادا کرنے سے قاصر ہیں؟۔ خونریزی کے عزائم بیان کرتے ہیں؟۔ اوریا مقبول جان() کو پیراشوٹ سے طالبان کے ہاں اتارا جائے تاکہ انسانی شکل میں شیطان کا پتہ چل جائے۔ کیا اوریامقبول جان اپنی اس آخری عمر میں بھی شوقِ شہادت نہیں رکھتا ہے؟۔
صحافی صا بر شاکر(sabir shakir) نے کہا ”امریکہ کے نکلنے کے بعد چھ ماہ میں اشرف غنی کی حکومت گرے گی (30)ہزار امریکن فوجیوں نے(9/11)کے بعد خود کشیاں کیں۔ اگر طالبان کابل پر قبضہ کریں تو امریکہ طالبان کی حکومت تسلیم نہیں کریگا”۔

Rustam Shah Mohmand disclosed that he himself heard the cries of a girl being tortured sexually and physically at Bagram Air base, later, She was known as Dr. Aafia Siddiqui.


رستم شاہ مہمندنے بتایا کہ بگرام ائیر بیس پر ایک لڑکی پر جنسی اور جسمانی تشدد ہورہاتھا میں چیخوں کی آوازیں اپنے کانوں سے سن رہاتھا بعد میں پتہ چلا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی تھیں۔

رستم شاہ مہمند(rustam shah mumand)نے افغان رفیوجز کے ڈٹ کر پیسے کھائے۔ پھر افغانستان کا سفیر بن گیا اور بعد میں میڈیا پر اپنی زبان سے داستان سنائی کہ” بگرام ائیر بیس پر ایک لڑکی پر جنسی اور جسمانی تشدد ہورہاتھا وہ چیخوں کی آوازیں اپنے کانوں سے سن رہاتھااور بتایا گیا کہ کوئی پاکستانی خاتون ہیں اور بعد میں پتہ چلا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی تھیں”۔ ہم نے لکھا تھا کہ پرویزمشرف کے بعد یہ داستانیں سنانے کے بجائے اسی وقت چاہیے تھا کہ اپنی کرسی سے چمٹے رہنے کے بجائے رسم شاہ مہمنداستعفیٰ دیتا۔( 30ہزار) امریکن فوجیوں نے خود کشی کی یا نہیں لیکن ہمارے ہاں تو کوئی ایک بھی ایسا غیرتمند نہیں ہے جس نے خود کشی کی ہو۔
طالبان اپنی پیش قدمی جاری رکھ کر اپنی اور اپنے افغان (afghan)بھائیوں کی تباہی کا سامان نہ کریں۔ جو کسی ایک کی طرفداری کرکے ان کو آپس میں لڑارہے ہیں یہ شیاطین الانس ہیں۔ جن خناسوں کے وسوسوں سے آخری سورة الناس میں اللہ نے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی۔ عثمان کاکڑ پاکستان اور پشتون قوم کا بڑا سرمایہ تھا وہ کہتا تھا کہ ہم پاکستان میں آئینی حقوق مانگتے ہیں، افغانستان میں مداخلت نہیں چاہتے۔ عثمان کاکڑ کھل کر نظرئیے کی بات کرتاتھا، اپنے مفادات کیلئے بلیک میلنگ نہیں کرتا تھا۔( PDM)کے قائدین نے سیاست کو بلیک میلنگ بنایا ہے۔ عثمان کاکڑ(usman kakar) ان سے بالکل الگ تھلگ تھا۔ اسٹیبلشمنٹ (establishment)پر پریشر ڈال کر سیاسی مفاد حاصل کرنا نظریاتی سیاست نہیں بلکہ بدترین قسم کی بلیک میلنگ ہے۔ عثمان کاکڑ اس وقت شہید کیا گیا کہ جب پاکستان، پشتون قوم اور انسانیت کو اس مردمجاہد کی سخت ضرورت تھی۔ گلبدین سے ملاقات پر مفاد پرستوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ۔ آج عثمان کاکڑ نے افغانستان میںعدم مداخلت سے زیادہ صلح پر زور ڈالنا تھا۔
جب (PDM)کے قائدین بکاؤ مال اور گمنام صحافی اسد طور کی پٹائی پر پہنچ سکتے تھے تو عثمان کاکڑ کیلئے ان کا متحدہوکر نہ پہنچنا بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟۔ کیا عثمان کاکڑ شہید کی حیثیت اسد طور سے بھی کم درجہ کی تھی؟۔ مولانا عطاء الرحمن کا یہ کہنا کہ قاتل معلوم ہیں ان کو پکڑا نہیں جارہا ہے اور محمود خان اچکزئی کا یہ کہنا کہ اگر پاکستان میں کوئی ادارے ہیں تو میرے پاس آجائیں میں قاتلوں کے ثبوت دوں گا۔ عثمان کاکڑ کے بیٹے کا یہ کہنا کہ ہم نے قتل کا سیاسی انتقام لینا ہے اور اگر مجید اچکزئی(majeed achakzai) کو ہمارے ادارے سزا نہیں دے سکتے تھے تو عثمان کاکڑ کے قاتل کو کونسے ادارے سے سزا دلوانا چاہتے ہیں؟۔ محمود اچکزئی تو ان پشتونوں کو بڑا بے غیرت کہتا تھا جو اپنا بدلہ لینے کے بجائے درگزر پر گزارہ کررہا ہو؟۔
طالبان قرآن و سنت کے احکام پر سب کو متفق کردیں اور پھر افغانستان کے الیکشن میں حصہ لیکر اقتدار کی دہلیز تک پہنچیں۔ سیاسی ایجنڈے اور عوام کی تائیدسے طالبان کو افغانستان کا اقتدار مل جائے تو سب سے بڑا نقصان شیطان کا ہوگا۔ مسلمان اور افغان کی خونریزی طالبان کیلئے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ نبیۖ نے مکہ فتح کیا تو دشمن ابوسفیان کوعزت بخش دی۔ صدر نجیب کی شہادت کا قرض ابھی افغان طالبان کی گردن پر ہے۔ اگرافغان نہیں لڑیں تودنیا کی کوئی طاقت ان کو نہیں لڑاسکتی مگرانسانی شکل میں شیطان کی انگل کا خیال رکھنا ہوگا۔ اوریامقبول جان پاکستان میں سکون چاہتا ہے تو افغانستان میں کیوں نہیں؟۔
پرویزمشرف سے زیادہ بڑا ضمیر فروش اور مجرم ڈاکٹر نجیب اللہ بھی نہیں تھے لیکن پرویزمشرف کو جج نے قدرے سخت سزا سنادی تو میجر جنرل آصف غفور کا سخت ردِ عمل سامنے آیا لیکن ڈاکٹر نجیب اللہ(doctor najeebullah) کو پھانسی دیکر کابل کے چوک میں لٹکا کر ناک میں سگریٹ ٹھونسے گئے تو خوشیوں کے شادیانے بجتے تھے۔
افغانیوں کی قتل وغارتگری پر خوشی کا شادیانہ ؟، حامد میر کہتاہے کہ ”ا شرف غنی کے گاؤں سرخاب میں آبائی گھرپر طالبان نے جھنڈا لگادیا” تو خدا نخواستہ پاکستان کیساتھ ایسا نہ ہو۔ اگر افغانی افغانیوں کے نہیں تو پاکستانیوں کے ہیں؟۔ بھارت میں مودی بیٹھا ہے۔ عمران خان کہتا ہے کہ مودی نہ ہوتا تو بھارت سے دوستی ہوتی ،یہ بھی کہے کہ امریکہ میں ٹرمپ ہوتا تو دوستی ہوتی۔ ایران اور عرب سے بھی ہمارے اعتماد کے دوستانہ تعلقات نہیں ۔چین وہ واحد ملک ہے جس میں مسلمانوں کیساتھ اسرائیل سے زیادہ انسانیت سوز سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
گوگلی نیوز نے معاشی ایمپائر فوج کا بتایا کہ اسکے تجارتی اداروںنے کاروبار پر قبضہ کیا جو خسارے میں چلتے ہیں، ہر حکومت ریلیف دینے پر مجبور ہے، سودی قرضہ اسی میں کھپ جاتا ہے۔ گوگلی نیوز ن لیگ کے مشن پر ہے جبکہ نوازشریف، مریم اور شہباز شریف کہتے ہیں کہ حکومت نے دفاعی بجٹ میں خسارہ کردیا اور ہم پورا کرینگے۔ فوج نے معاشی خسارے کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ نہیں لیا تو ن لیگ دم اٹھاکر کہہ رہی ہے کہ ہم نوازیں گے جو فوج کو کھلم کھلا رشوت دینے کے زمرے میں ہی آتا ہے یہ ہمارے اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاستدانوں کے سرغنوں کا وہ بیانیہ ہے، جس پر PDMکی مذہبی اور قوم پرست جماعتیں فخر کرتی ہیں؟۔
راشد مراد RMٹی وی لندن نے عثمان کاکڑ کی شہادت پر زہر اگل دیا مگر یہ نہ بتایا پھر نوازشریف، مریم نواز اور شہباز شریف ن لیگ کی سیاسی غیرت کہاں مرگئی ہے؟۔اور حضرت مولانا فضل الرحمن کہاں کھڑا ہے؟۔ صفحہ 3نمبر1بقیہ… اللہ نے فرمایا : اے ایمان والو! کہو سیدھی بات
پاکستان میں جمہوریت اور انصاف پیسوں کا کھیل ہے ۔ اگر اسلامی اقتدار کیلئے قریش کا ہونا ضروری تھا تو افغانستان پر حکومت کیلئے افغانی ہونا لازم ہونا چاہیے اور اس کی بڑی حکمت یہ ہے کہ بیرونی قوتوں کی سازش سے مقامی لوگ محفوظ ہونگے۔ جب رسول اللہ ۖ نے مکہ کو فتح کیا تو مدینہ کے مجاہدین کو واپس جانے کا حکم دیا اور مقامی شخص کو مکہ کا گورنر بنادیا، جو حضرت بلال کی آذان پر کہہ رہا تھا کہ ”ہم بے غیرت ہیں کہ خانہ کعبہ کی چھت پر یہ کالا گدھا ڈھینچو ڈھینچو کر رہا ہے اگر میرا باپ زندہ ہوتا تو اس کو قتل کردیتا”۔ نبیۖ نے فرمایا کہ جن لوگوں کے گھروں پر قبضہ ہوچکا ہے وہ مسلمان اپنے گھر اہل مکہ سے واپس نہ لیں اسلئے کہ اللہ ان کو آخرت میں ان گھروں سے بہتر گھر عطاء فرمائے گا۔
جب پاکستان اور افغانستان کے اقتدار سے اپنے حامی اور مخالف سب عوام خوش ہوں تو پوری دنیا میں اسلامی جمہوری بنیادوں پر انقلاب کا آغاز ہوجائیگا۔ لڑنے مرنے، الزام تراشیوں، تہمتوں اور دشمنیوں کا بہت ہوگیا ہے اور اب امن وسکون کی زندگی اسلامی ممالک نے اپنی عوام کو دینی ہوگی۔ پشتون عوام بالخصوص اور باقی لوگ بالعموم جنگ وجدل اور لڑائی و جھگڑوں سے باہر نکل جائیں۔ میڈیا ان نکات کو اٹھائے جن سے طالبان اور اشرف غنی میں کوئی ہم آہنگی کا ماحول پیدا ہوجائے۔ بڑے پیمانے پر قتل وغارتگری کیلئے افغانوں کو مزید بھڑکانا ابلیس اور اس کی انسانی ذریت کا بہت بڑا دھندہ ہے۔ جو بھی جنگ برپا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے تو اس کو یہاں بک بک کرنے کے بجائے اپنا عملی کردار ادا کرنے کیلئے طالبان یا اشرف غنی کی حمایت میں پہنچ جانا چاہیے۔ یہ شیطان کا کردار ہے کہ دوسروں کو جنگ میں جھونک کر خود اپنی دُم دباکر بیٹھ جائے۔
سلیم صافی نے کہا کہ” امریکہ نے جان بوجھ کر قتل وغارتگری کی فضاء پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پرامن افغانستان ہے لیکن اس کا بس نہیں چلتا ہے کہ اس کیلئے کیا اقدامات اٹھائے اسلئے پاکستان کے حق میں بھی یہی ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی اور بڑے پیمانے پرجنگ نہ ہو اور اگر ایسا ہوا تو اس کے بہت برے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے”۔
رمضان میں بڑے بڑے شیطانوں کو باندھ دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی شیاطین الانس اور چھوٹے شیطان اپنی کارکردگی دکھاتے ہیں، اگر آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ ، ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید(dgisi faiz hameed) اور بڑے کورکمانڈرز بھلائی کے فیصلے پر متفق ہوجائیں تو سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے شیاطین انکے نام پر شرارتوں کا سلسلہ جاری رکھیںگے۔ پاک فوج کو چاہیے کہ ان کو شٹ اپ کی کال دیں۔
رؤف کلاسرا نے اپنے ویلاگ میں ایک مثبت خبر لانے میں اپنا تجزیہ مارکھپایا ہے کہ” جوبائیڈن ایک کال کا تکلف کیوں گوارا نہیں کررہاہے؟۔ اگر چہ ہم اس کیلئے مر نہیں رہے ہیں لیکن امریکی صدرنے یہ رویہ کیوں اختیار کیا ہوا ہے؟۔ کیا یہ وجہ ہے کہ طالبان کو ہم نے بات کیلئے راضی کیا توحسبِ معمول امریکہ کو ہماری ضرورت نہیں رہی؟۔کیا بھارت کو زیادہ اہمیت دینا چاہتاہے اسلئے ہمیں گھاس ڈالنا مناسب نہیں سمجھتا؟۔کیا اڈے دینے کیلئے دباؤ کو برقرار رکھنا چاہتا ہے؟۔ جب ہم اڈے دیں گے تو تھینک یو کی کال کرلے گا؟۔کوشش کے باوجود کسی نتیجے پر پہنچنے میں کا میابی نہیں ہوئی ہے لیکن عمران نے برابری کی سطح پر ان سے بات کرنے کا واضح اعلان کیا ہے اور یہ اعلان ملٹری اسٹیبلیشمنٹ ہی کے کہنے پر کیا ہے۔ ماضی میں جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور پرویزمشرف نے امریکہ سے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کیلئے اڈے دئیے تھے اور ان کی خدمت کی تھی لیکن اس مرتبہ ہمارے رویے میں تبدیلی آئی ہے”۔
صابر شاکر نے کہا کہ” طالبان نے ضلعوں میں پیش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے اور وہ صوبائی دارالحکومتوں کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ وائٹ ہاوس کے مہمان بن گئے ۔ اپنے مقاصد میں اسلئے کامیاب ہوگئے کہ امریکہ کیلئے اپنی خدمات انجام دی تھیں اسلئے امریکہ بھی ان کو جاسوسی کے بدلے نوازنے کا حقدار سمجھ رہاہے۔ عمران خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا ۔ اس مرتبہ ہم استعمال نہیں ہونگے۔ عمران خان نے طالبان کو واضح پیغام بھیج دیا ہے کہ میرا اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا یہ مشترکہ فیصلہ ہے کہ نہ تو ہم افغان طالبان کی مدد کریں گے اور نہ افغان حکومت کی۔ اگر طالبان طاقت کے زور پر افغانستان پر قبضہ کرلیں تو ہم ان کی حکومت کو نہیں مانیں گے بلکہ افغانستان کیساتھ اپنی سرحد مکمل سیل کریں گے۔ ہم افغانستان میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کریں گے”۔
وزیرستان (waziristan)کی کہاوت ہے کہ زڑہ مے شئی سوڑہ مے شئی” میرا دل بھی کرتا ہے مگر سردی بھی لگ رہی ہے”۔ دل چائے پینے کو کرے، مہمان وہ بہانہ تراشے کہ میزبان بول دے کہ یہ تو بہانہ نہیں ہے۔ پاکستان کی بار بار اپنی اس بات کو دہرانے کی وجہ سمجھ میں آرہی ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی ہوگی لیکن ہم کوئی کردار ادا نہیں کرینگے تاکہ امریکہ بہادر کہہ دے کہ شاباش،آؤ ہم تمہارے کردار کے منتظر ہیں لیکن امریکہ گھاس نہیں ڈال رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان دوغلی پالیسی کی وجہ سے اپنے ملک میں بھی گرے لسٹ میں پڑا ہواہے۔ ہم آج تک اپنی قوم اور دنیا کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ” ہمیں امریکہ کا ساتھ دینے پر فخر ہے یا طالبان کی خدمت پر؟”۔ ظاہر ہے کہ دونوں کام کئے بھی ہیں۔ہماری اس میں مجبوری بھی تھی اور اس میں ہم نقصان اٹھانے کیساتھ ساتھ فائدے میں بھی رہے۔ عراق، لیبیا اور شام جتنا تباہ ہوا،ہم پڑوس میں رہ کر بچ گئے۔ بخاری کی حدیث ہے کہ الحرب خدعة ” جنگ دھوکے کا نام ہے”۔
حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے کہ وہ امریکہ کی طرف سے کچھ بولنے کی فکر کے بجائے بہت آگے بڑھ کر افغانستان کی خانہ جنگی روکنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ صرف خواہش رکھنے سے کچھ نہیں ہوتا کہ ”دل تو چاہتا ہے مگر سردی لگ رہی ہے”۔ امریکی امداد، شاباشی اور کسی قسم کی کوئی لالچ کو بھول جاؤ۔ اگرطالبان اور اشرف غنی میں غیرجانبدار بنتے تو بھی اچھی بات ہے لیکن یہ کونسی دانشمندی ، غیرت ، ضمیر، ایمان، انسانیت، رسم وروایت اور اخلاقی قدر ہے کہ خود کہہ رہے ہو کہ ہم ٹشوپیپر کی طرح استعمال ہوئے ہیں اور پھر اشرف غنی کو طعنہ بھی دیتے ہو؟۔ اشرف غنی کو تو افغانستان کی بھلائی کیلئے بہت بعد میں عوام نے بلایا ہے اور تم نے طالبان کو تباہ کرنے کیلئے کس حد کو پار نہیں کیا ہے؟۔
عثمان کاکڑ نے سینٹ میں کہاتھا کہ” تمہاری کٹھ پتلی حکومت نے وہ کرناہے جس کا اس کو حکم مل جائے۔ میں کبھی پرسنل نہیں ہواہوں لیکن جب تم پرسنل اٹیک کروگے تو جواب دوں گا۔ محمود خان اچکزئی نے ٹھیک کہا کہ پشتون کی قومی زبان پشتو، پنجابیوں کی پنجابی، سرائیکیوں کی سرائیکی، بلوچوں کی بلوچی اور سندھیوں کی پانچ ہزار سال سے سندھی قومی زبان ہے۔ تمہارے مخدوم کے خاندان نے انگریزوں کی خدمت کی ہے اور ہمارے خان شہیدعبدالصمد اچکزئی نے انگریز کے خلاف قربانی دی، تیس سال جیل میں گزارے ہیں۔ ہماری پارٹی نے جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاؤں میں کوڑے کھائے ہیں اور پرویزمشرف کے خلاف قربانیاں دی ہیں۔ تمہارا وزیراعظم ایک کرنل کے حکم پر چلتا ہے اس کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہے”۔
عثمان کاکڑ نے یہ بھی کہا تھاکہ” قومی ایکشن پلان پختونوں کیلئے قابل قبول نہیں ہے ”۔مگر قومی ایکشن پلان پرصرف پیپلزپارٹی کے رضاربانی نے روتے ہوئے پارٹی کی امانت سمجھ کر دستخط کئے اور تمام جمہوری پارٹیوں بشمول ( pdm)کی موجودہ پارٹیوں کے سب نے نہ صرف دستخط کئے بلکہ مولانا فضل الرحمن، نوازشریف،سراج الحق، اسفندیار ولی اور تحریک انصاف سب اسکا کریڈٹ بھی لے رہے تھے۔ محمود خان اچکزئی (mehmood khan achakzai)کا توشروع سے مطالبہ تھا کہ ”ہماری ایجنسیا ں چاہیں تودہشت گردوں کو ختم کرسکتی ہیں اور امریکی (CIAدے ہماری ISI)زیادہ ہوشیار ہے۔ اس کھیل کو یہاں سے ختم کیا جائے”۔ جب وزیرستان کی عوام کو ایکشن پلان کی وجہ سے مہاجر کیمپوں میں ڈالا گیا تو مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی ، اسفندیار ولی وغیرہ نے اسلام آباد میں ایک جرگہ بلایا تھا ۔ کامران مرتضیٰ نے بادشاہی خان محسود کو 3منٹ کا ٹائم دیکر اپنی بات مکمل کرنے کا کہا تھا اور بادشاہی خان(badshahi khan) کی وہ تقریر سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ اس نے عبدالصمد خان اچکزئی، خان عبدالغفار خان اور مفتی محمود کے وارثوں سے گلہ کیا کہ” کراچی سے مہاجر ہماری مدد کرنے کو آگئے لیکن ہمیں کسی پشتون قوم پرست اور مذہبی قیادت نے پوچھا تک بھی نہیں”۔ لیکن اس کو اپنا مختصر وقت بھی پورا نہیں کرنے دیا گیا۔ بادشاہی خان برملا کہتا تھا کہ” حکومت ہمارے لوگوں کو بھکاری بنارہی ہے اور یہ تذلیل ہمیں برداشت نہیں”۔ لاہور ہائیکورٹ نے عوام کو حکومت کی طرف سے چینی دینے کیلئے برہمی کا اظہار کیا تھا لیکن پشتون قوم کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ البتہ اس میں پشتونوں کا اپنا بھی قصور تھا اسلئے کہ خود کش حملہ آوروں کے ذریعے مولانا فضل الرحمن، قاضی حسین احمد ، اسفندیار ولی اور آفتاب شیرپاؤ کسی کو نہیں چھوڑا گیا۔البتہ محمود خان اچکزئی پر کوئی حملہ نہیں ہوا ۔اگر ہوتا تو عثمان کاکڑ شہید قومی ایکشن پلان کی مخالفت بھی شاید پھر کبھی نہ کرتے۔ قومی ایکشن پلان سے ہی خیبر پختونخواہ کے لوگوں کی زندگی بحال ہوئی تھی۔ پختونوں کو اپنے صوبے میں مشکلات کا سامنا تھا اور دیگر صوبوں میں بھی ان کو دہشتگرد سمجھا جاتاتھا۔
پاک آرمی کو اگر کٹھ پتلی ، بھاڑے و کرائے پر ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کے بجائے مقتدر طبقے نے صحیح استعمال کیا تو افغان خونریزی رُک جائیگی بلکہ اسلام، انسانیت اور پاکستان کی بچت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ پرویزمشرف اور جنرل محمود(genral mehmood) نے بھاڑہ لیا تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں۔ جنرل قمر باجوہ اور فیض حمید نے اگر اپنا مثبت اور بہت مؤثر کردار ادا کیا تو رہتی دنیا تک کیلئے وہ امر ہونگے،پاک آرمی اور پاکستان کو بھی امر کردینگے۔انشاء اللہ العزیز الرحمن الرحیم۔ اچکزئی عثمان کاکڑ کی شہادت کا معمہ حل نہیں کرسکتا تو پشتونخواہ کا کیسے کریگا؟۔
ایک طرف اوریا مقبول جان جیسے طالبان کی قوتِ ایمانی پر رشک کریں اور دوسری طرف قوم پرست اپنا مسئلہ حل نہ کرسکیں اور پشتونوں کو آرمی و پنجابیوں سے لڑائیں تو پشتون قوم کا مستقبل کبھی نہیں سدھر سکتا ہے۔ محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن فوج اور اسکے کٹھ پتلی پنجابی سیاسی لیڈر شپ کے کھیل میں پشتونوں اور مذہبی لوگوں کو فٹ بال نہ بنائیں۔ جب لاہور میں( PDM)کا جلسہ تھا تب بھی لاہوریوں کو اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹوں نے نکالنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ اگر پشتونوں کی قوم پرست اور مذہبی لیڈرشپ اپنے لوگوں کو چوکیداروں اور رینٹ کار وں کی طرح استعمال کریںگے تو پشتون قوم کبھی اچھا دن نہیں دیکھ سکے گی۔ عام پنجابی کی حالت پشتون اور بلوچ سے بدتر ہے۔ افغانستان و ایران سمگلنگ سے فائدہ اٹھانے والوں کی طرح پنجابی بھی فائدہ اٹھائیں تو انکے منہ بھی دُھلے ہوئے نظر آئیں۔ پسماندہ پنجابیوں کے خلاف نفرت کے بیج بونا اور اسٹیبلیشمنٹ کے ایجنٹوں کی دلالی کرنا کونسی سیاست کا تقاضہ اور دانشمندی کی بات ہے؟۔
نفرتوں کے بیج بونے کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تربت ، گوادر اور بلوچستان کے دُور دراز علاقوں سے محنت مزدوری اور بچوں کا پیٹ پالنے والے غریب پنجابیوں کی لاشیں آتی ہیں۔ پنجاب خوشحال ہوتا تویہ لوگ موت کے کنویں میں کودتے؟ یا یہ لکی ایرانی سرکس ہے؟۔ بلوچ پنجابیوں کو مارتے ہیں تو کوئی بلوچ پنجاب میں محنت مزدوری کرنے نہیں جاتا۔ اگر پشتون نے نسلی لڑائی شروع کردی تو پنجاب سے ایسی خونریزی کا آغاز ہوگا کہ لوگ پشتونوں کو دوزخی سمجھ کر قتل کرینگے اور دریائے سندھ کو انکے خون سے بھر دینگے۔ شاہ نعمت ولی کی پیش گوئیاں بھی ان پر فٹ کرینگے کہ پنجاب کے قلب سے دوزخی خارج اور دریائے اٹک انسانی خون سے بھر جائیگا۔ اگر احمد شاہ ابدالی اور شیرشاہ سوری نے ہندوستان فتح کیا ہے تو وہ مغل سلطنت کا دور تھا مگر راجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب اور تختِ لاہور کا اقتدار سنبھالا تو جب تک انگریز نے ہماری جان نہیں چھڑائی ،کسی مائی کے لعل پٹھان نے سکھ دھرم کے اس پنجاب کا مقابلہ نہیں کیا اور جب شاہ اسماعیل شہید اور سیداحمد بریلوی نے خلافت کا آغاز کرنا چاہاتھا تو پختون حکمران راجہ رنجیت سنگھ کے اتحادی تھے۔ آج افغانستان میں طالبان کی طاقت قوم پرست پشتونوں کے نہیں پنجابی اسٹیبلیشمنٹ کی حامی ہے۔ وہ وقت گیا جب ہندو کو زبردستی سے کلمہ پڑھایا جاتاتھا ۔اب تو محسود جیسی بہادر قوم نے پنجابی فوج سے دُم دبا رکھی ہے۔
اس معرکے میں پشتونوں کولے جاناغلط ہے جہاں طالبان حوروں کو بھول کر افغانستان میں پناہ لئے بیٹھ گئے۔ گلبدین کی ہارون الرشید جیسے صحافی امریکائی جہاد کے وقت تعریف کرتے تھے تو پوچھا گیا کہ اسکے دوست کون ہیں؟۔ جواب ملا کہ جماعت اسلامی !(jamat e islami) اس پر کہاگیا کہ دوسرے گاؤں کے بے غیرت کو پہچاننے کا یہ طریقہ ہے کہ اس کی آپ کے گاؤں کے بے غیرتوں سے دوستی ہو۔ میجر مست گل کی کہانیاں قوم کو سنانے والی جماعت اسلامی آج کہاں کھڑی ہے؟۔
یہاں طالبان کو اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد تھی تو یہ بہادر تھے اور فوج نے ایکشن لیا تو لمبے بالوں والے صابرشاہ(sabir shah) جیسی حوروں کو لیکر ایسے بھاگے کہ ہماری قوم نے برطانیہ کے سامنے بھی ایسا سرنڈر نہیں کیا جس کی حکومت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور آج جن کو قوم کا چیف، خان اور ملک کہا جاتا ہے یہ سب برٹش سرکار کے جاسوس تھے۔ یہ دلیل ہے کہ نیٹو کی اشیر باد طالبان کو حاصل نہ ہوتی تو وہاں سے بھاگ کر یہاں آتے۔ پرویزمشرف دور میں جن کو امریکہ کے سپرد کیا جا رہا تھا تو وہ افغانستان میں امریکہ سے لڑنے کے بجائے پاکستان میں پناہ لینے سے بھی نہیں شرماتے تھے۔ غیرت بھی کوئی چیز ہے جہانِ تگ ودو میں۔ہم یہاں کی طالبان مافیا سے وہاں کی طالبان مافیا کے کردار اور بہادری کو سمجھ سکتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی مذہب اور قوم پرستی کے کارڈ پر اچھا کام کریں۔ طالبان اور اشرف غنی کو جنگ وجدل سے بچانے اور اسلامی جمہوری حکومت تشکیل دینے پر راغب کردیں۔ اگر افغانستان میں اسلام کا درست نظام نافذ ہوا تودنیا میں اسلامی انقلاب کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا ۔ اگر نبیۖ نے کفارِمکہ سے دس سال کیلئے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا اور اللہ نے اس کو فتح مبین قرار دیا تو کیا طالبان مسلمان افغانی بھائیوں سے یہ صلح نہیں کرسکتے ہیں؟۔
وزیراعظم عمران خان ، آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف نے جب یہ واضح کردیا ہے کہ ” اگر طالبان نے طاقت کے زور سے افغانستان کے اقتدار پر قبضہ کیا تو ہم ان کی حکومت نہیں مانیںگے اور اپنی سرحداتْ بھی سیل کردیںگے”۔ تواس کی وجہ خواہ کچھ بھی ہو لیکن صلح کیلئے یہ ایک بہت بڑی بنیاد ہے۔ ایک پٹھان نے طالبان(taliban) کو دعوت دی کہ” آؤ ہم افغانی مل کر امریکہ اور اسکے ایجنٹ پاکستان کیخلاف متحد ہوکر ہتھیار اُٹھائیں ، پنجابیوں کیخلاف جہاد کریں۔ ملامنصور کو کس نے قتل کیا، ملابرادر کو کس نے پکڑا تھا؟…. وغیرہ”۔ مگریہ نہیں سوچا کہ طالبان اور اشرف غنی کے حامی دونوں ایکدوسرے پر امریکی ایجنٹ کا الزام لگاتے ہیں۔
صحافی عمران خان جیسے لوگوں کا کوئی دین ایمان نہیں ہے جس نے پہلے آرمی چیف پر کرپشن کا الزام لگایا پھر معافی مانگ لی۔ مولانا فضل الرحمن پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کھلے عام جھوٹا بہتان لگادیا۔ لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ اندورنِ خانہ آرمی چیف کو قادیانی اور اسرائیل کا ایجنٹ کہا جارہاہو ۔ اگر مولانا عبدالغفور حیدری کے بیان اور آرمی چیف کی کھلم کھلاتحقیقات ہوجائیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آجائیگا۔ صحافی عمران خان نے اسرائیل میں پاکستانی قادیانی فوج پر ویلاگ کیا تھا ،اب یہودیوں کے داماد عمران خان کے دامادزلفی بخاری پر اسرائیل کے دورے میں وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف باجوہ کی طرف سے اسرائیل کی حکومت اور موساد کو خفیہ پیغامات پہنچانے کی باتیں خاص طور پر ن لیگ کی میڈیا سیل سے چل رہی ہیں۔ پہلے بھی نوازشریف نے بینظیر بھٹو پر امریکہ کے اور بینظیر بھٹو نے نوازشریف پر اسرائیل کے ایجنٹ کا الزام لگایاتھا۔ بینظیر بھٹو (benazir bhutto)نے طالبان بنائے تھے اور نوازشریف نے اسامہ بن لادن(usama bin ladin) سے پیسے لئے تھے۔ طالبان اور القاعدہ کے نام پر اگر امریکہ اور اسرائیل نے ہمارے ہاں اپنے کرتوت دکھائے ہوں تو یہ ممکن ہے اسلئے کہ قرآن میں یہودونصاریٰ کی اس سازش کا ذکر ہے کہ جس سے پہاڑ بھی ہل جائیں۔ مشتری ہوشیار باش؟۔

