پوسٹ تلاش کریں

امت مسلمہ قرآن کی طرف کیسے متوجہ ہوگی؟

امت مسلمہ قرآن کی طرف کیسے متوجہ ہوگی؟

” جوچیزلوگوں کو نفع دے تو وہ زمین میں اپنا ٹھکانہ پکڑلیتی ہے”۔(القرآن)توکیا قرآن نفع بخش نہیں؟

قرآن ناظرہ، ترجمہ وتفسیر کے ساتھ اور کتابوں کے درس کی شکل میں موجود ہے لیکن عوام توجہ نہیں دیتے!

بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سورہ مائدہ میں تین فتوے لگائے گئے ہیں کہ جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں۔ جواللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتے وہ ظالم ہیں اور جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلے نہیں کرتے وہ فاسق ہیں۔
ڈاکٹر اسرار جدید اسلامی سکالر اور سودی بینکاری کے خلاف تھے مگر ان کا نام نہاد جانشین شجاع الدین شیخ ڈٹ کرپتہ نہیں کیا لے رہاہے کہ سودی نظام کی حمایت میں زمین وآسمان کی قلابیں ملارہاہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے بھی اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہ کرنے والوں پر ان تینوں حکموں کو ایک ساتھ فٹ کیا ہے۔ حالانکہ تینوں چیزوں میں بہت واضح فرق ہے۔ ہم نے پاکستان کی سرزمین سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز کتابچے میں سورہ مائدہ کی ان آیات کی سن90کی دہائی میں سیاق وسباق کے ساتھ وضاحت کی تھی جس کی علماء کرام نے تائید بھی کی۔
چونکہ علماء ومفتیان کے فتوے سے دین بدلتا ہے اسلئے ان پر سب سے زیادہ سنگین کافر کا فتویٰ قرآن نے لگایا ہے۔ حکمرانوں کا تعلق عدل وانصاف سے ہے اور ان پر انصاف نہ کرنے کی وجہ سے ظالم کا فتویٰ لگایا گیا ہے۔ عام آدمی کا تعلق اپنی ذات سے ہوتا ہے اسلئے ان پر سب سے کم درجہ فاسق کا فتویٰ لگایا گیا ہے۔
نوشتہ دیوار کے قارئین کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جن میں علماء ومفتیان، مدارس کے طلبہ، دکان دار ، سکولوں ، کالجوں، یونیورسٹیوں کے اساتذہ و طلبہ اور سرکاری اداروں کے افسران، عدلیہ کے وکیل اور جج ہمارے اخبار کو پڑھتے ہیں اور بعض سمجھتے ہیں کہ کچھ مسائل بار بار دھرائے جاتے ہیں لیکن جس دن انقلاب آئے گا تو انہی مسائل کی وجہ سے ہی آئے گا۔ جب عورت کو خلع اور میاں بیوی کو طلاق کے بعد قرآنی ہدایات اور بہت زبردست وضاحتوں کی روشنی میں حلالے کی لعنت سے چھٹکارا ملے گا۔ اکٹھی تین طلاق پر حلالے کا گھناؤنا جرم نیست و نابود ہوجائے گا۔ لوگوں کا رونا یہ ہے کہ معاشرے سے قومی اقدار کا جنازہ نکل رہا ہے لیکن ان کویہ اندازہ نہیں ہے کہ مذہب کی کتنی گہری چھاپ ہے ؟۔ اور مذہب کی وجہ سے جن معاشرتی برائیوں کا مجبوری میں سامنا ہوتا ہے اس کی وجہ سے لوگ قرآن وسنت اور اسلام ومذہب سے دور بھاگ رہے ہیں۔
ایک پختون اپنی بیٹی کا حق مہر کھا جاتا ہے تو بہت برا ہے اور ایک پنجابی جہیز مانگتا ہے تو یہ بھی بہت برا ہے اور ان رسموں کو قومی اتحاد اور اچھے انداز میں ختم کرنا بہت ضروری ہیں۔ لیکن جب میاں بیوی ملنا چاہتے ہیں اور اسلام کے نام پر ان کے درمیان حلالے کی لعنت کا فتویٰ ڈالا جاتا ہے تو ایسی بے غیرتی، ظلم ، زیادتی، جبر ، جنسی تشدد اور بدترین قسم کی بلیک میلنگ دنیا کے کسی مذہب اور قوم میں نہیں ہے۔ حالانکہ قرآن وسنت نے اس لعنت کو معاشرے سے بالکل ختم کردیا تھا۔
خلع وطلاق کے احکام سورہ النساء آیت19،20،21میں ہیں۔جب آیت19النساء میں نہ صرف عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے بلکہ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ عورت کو اسلئے جانے سے نہ روکے کہ شوہر اپنا دیا ہوا بعض مال واپس لے مگر کھلی فحاشی کے ارتکاب کی صورت میں بعض مال واپس لینے کی گنجائش ہے اور اس سے مراد منقولہ اموال ہیں جو لے جائی جاسکتی ہیں۔ غیر منقولہ اموال اس کو واپس کرنا ہوگا ۔جیسے مکان ، جائیداد، باغ ، پلاٹ ، دکان وغیرہ۔ البتہ طلاق کی صورت میں کچھ بھی واپس شوہر نہیں لے سکتا ہے بھلے بہت سارے خزانے دئیے ہوں۔ سورہ النساء آیات 20اور21میں اس کی بھرپور وضاحت ہے۔
جبکہ آیت229البقرہ میں صرف اور صرف طلاق کے احکام ہیں اور اس سے خلع مراد ہوہی نہیں سکتا۔ مولانا سلیم اللہ خان و علامہ غلام رسول سعیدینے اپنی اپنی بخاری کی شرح ”کشف الباری” اور ”نعم الباری” میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ ایک صحابی نے نبی ۖ سے پوچھ لیا کہ ”قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟”۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ آیت229البقرہ میں الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان ”طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کے ساتھ رخصت کرنا ہے”۔ احسان کے ساتھ رخصت کرنا” تسریح باحسان” ہی تیسری طلاق ہے۔پھر اس کے بعد خلع کی بات کہاں سے آسکتی ہے؟۔ علماء اور طلبہ مدارس میں فضول قسم کے فقہی اختلافات کا سلسلہ چھوڑ کر قرآن وحدیث کی طرف اپنا رخ موڑ لیں گے تو امت مسلمہ کا رخ بھی قرآن وسنت کی طرف مڑ جائے گا۔ انواع واقسام کے لایعنی اختلافات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شیخ الہندمولانا محمود الحسن مالٹا کی جیل میں جاتے ہیں تو آخری عمر میں قرآن اور فرقہ واریت کے خاتمہ کااحساس پیدا ہوجاتا ہے اور پھر ان کی بات نہیں مانی جاتی ہے جس کا گلہ مولانا عبیداللہ سندھی نے بھی کیا ہے۔ پھر علامہ انور شاہ کشمیری نے آخری عمر میں اپنی زندگی ضائع کرنے کا رونا رویا تھا کہ قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی ، فقہی اختلافات میں اپنی زندگی ضائع کردی۔ یہ ان لوگوں کی غلطی بھی نہیں تھی اسلئے کہ ایک چلتے پھرتے ماحول میں قرآن وسنت کی طرف توجہ جاتی بھی تو وہی مسلک فرقہ واریت کا شاخسانہ ہی دکھائی دیتا۔ البتہ آج جب ہم نے سالوں محنت کرکے مختلف نہج سے مسائل کا قرآن وسنت کے مطابق واضح نقشہ نکال دیا ہے اور امت مسلمہ اس کے ذریعے عروج پر جلد ازجلد پہنچ سکتی ہے اور قرآن انسانیت کیلئے معراج بن سکتا ہے توپھر حق کے مقابلے میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے سے اللہ برباد کرکے رکھے گا۔
جس طرح مفتی تقی عثمانی کی وجہ سے مدارس نے اپنے علماء حق کو چھوڑ کر سود کا نام نہاد اسلامی بینک قبول کرلیا ہے اور اس سے پہلے مفتی محمود کے مقابلے میں سودکی کٹوتی کو زکوٰة کا نام دے کرشراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل چڑھایا گیا تھا اور آخر کار پھر ماحول کا حصہ بن گیا ، اسی طرح اسلام کو مختلف ادوار میں اپنے اپنے وقت کے شیخ الاسلام اورقاضی القضاة نے اپنے مفادات اٹھاکر یہ کارنامہ انجام دیا ہے کہ آج اسلام کے واضح احکام بالکل اجنبی بن گئے ہیں۔
جب قرآن کا درس دینے والوں کو قرآن کی درست تعلیم کا فہم آجائے گا تو پھر یہ مخصوص حلقوں، مساجد، مدارس اور مذہبی افراد کی زبان پر نہیں رہے گا بلکہ ہر عام وخاص ، علماء ومشائخ، عوام الناس، کالج ویونیورسٹیوں کے پروفیسر و طلبہ اور اقتدار کے ایوانوں ، عدالت اور ٹی وی چینلوں پر اس کی گونج سنائی دے گی اور عالم اسلام کو پستی نکال کر عروج اور انسانیت کو پستی سے نکال کر معراج کی وہ منزل عطاء کرے گا کہ ابلیس کے سارے خواب دھرے کے دھر ے رہ جائیں گے۔ اسلام کو غیر مسلم قبول کریں یا نہ کریں لیکن اپنی مرضی اور خوشی سے قرآن کی طرف ایسی توجہ دینگے کہ ہرمعاملے میں اللہ کی کتاب اپنا لوہا منوادے گی۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ اس کی فطری تعلیمات کی طرف دنیا کی صرف رہنمائی کریں۔

****************
نوٹ:اخبار نوشتہ دیوار خصوصی شمارہ اکتوبر2023کے صفحہ3پر اس کے ساتھ متصل مضامین”40آیات میں اطیعوا الرسول کا حکم ہے ”
”قرآن میںاحترام انسانیت کا اعلیٰ ترین تصور”
اور ”کون کانا دجال اورکون علماء حق کا کردار ہے؟” ضرور دیکھیں۔
****************

اخبار نوشتہ دیوار کراچی
خصوصی شمارہ اکتوبر 2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کون کانا دجال اورکون علماء حق کا کردار ہے؟

