پوسٹ تلاش کریں

اللہ ورسول ۖ کی اطاعت کمزور ترجماعت کوفاتح عالم بناسکتی ہے

متعصب ہندو محبت کے قابل اسلئے ہے کہ مسلمان نے 8 سو سال ان پر حکمرانی کی۔ عوام اور ملک کو تقسیم کیا،گاؤ ماتا کو کھایا، انکے خداؤں کا پنج وقتہ آذان میں علی الاعلان انکار کیا۔ مذہبی تعصبات پھیل گئے تو خمیازہ مسلمان بھگتے گا۔ مگر پاکستان کا پہلا وزیر قانون جوگیندرا ناتھ منڈل ہندو تھا جس کو بھارت نے بھی وزیرقانون کی پیشکش کی تھی مگر پاکستان کو ترجیح دی اور ہندوؤں نے مرضی سے اسلام قبول کیا ، مسلم حکمرانوں نے زبردستی سے ان کا مذہب تبدیل نہیں کیا ۔ اگر انہوں نے تعصبات کو ہوادی تو ہم سے زیادہ ان کو مشکلات ہوںگی۔ چند ہزار مجاہدین کو نیٹو نے نہیں سنبھالا تو کیا کروڑوں مسلمانوں کو بھارت قابو کرسکے گا؟۔ اسلئے سب کو مثبت سوچ کی طرف آنا پڑے گا۔ صلح حدیبیہ میں مسلمانوں کو مشرک بننے کی اجازت تھی اور مشرکوں کے اسلام قبول کرنے پر دوبارہ حوالہ کرنے کا معاہدہ تھا۔ جب ہم جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھتے تھے تو ایک مشہور شخص نے اپنا قصہ سنایا تھا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد انگریز،ہندو اور سکھ جج نے ہندو والدین کے حوالے نہیں کیا مگر مسلمان جج نے پیسے کھاکر اپنے والدین کے حوالے کیا۔

متعصب ظالم یہودی سے نفرت نہیں اسلئے کہ بدترین مظالم والے ماحول سے مجبور ہونگے۔ وہ بیت المقدس کو اپنا قبلہ سمجھتے ہیں ۔ مدینہ و جزیرة العرب سے ان کو نکالا اور اگر بس چلاتو پرامن یہود کو قتل اور عورتیں لونڈیاں بنا ڈالیں لیکن پتھر کے پیچھے اگر پرامن یہودی کو حضرت عیسیٰ نے قتل کرنا ہو تو یہ ان کو گالیاں دینے کانتیجہ ہوگا۔ صلح ہوگئی تو مسلمان شادی سے اسرائیل کو عورتوں سے خالی کردیں گے اسلئے کہ اللہ نے تثلیث کا عقیدہ رکھنے والے عیسائی اور گستاخ یہودی عورتوں سے نکاح کو جائز قرار دیا۔جب ہم سے مساجد کے نمازی بھی محفوظ نہیں اور میاں بیوی میں صلح سے پہلے حلالہ کی لعنت سے عزتوں کو تارتار کرتے ہیں تو دنیا ہماری دشمن نہ ہو گی؟ اور اللہ ہمارا ساتھ کبھی نہیں دے گا۔

رسول اللہۖ نے فرمایا : پہلا اس امر کا نبوت و رحمت ہے پھر خلافت و رحمت پھر بادشاہت و رحمت پھر امارت و رحمت ہے پھریہ لو گ ایکدوسرے کو کاٹیں گے گدھوں کا کاٹنا۔پس تم پر جہاد فرض ہے اور بہترین جہاد الرباط ہے اور تمہارا بہترین رباط عسقلان ہے۔اس حدیث سے اس بات کا بخوبی پتہ چلتا ہے کہ غزہ پر جو مظالم ہورہے ہیں اس پر بڑے گدھوں کا کردار ادا کررہے ہیں۔ اگر عسقلان اور غزہ کا دو بھائیوں کی طرح رابطہ کرایا تو انقلاب آئے گا۔

رسول اللہۖ اور علی کاحیران کن واقعہ ہے۔ شاہ مصر و اسکندریہ عیسائی بادشاہ مقوقس کو اسلام کی دعوت کا خط ملااور دعوت قبول نہیں کی مگر دوقبطی بہنوں حضرت ماریہ و سیرین لونڈیوں کا تحفہ ساتھ میں فسٹ کزن کو بھیجاجو عظیم عیسائی قبطی خاندان تھا۔ احرام مصر قبطی کی عظمت کا پتہ دیتی ہیں۔ موسٰی کے وقت کا فرعون نسلی و خاندانی نہیں تھا بلکہ وہ خراسانی یا سوڈانی تھا۔ تلاش رزق کیلئے گیا ۔پھر سازش سے اقتدارتک پہنچ گیا۔ اس نے دیکھا کہ باہر ایک درہم کے 10 خربوزے اور شہر میں ایک خربوزہ 10درہم کا ہے تو یہ منافع بخش کاروبار غنیمت جانا۔10 خربوزے لئے مگر بازار تک پہنچتے پہنچتے اتنے غنڈہ ٹیکس دینے پڑگئے کہ ایک خربوزہ 15درہم کا پڑگیا ۔یہ سمجھ گیا کہ غنڈہ ٹیکس والا بدمعاشیہ ہی کاروبار کرسکتا ہے جو زیادہ ٹیکس نہ دے۔

آئیڈیا بنایا اور قبرستان میں مردوںکی لاشوں کو دفنانے کیلئے غنڈہ ٹیکس مقرر کیا۔ پہلے کوئی دیتا اور کوئی نہیں دیتا تھا مگرپھر معاشی استحکام ملا اور زبردستی غنڈہ ٹیکس لینے لگا۔ بادشاہ کا بندہ مرگیا تو اس سے بھی زبردستی ٹیکس وصول کیا ۔ شکایت پر بادشاہ نے طلب کیا تو اپنا کمایا ہوا پیسہ پیش کردیا اور کہا کہ اشرافیہ کا ٹیکس ناکافی ہے۔ بادشاہ بہت خوش ہوا۔ اس کو مقربین میں شامل کیا پھر عوامی مقبولیت حاصل کی اور بادشاہ کے پیر کاٹتا رہا۔ آخر کار قبطی قوم پراقتدار حاصل کیا اور پیش گوئی کے سبب بد بخت نے ہزاروں بنی اسرائیلی بچے قتل کردئیے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ ” اللہ کی طرف سے تم پر یہ سب سے بڑی آزمائش تھی کہ آل فرعون تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے تھے اور عورتوں کی عزتیں لوٹتے تھے”۔

آزاد عورت اور لونڈی میں فرق حقوق کا تھا اور لونڈی کے حقوق کا تصور نہیں ہوتا۔ اسلام نے لونڈی کو حقوق دیکر انقلاب برپا کیا مگر پھر اندھیر چھا گیا۔ عیسائی مذہب میں فسٹ کزن سے نکاح جائز نہیں۔ رسول ۖ نے محرم سے بدکاری پر قتل کا حکم دیا ۔ نبیۖ کو غلط خبرملی کہ ماریہ قبطیہ کیساتھ اسکے کزن نے جنسی تعلق رکھا تو علی کو قتل کا حکم دیا۔ علی نے تحقیق کا تقاضہ پورا کیا تو اس کا آلۂ تناسل کٹا ہوا تھا۔ پہلے یہ دستور تھا کہ جانورکی طرح انسان کو بھی خصی کیا جاتا تھا اورصحابہ کرام نے بھی نبیۖ سے عرض کیا کہ کیاہم خود کو خصی بنالیں؟(صحیح بخاری)۔نبی ۖ نے علی کوسب سے زیادہ اچھا قاضی قرار دیا اور فرمایا کہ ”غائب شخص کا معاملہ حاضر جیسا نہیں ہو سکتا”۔ مولوی سمجھتا ہے کہ افغانستان کو ننگی پتنگی لونڈیوں سے بھرنا شریعت ہے؟۔

لارڈمیکالے نے ہندوستان کے گورنر جنرل کی کونسل کے پہلے رکن برائے قانون برطانیہ کے پارلیمنٹ سے 2 فروری 1835ء میں خطاب کیا:ایک اقتباس:”میں نے ہندوستان کے طول وعرض میں سفر کیا، مجھے کوئی بھی شخص بھکاری یا چور نظر نہیں آیا۔ اس ملک میں میں نے بہت دولت دیکھی ۔ لوگوں کی اخلاقی اقدار بلند ہیں۔سمجھ بوجھ اتنی اچھی کہ میرے خیال میں ہم اس وقت تک یہ ملک فتح نہیں کرسکتے جب تک ہم ان کی دینی و ثقافتی اقدار توڑ نہ دیں جو ان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسلئے میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ ہم ان کا قدیم نظام تعلیم و تہذیب تبدیل کریں کیونکہ اگر ہندوستانی لوگ یہ سمجھیں کہ ہر انگریزی اور غیرملکی چیز انکی اپنی چیزوںسے بہتر ہے تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھو دیںگے اور حقیقتاً ویسے ہی مغلوب بن جائیں گے جیسا ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں”۔

19ویں صدی (1800ء سے 1900ء ) تاریخی مثال راجستھان اور آس پاس کی ریاستوں میں راجپوت قوم کے پولیس سپاہیوں کو اگر وہ مونچھ رکھتے تھے تو انہیں اضافی الاؤنس دیا جاتا تھا۔ ٹانک اوروزیرستان میں ایک مثال پولیس اہلکار میرا پر نانا صنوبر شاہ تھاجو مونچھ کی وجہ سے بریت لالا (یعنی مونچھ ) مشہور ہوا تھا۔

قحط کے باعث مروت قوم کانیگرم وزیرستان چھوڑ کر گئے تھے۔ کانیگرم میں پانی سوکھ گیا تو مروت کاوہاں رہنا محال ہوگیا۔ہم سے متصل مروت قوم کا بڑاقبرستان تھا۔ چٹانوں سے زیادہ مضبوط وزیرستان کی تہذیب و تمدن کو انگریز کے کرایہ کے ملکان نے توڑ دیا اسلئے کہ غربت تھی۔

مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
بشر کو بشر کی اوقات بھلا دیتی ہے
آؤ ! اس ماں کی بھی کچھ زبانی سنیں
بچوں کو جو روز بھوکا سلا دیتی ہے
اپنی عزت کے بھروسے جو تھی مجبور کھڑی
آخر اک روز وہ اپنا سر جھکا دیتی ہے
اس کے دامن پہ لگے داغ یہی کہتے ہیں
بھوک تہذیب کے آداب مٹا دیتی ہے

قحط سالی میں وزیرستان کے اندر انگریز تنخواہ داروں کو کرائے کے قاتل ملنے لگنے تھے ۔ 1900ء میں چھپنے والی کتاب میں جس طرح کی منظر کشی کی گئی ہے کہ سبحان شاہ کے بیٹے سیداکبر اور صنوبر پولیس والوں نے چند بندوقوں سے انقلابی وزیروں کو ناکام بنادیا۔ 2خاص شخصیات سمیت 7 افراد کو شہید کردیا اور پھر سیداکبر و ملا علیزئی کی قیادت میں لوگوں سے جوتے اترواکر قرآن پر تقریب حلف برداری کی عجیب وغریب منظر کشی کی ہے۔

کرم ایجنسی کے دوست محمد حنیف پارہ چنار جس نے 72 دن بھوک ہڑتال ڈیرہ اسماعیل خان جیل میںکی تھی جس کا بیٹا کرنل یوسف ہے۔ جیل سپرڈنٹ نے جوتے اتارنے کا کہا تھا تو اس نے کہا کہ ”کیا یہ مسجد ہے نہیں اتاروں گا”۔ انگریز کے جانے کے بعد بھی اسکے اثرات باقی ہیں ۔ جب مولانا نورمحمد وزیرMNAنے 1970ء میں شریعت کے نفاذ کی کوشش کی تھی تو وانا کے بازار اور وزیروں کے گھروں کو بلڈوزروں سے ہموار کیا گیا جس پر لوکل شاعری کی گئی۔

دا سپین سپین کوٹینہ دا دے شیشے وول دیکونینہ

گرارہے ہیں سفید سفید کوٹ(قلعہ نما گھر) اور شیشے والی دکانیں۔ شیشوں کی بنی دکان ترقی کی علامات تھیں۔

دہشتگردی کی آگ خوش آئندہے ۔ قبائلی اقدار انگریز نے تباہ کرکے نیا معاشرہ تشکیل دیا، نسل در نسل آبیاری کے بعد آگ کے الاؤ سے نئے لوگ نکل رہے ہیں جو خاندانی شرافت سے خاندانی بے غیرت تک کے سفر میں صرف اور صرف کردار کی تشکیل میں مصروف ہیں۔ پہلے بڑا آدمی وہ تھا جو خاندانی شرافت رکھتا ہو۔ پھر انگریز نے معیار کو بدلا تو بڑا آدمی وہ بن گیا جو طاقت سے چمٹ کر ذلت و ظلم سے اپنا منہ کالا کرسکے۔ سردار امان الدین شہید نے سرکاری ملکوں کے گھرمسمار کئے تو رونامہ مشرق میں ”مریم گیلانی” نے اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ قراردیا۔ کانیگرم میں کمزور طبقے کے گھروں کو سرکاری لشکر نے مسمار کیا تو انہوں نے چوروں کے خلاف کمال جوہر دکھایا پھر فضا چلی تو طالبان بن گئے لیکن طالبان کو بھی مس گائیڈ کرکے بدنام کرکے رکھ دیا۔ چھلنی سے چھن کر اچھے لوگ آئیں گے۔ 1990ء میں اپنے کراچی، پنجاب، سوات، بونیر، سندھ اور بلوچستان کے ساتھیوں کیساتھ کانیگرم جنوبی وزیرستان گیا تو راستے میں ہماری گاڑی کے پچھلے دو ٹائیر کے درمیان پتھر پھنس گیا اورمحسود قوم کے جوانوں نے آواز دی اور بتایا تو ہم نے پتھر نکالا۔ انہوں نے کہا کہ تم لوگ بڑے خوش قسمت ہو کہ ہم نے بتایا،ورنہ تو ہم کسی سے بھی نہیں کہتے اور چاہتے ہیں کہ گاڑی خراب ہو اور ہم تماشہ دیکھ لیں۔ پھر انہوں نے آپس میں کہا کہ یہ مسافر ہیں۔ایسا نہ ہو کہ بیچاروں کو ڈاکو لوٹ لیں تو میں نے وزیرستان کی محسود پشتو میں کہا کہ ”ان کی بیویاں نہیں اٹھاکے لے جاؤں،جو یہ جرأت کرے؟”۔ جس پر وہ بہت خوش ہوگئے اور کہا کہ ہم سمجھ رہے تھے کہ شاید سب مسافر ہیں۔ اب ہم بے فکر ہیں۔ میں نے ساتھیوں کو بتایا کہ میں نے تگڑی گالی اسلئے دی کہ ”یہ لوگ ہمدردی میں اظہار کریں گے اور ایک آسان ہدف سمجھ کر جو چور نہیں ہوں گے وہ بھی چور بن جائیںگے ؟”۔

پھر جب 1991ء میں نے کچھ ساتھیوں کیساتھ وہاں رہائش اختیار کرلی تو سبھی علماء پہلے بہت خوش ہوگئے لیکن جب میں نے کہا کہ شریعت کا نفاذ گھر سے شروع کرنا ہوگا تو ان کو چورکا ہاتھ کاٹنا، کوڑے لگانا اور سنگسار کرنا آسان لگا مگر بہن بیٹی کا حق مہر اسی کو دینا بھی مشکل لگا اور وراثت میں حصہ دینا تو بہت بڑی بات تھی۔

کانیگرم میں دو پڑوسیوں کی لڑائی ہوئی اور ایک کے دانت پر پتھر لگا تو لوگوں نے ایک دوسرے کو مذاق میں کہنا شروع کیا کہ ”دانت توڑ وں گا”۔ آخر میں دوسرے فریق نے ایک کو پکڑ کر ہتھوڑی سے حساب برابر کیا تو پھر مذاق تبدیل ہوا اور ہتھوڑے سے دانت توڑنے پر بات ہوئی اوریہ جھگڑا آخر میں اس حد کو پہنچا کہ مورچوں اور گھروں سے گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ مساجد کے لاؤڈ اسپیکروں سے آوازیں دینے لگے کہ کوئی اور تمہاری گولیوں کا نشانہ بن جائے گا۔ مگر انہوں نے ایک نہیں سنی۔اور قصور تو اصل لوگوں کا ہی تھا کہ طعنے دیکر لڑائیوں پر مجبور کرتے رہے۔

بڑی تعداد میں علماء اور شہر کے بزرگ شہری پہاڑ کی اوٹ میں آواز دے رہے تھے کہ رُک جاؤ ، بس ہم آرہے ہیں۔ میں نے مشیران کے بڑے ہجوم کو دیکھا تو بھاگتا ہوا پہنچ گیا۔ آگے بڑھا تو سب نے رکنے کا کہا کہ گولی لگ جائے گی لیکن میں سیدھا ایک مورچے میں پہنچاجہاں پر گولیاں لگنے سے مٹی کا غبار بھی اُٹھ رہاتھا اور گولیاں بھی چل رہی تھیں۔ میں نے مورچے میں موجود افراد پر لاتوں اور مکوں کی بوچھاڑ کردی اور بندوقیں چھین لیں تو فائرنگ بند ہوگئی اور سب نکل کر آگئے۔

شہر میں سبزی بھنڈی 28 روپے کلو تھی۔ وہ بھی بالکل بے کار تھی۔ وانا میں 4روپے اور تھوک میں روپیہ سے بھی کم پڑتی تھی، ہم نے جب سستی اور تازہ سبزی اور فروٹ لانا شروع کئے تو تبلیغی دکانداروں کو برا لگ گیا۔ حالانکہ اس میں تاجر بھی کماسکتے تھے اور لوگوں کو بھی تازہ و سستی چیزیں مل جاتی تھیں۔ ہم نے صرف خیرخواہی کی بنیاد پر داغ بیل ڈالنی تھی اوریہی ہم نے علاقہ گومل میں سکول کھول کر کیا۔جس کی وجہ سے بچے پڑھنے لگے اور پڑھانے والوں اور سکول بنانیوالوں کو روزگا ر مل گیا۔

اگر پاکستان کی قوم تعلیم سے لیکر تجارت کی مختلف اشیاء تک معقول منافع کمانے کی بنیاد پر کام شروع کریں تو چوری، ڈکیتی اور جہالت کے خاتمے میں بھی اہم کردار ادا ہوگا اور قوم بھی واقعی اچھی قوم بنے گی۔

بلوچستان اورخیبر پختونخواہ کے حالات بہت ابتر ہیں لیکن پنجاب میں اور سندھ میں جو حالات ہیں وہ اندوہناک واقعات کی وجہ سے ابتر ہیں۔سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر جو معاملات رپور ٹ نہیں ہورہے ہیں اور جو رپورٹ ہورہے ہیں وہ بہت خطرناک ہیں۔ حافظ آباد پنجاب میں ڈیڑھ ماہ قبل ایک خاتون کو برہنہ کرکے چار ڈاکو نے جبری جنسی زیادتی کی اور پھر شوہر کو بھی برہنہ تعلق پر مجبور کرکے ویڈیو بنائی اور دھمکی دی کہ کسی کو بتایا تو قتل کردیںگے۔ ڈھائی ہزار روپے اور موبائل بھی چھین لئے اور پٹائی لگاکر چھوڑ دیا۔ پھر میاں بیوی کی برہنہ وڈیو بھی سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ جس کی وجہ سے انہوں نے پولیس کو رپورٹ کی اور پولیس نے کچھ مقابلے میں ماردئیے اور کچھ باقی ہیں۔

ایک بڑے پیمانے پر معاشرے میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ اب قبائل کے عوام بہت بدل گئے ہیں۔میں نے اپنے بھانجے اشرف علی سے طوطا چند دن کیلئے لیا۔اس نے کہا کہ اپنے پاس رکھ لو۔میں نے کہا کہ رکھنا تو کسی صورت نہیں۔ پھر چھوٹے بیٹے محمد نے کہا کہ طوطا خرید لو۔ میں نے کہا کہ وہ بیچتا نہیں ہے تو اس نے بھانجے کیساتھ لڑائی کا بہانہ بنایا اورلڑنے کے بعد کہا کہ اب تو لڑائی ہوگئی ہے طوطا دینا نہیںہے۔ جب ماموں سعدالدین لالا کو پتہ چلا تو بہت خوش ہوئے کہ محسودکی رگ موجود ہے۔ ہماری نانی محسود تھی۔ پھر جب اس نے امریکہ کے افغانستان اور عراق پر مظالم کا ماحول دیکھا تو پوچھتا کہ امریکی مارے گئے یا مسلمان ؟ جب امریکوں کا کہا جاتا تو خوشی سے اچھلتا تھا اور جب مسلمانوں کا بتایا جاتا تو بہت غصہ آتا۔ میرے کزن ڈاکٹر آفتاب نے اقبال شاہ کی شادی کے موقع پر کسی بچے کا کہا کہ بڑا اچھا ناچتا ہے۔ اس نے میرے بیٹے کو پوچھا کہ ناچ سکتے ہو؟۔ تو اس نے غصہ سے کہا کہ نہیں۔ پھر پو چھا کہ تم کیا بنوگے؟۔اس نے کہا کہ پائلٹ۔ پوچھا پائلٹ بن کر کیا کروگے؟ تو اس نے کہ امریکہ پر خود کش کروں گا۔ 2004ء میں جیوچینل پروگرام ”الف” میں مجھے شرکت کی دعوت ملی۔میزبان انیق احمد تھے جو عبوری حکومت میں مذہبی وزیر رہے ہیں۔ میں فیملی کیساتھ کراچی کیلئے جہاز پر جارہاتھا تو محسوس ہوا کہ محمد کو اونچائی سے ڈر لگ رہاہے تو میں نے اس کا خوف ختم کرنے کیلئے چھیڑدیا۔ اس نے مارنا شروع کیا۔ بعد میں اس کی ماں کو میں نے کہا کہ مجھے خوفزدہ لگ رہاتھا اسلئے میں نے چھیڑاتو اس نے بتایا کہ وہ کہہ رہاتھا کہ امریکہ کم بخت میزائل نہیں مارے۔

پھر اردو پڑھنے کے قابل ہوا تو میں خود ”موت کا منظر” کتاب سے بہت متاثر ہوا تھا تو اس کو بھی اس قسم کی کتابیں پڑھنے کیلئے ترغیب دی۔ اس نے ایک قصہ پڑھا جو مفتی عبدالرؤف سکھروی داماد مفتی اعظم مفتی محمد شفیع جامعہ دارالعلوم کراچی گورنگی Kایریا شرافی گوٹھ نے اپنے واعظ میں بھی سنایا ہے اور کتاب میں چھاپ بھی دیا ہے۔ لکھا ہے کہ ایک لڑکی ٹی وی دیکھنے کی شوقین تھی تو جب مرگئی تو ٹی وی کیساتھ ریموٹ کنٹرول کی طرح چپک گئی۔غسل سے لیکر جنازے تک ٹی وی ساتھ لیکر گئے اور آخر میں جب دفن کیا تو پھر ٹی وی کے پیچھے نکل آئی۔ دو تین دفعہ کے بعد آخر ٹی وی بھی ساتھ دفن کردیا۔ تو محمد نے کہا کہ ابو یہ سچ ہے؟۔ جھوٹ بولتا کہ سچ ہے تو مذہبی کتابوں سے اعتماد اٹھتا اور سچ بولتا تو مجھے جھوٹ ہی لگ رہاتھا اسلئے جھوٹ کی تائید غلط تھی۔ میں نے پوچھا :آپ کو کیا لگتا ہے؟۔ تو اس نے کہ مجھے تو جھوٹ لگ رہاہے۔ میں نے کہا کہ صحیح بول رہے ہو۔ جھوٹ ہے۔ متعدد بار قبر سے نکلنے کے بجائے ایک دفعہ بھی کافی تھا کہ وہ قبر سے نکلتی تو اپنی جان اور اس کی عزت کا خیال رکھتے۔

پھر جب محمد نے اسٹیل کیڈٹ کالج کراچی میں پڑھنا شروع کیا تو مجھے بعد میں پتہ چلا کہ سینئر جو جونیئر پر نہ صرف حکم چلاتے تھے بلکہ مختلف طرح کے مظالم بھی ڈھائے تھے اسلئے کہ ڈسپلن کے نام پر انتقام ماحول بن چکا ہوتا ہے اور ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں مگرمحمد نے مزاحمت کرنی شروع کی اور پھر دوستوں کے ساتھ مل کر آخر کالج کو اپنا قانون بدلنا پڑا۔

