پوسٹ تلاش کریں

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا بہت واضح تصور. عتیق گیلانی کی تحریر

اللہ نے معروف کا حکم و منکر کو روکنے پر امت کو بہترین قرار دیاہے کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنھون عن المنکر’’تم بہترین امت ہو، نکالی گئی ہے لوگوں کیلئے، تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو‘‘۔ نماز ،روزہ، زکوٰۃ اورحج عبادات ہیں ، یہ معروف ہیں۔ قتل، زنا، شراب ، چوری، ڈکیتی اورجوا وغیرہ منکرات ہیں۔ فقہ میں کتاب الطہارت، کتاب الصلوٰۃ، کتاب الصوم اور کتاب الحج کے علاہ کتاب الحدود بھی ہے۔ حدود وتعزیرات کا تعلق جرائم اور سزاؤں سے ہے۔ یہ بہت بڑی نادانی ہے کہ معروف اور منکر کو خلط ملط کیا جائے۔ معروف و منکر کی تمیز ختم ہونے کی پیش گوئی احادیث میں ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج معروف احکام ہیں کسی کو زبردستی سے معروف پر مجبور نہیں کیا جاسکتا آذان حی علی الصلوٰۃ واقامت قدقامت الصلوٰۃ میں جبر کا عنصر نہیں۔ تبلیغی جماعت نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھ دی اسلئے کہ دین میں زبردستی کے تصور کو ختم کرکے تبلیغ، فضائل، تعلیم اور تلقین کو بنیاد بنادیا۔ طالبان نے نماز کے جبر کے تصور سے علماء ومفتیان کے مسلک پر عمل کیا لیکن اسلام کے خمیر سے ناواقفیت کی وجہ سے دین کو نقصان پہنچایا۔
خلافت کے اختلاف سے انصارؓ ومہاجرینؓکے درمیان فتنہ برپاہوتے ہوتے بچ گیا۔ ابوبکرؓ کی خلافت پر اکثریت نے اتفاق کیا لیکن اس اتفاق کے باوجود انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ پر خلافت سے انحراف کی وجہ سے کفر یابغاوت کا کوئی فتویٰ نہیں لگا۔ کم ظرف علماء و مفتیا ن کے پاس علم ودانش اور فقہ و حکمت کا فقدان نہ ہوتا تو خلافت کی اس جمہوری وسعت کو دنیا کے سامنے پیش کرتے کہ اسلام کی اعلیٰ وارفع تعلیمات کا یہ نتیجہ تھا کہ جبر نہیں کیاگیا۔ حضرت سعد بن عبادہؓ نے لُعان کی آیات پر عمل کرنے سے صاف انکار کیا ۔ لعان کی آیات میں وضاحت ہے کہ کوئی اپنی بیوی کو اپنی آنکھوں سے کسی کیساتھ بدکاری کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھے تو اسکے خلاف عدالت میں چار شہادات ان الفاظ سے دے گا اور پانچویں ان الفاظ سے دے گا۔ اس طرح عورت کیلئے جملے لکھے گئے ہیں۔زنا منکر ہے اور قتل بھی منکر ہے۔ زنا کی سزا100کوڑے اورقتل کی سزا قتل ہے۔ بیوی پر غیرت کھانا ایمان کا تقاضہ ہے۔ اس منکر کو جاری چھوڑنا بے غیرتی اور بے ایمانی بھی ہے۔ اس کو ہاتھ سے روکنا یہ ہے کہ علیحدگی اختیار کرلے، حقوق سے محروم کرنا چاہے تو لعان کرے اور حقوق سے محروم نہ کرنا چاہے تو سورۂ الطلاق کے مطابق گھر سے نکال دے۔ بیوی سے زیادہ غیرت تو کوئی کسی اور منکر پر بھی نہیں کھا سکتاہے؟۔ نماز کا چھوڑ دینا گناہ ہے مگر زبردستی سے نماز پڑھنے پر مجبور کرنا غلط ہے،حالت جنابت یا بے وضونماز پڑھ لے گا تو ؟۔نبیﷺ نے اسلام کے اجنبی بننے کی خبر بہت کچھ دیکھ کر دی تھی۔
سعد بن عبادہؓ نے کہا کہ قرآن پر عمل نہیں بیوی کو قتل کردونگا۔ رسول اللہ ﷺ تک جب بات پہنچی تو انصارؓ سے فرمایا کہ تمہارا صاحب کیا کہتاہے؟۔ انصارؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ درگزر فرمائیے، یہ بہت غیرتمند ہے، کبھی طلاق شدہ یا بیوہ سے شادی نہیں کی،ہمیشہ شادی کنواری سے کی اور جس کوطلاق دی اس کو کسی اور سے شادی نہ کرنے دی ۔ رسول ﷺ نے فرمایا کہ میں اس سے زیادہ غیرتمند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت والا ہے۔(صحیح بخاری)۔ انصارؓ نے گرچہ حضرت سعدؓ کیلئے درگزر کا مطالبہ کیا مگروہ بھی قتل کرنا غیرت کا تقاضہ سمجھتے تھے اور جب وہ سمجھتے تھے تو پھر ان کا کیا قصورہے جو نہ صحابہ ہیں اور نہ قرآن کو سمجھتے ہیں۔بیوی اور لونڈی میں بڑا فرق ہوتاہے، سامنے اور پسِ پردہ میں بھی بڑا فرق ہوتاہے ، یقین اور شک میں بھی بڑا فرق ہوتاہے۔
رسول اللہ ﷺ نے بالکل سچ فرمایا کہ میں سعد بن عبادہؓ سے زیادہ غیرتمند ہوں ، نبیﷺ کو شک ہوا کہ آپﷺ کی لونڈی ماریہ قبطیہؓ سے اسکے ایک ہم زبان کا ناجائز تعلق ہے تو حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ اس کو قتل کرو، حضرت علیؓ نے اس کو ڈھونڈا ، تو ایک کنویں میں نہا رہاتھا، جب اس کو باہر نکالا تو اس کا ذکر کٹا ہوا تھا، اسلئے چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ نبیﷺ کی ازواج سے آپؐ کی وفات کے بعد بھی نکاح نہ کیا جائے، اس سے آپﷺ کو اذیت ہوتی ہے۔ رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ بھی سب سے زیادہ غیرت والا ہی سمجھتا تھا۔ اپنے احکام کو عملی جامہ پہنانے کی حکمت سے حضرت عائشہ صدیقہؓ پر بہتان کا واقعہ پیش ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے آپؓ کو گھر جانے دیا۔ پھر اللہ نے آپؓ کی صفائی پیش کردی۔ یہ واقعہ محض دکھ اور اذیت پہنچانے کا ذریعہ نہ تھا بلکہ بہت بڑاسبق اور زبردست نکات ہیں۔
1: بہتان ایک منکر ہے ، سزا 80کوڑے ہے۔2: امیر غریب کی عزتوں میں تفریق نہیں۔ 3:گواہی کے بغیر سزا نہیں۔4: بیوی پر فحاشی کا یقین ہو تو گھر سے نکالا جاسکتاہے۔ 5: کسی جھوٹی خبر کو پھیلانے کی غلطی کرنے سے زبان روکی جائے۔6: زنا کار مرد، عورت کی سزا قرآن میں 100 کوڑے ہے۔ 7: بہتان لگانے کی غلطی پر بھی کوئی غریب ہوتو احسان کا سلسلہ جاری ہی رکھا جائے۔ 8: رسول اللہﷺ کو اذیت پر قتل کا حکم نہ دیا۔ 9: چھان بین ہو۔ 10:توراۃ کاحکم نہیں قرآن معتبرہے۔
مسلم اُمہ کابڑا المیہ ہے کہ آیات کو قبول کرنے میں لیت ولعل سے کام لیا جاتاہے۔ ایک معروف اور منکر وہ ہیں جن کو معاشرے میں معروف یا منکر کہا جاتاہے اور دوسرے معروف ومنکر وہ ہیں جن کو قرآن میں معروف ومنکر کہا گیا، آج کسی بڑے آدمی کی بیوی پر بہتان لگایا جائے تو وہ اربوں روپے ہتک عزت ہی کا دعویٰ کریگا ، حالانکہ جسکے پاس بہت زیادہ دولت ہو تو اس کیلئے یہ کوئی سزا بھی نہ ہوگی۔ اور غریب آدمی کیلئے تھوڑا سا جرمانہ ادا کرنا بھی 80کوڑے کھانے سے بڑی سزا ہوگی۔ غریب آدمی کی عزت کو جس دن امیر کی عزت کے مساوی سمجھا جائے گا تو یہ قرآن کا بہت بڑا انقلاب ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ طلاق میں بھی کھلی ہوئی فحاشی کے ارتکاب کی صورت میں بیوی کو گھر سے نکالنے اور اس کو خود نکلنے کی اجازت دیدی ۔ انصارؓکے سردار سعد بن عبادہؓ نے قرآن کو سمجھ کر بھی قرآن کے قانون کو معاشرے کے رسم ورواج کے مطابق قبول نہیں کیا تو ان پر کفر کا فتویٰ نہیں لگا، پھر جو ان پڑھ یا قرآنی تعلیمات سے جاہل طبقہ قرآنی آیت کو قبول نہ کرے تو اس پر فتویٰ کیوں لگایا جائے؟ لیکن بیوی بیٹی،یا ماں بہن کو قتل کرنا قرآن کی آیات سے انحراف ہے۔ مساجدو مدارس کے ارباب محراب ومنبر خود بھلے اس پر عمل کریں یا نہ کریں لیکن عوام کو قرآن سے تو آگاہی دیں۔شاید کوئی عمل کرہی لے۔
پاکدامن عورت پر بہتان کی سزا80کوڑے کی طرح نہ سہی مگر بہتان کی سزا چند کوڑے بھی مقرر کئے جائیں اور ٹی وی پر اس کا نظارہ دکھایا جائے تو ہماری قوم کافی حد تک ادب وآداب سیکھ جائے گی۔ بولنے سے پہلے تولنے کی عادت پڑیگی ۔ لیڈر حضرات قوم کو اخلاقیات کی تعلیم دینگے۔ کوڑوں کی سزا سب کیلئے برابر اسلئے ہوتی ہے کہ درد سب کو ہی ہوتاہے اور بے عزتی سب کو بری لگتی ہے۔ جب سزا کا تصور ہوگا تو اس قوم کو مہذب بننے میں بالکل بھی دیر نہیں لگے گی۔ قرآن کی روشنی میں ایک ضابطہ اخلاق پر سب متحدو متفق ہوجائیں تو دنیا میں ہماری امامت مانی جائیگی۔لندن میں جیو ٹی وی چینل کے مطابق اے آر وائی کے پاس جرمانے کی رقم نہیں تھی تو چینل بند کردئیے گئے۔ اگر کوڑوں کی سزا ہوتی تو دنیا کو دکھادیا جاتا کہ کوڑے لگ رہے ہیں،کوڑے کھانے کیلئے پیسے ہونے کی ضرورت تو نہیں ہوتی۔ اے آر وائی بی بی سی پر کیس کردے کہ ہمارے وزیراعظم کی فیملی کو بدنام کیاہے اگر ثبوت نہ ہوں تو جرمانے کی رقم سے اپنا جرمانہ بھر لیں اور اگر ثبوت مل گئے تو اے آر وائی اپنے مقاصد میں بھی سرخرو ہوجائے گی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ بھی فرمایا کہ ’’ احسن طریقہ سے مجادلہ کرو، اس کی وجہ سے جس شخص کے ساتھ عداوت ہو وہ بھی ایسا ہوجائیگا کہ گویا وہ آپ کاگرم جوش دوست تھا‘‘۔ یہ بھی فرمایاہے کہ ’’ہم حق کو باطل پر دے مارتے ہیں، جس سے اسکا بھیجا نکل جاتاہے اور وہ دفعۃً مٹ جاتاہے‘‘۔ قرآن میں دونوں طرزِ عمل کی ایک ایک بہترین مثال ملاحظہ فرمائیں تاکہ دماغ کی شریانیں کھل جائیں اور ہٹ دھرم و کٹر حجتی لوگوں کو حقائق سمجھنے میں کوئی بھی دشواری بالکل بھی نہ رہے۔
مشرک جوڑے میاں بیوی کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ نے اعلیٰ وارفع تہذیب وتمدن ،ادب اور اخلاق کا بہترین و شاندار طرزِ تحریر کا بے مثال نمونہ پیش فرمایا ہے کہ ’’ جب اس نے ڈھانپ لیا تو اس کو حمل ہوا، خفیف سا حمل، پھر جب وہ بھاری ہوگئی تو اللہ سے دونوں نے دعا کی کہ ہمارے رب ہمیں صحت مند بچہ عنایت فرما، جب اللہ نے انکو صحت مند بچہ دیا تو اللہ سے شرک کرنے لگے‘‘ مشرک جاہلوں کیلئے اللہ نے جن کلمات سے ازدواجی عمل کا تذکرہ فرمایاہے ،اس سے زیادہ اچھے الفاظ میں میاں بیوی کے درمیان تعلق اور بچے کی پیدائش کا تذکرہ کرنا بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔
اب آئیے اور دیکھئے کہ مسلمان جب تہذیب وتمدن ، اخلاقیات اور انسانیت کے دائرے کا ادراک رکھنے کے بجائے انتہائی جہالت کا طرزِ عمل اپنانے کی طرف راغب ہوجائے تو اسکو کیسے بری طرح سے لتاڑا ہے، اسکے ضمیر کو پاش پاش کردیا، اس کی روح کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محرمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’ تمہارے پر حرام ہیں تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں۔۔۔ بہن، بھانجی، بھتیجی، خالہ وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے بیوی کی مائیں اور تمہاری وہ سوتیلی بیٹیاں جن کی پرورش تمہارے گھروں میں ہوئی ہے جن کی ماؤں سے تم نے نکاح کیا ہے اور ودخلتم بھن جنکے اندر تم نے ڈالا ہے اور اگر تم نے ان کی ماؤں میں نہیں ڈالا ہے تو تمہارے لئے حلال ہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے ڈالنے کے الفاظ کا انتخاب اسلئے فرمایا ہے کہ ایک بدبخت شخص کسی طلاق شدہ یا بیوہ سے نکاح کرلے اور اس کی چھوٹی بچیاں ہوں، جب وہ جوان ہوجائیں تو اس کی نیت خراب ہوجائے کہ وہ پرائی بچیاں ہیں، ان سے نکاح یا ناجائز تعلق کے حرص میں پڑ جائے، اسلئے ان الفاظ سے روکنے کی بات کی گئی ہے۔ چند سال پہلے اس طرح کا ایک واقعہ شاہ فیصل کالونی کراچی میں پیش آیا، خاتون نے اپنے خاوند کے ٹکڑے کرکے اس کو بڑے دیگ میں ڈال کر مرچیں اور مصالحے ملا کر پکایا تھا۔
جہاں کوئی بڑی خسیس اور ہلکی قسم کی حرکت کا مظاہرہ کرے، وہاں نرم الفاظ میں تلقین اور ارشاد کی کوشش اپنے ساتھ بھی دھوکہ ہے اور معاشرے کیساتھ بھی انصاف کا یہ تقاضہ نہیں ۔ اگر سخت الفاظ میں بات سمجھائی جائے تو پھر غلط حرکت سے بھی مخاطب بہت پرہیز کرتا ہے۔ بقول اقبالؒ
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
مولانا طارق جمیل نے کہا ’’ جس زمین پر سجدہ ادا نہ ہو، اس سے بھی بڑا کوئی جرم ہے؟۔ زنا کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں نماز کا چھوڑ دینا زنا سے بڑا جرم ہے۔ رشوت کو گناہ سمجھتے ہیں، نماز کا چھوڑ دینا رشوت سے بڑا جرم ہے ۔ قتل کو بڑا گناہ سمجھتے ہیں ، نماز کا چھوڑ دینا قتل سے بڑا جرم ہے۔شیطان نے سجدے ہی کا توانکار کیا تھا، شیطان نے کوئی زنا کیا تھا؟ کوئی شراب پی تھی؟ کوئی جوا کھیلا تھا؟ کیا کیا تھا؟ کوئی شرک کیا تھا؟ شیطان ۔۔۔‘‘۔ یہ تقریرجماعت کی روح ہے،جو مجرموں کی پناہ گاہ ہے اور یہ عیسائی مشنری کیلئے اثاثہ ہے ۔ مولانا الیاس قادری نے گناہ سے بچنے کیلئے ایک نیا مدنی پھول متعارف کرایاکہ باتھ روم میں گھر کے افراد مرد و خواتین ایک چپل استعمال کرتے ہیں جو گناہ ہے۔ اگر کموڈ ایک ہو تو ۔۔۔ علامہ شاہ تراب الحق قادری نے کہا تھا کہ پاخانہ کرنے کے بعد جو پھول نکلتا ہے اگر دھونے کے بعد سکھا نہ لیا اور یہ واپس چلا گیا تو روزہ ٹوٹ جائیگا۔ بہار شریعت میں لکھا ہے کہ عورت میت کا عضوتناسل اپنے فرج میں داخل کرے تو غسل واجب نہیں‘‘۔ یہ خرافات ۔۔۔ اسلام کے نام پر ہیں۔
معروف اور منکر ماحول عوام کے سامنے بنتاہے۔ تبلیغی جماعت کا ماحول ایسا ہے کہ نماز چھوڑ نے کو تمام گناہوں ، جرائم اور غلط کاریوں سے زیادہ بڑا سمجھا جاتاہے۔ میرے دادا سید محمد امیر شاہ باباؒ کے بارے میں میری والدہ نے بتایا کہ زندگی میں ایک نماز قضا ہوگئی تھی تو اس پر بہت زیادہ خفا تھے اور بہت روتے تھے کہ پکڑ ہوئی تو کیا حشر ہوگا؟۔ اس وقت تبلیغی جماعت کا وجود بھی نہیں تھا، دادا سے بڑے عالم اور اللہ والے پردادا سید محمد حسن شاہ عرف بابوؒ تھے،ان سے زیادہ انکے پرداداسید یوسف شاہ کے پردادا حضرت سیدشاہ محمود حسن دیداریؒ تھے ، ان سے زیادہ انکے والد سید محمدابوبکر ذاکرؒ اور ان سے زیادہ انکے والد حضرت شاہ محمد کبیرالاولیاءؒ تھے، ان سے زیادہ ہمارے چوبیسویں پشت میں حضرت سید عبدالقادر جیلانیؒ تھے، ان سے زیادہ حضرت امام حسنؓ اور ان سے زیادہ امام الاولیاء حضرت علی کرم اللہ وجہ تھے۔ صحاح ستہ کی حدیث ہے کہ رسول ﷺ فجر کی نماز کی تلقین کیلئے حضرت علیؓ کے پاس گئے تو حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ جب اللہ سلادیتاہے تو پھرہم کیا کرسکتے ہیں؟۔ جس پر نبیﷺ نے اپنے زانو مبارک پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ ’’ ان الانسان اکثر شئی جدلا۔ بیشک انسان اکثر باتوں میں جھگڑالو ہے‘‘۔
امام حسنؓکے بارے میں نبیﷺ نے فرمایاکہ ’’یہ میرا بیٹا سید ہے اسکے ذریعہ اللہ امت کے دو بڑی جماعتوں میں صلح کرادیگا‘‘۔ امام حسنؓ کی اولاد میں سے ایک اہلبیت کی بھی نبیﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی۔ حضرت عبدالمطلب نے نبیﷺ کے بارے میں پیشگوئی کی تھی اور حضرت ابوطالب، عبدالمطلب نے ایام جاہلیت میں اہم کردار ادا کیا۔ ہاشم سے اسماعیل ؑ اور ابراہیمؑ تک ایک مبارک شجرہ نسب تھا۔ ابوطالب کے بارے میں کہا جاتاہے کہ حضرت علیؓ کو حکم دیا تھا کہ رسول اللہﷺ کیساتھ بھرپور معاونت کریں، ایک دن نماز پڑھتے دیکھا تو ابوطالب نے نماز کی دعوت پر کہا کہ’’ خدا کی قسم مجھ سے ایسے چوتڑ نہیں اٹھائی جائے گی‘‘۔ میرے والد پیر مقیم شاہ نے چندوں کے بغیر اپنے خرچہ سے عالی شان مسجد بنوائی تھی، نماز کے بارے میں کہتے تھے کہ’’ پڑھنا اچھی بات ہے لیکن نماز کے چھوڑ دینے سے اللہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا، مگر کسی انسان کی کوئی ضرورت ہو تو اس کو پورا نہ کرنے پر اللہ نہ چھوڑے گا، اسلئے کہ اللہ خود مدد کیلئے نہیں اترے گا‘‘۔ میں بذاتِ خود ایسی کیفیت سے گزرا ہوں کہ ہر حرکت ، سانس اور قول وفعل کو اسلام کے مطابق کرنا چاہتا تھا لیکن وقت کیساتھ بہت سی غلط فہیماں دور ہوگئیں۔ اسلام کے بنیادی احکامات سے روگردانی کرکے چھوٹے چھوٹے خود ساختہ مسائل میں الجھنا دھوکہ ہے۔اس دھوکہ سے نکالنے کیلئے سخت زبان استعمال کرنی پڑتی ہے ورنہ مذہبی طبقے بیچارے سیدھے ہیں۔
ٹانک کے قرب و جوارمیں ایک 18سالہ دوشیزہ نے دعویٰ کیا کہ وہ لڑکا بن گئی ہے۔وہ ہندکو اسپیکنگ اور خاندان سید کہلاتا تھا۔ بایزید انصاری کی اولاد میں ایک شخص نے اس پر اپنی دکان سے مٹھائیاں نچاور کردیں۔ ٹانک سے اسلام آباد،لاہور اور کراچی تک عوام نے اس کا استقبال کیا اور اخبارات میں بڑی شہرت ملی۔ حکومت نے اسکا میڈیکل معائنہ کرنے کیلئے ڈاکٹروں کی ٹیم تشکیل دی تو اس نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ یہ اس کی توہین ہے۔ وہ زنانہ لباس ہی پہنتی تھی اور اپنے سینے کو دوپٹے سے چھپاتی تھی۔ لوگ اس کو ولی اور بہت بڑی صاحب کرامت سمجھ کر دیدار کو ترستے تھے۔ میرے والد صاحب نے کہا کہ یہ بکواس کرتی ہے۔ میڈیکل ٹیم پر کہا کہ عوام کے سامنے پیشاب کرلے تو پتہ چل جائیگا کہ اس کی دھار کہاں تک جاتی ہے۔ لوگوں نے پوچھاکہ کیا اللہ ایسا نہیں کرسکتاہے تو والد صاحب نے کہا کہ اللہ کرسکتاہے مگر کرتا نہیں یہ اس کی عادت نہیں ۔ لوگوں کو لگتا تھا کہ والدصاحب گستاخانہ لہجہ استعمال کرکے برا کررہے ہیں مگر بعد میں پتہ چلا کہ فراڈ ہے، اس نے اپنے منگیتر سے جان چھڑانے کیلئے ایک ڈرامہ کیا اور اس کے نتیجے میں بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ پشتو گانے کا ایک شعر ہے کہ ’’گپ لگار ہا تھا، گپ شپ میں بات سچی ہوگئی اور میری محبت گئی اور دنیا میں مشہور ہوگئی‘‘۔
دوشیزہ کا بھانڈہ پھوٹا کہ عورت ذات نے شادی کرکے بچوں کو جنا ۔ مولانا طارق جمیل نے تقریر سے مخصوص مذہبی طبقے کو خوش تو بہت کیا، جن کی آنکھوں سے پردہ اٹھنے میں شاید دیر لگے مگر خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ، اسکی حالت اس دوشیزہ سے قطعی مختلف نہیں ۔افغانستان کے امیر امان اللہ خان کی حکومت1919 ؁ء سے 1929 ؁ء تک رہی۔ پلاننگ میرے دادا سید محمدامیر شاہ باباؒ کے ہاں ہوئی تھی، پیر سعدی گیلانی المعروف شامی پیر جرمنی کے تعاون سے قبائل کو اٹھاکر افغان حکومت بدلنا چاہ رہا تھا۔ شروع میں علماء نے عوام کو اٹھاکر جلسے جلوس کئے کہ یہ انگریز میم ہے، کیونکہ شامی پیر کی عمرکم اور داڑھی نہ تھی ،جب بیٹھ کر بات ہوئی تو شامی پیر سگریٹ کے کش لگاکر دھواں علماء کی داڑھیوں میں چھوڑ رہا تھا۔ پیسہ دیکھنے کے بعد علماء نے اس کو مجاہد، عالم اور پیر طریقت سب کچھ مان لیا، جیسا آج علماء سیاستدانوں کو بھی مان لیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن خود کوحضرت ابرہیمؑ اور موسیٰ ؑ کا جانشین اور نوازشریف کو نمرود و فرعون کا جانشین کہتا تھا۔ اب پنجاب کے شیروں سے پختونخواہ کے چوہوں کو ڈرانے کی بات کرتاہے، میرے دادا امیرشاہ باباؒ سے شامی پیر نے کہا تھا کہ آپ بڑے ہیں ،میری شہرت زیادہ ہے ،اگر جانشینی قبول کرلو، تو خلقِ خدا کو آپ سے استفادہ ہوگا، دادا نے کہا :’’اپنے گناہ اللہ سے بخشوا دوں تو بہت ہے آپ کی خلافت کے گناہ کا بوجھ میں نہیں اٹھا سکتا ‘‘۔ پیرشامی دوبارہ امیرامان اللہ خان کی حکومت کیلئے آئے لیکن انگریز نے لشکر پر بمباری کردی۔ شامی پیر کو واپس جاتے ہوئے گرفتار کیا اور داڑھی مونڈھ کر اخبار میں تصویرشائع کی۔ بعض مریدبرگشتہ ہوئے بعض نے کہا کہ ہم نے کچھ دیکھ کر بیعت کی تھی۔
وزیرستان میں تبلیغی جماعت آئی تو پہلی حمایت ہمارے خاندان سے ملی کہ ’’یہ دین کا کام ہے‘‘۔ ہماری مسجد کے امام مولانا اشرف خان جو بہت نیک آدمی ہیں، مولانا الیاسؒ سے بھی ملے تھے، پٹھانوں میں رسم ورواج اور پرانے معاملے جوں کے توں تھے، دارالعلوم دیوبند کے فضلاء زبان کھولنے کی جرأت نہیں رکھتے تھے۔ دارلعلوم دیوبند کے ایک فاضل مولانا ناظم کسی کے آگے نماز کی امامت نہ کرتے اور نہ ہی کسی کے پیچھے نماز پڑھتے اور میرے چچا سید محمدانورشاہ ؒ نے بتایا کہ وہ تبلیغی جماعت کے بارے میں کہتے تھے کہ ’’ اور کچھ ان کیساتھ نہیں کرنا چاہیے ، بس نقدی، گھڑی اور بستر چھین کر چوتڑ پر لات مار کر گالی دیکر کہنا چاہیے کہ اپنے گھر جاؤ‘‘۔ مولانا الیاس ؒ کے واحد خلیفہ مولانا احتشام الحسن کاندہلویؒ تھے، جنہوں نے’’موجودہ پستی کا واحد علاج‘‘رسالہ لکھا جو تبلیغی نصاب میں شامل ہے ،جسمیں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالہ سے امت کو توجہ دلائی گئی ہے۔ مولانا یوسفؒ مولانا الیاس ؒ کے صاحبزادے تھے لیکن جماعت سے پہلے انکا کوئی تعلق نہ تھا، انکی وفات کے بعدمولانا انعام الحسنؒ امیر بنائے گئے، مولانا احتشام الحسنؒ نے بہت جلد تبلیغی جماعت کے کام کو فتنہ قرار دیا۔ مولانا زکریاؒ بھی آخرکار مخالف ہوگئے ۔ اب مولانا الیاسؒ کے پڑ پوتے مولانا سعد بستی نظام الدین بھارت میں تبلیغی جماعت کے عالمی مرکز کے امیر تھے۔ حاجی عبدالوہاب کی طرف سے ان کے کچھ مخالفین کو شوریٰ میں شامل کیا گیا ، جس کی وجہ سے وہاں دارالعلوم دیوبند سے فتویٰ لیا گیا، دارالعلوم دیوبند والے پہلے ہی نالاں تھے، وہاں سے تبلیغی جماعت کے کام کی عمومی صورتحال کے خلاف فتویٰ آیا، اس قسم کا فتویٰ دارالعلوم کراچی سے مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی پہلے بھی دے چکے تھے۔جامعہ بنوری ٹاؤن کے مہتم ڈاکٹر حبیب اللہ مختارؒ کو شہید کیا گیا جو مسجد میں تبلیغی جماعت سے قرآن کے درس پر فیصلہ کرکے آئے تھے۔ مفتی تقی عثمانی کو بھی درسِ قرآن پر کہا گیا تھا کہ تم دین کے کام میں رکاوٹ بن رہے ہو، جس کی ریکارڈنگ نیٹ پر موجود ہے۔
مولانا سرفراز صفدر ؒ کے بھائی صوفی عبدالحمیدؒ نے ’’ مولانا عبیداللہ سندھی اور انکے علوم وافکار‘‘ میں لکھاکہ ’’مولانا الیاسؒ کا خلوص شک سے بالاتر ہے مگر اب اس جماعت پر منافع خور ، اسمگلر اور سودی کاروبار کرنے والوں کا قبضہ ہوگیاہے ، جو اپنا مذموم مقصد پورا کررہے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر حبیب اللہ مختارؒ کے والد تبلیغی جماعت کے اکابرین میں تھے لیکن انہوں نے ایک عربی عالم شیخ عبداللہ ناصح علوانؒ کی کتاب ’’ مسلمان نوجوان‘‘ کا ترجمہ کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ ایک جماعت مکی دور کا دعویٰ کرتی ہے لیکن یہ مکی دور اور اسلام دونوں کو نہیں سمجھتے۔ مکی دور تو اسلام کا مشکل ترین دور تھا جس میں باطل کے عقائد کو چیلنج کیا گیا اور مدنی دور میں اسلام کا سیاسی نظام پایۂ تکمیل کو پہنچا، اسلام میں پورے کا پورا داخل ہونے کا حکم ہے، اس جماعت پر مکی دور نہیں مرتد ہونے کے دور کا اطلاق ہوتاہے‘‘۔ (مسلمان نوجوان)۔
مولانا طارق جمیل اپنی تقریر میں قرآن کے منشور کو بیان فرمائیں اور حقوق کے حوالہ سے عوام کو شعور دیں تو لوگ بدلیں گے، رشوت خوروں…..وغیرہ. کوتسلی نہ دیں۔نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج معروف احکام ہیں انکی ترغیب دی جائے اور زبردستی سے ان پر مجبور کرنا بذاتِ خود منکرہے، رسول ﷺ مکی دور میں منکرات کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ رکھتے تھے تو زبان سے روکنا دوسرے درجے کا ایمان نہ تھا ۔ ہاتھ سے منکر روکنے کی طاقت ہو اور ہاتھ سے نہ روکے تو زبانی جمع خرچ پراسکا ایمان تیسرے درجے کا بھی نہیں۔ ظالم بادشاہ کے سامنے حق کی بات افضل جہاد ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے پوری زندگی اور نبی ﷺ نے مکی دور میں ہاتھ سے جہاد نہیں کیا۔خود کش حملوں کا مسلمانوں کیخلاف استعمال سے اسلام نافذ ہوسکتا تو قرآن و سنت میں اسکی تلقین ہوتی۔طالبان اور تبلیغی جماعت علم سے روشناس ہوں۔
ہمارے عزیز پیر کرم حیدر شاہؒ کو مولانا ابولکلام آزادؒ نے اپنے ہاتھ سے قرآن کی اپنی تفسیر دی تھی۔ وہ فوج میں تھے، برطانیہ نے برصغیر پاک وہند کی آزادی کیلئے جنگِ عظیم جرمنی سے جیتنے کی شرط رکھی تھی اور پیرکرمؒ اس وقت وہاں گئے ، برصغیرفوج کی قربانی سے آزاد ہوا۔ پیرکرم شاہ ؒ کو لحد میں اتارا گیاتوان کے ایماندار ساتھی عبدالکریم قصوریہ چیف سیکرٹری پختونخواہ نے بتایا کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ’’ لوگ بہت غلط حرکتوں میں مصروف تھے مگر پیرصاحبؒ نے نماز، تلاوت اور ذکر کے علاوہ اورکوئی شغل نہیں کیا‘‘۔ وہ اپنے ساتھ ٹیپ ریکارڈر بھی لایا تھا، مقامی مولوی سے آواز ٹیپ ہونے کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ ’’یہ عقیدہ رکھنے سے انسان کافربن جائیگا‘‘۔ جب مولوی کو اس کی آواز سنائی تو اس نے کہا کہ ’’یہ جادو ہے‘‘۔ اسلام نے مولوی کو بے شعور نہیں بنایا تھا لیکن مولوی قرآن و سنت سے جاہل تھا۔ قرآن میں بولنے والی کتاب اور تسخیرِ کائنات کا ذکر ہے اور حدیث میں ایسے اٰلہ کا ذکرہے کہ ’’آدمی بیوی کے بوٹ کے تسمہ سے چیزچپکا دیگاتو شام کو ریکارڈ دیکھے گا‘‘ یہ صحاح ستہ کی حدیث ہے۔
پیر کرم حیدر شاہؒ کا نادان توتلا پوتا زبیر تبلیغ میں گیا،بیان سیکھتے اٹک اٹک کر ہرچیزکو اللہ کی تخلیق کہا کہ’’ ٹریکٹر کو بھی اللہ نے پیدا کیا ‘‘ جس پر سامعین ہنسے، غلطی کے احساس پر تبلیغی اکابرکوگالی دیکر بھاگا ۔ مفتی اعظم مفتی شفیعؒ نے جاندار کی تصویر کے شرعی احکام میں لکھا کہ ’’مزدورجو مکان تعمیر کرتے ہیں یہ بھی اللہ کی تخلیق میں مداخلت ہے مگرمعاف ہے‘‘ ۔کیازبیر زیادہ ہوشیار نہیں؟۔مولانا فضل الرحمن بینظیر کی حکومت میں شامل ہوا، تومیرا چھوٹا معذور پاگل بھتیجا عمران کہتا:’’ انکل(پیر نثار) سے ڈر لگتا ہے ورنہ مولانا کو بم سے اڑاتا، پھر اسکا رومال، واسکٹ اور جوتے بینظیر کو دیتاکہ تبرکات باپ کی قبر پر رکھ لو‘‘۔ جمعیت کے ضلعی امیر مولانا عبدالرؤفؒ نے مولانا فضل الرحمن سے لڑنا چاہا، میں نے روکا تو کہا :’’ آپ نے ہماری آنکھیں کھولیں، مفتی محمودؒ اور مولاناہزارویؒ نے بھی اسلام آباد میں پلاٹ لئے۔ عتیق گیلانی