Dajjal would appear from the East (Mashriq) and be opposed by a person from the family of Hazrat Imam Hassan (R.A) which I mean is Syed Gilani: Allama Talib Johri

allama talib johri
syed gilani
dajjal
khorasan
general hameed gul
general amjad shoaib

مشرق سے دجال نکلے گا اور اسکے مقابلے میں حسن کی اولاد سے کوئی شخص ہوگا اور اس سے مراد سید گیلانی ہے: علامہ طالب جوہری
مین اسٹریم اور سوشل میڈیانے جس لایعنی بکواس میں لوگوں کو ڈالا ہے اگر یہ نہ ہوتا تو ہم بڑا نرم ہاتھ رکھ کر شائستہ گفتگو

تحریر: سید عتیق الرحمان گیلانی :
سب کے دل جیت کر ایک پلیٹ فارم پر لاتے لیکن ماحول کی وجہ سے لہجہ سخت کئے بغیر ہماری آواز صدا بصحرا ہوگی!
لوگوں کے کان پک چکے ہیں کہ مریم نواز کا بابا با کردار ہے یا اسکے کالے کرتوتوں سے تاریخ بھری پڑی ہے مگر میڈیا نے مجبوراعوام کو زبردستی اپنی زرخریدوکالت کے ہی قصے سنانے ہیں
اگر خدانخواستہ ایک مرتبہ افراتفری پھیل گئی تو پاکستان کی ریاست، خوشحال اور بد حال لوگوں کی حالت خراب سے خراب تر ہوجائے گی اور اس کا ذمہ دار خوشحال طبقہ ہوگا جو کھیل کھیل رہاہے
پسماندہ غریب لوگوں کو جہاد، سیاست اور مختلف ناموں اور کاموں کی بنیاد پر خرید کر اپنے مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں۔ روس کے خلاف جہاد لڑنے والے جرنیلوں، سیاستدانوں، تاجروںاور علما کی اولادیں امریکہ سے مراعات لیکر زندہ وتابندہ ہیں۔ آئی ایس آئی کے چیف اختر عبدالرحمن (isi chief akhtar abdulrehman)کے صاحبزدے افغان جہاد میں پیسہ کمانے کی وجہ سے ہربرسرِ اقتدار کے ساتھ حکومت میں شریک ہوتے ہیں۔ پرویزمشرف، نوازشریف، عمران خان کے بعد اگلی منزل جو بھی حکومت میں آئے اس کے ساتھ اقتدار میں شرکت ہے۔ جنرل ضیا الحق (genral ziaulhaq)نے بہت لوگوں کو جہاد میں جھونک دیا لیکن اسکے اپنے بیٹے سیاسی جماعتوں میں اپنی سیاست کرتے ہیں۔ جنرل حمید گل (genral hameed gul son abdullah gull)کے بیٹے عبداللہ گل کو ہی نہیں اس کی بیٹی تک کو بھی جہاد میں شہید ہونا چاہیے تھا لیکن مجال ہے کہ دوسروں کو جنت کا مختصر ترین راستہ دکھانے والا طبقہ کبھی خود بھی بھولے سے اپنی اولاد کو بھی اس سعادت کا موقع دے۔ اسامہ بن لادن نے زندگی افغانستان میں جہاد کرتے ہوئے گزاردی مگر جب امریکہ پیچھے آیا تو خڑوس کو ایبٹ آباد میں امریکہ نے قتل کیا یا اسے اٹھاکر لے گئے ہیں؟۔ یہ امریکی میڈیا سے صحیح خبر کبھی مل جائے گی۔ایمن الظواہری بھی غائب ہیں لیکن کتنے معصوم غریب لوگ جذبہ جہاد میں لڑمر کے شہادت کی منزل پر پہنچ چکے ہیں؟۔ ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہے۔
سینٹر رضاربانی نے سینٹ میں کہا کہ ”امریکہ کو فضائی اڈے دینے کی مخالفت ہم سن رہے ہیں لیکن اب حال ہی میں ایک کارگو جہاز کابل سے کراچی میں لینڈ کرگیا ہے۔ جب امریکہ ائربیس دئیے گئے تھے تو ہماری ریاست میں کہیں اس کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ وزرات خارجہ، داخلہ، دفاع اور (GHQ)کہیں بھی اسکے قانونی دستاویزات نہیں مل سکے تھے۔ اب تو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیکر کام کیا جائے؟۔ اس سے پہلے بھی ہم اسکے نتائج بھگت چکے ہیںاور ہمیں کوئی اعتماد نہیں کہ کیا ہورہاہے؟ اسلئے کہ ہماری اس تاریخ سے عوام اور دنیا واقف ہے”۔ صحافی نے پوچھا کہ عمران خان نے امریکہ سے برابری کی سطح پر تعلق کا اظہار کیا کہ ہمارے( 150)ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں تو اسکا مطلب کیا لیا جائے؟۔تودفاعی تجزیہ نگار ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب (general amjad shuaib)نے کہا کہ ”ہماری خواہش ہے کہ امریکہ ہم سے بات کرلے لیکن امریکہ کو ہماری ضرورت نہیں ہے”۔
ہماری معاشی، دفاعی ، اخلاقی اور انسانی پوزیشن مضبوط ہوتی تو آج ہمیں یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ یہ اللہ کا شکر ہے کہ مجبوری نے ہمیں جس جگہ کھڑا کیا ہے تو اسکا بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاک فوج کی قیادت بھی آج کہتی ہے کہ پرویزمشرف اورسابقہ ادوار میں بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور اس نازک صورتحال میں ملک وقوم کی خاطر ہر قدم احتیاط سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔ (PTM)کا سب سے سخت گیر رہنما علی وزیر بھی اس بات پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ ملک جن حالات سے گزر رہاہے اس میں سیاسی ،معاشی اور دفاعی اعتبار سے بڑے خطرات کا سامنا ہے۔ اس وجہ سے ہم احتساب کی بات کرتے ہیں۔ الطاف حسین بھائی کا بھی چند ہفتے پہلے ایک دردناک بیان آگیا کہ میں نے جس رات غلط بیان دیا تھا اسی رات ایک تحریری معافی نامہ لکھ کر دیا کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید (dgisi faiz hameed)مجھے معاف کردیں۔
سوشل و الیکٹرانک میڈیاپر اپنا چکر چھوڑ کر وسیع البنیاد کام کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں نے ضرورت سے زیادہ اثاثے بناکر بیرون ملک میں اپنے خاندان بسائے ہیں وہ فوجی، جج ، سیاستدان، بیوروکریٹ یا جس شعبے سے تعلق رکھتے ہوں اس مشکل وقت میں پاکستان اپنے بچوں اور اثاثہ جات سمیت آئیں۔ سب کو کھلے عام معافی دی جائے۔ سبھی اپنا اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے اپنی پاکی بیان کرنے کی تسبیح چھوڑ کر اللہ کی پاکی بیان کریں۔ غلطیوں پر سیاست کرنے سے کامیابی ملتی تو ابلیس کو سب سے بڑا سیاستدان کہا جاسکتا تھا۔ وہ آج کہہ سکتا ہے کہ جب اسلام نے آخری دین کی حیثیت سے آدمی کو سجدے کرنے کی ممانعت کرنی تھی تو میں فرشتوں کا استاذ آج بھی جیتنے کے قابل ہوں اسلئے کہ میں نے سجدہ نہیں کیا۔ آخر کار آخری پیغمبرۖ کے دین نے میرے مقف کی ہی حمایت کی ہے۔ شیطان سب سے بڑا مذہبی مناظر اور سیاستدان ہے۔
سول وملٹری بیوروکریسی میں اچھے اور برے ہرطرح کے لوگ ہوسکتے ہیں ، سیاستدانوں میں بھی اچھے برے لوگ ہوسکتے ہیں اور ہرطبقے میں ہی اچھے اور برے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد ہوسکتی ہے۔ شیطان روتا تھا کہ اللہ نے کسی کو زمین میں اپنا خلیفہ مقرر کرنا ہے اور کوئی اس بغض میں اندھا ہوکر راندہ بارگاہ الہی بھی ہوسکتا ہے۔ آدم پر فرشتوں نے اعترا ض کیا تھا لیکن جب وقت آیا تو فرشتوں نے سجدہ کیا اور شیطان راندہ بارگاہ ہوگیا۔سب سے زیادہ مذہبی طبقہ قرآن وسنت کے نظام کی رٹ لگاتا تھا لیکن ایسا نہ ہو کہ شیطان کی طرح سب سے پہلے کافر بھی یہ بن جائیں اور مولانا عبیداللہ سندھی (molana ubaidullah sindhi)نے لکھا ” جو علما دیوبند اپنے استاذ مولانا محمود الحسن شیخ الہند کی بات مان کر قرآن کی طرف متوجہ ہونے سے اسلئے انکار کررہے ہیں امام مہدی کا ظہور ہوگا تو ہمارا نصاب درست ہوگا لیکن جب امام مہدی کا ظہور ہوگا تو تم مخالفین کی صفوں میں کھڑے ہوگے”۔
ہماری خانقاہ میں ایک شخص نے اپنا مشاہدہ بتایا تھا کہ ” شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مولانا الیاس بانی تبلیغی جماعت کو ایک تاج دیا تھا اور مولانا الیاس نے وہ تاج ہمارے مرشد حاجی عثمان کے سر پر رکھاتھا”۔ دیوبندی علما کے اصل وارث حضرت مفتی محمد حسام اللہ شریفی سے لیکر ٹانک کے اکابر علما تک سب ہمارے ساتھ تھے۔ جب سردار امان الدین شہید (sardar amanuddin)نے ہمارے جلسے میں تبلیغی جماعت کی مخالفت کی تھی تو میں نے تبلیغی جماعت میں جانیکی انکو دعوت دی تھی۔ وزیرستان میں مولانا نور محمد شہیداور مولانا اکرم اعوان کیساتھ سردار امان الدین شہید نے مجھے بھی جلسہ عام میں بلوایا تھا مگر اسوقت وزیرستان میں بغیرماں باپ والے طالبان نہیں تھے۔ تصویر کی مخالفت کا مولوی طبقہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔مجھے جب علما کی وجہ سے مذہبی مسئلہ سمجھ کر تصاویر کی مخالفت کرنی پڑرہی تھی تووزیرستان کے اس جلسے میں بھی اپنی ویڈیو نہیں بننے دی اور ڈاکٹر اسرار احمد (doctor israr)کے ہاں بھی جب پہلی مرتبہ کانفرنس میں شرکت کی تو ڈاکٹراسرار احمد نے اعلان کیا کہ سید عتیق الرحمن گیلانی کی کوئی تصویر نہیں اتاریں۔ مولانا راحت گل نے پشاور یونیورسٹی کے پاس راحت آباد میں میری وجہ سے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا۔ مولانا فضل الرحمن، قاضی حسین احمد، مولانا اکرم اعوان، ڈاکٹر اسرا راحمد، صوفی محمد، مولانا سمیع الحق اور ایک شخصیت کا نام بھول رہا ہوں اور مجھے بلایا لیکن سب نے اپنے نائبوں کی فوج ظفر موج کو بھیج دیا اور خود شرکت کرنے سے گریز کیا۔ جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ اور مولانا گوہرالرحمن تھے، صوفی محمد کے نائب امیر مولانا محمد عالم تھے، جمعیت علما اسلام ف اور س ، ڈاکٹر اسرار اور مولانا اکرم اعوان کے صوبائی رہنما تھے۔ اگر اس وقت تمام مذہبی لیڈرشپ جمع ہوکر اپنی اور امت کی اصلاح کرنے پر آمادہ ہوتی تو پاکستان میں مذہب کے نام پر تباہ کاریوں کا کوئی سلسلہ نہ ہوتا مگر ہماری مشکل یہ ہے کہ اخبارات میں میری تصویر اور میرا بیان بہت بڑا لگ گیا لیکن میری ایک بات بھی نہیں دی اور اپنی طرف سے بیان گھڑ کر میری طرف منسوب کردیا۔ اختر خان نے تحریک انصاف کو ریاست کا گماشتہ قرار دیا ہے لیکن باری باری یہ سب اپنی ضرورت کے وقت کتیوں کی طرح آوارہ کتوں کے ریوڑ کے آگے لگ جاتی ہیں۔
مجھے ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں ایک شیعہ نے میرے حسنِ سلوک کی وجہ سے کہاتھا کہ میں سنی بننا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیںہے جو اختلافات فقہ جعفریہ کیساتھ ہماری فقہ کے ہیں وہ ہماری اپنی فقہ مسالک میں بھی ایکدوسرے کیساتھ ہیں۔ صحابہ کرام کے خلاف برا بھلا کہنے سے گریز کریں ، باقی اپنے گھر میں اپنے لئے مسئلہ نہ بنائیں۔پھر مجھے جیل کے اندر بھی جیل کی چکیوں میں اس وجہ سے جانا پڑگیا کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے اسٹوڈنٹ سے میں نے کہا تھاکہ پختون کہتے ہیں کہ ”پختون کا قانون ، خون کا بدلہ خون” لیکن آپ اسلام کے نام پرگروہ بندی کرکے کالجوں و یونیورسٹیوں میں کیوں لڑتے ہیں؟۔ اس نے مجھ پر الزام لگادیا کہ ”میں نے نبوت کا دعوی کیا ہے اور جیل سپر ڈنٹ سے بھی چغلی لگائی”۔ میں نے اپنی تحریر میں ثبوت لکھ دیا تھا اور اس نے اس کو ہی نبوت بنادیا تھا۔ میری وضاحت کے باوجود اس نے میرے خلاف سازش تیار کی اور جب جیل سپرڈنٹ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے بتایاکہ مہدی کے معنی یہ ہیں کہ جو گمراہ نہ ہو اور کوئی بھی خود کو گمراہ نہیں سمجھتا ہے لیکن میری حمایت کرنے والا جیل کا مولوی بہت مشکل میں نظر آرہا تھا۔ مجھے اس کی اپنے سے زیادہ فکر تھی۔ مجھے ریمانڈ لکھ کر ڈاکٹر جہانزیب گنڈہ پور کے پاس بھیج دیا۔ جب ڈاکٹر نے میری بات سن لی تو ریمانڈ( OK)کرنے کے بجائے یہ لکھ دیا کہ ” اسکے مخالفین کو جیل میں بند کرکے سزا دینی چاہیے”۔ وہ (40FCR)کا دور تھا۔ کسی عدالت میں جر م چیلنج نہیں ہوسکتا تھا۔ مجھے چکی میں بھیج دیا گیا تو ایک اہل تشیع حنیف ماما پاڑہ چنار نے بحث شروع کردی اور مجھے اس کو جاہل سمجھ کر بحث میں الجھنا فضول لگتا تھا اور اس سے کہا کہ ہمارا اپنا عقیدہ ہے ۔ ہم خلفا راشدین اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کو بھی مہدی سمجھتے ہیں۔ تمہارا مہدی غائب کا اپنا عقیدہ ہے لیکن جب وہ باز نہیں آرہا تھاتو میں نے کہہ دیا کہ میرے پاس علم نہیں ۔ اس نے کہاکہ پھر تو آپ جاہل ہو؟۔ میں نے کہا کہ آپ کی بات مان لی میں جاہل ہوں۔ قرآن کہتاہے کہ جاہل مخاطب ہو تو اس کو سلام کرکے اپنے حال پر چھوڑ دو۔ آپ بڑے جاہل نہیں کہ ایک جاہل سے بحث بازی کے مرتکب ہورہے ہیں؟۔ پھر بعد میں اسکے بہت اچھے رویے کی وجہ سے اچھی دوستی ہوگئی۔ اس نے کہا کہ آپ مہدی کی بات ہمارے لئے چھوڑ دیں تاکہ امت کو متحد کیا جاسکے اور میں نے اس کی بات مان کر تحریری بیان لکھ دیا۔ پھر جیل سے رہائی ملی تو اپنا مشن خلافت کے قیام کیلئے راستہ ہموار کرنے کا مشن جاری رکھا۔ علامہ طالب جوہری(allama talib johri) سے ملاقات ہوئی تو اس نے ذاکرین کو بھڑکانے کیلئے کہا کہ آپ مہدی موعود سے مل رہے ہو۔ میں نے کہا کہ آپ نے لکھاہے کہ ”مشرق سے دجال نکلے گا اور اسکے مقابلے میں حسن کی اولاد سے کوئی شخص ہوگا اور اس سے مراد سید گیلانی ہے۔ علامہ نے میری بات سن لی تو اسکی سٹی گم ہوگئی ۔ میں نے مناسب نہیں سمجھا اور مشکل سوالات کھڑے نہیںکئے جس سے علامہ صاحب گھبرا گئے تھے اور پھر اس نے مجھے ملاعمر کی تائید کا کہا مگر میں نے اپنے فکری اختلاف کی وجہ سے ایک چڑھتے سورج کی پوجا کو منافقت سے تعبیر کیا۔ اسلام شخصیات سے بالاتر عقیدہ توحید کی دعوت دیتا ہے لیکن مسلمان آج مسلک پرستی کا شکارہیں۔ نظام عدل کا قیام صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسانوں کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔
(Nawishta-e-Diwar-July-21-Page-01-syed atiq ur rehman gillani_nawaz sharif zarbehaq.com_maryam nawaz zarbehaq.com(1)CADV_talib johri _mulla umer_mehdi )

On the Questionnaire of Raqibullah Mehsud, A detailed response submitted by Syed Atiq-Ur-Rehman Gilani that Zakat is the only solution of Economic Revival.

