اللہ ورسول ۖ کی اطاعت کمزور ترجماعت کوفاتح عالم بناسکتی ہے
متعصب ہندو محبت کے قابل اسلئے ہے کہ مسلمان نے 8 سو سال ان پر حکمرانی کی۔ عوام اور ملک کو تقسیم کیا،گاؤ ماتا کو کھایا، انکے خداؤں کا پنج وقتہ آذان میں علی الاعلان انکار کیا۔ مذہبی تعصبات پھیل گئے تو خمیازہ مسلمان بھگتے گا۔ مگر پاکستان کا پہلا وزیر قانون جوگیندرا ناتھ منڈل ہندو تھا جس کو بھارت نے بھی وزیرقانون کی پیشکش کی تھی مگر پاکستان کو ترجیح دی اور ہندوؤں نے مرضی سے اسلام قبول کیا ، مسلم حکمرانوں نے زبردستی سے ان کا مذہب تبدیل نہیں کیا ۔ اگر انہوں نے تعصبات کو ہوادی تو ہم سے زیادہ ان کو مشکلات ہوںگی۔ چند ہزار مجاہدین کو نیٹو نے نہیں سنبھالا تو کیا کروڑوں مسلمانوں کو بھارت قابو کرسکے گا؟۔ اسلئے سب کو مثبت سوچ کی طرف آنا پڑے گا۔ صلح حدیبیہ میں مسلمانوں کو مشرک بننے کی اجازت تھی اور مشرکوں کے اسلام قبول کرنے پر دوبارہ حوالہ کرنے کا معاہدہ تھا۔ جب ہم جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھتے تھے تو ایک مشہور شخص نے اپنا قصہ سنایا تھا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد انگریز،ہندو اور سکھ جج نے ہندو والدین کے حوالے نہیں کیا مگر مسلمان جج نے پیسے کھاکر اپنے والدین کے حوالے کیا۔
متعصب ظالم یہودی سے نفرت نہیں اسلئے کہ بدترین مظالم والے ماحول سے مجبور ہونگے۔ وہ بیت المقدس کو اپنا قبلہ سمجھتے ہیں ۔ مدینہ و جزیرة العرب سے ان کو نکالا اور اگر بس چلاتو پرامن یہود کو قتل اور عورتیں لونڈیاں بنا ڈالیں لیکن پتھر کے پیچھے اگر پرامن یہودی کو حضرت عیسیٰ نے قتل کرنا ہو تو یہ ان کو گالیاں دینے کانتیجہ ہوگا۔ صلح ہوگئی تو مسلمان شادی سے اسرائیل کو عورتوں سے خالی کردیں گے اسلئے کہ اللہ نے تثلیث کا عقیدہ رکھنے والے عیسائی اور گستاخ یہودی عورتوں سے نکاح کو جائز قرار دیا۔جب ہم سے مساجد کے نمازی بھی محفوظ نہیں اور میاں بیوی میں صلح سے پہلے حلالہ کی لعنت سے عزتوں کو تارتار کرتے ہیں تو دنیا ہماری دشمن نہ ہو گی؟ اور اللہ ہمارا ساتھ کبھی نہیں دے گا۔
رسول اللہۖ نے فرمایا : پہلا اس امر کا نبوت و رحمت ہے پھر خلافت و رحمت پھر بادشاہت و رحمت پھر امارت و رحمت ہے پھریہ لو گ ایکدوسرے کو کاٹیں گے گدھوں کا کاٹنا۔پس تم پر جہاد فرض ہے اور بہترین جہاد الرباط ہے اور تمہارا بہترین رباط عسقلان ہے۔اس حدیث سے اس بات کا بخوبی پتہ چلتا ہے کہ غزہ پر جو مظالم ہورہے ہیں اس پر بڑے گدھوں کا کردار ادا کررہے ہیں۔ اگر عسقلان اور غزہ کا دو بھائیوں کی طرح رابطہ کرایا تو انقلاب آئے گا۔
رسول اللہۖ اور علی کاحیران کن واقعہ ہے۔ شاہ مصر و اسکندریہ عیسائی بادشاہ مقوقس کو اسلام کی دعوت کا خط ملااور دعوت قبول نہیں کی مگر دوقبطی بہنوں حضرت ماریہ و سیرین لونڈیوں کا تحفہ ساتھ میں فسٹ کزن کو بھیجاجو عظیم عیسائی قبطی خاندان تھا۔ احرام مصر قبطی کی عظمت کا پتہ دیتی ہیں۔ موسٰی کے وقت کا فرعون نسلی و خاندانی نہیں تھا بلکہ وہ خراسانی یا سوڈانی تھا۔ تلاش رزق کیلئے گیا ۔پھر سازش سے اقتدارتک پہنچ گیا۔ اس نے دیکھا کہ باہر ایک درہم کے 10 خربوزے اور شہر میں ایک خربوزہ 10درہم کا ہے تو یہ منافع بخش کاروبار غنیمت جانا۔10 خربوزے لئے مگر بازار تک پہنچتے پہنچتے اتنے غنڈہ ٹیکس دینے پڑگئے کہ ایک خربوزہ 15درہم کا پڑگیا ۔یہ سمجھ گیا کہ غنڈہ ٹیکس والا بدمعاشیہ ہی کاروبار کرسکتا ہے جو زیادہ ٹیکس نہ دے۔
آئیڈیا بنایا اور قبرستان میں مردوںکی لاشوں کو دفنانے کیلئے غنڈہ ٹیکس مقرر کیا۔ پہلے کوئی دیتا اور کوئی نہیں دیتا تھا مگرپھر معاشی استحکام ملا اور زبردستی غنڈہ ٹیکس لینے لگا۔ بادشاہ کا بندہ مرگیا تو اس سے بھی زبردستی ٹیکس وصول کیا ۔ شکایت پر بادشاہ نے طلب کیا تو اپنا کمایا ہوا پیسہ پیش کردیا اور کہا کہ اشرافیہ کا ٹیکس ناکافی ہے۔ بادشاہ بہت خوش ہوا۔ اس کو مقربین میں شامل کیا پھر عوامی مقبولیت حاصل کی اور بادشاہ کے پیر کاٹتا رہا۔ آخر کار قبطی قوم پراقتدار حاصل کیا اور پیش گوئی کے سبب بد بخت نے ہزاروں بنی اسرائیلی بچے قتل کردئیے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ ” اللہ کی طرف سے تم پر یہ سب سے بڑی آزمائش تھی کہ آل فرعون تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے تھے اور عورتوں کی عزتیں لوٹتے تھے”۔
آزاد عورت اور لونڈی میں فرق حقوق کا تھا اور لونڈی کے حقوق کا تصور نہیں ہوتا۔ اسلام نے لونڈی کو حقوق دیکر انقلاب برپا کیا مگر پھر اندھیر چھا گیا۔ عیسائی مذہب میں فسٹ کزن سے نکاح جائز نہیں۔ رسول ۖ نے محرم سے بدکاری پر قتل کا حکم دیا ۔ نبیۖ کو غلط خبرملی کہ ماریہ قبطیہ کیساتھ اسکے کزن نے جنسی تعلق رکھا تو علی کو قتل کا حکم دیا۔ علی نے تحقیق کا تقاضہ پورا کیا تو اس کا آلۂ تناسل کٹا ہوا تھا۔ پہلے یہ دستور تھا کہ جانورکی طرح انسان کو بھی خصی کیا جاتا تھا اورصحابہ کرام نے بھی نبیۖ سے عرض کیا کہ کیاہم خود کو خصی بنالیں؟(صحیح بخاری)۔نبی ۖ نے علی کوسب سے زیادہ اچھا قاضی قرار دیا اور فرمایا کہ ”غائب شخص کا معاملہ حاضر جیسا نہیں ہو سکتا”۔ مولوی سمجھتا ہے کہ افغانستان کو ننگی پتنگی لونڈیوں سے بھرنا شریعت ہے؟۔
لارڈمیکالے نے ہندوستان کے گورنر جنرل کی کونسل کے پہلے رکن برائے قانون برطانیہ کے پارلیمنٹ سے 2 فروری 1835ء میں خطاب کیا:ایک اقتباس:”میں نے ہندوستان کے طول وعرض میں سفر کیا، مجھے کوئی بھی شخص بھکاری یا چور نظر نہیں آیا۔ اس ملک میں میں نے بہت دولت دیکھی ۔ لوگوں کی اخلاقی اقدار بلند ہیں۔سمجھ بوجھ اتنی اچھی کہ میرے خیال میں ہم اس وقت تک یہ ملک فتح نہیں کرسکتے جب تک ہم ان کی دینی و ثقافتی اقدار توڑ نہ دیں جو ان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسلئے میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ ہم ان کا قدیم نظام تعلیم و تہذیب تبدیل کریں کیونکہ اگر ہندوستانی لوگ یہ سمجھیں کہ ہر انگریزی اور غیرملکی چیز انکی اپنی چیزوںسے بہتر ہے تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھو دیںگے اور حقیقتاً ویسے ہی مغلوب بن جائیں گے جیسا ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں”۔
19ویں صدی (1800ء سے 1900ء ) تاریخی مثال راجستھان اور آس پاس کی ریاستوں میں راجپوت قوم کے پولیس سپاہیوں کو اگر وہ مونچھ رکھتے تھے تو انہیں اضافی الاؤنس دیا جاتا تھا۔ ٹانک اوروزیرستان میں ایک مثال پولیس اہلکار میرا پر نانا صنوبر شاہ تھاجو مونچھ کی وجہ سے بریت لالا (یعنی مونچھ ) مشہور ہوا تھا۔
قحط کے باعث مروت قوم کانیگرم وزیرستان چھوڑ کر گئے تھے۔ کانیگرم میں پانی سوکھ گیا تو مروت کاوہاں رہنا محال ہوگیا۔ہم سے متصل مروت قوم کا بڑاقبرستان تھا۔ چٹانوں سے زیادہ مضبوط وزیرستان کی تہذیب و تمدن کو انگریز کے کرایہ کے ملکان نے توڑ دیا اسلئے کہ غربت تھی۔
مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
بشر کو بشر کی اوقات بھلا دیتی ہے
آؤ ! اس ماں کی بھی کچھ زبانی سنیں
بچوں کو جو روز بھوکا سلا دیتی ہے
اپنی عزت کے بھروسے جو تھی مجبور کھڑی
آخر اک روز وہ اپنا سر جھکا دیتی ہے
اس کے دامن پہ لگے داغ یہی کہتے ہیں
بھوک تہذیب کے آداب مٹا دیتی ہے
قحط سالی میں وزیرستان کے اندر انگریز تنخواہ داروں کو کرائے کے قاتل ملنے لگنے تھے ۔ 1900ء میں چھپنے والی کتاب میں جس طرح کی منظر کشی کی گئی ہے کہ سبحان شاہ کے بیٹے سیداکبر اور صنوبر پولیس والوں نے چند بندوقوں سے انقلابی وزیروں کو ناکام بنادیا۔ 2خاص شخصیات سمیت 7 افراد کو شہید کردیا اور پھر سیداکبر و ملا علیزئی کی قیادت میں لوگوں سے جوتے اترواکر قرآن پر تقریب حلف برداری کی عجیب وغریب منظر کشی کی ہے۔
کرم ایجنسی کے دوست محمد حنیف پارہ چنار جس نے 72 دن بھوک ہڑتال ڈیرہ اسماعیل خان جیل میںکی تھی جس کا بیٹا کرنل یوسف ہے۔ جیل سپرڈنٹ نے جوتے اتارنے کا کہا تھا تو اس نے کہا کہ ”کیا یہ مسجد ہے نہیں اتاروں گا”۔ انگریز کے جانے کے بعد بھی اسکے اثرات باقی ہیں ۔ جب مولانا نورمحمد وزیرMNAنے 1970ء میں شریعت کے نفاذ کی کوشش کی تھی تو وانا کے بازار اور وزیروں کے گھروں کو بلڈوزروں سے ہموار کیا گیا جس پر لوکل شاعری کی گئی۔
دا سپین سپین کوٹینہ دا دے شیشے وول دیکونینہ
گرارہے ہیں سفید سفید کوٹ(قلعہ نما گھر) اور شیشے والی دکانیں۔ شیشوں کی بنی دکان ترقی کی علامات تھیں۔
دہشتگردی کی آگ خوش آئندہے ۔ قبائلی اقدار انگریز نے تباہ کرکے نیا معاشرہ تشکیل دیا، نسل در نسل آبیاری کے بعد آگ کے الاؤ سے نئے لوگ نکل رہے ہیں جو خاندانی شرافت سے خاندانی بے غیرت تک کے سفر میں صرف اور صرف کردار کی تشکیل میں مصروف ہیں۔ پہلے بڑا آدمی وہ تھا جو خاندانی شرافت رکھتا ہو۔ پھر انگریز نے معیار کو بدلا تو بڑا آدمی وہ بن گیا جو طاقت سے چمٹ کر ذلت و ظلم سے اپنا منہ کالا کرسکے۔ سردار امان الدین شہید نے سرکاری ملکوں کے گھرمسمار کئے تو رونامہ مشرق میں ”مریم گیلانی” نے اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ قراردیا۔ کانیگرم میں کمزور طبقے کے گھروں کو سرکاری لشکر نے مسمار کیا تو انہوں نے چوروں کے خلاف کمال جوہر دکھایا پھر فضا چلی تو طالبان بن گئے لیکن طالبان کو بھی مس گائیڈ کرکے بدنام کرکے رکھ دیا۔ چھلنی سے چھن کر اچھے لوگ آئیں گے۔ 1990ء میں اپنے کراچی، پنجاب، سوات، بونیر، سندھ اور بلوچستان کے ساتھیوں کیساتھ کانیگرم جنوبی وزیرستان گیا تو راستے میں ہماری گاڑی کے پچھلے دو ٹائیر کے درمیان پتھر پھنس گیا اورمحسود قوم کے جوانوں نے آواز دی اور بتایا تو ہم نے پتھر نکالا۔ انہوں نے کہا کہ تم لوگ بڑے خوش قسمت ہو کہ ہم نے بتایا،ورنہ تو ہم کسی سے بھی نہیں کہتے اور چاہتے ہیں کہ گاڑی خراب ہو اور ہم تماشہ دیکھ لیں۔ پھر انہوں نے آپس میں کہا کہ یہ مسافر ہیں۔ایسا نہ ہو کہ بیچاروں کو ڈاکو لوٹ لیں تو میں نے وزیرستان کی محسود پشتو میں کہا کہ ”ان کی بیویاں نہیں اٹھاکے لے جاؤں،جو یہ جرأت کرے؟”۔ جس پر وہ بہت خوش ہوگئے اور کہا کہ ہم سمجھ رہے تھے کہ شاید سب مسافر ہیں۔ اب ہم بے فکر ہیں۔ میں نے ساتھیوں کو بتایا کہ میں نے تگڑی گالی اسلئے دی کہ ”یہ لوگ ہمدردی میں اظہار کریں گے اور ایک آسان ہدف سمجھ کر جو چور نہیں ہوں گے وہ بھی چور بن جائیںگے ؟”۔
پھر جب 1991ء میں نے کچھ ساتھیوں کیساتھ وہاں رہائش اختیار کرلی تو سبھی علماء پہلے بہت خوش ہوگئے لیکن جب میں نے کہا کہ شریعت کا نفاذ گھر سے شروع کرنا ہوگا تو ان کو چورکا ہاتھ کاٹنا، کوڑے لگانا اور سنگسار کرنا آسان لگا مگر بہن بیٹی کا حق مہر اسی کو دینا بھی مشکل لگا اور وراثت میں حصہ دینا تو بہت بڑی بات تھی۔
کانیگرم میں دو پڑوسیوں کی لڑائی ہوئی اور ایک کے دانت پر پتھر لگا تو لوگوں نے ایک دوسرے کو مذاق میں کہنا شروع کیا کہ ”دانت توڑ وں گا”۔ آخر میں دوسرے فریق نے ایک کو پکڑ کر ہتھوڑی سے حساب برابر کیا تو پھر مذاق تبدیل ہوا اور ہتھوڑے سے دانت توڑنے پر بات ہوئی اوریہ جھگڑا آخر میں اس حد کو پہنچا کہ مورچوں اور گھروں سے گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ مساجد کے لاؤڈ اسپیکروں سے آوازیں دینے لگے کہ کوئی اور تمہاری گولیوں کا نشانہ بن جائے گا۔ مگر انہوں نے ایک نہیں سنی۔اور قصور تو اصل لوگوں کا ہی تھا کہ طعنے دیکر لڑائیوں پر مجبور کرتے رہے۔
بڑی تعداد میں علماء اور شہر کے بزرگ شہری پہاڑ کی اوٹ میں آواز دے رہے تھے کہ رُک جاؤ ، بس ہم آرہے ہیں۔ میں نے مشیران کے بڑے ہجوم کو دیکھا تو بھاگتا ہوا پہنچ گیا۔ آگے بڑھا تو سب نے رکنے کا کہا کہ گولی لگ جائے گی لیکن میں سیدھا ایک مورچے میں پہنچاجہاں پر گولیاں لگنے سے مٹی کا غبار بھی اُٹھ رہاتھا اور گولیاں بھی چل رہی تھیں۔ میں نے مورچے میں موجود افراد پر لاتوں اور مکوں کی بوچھاڑ کردی اور بندوقیں چھین لیں تو فائرنگ بند ہوگئی اور سب نکل کر آگئے۔
شہر میں سبزی بھنڈی 28 روپے کلو تھی۔ وہ بھی بالکل بے کار تھی۔ وانا میں 4روپے اور تھوک میں روپیہ سے بھی کم پڑتی تھی، ہم نے جب سستی اور تازہ سبزی اور فروٹ لانا شروع کئے تو تبلیغی دکانداروں کو برا لگ گیا۔ حالانکہ اس میں تاجر بھی کماسکتے تھے اور لوگوں کو بھی تازہ و سستی چیزیں مل جاتی تھیں۔ ہم نے صرف خیرخواہی کی بنیاد پر داغ بیل ڈالنی تھی اوریہی ہم نے علاقہ گومل میں سکول کھول کر کیا۔جس کی وجہ سے بچے پڑھنے لگے اور پڑھانے والوں اور سکول بنانیوالوں کو روزگا ر مل گیا۔
اگر پاکستان کی قوم تعلیم سے لیکر تجارت کی مختلف اشیاء تک معقول منافع کمانے کی بنیاد پر کام شروع کریں تو چوری، ڈکیتی اور جہالت کے خاتمے میں بھی اہم کردار ادا ہوگا اور قوم بھی واقعی اچھی قوم بنے گی۔
بلوچستان اورخیبر پختونخواہ کے حالات بہت ابتر ہیں لیکن پنجاب میں اور سندھ میں جو حالات ہیں وہ اندوہناک واقعات کی وجہ سے ابتر ہیں۔سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر جو معاملات رپور ٹ نہیں ہورہے ہیں اور جو رپورٹ ہورہے ہیں وہ بہت خطرناک ہیں۔ حافظ آباد پنجاب میں ڈیڑھ ماہ قبل ایک خاتون کو برہنہ کرکے چار ڈاکو نے جبری جنسی زیادتی کی اور پھر شوہر کو بھی برہنہ تعلق پر مجبور کرکے ویڈیو بنائی اور دھمکی دی کہ کسی کو بتایا تو قتل کردیںگے۔ ڈھائی ہزار روپے اور موبائل بھی چھین لئے اور پٹائی لگاکر چھوڑ دیا۔ پھر میاں بیوی کی برہنہ وڈیو بھی سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ جس کی وجہ سے انہوں نے پولیس کو رپورٹ کی اور پولیس نے کچھ مقابلے میں ماردئیے اور کچھ باقی ہیں۔
ایک بڑے پیمانے پر معاشرے میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ اب قبائل کے عوام بہت بدل گئے ہیں۔میں نے اپنے بھانجے اشرف علی سے طوطا چند دن کیلئے لیا۔اس نے کہا کہ اپنے پاس رکھ لو۔میں نے کہا کہ رکھنا تو کسی صورت نہیں۔ پھر چھوٹے بیٹے محمد نے کہا کہ طوطا خرید لو۔ میں نے کہا کہ وہ بیچتا نہیں ہے تو اس نے بھانجے کیساتھ لڑائی کا بہانہ بنایا اورلڑنے کے بعد کہا کہ اب تو لڑائی ہوگئی ہے طوطا دینا نہیںہے۔ جب ماموں سعدالدین لالا کو پتہ چلا تو بہت خوش ہوئے کہ محسودکی رگ موجود ہے۔ ہماری نانی محسود تھی۔ پھر جب اس نے امریکہ کے افغانستان اور عراق پر مظالم کا ماحول دیکھا تو پوچھتا کہ امریکی مارے گئے یا مسلمان ؟ جب امریکوں کا کہا جاتا تو خوشی سے اچھلتا تھا اور جب مسلمانوں کا بتایا جاتا تو بہت غصہ آتا۔ میرے کزن ڈاکٹر آفتاب نے اقبال شاہ کی شادی کے موقع پر کسی بچے کا کہا کہ بڑا اچھا ناچتا ہے۔ اس نے میرے بیٹے کو پوچھا کہ ناچ سکتے ہو؟۔ تو اس نے غصہ سے کہا کہ نہیں۔ پھر پو چھا کہ تم کیا بنوگے؟۔اس نے کہا کہ پائلٹ۔ پوچھا پائلٹ بن کر کیا کروگے؟ تو اس نے کہ امریکہ پر خود کش کروں گا۔ 2004ء میں جیوچینل پروگرام ”الف” میں مجھے شرکت کی دعوت ملی۔میزبان انیق احمد تھے جو عبوری حکومت میں مذہبی وزیر رہے ہیں۔ میں فیملی کیساتھ کراچی کیلئے جہاز پر جارہاتھا تو محسوس ہوا کہ محمد کو اونچائی سے ڈر لگ رہاہے تو میں نے اس کا خوف ختم کرنے کیلئے چھیڑدیا۔ اس نے مارنا شروع کیا۔ بعد میں اس کی ماں کو میں نے کہا کہ مجھے خوفزدہ لگ رہاتھا اسلئے میں نے چھیڑاتو اس نے بتایا کہ وہ کہہ رہاتھا کہ امریکہ کم بخت میزائل نہیں مارے۔
پھر اردو پڑھنے کے قابل ہوا تو میں خود ”موت کا منظر” کتاب سے بہت متاثر ہوا تھا تو اس کو بھی اس قسم کی کتابیں پڑھنے کیلئے ترغیب دی۔ اس نے ایک قصہ پڑھا جو مفتی عبدالرؤف سکھروی داماد مفتی اعظم مفتی محمد شفیع جامعہ دارالعلوم کراچی گورنگی Kایریا شرافی گوٹھ نے اپنے واعظ میں بھی سنایا ہے اور کتاب میں چھاپ بھی دیا ہے۔ لکھا ہے کہ ایک لڑکی ٹی وی دیکھنے کی شوقین تھی تو جب مرگئی تو ٹی وی کیساتھ ریموٹ کنٹرول کی طرح چپک گئی۔غسل سے لیکر جنازے تک ٹی وی ساتھ لیکر گئے اور آخر میں جب دفن کیا تو پھر ٹی وی کے پیچھے نکل آئی۔ دو تین دفعہ کے بعد آخر ٹی وی بھی ساتھ دفن کردیا۔ تو محمد نے کہا کہ ابو یہ سچ ہے؟۔ جھوٹ بولتا کہ سچ ہے تو مذہبی کتابوں سے اعتماد اٹھتا اور سچ بولتا تو مجھے جھوٹ ہی لگ رہاتھا اسلئے جھوٹ کی تائید غلط تھی۔ میں نے پوچھا :آپ کو کیا لگتا ہے؟۔ تو اس نے کہ مجھے تو جھوٹ لگ رہاہے۔ میں نے کہا کہ صحیح بول رہے ہو۔ جھوٹ ہے۔ متعدد بار قبر سے نکلنے کے بجائے ایک دفعہ بھی کافی تھا کہ وہ قبر سے نکلتی تو اپنی جان اور اس کی عزت کا خیال رکھتے۔
پھر جب محمد نے اسٹیل کیڈٹ کالج کراچی میں پڑھنا شروع کیا تو مجھے بعد میں پتہ چلا کہ سینئر جو جونیئر پر نہ صرف حکم چلاتے تھے بلکہ مختلف طرح کے مظالم بھی ڈھائے تھے اسلئے کہ ڈسپلن کے نام پر انتقام ماحول بن چکا ہوتا ہے اور ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں مگرمحمد نے مزاحمت کرنی شروع کی اور پھر دوستوں کے ساتھ مل کر آخر کالج کو اپنا قانون بدلنا پڑا۔
جب محمد دریا خان میں میرے بھائی کے گھر گیا تو دور کے پڑوسی کو پتہ چلا کہ میرا بیٹا ہے اور میرے بارے میں معلوم تھا کہ مذہبی آدمی ہے تو اس نے دم کیلئے بہت کوشش کی لیکن محمد نے دم کرنے سے انکار کردیا۔ بھائی نے کہا کہ دم کردیتے تو اس میں کیا تھا؟۔ محمد نے کہا کہ ”پھر لوگ یہاں مجھے دموبابا کہنے لگتے۔ ہم چھوٹے تھے اور والد صاحب نے کسی کو دم کیا تھا اور وہ صحیح ہوگیا تھا۔ جس کے بعد گاڑی بھر کر لوگ بچوں اور عورتوں کیساتھ آئے تھے۔جب بتایا کہ دم کیلئے آئے ہیں تو غصہ کیا کہ ان عورتوں کی رگیں پھڑک رہی ہیں،جس پر سب شرمندہ ہوگئے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک سے مروت لڑکی نے سوال کیا کہ مذہبی لوگ نماز، روزہ، حج اور مدارس کی تعلیم کیساتھ بچوں اور بچیوں کیساتھ جنسی زیادتیاں کرتے ہیں تو اس کا بعض افراد کی طرف سے سخت رد عمل آیا۔ سبوخ سید نے کلاچی ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک تبلیغی جماعت کی پڑھی لکھی شخصیت کو پوچھا تو اس نے بتایا کہ ”یہ بیماری ہے۔ جس کا نفسیاتی علاج ضروری ہے۔ چرچل برطانوی وزیراعظم بنوں سے ایک بچے کو اپنے ساتھ اس کام کیلئے لے گیا تھا”۔ کوٹ حکیم میں ہمارا سکول تھا اور وہاں مسجد کے امام کا مروت سے لایا ہوا بچہ پڑھتا تھا۔ جٹہ قلعہ کے پیر فاروق شاہ نے بھی بچہ بازی کے عروج میں ایک لڑکا رکھا تھا۔ جب علاقہ کے مشیران نے اتفاق کیا کہ نوابزادہ قیذار خان کو الیکشن میں جتوائیںگے تو انہوں نے سب سے پہلے آغاز میرے والد سے کیا ۔ میرے والد سے نواب صاحب کا احترام کا رشتہ تھا وہ خالی جیپ میں کسی اور نہیں میرے والد کو بٹھادیتے تھے لیکن جب ووٹ کی بات آئی تو میرے والد نے کہا کہ یہ بتاؤ کہ نواب نے بچے گھمانے اور کتے لڑانے کے سوا کیا کام کیا ہے؟۔ جس پر سب ایک دوسرے کو منہ دکھاتے ہوئے شرمانے لگے۔
ہم نے 1990ء میں صرف بالمعروف اور نہی عن المنکر کیلئے ایک بس پر بڑے لاؤڈ اسپیکر پر ملک بھر کے شہروں میںاعلانات شروع کئے تو ناصر بیگ کے ویڈیو سے ابھی پتہ چلا کہ لاہور کی ہیرا منڈی کا زوال اس وقت شروع ہوا کہ جب 1990ء میں پولیس نے مجروں پر لاٹی چارج شروع کیا۔ روالپنڈی کا بازار حسن اور کراچی کے بازار حسن بھی اسکے بعد ویران ہوگئے۔ جنرل ضیاء الحق کے اقدامات نے بھی 1980کے بعد سے اثر ڈالا تھا لیکن اصل چیز عوام کی طرف سے ماحول ہوتا ہے۔ جب سیدعبدالقادر جیلانی، سیدعطاء اللہ شاہ بخاری، مفتی محمود اور علماء اور بزرگان دین کی تصاویر کو مذہبی طبقہ استعمال کرتا تھا تو عوام پر ان کا کوئی عمل اثر انداز نہیں ہوسکتا تھا ۔جب ہم نے آواز اٹھائی تو اسکے بعد جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو داڑھی، تصویر اور خواتین کے پردے کو حکومتی سطح پر نافذ کردیا گیا۔ پھر جب میں نے جاندار کی تصویر کے جواز پرکتاب ”جوھری دھماکہ ” لکھی تو علماء ومشائخ اور مذہبی جماعتیں تبلیغی جماعت و دعوت اسلامی والے بھی ویڈ بنانا شروع ہوگئے ۔
ہم نے بہت کم مدت میں حالات بدلتے دیکھے ہیں۔ آج اگر امیر المؤمنین افغانستان ملا عمر زندہ ہوتے تو اس کی بھی ویڈیوزبن رہی ہوتیں اور ماحول کے ساتھ بہت بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ پشتونوں کو اپنا ماحول بدلنے کی سخت ضرورت ہے۔ رحمان بونیری اچھا انسان اور اچھا صحافی ہے۔ اس نے بتایا کہ جب اس کا والد سعودی عرب سے خط لکھتا تھا تو کسی سکول ٹیچر کو گھر میں لانا پڑتا تھا اور میری ماں پردے میں بیٹھ جاتی اورگھر والے خبرنامے کی طرح خط سننے۔ جب میں نے ایک بار دیکھا تو خط پڑھنا شروع کیا اور سمجھ میں آیا تو ٹیچر کو بلانے کے بجائے گھر میں بتایا کہ میں خود پڑھ سکتا ہوں۔ خط سنایا تو سب خوش ہوگئے اور ماموں نے خوشی میںمٹھائی تقسیم کی لیکن گاؤں کے بچوں نے بہت مارا۔ اور کہا کہ ہمیں گھر میں ڈانٹ پڑی کہ تمہیں پڑھنا نہیں آتا۔ اگر تم نے پھر خط پڑھا تو ہڈیاں توڑ دیں گے۔ پھررحمان بونیری کے گھروالوںکو گھر سے نکال کر طالبان نے اس کا گھر بموں سے اڑایا۔ اس پر بھی وہ خوش تھا کہ گھر والے تو محفوظ تھے۔ پشتون قوم کو اپنے اجتماعی کلچر کو تبدیل کرنا ہوگا اور دہشت گردی کے بعد ایک تازہ جھونکا عوام میں آگیا ہے۔
حیات پریغال نے لکھا ہے کہ ” کچھ سال پہلے میرے والد اور چچا حضرات میں زمین کی تقسیم چل رہی تھی تو میں نے والد اور چچا دونوں کو بٹھایا۔میرے چچازاد، کزن اور دوسرے رشتہ دار بھی موجود ہیں ،فیس بک پر تصدیق بھی ان سے کرسکتے ہیں اور دونوں سے کہا کہ ہم باہر کے لوگوں کی جہالت پر ہنستے ہیں۔دوسرے زمین کے معاملات پر جرگے کرتے ہیں، ہمیں گھر کے معاملہ پر جرگہ نہیں چاہیے پرامن طریقے سے زمین کی تقسیم کریں۔والد صاحب سے کہا کہ چچا سے کہو کہ جو اچھی چیز چاہیے وہ لو اور دوسری ہم لیںگے۔والد اور بھائیوں نے میری بات مان لی۔جنگل میدان گھر کے قریب کھیت پہلے چچالوگوں نے پسند کئے جو ان سے رہ گئے وہ ہمارے ہوگئے۔میں نے اپنا حصہ آج میرے بھائی شاہد ہیں کہ درجنوں بار بہنوں کے نام کیا ہے اور بھائیوں کا حصہ ان کے پاس ہے۔میرے سگے چچا کا حصہ ان کی بیٹیوں کے نام ہے۔ چاہے وہ پشاور کے بنگلے ہوں یا وزیرستان میں دوسرے سگے چچا کی زمین یا حصہ ہو اور ہم سب خوش ہیں۔کوئی معتری یا بدمعاشی نہیں دکھاتا کہ زور زبردستی کچھ لیا یا دیااور یہی رشتوں کی بقاء کیلئے ضروری ہے کہ ہر انسان خود کردار ادا کرے اور ہر بات کی مثال اور شروعات انسان خود سے کرے۔خود سے دے”۔ پریغال (یہ اسی مہینے جون کی تحریر ہے)۔
حیات پریغال میں اتنی بڑی تبدیلی بہت ہی خوش آئند ہے۔ جب وزیرستان میں کوئی بیرون ملک سے پیسہ لیکر آتا تو گھر کی اپنی زمین میں تعمیر پر اتنا تنگ کیا جاتا کہ اس کو وزیرستان چھوڑ کر واپس بیرون ملک جانا پڑتا۔ وزیرستان کی بیماری پاکستان کے ریاستی اداروں میں بھی پھیل گئی ہے جس کی وجہ سے لوگ اپناسرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے لگے۔
پروفیسر احمد رفیق اختر کے دوست اور رومیٹ جہانگیر ایڈوکیٹ نے مجھ سے کہا کہ عورت کے حقوق کیلئے آپ پہلے شخص ہیں جس نے بہت زبردست طریقے سے اجاگر کیا ہے۔ ان کی یہ بات میرے لئے واقعی بہت بڑا کریڈٹ اسلئے ہے کہ وہ بہت زیادہ پڑھے لکھے اور سمجھدار ہیں۔ جب ادارہ منہاج القرآن کے سابق جنرل سیکرٹری ڈاکٹر دلدار قادری کے سامنے میں نے یہ بات کی کہ ” قانون کمزور کو تحفظ دینے کیلئے ہوتا ہے اور عورت کمزور ہے۔ قرآن نے اس کے تحفظ کیلئے قوانین بنائے ہیں اور حکمران اپنے تحفظ کیلئے طاقتور ہونے کے باوجود کمزور کے خلاف قوانین بناتے ہیں ”تو ڈاکٹر دلدار قادری بہت خوش ہوئے گویا آنکھوں میں چمک آگئی اور وہ ڈاکٹر طاہرالقادری سے زیادہ ذہین شخص ہیں۔
جب میں نے مدارس میں نصاب پر طالب علمی کے دوران سوالات اٹھانا شروع کئے تو مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی سمیت سارے لاجواب ہوتے ۔ شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ عبدالعزیز کی تفسیر عزیز ی میں عذاب قبر کا انکار نظرآیا تو سوال پوچھا مگر جواب یہ تھا کہ” تم پنج پیری ہو”۔ میں نے کہا کہ ”آپکے دوست حاجی محمد عثمانکا مرید” ہوں تو کہنے لگا کہ ”پھر ایسے سوالات مت کرو”۔ وراثت میں عورت کا حصہ بہت اہم مسئلہ ہے لیکن اس کیلئے کچھ بنیادی چیزوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
قرآن میں باپ، ماں، چچا، ماموں وغیرہ کے الگ الگ گھروں کا ذکر ہے۔ مثلاً ایک شخص کی ایک سگی اور تین سوتیلی مائیں ہیں تو پھر سب ماؤں کے الگ الگ گھر ہوں گے۔ مثلاً امہات المؤمنین کے حجرے بھی الگ الگ تھے۔حضرت عائشہ کے حجرے میں چار قبروں کی گنجائش تھی۔ نبیۖ کے بعد حضرت ابوبکر وعمر کی قبریں انکی اجازت سے بنی ہیں اور امام حسن کیلئے بھی اماں عائشہ نے اجازت دی تھی مگر وقت کے حکمران نے امام حسن کی تدفین میں رکاوٹ پیدا کرکے دفن نہیں ہونے دیا اور حکمرانوں کی مداخلت نے اسلامی احکام کا بھی بیڑہ غرق کیا ہے۔ باغ فدک پر حضرت فاطمہنے مقدمہ لڑا مگر امہات المؤمنین کے حجروں میں اپنا حق نہیں سمجھا۔ کراچی میں کچھ لوگ بہت مشکل سے اپنے 120گز کا مکان بناتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ مکان میں بیٹے اپنے بچوں سمیت رہتے ہیں۔ جب باپ فوت ہوتا ہے تو اس کی بیٹی کیس کردیتی ہے کہ مکان بیچ دو اور ہمیں اپنا حصہ دو۔ جب زندگی میں داماد کا حصہ نہیں تھا تو باپ کے مرنے کے بعد بیٹوں کو بیوی بچوں کے ساتھ کیسے اپنے اپنے کمروں سے نکال باہر کیا جاتا ہے؟۔ شریعت اور اخلاقیات کا معاشرے میں بہت زیادہ قفدان ہے۔
اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ایک عورت اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ خوش حال زندگی بسر کرتی ہے تووہی اس کا گھر ہے لیکن جب وہ بیوہ یا طلاق ہوجاتی ہے تو اسکے باپ اور بھائیوں پر اس کی ذمہ داری بھی پڑتی ہے۔ جب ہمارے پردادا سید حسن شاہ بابو کی تین بیٹیاں بیوہ بن گئی تھیں تو ان کو پہلے دو بیٹوں کے برابر کانیگرم میں رہائشی گھر دئیے اور پھر ایک بیٹی کا اکلوتا بیٹا تھا تو اس کو الگ گھر دیا تھا۔ دوسری دو بیٹیوں میں ایک کے تین بیٹے اور ایک کے چار بیٹے تھے تو پہلے دونوں کو مشترکہ بڑا گھر دیا تھا جو دو بیٹوں کے گھر سے بھی بڑا تھا مگر پھر چار بیٹوں والی کیلئے الگ گھر بناکر دیا جو چار کے برابر تھا۔ سید حسن شاہ بابو کی اور بھی بیٹیاں تھیں لیکن ان کو بسانے اور جائیداد میں شریک کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور جن کو ضرورت تھی تو ان کے بچوں کو اپنے بیٹوں کے برابر حصہ دیا تھا ۔ قومی جائیداد میں بھی ان کیلئے 8حصے اور اپنے 5پوتوں کیلئے 5حصے رکھے اور غریب کرار خیل قوم کیلئے بھی اچھا حصہ رکھ دیا تھا۔
پھر میرے والد پیرمقیم شاہ نے قوم سے آٹھواں حصہ الگ کیا اور اپنے دو بھائی محمد انور شاہ اور محمد صدیق شاہ سے کہا کہ تم دونوں کیلئے ایک مشترکہ حصہ کافی ہے۔ اپنا حصہ اپنے بہنوئی گل امین کے نام کردو۔ جس کے بعد ہمارے 4حصے بن گئے اور ان کے9ہوگئے۔ اس فطری تقسیم کا یہ نتیجہ تھا کہ عزیز واقارب سب ایک ہی گھر کی طرح خوش وخرم تھے مگر جب ہم بدل گئے۔ بھانجے عامراور بھتیجا جہانزیب کی جگہ میرے بھائی نے عبدالرحیم کو لے پالک بنادیا تو اس کے نتائج ہمیں بھی بھگتنے پڑگئے۔ عبدالرحیم کی اتنی اوقات تھی کہ ہمارے درمیان تقسیم کا فیصلہ کیا مگرڈر لگتا تھا کہ کہیں بھائی کو سجدہ نہ کردے۔ میں سمجھ رہاتھا کہ اس کا اپنا ایجنڈہ ہے اور جہانزیب بے بس کہتا تھا کہ ”جب تک میں پینشن نہیں لوں گا تو چچازاد بھائی سہیل سے الگ نہیں ہوں گا”۔مگر پھر بہت بدمزگی سے تقسیم کی گئی۔ میرا مدعا یہ تھا کہ جو بہنیں گھر میں موجود ہیں تو ان کا نہ صرف موروثی جائیداد میں حصہ ہے بلکہ ہر بھائی کیساتھ بھی ان کا حق ہے۔ البتہ بھائیوں نے جو کچھ بھی کمایا ہے تو وہ ان کا اپنا ہے۔ کسی بھائی کو دینا چاہتے ہوں تو یہ ان کا احسان بھی نہیں ہوگا کہ بھائی کا بھائی پر احسان نہیں لیکن نہیں دے گا تو حق بھی نہیں ہوگا۔ لیکن میری بات کو نہیں مانا گیا اور عبدالرحیم کی چل گئی اور پھر ہمارا بھی کباڑہ ہوگیا تھا۔
سبحان شاہ کی اولادکا تعلق وزیرستان نہیں ٹانک سے تھا۔ ٹانک میں بھی آباد کار تھے اور سید یوسف رضاگیلانی کے خاندان سے ان کی رشتہ داری ہوسکتی ہے لیکن شاید یہ حسینی سادات تھے۔ ہر طرف سے انکار کے باوجودمجھے گمان تھا کہ ہمارا شجرہ ایک ہے اور شجرے کے پیچھے کچھ مربھی رہے ہیں۔صرف نظر بعض معاملات میں اچھی ہوتی ہے لیکن ان کی وجہ سے آخر میں ہمیں بھی نقصان پہنچ رہاتھا اور ان کی عادات بھی بگڑرہی تھیں تو انکو پھینکا بلکہ اس طرح سے پٹخ دیا کہ تاریخ کے سارے گم شدہ اوراق بھی سامنے آگئے۔ میں نے حقائق لکھے کہ صنوبر شاہ کی اولاد نے مظفرشاہ کی اولاد پر ظلم کیا ۔پھر عبدالرحیم کا رشتہ ہوا تو اکٹھی تین طلاق اور حلالے کا مسئلہ آگیا ۔ حلالہ کا میں قائل نہیں تھا اور ایسی پوزیشن بھی نہیں تھی کہ رشتہ ختم کیا جاتا تو ان کی وجہ سے قرآن کی طرف رجوع کیا اور جب مسئلہ سمجھ میں آیا تو نہ صرف وہ عزت بچائی بلکہ اخباراور کتابوں میں واضح کیا۔ اللہ فرماتا ہے کہ” ہوسکتا ہے کہ تمہیں کوئی چیز بری لگے اور وہ تمہارے لئے خیر ہو”۔ پاکستان نے بہادری دکھائی تو افغانستان نے پہلی بارعید ساتھ منائی۔ میں نے تصوف میںپیر کے ہاتھ مردہ بدست زندہ کا کردار ادا نہیں کیا۔ البتہ ضرورت پڑی تو کراچی کے دنیا پرست اکابرکو تاریخی شکست دی تھی۔ شکرالحمد للہ۔ صحافی طاہر خان نے ملا ہیبت اللہ امیر المؤمنین کی نماز عید کے موقع پر امریکہ پر تنقیدکو تبدیلی قرار دیا۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv