پوسٹ تلاش کریں

افسوس کہ وحی کا سلسلہ بند ہونے کے بعد اسلام اجنبی بنتا چلا گیا: عتیق گیلانی

افسوس ہے کہ وحی کا سلسلہ بند ہونے کے بعد اسلام بتدریج رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق اجنبی بنتا چلاگیا۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج معروف احکام تھے ۔ قتل، بہتان، زنا، چوری منکرات تھے۔ رسول ﷺ کی اللہ وحی سے رہنمائی کرتا۔ بدری قیدیوں پر فدیہ، شہداء اُحدپر انتقام کا جذبہ، سورۂ مجادلہ میں ظہار کا فتویٰ ، کل کی خبر پر انشاء اللہ کہنا، نابینا کی آمد پر چیں بہ جبیں ہونااور رئیس المنافقین کا جنازہ پڑھا دینا ایک ایک بات کے ہر ہر پہلوپر اللہ کی طرف سے وحی کا نزول بڑی نعمت تھی جس کی اللہ نے نبیﷺ پر تکمیل فرمائی۔الیوم اکملت لکم دینکم
اوّل تو کوئی ایسا سپوت اور ماں کا لعل نہیں، جس کی حیثیت رسول ﷺ سے بڑھ کر ہو کہ آپﷺ وحی کی رہنمائی کے محتاج ہوں اور کسی دوسرے کو یہ اعزاز حاصل ہو کہ رہنمائی کی ضرورت نہ پڑے۔ دوسرا یہ کہ ضرورت کی بات نہیں بلکہ وحی کا سلسلہ بند ہوچکا تھا اور اللہ نے وضاحت کردی تھی کہ ’’ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اولی الامر کی جو تم سے ہو ، اور اگر کسی بات میں تنازع ہوتو اللہ اور رسول کی طرف اس کو لوٹادو‘‘۔ آیت میں اللہ و رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم اوراولی الامر سے اختلاف کی گنجائش کیساتھ اطاعت کا حکم ہے اور اگر کسی بات پر تنازع ہو تو اس کو اللہ اور اسکے رسولﷺ کی طرف لوٹانے کا حکم ہے۔نبیﷺ سے بھی اولی الامرکی حیثیت سے اختلاف کی گنجائش رہی تھی۔ اہل تشیع سے ائمہ اہلبیت کا سلسلہ گم ہوا تو اس آیت کی تفسیر نہ سمجھنے کی وجہ سے گمراہی کا شکار ہوگئے ، ان کو انتظار ہے ، ہمیں ضرورت نہیں ہے۔
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے آیت کا مفہوم بدلنے کی سازش فرمائی۔ لکھا ہے کہ ’’عوام کو اندھی تقلید کا حکم ہے۔اولی الامر سے مراد علماء ہیں، تنازع سے علماء کے آپس کا اختلاف مراد ہے۔ عوام اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت براہِ راست نہیں کرسکتے بلکہ علماء کے ذریعے پابند ہیں ،اگر علماء عوام کی غلط رہنمائی کریں تو عوام کی اس پر کوئی پکڑ نہ ہوگی ۔ اب اجتہاد کا دروازہ بند ہے ۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ علم اس طرح سے نہ اٹھے گا کہ آسمان پر اٹھالیا جائے گابلکہ علماء کے اٹھ جانے سے علم اٹھ جائے گا ،یہاں تک کہ جاہلوں کو رئیس بنایاجائے گا اور ان سے پوچھا جائیگا تو علم کے بغیر فتویٰ دینگے ، پس وہ خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرینگے۔ (بخاری ومسلم)
(تقلید اور اس کی شرعی حیثیت ۔ شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، دارالعلوم کراچی)
مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ نے’’ عصر حاضر حدیث نبویﷺ کے آئینہ میں‘‘درج بالا حدیث لکھی ہے ۔ حدیث میں عوام کیلئے کسی قسم کی چھوٹ کاکوئی ذکر نہیں بلکہ جس طرح سے علماء ومفتیان خود گمراہ ہونگے، اسی طرح اپنے معتقدین کو بھی گمراہ کردینگے۔مفتی تقی عثمانی نے ائمہ مجتہدین کے بعد اجتہاد کا دروازہ بند قرار دیا ہے تو اپنے والد مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیعؒ کے برعکس اسلامی بینکاری کیلئے معاوضہ لیکر اجتہاد کا دروزاہ کھولا ہے یاپھریہ اس گمراہی کا فتویٰ ہے جس سے وہ خود گمراہ ہوگئے ہیں اور پوچھنے والوں کو بھی گمراہ کیا؟۔ کیا آیت اورحدیث کے مفہوم کو اس قدر بگاڑنے سے بھی بڑی گمراہی ہوسکتی ہے؟۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمودؒ کی جگہ کس نے لی ؟۔
بدر ی قیدیوں کے فدیہ پر ڈانٹ پڑی تھی تو اُحد کے شکست پر سخت ترین بدلہ لینے کی قسم کھائی مگر اللہ نے بدلہ لینے میں بے اعتدالی سے منع کیابلکہ معافی کا حکم دیا۔ قرآن نے تعلیم وتربیت اور حکمت وتزکیہ کی اس انتہا پر صحابہؓ کو پہنچا دیا کہ اللہ کی نازل کردہ آیات کی بھی اندھی تقلید کرنا مزاج میں شامل نہ تھا، اللہ نے ان کی تعریف میں فرمایا: الذین اذا ذکروا باٰیات اللہ لم یخروا علیہا صما و عمیانا ’’ وہ لوگ جنکے سامنے اللہ کی آیات کا ذکر کیا جائے تو اس پر اندھے اور بہرے ہوکر گرنہیں پڑتے ‘‘۔ فاروق اعظمؓ کا ہاتھ دامن رسالت ﷺ سے الجھاکہ رئیس المنافقین عبداللہ ابن ابی کا جنازہ کیسے پڑھاؤگے جس نے ناموس رسالت ؐاماں عائشہؓ پر بہتان کی افواہ سے مدینے کی فضا میں طوفان برپا کردیا؟۔دامنِ رحمت ﷺنے فاروق اعظمؓکو نظراندازکیا ،اللہ کی طرف سے بھی تائید نازل ہوئی مگرافسوس کہ ؂ زاغوں کے تصرف میں ہے شاہیں کا نشیمن
صحابہؓ کے احوال یہ تھے تو رسول اللہﷺ کس درجہ اپنی بصیرت پر عمل پیرا ہونگے؟۔ حکم تھا کہ منافق کی نمازہ جنازہ نہ پڑھ، اور نہ اسکی قبر پر کھڑے ہوں۔ اللہ کے نبیﷺ نے منافقین کی فہرست ایک صحابیؓ کے حوالہ کی اوران کو راز میں رہنے دیا۔ کوئی مولوی ہوتا تو اعلان کردیتا کہ فلاں فلاں منافق ہیں، ان کا جنازہ پڑھنے اور قبر پر کھڑے ہوکر دعا مانگنے سے پرہیز کرو۔ فاروق اعظمؓ نے اس صحابیؓ سے پوچھا: ’’میرا نام تو منافقوں کی فہرست میں نہیں ؟‘‘۔ منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہونگے مگردنیا میں انسے وہ سلوک روا رکھاگیا جو بظاہر قرآنی آیت کے منافی تھا۔ صحابہؓ اس ٹو ہ میں بھی نہ رہے کہ وہ رازدان صحابیؓ کس کا جنازہ پڑھتے ہیں اور کس کا نہیں؟ ۔یہ قرآن میں عزت افزائی سے روکنے کیلئے نبیﷺ کو حکم تھاجس کا عام لوگوں سے تعلق بھی نہیں تھا۔ ریئس المنافقین کے بیٹے سچے صحابہؓ تھے ، جس طرح نبیﷺنے انکا دل رکھنے کیلئے اسکاجنازہ پڑھادیا۔ اسی طرح باقی لوگ اپنے عزیزواقارب اور دوسروں کی دلجوئی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔
منافق کا جنازہ پڑھنے سے اسلام پر فرق پڑنا تو دور کی بات ہے، اگر بالفرض منافق کے پیچھے نماز پڑھ لی تو نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں اسلئے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’ اگر امام کی نماز نہ ہوئی ہو تو صرف امام اپنی نماز لوٹائے، مقتدی کو نماز لوٹانے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘ اور فرمایاﷺکہ’’ ہر نیک وبد کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو‘‘۔ اسلام کو جب کم عقل لوگوں کے حوالہ کرکے پیشہ بنایاگیا تو اسلام کی ساکھ بہت متأثر ہوئی ۔ بھارت میں کسی دیوبندی امام نے بریلوی میت کا جنازہ پڑھایا تو مراد آبادی مفتی نے امام کے پیچھے جنازہ پڑھنے والوں کو دوبارہ کلمہ اور نکاح کی تجدید کا فتویٰ دیدیا۔ سب کو کلمہ اوردوبارہ نکاح پڑھائے گئے۔ قائداعظم کا جنازہ دیوبندی شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی ؒ نے پڑھا دیا تھا، ان لوگوں نے کلمے اور نکاح کی تجدید نہیں کی،پھر ان کا کیا بنے گا؟۔
سوال یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کا جنازہ کس نے پڑھایا؟۔ رسول اللہﷺ کی نمازِ جنازہ کی روایت نہیں۔ صحابہؓ نے ٹولیوں میں داخل ہوکر درودپڑھا ۔ شیعہ کا صحابہؓ پر اعتراض ہے کہ خلافت کے مسئلہ پر الجھ کر جنازے کا اہتمام بھی نہ کیا۔ حالانکہ نمازِ جنازہ کی موجودہ شکل وہ نہیں جو نبیﷺ کے دور میں تھی ، ایک صحابیؓ کی میت پر نبیﷺ نے جب دعا مانگی تو صحابہؓ نے خواہش کی کہ اس کی جگہ ان کی میت ہوتی۔ درود پڑھنا نبیﷺ کیلئے مناسب تھا۔ اہل تشیع کے نزدیک نمازجنازہ کیلئے وضو ضروری نہیں اسلئے کہ یہ محض دعاہے، باقاعدہ نماز نہیں اور اہلحدیث کے نزدیک نمازِ جنازہ میں فاتحہ پڑھنا ضروری ہے اسلئے کہ نماز فاتحہ کے بغیر نہیں ہوتی۔ باقی کے ہاںیہ وہ نماز نہیں جس میں رکوع وسجودیا فاتحہ بھی پڑھی جائے۔ حدیث ہے کہ اذا صلیتم علی المیت فاخلصوا لہ الدعا ’’جب تم میت پر صلوٰۃ پڑھو ، تو اس کیلئے دعا کو خالص کردو‘‘۔ نمازِ جنازہ دراصل دعا ہے۔ہر نماز میں نبیﷺ پر صلوٰۃ ہے۔عام میت کیلئے صلوٰۃ جنازہ میں پہلی اور آخری خصوصی دعا ہے۔
ایک صحابیؓ جنکاتیسری جنس سے تعلق تھا ، مسجد کاخدمت گار تھا، جب انتقال ہوا، تو صحابہؓ نے نبیﷺ کو بتائے بغیر اس کونمازِ جنازہ کے بغیر دفن کردیا۔ آپ ﷺ نے پوچھا تو انہوں نے بتادیا جس پر نبیﷺ نے فرمایا کہ مجھے اطلاع کرتے،اور جنازہ کے بغیر کیوں دفن کیا؟۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ ’’ہم نے سمجھا کہ اس کے جنازے کی ضرورت نہ تھی‘‘۔ نبیﷺ نے تیسرے روزاس کی قبر پر جاکر صلوٰۃ پڑھنے کا اہتمام فرمایا۔ (بخاری شریف)
آج خواجہ سراؤں کے جنازے نظر نہیں آتے ،تو وجہ کیاہے؟۔ فقہ کی کتابوں میں خنسیٰ مشکل کا مسئلہ ہے۔ اگرخواجہ سرا کی جنس 50فی صد مرد کی 50فیصد عورت کی ہو، توجنازہ کیسے ہوگا؟۔ اگر مرد کی جنس زیادہ ہو تو مردوں اور عورت کی جنس زیادہ تو عورتوں والا جنازہ پڑھایا جائیگا۔ میں نے ایک مفتی کے سامنے حقائق کی وضاحت کرنا چاہی تو مفتی صاحب نے کہا کہ ’’شاہصاحب یہ بڑا مشکل مسئلہ ہے جس کو آج تک کوئی حل نہ کرسکا، یہ آپ ہی حل کرسکتے ہیں‘‘۔سوال اس وقت پیدا ہوتا کہ عورت اور مرد کی نمازِجنازہ کی دعا الگ ہوتی، جب دونوں کی دعاایک ہے تو خواجہ سرا کے حوالے سے سوال پیدا کرنا بھی بہت بڑی کم عقلی تھی جس کا خمیازہ خواجہ سراؤں کو بھگتنا پڑ رہاہے۔ آج تک ایسا کوئی آلہ بھی ایجاد نہیں ہواہے کہ تیسری جنس کی فیصد% پرسنٹیج نکالی جائے۔
درسِ نظامی میں خنسیٰ مشکل کی مثال ابوالاسود دوئلی سے دی جاتی ہے جو بڑا عالم تھا جس نے قرآن پر اعراب لگائے تھے۔ بتایا جاتاہے کہ اسکا شوہر بھی تھا جس سے اسکے بچے تھے اور بیوی بھی تھی جس سے اسکے بچے بھی تھے۔ اسود کا معنیٰ کالا ہے۔ نبیﷺ نے ایک شخص اسود کا نام بدل کر ابیض رکھ دیا( الاصابہ۔ طبرانی)۔ ابوالاسود کنیت سے ضروری نہیں کہ اس کی اولاد میں کسی کانام اسود ہو بلکہ پیشہ ور ملاؤں کی نسبت بھی محض مشکل خنسیٰ کے کسی تخیلاتی شخصیت کی طلسماتی اولاد کی بناپر ہوسکتی ہے۔ موجودہ دور میں جیسے خواتین وحضرات کو دینی علوم کے مدارس میں تعلیم و تربیت دی جا رہی ہے، اسی طرح خواجہ سراؤں کو بھی اس پیشے سے وابستہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
رسول ﷺ نے فرمایا: ’’ انبیاء کی وراثت درہم ودینار نہیں علم ہے‘‘۔ آج علماء میں انبیاء کرامؑ کے نام پر علم نہیں درہم ودینار کی وراثت ہے ، اگر خواجہ سراؤں کو یہ پیشہ سپرد کردیا جائے تو اہلیت کے بغیر پیشہ ور موروثی نظام کا مدارس سے خاتمہ ہوجائیگا۔ ایک طرف خواجہ سرا ؤں کو معقول عزت مل جائے گی اور دوسری طرف مذہبی مدارس جنسی بے راہ روی کا شکار ہونے سے بچ جائیں گے۔ جب مذہبی شخصیات میں مفادپرستی کا عنصر نہ رہے گا تودین کا حلیہ بگاڑنے والے بھی اپنی غلط روش پر اصرار نہ کرینگے۔ ابوالاسود دویلی کی طرح دین کی خدمت کس نے کی؟۔ قرآن پڑھنے ،پڑھانے والے اعراب کی بدولت کس قدر مستفید ہورہے ہیں؟،یہ ایک بڑے خواجہ سرا کابڑا کارنامہ ہے۔