Raqibullah Mehsud
Shafqat Ali Mahsud
mehsud tribe
zakat committee
mufti taqi usmani
usman kakar
mehrab gul afghan

سوشل میڈیا میں ایک بے باک ابھرتا ہوا بگ سٹار رقیب اللہ محسود کا سوالنامہ: پیر صاحب سے سوالات

موجودہ دور میں علما نے دین اسلام کو صرف نماز ، داڑھی، کرتہ، پاجامہ ، خواتین کے پردے اور علما کی قدر تک کیوں محدود کردیا ہے؟۔ قرآن میں کافی جگہ نماز کیساتھ زکو کا حکم ہے لیکن پورے سال میں آپ کسی مولوی سے اس کا ذکر نہیں سنو گے۔ سوائے اس وقت جب اس کو اپنے مدرسے کیلئے ضرورت ہو۔
اگر بیس فیصد لوگوں نے زکو دینی شروع کردی تو معاشرہ خوشحال اور فلاحی بن جائیگا۔ چوریاں ختم ہوجائیں گی، پیسوں کی فراوانی ہوگی، لوگ حرام خوری چھوڑ دیں گے۔ ہمیں آئی ایم ایف(IMF) سے سود پر قرضہ لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
علما کی قدر کا اب یہ اثر ہوگیا ہے کہ کوئی مولوی چاہے کتنا غلط کام کیوں نہ کرے اسکے خلاف بات کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جاتا۔ کیا ہم اس طرف نہیں بڑھ رہے جس طرح سندھ اور پنجاب(SINDH PUNJAB) میں لوگ پیروں کے پاں پکڑتے ہیں، قبروں کو سجدے کرتے ہیں، شرک کرتے ہیں۔ پشتون علاقوں میں علما کو سب سے زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آج تک کسی نے دین کی وجہ سے ان کی بے قدری نہیں کی۔ پھر بھی بار بار ہر جگہ یہ دعوت کیوں چلائی جارہی ہے؟۔
ان تمام سوالات کے جواب پیر صاب کو تفصیل سے دینا چاہیے۔ کیا ہم انگریزی اسلام اور دجال کے پیروکاروں کے نرغے میں آگئے ہیں؟ ۔ علما حق کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ دین اللہ کیلئے ہوجائے؟۔
ا لجواب اور وہ بھی تفصیل سے؟۔ یہ توایک کتاب کی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے …
ان سولات میںگہری فکر ہے اور اس فکر کا مقصد اس ماحول کو تبدیل کرنا ہے کہ ہم نے اسلام جیسے عالمگیر دین کو جو تمام زمان ومکان پر حاوی ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے کیوں چند مخصوص معاملات تک محدود کردیا ہے؟۔
علامہ اقبال نے شیطان کی خواہش کا اپنے اشعار میں ذکر کیا ہے کہ
افغانیوں کی غیرتِ قومی کا ہے یہ علاج کہ ملا کو اس کے کوہ ودمن سے نکال دو
علامہ نے ابلیس کی مجلس شوری اور دیگر عنوانات سے شیطان کی خواہشوں کا ذکر کیا ہے۔ اس شعر کامطلب کم پڑھے لکھے قارئین کیلئے واضح کرتا ہوں کہ شیطان کی یہ خواہش ہے کہ اگر پشتون کو قومی غیرت سے محروم کردینا ہے جو شیطان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو علما کو انکے پہاڑی اور میدانی علاقوں سے نکال دو۔ کسی بھی قوم کی کوئی خاصیت ہوتی ہے۔ پشتونوں کا مشترکہ اثاثہ اس کی ملی غیرت ہے۔ اگر غیرت چھن جائے تو پھر وہ پشتون بالکل بھی نہیں رہتا ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا کہ ”اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ آپ ان سے کہدو کہ تم لوگ ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں ،اسلئے کہ ابھی تک ان لوگوں کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا ہے”۔ (القرآن) کسی جگہ فرمایا کہ ”اسلام میں پورے پورے داخل ہوجا”۔ (القرآن)کسی جگہ فرمایا کہ” اے ایمان والو! ایمان لا” ۔(القرآن)۔ پشتون کی حیثیت سے رقیب اللہ نے جو دعوت دی، وہ فطرت کا تقاضہ اور قرآن میں موجود ہے۔
علامہ اقبال نے ”محراب گل افغان ”(MEHRAB GUL AFGHAN)کے تخیلاتی نام سے بڑا عمدہ تخیل پیش کیا ۔
افغان باقی کہسار باقی تو ہر بیماری کا علاج اے غافل افغان تو اپنی خودی پہچان
تیری بے علمی نے رکھی بے علموں کی لاج عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان
فطرت کے مقاصد کرتا ہے نگہبانی
اب نام رہ گیا ہے وزیری ومحسود
تیری دعا ہے کہ یہ دنیا بدل جائے
یابندہ صحرائی یا مرد کہستانی
یہ خلعت افغانیت سے ہیں عاری
میری دعا ہے کہ تو بدل جائے
اگر تیرے اندر انقلاب ہو پیدا
توعجب نہیں کہ چار سو بدل جائے
مولانا یوسف لدھیانوی شہید نے ایک روایت نقل کی ہے کہ پہلے دور میں قرآن کے معانی کی طرف زیادہ توجہ دی جائے گی اور الفاظ کی طرف کم ۔ آخری ادوار میں الفاظ کی زیادہ نگہداشت ہوگی اور معانی کی طرف کم توجہ دی جائے گی”۔ میں نے علامہ اقبال(ALLAMA IQBAL) کے اشعار کے الفاظ نہیں اسکے معانی سامنے لانے کی کوشش کی ہے اور جناب رقیب اللہ نے اپنے مضمون میں خول اورروح کی طرف توجہ دلائی ہے۔ سوالات کے جوابات اپنی تشریح میں دیدئیے ہیں۔ اس صحرائے نورد نے خشک صحرا کو رشک گلشن بنانے کیلئے جس پیاس کا ذکر کیا ہے تو دریائے سندھ سمیت اگر پنجاب کے پنجند بھی صحرائے تھل اور صحرائے بہالپور پر لگائے جائیں تو پانی ختم ہوجائیگا ان صحراں کی پیاس نہیں بجھے گی اسلئے تو سندھی کالاباغ ڈیم بننے نہیں دیتے ہیں۔ رحمن بابا(REHMAN BABA) کہتا ہے کہ ”اللہ کاولی بھی پانی چوری کرتا ہے”۔
اسلام ظاہر ی ڈھانچہ اور ایمان دل کا عقیدہ اور کیفیت ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ”ایمان کے بہت شعبے ہیں اور حیا ایمان کا خاص شعبہ ہے”۔ اور یہ فرمایا کہ ”جب تجھ سے حیا چلی جائے تو پھر جو چاہو ، کرو”۔ جس طرح مسلمانوں کیلئے اسلام ڈھانچہ ہے اور روح ایمان ہے۔ ایمان کا خاص نچوڑ حیا ہے۔ اسی طرح پشتون قوم کا ایک ظاہری ڈھانچہ اور ایک باطنی روح ہے۔ باطنی روح کا خاص نچوڑ غیرت ہے۔ علامہ اقبال نے کہا کہ اگر پشتون کو اس کی ملی غیرت سے محروم کرنا ہے تو پھر علما کو ان کے پہاڑی و میدانی علاقوں سے باہر کرنا ہوگا۔ شیطان کا سب سے بڑا ہدف علما کو ٹارگٹ کرنا ہے۔
آپ نے سندھ و پنجاب میں قبرپرستی اور پیروں کے نام پر خرافات کی مثال دی ہے تو اگر پشتون علما کا کردار نہ ہوتا تو سندھ وپنجاب اور پشتونخواہ میں فرق کیوں ہوتا؟ حالانکہ وہ بھی مسلمان اور ہم بھی مسلمان ۔ علامہ اقبال کی بات کوئی قرآن اور حدیث نہیں لیکن بعض اوقات اچھے شعرا کا کلام الہامی ہوتا ہے۔ پاکستان کو کلمہ طیبہ لاالہ الااللہ کے نام پر بنایا گیا تھا مگر پاک فوج اور سول بیوروکریسی سے لیکر سیاستدانوں، علما ومشائخ اور مجاہدین تک سب کے سب افغانستان(AFGHANISTAN) کیخلاف امریکہ کی مدد کیلئے کیسے کھڑے ہوگئے؟۔ ملاعمر اور طالبان پشتون قوم سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے امریکہ اور نیٹو کی افواج کے آگے سجدہ ریز ہونے سے انکار کردیا۔ یہ پشتون ملا عمر(MULLA UMER) اور اس کی صفوں میں کھڑے ہونے والے علما کا کمال تھا کہ پوری دنیا بھی مقابلہ کرنے آئی مگر انہوں نے اپنی حکومت، وطن ، جانوں ، عزتوں اور سب کچھ کی قربانی دیدی۔ علامہ اقبال کی بات درست ثابت ہوئی۔ اگر ہوتک قبیلے سے تعلق رکھنے والے ملا عمر نے اسامہ کو حوالے نہ کیا اور سید پرویز مشرف نے ڈاکٹرعافیہ صدیقی(DOCTOR AFIA SIDDIQUE) کو حوالے کیا۔تو اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہے؟۔
جناب رقیب اللہ محسود ! (RAQEEBULLAH)آپ کی تحریر سے اسلام کی ظاہرمیں بڑی شان اورباطن میں ایمان کی وہ خوشبو آرہی ہے جو ایک پشتون کی گردن اور شہ رگ میں اسلام و ایمان کا رشتہ ہوتا ہے۔ آپ کو بیس فیصد زکو (ZAKAT)پر جتنے زیادہ نفع بخش نتائج دکھائی دیتے ہیں یہ بڑا قابلِ رشک ہے۔ یہی جذبہ امریکہ کیخلاف جہاد کا جذبہ رکھنے والے مجاہدین میں تھا۔کسی کو یقین نہ تھا کہ ایک دن امریکہ کو ناکام ہوکر نکلنا ہوگا لیکن علما کے کہنے پر ڈٹ جانے والے مجاہد اور طالبان نے ناممکن کو ممکن بنادیا۔ آپ جیسے جواں نسل میں زکو اور اس کی تبلیغ کی سوچ پیدا ہوجائے تو جس طرح امریکہ کو جہاد کے میدان میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے تو معاشی میدان میں بھی مسلمانوں کی زکو کے نظام سے سرخروئی بدرجہ اولی ہوسکتی ہے۔
علما بھی اسی ماحول کے بندے ہیں۔صدیوں سے جو روایت چلتی ہے لوگ اس ماحول کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھتے ۔ امریکہ افغانستان نہ آتا تو جہاد کے ثمرات کا بھی دنیا کو پتہ نہ چلتا۔ کشمیر کے نام سے جو مجاہدین مولانا مسعود اظہر (MOLANA MASAOOD AZHAR)وغیرہ کام کر رہے تھے تو انہوں نے افغانستان میں امریکہ کے خلاف کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ امریکہ کی آمد نے ایک فرض سے علاقہ کے لوگوں کو روشناس کرایا۔ مقتدر طبقات نے امریکہ سے پیسہ لیکر اس کی حمایت کی۔ طالبان نے ایمان کی مدد سے امریکہ کا مقابلہ کیا ۔ اب پھر مقتدر طبقات نے اپنے اللے تللے کیلئے بھاری بھرکم سودی قرضے لئے اور مسلمانوں کوزکو کی طرف کو متوجہ کیا جارہاہے۔ اگر امیر لوگ اپنے علاقے کے غریبوں کو زکو دیں گے تو بہت ساری مشکلات پر قابو پایا جاسکتا ہے اور پھر یہ ایک تحریک کی شکل میں قو م کے اندر نئی روح ڈال سکتا ہے۔ وزیرقوم نے واوا کے نام سے کتنا بڑازبردست نظام تشکیل دیا ہے؟۔ اس سے پہلے کبھی وزیر یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ پھر محسود قوم کی طرف سے بھی ماوا کے نام سے چلتی کا نام گاڑی شروع ہوا۔ یہ مردہ قوموں میں زندگی کی روح ڈالنے کی ہوائیں ہیں جو ابھی چل پڑی ہیں۔
طالبان کیخلاف امریکہ نہ آتا تو وہ کنویں کے مینڈک رہتے۔ تصاویر پر پابندی ہوتی اور القاعدہ والے اپنی شادیوں کی بھی ویڈیوز بناتے۔ اب افغان طالبان نے بھی دنیا دیکھ لی ہے اور امارت اسلامی افغانستان کے نام سے پہلے کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں حکومت اور اسلام کے احکامات کی طرف توجہ کریں گے۔ افغان ایک طرف اشرف غنی کی حکومت کیساتھ کھڑے ہیں اور دوسری طرف طالبان کیساتھ کھڑے ہیں۔ ان میں اختلاف کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں اور مکالمے کی شکل میں دونوں طرف کے اہداف کی اچھی توجیہات بھی وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ جب طالبان امریکہ کی وجہ سے روپوش تھے تو افغان عوام کا حق تھا کہ مقامی حکومت تشکیل دیتے۔ طالبان نے زبردستی سے حکومت پر قبضہ کیا تھا تو جب ان کو امریکہ اور نیٹو نے زبردستی سے ہٹنے پر مجبور کردیا تو افغان عوام نے اس موقع سے فائدہ اٹھانا غنیمت سمجھا تھا۔ اگر طالبان کی حکومت منتخب حکومت ہوتی تو پھر طالبان کو گلہ شکوہ کرنے کا حق بھی پہنچتا تھا۔ جس اسلام کو طالبان نے افغان عوام پر مسلط کیا تھا اس اسلام کے اب طالبان خود بھی حامی نہیں رہے ہیں بلکہ بہت ہی زیادہ بدل چکے ہیں۔جب قابض امریکہ سے مذاکرات ہوسکتے تھے تو افغان حکومت سے بھی افہام وتفہیم کیساتھ معاملات حل کرنے میںکوئی شریعت حائل نہیں ہوسکتی ہے۔اصل مسئلہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان اسلام کی تشریح کا ہے۔ افغان طالبان چند مخصوص چیزوں کو اسلام سمجھتے ہیں جبکہ افغان عوام زبردستی کے اسلامی نظام سے متفق نہیں۔ اشرف غنی کی مختصر داڑھی ان طالبان کوکیسے قبول ہوسکتی ہے جو زبردستی داڑھیاں رکھواتے تھے؟۔ جن کو اشرف غنی ، عبداللہ عبداللہ قابلِ قبول ہیں اور ڈاکٹر نجیب کو آئیڈل سمجھتے ہیں وہ زبردستی داڑھی رکھوانے والوں کو کیسے حکومت سپرد کرسکتے ہیں؟۔ سعودیہ، عرب امارات اور پاکستان طالبان کے حامی تھے لیکن تینوں ممالک اپنے ہاں ملا کو ایسا رویہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے جو طالبان نے اپنی رعایا عوام کیساتھ اپنا یاہوا تھا۔طالبان سمجھتے ہیں کہ حکومت ہم سے چھین لی گئی تھی ،غیر ملکی افواج سے مدد لیکر ہمارا قلع قمع کیا، نیٹو افواج سے زیادہ انہوں نے انتقام کا نشانہ بنایا۔ اب جبکہ انکے سرپرست نیٹو نے ان کو چھوڑ اتو حکومت چھین لینا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ غیر ملکی اقوام نے ہم پر جارحیت کی تو انہوں نے ہماری آبادیوں کو نشانہ بنایا۔ بچے اور خواتین بھی شہید کردئیے۔ جب ہم نیٹو کی افواج سے لڑسکتے تھے تو ہمارے لئے ان کی کیا حیثیت ہے؟۔ یہ اپنے غیرملکی آقاں کیلئے اقتدار میں آئے اور ہمارا اپنا ایک مشن، عقیدہ اور نظریہ ہے۔ افغان عوام ہی کی مدد سے ہم نے نیٹو کو بھی شکست سے دوچار کردیا ۔ عوام کی اکثریت ہمارے ساتھ ہے۔ زیادہ تر علاقے ہمارے پاس ہیں اور حکومت کرنے کا حق بھی ہمارا ہے ۔ افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی تو افغانی عوام طالبان کے جبر سے تنگ تھے۔ بقیہ صفحہ3نمبر2پر
بقیہ…….. رقیب اللہ محسود کے سوالنامے کا جواب
اگر انتخابات میں مقابلہ ہوا تو طالبان اقتدار سے محروم ہوسکتے ہیں اسلئے طالبان الیکشن میں نہ جائیں گے۔ ہمارے ہاںطالبان(TALIBAN) شروع میں مسلط ہوئے تو لوگوں نے ان کو پسند کیا پھر انکے نام سے بھی نفرت ہوگئی ۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”سب سے بدترین وہ لوگ ہیں جن کی عزت انکے خوف کیوجہ سے کی جائے”۔ جب بینظیر بھٹو(BENAZIR BHUTTO) کو شہید کیا گیا تو جنگ گروپ کے ہفت روزہ اخبارِ جہاںکراچی کے سرورق پر بینظیر بھٹو کی تصویر تھی۔ میں جرمنی جارہاتھا اور دوست کے گھر میں صبح سویرے جانے کیلئے رکا تھا۔ اس شمارے کو دیکھا تو اس میںیہ لکھاہوا تھا کہ ”افغان فوج (AFGHAN ARMY)نے نیٹو کے سپاہیوں کو طالبان کوپیسے دیتے ہوئے پکڑ لیا، افغان سپاہیوں کو تعجب بھی ہوا مگرانہوں نے ہنستے ہوئے ان کو کوئی اہمیت نہیں دی”۔
اس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ نیٹو کی افواج اپنے ہدف القاعدہ(ALQAIDA) کو مارنا چاہتے تھے مگر وہ طالبان کے دشمن نہ تھے۔ دوحہ قطر اور دوسرے ممالک میں نیٹو کیساتھ طالبان کی گفتگو کا سلسلہ پہلے بھی جاری رہتا تھا۔ امریکہ نے اپنے ایک باغی القاعدہ کا خاتمہ کردیا لیکن داعش کو پیدا کردیا ہے۔ طالبان کو شروع سے امریکہ کے کہنے پر جنرل نصیر اللہ بابر(GENRAL NASEERULLAH BABAR) نے بینظیر بھٹو کے حکم سے بنایا تھا۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی میں یہ مضمون شائع ہوا کہ ”جب پاکستان کو افغانستان میں طالبان بنانے کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کی (MOLANA FAZAL REHMAN)مدد کی ضرورت پڑی تو مولانا اپنی جان بچانے بیرون ملک کے دورے پر گئے۔ پاکستان کو ضرورت تھی مولانا نے مدد نہیں کی”۔ جرمنی میں ایک برطانوی تاجر سے امریکہ کی دوغلی پالیسی پر بات ہوئی تو اس نے کہا کہ برطانیہ کا کردار کیساہے؟۔ میں نے کہا کہ وہ بھی یہی چیز ہے ۔ غالبا اخبار جہاں میں برطانوی فوجیوں کا ذکر تھا جسکا میں نے حوالہ دیا تھا اس پر اس برطانوی تاجر کے چہرے کا رنگ بہت خراب ہوگیا۔ امریکہ نے افغانستان کے بعد عراق اور لیبیا کا تیل بھی لوٹ لیا۔ جب (1990) میں عراق پر حملہ کیا تھا تو اسکے خاطر خواہ نتائج نہیں نکل سکے۔ پھر طالبان اور القاعدہ کا ڈرامہ رچایا گیا تو نیٹو نے ساتھ دیا اور عراق و لیبیا (IRAQ&LIBYA)کے تیل کے ذخائر لے اڑے۔ علاوہ ازیں سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ پشتونوں کے دل ودماغ میں طالبان کے سخت گیر کردار ، بھتہ خوری اور امریکہ کیساتھ گہرے مراسم کی وجہ سے ملاں سے نفرت بیٹھ گئی۔ شیطان نے باقاعدہ منصوبہ بندی سے اس بات کی طرف راستہ ہموار کردیا ہے کہ پشتون قوم اپنے ملاں کو اپنے پہاڑی اور میدانی علاقوں سے نکال باہر کر دیں۔
میرا بیٹا ابوبکر کہہ رہاتھا کہ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ لاہور کا مفتی عزیزالرحمان(AZIZURREHMAN) پشتون نہیں لیکن پھرپتہ چلاکہ یہ حضرت سوات کا ہے ۔ ہماری تحریک کے ابتدائی سالوں میں ہمارے ساتھیوں نے سنت سمجھ کر کان کے لوتک محسودقومی بالوں کی طرح بال رکھے تھے تو ہم پر بریلویت کا الزام لگایا جارہاتھا۔ جب روس کیخلاف جہاد ہورہاتھا تو کچھ لوگ بس میں بیٹھے تھے اور ان کی داڑھیاں منڈی ہوئی تھیں لیکن بال لمبے لمبے تھے۔ میرے بھائی نے ان کو دیکھ کر پوچھا کہ کونسا فرقہ ہے؟ ان میں سے ایک نے ناراضگی سے کہا کہ یہ فرقہ نہیں مجاہد ہیں۔ بھائی نے پوچھا کہ پھر یہ بال کیوں رکھے ہیں؟۔ تو اس نے آنکھیں گھمائیں اور کہا کہ ہمیں بال بنانے کا وقت جہاد میں کہاں ملتا ہے؟۔ بھائی نے کہا کہ یہ تمہاری داڑھیاں پھر روسیوں نے منڈوائی ہیں؟۔ جس پر وہ بہت شرمندہ ہواتھا۔
جہاد تو اپنی جگہ ٹھیک اور قیامت تک جہاد جاری رہے گا لیکن چوتڑ تک بال رکھنے میں کیا حکمت ہے؟۔ طالبان سوال پر ناراض ہوتے ہیں۔ وانا کے وزیروں نے پہلے طالبان کیساتھ رشتے ناطے تک کئے پھر ان سے جھگڑا ہوا تو الزام لگایا کہ ہم نے ایک ازبک کو بیٹی دی ہوتی تھی اور آٹھ آٹھ اسکے ساتھ یہ کام کرتے تھے۔ یہ وہی ازبک تھے جن کو صحابہ کرام کی طرح قرار دیا جارہا تھا۔
ہمارے ہاں ایک شخص تھا جو رمضان سے پہلے داڑھی رکھ لیتا تھا اور پھر کسی گاں میں مسجد کی امامت کرکے زکو خیرات اور تنخواہ کمالیتا، رمضان کے بعد داڑھی منڈا لیتا تھا اور اپنی محنت مزدوری کرتا تھا۔ ملا اور مجاہدکے نام پر بہت زیادہ جعل ساز لوگوں نے دھندے شروع کردئیے ہیں جن کا کوئی دین ایمان نہیں۔ بعض وہ ہیں جنکے پاس علم بھی ہے لیکن مذہب کے نام پر دھندہ بنانے کی وجہ سے کسی کو شعور نہیں دیتے ہیں۔ بہرحال علما کا کردار غنیمت ہے لیکن ایک بڑے طوفان کے ذریعے ان کو شعور کی طرف لے جانے کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
جناب رقیب اللہ !آپ کا مقصد جمود کو توڑنا ہے جس کیلئے قربانیوں کی ضرورت ہے۔ محسود قوم پہلے بھی بہت قربانی دے چکی ہے ۔اب خوف وہراس نے ڈیرا ڈال رکھا ہے۔ اس خوف کی فضا میں جمود کو توڑنے کی قربانی کوئی دوسری قوم نہیں دے سکتی ہے۔ اول وآخر محسود قوم کو اللہ نے شاید اس مقصد کیلئے پیدا کیا ہے اور چند اصول طے کرنے کی ضرورت ہے کہ بہادری و بزدلی کی تعریف لوگوں کے دل ودماغ میںڈالی جائے۔ بہادری یہ ہے کہ کوئی فرد باپ ، دادا، بھائیوں، قوم و شاخ کی شناخت نہ چھپائے جو اپنی شناخت چھپائے وہ دہشتگرد بزدل ہے۔
افغان حکومت اور طالبان سے لیکر عالم اسلام و کفر تک دنیا میں ایک مکالمے کی فضا پیدا کی جائے۔ قرآن(QUURAN) کے نظام میں اتنی جامعیت ہے کہ چھوٹے گھر ، محلہ، علاقہ اور خطے سے لیکر دنیا کو راہ راست پر لانے کی صلاحیت اس میں موجود ہے لیکن صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کے بعد رفتہ رفتہ اسلام کا ڈھانچہ اور اس کی روح اجنبیت کا شکار ہوگئے۔ مولانا اشرف علی تھانوی(MOLANA ASHRAF ALI THANVI) نے لکھا ہے کہ ”میں ایک ایسے گاں میں گیا جہاں ہندو اور مسلمان اکٹھے تھے۔ ان کے ایکدوسرے سے رشتے ناطے بھی تھے ۔ کوئی ایسی شناخت نہیں تھی کہ کون مسلمان اور کون ہندو؟۔ پہچان کیسے ہو؟۔ آخر کار میں نے پوچھ لیا تو انہوں نے کہا کہ اور کوئی فرق نہیں ۔ بس ہولی اور دیوالی ہوتی ہے تو اس کی میزبانی ہندو کرتے ہیں اور مسلمان بھی شریک ہوتے ہیں اور بزرگ کے عرس میں میزبان مسلمان بنتے ہیں اور ہندو بھی شریک ہوتے ہیں۔ مولانا تھانوی نے ان کو تلقین کردی کہ اس عرس کی میزبانی کی رسم مضبوطی سے تھام لو،جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین سے تعلق رکھنے والے مشرکینِ مکہ کیلئے صفا ومروہ کی دوڑ واحد مذہبی شعار رہ گیا تھا باقی بت شکن ابراہیم کی ساری قربانیاں بھول کر خانہ کعبہ کے بتوںکوہی شعار بنالیا تھا۔ بتوں سے اتنے خطرات نہیں ہوتے اسلئے کہ مجسمے ہوتے ہیں مگر جب علما ومشائخ کی پوجا شروع کی جائے تو وہ زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ اللہ نے ایک طرف اہل کتاب کو اتحاد کی دعوت دی کہ ان کو کہو کہ ایسی بات کی طرف آ جو ہمارے درمیان مشترک ہے تو دوسری طرف واضح کیا کہ ” یہود ونصاری آپ سے کبھی راضی نہ ہونگے جبتک آپ ان کی ملت کے تابع نہ بن جائیں ”۔ (القرآن)۔بت میں نفسانی خواہشات، جنسی معاملات، پیٹ، بال بچے اور دولت ، شہرت ، عزت اور اقتدار کی خواہش نہیں ہوتی ۔ انسان میں دل ہوتا ہے جس کی خواہشات ختم نہیں ہوتیں اور ماحول میں ڈر وخوف کا بھی شکار ہوتا ہے۔
جب ہم بنوری ٹان(BINORI TOWN) کراچی میں پڑھتے تھے تو اس وقت روس نے مسلم ریاستوں میں آزادی سے پہلے اسلام کی تبلیغ کی اجازت دی تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ ایسے مسلمان تھے جن کو صرف اپنے آبا واجداد سے اتنا پتہ چلا تھا کہ ”علی ہمارا خدا ہے”۔ اس پر انکے مسلمانوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے قابل سمجھا جاتا تھا۔
تبلیغی جماعت (TABLEGHI JAMAT)کی بدولت لوگ چند مخصوص چیزوں کو اسلام سمجھتے ہیں تو یہ غنیمت ہے لیکن اسلام کے مسائل بہت سادہ اور عام فہم ہیں جس دن عوام کو متوجہ کیا گیا تو علما اور تبلیغی جماعت والے بھی روس کی نو آزاد مسلم ریاستوںاور ہندوستان کے مسلمانوں کی طرح اپنی اس حقیر معلومات کو اسلام کیساتھ مذاق سمجھیں گے۔
غسل کے فرائض اور استنجے کے مسائل سے لیکر ایک ایک بات کو مذہبی طبقات نے اجنبیت کا شکار بنادیا۔ اصول فقہ میں نالائقی کی انتہا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے درست کہا کہ اگر کسی عقل والے کی نظر اس پر پڑگئی تو سب کچھ ملیامیٹ ہوجائے گا۔ مولانا مناظر احسن گیلانی کی کتاب ”تدوین القرآن”میں بڑے حقائق ہیں جو جامعہ بنوری ٹان کراچی نے شائع کردی ۔ میرازمانہ طالب علمی کا دوست مفتی زین العابدین لسوندی بہت محتاط انسان ہے ، کبھی کھبار ان سے بات ہوتی ہے۔ اس نے کہا کہ ”وزیرستان کی کہاوت ہے کہ کسی مسئلے کا حل آسان مگر اس کو اپنے ذمے لینے کا دعوی کرنا مشکل کام ہے”۔
یقین جانو کہ مدارس کا حال بھی یہی ہے کہ نصاب میں کوئی جان نہیں مگر بس کسی میں ہمت نہیں ۔ مفتی حسام اللہ شریفی ،مفتی محمد نعیم، شیخ الحدیث مفتی زر ولی خان، مولانا عبدالرف ہالیجی ، مولانا قاری اللہ داد، مفتی خالد حسن مجددی، مولانا الطاف الرحمن بنوی ، علامہ زاہد الراشدی اور پروفیسراورنگزیب حافی جیسے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی دیر تھی۔مفتی زر ولی خان میں جرات تھی مگر زندگی نے وفا نہیں کی اور میری کتاب ”عورت کے حقوق”کے مسودے اور کتاب چھپنے کے بعد پڑھی تو بھی بہت اچھے تاثرات کا اظہار کیا تھا۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی(mufti taqqi usmani) نے اپنے حالیہ ایک بیان میں کہا کہ ”اللہ نے قرآن میں اپنی ذمہ داری لی ہے کہ ثم ان علینا بیانہ پھر ہمارے اوپر اس کو واضح کرنے کی ذمہ داری ہے، صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین سے آج تک قرآن جو بیان کیا گیاہے ،یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ بڑے بڑے لوگ گزرگئے اور ان کی باتوں کا کسی کے پاس جواب نہ تھا۔ غلام احمدپرویز آج کہاں ہے”۔ (ویڈیو بیان)
دنیا میں آج ڈاکٹر ذاکر نائیک کی بڑی گونج ہے۔ غلام احمد پرویز (ghulam ahmed parvaiz)نے لکھا تھا کہ طلاق احسن کا جو طریقہ حنفی فقہا نے بتایا ہے وہی قرآن کی تفسیر ہے۔ دومرتبہ طلاق احسن دینے کے بعد تیسری مرتبہ طلاق احسن دی گئی تو پھر قرآن میں حلالہ کے بغیر رجوع نہیں کرنے کا حکم ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک(doctor zakirnaik) کی مقبولیت مفتی تقی عثمانی سے زیادہ ہے اور وہ بھی غلام احمد پرویز کی پیروی کررہے ہیں۔ اپنے شاگردوں کی طرف سے سخت سکیورٹی کے حصار میں شاہانہ ٹھاٹ سے متاثر ہونے والے شیخ الاسلام کو انشا اللہ اپنی مقبولیت کا بہت جلد اندازہ لگ جائے گا۔ اب وہ یونین کونسل کے ممبر بننے کے قابل بھی نہیں ۔ اگر یہ عزت ہے کہ برائی پر پکڑ نہ ہو تو شیخ الحدیث مولانا نذیرا حمد جامعہ امدادیہ فیصل آباد اور حال میں شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن کے حال سے عبرت حاصل کریں۔ اگر یہ ساری باتیں اللہ کی طرف سے تھیں تو چاراماموں میں کئی مسائل پر حلال وحرام ، جائز وناجائز اور طلاق ہوگئی یا نہیں ہوئی ؟۔یہ اختلافات کیوں ہیں؟۔ کیا اللہ کے بیان میں تضادات ہوسکتے ہیں؟۔ سارے مدارس کے علما ومفتیان بینک کے سودی نظام کی مخالفت کر تے تھے لیکن اکیلے مفتی تقی عثمانی نے معاوضہ ہڑپ کرنے کے چکر میں اس کو اسلامی قرار دینے کیلئے پرواز کیوں بھری؟۔ کیا یہ اللہ کی طرف سے ہے کہ شیخ الاسلام اور مفتی اعظم بینک کے سود کو جائز قرار دے؟ ، باقی علما ومفتیان مخالفت کریں؟۔ سیدھی بات ہے کہ دس لاکھ روپیہ کسی نے بینک میں رکھا ہو اور اس پر لاکھ سود مل جائے اور پھراٹھائیس ہزار زکو کے نام پر کٹ جائیں تو اصل رقم بھی محفوظ ہوگی اور سود بھی ملے گا تو زکو کی کٹوتی کہاں سے ہوگی؟۔ مفتی محمود (mufti mehmood)نے مخالفت کی ۔ پہلے مولانا فضل الرحمن نے شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل قرار دیا مگر پھر ایک سو اسی ڈگری کے زوایے پر مسئلہ الٹ دیا گیا۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے۔
سود کی حرمت کا حکم نازل ہوا تو نبیۖ نے زمین کو مزارعت پر دینا سود قرار دیا۔ امام ابوحنیفہ ،امام مالک اورامام شافعی(imam abu hanifa imamshafi imammalik) سب متفق تھے کہ مزارعت سود ہے لیکن پھر رفتہ رفتہ شیخ الاسلاموں نے ریاستوں کی مدد سے اسلامی احکام کا تیا پانچہ کیا۔ پھر وہ وقت آگیا کہ مزارعت سود کی بجائے جاگیردارانہ سسٹم کا حصہ بن گئی۔ جو ٹوٹل سودی نظام تھا اس سے ملاں کو زکو ملتی تھی۔ مزارع تو اپنے بچے نہیں پال سکتے تھے۔ جنکے پاس اپنی زمین ہوتی تو وہ جاگیردار کی زمین کیوں کاشت کرتے؟۔ جب جاگیردارکی دولت سود کی رہین منت ہو تو وہ زکو ادا بھی کرے تو مزارعین کو دے گا جنکا خون چوس کر دولت بنائی گئی ؟۔ سودخور کس طرح زکو ادا کرنے میں مخلص ہونگے؟۔ سود اور زکو ایک دوسرے کی بالکل ضد ہیں ۔ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام(Feudalism &Capitalism) سود پر مبنی ہے تو ان سے زکو کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے؟۔ اسلام نے زکو کی ادائیگی کا حکم ضرور دیا لیکن سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ سودی نظام ختم کرنے سے اس کی ابتدا کی ہے۔
پہلے پٹھان علما سودی کاروبار کیلئے بیٹھتے تھے اور سود خوروں کو حیلے بتاتے تھے۔ اسلئے علما کی توہین ، گستاخی اور بے ادبی کو بڑا کفر قرار دیا جاتا تھا اور سود خور سرمایہ داروں کی طرف سے ان کی عزت کی تشہیر ہوتی تھی اور اب شیخ الاسلاموں نے بڑی سطح پر یہ کام انجام دیا ہے اسلئے ان سے اختلاف کو بھی کفر قرار دیا جارہاہے۔ مجھے اپنی ذات سے بھی زیادہ قیمتی اپنے نظریات لگتے ہیں اور الحمد للہ کافی حد تک لوگوں کا جمود توڑنے میں کامیابی بھی مل گئی۔ مجھے کانیگرم کے برکی، وزیرستان کے محسود ، وزیر اور داوڑ کی سرداری نہیں چاہیے۔ پختونوں کی سرداری نہیں چاہیے اور مجھے پاکستان کی بھی حکومت نہیں چاہیے۔ سب کو اپنے اپنے قبائل اور ملکوں کی سربراہی مبارک ہو۔ عثمان کاکڑ بہت اچھا انسان لگتا تھا۔ شاہ محمود کو انگریزوں کا ٹھیک طعنہ دیا تھا۔ ہمارے دادا سیدامیر شاہ نے میرے والد کو مدرسے میں بھیجا تھا لیکن سکول کی تعلیم نہیں دلائی تھی اور میرے چاچوں نے چھپ کر سکول کی تعلیم حاصل کی تھی۔ شہید صمد خان اچکزئی(shaheed samad khan achakzai) اور عبدالغفار خان نے بیٹوں کو لندن میں پڑھایا تھا۔ اقبال نے محراب گل افغان کے اشعار میں اچھے انکشافات کئے۔
تواپنی سرگزشت اب اپنے قلم سے لکھ خالی رکھی ہے خامہ حق نے تیری جبیں
علامہ اقبال نے زبردست اشعار لکھے ہیں اور ہماراہدف دنیا ہے اور اللہ کی طرف سے عالمگیر دین کا تقاضہ یہی ہے کہ رحمت للعالمینۖ کے دین کو پوری دنیا ہی میں پھیلایا جائے۔ دین فطرت میں لوگوں سے کچھ مانگنے کا تقاضہ نہیں بلکہ لوگوں کوبہت کچھ دینے کا تقاضہ ہے۔ایک جان ہے جو گوشت پوست سے بنی ہوئی ہے جو کسی حادثے کا شکار ہوجائے تو اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھ دینا۔ کسی نے بھی دنیا میں نہیں رہنا ہے۔ والسلام ۔
راہ ہدایت میں سرگردان ایک بیباک گمراہ مسافر سید عتیق الرحمن گیلانی
(syed atiq ur rehman gillani June=Special-2–page-4_raqeebullah mehsood _soodi nizam _zarbehaq.com_ulama)
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv

zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

breaking_news

what measures should be taken to protect Forests of Waziristan? Suggestions from Shafqat Ali Mahsud

shafqat ali mehsud
badar velly
mehsud tribe
waziristan forests
plant for pakistan
green pakistan
pakistan independence day

وزیرستانی جنگلات کا تحفظ کیسے ممکن ہے؟ چند تجاویز: تحریر: شفقت علی محسود

وزیرستان (waziristan)کے جنگلات کے تحفظ کیلئے سینٹ اور اسمبلیوں میں آواز اٹھنے کے بعد وزیراعظم کا خود اس سلسلے میں ایم این ایز سے ملاقات کرنا خوش آئند ہے لیکن کیا انتظامیہ اکیلے ہی بزور بازو ان جنگلات کی روک تھام کر پائے گی؟ کیا مقامی لوگوں کو اعتماد میں نہ لیکر یہ کام ممکن ہو سکتا ہے؟۔
کچھ تجویزات ہیں امید ہے کہ اگر ان پر عمل کیا جائے تو موجودہ جنگلات کے تحفظ کیساتھ ساتھ نئے پودے کے اگانے میں بھی آسانی ہوگی اور انتظامیہ اور محکمہ جنگلات کم وسائل استعمال کر کے اپنے مقصد کا حصول یقینی بنا سکتے ہیں۔
1۔ انتظامیہ کا جنگلات کے بارے میں حکومتی پالیسی کا واضح کرنا:قبائل بالخصوص شمالی و جنوبی وزیرستان کے لوگ اس کشمکش میں مبتلا ہیں کہ حکومت جنگلات پر قابض ہوکر انکے جنگلات چھیننا چاہتی ہے یا ساتھ دیکر تحفظ فراہم کریگی؟۔
حکومتی قبضے کے ڈر کیوجہ سے گزشتہ سال سے کافی جنگلات کاٹے جا چکے ہیں، حکومت کو چاہئے کہ یہ واضح کر دے یہ جنگلات ان مقامی لوگوں ہی کی ملکیت ہیں۔ جنگلات سے حاصل ہونے والی ہر قسم کی آمدنی اور فوائد کے حقدار یہاں کے مقامی لوگ ہی ہونگے۔ تب جاکر ان جنگلات کا تحفظ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
2۔جنگلات آگاہی مہم:کسی کو فوائد اور نقصانات بتائے بغیر قائل کرنا مشکل کام ہے جب تک جنگلات کے فوائد اور کاٹنے کے نقصانات سے لوگوں کوآگاہ نہیں کیا جائیگا تب تک تحفظ کی ہر کوشش رائیگاں جائے گی۔ انتظامیہ کو چاہئے کہ ان علاقوں میں اس سلسلے میں سیمینار کا انعقاد کروائے، سوشل میڈیا کمپین سے لوگوں میں شعور اُجاگر کیا جائے۔ گلوبل وارمنگ ,بارش کا برسنا، آکسیجن کی فراہمی، زمینی کٹاو کی روک تھام کے علاوہ جنگلات کے ہر قسم کے فوائد اور جنگلات کے خاتمے کے سارے نقصانات کے بارے میں لوگوں کو شعور دینا چاہئے۔
3۔ قومی کمیٹی برائے جنگلات تحفظ کا قیام:حکومت و محکمہ جنگلات ان جنگلات کا تحفظ تب تک ممکن نہیں بنا سکتی جبتک مقامی لوگوں کو اعتماد میں لیکر جنگلات کے تحفظ کیلئے کمیٹیاں نہ بنائی جائیں۔صدیوں سے جولوگ جنگلات کی حفاظت کر رہے ہیں اب بھی ان جنگلات کا تحفظ ان ہی کی مدد سے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ انتظامیہ مقامی مالکان کے تعاون سے مشترکہ جرگے کا انعقاد کرے، لوگوں کو اپنی جنگلات دوست پالیسی سے آگاہ کرے۔اس سلسلے میں حکومت کو فارسٹ گارڈ کیلئے مقامی افراد کو بھرتی کرنا چاہئے تاکہ جنگلات میں موجود ہر درخت کے تحفظ کیساتھ ساتھ ان جنگلات کے اصل مالکان کو ہی فائدہ حاصل ہو سکے۔
4۔ سوکھی اور گھروں کی تعمیر میں استعمال کی لکڑی:چونکہ قبائل گیس، بجلی سے محروم ہیں۔ جلانے کیلئے لکڑیوں کا استعمال ہے۔ جنگلات کی سوکھی لکڑی کو جلانے کیلئے لیجانے پرپابندی نہ ہو ۔ اگر کوئی گھر کی تعمیر میں لکڑی استعمال چاہتا ہے تو متعلقہ کمیٹی کی اجازت سے ضرورت کے مطابق درخت کی کٹائی کی اجازت ہو۔
5۔پرانے گھنے جنگلات:وزیرستان کے جنگلات سینکڑوں سال پرانے ہیں اور ان میں ایسے درخت ہیں جن کا تنا اندر سے گھل چکا اور باقی درختوں کی بڑھوتری میں رکاوٹ ہیں ان درختوں کو شمار کر کے کاٹا جائے تاکہ جنگلات میں چھوٹے درخت جلد نشوونما پا سکیں اوروہ جنگلات جو کافی گھنے ہیں، درختوں کی بڑھوتری میں رکاوٹ ہیں ان کو کاٹ کر ہلکا کیا جائے، کاٹی جانیوالی لکڑیوں کو کسی میدان میں لاکر، ملک بھر سے بڑے سوداگروں کو بلاکربولی لگائی جائے، فروخت ہونے کے بعد وصول ہونیوالی رقم کو مقامی اصل مالکان میں تقسیم کیا جائے۔
6۔سرکاری نرسریوں کا قیام: جن علاقوں میں جنگلات کاٹے جا چکے ہیں یا جنکو پرانے یا گھنے ہونے کیوجہ سے کاٹا جائیگا ان میں باقاعدہ بقیہ صفحہ 3نمبر3بقیہ…وزیرستانی جنگلات کا تحفظ کیسے ممکن ہے؟
درخت اُگانے کیلئے سرکاری نرسریوں کا قیام ضروری ہے۔ جن میں علاقے کے موسم کے مطابق پودے دستیاب ہوں۔ نرسریوں سے پودوں تک رسائی میں آسانی ہوگی اور لوگوں میں درخت لگانے کا رجحان بھی بڑھتا جائے گا۔
7۔ الیکٹرک آراپر مکمل پابندی:پہاڑی علاقوں میں جاری موجودہ کٹائی میں سب سے اہم کردار الیکٹرک آرے کا ہے۔ اس آرا کی مدد سے روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں درخت کاٹے جارہے ہیں۔ اس کے استعمال پر نہ صرف پابندی عائد کی جائے بلکہ برآمد ہونے پر ضبط کرنے کیساتھ ساتھ سزا بھی دینی چاہئے۔
8۔ سمگلنگ کی روک تھام :درج بالا تجاویز پر عمل ہوا تو سمگلنگ کا امکان پیدا نہیں ہو سکتا مگر احتیاطاً ہر علاقے کے داخلی ، خارجی راستوں اورچور راستوں پربنائی گئی کمیٹی کے افراد کوپہرا دینا چاہئے، کمیٹی کو ضلعی انتظامیہ کا براہ راست تعاون حاصل ہو۔یہ میری ذاتی تجاویز ہیں ان سے کوئی بھی اختلاف کر سکتا ہے۔
اگر آپ لوگوں کی بھی کوئی تجویز ہو تو ضرور شیئر کریں
تبصرۂ نوشتۂ دیوار: تیز وتند عبدالقدوس بلوچ
ایک جوان صحافی کی اچھی سوچ اس بات کی نشاندہی ہے کہ اس قوم میں ایک بیداری کی فضا پیدا ہوچکی ہے۔ اچھی سوچ کی حوصلہ افزائی اور پروان چڑھانے سے پوری قوموں کی تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ اگر علماء یہ کہیں کہ مفتی عزیز الرحمن اور صابرشاہ کے کردار سے علماء کو بدنام کیا گیا یا پشتون قوم پرست کہیں کہ پشتون قوم کو بدنام کیا گیا ہے تو اس سے مدارس اور پشتون قوم کا تحفظ نہیں ہوسکتا ہے ۔ پشتون قوم اسلام کی درست خدمت کیلئے صحیح بنیادوں پر آگے بڑھیں۔ مار دھاڑ کی جگہ امن وامان ہو تو بلوچ، پنجابی، سندھی، مہاجر، کشمیری سب ساتھ دینگے۔
رقیب اللہ محسود اور شفقت علی محسود کا اپنی قوم کے غریب افراد اور جنگلات کی فکر وہ انقلاب ہے جس سے دنیا کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اگر بچوں کو شروع سے ایسی تربیت اور ذہنیت دی جائے کہ اپنے باپ دادا کے غلط نقشِ قدم پر چل کر تم نے دنیا میں سیاست، سول وملٹری بیوروکریسی، استحصالی نظام کے ذریعے کیسے اپنا مفاد حاصل کرنا ہے اور کس طرح لوٹ مار کرنی ہے تو پھر دنیا کا اللہ حافظ ہے!
(syed atiq ur rehman gillani shafqat ali mehsood_waziristan k janglat ka tahaffuz _zarbehaq.com_navishta e dewar _afghanistan June=Special-2–page-4-navishta e diwar_smugling)