جب محمد دریا خان میں میرے بھائی کے گھر گیا تو دور کے پڑوسی کو پتہ چلا کہ میرا بیٹا ہے اور میرے بارے میں معلوم تھا کہ مذہبی آدمی ہے تو اس نے دم کیلئے بہت کوشش کی لیکن محمد نے دم کرنے سے انکار کردیا۔ بھائی نے کہا کہ دم کردیتے تو اس میں کیا تھا؟۔ محمد نے کہا کہ ”پھر لوگ یہاں مجھے دموبابا کہنے لگتے۔ ہم چھوٹے تھے اور والد صاحب نے کسی کو دم کیا تھا اور وہ صحیح ہوگیا تھا۔ جس کے بعد گاڑی بھر کر لوگ بچوں اور عورتوں کیساتھ آئے تھے۔جب بتایا کہ دم کیلئے آئے ہیں تو غصہ کیا کہ ان عورتوں کی رگیں پھڑک رہی ہیں،جس پر سب شرمندہ ہوگئے۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک سے مروت لڑکی نے سوال کیا کہ مذہبی لوگ نماز، روزہ، حج اور مدارس کی تعلیم کیساتھ بچوں اور بچیوں کیساتھ جنسی زیادتیاں کرتے ہیں تو اس کا بعض افراد کی طرف سے سخت رد عمل آیا۔ سبوخ سید نے کلاچی ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک تبلیغی جماعت کی پڑھی لکھی شخصیت کو پوچھا تو اس نے بتایا کہ ”یہ بیماری ہے۔ جس کا نفسیاتی علاج ضروری ہے۔ چرچل برطانوی وزیراعظم بنوں سے ایک بچے کو اپنے ساتھ اس کام کیلئے لے گیا تھا”۔ کوٹ حکیم میں ہمارا سکول تھا اور وہاں مسجد کے امام کا مروت سے لایا ہوا بچہ پڑھتا تھا۔ جٹہ قلعہ کے پیر فاروق شاہ نے بھی بچہ بازی کے عروج میں ایک لڑکا رکھا تھا۔ جب علاقہ کے مشیران نے اتفاق کیا کہ نوابزادہ قیذار خان کو الیکشن میں جتوائیںگے تو انہوں نے سب سے پہلے آغاز میرے والد سے کیا ۔ میرے والد سے نواب صاحب کا احترام کا رشتہ تھا وہ خالی جیپ میں کسی اور نہیں میرے والد کو بٹھادیتے تھے لیکن جب ووٹ کی بات آئی تو میرے والد نے کہا کہ یہ بتاؤ کہ نواب نے بچے گھمانے اور کتے لڑانے کے سوا کیا کام کیا ہے؟۔ جس پر سب ایک دوسرے کو منہ دکھاتے ہوئے شرمانے لگے۔

ہم نے 1990ء میں صرف بالمعروف اور نہی عن المنکر کیلئے ایک بس پر بڑے لاؤڈ اسپیکر پر ملک بھر کے شہروں میںاعلانات شروع کئے تو ناصر بیگ کے ویڈیو سے ابھی پتہ چلا کہ لاہور کی ہیرا منڈی کا زوال اس وقت شروع ہوا کہ جب 1990ء میں پولیس نے مجروں پر لاٹی چارج شروع کیا۔ روالپنڈی کا بازار حسن اور کراچی کے بازار حسن بھی اسکے بعد ویران ہوگئے۔ جنرل ضیاء الحق کے اقدامات نے بھی 1980کے بعد سے اثر ڈالا تھا لیکن اصل چیز عوام کی طرف سے ماحول ہوتا ہے۔ جب سیدعبدالقادر جیلانی، سیدعطاء اللہ شاہ بخاری، مفتی محمود اور علماء اور بزرگان دین کی تصاویر کو مذہبی طبقہ استعمال کرتا تھا تو عوام پر ان کا کوئی عمل اثر انداز نہیں ہوسکتا تھا ۔جب ہم نے آواز اٹھائی تو اسکے بعد جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو داڑھی، تصویر اور خواتین کے پردے کو حکومتی سطح پر نافذ کردیا گیا۔ پھر جب میں نے جاندار کی تصویر کے جواز پرکتاب ”جوھری دھماکہ ” لکھی تو علماء ومشائخ اور مذہبی جماعتیں تبلیغی جماعت و دعوت اسلامی والے بھی ویڈ بنانا شروع ہوگئے ۔

ہم نے بہت کم مدت میں حالات بدلتے دیکھے ہیں۔ آج اگر امیر المؤمنین افغانستان ملا عمر زندہ ہوتے تو اس کی بھی ویڈیوزبن رہی ہوتیں اور ماحول کے ساتھ بہت بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ پشتونوں کو اپنا ماحول بدلنے کی سخت ضرورت ہے۔ رحمان بونیری اچھا انسان اور اچھا صحافی ہے۔ اس نے بتایا کہ جب اس کا والد سعودی عرب سے خط لکھتا تھا تو کسی سکول ٹیچر کو گھر میں لانا پڑتا تھا اور میری ماں پردے میں بیٹھ جاتی اورگھر والے خبرنامے کی طرح خط سننے۔ جب میں نے ایک بار دیکھا تو خط پڑھنا شروع کیا اور سمجھ میں آیا تو ٹیچر کو بلانے کے بجائے گھر میں بتایا کہ میں خود پڑھ سکتا ہوں۔ خط سنایا تو سب خوش ہوگئے اور ماموں نے خوشی میںمٹھائی تقسیم کی لیکن گاؤں کے بچوں نے بہت مارا۔ اور کہا کہ ہمیں گھر میں ڈانٹ پڑی کہ تمہیں پڑھنا نہیں آتا۔ اگر تم نے پھر خط پڑھا تو ہڈیاں توڑ دیں گے۔ پھررحمان بونیری کے گھروالوںکو گھر سے نکال کر طالبان نے اس کا گھر بموں سے اڑایا۔ اس پر بھی وہ خوش تھا کہ گھر والے تو محفوظ تھے۔ پشتون قوم کو اپنے اجتماعی کلچر کو تبدیل کرنا ہوگا اور دہشت گردی کے بعد ایک تازہ جھونکا عوام میں آگیا ہے۔

حیات پریغال نے لکھا ہے کہ ” کچھ سال پہلے میرے والد اور چچا حضرات میں زمین کی تقسیم چل رہی تھی تو میں نے والد اور چچا دونوں کو بٹھایا۔میرے چچازاد، کزن اور دوسرے رشتہ دار بھی موجود ہیں ،فیس بک پر تصدیق بھی ان سے کرسکتے ہیں اور دونوں سے کہا کہ ہم باہر کے لوگوں کی جہالت پر ہنستے ہیں۔دوسرے زمین کے معاملات پر جرگے کرتے ہیں، ہمیں گھر کے معاملہ پر جرگہ نہیں چاہیے پرامن طریقے سے زمین کی تقسیم کریں۔والد صاحب سے کہا کہ چچا سے کہو کہ جو اچھی چیز چاہیے وہ لو اور دوسری ہم لیںگے۔والد اور بھائیوں نے میری بات مان لی۔جنگل میدان گھر کے قریب کھیت پہلے چچالوگوں نے پسند کئے جو ان سے رہ گئے وہ ہمارے ہوگئے۔میں نے اپنا حصہ آج میرے بھائی شاہد ہیں کہ درجنوں بار بہنوں کے نام کیا ہے اور بھائیوں کا حصہ ان کے پاس ہے۔میرے سگے چچا کا حصہ ان کی بیٹیوں کے نام ہے۔ چاہے وہ پشاور کے بنگلے ہوں یا وزیرستان میں دوسرے سگے چچا کی زمین یا حصہ ہو اور ہم سب خوش ہیں۔کوئی معتری یا بدمعاشی نہیں دکھاتا کہ زور زبردستی کچھ لیا یا دیااور یہی رشتوں کی بقاء کیلئے ضروری ہے کہ ہر انسان خود کردار ادا کرے اور ہر بات کی مثال اور شروعات انسان خود سے کرے۔خود سے دے”۔ پریغال (یہ اسی مہینے جون کی تحریر ہے)۔

حیات پریغال میں اتنی بڑی تبدیلی بہت ہی خوش آئند ہے۔ جب وزیرستان میں کوئی بیرون ملک سے پیسہ لیکر آتا تو گھر کی اپنی زمین میں تعمیر پر اتنا تنگ کیا جاتا کہ اس کو وزیرستان چھوڑ کر واپس بیرون ملک جانا پڑتا۔ وزیرستان کی بیماری پاکستان کے ریاستی اداروں میں بھی پھیل گئی ہے جس کی وجہ سے لوگ اپناسرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے لگے۔

پروفیسر احمد رفیق اختر کے دوست اور رومیٹ جہانگیر ایڈوکیٹ نے مجھ سے کہا کہ عورت کے حقوق کیلئے آپ پہلے شخص ہیں جس نے بہت زبردست طریقے سے اجاگر کیا ہے۔ ان کی یہ بات میرے لئے واقعی بہت بڑا کریڈٹ اسلئے ہے کہ وہ بہت زیادہ پڑھے لکھے اور سمجھدار ہیں۔ جب ادارہ منہاج القرآن کے سابق جنرل سیکرٹری ڈاکٹر دلدار قادری کے سامنے میں نے یہ بات کی کہ ” قانون کمزور کو تحفظ دینے کیلئے ہوتا ہے اور عورت کمزور ہے۔ قرآن نے اس کے تحفظ کیلئے قوانین بنائے ہیں اور حکمران اپنے تحفظ کیلئے طاقتور ہونے کے باوجود کمزور کے خلاف قوانین بناتے ہیں ”تو ڈاکٹر دلدار قادری بہت خوش ہوئے گویا آنکھوں میں چمک آگئی اور وہ ڈاکٹر طاہرالقادری سے زیادہ ذہین شخص ہیں۔

جب میں نے مدارس میں نصاب پر طالب علمی کے دوران سوالات اٹھانا شروع کئے تو مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی سمیت سارے لاجواب ہوتے ۔ شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ عبدالعزیز کی تفسیر عزیز ی میں عذاب قبر کا انکار نظرآیا تو سوال پوچھا مگر جواب یہ تھا کہ” تم پنج پیری ہو”۔ میں نے کہا کہ ”آپکے دوست حاجی محمد عثمانکا مرید” ہوں تو کہنے لگا کہ ”پھر ایسے سوالات مت کرو”۔ وراثت میں عورت کا حصہ بہت اہم مسئلہ ہے لیکن اس کیلئے کچھ بنیادی چیزوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔

قرآن میں باپ، ماں، چچا، ماموں وغیرہ کے الگ الگ گھروں کا ذکر ہے۔ مثلاً ایک شخص کی ایک سگی اور تین سوتیلی مائیں ہیں تو پھر سب ماؤں کے الگ الگ گھر ہوں گے۔ مثلاً امہات المؤمنین کے حجرے بھی الگ الگ تھے۔حضرت عائشہ کے حجرے میں چار قبروں کی گنجائش تھی۔ نبیۖ کے بعد حضرت ابوبکر وعمر کی قبریں انکی اجازت سے بنی ہیں اور امام حسن کیلئے بھی اماں عائشہ نے اجازت دی تھی مگر وقت کے حکمران نے امام حسن کی تدفین میں رکاوٹ پیدا کرکے دفن نہیں ہونے دیا اور حکمرانوں کی مداخلت نے اسلامی احکام کا بھی بیڑہ غرق کیا ہے۔ باغ فدک پر حضرت فاطمہنے مقدمہ لڑا مگر امہات المؤمنین کے حجروں میں اپنا حق نہیں سمجھا۔ کراچی میں کچھ لوگ بہت مشکل سے اپنے 120گز کا مکان بناتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ مکان میں بیٹے اپنے بچوں سمیت رہتے ہیں۔ جب باپ فوت ہوتا ہے تو اس کی بیٹی کیس کردیتی ہے کہ مکان بیچ دو اور ہمیں اپنا حصہ دو۔ جب زندگی میں داماد کا حصہ نہیں تھا تو باپ کے مرنے کے بعد بیٹوں کو بیوی بچوں کے ساتھ کیسے اپنے اپنے کمروں سے نکال باہر کیا جاتا ہے؟۔ شریعت اور اخلاقیات کا معاشرے میں بہت زیادہ قفدان ہے۔

اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ایک عورت اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ خوش حال زندگی بسر کرتی ہے تووہی اس کا گھر ہے لیکن جب وہ بیوہ یا طلاق ہوجاتی ہے تو اسکے باپ اور بھائیوں پر اس کی ذمہ داری بھی پڑتی ہے۔ جب ہمارے پردادا سید حسن شاہ بابو کی تین بیٹیاں بیوہ بن گئی تھیں تو ان کو پہلے دو بیٹوں کے برابر کانیگرم میں رہائشی گھر دئیے اور پھر ایک بیٹی کا اکلوتا بیٹا تھا تو اس کو الگ گھر دیا تھا۔ دوسری دو بیٹیوں میں ایک کے تین بیٹے اور ایک کے چار بیٹے تھے تو پہلے دونوں کو مشترکہ بڑا گھر دیا تھا جو دو بیٹوں کے گھر سے بھی بڑا تھا مگر پھر چار بیٹوں والی کیلئے الگ گھر بناکر دیا جو چار کے برابر تھا۔ سید حسن شاہ بابو کی اور بھی بیٹیاں تھیں لیکن ان کو بسانے اور جائیداد میں شریک کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور جن کو ضرورت تھی تو ان کے بچوں کو اپنے بیٹوں کے برابر حصہ دیا تھا ۔ قومی جائیداد میں بھی ان کیلئے 8حصے اور اپنے 5پوتوں کیلئے 5حصے رکھے اور غریب کرار خیل قوم کیلئے بھی اچھا حصہ رکھ دیا تھا۔