رسول اللہﷺ اونٹ، خچر، گدھے کی سواری پر جس طرف رخ ہوتا، نماز پڑھ لیتے۔ اسلئے کہ نبیﷺ جانتے تھے کہ اللہ نے فرمایا: ’’یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرلو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ جو اللہ سے ڈرا‘‘۔ اللہ نے دیکھا کہ نبیﷺ کا رحجان کعبہ کی طرف ہے تو بیت المقدس سے منہ موڑ کر کعبہ کو قبلہ بنانے کا حکم دیا۔ حضرت عمرؓ نے جنبی ہوکرحالت سفر میں نماز پڑھنا مناسب نہ سمجھا تو نماز نہیں پڑھی اور نبیﷺ نے تائید فرمادی ، جبکہ حضرت عمّارؓ نے غسل کا پانی نہ ہونے کی صورت میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہوکر نماز پڑھ لی تو نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرنا کافی تھا‘‘۔ قرآن کی آیت میں نماز پڑھنے کا حکم نہیں بلکہ اجازت ہے اور اجازت کی صورت میں نماز پڑھنے اور نہ پڑھنے کی گنجائش ہے ،حدیث میں وضاحت پر مزید اختلافات کا بتنگڑ بنانے کی ضرورت نہ تھی جس نے حضرت شاہ ولی اللہؒ کو بھی تشویش میں مبتلا کئے بغیر نہ چھوڑا تھا۔
علماء کا تو کام اختلافات کے گھوڑے دوڑاکر ثابت کرنا تھا کہ قرآن سمجھنا اور سمجھانا مولویوں کا کام ہے مگر سیدمودودیؒ نے بھی قرآن وسنت کے بجائے عوام کیلئے اختلاف کا شاخسانہ لکھ دیا ۔ یہ غلط فہمی دور کرنی ہوگی کہ مولانا مودودی نے قرآن وسنت کا خلاصہ لکھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ علماء کے ترجمے و تفسیر کا ہی انہوں نے سلیس انداز میں نچوڑلکھ دیاہے۔ اب ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو ملتِ واحدہ بنانے کیلئے قرآن و سنت کا خلاصہ پیش کیا جائے ۔ صحیح بخاری میں عبداللہ بن مسعودؓ اور ابوموسیٰ اشعریؓ کا جنابت میں تیمم سے نماز پڑھنے، نہ پڑھنے پر مناظرہ ہے ۔حالانکہ قرآن وسنت میں حل موجود ہے۔ نظافت کا غلبہ ہو تو نماز نہ پڑھو اور ذوق عبادت ہو تو تیمم سے نماز پڑھو۔خواتین حیض میں نماز نہ پڑھیں تو انوکھامسئلہ نہیں کہ منی سے لتھڑے مردکو نماز نہ پڑھنے کی اجازت ہو۔ اسلام نے جنابت سے غسل کو فرض ،تیمم کو قائم مقام بنادیاتو مسلمان کو بھی کم ظرف نہ ہونا چاہیے۔
نکاح و طلاق ، خلافت و امامت اور عقیدہ ومسلک کے نام پر اختلاف کا متفقہ حل ہے مگر سابقہ امم کی طرح مسلم اُمہ بھی پٹری سے اترگئی ۔ قرآن وسنت کے منشور نے ہمیں امتِ واحدہ بنایا لیکن ہم افتراق وانتشار ، فتنہ وفساد اور انتہاپسندی وشدت کا شکار ہوگئے۔اگر قرآن و سنت کو منشور بنالیا تو ایک ملت بننے میں دیر نہ لگے گی۔شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی ،حنفی اہلحدیث، جماعت اسلامی تمام مذہبی و سیاسی فرقہ وارانہ تنظیمیں خواہاں ہیں کہ دنیا میں اسلام کے معاشرتی، سیاسی ، معاشی اور تمدنی نظام کو غلبہ نصیب ہو اور مسلم ممالک کی ریاستیں بھی چاہتی ہیں کہ دلدل سے نکل آئیں۔
ہم چشم تصور سے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ اسلامی خلافت قائم ہوگئی ، پاکستان کے گلی کوچوں میں نیم عریاں لباس لونڈیاں گشت کرتی پھرتی ہیں تو دنیا حیران ہوگی کہ شدت پسند وں کی غیرت گوارہ نہیں کرتی تھی کہ ہم اپنے ملکوں میں آزاد اپنے لباس میں گھوم سکیں ،یہ غیرتمند اپنی اولاد کی مائیں بناکر ہمیں اسی حال میں گھمارہے ہیں؟ تصاویر دیکھنے کا حوصلہ گھر گھر میڈیا نے پیدا کردیاہے ورنہ تو یہ بھی بڑی گستاخی لگتی۔ اسلام ایک عالمگیر دین ہے، مشرق ومغرب میں ملتِ ابراہیمی کے درست علمبردار مسلمان ہیں لیکن ملتِ اسلامیہ کو ایک اور نیک ہوکر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
حضرت ابراہیم ؑ کی ایک بیگم حضرت سارہؑ بڑے درجے کی خاتون تھیں ان کی اولاد میں بہت انبیاء کرام ؑ اور بادشاہ بھی آئے۔ ان میں اسٹیٹس کو کی روایت بھی قائم رہی ہے۔ حضرت سارہؑ کی وجہ سے حضرت حاجرہؓ نے غیر ذی زرع مکہ معظمہ کی بے سروسامانی کی حالت میں زندگی گزاری۔ یوسفؑ سے بھائی خار کھاتے تھے تو پھر سجدہ بھی کرنا پڑگیا۔ حضرت داؤدؑ و سلیمانؑ نے بادشاہت و نبوت میں اسٹیٹس کو کی زندگی گزاری۔ لی نعجۃ و لہ تسع وتسعون نعجۃ (میرے لئے ایک دنبی اور اسکے پاس 99دنبیاں ہیں)حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بغیر باپ کے پیدا کیا تو یہ بنی اسرائیل کے اسٹیٹس کو کو توڑنے اور بنی اسرائیل کے نسلی گھمنڈ کو ختم کرنے کیلئے ان کی تابوت میں آخری کیل تھا۔ ورنہ تو فراعین مصر نے بھی عرصہ تک غلام بنائے رکھاتھا۔جو اللہ کے سامنے انکے نسلی گھمنڈ کو ختم کرنے کیلئے کم حجت نہ تھی، جس کا حضرت موسیٰؑ نے مقابلہ کیا تھا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو آخری پیغمبر کی حیثیت سے حضرت حاجرہؓ کی اولاد میں مبعوث کر دیا۔ یوں تو خواتین کی زبوں حالی سے مغرب بھی خالی نہ تھا مگر یہاں تو انتہاء تھی زندہ دفن کیا جاتا تھا قرآن کا اسلوب سورۂ تحریم، مجادلہ ،نساء، بقرہ اور احزاب ودیگر سورتوں میں خواتین کے حقوق سے متعلق دیکھا جائے تو بہت زبردست طریقے سے معاملات سمجھ میں آجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کے حق کو واضح کردیا کہ ناراضگی کی مدت 4چار ماہ ہیں ،اسکے بعد جس طرح4 ماہ10دن کے بعد بیوہ دوسری جگہ شادی کرنے میں آزاد ہے اس طرح یہ بھی آزاد ہے لیکن فقہ کے ائمہ نے بحث شروع کردی کہ طلاق کا اظہار نہ ہونے کی صورت پر طلاق واقع ہوگئی یا نہیں؟۔ مدعا کو نہیں دیکھا بلکہ شوہر کے حق ملکیت پر اختلافات کا شاخسانہ کھڑا کردیا۔ چار ماہ انتظار کے باوجود عورت کے حق کا خیال نہ رہا بلکہ یہ بحث شروع کردی کہ زندگی بھر طلاق نہ ہوگی یا فوری ہوجائے گی؟۔ عورت کا حق ملحوظِ خاطر رہتا تو اختلاف کی گنجائش ہی نہ تھی ، عورت مرضی سے شادی کرلے یا بیوہ کی طرح بیٹھی رہے،پھر شوہر کی مرضی ہو تو معروف طریقے سے رجوع کرلے ،اس کیلئے نکاح خواں کا فیس کھری کرنا ضروری نہیں۔ جیسے دوستوں میں ناراضگی کے بعد صلح ہو تو معاشرے میں احباب کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ چھوٹی بات نہیں کہ جمہور فقہاء کے نزدیک دوسری جگہ شادی حرام ہو اورامام اعظم ؒ کے نزدیک تعلق کی بحالی حرام ہو۔ قرآن نے جو معاملہ حل کیا ، انہوں نے بگاڑدیا۔
اللہ تعالیٰ نے طلاق کا موضوع چھیڑنے سے پہلے مقدمہ بتایا کہ ’’لغو الفاظ سے اللہ نہیں پکڑتا مگر جو دلوں نے کمایا‘‘۔ پھر وضاحت کردی کہ ’’ ایلاء یعنی طلاق کا اظہار کئے بغیر شوہر کیلئے عورت پر چار ماہ کے انتظار کا حق ہے۔ اگر اس میں باہمی رضامندی سے رجوع کرلیا تو ٹھیک ورنہ طلاق کا عزم پہلے سے تھا تو اللہ سنتا اور جانتا ہے‘‘۔ طلاق کے عزم پر اختلاف کی ضروت بالکل نہیں تھی اس میں پکڑ کی بات واضح تھی ، اسلئے کہ عزم کا اظہار نہ ہونے کی صورت میں عدت ایک ماہ زیادہ ہے۔ پھر اللہ نے وضاحت کردی کہ ’’ طلاق کے اظہار کی صورت میں انتظار کی مدت تین ادوار ہیں‘‘۔ جو حیض نہ آنے کی صورت میں تین ماہ ہیں۔اس مدت میں بھی صلح کی شرط کیساتھ شوہر کو رجوع کا حق دار قرار دیا گیا۔ مشرقی تقدیس کے علمبردار صلح کی شرط بھول گئے۔ قرآن میں وضاحت ہے کہ رجوع کیلئے اصلاح سے مراد صلح ہے وان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما ’’ اگر صلح کا ارادہ ہو تو اللہ دونوں میں موافقت پیدا کردے گا‘‘۔ قرآن میں مسلسل عورت کو تحفظ دینے کا مضمون ہے، ناراضگی میں چار ماہ کی عدت ہو، جس میں طلاق کا اظہار نہ ہوا ہو یا پھر طلاق کے اظہار کی صورت میں تین ماہ کی عدت ہو، بہرحال عورت کی عدت بیان کرکے اسکے مستقبل کی ضمانت دی گئی ہے۔
چونکہ شوہر باقاعدہ طلاق کے بعد بھی بیوی کو اپنے ماحول میں مرضی سے نکاح نہیں کرنے دیتا ہے۔ ممکن ہے عورت اسکے دوست، بھائی، رشتہ دار، پڑوسی اور حریف یا حلیف سے شادی کرنا چاہے تو کوئی بھی سوچ لے، بیوی کو اجازت دینا بہت مشکل کام ہے، ممکن ہے کہ بیوی کو طلاق کے بعدتمام احتیاطی تدابیر کے باوجود شوہر اپنی مرضی سے اجازت نہیں دے۔ عمران خان نے ریحام کو طلاق دیدی تو اس نے کہا کہ ’’ میں پٹھان ہوں ، جان پر کھیل کر پاکستان آئی ہوں‘‘۔ عمران خان کا اپنے کسی حریف یا حلیف سے شادی میں غیرت کھانا کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ قرآن میں جس بھی خاص صورتحال کے بعد طلاق کی صورت میں شوہر کیلئے حلال نہ ہونے کی بات ہے، یہاں تک کہ کسی دوسرے شوہر سے وہ عورت نکاح نہ کرلے۔ یہ بھی عورت کے حقوق کے تحفظ کیلئے بات تھی۔ امام ابوحنیفہؒ نے اس آیت کے پیش نظر اس حدیث کو مسترد کیا، جس میں ولی کی اجازت کے بغیراگر شادی کرلی تو اس کے نکاح کو باطل قرار دیا گیاہے ۔ حالانکہ آیت میں طلاق کے بعد عورت کی رضا کاذکرہے اور بدقسمتی سے اب بھی مشرقی معاشرے میں اس پر عمل نہیں ہورہا ہے۔
قرآن کے مدعا کو نبی کریمﷺ نے درست سمجھ لیا تھا، نبیﷺ کی وفات کے بعد بھی قرآن میں نبیﷺ کی ازواج مطہراتؓ سے شادی نہ کرنے کی پابندی لگائی گئی کہ یہ اذیت کا باعث ہے، اور انصار کے سردار سعد بن عبادہؓ کیلئے بھی بخاری میں ہے کہ وہ طلاق کے بعد دوسری جگہ شادی نہ کرنے دیتے تھے۔ ہمارے قبائلی علاقوں میں آج بھی طلاق شدہ اور بیوہ پر پابندی لگائی جاتی ہے کہ عورت کی مخصوص علاقوں، قوموں اور پڑوسیوں سے شادی نہیں ہوسکتی ہے۔ قرآن کے اصل حکم پر تو آج تک عمل نہیں ہوسکا،مگر تمام حدود وقیود کو پھلانگ کر حلالے کیلئے عجیب وغریب راستے نکال لئے گئے۔علماء ومفتیان ضد اور ہٹ دھرمی بھی نہیں چھوڑ رہے ہیں،لوگوں کے گھر تباہ ہورہے ہیں اور ان کو اپنی ساکھ کی پڑی ہے۔ قرآن میں بار بار عدت کے حوالہ سے رجوع کا ذکر ہے لیکن علماء نے طلاق کو مذاق سے بڑھ کر پتہ نہیں کہاں سے کہاں تک پہنچایا تھا ، میں ثریا سے ڈھونڈ لایا ہوں۔
علامہ انورشاہ کشمیریؒ نے کہاکہ ساری زندگی فقہ کی وکالت میں ضائع کردی۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ مالٹا کی جیل رہائی پر بدلے، جس پر مولانا عبیداللہ سندھیؒ کاربند ہوئے ۔ پھر مفتی شفیعؒ نے بھی مدارس کو بانجھ قرار دیا۔ ہر اکابر قبر جاتے ہوئے پشیمانی کا اظہار کریگا یا جوانی میں بھی اپنا رویہ بدلے گا؟۔ امام ابوحنیفہؒ نے جوانی علم کلام میں گزاری پھر توبہ کیا فقہ کی طرف توجہ دی، امام غزالیؒ نے فقہ میں جوانی گزار دی پھر اس کو گمراہی قرار دیکر تصوف کا رخ کیا،ہم نے فقہ و تصوف کو دیکھ کر جوانی میں اسلامی روح مسلم امہ کے ڈھانچے میں ڈھالنے کی جدوجہدکی اور اللہ نے راہیں کھولیں اے دوجہاں کے والیؐ! ہم تیرے باغ کے مالی! شریعت تیری نرالی! اک ہاتھ سے بجی تالی، مشکل گھڑی بھگتالی سیکھی نہیں دلالی،کچھ مدت سستالی یہ دکھڑی بجالی، دکان اپنی جمالی روٹھی دنیا منالی رت جگے کی جگالی بروزِجمعہ آندھی کالی، سودی شریعت بنالی نہیں محترمہ سالی، زمزم جعلی گندی نالی حق بات لگتی ہے گالی، دین کی یہ رکھوالی؟ شریعت بیچ کے کھالی، زوردار ہوا نکالی دولت کمالی جھولی خالی، کس نے قسمت جگالی کس نے دُم دبالی، یہ کیاہے لااُبالی حلالہ پر نہیں ملالی؟ اپنے مرشد کی دعالی بگڑی قوم سدھالی ،علماء کی بلالی نویدِ انقلاب کی صبالی، گانانہیں قوالی تربت پہ بنکے سوالی، جان کی پڑی لالی جاہل نے خاک شفالی،رگ رگ دُکھالی تواپنی آنکھ چرالی، خطِ استوالی توصیف وشتالی، اُمت میں اعتدالی غزالی وابدالی، یہ جمالی وہ جلالی دوعالم کی جزاء لی، خونِ جگر کی ضیاء لی مردہ روح جِلالی، جذبہ خیرسگالی پاک پرچم ہلالی ،قیادت کی نقالی بہت بڑی دجالی!۔عتیق گیلانی