اسلامی منشور دنیا بھر کے حکمرانوں اور عوام کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کی جائے. عتیق گیلانی

اسلامی منشور مسلم اُمہ کو پستی سے نکال کر عروج پر پہنچادے توانسانیت جمہوری بنیاد پر ہماری امامت پر فخر کریگی۔ امریکہ میں مسجد جلادی گئی تو یہودیوں نے اپنی عبات گاہ اس وقت تک دیدی جب تک مسجد کی تعمیر مکمل نہ ہو۔ اسرائیل میں مسلم ممالک پر پابندی کیخلاف مظاہرہ ہوا مگر سعودیہ اور عرب امارات نے امریکی پابندیوں کا خیر مقدم کیا ،یہ مجبوریاں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کیخلاف ناک کے نتھنے سے آواز بھی نہ نکالی کہ ’’ حافظ سعید کو نظر بند کیا گیا‘‘، اگر نظر بند نہ کیا جاتا تو سعودیہ کے ہاں میں ہاں اس نے ملانی اورناک کٹوانی تھی۔ کتنے بے گناہ افراد خاتون عافیہ صدیقہ سمیت امریکہ کے حوالے کئے؟،ریاست کی بغل کا حافظ سعید بلکہ مولانا مسعود اظہربھی نہ مانگا گیا، امریکی سی آئی اے اپناکھیل کھیل رہی ہے ۔ بقول اقبال جو چھپا دے نظروں سے تماشۂ حیات،خیر اسی میں ہے تاقیامت رہے مؤمن غلام،( ابلیس کی مجلس شوریٰ)۔ اسامہ ، ریمنڈ ڈیوس بڑی بات نہ تھی توشکیل آفریدی کیا ہے ؟۔یہ تو ابتداء عشق ہے روتاہے کیا؟ آگے آگے دیکھئے ہوتاہے کیا؟۔
اسلامی منشور دنیا بھر کے حکمرانوں اور عوام کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کی جائے۔ 1: قرآن میں توراۃ کے حوالے سے تصدیق ہے کہ ’’ جان کے بدلے جان، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت، آنکھ کے بدلے آنکھ اور زخموں کا قصاص ہے‘‘۔ جب غریب امیر، مرد عورت، کمزور طاقتور، شریف و رذیل، چھوٹے بڑے، حاکم و محکوم اور ہر قسم کے لوگوں میں برابری کی بنیاد پرقانون سازی ہوگی تو دنیا میں سکون آجائیگا۔ قرآن کا فطری حکم جو توراۃ میں تھا۔ اللہ نے اس سے انحراف کو ظلم قرار دیا اور ہم کھلم کھلا منحرف ہیں تو دنیا میں ہمارے حکمران، ریاستیں اور عوام ذلیل و خوار ہونگے ۔دنیا بھر میں مسلمانوں کیلئے جلوس نکل رہے ہیں اور ہم ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں۔ 2: قرآن میں چور مرد اور چور عورت کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ پاکستان میں بادشاہی کا خواب دیکھنے والا کہتا ہے کہ چوری ثابت ہوگئی تو گھر چلا جاؤں گا۔ ہاتھ کاٹنے کا قرآنی قانون نافذ کیا تو آئین میں62اور63کے دفعات میں صادق اورامین کیلئے زیادہ غم کھانے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ جب ہاتھ کٹا ہو گا تو عوام کو دھوکہ دینے کیلئے تقریروں میں ہاتھ ہلاکر اشارے بھی نہ ہوسکیں گے۔ جمہوری نظام غیر اسلامی نہیں لیکن کرپشن کرنیوالے قانون کی پابندی کا بھی پاس نہیں رکھتے ۔…‘‘ 3: غریب اور امیر کی عزت برابر ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ پر بہتان لگانیوالوں کو وہی سزا کا حکم سنایا گیا ، جو ایک عام پاکدامن خاتون کے برابر تھا۔ ہماری عوام اور عدالتوں میں طاقت ور اور کمزور کی عزتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کسی کی عزت اربوں میں اور کسی کی لاکھوں میں بھی نہیں ہے۔ وہ عزت اللہ کی قسم عزت نہیں جس کی دنیا میں کوئی قیمت لگے۔ قرآن کے مطابق 80کوڑوں کی سزا دی جائے تو امیر غریب کی عزت میں فرق نہیں ہوگا اور سزا بھی دونوں کیلئے برابر ہوگی۔ امیر کیلئے رقم کی ادائیگی بڑی سزا نہیں لیکن غریب کیلئے رقم بڑی سزا ہے۔۔۔۔۔۔۔.‘‘ 4: رضامندی سے زنا کی سزا قرآن میں100کوڑے ہے۔ جس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی کوئی تفریق نہیں ۔ حضرت عمرؓ کے دور میں اگر کوڑوں کی سزا ہوتی توگورنر مغیرہ ابن شعبہؓ کو 100کوڑے سے بچانے کیلئے گواہوں کو80،80کوڑے مارنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اس واقعہ پر قانون سازی اور فقہی اختلافات نے اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ مغیرہ ابن شعبہؓ کیساتھ ام جمیل پکڑی گئی ۔ ابولہب کی بیگم کا نام ام جمیل تھا اور اگر یہ بیوہ تھی اور باقاعدہ شادی کیلئے دونوں رضامند نہ تھے تو وقتی طور پر متعہ بھی کرلیتے۔ متعہ پر فقہ میں حد نہیں ۔ سعودیہ نے بھی مسیار کے نام پر متعہ کی اجازت دی اورعلیؓ نے فرمایا کہ ’’ عمرؓ متعہ پر پابندی نہ لگاتے توقیامت تک کوئی زنا نہ کرتا سوائے بد بخت کے‘‘۔پولیس اشارے پر دہشتگرد نہ رُکتا توبات تھی۔ طلاق شدہ لڑکی کی ماں نے بتایا کہ تین سال سے دوستی تھی، شادی شدہ لڑکے سے سعودی متعہ مسیار ہوتا تونہ بھاگنا پڑتااورنہ مرنایامارنا پڑتا۔ پولیس کی حوصلہ شکنی کی جائے تو دہشت گردوں کا حوصلہ بڑھے گا۔ 5: مغرب میں نکاح کے قوانین اس قدر سخت ہیں کہ باقاعدہ شادی کے بجائے گرل فرینڈ کو ترجیح دیتے ہیںیا ایگریمنٹ کرلیتے ہیں جس کی قانونی حیثیت متعہ کی ہے۔ اسلامی قانونِ نکاح کو دنیا کے سامنے لایا جائے تو مغرب قرآن کو قبول کرنے سے ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں کریگا۔ پاکستان کے نکاح کے فارم میں عورت کو طلاق دینے کا حق حیلہ اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے ۔ قرآن کے مطابق یہ قانون دنیا کے سامنے پیش کیا جائے کہ باہمی رضا سے حق مہر شوہر پرفرض ہے، عورت کی طرف سے خلع کا فیصلہ ہو تو جو کچھ بھی عورت کو دیا ہو ، اس کو اس غرض سے روکنا قانونی طور سے غلط قرار دیا جائے کہ دئیے مال میں سے کچھ واپس لے۔ چاہے حق مہر کے علاوہ ہو۔ یہ تصورہی قرآن کے خلاف ہے کہ عورت شوہر کی ملکیت بن جاتی ہے،جس کو رد کرنا ضروری ہے۔(النساء: آیت19) 6: تین طلاق کی ملکیت کے غلط تصور کو بھی حرفِ غلط کی طرح معاشرے سے ختم کیا جائیگا۔ یہ کیا منطق ہے کہ شوہر ایک طلاق دے اور عدت کے بعد عورت دوسری جگہ شادی کرلے ۔ وہاں سے طلاق کے بعد یہ بحث کہ شوہر پہلے سے موجود 2طلاق کا مالک ہوگا یا نئے سرے سے 3طلاق کا مالک ہوگا؟۔ یہ عجوبہ غیرفطری ہے کہ ایک طلاق کے بعد عورت دوسری شادی کرلے اور پہلا شوہربھی 2طلاق کا مالک رہے، قرآن نے شوہر کو طلاق کے بعد واضح خالی عدت کا حقدار قرار دیا ۔ 7: میاں بیوی کے حقوق، نکاح و طلاق اور متعہ کے درست تصورسے عالم اسلام اور عالم انسانیت میں عصمت فروشی کے دھندے ختم ہو نگے۔ قرآن نے لونڈی بنانے کو آل فرعون کی روایت قرار دیا لیکن معاشرے کی روایت عارضی قانون کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ حد اور تعزیر میں یہ فرق ہے کہ تعزیر کی سزا حکمران کی طرف سے قانونی ہوتی ہے جس میں کمی بیشی کی گنجائش ہے مگر اللہ نے جو حد مقرر کی، اس سزا میں کمی بیشی نہیں ۔ زنا کیلئے 100کوڑے ہیں اور اگر دومرد آپس میں بدکاری کریں تو انکو اذیت دینے کا قرآن میں حکم ہے اور اذیت کیلئے حکومت قانون سازی کرسکتی ہے۔ 8:اللہ نے جہاں لونڈی سے ازدواجی تعلق کی اجازت دی تو وہاں ان کی شادی کرانے کا حکم دیا۔ جس سے روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ معاشرے کی اس برائی کو برداشت بھی کیا گیا اور اس کی اصلاح کیلئے بھی راہ ہموار کی گئی۔ اللہ نے لونڈی بنانے کا حکم نہیں دیا اور کیسے دیتے جب اس کو آل فرعون کی روایت قرار دیا۔ اسلام نے غلامانہ نظام ختم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ مشرکینِ مکہ پر فتح حاصل کرلی تو ان کو مخاطب کرکے نبیﷺ نے فرمایا: لاثریب علیکم الیوم وانتم طلقاء ’’ آج تم پر کوئی ملامت نہیں اورتم آزاد ہو‘‘۔ تین دن کے بعد سب کو واپس جانے کا حکم فرمایا، تین دن تک متعہ کی اجازت دیدی۔ (صحیح مسلم) علماء و مفتیان سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی ماں بہنوں کو چھین کر لونڈی بنایا جاتا تو ٹھیک تھا مگرمتعہ کی اجازت زناکی اجازت تھی العیاذ باللہ من ذلک 9: اللہ نے یہود ونصاریٰ کی پاکدامن عورتوں سے نکاح کی اجازت دی ۔ان کو ولی نہ بنانے کا حکم جر گہ میں فیصلے کا مذہبی اختیار تھا۔ قرآن میں اگر میاں بیوی کے درمیان جدائی کا خطرہ ہو تو اللہ نے دونوں طرف سے ایک ایک رشتہ دار کو حکم بنانے کا حکم دیاہے اوراگر عمران خان اور اس کی بیگم جمائما خان کے درمیان جدائی پر دونوں خاندان ایک ایک حکم بناتے تو یہ قرآن کے مطابق ہوتا، البتہ اگر دونوں کو کسی بدکاری پر پکڑا جاتا اور یہودی ان کو توراۃ کے مطابق سنگسار کرتے اور مسلمان قرآن کے مطابق کوڑے لگاتے تو پھر یہودیوں کو ولایت یا اختیار دینے کی مذمت ہوتی ،جب ایک ہی حد سزاسنگساری ہوتی تو ولی بنانے کی مذمت کیونکر کی جاتی؟۔ اللہ کے احکام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 10:عیسائیوں کے پاس حدودوتعزیرات کیلئے اپنا مذہبی تصور نہیں ،وہ توراۃ کو مانتے ہیں۔ اسرائیل توراۃ کے مطابق مذہبی ریاست قائم کرلے اور مسلمان پاکستان سے اسلامی احکام کے مطابق حکومت قائم کرلیں تو انشاء اللہ پوری دنیا اسلامی قوانین کا خیرمقدم کریگی اور اسرائیل اپنا قبلہ بیت المقدس بھی مسلمانوں کو بہت خوشی سے حوالے کردے گا۔ پاکستان اگر اسلام کیلئے نہیں حکمرانوں کے کرپشن اور غریب عوام کو غلام بنانے کیلئے بنا ہے تو امریکہ و بھارت کی سازش سے ہمارا خدا بھی ہمیں بچانے میں مدد نہیں کریگا جیسامشرقی پاکستان کا سانحہ رونما ہوا تھا۔یہ بھارت کی حوصلہ افزائی نہیں اپنے حکمرانوں کی حوصلہ شکنی کیلئے ہے،پاکستان بنگال نہیں۔
نیٹو کا حشر افغانستان میں بھارت نے دیکھا، ایٹمی جنگ نہ ہو توبھی بھارت ایڈونچر کرنے کی غلطی نہ کریگا، بنگال آزاد ہوامگر پاکستان نے کس سے آزادی حاصل کرنی ہے؟۔مجاہدین پاکستان کے مسلم حکمرانوں کو نشانہ نہیں بناتے۔ افغانستان میں افغان فوجی امریکیوں پر حملہ کرتے ہیں۔ ہندو کو پاکستان کیخلاف اقدام پر بھارت کے مسلمان اور سکھ بھی معاف نہ کرینگے۔ بلوچ فطری طور پر باعزت ، بردبار اور باوقار ہیں۔ کمزوروں پر حملوں نے ان کا ضمیر گھائل کردیا ۔ریاست نے ان کوبھی بہت نقصان پہنچایا۔افہام وتفہیم مسائل کا حل ہے، ضمیر نہیں رہتا تو عزت فروشی کا دھندہ بھی ہوتاہے۔ جرمنی میں شکست کے بعد خواتین رات مہمان ٹھہرانے کیلئے دروازے پر کارڈ لگاتی تھیں۔ جنگ میں شکست کے بعد عورت کیلئے لونڈی بن جانا بھی عزت کا تحفظ ہے، دنیاخطرناک سمت جارہی ہے،اسلامی اقتدار میں انصاف ملے گا۔ انقلاب انقلاب اے انقلاب۔ عتیق گیلانی