پھر میرے والد پیرمقیم شاہ نے قوم سے آٹھواں حصہ الگ کیا اور اپنے دو بھائی محمد انور شاہ اور محمد صدیق شاہ سے کہا کہ تم دونوں کیلئے ایک مشترکہ حصہ کافی ہے۔ اپنا حصہ اپنے بہنوئی گل امین کے نام کردو۔ جس کے بعد ہمارے 4حصے بن گئے اور ان کے9ہوگئے۔ اس فطری تقسیم کا یہ نتیجہ تھا کہ عزیز واقارب سب ایک ہی گھر کی طرح خوش وخرم تھے مگر جب ہم بدل گئے۔ بھانجے عامراور بھتیجا جہانزیب کی جگہ میرے بھائی نے عبدالرحیم کو لے پالک بنادیا تو اس کے نتائج ہمیں بھی بھگتنے پڑگئے۔ عبدالرحیم کی اتنی اوقات تھی کہ ہمارے درمیان تقسیم کا فیصلہ کیا مگرڈر لگتا تھا کہ کہیں بھائی کو سجدہ نہ کردے۔ میں سمجھ رہاتھا کہ اس کا اپنا ایجنڈہ ہے اور جہانزیب بے بس کہتا تھا کہ ”جب تک میں پینشن نہیں لوں گا تو چچازاد بھائی سہیل سے الگ نہیں ہوں گا”۔مگر پھر بہت بدمزگی سے تقسیم کی گئی۔ میرا مدعا یہ تھا کہ جو بہنیں گھر میں موجود ہیں تو ان کا نہ صرف موروثی جائیداد میں حصہ ہے بلکہ ہر بھائی کیساتھ بھی ان کا حق ہے۔ البتہ بھائیوں نے جو کچھ بھی کمایا ہے تو وہ ان کا اپنا ہے۔ کسی بھائی کو دینا چاہتے ہوں تو یہ ان کا احسان بھی نہیں ہوگا کہ بھائی کا بھائی پر احسان نہیں لیکن نہیں دے گا تو حق بھی نہیں ہوگا۔ لیکن میری بات کو نہیں مانا گیا اور عبدالرحیم کی چل گئی اور پھر ہمارا بھی کباڑہ ہوگیا تھا۔

سبحان شاہ کی اولادکا تعلق وزیرستان نہیں ٹانک سے تھا۔ ٹانک میں بھی آباد کار تھے اور سید یوسف رضاگیلانی کے خاندان سے ان کی رشتہ داری ہوسکتی ہے لیکن شاید یہ حسینی سادات تھے۔ ہر طرف سے انکار کے باوجودمجھے گمان تھا کہ ہمارا شجرہ ایک ہے اور شجرے کے پیچھے کچھ مربھی رہے ہیں۔صرف نظر بعض معاملات میں اچھی ہوتی ہے لیکن ان کی وجہ سے آخر میں ہمیں بھی نقصان پہنچ رہاتھا اور ان کی عادات بھی بگڑرہی تھیں تو انکو پھینکا بلکہ اس طرح سے پٹخ دیا کہ تاریخ کے سارے گم شدہ اوراق بھی سامنے آگئے۔ میں نے حقائق لکھے کہ صنوبر شاہ کی اولاد نے مظفرشاہ کی اولاد پر ظلم کیا ۔پھر عبدالرحیم کا رشتہ ہوا تو اکٹھی تین طلاق اور حلالے کا مسئلہ آگیا ۔ حلالہ کا میں قائل نہیں تھا اور ایسی پوزیشن بھی نہیں تھی کہ رشتہ ختم کیا جاتا تو ان کی وجہ سے قرآن کی طرف رجوع کیا اور جب مسئلہ سمجھ میں آیا تو نہ صرف وہ عزت بچائی بلکہ اخباراور کتابوں میں واضح کیا۔ اللہ فرماتا ہے کہ” ہوسکتا ہے کہ تمہیں کوئی چیز بری لگے اور وہ تمہارے لئے خیر ہو”۔ پاکستان نے بہادری دکھائی تو افغانستان نے پہلی بارعید ساتھ منائی۔ میں نے تصوف میںپیر کے ہاتھ مردہ بدست زندہ کا کردار ادا نہیں کیا۔ البتہ ضرورت پڑی تو کراچی کے دنیا پرست اکابرکو تاریخی شکست دی تھی۔ شکرالحمد للہ۔ صحافی طاہر خان نے ملا ہیبت اللہ امیر المؤمنین کی نماز عید کے موقع پر امریکہ پر تنقیدکو تبدیلی قرار دیا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

شادی کیلئے 18سالہ کی شرط اور17 سالہ کاقتل

22سالہ عمر حیات سے 17سالہ ثناء یوسف شادی کرتی تو اسلام آباد کی عدالت سے سزا ملتی؟ یا فیصل آباد اور چترال میں شادی کرتے؟۔ مرد غیرت میں گرل فرینڈ کو قتل کرتا ہے اور بے غیرتی میں دیوث بیوی کو چلاتا ہے۔

اسلام آباد میں دنیا کے سفیر ہیں۔ اگر کسی کی 16سالہ لڑکی سے نکاح ہوا توسعودی عرب سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں لڑکی کیلئے 18 سال عمر ہے۔ جناح 16سالہ لڑکی سے نکاح کرتا مگراسکا والد راضی نہیں تھا۔ولی کی اجازت کا مسئلہ نہ ہوتا تو حکومت برطانیہ ہند میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی کے مطابق کوئی مداخلت بھی نہ کرتی۔ 18 سال تک پہنچنے کیلئے قائداعظم منتظر رہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ اگر غیر ملکی سفیر کی جواں سال بیٹی سے معاشقہ ہوا اور 16سال کی عمر میں نکاح رجسٹرڈ ہو تو پھر وہ اور اسکے بچے قانونی حق رکھیں گے اور اگر عمران خان کی طرح بعد میں طلاق ہوجائے تو ہر شخص تو عمران خان نہیں کہ بچوں کو ٹیرن وائٹ سمیت گولڈ سمتھ خاندان کے حوالہ کردے اورپھر جائیداد کے قانونی حق سے دستبردار ہو۔

پنجاب میں16سالہ لڑکی کو قانونی حق ہے اور اسلام آباد کارقبہ پنجاب کی سرزمین میں زیادہ نہیں۔ جڑوان شہر روالپنڈی میں فیلڈ مارشل حافظ سید عاصم منیر کے مدرسے کا مہتمم شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے دوست مولانا عزیر گل کا پوتا جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فاضل MScمیتھ مولانا سید عدنان کا کا خیل نکاح پڑھادے گا۔اسرائیل کا ظالمانہ وجود بھی عرب ممالک اور امت مسلمہ کیلئے قابل قبول ہے تو دودھ میں مکھی دیکھتے ہو اور مینگنیوں کی خیرہے؟ ۔

آبادی واہمیت میں دوسرا بڑا صوبہ سندھ ہے جہاں پہلے سے لڑکی کیلئے 18سال عمر کی شرط ہے۔ اس کی بنیادی وجہ غیر مسلم لڑکیوں کو تحفظ دینا تھا۔ 200کے قریب بالکل احادیث ہیں کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا۔ اگر سندھ میں یہ قانون ہوتا کہ لڑکی اسلام ولی کی اجازت کے بغیر قبول کرسکتی ہے لیکن نکاح نہیں ہوسکتا تو ہندو لوگ نہ صرف پاکستان اور اسلام کے شکر گزار ہوتے بلکہ حسینی ہندو کی طرح محمد ی ہندو بھی بڑی تعداد میں بنتے۔ اگر ہندولڑکی کو اغواء کرکے اس کو حاملہ بنادیا جائے تو پھر وہ خاندان کی شکل دیکھنے اور اپنی شکل دکھانے کے قابل نہیں ہوتی ۔

9جون لاہور کی خبر ہے کہ 4موٹر سائیکل سواروں نے باپ بیٹا سعید اور شمیر کو قتل کیا اور وجہ قتل دوسرے بیٹے حسن کی پسند کی شادی تھی۔ پولیس مقابلے میں مارے گئے۔

مولانا فضل الرحمن اور مفتی تقی عثمانی بتائیں کہ اسلام میں16سال یا بلوغت شرط ہے؟۔ تو کیوں رائج ہے؟۔ مفتی تقی عثمانی کا فتاویٰ عثمانی 2007پھر 2022 میں شائع ہوا، اس میں عورت پر نکاح کے حوالے سے جو مظالم ہیں اگر قومی اسمبلی یا سینیٹ یا صوبائی اسمبلیوں میں پیش کردئیے گئے تو عام لوگوں کی بات چھوڑ دو، علماء ومفتیان کا مذہبی طبقہ بھی لاٹھی لیکر مفتی تقی عثمانی کے پیچھے پڑے گا۔

مفتی تقی عثمانی نے فتاوی عثمانی جلد سوم میں بچیوں کے نکاح اور زبردستی کے نکاح پر جو فتوے دئیے ہیں وہ انتہائی شرمناک ہیں۔ اگر غیر عجم کی نسل سے لڑکے کا تعلق ہو تو زبردستی سے نکاح کے بعد عدالتی خلع بھی معتبر نہیں ہوگا۔ بچپن میں باپ نے نکاح کرایا ، جب لڑکی کی عمر گزرنے لگی تو رخصتی پر زور دیا۔ 5سال سے زیادہ عرصہ تک لڑکا غائب رہا تو عدالت میں خلع کا کیس کیا اور طلاق کے بعد دوسرے سے نکاح کیا اور کچھ عرصہ گزارنے کے بعد پہلا آیا تو فتویٰ دیا کہ پہلے کا نکاح برقرار ہے ، دوسرا الگ ہوجائے۔ قرآن وحدیث کی وضاحتیں ہیں کہ لڑکی پر زبردستی نہیں ہوسکتی لیکن مولوی جاہل نہ قرآن سمجھتا ہے اور نہ احادیث۔

اگر یقین ہوتا ہے کہ رسول اللہ ۖ نے حضرت عائشہ سے 6سال کی عمر میں نکاح کیا اور9سال کی عمر میں رخصتی تو یہ سنت سمجھتا لیکن واضح قرائن ہیں کہ اس میں سچ کا کوئی امکان نہیں۔ کیا بعثت نبویۖ کے 5 ویں سال عائشہ کی پیدائش ہوئی پھر نبیۖ کا رشتہ آیا تو اس مشکل ترین دور میں ابوبکر نے چھوٹی بچی اسلام کے دشمن کو نکاح میں دی ؟ پھر ابوبکر نے پوچھا تو اس نے کہا کہ ”تم لوگوں نے اپنا دین بدل دیا ہے اسلئے اب یہ رشتہ ختم ہے”۔ جبکہ دین بدلنے کے ہی بعد یہ رشتہ لیا گیا تھا؟۔جب اس وقت حضرت عائشہ کی بڑی بہن حضرت اسمائکی عمر16سال تھی۔

16سالہ بیٹی کو چھوڑ کر 6سالہ بچی جس کا رشتہ طے تھا تو وہ مانگ لی؟۔رسول اللہۖ نے نہیں فرمایا کہ مجھ سے عائشہ کا نکاح 6سال میں ہوا اورکسی صحابی سے منقول نہیں۔ کسی تابعی نے بھی نہیں کہا۔ ہشام تیسری پشت میں حضرت ابوبکر کے پڑ نواسہ تھے۔بنی امیہ کے خاتمے اوربنی عباس کے دورمیں تھے۔جیسے سوشل میڈیا کا عنوان بکتاہے تو اسی طرح نوادرات احادیث کی تجارت شروع ہوگئی تھی۔

دنیا میںنکاح کیلئے18سال کی شرط بیوی کے حقوق کیلئے ہے اوراسلام نے زیادہ حقوق دئیے ہیں لیکن جب عورت کے سارے حقوق معطل کردئیے گئے تو پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ 16سال کی عمر میں نکاح ہویا18سال میں؟۔