مسلم امہ دہشت گردی کا شکار کیوں ہے؟ حقائق جانے بغیر دہشتگردی پر قابو پانا مشکل ہے: عتیق گیلانی

مسلم اُمہ اور دنیا دہشتگردی کا شکار کیوں ہے؟۔ ہم دہشتگردوں کی حمایت کا تصور بھی نہیں کرسکتے مگر حقائق جانے بغیر دہشتگردی پر قابو پانا مشکل ہے۔ اسلام میں ایک رحمن کا تصور ہے اور دوسرا شیطان کا۔ شافعیؒ و مالکؒ بڑے امام اور مشہور ہستیاں ہیں، انکے نزدیک نماز قضاکرنے پر قتل کاحکم ہے۔ نمازکی عبادت اللہ اور بندے کے درمیان تعلق ہے، کوئی مجبور کرے تو بے وضو اور بے غسل بھی نماز پڑھی جائیگی اور اگربندوں کے خوف یاریا سے نماز پڑھی جائے تو یہ اللہ کی نہیں بندوں کی عبادت ہوگی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانامحمد خان شیرانی نے کہا: ’’طلاق کا مسئلہ چھوڑ یں، نماز پر بات کرلیتے ہیں‘‘۔ میں نے عرض کیا : بہت اچھا، آپ کا تعلق سیاسی جماعت سے ہے، کل اقتدار میں ہوں تو بے نمازی کو کیا سزا دینگے؟۔ اگر بے نمازی کی سزا قرآن و سنت میں ہوتی تو چار ائمہ کا اس پر اختلاف کیوں تھا؟۔ خوف سے پڑھی جائے تویہ نماز ہوگی؟۔ مولانا شیرانی نے کہا :میرا مقصد نماز کے فضائل پر بات تھی۔ میں نے کہا: اس کی ضرورت نہیں،صحابہؓ سے غزوہ خندق میں متعدد نمازیں قضاء ہوئی تھیں ، تبلیغی جماعت میں وقت لگاتے تو کوئی نماز قضاء نہ ہوتی، نبیﷺ کو خندق میں چھوڑ دیتے۔ مولانا شیرانی نے کہا: یہ درست ہے، معیشت پربات کرلیتے ہیں (کافی دیر گفتگو کے بعد)میں نے کہا :درجن کے بدلے دو درجن اخروٹ سود نہ ہومگر کلو کے بدلے دو کلو سودہوتو یہ منطق دنیا کو کیسے سمجھ آئیگی؟، ذرا بتاؤتوسہی!۔
بے نمازی کو قتل کرنے کا فتویٰ دینے والے مقدس ہوں تو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پامال کرنیوالے کافرو ظالم طبقے کیخلاف خود کش حملے کرنیوالوں مجاہد ہیں یا دہشت گرد ؟۔ زبردستی سے کلمۂ کفر پر مجبور کیا جائے تو اللہ اس پر نہیں پکڑتا، اگر بے نمازی کو قتل کرنیوالے بڑے امام تو نظام کیلئے قربانی دینے والے زیادہ مقدس نہ ہونگے؟۔ میرا گھر ہوا تو بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان جیل بھی توڑ ے،GHQپرقبضہ کے علاوہ کیا کچھ نہ ہوا؟۔ مولانا فضل الرحمن نے حضرت ابوبکرؓ سے منقول صحاح ستہ کی حدیث کے مطابق دہشتگردوں کو خراسان کے دجال کا لشکر قرار دیا تو کسی میڈیا چینل نے وہ بیان نشر نہ کیا بلکہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے کالم لکھ دیا: ’’مولانا فضل الرحمن پر مجاہد خود کش کرنا چاہتے ہیں مگر ایک خود کش سے مارا نہیں جاسکتا اور دو طالبان اس پر ضائع نہیں کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ آج ڈاکٹرشاہدمسعودکی حیثیت دھوبی کے کتے کی ہے، جو گھر کا ہے نہ گھاٹ کا۔ عطاء الحق قاسمی پی ٹی وی پر حامد میر کا گن گا رہاہے تو وہ ڈاکٹرشاہد مسعود کا بھی گن گاتا رہاہے۔حامد میر نے مولانا فضل الرحمن کو جشنِ دیوبند کانفرنس کے بعد اسامہ کی دھمکی دی، مولانا عطاء الرحمن کے جواب میں لکھا: ’’شیشہ کے گھرسے پتھر نہ پھینکنا، مولانا فضل الرحمن سے پوچھ لو،GHQ کون لیکر گیا ؟‘‘حامد میر اور عطاء الحق قاسمی کا یہ تأثرغلط ہے کہ حامد میر وہ مجاہد ہے جو دہشتگردوں اور فوج کے نشانے پر رہ کر بہادری سے جی رہاہے۔ اعترافِ جرم قوم کا نشانِ منزل ہو تو بات بنے۔ شدت پسندی کو اسلام سمجھ کرہم نے آبیاری کی تو اس کی تلافی کیلئے وہ نہ کرسکے جسکا حق تھا، انھم یکیدون اکیدًا واکید کیدًا ’’ دشمنون نے اپنی چال چلی اور اللہ نے اپنی چلی‘‘، اسلام کے عادلانہ نظام پر نہ صرف مسلمان بلکہ عالمِ انسانیت بہت خوشی سے متفق ہوگی۔
اگر نوازشریف و شہباز پولیس و گلوبٹوں سے بندوں کو قتل کروائیں تو ریاستی دہشتگردی سے ان کا جرم زیادہ نہیں جو ظالمانہ نظام ختم کرنے کیلئے سربکف ہیں، جن کو اداروں نے پالا، نواز شریف اور عمران خان نے انکی کھل کر حمایت کی ۔ جنرل راحیل سے پہلے فوج کا مورال اپنے کرتوت سے ڈاؤن تھا۔ ڈاکٹر عامر لیاقت جیسے لوگ اپنی عزت نہ بچاسکے، جن کا حال یہ تھا کہ الطاف بھائی کی ٹانگوں میں سر دیا تو الطاف جیسا لیڈر دنیا میں کوئی نہ تھا اور ذرا ہٹ کر دیکھا تو رویہ بدل دیا۔ سلمان حیدر کا کہا کہ انڈیا میں ہے مگرکسی نے نہ پوچھا کہ گھر کیسے پہنچا؟۔الطاف بھائی کارویہ بدلنا پڑیگا کہ اپنوں کو شہید اور دوسرے کوہلاک کہو، افغانستان کی مسجد میں جمعہ پڑھنے والا بم سے ہلاک اور اپنا حادثے کا شکار ہو تو شہید؟۔
سب سے غلطیاں ہوئیں مگر خودسے زیادہ دوسروں کیلئے ایماندارانہ جواز کی ذہنیت رکھتے ہیں،خود سزا کھالی، دوسروں کیلئے سزا کی تجویز نہیں۔ ہم سے زیادہ قوم کو سزا مل گئی ۔ افغانستان اپنے لئے دہشتگردوں کو کنٹرول نہیں کرسکتا تو ہمارے لئے کیا کریگا؟۔ افغانی دَلّے حکمران و عوام نے اغیار کیلئے اپنے وطن، قوم اور ملت کی قربانی دی اور ہمارے دَلّوں نے بھی وہی کیا۔ کسی پراحسان کے بجائے اپنے مفاد کیلئے خود کو اور دوسروں کو بھی تباہ کیا۔ ایکدوسرے کے گھر میں گند کو احسان کہنا حماقت ہے۔غلامانہ ذہنیت والے صحافی اور سیاسی ومذہبی لیڈر قوم کی رہنمائی کریں تو تباہی و بربادی کیلئے یہی کافی ہے۔ ایران اور پاکستان کیخلاف سازشوں کا آغاز ہوچکا۔سعودیہ پر بھی بُرا وقت ہے۔ ہم نے غیرتمندو بے غیرتوں کو دہشتگرد بنایا، مولوی فضل اللہ کوسوات میں کس نے بغل میں پالاتھا؟۔ خواجہ آصف نے حافظ سعیداورپرویزمشرف نے مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دیا۔ محمود خان اچکزئی جو کہتا تھا وہی کیا جارہاہے اور ایجنٹ ہونے کی گالیاں بھی صرف اسی کو دی جارہی ہیں۔ پوری قوم کی حمایت طالبان کو حاصل تھی تو فوج نے کیا کرسکتی تھی؟ نیٹو نے بھی اپنی رسم و راہ بنالی تھی، طالبان کے جذبے سے عالمی قوتوں کے عزائم خاک میں مل گئے۔
کالعدم تنظیموں سے ریاست مخالفین کوقابو کرتی ہو ،حکمران کا کردار قابلِ ستائش نہ ہو، با صلاحیت صحافی بکاؤ مال بنے تو ناکارہ مجاہد، ناکارہ صحافی، ناکارہ سیاستدان کے بل بوتے پرریاستی مشنری چلتی ہے۔اندھیر نگری چوپٹ راج میں قوم کے خون پر خرچے شاہانے ہوتے ہیں۔ بڑوں کے باہر ٹھکانے،غیرت و ضمیر کے الگ پیمانے ہوتے ہیں۔انسانی اقدارومذہبی روح سے بیگانے ان ماڈلز نے نمائش کے چکر لگانے ہوتے ہیں۔اغیار کیلئے ایکٹنگ کے افسانے چہرے جانے پہچانے ہوتے ہیں، مفاد پرست چالاک سیانے وہاں جاتے ہیں جہاں دانے ہوتے ہیں۔ رہنما اور لیڈر دجال سے زیادہ کانے ہوتے ہیں۔ مکھیوں کی بیٹھک رستے ناسور کے خزانے ،ابن الوقت قلابازی کے زمانے ہوتے ہیں۔ مخدوم شاہ محموداور مخدوم فیصل حیات جیسے آستانے ،مولانا فضل الرحمن کے بہانے اقتدار کے ٹھکانے ہوتے ہیں۔ دانیال عزیز،امیرمقام ، جہانگیر ترین،فوادچوہدری ہر دور کے ہرجانے ہوتے ہیں۔ لیگ و پیپلز پارٹی نے اپنے معاملے مکانے ہوتے ہیں۔جماعتِ اسلامی کی خدمات کسی کے ہاتھ بٹھانے ،عمران خان کے مسکے امپائر کے انگل اٹھانے ہوتے ہیں۔ کس کے ہاتھ پر قوم اپنا لہو تلاش کرے کہ سبھی نے پہن رکھے دستانے ہوتے ہیں۔ مجرم رہنماہرجگہ کھسیانے اور متعصبانہ جذبے عوام میں بھڑکانے ہوتے ہیں۔ آذانِ سحر سے ہو آغاز تو خواب بھی سہانے ہوتے ہیں،نسیم صبا چلے توگُلوں پر بلبلوں کے گیت چہچہانے ہوتے ہیں ۔دارارقم انقلابیوں کے آشیانے ا وربوجہل بولہب کی نظر میں رحمت للعالمینﷺ دیوانے ہوتے ہیں۔ وماصاحبکم بمجنون اے پاک حرم کے باسیو! یہ تمہاری بھول تھی کہ تمہارے صاحب مستانے ہوتے ہیں۔ہردورمیں سازش کے الگ الگ تانے بانے ہوتے ہیں، ڈور ڈنگر سے بدترانسان سدھانے اورانسانی فطرت کے جوہر جگانے ہوتے ہیں۔پہلے طعنے ہی طعنے اورپھر ترانے گانے ہوتے ہیں۔ عتیق گیلانی

پہلی ہجرت مکہ سے مدینہ کی تھی ،دوسری ہجرت اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے کرنی ہوگی۔عتیق گیلانی

مسلم اُمہ نے اسلام کی نشاۃ اوّل کیلئے پہلی ہجرت مکہ سے مدینہ کی تھی ،دوسری ہجرت اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے کرنی ہوگی۔ صلح حدیبیہ کے معاہدہ پرمکہ فتح ہوا، دوسرامعاہدہ پوری دنیا فتح کرنے کیلئے کرنا ہوگا۔ایک میثاقِ مدینہ کیا تھا، دوسرا میثاقِ فلسطین کرنا ہوگا۔
مسلمانوں کی جان، مال اور عزتوں کا بازار لگاہواہے، دنیا میں مسلم ریاستیں تہس نہس کرکے قتل وغارت گری، فتنہ و فساد، لوٹ مار ، تباہی وبربادی اور ہجرتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے لیکن کسی کی آنکھ نہیں کھل رہی ہے۔ اقوام متحدہ یہودی لابی کی لونڈی اور امریکہ اس کا غلام ہے۔ مسلم اُمہ کیخلاف سازشوں کا سلسلہ بند ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ کعبہ کی تعمیر کا مقصد نبیﷺ کیلئے مرکز تھامگر بہت تلخ ہوئے بندہ مسلماں کے اوقات تو اللہ نے ہجرت کا حکم دیا، بیت المقدس کی تعمیر کا مقصد مسلمانوں کا قبلہ نہ تھا، جب قبلہ تھا تو قبضہ نہ تھا اور جب اپنا رخ موڑا تو قبضہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ 6ھ میں صلح حدیبیہ اور10ھ میں نبیﷺ کا وصال ہوا ، 10سال تک صلح حدیبیہ کے معاہدے میں سخت ترین شرائط کو مسلمانوں نے قبول کیا۔ نبیﷺ کی پوری زندگی، حضرت ابوبکرؓ کا پورا اور حضرت عمرؓ کا آدھا دورِخلافت اسی صلح میں گزرتے۔ صلح حدیبیہ کو مشرکینِ مکہ نے توڑا، مسلمانوں کے حلیف بنوخزاعہ کیخلاف مشرکینِ مکہ نے اپنے حلیف بنوبکر کی مدد کی۔ مسلمان نے کافر حلیف قبیلے کیلئے اس معاہدے کو برقرار رکھنا غلط سمجھا۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ وزارتِ خارجہ کیلئے بہترین مثال ہے۔یہود کیساتھ میثاقِ مدینہ بھی مثالی تھا لیکن یہود اس کی پاسداری نہ کرسکے۔ پھراسی طرز پر میثاق و صلح کی ضرورت ہے جس سے مسلم اُمہ کی معراج ہوگی۔
پہلی نشاۃ پر ہجرت، میثاقِ مدینہ اور صلح حدیبیہ کی طرح موجودہ دور میں یہ اقدامات اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا ذریعہ ہونگے، اسلام سے پہلے حلفِ فضول کے معاہدے پر نبیﷺ بعد میں فخر کرتے تھے اور اس کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔ اگر میثاقِ مدینہ اور صلح حدیبیہ دشمن نہ توڑتے تو دنیا کی سطح پر اسلام کی مدد سے ایک جاندار اقوام متحدہ کا وجود عمل میں آتاتو اس کا کردار موثر بھی ہوتا۔آج فلسطین اور کشمیر سمیت دنیا بھر میں اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم مظلوموں کیلئے کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ قبلہ اوّل سے عیسائیوں کومسلمانوں سے زیادہ دلچسپی ہے، یہود کی طرح عیسائیوں کا بھی موجودہ مرکز بیت المقدس ہے۔ ہم نے اتنی قربانی تو خانہ کعبہ کیلئے بھی نہیں دی جتنی بیت المقدس کیلئے دے رہے ہیں۔ حقائق کو باہوش وحواس سمجھنا ضروری ہے، کہیں نادانستہ سازشوں کاہم شکار تو نہیں ہورہے ہیں؟۔
مکہ سے حبشہ و یثرب ہجرت کے وقت جتنی ناسازگار حالت مسلمانوں کی تھی ، اب نہیں رہی ۔ اگر بیت المقدس پر حدیبیہ کے طرز کا معاہدہ کیا جائے ۔ تین دن زیارت کی اجازت پر انتظام کو یہود کے حوالے کیا جائے جو مشرکینِ مکہ سے بہرحال بہتر ہیں، بھلے نیام میں تلوار کی اجازت بھی نہ ہو ۔ پوری دنیا سے اتنے لوگ زیارت کرینگے کہ فلسطینیوں کی غربت دور ہوجائیگی۔ سعودی عرب بھی مقابلہ میں عمرہ کیلئے خصوصی سستاپیکج کا اعلان کردیگا۔پھر یہ بھی ممکن ہے کہ یہود کہیں کہ اتنے بے غیرت ہم بھی نہیں، بیت المقدس کا انتظام بھی تم سنبھالواور توراۃ نہیں قرآن کے مطابق ہمارے لئے بھی فیصلے کرو۔پھراس خلافت کی پیش گوئی پوری ہو، جس سے آسمان وزمین والے دونوں خوش ہونگے۔
ہم سے زیادہ یہود کے دشمن وہ عیسائی ہیں جو پسِ پردہ بیٹھ کریہود سے مسلمانوں کو لڑارہے ہیں ، ہٹلر بھی مسلمان نہیں عیسائی تھا ۔مسلمان لڑنے اور مرنے کے بجائے پُرامن ماحول میں اسلام کے بنیادی مقاصد اور نظام کو اُجاگر کریں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ خود اسلام سے ناواقف و بیگانے ہیں اور دنیا میں اسلام کے نفاذ کیلئے سر بکف انجانے ہیں۔ پاکستان اسلامی قومیت کی بنیاد پر بنا تھا، ہم برمی اور بنگالیوں کو پاکستانی قومیت نہ دے سکے جبکہ کینیڈا، برطانیہ، امریکہ، فرانس، جرمنی، سپین، اٹلی ، ناروے، سویڈن ، ڈنمارک ، آسڑیلیا سمیت دنیا بھر میں پاکستانی اور دیگر مسلمانوں کو وہاں کی قومیت مل گئی ہے۔ عرب ممالک اور خاص طور سے سعودیہ میں انسانی اور کاروباری حقوق کا بھی بڑا المیہ ہے۔
اسلام کا تقاضہ ہے کہ شخصی و انفرادی طور سے انسان اعلیٰ اخلاقی قدروں کامالک بنے، ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم سب سے زیادہ اکرام کے لائق تم میں اللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔ معاشرتی و اجتماعی طور سے انسان دنیا میں عادلانہ نظام کا پابند ہے جس کا رتبہ انفرادی تقویٰ پر بھاری ہے ۔ اعدلوا ھو اقرب للتقویٰ عدل قائم کرو، یہ تقوی کے زیادہ قریب ہے۔ مسلمان اسلام سے نابلد ہونے کی وجہ سے اپنی ساکھ کھوچکا ، مسلم امہ آج مختلف شکلوں میں قربانیوں کے باوجود ترقی و عروج کی منزل کے بجائے زوال و انحطاط کی طرف اسلئے جارہی ہے کہ ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی قرآن وسنت کی نہیں اپنے ماحول، فرقے اور مسلکوں کی تابع بن کر رہ گئی ۔ جب تک ہم خود کو نہ بدلیں، اللہ بھی ہماری حالت نہ بدلے گا ۔صراط مستقیم کی نشاندہی سے منزل کی جانب گامزن ہو نگے۔ فطرت کے حسین شاہکارقرآن و سنت پر چلنے سے کوئی مائی کا لعل انحراف نہیں کرسکتا۔ جاہلانہ تعصبات اور مفاد پرستانہ رویوں کو خیرباد نہ کہا تو کسی کی خیر نہیں ہوگی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اقتدار نہیں ملا، اسلئے حکومت کے مذہبی احکام کا انجیل میں تصور نہیں، مکی زندگی میں اسلام کیلئے بھی قتال اور حکومتی احکام نازل نہیں ہوئے۔ مدنی زندگی میں بھی میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ اسلام کا نمونہ تھے اور آج پھر ہم نے اپنے زنگ آلودہ نظام کو قرآن وسنت سے زندہ کرناہے۔ اسلامی نظام دنیا میں عزت اورجان ومال کا زبرست محافظ ہے۔کوئی کسی خاتون کی عزت پرزبردستی سے ہاتھ ڈالے تو قتل کیاجائیگا۔ چند مجرموں کو سرِ عام سزا دی ہوتو خواتین کی عزت کوپامال کرنے کاکوئی خطرہ نہیں رہے گا ۔ دہشت گرد حملوں سے یہ زیادہ خطرناک اور سنگین مسئلہ ہے۔ فوجی عدالتوں میں ہی اس کی سزاملے مگر کھلے عام چوکوں پر لٹکاکردے۔ کسی پاک دامن خاتون پر بہتان لگایا جائے تو اس کی سزا80کوڑے ہوں۔ کوئی اپنی بیوی کو بھی فحاشی کی مرتکب پائے تو قتل نہیں کرسکتا۔ البتہ گھر سے نکال دے یا عورت خود نکلے۔ اسلام بے غیرتی بھی نہیں سکھاتا اور قانون بھی ہاتھ میں نہیں لینے دیتا۔اگر کوئی کسی کو بھی غیرت کے نام پر قتل کردے تو غیرت کا تقاضہ یہ نہیں کہ دوسرے کو قتل کرکے اپنی زندگی کیلئے بھیک مانگی جائے۔ قرآن کے مطابق قتل کیلئے قتل کے قانون پر عمل کرنا ہوگا۔ جب امیر غریب، طاقتور کمزور اور مرد عورت کی عزت اور جان کو اسلامی معاشرے میں تحفظ مل جائیگا تو امریکہ ، اسرائیل ، بھارت اور روس کے شہری بھی اپنے ہاں اسلامی نظام کا مطالبہ کرینگے اور جمہوری بنیاد پر ہم وہاں جیت سکتے ہیں۔
انفرادی ذہنیت فرقہ واریت کا شکار ،معاشرتی نظام اسلام سے دور، ریاستی ڈھانچہ غلامی کا عکاس اور حکمرانوں نے سیاست کو تجارت بنایا ہو تو دنیا کیلئے اچھا ماڈل پیش کرنے کے بجائے ہم خود ہی دوسروں کیلئے قابلِ رحم ہونگے۔ عظیم انقلاب کیلئے پردۂ غیب سے کوئی نہ آئیگا ،شاہ ولی اللہؒ نے کہا : فک النظام ’’نظام کی کھایہ پلٹ دو‘‘۔اقبال ؒ نے کہا کہ دنیا کو ہے اس مہدئ برحق کی ضرورت ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالم افکار۔بڑے بڑے اقدامات سے اسلامی نظام کی زنگ آلود مشینری کودوبارہ رواں کرنے کے قابل بنانا ہوگا۔