مفتی محمد رفیع عثمانی اور ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی کتابوں میں زبردست خیانت کی ہے. مولانا شبیر احمد

ابوبکرؓ و عمرؓ نے نبیﷺ کے وصال پر خلافت کیلئے جمع ہونیوالے انصارؓ سے مناظرہ کیا۔ انصارؓ نے کہا کہ ایک امیر تمہارا ہو، ایک ہمارا۔ابوبکرؓ نے کہا کہ اس سے امت میں افتراق وانتشار ہوگا۔ تبلیغی جماعت کے مرکزبستی نظام بھارت میں مولانا الیاسؒ ،مولانا یوسفؒ ،مولانا انعام الحسنؒ کے بعد مولانا الیاسؒ کے پوتے مولانا ہارون کا بیٹا مولانا سعدامیر تھا اور رائیونڈ میں عبدالوہاب، مگر بھارت میں ان دوامیروں کی وجہ سے افتراق وانتشارہوا ۔ بقول پشتومزاحیہ شاعر’’6اسکے نمبر ہیں باقی سب تقاضے ہیں، تبلیغ میں مزے ہی مزے ہیں‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ نے حدیث پیش کی کہ ’’امام قریش سے ہونگے‘‘۔ عمرؓ نے ابوبکرؓ کی بیعت کی تو انصارؓ نے بھی بیعت کرلی، سردار سعد بن عبادہؓ اورعلیؓ نے یہ عمل ناگوار جانا۔ اس دن سے امت میں اختلاف ہے۔ علماء نے لکھا کہ قریش کی حدیث خبر واحد تھی پھر اجماع ہوا ۔حنفی مسلک کے شاہ ولی اللہؒ نے خلافت عثمانیہ و مغل سلطنت کے زوال کے دور میں امام کیلئے قریش ہوناشرط قرار دیا، یہ خلافتِ عثمانیہ کے عدمِ استحکام کا باعث تھا۔ بریلوی مکتبۂ فکر کے امام مولانا احمد رضاخان بریلویؒ کا یہی فتویٰ تھا، علامہ عطاء محمد بندیالوی نے ضیاء الحق کے دور میں خلافت کے احیاء کو فرض اور امام کیلئے قریشی ہونا لازم قراردیا ۔ داعش کے ابوبکر بغدادی بھی اس وجہ سے القاعدہ اور طالبان سے باغی بن کر خود خلیفہ بن گئے ۔طالبان سے پہلے ایک عرب نے خیبر ایجنسی کے دور دراز علاقے میں امام بننے کا دعویٰ کرکے اپنی حکومت تشکیل دی تھی اور بعد میں بیمار یا ناکام ہوکرامریکہ چلا گیا۔
ہم نے بھی احیاءِ خلافت و تقرر امام کا اقدام کیاتھا جسکا روزنامہ جنگ میں اشتہار بھی دیا تھا۔ خلافت راشدہ کے آخر میں مسلمانوں میں قتل وغارت ہوئی۔ امام حسنؓ کی صلح کے بعد بنوامیہ کی خاندانی حکومت قائم ہوئی۔ واقعہ کربلامیں حسینؓ اور مکہ میں حجاج کے ہاتھ ا بن زبیرؓ کی شہادت سے اختلاف واضح ہے۔ امام حسنؓ کے بیٹے حسن مثنیٰ کے دو بیٹے محمد اور ابراہیم نے تحریک چلائی تھی۔ امام ابوحنیفہؒ کو ان کی خفیہ حمایت کرنے کی وجہ سے جیل میں زہر دیکر شہید کیا گیا۔دوسرے فقہی اماموں پر بھی تشدد ہوا۔
اجتہاد وہاں ہے جب قرآن و حدیث میں واضح موقف موجود نہ ہو۔ قرآن میں 114سورتیں ہیں اور114 مرتبہ بسم اللہ الرحمن الرحیم موجود ہے۔ اس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں لیکن پھر بھی مالکی مسلک کے ہاں فرض نماز میں بسم اللہ پڑھنا جائز نہیں اسلئے کہ قرآن کا حصہ نہیں، شافعی مسلک میں بسم اللہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اسلئے کہ سورۂ فاتحہ کا حصہ ہے، امام احمد بن حنبل کے دو قول ہیں، امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک صحیح بات ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے مگراس میں شک ہے اور شک اتنا قوی ہے کہ کوئی شخص اس کی قرآنیت کا منکر بھی ہوجائے تو کافر نہیں بنتا ۔ فقہ حنفی کی درسِ نظامی میں اصول فقہ کی ’’نورالانوار‘‘ اور ’’ توضیح تلویح ‘‘ دیوبندی کے وفاق المدارس ، بریلوی کے تنظیم المدارس کے تحت چوتھے اور چھٹے سال میں لازمی امتحان کا حصہ ہیں مگر کم عقل مولوی مدرس بنتے ہیں جو سمجھتے نہیں ہیں۔
کراچی کے علامہ شاہ تراب الحق قادری اور ٹانک کے مولانا فتح خان نے بالمشافہ ملاقات میں درسِ نظامی کی اس تعلیم کو غلط قرار دیا مگر اسکے خلاف آواز اٹھانے سے معذوری ظاہر کردی تھی۔ یہ ائمہ کامسلک نہیں انکے نام پر مسلک چلانے والوں کا شاخسانہ تھا۔ امام شافعیؒ نے جہری نماز میں بسم اللہ جہری پڑھنے کا حکم دیا ، تو گدھے پر بٹھایا، منہ کالا کر کے گھمایا کہ ’’یہ رافضی ہے‘‘۔ امام شافعیؒ نے اشعار کہے کہ ’’اگر اہلبیت سے محبت پررافضی کہتے ہو تو اقرار کرتا ہوں کہ میں رافضی ہوں‘‘۔
بنو عباس نے اقتدار چھین لیا تو وہ بھی اہلبیت کے اسلئے خلاف تھے کہ امارت چھن نہ جائے۔ پاکستان کے قانون میں کوئی عورت طلاق شدہ یا بیوہ بنتی ہے تو بھی اس کو ایک مرد سرپرست ظاہر کرنا پڑتاہے۔ مریم نواز کی مثال ٹھیک ہے یا نہیں؟۔ شریعت اور ملکی قوانین میں غیر ضروری معاملات آگئے ہیں،جہری نماز میں بسم اللہ کی جرأت سے بڑی تبدیلی کا آغاز ہوگا اور عورت کو حقوق دینے ہونگے۔
حدیث میں کنواری کیلئے بکر اور طلاق شدہ یا بیوہ کیلئے ایم کا لفظ آیاہے۔ لڑکی کنواری ہوتو سرپرست یا ولی باپ ہے ۔شادی کے بعد سرپرست شوہر ہے۔ کلثوم نواز کا سرپرست اس کا شوہر نواز شریف ہے تومریم نواز کا سرپرست اسکا شوہر صفدر عباسی ہونا چاہیے تھا۔ اگر شوہر سے علیحدگی ہوئی تو پاکستان کے مروجہ قانون کے مطابق اسکا سرپرست نوازشریف ہوگا، اور اب اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ سے وضاحت مانگنے پر کہا جارہاہے کہ مریم نواز خود مختار ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مریم نواز صفدر عباسی کی بیوی ہوکر بھی خود مختار ہے یا طلاق شدہ خود مختار ہے؟۔ سوال کا جواب پاکستان اور اسلامی معاشرے میں کیا ہے؟۔ اس سے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں، اب یہ سوال اٹھانے کا بہترین وقت ہے۔
وانکحوالایامیٰ منکم و صالحین من عبادکم وایمائکم ’’اور نکاح کراؤ، اپنی بے نکاح خواتین کااور اپنے نیک غلاموں اور لونڈیوں کا‘‘۔ لونڈی کا ولی تو بلاشہ آقا ہوتا تھا۔ وضاحت ہے فانکحوھن باذن اہلھن ’’ان سے انکے مالکوں کی اجازت سے نکاح کرو‘‘۔ حدیث میں بکر کے مقابلے میں اَیم سے مراد بیوہ و طلاق شدہ ہے۔ توقرآن میں بھی ایامیٰ سے بیوہ و طلاق شدہ مراد ہیں۔ حدیث و فقہ میں تطبیق مسائل کا حل ہے۔ فقہ و حدیث میں کنواری اور بیوہ و طلاق شدہ کا فرق واضح ہے۔ اصولِ فقہ میں حدیث کو قرآن سے متصادم قرار دیا گیا۔ حتی تنکح زوجاً غیرہسے حدیث کی تطبیق ہوسکتی ہے کہ قرآن میں طلاق شدہ عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کی اجازت دی گئی اور حدیث سے کنواری مراد لیا جائے۔ بیوہ کو بھی قرآن میں اپنی جان کا فیصلہ کرنے میں خود مختار قراردیا گیا ہے۔
حال ہی میں عدالت نے محبت کی شادی کرنیوالے جوڑے کو تحفظ دیا اور وکیل سے کہا کہ ’’ان کو سمجھاؤ، ایسی شادی کامیاب نہیں ہوتی‘‘۔ اگر معاشرے میں قرآن وسنت کو صاف طریقہ سے عوام کو پہنچایا جاتا کہ لڑکی کی مرضی کے بغیر باپ نکاح نہ کرے اور لڑکی کیلئے بھاگ کر شادی کرنا باطل نکاح ہے تو مذہبی نصاب بھی درست ہوجاتا اور معاشرے پر اسکا اثر پڑتا۔ جب نابالغ بچی کا نکاح پڑھانے پر بھی مولوی پکڑا جائے اور بھا گی لڑکی کا چھپ کر نکاح پڑھانے والے مولوی کو تحفظ حاصل ہو تو یہ معاشرے میں اصلاح کا باعث نہیں بن سکتا۔ بلوغت کے بعد لڑکی محبت کی شادی کرلے ، اقلیتی برادری سے تعلق ہوتا ہے تو اسلام کا سہارا بھی لے لیتی ہے۔علماء اور قانون سازی کرنیوالے پارلیمنٹ میں الجھتے ہیں۔
فقہ حنفی کے مطابق ’’ امام کیلئے قریش ہونے کی شرط قابلِ قبول نہ ہونی چاہیے‘ ‘ ۔ یہ خبر واحد کی حدیث تھی، جہاں تک اجماع کا تعلق ہے تو خلافت عثمانیہ والے قریشی نہ تھے ، ان پر بھی اجماع ہوا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ قریش کے امام ہونے کی احادیث کا تعلق پیش گوئیوں سے تھا اور جب نبیﷺ نے 12 امام پر امت کے اجماع اور اسلام کے غلبے کی خبردی تو لوگوں نے چیخ کرتکبیر کا نعرہ بلند کیا جس سے راوی کو کچھ الفاظ سمجھ میں نہ آئے۔ اہل تشیع بارہ امام اپنے والے سمجھتے ہیں مگران پر اہل تشیع کے فرقے بھی متفق نہیں۔بارہ خلفاء جو مشکوٰۃ کی شرح مظاہر حق کے مطابق اہل بیت سے ہونگے ۔ علامہ سیوطیؒ کا حوالہ دیکر مفتی رفیع عثمانی اور ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی کتابوں میں بدترین خیانت کا مظاہرہ کیا ہے۔ روایت ہے کہ مہدی چالیس سال تک رہیگا ، پھر قحطانی امیر ہوگا۔۔۔ پھر آخری امیر ہوگا۔ کونسا انصاف ہے کہ مہدی اور قحطانی امیر کو چھوڑ کر آخری امیر کا ذکر کیا جائے؟۔ یہ تینوں بارہ خلفاء میں سے ہونگے۔
نبیﷺ نے غدیرخم کے موقع پرخطاب فرمایا’’ جس کا میں مولیٰ ہوں یہ علی اس کا مولیٰ ہے‘‘۔ بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ ملا اور مولوی اب مولانا بن گئے ۔ جس کا معنیٰ ہمارا مولیٰ ہے۔ جس کو ہم اپنا مولیٰ یعنی مولانا کہتے ہیں کیا وہ ہمارا دوست ہوتاہے؟۔ مولیٰ اور ولی کے معنیٰ سرپرست اور آقا ہیں۔ نبیﷺ نے علیؓ کے بارے میں جو فرمایا ، اس کو مولوی نے دوست سے بدل دیا ، حالانکہ نبیﷺ کو کیا ضرورت تھی کہ علی کو دوست بنانے کا اعلان کرتے؟، اس غلط توجیہ کی وجہ سے قرآن کی آیت کا ترجمہ ومفہوم بھی بدل ڈالا، کہ ’’یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ‘‘۔ ان سے شادی کرسکتے ہیں تو بیوی سے بڑھ کر دوستی کیاہے؟۔ یا بیوی بناکر بھی دشمنی کی جائے؟۔ خلفاء ، علماء اور صوفیاء میں موروثی جانشینی کھلی حقیقت رہی ہے۔ حضرت عمرؓ سے کہا گیا کہ بیٹے عبداللہؓ ابن عمرؓکو جانشین بنادو، مگر عمرؓ نے پابندی لگاکر کہا کہ اس کو طلاق کا طریقہ معلوم نہیں اس کو خلافت کیلئے نااہل قرار دیتا ہوں۔ اسلام منطقی نہیں فطری دین ہے تو مشرکینِ مکہ سے قرابتداری کی وجہ سے رشتہ داری منع کردی۔ حضرت ابن عمرؓ نے منطق نکالی کہ نصاریٰ مشرک ہیں ان سے شادی جائز نہیں ، قرآن میں ان سے شادی جائزہے۔ صحابہؓ میں ابن عمرؓ مولوی تھے حضرت عمرؓ نے خلافت کیلئے نااہل قرار دیاتھا ،عقیدت اپنی جگہ مگرامانت اہل کو سپردکرنے کا حکم ہے۔
حضرت ابوبکرؓ ہنگامی بنیاد پر خلیفہ بن گئے، حضرت عمرؓ کو نامزد کیا گیا، حضرت عثمانؓ کو شوری ٰ کے چند ارکان میں سے اکثر نے منتخب کیا اور حضرت علیؓ فتنوں کے دور میں خلیفہ بنے اور امام حسنؓ کو وراثت میں خلافت ملی مگر دست بردار ہوگئے۔بنوامیہ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ کے ادوار میں موروثی اقتدار رہا۔ عرب میں اب بھی موروثی اقتدار ہے اور پاکستان کی جمہوری جماعتیں بھی موروثی اور شخصی ہیں، انگریز نے خلافت عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت کوختم کیا تھا، پھر جمہوریت کی وجہ سے ملکہ برطانیہ کاا قتدار سمٹ گیا۔ برطانیہ کے بعدہم اپنا اسلامی نظام نہیں لاسکے۔ اقتدار تقسیم ہے، مولوی فتویٰ دے کہ طلاق ہوئی اور حلالہ کرلے تو قصائیوں کو جانور ذبح کرکے حلال کرنے کی اجازت ہے۔ مریم نواز کسی اندرونی کہانی کا شکار ہوسکتی ہے ،بہت خواتین طلاق کاماجراء بھگت رہی ہیں۔گھر، معاشرہ، ملکی ، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے مسائل ہیں جن کو اسلام نے حل دیامگر ہمارا مذہبی طبقہ توجہ نہیں دینا چاہتا ہے۔ مولانا شبیراحمد