قرآن نے جاہلیت کی رسم کو ختم کرکے طلاق کے بعد صلح کی شرط پر عدت میں رجوع کو واضح کیا ہے لیکن مولوی چاہتا ہے تو حلالہ کے بغیر صلح کے باوجودرجوع نہیں کرنے دیتا اور جب چاہتا ہے اگر عورت صلح پر راضی بھی نہ ہوتو مولوی رجوع کا حق دے دیتا ہے بھلے عورت کویہ فتویٰ بھی مل جائے کہ اسکے ساتھ بدکاری ہورہی ہے۔ مریم نواز اور شہباز شریف عورت کے مسائل حل کرنے کیلئے کچھ کریں۔ اگر نوازشریف طاہرالقادری کو کاندھے پر غارِ حراء تک چڑھا سکتا ہے تو قرآن کی آفاقی اور فطری تعلیمات کو عام کریں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اسلام کی نشاة ثانیہ اور کانیگرم :گزشتہ

کانیگرم خضر کا مرکزہے بحوالہ تاریخ پیرروشان انصاری … سید کبیرالاولیاء کی آمد، ابوبکر ذاکر کی خوارج کے ہاتھوں …کانیگرم قبائل نے لگ بھگ60خوارج قتل کرکے بدلہ …مدفون اسکا مرید ہے نہ کہ ابوبکر ذاکر …تاریخ درست رکھنا … پیر اورنگزیب شاہ کی شہادت ایک واقعہ کربلا…جس نے قبائل کی سیاست کا نقشہ تبدیل کردیا…اگر قوم و قبیلہ کو حکمرانی کی طرف لیجانے والا مجدد سبحان شاہ … تو جنکے آباو اجداد نے بدن زئی کی غلامی قبول کی ۔… ہم سادات کے غلام ابن غلام ہیں۔ بس دلوں سے نفرت کا بیج ختم کرنا ہے،نہ کہ بجھتی چنگاریوں کو پھونکیں مار کے نفرت کا شعلہ جلانا، شاہ صاحب محترم سے معافی کا خواہشمند ہوں۔میدان جنگ میں بدن زنی کو ہر اول دستہ پائیں گے۔ آپ کے اولاد پر ہماری جان بھی قربان ، ہم ہیں تو کیا غم ہے۔شاہ صاحب اشارہ کوا بیایہ تماشا کوا۔ پیران پیر

تبصرہ2:آستانہ ابلیس ننھیال کو جواب

موخو شہ کہ ولے کانی ومہ غازہ ولے

(میں تو تمہیں ٹھیک کررہا تھا مگر افسوس کہ یہ تو تجھے لٹادیا )
جن کو ہر رنگ میں جینے کا کمال آتا ہے
ان کے آئینۂ دل میں کہیں بال آتا ہے
یوں تو منصور بنے پھرتے ہیں کچھ لوگ
ان کے ہوش اُڑ تے ہیں جب سر کا سوال آتا ہے
ہم کہ آزاد ہیں خوش باش پرندوں کی طرح
کچھ بھی ہوتا رہے کب دل میں ملال آتا ہے
کیوں انہیں خبط محبت کا ہے جن کے آگے
جینے مرنے کا محبت میں سوال آتا ہے
جن کے محتاج شہنشاہ بھی ہیں اے عاقل
ہم فقیروں کو اک ایسا بھی کمال آتا ہے

سبحان شاہ کے وزیرستان میں خیمہ تھے گھرنہیں۔ کانیگرم سے مغرب کی جانب منور شاہ و مظفر شاہ کاقتل، لاشوں کو مشرق بادینزئی لے گئے؟۔ گھر اورقبرستان تھا تو صنوبر شاہ دوسری جگہ کیوں قتل اور دفن ہوتا؟۔ خورشید کا بیٹا اعزاز شیرخواری میں ماں کے حوالہ ہوا تو اجداد تک آ گیا ۔ ساؤتھ افریقہ سے شیر نواز برکی کی لاش لائی گئی۔ بادینزئی ہوتے تو انگریز کیلئے کاروائی وہیں کرتے؟۔ وزیر انقلابیوں کو گومل ڈیم کے مقام پر قتل کرایا ؟۔ جٹہ قلعہ توبعد میں لیا۔ سلیمانی ٹوپی پہنے منہاج کو پتہ ہے کہ کرایہ کے ٹٹو تھے ۔ خالد نے اثاثہ بیچ کر ٹھیکہ لیا تو میں نے اورنگزیب کو بتایا کہ چوری ہے تو کہا کہ لاکھ روپیہ انعام اگر جہانزیب نے ضیاء الدین سے4آنا چوری کیا ۔ اگر کہتا کہ یہی ہے توبھائی خفاہوجاتے۔یہی اعتماد شہادت کا باعث بن گیامگر خالد ذاتی گھرپر اور یہ سسرال کے در پر۔ کوئی جئے کھلے جگر پر ، کوئی کھیلے چھپے کنہ بر پر۔ہمیں سیدامیرسیدکبیر پر شکر۔ تم کروفخر سیدا کبر پر!
عابد سرکٹا شجرہ دکھاؤ۔ ہمارا تو قبول نہ تھا۔ اوچ شریف سید ایوب شاہ کیساتھ جو گئے تو جعلی شجرہ نسب بنانے پر زور دیا تھا۔ سیدایوب شاہ نے کہا کہ ”میرا اپنا ٹھیک ہے”۔ تمہارے والوں نے بات اڑائی کہ ”بابوویل کا شجرہ بھی جعلی نکلا”۔ہم پر کوئی اخلاقی دباؤ نہیں تھا اسلئے پرواہ نہ تھی مگر تھے ہم تم الگ الگ۔
سندھ کے قصائیوں نے فیصلہ کیا کہ ”ہم آئندہ خود کوقریشی کہلوائیںگے”۔ انجمن قریشاں کی تنظیم ہے۔ مجھے کوئی غرض نہیں کہ تم بادینزئی ہو کہ سید؟۔ یہ تم طے کرو۔ مشکوک ریلے کی پیداوار فالتو کتاہوتاہے لیکن بغیر ماں باپ کے فیک اکاؤنٹ سے بھونکنے والو کو سمجھاؤ ورنہ تو پھر روئیں گے۔انشاء اللہ العزیز

 

فیک اکاؤنٹ میں گرم لڑکیوں یا انکے بھائیوں کو تکلیف؟ گواہ ہے کہ شرعی نکاح کی تجویز دی ۔ منہاج غلط بکتاہے کہ میرا والد چرس پی کراس کی پھوپھی کا نام لیکر پہاڑ میں جھومتا تھا۔
ولاتھنوا فی ابتغاء القوم ان تکونوا تألمون فانھم یألمون کما تألمون و ترجون من اللہ مالایرجون وکان اللہ علیمًا حکیمًا (النسائ:104)
”اور رنج نہ کروقوم کی گالی دینے پر،اگر تمہیں درد پہنچا تو ان کو بھی درد پہنچا جیسے تمہیں پہنچا۔ تم اللہ سے وہ اُمیدیں رکھتے ہو (انقلاب کی) جو وہ نہیں رکھتے ہیں اور اللہ علیم حکیم تھا ”۔

عابد بھائی !کانیگرم کے محسود،بادینزئی ،سفیان خیل سے لیکر سید گیلانی تک گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا غلطی نہیں تمہارے پردادا مظفر شاہ کو قتل کرواکردادا سرور شاہ کو بچپن میں یتیم بنادیا۔ فراڈ کمپنی نے جوبھی کہانی گھڑی ہے کسی نے پوچھاتک نہیں؟۔ یہ توپاکستان ہے یہاں قائداعظم کے جعلی پوتے بھی بنتے ہیں۔

BBCرپوٹ:کراچی نارتھ ناظم آباد میں اسلم جناح ساٹھ سالوں سے کسمپرسی کی زندگی گزاررہے ہیں۔
حکومت پاکستان نے اسلم جناح نامی شخص جو بانی پاکستان محمد علی جناح کا پڑپوتا ہونیکا دعویٰ کرتے ہیںانکو نقد انعامات، وظیفے ، ایک گاڑی اور سرکاری رہائش گاہ فراہم کی ہے۔ کراچی سے جب اسلم جناح اپنی بیگم اور معذور بیٹی کیساتھ گزشتہ دنوں اسلام آباد ائیرپورٹ پر پہنچے تو کئی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے پھولوں اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے استقبال کیا۔ انہیں قومی اسمبلی لے جایا گیا ، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے انہیں خوش آمدید کہا ۔ اس موقع پر وزیراعظم نے انہیں گاڑی کی چابی اور چھ لاکھ روپے کا چیک دیا۔…BBC:2014
صحافی بلال غوری نے بتایا کہ اسلم کھتری نے اسلم جناح تک کا سفرکیسے طے کیا؟۔ حمید نظامی بانی نے یہ تجویز دی تھی۔

 

عابد! تیرے باپ نے کبیرالاولیائکے مزار کی تعمیر کے نام پر سرکاری پیسہ کھایا ۔احمد یار معذور بیٹی کو لیکر سویڈن سیاسی پناہ لیتا تو کہتاکہ ہم نے دہشتگردوں کا بے جگری سے مقابلہ کیا۔ سیداکبراورملاعلیزئی کی طرح منہاج اور مولانا آصف تقریب کی زینت بنتے۔ حالانکہ دلوں کا گھر گڑھ تھااورISIنے گاڑی پکڑ کربارود سے اُڑائی تھی۔منہاج میرا نقش انقلاب امریکن سینٹر میں دیکھ آیا تھا۔CIAنے اسلامی انقلاب کا راستہ روکا۔

اکبر علی کی بات کو شہرت مل گئی کہ نوید کے سسر منظور برکی کو کہا کہ خود کو پیر مت کہو ،پیر وہ ہوتا ہے جس کی ماں پر پیر چڑھا ہو۔ پولیس افسر جیل چیف شیخ سے قاری اختر نے میراکہاکہ پیرہیں ، مشقت نہ کرائیں۔ چیف نے کہا کہ اگر یہ مجھے بھی پیر کہے تو مشقت نہ کرے۔ میں نے کہا کہ پیر کی3 اقسام ہیں۔بوڑھا، پیر طریقت اور جس کی ماں پر پیر چڑھا ہو، تجھے کونسا پیر کہوں؟۔اس نے سخت ترین مشقت پر لگایا ،ایک انچارج نے انکار کیا تو دوسرا مجھے کہنے لگا کہ ناراض نہ ہونا مجبوری ہے گالیاں دوں گا۔ میں نے کہا کہ دانت نہ تڑواؤ۔قصوری بنوں تو شیخ کے توڑوں گا اور چوتھی قسم تعویذ فروش اور پانچویں حسد ہے۔ احمدیار کا مہدی منظور پشین ہے۔اگر مولانا آصف کو مان لیا تو حلالہ اور حرمت مصاہرت سے پشتو اور دینی غیرت کھونے کا بیڑا غرق ہوگا۔

 

فتویٰ : چند لوگوں نے ……اور خودساختہ گیلانی سید بن گئے۔ کچھ افرادنے عدالت میں کیس کیا تو طاہرالقادری کے پیر کا شجرہ پیش کیا تو جعلسازی پکڑی گئی مگر باز نہیں آئے۔ خود ساختہ گدی نشین تعویذات کا کام کرتے ہیں۔ شریعت مطہرہ کی روشنی میں فتویٰ سے مستفید فرمائیں کہ ان جلعسازوں پر شریعت میں کیا حکم نافذہوتا ہے؟۔ سائل:صاحبزدہ عمراویس شاہ اسلام آباد تاریخ اشاعت28فروری2020ء

جواب : اسلام میں نسب تبدیل کرنا سختی سے منع اور سخت وعید آئی ۔ نبی کریم ۖنے فرمایا:لیس من رجلٍ ادعی لغیر أبیہ وھو یعلمہ الا کفر ومن ادعی قومًا لیس لہ فیھم فلیتبوأ مقعدہ من النار ”جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کرے تو اس نے کفر کیا اور جوایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں سے نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے”۔

(صحیح بخاری اورصحیح مسلم) عن ابن عباس قال قال رسول اللہۖ من انتسب الی غیر أبیہ او تولّی غیر موالیہ فعلیہ لعنة اللہ والملائکة والناس اجمعین جس نے اپنے باپ کے غیر سے نسب ظاہر کیا یا اپنے آقا کے غیر کو اپنا آقا بنایا تو اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ (ابن ماجہ، کتاب الحدود )

درجہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ جان بوجھ کراپنا نسب بدلنا اور خود کو اپنے اصلی نسب کی بجائے کسی اور سے منسوب کرنا حرام ہے۔ سوال میں مذکور شخص نے بھی اگر واقعتا جان بوجھ کر اپنا نسب تبدیل کیا ہے تو حرام عمل ہے۔ جس پر خدا کے حضور جواب دہ ہے۔ اس کی دیگر جعلسازیاں بھی قابلِ مذمت اور ناجائز ہیں۔ مفتی عبدالقیوم ہزاروی۔ منہاج القرآن لاہور

 

طاہر منکر حدیث بن جائے گا اسلئے قرآن بھی دیکھو۔

ادعوھم لاٰباھم ھو اقسط عنداللہ فان لم تعلموا اٰبائھم فاخوانکم فی الدین وموالیکم ولیس علیکم جناح فیما اخطأتم بہ ولٰکن ماتعمدت قلوبکم وکان اللہ غفورا رحیماO(سورہ الاحزاب:آیت:5)
”انہیں انکے اصلی باپوں کے نام سے پکارو۔ یہی اللہ کے نزدیک پورا انصاف ہے۔ اگر انکے اصلی باپوں کا پتہ نہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اورتمہارے دوست ہیں۔اور اگر تم نے غلطی سے ایسا کیا تو تمہارے اوپر کوئی گناہ نہیں مگر یہ کہ تمہارے دلوں نے جو جان بوجھ کارنامہ انجام دیا اور اللہ غفور رحیم ہے”۔

 

عابد ! سبحان شاہ کی اولاد اورکرار خیل ہمار ے دینی بھائی اور دوست ہیں مگرسیدکبیر الاولیاء کی اولاد نہیں ۔ جب تک پتہ نہیں تھاتو خیر تھا ۔ جب پتہ لگا تو فیک اکاؤنٹ والے جو ہیں سو ہیں لیکن جو اچھے ہیں وہ ہمارے شجرہ کی طرف نسبت نہ کریں۔ پہلے میرا حقائق کی طرف دھیان نہیں گیا تو میری غلط فہمی کی وجہ کچھ اورتھی لیکن روایتی درایتی ذرائع اور ٹھوس حقائق یہی ہیں۔

دیانتداری کیساتھ سبحان شاہ کی اولاد میں آپس کی نفرت ختم کرنے کیلئے واضح کیا تھا کہ خانی سبحان شاہ کی وراثت نہیں تھی بلکہ لاوارث میانجی خیل سے عورت کے رشتہ سے منتقل ہوئی۔ تاکہ محروم افسوس نہیں کریں اوربراجمان اس پرفخر نہیں کریں۔

 

جاسوسیہ نے انگریزی خط میں جن جذبات کا اظہارکیا کہ خاندان دہشتگردوں کے حملے سے بدنام ہوگیا تو پردہ اٹھتا گیا ۔ جھوٹ کے پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑگئے ۔ اگر بغیرماں باپ والے اکاؤنٹ باز نہ آئے تو پھر سچ بہت رُلانہ دے۔

پردے میں رہنے دو پردہ نا اُٹھاؤ
پردہ جو اُٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا
اپنے دل مضطر کو بیتاب ہی رہنے دو
چلتے رہو منزل کو نایاب ہی رہنے دو
تحفے میں انوکھا زخم حالات نے بخشا ہے
احساس کا خوں دے کر شاداب ہی رہنے دو
وہ ہاتھ میں آتا ہے اور ہاتھ میں نہیں آتا
سیماب صفت پیکر سیماب ہی رہنے دو
گہرائی میں خطروں کا امکان تو زیادہ ہے
دریائے تعلق کو پایاب ہی رہنے دو
یہ مجھ پہ کرم ہوگا حصے میں مرے اے دوست
اخلاص و مروت کے آداب ہی رہنے دو
ابہام کا پردہ ہے تشکیک کا ہے عالم
تم ذوق تجسس کو بیتاب ہی رہنے دو
مت جاؤ قر یب اس کے ایک گہن بن کر
گھر میں اسے اپنا مہتاب ہی رہنے دو
جب تک وہ نہیں آتا اک خواب حسیں ہوکر
تم اپنے شبستاں کو بے خواب ہی رہنے دو
وہ برف کا تودہ یا پتھر نہ بن جائے
ہر قطرۂ اشک سیلاب ہی رہنے دو
وہ بحر فنا میں خود ڈوبا ہے تو اچھا ہے
فی الحال ظفر اس کو غرقاب ہی رہنے دو

 

عابد! آپ منہاج کیساتھ پشاور آئے اورمشترکہ خانقاہ کی استدعا کی جومیں نے مسترد کی۔ آپ کے والد نے آپ کے بھائی مولانا آصف کیلئے خواہش کا اظہار کیا کہ حیات آباد پشاور میں کوئی بڑی اور اچھی تنخواہ والی مسجد مل جائے۔ گھرکے قریب علماء مسجد پر لڑرہے تھے تو اگر میں امیرالدین سے کہتا کہ میرے لئے قبضہ کرنا توبھائی میری اتنی پٹائی لگاتا کہ نسلیں یاد رکھتیں۔ تعویذ، مسجد، مدرسہ اور سیاست کسی بھی عنوان سے مذہب کا دھندہ غلط ہے۔ میرے والد نے کہا: ”اگر عالم دین بن گئے تو میرے لئے اس سے زیادہ فخر کی کوئی بات نہیں لیکن اگر سحری کا کتا بن گئے تومیرے لئے بڑی شرمندگی کا باعث ہوگا”۔

سنگی مرجان محسودنے پرائیویٹ سکول سرکاری فنڈ کیلئے بلایا اور میری اکیڈمی شرائط پر پوری تھی۔6لاکھ میں3لاکھ کی واپسی لمبی مدت اورآسان اقساط پر تھی ،3لاکھ امداد تھی۔ اپنی ریاست تھی اور قوم کے بچوں کی خدمت کا پیسہ تھا لیکن سود ی معاملہ بھی شامل تھا اسلئے نہیں لئے۔ سنگی مرجان نے کہا کہ3لاکھ نقد میں سود نہیں۔ تو میں کہہ دیا معاہدہ پر دستخط نہیں کرنے۔ یہ تکبر نہیں تھا بلکہ ا ن کا اپنے دل میںبڑے بھائی کی طرح احترام تھا۔

 

عابد !گمشدہ قبریں، تن کے بغیر شجر اور فیک اکاؤنٹ مسائل کا حل نہیں۔ چند غیرتمند اور سنجیدہ افراد کو بٹھاکر ان کے نام کیساتھ ایک ایک مسئلے پر بات کرو اور تاریخ کو درست کرو۔

عابد!جن بجھتے چنگاریوں کو بجھانے کی تجویز ہے تو کس نے شہداء کے خون سے بجھانے پر میٹنگ کی ؟۔ ہماری بہن اپنے بچوں کیساتھ بیٹھ گئی تو ہمارے اور پشتو رسم میں فرق تھا اور جن کو طعنہ ملا کہ بے غیرت کی غیرت مزیدخراب کی گئی تو طعنہ زن کی بیویاں بٹھاکر100درجہ زیادہ بے غیرت بنادیا۔ ان کی بہن اور بچوں کے ذریعے پھر سبق بھی سکھادیا۔ پٹھان غیر مند قوم ہے جب پریکٹیکل داستانوں کا پتہ چلے گا تو معاشرتی انقلاب بھی آجائے گا اسلئے کہ غیرت اور بے غیرتی کی تمیز آئے گی۔

 

یوسف شاہ کو اگر بتاتا کہ طعنہ زنوں کی کتیا والی کردی توپورا مطمئن ہوجاتا۔دوسرا مسئلہ پیرشفیق کا ایک ملاقات کی مار ہے۔ اسکے والد نے قدر کی ۔اسکے بھائی نےPIAجہاز میںمیری عزت افزائی کی۔ پشتو فیصلہ کیا تو مسئلہ غیرت کا نہیں دھوکہ تھا۔ دھوکہ باز گلٹی وہ گلاٹیاں کھائے کہ سر و پچھاڑی کا پتہ نہیں چلتا۔ بے غیرتی پر ساتھ نہ دیتا ۔ قاری حسن شہید نے بتایا کہ دھوکہ اور غلط کیا ۔ حاجی رفیق شاہ نے کہا کہ میں نے بے عزتی سے بچایا اوروہ جانتا تھا۔حاجی عبدالرزاق نے کہا کہ اللہ سے عزیزوں کی دشمنی قہر مانگتاہوں۔ جس پر ڈاکٹر ظفر علی شاہ کانوں کو ہاتھ لگارہاتھا۔ لیکن کیوں کہا؟۔ لوگ تاریخ سے واقف نہیں ہیں۔

 

وقت کرتا ہے پرورش بر سوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

 

پتہ تھا کہ اوقات نہ دکھائی تو شرہوگا۔ اگر دل بند ، مظفر شاہ اور منور شاہ کو دھوکہ سے قتل کروادیا تو طعنہ دھوکہ کھانے والے کو نہیں جاتا۔ دھوکہ باز ڈوب مرے۔جو شریعت، پشتو، فطرت، انسانیت، اخلاقیات سے عاری من شرما خلق ہیں اور من شرحاسد میں مبتلا ہیں۔ لالچ بری بلا ہے، لالچی بڑا دلا ہے۔ پرائے گو پر پدو مارنے والا نہیں جانتا کہ اپرکانیگرم میں ایک خان اور تھا لیکن اسکا نام وشان نہیں ۔تم چپکتی ڈھیٹ مٹی ہو۔

مظفرشاہ کے یتیموں کو کانیگرم کی خانی میں شریک کیا جاتا تو قربانی کا ازالہ ہوتا۔ پھر اس کی اولاد یہ تشہیر نہ کرتی کہ مظفرشاہ بہادری پر قتل ہو اور صنوبر شاہ بدکاری پر ۔پھرصنوبر شاہ کی اولاد نے مظفر شاہ کی اولاد کوبالکل اچھوت بناکر ہی دم لیا تھا۔

سیداکبر کا ایک نواسہ محمود اور دوسرا خان بابا پیرعالم شاہ تھا۔ محمود کے بعد خانی پیرعالم شاہ کو لوٹادیتے مگر اس کو داماد بنادیا۔ جو اپنی بس کی کمائی اپنے چچا پیرمبارک شاہ کے سکول کیلئے دیتا تھا۔ مونچھ لالا کی اولاد سے ماں جھوٹ بولتی بقیہ صفحہ ھٰذا نیچے ہے کہ خان بابا کی اولاد کا سوئی دھاگہ تک خرچہ اٹھاتے تھے۔
وزیر قوم کو انگریز کے نمک خوارنے بدنام کیا کہ امید خور ہیں لیکن انگریز کی لکھی کتاب میں نیٹ پر ہے کہ ”سید اکبر اور صنوبر شاہ نے بھاڑہ لیکر7 وزیر انقلابیوں کو شہید کیا تھا۔جن میں دو خاص افرادتھے”۔ ضمیر فروشوں کا ذکرہے مگر انقلابیوں کا نہیں۔ انگریز نے ہماری تہذیب وتمدن اور تاریخ کو مسخ کیا ۔ قرآن میںتاریخی واقعات واشگاف ہیں۔ بریت لالا، بغیر بریت لالا سے بے غیرتی کے عروج تک پہنچنے کی داستان ہے ۔الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی بے غیرتی اوربے حیائی ختم کرنی ہوگی۔

 

کیا سلطان اکبر نے قاتل پر جھوٹا الزام لگایا کہ ”عورت سے تعلق پر صنوبر شاہ کو قتل کیا؟”۔ تاکہ بدلہ نہ لینا پڑے اور پھر محسود عورت سے حسین شاہ کی شادی بدلہ لینے کیلئے کرائی تھی؟۔ سلطان اکبر کی اولاد جیسے استعمال کررہی ہے اور حسین شاہ کی اولاد جیسے استعمال ہورہی ہے تواسDNAسے یہی لگتا ہے۔

سبحان شاہ سے انگریز ناراض ہوا اسلئے اچھا ہوگا ۔ سیداکبر نے باپ سبحان شاہ اور بھائی صنوبرشاہ کو استعمال کیا تو صنوبر شاہ اچھا ہوگا۔ منورشاہ ، مظفرشاہ اور حسین شاہ نے قربانی دی اسلئے یہ سبھی اچھے اور نعیم شاہ کو سسرسلطان اکبر نہ روکتا توقربانی دیتا۔ سلطان اکبر کو سسر نے روکا ہوگا اور محمدامین شاہ اس وقت چھوٹا تھا لیکن انکے بعد جو تاریخ رقم ہوئی ہے تو اس کا کیا بنے گا؟۔

جھوٹ گاؤں کے گاؤں نہیں تاریخ بہاکر لے جاتا ہے۔

 