قرآنی آیات کی روح کو سمجھنے کیلئے پرویز کی غلط فکر تھی: عتیق گیلانی کی ایک تحریر

اقراء باسم ربک الذی خلق، خلق الانسان من علق، اقراء و ربک الاکرم الذی:پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، انسان کو علق سے پید اکیا، پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے عزت بخشی قلم سے سکھاکر‘‘۔لقنا الانسان من نطفۃ امشاج’’ہم نے انسان کو مشترکہ(والدین) نطفہ سے پیدا کیا‘‘۔ ونفس ما سواہا، فالھمہا فجروھا و تقوٰھا ’’ اور جان کی قسم اور جو اسکو ٹھیک کیا پھر اسمیں اسکی بدونیک خواہشات ڈالیں‘‘۔ نیک وبدخواہش بھی علق ہے کہ حلال وحرام بچے اسی کا نتیجہ ہیں۔ فرمایاقد افلح من زکٰھاوقدخاب من دسٰھا:بیشک فلاح پائی جس نے اسے پاک کیا، نامراد ہوا جس نے اسے خاکسترکیا۔تزکیہ وطہارت اور اسکے برعکس فجور کے ذریعے گند نفسانی اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
قتل الانسان مااکفرہ من ای شئی خلقہ من نطفۃ ’’ مارا جائے انسان کیوں کر ناشکری کرتاہے،کس چیز سے پیدا کیا ؟، نطفہ سے!‘‘۔ خلق من ماء دافق یخرج من بین الصلب والترائب ’’ پیدا کیا گیاکودتے پانی سے جو پیٹھ اور سینے کے بیچ سے نکلتاہے‘‘۔ علق کے معنی ’’لٹکاہوا‘‘ ۔ تخلیق کاہرہر مرحلہ علق ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہؒ نے لکھا کہ ’’جرمن ڈاکٹر نے جدید تحقیق کی کہ باپ کا سپرم ماں کی بچہ دانی سے لٹک جاتا ہے۔قرآن نے 14سو سال پہلے علق قرار دیا اور وہ اس بات پر مسلمان ہوگیا‘‘ جونک اور ہرمعلق چیز کو علق کہتے ہیں۔ مرداور عورت کی بیماری سے تخلیق کا مادہ بہتاہے۔ حمل گرتا ہے۔ جہالت یا اعلیٰ تمدن میں انسان کو اپنی اوقات یاد دلانے کی بات ہو تو یہ موٹی بات سمجھنا آسان ہے کہ انسان کو علق کی پیداوار کیوں کہا؟۔ عضوء تناسل بھی علق ہے۔دیہاتی روایات میں کھلے ڈھلے الفاظ کا بے دریغ استعمال ہوتاہے ،قرآن نے تہذیب وعلم کو بھی پیشِ نظر رکھا ہے۔ ابولہب وابوجہل کو قرآن کی بات سمجھ میں آئی کہ کھلے مہذب الفاظ میں قرآن نے انسان کو سمجھایاہے ۔ تکبر نے ابلیس کو عزازیل سے گرا کر شیطان بنا دیا۔قلم کے ذریعے عزت دینے کیساتھ ساتھ انسان کواپنی پیدائش کی اوقات بھی یاد دلائی گئی ہے ۔
جرمنی میں قادیانی ٹیکسی ڈرائیور سوال جواب پر ہمیں اپنے مرکز لے گیا، فرینکفرٹ میں مبلغ سے جواب نہ بنا تو کالون کے مبلغ کا پتہ بتادیا۔ مذہب کی شکل میں دھندہ ہے، مولوی تو ہر جگہ اللہ معاف کرے اب ملازم بن کر رہ گیاہے الاماشاء اللہ۔ میں نے قادیانی مبلغ سے کہا کہ ’’ مرزاغلام احمد قادیانی نے لکھا: میں مریم تھی، اللہ نے مجھ سے مباشرت کی تو خود سے پیداہوکر عیسیٰ بن گیا۔کیا مرزاکایہ مشاہدہ جرمنی میں لکھ کر سائن بورڈ لگالوگے؟۔ جس پر مبلغ نے کہا کہ ’’قرآن میں نطفہ کی پیدا وارکہاگیا تو کیا ہم اس کا بورڈ لگاسکتے ہیں؟‘‘ ۔ میں نے کہاکہ بالکل بہت شوق سے لگائیں۔ سب ہی کو اعتراف ہوگا کہ واقعی سچ ہے،قرآن نے بالکل درست کہا، تکبر ہمیں زیب نہیں دیتا‘‘۔
غلام احمد پرویز نے پڑھا لکھا طبقہ احادیث سے بدظن کردیاہے مگر علماء نے معقول جواب کے بجائے فتویٰ داغا، یہ ہتھیار کارگر ہوتا تو علماء ایکدوسرے پر لگاتے ہیں۔ دلیل کا جواب دینا چاہیے، امام ابوحنیفہؒ نے حدیث سے گریز کیا۔پرویز نے ان کوقرآن کیخلاف سازش قرار دیا، کہا کہ ’’ نبیﷺ امی (ان پڑھ) نہیں پڑھے لکھے تھے، اللہ نے فرمایا کہ اقراء پڑھ۔ ان پڑھ کیلئے یہ خطاب نہیں ہوسکتا۔ بخاری کی کہانی غلط ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ ماانا بقاری میں پڑھ نہیں سکتا ۔ جبرئیل نے سینے سے لگایا تو پڑھنا آیا، گھبراہٹ ہوئی، حضرت خدیجہؓ نے دلاسہ دیا، چچا ورقہ بن نوفل کے پاس لیکر گئیں، اس نے نبوت کی تصدیق کی۔یہ یہودکی سازش تھی تاکہ یہ ثابت ہو کہ نبیﷺ نے ورقہ سے سیکھااور قرآن الہامی کتاب نہیں۔اللہ نے فرمایا: لنثبت بہ فوادک تاکہ قرآن سے تیرا دل ثابت قدم ہو۔ وحی گھبراہٹ کا ذریعہ نہ تھا، یہ کیا بات ہوئی کہ ایک خاتون نبیﷺ کو دلاسہ دے رہی تھیں ۔چچا کے پاس لے گئیں؟‘‘۔امام ابوحنیفہؒ نے حدیث کو آیت سے متصادم کہاتو بہت احتیاط برتی ، پرویز نے حدیث نہیں قرآن میں بھی من مانی سے دریغ نہیں کیا۔
پرویزی لکھا پڑھا طبقہ علماء کے طلبہ ، صوفیاء کے مریداور قادیانی چیلہ سے بھی زیادہ ہٹ دھرم بنتاہے۔ پرویز کو اسلئے مانا جاتاہے کہ وہ قرآن کا داعی تھا تو اگر اسکی بات غلط ہواور پھر بھی اس پر ڈٹا جائے تویہ ہٹ دھری ہے۔ اللہ نے اقراء ضرور فرمایا اور اس کا معنی قلم کے ذریعے لکھی تحریر پڑھنے کے ہیں لیکن سوال ہے کہ جبرئیل قرآن کو کس چیز پر لکھ کر لائے ؟۔ کوئی تختہ سیاہ تھا؟، کاغذ کا ٹکڑا تھا؟، نوشتۂ دیوار تھا؟، لوح وقلم کونسے تھے؟، نزل علی قلبک قرآن کو تیرے دل پر نازل کیا۔ سر کی آنکھ سے بھی پڑھناہے اوردل کی آنکھ سے بھی پڑھنا ہے، روایت میں دل کی آنکھ سے پڑھنا مراد ہے۔ ان الاعمیٰ عمی القلب ’’ اصل اندھا دل کا اندھا ہوتاہے‘‘۔ یہی ہٹ دھرمی ہے۔ اگرنبیﷺ کے دل پر قرآن نازل نہیں ہوا، تو ورقہ بن نے اوراق پڑھنے سکھادئیے؟ ۔
نبیﷺ کو جبرئیل نے سینے سے لگایا تو دل سے دل کو راہ ہوتی ہے، اللہ نے قرآن کو جبرئیل کی طرف بھی منسوب کیا: انہ لقول رسول کریم بیشک یہ عزت والے فرشتے کی بات ہے۔ پہلی وحی سے گھبراہٹ کی بات ہو تو اللہ نے فرمایا: لو انزلنا ھٰذا القراٰن علی جبل لرئیتہ خاشعًا متصدعًا من خشےۃ اللہ ’’ اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے تو ہیبت کے مارے ریزہ ریزہ ہوجاتا‘‘۔ یہ بنیﷺ کا ظرف تھا جو برداشت کرگیا۔ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے آگ کی شکل میں اپنا جلوہ دکھایا ، پھر بتایا کہ میں اللہ ہوں۔پھر اپنے ہاتھ کے عصا سے گھبراگئے۔اپنا جلوہ دکھایا تو موسیٰ بیہوش گرپڑے۔ دنیا نے اگر ترقی کرلی تو دل کی بات دل کی آنکھوں سے بھی پڑھنے کامعاملہ سمجھ میں آئیگا۔ نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ دنیا اس قدر ترقی کریگی کہ بیوی کے بوٹ کے تسمہ پر کوئی چیز چپکا دی جائے گی جس سے شام کو سارا ریکارڈ دکھا جائے گا‘‘۔ صحاح ستہ کی ایسی حدیث کو ضعیف قرار دیا گیا لیکن اب اس کا سمجھنا آسان ہوگیاہے۔ پرویزی کھل کر پلٹ کر آجائیں!۔
نبیﷺ پر وحی کے نزول سے پہلی مرتبہ گھبراہٹ طاری ہوئی، زوجہ محترمہؓ نے دلاسہ دیا تو قرآن نے بیوی کو تسکین کا ذریعہ کہا، یہ صرف جنسی تسکین نہیں بلکہ ہر مشکل وقت میں ایکدسرے کا دکھ درد بانٹتا ہے، کوئی حادثے کا شکار ہو اور دوسرا دلاسہ دے تو انہونی بات نہیں۔پرویز نے مذہبی جذبہ سے عوام کو متأثرکیا۔ رسول ﷺ کا ناموس حساس معاملہ ہے۔احادیث صحیحہ میں سورۂ نور کی تفسیریہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ پر بہتان لگا، اللہ نے صفائی پیش کردی۔ قرآن و حدیث اور سیرت کی کتابوں کے بالکل برعکس پرویز نے لکھا کہ ’’ حضرت عائشہؓ پر نہیں کسی اور خاتون پر بہتان لگا، یہ روافض کی سازش تھی تاکہ بہتان کی راہ ہموار ہو، حضرت عائشہؓ پر بہتان کی سزا قتل ہے‘‘۔ احادیث کا ذخیرہ جھوٹ تھایا حضرت عائشہؓ پر بہتان کی سزا قتل نہیں تواس سے بڑھ کرتوہینِ رسالت کیاتھا؟۔ مذہبی طبقہ اور پرویزی مل بیٹھ کر مسئلہ حل کریں۔ افسوس کہ بریلوی مکتبہ فکرکے شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی نے سورۂ نور کی تفسیر میں جہاں حضرت عائشہؓ پر بہتان کا ذکر کیا، وہاں حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کے واقعہ کی تفصیل لکھ دی جسکا قارئین پر غلط اثرپڑ سکتا ہے۔
یہ نبیﷺ کا ظرف تھا کہ اپنی زوجہ محترمہؓ پر بہتان برداشت کیا۔ کسی اور کی زوجہ پر بہتان لگتا تو برداشت نہ کر تا۔ اللہ نے عظیم بہتان کی سزا سے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کا خاتمہ کردیا۔ غریب ا امیر، کمزور طاقتور اور بڑے چھوٹے کی عزت کیلئے بہتان پرایک سزا مقررفرمائی۔ طاقتور طبقات نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا ہوتاہے۔ پرویز مشرف کا قریبی ساتھی عمر اصغر خان کے بارے میں شواہد کہتے کہ وہ خود کشی نہیں کرسکتا تھا مگر شاہد کسی طاقتور کی کچار میں ہاتھ پڑگیا تھا۔ بہتان کمزوروں پر لگتے ہیں۔ عزتیں کمزوروں کی لوٹ لی جاتی ہیں ۔ناک، کان، آنکھ اور دانت کمزوروں کے ہوں تو خیر نہ ہوگی لیکن طاقتوروں کا کون کیا بگاڑ سکتاہے؟۔ ایک صحابیؓ کے بیٹے نے دوسرے کا دنت توڑ دیا۔ بدلے کی بات پر قسم کھالی کہ اپنے بیٹے کا دانت اسکے بیٹے کے بدلے نہ توڑنے دونگا۔ نبیﷺ نے بالکل بھی رعایت نہ دینی تھی لیکن مظلوم نے خود ہی معاف کردیا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ بعض لوگ اللہ کو اتنے پسند ہوتے ہیں کہ اگر قسم کھالیں تو اللہ اس کو پورا کردیتاہے‘‘۔(بخاری)صحابہؓ کی عقیدت اس حدیث میں بھی ہے، لیکن اس سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ اللہ کے مقبول ترین بندے نے بھی اپنی حیثیت کا لحاظ کیا۔ صحابہؓ پر تو انگلی اٹھانے والے بھی ہیں اور احادیث کی سازش قرار دینے والا طبقہ بھی ہے مگر قرآن کو توسب مانتے ہیں،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے گو غلطی سے مگر قتل تو کیا تھا؟، قانون کی بالادستی میں زبردستی نہ ہو تو رضاکارانہ طور سے خود کو پیش کرنا بہت مشکل کام ہے۔
نبیﷺ نے طائف میں اکیلے پتھر کھائے ،قوم کو معاف کردیا۔ یہودیہ کا کچرا ڈالنا برداشت کیا ، پھر بیمار پرسی کیلئے بھی تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہؓ پر بہتان برداشت کرلیا ، یہ قربانیاں تو امت کے کمزور، غریب، بے بس اور بے سہارا طبقات کیلئے دی تھیں۔ نبیﷺ کو عظیم الشان مقام سے نوازا گیا ، بہتان کی سزا عام خواتین کے برابر اور جرم پر درگزر نہیں بلکہ ڈبل سزا کا حکم دیا۔ ہمارا اسلام انسانیت کیلئے بہترین نمونہ ہے لیکن مولوی اپنے دھندے میں مشغول ہیں۔اسلامی نظریاتی کونسل نے بیان دیا ہے کہ ’’یہ جناح کا نہیں یحییٰ خان کا پاکستان ہے۔ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کاہے کرایہ کے مجاہدین پالے اور اب کو ان کو دہشت قرار دیکر مارا جارہاہے۔ یہاں کرائے کے مولوی، صحافی اور سیاستدان مل جاتے ہیں‘‘۔ بالکل سو فیصد درست بات ہے لیکن کیا یہ وہ اسلام ہے جس کو اللہ نے نبیﷺ پرنازل کیا تھا، یا پھر علماء کی اسٹیبلشمنٹ کا بنایا ہوا مذہب ہے، اس پر بھی غور کرو‘‘۔ پانامہ کیس نوازشریف پر چلا، مروڑ مولوی کے پیٹ میں کیوں اُٹھتا ہے۔ فتاویٰ عالمگیری کے شکار بڑوں کی سزاتصور نہیں کرسکتے ، مغلوں سے انگریزنے اقتدارلیا، اب انگریزی نظام کا اسٹیٹس کوچل رہاہے، جس کا خاتمہ انشاء اللہ پاکستان سے عالمی نظامِ خلافت سے ہوگا۔ پرویزی مکتبۂ فکر کے لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ غلام احمد پرویز نے احادیث سے زیادہ قرآن کی آیات کو دھچکا پہنچانے کی کوشش کی ۔بطور مثال حضرت مریمؑ نے کہا کہ مجھے اولاد کی خبر دی جبکہ لم یمسسنی بشر مجھے کسی بشر نے چھوا نہیں؟، اس طرح کے واقعات میں پرویز کو جھوٹا سمجھنا ہوگا یا قرآن کو، کیونکہ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے ہیں۔قرآن کی بہترین تفسیراحادیث صحیحہ ہیں، اللہ نے فرمایا: لایمسہ الا المطہروں ’’ قرآن کو نہیں چھوسکتے مگر پاکباز‘‘ ڈاکٹر اسرار ؒ نے قرآن کی خدمت کی مگرغلط تفسیر کی تشہیر کی کہ’’ قرآن لوح محفوظ میں ہے اور یہ اسکی فوٹو کاپی ہے، جسکو ناپاک بھی چھو سکتے ہیں‘‘ حالانکہ لایمسہ سے مرادہاتھ لگانا نہیں عمل ہے ۔عورت سے مباشرت کیلئے لٰمستم النساء ہے۔ جیسے الذین حملوا التوراۃ ثم لم یحملوہا سے مراد توراۃ کو لادنا نہ تھا بلکہ عمل تھا ، اس طرح قرآن میں لایمسہ سے عمل کرنا مراد ہے،یہ تفسیر بخاری میں ہے۔ ڈاکٹرا سرار اور مفتی تقی عثمانی پر دباؤپڑا تو غلطی سے اعلانیہ رجوع کرنے پر مجبور ہوگئے۔
قرآن وحدیث میں طلاق کا مسئلہ واضح ہے۔ عبداللہ بن عمرؓ نے بیوی کو حیض میں طلاق دی توحضرت عمرؓؓ نے یہ ماجراء نبیﷺ کو سنادیا۔ نبیﷺ غضبناک ہوئے اور پھر سمجھادیا کہ پاکی کے دِنوں میں ہاتھ لگائے بغیر پاس رکھو، یہاں تک کہ حیض آئے۔ پھر پاکی کے دنوں میں پاس رکھو، یہاں تک کہ حیض آئے پھر پاکی کے دنوں میں چاہو تو رجوع کرلو اور چاہو تو ہاتھ لگائے بغیر طلاق دیدو، یہ ہے وہ عدت جس میں اللہ نے طلاق کا حکم دیا ہے۔ کتاب التفسیر سورۂ طلاق،بخاری۔صحیح بخاری کتاب الاحکام، کتاب العدت اور کتاب الطلاق میں بھی یہ ہے۔ مسلم میں حسن بصریؒ کی روایت ہے کہ ایک مستند شخص سے سنا کہ ابن عمرؓ نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں۔ 20سال تک کوئی دوسرا شخص نہ ملا، جس نے تین طلاق کی ترید کی ہو، پھر زیادہ مستندشخص نے بتایاکہ ایک طلاق دی تھی، بہر حال اس حدیث میں تین مرتبہ طلاق کا تعلق 3طہرو حیض ہی قرآن کی تفسیر ہے۔
اللہ نے فرمایا :المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثۃ قروء ’’طلاق والیاں تین مرحلوں تک انتظار کریں‘‘ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوااصلاحا ’’ اور انکے شوہر ہی اس مدت میں صلح کی شرط پران کو لوٹانے کا حق رکھتے ہیں‘‘۔ اگر حمل ہو تو پھر انتظار کی یہ عدت تین مراحل کی نہیں بلکہ بچے کی پیدائش تک انتظار کرنا پڑیگا ۔ آیت میں خواتین کے حق کا تحفظ ہے کہ عدت کے بعد وہ شادی کرسکتی ہیں ، یہ نہیں کہ آدھا بچہ باہر آیا تو رجوع کی گنجائش ختم ہوگی جیسا فتاویٰ شامی ہے اور مفتی اس پر فتویٰ دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اللہ نے اگلی آیت میں فرمایا الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحساناُس سے کیا مرادہے؟،جواب یہ ہے کہ اس سوال کی گنجائش بالکل بھی نہ تھی اسلئے کہ اسے پہلے عدت کی دوصورتوں کا ذکر ہے ایک حمل اور دوسری طہرو حیض کے تین مرحلے۔ ظاہر ہے حمل میں دومرتبہ طلاق اور تیسری مرتبہ رجوع یا چھوڑنے کی صورت نہیں بنتی تو مراد تین مرحلوں کی صورت ہے۔حضرت ابن عمرؓ نے سمجھنے میں غلطی کی تو نبیﷺ غضبناک اسلئے ہوئے کہ مسئلہ بہت واضح تھا۔ جب نبیﷺ نے وضاحت کی کہ طہروحیض کے تین مرحلے مراد ہیں تو پھر مزید وضاحت کی گنجائش تلاش کرنے میں قرآن کیساتھ حدیث کابھی تومذاق ہے،لیکن غلط فہمی مسئلہ نہیں، اللہ دین کی سمجھ دے۔
صحابیؓ نے پوچھا: یارسول اللہ!؛ قرآن میں تیسری طلاق کا ذکرکہاں ہے ؟۔ نبیﷺ نے یہ نہ فرمایا : فان طلقہا فلاتحل لہ ’’اگر پھرطلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں‘‘ تیسری طلاق ہے بلکہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’ الطلاق مرتٰن کے بعد تسریح باحسان احسان کیساتھ رخصتی تیسری طلاق ہے‘‘یہ مزید وضاحت ہے کہ تیسری طلاق سے کیا مراد ہے؟۔
سوال ہے کہ مرحلہ وار تین طہرو حیض میں تین مرتبہ طلاق کا مسئلہ سمجھنا مشکل نہیں، تین مرتبہ طلاق بس طہرو حیض کی صورت میں ہونگے۔ پھر رجوع کی کیا صورت ہے؟۔ جواب یہ ہے کہ پہلے مرحلہ میں رجوع ، دوسرے مرحلے میں رجوع اور تیسرے مرحلے میں تیسری مرتبہ طلاق دیدی توبھی رجوع ہے۔ نبیﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ تیسری مرتبہ طلاق دی توپھر رجوع نہیں ہوسکتا، بلکہ یہ سمجھایا کہ تیسرے مرحلے میں رجوع اور طلاق میں سے کوئی بھی صورت کا تعلق طلاق کے عمل سے ہے۔ اگر نبیﷺ یہ وضاحت بھی کرتے کہ تیسری مرتبہ طلاق دی تو رجوع نہیں ہوسکتا تو بھی امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کے ترازو سے قرآن و حدیث کو دیکھاجاتا، آیت ہے کہ ’’شوہرکواس مدت میں رجوع کا صلح کی شرط پر حق ہے‘‘۔ اور حدیث ہوتی کہ ’’تیسرے مرحلے میں رجوع کا حق ختم ہے‘‘ ۔ تو قرآن سے حدیث کو متصادم قرار دیکر ترک کیا جاتا۔حدیث میں تیسرے مرحلہ میں رکھنا یا چھوڑنا واضح ہے اور یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ نبیﷺ نے ابن عمرؓ کے کی طرف سے حیض میں طلاق کے باوجود اس کو شمار نہیں کیا بلکہ طلاق کو واضح طور سے طہرو حیض کا عمل قرار دیا، ورنہ تو چاہیے تھا کہ آپﷺ فرماتے کہ ایک مرتبہ کی طلاق توواقع ہوگئی، اب آئندہ دو مرتبہ کی رہ گئی مگر نبیﷺ نے اس کو شمار نہ کیا۔طلاق کو شمار کرنے کا تعلق عدت کیساتھ ہی ہے۔ روزے میں دن رات کی طرح نبیﷺ نے طہرو حیض سے تین مرتبہ عدت و طلاق کا تصوربتادیا۔
قرآن میں بھرپور وضاحت ہے اذا طلقتم’’ جب عورتوں کو طلاق دو تو عدت کیلئے دو، ۔۔۔ عدت کا احاطہ کرکے شمار کرو، انکو انکے گھروں سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔۔۔ ہوسکتاہے کہ اللہ صلح کی راہ نکال دے۔ جب تم طلاق دے چکو اور انکی عدت پوری ہوچکی تو معروف طریقے سے رکھو یا معروف طریقے سے الگ کردواور دو عادل گواہ بھی بنالو۔ ۔۔۔ جو اللہ سے ڈرا، اس کیلئے اللہ راہ بنادیگا‘‘( سورۂ طلاق)۔علماء کو ترجمہ وتفسیر میں بھی ظاہری الفاظ سے ہٹ کر چلنا پڑا ہے۔
سوال یہ ہے کہ مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کی عدت کے بعد رجوع کی گنجائش ہے؟۔ جواب یہ ہے کہ بالکل ہے! ، سورۂ طلاق دیکھ لو۔ مرحلہ وار تین طلاق پر رجوع کی بھرپور وضاحت ہے۔ رکانہؓ کے والد نے رکانہؓ کی والدہ کو اس طرح سے طلاق دی۔ پھردوسری خاتون سے شادی کرلی، اس نے شکایت کی کہ وہ نامرد ہے۔ نبیﷺ نے اسکو چھوڑنے کا حکم دیا اور حضرت رکانہؓ کے والد کو حضرت رکانہؓ کی والدہ سے رجوع کا فرمایا، انہوں نے عرض کیا :وہ تو تین طلاق دے چکا۔ نبیﷺ نے فرمایا: مجھے معلوم ہے اور سورۂ طلاق کی آیت پڑھ کر حوالہ دیا۔ (ابوداؤد)۔طلاق میں علماء نے بڑا مغالطہ کھایا، جیسے روزہ دن کے بجائے رات کو ٹھہرایا جائے بلکہ اس سے زیادہ کیونکہ پھر رات میں ایک روزہ رکھا جاسکتا ۔ الفاظ کی ملکیت کا تصور دیکر صرف قرآن و سنت کا مذاق نہیں اڑایا بلکہ دنیا میں سب سے بڑا عجوبہ کی بنیاد رکھی، لکھا کہ ایک طلاق کے بعد بیوی کسی سے نکاح کرلے تو پہلا شوہر بدستور بقیہ2طلاق کا مالک ہوگا۔ فقہ میں یہ صورتیں ہیں1:پہلی و تیسری طلاق واقع بیچ والی باقی 2:پہلی و تیسری طلاق باقی بیچ والی واقع۔ 3: پہلی دو طلاقیں باقی اور تیسری واقع۔ بخاری میں ہے کہ’’ بیوی کو حرام کہنا کھانے پینے کی طرح نہیں بلکہ تیسری طلاق ہے‘‘، حالانکہ سورۂ تحریم میں حرام اور مجادلہ میں ماں کہنے کا مسئلہ واضح تھا۔ علماء مل بیٹھ کر معاملہ سلجھائیں تو انقلاب آئیگا۔
امام ابوحنیفہؒ کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا کہ یہ خرافات ان کی جانب منسوب ہونگے۔ یہ بعد کے لوگوں نے اپنی اپنی سمجھ اور ظرف کے مطابق کیا کیا مسائل کھڑے کردئیے ، یہ مسلک کیلئے نالائق وکالتوں کا شاخسانہ ہے۔ قرآن و سنت میں واضح ہے کہ دومرتبہ طلاق کا تعلق طہروحیض کے پہلے دو مرحلوں سے ہے اور نکاح کے بعد ہاتھ لگائے بغیر طلاق دی تو پھر دو تین مرتبہ طلاق کا تصور ہی ختم ہوجاتاہے۔ عورت کی عدت میں شوہر کیلئے مشروط رجوع کا حق ہے ۔اصولِ فقہ کی کتابوں کا اکثر مواد ہاتھ لگانے سے پہلے کی تین طلاقوں اور انکی عجیب و غریب غیرفطری اور غیر شرعی صورتوں سے بھراہواہے۔ بڑے علماء کرام اور مفتیانِ عظام خود غرض بن کر نہ سوچین یہ عزتوں کا مسئلہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ عدت میں اور تکمیلِ عدت کے بعد رجوع ہے تو آیت کا مطلب کیا ہے کہ ’’فان طلقہا فلا تحل لہ اگر پھر اسکو طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہ ہوگی ۔۔۔‘‘۔ جواب یہ ہے کہ آیت سے متصل یہ صورت واضح ہے جس میں میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والے باہوش وحواس متفق ہوجائیں کہ میاں بیوی ایکدوسرے سے ملنے پراللہ کی حدود پامال کرنے کا خدشہ محسوس کریں تو عورت کی طرف سے وہ فدیہ دیا جائے۔ اس صورت میں شوہر کے مزاج کا خیال رکھتے ہوئے یہ قید لگائی گئی کہ عورت جب تک دوسری شادی نہ کرے اس کیلئے حلال نہیں۔ درسِ نظامی میں اصول فقہ کی کتاب ’’ نورالانوار‘‘ میں جمہور فقہاء کا مؤقف بتایا گیا کہ اس طلاق کا تعلق دو مرتبہ طلاق سے ہے اور بیچ کی بات جملہ معترضہ ہے مگرحنفی مؤقف یہ ہے کہ ف تعقیبِ بلا مہلت کیلئے آتاہے اسلئے اس طلاق کا تعلق اس سے ماقبل بیان کردہ صورتحال سے ہے۔ ابن تیمیہؒ کے شاگرد علامہ ابن قیمؒ نے ایک طرف حضرت ابن عباسؓ کے قول سے حنفی مسلک کی تائید کردی کہ اس طلاق کا تعلق دومرتبہ طلاق کے بعد سیاق وسباق کیمطابق عورت کی طرف سے فدیہ دینے کی صورتحال سے ہی ہے اور دوسری جانب تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے فدیہ کے بارے میں لکھا کہ ’’یہ طلاق نہیں بلکہ الگ چیز ہے‘‘۔ حالانکہ حنفی مؤقف اور حضرت ابن عباسؓ کا قول ایک معاملہ کی وضاحت کرتے ہیں کہ فدیہ کے بدلے میں جو طلاق دی جائے وہی مراد ہے۔
سورۂ بقرہ میں اس آیت230سے پہلے اور بعد کی آیات میں عدت وعدت کے بعد باہمی رضاسے رجوع واضح ہے۔ دورِ جاہلیت نہیں اب باہوش وحواس کوئی طلاق دے تو عورت کو مرضی سے شادی نہیں کرنے دیتا ۔برطانیہ میں لیڈی ڈیانا اسی جرم پر ماری گئی ۔ قرآن کا حکم تسلیم کروالیا جائے کہ شوہر بیوی کو تمام شروط وقیود سے طلاق دے، تو قرآنی آیت کیمطابق عورت کو اس کی مرضی سے شادی کرنے دی جائے۔ کوئی حق تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں مگرحیلوں سے معاشرہ حلالہ کی بے غیرتی کا عادی بنادیا گیا۔جب قرآن وسنت کے عظیم معاشرتی نظام کو سمجھ کر نافذ کرینگے تو مغرب بھی اسلام کے سامنے چت ہوجائیگا۔علماء کرام اپنے حال اور امت پر رحم فرمائیں۔
حضرت عمرؓ نے جھگڑے میں یکدم تین طلاق کو ناقابلِ رجوع قرار دیا، طلاق کے بعد قرآن کیمطابق شوہر غیر مشروط رجوع نہیں کرسکتا۔ ائمہ نے طلاق کا درست فتویٰ دیا، ورنہ عدت کے بعد عورت شادی نہ کرسکتی، عدت وطلاق لازم ملزوم ہیں۔ عدت ختم ہو تو طلاق کی ملکیت باقی نہیں رہتی۔ضعیف روایت پر مسائل کاغلط ڈھانچہ بنایاگیا۔ اسلامی قانون نے صنفِ نازک اور کمزور کو تحفظ دیا مگر طاقت نے اسلام کا بیڑہ غرق کردیا۔ علماء کا حق کا اعلان کریں تو بھلا ہوگا۔ عتیق گیلانی