یہود کے بعد نصاریٰ بھی دعوت توحید قبول کرچکے. عتیق گیلانی کی انقلابی تحریر

قوسِ قزاح کے رنگوں سے بھرپور ہمارا یہ معاشرہ !
قدرت کا کرشمہ ہے کہ بارش کے بعد افق پر 7رنگ کا ہالہ بنتاہے اور ہم نے اپنے غیر معصوم بچپن میں سمجھا تھا کہ ہر رنگ کی ایک جدا تعبیر ہے، زیادہ تفصیلات کاپتہ نہ تھا، بس سبز رنگ جنت کی نشانی اور سرخ رنگ جہنم کی علامت، جس نے پہلے قوسِ قزح دیکھ کر رنگ پسند کیا تو کسی دوسرے کو حق نہ پہنچتا کہ وہ بھی اسی کو پسند کرلے۔معصوم کے بھی مختلف رنگ ہیں۔ایک دانشور کہے کہ مغالطے کی شکار فکر معصوم نہیں ہوسکتی، دوسرا کہے کہ اس غلطی کے پیچھے مجرمانہ غفلت نہ تھی اسلئے معصومیت سے تعبیر کیا جاتاہے۔ معصومیت کی بحث میں بھی قوسِ قزاح کی طرح رنگ ہیں۔ انبیاء کرامؑ معصوم ہیں،شیعہ ائمہ اہلبیت کو معصوم سمجھتے ہیں اور عوام بچوں کو معصوم سمجھتے ہیں۔ وسیم بادامی کا معصومانہ سوال شہرت اختیار کرگیا، مولا بخش چانڈیو نے اسکو شرارت کہا ، بیوقوفی بھی معصومیت سے تعبیر ہوتی ہے، خاص معاملے کی بے گناہی بھی معصوم قرارپاتی ہے، اولیاء کرام ؒ محفوظ ہیں تویہ ایک طرح کی معصومیت ہے۔ عدلیہ مجرموں کو معصوم بنانے کی فیکٹریاں ہیں، دہشتگرد معصوموں کو مارتے ہیں، خفیہ ایجنسی کے اٹھانے پر مجرم بھی معصوم بنتے ہیں،سیاسی رہنما اپنے لیڈر کو معصوم ثابت کرتے ہیں۔ مذہبی طبقے کو اپنے مکتبۂ فکر کے علماء ومفتیان معصوم لگتے ہیں، دعوتِ اسلامی اور تبلیغی جماعت خود پر معصومیت کا عقیدہ رکھتی ہیں، یہود کے نزدیک ان کی نسل معصوم ہے اور نصاریٰ کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ معصوم شخصیت تھی جو بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور شادی تک نہ کی۔ آدمؑ نے جنت میں اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی، موسیٰ ؑ نے قتل کیا، داؤد ؑ نے اللہ سے معافی مانگی اور یونسؑ نے اللہ سے معافی مانگی لیکن حضرت مسیحؑ اللہ کی پاک روح تھے۔
اہل تشیع بارہ ائمہ معصومین کا جوعقیدہ رکھتے ہیں وہ انبیاء ؑ سے زیادہ ہے اسلئے کہ نبی کریمﷺ کا فتویٰ کچھ تھا ، اللہ نے فیصلہ خاتون کے حق میں کیا۔سوال ہے کہ مجادلہ میں نبیﷺ کی معصومیت کی نفی ہے؟۔ یا یہ معصومیت کی دلیل ہے کہ اللہ نے نبیﷺ کی اصلاح کیلئے وحی سے رہنمائی کی؟۔ نبیﷺ نے اصحاب کہف کی تعداد بتانے کیلئے کل کا وعدہ فرمایا لیکن کئی دن وحی کا سلسلہ بند ہوا۔ پھر اللہ نے فرمایا کہ کل کیلئے کوئی بات کہا کریں تو انشاء اللہ کہیں، یہ معصومیت کی نفی یا دلیل ہے؟۔ بدر ی قیدیوں کے فدیہ پر فرمایا کہ ’’نبی کیلئے مناسب نہ تھا کہ انکے پاس قیدی ہوں یہانتک کہ زمین میں خوب خونریزی کرتے‘‘ یہ عصمت کی دلیل ہے یا اسکے منافی اللہ نے وحی اُتاری؟۔ یہ عقیدہ تھاکہ وحی سے رہنمائی کا نام عصمت ہے اور اسی وجہ سے اللہ نے بار بار قیامت تک صرف اور صرف اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کا حکم دیا، جہاں اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے وہاں اولی الامر سے اللہ نے واضح طور سے اختلاف کی گنجائش بھی رکھ دی ۔ رسول اللہ ﷺ کی رسالت وحی کی رہنمائی تھی ، ایک اولی الامر کی حیثیت سے صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اختلاف کیا ، سورۂ مجادلہ ، بدر کے قیدیوں پر فدیہ ،حدیث قرطاس اور صلح حدیبیہ کے اختلافات واضح مثالیں ہیں۔ شیعہ ائمہ اہلبیت کیلئے بھی ایسے اختلاف کی گنجائش نہیں رکھتے تو نبیﷺ کیلئے کہاں سے رکھیں گے؟، اسلئے وہ صحابہ کرامؓ کو باغی اور گستاخ سمجھتے ہیں۔ اہلسنت کی اکثریت بھی حقائق سے ناواقف ہونے کی وجہ سے معصومیت کا غلط عقیدہ رکھتے ہیں اسلئے جب شیعہ مکتب کے دلائل کا مطالعہ کرتے ہیں تو دلیل کا جواب دلیل سے دینے کے بجائے ان پر گستاخی کا فتویٰ لگادیا جاتاہے۔ سعودی عرب اور ایران کی حکومتوں کو حقیقی اسلامی بھائی بنانے کیلئے قرآن و حدیث کے خاکے پر متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ورنہ فرقہ پرستی کے ناسور سے پاکستان سمیت مسلم امہ تباہ ہوگی۔
مہذب دنیا کو بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مسلمان ہر چیز پر سمجھوتہ کرتاہے مگررسول اللہ ﷺ کی توہین برداشت نہیں کرتا ،ایسا کیوں؟ بس یوں سمجھ لیجئے کہ ایمان کی حرارت کیلئے یہ آخری روشنی بچی ہے تو اس پر سمجھوتہ کیسے ہو؟۔ ہمارے پلے میں ایمان کو حرارت دینے کیلئے اور کچھ بچاہی نہیں۔ دنیا بھر میں جبر وظلم کا نظام ہے، بھارت گائے کے تقدس پر موت کے گھاٹ اتاردیتاہے حالانکہ بھارت گائے کے گوشت کا بڑاایکسپورٹر ہے ،بارڈر سخت نہ ہو تو عید قربان کے موقع پر پاکستان سے اچھا کاروبار ہوتا ہے۔ سورۂ فاتحہ کے بعد پہلی سورۂ بقرہ ہے جس میں گائے ذبح کرنے کا حکم ہے۔ پاک بھارت دوستی میں گائے کی ماں خیر منائے۔ اللہ نے انکے معبود کی حیثیت سے گائے کی توہین سے منع کیا، البتہ ان پر بوجھ اور ہماری ضرورت ہو تو سمجھوتہ ہوسکتا ہے۔ چین سے ہماری دوستی ہے،کتے ان کی ضرورت اور ہمارے لئے فالتو ہیں مگر یہ کاروبار ہم نہیں کرتے۔ مسلمان کو دوسروں کے معبودں کی اہانت سے منع کیا گیا تو رسول ﷺ کیلئے بھی ان کا حساس ہونا ایک فطری بات ہے۔ اہانت کے قوسِ قزح کی طرح کئی رنگ ہوسکتے ہیں، دیوبندی مکتبۂ فکر نے جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا سیداابوالاعلیٰ موددیؒ پر انبیاء کرامؑ اور ام المؤمنینؓ کی گستاخی کے سنجیدہ الزامات لگائے۔ بریلوی مکتبۂ فکر نے دیوبندی اکابرؒ پر گستاخی کے فتوے لگائے اور اہلحدیث کو بھی گستاخ قرار دیاگیا۔لیکن کیایہ قانون صرف کمزورطبقے کیلئے بنایاگیاہے؟۔
حضرت ابراہیمؑ کی اولاد بنی اسرائیل کے اندر نبوت کاسلسلہ جاری تھا،ان کو اپنی نسل پر گھمنڈ کرنے کازعم بیجا نہ تھااسلئے کہ قرآن نے مخاطب کیاکہ ’’ اے بنی اسرائیل میری نعمت کو یاد کرو، بیشک میں نے جہاں والوں پر تمہیں فضیلت دی ‘‘۔ جتنے انبیاء ؑ االلہ نے ان میں بھیجے، کسی قوم میں نہیں بھیجے۔ نبوت وبادشاہت کا سلسلہ عرصہ دراز تک ان میں جاری رہا۔ اچھے ممالک ، اسباب واموال اور بہترین ذہنی صلاحیتوں سے اللہ نے ان کو مزین رکھا، جسکے اثر ات اب بھی موجودہیں۔ جب وہ دنیاوی و مذہبی گھمنڈ اور فرقہ وارانہ تعصبات کا شکار ہوئے: وقالوالن یدخل الجنۃ الا من کان ہودا او نصٰریٰ وقالت الیہود لیست النصٰریٰ علی شئی و قالت النصٰریٰ لیست الیہود علی شئی وقال الذین لایعلمون مثل قولہم ’’ اور کہتے کہ کوئی جنت میں داخل نہ ہوگا مگر جو یہودیا نصاری ہیں اور یہودنے کہا کہ نصاریٰ کسی چیز پر نہیں اور نصاریٰ نے کہا کہ یہودکسی چیز پر نہیں اور ویسی گفتگو کرتے وہ جو علم نہ رکھتے تھے‘‘ دین کا منکر طبقہ پراناہے، صابی کے بارے میں اقوال ہیں کہ وہ ستارہ پرست تھے، انبیاء کرام ؑ کے مذاہب کو نہ مانتے تھے ،یاکون تھے؟مگر دین کے منکر کی حیثیت ایسی بھی ہوسکتی ہے کہ مذہبی شدت پسندوں سے بیزار طبقہ جو کسی مخصوص فکر اور مکتبۂ خیال کا پابند نہ ہو، بس اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے کو کافی سمجھتاہو اور اچھے عمل کو نجات کا ذریعہ قرار دیتا ہو۔ موجودہ دور میں اس کا نام سیکولرہے اور اس دور میں اس کو صابی کہا جاتاہو۔ سیکولر مذہب کا انکار نہیں کرتے لیکن مذہبی شدت پسندی پر یقین نہیں رکھتے ۔ یہ حقیقت بھی مخفی نہیں کہ قائداعظم ؒ سیکولر تھے۔اوریا مقبول جان نے عرب حکمرانوں کا کہا کہ سیکولر ہیں مسلمان نہیں اور کہا کہ ’’قائداعظم کے اسلامی پروگرام پر عمل نہ ہوا‘‘۔
جب رسول اللہﷺ پر وحی نزول ہوئی، تو آپ ﷺ کو صابی قراردیاگیا، اسلئے کہ مکہ کا مشرک طبقہ خود کو دینِ ابراہیمی کا علمبردار سمجھتاتھا، یہود ونصاریٰ بھی حضرت ابراہیمؑ کو اپنا سمجھتے تھے اور اللہ نے فرمایا کہ ’’ ابراہیم ؑ یہودی نہ تھے اور نہ نصرانی تھے اور نہ ہی مشرکوں میں سے تھے‘‘۔ بہت بڑا اقدام اسلام نے یہ اٹھایا کہ مذہبی تعصب کی نفی کردی اور اس سے بڑھ کر کیا غیر متعصبانہ نظریہ ہوسکتاہے کہ قرآن نے وضاحت کردی کہ’’ اگراللہ بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ دفع نہ کرتا تو مجوس، یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کی مساجد منہدم کردی جاتیں جن میں اللہ کا نام کثرت سے ذکر ہوتاہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا ہی نہیں آخرت کے اعتبار سے بھی قرآن میں یہ اعتقاد عام کردیا کہ ’’ بیشک جو لوگ مسلمان ہیں، یہود ہیں، نصاریٰ اور صابئین ہیں، انمیں سے جو بھی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اچھے عمل کئے ان کو اجر بھی ملے گا اور وہ خوفزدہ اور غمگین بھی نہ ہونگے‘‘۔ فرقہ وارانہ مذہبی تعصب کے شکار دنیا میں قرآن کی تعلیم پر مشرکینِ مکہ کے جہلاء نے آپﷺ پر صابی (سیکولریابے دین) ہونے کا فتویٰ لگادیا۔ حالانکہ اسلام کی تعلیم میں اللہ اور آخرت کا انکار نہیں تھا بلکہ مذہبی تعصبات کے شکار دنیا کو مثبت پیغام دیاگیا۔
نسلی گھمنڈ کے شکار بنی اسرائیل یہودونصاریٰ بنی اسماعیل کو کسی خاطر میں نہیں لاتے تھے مگر جب رسول اللہ ﷺ نے جہالت کی اندھیر نگری میں علم کے چراغ روشن کئے تو سارا عجم اس روشنی کا علمبردار بن گیا۔ مولانامبارکپوری کی سیرت نگاری میں اول انعام یافتہ کتاب ’’الرحیق المختوم‘‘ ہے۔ رحیق اعلیٰ درجے کی شراب اور مختوم کا معنیٰ سیل بند ہے۔ پیار سے یہ نام رکھا گیاہے لیکن اگر فرقہ وارانہ تعصبات والے عناصر اسکے خلاف بھی منفی پروپیگنڈہ شروع کردیں تو مصنف، کتاب چھاپنے والے اور انعام دینے والے سب گستاخی کے فتوے کی زد میں آجائیں گے۔ گستاخی کے معیار کو اخلاق کے ترازو میں تولنے کے بجائے عدالتی ترازو میں جانچا جائے تو عدالت کی نافرمانی کو بھی گستاخی سمجھا جاتاہے۔ حدیث قرطاس میں حضرت عمرؓ کا رسول اللہﷺ کی طرف سے وصیت نامہ لکھوانے پریہ کہنا کہ ’’ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے‘‘ یقیناًموجودہ عدالت کی نگاہ میں گستاخی کے زمرے میںآتا ہوگااسلئے کہ عدالت اپنی حکم عدولی کو گستاخی سمجھتی ہے۔ کافی احادیث جن کو امام ابوحنیفہؒ نے اپنے معیار پر قرآن کے مطابق نہ سمجھا اور ان کی تردید کردی ، وہ بھی بغاوت کے زمرے میں آتا ہوگامگر نبیﷺ نے تو اپنے جانثارصحابہؓ کی تربیت ایسی کی کہ وہ ضمیر کے مطابق اختلاف کا اظہار کرتے بلکہ اللہ نے ان کا یہ فرضِ منصبی قرار دیا وامرھم شوریٰ بینھم ’’اورکسی خاص بات کو باہمی مشاورت سے طے کرتے تھے‘‘ ، صحابہؓ پر وحی نازل نہ ہوتی لیکن بسا اوقات کی ان کی رائے پر بھی وحی نازل ہوجاتی تھی جیسے بدری قیدیوں پر فدیہ اور سورۂ مجادلہ میں وضاحت ہے اسلئے نبیﷺ سے فرمایا : وشاورھم فی الامر ’’کسی خاص بات میں مشاورت کرلیا کریں‘‘۔اختلاف رائے پر گستاخی کا الزام اور سزا تو بہت دور کی بات تھی ، جبکہ صلح حدیبیہ کے معاہدے پر پوری قوم سراپا احتجاج بن گئی، نبیﷺ کو بغاوت کا گمان ہونے لگاتھا لیکن گستاخی کا فتویٰ کسی پر نہیں لگایا، ذی الخویصرہ نے واقعی گستاخی کا ارتکاب کیا،کہا کہ آپﷺ انصاف نہیں کرتے!نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’اگر میں انصاف نہ کروں تو اور کون کریگا‘‘ ۔ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اسکو قتل نہ کردوں؟۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ یہ اکیلانہیں، یہ گروہ در گروہ پیدا ہونگے ، یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال سے مل جائیگا۔ یہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن انکے حلق سے نیچے نہ اتریگا۔ ان کی نماز ، روزے کو دیکھ کر اپنی نماز اور روزے کو حقیر جانوگے۔یہ اسلام سے نکلیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتاہے ‘‘۔ رسول ﷺ نے اس گستاخ کو کوئی سزا نہ دی، ابن صائد نے نبیﷺ سے کہا کہ آپﷺ امیوں کے رسول ہیں اور میں تمام جہاں کا رسول ہوں لیکن نبیﷺ نے اس کو قتل کرنے کا حکم نہ دیا۔جیوپر ڈاکٹر عامر لیاقت نے طالبان کے حوالے سے کہا کہ ’’ صدیق اکبرؓ نے نئی نبوت والے کو توبہ کی ایک مہلت دی اور پھر انکے خلاف قتال کیا تھا‘‘۔پھر پاکستان میں قادیانیوں کا کیابنے گا؟۔جب ریاست کی طرف سے ایک آنکھ کا اشارہ ہوگا تو مذہبی طبقے اپنے ایمانی کیفیت کا مظاہرہ کرینگے۔ اپنے تضادات کو ٹھنڈے دل سے ختم کرنا ہوگا۔
عیسائی کے مقابلے میں یہود نے ضد میں عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بنانا شروع کیا تھا، جیسے سپاہِ صحابہ والے 12ربیع الاوّل کے جلسے جلوس اور تعطیل و میلادالنبی ﷺ کو بدعت سمجھتے ہیں لیکن عشرہ محرم میں فاروقِ اعظمؓ کی تعطیل کیلئے حکومت پر زور ڈالتے ہیں۔ اس مرتبہ پختونخواہ کی حکومت نے پہلے محرم کو بھی یہ مطالبہ مان کر تعطیل کا حکم جاری کیا۔ اگر اہل تشیع محرم کے منانے سے پیچھے ہٹ جائیں تو وہ بھی تعطیل منانے کا مطالبہ نہ کرینگے۔ سعودیہ کا ماحول الگ ہے وہاں یومِ فاروق اعظمؓ منانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ۔ اسلامی اقتدار قائم ہوا تو مدینہ کے یہودیوں میں پڑوسی ہونے کے ناطے شعور بیدار ہوا۔ کچھ عرصہ بعد ان کا مؤقف بدل گیا، وہ کہنے لگے کہ ’’ ہم ہمیشہ سے توحید کے قائل رہے ہیں، کبھی شرک نہیں کیا‘‘۔ آج اسلام کی روشنی دنیا بھر میں پھیل گئی تو عیسائی بھی اپنا مؤقف بدل چکے ہیں۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ ’’ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے۔ ہم اللہ کی شادی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ صرف عیسیٰؑ نہیں بلکہ اللہ کے تمام نیک مردوں اور خواتین کو ہم خدا کے بیٹے سمجھتے ہیں اور بیٹے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ خدا نے شادی کی اور اس کی وجہ سے کوئی پیدا ہوا، اس سے اللہ کی ذات پاک ہے۔ حج کے بعداگلے دن تمام اخبارات میں آتا ہے کہ 30لاکھ فرزندانِ توحید نے فریضہ حج ادا کیا، توا س کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ حاجی خدا کے بیٹے ہیں یا مسلمان ان کو خدا کا بیٹا سمجھنے لگتے ہیں، اس طرح عیسائی بھی حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا رشتے کی بنیاد پر بیٹا نہیں سمجھتے، حضرت داؤد علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے ۔ اور خدا کی شادی اور جنسی بیٹے کو ہم بھی شرک سمجھتے ہیں‘‘۔(نیٹ پرایک خاتون پادری کا بیان موجود ہے)
پوری دنیا پر حکمرانی میں بڑے مقام پر فائز امریکن ، یورپین، آسٹریلین عیسائی یہ سمجھتے ہیں کہ:
توراۃ اللہ کی کتاب تھی لیکن یہود کی طرف سے اس میں رد وبدل ہوئی۔ حدود اور سزاؤں کا بہیمانہ نظام مسائل کا حل نہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام کا یہی مؤقف تھا اسلئے انجیل میں حدود وتعزیرات کا وجود نہیں۔ قرآن میں توراۃ اور انجیل کی آدھی اورادھوری تعلیم ہے۔ مسلمانوں نے اسکے ذریعہ خود کو اسوقت عالمی سپر طاقت بنایا، جب نصاریٰ نے عملی طور پر خدا کے دین سے روگردانی کی۔ یہود نے حدود اور تعزیرات کی سخت سزاؤں کا اندراج کیا لیکن پھر اس پر خود بھی عمل نہ کرسکے اور یہی حالت مسلمانوں کی رہی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے زبردست حکمتِ عملی سے کام لیکر فرمایا کہ ’’ جس نے خود زنا نہیں کیا ہو،وہی پتھر مارے‘‘ جس سے سزا کا تصور معاشرے سے ختم ہوگیا، اسلئے کہ شریف لوگ دوسرے کو مارنے میں بہت محتاط ہوتے ہیں، بلکہ وہ معاف کرنے اور درگزر کا رویہ اختیار کرتے ہیں لیکن جو لوگ خود بدمعاش اور بدکار ہوتے ہیں وہ دوسروں کو سخت ردِ عمل سے نقصان پہنچاتے ہیں۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ ’’وہ بات کیوں کرتے ہو؟ جس پر خود عمل نہیں کرتے ‘‘۔ رسول اللہﷺ نے سنگساری کی سزا کو ٹالنے کی کوشش کی۔ ہاتھ سے پتھر نہیں مارا۔ لوگوں نے مارا، تو وہ بھاگا، کسی نے بڑاپتھر مارا ، نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ بھاگنے دیتے‘‘ اور جس نے مذمت کی کہ اپنا راز کیوں کھولا؟۔ تو نبیﷺ نے اسلئے اس کی تعریف کی کہ اس نے تو کسی کو نہیں مارا تھا۔ اپنے اوپر حد جاری کرنے کیلئے خود گواہی دی تھی۔ اسلئے نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’ اس کی توبہ اگر پورے مدینہ والوں پر بانٹ دی جائے تو سب کو پوری ہوجائے‘‘۔
حضرت عمرؓ کے سامنے بصرہ کے گورنرحضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کے خلاف زناکی گواہی دینے کیلئے چار افراد نے ایک ایک کرکے خود کو پیش کیا ۔ پہلے کی گواہی پر حضرت عمرؓ بہت پریشان ہوئے، دوسرے پر اس سے زیادہ پریشان ہوئے، تیسرے پر پریشانی کی انتہا ء نہ رہی تو چوتھے کو آتے ہوئے ترغیب دی کہ’’ اسکے ذریعے اللہ اس صحابیؓ کو ذلت سے بچائے گا۔ پھر وہ قریب آکر گواہی دینے لگا تو حضرت عمرؓ نے چیخ مار کر کہا کہ تیرے پاس گواہی کیلئے کیا ہے؟۔ چوتھے گواہ زیاد نے کہا کہ ’’ میں نے اور کچھ نہیں دیکھا، عورت کی ٹانگیں اسکے کاندھے پر گدھے کے کان کی طرح پڑی تھیں اور میں نے سرین دیکھا ‘‘۔ راوی نے کہا کہ عمرؓ نے اتنے زور سے چلاکر کہا تھا کہ تیرے پاس کیا ہے کہ قریب تھاکہ میں ڈر کے مارے بیہوش ہوجاؤں، عمرؓ نے شہادت رد کردی اور تین گواہ پر80کوڑے کی حدِ قذف جاری کردی۔ مغیرہؓ کو بچایا لیکن گورنری سے ہٹا دیا۔ اس نے کہا کہ مجھے گورنر بنادو، تو عمرؓ نے فرمایا کہ آپ گورنری کی بات کرتے ہو؟۔ اگرگواہ پورے ہوجاتے تو سنگسار کردیتا۔ ان گواہوں میں ایک صحابیؓ حضرت ابوبکرہؓ بھی تھے ، جب حضرت عمرؓ نے ان تین افراد کو حدِ قذف کے بعد یہ پیشکش کی کہ تم کہہ دو کہ ہم نے جھوٹ بولا تھا تو پھر آئندہ تمہاری گواہی قبول ہوگی۔ حضرت ابوبکرہؓ نے کہا : ضرورت نہیں کہ آئندہ میری گواہی قبول ہو ۔ باقی دو افراد نے کہا کہ ہم نے جھوٹی گواہی دی تھی۔ جمہورائمہ مجتہدین ؒ کے نزدیک عمرؓ کی پیشکش درست تھی اسلئے کہ قرآن میں توبہ کی گنجائش ہے، امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک یہ پیشکش غلط تھی اسلئے کہ قرآن میں جھوٹی گواہی دینے والوں کی توبہ قبول نہیں ۔ بخاری میں ان دوگواہ کے بھی نام ہیں۔ وہ دو گواہ معتبر ٹھہرے اور بنی امیہ و بنوعباس اور خلافت عثمانیہ کے ادوار سے عدالت کو اس قسم کے معتبر شاہی اور درباری گواہوں سے تقویت ملتی رہی ۔ علیؓ سے حضرت عائشہؓ کی جنگ ہورہی تھی تو بخاری میں ہے کہ علیؓ کے لشکرمیں حضرت ابوبکرہؓ بھی تھے انہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’ وہ قوم فلاح نہیں پاسکتی، جس کی قیادت عورت کررہی ہو‘‘۔ حضرت ابوبکرہؓ کی گواہی جب معتبر نہیں رہی تھی تو ان کی بیان کردہ حدیث کا بھی اعتبار ہے یا نہیں؟۔ حدیث کا اس خاص واقعہ سے تعلق تھا یا ہمیشہ کیلئے یہ بات ہے؟۔ بینظیر بھٹو کو نوازشریف اور زرداری سے بہتر قرار دیا جاتاہے۔ عشرہ مبشرہ کے دو صحابہ کرام طلحہؓ اور زبیرؓ حضرت عائشہؓ کے لشکر میں علیؓ کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ یہ اسلامی حکومت کی قانون سازی سے ممکن ہوسکا کہ چور ی و سنگساری کی وحشیانہ سزا ئیں ختم ہوگئیں۔
فقہاء نے نہلے پر دھلا کرکے زنا کی گواہی کیلئے یہ شرط رکھ دی کہ سرمہ دانی میں سلائی کی طرح گواہ چشم دید گواہی دے۔ گویا جب تک انسانی اجسام شفاف شیشے کی طرح نہ ہوں یا الٹرا ساؤنڈ سے زیادہ اچھے مشین کی طرح نہ دیکھیں تو یہ گواہی معتبر نہیں ہے۔یورپی یونین کے دباؤ کی وجہ سے پیپلزپارٹی وغیرہ نے پاکستان میں قتل کے بدلے قتل کی سزا کو ختم کرنے کی کوشش بھی اسلئے کی تھی اور کافی عرصہ تک قتل کے بدلے قتل کا سلسلہ بھی پاکستان میں رکا رہا۔ اگر پیپلزپارٹی اور سول سوسائٹی کو بھاری اکثریت ملتی تو قانون میں تبدیلی بھی لائی جاتی۔عیسائیوں کا یہ مؤقف ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بے عمل یہودیوں نے اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہونے دیا اور اسلام نے انجیل کے مشن کو بہت بہترین انداز میں دنیا کے اندر نافذ کردیا۔ اسلئے عیسائی رسول اللہ ﷺ کو اول نمبر کا کامیاب قانون دان قرار دیتے ہیں ، حضرت عمرؓ نے بھی توراۃ کے شرعی حدود کو آثار قدیمہ میں ہی بدل ڈالا۔ بصرہ کے گورنر کی جو حالت بیان کی گئی ہے اس سے زیادہ تو مغرب کی دنیا میں آج بھی نہیں ۔ اسلئے حضرت عمرؓ کو بھی خاص مقام عیسائیوں نے دیا ۔ برطانیہ نے مرزاغلام احمد قادیانی سے جہاد کو منسوخ کرنے کی کوشش کی۔ امریکہ نے روس کے خلاف پھر جہاد کو دنیا میں منظم کردیا۔ جب روس کو شکست ہوئی اور امریکہ سپر طاقت بن گیا تو ڈونلڈ ٹرمپ کو یہودی لابی نے کامیاب کروایا۔ جو اسرائیل اور روس سے بھرپور دوستی کریگا۔ تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی غیر سیاسی جماعتیں ہیں جو نصاریٰ کے مشن کو ہی تقویت پہنچانے کا للہ فی اللہ کام کررہی ہیں کیونکہ حکومت ، حدود اورتعزیرات ان کے نصاب سے خارج ہیں۔ جن سیاسی جماعتوں نے مغرب کے جمہوری نظام کو قبول کرلیا وہ بھی سمجھوتہ ایکسپریس ہیں اور مقبولِ عام علماء شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور ہلال کمیٹی کے چےئرمین مفتی اعظم مفتی منیب الرحمن وغیرہ نے بینکوں کے سودی نظام کو اسلامی قرار دیا ہے۔ جن لوگوں میں خلافت کا جذبہ ہے وہ بغاوت کا سامنا کررہے ہیں ،ان میں بھی مچھلی اور جھینگے کا پتہ نہیں چلتا کہ کون شکار کررہاہے اور کون ہورہاہے؟۔ مدارس اسلام پڑھا رہے ہیں یا اپنا کاروبار جمارہے ہیں؟ ۔مینا اور طوطا کی طرح رٹے رٹائے اسلام کی تبلیغ اور دعوت دینے والے کامیاب ہیں اور اسلام کو اس کی روح کے مطابق زندہ کرنے والوں کیلئے مسلمانوں کے معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں، میڈیا کو بھی ملٹی نیشنل کمپنیاں اس وقت اشہارات دیتی ہیں جب انکے ایجنڈے پر کوئی اثر نہ پڑے۔ سودکے جواز کا فتویٰ دینے والے گنتی کے چند علماء ومفتیان معتبر اور مخالفت کرنیوالی اکثریت کی حیثیت نہیں اور پھر بھی میڈیا پر میرٹ کا راگ الاپا جاتاہے۔ جو لوگ چند مراعات یافتہ طبقے کے خلاف عوام کی اکثریت کی بات میڈیا پر کرتے ہیں ان کو بھی پاگل سمجھا جاتاہے۔
قرآن نے تو شروع سے ہی اہل کتاب سے کہا تھا کہ ’’ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب آؤ، اس بات کی طرف جس میں ہم دونوں ایک ہیں،کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسکے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرینگے‘‘۔۔۔ ’’کوئی اسکے حکموں میں شریک نہ ہوگا‘‘۔ یہودونصاریٰ اپنے پیر اور علماء کے حلال و حرام کو اللہ کے حکموں میں شریک کرتے تھے اسلئے انکے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ’’ انہوں نے اپنے احبار ورھبان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا‘‘۔ توحید کی جنگ ہم جیت چکے ہیں، یہودو نصاریٰ بھی توحید کے قائل ہوگئے ۔ اب اصل جنگ نظام کی ہے اور جب دنیا کو اسلام کے نظام کا پتہ چلے گا تو انسانیت توحید کی طرح اسلام کے احکام کو بھی دنیا میں نافذ کرنے پر آمادہ ہوگی، لیکن جب مسلمان خود بھی اسلامی احکام سے واقف نہیں ہونگے تو دنیا کیسے قبول کرے گی؟۔ عیسائیوں کو یہود سے خطرہ نہیں مگر فطری دین اسلام سے بااثرطبقہ ڈرتاہے کہ ’’دنیا بھر میں عادلانہ نظام نافذ نہ ہوجائے‘‘۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان سچ ثابت ہوا ۔یہودکے نقش قدم پر خود ساختہ حلال و حرام کا دورآیا ۔ سودی نظام کو جواز فراہم کرنے کے علاوہ اجنبیت کے ادوار پر غور اورعملی اقدامات اٹھانے ہونگے اور جب معاشرے کو خالص قرآن و سنت کے مطابق ڈھال دینگے تو من حیث القوم مسلمان عروج کی منزل پر پہنچ جائیں گے۔ معاشرے میں انسانی کمزوری کی وجہ سے بہت سے دانستہ اور نا دانستہ غلطیاں ہوجاتی ہیں جن سے درگزر کی ضرورت ہے لیکن ان کا ازالہ کرنا چاہیے، ضد اور ہٹ دھرمی مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔ نبیﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع جاہلیت کے خون ختم کردئیے اور پہلے اپنوں میں سے ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون معاف کردیا اورچچا عباسؓ کا سود معاف کردیا تو حضرت عباسؓ نے اصل بھی معاف کردیا۔ ہمارے مولوی نے قرآن کی طرف دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی، طلاق و حلالہ کی غلط راہ پر عوام کو لگادیا، اب سوچنے کی بات یہ ہے دارالعلوم کراچی سے قرآن و سنت کے حوالہ سے بتایا گیاکہ شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کی لین دین سود ہے اور اسکے ستر گناہوں میں سے کم از کم گناہ اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے۔ پھر جب عوام کے ذہن میں سود کی ایسی حرمت اور گناہ بیٹھے گا تو بینکوں کے اسلامی نظام کو بھی حلالہ کی لعنت سے بڑھ کر احسان سمجھیں گے اسلئے کہ ماں سے زنا تو بہت بڑی بات ہے۔ حضرت عباسؓ کو یہ وعید سنائی جاتی تو شاید پہلے ہی سود چھوڑ دیتے۔
قرآن کے نظام کو نافذ کرنے کیلئے طرزِ نبوت کی خلافت کا قیام ضروری ہے، نہیں تو کم ازکم حیلے کا عمل چھوڑ کر حرام کو حرام سمجھا جائے ، موقع مل جائے تو عملی طور سے ختم کیا جائے۔ سیدعتیق الرحمن گیلانی