Can we accuse Ali Wazir or the enemy of the Pashtun nation is Pakistan? or its merely a clash among groups with different approaches and ideologies.

faqir of ipi, faqir api, akhter khan, maulana noor muhammad shaheed, usman kakar, ali wazir

وزیرستان تاریخی حقائق کی روشنی میں، فقیر ایپی سے علی وزیر تک : اختر خان

وزیرستان وانہ کا ایم این اے علی وزیر(ali wazir) پاکستانی ریاستی اداروں کو پشتونوں کا دشمن کہتا ہے۔وزیرستان سے تعلق رکھنے والا مشہور گوریلا جنگجو فقیر ایپی کہتا تھا کہ پاکستان کا نظام یہ وہی انگریز گدھا ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ اس کا پالان بدل دیاگیا ہے۔علی وزیر(ali wazir) کے دادا جلات خان اس فقیر ایپی کے قریبی ساتھی اور معاون تھے۔پاکستان بننے سے پہلے مسلسل دس سال وہ فقیر ایپی کے شانہ بشانہ انگریزوں سے لڑتے رہے۔جب پاکستان بن گیا تو علی وزیر کا دادا جلات خان دس سال تک افغانستان میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھاجبکہ فقیر ایپی کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے پاکستان کیخلاف لڑے یا اسکو اپنا ملک تسلیم کر لے۔فقیر ایپی(FAQEER AP) کے پاس نہ تو اتنے وسائل تھے اور نہ ہی تنظیمی استعداد کہ وہ پاکستان کو ان انگریزوں سے وراثت میں ملے انتظامی ڈھانچے سے لڑتے۔فقیر ایپی نے ہر ممکن کوشش کی کہ چاہے افغانستان ہو یا کوئی اور ملک، پاکستان کیخلاف لڑنے کی مدد لی جائے لیکن نہ تو افغانستان نے فقیر ایپی کو مدد دی اور نہ ہی کسی اور ملک نے حتی کہ وزیرستان میں ایسے ملکانان سامنے آئے جنہوں نے فقیر ایپی سے کہا کہ انگریز سے لڑنا درست تھامگر پاکستان سے لڑنا درست نہیں۔فقیر ایپی نے (1956 )کے بعد سیاست سے تقریبا کنارہ کشی اختیار کر لی اور (1957 )میں علی وزیر کے دادا جلات خان(JALAT KHAN) نے فقیر ایپی کی پیروی میں پاکستان سے لڑنے کا فیصلہ ترک کر دیا۔جلات خان اور پاکستانی اداروں کے درمیان بھی صلح کرائی گئی جس کی بنیاد پر علی وزیر کے دادا جلاوطنی چھوڑ کر پاکستان میں اپنے گاؤں وانہ آگئے۔
دلچسپی سے علی وزیر کے دادا جلات خان کا یہ معاہدہ اور صلح ملک شہزاد توجئے خیل نے کرایا تھا۔ملک شہزاد توجئے خیل وانہ کے مشہور سیاسی بزرگ اور خدائی خدمتگار نثار لالا کے رشتہ دار تھے اور غالبا ملک جمیل کے دادا تھے۔یہ وہی ملک جمیل ہیں جنہوں نے چند دن پہلے وانہ میں ایک جرگہ میں پی ٹی ایم کے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ علی وزیر کو جیل سے رہائی دلانے کیلئے میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہوںاور اس سلسلے میں کور کمانڈر کسی جرنیل کسی وزیر کے گھر یا دفتر جانے کو بھی تیار ہوں اب پی ٹی ایم والوں کو یہ یقین دہانی کرانی ہوگی
ِِِِِ کہ آئندہ پاکستان میں بیٹھ کر پاکستان کے دشمنوں جیسے افغانستان کے گیت وزیرستان میں نہیں گائیں گے۔
ستر کی دہائی میں جب وانہ وزیرستان میں مرحوم مولانا نور محمد(MOLANA NOOR MUHAMMAD) وزیرستان کی سیاست میں سرکردہ کردار بنا تو اسی علی وزیر کے دادا جلات خان کو اس کی پشت پناہی حاصل تھی جبکہ میر عسکر خوجل خیل جیسے مشران نے مولانا نور محمد کو وزیرستان کیلئے زہر ہلاہل قرار دیا تھا۔اسی کی دہائی میں افغانستان میں روس نواز پشتون قوم پرستوں کے خلاف جب امریکہ نواز جنرل ضیا الحق نے جہاد کا بیڑہ اٹھایا تو مولانا نور محمد ان کے فکری، نظریاتی اور عملی دوست بنے۔جنرل ضیا الحق(GENRAL ZIAULHAQ) اور مولانا نور محمد جیسی شخصیات کے درمیان جو گٹھ جوڑ بنی اسکے خمیر سے افغانستان میں طالبان کی حکومت معرض وجود میں آئی جبکہ وانہ میں نیک محمد، ملا نذیر، بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود جیسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے نہ صرف علی وزیر کے خاندان کی سرکردہ شخصیات کو قتل کیا بلکہ مولانا نور محمد بھی جنرل ضیا الحق کیساتھ جس آگ کو بھڑکا چکے تھے اسی میں جل گئے اور (2010) میں ایک خودکش حملے میں قتل کئے گئے۔علی وزیر نے (2013) کا الیکشن لڑا،تو مولانا نور محمد کے شاگرد مولویوں کے علاوہ وزیرستان وانہ کی جن سرکردہ شخصیات نے علی وزیر کو ہرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی وہ نصراللہ وزیر اور علی وزیر کے دُور کے رشتہ دار سعید وزیر جیسے پاکستانی قوم پرست بیوروکریٹس تھے۔نہ تو علی وزیر وہ الیکشن جیت سکا اور نہ ہی یہ بیوروکریٹس اپنا امیدوار کامیاب کروا سکے (2018) کے الیکشن میں وانہ کے یہ بیوریوکریٹس قوم پرست پشتونوں کی طرح آپس کے اختلاف کا شکار ہوئے۔سعید وزیر نے سیاست سے کافی حد تک کنارہ کشی اختیار کی۔جبکہ بیوروکریٹ نصراللہ وزیر نے اپنے بیٹے کو علی وزیر کے خلاف تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے میدان میں اتارا۔علی وزیر کی مقبولیت کے باعث عمران خان نے علی وزیر کے خلاف اپنے امیدوار کو دستبردار ہونے کا کہا لیکن نصراللہ وزیر بدستور علی وزیر کے خلاف الیکشن لڑنے پر مصر رہا۔نصراللہ وزیر کے امیدوار کو علی وزیر کیخلاف بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔( 2019)میں صوبائی اسمبلی کیلئے جو الیکشنز ہوئے اس میں ریاست پاکستان نے علی وزیر کے امیدوار عارف وزیر کو بالکل اسی طرح دھاندلی کرکے ہروایا جس طرح پنجاب میں مسلم لیگ اور پشاور ویلی میں عوامی نیشنل پارٹی کو ہروایا گیا۔ان حقائق کی روشنی میں آپ فیصلہ کریں کہ علی وزیر یا پشتون قوم کا دشمن پاکستان ہے یا پشتون قوم کے اندر مختلف الخیال اور نظریات کے پیروکاروں کے درمیان رسہ کشی؟۔

Afghan government came into existence with mutual efforts and co-ordination of General Muhammad Zia-ul-Haq and Maulana Noor Muhammad Wazir.

پشتونوں کے مذہبی علماء اور قوم پرست قائدین کے احوالِ واقعی : اختر خان

عثمان کاکڑ(USMAN KAKAR) کے جنازے پر تقریر میں محمود خان اچکزئی(MEHMOOD KHAN ACHAKZAI) نے کہا کہ تین ماہ بعد بنوں میں تمام پشتون سیاسی جماعتوں جیسے عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علما اسلام ف، پی ٹی ایم اور فعال سماجی سیاسی ایکٹویسٹس شعرا وکلا وغیرہ کا جرگہ بلائیں گے جو مسلسل تین دن تک اس پر غور کرے گا کہ پشتون قوم کی خانہ جنگی کو روکنے کیلئے کیا اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔تین دن غور و فکر کے بعد یہ جرگہ متفقہ موقف پاکستان کے سامنے رکھے گا۔اگر پاکستان کو وہ موقف منظور ہوا تو ٹھیک نہیں تو پشتونوں کا یہ جرگہ پشتون قوم کے مستقبل کے بارے میں آزادانہ موقف اختیار کرے گا جو شاید ریاست پاکستان سے ٹکرانے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔
زمینی حقائق کے تناظر میں محمود خان اچکزئی کی تقریر کے ان پہلووں کا جائزہ لیتے ہیں۔پشتون قوم کے اندر خانہ جنگی کی نوعیت کیا ہے؟ اس خانہ جنگی کے مرکزی کردار کون ہیں۔اس پہلو کو سمجھنے کیلئے میں آپ کو اپنے گائوں وانہ وزیرستان کی مثال دیتا ہوں،وانہ کا ایم این اے علی وزیر ان دنوں اس وجہ سے جیل میں ہے کہ ریاست پاکستان کے ادارے علی وزیر کو پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں۔علی وزیر کو جتنے ووٹ2018 کے الیکشن میں ملے اتنے ووٹ وزیرستان کی تاریخ میں کسی کو نہیں ملے۔علی وزیر کے خلاف جمعیت علما اسلام مولانا فضل الرحمان کے جس بندے مولانا محمود عالم(MOLANA MEHMOOD ALAM) نے الیکشن لڑا وہ افغان طالبان کا مرکزی کردار تھاجو افغانستان میں علی وزیر کے فکری دوستوں جیسے کرزئی اور اشرف غنی کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔یہی مولانا محمودعالم وزیرستان میںگڈطالبان کابھی مرکزی کردار تھا۔اسی طرح(2013 )کے الیکشن میں وانہ کے چند مقامی سرکردہ بیوروکریٹس نے علی وزیر کو ہرانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی، یہ بیوریوکریٹس اپنا امیدوار نصیراللہ کو پاس تو نہ کر سکے لیکن علی وزیر کو پاس نہ ہونے دینے میں کامیاب ہوئے(2019)کے صوبائی الیکشن میں علی وزیر کے چچا زاد عارف وزیر(ARIF WAZIR) کو الیکشن میں ناکام کرنے کیلئے بالکل یہی حربہ استعمال ہوا۔علی وزیر وزیرستان میں قوم پرستوں کاترجمان ہے۔مولانا محمودعالم مذہبی پشتونوں اور طالبان کا ترجمان ہے جبکہ بیوروکریٹ نصراللہ کا بیٹا ایم پی اے نصیر اللہ تحریک انصاف کا بندہ ہے۔تحریک انصاف ریاستی اداروں کا گماشتہ ہے۔ مولانامحمودعالم جیسے مولوی اوروزیرستانی بیوروکریٹس علی وزیر جیسے سیاستدان کو نہ صرف اپنا سیاسی حریف بلکہ حسب ضرورت انکے ساتھ جنگ کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں اور یہی وہ پہلو جسکا مظہر آج کل گڈ بیڈ طالبان ہیں۔جسکی وجہ سے پچھلے بیس سال سے وزیرستان میں خانہ جنگی ہے اور اسی وجہ سے پچھلے چالیس سالوں سے افغانستان میں خانہ جنگی ہو رہی ہے۔یہی رسہ کشی پچھلے ستر سال سے پاکستان اور باچاخان اور صمد خان کے پیروکاروں کے درمیان چل رہی ہے۔
باچاخان و صمد خان(BACHA KHAN SAMAD KHAN) جیسے قوم پرست اتنے منقسم اور نفاق کا شکار ہیں کہ الیکشن میں پیپلز پارٹی مذہبی جماعتوں اور مسلم لیگ کیساتھ تو اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لیتے ہیں مگر ایکدوسرے کیساتھ نہیں کرتے، اسی طرح ووٹ تقسیم اور انکے مخالفین کامیاب ہو جاتے ہیں۔ان قوم پرستوں کے دشمن مذہبی جماعتیں جیسے مولانا فضل الرحمان والے سمیع الحق والے مولانا شیرانی والے سراج الحق والے طارق جمیل والے مفتی تقی عثمانی والے بھی اب اتنے نفاق کا شکار ہیں کہ شاید ہی آپس میں پھر کسی متحدہ مجلس عمل کی شکل میں اکھٹے ہوں۔فرض کریں کہ مذہبی طبقات میں اگر ایک دھڑا جیسے مولانا فضل الرحمان والے اور باچاخان اور صمد خان والے کسی ایک نقطے پر متفق بھی ہو ں تو باقی مذہبی جماعتیں جیسے سمیع الحق، سراج الحق، طارق جمیل مفتی تقی عثمانی اور مولانا شیرانی(samiulhaq,sirajulhaq,tariqjameel,Taqi Usmani,molana sheerani) والے انکے پیچھے پروپیگنڈہ شروع کر لیں گے کہ مولانا فضل الرحمان نے یہود و ہنود کے ایجنٹوں اسفندیار اور اچکزئی کیساتھ دوستی کر لی اور یہ مذہبی طبقے پاکستانی ریاستی اداروں کیساتھ مل کر مولانا فضل الرحمان اسفندیار اور اچکزئی کے خلاف ایسے ہی اتحاد کر لیں گے جیسے علی وزیر یا اسکے امیدوار کے خلاف وزیرستان میں اتحادی بن جاتے ہیں یا جس طرح افغانستان میں کرزئی اور اشرف غنی سے نمٹنے کیلئے افغان طالبان پاکستانی ریاستی اداروں کیساتھ اتحادی بن جاتے ہیں۔
اسفندیار، محمود خان اچکزئی ،علی وزیر جیسے قوم پرست ایک نقطے پر متفق نہیں ہوتے ،ایک متفقہ لائحہ عمل نہیں بنا سکتے۔مولانا فضل الرحمان سراج الحق سمیع الحق مولانا شیرانی طارق جمیل اور مفتی تقی عثمانی کے پیروکار آپس میں اتحاد نہیں کر سکتے تو ان پشتون پرستوں کیساتھ کیا اتحاد کر لیں گے۔جبکہ پاکستانی نوکر پیشہ پشتون تو ویسے ہی پشتون قوم پرستوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور اس مقصد کیلئے مذہبی پشتون خواہ وہ آج مولانا شیرانی یا سمیع الحق والے ہوں تو پرسوں سراج الحق والے تھے ان پاکستانی نوکر پیشہ پشتونوں کے گماشتے بننے میں کوئی دیر نہیں لگاتے بس موقع کے انتظار میں ہوتے ہیںکہ کب ریاستی اداروں سے ان کو دعوت ملتی ہے۔ سیاسی طبقات اس قدر زوال کا شکار ہیں کہ ساری جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے لیکن سیاست میں ریاستی اداروں کی مداخلت کیخلاف متفقہ لائحہ عمل بنانے سے قاصر ہیں۔محمود اچکزئی کیلئے قوم پرستوں کو اکھٹا کرنا، مذہبی پشتونوں کے کسی ایک آدھ گروپ جیسے مولانا فضل الرحمان والوں کو اس مقصد کیلئے قائل کرنا شاید تھوڑا آسان ہو لیکن متفقہ لائحہ عمل بنانے پر راضی کرنا آسان نہیںاور بات جب اس نہج تک پہنچے گی توپاکستانی نوکر پیشہ پشتون اور تحریک انصاف کی ذہنیت رکھنے والے پشتون اس گٹھ جوڑ کیخلاف ان سے منظم ردعمل کا منصوبہ بنا چکے ہوںگے۔بابڑہ سے لیکر آج تک کی تاریخ تو یہی کہہ رہی ہے۔
(Nawishta-e-Diwar-July-21-Page-04_syed atiq ur rehman gillani_zarbehaq.com_akhtar khan )

the eligibility criteria of beard and Gown Jubba In our religious institutions (Madaris) allows characters like Mufti Aziz-Ur-Rehman and Sabir Shah to be the Imam of mosque.

ابن عربی ، مفتی عزیز الرحمن، maqam e mahmood, dr habibullah mukhtar, dr abdullah nasih ulwan


طرز نبوت کی خلافت کے قیام کی پیشگوئیاں احادیث صحیحہ کی روشنی میں اور علماء و عوام کی غلط فہمیاں دور کرنے کا ایک علمی اور عالمی میزان