یہود کا توراۃ،علماء کاقرآن سے انحراف اور خلافت

اللہ نے فرمایا:’’ اور یہ کیسے آپ (ﷺ) کو فیصلہ سپرد کرینگے؟اور انکے پاس توراۃ ہے جس میں اللہ کا حکم ہے ۔پھر انہوں نے اس سے منہ موڑلیا، اور یہ ایمان لانے والے نہیں۔ بیشک ہم نے توراۃ اتارا۔ اس میں ہدایت اور نور ہے،اسکے ذریعے انبیاء فیصلے کرتے، یہود میں ان لوگوں کیلئے جوسرتسلیم خم تھے، اسی طرح ربّانی مشائخ و علماء بھی انبیاء کی وراثت کا حق ادا کرتے ہوئے عوام کے درمیان فیصلے کرتے تھے بسبب اسکے کہ ان کو اللہ کی کتاب پر نگران مقرر کیا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے۔ پس (اے علماء ومشائخ ) لوگوں سے مت ڈرو، تم مجھ سے ڈرو اور میری آیات تھوڑی قیمت کے عوض فروخت نہ کرواور جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتے تووہی لوگ کافر ہیں۔(مذہبی لوگو! سوچئے)
اور ہم نے ان پر لکھا جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان ، دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا بدلہ ہے اور جس نے معاف کردیا تو یہ اس کیلئے کفارہ ہے۔ اور جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔(حکمرانو! ذرا سوچئے)
اور ہم نے پھر انکے آثار کے نقش پر چلایا عیسیٰ ابن مریم کو ، تصدیق کرنے والا توراۃ میں جو تھا، اور ہم نے ان کو انجیل دی ، جس میں ہدایت اور نور ہے ، جو تصدیق کرتاہے جو توراۃ میں ہے اور ہدایت اور نصیحت پرہیزگاروں کیلئے اور فیصلہ کریں اہل انجیل جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے اور جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتے تو وہی لوگ فاسق ہیں۔(عوام الناس ! ذرا سوچئے)
اور (اے خاتم الانبیاءﷺ) ہم نے تیری طرف کتاب نازل کی حق کے ساتھ جو تصدیق کرتی ہے (پہلے سے نازل شدہ) الکتاب کی اور اسکی محافظت کرتی ہے۔ پس انکے درمیان فیصلہ کریں اس پر جو اللہ نے نازل کیا۔ اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اس سے جو حق تیرے پاس آچکاہے۔ ہرایک کیلئے تم میں سے ہم نے شریعت اور طریقۂ کار بنایا۔ اگر اللہ چاہتا تو ایک ہی امت تم کو بناتا لیکن وہ تمہیں آزمانا چاہتاہے جو کچھ تمہیں دیاہے اس میں۔ پس بھلائی میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرو۔ اللہ کی طرف ہی تمہارا ٹھکانہ ہے۔پس وہ بتادیگا ،جس پر تم اختلاف کیا کرتے تھے۔
اور پس (یا نبی!)انکے درمیان اللہ کے نازل کردہ کیمطابق فیصلہ کرواور انکی خواہشات پر نہ چلو اوربچوان سے کہ آپکو آپکی طرف نازل کردہ بعض احکام سے فتنہ میں نہ ڈالیں اوراگرو ہ پھریں تو سمجھ لو کہ اللہ چاہتا ہے کہ انکے بعض گناہوں کے بدلے انکو پہنچے۔ بیشک لوگوں میں اکثر فاسق ہیں، کیا یہ جاہلیت کا حکم ڈھونڈتے ہیں اور اللہ سے اچھا حکم کس کاہے؟، اس قوم کیلئے جو یقین رکھتے ہیں۔اے ایمان والو!یہود و نصاریٰ کو اپنے فیصلے اولیاء مت بناؤ، یہ بعض بعض کے ولی ہیں۔جو ان کو اپنا سرپرست بنالے تو وہ انہی سے ہے۔ بیشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتاہے۔ (المائدہ: آیات:43تا51)
1: پہلی بات یہود کے بارے میں ہے ’’یہ کیسے آپﷺ کو فیصلہ کا اختیار دینگے؟۔ انکے پاس توراۃ میں اللہ کا حکم ہے ، حفاظت کی ذمہ داری انکے علماء ومشائخ پر ڈالی گئی اور جان کے بدلے جان ۔آنکھ، ناک، دانت، کان اور زخموں کے بدلے کا حکم تھا۔ اللہ کے احکام میں تحریف کرکے کفر کا راستہ اپنایا اور انصاف کے تقاضوں پر عمل نہ کرکے ظالم بن گئے۔ اگر انہوں نے انصاف کرنا ہوتا تو آج بھی کرسکتے ہیں لیکن جب اپنے ہاں واضح انصاف کے تقاضہ پر عمل نہیں کرتے تو آپﷺ سے کیسے انصاف مانگنے کیلئے آئیں گے؟‘‘۔
امام ابوحنیفہؒ نے توراۃ اور قرآن کیمطابق جان کے بدلے جان کا مسلک قائم رکھا، ورنہ باقی امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد حنبلؒ جمہور نے بھی یہود کی طرح انحراف کیا تھا کہ کافر کے بدلے مسلم کو قتل نہ کیا جائیگا۔آج دنیا کی سطح پر قرآن، توراۃ اور حنفی مکتب کی بنیاد پر عادلانہ نظام قائم ہوسکتا ہے۔ کوئی ملک بھی اس سے کھل کر انحراف کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ پاکستان سے کینیڈا، بیت اللہ سے بیت المقدس ،امریکہ سے ایران، فرانس سے چین، بھارت سے افریقہ دنیا بھرشمال ،جنوب ، مشرق اور مغرب کااس پر اتحادہوسکتاہے۔
2:دوسری بات یہ ہے کہ ’’ اللہ نے علماء ومشائخ اور حکمرانوں پر عام لوگوں کی نسبت سخت فتوے لگادےئے ۔ ہم نے پہلے ’’پاکستان سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز‘‘ نامی کتابچے میں اسکی بھرپور وضاحت بھی کی تھی جس کو تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے تائید سے نوازا تھا۔ علماء ومشائخ اگر اللہ کے احکام کے برعکس تھوڑی قیمت کے بدلے دین کو بیچ دینگے تو ان پر کفر کا فتویٰ لگا ہے اور اگر حکمران اللہ کی کتاب پر انصاف نہ کریں تو ان پر ظالم کا فتویٰ لگا ہے اور عوام اللہ کے احکام پر نہ چلنے کا فیصلہ نہ کریں تو ان پر فاسق کا فتویٰ لگا ہے‘‘۔
3:تیسری بات ان آیات میں ہے کہ ’’ یہود نے احکام میں خواہش سے تحریف کی ،قرآن میں اللہ کے احکام محفوظ ہیں، اگر انکی خواہش پران کو بھی قرآن کے مطابق فیصلہ نہ دیا تو ہم قرآن کے بعض احکام سے بھی فتنہ میں مبتلا ہوں گے۔ اگر یہود ہمیں اپناحاکم بنالیں تو ہم نے قرآن ہی پر فیصلہ کرنا ہے، قتل، آنکھ، ناک ، کان اور زخموں کا بدلہ تو توراۃ وقرآن میں یکساں تھا اسلئے انصاف کے تقاضے پر عمل کرکے فیصلہ کرنا ہوگا لیکن کوڑے اور سنگساری کی سزا میں فرق ہے۔ ہم نے ان کی خواہش پر ان کو بھی سنگسار نہیں کرناہے۔
جب ان کی کتاب کے مطابق ہم ان کیلئے فیصلہ نہ کرنے کے پابند ہیں تو ان کو اپنے فیصلے کا اختیار دینے کی ولایت کیسے سپرد کرسکتے ہیں؟۔ اولیاء سے مراد دوست نہیں بلکہ والی وسرپرست ہے، جیسے عورت کا سرپرست اس کا ولی ہوتاہے، اہل کتاب کی خواتین سے شادی کی اجازت ہے تو اس سے بڑھ کر اور کیا دوستی ہے؟۔داعش عورت کوسنگسار کرنے کی سزا قرآن نہیں توراۃ کے مطابق دیتی ہے اور دنیا میں بدنام اسلام ہورہاہے۔ عوام کو بتانا ہوگا کہ بے نمازی کی خود ساختہ سزا کا تصور غلط ہے ۔زنا، بہتان، چوری ، قتل ، آنکھ، ناک وغیرہ کے بدلہ سزا پر عمل نہیں ہورہا،صرف حلالہ کی سزا کیلئے ہر راستہ اپنایاہے۔ حضرت عائشہؓ پر بہتان کے حوالہ سے پرویزی ٹولے نے اسلامی مساوات کی بیخ کنی کرکے فرقہ واریت کا بیچ بودیاہے جس کا خمیازہ پاکستان بھگت رہاہے۔
مسلم اُمہ قرآن اور حقائق سے روشناس ہو تو فرقہ واریت کا خاتمہ بھی ہوسکے گا اور نبیﷺ کی پیش گوئی کے مطابق دنیا میں طرزِ نبوت کی خلافت بھی جلد سے جلد وجود میں آجائیگی۔علماء ومشائخ اور مسلم ریاستوں کا ہٹ دھرمی پر قائم رہنامشکل ہے لیکن اسلام کا درست تصور اجاگر کرنا ہوگا ۔عتیق گیلانی

قرآن کی آیات سے واضح انحراف کا معاملہ: عتیق گیلانی کی ایک تحریر

فاذا اخصن فان اتین بفاحشۃفعلیھن نصف ما علی المحصنٰت من العذاب ذٰلک لمن خشی العنت منکم وان تصبیروا خیرلکم ۔۔۔؛ومن یفعل ذٰلک عدوانًا وظلمًا فسوف نصلیہ نارًا۔۔۔Oترجمہ’’ جب لونڈی نکاح میں لاؤ، پھر اگر وہ فحاشی کی مرتکب ہوں،تو ان پر عام عورتوں کی نصف سزا ہے۔ یہ اس کیلئے ہے جو تم میں سے تکلیف میں پڑنے سے ڈرتا ہواور اگر تم صبر کرلو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اللہ غفور رحیم ہے۔اللہ چاہتاہے تمہارے لئے واضح کرنااور تمہیں بتانا ان لوگوں کا طریقہ جو تم سے پہلے گزرچکے اور وہ تم پر توجہ چاہتاہے اور اللہ علیم حکیم ہے۔ اللہ چاہتاہے کہ تم پر توجہ دے اور جو لوگ اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں انکی چاہت ہے کہ تم میلان کا شکار ہوجاؤ ، بہت بڑے میلان کا۔ اللہ چاہتاہے کہ تم سے بوجھ ہلکا کرے اور انسان کمزور پیدا کیا گیا۔ اے ایمان والو! آپس میں اپنے اموال باطل طریقے سے نہ کھاؤ مگریہ کہ رضا سے تجارت اور اپنی جانو ں کو قتل نہ کرو، بیشک اللہ تم پر نہایت رحم والا ہے اور جس نے حد سے تجاوز (دشمنی)اور ظلم سے ایسا کیا تو ہم اسکو عنقریب جہنم میں جھونک دیں گے۔ اور اللہ کیلئے یہ بہت آسان ہے۔( سورۂ النساء: آیات:25تا30)
منکوحہ لونڈی کو آدھی سزا بھی اس کیلئے جو مشکل میں پڑنے سے ڈرتا ہو۔ کیونکہ فحاشی سے رُکنا مشکل ہوسکتاہے،اگر سزا کے بغیر صبرکیا تو یہ بہتر ہے۔ منکوحہ لونڈی کیلئے50کوڑے تو آزاد منکوحہ کیلئے 100 ہیں۔ لونڈی سے شادی ٹھیک ہے بعضکم من بعض ’’تم ایکدوسرے سے ہو‘‘۔ تفسیرو ترجمہ میں حقائق سے انحراف ہے کہ ’’ لونڈی سے نکاح مشکل میں پڑنے سے ڈرنے کیلئے ہے صبر بہتر ہے‘‘۔ فحاشی پر عورت سزا کے بغیر گھر سے نکلے یالُعان کے ذریعے حق سے محروم ہو،یا کوڑوں کی سزا ہو۔ یہ سب صورتیں حلالہ کی بے غیرتی اور غیرت کے نام پر قتل کے مقابلہ میں اسلام کو بڑاعروج بخشیں گی۔
اللہ نے یہ بھی واضح کیا کہ آزاد عورت کے مقابلہ میں لونڈی کی آدھی سزا پہلے امتوں میں بھی رائج رہی ۔ باربار اللہ نے باور کرایا کہ اللہ تم پر خاص توجہ چاہتاہے اور نفسانی خواہشات کی پیروی والے چاہتے ہیں کہ تم میلان میں مبتلا ہو، بہت بڑے میلان میں (بڑا میلان کیا؟، سنگساری اور قتل کا حکم 100 کوڑوں کے مقابلے میں!)اللہ چاہتاہے کہ تم سے بوجھ ( سنگساری کی سزا ) کو ہلکا کردے ۔انسان کمزور پیدا کیا گیا۔ آیات کاواضح مفہوم بگاڑنے کی کوشش کے بعد سیدمودودی کی فصاحت بھی معاملات کو سلجھا نے کے کام نہیں آسکی۔ اگرسیاق وسباق کے مطابق قرآن کا ترجمہ و تفسیر ہو تولوگوں کو ہدایت ملے۔
مذہبی طبقہ وکیلوں کی طرح احکام کی تشریح بدل کر باطل مال نہ اُڑائیں مگر باہمی رضا سے تجارت۔ اور اپنی جانوں کو قتل مت کرو۔ بیشک اللہ بہت رحم والاہے۔ خواتین کو اکثر و بیشتر بدکاری کے جرم میں قتل کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی، جے یوآئی ، جے یو پی، وحدت المسلمین، اسلامی نظریاتی کونسل ، قومی اسمبلی اور سینٹ وغیرہ اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کرکے یہ اہم معاملات زیرِ بحث لائیں تاکہ اسلامی قانون سازی کی راہ ہموار ہو۔
پھر اللہ نے مزید وضاحت کردی کہ ’’اگر یہ سب کچھ حد سے تجاوز (دشمنی) اور ظلم سے کوئی کرتاہے تو اس کو اللہ جہنم میں جھونک دیگا‘‘۔ غلط فہمی اور خلوص کی بنیاد پر حقائق سے قاصر لوگوں کیلئے وعید نہیں ۔ حضرت عمرؓ نے حضرت مغیرہؓ پر سنگساری کا حکم جاری نہ کیا ، اگر غلط فہمی میں جاری کردیتے تو بھی ان پر وعید کا اطلاق نہ ہوتا۔ حضرت علیؓ سنگسار کرنے کا حکم دیتے ،تب بھی وعید کے زمرے میں نہ آتے۔ علماء نے بھی خلوص کی بنیاد پر غلط فہمی سے مفہوم نہ سمجھا مگر اب ہمارے لئے سب سے بڑا اثاثہ قرآن وسنت ہے۔ مفادات کو مدِ نظر رکھ کر حقائق سے انحراف کرنے پر مذہبی طبقے یقیناًوعید کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
حدودو تعزیرات نہیں معاشرتی معاملات اور حقوق میں بھی قرآن وسنت میں بہت ڈنڈیاں ماری گئیں ۔ الفاظ کی جنگ میں مبتلاء مذہبی طبقے اسلام کے درست مفہوم سے فرقہ وارانہ تعصبات چھوڑ سکتے ہیں اور ملتِ واحدہ بن کر دنیا میں اسلامی نظام کو غلبہ دلاسکتے ہیں۔ اہل تشیع یہ کہہ دیں کہ ’’جو فرق حسینؓ اور یزید میں تھا، وہی علیؓ اور عمرؓ میں بھی تھا‘‘۔ تو ہم نہیں روک سکتے ۔ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ یزید کا کردار غلط تھا اور امام شافعیؒ و امام مالکؒ مقدس ہستی تھے لیکن اگر وہ یزید کی جگہ حکمران ہوتے تو دینداری، فقہ وسمجھ اور خلوص کے باوجود یزید اور بنی امیہ وبنی عباس کے امراء کی نسبت اسلام کا زیادہ بیڑہ غرق کرتے ،اسلئے کہ کربلا کے شہداء سے اسلام کو اتنا نقصان نہ پہنچا جتنا بے نمازی کو قتل کرنے سے پہنچتا، ابوبکرؓ و عمرؓ سے زیادہ اسلام کو علیؓ کے اقتدار سے نقصان پہنچتا۔ عثمانؓ کی شہادت کی افواہ پر نبیﷺ نے بیعت رضوان لی، یداللہ فوق ایدیھم ۔ علیؓ کے پروردہ محمد بن ابی بکرؓ نے پہلے عثمانؓ کی داڑھی میں ہاتھ ڈالاتھا، حسنؓ و حسینؓ دروازے پر حفاظت کر رہے تھے۔سنی عشرہ مبشرہؓکی لڑائی کومنافقت نہیں سمجھتے جو جنگِ صفین و جمل برپا ہوئی تھی۔اہل تشیع کا اس کومذہبی رنگ دینا اور اسلاف سے بدظنی غلط ہے ۔خوارج بھی علیؓ کا لشکر تھے ،پھر برگشتہ ہوئے۔ منصبِ خلافت سیاسی مسئلہ تھا۔ امام حسنؓ نے دستبردارہو کر شیعہ اور خوارج کی اصلاح کی ۔اگرخلافت کا پسِ منظر سیاسی نہ ہوتا تو مسلم اُمہ شروع سے مذہبی تفرقے کا شکار بنتی۔ شیعہ کا ایران وشام اورعراق میں اقتدار کامیاب ہے؟۔ خلافت مذہبی مسئلہ ہوتا تو علیؓ کا اختیارسونپ دینا، حسنؓ کی دستبرداری، حسینؓ کی طرف سے واپسی کے مطالبے سے لیکر آخری امام کی غیبت تک ذمہ داری ائمہ پر پڑتی،اسلئے تو خوارج نے علیؓ اور اسماعیلیہ نے حسنؓ کی امامت کا انکار کیا تھا۔
حضرت علیؓ نے فرمایاکہ ’’میں یہود کو توراۃ، نصاریٰ کو انجیل اور مسلمانوں کو قرآن سے فیصلہ دونگا‘‘ ۔ بظاہریہ خوش آئند ہے مگر توراۃ میں تحریف، انجیل میں حدود وتعزیرات نہیں اور قرآن میں واضح ہے: ومن الذین ھادوا ۔۔۔ یحرفوں الکلم من بعد مواضعہ۔۔۔ ؛فان جاء و ک فاحکم بینھم او اعرض عنھم وان تعرض عنھم فلن یضرک شےءًاوان حکمت فاحکم بینھم بالقسط ۔۔۔ المائدہ: 41، 42۔اور یہود ۔۔۔ بات کو اپنی جگہوں سے ہٹاتے ہیں ۔۔۔ اگرآپکے پاس آئیں تو انکے درمیان فیصلہ کرو یا ان سے کنارہ کشی کرو، اگر اعراض کرو تو آپ کو نقصان نہیں پہنچاسکتے اور اگر فیصلہ کرو تو انصاف سے کرو‘‘۔ قرآن وتوراۃ کا حکم برابر ہوتو ٹھیک اگر نہیں تو قرآن برحق ہے اور یہی انصاف کا تقاضہ بھی۔ تفصیل آگے دیکھئے۔