آرمی چیف و جوائنٹ چیف کا کمال. نادر شاہ

ہم نے متعددبار شاہراہ فیصل کو وسیع کرنے کا مطالبہ کیا تھا ۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ عوامی امنگوں کے مطابق پاک فوج کی قیادت نے شاہراہ فیصل کے فٹ پاتھ کو روڈ میں شامل کرنے کا کام شروع کرادیا ہے۔ عوام کو بہت تکلیف تھی اور پاک فوج کی قیادت کے اس اقدام سے عوام کے دلوں میں پاک فوج کی عزت ، محبت اور وقار میں بہت اضافہ ہوگا۔ اگر فی الفور پی ایف کے برج کی توسیع کرکے دونوں طرف سے اس پر یوٹرن کا راستہ بنایا جائے اور ڈرگ روڈ کو سگنل فری کیا جائے تو ٹریفک کی روانی میں بہت تیزی آئیگی۔ ڈرگ روڈ کی ریلوے لائن کے جمپ کوختم کیا جائے تو بھی ٹریفک کی روانی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا،بلوچ کالونی کا پل بھی گرانے کے بجائے وسیع کرکے شارع فیصل پر یو ٹرن بن سکتاہے۔ PAF اور نیوی کیلئے عالمی سطح کے نقشے تیار کرکے کاروباری مراکز اور رہائشگاہوں کا اہتمام کیا جائے تو کراچی کا حسن دوبالا ہوگا اور پاک فوج کیلئے معقول کمائی کاا چھا ذریعہ ہوگا۔ ملک ریاض فرد واحد ہے اور بحریہ ٹاؤن کراچی کے وسیع رقبہ پر دوبئی طرز کی تعمیر ملک کی خدمت ہے۔ بحریہ ٹاؤن سے ایک نیا شہر آباد ہوا ہے لیکن کراچی کے خاص گارڈ گفٹ سمندری آب و ہوا سے وہ محروم ہے۔ آس پاس کے تمام روڈ وسیع و عریض ہونگے تو اس جگہ کی قیمت میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا، فی الوقت فٹ پاتھ کی توسیع بھی روز مشکلات سہنے والی عوام کیلئے بڑی خدمت ہے، اللہ جزائے خیر دے۔ نادر شاہ

چوتھی نسل کا جواب مودی کی طرف سے تحفہ ہے. حنیف عباسی

رحمن ملک کو اللہ کی شان تھی کہ سورۂ اخلاص پڑھنا بھی نہ آیاپھر کس طرح مانا جائے کہ رحمن ملک پر وحی یا الہام ہوا؟،22سال پہلے رحمن ملک نے کہا کہ ’’ لندن کے فلیٹ شریف خاندان کے ہیں‘‘۔نواز شریف کے زیر کفالت تین افراددرج تھے کلثوم نواز ، مریم نواز ، نواز شریف۔جسکا جواب نہیں ملا ، تیسرا صفدر عباسی تھا؟۔اندراج وزیر اعظم نے کیا جواب عمران دے؟۔ نوازشریف نے پارلیمنٹ میں کہا کہ 2005ء کو سعودیہ کی وسیع اراضی والی مِل بیچ دی اور اس سے حاصل ہونے والے خطیر رقم سے 2006ء میں لندن فلیٹ خرید لئے۔ انکے ثبوت اللہ کے فضل سے موجود ہیں، بات نکلی ہے تو دوددھ کا دودھ پانی۔۔۔ ‘‘ اگر جمہوری روح ہوتی تو خواجہ آصف نے نوازشریف کوسنانا تھاکہ کوئی شرم حیاء۔۔۔
قطری خط میں لکھاگیا کہ وزیراعظم بڑے بھولے بھالے ہیں، ڈھڑلے سے جھوٹ بولنے پر جھجک ہونی چاہیے۔ مجھے یہ آگاہ کیا گیا ہے کہ ’’ میاں شریف نے ہمیں 12ملین درہم دئیے، اس رقم کو ہم نے واپس کیا تو حسین نواز نے اس سے لندن کے فلیٹ خریدے‘‘، یہ نوازشریف کے تین نسل کا حساب ہے اور اگر چوتھی نسل مریم نواز کی بیٹی کے جہیز کا معاملہ اٹھا اور غلط بیانی سے کام کی ضروت پڑی تو بھارت سے وزیراعظم مودی کا خط آسکتاہے کہ میں نے تحائف دئیے یا پردادا کی رقم انویسٹ تھی۔ بڑی جائیداد بناکر ن لیگ قوم کی خدمت کررہی ہے یا لوٹ مار کا بازار گرم کیاہواہے؟ ۔ حنیف عباسی

جماعت اسلامی ہماری دم چھلہ ہے. خواجہ آصف

خواجہ آصف نے کہا کہ ’’قیامِ پاکستان سے جماعتِ اسلامی غلط سائیڈ پر کھڑی رہی،پتہ نہیں چلتا کہ اسکے قبلے کا رُخ کہاں ہے؟۔ سراج الحق مجھ سے باربار پوچھتارہا کہ فوج آپ کیساتھ ہے؟۔ مرکز میں ہماری اپوزیشن کرتی ہے اور کشمیر میں ہماری دُم چھلہ ہے‘‘۔ جنرل ضیاء کی مجلس شوریٰ میں خواجہ آصف کے والد چیئرمین اورجماعت اسلامی دُم چھلہ تھی۔ اسلامی ریفرینڈم، جنرل ضیاء کی وفات کے بعد برسی کے موقع پر اور اسلامی جمہوری اتحاد تاریخ کے ہر موڑ پر جماعت اسلامی دُم چھلہ رہی ہے تو طعنے سہنے پڑینگے۔ 24نیوز چینل پر سراج الحق نے خواجہ آصف کو بڑا کہہ کراپنے لئے اور خواجہ آصف کیلئے جھوٹا کہنا نامناسب قرار دیا اور کہا کہ ذہن پر زور ڈالامگر مجھے یاد نہیں آرہا کہ میں نے کب یہ بات کی اور یہ بھی کہا کہ میں جماعت کاذمہ دار ہوں مجھے جواب دینا مناسب نہیں۔ IJIمیں جماعتِ اسلامی استعمال ہوئی اور جنرل سیکرٹری پروفیسر ٖغفور نے حامد میرسے جیو پر کہاتھا کہ ان کو بعد میں پتہ چلا۔
اسلامی جمہوری اتحاد کے سینئر مولانا سمیع الحق نے نوازشریف کو قیادت دی تو میڈم طاہرہ کے سکینڈل کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا نور محمد ؒ نے اسلامی نظام کیلئے کئی سال جیل کاٹی، نوازشریف کی عزت افزائی سے وہ فلموں کے سنسر بورڈ کے وزیربن گئے۔ مولانا فضل الرحمن کے پتّے کو منصوبہ بندی سے ہی اتفاق ہسپتال میں نکالا گیاہے ۔ آج شیخ رشید نے طعنہ دیا ، کل خواجہ آصف کاطعنہ سہنا پڑیگا۔ فیروز چھیپا

سانحہ ماڈل ٹاؤن پر عبد القدوس بلوچ (تیز و تند) کا بیان

نوشتۂ دیوار کے کالم نگار عبدالقدوس بلوچ نے کہا کہ ’’حکمران کے قول وعمل میں تضاد ہے، وزیرستان کے طالبان نے رات کی تاریکی میں حملہ کیااور13افرادکو شہیدکردیا ۔اپنے ہلاک شدگان کو ساتھ لیجاکر رات کی تاریکی میں دفن کردیا ۔ اسکے مقابلہ میں ماڈل ٹاؤن لاہور کا واقعہ زیادہ واضح تھا، پولیس نے کیمرے کی آنکھ کے سامنے 14افراد کو شہید کردیا۔ لاہور کے واقعہ میں رانا ثناء اللہ ، شہباز شریف کو نوازشریف اور چوہدری نثار نے ذمہ دار قرار نہ دیا۔طالبان امیر بیت اللہ اوردیگر رہنماؤں نے قاری حسین اور حکیم اللہ کو ذمہ دار قرار دیاتھا۔ جنہوں نے قصاص کیلئے خود کو پیش کرنے کیساتھ ساتھ یہ مطالبہ کیا کہ تم بھی قصاص کیلئے تیار ہوجاؤ، اسلئے کہ تمہارے کہنے سے ہم نے بہت بے گناہوں کا خون کیا۔ اپنے گاؤں کے شریف انسان ملک خاندان کو انکے گھر والوں سمیت تمہارے حکم پر شہید کردیا، انکے قصاص کیلئے تم بھی تیار ہو؟۔ جس پر طالبان کے امیر بیت اللہ محسود کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا تھا۔ طالبان چاہتے تو انکار بھی کرسکتے تھے اور اس وقت حکومت کا بھی ان پر کوئی دباؤ نہ تھا۔ اگر مسلم لیگ ن ان طالبان کی تعریف نہ کرے جنہوں نے قربانی دی تو کیا اپنی تعریف کریگی ؟ جو لوٹ کر قوم کا سارا مال کھا گئے اور ڈکار بھی نہیں لے رہے ؟۔ قومی ایکشن پلان پر جن طالبان کیخلاف عمل ہوا، انکے سہولت کار سیاستدان و حکمران ان سے کئی درجے بدتر ہیں، جو قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے ذمہ دار تھے، اچھا ہوا کہ جنرل راحیل وقت پر چلے گئے ورنہ انکی مخلصانہ سرگرمی شکوک کا شکار بن جاتی۔ ٹھنڈے مزاج جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں عدلیہ نے انصاف سے وزیراعظم کا فیصلہ کیاتو عاصمہ جہانگیر یہ نہ کہیں گی کہ ’’ عدلیہ اور فوج دو خدا مل گئے ‘‘ اب تو پنجاب کے پنج تن پاک کی پاکدامنی کا دامن بھی پاک نہ رہاہے۔ راجہ رنجیت سنگھ نے بھی ایسی کرپشن نہ کی ہوگی۔ الفاظ کا احترام عمل سے مشروط ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور انکی جماعت کے رہنما ہزاربار کہیں کہ ’’ محترم قاتل صاحب!، محترم ڈاکو صاحب!، محترم کرپٹ صاحب‘‘۔یہ الفاظ کی پاکیزگی کاثبوت نہیں ۔ طالبان نے اپنی قوم کو تباہ کیا اور موقع ضائع کیا ورنہ ان سے توبہتر ہوتے۔خرم نواز گنڈہ پور نے کہا کہ’’ طالبان میں فرشتہ صفت انسان بھی ہیں اور شیطان بھی‘‘۔آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے کہا: پولیس ایکٹ1821 ؁ء کے اختیار ات سے 21ویں صدی کے انصاف کی توقع غلط ہے جبکہ سندھ پولیس کے قاتل اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔خرم نواز گنڈہ پور کی بات بھی درست تھی کہ طالبان میں ہرقسم کے لوگ ہیں، آئی جی سندھ خواجہ کی بات بھی درست ہے کہ پولیس کے اندر اصلاحات کئے بغیر معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آسکتی اور جب پولیس سیاسی دباؤ سے آزاد نہ ہو تو بات نہیں بنے گی۔ خیبر پختونخواہ کی پولیس کو آزاد سمجھا جائے تو اس کی وجہ صوبائی حکومت کا کمال بھی ہوسکتاہے مگروہاں پاک فوج کی وجہ سے سیاسی عمل دخل بھی نہیں ہوسکتا۔اے ڈی خواجہ کے کمالات بھی کراچی میں رینجرز اور سندھ حکومت پر پاک فوج کے دباؤ کانتیجہ ہے۔ عدلیہ نے بھی ان کو بحال کرنے میں اپنا زبردست کردار ادا کیا ہے۔ اگر یہ بات مان لی جائے کہ ریاستی اداروں کے افراد کو عوام کے مقابلے میں جرائم پر بڑی سزا دی جائے تو اسکے اچھے نتائج نکلیں گے اور پاکستان کی ریاست اتنی مستحکم ہوگی کہ دنیا میں کوئی ملک اس کا مقابلہ نہ کرسکے گا۔
پنجاب پاکستان کیلئے ایک بہت بڑ اثاثہ ہے۔ پاک فوج کی وہاں باقی صوبوں کے مقابلے میں شاید کوئی گنجائش بھی نہیں نکلتی ہے کہ اپنا کوئی کردار ادا کرسکے۔ چوہدری نثار اور شہباز شریف اپوزیشن یا حکومت میں ہوں ، پاک فوج کی اعلیٰ قیادتوں سے راز ونیاز کا معاملہ رہتاہے۔ پنجاب پولیس نے اتنا بڑا سانحۂ ماڈل ٹاؤن رونما کردیا لیکن قربانی کا بکرا گلو بٹ بن گیا۔ گاڑیوں کے شیشے توڑنے والا مجرم مگر انسانی جانوں کو گولیوں سے چھلنی کرنے والے اپنے انجام کو نہیں پہنچ سکے۔ پنجاب پولیس کو ایسا استعمال کیا گیا جیسے لیگی رہنماؤں اور کارکنوں نے سپریم کورٹ پر ہلا بول دیا تھا۔اگر یہی حال رہا تو طالبان اور ایم کیوایم کے علاوہ دوسری شکلوں میں بھی ریاست کے خلاف کھڑی ہونے والی قوتیں پیدا ہوں گی۔
بلوچستان ، پختونخواہ اور کراچی کے آسودہ حال لوگ پنجاب اور اندورن سندھ کے بدحال لوگوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ پاکستان کے حالات کو بدلنے کیلئے پنجاب اور اندرون سندھ میں بہت محنت کی ضرورت ہے۔ جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے سارے گڑھ پنجاب میں ہیں لیکن وہ بڑے سلجھے ہوئے لوگ ہیں۔ بلوچ اور پٹھان پہاڑوں اور صحراؤں کی وجہ سے سخت طبیعت اور مزاج کے مالک ہوتے ہیں۔بلوچ کی تاریخ انتقامی کاروائی میں سنگدلی کی رہی ۔جبکہ ایم کیوایم کی تشکیل نے کراچی کے شریف مہاجر کو بھی سفاک بنادیا۔ فوج، عدلیہ اور پولیس ہمارے لئے اس وقت بہتر ہیں جب ہم اپناکردار درست کرلیں۔ اسلام نے مشرکینِ مکہ جیسے جاہل اور مدینہ کے منافقین کی سرشست کو بدلنے میں عظیم الشان کامیابی کا مظاہرہ کیا۔ رئیس المنافین عبداللہ بن ابی کے بیٹے سچے صحابی تھے، ابوجہل کے بیٹے عکرمہؓ نے دل وجان سے اسلام قبول کرکے اپنا سابقہ اسلام دشمنی کاحساب چکا دیاتھا ۔
بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں اور اداروں کے کردار کو درست نہج پر نہیں لایا جاسکا اور انگریز سے آزادی کے بعد عروج حاصل کرنے کے بجائے مزید تنزلی کا شکار ہوگئے مگر مایوسی کفر ہے۔ ہم نے اس کلچر کو بدلنا ہوگا کہ زور وزبردستی، جبرو تشدد اور ظلم وتعدی سے بڑا انقلاب آسکتاہے۔ اس کلچر کو بھی بدلنا ہوگا کہ کرپشن کے ذریعہ پیسے کماکر لیڈرشپ قوم کو دی جائے۔ سیاسی اشرافیہ قوم کے سامنے بے نقاب ہے ، اس قوم کو دھوکے میں رکھنا ممکن نہیں ۔ سیاسی جماعتوں نے مغلیہ دور کی خاندانی امارت قائم کررکھی ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت راجہ رنجیت سنگھ سے بھی بدتر ہے اور پیپلزپارٹی راجہ داہر سے بدتر کردار ادا کررہی ہے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے سارے اثاثے آل اولاد سمیت باہر ہیں اور یہ یہاں برٹش امپائر کی طرح عوام کو غلام کی طرح استعمال کرنے کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں کررہے ہیں۔
طالبان، بلوچ قوم پرست ،ایم کیوایم کی طرح ریاست پنجاب کے ارباب اقتدار کا بھی محاسبہ کرے، ورنہ اس دفعہ شدت پسندی کی لہر غریبوں کے ہاں سے اٹھے گی اور پھریہ بھول جاؤ کہ ریاست اس پر قابو پاسکے گی،سب کچھ بہالے جائے گی۔ نوازشریف کا پہلوان بیٹا حسین نواز عوام کے بچوں کیساتھ پڑھتا تو اس کی صلاحیتوں کو قوم دیکھ لیتی۔ جنرل راحیل شریف نے جس ٹرسٹ کا اعلان کیا ہے، اس سے ڈیرہ اسماعیل خان اور وزیرستان کے سنگم پر ایک تعلیمی اکیڈمی بنائیں تو شہداء کے بچوں کا مستقبل بہتر ہوسکتاہے۔ ہم نے گومل میں کبیر پبلک اکیڈمی بنائی تھی تو اس میں امیروں کے پہلوان بچوں کے مقابلے میں غریبوں کے بچے زیادہ باصلاحیت تھے۔ قوم اس وقت ترقی کرسکتی ہے جب غریبوں کو تعلیم کے یکساں مواقع ملیں۔ قابلیت والے جدید تعلیم سے آراستہ ہوں اور صلاحیت سے عاری اپنی اوقات میں رہیں تو قوم عروج کی منزل دیکھے گی۔نوازشریف کے بیٹے جتنے بڑے کاروباری خودکو کہہ رہے تھے ، قطری شہزادے کے خطوط نے ان کی مٹی پلید کرکے رکھ دی۔مجیب الرحمن شامی اپنا تأثر قوم کو بتائیں کہ حسین نواز میں ماشاء اللہ کتنی صلاحیت تھی؟۔ یہ لیاری میں گدھا گاڑی چلاتا تو اس کا دماغ بھی تیز ہوجاتا اور صحت بھی بورے اٹھانے سے تندرست رہتی۔ قوم کاچوری پیسہ کھانے پر عزت خراب ہوگئی وہ بھی بچ جاتی۔سعد رفیق کو اپنا رزق حلال کرنے کیلئے غصہ نہ کھانا پڑتاتھا۔عدلیہ ن لیگ کی کارکن تو نہیں بن سکتی ہے۔ جج بیمار ہوسکتے ہیں ، فیصلے میں تاخیری حربے استعمال کرسکتے ہیں ۔ رحمن ملک جب ایف آئی اے کے ملازم تھے تو سپریم کورٹ کے حکم سے تحقیقاتی رپورٹ تیار کرکے عدالت کے ریکارڈ کا حصہ بنایا تھا ، اگر معزز جج صاحب عمران خان کے وکیل پر ہنسیں گے کہ وہی رحمن ملک جو وزیر تھے تو اس سے جج کی عزت میں یقیناًکوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ کوئی بھی سرکاری افسر یا ملازم فارغ ہو تو دوسال تک سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا لیکن اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ سیاسی کردار کو سرکاری ملازم رکھا جائے۔ ججوں کی تقرری سوالیہ نشان ہے، زرداری کے دور میں افتخار چوہدری نے جو جج لئے تھے وہ سب ن لیگ کے قریب سمجھے جاتے تھے اور چیف جسٹس ثاقب نثار کا معاملہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں، خواجہ آصف نے جان بوجھ کر سابقہ کردار پر میڈیا میں تبصرے پر شرم نہیں کی ۔ قدوس بلوچ