غیرت تو جٹ میں پشتون سے کم نہیں لیکن ایک دوسرے کا ماحول نہیں سمجھتے۔ احمد خان کھرل نے انگریز سے کہا: ” ہم اپنی زمین، اپنی عورت اور اپنا گھوڑا کسی کو نہیں دیتے”۔ اس غیرت پر یوسف رضاگیلانی اور شاہ محمود قریشی کی نسلیں قربان ہوں۔
حسین شاہ کو ماں نے والدصنوبر شاہ بریت لالاکے قاتلوں کا پیچھا کرنے سے پکڑلیاجسکے بیٹے گل امین نے والد اور چچوں کا خرچہ اٹھایا۔ بجلی بل تک چار گھروں کا مشترکہ خرچہ تھا تو پھر کیسے بول دیا کہ ”خان کیلئے ایک جوتا لایا تھا جو نہیں پہنا؟”۔ کانیگرم اور گومل میں شاندار گھر اور گاڑی تھی۔ اگر خرچہ نہ اٹھاتا توبڑی جائیدادخریدتا۔ محمدامین شاہ نے کنکریاں اٹھاکر کہا تھا کہ گل امین کے پیسوں کا شمارکرنااس طرح ممکن نہیں۔ حسین شاہ عبادت میںماموں بابا پرگیا۔ اس کی غیرت مثالی تھی لیکن بیٹے عبدالرؤف اور پوتے اسرار شاہ کوکیسے استعمال کیا گیاہے؟۔

 

شہریار دلے کی جان پر آئے تو کہے گا کہ بیوی نے قتل کروایا تاکہ بدعمل مو نچھ لالا سے جان چھوٹ جائے ۔ قاتل پر ملی بھگت کا بھی بہتان بعید ازقیاس نہیں۔ یوسف شاہ نے ٹھیک کہاتھا کہ قبضہ کے پیچھے سعدالدین تھا جو ثابت بھی کردیا ہے۔

 

ڈاکٹر ظفر علی تو بھائیوں سے زیادہ اچھا ہے۔ بھتیجی کے نکاح پر بغیر پوچھے وکیل بن گیاتوارشد شہیدکا نکاحOK۔جبکہ میری بھتیجی کا نکاح میں نے بھتیجے سے کرایا تو دوبارہ پڑھادیا۔ ڈاکٹر کے والداور میرے والد کی3،3 بیگمات کے رشتے چٹائی کے تنکے کی طرح ہیں۔ سعدالدین اپنی بیگم اور اس کی اولاد کو لوہار کہتاہے۔ عبدلائی کو میراثی قراردیا اور برکی کو ہلکا سمجھتا ہے۔

کانیگرم میںایک ہی محسود خاندان عبدلائی ہے جس نے سیدم برکی کو عورت کی بے عزتی اور غیرت پر قتل کیا۔ دیت کے بعد اس پر فائرنگ کی تو” تان قاتل محسود” سیدم کے والدکے سامنے آیا کہ چاہو تو قتل کرو اور چاہو تو معاف کردو۔ پھر سیدم کے غیرتمند باپ نے قتل کے بجائے معاف کردیا تھا۔محسود اور برکی قوم کی اسی فطرت پر علامہ اقبال نے شاعری کی ہے کہ

 

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی
جو فقر ہوا تلخیٔ دوران کا گلہ مند
اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی

ضیاء الدین نے کہا کہ زیب لالا کی وجہ سے پالتا تھا لیکن جب تھریٹ تھی تو کیا کیا؟۔ بعدمیں کیوں رکھا؟۔ اگر ہم ان کو پھینکتے تو کوئی نہ پوچھتا لیکن ہم نے چمٹائے رکھا تو وہ تعلق خراب کرتے؟۔ سردارامان الدین پروگرام میں آئے۔ منہاج نے کہا کہ آپ کی صفائی پیش کی کہ خود آیا تھا؟حالانکہ ضرورت نہ تھی ، ایک غلط خانی دلائی اورابھی تک باجگزاری نہیں چھوڑی۔ لیکن واقعہ کے بعد کیوں رکھا؟۔کیا صفائی پیش ہوسکتی ہے؟۔

عیب کا تعلق کردار ، ایمان، غیرت ، بے حیائی اور لالچ سے ہے ،نسل سے نہیں۔ پیر یونس نے سعودیہ کی نوکری چھوڑ دی اور چائینہ کمپنی کی پیشکش مسترد کی ۔ مفتی محمود کی غلط سفارش پر اہلیت کے باوجودپیر نواز ایک مرتبہ نوکری سے رہ گیا تو ساری زندگی سرکاری نوکری نہیں کی ۔ جبکہ دوسری طرف نوکری کیلئے بس نہیں چلتا ۔ مجھ سے بیٹوں کی نوکری کیلئے سبیل پوچھی گئی۔

 

میرے والد کہتے تھے کہ نماز پڑھ لی تو اچھا لیکن نماز پڑھنے سے اللہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور حاجت مند کی ضرورت پوری نہیں کی تو پکڑے گا اسلئے کہ اللہ اترکر بھوکے کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اسی طرح ظالم ، لالچی و کمینے لوگوں کا ہاتھ روکنا بھی ذمہ داری ہے اور اس پر ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے۔انشاء اللہ

 

وھو القاہر فوق عبادہ و یرسل علیکم حفظة ً حتی اذا جاء احدکم الموت توفتہ رسلنا وھم لایفرطون ” وہ اپنے بندوں پر قاہر ہے اور تم پر محافظ بھیج دیتا ہے جب کسی کی موت آتی ہے تو ہمارے بھیجے فرشتے اس کو مار دیتے ہیں اور وہ رعایت نہیں کرتے”۔ (سورہ الانعام:61)

 

عزائیل کی طرح یہ کام اللہ انسان سے بھی لیتا ہے کہ جب کسی کی اخلاقی موت کا وقت آتا ہے تو ظالم کا کچومر اتارنے کیلئے اللہ کسی بندے کو کھڑا کرتا ہے۔ ایک بزدل ، لالچی، متکبر، ظالم ، بے حیاء اور بے غیرت جو قرار واقعی کی سزا کے مستحق ہیں اور دوسرے وہ جن پرلوگ دلوں کے آبلے پھوڑ رہے ہیں۔
ماموں کا جہاں بس چلا توکسی کی تذلیل میں کسر نہ چھوڑی۔ میں کمینہ لوگوں کی تذلیل میں آخری حد تک گزر تا ہوں اسلئے کہ انسان فطرت سے مجبورہوتا ہے۔ ماموں سعدالدین نے کہا:”میں غیرت اور خون بہانے میں اپنی ماں پر گیا ہوں”۔ مگراس نے اپنے ماموں سے کبھی تعلق نہیں رکھا۔غیرتمند ماموں کو چھوڑ دیا اور بے غیرت ہماری جان نہیں چھوڑتا۔ دوسراماموں ہوتا تو شہداء پر فخرکرتااور اپنے گھرپر کتوں کے ریلے کبھی نہ بٹھاتا۔

 

ان دلّوں اور دلّالوں نے ایک طرف خیبر ہاؤس میں ڈیرہ ڈالا تودوسری طرف شہداء کے40ویں پربھی نہ آئے ؟۔ خوف ولالچ کی ذلت سے مرنا بہتر تھا لیکن اب قعر مذلت کا کوب اپنی پیٹھ پرلئے گھومتے پھریں ۔ کہاں وہ شخص جو بارود لیکرحملہ کرنا چاہے اور کہاں وہ جو پالتاتھا؟۔ دونوں ایک نسل اور نسب کے لیکن ایک فخرابابیل اور دوسربڑاادلابادلیل اور ذلیل۔کوئی بھی جرگہ، عدالت، فورم اور میدان ہو ثبوت دوں گا۔انشاء اللہ

 

سنبیعکم ولٰکن لمن ؟یا مقطوع الدبرو الانف والذقن
ما علاقة بناالا الختن لستم نسل الکبیروالجیلی والحسن ان کیدکم بعون اللہ وفضلہ من بیت العنکبوت اوھن
کیف انسٰی یدور فی ذہنی دماء الضیوف الشہداء اثخن

”ہم تمہیں بیچیں گے مگرکس کو؟۔ اے کٹے ہوئے دبر، ناک اور ٹھوڑی والو!۔ تمہارا ہم سے کوئی تعلق نہیں مگر عورتوں کے رشتے والا۔ تم کبیرالاولیائ ، جیلانی اورحضرت حسن کی نسل نہیں ہو۔ بیشک تمہارا مکر اللہ کی مدد اور فضل سے مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ کیسے بھول جاؤں،میرے ذہن میں مہمان شہداء کا خون گردش کررہاہے جو بہت زیادہ بہایا گیا” ۔

 

عابد ! پڑوسی نے عورت کے مسئلے پر تین افراد کو قتل کیا۔ یوسف نے کریم کا رشتہ چھین لیا تو افسوس کی جگہ سبحان شاہ کی اولاد خوشی منارہی تھی۔ الیاس و عبدالمنان کسی نتیجہ پر پہنچ گئے۔ میرا جس طبقے سے واسطہ پڑا۔ یہ بے غیرتی، لالچ، طعنہ زنی، الزام تراشی ، حسد وبغض ، گالی اور غرور وتکبر سے لداہواہے۔

دوا پنجہ کی تقسیم میں ہماری50کنال زمین تھی۔ایک بے غیرت سے کہا کہ والد نے2کنال مسجد کیلئے دی تو اس نے کہا کہ ہم30کی جگہ32دیں گے۔جبکہ ان کی کل30کنال تھی ،20کنال یوسف کی تھی، مسجد کی کاٹ کر18واپس کی ۔ بھوک ، بھیک اور لالچ سے بھی مرتے ہیں اور تکبر بھی ہے۔جو کچھ انکے ساتھ ہوا ،میں تو صرف تاریخی آئینہ دکھارہا ہوں۔

30 میں ریاض کا حق ساڑھے7کنال مگر3ملی ۔ چچا انور شاہکی دن کی کمائی تنخواہ کے برابر تھی۔1500کنال سرکاری ریٹ پر زمین میرے والد کو واپس کردی۔ لالچ ہوتی تو جاگیر بناتا یازیادہ قیمت پر بیچ دیتا۔ بیوہ بہن کے ہاں عارضی گھر شاید اسلئے بنایا کہ کوئی زرداری کٹ نہ مارلے۔ قسمت خان نے گھر کیلئے مفت زمین کی پیشکش کردی ۔خریدی اسلئے نہیں کہ شفہ کا خوف بجا تھا ۔کوئی بے شرم بلا تھا۔اس نے انگریز میجر کی پٹائی لگائی تھی اور شرافت کا پیکر کہتا تھاکہ” یہ فیڈر پر چلتے ہیں، جس دن فیڈر بند کیاتو چلائیں گے”۔ ان کے پیٹ کا مروڑ اب بھی میں جانتا ہوں۔گالیوں کے ذریعے بے نقاب اسلئے کررہا ہوں کہ جو نہیں پہچانتے وہ اس دفعہ ان کو خوب پہچان لیں۔

 

اگر کبھی تیرے آزار سے نکلتا ہوں
تو اپنے دائرۂ کار سے نکلتا ہوں
کبھی اس کے مضافات میں نمود میری
کبھی میں اپنے ہی آثار سے نکلتا ہوں
وداع کرتی ہے روزانہ زندگی مجھ کو
میں روز موت کے منجدھار سے نکلتا ہوں
رکا ہوا کوئی سیلاب ہوں طبیعت کا
ہمیشہ تندیٔ رفتار سے نکلتا ہوں
اسے بھی کچھ مری ہمت ہی جانیے جو کبھی
خیال و خواب کے انبار سے نکلتا ہوں

 

دوا پنجہ کی تقسیم۔ یہ الٹی گنگا دیکھئے گا

ریاستی ادارے عدالت، پولیس، فوج ، سول بیوروکریسی اور علماء کے کردار پر بحث کے بجائے اپنے گھر کا معاملہ تو ٹھیک کریں۔
مظفر شاہ کم بخت لالا صنوبر شاہ بریتو لالا منور شاہ چشم بدورلالا

4بیٹے 4حصے 3بیٹے 6حصے 1بیٹا 5حصے

کانیگرم میں سبحان شاہ کی اولادنے یہی زمین موروثی مال سے خریدی۔ منور شاہ کابیٹا نعیم،پوتا خالام ۔ گومل و کانیگرم میں مظفر شاہ کے بیٹوں ،پوتوں پرظلم کیامگر ہمارے شیرسے کانیگرم میں مٹی پلید کرادی توبہانہ کیاکہ میں سمجھا بیٹھک ہے۔ پھر اسی پر قبضہ ہوا تو غیرت سلیمانی ٹوپی میں چھپادی۔ قصائی نے کسی کو گالی دی تووہ گاہک کو مارنے لگا۔ اس نے کہا کہ میں نے تو گالی نہیں دی؟۔ وہ کہنے لگا کہ اسکے ہاتھ میں ٹوکا ہے۔ جہاں غیرت کا تقاضہ تھا اور ٹوکا بھی نہیں مگر وہاں منافقت کھیلی گئی۔

 

عابد!تمہاری سیاست قسمت خان تک کنڈیکٹری گالی تھی1970قیوم خان ،1977مفتی محمود ،طالبان ،PTMہرچڑھتے سورج کے پجاری چمٹتے تو چماٹ ماری ۔ جب تک سورج چاند رہے گا، لالچ کا ستارہ ماند رہے گا۔ مظفر شاہ اور اس کی اولاد قربان ہوئی۔ حسین شاہ نے قربانی دی۔ محمدامین شاہ نے کشمیر کا جہاد لڑا۔پھر دواپنجہ کی تقسیم اورمزیدقبضے کااصل کردار سعدالدین اور دعویداریوسف شاہ تھا۔ میں نے عبدالوہاب سے کہا:”اس ظلم کے بدلے اپنی زمین نہیں لو” ۔ پیر داؤد سے جو زمین لی ہے تویہ شریعت اور نہ ضرورت بلکہ بری لالچ اورکھلی بدمعاشی ہے ۔ علی نے فرمایا کہ الطمع رقی مؤبد ”لالچ ہمیشہ کی غلامی ہے”۔اگر کہہ دیاکہ علی کی اولاد ہو تو زمین واپس کرو۔ توکہیں گے کہ یزید کی سہی مگر واپسی نہیں ۔ امام علی نے فرمایا:3سے دوستی نہ کرو۔ لالچی بیچ دے گاتو پتہ بھی نہ چلے گا۔ بزدل چھوڑ دے گا اور کم عقل فائدے کی جگہ نقصان پہنچائے گا۔

 

لالچ کے سمندر میں ایماں کی کشتی ہے
ہر قوم زمانے میں یہ دیکھ کے ہنستی ہے
جس قوم نے بھی اپنی تہذیب مٹا ڈالی
وہ قوم زمانے میں عزت کو ترستی ہے
گرد لالچ کی جمی ہے کس قدر افکار پر
کون جانے کیا لکھا ہے وقت کی دیوار پر
کاٹ ڈالا باغباں نے کتنے ہی اشجار کو
آشیانے تھے پرندوں کے انہی اشجار پر

اپنے ہاں بھانجے اور نواسے کی بچپن پر شرم آتی تھی۔ شہریار عطاء اللہ شاہ کا سوتیلا بھانجا تصویرکھنچواتے وقت کاندھے پر رکھا تو بڑا غصہ کیا ۔ جہانزیب کی پیدا ئش پر نانا اقدار کے مطابق قطعاًنہ آتااوربات چیت بھی بند تھی۔ہماری ہمدردی مظلوم مامی کیساتھ تھی۔ ماموں دوسری بیگم کا زن مریدتھا مگر جونہی پتہ چلا کہ چائے کے ڈبے نہیں پیسہ آیا تو گھر پہنچا ۔ بجلی نئی آئی تھی ، میٹر ہماری وجہ سے ماموں نے بہت اندر لگایا۔ہم نے جانا تھا اور میٹر لگانا نہیں تھا۔پل پل میں آنکھ بدلتی دیکھی۔پیرفاروق کے والدکو چکی والاتذلیل سے کہتے۔ پھراس کی چکی سے جٹہ بجلی پہلے آئی۔ عزت وذلت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ بے شرموںکا جھوٹ بھی تذلیل کا ہے شکر ہے کہ ریاض سے میں نے پوچھا۔

 

ماما کی پارٹنری کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ گنا کاٹنا مسئلہ نہ تھا مگر انکے کھیت کو ہاتھ لگانا بڑا جرم تھا۔ لڑائی پر معانی مانگنے آتے دیکھ کر نثار نے علاء الدین سے خود آگے بڑھ کر معافی مانگی کہ وہ عمر میں بڑے تھے۔ علاء الدین، عطاء اللہ، عالمگیرشاہ اور ڈاکٹر ظفر علی سبھی اچھے ہیں ۔البتہ ہنڈلروں نے کام خراب کیا تھا۔ اگر میں نہ ہوتاتو پیر غفار کو مجبور کیا جاتا کہ الیکشن ہاراتو گھر بار بیچو اور خود چھپتے اور دیگر کو استعمال کرتے ۔اگر یہ دلے نہ ہوتے تو رشتہ دار ،پڑوسی کانیگرم ، گومل میں سبھی قابلِ فخر تھے۔ایک مچھلی تالاب کو گندا کرتی ہے تواگر ہاتھی گرجائے تو؟۔ فیک اکاؤنٹ سے جتنی زیادہ بدبو آئے گی ، بزدلی اور کمینگی سامنے آئے گی۔

 

میں نے پڑوسی عبدالرحیم کا ٹریکٹر لگایا اور پھر خیال آیا اس کی دوسرے پڑوسی سے رشتہ کے معاملہ میں دشمنی تھی تو اس سے کہا کہ میں نے غلطی کی کہ آپ کولگایا۔ وہ ڈرتا تھا مگر میری وجہ سے کام کیا پھر بعد میں اس کو بھائی اور دوست سمیت قتل کردیا۔ یہ ہیں اقدار کہ مجھے بھی احساس تھا اور میرا بھی لحاظ رکھا گیا۔ لیکن مجھ پر فائرنگ کے بعد میرے بچے اور دوست خطرے میں تھے اور دشمن پل رہا تھا۔ جو کمینہ پن کی انتہا تھی اور میں نے منہاج سے کہا تھا کہ مجھے کچھ ہوا تومیرے بچے نقاب پوش نہیں پالنے والے سے بدلہ لیںگے۔ پھر واقعہ کے بعد بھی یہ گھرانہ پالنے میں تھوڑی شرم نہ کھاتا اور دوسری طرف رقم اور مفادات بٹورنے کیلئے چمٹا رہتا۔ ابھی ایک اشارہ پر مفاد کیلئے دوڑتے آئیں گے لیکن مفاد نہ ہو تو آنکھیں پیشانی پر رکھ لیتے ہیں۔ مظفر شاہ کی اولادکا طالبان بننا فطری تھا اسلئے کہ انقلابی پیر کے مرید تھے۔ محمد امین شاہ جہاد کشمیر اور تبلیغی جماعت میں گئے۔ حسین شاہ نیک تھے مگرماموں لوگوں کا تو دینداری اور پشتو سے کوئی تعلق نہیں۔ کہاں3افراد کا قتل کہ رشتہ لیاہے توپھردیتے کیوںنہیں ہو ؟۔ کہاں یہ جلن کہ بیٹی تھوپی ہے تو پھر بہن لیتے کیوں نہیں ہو؟۔ سورہ قلم میں خالد بن ولید کے باپ ولیدبن مغیرہ کو کتنی گالیاں پڑیں؟۔رئیس المنافقین کردار نمایاں تھا۔ سبحان شاہ کی اولاد مجھے اپنے چچازاد بھائیوں سے کم نہیں لگتی ۔ میرے کہنے پرTVنکال دئیے۔ سبحان شاہ کی غیرتمندبیٹی نے اپنے لخت جگر کے خون سے اپنا منہ دھویا اور اگر لوگ یہی کردار اپناتے توپھر فوج اورطالبان سے یہ گلے کا ترانہ نہ گاتے کہ ”ہمارے جوان قتل ہورہے ہیں ۔ہمارے گھر گر رہے ہیں”۔ قرآن نے حکمران کی اصلاح سکھائی کہ میرے پاس ایک دنبی اور اسکے پاس99دنبیاں۔ وہ ایک بھی چھینا چاہتاہے ۔اگر صحیح کردار پر آئیں توپھر امن وامان بھی قائم ہوجائیگا۔ انشاء اللہ

گالی پر نام لکھو!تو5ب بیوی، بہن، بھائی ، بیٹی ، باپ سے اپنے کرتوت کے باعث یاد گار بسم اللہ دیکھو۔ پھر احسان بھی بتادوں گا جس کو تم مانوگے اور انقلاب بھی آئے گا۔انشاء اللہ

کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کے ناؤ پر
تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ فروری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

SHOCKING ATTITUDE OF ULMAA DURING CORONA VIRUS

Though matter clearly defined in the Quran and Sunnah, even then Ulmaa and Mufteyan in this context are expressing the worst behavior.

While explaining the social problems, when God ordered clearly about”prayer of fear” that pay attention/protect praying especially mid-day prayer. If you are surrounded by fear then pray even if you are walking or riding. Now you feel that atmosphere around me had become peaceful then pray God(as you were usual in practice) as you have been taught whereas you were unknown about it earlier(Al Baqrah..238-239) Prophet Muhammad(PBUH) narrated that when you hear the voice /message for prayer, then offering prayer is not accepted and participation collectively for prayers becomes essential but in case of the fear condition, or in disease, offering individual prayer is valid/correct (Sunan Abu Dawood).

If this message of Quran and Sunnah would have been Public/widely circulated then apart from religious class, common educated persons in excess would be able to obtain guidance/benefitted from Quran and Sunnah. Ulama had inserted this thought in the brain of their followers(who possesses low I.Q) that”to avoid Regular and Jumma prayers are not correct.” We make efforts to find out the fatwa of old tenure Fuqhaa of Al-Azhar University but not a single evidence was traceable except about minimizing the prayers”.

They then changed their fatwa rapidly in such a way when someone changes his (tooth bridges of the mouth) before kids possessing low IQ and put them in surprise.

The donkey has nothing to do except dhenchoo dhenchoo? he has to content on this much.

When news listened regarding the existence of coronavirus in China, our Media started a debate that whether the government has to bring back the Pakistani students from China or otherwise? Than here Media persons quoted the hadith of the epidemic that arrival and depart from that particular area of China is also against Islamic Law. When it was aware that the virus has been spread in Pakistan, then the ban was imposed in Mecca and Madina with reference to offering 5 times prayer in mosque including Tawaaf and this news was public accordingly. Then after a Fatwa was issued/declared from Shaikh-ul-Islam Mufti Taqi Usmani and Mufti Azam, Mufti Muneeb-ur-Rehman regarding offering 5 times prayer in the masjid which includes Jumma prayer as well. Whereas, political leaders spread rumors that their exists conspiracy against Ulmaa and Stubborn Tablighi Jamaat.

Then, Mufti Taqi Usmani in his audio message conveyed (as in fact he was unable to appear before the public through a video recording)that "in existing circumstances/situation when the government had already banned public in respect of offering Jumma prayer in mosques so we have obtained evidence from books of Fuqhaa that in case a person misses offering Jumma prayer at mosque then he is not permitted to offer Jumma prayer at home for the purpose that parallel to Jumma prayer, the public would start offering prayer, collectively and also in separate shape/form and secondly, the prayers would be considered as repeated one، so persons shall offer prayers in a collective manner at homes with the plea/reason that in the present situation both the condition does not exist i.e. neither Comparision of Juma prayers nor dispute of collective prayer whereas prayer is not allowed to be offered at homes though few persons are in practice to offer Jumma prayer at homes, it is O.K.This problem is of unitary nature, so if there exists any mistake in explaining, it would be considered from my side and if the entire situation expressed is correct, then it would be kindness of God.

Now why Mufti Taqi Usmani and Mufti Muneeb-ur-Rehman hesitates to place here the reference of Quran and Hadith? why they flick their unit on this changed situation? As regards the missing of Jumma prayer is concerned, this does not relate at all, when here Jumma prayer has not been missed then to put here the reference is irrelevant/incorrect.

MAULANA FAZL UR REHMAN AND VIRUS OF RELIGIOUS CLASS

Author: Syed Ateeq-Ur-Rehman Gillani
Translated by Ejaz Siddiqui

Maulana Fazl ur Rehman had warned the government and state institutions that why the Ulama, Mosques and preaching communities are being discriminated when Ulama and religious sections are cooperating with government and state instructions. The preaching community is a peaceful community, but being violent to it is totally wrong, While there is a rush in markets and elsewhere, nothing is happening there.

Although everything is visible on media giving punishment on the lock-down violation, apart from gents, ladies are also being punished through ladies police and no one has opposed it. However in Layyah a worker of Tablighi jamaat attacked with a knife on SHO and in Karachi due to the irritation of imam of masjid the person offering prayer attacked the police. In the Quran, Allah has declared the meat of pig and dead animal dishes as forbidden, and while going beyond the limits permission is also accorded as per acute requirement/need whereas it is mentioned in Surah Baqarah (verse no:239) "Not only the Mosques and collective prayers are exempted in the state of fear, but it is also stated in open words that you should not bow down and prostrate while walking and riding”. The blindness/ignorance of the Ulama and the scholars is that they have named it Islam by adding their compensation to the worst interest-rate And the Shaikh ul Islam mufti Taqi Usmani made it clear in the media for the outbreak that "they studied FUAQAHA’A but he could not get fatwa regarding not offering prayer in the Masjid.” when pressure was developed then fatwa was issued from Dar ul Uloom regarding offering prayer at their homes/residences. Nobody is empowered to cancel the orders of Quran o Sunnat. The Tablighi Jamaat is giving more importance to its method than the Qur’an o Sunnah and the opinions/views of the Muftian, Fuqaha’a and Ulama’a. Religious classes made religion a business/profession.