کون کانا دجال اورکون علماء حق کا کردار ہے؟

درس نظامی کے پختہ علماء کرام اہل حق کا وہ سلسلہ ہے جس کے ذریعے سے اسلام کا غلبہ ہوگا۔

جدید اسلامی سکالروں کا کردار کانے دجالوں کی طرح بہت گھناؤنا ہے اورانجینئرمرزا محمد علی بھی یہی ہے

مفتی تقی عثمانی نے بینکوں کے سودکو زکوٰة قرار دیا تو مفتی محمودنے اپنے آخری دم تک اس کی مخالفت کا حق ادا کیا۔ پھر مولانا فضل الرحمن اس کو شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل قرار دیتاتھا لیکن آخرکار ماحول کی مجبوری سے چاروں شانوں چت لیٹ گیا۔ آج معاشی بحران کا اصل معاملہ زکوٰة کی ادائیگی کا خاتمہ اور سود کا رائج الوقت سکہ ہونا ہے۔ اللہ نے قرآن میں واضح فرمایا ہے کہ زکوٰة میں برکت اور مال کی فروانی ہے اور سود سے معاشی نظام کو اللہ تعالیٰ مٹادیتا ہے۔
ایک آدمی کے بینک میں10کروڑ روپے رکھے ہوں اور اس کو بینک سے ایک کروڑ سالانہ سود مل رہاہو۔ اور اس کو25لاکھ زکوٰة پر دینے پڑیںتو اس کی اپنی اصل رقم10کروڑ محفوظ ہوگی۔25لاکھ زکوٰة میں نکلنے کی جگہ75لاکھ سود بھی ملے گا۔یہ کوئی ایسا فلسفہ نہیں ہے کہ جو کسی عقل مند کو سمجھ میں نہ آئے۔ پہلے لوگ بڑے پیمانے پر مدارس، غربائ، مساکین، فلاحی اداروں اورمستحق افراد کے پاس اپنی زکوٰة اپنا فرض سمجھ کر لے جاتے تھے۔ نماز کی طرح زکوٰة کا مالی فرض بھی ادا نہ کرنا بڑا گناہ تصور کیا جاتا تھا مگر جب مفتی تقی عثمانی نے جنرل ضیاء الحق کوغلط فتویٰ دیا تو زکوٰة کی ادائیگی کا معاملہ تقریباً بالکل ختم ہوگیا۔ پہلے لوگ ایک طرف زکوٰة ادا کرتے تھے اور دوسری طرف سودی رقم سے مساجد کے لیٹرین یا مقروضوں کے قرض ادا کرتے تھے لیکن اب زکوٰة بھی نہ ہونے کے برابرہے۔
مفتی تقی عثمانی نے جنرل ضیاء الحق سے مدرسہ کیلئے نقدی اور پلاٹ لئے۔ پھر مزید ہمت بڑھ گئی اور عرب ممالک کیلئے سودی بینکاری کو اسلامی قرار دیا۔ پھر اس سے عالمی سطح کی شہرت پائی۔ مولانا سلیم اللہ خان، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ، مفتی زر ولی خان کراچی تا خیبر ، لاہورتا مکران دیوبندی علماء حق نے سودی نظام کے خلاف متفقہ فتویٰ دے کراپنے علمی فریضے کا حق ادا کردیا لیکن مفتی تقی عثمانی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ علماء حق اور علماء سوء میں حد فاصل یہی ہوتا ہے کہ علماء سوء دنیا کی خاطر اپنے دین کو بیچ دیتے ہیں۔ بلعم باعوراء کا بھی قرآن میں ذکرہے کہ اس نے دنیاکے بدلے میں اپنے علم کو بیچ دیا تھا اور اس کی سخت مذمت آئی ہے۔
علامہ تمناعمادی بہت قابل عالم دین تھے جنہوں نے لکھا ہے کہ مدارس میں بھی قرآن کی صرفی، نحوی، لغوی ،بلاغت اور اصول فقہ کے قواعد کے ساتھ بار بار طلبہ کو مشق کرانے کی ضرورت ہے اسلئے درسِ نظامی سے ان کو قرآن کی تعلیم صحیح طرح سے حاصل نہیں ہوتی ہے۔ علامہ تمنا عمادی پاکستان کی آزادی کے بعد مشرقی پاکستان کے ریڈیو سے درس قرآن دیتے تھے۔ ان کی ایک مشہور کتاب ”الطلاق مرتان ” دیوبندی ادارے ”المیزان” نے بھی شائع کی۔
درس نظامی کی اصول فقہ میں ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت229میں دو مرتبہ طلاق کے بعد خلع ہے ۔ حنفی مسلک کے مطابق آیت230البقرہ میں اس طلاق کا تعلق خلع سے ہے۔ علامہ تمنا عمادی نے حنفی اصول فقہ سے یہ اخذ کیا کہ عربی قواعد سے حلالہ کی طلاق کا تعلق خلع سے ہے اور کسی بھی زبان کے اسلوب میں سیاق وسباق کیساتھ معاملہ منسلک ہوتا ہے۔ شرعی، قانونی اوراخلاقی لحاظ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ جرم مرد کرے اور سزا حلالے کی عورت کو ملے؟۔اگر حنفی اصول فقہ کے مطابق فتویٰ دیا جاتا اور علامہ تمنا عمادی کی بات اس حد تک مان لی جاتی کہ حلالے کا تعلق خلع سے ہے۔ تو امت کیلئے معاملہ پھر بھی کچھ آسان ہوجاتا۔
مفتی تقی عثمانی کا خانوادہ انتہائی نالائق، مفادپرست ، بے ایمان اورخائن ہے لیکن چونکہ ایک علمی گھرانہ اور خانوادہ ہے اسلئے جدیداسلامی سکالروں کے مقابلے میں پھر بھی بہت بہتر ہے۔ سورہ بقرہ آیت229کے حوالے سے مفتی تقی عثمانی نے لکھ دیا کہ ” ترجمہ وتفسیر انتہائی مشکل اور پیچیدہ ہے ۔مولانا اشرف علی تھانوی کے ترجمہ وتفسیر سے بڑی مشکل سے اس کا مفہوم اخذ کیا ہے”۔
جبکہ دوسری طرف جدید سکالروں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیجو ہمت اور عزم کے پہاڑ تھے، دیانت اور بہادری میں لاجواب تھے اور ذہانت میں مثالی شخصیت تھے لیکن تفہیم القرآن آیت229کے ترجمہ میں آسانی سے خلع لکھ دیا اور جاوید احمد غامدی اور دوسرے جدید سکالروں نے بھی اس کو بہت سہل سمجھ لیا۔ مفتی تقی عثمانی اور اس کے قریبی علماء ومفتیان خود کہتے ہیں کہ اسلامی بینکاری کی حیثیت مکمل اسلامی نہیں ،بس خامیوں کے باوجود ایک کوشش ہے۔ اگرچہ یہ بھی نرا بکواس ہی ہے لیکن دوسر ی طرف سراج الحق امیر جماعت اسلامی تقریر کرتے ہیں کہ ملک میں سودی نظام کو ختم کرو۔ سود کا ادنیٰ گناہ اپنی سگی ماں سے36مرتبہ خانہ کعبہ کے اندر زنا کے برابر ہے۔ علماء اور جہلاء میں یہ فرق ہوتاہے۔ انجینئر محمد علی مرزا اور جاوید غامدی بھی سودی نظام کو دجال کی طرح جائز کہتے ہیں۔
سیدمودودی نے لکھاکہ کانا دجال مراد یہ نہیں کہ اس کی ایک آنکھ عیب دار ہوگی بلکہ دجال کی خیر کی آنکھ کام نہیں کرے گی اور شر کی آنکھ کام کرے گی۔ دجال معین شخص نہیں بلکہ معین اشخاص کا نام ہے۔ نبیۖ نے30ایسے دجالوں کی خبر دی ہے جو نبوت کا دعویٰ بھی کریں گے اور ان میں ایک مرزا غلام احمد قادیانی بھی تھا۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے اپنی کتاب” علامات قیامت اور نزول مسیح ” میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ دجال سے زیادہ خطرناک حکمران اور لیڈر ہوں گے۔ صحیح بخاری میں آخری خطبہ کے حوالے سے ایک ایسی حدیث کا بھی ذکر ہے کہ دجال تم سے ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ اس کی تمہیں خبر نہ ہو لیکن اللہ کو اس کی خبر ہے۔ اس کی ایک آنکھ ضائع ہوگی اور دوسری انگور کے دانے کی طرح ابھری ہوئی ہوگی۔ اس کی خاص نشانی اسکے پیروکاروں کی طرف سے مسلمانوں کا قتل عام اور جان ، مال اور عزت کا عدم تحفظ ہے۔ جب طالبان نے یہ کام کیا تو مولانا فضل الرحمن نے سن2007میں ان کو خراسان کے دجال کی حدیث کا مصداق قرار دے دیا تھا لیکن دجالی میڈیا نے اس خبر کو شائع نہیں کیا تھا۔
دیسی اور اصلی بندوق اور کارتوس میں یہ فرق ہوتا ہے کہ دیسی سے کبھی کبھار شکار کو نشانہ بنانے کے بجائے اپنی آنکھ شکار ہوجاتی ہے۔ کانیگرم وزیرستان میں کئی لوگوں کی ایک ایک آنکھ دیسی بندوق وکارتوس کی وجہ سے اڑ گئی ہے۔ جدید دانشور طبقے کی مثال بھی دیسی بندوق وکارتوس کی طرح ہے جسکے یہ خود شکار بنتے ہیں۔ بریلوی مکتب کے مفتی خالد حسن مجددی گوجرانوالہ نے ہماری کتاب کی طلاق کے مسئلے پر ملاقات میںزبردست تائید کی۔ دیوبندی ، اہلحدیث اور شیعہ میں بھی بہت سارے علماء حضرات ہیں لیکن انجینئر محمد علی مرزا کے برف خانے والی جہلم کی درسگاہ میں حاضر خدمت ہونے کے باوجود بات سننا تک بھی جاہل نے گوارا نہیں کیا۔ اصحاب علم میں پھلدار درخت کے جھکاؤ کی طرح تواضع ہوتی ہے اور جاہل اکڑ باز ہوتاہے۔ علماء ومفتیان اور طالبان کے ہم قدر دان ہیں۔