پانامہ لیکس کاکورٹ میں کیس اور اشرف میمن کی طرف سے تبصرہ

نوشتۂ دیوار کے پبلشر اشرف میمن نے کہا : روزروزپانامہ پر تبصرے ، بچہ بچہ جانے ہے مگر جج اور جیو نہ جانے، شف شف چھوڑو، شفتالو بولو۔ دماغ کی دہی بنی، رومانس کے بجائے رومینٹک کی کیفیت ہے، سیاستدان سے زیادہ وکیل منافق ہے، صحافی نے وکیل کو مات دیدی ہے۔ لطیفہ ہے کہ عیارنے لوگوں کو ورغلایاکہ مہینہ تک میری ہر فرمائش پوری کردو، تویہ پہاڑ کواٹھا کر دوسری جگہ لے جاؤنگا، مہینے بعد عوام سے کہہ دیا کہ میں پہاڑ کے اس جانب بیٹھ جاتا ہوں اور تم دوسری جانب سے زور لگاؤ، جب لدوا دوگے تو میں اس کو یہاں سے بہت دور لے جاؤں گا۔ عوام کوبہت ہی امید تھی کہ یہ تماشہ دیکھیں گے ، کھلاتے پلاتے خوار ہوچکے، سادگی میں پہاڑ کو لدوانے پر خوب زور لگایا۔ شام کو تھک ہار کر ناکام ہوگئے تو معذرت کرلی کہ آپ نے وعدہ پوراکیا ،اٹھانے بیٹھ گئے مگرہم نہ لدواسکے ‘‘۔ ججوں نے فیصلہ کرنا ہوتاتواصغر خان کیس پر کیا ہوتا۔وہ شیخ رشید ، سراج الحق کو بھی دھمکائیں۔
مجیب الرحمن شامی جاویدچوہدری ،جاوید ہاشمی اور جیوکے ضمیر بھی قوم کے سامنے آئے ، رؤف کلاسرا اور ارشد شریف نے حقائق کھول کر سامنے رکھ دئیے ۔ پیپلز پارٹی نے تجربہ سے عدلیہ کا رخ نہ کیا یا ن لیگ کی حالت دیکھ کرشلوار گیلی ہوگئی؟ یہ ملک ایک انقلاب کا تقاضہ کرتا ہے جو ججوں کو انصاف سمیت بہالے جائے۔ عدلیہ کاانصاف کیلئے غریب اورامیر کی کرپشن، چوری، قتل، تشدد، عزت وحرمت ہر پیمانہ مختلف ہے۔ انصاف طاقت اورروپیہ سے ملتاہے۔
جنرل راحیل شریف جسٹس ظہیر جمالی کی عدالت میں جاتے، سوشل میڈیا کو کردار کشی نہ کرنے دیتے اور حکمرانوں کو عدالت گرفتار کر لیتی تو جنرل راحیل اپنے وقت پر چلے جاتے۔ آرمی چیف اور جوائنٹ چیف کو تمغے دئیے گئے کل ان کو طعنے ملیں گے کہ ڈان نیوز پر اس وجہ سے اصل کرداروں کو کیفرِ کردار تک نہیں پہنچایا۔ جنرل راحیل کو قدم قدم پر بدنام کرنے کی کوشش ہوئی۔جنرل راحیل نے زندگی فوج میں کھپائی، کرپشن نہیں کی۔ جو زمین ملی اس سے زیادہ مریم نواز نے تحفہ لیکر چند سال میں کمائی پھر تحفہ بھی واپس کیا۔ لیڈر ہو تو ایسا کہ جادو سر چڑھ کربولے مٹی کے بدلے سونا تولے ،یہ سیدھے سادے بھولے بھالے،پھر عیار کیسے جنکے چوری کے مالے، کرتوتہیں کالے؟بڑے بڑے مجرموں کی وجہ سے جرائم کا راستہ نہیں رُکتا اور میڈیا کے بڑے کرشمے ہیں۔اشتہارات کے بدلے جو چاہیں مہم چلائیں۔جیو ایک دن اے آر وائی کی طرح ن لیگ کیخلاف مہم تو چلائے۔پاکستان اسلام کے نام پر بنا لیکن وعدہ پورا نہ ہوا۔ سرمایہ کو غیر قانونی طریقے سے باہر لیجانا جرم ہے لیکن قوم کا اشرافیہ اس میں ملوث ہے۔ کرپشن و منی لانڈرنگ کے ملزموں کوان کے خاندان سمیت گرفتار کیا جائے جب تک اپنی دولت واپس نہ لائیں۔ زمین کی مزارعت کا سسٹم ختم کیا جائے ۔ شہروں میں سبزی منڈیوں کے نام پر آڑھت کی دلالی کا نظام ختم کیا جائے تاکہ محنت کش اور صارف دونوں کو فائدہ ہو، صحافت کے نظام کو شفاف بنانے کا اقدام کیا جائے،وکالت کا نظام جرائم پر پردہ ڈالنے کا قانونی جواز فراہم کرتاہے ، شیطانی دھندے کو قانونی لگام دی جائے تاکہ انصاف کو بالادستی حاصل ہو، مقدمہ پر دیر لگانیوالے ججوں کو ایسا مار دینے کا قانون بنایا جائے جیسے ہٹلر نے کرکٹ ٹیم کو قتل اور کرکٹ پر پابندی لگادی ۔ دنیا کی اونچی چوٹی سر کرنے سے انصاف کاملنا مشکل کام ہے۔ پاکستان لندن کا مقتدی بننے کیلئے نہیں امامت کیلئے بنایا گیا تھا۔ ہم نے خود سے انصاف کیا تو ملک کو استحکام ملے گا۔
وکیلوں سے بڑے دلال وہ جج ہیں جو انصاف نہیں منافقت کرتے ہیں۔ قرآن میں ہے کہ ’’جان کے بدلہ جان، آنکھ کے بدلہ آنکھ، کان کے بدلہ کان، دانت کے بدلہ دانت اور زخموں کے بدلہ قصاص‘‘۔ قرآن میں یہ حکم توراۃ کے حوالہ سے ہے۔ یہودی طبقہ نے نسل اور امیر وغریب کیلئے قوانین بدل ڈالے۔ کیا پاکستان ان یہودیوں کے اتباع کیلئے بنایا گیا تھا ؟۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ’’ 62،63کی بات ہو تو سراج الحق کے سوا کوئی بھی پارلیمنٹ میں نہ رہے‘‘۔ پھر اپنے الفاظ واپس لیکر ندامت کا اظہار کیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا؟۔ کیا عمران خان کے وکیل پر دباؤ ڈالنا مقصد تھا کہ تیرا مؤکل بھی نہ بچے گا۔ جیسا کہ مختلف مواقع پر ججوں نے اس کا اظہار بھی کیا۔ جس کی وجہ سے بڑا دباؤ پڑتا رہا۔ حامد خان اسی دباؤ کی وجہ سے بھاگا، یا بھگایا گیا۔ جبکہ اکرم شیخ کا معاملہ مختلف تھا، اکرم شیخ نے کہا کہ ’’پارلیمنٹ میں نوازشریف قطری سرمایہ بھول گیا‘‘۔توایک جج صاحب نے یہ ٹوٹکا دیا تھا کہ ’’ نوازشریف نے سیاسی بیان دیا ‘‘۔ پھر اگلی پیشی میں وہی بیان نوازشریف کے وکیل نے دیاتھا، نوازشریف پھر بھی پھنس رہا تھا،اب پارلیمنٹ کی غلط بیانی کو تحفظ دیا جارہاہے؟ ۔ شہبازشریف بڑا چیختا تھا جیسے حبیب جالب کی روح جاگی ہو، ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا۔۔۔
اگر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آرٹیکل 62،63پر بیان دینے کے بعد ندامت کا اظہار اسلئے کیا ہو کہ جج کا کام سیاست اور کسی کو آئین کی زد سے بچانا نہیں بلکہ انصاف دینا اور مجرم کو سزا دینا ہے تویہ خوش آئند ہے۔ جو صادق و امین نہ ہو ، اس کو فارغ کیا جائے۔ عمران خان نے ٹھیک کہا کہ میں زد میں آتا ہوں تومجھے نہیں پاکستان اور قوم کو بچایا جائے۔ کسی ذاتی کاروبار کیلئے ٹرسٹ کا لفظ کسی نے نہیں سنا ہوگا۔ حکمران اپنے مفتیان کے ذریعے سود کو بھی جائز قرار دیتاہے۔ انگریزی میں ٹرسٹ ’’وقف‘‘ کو کہتے ہیں جسکی خریدوفروخت نہیں ہوسکتی۔ این جی اوز کے نام پر بھی پیسے کماجاتے ہیں، حالانکہ ان اداروں کا منافع سے کام نہیں ،نوازشریف کے بعد ٹرسٹوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جائے۔
خواجہ آصف نے عمران خان سے کہا تھا کہ ’’او کالیا تیرا کیا بنے گا؟‘‘۔ عدالت میڈیا پر چلنے والے متضاد بیانات کو ایک ایک کرکے چلائے اور تضاد بیانی کی وجہ پوچھے؟۔ خواجہ سعد رفیق میں اخلاقی جرأت ہوتی تو دُرِ یتیم وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق کومریضوں کیلئے جعلی اسٹنٹ پر جیل بھجوادیتا۔ جہاں حامد سعید کاظمی کیساتھ’’ آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک‘‘ کا مظاہرہ ہوجاتا اور پیپلزپارٹی کا گلہ دور ہوجاتا کہ ’’عدالت ہم پرایک طرف دشمن کی طرح بھینگی نظرِغضب رکھتی ہے اور ن لیگ کو معشوقہ کی طرح محبت میں دوسری آنکھ بندکرکے پیار دیتی ہے‘‘۔ میاں شریف نے حسین نواز کو وصیت کی تو سرمایہ نوازشریف کا ہی تھا۔ حسین نواز کو مریم نواز ٹرسٹ کنٹرول کرتاہے،کیا حمزہ شہباز اپنے دادا کا پوتا نہیں تھا اسلئے اس پر فخر کرتا ہے؟ ۔ نوازشریف نے کہا کہ چور کبھی اپنے نام پر جائیداد نہیں رکھتا، ساری قوم چور بن جائے تو بھی ایسے لوگوں کو ملک کی باگ ڈور کی امانت نہیں سونپی جاسکتی جو یہ ملک اپنے مفادات کیلئے قرضوں میں ڈبودے۔ قوم کے سارے اثاثے گروی رکھوائے جارہے ہیں اورجس سے ٹیکسوں کا بوجھ قوم پرخود ہی بڑھتا رہیگا۔ کوئی کوئی ایسا ہوتاہے جو ذمہ دار عہدے کا پاس رکھ کر قوم کے مستقبل کا خیال رکھے۔ نوازشریف کی عقل دولت چھپانے کی نذر ہوئی ہے۔
جنرل راحیل چالاک اور بیوقف نہیں ہوشیارو سادہ ہیں۔ بد نیت و بدفطرت انسان میں ذہانت ہو تو اس کو چالاک کہتے ہیں، جوں جوں اس کی عقل کم ہوتی جاتی ہے توں توں وہ بیوقوف کے درجے پر پہنچتا ہے۔ نیک نیت اور اچھی فطرت کے انسان میں ذہانت ہوتی ہے تو وہ ہوشیار ہوتاہے اور جوں جوں اس میں عقل کی کمی ہوتی ہے تو اس کو سادہ کہتے ہیں۔ حدیث میں آتاہے کہ ’’مؤمن دھوکہ کھانے والا معاف کرنیوالا ہوتاہے‘‘۔ یہ سادہ مؤمن کی نشانی ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ ’’مؤمن ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا‘‘ یہ بہت ہوشیار مؤمن کی علامت ہے۔ نوازشریف نے ایک مرتبہ ڈاکٹر طاہرالقادری سے بات کرنے کی درخواست کردی اور پھر مکر گیا۔ پھر سعودی عرب بھیج کر کہا کہ یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے۔ جنرل راحیل سادہ مؤمن لگتاہے ، دھوکہ کھاتا ہے دیتا نہیں۔ سعودیہ سے اپنی شرائط رکھ دیں کہ ایران کو بھی شامل کیا جائے۔ اگر سعودیہ شرائط مان لیتا تو پاکستان بھی شامل ہوجاتا۔ تاہم پھر بھی جنرل راحیل اپنے طور سے وہاں کی قیادت لے تو اس کو نیک شگون خیال کرنا چاہیے۔
سند ھ حکومت کراچی اور شہری آبادی میں بلدیہ کے اختیارات ضبط کررہی ہے اور مرکزی حکومت نے کراچی حیدرآباد ہائی وے کے ٹول ٹیکس پر ڈاکہ ڈالا ، دنیا کا ہر طاقتور کمزور کو دباتا ہے اگر یہ روش ختم نہیں کی گئی تو کوئی خوش نہ ہوگا، وزیر اعظم سے انصاف ہوا تودور رس نتیجہ نکلے گا۔ محمداشرف میمن

حسینؓ کو شہید کرنے پر اسلام کو اتنا نقصان نہ پہنچا جتنا شافعی و مالک بے نمازی کو قتل پر پہنچاتے۔

اُمت مسلمہ کو امام مالکؒ اور امام شافعیؒ سے بڑی عقیدت ہے جنہوں نے اسلام کی خاطر بر سر اقتدار طبقے کے ہاتھوں بڑی مشکلات کا سامنا کیا۔ یزید سے کسی کو عقیدت نہیں جس نے اقتدار کے مزے اڑا کر کربلا کے میدان میں امام حسینؓ اور انکے ساتھیوں پر مظالم ڈھائے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک بے نمازی کو واجب القتل قرار دیا گیا ۔ اگر وہ اللہ والے لوگ برسر اقتدار ہوتے اور بے نمازی کو قتل کی سزا دیتے تو آج دنیا میں اسلام کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔ بنو اُمیہ اور بنو عباس کے حکمران جیسے بھی تھے لیکن شکر ہے کہ مولوی نہ تھے۔ سقوط بغداد کے وقت شدت پسند مذہبی طبقے سے اگر اقتدار چھین لیا جاتا تو ترک حکمران کبھی مسلمان بن کر خلافت عثمانیہ کے نام سے مسلمانوں کا اقتدار قائم نہ کرتے۔ یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے مذہبی طبقات علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کو کافر قرار دیتے تھے یا ان کی قیادت میں ہی پاکستان کے قیام کیلئے جدوجہد کررہے تھے۔ علماء و مفتیان کے خلوص اور ایمانی جدوجہد میں کوئی شک نہیں۔ فقہ کے ائمہ مجتہدینؒ سے لیکر موجودہ دور کے علماء تک سے ہمیں بہت ہمدردی اور عقیدت و محبت ہے۔ان کی وجہ سے دین کاڈھانچہ محفوظ ہے۔ دوسرے طبقوں سے مذہبی لوگوں کا کردار بہترہے۔ اہل کتاب دوسروں کے مقابلہ میں بہترہیں اللہ نے عیسائیوں کو مذہبی طبقہ کی وجہ سے محبت میں اہل ایمان کے قریب قرار دیاتھا۔

عقیدت اورشعور سے امت کو عروج کی منزل ملے گی

اُمت کو شعور اور عقیدت سے مالامال کرنا ضروری ہے۔ مسلم امہ کے دلوں کو اسلاف کی عقیدت سے اور ذہنوں کو شعور کی روشنی سے جلا بخشیں گے تو اُمت زوال سے عروج کی منزل پر جا پہنچے گی۔ شیعہ سنی ، بریلوی دیوبندی ، حنفی اہلحدیث، جماعت اسلامی پرویزی ، حزب اللہ ، جماعت المسلمین ، اسماعیلی آغا خانی ، داؤدی بوہرہ ، ذکری اور انواع و اقسام کے فرقے ، جماعتیں اور تنظیمیں ہیں۔ انکے اختلاف ختم کرنے میں وقت نہ لگے گا۔ اسلام ایک بڑی شاہراہ صراط مستقیم ہے۔ پگڈنڈیوں اور بھول بھلیوں میں پھنسے لوگ اسلام کے دعویدار ہیں اور سورۂ فاتحہ میں اللہ نے صراط مستقیم پر چلنے کی دعا سکھائی ہے اور قرآن کی سورۂ فاتحہ کے بعد اللہ نے فرمایا : المOذٰلک الکتاب لاریب فیہ ھدی للمتقینO ’’یہ وہ کتاب ہے ، جس میں شک نہیں ، رہنمائی کا ذریعہ ہے پرہیزگاروں کیلئے۔ ‘‘
مسلم امہ کا بڑا المیہ یہ ہے کہ جو پرہیزگار ہیں وہ قرآن کی طرف نہیں دیکھتے اور جو قرآن کی طرف دیکھتے ہیں وہ پرہیزگار نہیں ۔ عقیدہ انسان کے قلبی وجدان کی عقیدت سے بنتا ہے اور نظریہ ذہنی کاوش اور فکر و شعور سے بنتا ہے۔ قرآن قلبی وجدان کو عقیدت سے مالامال کرنے کا ذریعہ ہے اور ذہنی نشو و نما اور فکر و شعور کو جلا بخشنے کا بہت بڑا خزانہ ہے۔ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاسؒ نے فرمایا: ’’اس کام کی پرواز کے دو پر ہیں ، علم اور ذکر‘‘۔ علم فکر کی درستگی اور ذکر قلبی وجدان ہے۔ علماء و صوفیاء اپنے علم و ذکر کی محفل میں مست کہتے تھے کہ ’’ہماری مثال کنویں کی مانند ہے، پیاسے کو مدرسے اور خانقاہ میں چل کر آنا پڑیگا۔‘‘ تو مولانا الیاسؒ نے فرمایا:’’ ہم اس انتظار میں رہنے کے بجائے تبلیغی کام کے ذریعے سے بادل کی طرح برس جائیں تو دنیا نبوت والے اس کام کی وجہ سے روشن ہوجائے گی‘‘۔
مولانا الیاسؒ نے جس درد ، محنت اور کڑھن سے اللہ کے دین کو پہنچایا ، بڑی تعداد میں جماعتیں نکل کر دنیا کے کونے کونے میں اس پیغام کو عام کررہی ہیں اس کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ چھ نمبر سے عوام اپنی عقیدت اور فکر کو درست کرنے کی جدوجہد میں لگے ہیں۔ اپنا وقت اپنی جان اور اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرکے بہت کچھ دین کی نعمتیں پالیتے ہیں۔ اس محنت اور جذبے کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دین کیلئے یہی فکر و عقیدت ، یہی جذبہ و عمل اور یہی عقیدہ و شعور بہت اور کافی ہے؟۔
مدارس کے علماء کے سرخیل علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ کے علم و تقویٰ سے مشکل ہے کہ کوئی عقیدت نہ رکھتا ہو، جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی، مدرسے اور نیو ٹاؤن کی مسجد سے نور کی کرنیں پھوٹتی نظر آتی ہیں۔ اساتذہ کرام اور طلباء حضرات تقویٰ و عمل کے پیکر نظر آتے ہیں۔ مولانا بنوریؒ کے پاس ایک سرمایہ دار مال کا انبار لیکر آیا اور عرض کیا کہ یہ تجھے ہدیہ کرتا ہوں، مولانا نے فرمایا کہ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اس نے درس کے دوران جوتوں میں وہ رقم رکھ دی ، مولانا نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ میں نے خود پر ہدیہ کو بھی حرام کردیاہے، کیوں تنگ کررہے ہو؟ ، اس نے عرض کیا کہ اگر آپ کو ضرورت نہیں تو ضرورتمندوں میں بانٹ دیں۔ مولانا بنوریؒ نے فرمایا کہ ایسی کم عقلی کیوں کروں کہ ثواب تجھے ملے اور حساب مجھ سے لیا جائے۔
حضرت علیؓ نے فرمایا :’’اولاد کیلئے مال و دولت کا ترکہ مت چھوڑو، اگروہ نیک ہونگے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرینگے تو ثواب ان کو ملے گا اور حساب تجھے دینا پڑیگا اور اگر فاسق فاجر ہوں اور مال غلط استعمال کریں تو ڈبل وبال ہوگا‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ کی گھر والی نے میٹھا کھانے کیلئے روزانہ کے خرچے سے کچھ بچایا ، جس سے پکا کر حضرت ابوبکرؓ کے سامنے پیش کیا اور داستان سنادی۔ حضرت ابوبکرؓ نے وہ میٹھا مساکین میں تقسیم کردیا اور بیت المال سے اتنا وظیفہ کم کردیا۔ حضرت عمرؓ اتنا ہی وظیفہ لیتے تھے جتنا ایک درمیانے درجے کے انسان کے گزر بسر کیلئے ہوتا تھا۔اپنے وزیراعظم نوازشریف کی بات درست ہے کہ ہیلی کاپٹروں میں گھومنے والے سڑک کی قدر نہیں جانتے۔ جن کے بچے لندن میں رہتے ہوں اور علاج معالجہ باہر کریں تو وہ غریب عوام کی بھوک ، تعلیم اور علاج کا معاملہ کیا جانیں؟۔
علما ء اور صوفیاء کی زندگیاں عظمت اور عزیمت کی داستانیں ہیں۔ مجاہدین اسلام کی قربانیوں سے تاریخ کے اوراق بھرے ہیں۔ میں نے خود تجربہ سے تبلیغی جماعت ، مجاہدین، علماء کرام اور صوفیاء عظام کے خلوص کو بہت قریب سے دیکھا ۔ان میں کچھ لوگ بہت غلط اور بد فطرت ہوسکتے ہیں مگرانبیاء کرامؑ ، خلفاء راشدینؓ، صحابہ کرامؓ ، ائمہ مجتہدینؒ ، محدثینؒ ، علماء کرام اور صوفیاء عظام سے گہری نسبت رکھنے والے یہ اکثر اللہ والے لوگ ہوتے ہیں۔
کسی فکر و عمل میں اختلاف کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ عقیدت و توقیر بھی ہم نہیں رکھتے۔ حضرت مولانا یوسف بنوریؒ نماز کے معاملے میں بہت سخت تھے۔ جو طالب علم صبح کی نماز پڑھنے میں بھی سستی کرتا تھا تو اس کی خوب پٹائی لگاتے تھے۔ یہ دین سے عقیدت و محبت اور طبیعت میں سختی کے لازمی اثرات تھے۔ اگر کوئی نماز نہ پڑھتا تو کونسے مولانا بنوریؒ کے بچے بھوکے مرتے۔ ایک حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ’’ اگر مجھے بچوں اور عورتوں کا اندیشہ نہ ہوتا تو جماعت میں نماز نہ پڑھنے والوں کو گھروں میں آگ لگا کر جلا دیتا۔ ‘‘ جس کا اس حدیث پر ایمان ہو تو وہ نماز کے سلسلے میں بڑی شدت سے عمل درآمد کرانا اپنے دین کا حصہ سمجھتا ہے اور مولانا یوسف بنوریؒ کو احادیث سے بڑی رغبت تھی۔ ایک مرتبہ ایک طالب علم کو نماز پر بہت سخت سخت مارا ، مگر وہ طالب علم خاموشی سے مار کھا کر برداشت کرتا رہا اور کسی ردِ عمل کا اظہار بھی نہیں کیا۔ مولانا بنوریؒ نے سوچا کہ طالب علم بڑا شریف الطبع ہے ، پھر کیوں خاموش ہوکر مار کھارہا ہے اور کچھ کہہ نہیں رہا ۔ طالب علم سے پوچھا تو اس نے عرض کیا کہ ایک نماز ہی تو ہے جس کو ہم اللہ کیلئے پڑھتے ہیں اگر یہ بھی آپ کیلئے پڑھیں تو ہمیں کس چیز کا ثواب ملے گا؟۔ مولانا بنوریؒ نے اس کا جواب سن کر بات کو معقول جانا اور اسکے بعد نمازکیلئے طالب علموں سے سختی برتنا بھی چھوڑ دی۔ ترغیب و ڈرانے کیلئے بہت سی احادیث گھڑی گئیں ہیں۔ نبیﷺ کے دور میں خواتین اور بچے نماز میں شریک ہوتے تھے، اسلئے وہ حدیث محلِ نظر ہے۔ قرآن کی کسی آیت میں نماز کے حوالہ سے بڑی بشارت یا ڈرانے کی ایسی دھمکی نہیں، جس طرح سے احادیث میں فضائل اور ڈرانے کی باتیں ہیں۔ آذان کے بعد کی دعا فضیلت کیلئے اورایک نماز کی قضاء سے بیڑہ غرق کیلئے کافی ہے ۔ البتہ قرآن میں ان نماز پڑھنے والوں کیلئے ہلاکت کی خبر ہے جو مال گن کر جمع کرتے ہیں اور مسکینوں کو کھانا کھلانے پرنہیں اُکساتے۔ پشتو کے عظیم شاعررحمان بابا کا شعر ہے ترجمہ:
ہر سخی خدا کا دوست ہے اگرچہ فاسق ہو ہر بخیل خدا کا دشمن ہے اگرچہ زاہد ہو
اگر یہ تصور درست تسلیم کرلیا جائے کہ تبلیغی جماعت کے رائیونڈاور دعوت اسلامی کے مرکز فیضانِ مدینہ اور ان کے تمام ذیلی شاخوں اور مراکز میں ایک نماز کا بدلہ49 کروڑ گنا ہے اور کعبہ کی مسجد میں صرف ایک لاکھ اور مدینے کی مسجد نبویﷺ اورقبلہ اول کی مسجداقصیٰ میں صرف50ہزار ہے تو یہ منہ اور مسور کی دال والی بات نہیں؟،کچھ تو اقدار کا پاس کریں!
مساجد کو عبادات کیساتھ شعور دیا جائے تو دنیا میں اسلامی خلافت کا آغاز ہوسکے گا۔ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات سے انکار کفر ہے، ان سے عقیدت رکھے بغیر ایمان کا تصور بھی غلط ہے لیکن یہودی علماء کے ہاتھوں آپؑ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عقیدت و شعور کیلئے یہ ایک لازمی نصاب تھا ، عیسائیوں نے خدا بناکر غلطی کی ، اسلئے کہ جو اپنی مشکل دور نہ کرسکے وہ مشکل کشا کیسے ہوسکتا ہے؟۔ اہل تشیع بھلے صحابہؓ سے حسن ظن کو فروغ نہ دیں ، صحابہؓ نے ایکدوسرے کو قتل کیا تو کوئی فرق عقیدت سے نہ پڑیگا، البتہ علیؓ کی کرامات سے عقیدت رکھنے والوں کے دماغ میں شعور آئیگا کہ علی خدا و مشکل کشا ہوتے تو اپنی اور اپنی اولاد کی مشکل دورکرتے۔
قرآن عقیدت اور شعور پیدا کرتاہے ، اگرشعور نہ ہو تو معجزات دیکھ کر آج بھی لوگ عیسیٰ علیہ السلام کو خدا مان لیں گے اور عقیدت نہ ہو تو پھر قرآن میں بیان کردہ معجزات سے بھی ہمارا ایمان بالکل اٹھ جائیگا۔قرآنی علم سے مسلم اُمہ کو زندہ کریں۔
عقیدت ، ذکر اور قلبی وجدان سے انسان کا نفس شفاف آئینے کی طرح عمل کے قابل بنتاہے اور جو سنتاہے اس یقین کرکے عمل کرنا بھی شروع کردیتاہے اور شعور کی بلندی سے انسان فکر کی غلطی سے محفوظ ہوتاہے۔ علماء کرام اور مشائخ عظام میں اسی کا اختلاف تھا۔ عبدالقادر جیلانیؒ نے امام ابوحنیفہؒ پر فتویٰ لگایا، امام بخاری کی نہ بنتی تھی فقہاء نے صوفیاء کو فکر کے حوالہ سے راہ راست پر رکھا اور فقہاء نے عمل کی راہ ان کو سکھادی، یہ اختلاف رحمت تھا۔ اب فکر وشعور اوروجدان و ذکرسے عروج ملے گا۔

اسلام کا آغاز اجنبیت کی حالت میں ہوا اور یہ پھر …..

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بدء الاسلام غریباً فسیعود غریباً فطوبیٰ للغرباء ’’اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا ، عنقریب یہ پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا ، پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے۔ ‘‘ یہ پیشگوئی اس وقت سے اب تک حرف بہ حرف پوری ہوئی ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میرے بعد خلفاء ہونگے ، پھر امیر ہونگے ، پھر بادشاہ ، پھر جابر بادشاہ ہونگے اور پھر دوبارہ طرز نبوت کی خلافت قائم ہو گی ‘‘ نبی کریم ﷺ نے 30 سال تک خلافت کی بشارت دی تھی، حضرت ابوبکرؓ ، عمرؓ، عثمانؓ ، علیؓ اور حسنؓ کے 6 ماہ تک 30 سال۔ اسکے بعد بنو اُمیہ اور بنو عباس کے ادوار میں امارت کی پیشگوئی پوری ہوئی۔ پھر خلافت عثمانیہ کی بادشاہت کی بات پوری ہوئی اور اسکے بعد آج تک جابر حکمرانوں کا سلسلہ چل رہا ہے۔ یہانتک کہ پھر سے طرز نبوت کی خلافت کے قیام کی پیشگوئی پوری ہوجائے۔
رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ مسلمانوں ہی کیلئے نہیں بلکہ عالم انسانیت کیلئے بھی جو اعلیٰ اور ارفع مقام رکھتی ہے اس کی نشاندہی نہ ہونے کیوجہ سے اسلام اجنبیت کے پردوں میں چھپ گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قل انما انا بشر مثلکم یوحیٰ الی ’’کہہ دیجئے کہ میں تمہاری طرح کا ہی ایک بشر ہوں میری طرف وحی ہوتی ہے ‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے عام لوگوں کی طرح شادیاں کیں، عزیز و اقارب سے تعلق رکھا ، اپنے رفقاء و اصحاب بنائے، اولی الامر کی حیثیت سے دنیا کے سامنے نمونہ پیش کیا اور اللہ تعالیٰ نے مختلف مواقع پر وحی کے ذریعے سے رہنمائی فراہم کی۔قرآن و احادیث اور سیرت کی کتابوں میں تفصیل ہے۔
ہماری مت ماری گئی کہ نبی ﷺ کی زندگی کے ہر پہلو کو سمجھنے کا ڈھنگ ہی کھودیا ۔ جب قرآن کے علاوہ انواع و اقسام کی احادیث سے اُمت کا پالا پڑا ، تو امام ابو حنیفہؒ میدان میں اترے اور اسلام کے بگڑے تیور کو سدھارنے کی کوشش فرمائی۔ پھر فقہاء نے حیلہ سازی کے ذریعے سے اسلام کا حلیہ بگاڑنے میں بدترین کردار ادا کیا تو امام غزالیؒ میدان میں اترے اور معاملات کو سدھارنے کی زبردست کوشش کی۔ پھر مغلیہ دور میں اکبر بادشاہ کے دین الٰہی کی بات آئی تو شیخ احمد سرہندیؒ المعروف مجدد الف ثانیؒ نے تجدیدی کارنامہ انجام دیا، پھر سلسلہ حق کی رہنمائی کیلئے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ سے اللہ نے کام لیا۔
اکبر کے دینِ الٰہی کامقابلہ کانیگرم وزیرستان کے بایزید انصاریؒ نے بھی کیا تھا جو 1601 ؁ء میں بیٹوں سمیت شہید کئے گئے۔شاہ ولی اللہؒ کے والدِ محترم شاہ عبدالرحیمؒ ان 500علماء میں شامل تھے جنہوں نے فتاوی عالمگیری پر دستخط کئے ۔ جس میں بادشاہ کیلئے قتل ، چوری، زنا اور سب حدود معاف ہیں۔ اورنگزیب بادشاہ نے اپنے سارے بھائیوں کو قتل کیا تھا۔ درباری علماء بنوامیہ اوربنوعباس کے ا دوار کی پیداواررہے ہیں۔ ان کی فقہ اور بصیرت پر قوم اعتماد کرلے تو حیلہ سازی سے سودی نظام بھی جائز ہے۔ بس ایک سجدے والا کام کرے ، باقی مسئلہ نہیں، یہ توشکرہے کہ مجدد الف ثانی جیسے لوگوں نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا کہ اکبر بادشاہ کو سجدہ کرنا ناجائز قرار دیا، ورنہ آپ دیکھتے کہ درباریوں کی اولاد موجودہ حکمرانوں کو حلف اٹھاتے وقت سورۂ یوسف کی تلاوت کرکے سجدے کرتے اور ہم پر فتوے لگاتے کہ شیطان نے آدم کو سجدہ نہیں کیا تھا اور یہ ابلیس خلیفہ کو سجدہ نہیں کرتا۔
قرآن میں حضرت آدمؑ اور حضرت یوسفؑ کو سجدے کی آیات ہیں اور سجدوں کی ایسی مخالفت نہیں جیسے اللہ نے سود کے نظام کو اللہ اور اسکے رسول ﷺ کیساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا ہے۔ موجودہ دور کے درباریوں سے اکبر بادشاہ کے درباری علماء اچھے تھے۔ اورنگزیب کے دور کے درباری بھی نیک اور اللہ والے لوگ تھے لیکن علمی حقائق اور شعور سے بے بہرہ تھے۔حضرت ہارونؑ نے بنی اسرائیل کو وقتی طورپر شرک کیلئے بھی اسلئے چھوڑ دیا کہ امت میں تفریق نہ ہو اور موسیٰ علیہ السلام نے داڑھی اور سر سے پکڑا تو یہی حکمت بیان کردی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وقتی طور سے کبھی نظریے اور عقیدے کی قربانی دی جاتی ہے مگر اس کے پیچھے کوئی ذاتی مفاد نہیں ہوتا، لیکن اس قربانی کی وجہ سے سختی بھی برداشت کی جائے۔
رسول اللہ ﷺ سے ایک نو مسلم حضرت الجونؓ نے کہا کہ کیا میں عرب کی حسین ترین دوشیزہ سے آپ کا نکاح کراؤں؟ ۔ نبی کریم ﷺ نے حامی بھری۔ اس نے بتایا کہ میری صاحبزادی ہے اور وہ آپ سے شادی کیلئے راضی ہے۔ حق مہر مقرر ہوا۔ رخصتی کے بعد ازواج مطہراتؓ نے اس کا بناؤ سنگھار کرکے نبی ﷺ کے پاس بھیجا۔تو ساتھ میں یہ بھی سمجھایا کہ جتنی بے رغبتی برتو گی اس قدر نبی ﷺ خوش ہونگے، اللہ کی پناہ مانگ لینا وغیرہ۔ عورت اور مرد میں جنسی رغبت اور خواہش فطری طور پر ہوتی ہے اور اگر دلہن کو یہ سمجھایا جائے کہ عصمت کیلئے بے رغبتی کے مظاہرے سے عزت میں اضافہ ہوگا اور شوہر کیلئے زیادہ محبوبیت کا ذریعہ ہوگا تو یہ بالکل غیر معقول بات بھی معلوم نہیں ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اپنا نفس ہبہ کردو۔ تو ابنت الجونؓ نے کہا کہ کیا ایک ملکہ خود کو کسی بازاری کے حوالے کرسکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے معمول سمجھ کر اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس نے کہا میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ فقد عذت بمعاذ ’’جس کی پناہ مانگی جاتی ہے اسکی آپ نے پناہ مانگ لی‘‘۔ اور اس کو دو چادریں دیکر اسکے گھر بھیج دیا۔ (صحیح بخاری) بعد میں جب وہ گھر پہنچی تو گھر والوں سے کہا کہ میرے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، انہوں نے کہاکہ تو بڑی کمبخت ہے۔ نبی ﷺ کو پتہ چلا کہ ازواج مطہراتؓ نے اس کو ورغلایا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیچاری کیساتھ سوکناہٹ کی وجہ سے یہ ہوا۔
یہ واقعہ دنیا کیلئے بہترین نمونہ ہے کہ جہاں لڑکی اپنے رشتے کیلئے زبان کھولنے کو بھی معیوب سمجھتی تھی اور نبی ﷺ نے فرمایا کہ بکر کنواری اگر خاموش رہے ، مسکرائے یا روئے تو اس کی طرف سے ہاں ہے۔ ایم طلاق شدہ یا بیوہ کیلئے زبان سے اقرار ضروری ہے۔ وہاں اس معاشرے میں نکاح اور رخصتی کے بعد عورت سے اس کی رضامندی پوچھنا اور جب گمان ہو کہ وہ راضی نہیں تو اس کو ہاتھ لگائے بغیر رخصت کرنا وہ عظیم اسوۂ حسنہ ہے جسکے سامنے قرآن کا احسن القصص حضرت یوسف ؑ کا قصہ بھی اس سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ حضرت یوسف ؑ نے اپنے مالک کی شادی شدہ بیوی سے دامن چھڑایا تھا اور نبی ﷺ نے باقاعدہ طور سے شادی اور ازواج مطہراتؓ کی طرف سے بناؤ سنگھار کے بعد بھی بھرپور طریقے سے اسکے راضی ہونے کو یقینی بنانے کی کوشش فرمائی تھی، یہ عظیم اسوۂ حسنہ ہی تھا۔
اگرنبیﷺ کا یہ قصہ تمام زبانوں میں عام کرکے عوام تک پہنچے تو دنیا آپ ﷺ کی انسانیت کو سلام کریگی۔ وہ بھی ہیں جس نے اپنی ناسمجھی کی وجہ سے نبی ﷺ کی سیرت کو بہت بڑا داغ لگایا۔ علامہ ابن حجر نے بخاری کی معروف شرح میں لکھا کہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے نکاح کے بغیر خلوت میں کیسے بلایا؟۔ نفس ہبہ کرنے اور ہاتھ بڑھانے کی کوشش کیسے کی؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی ﷺ کا صرف رغبت ظاہر کرنا ہی نکاح کیلئے کافی تھا۔ چاہے وہ راضی نہ ہو اور نہ اسکا ولی راضی ہو، نبی ﷺ کا پوچھنا تو صرف تطیب خاطر کیلئے تھا۔ اس سوال جواب کو دیوبندی مکتبہ فکر وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان اور بریلوی مکتبہ فکر کے علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی اپنی بخاری کی شرح میں نقل کیا، ان خرافات کی کھلے لفظوں میں تردید ہی دراصل دین اسلام کا تجدیدی کارنامہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ سے غزوہ بدر کے قیدیوں ، غزوہ اُحد شہر سے باہر نکل کر لڑنے اور صلح حدیبیہ کے معاہدے پر صحابہ کرامؓ نے اولی الامر کی حیثیت سے اختلاف کیا۔ قیدیوں پر مشاورت سے رسول اللہ ﷺ نے فدیہ لینے کا فیصلہ کیا تو اللہ نے حکمت اور تزکیہ کرتے ہوئے وحی اتاری کہ ’’نبی کیلئے یہ مناسب نہ تھا…… ‘‘۔ پھر اُحد میں مسلمانوں کو تکلیف پہنچی اور بدلہ لینے کا اظہار فرمایا تو اللہ نے منع کیا ، معاف کرنے کا حکم دیا ۔ پھر صحابہؓ کی رائے کیخلاف صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے فتح کی بشارت دے دی انا فتحنا لک فتحاً مبیناً لیغفراللہ لک ما تقدم من ذنبک وما تأخر منہ ’’ہم نے روشن فتح عطا کی تاکہ تیرے اگلے پچھلے گناہ اللہ معاف کردے‘‘۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن نے ہر چیز کووضاحت سے بیان کیا تو اس آیت میں فتح سے گناہ کی معافی کا کیا تعلق ؟، فتح سے معصیت کا جوڑ نہیں بنتا؟۔ جملے میں گناہ سے معصیت مراد ہو ہی نہیں سکتا بلکہ مشکل ، تکلیف اور بوجھ مراد ہے، اللہ نے فرمایا کہ ’’ ہم نے وہ بوجھ اتار دیا، جس نے تیری کمر توڑ رکھی تھی‘‘، عربی میں ذنب کا معنی معصیت کے بھی ہیں اور اضافی بوجھ کے بھی۔ ایک آدمی اپنے مخلص خدمتگار کو ڈانٹ رہا تھا ، ایک بار خدمتگار نے آہ بھری، تو پوچھا کیا ہوا؟ ۔ وہ کہنے لگا کہ بس کبھی تواللہ میرے گناہ معاف کردے۔ اللہ نے فتح کیساتھ ذنب تکالیف کے ازالے کا فرمایا اور لوگوں نے اس پر فرقے ، گروہ اور مسلک بنالئے ۔فتح سے تکلیف کابوجھ جاتاہے۔

خلفاء راشدینؓ اور ائمہ مجتہدین ؒ کے ادوار کی اجنبیت

رسول اللہ ﷺ کے وصال سے وحی کا سلسلہ بند ہوا ۔ صحابہ کرامؓمشاورت کے انداز میں رسول اللہ ﷺ سے اولی الامر کے طور پر اختلاف کرتے تھے، آخری فیصلہ نبی ﷺ کا ہوتا تھا جیسے بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے اور صلح حدیبیہ میں ہوا۔ پھر اللہ کی طرف سے رہنمائی وحی کے ذریعے سے نازل ہوتی تھی۔ یہ سلسلہ حضرت ابوبکرؓ کے دور میں بند ہوا تو اختلاف رائے کے باوجود یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کیلئے ضروری تھا کہ سب اولی الامر خلیفہ راشد کی بات حتمی سمجھ کر اجتماعی طور پر قبول کرلیں۔ اسکے علاوہ کوئی چارہ کار بھی نہیں تھا۔ یہاں سے خلافت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اسلام بھی پھر مسلسل اجنبی بنتا چلا گیا۔
رسول اللہ ﷺ کی چاہت یہ تھی کہ مالدار صحابہؓ اپنی زکوٰۃ اپنے ہاتھوں سے خود ہی مستحق افراد میں تقسیم کریں مگر صحابہؓ کی چاہت تھی کہ نبی ﷺ زکوٰۃ کولیکر اپنے دست مبارک سے ان مستحق افراد میں تقسیم کریں جو آپ ﷺ کے گرد منڈلاتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی اور نبی ﷺ سے فرمایا کہ آپ ان سے زکوٰۃ لیں یہ ان کیلئے تسکین کا ذریعہ ہے۔ نبی ﷺ نے اللہ کے آگے سر تسلیم خم کیا لیکن ساتھ میں یہ بھی فیصلہ فرمایا کہ میرے اہل بیت اور اقارب پر زکوٰۃ حرام ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ سمجھا کہ اللہ کی طرف سے نبی ﷺ کو زکوٰۃ لینے کا حکم تھا تو ایک خلیفہ کی حیثیت سے مجھ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ امیروں سے زکوٰۃ لیکر غریب مستحقین میں تقسیم کروں۔ اس کیلئے قتال پر بھی کمر کس لی۔ حضرت عمرؓ نے شروع میں ان سے اختلاف کیا جب ان کو پر عزم دیکھا تو بھرپور ساتھ دیا۔ پھر اپنے دور میں حضرت عمرؓ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ’’کاش !ہم رسول ﷺ سے یہ حکم پوچھ لیتے کہ جو زکوٰۃ نہ دے انکے خلاف قتال کرنا درست ہے یا نہیں۔ ‘‘۔
ایک آدمی نے نبیﷺ کو زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو اسکے خلاف قتال نہ ہوابلکہ خلفاء نے بعد میں اس کی زکوٰۃ لینے سے بھی انکار کردیا۔حضرت ابوبکرؓ نے جو فیصلہ کیا تھا وہ اپنے وقت کے لحاظ سے ٹھیک ہوسکتا تھا مگر یہ کوئی مستقل اللہ کا حکم نہیں تھا اسلئے کہ نبی کریم ﷺ سے اللہ نے فرمایا تھا کہ ان سے زکوٰۃ کا لینا ان کیلئے سکون کا ذریعہ ہے قتال کی صورت میں یہ اضطراب کا ذریعہ تھا ۔ اہل سنت کے چاروں فقہی ائمہ حضرت امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ میں سے کوئی بھی اسکا قائل نہیں کہ زکوٰۃ نہ دینے پر قتال کیا جائے۔ اس کو حکومت اور حکمران کا حق نہیں سمجھاجاتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں زکوٰۃ کی بینکوں سے کٹوتی شروع ہوئی تو ایسے سنی علماء بھی تھے جنہوں نے اپنی بیگمات کے نام سے اپنے اکاؤنٹ اہل تشیع کے مسلک میں درج کئے۔ پھر حکومت نے فیصلہ واپس لیا اور اب کوئی بینک کو لکھ کر دے تواسکے اکاؤنٹ سے زکوٰۃ کی کٹوتی نہیں ہوتی ۔
حضرت ابوبکرؓ کا اقدام علماء و مفتیان کے مفاد میں بھی نہیں لیکن حضرت عمرؓ کی طرف یہ منسوب ہے کہ انہوں نے قرآن میں موجود مؤلفۃ القلوب کی زکوٰۃ کو منسوخ کیا ۔ حالانکہ قرآن میں اس کو فریضۃ من اللہ اللہ کی طرف سے فرض قرار دیا گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’ان آٹھ اقسام میں سے کوئی قسم منسوخ نہیں ہوسکتی ، یہ اللہ کی طرف سے ہے ان میں نبی اور غیر نبی مداخلت نہیں کرسکتا ہے۔‘‘ تفسیر عثمانی میں یہ حدیث درج ہونے کے باوجود لکھا گیا ہے کہ اکثر علماء کے نزدیک مؤلفۃ القلوب کی زکوٰۃ منسوخ ہے۔ افسوس کہ امریکی US ایڈ لی جاتی ہے اور بے نظیر انکم سپورٹ کے نام سے اربوں روپے برطانیہ سے لئے جاتے ہیں مگر زکوٰۃ کے دروازے غیر مسلم مستحق مؤلفۃ القلوب پر بند کردئیے گئے ہیں۔
پہلے زکوٰۃ کی رقم غریب غرباء تک تھوڑی بہت پہنچ جاتی تھی اب اس کو بھی ہمارا پیشہ ور طبقہ مختلف ناموں اور کاموں سے ہتھیا کر مستحقین کو محروم کررہا ہے۔ قرآن کی آیات سے رہنمائی لی جاتی تو بلبلاتے ہوئے مستحقین کیلئے زکوٰۃ مانگنے پر شرم آتی۔ ایک سال پاکستان کے مسلمانوں کی تمام زکوٰۃ مستحق غریبوں تک پہنچ جائے تو اللہ ہماری تقدیر بدل دے گا۔ شریف فیملی پانامہ لیکس کی زکوٰۃ بھی غریب عیسائیوں تک پہنچانے کا اہتمام کرتی تو تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کے مقابلے میں زیادہ لوگ اس امداد سے اسلام قبول کرلیتے۔ مریم نواز نے جیو ٹی وی چینل پر کہا تھا کہ میرے اور میرے بھائیوں کے پاس کچھ بھی نہیں ۔ مشعل اوبامہ سے USایڈ لینے کی بات تعلیم کیلئے ہوئی تھی اور اب USایڈ کی اصل رقم سے شاید زکوٰۃ اسلام آباد کے اسکولوں کیلئے بسیں خریدنے پر خرچ کی جارہی ہے اس میں بھی کرپشن ہوگی اور حکومت کے مخالف سیاستدان عدالتوں میں رلتے ہی رہیں گے۔
امام مالکؒ اور امام شافعیؒ نے حضرت ابوبکرؓ کی طرف سے زکوٰۃ نہ دینے پر قتال کرنے کو تو درست نہیں قرار دیا ، البتہ اسی سے استدلال لے کر بے نمازی کو قتل کرنا فرض قرار دیا۔ ان لوگوں نے اسلام کی خاطر اہل اقتدار سے بڑی مشکلات اٹھائیں لیکن اگر بنو اُمیہ اور بنو عباس کے فاسق فاجر حکمرانوں کے بجائے مسند اقتدار پر ان کو بٹھایا جاتا اور بے نمازیوں کو قتل کرنا شروع کردیتے تو آج اسلام کا نام و نشان نہ ہوتا اور یزید نے کربلا کے واقعہ سے اسلام کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا انکے برسر اقتدار آنے سے اسلام کو نقصان پہنچتا۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ کے بہت بڑے کارنامے ہیں اور انکی وجہ سے اسلام کے خلاف ایک بہت بڑا طوفان رکا تھا۔ احادیث کی بھرمار سے قرآن کے احکام کو بہت بڑا خطرہ لاحق تھا۔ امام ابو حنیفہؒ اور باقی تینوں اماموں نے جو کارنامے انجام دئیے ہیں وہ بہت ہی قابل ستائش ہیں۔ البتہ جس طرح حضرات خلفاء راشدینؓ نے اہم کارناموں کے باوجود کچھ ایسے معاملات متعارف کرائے ہیں جن سے اسلام بتدریج اجنبیت کا شکار ہوتا چلا گیا ۔ اسی طرح ائمہ مجتہدینؒ سے بھی بعض معاملات میں بہت زیادہ بڑی غلطیاں سرزد ہوئیں۔
امام ابو حنیفہؒ نے اپنی بیشتر زندگی علم کلام (عقائد کا فلسفیانہ علم) میں گزاری اور پھر تائب ہوکر فقہ کی طرف توجہ دی۔ افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ علم کلام کی گمراہی کو اصول فقہ میں داخل کیا گیا۔ فقہ حنفی کی درس نظامی میں پڑھایا جاتا ہے کہ کتابی شکل میں قرآن اللہ کی کتاب نہیں اور نہ اس پر حلف ہوتا ہے کیونکہ تحریر اللہ کا کلام نہیں بلکہ محض نقوش ہیں جو نہ لفظ ہے اور نہ معنی۔ جب تحریری شکل میں سورۂ فاتحہ اللہ کا کلام نہیں تو حنفی مسلک کے معتبر لوگوں صاحب ہدایہ ، فتاویٰ قاضی خان اور فتاویٰ شامی میں علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو خون اور پیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا گیا۔ جب تک یہ گمراہانہ اصول فقہ کا نصاب درست کرنے کی ہمت علماء و مفتیان نہیں کرسکتے تو پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کیا لڑینگے؟۔ دہشت گردوں نے کتنا ڈرایا تھا ؟ ۔ امام ابوحنیفہؒ علم الکلام و علم العقائد کے نئے گمراہانہ عقائد سے تائب ہوئے تو ان کو اصولِ فقہ میں پڑھانے سے گمراہی کے سوا فائدہ کیا ہے؟ ۔
امام ابوحنیفہؒ سے شیخ الاسلام قاضی القضاۃ ابویوسف بڑے آدمی نہ تھے مگر امام ابوحنیفہؒ نے جیل میں زہر سے شہادت پائی اور امام ابویوسف وقت کے بادشاہوں کیلئے حیلہ سازی کا کام کرتے تھے۔ امام غزالیؒ نے ان فقہاء کی حیلہ سازی پر گرفت کی تو مصر کے بازار میں ان کی مقبول ہونے والی کتابیں احیاء العلوم وغیرہ جلائی گئیں۔ امام غزالیؒ نے آخر کارفقہ کو گمراہی قرار دیکر تصوف کا رخ کیا۔ من الظلمات الی النور ’’ اندھیرے سے روشنی کی طرف‘‘ نامی کتاب لکھ دی۔ مگر ہوا یہ کہ جس فقہ کے علم کو اندھیرے سے تشبیہ دی تھی، اس کو تصوف میں داخل کردیا۔ جس کو نور علی نور نہیں بلکہ ظلمات بعضہا فوق بعض قرار دیا جاسکتاہے۔ دعوتِ اسلامی کے بانی علامہ الیاس قادری نے اپنی کتاب ’’ غسل کا طریقہ‘‘ میں امام غزالیؒ کی کتاب سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ’’ ایک صوفی کو نفس نے کہا کہ رات جنابت کی حالت میں سوجاؤ، تو اس نے اپنے نفس کو یہ سزا دی کہ کپڑے سمیت نہایا ۔ پوری رات سخت سردی میں رات گزاری ، نفس انسان کا دشمن ہے‘‘۔جبکہ رسولﷺ صرف وضو کرکے حالت جنابت میں سوتے تھے۔ایک صحابیؓ کو دوسروں نے ٹھنڈے پانی سے نماز کیلئے غسل پر مجبور کیا،جس سے وہ بیمار ہوکر فوت ہوا، تونبیﷺ نے فرمایا کہ ’’تمہیں اللہ مار ڈالے اس کو ہلاک کردیا‘‘۔ علماء اور صوفیاء اپنی جگہ پر بیٹھتے تھے ،اب گھر گھرفتنہ پھیلتاہے۔
کوئی کم عقل دعا سے عرش ہلادے، یہانتک کہ فرشتہ پوچھ لے، کیا چاہیے؟۔ اللہ کا بندہ کہے کہ مجھے بیٹا چاہیے اور پھر فرشتہ کہے کہ بیوقوف پہلے شادی تو کرلو ۔ یہی صورتحال خلافت کیلئے رونے دھونے والے علماء و مفتیان کرام اور صوفیاء عظام اور خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیاہے؟والے شاعرعلامہ اقبال کی تھی۔ جب تک ہم خود کو نہ بدلیں اللہ نے بھی ہماری حالت نہیں بدلنی اور ہماری حالت اس وقت تک نہیں بدل سکتی جب تک درست علم کے ذریعے سیدھی راہ کی نشاندہی نہ ہو ۔ مدارس کا نصاب درست کرنا پڑے گا۔
گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا کہاں سے آئے صدا لاالہ الا اللہ

قرآن و سنت کی روشنی میں حقائق کی زبردست نشاندہی

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اقتدار ملا تھا اسلئے حدود و تعزیرات کے مذہبی احکام یہود کے ہاں موجود ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اقتدار نہیں ملا تھا اسلئے انجیل اور نصاریٰ کے ہاں حدود و تعزیرات کے احکام نہیں ہیں۔ حدود کا تعلق اللہ کے براہ راست احکام سے ہے اور تعزیرات حکمرانوں کی طرف سے ہوتے ہیں۔ اسرائیل یہودیوں کی مذہبی ریاست ہے اور پاکستان دنیا میں واحد وہ ریاست ہے جو مسلمانوں نے مذہب کی بنیاد ہی بنائی تھی۔
قرآن کی آیات اورسنت سے حدود اور تعزیرات کا مسئلہ سمجھنا ضروری ہے۔ خواتین کو ستانے اور زنا بالجبر کی قرآن میں تعزیر قتل ہے۔ فاینما ثقفوا فقتلوا تقتیلاجب عادلانہ معاشرے کا قیام عمل میں آیا تو ایسے لوگ جہاں پائے گئے وہ قتل کئے گئے۔ مدینہ میں زیادہ عرصہ تک یہ لوگ نہیں رہیں گے۔ وائل ابن حجرؓ کی روایت میں ہے کہ خاتون کی اس شکایت پرکہ فلاں نے زبردستی مجھ سے زنا کیا، نبیﷺ نے اس کو پکڑ کر لانے کا حکم دیا اور سنگسار کروا دیا۔ ( ابوداؤد ، موت کا منظر)۔ قرآن میں مرد وعورت کیلئے زناکی حد100 کوڑے ہیں۔ دو مرد آپس میں برائی کریں تو قرآن میں ان کو اذیت دینے کا حکم ہے،اسلئے لواطت پر مختلف آراء ہیں۔ جلانے، پہاڑ سے گرانے، اس پردیوار گرانے کی مختلف آراء ہیں۔ نئی تحقیق میں یہ بیماری ہے اسکا علاج بھی عادی مجرموں کیلئے اذیت کا باعث بن سکتاہے۔
مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے لکھا: ’’ سنگسار کرنے کا حکم توراۃ میں تعزیر تھا‘‘۔ مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے لکھا:’’ الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموھما : بوڑھا اور بوڑھی زنا کریں تو دونوں کو سنگسار کردو۔ یہ اللہ کا کلام کسی طور سے نہیں ہوسکتا۔ غیر شادی شدہ بوڑھا بھی زنا کرے تو ا س کی زد سے نہیں بچتاہے اور جواں شادی شدہ بھی زنا کرے تو زد میں نہیں آتا۔ اسلئے یہ یہود ی علماء کاتحریف شدہ جملہ ہے‘‘۔( تدوین القرآن: مولانا گیلانی) یہودی علماء نے یہ حکم توراۃ میں کیوں داخل کیا؟۔ نبیﷺ نے اللہ کے ہاں ناپسندیدہ افراد میں بوڑھے زنا کار اور غریب متکبر کا ذکرکیا، تو موسیٰ ؑ نے یہی کہاہوگا اور یہودی علماء نے اس کو تعزیز کے طور پر توراۃ میں ڈال دیا ہوگا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ’’ اگریہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمرؓ نے اللہ کی کتاب پر اضافہ کیا تو سنگساری کا حکم قرآن میں لکھ دیتا‘‘۔
نبیﷺ جب تک اللہ کی طرف سے حکم نازل نہ ہوتا تھا تو اہل کتاب کے مطابق عمل کرتے تھے(بخاری)۔ قبلہ اول کی طرح فیصلہ بھی ان کی کتاب کے مطابق ہوتاتھا۔ ایک آدمی نے کہا کہ ’’ میرے غیرشادی شدہ لڑکے نے فلاں کی بیوی سے زنا کیا، میں نے اپنے بیٹے کی جان بچانے کیلئے بکریوں کا جرمانہ دیکر فیصلہ کیا، اب علماء (یہودی) نے بتایا کہ اس کی بیگم سنگسار ہوگی اور تمہارے بیٹے کو100کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا ہوگی، نبیﷺ نے توراۃ دیکھ کر وہی فیصلہ کردیا، پھر مسلمان خاتون اور مرد نے اپنے خلاف گواہی دی تو نبیﷺ نے سنگساری سے بچانے کیلئے معاملہ بہت ٹال دیا لیکن آخرکا ر سزادی۔ کسی ایک واقعہ کو روایات میں باربار نقل کرکے انبار لگادیاگیاہے۔ صحابیؓ سے پوچھا گیا کہ سورۂ نور نازل ہونے کے بعد نبیﷺ نے کسی کو سنگسار کیا تو جواب دیا کہ پتہ نہیں۔ (بخاری)
اللہ نے واضح فرمایا کہ پہلے لوگوں میں بھی یہ حکم تھا کہ شادی شدہ لونڈی زنا کی مرتکب ہو تو اسکو آزاد عورت کی آدھی سزا دی جائے (50کوڑے) ۔ نبی ﷺ کی ازواج مطہراتؓ کو دوگنی سزا( 200 کوڑے) کی وضاحت ہے۔ سنگسار ہونا دوگنا اور نصف نہیں ہوسکتا۔ اللہ نے واضح کیا کہ پہلوں کو قتل و جلاوطنی کا حکم اللہ نے نہ دیا۔ (یہ ان کی اپنی کارستانی ہے) اللہ نے یہ بھی واضح کیا کہ اے نبی ﷺ! اگر اہل کتاب آپ سے فیصلے کیلئے کہیں اور آپ فیصلہ کرنے سے انکار کردیں تو یہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ان کی کتابوں میں تحریف ہے اور آپ کے پاس اللہ کے احکام محفوظ ہیں۔ اگر اپنی کتاب سے یہ آپ سے فیصلہ کروانا چاہیں تو آپ انکار کردیں۔ اسلئے کہ اس کی وجہ سے یہ آپ کو اپنی کتاب سے بھی فتنہ میں ڈال دیں گے۔ پھر اسی پس منظر میں اللہ نے فرمایا: ’’اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنے اولیاء نہ بناؤ، جو ان کو اپنا اولیاء بنائے وہ انہی میں سے ہے، یہ بعض بعض کے اولیاء ہیں‘‘۔ پہلے لوگ مختلف اولیاء سے اپنے فیصلے کیلئے رجوع کرتے تھے۔ جرگہ اورپنچائیت کا سسٹم آج بھی موجود ہے۔ ولایت حکومت اور جرگے کے باختیار آقاؤں کو اپنا اختیار سپرد کرنے کو بھی کہتے ہیں۔جب توراۃ اور قرآن کے احکام میں فرق آگیا تو بعد میں یہ حکم نازل ہوا۔
عورت کا ولی اس کا باپ ، چاچا اور سرپرست ہوتا ہے۔ اہل کتاب کی خواتین سے اللہ نے شادی کی اجازت دی تو اس سے بڑھ کر دوستی کیا ہے؟ ۔جب قرآن کی وضاحت ہے کہ نبی ﷺ کو اللہ نے اہل کتاب کی ولایت سے اس بنیاد پر منع فرمایا کہ اگر وہ اپنی کتاب سے فیصلہ کروانا چاہیں اور مسلمانوں کو بھی ان کو ولی بنانے سے روکا ہے، تو یہ کس قدر اسلام کو اجنبیت میں دھکیل دیا گیا ہے کہ یہود کے توراۃ کو اپنے نصاب کا حصہ بناڈالا ہے، جب توراۃ اور قرآن کے حکم میں فرق نہیں تو پھر سنگسار کرنے کیلئے یہود سے کروائیں یا مسلمان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اگر یہود نے سنگسار کرنا ہو اور مسلمان نے قرآن کے مطابق 100کوڑے کی سزا دینی ہو تو یہود کو اپنے حال پر چھوڑ دیں البتہ اگر وہ ہم سے قرآن کے مطابق اپنا فیصلہ کروانا چاہیں تو ہم قرآن کے مطابق ان پر حکم جاری کرسکتے ہیں۔
حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے کو 100کوڑے لگوائے۔بیگمؓ کا مشورہ سننے سے انکار کیا تو اس نے کہا کہ خالی بات سن لو۔ یہ مشورہ دیتی ہوں کہ کوڑے مارنیوالے کو بدلتے رہو تا کہ سخت سزا ہو۔ چنانچہ کوڑوں سے اس کی جان بھی نکال دی۔جس کی وجہ سے جلاوطنی کی سزا کا معاملہ زیرِ بحث بھی نہیں آیا۔ عقیدت و اختلافِ رائے میں کوئی تفریق بالکل بھی نہیں۔
صحابہؓ کے اندر زنا کا تصور معمولاتِ زندگی کا معاملہ نہ تھا۔ ایک روایت ہے کہ عورت نے زنا کا اقرار کیا تو نبیﷺ نے سنگسار کردیا، فقہ کے تین ائمہ امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ اس پر متفق ہیں کہ عورت ایک بار بھی گواہی دے تو سنگسار کیا جائیگا، جبکہ مرد کیلئے چار مرتبہ اپنے خلاف گواہی ضروری ہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ ’’اس واقعہ کی پوری تفصیلات موجود ہیں، عورت کیلئے بھی چارمرتبہ گواہی ہے‘‘۔ امام ابوحنیفہؒ کی تقلید نہ کریں تو بھی مخالفین کہیں گے کہ ’’اندھوں میں وہ کانا راجہ ضرور تھا‘‘۔ابنت الجونؓ پر جواب والاعلامہ ابن حجر بھی حنفی نہیں تھا۔اگر صحابیؓ وائل ابن حجرؓ یہ بات دیکھ لیتے تو کتنا افسوس کرتے؟۔
کاروباری معاملہ میں قرآن نے دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر قرار دی اور علماء نے حدود میں عورت کی گواہی ناقابلِ قبول قرار دی، پھر جمہور فقہاء نے حد کیلئے مرد کے مقابلہ میں چار مرتبہ کے بجائے عورت کی ایک مرتبہ گواہی کو کافی قرار دیا،کیا اس سے بڑا اندھا پن ہوسکتاہے جس میں یہ تیر رہے ہیں؟۔ پہلے دور نہیں اب بھی پرویز مشرف نے زنا بالجبر کو حدود سے نکال کر تعزیرات میں شامل کیا تاکہ جو متأثرہ خاتون ہو، اس کو انصاف مل سکے۔ مفتی تقی عثمانی نے فتویٰ جاری کیا کہ’’ دین میں ہم مداخلت برداشت نہ کرینگے‘‘ ۔ جماعتِ اسلامی نے اس پمفلٹ کا پرچار کیا۔ حالانکہ اس میں بڑے اندھے پن کا ثبوت دیا گیا، جس حدیث کا حوالہ دیاتھا اس میں نبی ﷺ نے زنا بالجبر میں فقہی شرائط کے مطابق چار گواہوں کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ متأثرہ خاتون کی اکیلی گواہی قبول فرمالی۔ جس پر میں نے جواب بھی لکھ کر شائع کیا تھا۔ اگر اسلام کے آئین کو دنیا میں نافذ کرنے کیلئے شائع کیا گیا تو دنیا اس کو قبول کرنے سے انکار نہیں کریگی۔ علامہ اقبال نے اسلئے ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ کے عنوان سے ابلیس کی طرف سے یہ تجویز پیش کی ہے کہ ’’مومن کو قیامت تک غلام رکھنے میں خیر ہے، تاکہ دنیا کی نظر سے آئین پیغمبر پوشیدہ رہے‘‘۔ بدکارشادی شدہ مرد یا عورت کے جینے کی اجازت نہ ہوتوالطیبات للطیبین اورالخبیثات للخبیثین اورالزانی لا ینکح الا الزاانےۃ ….کی آیات کا محل باقی نہ رہتا۔ فحاشی پر بیوی کو نکالنے کی بات ہے،قتل کی نہیں۔ سورۂ الطلاق میں ہے۔ قرآن مسلمان کیلئے بہت بڑے انقلاب کا ذریعہ ہے۔جو مغرب سے آنیوالے سازش کو روک سکتاہے ورنہ کوئی پابندی لگائے گا اور کوئی ہمارے لئے احتجاج کریگا ۔علماء کرام، صوفیاء عظام، تبلیغی جماعت،دعوت اسلامی، جمعیت علماء اسلام ، سنی تحریک، سپاہ صحابہ، فقہ جعفریہ ، اہلحدیث اس کاوش کا فائدہ اٹھائیں نہیں تو! تاریخ نے قوموں کے وہ دور بھی دیکھے لمحوں نے خطاء کی صدیوں نے سزاپائی
عالمی سطح پر قرآن وسنت کے ٹھوس خاکے کو اٹھایا جائے تو یہود ونصاریٰ بھی اس خلافت کے نظام کی خوش ہوکر تائید کرینگے۔ قرآن میں توراۃ و انجیل کے احکام کا ذکر اور یہود کی تحریف اور نصاریٰ کی خود ساختہ رہبانیت کا ذکرہے۔ ہم بھی انکے نقش پر چل پڑے اور حقائق کی طرف آئے تو مسلم اُمہ بہت خوش ہوجائے گی۔ عتیق گیلانی