فاروق اعظمؓ اور امام اعظمؒ کا زبردست انوکھا دفاع: عتیق گیلانی کی تحریر

’’ زانی اور زانیہ کی سزا 100کوڑے ہے‘‘۔ سورۂ نور۔ شادی شدہ و غیر شادی شدہ کافرق نہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے لکھا : ’’ اس میں زنابالرضا و زنا بالجبر کافرق نہیں‘‘۔ حالانکہ زنا بالجبر میں عورت کا جرم ہے ،نہ اس کی سزا۔ جبکہ مرد کا جرم بھی بڑا اوراسکی سزا بھی بڑی۔ صحابیؓ سے پوچھاگیاتھا کہ سورۂ نور کے بعد سنگسار کرنے کی سزا دی گئی؟، تو جواب دیا تھاکہ مجھے پتہ نہیں۔( صحیح بخاری)
توراۃ میں ہے الشیخ و الشیخۃ اذا زنیا فارجمھما ’’جب بوڑھا و بوڑھی زنا کریں تو دونوں کو سنگسار کردو‘‘۔ علامہ مناظر احسن گیلانیؒ نے لکھا: ’’بوڑھا و بوڑھی غیرشادی شدہ بھی زد میں آتے ہیں، جوان شادی شدہ بھی زد میں نہیں آتے۔ قرآن میں کوڑوں کی سزا ہے، یہ یہود کی اختراع ہے ،قرآن کے واضح حکم کے بعد اس پرعمل بہت بڑی زیادتی ہے۔ بے عمل علماء نے مذہبی تعلیم کا حصہ بناکر یہودو نصاریٰ کی طرح اللہ کے احکام میں تحریف وتبدیلی کا ارتکاب کیاہے، اس کو نصاب سے خارج کیا جائے‘‘۔(تدوین القرآن)
مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے لکھا ’’ سنگساری کا حکم توراۃ میں تعزیر تھا‘‘۔متکبر غریب اور بوڑھے زناکار کی حدیث میں سخت مذمت ہے۔ موسیٰ علیہ السلام سے بھی یہ نقل ہوگا،پھر یہود نے توراۃ میں تعزیر لکھی ہوگی۔ قرآن میں خواتین کو زبردستی نشانہ بنانے والوں کو قتل اور حدیث میں زنابالجبر پر بھی سنگساری کی سزا کا ذکر ہے۔ بعض دفعہ معاملات ایکدوسرے سے خلط ملط ہوجاتے ہیں۔
جن میں حکم نازل نہ ہوتانبیﷺ اہل کتاب کیمطابق حکم کرتے (بخاری) سورۂ مجادلہ میں ظہار، قبلہ بیت المقدس، خاتون و مرد کا اپنے پر گواہی کے بعد سنگساری کا حکم مثال ہیں۔ نبیﷺ نے چاہاتھا کہ سنگساری سے بچ جائیں، جب پتہ چلا کہ مرد بھاگ رہا تھا تو آپﷺ نے فرمایا : اسے بھاگنے دیتے۔
زنا پر حد جاری کرنا روز کا معمو ل نہ تھا ۔ اکا دکا واقعہ سے روایات کی بھرمار ہے۔ حضرت عمرؓ اللہ کے احکام میں زیادہ سخت تھے۔ اپنے غیرشادی شدہ بیٹے کو کوڑے لگوانے لگے تو بیگمؓ نے سفارش کی کہ ’’کوڑے لگانیوالا آدمی بدلو‘‘۔ جس پر وہ جان سے بھی گیا۔ حضرت عمرؓ نے کہا: نبی ﷺ نے سنگسار کرایا ، اگر الزام نہ لگتاکہ عمر نے اضافہ کیا تواس کو قرآن میں لکھ دیتا۔ عمرؓکو بھنک پڑی تو سخت وعید سناکر حالات پر قابو پانا چاہا ۔ سنگساری کے غیرفطری حکم پر عمل مشکل تھا اسلئے اللہ نے عمرؓ کے ہاتھوں ہی ا سکی تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ چنانچہ مغیرہ ابن شعبہؓ کے حوالہ سے چارگواہ آگئے، پہلے کی گواہی پرعمرؓ کا رنگ پیلا پڑ ا، دوسرے کی گواہی پر عمرؓ کی پریشانی میں اضافہ ہوا اور تیسرے کی گواہی پر عمرؓ کی پریشانی انتہاء کو پہنچ گئی۔ چوتھے گواہ زیاد کو آتے دیکھ کریہ ترغیب دی کہ اسکے ذریعے اللہ اس صحابیؓ کو رسوائی سے بچائیگا۔ وہ گواہی دینے لگا تو حضرت عمرؓ نے زور سے دھاڑ کر کہا :’’بتا تیرے پاس کیاہے؟‘‘۔ راوی نے کہا کہ وہ اتنے زور کی چیخ تھی کہ قریب تھا کہ خوف کے مارے میں بیہوش ہوجاتا۔زیاد نے کہا: میں نے دیکھا: عورت کے پاؤں اسکے کاندھے پر گدھے کے کانوں کی طرح پڑے تھے ۔تو عمرؓ نے کہا:’’ بس گواہی مکمل نہ ہوئی‘‘۔ باقی تینوں کو بہتان کے 80، 80کوڑے لگادئیے اور پیشکش کی کہ اگر اقرار کرلو کہ جھوٹی گواہی دی تو آئندہ تمہاری گواہی قبول ہو گی۔گواہوں میں صحابی صرف حضرت ابوبکرہؓ تھے جو اپنی بات پر ڈٹ گئے کہ’’ میں نے درست گواہی دی، آئندہ میری گواہی قبول نہ کی جائے تو مجھے اس کی پرواہ نہیں‘‘۔ باقی افراد نے سمجھا کہ بھاڑ میں جائے، یہ قانون اور گواہی کہ مجرم بچ جائے اورالٹا ہمیں کوڑے کھانے پڑیں۔ چنانچہ دونوں نے اقرار کیا کہ ہم نے جھوٹ بولا تھا۔
بخاری میں بھی یہ واقعہ ہے، امام مالکؒ ،امام شافعیؒ اور امام احمد حنبلؒ جمہور متفق تھے کہ حضرت عمرؓ کی پیشگش درست تھی ، بہتان پر توبہ کے بعدگواہی قبول کی جائے گی مگر امام ابوحنیفہؒ نے کہا کہ ’’ولاتقبلوالھم شہادۃ ابدًاقرآن میں جھوٹی گواہی کے بعد ہمیشہ کیلئے گواہی قبول نہ کرنا واضح ہے، اسلئے گواہی قبول نہ کی جائیگی‘‘۔ اسلام میں قانون سازی کیلئے یہ واقعہ بذاتِ خود بہت بڑا المیہ ہے ،عمرؓ کا طرزِ عمل قرآن کے منافی قرار دیکر امام ابوحنیفہؒ نے حق ادا کیا۔ عمرؓ کے رویے کو قابلِ تحسین کہنے کا قانونی، شرعی اور اخلاقی جواز نہیں مگر اس غلط طرزِ عمل نے اسلام کو بڑے حادثہ سے بچایاکیونکہ سنگساری کا حکم قرآن کے بالکل منافی تھا، اگر اس پر نیک نیتی سے عمل ہوجاتا تو اسلام کی حفاظت بھاڑ میں جاتی۔ امام ابوحنیفہؒ کا مسلک جزئی شق کیلئے اثاثہ ہے مگر عمرؓ کایہ غلط طرزِ عمل اسلام کیلئے بڑا کارنامہ ہے، جس پر شیعہ کا ہنگامہ ہے۔بدری قیدیوں کے قتل کا صائب مشورہ حضرت فاروق اعظمؓ کا اتنا بڑا کارنامہ نہ تھا جتنااس واقعہ کی وجہ سے اسلام کو ابدی تحفظ مل گیاہے۔اسلام کو احکام ہی سے زندہ کیا جاسکتاہے۔
عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ کوحد ٹالتے دیکھا، ایک آدمی نے اقرار کیاتو نماز کا وقت ہوا، عمرؓعرض کیا :اس نے اقرار کیا،تو نبیﷺ نے فرمایا :اس نے توبہ کی ۔ حضرت عمرؓ سنگسار کرتے تومسلمان اس عظیم حادثے کا شکار ہوتے جسے قرآن نے عظیم میلان قرار دیا۔ امام ابوحنیفہؒ نے حضرت عمرؓ اور جمہور کیخلاف شہادت کے مسئلے پر قرآن کی آیت کے الفاظ کو تحفظ دیکر عظمت کا حق ادا کیا۔ حضرت عمرؓ نے نادانستہ اللہ کے فضل سے توراۃ کے مقابلے میں قرآن کے واضح حکم کی حفاظت کا اہتمام کیا۔امام اعظمؒ نے عمرؓکا فعل یاجمہور کا مسلک نہیں دیکھاتو کیا قرآن کے مقابلے میں کوئی چیز احناف یا کسی مسلمان کی ترجیح ہوسکتی ہے؟۔
اللہ نے فرمایاکہ ’’جب لونڈی کو نکاح میں لاؤ، پھر اگر کسی فحاشی کی مرتکب ہوں تو ان کیلئے آزاد خواتین کے مقابلے میں آدھی سزا ہے‘‘۔ یعنی100کے بجائے50۔ غیرشادی شدہ لونڈی کی یہ سزا ہوتی توثابت ہوتا کہ شادی شدہ کی الگ سزا ہے مگرشادی شدہ لونڈی کی نصف سزا یہ وضاحت ہے کہ اسلام میں سنگساری کی سزا نہیں ۔ ازواج مطہراتؓ کیلئے کھلی فحاشی پرقرآن میں دہری سزا کی وضاحت ہے جو ڈبل سنگساری نہیں200کوڑے ہی ہوسکتے ہیں۔
شادی شدہ کیلئے سنگساری، غیرشادی شدہ کیلئے سال جلاوطنی کی سزا ہوتی تو کم لوگ عمل کرتے۔ ولوکتبنا علیھم ان اقتلوا انفسکم اواخرجوا من دیارکم مافعلوہ الا قلیل منھم ’’اور اگران پر ہم اپنی جانوں کا قتل اور جلاوطنی کی سزا لکھ دیتے تو اس پر عمل نہ کرتے مگر ان میں سے بہت کم‘‘۔ یہود نے سنگساری وجلاوطنی کی خود ساختہ سزا پر عمل نہ کیا ،ہم نے بھی قرآن کے برعکس سزا کا تصور قائم کرکے عمل نہ کیا۔کوڑوں کی سزاقتل کے مقابلہ میں جان بچانے کی مہم ہے جو آج بھی ایک کارگر نسخہ ہے لیکن قرآن سے انحراف کیا گیا۔

قرآن وسنت میں زنا بالجبرکی حد وتعزیر کا اہم مسئلہ: عتیق گیلانی

عورت بدکاری کے الزام پر قتل کی جائے ۔مرد زبردستی خاتون کی عزت دری کرے تو اس کو تحفظ ملے۔ عورت قانون کے بغیر غیرت کے نام پر قربان ہے اور مجرم مرد کو شریعت کے ذریعہ جان کی امان ہے۔ کیا یہ رحمان کا شاخسانہ ہے یا شیطان کا افسانہ ہے؟۔خود کش حملے میں ہزاروں شہید زندہ وتابندہ ہیں اور جنسی تشدد کا نشانہ بنے والی خاتون خود اور خاندان والے بھی شرمندہ ہیں ۔ عورت کی عزت دری پر عرش ہلتاہے مگر بے ضمیر داڑھی والے کی ناک پراحتجاجًا جوں نہیں رینگتی ہے اور نہ ہی بال والے اور گنجے کے کان پر جوں رینگتی ہے۔
بچی کے مقابلے میں بچے کی پیدائش پر ماں بہنیں زیادہ خوش ہوتی ہیں اور مشرکینِ مکہ کے حوالہ سے بچی کی پیدائش پر حالتِ زار کا قرآن نے جس انداز میں تذکرہ کیا ہے کہ ’’ جب بچی کی خبر سنائی جاتی ہے تووہ سوچتاہے کہ اس طرح ذلت وشرمندگی کیساتھ اس کو برداشت کرلے یا اس کو مٹی میں دفن کردے‘‘۔ عورت کو زندہ دفن کرنا، زندگی بھر طلاق نہ دینا یا ایک دم فارغ کرکے رُلانااس معاشرے میں خمیر کی طرح شامل تھا۔ اسلام نے صنفِ نازک کے تمام مسائل کو اس احسن انداز میں حل کیا جس کی حقیقت سے آج دنیا واقف ہوجائے تو خواتین اپنے مسائل کے حل کیلئے پوری دنیا میں اسلامی نظام کو ووٹ دیں گی۔
کوئی اپنی بیوی سے زیادہ کسی پر غیرت نہیں کھاسکتا۔ اسلام نازل ہوا تو معاشرے میں جاہلیت ایسی سرایت کر گئی تھی کہ سبقت لے جانیوالے انصار کے سردارحضرت سعد بن عبادہؓ نے کہا کہ قرآن کی آیت میں لُعان کے حکم پر میں عمل نہیں کرونگا بلکہ قتل کردونگا۔ نبیﷺ کی شکایت پر انصارؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس سے درگزر فرمائیے ، یہ بہت غیرت والا ہے، ہمیشہ کنواری سے شادی کی، کبھی بیوہ یا طلاق شدہ سے شادی نہ کی اور جس کو طلاق دی اس کو کسی اور سے شادی نہیں کرنے دی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت والا ہے۔(صحیح بخاری)
برطانیہ کی بادشاہت کے وسیع حدود پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا لیکن برطانوی راج نے بھی تعزیرات ہند میں مردوں کے سامنے گھٹنے ٹھیک دئیے۔ شوہر بیوی کو ناجائز تعلقات پر قتل کرتا تھا تو انگریز کی حکومت نے اس پرقانونی چھوٹ دیدی تھی۔حضرت عمرؓ نے بھی اس شخص کو سزا نہ دی جو بیوی کیساتھ کسی کو بدکاری کی حالت میں دیکھ کر قتل کرگیا۔ پہلے رسول اللہ ﷺ نے تلوار سے فیصلہ کرنے کا حکم صادر فرمایاتھامگر جب اللہ نے وضاحت کی تو پھر قتل کرنے پر قتل کی حد نافذ فرمادیتے چاہے سعد بن عبادہؓ ہوتا یا کوئی اور۔ غیرت کا تقاضہ یہ ہرگزنہیں کہ کسی کی زندگی کا خاتمہ کرکے پھراپنی زندگی کی بھیک مانگی جائے۔ قتل کے بدلے قتل کا قانون انسانی فطرت ہے۔ توراۃکے حوالہ سے قرآن میں بھی ہے اور اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’قصاص میں تمہاری زندگی ہے‘‘۔
قانون ہمیشہ کمزوروں کی ضرورت ہوتاہے اور طاقتوروں کو اس سے لگام دی جاتی ہے۔ عورت کمزور ہے ، ایک طرف قرآن نے اس کو شوہر کی غیرت سے انتہائی ناگوار صورتحال کے باوجود تحفظ دیا اور دوسری طرف زبردستی کے زنا پر مرد کو قتل کرنے کا قانون متعارف کرایاہے۔ کمزورعورت کی عزت طاقتور مرد زبردستی سے لوٹ لے تو سزا قرآن وسنت میں قتل ہے۔دنیا کو اسلام کے فطری قوانین سے آشنا کیا جائے تو کوئی انسان ایسا نہیں ہوگا جو اس کو قبول کرنے سے انکار کردے۔لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔
مردخاتون کا قتل اسلامی غیرت سمجھے اور عورت کیساتھ زبردستی سے زیادتی کی جائے تو چار شرعی گواہ لانے کو ضروری سمجھا جائے۔ انسان یہ خیال کرتاہے کہ عورت کی سزا سنگساری ہے تو قتل کیلئے قانونی الجھنوں میں نہیں پڑتا ۔جب یہی ریت پڑجائے کہ شادی شدہ خواتین کیلئے قتل ہے تو غیرشادی شدہ کے قتل کیلئے بھی یہ روایت پڑجاتی ہے۔ طاقتور قانون سے بالاتراور کمزورقانون کی گرفت کا نشانہ بنتے ہیں توانسانی ضمیر کانے دجال کی آنکھ سے دیکھنے کا عادی بنتاہے، دجال دجل سے ہے، یہ بڑا دجل ہے کہ طاقتور کیلئے قانون تحفظ فراہم کی ضمانت اورکمزور کیلئے گرفت کا باعث ہو۔ اورنگزیب عالمگیر نے بھائیوں کو قتل کیا اور فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ’’ بادشاہ پر حد جاری نہیں ہوتی ‘‘۔ یزید سے لیکر برطانوی سامراج اور موجودہ سپر طاقت تک قانون کمزور نہیں طاقتور کو تحفظ دیتارہاہے۔جو لوگ برطانوی عدل کو مثالی قرار دیتے ہیں یہ نری بکواس ہے۔ الطاف حسین مجرم نہ تھا تو کیس بنایا کیوں ؟اورتھا توپھر چھوڑا کیوں؟۔
گھر میں مرد بادشاہ ہے،جو اپنی گرفت کیلئے قانون برداشت نہیں کرتامگر یہ سمجھتاہے کہ کوئی اسکی بیگم سے زبردستی زیادتی کرے تواسے قتل کیا جائے۔ یہ قانون دنیا کے ہر غریب امیر ، ادنیٰ اعلیٰ اور بلاتفریق رنگ، نسل اور مذہب سب کیلئے یکساں ہو۔ اسلامی دنیا کے علاوہ غیرمسلم بھی اس قانون کا خیرمقدم کرینگے۔ اقبال ؒ نے اس کو ’’حافظِ ناموسِ زن‘‘ قرار دیا ۔ قرآن میں سابقہ امتوں کے حوالہ سے بھی اس فطری قانون کا ذکرہے ۔ فرمایا: اینما ثقفوا فقتلوا تقتیلا ’’جہاں بھی پائے گئے قتل کئے گئے‘‘۔ وائل ابن حجرؓ کی روایت میں ہے کہ نبیﷺ کے سامنے ایک خاتون نے کسی کی شکایت کردی کہ اس نے زبردستی سے اسکے ساتھ بدکاری کی ہے۔ نبیﷺ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیدیا۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ ایک عورت کی گواہی کو علماء حد جاری کرنے کیلئے ناکافی سمجھتے ہیں تو جواب یہ ہے کہ علماء نبیﷺ کی شریعت کو نبیﷺ سے زیادہ تونہیں جانتے ہیں۔ اگر پھر بھی اپنی ضد پر ہی اڑے رہتے ہیں تو یہ بات بہرحال انکی سمجھ میں آجائیگی کہ قرآن و سنت میں زنا بالجبر کیلئے تعزیراً قتل کی سزا ہے۔ نوشتۂ دیوار کی اہم شخصیت محترم شاہد علی نے بتایا کہ 1996 میں وہ کمپنی کی نمائندگی کیلئے ہانگ کانگ گئے تو وہاں کسی نے پوچھا کہ:کیایہ سچ ہے کہ کسی خاتون سے زبردستی زیادتی ہو تو اسلام میں چار مرد گواہ لائے گی؟۔
کتنی باعثِ شرم، بے غیرتی ، بے ضمیری ، بے حیائی اور بدفطری کا معاملہ ہے کہ جولوگ خواتین کو غیرت کے نام پرقتل کرنے کی بڑھ چڑھ کر تائیدکرتے ہیں وہی اس شرعی سزا کو شریعت کے منافی سمجھنے کی وکالت کرتے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں زنابالجبر کو حدود سے نکالنے کی بات اسلئے تھی کہ مجرم شرعی گواہوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے سزا سے بچ جاتے ہیں تو مفتی تقی عثمانی اور جماعتِ اسلامی نے باقاعدہ مہم چلاکر اسکی مخالفت کی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو چاہیے کہ اس جرم کی سزا قتل و سنگساری کی تجویز پیش کردے اور اطمینان بخش شکایت اور کسی بھی معقول دلیل کو شریعت کا عین تقاضہ اورکافی قرار دیدے۔