****************
نوٹ:اخبار نوشتہ دیوار خصوصی شمارہ اکتوبر2023کے صفحہ3پر اس کے ساتھ متصل مضامین”40آیات میں اطیعوا الرسول کا حکم ہے ”
”قرآن میںاحترام انسانیت کا اعلیٰ ترین تصور”
اور ”امت مسلمہ قرآن کی طرف کیسے متوجہ ہوگی؟” ضرور دیکھیں۔
****************

اخبار نوشتہ دیوار کراچی
خصوصی شمارہ اکتوبر 2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن میںاحترام انسانیت کا اعلیٰ ترین تصور

قرآن میںاحترام انسانیت کا اعلیٰ ترین تصور

اللہ تعالیٰ نے میدان جنگ میں بھی دشمنوں سے لڑائی کے معاملے میں بزدلی نہیں بہادری سکھادی ہے

جنگ جیتنے کے بعد قیدیوں کو مضبوط باندھنے کا حکم دیا ہے اور پھر رہائی کیلئے فدیہ یااحسان کرنے کا فرمایا

دشمن جب لڑائی و جنگ پر آمادہ ہو تو اللہ نے فرمایا کہ پھر گردنوں کا مارنا ہے اور جب تم خوب خون بہا چکے تو پھر قیدیوں کو مضبوط باندھ لو۔ پھر اس کے بعد ان کو احسان کرکے یا فدیہ لیکر چھوڑ دو،یہاں تک جنگ اپنے ہتھیار رکھ دے۔
قیدیوں کوغلام بنانا، عمر بھر قید رکھنا اور قتل کرنا سب غیر مہذب اور غیرانسانی فعل ہے۔ قرآن نے اس آیت کے ذریعے حالت جنگ کو قائم رکھنے کیلئے نہیں بلکہ جنگ کو ختم کرنے کیلئے بہترین چارٹر عالم انسانیت کے سامنے رکھا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ رسول اللہ ۖ نے جیسا فرمایا تھا کہ ” اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا تھا، یہ پھر عنقریب اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا۔ پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے ” کے بالکل مصداق اسلام بہت ہی جلد اجنبیت کا شکار ہوگیا تھا۔ پہلے تو جب ا بن مکتوم نابینا صحابی کی آمد پر نبی ۖ کے چہرہ انور پر کچھ ناگواری کے آثار نمایاں ہوئے تو سورہ عبس نازل ہوئی لیکن پھر نبی ۖ کے وصال کے بعد وحی کی رہنمائی کا سلسلہ بند ہوگیا تھا۔ حضرت ابوبکر نے مانعین زکوٰة کیخلاف قتال کا فیصلہ کیا تو حضرت عمر نے شروع میں اختلاف کیا۔ حضرت علی نے چھ ماہ تک بائیکاٹ اور ناراضگی کا سلسلہ جاری رکھا ہواتھا اسلئے ہنگامی بنیاد پر خلافت کا فیصلہ کرنا اور باقاعدہ مشاورت کا پروگرام نہ کرنا ایک اہم معاملہ تھا۔
حضرت عمر نے آخر میں بھی فرمایا تھا کہ ”کاش ! ہم رسول اللہ ۖ سے تین باتیں پوچھ لیتے۔ مانعین زکوٰة کے خلاف قتال، آپۖ کے بعد خلفائ، کلالہ کی میراث پرمزید تفصیلات”۔ حضرت خالدبن ولید نے حضرت مالک بن نویرہ کے قتل کے بعد عدت ہی میں اس کی بیوی سے شادی کرلی تو حضرت عمر نے ان کو سنگسار کرنے کا مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر نے ڈانٹ ڈپٹ کو کافی سمجھا۔ جب پتہ چلا تھا کہ فتح مکہ کے موقع پر بے گناہ لوگوں کے قتل سے بھی دریغ نہ کیا تو نبی ۖ نے تین بارفرمایا کہ ”اے اللہ گواہ رہنا،میں خالد کے فعل سے بری ہوں”۔
حضرت علی نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے مشرک بہنوئی کو قتل کرنا چاہا تھامگر ام ہانی نے اپنے شوہر کیلئے نبی ۖ سے پناہ لی۔ ام ہانی شروع میں مسلمان ہوئی تھیں اور معراج کا واقعہ بھی آپ کے گھر میں ہوا تھا۔ پھر ان کا شوہر چھوڑ کر گیا تو نبی ۖ نے نکاح کا پیغام دیا مگر اس نے معذرت کرلی۔ پہلے حضرت ابوطالب سے رشتہ مانگا تھا لیکن نبی ۖ کو یہ رشتہ نہیں دیا تھا۔ یہ انسانیت کا اعلیٰ نمونہ تھا کہ جب نبیۖ کو ضرورت تھی تو رشتہ نہیں ملا لیکن جب اس کی عمر زیادہ ہوئی ، بچوں کی ماں بن گئیں اور شوہر چھوڑ کر گیا تو نبیۖ نے پیغام بھیج دیا۔ پھر اللہ نے فرمایا کہ اے نبی ! ہم نے اپ کیلئے ان چچا اور ماموں کی بیٹیوں کو حلال کیا ہے جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی۔ پھر قرآن میں اللہ نے نبیۖ پر پابندی لگا دی کہ کوئی عورت کتنی بھلی لگے مگر اسکے بعد نکاح نہیں کرنا الا ملکت یمینک ”مگرجن کیساتھ آپ کا معاہدہ ہوجائے”۔ علامہ بدرالدین عینی نے28ازواج النبیۖ میں ام ہانی کا بھی ذکر کیا لیکن قرآن کی رو سے یہ نکاح نہیں معاہدہ ہی ہوسکتاتھا۔ شیعہ سنی اگر قرآنی آیات، احادیث صحیحہ اور ان تاریخی واقعات پر نظر ڈالیں گے تو بہت سارے پیچیدہ مسائل کا حل نکلے گا۔ جب عبداللہ بن زبیر نے کہا تھا کہ متعہ زنا ہے تو حضرت علی نے فرمایا کہ آپ بھی متعہ کی پیداوار ہیں۔ عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ صحابہ نے عرض کیا کہ کیا ہم خود کو خصی نہ بنالیں تو نبیۖ نے فرمایا کہ نہیں!۔ بھلے ایک یا دو چادر کے بدلے متعہ کرلو۔ لاتحرموا ما احل اللہ لکم من الطیبات ”حرام مت کرو،جو اللہ نے پاک چیزوں میں سے تمہارے لئے حلال کیا ہے”۔ (صحیح بخاری)
نبی ۖ کا آیت کی علت کا حوالہ دیکر متعہ کو حلال و طیب قرار دینا بہت بڑی بات ہے۔عبداللہ بن مسعود نے اپنے مصحف کی تفسیر میں متعہ کو حلال قرار دیتے ہوئے (الی اجل مسمٰی) لکھ دیا تھا۔ علماء ومفتیان غلط کہتے ہیں کہ وہ آیت میں اضافہ کا عقیدہ رکھتے تھے۔ اگر چہ حنفی مسلک میں اضافی آیت بھی آیت ہی کے حکم ہے جو حنفی مسلک کے تضاد کی بھی بہترین دلیل ہے۔
اللہ نے فرمایا کہ”پس نکاح کرو جن عورت کو چاہو دودو، تین تین ، چار چار سے اور اگر تمہیں ڈرہو کہ عدل نہیں کرسکو گے تو پھر ایک او ماملکت ایمانکم ” یا پھر جن سے تمہارا معاہدہ ہوجائے”۔ (سورہ النساء آیت3) اس سے مراد لاتعداد لونڈیاں نہیں بلکہ جو2،3،4عورتوں میں انصاف نہ کرسکنے کا خوف رکھتا ہو تو پھر ایک عورت یا جن سے معاہدہ ہوجائے۔یعنی جو ایک عورت رکھنے کی بھی پوزیشن میں نہ ہو تو پھر متعہ کرنے پربھی گزارہ ہوسکتا ہے۔قرآن کی تفسیر قرآن اور سنت سے بہتر نہیں ہے۔ محرمات کی فہرست کے آخرمیں دو بہنوں کو جمع کرنا منع ہے اور پھر المحصنٰت من النساء الا ما ملکت ایمانکم” مگرجن سے تمہارا معاہدہ ہوجائے”۔ اس کی تفسیر پر صحابہ نے بھی اتفاق نہیں کیا۔ آج ایک سرکاری افسر ، فوجی شہید کی بیگم کو مراعات ملتی ہیں مگر جب وہ دوسری شادی کرتی ہے تو اس کی عزت اور مراعات ملیا میٹ ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں قرآن نے بڑی مہربانی اور رہنمائی کی ہے کہ جس سے اس کی مراعات اور عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوگی اور انسانی فطرت اورضروریات کے تقاضے بھی پورے ہوں گے۔
قرآن میںما ملکت ایمانکم ”جنکے مالک تمہارے معاہدے ہیں”۔ (تمہارے معاہدوںوالے) متعہ ومسیار ، غلام ولونڈی، کاروباری شراکت دار سب پر موقع محل کے مطابق اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اگر قرآنی آیات کا درست ترجمہ وتفسیر کی جائے تو فحاشی وعریانی بھی کنٹرول ہوگی اور جنسی تسکین کیلئے جائز و معقول اور انسانی فطرت کے مطابق مستقل نکاح یا عارضی بندھن کی بھی اجازت ہوگی۔ نکاح کے مقابلے میں متعہ ومسیار کے مالی معاملات بھی عارضی معاوضے اور باہمی رضامندی سے طے ہوتے ہیں۔ جو طے ہوجائے اس کے بعد بھی اس میں کمی وبیشی کی باہمی رضامندی سے گنجائش قرآن نے رکھی ہے۔
قرآن نے متعہ ومسیار والیوں کے مقابلے میں طلاق شدہ وبیوہ کو ہی زیادہ اہمیت دی ہے ۔ اگر طلاق شدہ وبیوہ تک بھی میسر نہ ہو تو متعہ ومسیار والیوں کے ساتھ بھی نکاح کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ فرمایا ہے کہ جیسے تم ہو ،ویسے وہ ہیں اور ان کو کمتر نہ سمجھنے کا حکم ہے اور یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ اللہ تمہارا ایمان جانتا ہے (یعنی جو اپنے لئے اور ان متعہ ومسیار والیوںکیلئے الگ پیمانہ رکھتاہے)اور پھر ان کے ساتھ دوسری عام شادی شدہ عورتوں کے مقابلے میں فحاشی کی صورت میں نہ صرف آدھی سزا کی تجویز دی ہے بلکہ فرمایا کہ اگر تمہیں مشکل میں پڑنے کا خوف نہ ہو تو بالکل درگزر کرو۔قرآن کا معاشرتی نظام بہت زبردست ہے لیکن ترجمہ وتفسیر کرنے والوں نے موٹی موٹی باتوں کو بھی خود بھی بالکل نہیں سمجھا ہے۔