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ قیامت تک امام قریش میں سے ہونگے، خواہ دو باقی رہ جائیں”۔سعودی عرب (saudi arab)کے حکمرانوں کو کب اور کس نے بادشاہت کے منصب پر فائز کردیا ؟۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ۔عام حکمرانوں کیلئے قریش کی شرط نہیں اور عثمانی ترک حکمران بھی قریشی نہ تھے تو سعودی بادشاہوں کے غیر قریشی ہونے میں بھی حرج نہیں۔
سعودی فرمانرواشاہ سلمان (shahsalman)نے بیان دیا کہ بہت سی احادیث من گھڑت ہیں۔ عالمی کانفرنس منعقد کی جائے کہ کونسی احادیث صحیح یا غلط ہیں؟ ۔ معروف مصنف عبداللہ ناصح علوان کی کتاب ”تربیت اولاد” کتب خانوں میں ہے لیکن شباب مسلم ”مسلمان نوجوان” غائب ہے۔ جس کا ترجمہ کرنے والے ہمارے استاذڈاکٹر حبیب اللہ مختارشہید(habibullah mukhtar principle jama binori town) پرنسپل جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کو قتل کرکے ان کی لاش کو بھی پڑول چھڑک کر جلادیا گیا تھا۔
”مسلمان نوجوان” میں اہم باتیں تھیں۔ یہ حدیث تھی کہ ”نبوت ورحمت کے بعد خلافت راشدہ کا دور آئیگا۔ پھر امارت کا دور آئیگا ۔ پھر بادشاہت کا دور آئیگا ۔ پھر جبری حکومتوں کا دور آئیگا۔ پھراسکے بعد دوبارہ طرز نبوت کی خلافت کا دور آئیگا ،جس سے زمین وآسمان والے دونوں کے دونوں خوش ہونگے”۔خلفاء راشدین ،پھر بنوامیہ و عباس کی امارت پھر خلافت عثمانیہ کی بادشاہت کا دور تھا ۔ (1924 )سے جبری حکومتوں کا دور شروع ہوا ۔اور اب خلافت علی منہاج النبوة کے دور کا دوبارہ آغاز ہونے والا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ ناصح علوان نے یہ حدیث لکھ دی اور شاہ سلمان نے کچھ احادیث سے انکار کردیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا مودودی(molana abukalam azad molana modudi)نے احادیث کی بنیاد پر طرز نبوت کی خلافت کے دور کا لکھ دیا اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی (molana yousuf ludhyanvi)نے ”عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” اور مفتی نظام الدین شامزئی نے ”عقیدہ ظہور مہدی”(aqeeda zahoor mehdi) میں یہی احادیث درج کیں۔ مولانامحمد یوسف لدھیانوی اور مفتی نظام الدین شامزئی کو شہید کردیا گیا ۔آج عرب کی ویڈیوزخوابوں سے بھری ہوئی ہیں کہ اس سال حج میں امام مہدی کا ظہور ہوگا اور بعض عرب علماء نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے اس خوف کی وجہ سے امسال حج میں دوسرے لوگوں کی آمد پر پابندی لگائی ہے۔
داعش دولت اسلامیہ عراق وشام پرحامد میر نے بہت بڑا انکشاف کیا کہ ”ابوبکر البغدادی (abubakar albaghdadi)کوئی امریکن یہودی تھا”۔ داعش حدود سے نکل کر افغانستان پہنچ چکی ہے۔ دہشت گردانہ کاروائی کا کھل اعتراف کرتی ہے اور اسکے پیچھے امریکہ کا کھلم کھلا ہاتھ بتایا جاتاہے۔ پیسوں کی بدولت کسی ریاست،جماعت ، قوم اور فرد سے جو کام بھی لو ،وہ ہوسکتا ہے ۔ اگر صابر شاہ امتحان میں پاس کرنے کی لالچ پر مفتی عزیز الرحمن (mufti azizurrehman)کے ہاتھوں استعمال ہوسکتا ہے تو پیسوں کی لالچ میں بھی ایسے اور اس سے کہیں زیادہ بہت برے کام انجام دئیے جارہے ہیں۔
صحیح حدیث میں ہے کہ امام قریش میں سے ہونگے لیکن خلافت عثمانیہ والے قریش نہیں تھے۔ بنوامیہ اور بنوعباس قریش تھے لیکن ان کو بھی خاندانی بنیادوں پر خلافت پر قبضہ کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ افغانستان میں طالبان اپنے آپ کو ایک جماعت کے طور پر رجسٹرڈ کرائیں اور اپنے دستور کے تحت جمہوری بنیاد پر عوام سے ووٹ لیکراقتدار کی دہلیز تک پہنچیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
پاکستان میں جمہوریت پیسوں اور لال کرتی(lal kurti) کا کردار ادا کرنے والی سیاسی پارٹیوں کی وجہ سے بالکل یرغمال ہے۔ پرویز خٹک نے دوسری سیاسی پارٹیوں سے تحریک انصاف میں شمولیت اختیارکی اور اس کا پورا ٹبر اسمبلیوں میں ہے ۔ تبدیلی سرکار نے خود کو ہی بدل دیا ہے۔ اسلام کے کچھ ٹھوس احکامات ہیں جن کی بدولت نہ صرف پاکستان، افغانستان اور ایران میں تبدیلی آسکتی ہے بلکہ پوری دنیا کے ماحول کو جمہوری بنیادوں پر تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اسلام کا کام دوسروں کے ممالک، وسائل ، افراد اور اقدار پر قبضہ کرنا نہیں ۔ جب دین میں زبردستی کا کوئی تصور نہیں ہے تو باقی چیزوں میں زبردستی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتاہے اور اللہ نے انسانوں کو مختلف تہذیب وتمدن، زبانوں ، خطوں اور مذاہب کی بنیاد پر تقسیم کیا ہے،اگر اللہ چاہتا تو سب کو ایک ہی جماعت بناسکتا تھا۔ حضرت آدم کی اولاد میں پشتون، پنجابی، بلوچ، سندھی، مہاجر، انصار ،رشین ،انگریز، جرمن، فرانسیسی،اٹالین،آسٹریلین ،فارسی،ہندی اورعرب وعجم نہیں تھے لیکن قابیل اور ہابیل میں کردار کی وجہ سے زمین وآسمان کا فرق ضرور تھا۔
قرآن نے کردار اور نیک وبد کے اعتبار سے لوگوں کو دوقسم میں تقسیم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ” ہم نے امانت کو زمین ، آسمان اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن بارِ امانت کو اٹھانے سے سب نے انکار کردیا اور انسان نے اٹھالیا اور یہ بڑا ظالم اور انتہائی جاہل تھا”۔ اللہ نے انسان کو مکلف بنایا ہے۔ عرب تکلیف اذیت کو نہیں بلکہ ”اختیاری طاقت” کو کہتے ہیں۔ سورۂ بقرہ کے آخر میں ہے کہ ( لایکلف اللہ نفسًا الا وسعھا…. ربنا ولاتحملنا ما لا طاقة لنا ” )اللہ کسی جان کو مکلف نہیں بناتا مگر اس کی وسعت کے مطابق…… اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہیں لاد،جس کی ہم میں طاقت نہیں ہے”۔ قرآن کا اردو ترجمہ دیکھ لیا جائے تو بڑے معروف علماء نے قرآن کے ترجمے کی بیخ کنی کی ہے۔ جب اللہ نے واضح کیا ہو کہ اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا تو پھر اس دعا کی کیا ضرورت ہے کہ” اے ہمارے رب! طاقت سے زیادہ بوجھ ہم پر نہ ڈال ”۔ قرآن میں کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ ہندی زبان والوں نے عربی زبان کو سمجھنے میں زبردست غلطی کی ہے۔ مکلف انسان ہوتا ہے جانور کو مکلف نہیں کہا جاسکتا ہے۔ انسان سے اس کی وسعت کے مطابق پوچھ گچھ ہوگی اور ایک شخص اپنے گھر میں اختیار کا مالک نہیں تو اس سے اپنی جان کے بارے میں پوچھا جائے گا، اس طرح گھر، محلہ، علاقہ، ملک اور دنیا میں جتنے اختیار کا وہ مالک ہوگا وہ اتنا مکلف ہے۔ اپنی وسعت کے مطابق مکلف ہونے کا یہ مطلب ہے اور جہاں تک طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنے کا تعلق ہے تو وہ گدھے پر پڑسکتا ہے اور انسان پر بھی پڑسکتا ہے۔ اسلئے جب وہ بوجھ برداشت نہیں کرتا ہے بہت مشکل میں پڑجاتا ہے۔ جس سے بچنے کیلئے اللہ نے وہیں پر دعا سکھائی ہے
انسان میں فطری طور پر یہ کمزوری موجود ہے کہ وہ اپنے اختیارت کی بہت وسعت مانگتا ہے جبکہ زمین وآسمان اور پہاڑ اس کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں اور اسی وجہ سے انسان کو ظلوماً جہولاً بھی قرار دیا گیا ہے۔ اللہ نے ایک جگہ پر فرمایا کہ ”انسان شر کیلئے ایسی دعا مانگتا ہے کہ جیسے وہ خیر مانگ رہا ہو”۔ اس میں انسان کا اختیارات مانگنے کی حرص کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” جب تمہارے ذمہ لوگوں کو عدل دینا لگ جائے تو پھر انصاف کیساتھ فیصلہ کرو”۔ آج پاکستان میں کروڑوں لوگ بھوک، افلاس، بیماری، ناانصافی اور ہزار طرح کی محرومیوں سے دوچار ہیں لیکن جب کسی کو آرمی چیف، وزیراعظم یا کوئی بھی بااختیار منصب پیش کیا جائے تو وہ لپک کر قبول کرے گا لیکن یہ نہیں سوچے گا کہ حساب دینا پڑے گا تو کیا حال بنے گا؟۔ یہی اس کی ظلمت اور جہالت قرآن میں واضح کی گئی ہے۔
جب دنیا میں عالمی اسلامی خلافت قائم(aalmi islami khilafat) ہوگی تو امام مہدی (imam mehdi)اس بارِ امانت کے اٹھانے کیلئے اپنے دل اور ذہن سے تیار بھی نہیں ہوگا لیکن مجبوراً منصب پر بیٹھنا قبول کرے گا۔ اس کا کام اختیارات سمیٹنا نہیں ہوگا بلکہ جن لوگوں کی عمل داری ہوگی ان سے روپے میں سولہ آنے ڈیوٹی لینی ہوگی۔ جب لوگ اپنے فرائض کی ذمہ داری پوری کرینگے تو سب کو عدل وانصاف بھی ملے گا۔ گھر، محلے ، گاؤں، شہر اور ملک سے لیکر بین لاقوامی سطح تک عدل وانصاف فراہم ہوگا تو سب کے سب انسان خوش ہونگے۔قرآن میں قیامت سے پہلے ایک بڑے انقلاب کی بہت زبردست خبر متعدد مرتبہ موجود ہے۔ حجاز میں مکہ سے مدینہ تک کے لوگ یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ مسلمان ایک دن روم وفارس ، ہندوسندھ ، بخاراوسمر قند، کاشغر ونیل اور اسپین تک اقتدار کے مالک ہوںگے اور دنیا کو بادشاہت کے مظالم سے نجات دلائیںگے لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ روشن اسلام نے پوری دنیا کے گھپ اندھیرے کو بدل دیا۔ امریکہ و اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے بھی نمرود وفرعون اور تاریخ کے ظالم ترین بادشاہوں سے زیادہ بڑے مظالم کئے مگر مسلمانوں کی عالمی خلافت قائم ہوگی تو دنیا میں کسی ایک انسان پر ظلم وجور تو بہت دور کی بات ہے قہروجبر بھی نہیں ہوگا کیونکہ رحمت للعالمینۖ کی یہ تعلیم ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا انورشاہ کشمیری(molana anwar shah kashmiri) نے لکھ دیا کہ ” قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہوئی ہے لیکن لفظی تحریف بھی ہوئی ہے یا تو مغالطے کی وجہ سے یا پھر جان بوجھ کر انہوں نے ایسا کیا ”۔ (فیض الباری شرح بخاری)
مولانا عبدالکریم کلاچی ڈیرہ اسماعیل خان نے اکوڑہ خٹک کے مفتی فرید کو اس عبارت پر خط لکھ دیا مگراس نے تسلی بخش جواب نہیں دیاجو فتاویٰ دیوبند پاکستان میں شائع بھی ہوا ہے۔ قرآن میں لفظی تحریف کا عقیدہ کفرہے مگر ہمارا مولوی اپنوں کی تأویل اور دوسروں کی تکفیر میں بڑا تیز ہے۔بریلوی مکتبہ فکرکے علامہ غلام رسول سعیدی نے دارالعلوم کراچی سے فیض الباری کی اس عبارت پر حوالہ دئیے بغیرفتویٰ لے لیا تو اس پر کفر کا فتویٰ بھی لگادیاگیا ہے ۔
مولوی کے نصابِ تعلیم درس نظامی میں اصولِ فقہ اور احادیث وتفسیر کی کتب میں یہ کفریہ عقیدہ بہت شد ومد کیساتھ پڑھایا جاتا ہے لیکن جس دن مولوی طبقے کا بستر گول کرنے اور ان کے مذہبی وتجارتی مراکز مدارس کو ختم کرنے کا وقت آن پہنچے گا تو عوام میں ان کے علم وکردار کو آخری حد تک ننگا کیا جائے گا۔ صحافی حسن نثار(hasan nisar) جیسے لوگ علماء کے خلاف خوامخواہ بھونکتے ہیں۔ پاکستان علی گڑھ کا تحفہ ہے۔ اگر مسلمان پسماندہ ہیں تو علماء کی وجہ سے نہیں بلکہ جدید تعلیمی اداروں میں حسن نثار جیسے بھانڈ پیدا کرنے کی وجہ سے ہے۔ البتہ مولوی اپنے نصابِ تعلیم کی وجہ سے مار کھا رہاہے۔ اوریا مقبول جان(oriamaqbooljan ) جیسے لوگ طالبان اور تحریک لبیک کی پشت پناہی سے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ مدارس نے اپنے نصاب کی اصلاح نہیں کی تو مذہبی طبقات اپنے نصاب کی وجہ سے مار کھاتے رہیںگے اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ اوریا مقبول جان اور حسن نثار جیسے لکھاریوں اور بھانڈوں کی وجہ سے مار کھاتے رہیںگے۔ مذہبی طبقات نے اپنے ایمان کی فکر کرتے ہوئے نصاب کو ٹھیک نہیں کیا تو یہ ہمیشہ کی طرح ہرباطل نظام کے لے پالک رہیں گے اور جدید تعلیم کا نظام درست نہیں کیا گیا تو امت مسلمہ جاہلوں کے ہاتھوں ہمیشہ استعمال ہوتی رہے گی۔ عمران خان جیسا کھلاڑی بھی فیلسوف اور صوفی بنا پھرتا ہے۔اور ہماری ریاست ، نوجوانوں اور پڑھے لکھے طبقوں کے دلوں پر راج کرتا ہے اس سے بڑی پسماندگی کی دلیل اورکیا ہوسکتی ہے؟۔

the eligibility criteria of beard and Gown Jubba In our religious institutions (Madaris) allows characters like Mufti Aziz-Ur-Rehman and Sabir Shah to be the Imam of mosque.
ہمارے مذہبی مدارس میں جبہ اور داڑھی رکھنے کے بعد مفتی عزیزالرحمن اور صابرشاہ جیسے کردار بھی مسجد کی امامت کے قابل سمجھے جاتے ہیں

Though our country is already declared in Grey list but internally our position and status is worse than Black list.
ہمارا ملک گرے لسٹ میں ہے تو اندورنِ خانہ ہماری حالت بلیک لسٹ سے بدتر ہے۔

مفتی عزیز الرحمن کا سکینڈل تازہ تھا، علی محمد خان(ali muhammad khan pti) نے قومی اسمبلی میں خاتون رکن کے مقابلے میں ” دل کرتا ہے اور زلفوں ” کی بات چھیڑ دی۔ قادر پٹیل کی مراد سعید کے خلاف آواز کی گونج ہے کہ” وہ بڑی مشقت کرکے اسمبلی میں آیا ہے اور خدا ایسی مشقت کسی سے نہ کرائے”۔ شیخ رشید کا بلاول بھٹو کو بلو رانی کہنے سے سیاسی قیادت کے ضمیر وخمیر کا اندازہ لگائیں۔ کسی مدرسہ کے شیخ الحدیث کیلئے آئین کی شق62،63نہیںلیکن پارلیمنٹ کیلئے ہے۔
ہمارے مذہبی مدارس میں جبہ اور داڑھی رکھنے کے بعد مفتی عزیزالرحمن اور صابرشاہ جیسے کردار بھی مسجد کی امامت کے قابل سمجھے جاتے ہیں اور پارلیمنٹ کی نمائندگی اور قیادت کیلئے شیخ رشید، مراد سعید ، نوازشریف اور عمران خان جیسے بھی باکردار اور صادق و امین بن جاتے ہیں۔ کیا پھر قوم کی تقدیر بدلنے کی کوئی امید رکھی جاسکتی ہے؟۔ اگر ہماری ریاست کو جنرل ایوب خان سے لیکر پرویزمشرف(parvaiz musharraf) تک ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا گیا ہے تو اسکی وجہ یہی ہے کہ ہماری ریاست نے بھی سیاسی قومی قیادت کو ہمیشہ ٹشوپیپر کی طرح استعمال کیا ہے۔ بیرون ممالک کیلئے ہمارا ملک گرے لسٹ میں ہے تو اندورنِ خانہ ہماری حالت بلیک لسٹ سے بدتر ہے۔ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والا قوم پرست علی وزیر پاکستان سے قومی اسمبلی کی حالیہ تقریر میںجس جذبے کیساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہے اسکی مثال ہماری اسمبلی کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ اسٹیبلیشمنٹ(establishment) کو چاہیے کہ عدالتوں سے اس کو فوری طور پر غیرمشروط رہائی کا پروانہ جاری کرنے کی تلقین کردے۔ (PTI)کے سینٹر دوست محمد محسود نے حق بجانب لیکن قوم پرستی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قوم پرستوں،سیاست پرستوں اور مذہب پرستوں میں قدرمشترک یہی ہے کہ سبھی قوم، ملک اور اسلام کا بھلا چاہتے ہیں۔
پارلیمنٹ میں الیکشن و سیاسی معاملات پر اصلاحات کی بات ہوتی ہے لیکن مذہب کے حوالے سے حقائق اجاگر کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرتا ہے۔ پشاور میں اہلحدیث اور پنج پیری مسلکوں کا طلاقِ ثلاثہ کے مسئلے پر مناظرہ حکومت کی انتظامیہ نے روک دیا۔ دونوں مسلک عقائد اور اصولِ دین میں ایکدوسرے کی قربت کا احساس رکھنے کے باوجود سوشل میڈیا پر ایکدوسرے کیخلاف مغلظات بک رہے تھے۔ دونوں قرآن وسنت کے دعویدار ہیں۔ پنج پیری قرآن وسنت اور حنفی مسلک پر زیادہ زور دیتے ہیں اور اہل حدیث احادیث پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ اگر ان دونوں کو ٹھنڈے دل وجگر سے سمجھایا جائے تو قرآن وسنت پر ایک مؤقف پر متفق ہوسکتے ہیں۔ البتہ دونوں کو اپنا جمود اور تقلید تحقیق سے توڑنا ہوگا۔
قرآن میں اللہ نے فرمایا :ویسئلونک عن المحیض قل ھو اذًی ”اور تجھ سے حیض کی حالت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دیجئے کہ وہ تو ایک اذیت ہے”۔ قرآن کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک جملے میں معانی واصلاحات کے انبار ہوتے ہیں۔ صحابہ نے نبیۖ سے حیض کی حالت کا حکم پوچھ لیا۔ اللہ نے جواب دیا کہ ” ان سے کہہ دو کہ یہ ایک اذیت ہے”۔ قرآن کے اس لفظ نے آئندہ کی آیات میں ترجمہ وتفسیر کو بہت ہی آسان بنادیا۔ عربی لغت میں اذی کا معنی کہیں گند نہیں ہے۔ عربی میں گند کو قذر کہتے ہیں۔ اگر آئندہ آنے والی قرآنی آیات میں عورت کی اذیت کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا تو مسلکی تضادات رکھنے والے گدھے قرآن کے احکام میں اس قدر تفرقے اور انتشار کا شکار نہ ہوتے۔ اس موضوع پر بارہا ہم نے اپنے اخبار اور اپنی کتابوں میں واضح بھی کردیا ہے۔
جب اذی کے معانی غلط لئے گئے کہ اس سے گند مراد ہے تو عورت کیساتھ قرآن کی تفسیر میں بہت زیادتی روا رکھی گئی۔ حیض میں اذیت بھی ہے اور گند بھی اور اس آیت(222)البقرہ کے آخر میں اذیت سے توبہ کرنے والوں اور گند سے دور پاکیزہ رہنے والوںکو پسند کرنے کا بھی واضح فرمایا ہے۔ اگر کوئی اپنے بیٹے یا شاگرد سے کہے کہ یہ میرا اثاثہ یا ایسٹ ہے تو وہ اس عزت نوازی پر بڑا خوش ہوگا اور اگر اس کو اپنا کھیت قرار دے گا تو بہت سخت ناراض ہوجائے گا۔ اللہ نے فرمایا کہ ” تمہاری عورتیں تمہارا اثاثہ ہیں اور جیسے چاہو،ان کے پاس آؤ”۔ فقہاء نے حرث سے مراد کھیتی لیا کہ ”تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں”۔ حالانکہ حرث سے اثاثہ بھی مراد لیا جاسکتا تھا لیکن عورت کی اذیت کا خیال نہیں رکھا گیا تو ترجمہ اور تفسیر میں بگاڑ پیدا کیا گیا۔ کھیتی کو روند کر راستہ بنانے کو وطی کہتے ہیں۔ فقہ کتب میں عورت سے مباشرت کیلئے ”وطی” کالفظ بلکہ فاعل اور مفعول کی گردان بھی بنائی گئی کہ واطی اور موطوہ۔ حالانکہ قرآن میں جماع کیلئے باشر، لامستم ہے لیکن وطی کا لفظ نہیں ہے۔ پھر عورت کیساتھ پیچھے کی طرف سے جماع کرنے کیخلاف بھی بہت احادیث ہیں اور ایسی حدیث بھی ہے جس میں عورت کیساتھ پیچھے کی راہ سے جماع کو جائز قرار دیا گیا جس کی صحیح بخاری میں بھی تصدیق ہے اور اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ متضاد احادیث کیسی گھڑی گئیں ہیں۔
عربی لغت میں عورت سے جماع کیلئے وطی کا لفظ نہیں۔قرآن کی غلط تفسیر کی وجہ سے عربی لغت میں خودساختہ اضافہ کردیا گیا ۔ اگر اذی سے گند مراد نہیں لیا جاتا تو حرث سے کھیتی اورجماع کو وطی کہنے تک بھی بات نہیں پہنچ سکتی تھی۔ قرآن میں دوجگہوںپر وطأ کا لفظ آیا۔ ایک رات تہجد میں اُٹھتے وقت کیلئے( اشد وط ئً واقوم قیلً)ا اور دوسرا یہ کہ مشرک حرمت کے مہینوں کو اپنی جگہ سے دوسرے مہینے کے بدلے تبدیل کرتے تھے۔ تہجد کے وقت انسان کیلئے قرآن کی سمجھ آسان ہوتی ہے اور یہ عربی لغت میں وطأ کا ایک معنی بھی ہے اور اس وقت نفس بھی کچل دیا جاتاہے جس سے بڑا تزکیہ ہوتا ہے۔ وطأ سے اچھی بری دونوں تبدیلی مراد ہوسکتی ہے۔ علاوہ ا زیں بھی بہت سارے معانی پراطلاق ہوسکتا ہے۔ نبی ۖ نے مہدی کیلئے فرمایا : لیواطئی اسمہ اسمی ” تاکہ اس کا نام میرے نام کے موافق ہو”۔ شیخ عبدالقادر جیلانی کے مرید اور ارتغرل غازی کے مرشد شیخ ابن عربی نے لکھا کہ ” نام کے موافق ہونے سے مراد ہمنام ہونا نہیں ہے بلکہ یہ عربی حروف کے وزن کے حساب سے موافق ہونا مراد ہے”۔ بعض روایات میں پھر ماں باپ کے ناموں کی مشابہت کے اضافے بھی کئے گئے۔
امام مہدی (imam mehdi)کسی مسلک اور فرقے کی طرف منسوب ہونے کے بجائے اپنی نسبت اور اپنی راہِ عمل براہِ راست نبیۖ کی طرف کریگا ،اسلئے کہ نبی ۖ کے نقش قدم پر ہوگا۔ نبیۖ کے خلاف دنیا میں جتنی غلط خرافات منسوب ہونگی وہ سب داغ دھبے دھونے کا نعم البدل ہوگا اور پھر دنیا میں نبیۖ کے خلاف کوئی بکواس نہیں کرے گا بلکہ دنیا میں دوست اور دشمن سب کی زباں پر نبیۖ کے قصیدے ہونگے اور اسی کو ”مقام محمود” کہتے ہیں۔ محمود جسکی تعریف کی جائے۔ مذموم کی ضد محمود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کو امید دلائی ہے کہ عسٰی ان یبعثک مقامًا محمودًا ”ہوسکتا ہے کہ اللہ آپ کو مقام محمود عطاء کرے”۔ آذان کے بعد بھی مانگنے کی یہ دعا ہے کہ” نبیۖ کو اللہ مقام محمود عطاء کرے ”۔ نبیۖ تمام جہانوں کیلئے رحمت ہیں اور آپۖ کی سیرت کو درست معنوں میں اجاگر کیا جائے تو جس طرح ایک عیسائی مصنف ہیکل نے نبیۖ کو پہلا نمبردیا ہے ،اسی طرح متشددملحدین بھی اپنے دل ودماغ سے پہلا نمبر دیں گے۔ ہیکل نے حضرت عمر کے علاوہ کسی دوسرے صحابی یا مسلمان کا نام اپنی کتاب میں درج نہیں کیا ہے۔ اہل تشیع اپنے چرسی، بھنگی اور ہیرونچی کو بھی نجات یافتہ سمجھتے ہیں جو صرف یاعلی کا نعرہ لگاتے ہیں مگر نبیۖ کے صحابہ سے بغض رکھتے ہیں اور یہ اس غلط ماحول کا نتیجہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا چلا آیا ہے اور اس میں سنیوں کی کتابوں کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ اہل تشیع میں بہت اچھے مسلمان لوگ بھی ہیں اور غلط فہمی کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے نبی بھائی حضرت ہارون کو داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑسکتے ہیں تو صحابہ کے پاس وحی کا نظام نہیں تھا اور ان کی جنگوں کی وجہ سے تاریخ کے حقائق کو جتنا تلخ انداز میں پیش کیا گیا ہے اگر اہل تشیع کے محققین نے اپنے ضمیر سے انصاف کیا تو وہ امام حسن سے عقیدت چھوڑ دینگے بلکہ حضرت علی سے بھی نالاں ہونگے اورپھر ہمیں فکر ہوگی کہ ابوبکر و عمر کی بات چھوڑ دیں یہ اپنے پہلے دوسرے امام کو تسلیم کرلیں تو بھی غنیمت ہوگی۔ پھر امام حسین کے بعد میں آنے والے ائمہ کواپنے معیار پر پورا نہیں سمجھیںگے اور غائب امام کا عقیدہ بھی چھوڑدیں گے حالانکہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا اور حضرت خضر کی زمین پر موجود گی درست ہے توامام مہدی غائب کے عقیدے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
اہل تشیع کی شد ومد سے مخالفت کرنے والوں نے افہام وتفہیم کا راستہ محدود کردیا ہے اور تشدد میں فرقوں کو تجارت اور بین الاقوامی سازشوں کے تحت اسلام کو بدنام کرنے والوں کو امداد ملتی ہے اسلئے جب تک ان کے مفادات رہیں گے یہ اپنی حرکتوں سے مشکل ہی سے باز آئیںگے۔ آج تک ہم نے حضرت عائشہ پر بہتان لگانے والے حضرت حسان، حضرت مسطح اورحضرت حمنا بنت جحش پر غصہ کھانے اور افسوس کا کوئی مظاہرہ نہیں دیکھا ہے۔ اہل تشیع کے بعض لوگوں کی جنگ جمل کی وجہ سے حضرت عائشہ کی مخالفت کوئی توہین نہیں۔ جب نبیۖ نے فرمایا کہ” عمار(hazrat ammar) ایک باغی گروہ کے ہاتھوں شہید ہونگے”۔ عمار وابوبکرہ علی کی طرف سے لڑرہے تھے، بخاری میں ابوبکرہ سے روایت ہے کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ” وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکے گی جس کی قیادت عورت کے ہاتھ میں ہو”۔ ابوبکرہنے مخالفین کے خلاف حدیث پیش کی۔ ابوبکرہ نے مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف زنا کی گواہی پر کوڑے کھائے اور صحیح بخاری کی روایت اور امام ابوحنیفہ اور جمہور ائمہ میں اختلافات کی بنیاد پر مسلک سازی اور قانون سازی بہت بڑا المیہ ہے۔اگر پاکستان کی پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہوجائے تو بہت اچھا ہوگا۔
جب مدارس کے علماء قرآن کے خالص احکام کے مقابلے میں اپنا اجتہادی غیر ضروری مواد چھوڑ دیں گے تو نہ صرف مذہبی طبقہ، عام عوام، سیاسی طبقات اور مسلمانوں کے جدید طبقات میں انقلاب آئیگا بلکہ دنیا بدلنے میں دیر نہ لگے گی۔
(June=Special-2–page-4_syed atiq ur rehman gillani _navishta e diwar _akhtar khan _ptm_ali wazir _manzoor pashtoon _zarbehaq.com)

Review of Few shariah problems selected from familiar books Fiqa e Hanfia. Zandan Maseed

(کی ورڈ: فتاویٰ قاضی خان، فتاویٰ شامی، فتاویٰ عالمگیری ، Zandan Maseed)

حنفی فقہ کی مشہور کتابوں سے چند شرعی مسئلے ملاحظہ کریں۔
مولویوں کی جہالت ملاحظہ فرمائیں: زانڈان ماسید( محسود)فیس بک آئی ڈی

ہم مسلمانوں پر فقہاء کرام کے بیش بہا خدمات و احسانات ہیں جو بھلانے کے قابل نہیں ۔ دن رات دنیاوی مشاغل کو ترک کرکے قرآن و حدیث سے جو استنباط ان لوگوں نے کیا انکی نظیر نہیں ملتی یہاں تک آتا ہے کہ رات کو علمی مجلس لگتی مسئلے پر بحث ہوتی صبح کی اذان ہوتی یہاں تک مسئلے کا صحیح استنباط کیا جاتا ۔
ذیل میں حنفی مذہب کی مشہور کتابوں سے چند مسئلے بطور مثال سطور میں رقم کرتا ہوں تاکہ آپ لوگوں کو فقہائے کرام کی ان عظیم خدمات اور انمول کاوشوں کا پتہ لگ جائے کہ قرآن و حدیث سے لاکھوں مسائل کیسے نکالے جاتے ہیں ۔ بظاہر تو قرآن و حدیث چند کتابیں ہیں پر مولوی صاحب جو کروڑوں کے بجٹ کے کتب بتا رہا ہے اسکا پتہ لگ جائے کہ یہ مکتبے اور لائبریریاں خالی نہیں ان میں کیسے کیسے نوادرات ہیں ، ایسا نہ ہو کہ آپ انجانے مولوی صاحب کے سچ کو جھوٹ کہہ کر گناہ کے مرتکب ہوجا ۔
1: جس نے کسی دوسرے شخص کی بیوی کو پیچھے سے استعمال یعنی دبر میں جماع کیا یا لڑکا استعمال کیا تو اس پر حد نہیں ۔ فتاوی قاضی خان
( جلد 3 صفحہ369 )
2 :اگر کوئی بادشاہ زنا کرے ، شراب پئے یا قتل کرے اس پر کوئی حد نہیں ۔ عالمگیری 2/151( ۔قاضی خان 3/478 ۔ھدایہ کتاب الحدود 2 /448 )
3: عورت کی شرمگاہ کی رطوبت پاک تھوک جیسی ہے ۔( شامی جلد1صفحہ 236)
4: اگر چھوٹی بچی ، جانور یا مردہ عورت سے کوئی جماع / ہمبستری کرے دخول ہوجانے پر پانی نہ نکلے تو غسل واجب نہیں ۔
( فتاوی عالمگیری 1/15)
5:جس نے اپنے ساتھ زنا کیا یعنی اپنے پچھواڑے میں اپنا شتر مرغ داخل کیا اور انزال نہیں ہوا تو غسل واجب نہیں ۔
(درمختار 1/31 )
6:نماز کی امامت وہ کرے جس کی بیوی خوبصورت ہو اس کے بعد اس کا سر بڑا ہو اسکے بعد اسکا شتر مرغ یعنی اندام مخصوصہ چھوٹا ہو۔ (طحطاوی و درمختار 1/82 )
7:جس نے کسی چھوٹی بچی سے جماع کیا اور قابل جماع نہ تھی اور اندام مخصوصہ پھٹ گئی تو اس پر حد نہیں ۔
(فتاوی قاضی خان 3/469)
8: اگر کوئی تشہد کے آخر میں سلام سے پہلے پاد مارے اور ہوا خارج کرے تو اسکی نماز کامل ہے ۔
(منیہ المصلی ۔صفحہ 123 )
9:اگر کسی نے عورت کو کرایہ پر لیا اور اسکے ساتھ زنا کیا تو حد نہیں ۔( 3/468)
10:اگر کسی نے عورت سے زنا کیا اور بعد میں کہا کہ یہ میں نے خریدی ہے تو اس پر حد نہیں۔( فتاوی عالمگیری 1/151)
اوپر ذکر کئے گئے مسائل میں اگر کوئی مسئلہ غلط ہے اور مذکورہ کتابوں میں نہیں ہے تو نشاندہی کرنے پر ڈلیٹ کردینگے ۔قاری الطاف ادیزئی
(Nawishta-e-Diwar-July-21-Page-01 syed ateq ur rehman gillani _zarbehaq.com_zandan maseed)

The broadcasting institutions BBC &VOA, are part and parcel of war against terror policies: Akhtar khan.

(کی ورڈ:بی بی سی، وائس آف امریکہ،مولانا سلیم اللہ خان، Zandan Maseed)


مریکہ اور برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اور وائس آف امریکہ، جنگی پالیسی کا حصہ ہیں: اختر خان

گزشتہ دس گیارہ سالوں سے( BBCاورVOA)ڈیوہ مشعل کو بہت قریب سے دیکھ اور سن رہے ہیں انکا کاروبار،رپورٹنگ جنگ سے جڑی ہوئی ہے۔ جنگ جاری رہے گی انکا کاروبار چلتا رہے گااور جنگ بندتو انکا حساب بند ۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جنگ امریکہ اوربرطانیہ کا دہائیوںسے سب سے بڑا کاروبار رہا ہے اسلحہ بیچنے میں آج بھی امریکہ پہلے نمبرپر37% ہے۔ انکو یہ اسلحہ بیچنے کیلئے دوسرے ممالک میں جنگیںبرپا کرنی پڑتی ہیں۔ جنگوں کیلئے ماحول سازگار بنانے عوامی ذہن سازی کیلئے انہوں نے اپنے مخصوص پروپیگنڈہ ریڈیوز رکھے ہیں۔ جو ان ممالک کے اندرونی بدترحالات پر بات نہیں کر سکتے لیکن پاکستان اور افغانستان کیلئے دن رات ایک کیے ہوتے ہیں۔ عوام کے ذہنوں میں زہر گھولنا انکا صبح سے شام تک وطیرہ رہتا ہے۔
اپنے ان دوستوں جو ان ریڈیو سٹیشن کیساتھ منسلک ہیں معذرت کیساتھ کہ ہمارا اختلاف آپکے ساتھ نہیں، بلکہ آپکے ادارے کے ملک اور انکی جنگی پالیسی کو آپکے ادارے کے اور آپکے زریعے جس طرح پھیلایا جاتا ہے ھمارا اختلاف اس سے ہے۔ ہر اس رپورٹ کی قیمت دونوں اداروں کے رپورٹرز کو زیادہ ملتی ہے جس میں زہریلا پن زیادہ ہو، جس میں جنگ و جدل یا نفرتوں کا پرچار زیادہ ہو۔ جس سے ملکوں میں انارکی پھیلے وہ رپورٹ سب سے قیمتی ہوتی ہے۔
خطے (افغانستان+پاکستان)کیلئے دونوں ممالک کی مستقبل کی پالیسی انکے چینلز کی منافقت سے خود اخذ کریں۔ یہ ایک طرف پشتون قوم پرستوں کی تحریکوں کو بڑھاوہ دیکر جنگی(Conflict)والی صورت حال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف افغانستان و پاکستان میں طالبان کے حملوں کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ عوام میں ایک جنگی صورت حال اور افراتفری والی سوچ قائم ہو۔اور جنگ کا ماحول ہر حال میں بنا رہے۔
لہٰذا ان چینلز کا بائیکاٹ کرکے جنگ کے اصل کرتا دھرتاؤں امریکہ اور برطانیہ کی انسان دشمنی اورپشتون دشمنی کو پہچانیں۔ انکو ایکسپوز کریں۔درمرجان وزیر
زانڈن ماسید(Zandan Maseed)اور اخترخان کی تائید
دنیا کو فتح کے طالب، مجاہد اور مولوی کو اپنی کتابوں سے خرافات نکالنے کی توفیق کیوں نہیں ؟۔ علماء اپنی اسٹیبلشمنٹ سے جان چھڑائیں۔ فوج کی قیادت کا امریکہ کوہاں کرناغلط تھا لیکن عالمی بینکنگ کے سودی نظام کو جواز فراہم کرنا شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور مفتی اعظم مفتی منیب الرحمن کیلئے کیسے جائز تھا؟۔ صدر وفاق المدارس مفتی محمود، مولانا سلیم اللہ خان، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے مفتی تقی عثمانی کی مخالفت کی مگرسبھی ناکام تھے۔وائس آف امریکہ کے شمیم شاہد(shamim shahid) نے جیوچینل کی طرح ہمارا پروگرام نشرنہیں کیا۔ اختر خان نے ٹھیک لکھا کہ چینلوں کے ملازموں سے گلہ نہیں مالکان جنگ کی فضاء پیدا کرنے میں بہت مگن ہیں۔
اگر مذہبی اورقوم پرست طبقات برطانیہ اور امریکہ کے نشریاتی دجالی میڈیا کو سمجھ جائیں اور آپس میں لڑنے مرنے کے بجائے صلح ، انسان دوستی ، خدا پرستی اور عدل و انصاف پر مبنی ایک نظام تشکیل دیں تو دجالی میڈیا کا کردار بالکل یہاں سے ختم ہوجائے گا۔ خوبصورت کالے تیتروں کا مقابلہ فقط آوازوں سے ہوتا ہے اور ہم بھی کردار کے نہیں گفتار کے غازی ہیں اور کردار ہوتا بھی ہے تو شیطانی۔سید عتیق الرحمان گیلانی
(Nawishta-e-Diwar-July-21-Page-01 syed atiq ur rehman gillani akhtar khan)

Taliban terrorist are Dajjals battalion…point of view of JUI leader Molana Fazal-Ur-Rehman. Mulla Umer was a Mehdi…Opinion of Molana Yousaf Binori (R.A)’s student.

(کی ورڈ: ملا عمر، دجال، خراسان، امام مہدی، مولانا محمد یوسف بنوری)


خراسان کے دجال کا لشکر طالبان دہشت گرد ہیں۔ قائدجمعیت مولا نافضل الرحمن کا مؤقف
ملاعمر ایک مہدی تھے۔ مولانا بنوری کے ایک شاگرد کا مؤقف

اس مرتبہ اخبار کے جملوں اورالفاظ کی تلخیوں میں پاکستانی ریاست، افغان طالبان، پختون قوم پرستوں کی بیماری کے علاج کا تریاق ہے۔اگرپاکستان ، طالبان ،قوم پرستوں نے کچھ سیکھا تو بیڑہ پار ہوگا،انشاء اللہ ۔غورسے پڑھو،یہ محنت سے لکھاہے
خوشامد، چاپلوسی سے قومیں تباہ ہوجاتی ہیں،نبیۖ نے فرمایا: خوشامد کرنیوالے کے منہ پرمٹی ڈال دو
خوشامدی ٹولوں نے اپنی حقیر کوششوں سے جہادیوںاور فوجیوںاور سیاستدانوں کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا
افغانستان کے طالبان یا خراسان کے دجال کا لشکر؟
رسول اللہۖ نے فرمایا: خراسان کی طرف سے دجال آئیگا۔جسکے ساتھ اقوام ہوں گی جنکے چہرے ڈھال ( جیسے ازبک گول)اور ہتھوڑے(جیسے پٹھان لمبوترے ) کی طرح ہونگے۔
( خراسان کے دجال کا لشکر طالبان دہشت گرد ہیں۔ قائدجمعیت مولا نافضل الرحمن)

جب افغانستان میں روس کیخلاف کرائے کا جہاد شروع ہوا توامریکہ، ایران، چین، پاکستان، عرب ممالک، اسرائیل، یورپ،برطانیہ،آسٹریلیا اور پوری دنیا کا سرمایہ دارانہ نظام اسکا حصہ دار تھا۔ حمیداللہ لنگر خیل محسود (hameedullah langar khail)نے بتایا کہ ایک افغانی مسلمان کو ہم نے روس کے خلاف جہاد میں پکڑلیا اور اس سے کلمہ پڑھنے کا کہا تو اس نے کہا کہ میں پانچ وقت نماز پڑھتا ہوں اور تم سے بہتر مسلمان ہوں لیکن خدا کی قسم ! تم گانڈو لوگوں کے کہنے پر کلمہ نہیں پڑھوں گا۔جس کو پھر ہم نے قتل (شہید) کردیا”۔حمید اللہ کا ایک بھائی وحیداللہ کشمیر میں شہیداور دوسرے بھائی عابد کا پیر مائن لگنے سے افغانستان میں کٹ گیا تھا۔ اس نے یہ بھی مجھ سے کہا تھا کہ” ایک جہادی تنظیم کے پاس ڈیڑھ کروڑ ریال پڑے ہیں جو وزیرستان(waziristan) میں ایک بڑا مدرسہ اور جہادی مرکز بنانا چاہتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ آپ کے علاوہ کسی اور پر ان کو اعتماد نہیں ہے ۔ ڈیڑھ کروڑ ریال کے علاوہ سارا خرچہ وہ برداشت کریں گے۔ آپ اپنا مشن بھی پھیلائیں اور مرکز بھی بنائیں۔ میں نے کہا تھا کہ میں دوسروں کیلئے پیسوں کی بنیاد پر استعمال نہیں ہوسکتا ہوں”۔
مفتی نظام الدین شامزئی کا حامدمیر نے لکھا کہ ”ایک جہادی تنظیم علماء کو خرید رہی ہے جس کو واشنگٹن سے براستہ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ پیسہ آرہا ہے، اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئی تو اس کا بھانڈہ بیچ چوراہے پھوڑدوں گا”۔ اور پھر حامد میر (hamid mir)نے یہ بھی لکھا کہ ”واقعی اگر وہ جہاد کے نام پر علماء کو خریدنے کی سازش سے باز نہیں آئے تو ان کا بھانڈہ پھوڑ دینا”۔ ہم نے ماہنامہ ضرب حق کراچی میں اس پر بہت واضح الفاظ میں مفتی نظام الدین شامزئی (mufti nizamuddin shamzai)سے مطالبہ کیا تھا کہ امریکہ کے ایجنٹوں کو مہلت مت دو لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔ پھر مفتی شامزئی کو شہید کیا گیا۔ مولانا مسعود اظہر(molana masood azhar)کو انڈیا سے جہاز ہائی جیکنگ کے ذریعے رہاکیا گیا تو مولانا نے کہا تھا کہ” جیل میں بارہ سرنگیں کھودی گئی تھیں جن میں ایک سرنگ میرے سائز کی بھی تھی”۔ جس پر ہم نے لکھ دیا تھاکہ ” کیا مولانا کے سائز کی ایک سرنگ سب کیلئے کافی نہیں تھی۔ یہ امریکی (CIA)کا کھیل ہے جو بھارت، پاکستان اور افغانستان میں اپنے اثرو رسوخ کا کھیل دکھارہاہے”۔
جب(9/11)کے بعد القاعدہ اور طالبان کے نام پر جذبہ جہاد کا کھیل شروع ہوا تو مجھے کسی نے کہا کہ ”پاکستان نے یوٹرن لیکر بہت برا نہیں کیا؟۔میں نے کہا کہ پاکستان نے کوئی یوٹرن نہیں لیا ،پہلے بھی امریکہ(america) کے کہنے پر سب کررہاتھا اور آج بھی وہی کررہاہے”۔ لوگ اس بات پر تقسیم تھے کہ پاکستان نے یوٹرن لیکر اچھاکیا یا برا کیا؟ لیکن ہم نے بین الاقوامی سازشوں کے تسلسل کی بات کردی۔ آج وزیراعظم عمران خان بک رہاہے کہ ” امریکہ کو جواب دیا ہے، جب امریکہ نے اڈے خالی ہی نہیں کئے ہیں تو سب سے پہلے صدر ، وزیراعظم(imran khan)، آرمی چیف(genral qamar javaid bajwa)، ڈی جی آئی ایس آئی اور تمام اپوزیشن لیڈر ان ائربیسوں کا مل کر دورہ کرنا شروع کریں جو آج بھی امریکہ کے حوالے ہیں۔ نہیں تو کل کہا جائے گا کہ ہم تو انکار کررہے تھے امریکہ یہاں سے خود نکل نہیں رہاہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟”۔
افغانستان میں خونریزی کا بازار گرم ہے۔ طالبان اور افغان حکومت کی لڑائی میں نقصان مسلمانوں اور افغان عوام کا ہے۔ مولانا فضل الرحمن(molana fazalrehman) اس بات کی وضاحت کریں کہ جمعہ کے خطبہ میں اس نے طالبان پر جب خراسان کے دجال کے لشکر والی حدیث فٹ کی تھی تو کیا آج حدیث کا حکم بدل گیا ہے یا بدستور ان پر دجال کے لشکر کا اطلاق ہوتاہے؟ ۔ جب ایک دفعہ بہت بڑے پیمانے پر اس خطے میں کشت وخون کا بازار گرم ہوجائے تو پھر سچ بولنا بھی بیکار ہوگا۔ صحیح بخاری کی حدیث میں دجال کے بارے میں یہ واضح ہے کہ” وہ مسلمانوں میں سے ہوگا،شایدیہ پتہ نہ چلے کہ وہ دجال ہے ۔اسکے لشکرکی سب سے بڑی نشانی لوگوں کے جان ، مال اور عزت کی حرمت کو پامال کرنا ہوگا”۔
مولانا فضل الرحمن (MRD)میں افغان جہاد کے مخالفین میں شامل تھے ۔ انکا بیان چھپا تھا کہ ”افغان جہادپاکستان کیلئے منافع بخش سونے کی چڑیا ہے”۔
افغانستان کے طالبان یا خراسان کے مہدی کا لشکر؟
رسول اللہۖ نے فرمایا: جب تم خراسان سے کالے جھنڈے دیکھ لو، تو ان کی طرف آؤ۔ خواہ تمہیں برف پر چوتڑیں گھسیٹ کر بھی آنا پڑے۔( یہ وہ مہدی نہیں جس کا ظہور مدینہ سے ہوگا۔ منصب امامت: شاہ اسماعیل شہید۔ملاعمر ایک مہدی تھے۔ شاگرد مولانا بنوری)

جب ملاعمر کی افغانستان میں حکومت قائم ہورہی تھی تو مجھ سے ٹانک میں آئی ایس آئی کے ایک خٹک اہلکار نے کہا کہ آپ خلافت چاہ رہے تھے ، افغانستان میں خلافت (khilafat)کا نظام قائم ہونے جارہاہے،آپ خود بھی اور اپنے ساتھیوں کو بھی افغانستان لے جائیں۔ میں نے کہا کہ ” پاکستان میں آپ خلاف ہیں لیکن افغانستان (afghanistan)میں آپ خلافت چاہ رہے ہیں تو یہ امریکہ نے آپ کو حکم دیا ہوگا؟”۔ جس کے بعد وہ اہلکار نظر نہیں آیا۔ میں نے مولاناشیرمحمد امیر جمعیت علماء اسلام کراچی کو فون کیا تو انہوں نے کہا کہ افغانستان میں خلافت قائم ہوگئی ۔ میں نے جواب دیا کہ امریکہ نے ہی قائم کی ہوگی۔ مولانا شیر محمد (molana shair muhammad)نے بڑا قہقہ لگایا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا۔ میں نے آئی ایس آئی والے کی بات ان کو بتادی ہے ۔
مولانا محمد خان شیرانی اور جمعیت علماء کے بعض علماء طالبان کیخلاف اور بعض حامی تھے۔ مولانا فضل الرحمن کا رویہ ہمیشہ بین بین رہا تھا۔ جب مولانا شیر محمد کو طالبان (taliban)کے حامی دھڑے نے افغانستان کا دورہ کرایا تو مولانا شیر محمد نے رورو کر کہا کہ وللہ باللہ طالبان نے صحابہ کی یادیں تازہ کردی اور ان کو ہماری ایجنسیاں سازش کے تحت بدنام کررہی ہیں۔ مجھ سے مولانا شیر محمد نے کہا کہ آپ بھی ملاعمر(mulla umer) سے بیعت ہوجاؤ۔ میں نے عرض کیا کہ میں کیوں بیعت ہوجاؤں؟۔ کہنے لگے کہ امیر کی بیعت شریعت کا حکم ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میں شریعت کے اس حکم پر عمل کروں گا لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ ملاعمرنے اپنی امارت کو افغانستان تک محدود کیا ہے اور اس کا اقوم متحدہ اور دنیا سے مطالبہ ہے کہ میری حکومت کو افغانستان میں تسلیم کیا جائے۔ جب وہ خود افغانستان سے باہر کے لوگوں کیلئے امیرالمؤمنین کی بات نہیں کرتا ہے تو ہم کیسے ان کو امیر المؤمنین تسلیم کریں؟۔ دوسرا یہ کہ جمعیت علماء اسلام اعلان کردے کہ ملا عمر امیر المؤمنین ہے تو بھی میں بیعت ہوجاؤں گا لیکن جب تم لوگ خود بھی اپنے لئے ان کو امیر المؤمنین نہیں مانتے تو مجھ سے یہ مطالبہ درست ہے کہ بیعت ہوجاؤں؟۔ پھر کچھ عرصہ بعد مولانا شیر محمد طالبان کو بہت برا بھلا کہنے لگے کہ” افغانستان میں ہیلی کاپٹروں کو رکشے کی طرح استعمال کررہے ہیں اور پاکستان میں افغانی بچے کچرے کنڈی کے ذریعے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ یہ اسلام نہیں بین الاقوامی سازش ہے”۔
جب افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تو طالبان شوریٰ کے ایک رکن مولانا عبدالرحمن نے کہا تھا کہ اللہ کا طالبان پر عذاب ہے، یہ قوم لوط کے عمل میں مبتلاء تھے۔پھر طالبان نے چوتڑ تک لمبے بال رکھ کر جہاد شروع کیا یا فساد؟لیکن اس میں خطے کے اقدار کیساتھ اسلام کے چہرے کو بھی بڑا داغدار بنادیا۔ سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر(salman taseer son shehbaz taseer)کو لاہور اور سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے سید حیدر علی گیلانی(syed yousuf raza gellani son syed haider ali gillani) کو ملتان سے اغواء کرکے افغانستان پہنچایا گیا،جن کی داستانیں سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ ٹانک سے ایک لیڈی ڈاکٹر کو اغواء کرکے تاوان وصول کرکے چھوڑ دیا گیا تھا۔ امریکہ اور دنیا بھرکی ایجنسیوں نے روابط رکھے اور لڑائی بھی کی۔ طالبان اپنی جیت اور امریکہ اپنے اہداف کے پورا ہونے کا اعلان کررہا ہے۔
شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید(shah isaeel shaheed)نے اپنی کتاب ”منصب امامت” میں لکھا تھا کہ ”خراسان سے بھی مہدی کے نکلنے کی حدیث میں پیش گوئی ہے اور یہ مہدی آخرزماں کے علاوہ دوسرے مہدی ہیں کیونکہ مہدی آخر زماں مدینہ اور مکہ سے نکلیں گے اور یہ خراسان سے نکلنے والے مہدی کوئی اور ہیں”۔ حضرت مولانا یوسف بنوری کے ایک شاگرد نے ظہور مہدی (zahoor e mehdi)پر ایک کتاب لکھی ہے جس میں ملاعمر کو خراسان کا مہدی قرار دیا گیا ہے۔سید احمد شہید پر بھی مہدی کا گمان کیا گیاتھا لیکن اصل بات یہ ہے کہ کردار سے کوئی مہدی یا دجال() بن سکتا ہے۔ اگر افغانستان کے طالبان نے دنیا میں اسلام کے نفاذ اور مہدی کا کردار ادا کیا تو وہ آج بھی اپنے کسی امیر کو پوری دنیا کیلئے امام مہدی بناسکتے ہیں۔
حبیب جالب ، ولی خان ، محموداچکزئی اور جنرل ضیاء کے مخالفین فلسطین کے جہاد کو چھوڑ کر افغانستان میں تماشہ لگانے کے خلاف تھے مگر ان کی ایک نہ چلی۔
(navishta e dewar july shumara _ zarbehaq.com_afghanistan taliban _ khurrasan_dajjal_mehdi_syed atiq ur rehman gellani)

It would be beneficial if presidentship of Wifaq Ul Madaris Pakistan be assigned to both Ulmaa, namely Molana Imdadullah and Molana Asmat.

وفاق المدارس پاکستان کی صدارت مولانا امداد اللہ اور مولانا عصمت اللہ جیسے علماء کو دی جائے جو اپنی صلاحیتوں صحیح استعمال کرکے وفاق کے زیر انتظام مدارس میں کردار سازی کو یقینی بنائیں۔بدفعلی اور بدکرداری کو جڑ سے ختم کریں !

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

وفاق المدارس (wifaqulmadaris)پاکستان کی صدارت مولانا امداد اللہ اور مولانا عصمت اللہ (molana asmatullah)جیسے علماء کو دی جائے جو اپنی صلاحیتیں صحیح استعمال کرکے وفاق کے زیر انتظام مدارس میں کردار سازی کو یقینی بنائیں۔بدفعلی اور بدکرداری کو جڑ سے ختم کریں !
تحریر:سید عتیق الرحمان گیلانی
حکومت، اہل علاقہ اور طلبہ کے سرپرستوں کی ٹیمیں تشکیل دی جائیں جوآزادانہ طریقے سے ماحول کا جائزہ لیکر مدارس میں اگر کوئی خرابی ہو تو اسے ٹھیک کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں!
جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن(binori town) کراچی کردار سازی میں (A1)ہے۔ اچھے مدارس میں طلبہ اور ساتذہ کو غلط حرکت پر فوراًنکال دیتے ہیں۔قاری حنیف جالندھری (qari hanif jalandhri)کو برطرف کردیا جائے
شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن (mufti azizurreman)نے ایک تو بدفعلی کا ارتکاب کیا اور پھر وضاحتی تحریری بیان ویڈیو میں پڑھ کرخودسنادیا تو اپنے آپ کو مزید پھنسابھی دیاہے۔ جب یہ ویڈیو سامنے آئی تھی اور مجھے پہلی بار ساتھی نے دکھائی تو مجھے یہ گمان ہوا کہ فاعل مفتی عزیرالرحمن اور مفعول صابر شاہ(sabir shah) نے بھاری پیسہ لیکر علماء و مفتیان کو بدنام کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ پھر جب مجھے اپنے بھتیجے نے بتایا کہ اس نے اپنا وضاحتی بیان بھی دیا ہے اور اس میں اقرارِ جرم کیا ہے تو بھی میں اپنے مؤقف پر ڈٹ گیا کہ اعترافِ جرم سازش کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ جب مجھے یہ بتایا گیا کہ وہ جمعیت علماء اسلام اور مجلس ختم نبوت (majlis khatme nabuwat)کے رہنمااور مدرسہ کے اہم عہدے پر فائز ہیں تو میں نے کہا کہ پیسہ کی خاطر جو باروداپنی پشت میں دباکر دھماکے کرتے ہیں،سود (sood)کو جائز قرار دیتے ہیں، اپنی بیگمات کو چلاتے ہیںتو کیا مذہبی طبقات کی بدنامی میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے پیسہ لیکر بدفعلی کی ویڈیو نہیں بناسکتے ؟۔
بعید نہیں کہ مفتی عزیز الرحمن نے بھاری معاوضہ لیکر ڈرامہ رچایا ہو۔ معاوضہ لیکر پشت میں بارود چھپاکر خود کش حملے کئے جائیںاور سودی نظام(soodi nizam) کو جائز قرار دیا جائے توبے شرم لوگ ایسی شرمناک ویڈیو بھی بناسکتے ہیں۔ فوجی افسران ملک کے راز بیچ سکتے ہیں اور سزائے موت کھاسکتے ہیں ۔ سیاسی لیڈر شپ کھلے عام جھوٹ بک سکتی ہے جس کا کام کردار کی بنیاد پر ووٹ لینا ہوتا ہے تو سب کچھ ہوسکتاہے!
ہمارا عدالتی نظام (court law)ویڈیو کو اعترافِ جرم نہیں سمجھتا۔ وزیراعظم نوازشریف (nawaz sharif)نے بہت ڈھٹائی کیساتھ پارلیمنٹ میں ایون فیلڈ (aeven field)لندن کے فلیٹ خریدنے کے اعداد وشمار بتائے کہ (2005ئ) میں سعودی(saudia) اور دوبئی (dubai)کی اراضی اور مل بیچ کر فلیٹ (2006ئ) میںخریدے۔ جوعدالت میں تمام ثبوتوں کیساتھ پیش کرسکتا ہوں۔ نوازشریف نے پارلیمنٹ میں سوالات کے جواب سے انکار کردیا۔پھر معاملہ عدالتوں میں چلا۔ پھر اپنے بیان سے مکرگیا اور قطری خط لکھنے کا ارتکاب کیا اور پھر قطری خط سے بھی آخر لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ ہوسکتا ہے کہ آئندہ اس کے تمام کیسوں کو ختم کرکے وزیرا عظم کے عہدے پر بحالی کا اہل قرار دیا جائے اور اس کی یہ رٹ بڑی مقبول بن جائے کہ ”مجھے کیوں نکالا اور ووٹ کو عزت دو”۔
اگر شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن عدالت سے بری ہوکر آئیگا تو رٹ لگائے گا کہ ”مجھے کیوں نکالا، داڑھی کو عزت دو”(darhi ko izzat do)؟۔ جامعہ منظور الاسلامیہ، جمعیت علماء اسلام اور وفاق المدارس پاکستان(pakistan) اس کو منصبِ دلبری پربحال کردیں گے؟۔ سیاست میں شرم وحیاء ، غیرت و حمیت اور اقدار وروایات کو طاقِ نسیاں میں رکھا گیا ہے لیکن مذہبی طبقے (religious)پر بھی اس کا اتنا بڑا اثر پڑا ہے کہ اس شرمناک ویڈیو کے بعد اتنی بے شرمی سے اپنے معمولات کا مفتی عزیز الرحمن نے اسطرح سے اظہارکردیا جیسے میاں بیوی کے آپس کا کوئی کھیل ہو۔ اپنی صفائی میں اس نے وفاق المدارس (wafaqulmadaris)کے جنرل سکریٹری قاری حنیف جالندھری(qari hanif jalandhri) اور جامعہ اشرفیہ لاہور کے فیصلے کو جس طرح سے پیش کیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ ذمہ دار علماء ومفتیان بھی بے شرمی اور بے خبری کی چادر تان کر سوئے ہوئے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی(mufti taqqi usmani) اور دیگر علماء کو چاہیے تھا کہ قاری حنیف جالندھری کو بھی فوری طور پربرطرف کردیتے۔
اللہ نے فرمایا (:الذین یجتبون کبٰئرالاثم والفواحش الااللمم ان ربک واسع المغفرة ھو اعلم بکم اذا انشاَ کم من الارض واذ انتم اجنة فی بطون اُمھٰتکم فلا تزکوا انفسکم ھو اعلم بمن اتقٰی O ‘)’ جو لوگ بڑے گناہوں اور فحاشی(fahashi) سے اجتناب کرتے ہیں مگر کسی خاص دور یا اوقات میں تو اللہ وسیع مغفرت والا ہے۔وہ اس وقت سے تمہیں جانتا ہے جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں جنین تھے۔ پس اپنے نفسوں کی پاکی بیان نہ کرو، وہ جانتا ہے کہ کون کتنا پرہیز گار ہے”۔ (سورہ النجم آیت:32)
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پاکدامنی کے دعوے سے ویسے بھی منع کیا ہے لیکن رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد ایک ایسی سزا کا ذکر ہے کہ اگر دومرد جنس پرست بدفعلی کریں تو ان کو اذیت دینے کا حکم دیا ہے اور پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان کے پیچھے نہ پڑنے کا حکم دیا ہے۔ قانون کی بہترین کتاب قرآن(quran) ہے لیکن علماء نے فقہ کی چادر تان کر قرآن سے انحراف کیا ہواہے!
حضرت آدم و حواء سے لیکر دنیا میں آنے والے قیامت تک تمام انسانوں کا ظاہر اور باطن اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔ اللہ نے وارننگ دی ہے کہ اپنے نفسوں کی پاکی بیان مت کرو۔ اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ اس کی مغفرت وسیع ہے۔ انسان کسی کی طرف ایک انگلی سے اشارہ کرتا ہے تو اس کی طرف چار انگلیاں لوٹتی ہیں۔
اس کا یہ مطلب ہر گز بھی نہیں کہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والوں کیلئے کوئی رورعایت کا برتاؤ کیا جائے۔ پاکستان میں ایسی بدفعلی کی سزا 10سال یا عمر قید ہے۔ فقہاء نے دیوارکے نیچے یا پہاڑ سے گراکرقتل کی سزا کا حکم دیا ، جس پر طالبان کے دور میں دیوار گراکر قتل کرنے پر عمل بھی ہوا ہے۔
قرآن میں دومردوں کایہ حکم ہے کہ والذٰن یأ تےٰنھا منکم فاٰ ذوا ھما فان تابا واصلحا فاعرضوا عنھما ان اللہ کان توابًارحیماًO”اور جو تم میں سے دو مرد بدفعلی کریں تو دونوں کو اذیت دیدو۔ پھر اگر وہ توبہ اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان سے اعراض کرو۔اللہ تواب رحیم ہے”(۔ النسائ: آیت16 )
ویڈیو سے ظاہر ہے کہ مفتی عزیز الرحمن اور صابرشاہ دونوں رضامندی سے اس قبیح فعل کے مرتکب ہوئے ہیں اور دونوں کو ذلت آمیز اذیت دی جائے۔پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کریں تو ان کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ جس اللہ نے اس کو حرام قرار دیا ہے ،اسی نے اذیت دینے اور توبہ و اصلاح کا موقع دینے اور پیچھے نہ پڑنے کی ہدایت بھی کردی ہے۔
محترمہ ہدیٰ(huda bhurgari) بھرگڑی نے مفتی عزیزالرحمن کے اسکنڈل (mufti aziz scandle)پر اپنا زبردست بیان ریکارڈ کروایا ہے جس میں بہت اچھی تجاویز بھی پیش کردی ہیں۔ دوپٹہ نہیں پہنے اور بہت بڑی سفیدداڑھی پر نہ جاؤ۔ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ” یہود(yahood) کی طرح سفید داڑھیاں مت چمکاؤ”۔ جس سے مخصوص مذہبی لبادہ ہی مراد ہے۔ یہودونصاریٰ اور سکھ وہندو کے مذہبی پیشواؤں نے بھی لبادوں میں دین کو چھپایا ہوا تھا۔
ملحدوں کے ہاں انسان ایک جانور ہے تو پھر جانوروں میں اتنی زبردست سپرٹ بھی مذہبی طبقے نے رکھی ہے کہ اس جرم کو جرم سمجھا جاتا ہے اور ملحدیں (mulhid)بھی بغلیں بجا بجاکر کہتے ہیں کہ یہ کتنا بڑا جرم ہے؟۔ یہ اسلام(islam) اور مذہبی طبقے کی برکات ہیں کہ غیرت وحمیت ، شرم وحیاء اور ضمیر وروح بھی کوئی اوقات رکھتے ہیں۔ فیس بک پر ہدیٰ بھرگڑی نے اس پر بہت اچھی تجاویز پیش کی ہیں۔ بلاشبہ مذہب کے ٹھیکہ داروں کے کسی فرد کی طرف سے ایسی شرمناک ویڈیو کا آجانا بھی بہت افسوس کا مقام ہے۔ اگر بدفعلی میں جبر ثابت ہو تو مفتی عزیز الرحمن کو سنگسار کرنے کی عبرتناک سزا دی جائے۔طالبان(taliban) کو یہ عادت ڈالی جاتی ہے تو وہ اپنا ضمیر کھودیتے ہیںاور حوروں کی تلاش میں اپنی دنیا اور آخرت تباہ کرکے دہشت گردی کے مرتکب بن جاتے ہیں۔ مولانا منظور مینگل (molana manzoor mengle)کی خاموشی بنتی ہے یا نہیں؟ ،وہ بتائے کہ صابرشاہ کا جسم اس کی مرضی یا استاذشیخ الحدیث کی مرضی؟۔
جس طرح انسانوں کا لباس اہمیت رکھتاہے اس سے زیادہ مذہب اہمیت کا حامل ہے۔ آج ایک شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن پر انسانیت کا سیخ پا ہونا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ سفید اور صاف ستھرے کپڑوں پر سیاہ داغ بہت نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ زندہ دلانِ لاہور کی گلی کوچوں، بازاروں اور ہوٹلوں سے لیکر سکول ،کالج اور یونیورسٹیوں(college) تک کیا نہیں ہوتا ہے ؟۔ بلی کا بچہ اجتماعی ریپ کا چند دنوں مسلسل شکار رہا مگرزبانیں گنگ تھیںاور اسکی تشہیر معاشرے پر دھبہ لگنے کی وجہ سے جرم بن گیا تھا۔ یہ بات سوفیصد درست ہے کہ مدارس اسلام کے نام پر بنے ہیں مگر پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الاللہ بھی تو ہے۔ پاکستان میں سب سے بڑا مقدس اورمضبوط ادارہ پاک فوج ہے۔ جب کسی فوجی پرکوئی جرم ثابت ہوجاتا ہے تو پاک فوج کے اس اہلکار کو عدالتوں میں سزا نہیں دی جاتی بلکہ فوج کا اپنا قانون ہے تاکہ رازداری باقی رہے۔ جب کوئی فوجی ریٹائرڈ ہوجاتا ہے تو اس کو بحال کرکے سزا دی جاتی ہے اور جب جنرل قمر جاوید باجوہ (genral qamar javaid bajwa)کو ایکس ٹینشندی جارہی تھی تو اندھی ڈولفن عدالت کو پتہ چل گیا کہ جس قانون کے تحت فوج اقتدار پر قبضہ کرتی رہی ، عدالت نے اسی اندھے قانون کے تحت توسیع دی۔
اگر فوج کے اعلیٰ افسران جاسوسی کرتے ہوئے پکڑے جائیں اور ان کو سزا ہوجائے تو پوری فوج پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔اگر کوئی بڑامولوی بھی غلط کام کرتا ہوا پکڑا جائے تو پورے مذہبی طبقے کو بدنام نہیں کرنا چاہیے۔ فوج نے اپنی تنخواہیں اور دفاعی بجٹ لینا ہوتا ہے لیکن علماء کے مدارس عوام کے رحم وکرم پر چلتے ہیں۔اگر فوج بدنام ہوجائے تو اس کی تنخواہ بند نہیں ہوگی لیکن اگر علماء بدنام ہوگئے تو ان کے سارے فنڈز بند ہوجائیںگے اور مفت تعلیم، رہائش اور قرآن و سنت (quran o sunnat)کے تحفظ سے یہ امت محروم ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ فاسقوں سے بھی اپنے دین کے تحفظ کا کام لیتا ہے۔ مفتی عزیز الرحمن نے صابرشاہ کو ورغلایا یا صابر شاہ نے مفتی عزیز الرحمن کو ورغلایا اور ممکن ہے کہ یہ دھندہ دوسری جگہوں پر بھی ہو مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ کردارسازی اور تعلیم وتربیت اور تزکیہ کے اس عظیم نظام کو بدنام کرکے مدارس ومساجد کو کھنڈرات میں تبدیل کیا جائے۔
نماز، ناظرہ قرآن، قرآنی تراجم وتفاسیر، احادیث اور عربی کے علاوہ تمام مذہبی معاملات ان مدارس کے مرہونِ منت ہیںاور یہ ہم پر بڑا احسان ہے۔
اس کے نصابِ تعلیم وتربیت اور نگرانی کے طریقۂ کار میں زبردست تبدیلی کی سخت ضرورت ہے۔ صدروفاق المدارس پاکستان ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی بڑی بزرگی اوربڑی شخصیت اپنی جگہ پر لیکن وفاق المدارس پاکستان کی صدارت کی ذمہ داری مولانا امداداللہ ناظم تعلیمات جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی(jamia binori town karachi) جیسے علماء زیادہ احسن انداز میں پوری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جن سے مدرسے کی ذمہ داری اسوقت تک واپس لی جائے جب تک وہ وفاق المدارس(wifaqul madaris) کی صدارت کررہے ہوںتاکہ وفاق کے زیر اہتمام مدارس کی نگرانی میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں، اسی طرح دارالعلوم کراچی میں مفتی عصمت اللہ شاہ (mufti asmatullah shah)ہیں اور دیگر مدارس میں باکردار وباصلاحیت افراد کو باری باری یہ ذمہ داریاں سونپ دی جائیں تو مدارس میں احتساب کا درست نظام قائم ہوسکتا ہے۔ورنہ پھر انکا حال بھی تبلیغی جماعت کی طرح ہوگا جورائیونڈ(raiwand) اور نظام الدین میں امیر پر متفق نہیں ہوسکتے۔
مفتی عزیز پر انسانیت کا سیخ پا ہونابہت کھلاثبوت ہے کہ سفید کپڑوں پرسیاہ داغ نمایاں نظر آتا ہے۔زندہ دلانِ لاہور کی گلی کوچوں، بازاروں اور ہوٹلوں سے لیکرسکول، کالج ، یونیورسٹیوں تک میں کیا کچھ نہیں ہوتا؟۔ بلی کا بچہ اجتماعی ریب کا مسلسل شکار رہا مگر زبانیں گنگ تھیںاور اسکی تشہیر جرم بن گیا ۔پاکستان کا مطلب لاالہ الااللہ تھا؟ فوج (army)کو سزا دینے کیلئے ریٹائرڈمنٹ کے بعد بحالی…….؟
(syed atiq ur rehman gilllani)(navishta e dewar)(zarbehaq)

خاص خاص ہیڈ لائن:

اگر دو مرد ہم جنس پرستی کا ارتکاب کریں تو قرآن میں ان کو اذیت دینے کا حکم دیا گیا ہے اور پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان کے پیچھے نہ پڑنے کا حکم ہے۔
. If two male members are involved in homo sexual practice than as per Quran decision, they should be punished tortured and if they avoid to let off this sin, it is ordered not to chase/follow them.

بعید نہیں کہ مفتی عزیز الرحمن نے بھاری معاوضہ لیکر ڈرامہ رچایا ہو۔ معاوضہ لیکر پشت میں بارود چھپاکر خود کش حملے کئے جائیںاور سودی نظام کو جائز قرار دیا جائے توبے شرم لوگ ایسی شرمناک ویڈیو بھی بناسکتے ہیں۔ فوجی افسران ملک کے راز بیچ سکتے ہیں اور سزائے موت کھاسکتے ہیں ۔ سیاسی لیڈر شپ کھلے عام جھوٹ بک سکتی ہے جس کا کام کردار کی بنیاد پر ووٹ لینا ہوتا ہے تو سب کچھ ہوسکتاہے!

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پاکدامنی کے دعوے سے ویسے بھی منع کیا ہے لیکن رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد ایک ایسی سزا کا ذکر ہے کہ اگر دومرد جنس پرست بدفعلی کریں تو ان کو اذیت دینے کا حکم دیا ہے اور پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان کے پیچھے نہ پڑنے کا حکم دیا ہے۔ قانون کی بہترین کتاب قرآن ہے لیکن علماء نے فقہ کی چادر تان کر قرآن سے انحراف کیا ہواہے!

محترمہ ہدیٰ بھرگڑی نے مفتی عزیزالرحمن کے اسکنڈل پر اپنا زبردست بیان ریکارڈ کروایا ہے جس میں بہت اچھی تجاویز بھی پیش کردی ہیں۔ دوپٹہ نہیں پہنے اور بہت بڑی سفیدداڑھی پر نہ جاؤ۔ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ” یہود کی طرح سفید داڑھیاں مت چمکاؤ”۔ جس سے مخصوص مذہبی لبادہ ہی مراد ہے۔ یہودونصاریٰ اور سکھ وہندو کے مذہبی پیشواؤں نے بھی لبادوں میں دین کو چھپایا ہوا تھا۔

مفتی عزیز پر انسانیت کا سیخ پا ہونابہت کھلاثبوت ہے کہ سفید کپڑوں پرسیاہ داغ نمایاں نظر آتا ہے۔زندہ دلانِ لاہور کی گلی کوچوں، بازاروں اور ہوٹلوں سے لیکرسکول، کالج ، یونیورسٹیوں تک میں کیا کچھ نہیں ہوتا؟۔ بلی کا بچہ اجتماعی ریب کا مسلسل شکار رہا مگر زبانیں گنگ تھیںاور اسکی تشہیر جرم بن گیا ۔پاکستان کا مطلب لاالہ الااللہ تھا؟ فوج کو سزا دینے کیلئے ریٹائرڈمنٹ کے بعد بحالی…….؟