حضرت مولانا عبد الکریم عابد کے بیان پر عتیق گیلانی کا تبصرہ

کراچی (ڈاکٹرجمال) حضرت مولانا عبد الکریم عابد(جمعیت علماء اسلام مرکزی شوریٰ کے رکن، صوبائی سرپرست خطیب و امام مہتمم مسجدو مدرسہ مدنیہ گلشن اقبال ) نے کہا کہ اس وقت امت کو ایک کیا جائے ، اتحاد کی اشد ضرورت ہے مگر ہمارا میڈیا فرقہ واریت اختلافی مسائل کی اشاعت کو ترجیح دیتا ہے۔ نوشتۂ دیوار میں اکثر کسی نہ کسی قابل احترام شخصیت کیخلاف اختلافی نکتہ نظر ہوتا ہے، اختلاف ہر ذی علم کا فرض مگر شائستہ انداز میں لکھا جائے نہ کہ شخصیت پر توہین آمیز تنقید کی جائے۔ نوشتۂ دیوار کے مضامین کا انداز یقیناًاچھے پہلو بھی ہیں ایک حد تک مسائل کی نشاندہی کی جاتی ہے مگر گزارش ہے کہ شائستہ انداز میں دلائل کی بنیاد پر اختلاف ہو اور جس کو اللہ نے مقام دیا ہو وہ ملحوظِ خاطر رہے، اسلام کی یہی تعلیم و تربیت ہے کہ مخالف کی بھی توہین نہ کی جائے بلکہ ان کو مقام دیا جائے۔ سوال کے جواب میں کہا کہ طلاق کے مسئلے پر نوشتۂ دیوار کے مضامین سے اہلسنت و الجماعت کے اکابر اور عوام تک اچھا تاثر قائم نہیں ہورہا۔ یہ مواد جو تحقیق کیساتھ شائع ہوا اس میں نئی بات نہیں بلکہ صدیوں سے یہ اختلافات علماء کرام میں چلے آرہے ہیں۔ گزارش ہے کہ علماء کرام سے ہزار اختلاف کے باوجود احترام کو ترجیح دی جائے اختلاف سے انکار ،نہ ہی اختلاف بری چیز ہے ۔ تنقید برائے اصلاح ہو، تنقید برائے توہین نہیں ہونی چاہیے۔

تبصرۂ نوشتۂ دیوار

حضرت مولانا عبدالکریم عابد صاحب!
محترم جناب کی رہنمائی کا کن الفاظ میں شکریہ ادا کروں؟دومرتبہ آپ سے ملاقات کا شرف رہا ہے، اسلئے جناب کے خلوص سے آگاہ ہوں۔ بلا شبہ جو تحریرفرمایا، اسکے ہر ہر لفظ میں سچائی ہے اور بہت احترام کیساتھ ہمارا اختلافی نقطۂ نظر بھی۔ جن خیالات کا پر خلوص انداز میں اظہارفرمایا، یہ اکثریت کی شکایت ہے۔ ہمارے اخلاق کردار، طرزِ تحریر اور اوقات کی تو بالکل کوئی حیثیت نہیں، اسلئے اپنا دفاع تو نہیں کرسکتے، جورہنمائی کی کرم نوازی ہے اس کا شکریہ تہہ دل سے ادا کرتاہوں
البتہ آپ جانتے ہیں کہ رحمۃ للعٰلمینﷺ نے تو بڑے زبردست اخلاق، کردار اور اوقات سے زندگی کے 40سال نبوت سے قبل13سال مکی اور8سال فتح مکہ سے پہلے مدنی زندگی گزاری، وہ جو فتح مکہ کے بعد فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے، امیرمعاویہؓ، عکرمہؓ بن ابی جہل صحابہؓ تھے ، بڑی شان رکھتے تھے، حمزہؓ کا کلیجہ نکالنے چبانے والے وحشیؓوہندؓ کی خدمات ہیں مگر قرآن نے انکے اقوال زریں کو محفوظ کیا ’’ کیاہم اپنے الھہ کو ایک مجنون شاعر کی وجہ سے چھوڑ دیں گے‘‘۔
19سال تک حضرت ابوسفیانؓ کی بیگم حضرت ہندؓ نے نبیﷺ سے سخت نفرتوں کا اظہار کیا مگر جب مکہ فتح ہوا، حالات بدل گئے تو نبیﷺ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی مگربڑی تعداد میں یہ فوج درفوج مسلمان ہونے والوں کا ماحول بدلا، جو توہین امیز رویہ نظر آتا تھا وہ اعلیٰ اخلاق لگنے لگا۔ قرآن نے اہل کتاب سے متعلق کہا کہ ’’انہوں نے مشائخ و علماء کو اللہ کے علاوہ رب بنالیا تھا‘‘ نبیﷺ نے وضاحت کی کہ حلال وحرام کا خود ساختہ معیاربنایا ، یہی رب بنانا تھا۔ جن علماء نے وقتافوقتا اسلام کا حلیہ بگاڑنے میں کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ شادی کی رسم نیوتہ کو سود اور ماں کے زنا سے بڑھ کر گناہ قراردیا، دوسری طرف اسلام کے نام پر بینکنگ کو جواز بخشاہے۔ جمعیت علماء اسلام پہلے روزی روٹی حلال کرکے مزاحمت کرتی تھی اب لیٹ گئی تو ہمارا رویہ یقیناًحق کی آواز بلند کرنے پربہت گستاخانہ لگتا ہوگا ،وقت کا انتظار کرتے ہیں عسیٰ ان یکون قریبا ۔ قرآن پر پرانے قصے کہانی کا الزام لگا۔ دلائل کو پرانا کہنے پر خوشی ہے کہ نئے دین کا الزام نہ لگا ۔ علماء کا نصاب پراعتماد اٹھ گیا۔آپ نے مہربانی فرمائی تھی کہ مدرسین سے بات کروائی، میں نے کہا: بات سن لو، اگر میرا مؤقف نہ مانا تو لکھ دیتا ہوں کہ اپنا مؤقف چھوڑ دونگا مگرانہوں نے کہا: ’’یہ شرط جائزنہیں‘‘۔ وقت بتائیگا کہ حلالہ کو کارِ ثواب کہہ عزت لوٹنا توہین آمیز تھا یا لعنت کو بے غیرتی کہنے والے گستاخ؟۔ طلاق کے مسئلہ پر اتنا واضح مؤقف کہاں کس نے لکھا؟ عتیق گیلانی

فرقہ واریت کا بیج بونے والے غلام احمد پرویز پر اشرف میمن کا تبصرہ

نوشتۂ دیوار کے پبلشر اشرف میمن نے کہا : پاکستان میں فرقہ پرستی،متعصبانہ رویہ اور قتل وغارتگری میں نادیدہ قوت ملوث قرار دی جاتی تھی لیکن اس کی نشاندہی کرنے میں ریاست، علماء، دانشور، حکمران کامیاب نہ ہوسکے ۔ غلام احمد پرویز نے بڑاباریک کام کیا، قرآن کا نام لیکر فرقہ پرستی کو ختم کرنے کی کوشش کی ۔ امام ابوحنیفہؒ نے بھی قرآن کے مقابلہ میں بہت سی احادیث کو قبول نہیں کیا۔ حنفی مسلک کا ماحول غلام احمد پرویز کی پذیرائی کا بہت بڑا سبب بنا ، وہ روانی سے قرآنی آیات کے ترجمے اور مفہوم کو بیان کرتا تھا، پڑھا لکھا طبقہ ان سے بہت زیادہ متاثر ہوا، بیوروکریسی افسران کی زیادہ تر تعداد غلام احمدپرویز کو اپنا مذہبی پیشوا مانتی ہے، علماء نے پرویز پر انکارِ حدیث کافتویٰ لگادیامگر اس کا کیا اثر پڑتا؟۔ علماء خود بھی تو اہلحدیث کی مخالفت کرتے تھے۔ غلام احمد پرویز نے ایک تو حدیث کی صحاحِ ستہ کو ایران و شیعہ کی بہت بڑی سازش قرار دیا۔ دوسرا یہ تشہیر کی کہ قرآن میں بہتان کا واقعہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے متعلق نہ تھا، اس کو سازش کے تحت درج کیا گیا تاکہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی سیرت کو داغدار بنایا جاسکے۔ واقعہ کسی عام خاتون سے متعلق تھا۔حضرت عائشہؓ پر بہتان لگادیا جاتا تو توہین رسالت و اذیت رسولﷺ کی وجہ سے 80کوڑے کی سزا نہ ہوتی بلکہ یقیناًان کو قتل کیا جاتا۔ جب پرویز کی اس فکر کو لکھے پڑھے طبقہ نے قبول کیا تو سنی مکتبۂ فکر میں اس واقعہ سے متعلق روایتوں کوشیعہ کی سازش قرار دیاگیا۔ جنکے دل ودماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ شیعہ نے اتنی بڑی سازش کی تو ان کو قتل کرنا ثواب سمجھا گیا۔ ہم غلام احمد پرویز اور اس کے ساتھیوں پر سازش کرنے کا الزام لگانا تو بہت دور کی بات ہے کوئی شبہ تک نہیں کرتے۔ جس طرح مولانا طارق جمیل نے نماز کیلئے پر جوش خطاب کیا اور فون کی بیل بنادیاگیا، اسی طرح غلام احمد پرویز کا پروگرام قتل وغارتگری نہ تھا۔ بیوروکریسی کی ذہنیت میں’’ اسٹیٹس کو‘‘کا خمار بڑی بات نہیں جیسے تبلیغی جماعت کے دل میں نماز کا خمار بیٹھ جاتاہے ۔ نماز کا پڑھنا بہت ہی زبردست کام ہے جو شرک، کفر، بے حیائی اور منکرات سے روکنے کا زبردست ذریعہ ہے۔
وہ اک سجدہ جسے تو گرا ں سمجھتاہے ہزاروں سجدوں سے دیتاہے آدمی کو نجات
اسٹیٹس کو اور فرقہ پرستی نے بیڑہ غرق کردیا، پرویز اور مولاناالیاسؒ برابر نہیں ہوسکتے۔ یاد رہے کہ فرقہ پرستی واسٹیٹسکوکا باہمی تعلق سمجھے بغیرفتنہ وفساد ختم نہ ہوگا۔
غلام احمدپرویز نے نیک نیتی سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کے دفاع کیلئے اپنا نظریہ پیش کردیا، قبول کرنیوالے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی بیوروکریسی اور حب رسولﷺ سے سرشارعوام تھی۔ بڑا افسر اپنے چپڑاسی اور چوکیدار کی عزت اپنے برابر نہیں سمجھتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓکے ناموس کو کسی عام خاتون کے برابر سمجھا جائے؟۔ ہمیں ان کی نیت، ایمان، خلوص، علم، سمجھ اور کسی بھی وہم وگمان پر ذرا بھی سازش کا کوئی شبہ نہیں ہوسکتاہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے ، اٹل حقیقت ہے، واضح حقیقت ہے، بے باک حقیقت ہے ، رب ذولجلال کی طرف سے انسانی وہم وگمان اور عام ماحول سے بالکل ہی بالاتر حقیقت ہے کہ بہتان ام المؤمنین حضرت عائشہؓ پر ہی لگایا گیا تھا۔ اس کی سزا بھی ایک عام خاتون کے برابر 80کوڑے کا حکم دیا۔ یہی نہیں بلکہ حضرت ابوبکرؓنے قسم کھائی کہ میں آئندہ ان بہتان لگانے والوں پر احسان نہ کروں گا تو اللہ تعالیٰ نے حکم نازل کیا کہ مالداروں کی یہ شان نہیں ،احسان جاری رکھنا چاہیے۔( سورۂ نور)
تکبر ورعونت اور جاہلیت کے سرکردہ انسانوں کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اپنے برابر اپنے سے کمتر لوگوں کی عزت کا احسا س نہیں رکھتے ۔ یہ معاملہ اتنا باریک اور خطرناک ہوتا ہے کہ شیطان نے جنت میں اسی بات کو سمجھنے میں غلطی کی تھی۔ اس نے تکبر اسلئے کیا کہ حضرت آدمؑ کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا اور مجھے آگ سے پیدا کیا گیا۔ نبیﷺ نے عرب و عجم ، کالے گورے، سب رنگ ونسل والوں کو ایک آدمؑ کی اولاد قرار دیا لیکن اسلام نے جو سبق دیا تھا وہ ہم بھول گئے۔ انگریز کے پروردہ جاگیردار،سرمایہ داراورساختہ وپر داختہ بیوروکریسی میں نشو ونما پانیوالے دماغ کی سمجھ میں یہ بات کبھی نہیں آسکتی کہ عام عوام کی عزتیں دن رات لٹتی ہیں ، صبح و شام تماشہ لگتاہے اور کوڑی جتنی عزت رکھنے والی خواتین کی چیخ و پکار کو کچرا کنڈی میں ڈال دی جاتی ہے۔ جو ایسا ڈاکخانہ ہے کہ اس کی ہر ڈاک منوں مٹی میں دبا دی جاتی ہے، یا ری سائیکل کرکے اس کی شناخت تک مٹادی جاتی ہے اور اگر اس کی شناخت قائم بھی رہتی تو کون سے نتائج اسکے نکل سکتے ہیں؟۔
اللہ تعالیٰ نے جان ، آنکھ، کان، ناک اور دانت کے بدلے میں کوئی فرق نہ رکھا۔ سب کیلئے یکساں قانون بنایا۔ عزت پر بھی یکساں حد نافذ کا حکم دیا۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو اعلیٰ اخلاقی نمونہ قرار دیا۔ معاشرے میں کوئی طاقتور اپنی عزت کو کسی کمزور کے برابر نہیں سمجھتاہے ، اس روایت کو اسلام کے ذریعے ختم کردیا۔ طاقتور اور کمزور کی جان وعزت قانون کی نگاہ میں برابر ہوگی تو فتنہ وفساد اور خود کُش حملوں کیلئے کسی کو افراد میسر نہیں آئیں گے۔ دنیا کے سامنے قرآن و سنت کا یہ قانون آئیگا کہ جان اور انسانی اعضاء آنکھ، کان، ناک اور دانت میں تو برابری ہی ہے مگر اسلامی قانون میں عزتوں کا بھی کوئی فرق نہیں تو دنیا میں یہ بہت بڑے انقلاب کا پیش خیمہ بنے گا اور سب سے پہلے پاکستان کی بیوروکریسی نے اس کا اعلان کرنا ہے اسلئے کہ جب ہمارا آئین پابند ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی تو یہ کونسا اسلام ہے کہ افتخار چوہدری کی ہتک عزت کا دعویٰ 20ارب ہو اور نعیم بخاری کی بیوی بھی چھن جائے تو اُف نہ کرسکے؟۔اس کو قرآن وسنت کے مطابق نہیں قرار دیا جاسکتا کہ شوہر اپنی بیوی کی ناک کاٹے، دانت توڑے اور کسی کمزور اورغریب سے جو سلوک روا رکھے اس پر قانون کی گرفت نہ ہو۔ ناک کے بدلے جیل کا قیدی بنانا بھی غلط ہے ، ناک کے بدلے میں ناک کاٹی جائے تو کوئی یہ جرم نشہ پی کر بھی نہ کریگا۔
دنیا میں اسلامی قانون سب سے ممتاز ہے اور اخلاقیات کے درس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے، اس سے بڑھ کر کیا اعلیٰ اخلاق ہونگے کہ حضرت ابوبکرؓ جس رشتہ دار پر احسان کررہا تھا، اسی حضرت مسطح رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہؓ پر بہتان لگایا تھا۔ صحابہؓ سے بڑھ کر جذبہ کس کا ہوسکتاتھا؟ اور حضرت ابوبکرؓ سے زیادہ کس کو تکلیف ہوگی؟۔ پھر احسان جاری رکھنے کا حکم کس قدر اعلیٰ اخلاقی اور انسانی اقدار کا نمونہ ہے۔ قرآن تعصبات کی آگ بھڑکانے کے بجائے عزت،جان اور مال کوکتنا تحفظ فراہم کرتاہے ؟ اور کتنے اعلیٰ اخلاقی قدروں کی ترویج کرتاہے؟۔ غلام احمد پرویز نے سب کا بیڑہ غرق کردیا۔ مولانا الیاسؒ نے تبلیغی جماعت کے ذریعہ اسٹیٹس کو توڑدیا تھا۔ اعلیٰ افسران اپنے ماتحت کیساتھ بستر اٹھاکر گھوم رہے ہوں، ساتھ کھا پی رہے ہوں تو خاکساری اور تواضع پیدا ہوتی ہے۔ سید عتیق گیلانی کے مرشد حاجی عثمان میمنؒ نے بھی اس جماعت میں بہت وقت لگایا تھا، حاجی عبدالوہاب سے پہلے کے بزرگوں میں تھے ۔ حاجی محمد عثمانؒ تبلیغی جماعت کے اندر بھی اسٹیٹس کو کے مخالف تھے۔ عوام کیساتھ اجتماعات میں بیٹھتے اور عوام کیساتھ دسترخوان پر کھاتے ۔ اسی وجہ سے یہ تأثر پیدا کیا گیا کہ ان کی وجہ سے تبلیغی جماعت شخصیت پرستی کا شکار ہوسکتی ہے۔ عوامی اجتماعات میں انکے بیانات پر پابندی لگی، اس صورتحال کا مولانا طارق جمیل کو بھی کافی عرصہ سامنا رہاہے۔ ’’حاجی عثمانؒ کے خلیفہ سرورالنورسوسائٹی گلبرگ کراچی کی جماعت میں بدمعاش قمر ٹیڈی ایک نوعمر لڑکے کو ساتھ لیکرگھمارہا تھا تو عتیق گیلانی نے اسکی شکایت مکی مسجد میں شوریٰ سے بھی کردی کہ تبلیغی جماعت میں لوگ اصلاح کیلئے اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں‘‘۔ اگر مولانا الیاسؒ ہوتے تو ہماری تحریک کے بنیادی نکات کو اجاگر کرنے کا ٹاسک دیتے ۔جماعتی اکابرین کو چاہیے کہ مشاورت سے مثبت فیصلہ کریں،ورنہ مساجد پر قبضہ کرنیوالے غنڈے پھرجماعت پر بھی قابض ہونگے محمداشرف میمن