****************
نوٹ:اخبار نوشتہ دیوار خصوصی شمارہ اکتوبر2023کے صفحہ3پر اس کے ساتھ متصل مضامین”40آیات میں اطیعوا الرسول کا حکم ہے ”
”کون کانا دجال اورکون علماء حق کا کردار ہے؟”
اور ”امت مسلمہ قرآن کی طرف کیسے متوجہ ہوگی؟” ضرور دیکھیں۔
****************

اخبار نوشتہ دیوار کراچی
خصوصی شمارہ اکتوبر 2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

40 آیات میں اطیعوا الرسول کا حکم ہے

40آیات میں اطیعوا الرسول کا حکم ہے

نبیۖ نے فرمایا کہ قلم اور کاغذ لاؤ،تاکہ میں تمہیں ایسی وصیت لکھ کردوں کہ میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہو!

حضرت عمر نے کہا کہ ”ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے”۔ شور مچ گیا تو نبیۖ نے سب کونکال دیا

ڈاکٹر طاہر القادری کی ایک وڈیو کلپ دیکھ لی ، جس میں اس نے کہا ہے کہ ”قرآن میں40مرتبہ اللہ کے رسول ۖ کی اطاعت کا حکم ہے۔ 22مرتبہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا ذکر ہے اور 18مرتبہ صرف رسول کی اطاعت کا حکم ہے۔ پورے قرآن میں ایک بار بھی صرف اللہ کی اطاعت کا ذکر نہیں ہے۔ تاکہ کوئی یہ نہیں کہہ سکے کہ رسول کی اطاعت کے بغیر بھی اللہ کی اطاعت ہے اور جہاں صرف رسول ۖ کی اطاعت کا حکم ہے۔ اس کی وضاحت اللہ نے خود ہی کردی ہے کہ من اطاع الرسول فقد اطاع اللہ ”جس نے رسول کی اطاعت کی تو اس نے تحقیق کہ اللہ کی اطاعت کی”۔
ڈاکٹر طاہر القادری یقینا بہت صاحب مطالعہ ، محقق عالم اور اچھی ذہنیت کے مالک ہیں۔ اگر ماحول اجازت دیدے تو پھر شیعہ بھی بن سکتے ہیں اسلئے کہ جب رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ” قلم اور کاغذ لاؤ،تاکہ میں تمہیں ایسی وصیت لکھ کردے دوں کہ تم میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوجاؤ”۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ بعض نے نبی ۖ اور بعض نے حضرت عمر کے حق میں بات کی ۔ نبی ۖ کا ساتھ دینے والوں نے ناراضگی میں کہا کہ کیا نبی ۖ نعوذ باللہ کوئی ہذیان بول رہے ہیں۔ ان دونوں طبقے کے شور شرابے پر نبیۖ نے فرمایا کہ میرے پاس سے باہر نکل جاؤ۔ ( صحیح بخاری)
شیعہ کے اس سوال کا کیا جواب ہے کہ حضرت عمر نے نبی ۖ کی اطاعت قبول کرنے سے کیوں انکار کیا؟۔بڑے بڑے مدارس کے بڑے بڑے علماء کو اس حدیث کی خبر بھی نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے ایک عربی عالم کہتا ہے کہ اللہ نے جہاں جہاں قرآن میںاطاعت کا ذکر کیا ہے وہاں نبی نہیں رسول کہا ہے اور رسول کے پاس جو رسالات اپنے رب کی طرف سے آتی ہیں وہی قرآن کے احکام ہیں جو قرآن میں موجود ہیں۔اسلئے اطاعت وہاں فرض ہے جہاں قرآنی پیغام کے ذریعے سے حکم موجود ہو۔ سورۂ مجادلہ میں اللہ نے فرمایا کہ ”اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے حق میں جھگڑ رہی تھی”۔ اللہ نے فیصلہ بھی اس عورت خولہ بنت ثعلبہ کے حق میں کردیا۔جب بدری قیدیوں پر نبی ۖ نے مشاروت کی تو حضرت عمر اور حضرت سعد نے مشورہ دیا کہ جو جس کا قریبی رشتہ دار ہے وہ اس کو قتل کرے۔ حضرت ابوبکر اور حضرت علی نے مشورہ دیا کہ انکے ساتھ درگزر کا معاملہ کرکے فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے۔ نبی ۖ نے ان رحم کرنے والوں کے مشورے پر فیصلہ دیا۔ وحی نازل ہوئی ”نبی کیلئے یہ مناسب نہیں تھا کہ آپکے پاس قیدی ہوں ، یہاں تک آپ خون بہاتے۔ تم لوگ دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے”۔ (القرآن)پھر جب جنگ احد میں صحابہ نے بڑا زخم کھایا۔ فتح شکست میں بدل گئی اور حضرت امیرحمزہ کے کلیجے کو حضرت وحشی نے نکالا اور حضرت ہندہ نے چبایا تونبی ۖ نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں ان کے70افراد سے اس طرح کا بدلہ لوں گا۔ اللہ نے فرمایا کہ ” کسی قوم کے انتقام کا جذبہ تمہیں اس حد تک نہ لے جائے کہ عدل نہ کریں”۔ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ”جتنا انہوں نے کیا ہے،اتنا تم بھی کرسکتے ہو،اگر معاف کردو تو یہ تمہار ے لئے اچھا ہے اور معاف ہی کرو اور معاف کرنا بھی اللہ کی توفیق سے ممکن ہے”۔
اللہ نے فرمایا: یا ایھا النبی اتق اللہ ولاتطع الکٰفرین والمنافقین ان اللہ کان علیمًا حکیمًاOواتبع مایوحیٰ الیک من ربک…. ”اے نبی ! اللہ سے ڈرو۔ اور کافروں اور منافقوں کی اطاعت مت کرو۔ اتباع کرو جو اللہ نے آپ کی طرف نازل کیا ہے……….(سورہ احزاب)
قرآن کے جتنے احکام ہیں وہ سب اطاعت کیلئے ہیں۔ اللہ نے نبیۖ کو مخاطب کرکے ڈاکٹر طاہرالقادری، مولانا فضل الرحمن ، عتیق گیلانی، مفتی تقی عثمانی اور ان سے پہلے اور بعد میں آنے والے تمام امت مسلمہ سے فرمایاہے کہ” اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کی اطاعت مت کرو۔ بیشک وہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ اور اسکی اتباع جو اللہ نے قرآن میں نبی ۖ پر نازل کیا ہے”۔
اگر کوئی کہتاہے کہ وہ عوام الناس سے نہیں ڈرتا تو اللہ نے سورۂ احزاب میں نبیۖ کو مخاطب کرکے فرمایا :وتخشی الناس واللہ احق ان تخشٰہ ”اور آپ لوگوں سے ڈر تے ہیں اور اللہ زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے” ۔
اللہ نے سورۂ مجادلہ میں فرمایا ” مائیں نہیں مگر وہی جنہوں نے انکو جنا ہے ” تو مطلب یہ نہیں کہ سوتیلی مائیں ماں کے حکم میں نہیں بلکہ بیویوں سے ظہار کیا جاتا تھا توان کو سگی ماں کی طرح حرام سمجھا جاتا تھا جبکہ سوتیلی ماں سے نکاح کو جائز سمجھا جاتا تھا۔ محرمات کی فہرست میں پہلے فرمایا : لاتنکحوا ما نکح اٰباء کم الا ماقد سلف وحرمت امہاتکم وبناتکم واخواتکم …..”نکاح مت کرو،جن سے تمہارے آباء نے نکاح کیا مگر جو پہلے گزر چکا۔ تمہارے پر حرام ہیں تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں، تمہاری بہنیں…….”۔ (سورہ النساء )
محرمات کی فہرست میں اللہ نے لے پالک بیٹیوں کا بھی ذکر کیا ہے جن کو تم نے اپنے حجروں میں پالا ہے اور جن کی ماؤں کے اندر داخل کیا ہے اور اگر داخل نہیں کیا ہے تو پھر ان کے ساتھ نکاح کرسکتے ہو۔ دخول کے لفظ سے اللہ نے ان حرمت مصاہرت کے بیہودہ مسائل کا قلع قمع کردیا ہے جو فقہ کی کتابوں میں گھڑ دئیے گئے ۔ نورالانوار میں ملاجیون نے یہاں تک لکھ دیا کہ ”ساس کی شرمگاہ کو اگر باہر سے شہوت کی نظر سے دیکھا تو اس میں عذر ہے لیکن اگر اندر سے دیکھا تو پھر بیوی حرام ہوجائے گی”۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ نے نبی ۖ کو اپنی بیٹیوں کی پیشکش کردی تو نبیۖ نے فرمایا کہ یہ میرے لئے حرام ہیں۔ مولانا سلیم اللہ خان نے ابن حجر کے حوالے سے انتہائی خطرناک اور فضول بحث نقل کی ہے کہ مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ ایک آدمی کی بیوی فوت ہوگئی۔ حضرت علی نے پوچھا کہ اس کی بیٹیاں ہیں ۔ اس نے کہاکہ ہاں۔ علی نے پوچھا کہ تمہارے سے ہیں یا کسی غیر سے؟۔ اس نے کہا کہ غیر سے۔ علی نے کہا کہ تمہارے حجرے میں پلی ہیں یا غیر کے؟۔ اس نے کہا کہ غیرکے!۔ علی نے کہا کہ پھر اسی سے نکاح کرلو۔ مولانا سلیم اللہ خان نے ابن حجر کے دلائل کی تعریف کی ہے کہ دوسرا مسلک مشہور نہ ہوتا تو اسی پر عمل کرنا چاہیے تھا۔ حالانکہ مشہور بھی غلو کا شکار ہے اور یہ بھی اس سے بدتر ہے۔ قرآنی حکم کے مدمقابل افراط و تفریط چھوڑ کر علماء ومفتیان کو عوام الناس کا خوف دل سے نکالنا ہوگا۔ کہیں لکھا کہ اپنے بچے پر غلطی سے شہوت کا ہاتھ لگ گیا تو بیوی حرام ہے اور کہیں لکھا کہ اگر لڑکے سے بدفعلی کرلی تو اسکی ماں سے نکاح حلال ہے۔حالانکہ قرآن اطاعت رسول ہے اسلئے کہ اللہ نے رسول ۖ ہی کے ذریعے تمام قرآنی احکام کو پہنچایا ہے۔

****************
نوٹ:اخبار نوشتہ دیوار خصوصی شمارہ اکتوبر2023کے صفحہ3پر اس کے ساتھ متصل مضامین”قرآن میںاحترام انسانیت کا اعلیٰ ترین تصور ”
”کون کانا دجال اورکون علماء حق کا کردار ہے؟”
اور ”امت مسلمہ قرآن کی طرف کیسے متوجہ ہوگی؟” ضرور دیکھیں۔
****************

اخبار نوشتہ دیوار کراچی
خصوصی شمارہ اکتوبر 2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حق مہر ”اعزازیہ” نہیں بلکہ گارنٹی و انشورنس ہے

حق مہر ”اعزازیہ” نہیں بلکہ گارنٹی و انشورنس ہے

اگر ترقی یافتہ دنیا میں عورت کے حقوق کے حوالے سے قرآن کا صور پھونکا جائے تو بڑا انقلاب آئے گا۔

توراة میں تحریف کرنے والے یہود کو قرآن نے گدھا قرار دیا اور یہ اُمت بھی ان کے نقش قدم پر چلے گی

قرآن میں طلاق واقعی ایک بڑا حساس معاملہ ہے لیکن کیوں؟۔
اگر عورت کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جائے تب بھی آدھا حق مہر فرض بن جاتا ہے۔ اگر مقرر نہ کیا ہو تو امیر پر اس کی وسعت کے مطابق اور غریب پر اس کی وسعت کے مطابق دینا ضروری ہے۔ اللہ نے یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ اگر عورت نصف سے کچھ کم بھی لے تو حرج نہیں۔ اور مرد نصف سے زیادہ بھی دے تو حرج نہیں لیکن مناسب یہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے وہ زیادہ دے اور آپس میں ایک دوسرے پر فضل کرنا مت بھولو۔
قرآن کی ان آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حق مہر شوہر کی وسعت کے مطابق ہونا چاہیے۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حق مہر اتنا ہونا چاہیے کہ جب مرد اس کو ادا کرے تو اس کو اچھی خاصی کلفت کا سامنا ہو۔ یہاں تک کہ عورت سے یہ توقع رکھے کہ وہ اپنے حق میں سے کچھ معاف کرے۔ اگر اعزازیہ ہوگا ایک کروڑ پتی آدمی پانچ دس ہزار یا50ہزار، لاکھ مہر دے گا تو اس میں کیا سوچ بچار ہوگی کہ کون معاف کرے کون نہیں؟۔ اور جب معاملہ طلاق کا ہے اور طلاق مرد ہی کی طرف سے ہوتی ہے تو اللہ کا یہ کہنا بجا ہے کہ جس کے ہاتھ میں طلاق کا گرہ ہے اس کو چاہیے کہ وہ رعایت لینے کے بجائے رعایت دے۔ کیونکہ عورت کے خلع کا معاملہ نہیں ہے۔ ان بیوقوفوں نے اس سے یہ اخذ کرلیا کہ طلاق صرف شوہر کا حق ہے اور خلع عورت کا حق نہیں ہے۔ حالانکہ یہاں چونکہ معاملہ خلع کا نہیں طلاق کا تھا اسلئے گرہ کی نسبت شوہر کی طرف کی گئی ہے۔ جب عورت خلع لیتی ہے تو طلاق کے مقابلے میں اس کے حقوق بہت کم ہوجاتے ہیں۔
البتہ حق مہر تو بہر صورت اس کا حق ہوتا ہے۔ خلع میں گھر اور جائیداد وغیرہ چھوڑنے پڑتے ہیں اور طلاق میں سب دی ہوئی چیزوں کی مالک عورت ہی ہوتی ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنے آسان ترجمہ قرآن میںصریح آیات کیخلاف بالکل غلط تفسیر لکھی ہے۔ حق مہر اعزازیہ نہیں ،آئیے میں بتاتا ہوں کہ کیا ہے؟۔
بیمہ اردو میں انشورنس کو کہتے ہیں۔ جب تاجر پرانے دور میں مال کے بدلے میں ایک پرچی لکھتے تھے جو اس قیمت کی ضمانت ہوتی تھی اس کو بیمہ کہا جاتا تھا۔ حق مہر دو قسم کا ہوتا ہے ایک معجل جو فوری طور پر ادا کردیا جاتا ہے اور دوسرا موجل جس میں بیمہ کی طرح گارنٹی ہوتی ہے۔ اس حق مہر کی حیثیت کو ختم کیا گیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جب شوہر چاہتا ہے تو عورت سے خدمت لے کر مدتوں بعد چھوڑ دیتا ہے اور اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی ہے۔ مفتی تقی عثمانی کے گھر کی ایسی کہانیاں ہیں کہ بھتیجے نے اپنی بیگم کو طلاق دے دی ۔ پھر مرید نی سے اس کی شادی کرائی۔ پھر اس نے ان بچوں کو پالا پوسا اور بڑا کیا ، خدمت کی اور پھر ایسا وقت آیا کہ بچوں کی حقیقی ماں کا دوسرا شوہر فوت ہوگیا تو اس کو دوبارہ لائے اور مریدنی کو گھر سے نکال بھگادیا۔ اگر حق مہر کو اعزازیہ سمجھنے کے بجائے ایک زبردست گارنٹی قرار دیا جاتا تو عورتوں کے ساتھ اس طرح کی زیادتی نہ ہوتی۔ جب عورت کے خلع کا حق چھین لیا گیا تو اس کے نتیجے میں فقہ کے مسائل ناقابل حل ہوگئے۔ مثلاً مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی زوجہ کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیدیں۔ پھر مکر گیا۔ اب اگر اس کی بیگم کے پاس دو گواہ نہ ہوئے اور مفتی تقی عثمانی نے جھوٹی قسم کھالی تو مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب ”حیلہ ناجزہ” میں لکھا ہے کہ عورت خلع لے گی لیکن اگر شوہر خلع نہ دے تو عورت حرامکاری پر مجبور ہوگی۔ یہ فقہ کی ان کتابوں کا حال ہے جن میں باقی سب کچھ ہے لیکن فقہ نہیں۔ اسلئے کہ فقہ سمجھ کا نام ہے اور سمجھ انسانوں میں ہوتی ہے گدھوں میں نہیں۔ قرآن نے تورات میں تحریف کرنے والے علماء کی مثال گدھوں سے دی ہے۔ حدیث میں یہ خبر ہے کہ یہ اُمت بھی سابقہ اُمتوں کے نقش قدم پر چلے گی۔
بہشتی زیور مولانا اشرف علی تھانوی کی وہ کتاب ہے جو اکثر گھروں میں بھی ہے۔ اور مفتی تقی عثمانی نے بھی اس کی بہت زیادہ تعریف لکھی ہے۔ اگر مفتی تقی عثمانی نے اپنی بیگم سے کہا کہ طلاق طلاق طلاق ۔ تو بہشتی زیور کے مطابق عورت پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ لیکن اگر مفتی تقی عثمانی کا ارادہ ایک طلاق کا ہوگا تو پھر ایک طلاق واقع ہوگی اور فتویٰ یہ دیا جائے گا کہ بیگم صاحبہ آپ کے نکاح میں ہیں۔ بہشتی زیور کے مطابق بیگم کو فتویٰ دیا جائے گا کہ وہ یہ سمجھے کہ اس کو تین طلاقیں ہوچکی ہیں۔ اب ایک طرف وہ خاتون مفتی تقی عثمانی کے نکاح میں ہوگی اور دوسری طرف وہ سمجھے گی کہ اس پر حرام ہوچکی ہے۔ اس صورت میں تو حلالہ بھی نہیں ہوسکے گا۔ کیونکہ پہلا نکاح بدستور موجود ہے۔ یہ ہے قرآن کی تعلیم سے انحراف کا نتیجہ۔ اگر خلع کا حق عورت کا مان لیا جاتا تو ایسی تذلیل کیسے ہوتی؟۔ آنے والے دور میں بہت لوگ بہت کچھ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر پوچھیں گے۔ اس سے پہلے پہلے قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
ایک عورت نے نبی ۖ سے عرض کیا کہ میں خود کو ہبہ کرتی ہوں۔ ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ۖ ! اگر آپ کو ضرورت نہیں تو مجھے دیجئے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ آپ کے پاس دینے کیلئے کیا ہے؟۔ اس نے کہا کہ کچھ بھی نہیں۔ نبی ۖ نے حکم فرمایا کہ گھر میں دیکھ کر آؤ، جو کچھ بھی مل جائے۔ وہ واپس آیا اور عرض کیا کہ کچھ بھی نہیں ملا۔ کوئی لوہے کی انگوٹھی تک بھی اس کے پاس نہیں تھی۔ پھر نبی ۖ نے فرمایا کہ آپ کو قرآن کی کچھ سورتیں یاد ہیں؟۔ صحابی نے کہا کہ ہاں۔ نبی ۖ نے حکم دیا کہ اس عورت کو یہ سورتیں یاد کراؤ۔
اس حدیث سے بعض لوگوں نے انتہائی حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھ دیا ہے کہ ایک لوہے کی انگوٹھی بھی حق مہر بن سکتی ہے۔ حالانکہ اگر لوہے کی انگوٹھی مل جاتی تو یہ اس شخص کا کل سرمایہ تھا۔ یہ دلّے اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ عورت کا حق مہر کوئی مذاق نہیں ہے بلکہ یہ ایک زبردست گارنٹی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ اے نبی ! یہ آپ ہی کیلئے خاص ہے کہ کوئی عورت خود کو ہبہ کردے۔ قرآن نے اس بات پر پابندی لگادی کہ کوئی عورت خود کو ہبہ بھی کرے تو اس کا حق مہر نہیں مار سکتا ہے۔ جس دن ترقی یافتہ دنیا میں قرآن کا یہ صور پھونکا جائے گا کہ نکاح میں مرد کا کوئی حق نہیں ہے اور عورت کیلئے شوہر کی وسعت کے مطابق ایک معقول گارنٹی ہے۔ سارا خرچہ بھی اصولاً شوہر ہی کے ذمہ ہے۔ خلع کا حق بھی عورت کو حاصل ہے اور خلع میں بھی مرد کی طرف سے دی ہوئی چیزوں اور حق مہر کا تحفظ اس کو ملے گا۔ البتہ دیا ہوا گھر اوردی ہوئی جائیداد سے عورت کو دستبردار ہونا پڑے گا۔ اور طلاق کی صورت میں گھر تو ہوگا عورت کا اور اس کے علاوہ دی ہوئی جائیداد اور تمام اشیاء کی بھی وہ مالک ہوگی۔ کاش قرآن و سنت کے مطابق مسلمان عورتوں کے حقوق اجاگر کریں اور دنیا کو فتح کریں۔

****************
نوٹ:اخبار نوشتہ دیوار خصوصی شمارہ اکتوبر2023کے صفحہ2پر اس کے ساتھ متصل مضامین”حماس اور اسرائیل کی جنگ پر ایک مختلف نظر”
”سنی حدیث ثقلین کا ذکر نہیں کرتے : مفتی فضل ہمدرد”
اور ”ہمارا قبلہ اوّل بیت المقدس نہیںخانہ کعبہ ہے” ضرور دیکھیں۔
****************

اخبار نوشتہ دیوار کراچی
خصوصی شمارہ اکتوبر 2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ہمارا قبلہ اوّل بیت المقدس نہیں خانہ کعبہ ہے

ہمارا قبلہ اوّل بیت المقدس نہیںخانہ کعبہ ہے

حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے حضرت آدم کے قبلے کی بنیاد پر دوبارہ نبی ۖ کیلئے کعبہ تعمیر کیا

اللہ نے فرمایا: ان اول بیتٍ وضع للناس للذی ببکة مبٰرکًا و ھدًی للعٰلمینO(آل عمران)

رسول اللہ ۖ نے مکہ مکرمہ میں بعثت کے بعد 13سال گزارے۔ جب قرآن کہتا ہے کہ پہلا گھر جو لوگوں کیلئے بنایا گیا مکہ میں ہے جو مبارک ہے اور لوگوں کیلئے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ تو مسلمانوں کیلئے یہ ہرگز مناسب نہیں کہ وہ اس کے باوجود مسجد اقصیٰ یا بیت المقدس کو قبلہ اول کہیں۔ البتہ جب رسول اللہ ۖ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو شروع میں آپ ۖ کا یہ معمول تھا کہ اہل کتاب کے مطابق ان چیزوں پر چلتے تھے جس میں اللہ کی طرف سے کوئی حکم نازل نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ انبیاء کرام کی شریعتوں کا منہاج ہر دور میں بدلتا رہا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت یوسف اور بہت سارے انبیاء کرام حضرت داؤد ، حضرت سلیمان، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے اور ان کا قبلہ بیت المقدس تھا۔ نبی ۖ کی خواہش یہ تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے تعمیر کردہ خانہ کعبہ کو قبلہ بنایا جائے۔ جس کا قرآن میں بہت واضح الفاظ میں تذکرہ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ حرم پاک خانہ کعبہ کو قبلہ بناؤ۔ جس پر شروع میں یہود و نصاریٰ کو تکلیف بھی پہنچی کہ ان کے قبلے کو کیوں چھوڑ دیا گیا ہے؟۔ انہوں نے بیوقوفی کرتے ہوئے سوالات بھی اٹھائے کہ کیوں قبلہ تبدیل کیا گیا ہے؟۔ جس کا اللہ نے زبردست جواب دیا ہے کہ مشرق اور مغرب کی طرف رُخ کرنا کوئی نیکی نہیں بلکہ تقویٰ اصل نیکی ہے۔ جس طرف اللہ کا حکم ہو اس کو قبلہ بنانا ہی عبادت ہے۔ یعنی اصل چیز کوئی خاص مقام نہیں بلکہ اللہ کا حکم ہے۔
جب مسلمانوں کو مشرکین مکہ کی طرف سے خطرات تھے تو اللہ تعالیٰ نے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ کو مرکز بنانے کا حکم دیا۔ جونبی کریم ۖ نے فتح مکہ کے بعد بھی برقرار رکھا۔ جب مسلمانوں میں آپس کے فسادات ہوئے، حضرت عثمان کو مسند خلافت پر مدینہ میں شہید کیا گیا تو حضرت علی نے دار الخلافت کو کوفہ منتقل کیا۔ پھر بنو اُمیہ کے دور میں دار الخلافت شام کے شہر دمشق منتقل ہوا۔ اور پھر بنو عباس کے دور میں دار الخلافت عراق کے شہر بغداد منتقل ہوا۔ پھر خلافت عثمانیہ کے دور میں دار الخلافت ترکی کے شہر استنبول میں منتقل ہوا۔ سن1924میں جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو ہندوستان سے مولانا محمد علی جوہر اور انکے بھائی مولانا شوکت علی کی قیادت میں تحریک خلافت شروع ہوئی۔ جس میں ہندو بھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ تھے۔ مسلمانوں اور ہندوؤں نے مشترکہ تحریک آزادی کانگریس کے پلیٹ فارم سے بھی لڑی ہے۔ انگریز نے جانے کا فیصلہ کیا تو ہندو کی اکثریت اور بہت سارے مسلمان چاہتے تھے کہ متحدہ ہندوستان تقسیم نہ ہو۔ مسلم لیگ نے قائد اعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان کی زیر قیادت مسلمانوں کیلئے ایک الگ اور آزاد ریاست کی تحریک چلائی جس کی وجہ سے مشرقی بنگال مشرقی پاکستان بن گیا اور سندھ ، پنجاب، پختونخواہ اور بلوچستان پر مشتمل مغربی پاکستان بن گیا۔ پاکستان بنانے کی مثال اقبال کا ایک شعر تھا۔
مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
قائد اعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان مذہبی لوگ نہیں تھے اور جو علماء و مشائخ پاکستان کی تائید میں پیش پیش تھے ان میں ایک بڑا نام علامہ شبیر احمد عثمانی کا تھا۔ جن کے بڑے بھائی مفتی عزیز الرحمن عثمانی دار العلوم دیوبند کے رئیس دار الافتاء تھے ، جو جمعیت علماء ہند سے تعلق رکھتے تھے اور کانگریس کی حمایت کرتے تھے۔ جن کے ایک بڑے صاحبزادے مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے سن1938میں ”ندوة المصنفین” کی بنیاد رکھی۔ اور سن1964میں جمعیت علماء ہند سے الگ ہوگئے اور آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی بنیاد رکھی۔ جن میں دیوبندی ، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ سب شامل تھے۔ مفتی عتیق الرحمن عثمانی کی صدارت میں دیوبندی،بریلوی، جماعت اسلامی اور اہل حدیث کے بڑے علماء کرام اور دانشوروں کا ایک سیمینار ”تین طلاق” کے موضوع پر احمد آباد شہر میں سن1973کو منعقد ہوا۔ مقالات میں دیوبندی اکابرین اور جماعت اسلامی کے مرکزی عہدیداروں نے اپنی تحقیقات میں یہ انکشاف کیا کہ کوئی ایک بھی ایسی معتبر روایت نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ ایک ساتھ تین طلاق پر حلالہ ہونا چاہیے۔ جبکہ قرآنی آیات کی معتبر تفاسیر بھی نقل کی گئیں۔ جن میں ایک ساتھ تین طلاق پر حلالہ کے خلاف دلائل دئیے گئے اور اہل حدیث حضرات تو ویسے بھی اپنا یہ مسلک نہیں رکھتے۔ ایک بریلوی مکتبہ فکر کے عالم دین نے حلالہ کے حق میں بات کی لیکن وہ بھی متفقہ اعلامیہ سے اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ یہ کوئی متفقہ مسئلہ نہیں ہے۔ جبکہ یہ سیمینار پاکستان لاہور سے اہل حدیث حضرات نے کتابی شکل میں چھاپہ ہے اور اس میں علامہ پیر کرم شاہ الازہری کی کتاب ”دعوت فکر” کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
مفتی عتیق الرحمن عثمانی کا سن1984میں انتقال ہوا اور اگر وہ ہماری تحقیقات کو دیکھ لیتے تو یقینا اس طرح سے تائید فرماتے جس طرح مفتی حسام اللہ شریفی مدظلہ العالی بھرپور طریقے سے حق ادا فرمارہے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنے ”فتاویٰ عثمانی، جلد دوم” میں مفتی عتیق الرحمن سنبھلی کا ایک خط چھاپہ ہے اور اس کا جواب بھی دیا ہے۔ خط میں لکھا ہے کہ عورت کا حق مہر شریعت میں کیا ہے؟۔ قرآن میں اس کو صدقہ بھی قرار دیا گیا ہے اور اجر بھی ۔ جس کے جواب میں مفتی تقی عثمانی نے لکھا ہے کہ ”حق مہر میرے نزدیک ایک اعزازیہ ہے اور یہ میری ذاتی رائے ہے”۔ ساڑھے14سو سال سے کسی کو یہ خبر نہ ہوئی کہ حق مہر کی حیثیت شریعت میں کیا ہے؟۔ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کسی گاؤں میں جاہلوں کا بسیرا تھا اور اس میں ایک قدرے ہوشیار بھی رہتا تھا۔ ایک مرتبہ گاؤں میں کوئی ایسا پرندہ آیا جو پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ سب اس پر اپنے اپنے انداز سے عجیب و غریب تبصرے کررہے تھے۔ آخر میں ہوشیار کو بلایا گیا ۔ ہوشیار نے اپنا سر پکڑا اور اپنے ذہن پر پورا زور دینے کے بعد کہا کہ پہلے پہلے تو ہو نہ ہو لگڑ بگڑ ہے اور اگر لگڑ بگڑ نہیں ہے تو پھر جو بلا بھی ہے مجھے پتہ نہیں۔
جاہلوں میں ہوشیار پرندے کو لگڑ بگڑ سمجھ رہا تھا تو واقعی اس کی یہ بہت بڑی حماقت تھی کہ یہ پتہ بھی نہیں تھا کہ پرندہ الگ چیز ہے اور جانور الگ ۔ مفتی تقی عثمانی نے حق مہر کو اعزازیہ کہہ کر جاہلوں کے سرغنے کو بھی بڑی مات دے دی ہے اور اعزازیہ قرآن و سنت کی سمجھ کی وجہ سے نہیں کہا ہے بلکہ مدارس میں زکوٰة کے مال سے جلسہ تقسیم انعامات دیکھ کر حق مہر کیلئے اعزازیہ کا اندازہ لگایا ہے۔ حق مہر کو سمجھائیں گے تو پھر بیت المقدس کی بات بھی کچھ نہ کچھ سمجھ میں آئے گی۔

****************
نوٹ:اخبار نوشتہ دیوار خصوصی شمارہ اکتوبر2023کے صفحہ2پر اس کے ساتھ متصل مضامین”حماس اور اسرائیل کی جنگ پر ایک مختلف نظر”
”سنی حدیث ثقلین کا ذکر نہیں کرتے : مفتی فضل ہمدرد”
اور ”حق مہر ”اعزازیہ” نہیں بلکہ گارنٹی و انشورنس ہے” ضرور دیکھیں۔
****************

اخبار نوشتہ دیوار کراچی
خصوصی شمارہ اکتوبر 2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سنی حدیث ثقلین کا ذکر نہیں کرتے : مفتی فضل ہمدرد

سنی حدیث ثقلین کا ذکر نہیں کرتے : مفتی فضل ہمدرد

مفتی فضل ہمدرد نے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ مجھے اس سوال کا جواب آج تک کسی سنی عالم نے نہیں دیا

مفتی فضل ہمدرد کی یہ خواہش بفضل تعالیٰ ہم پوری کردیتے ہیں لیکن وہ پھر اس کا تذکرہ ضرور بالضرور کریں

رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن اور دوسرے میرے اہل بیت جب تک ان کو مضبوطی سے تھامو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے”۔ ہم نے اپنی کتابوں اور اخبار میں اتنی مرتبہ اس حدیث کا ذکر کیا ہے کہ شاید اہل تشیع نے بھی اس کو اتنا ہائی لائٹ نہیں کیا ہوگا لیکن اہل تشیع کی طرف سے بھی اس کا کوئی جواب نہیں ملتا ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ وہ اُمت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کے اول میں مَیں ہوں، درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ ، لیکن درمیانے زمانے میں ایک کج رو جماعت ہوگی وہ میرے طریقے پر نہیں اور میں اس کے طریقے پر نہیں۔ اس حدیث کو شیعہ سنی دونوں نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ اہل تشیع نے اس سے مہدی عباسی بھی مراد لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب رسول اللہ ۖ درمیانہ زمانے تک خود نبی ۖ اُمت کو ہلاکت سے بچانے کا ذریعہ ہیں اور درمیانہ زمانے سے آخر تک درمیانے زمانے کا مہدی ہے تو پھر اگر اس سے مہدی غائب بھی مراد لیا جائے تو اُمت کا کیا قصور ہے؟۔ اہل تشیع کے ہاں اس کا بہت ذکر ہوتا ہے لیکن ان کو کونسی ہدایت ملی ہے؟۔ جب انصار ، مہاجرین، بنو اُمیہ، بنو عباس اور اہل بیت اپنے اپنے دور میں سب سے زیادہ خلافت کی اہلیت اور اس پر براجمان ہونے کی توقع کررہے تھے تو خاندانی اعتبار سے اہل بیت واقعی زیادہ مستحق تھے۔ لیکن وہ اس دوڑ میں ہی شریک نہ تھے۔ البتہ بعض لوگوں کی طرف سے ان کو اس استحقاق کی لڑائی میں گزند پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ اسلئے رسول اللہ ۖ نے اہل بیت پر ظلم و ستم کرنے سے اُمت کو ڈرایا تھا۔ جب ابوبکر کا انتخاب ہوا تو ابوسفیان نے علی کو پیشکش کی کہ اگر آپ کہیں تو مدینہ کو پیادوں اور سواروں سے بھردوں؟۔ حضرت علی نے اس پیشکش کو ٹھکرادیا تھا۔ حضرت علی نے اس وقت مسند خلافت کو قبول کیا جب شوریٰ نے ان کا پہلے تین خلفاء کی طرح انتخاب کیا۔ پھر حسن وحسین نے معاویہ کے حق میں دستبرداری اختیار کی۔ اگر یزید کا لشکر حضرت حسین کو61ہجری میں کربلا سے واپس مدینہ کی طرف جانے دیتا یا یزید کے پاس جانے دیتا یا پھر سرحد کی جانب جانے دیتا تو سانحہ کربلا پیش نہ آتا۔ مدینہ سے کوفہ پہلے آتا ہے اور پھر شام کے راستے میں کربلا بعد میں آتا ہے جو کوفہ سے دمشق کی جانب کافی فاصلے پر ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل بیت کا یہ قافلہ کوفہ سے بہت آگے شام کی طرف کربلا کیسے پہنچا؟۔ کربلا کی زمین کو کوئی اِدھر سے اُدھر تو نہیں کرسکتا اور مفتی فضل ہمدرد نے وہاں ماشاء اللہ زائرین کے ساتھ سفر بھی کیا ہے۔
نہج البلاغہ میں حضرت عمر کے وصال پر حضرت علی نے جس طرح کی بڑی زبردست تعریف کی ہے اس میں تو کسی سنی کی مداخلت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یزید کے پاس پہنچنے کے بعد امام زین العابدین نے جمعہ کا فصیح و بلیغ خطبہ بھی دیا تھا۔ شیعہ جن کو ائمہ اہل بیت مانتے ہیں انہوں نے کبھی اُمت میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ مفتی فضل ہمدرد کس چکر میں پڑ گئے ہیں۔ کیا علامہ سید جواد حسین نقوی نے اتحاد اُمت کیلئے جس طرح کی کوششیں شروع کی ہیں اس سے کسی سنی عالم کو شیعوں کی طرف سے چندے وغیرہ نہیں مل سکتے ؟۔ مولویوں کا تو کام یہ ہے کہ جہاں سے اچھا بھاڑہ ملے اس کیلئے بولتے ہیں۔
نبی کریم ۖ نے اپنے اہل بیت کو کشتی نوح کی مانند قرار دیا ہے۔ جب اُمت کی ہلاکت کا درمیانہ زمانہ آئے گا تو اہل بیت نے نمودار ہوکر کشتی نوح کا کردار ادا کرنا ہے۔ پہلے سیدھے سادے لوگوں کا دور تھا اسلئے اہل بیت نے یہ کردار ادا کیا کہ اچھی طرح سے سمجھادیا کہ حلالہ نہیں کرنا۔ چونکہ حلالہ ایک ساتھ تین طلاق کی وجہ سے ہوتا تھا تو اپنے متبعین پر لازم کردیا کہ الگ الگ مراحل میں ہی طلاق دینا ہے تاکہ وہ حلالہ کی لعنت والوں کے ہاتھ نہ چڑھ جائیں۔
اب پڑھی لکھی عوام بہت ہے اور شیعہ سنی دونوں نے قرآن کو چھوڑ رکھا ہے اور اگر کوئی اہل بیت اٹھے اور قرآن کی طرف دعوت دے تو بہت جلد سارے فقہی اور مسلکی اختلافات کا قلع قمع ہوسکتا ہے۔ اُمت مسلمہ کو حلالہ سے بچانے کیلئے قرآن میں بہت ساری آیات نازل کی گئی ہیںمگر سنی علماء نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رکھی ہیں۔ ایک انسان کو مارنا تمام انسانیت کو قتل کرنے کے برابر ہے۔ ایک انسان کی جان بچانا تمام انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے۔ مفتی فضل ہمدرد صاحب اچھے خاصے سمجھدار ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ۖ کا یہ شکوہ لکھا ہے کہ ”اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھاتھا”(سورة الفرقان)۔ رسول اللہ ۖ کا یہ گلہ قرآن میں نہیں ہے کہ میرے اہل بیت کو میری اُمت نے چھوڑا تھا۔ حضرت ابن عباس نے کہا کہ ”جب رسول اللہ ۖ نے سورہ نجم پڑھی تو شیطان نے آپ ۖ کی زبان سے لات منات اور عزیٰ کے بارے میں بھی کچھ کلمات کہلوائے”۔ اس حدیث کی بنیاد پر اہل سنت کی معتبر تفاسیر میں ہے : وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الا اذا تمنٰی القی الشیطٰن فی اُمنیتہ… ”اور ہم نے آپ سے پہلے کسی رسول کو نہیں بھیجا اور نہ کسی نبی کو مگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس کی تمنا میں اپنی بات ڈال دی”۔ (سورة الحج: آیت52)۔
سورہ نجم بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں شیطان مداخلت نہیں کرسکتا۔ ہوا یہ تھا کہ جب پہلی مرتبہ سورہ نجم میں آیت سجدہ نازل ہوئی اور اچانک نبی ۖ کو مشرکین نے سجدہ کرتے دیکھا تو انہوں نے بھی سجدہ کیا۔ اور پھر اپنی خفت مٹانے کیلئے جھوٹا پروپیگنڈہ کیا کہ نبی ۖ نے شیطانی آیات پڑھی تھیں۔ حضرت ابن عباس کے والد بہت بعد میں مسلمان ہوئے تھے۔ جب ان کو بدر میں قید کیا گیا تھا تو رئیس المنافقین عبد اللہ ابن اُبی کا لباس پہنایا گیا تھا ۔ جس طرح معاویہ کیلئے نبی ۖ نے دعا کی کہ اللہ اس کو ہادی اور مہدی بنا۔ اسی طرح حضرت ابن عباس کیلئے بھی تفسیر کی دعا کی تھی لیکن نبی ۖ کی ہر دعا قبول ہوتی تو ابوجہل بھی اسلام قبول کرلیتا۔ روایات کو قرآن پر ترجیح دینا غلط ہے۔

****************
نوٹ:اخبار نوشتہ دیوار خصوصی شمارہ اکتوبر2023کے صفحہ2پر اس کے ساتھ متصل مضامین”حماس اور اسرائیل کی جنگ پر ایک مختلف نظر”
”ہمارا قبلہ اوّل بیت المقدس نہیںخانہ کعبہ ہے”
اور ”حق مہر ”اعزازیہ” نہیں بلکہ گارنٹی و انشورنس ہے” ضرور دیکھیں۔
****************

اخبار نوشتہ دیوار کراچی
خصوصی شمارہ اکتوبر 2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حماس اور اسرائیل کی جنگ پر ایک مختلف نظر

حماس اور اسرائیل کی جنگ پر ایک مختلف نظر

ایک اسرائیلی یہودن کو جب ننگا کیا گیا تھا اور اس کے خاص حصے پر ٹانگیں رکھ کر حماس کا سپاہی بیٹھ گیا تھا

مولانا فضل الرحمن نے حماس کے حق میں پوری تقریر کی اتنا بول دیا کہ حماس انسانی حقوق کا خیال رکھے

مولانا فضل الرحمن کا ایک جملہ پکڑ کر جس طرح کا طوفان بدتمیزی برپا کردیا یہ موجودہ دور کے جھوٹ کی لعنت کا بہت بڑا شاخسانہ ہے۔ ہمارا سیاسی کلچر بالکل تباہ تھا اور اب صحافت اس سے زیادہ تباہ ہوگئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو چھوڑیں بھارت کی کانگریس پارٹی بھی حماس وفلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت کررہی ہے۔ فلسطین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ کئی دہائیوں سے چل رہاہے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل ، معمر قذافی اور عالم اسلام کے اندر جاندار قیادت موجود تھی اور اسرائیل بھی اتنا مضبوط نہیں تھا تب بھی مسلمانوں نے فلسطین کا مسئلہ حل کرنے کیلئے اتنی سنجیدگی سے بھی کام نہیں لیا جتنا افغان مجاہدین نے روس اور پھر افغان طالبان نے نیٹو جیسی طاقت کو نکالنے کیلئے ہمت وعزم سے کام لیا۔ ساری مذہبی و سیاسی جماعتیں اورصحافت کو بیچنے والے صحافی یہ عہد کرلیں کہ کچھ بھی ہوجائے وہ جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے اپنے آپ پراللہ کی لعنت کی پھٹکار نہیں برسائیں گے اور نہ عوام کو ورغلائیں گے۔
مولانا فضل الرحمن کا ایک مذہبی لبادہ ہے اور وہ اپنے کاز کے ساتھ چل سکتا ہے۔ جب کشمیر کمیٹی کا چیئرمین تھا تو اپنی نوکری کیلئے پاکستان کے کاز کو تقویت دیتا تھا۔ پہلے جب اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات ہورہی تھی تو میاں افتخار حسین کے ساتھ پریس کانفرنس میں عرب امارات کے حکمرانوں کو کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور ہم کسی صورت میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ لیکن عمران ریاض خان نے پھر بھی مولانا فضل الرحمن کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کیا۔ عمران خان کو پتہ تھا کہ کون اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتا ہے لیکن عمران ریاض خان کو بتانے سے انکار کردیا تھا۔ عمران ریاض نے جس کو بچانے کیلئے مولانا کو قربانی کا دنبہ بنایا تھا پھر انہی کے ہاتھوں تکلیف اٹھائی۔
تحریک انصاف ایک مقبول سیاسی جماعت بن گئی ہے لیکن بیہودہ لوگوں کی وجہ سے عمران خان کی شخصیت کو بھی غلط ٹریک پر چڑھادیں گے۔ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن سے غلطیاں ہوسکتی ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف انتہائی نازیبا قسم کے الزامات اور گفتگو ہوسکتی ہے لیکن کارکنوں کو چاہیے کہ ایسا ماحول بنائیں کہ حالات نارمل ہوں ۔ عوام تک درست بات پہنچے۔ پارٹی کے کارکن کم ہوتے ہیں ۔ سیاسی جماعتوں کو عوامی رحجانات کے رُخ سے جیتنا ہوتا ہے۔
میڈیا میں تشہیر ہورہی تھی کہ اسرائیل پر حماس نے 5ہزار اور7ہزار میزائل داغ دئیے ہیں۔ اگرچہ ایک میزائل سے8سے10افراد بھی مرسکتے ہیں لیکن اگر ایک میزائل سے ایک اسرائیلی کی موت واقع ہوئی ہو تو کم ازکم 5ہزار افراد تو مرجاتے؟۔ ایسا نہ ہو کہ میڈیا نے معمولی بات کو ہوا بناکر کھڑا کیا ہو تاکہ اسرائیل کو کھل کر اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل سکے؟۔ ایک طرف اسرائیل کو بزدل اور پٹتا ہوا پیش کیا جائے اور دوسری طرف فلسطینیوں کا جینا حرام کیا ہوا ہو؟۔
فلسطین عرب مسلمانوں کی اپنی سرزمین ہے اور اس کے ایک ایک اینچ کا قبضہ بھی واپس اپنے اصل مالکوں کو ملنا چاہیے۔ اگر اسرائیل نے سب کچھ واپس کیا تو اس میں اسرائیل اور یہود کا بھی بہت فائدہ ہے اسلئے کہ مسلمانوں کیساتھ دوسرے مسلم ممالک کی طرح اچھے تعلقات بن جائیں گے۔ ان کے اصل دشمن مسلمان نہیں عیسائی ہیں۔ جب وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم کے ساتھ مظالم میں بھی عیسائیوں کے نزدیک ملوث ہیں اور عیسائیوں کو جب بھی موقع ملا ہے تو انہوں نے یہود کی خوب درگت بنائی ہے۔
مسلمان ایک ایسی عالمی خلافت کا خواب دیکھ رہے ہیں جس سے آسمان و زمیں والے دونوں کے دونوں خوش ہوں گے۔ رسول اللہ ۖ نے میثاق مدینہ یہود کے ساتھ کیا تھا اور فلسطین نے یہودیوں کو اس وقت پناہ دی تھی جب کوئی بھی ان کو پناہ نہیں دیتا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ نے عرب اور یہود کو آپس میں ہی دست وگریبان رکھنے کیلئے ایسی پالیسی اپنا رکھی ہے تاکہ مسلمانوں اور یہودیوں میں نفرت کبھی ختم نہ ہو۔ اسلام مسلمانوں کو نفرت نہیں سکھاتا ہے۔ عمران خان نے جمائما خان سے شادی کی ۔ سارا سسرال یہودی ہیں۔ قائداعظم کی اہلیہ رتن بائی فارسی تھی اور قائدملت لیاقت علی خان کا سسرال ہندو تھا۔ بیوی سے زیادہ اور کس سے اعتماد کا رشتہ ہوسکتا ہے؟۔ پشتون قوم کو اسرائیل کا گم شدہ قبیلہ کہا جاتا ہے۔ سوات بھی کبھی یہود کا مرکز تھا۔ یہود مذہب سے زیادہ نسل کو فوقیت دیتے ہیں۔ پختون قوم عالم اسلام اور عالم انسانیت کی قیادت کرے گی تو یہود بڑے خوش ہوں گے۔ یہودی بننے کی تو گنجائش نہیں ہے لیکن پختون قوم پوری دنیا کو اسلام کی دعوت دے سکتے ہیں۔ جیسے مسلمانوں کو مرزاغلام احمد قیادیانی سے بڑی نفرت ہے ،اس طرح یہود کو عیسائیوں سے سخت نفرت ہے۔ مسلمانوں اور یہود کا تو آپس میں کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ جب یہود بننے کی گنجائش نہیں تو پھریہودی صرف ایک خواب ہی دیکھ سکتے ہیں جیسے ہمارے ہاں اہل تشیع کا مہدی غائب ، اہل سنت کا امام مہدی ، ہندوؤں کا کالکی اوتار ، بدھ مت ، عیسائی اور دیگر مذاہب نے اپنی اپنی شخصیات کے حوالہ سے تخیلات اور عقائد پرانے دور سے رکھے ہیں اور قرآن کہتا ہے عما یتساء لونOعن النباء العظیمOالذی ھم فیہ مختلفونOکلا سیعلمونOثم کلا سیعلمونO”کس چیز کے بارے میں یہ لوگ سوال کرتے ہیں؟۔ ایک بڑے انقلاب کی خبر کے بارے میں، جس میں وہ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں۔ ہرگز نہیں عنقریب وہ جان لیں گے۔ پھر ہرگز نہیں عنقریب وہ جان لیں گے”۔ (سورہ النبائ)
ایک دفعہ پہلی بار دنیا نے دیکھا کہ مسلمانوں نے دنیا کی سپر طاقتوں کو بڑی شکست دے کر خلافت کا ایسا نظام قائم کیا جو سن1924تک موجود رہا۔ اور اب انشاء اللہ پھر دوسری مرتبہ اللہ کی مدد سے دنیا جان لے گی کہ یہ بڑا انقلاب اسلام اور مسلمانوں کے ذریعے سے آئیگا۔ جس سے یہودو ہنود سمیت پوری دنیا خوش ہوگی۔ برہمن مشرکین مکہ سے زیادہ خوشی سے اسلام قبول کرلیں گے۔ انشاء اللہ

****************
نوٹ:اخبار نوشتہ دیوار خصوصی شمارہ اکتوبر2023کے صفحہ2پر اس کے ساتھ متصل مضامین”سنی حدیث ثقلین کا ذکر نہیں کرتے : مفتی فضل ہمدرد”
”ہمارا قبلہ اوّل بیت المقدس نہیںخانہ کعبہ ہے”
اور ”حق مہر ”اعزازیہ” نہیں بلکہ گارنٹی و انشورنس ہے” ضرور دیکھیں۔
****************

اخبار نوشتہ دیوار کراچی
خصوصی شمارہ اکتوبر 2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv