پوسٹ تلاش کریں

مسلم امہ کو ایک توحلالہ کی لعنت اور بے غیرتی سے نکالا جائے اور دوسرامقامی مزارعت اور عالمی سودی نظام کے چکر سے نکالا جائے تو زبردست انقلاب برپاہوگا اورپھرپاکستان پورے عالم اسلام کی امامت کے قابل بن جائے گا!

مسلم امہ کو ایک توحلالہ کی لعنت اور بے غیرتی سے نکالا جائے اور دوسرامقامی مزارعت اور عالمی سودی نظام کے چکر سے نکالا جائے تو زبردست انقلاب برپاہوگا اورپھرپاکستان پورے عالم اسلام کی امامت کے قابل بن جائے گا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ دسمبر2021

جب سود کے حوالے سے آیات نازل ہوئیں تونبی کریم ۖ نے زمینوں کی مزارعت کو بھی سود قرار دیا تھا۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری کے داماد مولانا طاسین نے مزارعت کے حوالے سے قرآن ،احادیث صحیحہ اور فقہ کے چاراماموں کی طرف سے متفقہ طور پر مزارعت کو سود اور ناجائز قرار دیا ہے اور اس پر زبردست کتاب بھی شائع کردی ہے جس کی تائید جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے اس وقت کی تھی جب وہ علماء کیلئے باغی اور انقلاب کے امام تھے۔آج مولانا ان کے ساتھ کھڑے ہیں جن کے خلاف مولانا انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے اور جن سے مقابلہ ہوتا تھا وہ مولانا کی جماعت میں شامل ہیں ۔
جب ہم نے علماء ومفتیان کے دانت کھٹے کردئیے تھے تو مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ” میں ان علماء ومفتیان کے فتوؤں کو جوتوں کی نوک پر رکھتا ہوں ”۔ اگر کسی ایک عورت کی عزت حلالہ کی لعنت سے لٹ جائے تو کیا وہ عورت جوتے کے نوک پر اس فتوے کو نہیں رکھ سکتی ہے؟۔ کیا عورت کیلئے یہ سزا ہوسکتی ہے کہ وہ کسی اور شوہر کیساتھ ایک رات گزارے؟۔ یہ تو سزا ہے کہ کسی کا ہاتھ کاٹا جائے، کسی کا سرقلم کیا جائے، کسی کے ہاتھ اور پیر مخالف جانب سے کاٹے جائیں اور کسی کو کوڑے لگائیں جائیں یا کسی کو سنگسار کیا جائے ۔ لیکن یہ کونسی سزا ہے کہ جرم مرد کرے اور اس کی سزا عورت کو دی جائے اور سزا بھی ایسی کہ دوسرے شوہر کے ساتھ ایک رات گزاری جائے اور اس کی عزت کا فالودہ بنادیا جائے؟۔
کیا قرآنی آیات میں اتنے تضادات ہوسکتے ہیں کہ ایک طرف اللہ یہ بات واضح کردے کہ عدت کی تکمیل سے پہلے باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے اور پھر اللہ کہے کہ عدت میں ایک مرتبہ کی تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا۔ اور پھر اللہ کہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد باہمی صلح سے رجوع ہوسکتا ہے؟۔ اس قسم کے تضادات تو کسی پاگل ومجنون کے کلام میں بھی نہیں ہوسکتے ہیں۔ اللہ نے تو پھر چیلنج بھی کردیا کہ ” اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی غیر کی طرف سے ہوتا تووہ مخالف اس میں بہت سارے تضادات پاتے”۔ کیا قرآن کا چیلنج غلط ہے؟۔
اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے حقوق کا تحفظ بھی کیا ہے ، اسکے وہ تمام مسائل بھی حل کئے ہیں جو جاہلیت میں اس کو درپیش تھے۔ اور معاشرے کے تمام مذہبی مسائل کا حل بھی نکالا ہے۔ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ لوگ سمجھتے تھے کہ شوہر بیوی کے درمیان صلح میں اللہ رکاوٹ ہے۔ آیت224البقرہ میں اللہ نے واضح کیا ہے کہ نیکی، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح میں اللہ کبھی بھی رکاوٹ نہیں بن سکتا ہے۔ نمبر2یہ تھا کہ بعض الفاظ سے اللہ پکڑتا ہے جسکے بعد رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ اللہ نے آیت225البقرہ میں واضح کردیا کہ الفاظ کی وجہ سے اللہ نہیں پکڑتا ہے بلکہ دل کے گناہ سے پکڑتا ہے۔ طلاق صریح وکنایہ اور ان مسائل پر تمام اختلافات اور تضادات کی اللہ تعالیٰ نے بیخ کنی کردی ہے۔ نمبر3یہ تھا کہ لوگ طلاق کا اظہار کئے بغیر سالوں سال عورت کو رلاتے تھے لیکن اللہ نے آیت226البقرہ میںواضح کردیا کہ ناراضگی میں عورت کی عدت چار ماہ تک انتظار کی ہے اور اس میں بھی اگر طلاق کا عزم ہو تو یہ دل کا گناہ ہے اسلئے کہ عورت کو تین ماہ کی جگہ چار ماہ تک انتظار کروایا جائے تو عدت میںایک ماہ کا اضافہ گناہ ہے۔ جس کی نشاہدہی آیت227البقرہ میں بھی کردی ہے۔ نمبر4یہ تھا کہ عورت کو عدت میں طلاق دی جاتی تھی تو عدت میں بار بار رجوع کا اختیار بھی شوہر کو ہوتا تھا اور نمبر5یہ تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق پر حلالہ کی لعنت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت228میں دونوں مسائل کا ایک حل نکال دیا۔ جب عدت کے اندر صلح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے تو پھر بار بار غیرمشروط رجوع اور ایک ساتھ تین طلاق پر حلالے کا مسئلہ نہیں رہتا ہے۔جس کی وجہ سے طلاق رجعی کا تصور بھی بالکل باطل ثابت ہے کیونکہ طلاقِ رجعی کی وجہ سے شوہر عورت پر نہ صرف تین عدتیں گزارنے کا قانونی حقدار بنتا ہے بلکہ اس سے دوسرے بھی لامتناہی مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس آیت سے حلالہ کا تصور بھی ختم ہوتا ہے اسلئے کہ جب رجوع کا تعلق باہمی اصلاح کی شرط سے ہے تواکٹھی تین طلاق اور حلالے کا تصور بھی ختم ہوجاتا ہے۔ نمبر6یہ تھا کہ عورت کو طلاق کے بعد بھی اپنی مرضی سے شادی نہیں کرنے دی جاتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ناراضگی اور طلاق میں بار بار باہمی رضامندی ، اصلاح کی شرط پر اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت کی وضاحت کردی ہے جس سے باہمی رضا،اصلاح ، معروف طریقے کے بغیر رجوع کرنا حلال نہیں ہے لیکن مردوں کی دنیا میں عورت بیوی بن جائے تو اس کی غیرت کا مسئلہ بنتا ہے اسلئے کوئی آیت بھی دل ودماغ میں بٹھانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ احناف کے ہاں یہ مسئلہ ہے کہ نیت نہ ہو تو بھی شہوت کی نظر پڑجائے تو رجوع ہے اور شافیوں کے نزدیک نیت نہ ہو تو جماع کرنے کے باجود بھی رجوع نہیں ہے۔ اللہ کی طرف سے معروف رجوع کو فقہاء نے منکر رجوع میں بدل دیا۔ جس دن قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس میں اسلام کے بنیادی اور اہم حساس معاشرتی مسائل پر بحث ہوئی یا میڈیا پر معاملات منظر عام پر آگئے تو مذہبی طبقات بھی بہت خوش ہوں گے کہ مسائل سے جان چھوٹ گئی۔
اللہ تعالیٰ نے آیت229البقرہ اور230البقرہ میں اہم معاشرتی مسئلے کا حل نکال دیا کہ جب شوہر دو مرتبہ طلاق کے بعد بھی عدت کے تین مراحل میں تیسری مرتبہ بھی معروف رجوع کرنے کے بجائے تیسری طلاق دے تو پھر اس کیلئے حلال نہیں ہے کہ حق مہر اور جو کچھ بھی اس کو دیا ہے اس میں سے بھی اس عورت سے واپس لے۔ البتہ اگر کوئی ایسی چیز ہو کہ اگر وہ نہ دی جائے تو دونوں کے میل ملاپ اور اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو تو پھر وہ دی ہوئی چیز واپس کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ تین طلاق کی وضاحت تو آیت229البقرہ میں موجود ہے اور اس میں خلع کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا ہے۔ چونکہ مردوں کی ایک فطرت ہے کہ طلاق کے بعد بھی عورت کو اپنی مرضی سے جہاں بھی چاہیں تو دوسرے سے نکاح کرنے کو اپنی غیرت کے خلاف سمجھتے ہیں اسلئے اللہ نے ایسی طلاق کے بعد کہ جب دونوں اور معاشرے کی طرف سے نہ صرف جدائی کا فیصلہ ہو، بلکہ آئندہ رابطے نہ رکھنے کی کوئی سبیل بھی نہ چھوڑی جائے ،پھر رجوع کی اجازت ہونے یا نہ ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے بلکہ شوہر کی طرف سے عورت کیلئے آزادانہ دوسرے سے نکاح کی اجازت بھی بہت بڑا معاشرتی مسئلہ بنتا ہے اسلئے اللہ نے آیت230البقرہ میں فرمایا کہ پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اور سے نکاح کرلے۔
کوئی دانشمند قوم ہوتی تو یہی سمجھ لیتی کہ قرآن نے حلالے کی لعنت میں ہمیں ڈالا نہیں ہے بلکہ بچایا ہے۔ البتہ جب بھی عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو تو اس کیلئے فتویٰ اسی آیت سے لیا جائے گا تاکہ عورت کو صحیح معنوں میں آزادی مل جائے۔
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ طلاق پر اتنی ساری بحثیں پھر کیوں ہیں ؟۔ کہ طلاق ہوئی یا نہیں ہوئی ؟۔ بچے اور مجنون کی طلاق ہوتی ہے یا نہیں؟۔ غصے کی حالت میں طلاق معتبر ہے یا نہیں؟۔ طلاق کیلئے گواہوں کی تصدیق اور مطالبہ؟۔ کس کے نزدیک کس لفظ سے طلاق ہوئی یا نہیں ہوئی؟۔
اگر ان ساری باتوں کا نتیجہ دیکھ لیں تو اس کا خلاصہ یہی ہے کہ عورت خلع لے تو اس کے حقوق طلاق سے بہت کم ہوتے ہیں لیکن اگر مرد طلاق دے تو اس میں عورت کے حقوق بہت زیادہ ہیں۔ سورہ ٔ النساء آیت19میں خلع کا حکم بیان کیا گیا ہے اور سورہ ٔ النساء آیات20،21میں طلاق کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ شوہر نے طلاق دی ہو تو عورت کو منقولہ وغیرمنقولہ جائیداد میں سے جو کچھ بھی دیا ہو تو وہ واپس نہیں لے سکتا ہے اور عورت خلع لے تو پھر عورت صرف منقولہ دی ہوئی چیزوں کو اپنے ساتھ لے جاسکتی ہے لیکن گھر سے اس کو نکلنا ہوگا اور غیرمنقولہ اشیاء جائیداد سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا۔ جب شوہر اور بیوی کے درمیان کوئی جھگڑا ہوجائے کہ طلاق دی ہے یا نہیں؟۔ تو اصل میں حقوق کی وجہ سے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ عورت جھوٹ بول رہی ہے یا سچ بول رہی ہے؟۔ پھر طلاق کیلئے جو بھی الفاظ، اشارے، کنائے ، صریح اور کنایہ کے الفاظ معتبر قرار دئیے جائیں تو اس میں عورت ہی کا فائدہ ہے کیونکہ جدائی میں شوہر کی طرف سے پہل ہو تو اس کا خمیازہ شوہر کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ البتہ اگر عورت ایک طرف اپنی جان چھڑانے کے چکر میں ہو اور دوسری طرف شوہر پر طلاق کی تہمت لگائے تو یہ شوہر کیساتھ بڑی زیادتی ہوگی لیکن اس کو ثابت کرنے کیلئے عورت کو گواہ لانے پڑیں گے۔
مولانا اشرف علی تھانوی جیسے جید عالم دین اور حکیم الامت کہلانے والے نے بھی اپنی مایہ ناز کتاب ” حیلہ ناجزہ ” میں یہ لکھا ہے کہ ” اگر شوہر نے اکٹھی تین طلاق دے دیں اور پھر وہ مکر گیا تو عورت اس پر حرام ہوگی لیکن عورت کیلئے اپنی جان چھڑانے کیلئے دو گواہ لانے ہوں گے۔ اگر وہ دو گواہ نہ لاسکی اور شوہر نے قاضی کے سامنے حلف اٹھالیا تو وہ عورت حرام کاری پر مجبور ہوگی۔ پہلے وہ ہر قیمت پر خلع لے ،لیکن اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے اور اسکے ساتھ جماع کرتا ہے تو پھر عورت دل سے خوش ہو ،نہ لذت اٹھائے ورنہ گناہگار ہوگی” ۔
یہ فقہ کا مسئلہ ہے جو دیوبندی اور بریلوی دونوں میں رائج ہے۔ یہ اسلام نہیں بلکہ گدھوں کی ڈھینچو ڈھینچو اور وہ آواز ہے جو گدھا پیچھے سے خارج کرتا ہے۔ اگر نکاح وطلاق کے حوالے سے یہ گھناؤنے مسائل میڈیا یا پارلیمنٹ میں آگئے تو سب کی طبیعت صاف ہوجائے گی۔ اسلام کے نام پر یہ مسائل بدنمادھبہ ہیں ۔
علماء ومفتیان نے اسلام کے نام پر بہت سہولت، عزت، دولت، شہرت اور قیمت وصول کرلی ہے ،اب اسلام کی جان چھوڑیں۔ مسلمانوں کو بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور اہل تشیع ٹس سے مس اسلئے نہیں ہوتے ہیں کہ ان کو اسلام اور مسلمانوں کی سرخروئی سے زیادہ اپنی پڑی ہوئی ہے۔ حضرت عمر کا فیصلہ بالکل ٹھیک تھا کہ تین طلاق کے بعد شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔ حکمران کے دربار میں عورت اور شوہر کا تنازعہ آتا ہے لیکن اگر دونوں آپس میں راضی ہوتے تو حضرت عمر کے پاس کیوں جاتے؟۔ اگر یہ تنازعہ ایک طلاق پر بھی کھڑا ہوتا تو حضرت عمر نے یہی فیصلہ دینا تھا اسلئے کہ اس کے بعد قرآن باہمی رضامندی کے بغیر رجوع کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
پاکستان میں لینڈمافیا کے پیچھے بااثر طبقات کا بہت بڑا کردار ہے۔ بہت دیر کردی مہرباں نے آتے آتے۔ نسلہ ٹاور گرانے کے بعد سپریم کورٹ نے فوج کے تینوں اداروں کے سربراہوں کو طلب کیا ہے کہ دفاعی مقاصد کیلئے دی جانے والی زمینوں پر کاروبار کیوں کررہے ہو؟۔ علی وزیر کو بھی رہا کردیا گیا ہے لیکن اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حامد میر نے علی وزیر کی قید اور تحریک لبیک کیساتھ مذاکرات کوپختون پنجابی مسئلہ کیوں قرار دیا تھا؟۔ حالانکہ تحریک طالبان ولبیک کیساتھ ایک جیسا معاملہ تقریباً ہورہاہے۔ وانا جنوبی وزیرستان میںطالبان کے خلاف پاک فوج نے کبھی کوئی آپریشن نہیں کیا تھا اورPTMجن گمشدگان کے لواحقین کیلئے آواز بلند کررہی تھی وہ سب کے سب طالبان کے پسماندگان تھے۔
قوم پرستی اور فرقہ پرستی کے پیچھے جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی مسائل کا حل نہیں ہے۔ قوم کو مزید آنکھ مچھولی میں ڈالنے کے بجائے سیدھے انداز میں ایک بہت شفاف سیاسی، عدالتی ، ریاستی اور انتظامی ایسے نظام کی ضرورت ہے کہ اس قوم کی تقدیر بدل جائے۔ تعصبات کے نعروں کے پیچھے جرائم پیشہ افراد کو تحفظ دینے کی روایت ختم ہونی چاہیے۔ نبیۖ نے جب سود کی حرمت کے بعد مزارعت کا نظام ختم کردیا تو زمیندار اور کاشت کار اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے، بھوک اور افلاس کی نوبت ختم ہوگئی۔ شہروں کے تاجروں کے بھلے ہوگئے اور مزارعت کے نظام سے جو جاگیردار لونڈی اور غلام پیدا کررہے تھے تو اس کا ریاستِ مدینہ نے خاتمہ کردیا تھا۔ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے لیکن قبضہ مافیا نے مسائل پیدا کرکے پاکستان کو مسائلستان بنادیا۔ آخر میں ایک بھائی کے اشعاردیکھ لیں!
سب کو معلوم عدل وانصاف کی نزاکت
کمزور پہ ہے لاگو قانون کی حجامت
ججوں کی تشریحات ترجیحات عدالت
بنیئے کا ترازولارڈ مکالے کی قدامت
جائیداد کی منی ٹریل یاجج کی علالت
بنتا نہ تھا جواب تو سوال پہ ندامت؟
رشوت کامال ہے عدلیہ کی حقارت
بیویوں کی ضرورت بچوں کی کفالت
غیر قانونی طریقے پر بھی یہ سخاوت
جج کی بیگم کو ملی جو کھلم کھلی اجازت؟
ووٹ کو عزت دو نوٹوں کی شرارت
گدھوں کا بیوپار، گھوڑوں کی سیاست
لال کرتی کی پیداوارواقعی ملامت
کمینی ہے اشرافیہ چوروں کی قیادت
مَلِک ، سردار، نواب غدارسلامت
ملا کی شریعت، پیرومرشد کی ارادت
رنگیلے سربراہ بہروپئے کی صداقت
جمہوری شکنجے، آمروں کی ریاست
رائیونڈ کے محلات شداد کی حمایت
اقتدار میں مدہوش فرعون کی غلاظت
ہوس نہ بجھی ،ہوش ربازرکی رفاقت
قارون کی دولت زرداری کی لاگت
ملک ہوا آزاد شبِ قدر کی مسافت
جناح کی عزیمت،اقبال کی اقامت
غلامی کی زنجیریں بیڑی کی تجارت
وہی قانون ہے وہی شیطان کی وکالت
تنگ آمد بجنگ آمدقوم کی بغاوت
اب آئے گا اسلام، ظالم سے شکایت
سب کا پاکستان سب کی امامت
ہے اسکا مقدر ، دنیا کے امن کی ضمانت
اقوام عالم کے فیصلوں کی نظامت
ہوگی یہاںقائم طرزنبوت کی خلافت
رہے کوئی جہالت نہ کسی کی ضلالت
بندے بنیں رب کے، کریں عبادت
کوئی سزا دے نہ کرے کوئی ملامت
آئے جس کی بھی اپنے ضمیر کی شامت
بتارہا ہوں سادہ لفظوں میں حکایت
بے انتہاء بلند منزل ہے اللہ کی عنایت
صاحر کی آرزو نہیں ہے کوئی جنایت
سب کی حکومت ایک امیر کی اطاعت

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

تین طلاق کے بعد حلالہ کا تصور غلط ہے۔ مفتی انس مدنی صاحب سے گزارش ہے کہ اہل حدیث اور شیعہ سمیت قرآن و حدیث کو سمجھنے میں سب سے بڑی غلطی کریں۔

مفتی انس مدنی سے بصد احترام کیساتھ عرض ہے کہ قرآن واحادیث کو سمجھنے میں اہلحدیث وشیعہ سمیت
سبھی کو بہت بڑی ٹھوکر لگ چکی ہے اور اکٹھی تین طلاق و حلالہ کے علاوہ طلاقِ رجعی کاتصور بھی غلط ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ دسمبر2021

افسوس اور صد افسوس کی بات یہ ہے کہ قرآن وسنت کی طرف دھیان دینے کے بجائے اپنے اپنے مسلک کی ٹانگ اُونچی کرنے میں سب لگے ہوئے ہیں۔ مدارس میںدرسِ نظامی کا نصابِ تعلیم بہت بہترین ہے لیکن اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا جارہاہے۔ ہمارے اساتذہ کرام اور طلباء عظام کے دل ودماغ ایک رات میں کھل سکتے ہیں، بس ان کے گرد وپیش حالات بدلنے کی دیر ہے۔ مدارس کے علماء ومفتیان مجھے اپنی پنچ وقتہ نمازوں کی دعاؤں میں دل سے یادبھی رکھتے ہیں، البتہ ماحول سے نکلنا بہت مشکل کام ہے اور انشاء اللہ سب جلد نکل جائیں گے۔
میری اپنی ایسی اوقات نہیں کہ مجھ سے کوئی ڈرے، گھبرائے یا پھرشرمائے۔ دلیل کی زبان، قرآن کی فصاحت اور احادیث کی بلاغت سب فرقے مانتے ہیں اور ہم شیعہ سنی، حنفی اہلحدیث اور دیوبندی بریلوی کے تعصبات سے نکل کرحقائق کی بات عوام تک پہنچارہے ہیں۔ دیوبندی بریلوی حنفی مسلک کے پیروکار ہیں اور شیعہ واہلحدیث کے مسالک حنفی مسلک کے ردِ عمل میں بن گئے ہیں ۔ جب عمل اور ردِ عمل سے نکل کر ہم قرآن وسنت اور احادیث وصحابہ کرام اور ائمہ اربعہ ومحدثین کے حوالے سے دلائل کی وضاحت کریں گے تو اتفاق رائے پیدا ہوگی۔
سب سے پہلا اور بڑا فتنہ اس بات سے پیدا ہوا تھا کہ حضرت عمر نے ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کا فیصلہ درست کیا تھا یا غلط کیا تھا؟۔ حضرت عمر کے پیدا کردہ دیگر مسائل پر بھی مسالک میں شدید اختلافات موجود ہیں۔ایک مسئلہ یہ ہے کہ حج و عمرے کا ایک ساتھ احرام باندھنا جائز ہے یا نہیں؟۔ حضرت عمر نے حج عمرے کا احرام ایک ساتھ باندھنے پر پابندی لگائی ۔ حنفی مسلک والے فقہ میں پڑھاتے ہیں کہ حضرت عمر کی یہ تعلیم قرآن وسنت کے منافی اور غلط ہے۔ حالانکہ حضرت عمر نے بالکل ٹھیک کیا تھا اسلئے کہ قرآن وسنت میں صرف جواز تھا لیکن جب حضرت عمر نے دیکھا کہ جو لوگ حج وعمرے کا ایک ساتھ احرام باندھ کر حج سے کچھ دن پہلے مکہ مکرمہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ گدھے ، گھوڑے، اونٹ اور پیدل دور دراز کا سفر کرنے والوں کے احرام پسینوں سے شرابور ، بدبودار اور متعفن ہیں جس سے حج کے اجتماع میں بدترین تعفن پھیل رہاہے۔ حضرت عمر نے بدبو اور آلودگی پھیلانے کی وجہ سے ایک ساتھ حج وعمرے کا احرام باندھنے پر پابندی لگائی تھی۔ صحیح مسلم میں حضرت عمران بن حصین سے روایات ہیں کہ ہم نے نبیۖ کو حج وعمرے کا احرام ایک ساتھ باندھتے ہوئے دیکھا اور پھر کوئی ایسی وحی بعد میں نازل نہیں ہوئی کہ ایک ساتھ حج وعمرے کے احرام سے منع کیا گیا ہو، جس نے بھی یہ کیا ہے یہ اس کی اپنی رائے ہے۔ جب ہم سنت پر عمل کیا کرتے تھے تو فرشتے ہم سے مدینہ کی گلیوں میں مصافحہ کرتے تھے لیکن جب ہم نے سنت پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو ہم سے وحی کی برکات اُٹھ گئیں۔جب تک میری زندگی ہے تو مجھ سے یہ باتیں نقل مت کرو، کیونکہ حضرت عمر سے ڈر لگ رہاتھا۔
حضرت عثمان نے جب ایک ساتھ حج وعمرے کا احرام باندھنے پر پابندی کا اعلان کیا تو حضرت علی نے کھل کر آپ کی مخالفت کردی اور حج وعمرے کا احرام باندھ کر کہا کہ کوئی مجھے سنت سے روک کر دکھائے۔ عبداللہ بن عمر نے کہا کہ میں رسول اللہۖ کی رسالت پر ایمان لایاہوں ، اپنے باپ حضرت عمر کی بات کو میں نہیں مانتا ہوں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس نے کہا کہ مجھے تعجب ہے کہ آسمان سے تم پر پتھر کیوں نہیں برستے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ ۖ نے یہ کیا اور تم ابوبکر وعمر کی بات کرتے ہو؟۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحیح مسلم وصحیح بخاری ، فقہ وتفسیر کی کتابوں میں یہ سب باتیں لکھی ہوئی ہیں لیکن کیا حضرت علی نے حضرت عثمان سے بخاری کی روایت کے مطابق جھگڑا کیا تھا اور حضرت عمر سے حضرت علی خوف کھا رہے تھے؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر نے پسینوں کی بدبو کی وجہ سے حج و عمرے کا احرام ایک ساتھ باندھنے پر پابندی لگائی تھی جس کی حضرت علی بھی تائید کررہے تھے لیکن جب حضرت عثمان نے حضرت عمر کی اتباع میں حج وعمرے کا احرام ایک ساتھ باندھنے پر پابندی لگائی تو حضرت علی نے آپ کی کھل کر مخالفت کی تھی۔
جن لوگوں نے اصل حقائق کو سمجھنے کے بجائے حضرت علی کی اتباع میں ایک ساتھ حج وعمرے کا احرام باندھنے کو بدبو کا خیال رکھے بغیر جاری رکھا تو نسل در نسل ان کی اولادوں کی جینز میں تعصبات کی یہ بدبو جم گئی اور جنہوں نے حضرت عمر کی اتباع میں سنت کی مخالفت کو بھی جائز سمجھ لیا تھا تو ان کے دل ودماغ سے قرآن وسنت کی ہدایت چھن گئی۔ قرآن میں اللہ اور اسکے رسولۖ کی اتباع کا باربار ذکر ہے اور یہ بھی اللہ نے فرمایا ہے کہ ”جس نے رسول کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی”۔ اولی الامر سے اختلاف کو قرآن میں جائز رکھا گیا ہے اور خلفاء راشدین کے دور میں اولی الامر کیساتھ اختلاف کا راستہ کھلا ہوا تھا۔
حج وعمرے کا ایک احرام ایک ساتھ باندھنا جائز ہے لیکن اگر پسنیوں کی بدبو اور تعفن کا احساس رکھنے کی بنیاد پر مسلکی تعصبات سے بالاتر ہوکر پابندی لگانے کا جائزہ لیا جاتا توپھر تفسیروحدیث اور فقہ کی کتابوں میں مسائل پربے جا بحث نہ ہوتی۔اہل تشیع کو تعصبات نے یہاں تک پہنچادیا کہ حضرت عمر و حضرت عثمان پر مسلمانوں کو دوبارہ مشرکینِ مکہ کے مذہب میں لوٹانے کی سازش سے بھی دریغ نہیں کیا اور جمہور اہل سنت کے مسالک نے قرآن وسنت کو بالکل نظر انداز کردیا تھا۔البتہ فقہ حنفی کے زعماء نے اعتدال کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا تھا لیکن وہ بھی اصل مسئلے کی جڑ تک نہیں پہنچ سکے تھے اسلئے اختلافات کا سلسلہ باقی رہاتھا۔ اور اب مسلکی تعصبات سے بالاتر ہوکر پہلی مرتبہ مسئلہ نکھر کر سامنے آگیا ہے۔ یہ محض اللہ کا فضل اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اساتذہ کرام کا فیضان ہے۔
تفسیر وحدیث اورفقہ کی کتابوں میں حج وعمرے کا احرام ایک ساتھ باندھنے کو تمتع کہا گیا ہے اور قرآن میں حج کیساتھ عمرے کے تمتع کا ذکر ہے۔ احادیث کی کتابوں میں وضاحت ہے کہ حضرت عمر نے حج اور عورتوں کے متعہ پر پابندی لگائی تھی۔ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ متعہ النساء پر پابندی نہ لگائی جاتی تو بدبخت کے سوا ء کوئی زنا نہ کرتا۔ تفسیر واحادیث اور فقہ کی کتابوں میں متعہ النساء پر بہت اختلافی مواد موجود ہے۔یہ مسئلہ بھی حل طلب اور سب کیلئے قابلِ قبول بن سکتا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت علی سے منسوب ہے کہ فتح خیبر میں گھریلو گدھوں اور عورتوں کی متعہ کو حرام قرار دیا گیا ۔ حالانکہ برصغیرپاک وہند کی طرح عرب میں بھی گھوڑے ، گدھے اور خچر کو کھانے کیلئے نہیں سواری کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ خود کو خصی مت بناؤ۔ ایک دو چادر کے بدلے متعہ کرو۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ لاتحرموا مااحل اللہ لکم من الطیبٰت ( جن چیزوں کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے ان کو حرام مت کرو”۔ القرآن ۔ صحیح بخاری۔
صحیح بخاری میں حضرت علی کی طرف منسوب قول بالکل بے بنیاد ہے اسلئے کہ حضرت علی متعہ کے قائل تھے اور حضرت ابن مسعود کی روایت میں بہت وزن ہے جس میں رسول اللہۖ نے متعہ کی حلت کو قرآن کی طرف منسوب کیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود نے اپنے مصحف میں تفسیر جلالین کی طرح تفسیرلکھ دی تھی کہ ومتعوھن (الی اجل مسمٰی) اور ان سے فائدہ اٹھاؤ ،ایک مقررہ وقت تک ۔افسوس کہ مفسرین نے لکھ دیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے قرآن میں یہ اضافہ تھا۔ حالانکہ بین السطور یہ حضرت عبداللہ ابن مسعود کی تفسیر میں ایک اضافہ تھا۔ صحابہ کرام کے الگ الگ قرآن ہرگز بھی نہیں تھے۔ جن لوگوں نے اپنے درسِ نظامی کے نصاب میں یہ غلط تعلیم داخل کی ہیں اس کی تصحیح کریں۔
حضرت ابن عباس نے فرمایاکہ رسول اللہ ۖ ، حضرت ابوبکر اورحضرت عمر کے ابتدائی دور میں چندسالوں تک متعہ النساء جاری تھی اور پھر حضرت عمر نے اس پربعد میں پابندی لگادی۔(صحیح مسلم) صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبیۖ نے متعہ کی اجازت دی اور صحابہ کرام نے متعہ کیاتھا۔ لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ فتح خیبر کے موقع پر متعہ اور گھریلو گدھے حرام قرار دینے کی وضاحت کے بعد پھر کیسے اس کو حلال قرار دیا گیا؟۔ ایران میں متعہ جاری تھا۔ پاکستان میں رنڈیوں کو متعہ کے نام پر بدکاری کے لائسنس جاری ہوتے تھے۔ اب مصر ، سعودیہ اوردیگر ممالک میں مسیار کے نام سے متعہ کی اجازت دیدی گئی ہے۔ پاکستان میں کچرا کنڈی اور جھولوں سے ملنے والے نومولود بچوں کی بہت کثرت ہوگئی ہے ۔ حال ہی میں گلشن حدید کراچی میں ایک نومولود بچہ اس وقت بہت بری طرح جھلس گیا تھا جب کچرے کو آگ لگادی گئی تھی اور اس چیخوں کی سے عرش ہل رہاتھا کہ مجھے کس جرم کی سزادی جارہی ہے۔ اصحاب حل وعقد کو مسئلے مسائل کا حل سنجیدگی اور دلائل سے نکالنا پڑے گا ورنہ بہت خرابیاں پیدا ہوں گی اور اس کی سزا نسل در نسل پوری پاکستانی قوم ہمیشہ بھگتی رہے گی۔
حضرت عمر کے فیصلے کی وجہ سے ایک تیسرا مسئلہ حلالے کا پیدا ہواہے اور اس کے سب سے بڑے مراکز مساجد ومدارس اور حلالہ سینٹرز ہیں۔ طلاق کے بہت سادے مسئلے کو کچھ اس طرح سے الجھادیا گیا ہے کہ بڑے بڑوں کا دماغ بھی اپنا کام چھوڑ دیتا ہے۔ ایک بہت بڑے اسلامی انقلاب کی آمد آمد ہے اور اللہ نے قرآن میں اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کو جو پیش گوئی فرمائی ہے اب اس کا وقت بہت قریب دکھائی دیتا ہے۔ افغانستان کے سخت گیر طالبان بھی اقتدار میں آکر اب تاریخی لچک کا مظاہرہ کررہے ہیں اور یہ بہت خوش آئند بات ہے۔ یہ اسلامی دنیا اور عالمِ کفر میں ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ہے کہ انسانی بنیاد پر افغان عوام کی مدد کا فیصلہ یورپی یونین اور مغربی ممالک بھی کررہے ہیں۔
میری چاہت ہے کہ پاکستان وافغانستان کے امور کا امریکی نمائندہ جیسے اپنا کام کرتا ہے ،اس طرح میں پاکستان وافغانستان کا نمائندہ بن کر کینیڈا میں بیٹھ جاؤں اور اہل مغرب کو اسلام اور اس کے مزاج پر درس دوں اور مسلم امہ کو حقائق کی طرف لانے میں اپنا کردار ادا کروں۔آج مسلمانوں اور اہل مغرب میں وہ اسلامی اور انسانی کردار ادا کرنے کی بہت سخت ضرورت ہے جس کی وجہ سے ہم آئندہ تیسری جنگ عظیم کے خطرات سے بچنے میں کافی حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں۔ جب اسامہ بن لادن پر امریکہ نے حملہ کیا تھا تو ہم نے شہ سرخی لگائی تھی کہ ”امریکی صدر کلنٹن کی بیٹی اسامہ کی لونڈی بنائی جائے”۔ پاکستان میں تمام اخبارات اور نیوز ایجنسیوں کو میں نے فتویٰ جاری کیا تھا کہ ” امریکی صدر کی آمد پر جو پاکستانی اہلکار بھی کلنٹن کو نشانہ بناسکتا ہے تو بنالے ،اسلئے کہ ڈیڑھ سو پاکستانی مجاہدین اسامہ بن لادن کے حملے میں کلنٹن کے حکم سے شہید کئے گئے ہیں”۔
جب1987ء میں میں افغان جہادمیں گیا تھا تو حرکة الجہاد الاسلامی کے مولانا خالد زبیر شہیدوغیرہ سے کہا تھا کہ ایک طرف روس اور دوسری طرف پھر امریکہ ہے تو ہمیں قبائلی علاقے سے دونوں کے خلاف جہاد کرنا ہوگا اور وہ اس بات پر متفق ہوئے تھے اور مجھے افغانستان سے پاکستان پہنچادیا تھا لیکن میرے مرشد حاجی محمد عثمان پر فتوؤں کی وجہ سے میری جدوجہد کا رُخ بدل گیا تھا اسلئے کہ اپنے معاشرے میں ظلم ہو تو پھر دوسروں کے خلاف آدمی کیا جہاد کرے گا؟۔
سوشل میڈیا پر وزیراعظم عمران خان کے نانا کے حوالے سے موجود ہے کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کا گیارہواں صحابی تھا۔ عمران خان کی اماں بھی مرزائی ہوگی اور اس نے چندوں کے پیسوں سے بننے والے ہسپتال کا نام اپنی ماں کے نام پر رکھا ہے۔ صیہونیت کا منصوبہ تھا کہ کشمیر، گلگت اور پنجاب کو سکھ اورمرزائی اسٹیٹ بنایا جائے۔ پاکستان اور بھارت کو توڑ کر عالمی منصوبہ ساز ادارے اب بھی اپنے مشن کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ ہتھیار کے استعمال اور ملک وقوم کی تقسیم سے عالمی ایجنڈہ جاری ہے۔ انسانوں کو مذہب اور قومیت کی بنیاد پر روبوٹوں کی طرح استعمال کیا جارہاہے۔ برصغیرپاک وہند سے قرآن وحدیث ، صحابہ اور ائمہ اربعہ کے مسلک کی درست تشریح سے ہماری تباہی کا ایجنڈہ رُک سکتا ہے اور ہماری کاوش انشاء اللہ جاری رہے گی لیکن مغرب کے دل میں بیٹھ کر اسلام کی حقانیت کو بیان کرنے کے نتائج زیادہ جلدی مرتب ہونے کے امکانات ہیں۔
انگریز سمجھتا ہے کہ جب مسلمان اپنی بیگمات کے حلالہ کروانے سے بھی باز نہیں آتے ہیں تو یہ ہماری بیگمات کو بھی لونڈیاں بناکر چھوڑیں گے اسلئے ایک نئی اور جھوٹی نبوت مرزائیت سے اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی کرنا چاہتے ہیں۔ جب نوازشریف کے دور میں قادیانیت کے حق میں قومی اسمبلی سے بل پاس ہوا تھا تو سینٹ میں جمعیت علماء اسلام کے حافظ حمداللہ نے اس کی نشاندہی بھی کی تھی لیکن پھر بھی وزیرداخلہ شیخ رشید کو اس وقت اپوزیشن رکن اسمبلی کی حیثیت سے سینٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں ن لیگ کے اتحادی جمعیت علماء اسلام کو سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا نام لیکر دعوت دینی پڑی مگر مولانا فضل الرحمن اور اس کی جماعت کے رہنمابت اور بھوت بن کر حکومت کیساتھ کھڑے تھے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر قادیانیت کے الزامات لگانے والوں کی حد یہ ہے کہ اس بل کے خلاف فیض آباد کے کامیاب دھرنے کا الزام بھی آرمی چیف پر ہی لگایا جاتا ہے۔جو کھیل کھیلا جارہاہے اسکے بہت خطرناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ حلالہ کی لعنت کا خاتمہ اور اسلاف پر اعتماد سے پاکستان اور یہ خطہ بدامنی کی فضاؤں اور دہشتگردی سے محفوظ رہ سکتا ہے اور اسلام کا نام روشن ہوگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

یہ آپ کے سامنے نوشتہ ٔدیوار ہے ، سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب کی بڑی کاوشیں ہیں۔ مفتی انس مدنی

یہ آپ کے سامنے نوشتہ ٔدیوار ہے ، سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب کی بڑی کاوشیں ہیں۔ مفتی انس مدنی

پاکستان کے معروف اہلحدیث مولانا عبدالرحمن سلفی اور مولانا محمد سلفی کے بھائی حضرت مفتی محمدانس مدنی جامعہ ستاریہ کراچی نے یوٹیوب چینل پرکہا کہ آپ کے سامنے نوشتہ دیوار۔ مولانا سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب۔ آپ کی بڑی کاوشیں ہیں۔ بڑی محنتیں ہیں اور بڑے بڑے علماء کو انہوں نے جھنجھوڑا ہے کہ آپ اپنی مسند کے اوپر بیٹھ کر قرآن و سنت سے ہٹ کر اپنی ذہنی فقہ کو لے کر چل رہے ہیں۔ آپ قرآن و سنت کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے للکارا اور یہاں تک انہوں نے کہا کہ جو بھی مناظرہ کرنا چاہتا ہے گفتگو کرنا چاہتا ہے ٹی وی پر مناظرہ ہوگا۔ تاکہ کل عالم دیکھے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے؟۔اس معاملے کے اوپر کئی سال ہوگئے ان کو یہ چیلنج کئے ہوئے کہ آج کل تین طلاق کو تین شمار کیا جارہا ہے۔ گھر برباد کئے جارہے ہیں۔ اور لعنت والا کام جس پر اللہ نے بھی لعنت بھیجی اور رسول اللہ ۖ نے بھی لعنت بھیجی حلالہ کروایا جارہا ہے۔ بڑے بڑے مولوی، بڑے بڑے مفتی، بڑے بڑے علامہ فلامہ جبے قبے پہننے والے ، میڈیا کے اوپر آکر درس دینے والے، وہ سب اسی طرف لے جارہے ہیں عوام کو۔ جہالت کی طرف لے جارہے ہیں۔ تو میں یہ کہوں گا آپ یہ نوشتہ دیوار ذرا پڑھا کریں تو آپ کی انشاء اللہ آنکھیں کھل جائیں گی کہ کون صحیح کہہ رہا ہے اور کون غلط کہہ رہا ہے۔ اور اب تک الحمد للہ بڑے بڑے علماء نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب جو بھی بات کرتے ہیں طلاق کی مناسبت سے نکاح کی مناسبت سے حلالے کی مناسبت سے عدت کی مناسبت سے وہ قرآن و سنت کے مطابق کرتے ہیں۔ دیوبندی کئی علماء مان چکے ہیں، سنی کئی علماء مان چکے ہیں اور دیگر جماعتوں کے بھی کئی علماء مان چکے ہیں۔ آپ بھی ذرا توجہ کیجئے علم حاصل کیجئے۔ اور علم کے بغیر عمل جو ہے وہ ناکارہ ہوتا ہے۔ اس میں نقصان ہی نقصان ہوتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و سنت کا علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اسی کو آگے پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

مفتی خالد حسن مجددی کا پیغام حلال کی لعنت سے اپنے آپ کو بچائیں۔

حضرت پیر مفتی مجددی کو دل کی اتھاہ گہرائیوںسے وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ،مسلم اُمہ کے نام پیغام
لعنت سے اپنی نسلوں کوبچاؤ: اپنے من میں ڈوب کرپاجاسراغِ زندگی ..تو اگر میرانہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ دسمبر2021

اہلسنت بریلوی مکتبۂ فکر کی عوام کو اگر تین طلاق سے حلالہ کے بغیر رجوع کا فتویٰ درکار ہو تو الحمدللہ ایک معروف ہستی حضرت مولانا پیر مفتی خالد حسن مجددی قادری رفاعی کی شخصیت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس صرف اسرائیل سے تین طلاق کامسئلہ نہیں آیاہے، باقی الحمدللہ دنیا کے اکثر معروف ممالک سے طلاق کے مسائل پر حلالہ کے بغیر صلح کی شرط پر رجوع کیلئے دنیا بھر سے استفتاء آئے ہیں اور ہم نے لوگوں کی عزتیں بچائی ہیں۔ پہلے حنفی عوام الناس اہلحدیث کے پاس تین طلاق سے رجوع کیلئے جایا کرتی تھی اور اب اہلحدیث بھی ہمارے پاس ہی آتے ہیں۔ حضرت مولانا مفتی انس مدنی کی تائید بھی پہلے سے ہمیں حاصل ہے اور حضرت مولانا پیر مفتی خالد حسن مجددی کی تائید بھی پہلے سے ہمیں حاصل ہے۔ پاکستان بھر سے مختلف علماء ومفتیان ہمارے پاس لوگوں کو فتوے کیلئے بھیج رہے ہیں اورہفت روزہ اخبارِ جہاں میں کئی عشروں سے”آپکے مسائل اور ان کا حل : قرآن وسنت کی روشنی میں” حضرت مولانا مفتی محمد حسام اللہ شریفی کا صفحہ لکھنے والے کی تائید بھی ہمارے فتوؤں پر موجود ہوتی ہے جن کا تعلق علماء دیوبند سے ہے اور کراچی سے تعلق رکھتے ہیں۔ بہت ساری خواتین کی عزتین ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بچائی ہیں۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کو بعض اوقات پنجاب کے کسی جید حنفی بریلوی مکتب فکر کے مفتی صاحب کے دستخظ کی ضرورت ہوتی تھی۔ گزشتہ مہینے ایک انیس سالہ لڑکی کو اسکے اکیس سالہ شوہر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیںتو حلالہ کے فتوے پر اس لڑکی نے خود کشی کی تھی جس پر دنیا نیوز کے بہادر صحافی محمد مالک نے ایک پروگرام بھی کیا تھا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو وہ لوگ ہیں جو جاگ رہے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ ہم سورہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو خواب غفلت سے ہم کیسے بیدار کرسکتے ہیں؟۔ دوسرے وہ لوگ ہیں کہ جن کو مسئلہ سمجھ میں آگیا ہے لیکن اتنی جرأت نہیں رکھتے کہ عوام کے سامنے سینکڑوں سال کے اپنے اکابر کو قربان کرکے فتویٰ دیںلیکن یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جاندار کی تصویر ، سود کی حلت اور باقی مسائل میں اپنے اکابر قربان کردئیے لیکن عورتوں کی عزتیں بچانے کیلئے درست فتویٰ دینے کیلئے بھی تیار نہیں ہوتے ہیں۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کے مدرسے جامعہ دارالعلوم کراچی کے ایریاکورنگی کے علماء کرام کی طرف سے بھی حلالہ کے بغیر رجوع کیلئے لوگوں کو ہم سے فتویٰ کیلئے بھیجا گیا ہے اور یہ وہ علماء ومفتیان تھے جو پہلے ہم سے لڑرہے تھے۔
ایک قسم کے علماء ومفتیان ایسے بھی ہیں جو زبانی طور پر کھل کر ہمارے مؤقف کی تائید کررہے ہیں اور اپنے احباب کو زبانی سمجھا بھی رہے ہیں کہ اس طرح کی طلاق سے بھی باہمی صلح ورضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے اور جمعہ کے وعظ میں بھی لوگوں کو حقائق بتارہے ہیں لیکن ان کے نام اپنے اخبار میں اسلئے نہیں دے سکتے ہیں کہ ان پر کچھ باثر علماء ومفتیان کی طرف سے دباؤ کے خطرات ہیں۔
قرآن میں ایک ایمان والوں کی بات ہے اور پھر ایمان والوں کے درجات ہیں جن میں صدیقین، شہداء اور صالحین شامل ہیں۔ صالحین وہ ہوتے ہیں جن کا اپنا عمل اچھا ہوتا ہے اور وہ فسق وفجور سے اجتناب کرتے ہیں۔ صدیقین ایسے لوگ ہوتے ہیں جو صداقت کیلئے باقاعدہ مہم جوئی کرتے ہیں۔ صدیق اکبر کے علاوہ تمام صحابہ کرام کی جماعت صدیقین کی جماعت تھی جنہوں نے قرآن کے نفاذ کیلئے دنیا بھر میں مہم جوئی کی تھی۔ ان کے مقابلے میں ایک کفار تھے جو اسلام کے منکر تھے اور وہ اسلام کو قبول کرنے سے انکاری تھے اور دوسرے مکذّبین تھے جو نہ صرف خود قرآن کا انکار کرتے تھے بلکہ قرآن کے خلاف مہم جوئی کرکے اس کی تکذیب بھی کرتے تھے۔ آج بھی علماء حق اور علماء سو ء کی یہ تقسیم ہے کہ علماء حق قرآنی آیات کا معاملہ سمجھنے کے بعد عورتوں کو حلالہ کی لعنت سے بچانے کیلئے مہم جوئی کررہے ہیں اور علماء سوء قرآنی تعلیمات کے خلاف مہم جوئی کرتے ہیں۔
باپ اولاد کیلئے پہلااستاذ اور ماں اولاد کیلئے پہلی مرشد ہوتی ہے۔اگر باپ نے اپنی اولاد کی ماں کیساتھ کوئی برا سلوک کیا ہو تو اس کے اثرات اولاد پر ضرور مرتب ہوتے ہیں اور اگر ماں باپ کا مثالی تعلق ہو تو اولاد پر بھی اس اخلاق کے اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں۔ باپ نے ماں کو تین طلاقیں دی ہوں اور اس کو حرامکاری سمجھ کر پھر بھی اپنے پاس رکھا ہو تو اسکے اثرات اولاد پر بھی مرتب ہوں گے اور باپ نے ایک ساتھ تین طلاق دئیے ہوں اور ماں سے حلالہ کروایا ہو تو اس کے اثرات بھی اس پر ضرور مرتب ہوں گے۔ آج ایسے لوگوں کی بھی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ماں باپ کے اندر طلاق واقع ہوچکی ہے اور میاں بیوی آپس میں حرامکاری سمجھ کر بھی حلالہ کی ہمت کرنے سے گریز اں ہیں اور بہت سارے لوگ جدائی اختیار کرلیتے ہیں اور بہت سارے حلالے کی لعنت کا بھی ارتکاب کرتے ہیں کہ زندگی بھر کی حرامکاری سے ایک دفعہ کی لعنت اچھی ہے۔ مسلمان معاشرے کو اس دلدل سے نکالنا بہت ضروری ہے۔
بھارت کی ہندو خواتین کو بھی قرآن میں طلاق ، عدت اور اس سے رجوع کا مسئلہ سمجھ میں آگیا ہے لیکن ہمارے بڑے علماء ومشائخ کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو بہت تعجب کی بات ہے۔ ہمارے وزیرستان کے محسود کہتے ہیں کہ ” اگر تم نہیں چلوگے تو میں اٹھالوں گا لیکن اگر نہیں کھاؤگے تو میں کیا کرسکتاہوں”۔ مسلم اُمہ کے زعماء وعلماء اور قائدین قرآن کو سمجھنے کی کوشش کریں تو بہت آسان طریقہ ہے اس کو سمجھنے کا جس سے پوری امت مسلمہ اس دلدل سے نکل سکتی ہے لیکن اگر وہ سمجھنے کیلئے تیار نہ ہوں تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟۔ یہودونصاریٰ میں جو اہل حق تھے تو انہوں نے قرآن پر ایمان لانے میں لیت ولعل سے کوئی کام نہیں لیا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے علماء ومشائخ نے بھی ایک طرف ہٹ دھرم اور دین فروش یہودی احبار اور عیسائی رہبان کا کردار ادا کیا ہے تو دوسری طرف ان میں اہل حق کی ایک جماعت بھی ہمیشہ سرگرداں رہی ہے۔ جونہی حق کو دیکھا تو اس کو قبول کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچائے اور اہل باطل کو دیکھا تو اس کی تردید کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچائے۔ میرا تعلق جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور مولانا درخواستی کے بیٹے مولانا فداء الرحمن درخواستی کے انوار القرآن آدم ٹاؤن نیوکراچی سے رہا ہے۔ پچھلے دنوں کراچی میں مولانا امین انصاری، علامہ کرار نقوی اور جامعہ ستاریہ کے ایک اہلحدیث عالم دین سے ملاقات ہوئی تو یہ سب حضرات مجھے جانتے تھے ۔ علامہ کرار نقوی سے ملاقات رہی ہے۔ انکے دفتر اور گھر میں بھی گیا ہوں، اہلحدیث عالم سے غائبانہ تعارف تھا اور دیوبندی مولانا امین انصاری نے بتایا کہ ”میں آپ کا سابعہ (موقوف علیہ ،درس نظامی )میں کلاس فیلو تھا”۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں زمانہ طالب علمی کے دوست مولانا نیازمحمد ناطق بالحق لورالائی بلوچستان کالعدم سپاہ صحابہ کے صوبائی صدر اور جیش محمد کے رہنما نے ہمارے ساتھی سے کہا کہ طلاق کا مسئلہ ایک دفعہ میری سمجھ میں آگیا تو میں اس کی تبلیغ کروں گا۔ میرے بہت قابلِ احترام استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصرمدظلہ العالیٰ نے بھی ہمارے ساتھی سے کہا کہ میری سمجھ میں طلاق کا مسئلہ نہیں آرہاہے۔ جب ایک مسئلے پر زمانوں کی گرد نے پیچیدگیاں پیدا کردی ہوں تو بسااوقات واقعی بات سمجھ میں بھی نہیں آتی ہے۔ جس دن قرآن کی طرف علماء کرام اور مفتیان عظام نے رجوع کرلیا اور احادیث صحیحہ کو قرآن کی تفسیر کے طور پر سمجھنے کی طرف دھیان دیا اور صحابہ کرام کے اختلافات کو قرآن وسنت کے آئینہ میں دیکھنے کی کوشش کی تو سب کچھ مخلص لوگوں کو بہت جلد سمجھ میں آئے گا۔
قرآن میں طلاق سے رجوع کیلئے اصل بنیاد باہمی صلح ہے۔ سورہ بقرہ میں آیات224سے232تک اس کی بھرپور وضاحت موجود ہے، جس کا خلاصہ سورۂ طلاق کی پہلی دوآیات میں بھی بھرپور وضاحت کیساتھ موجود ہے۔
آیت230البقرہ سے پہلے اور بعد میں عورت کے حقوق اور طلاق کا مسئلہ سمجھانے کی بھرپور وضاحت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وانزلنا الکتٰب تبیانًا لکل شئی ”ہم نے کتاب نازل کی ہے ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے”۔ زمانہ جاہلیت میں عورت کے حقوق کو کچلنے والے وحشی لوگوں نے خود ساختہ مذہبی مسائل بھی بنارکھے تھے۔ میاں بیوی صلح کرنا چاہتے تھے تو اہل مذہب اپنے منکر اور جھوٹے اقوال کے ذریعے سے یہ فتویٰ دیتے تھے کہ اب رجوع نہیں ہوسکتا۔ سب سے زیادہ سخت مسئلہ ظہار کا تھا جس میں شوہر اپنی بیوی کی پیٹھ کو اپنی ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دیتا تھا ، جس کے بعد بیوی اپنے شوہر پر حقیقی ماں کی طرح حرام سمجھی جاتی تھی اور حلالے سے بھی وہ حلال نہیں ہوسکتی تھی۔ اس فتوے کے اثرات بھی قرآن کریم کی سورۂ مجادلہ اور سورۂ احزاب میں آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
مذہبی لوگوں کا یہ المیہ ہوتا ہے کہ دنیاوی کاروبار کی جگہ پر مذہب کی خدمت کا ٹھیکہ لیتے ہیں تو فارغ البالی میں نت نئے مسائل گھڑنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ پھر بال کی کھال اُتارنے کے چکر میں اپنی پرواز کا رخ شاہین کی طرح ہوا میں بلند کرنے کی جگہ پر گدھ بن کر مردار کھانے کی طرف نیچے پھیر لیتے ہیں اور پھر المیے جنم لیتے ہیں۔ سورۂ مجادلہ میں ایک خاتون کے جھگڑنے کا ذکر ہے جس کی بات اللہ نے سن لی اور مذہب کے منکر اور جھوٹے قول کی آیات میں بھرپور طریقے سے نشاندہی ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دل ودماغ سے باطل عقیدہ ومذہب نکالنے کیلئے یہاں تک سورۂ مجادلہ میں فرمادیا کہ ” بیگمات مائیں نہیں بن سکتی ہیں،مائیں نہیں ہیں مگر وہی جنہوں نے ان کو جنا ہے”۔ اس کے باوجود بھی سورۂ احزاب میں اللہ نے نبیۖ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ
” اے نبی! اللہ سے خوف کھا۔اور اتباع نہ کریں کافروں اور منافقوں کا ۔ اور اتباع کریں جو اللہ نے تیری طرف نازل کیا ہے اس کا۔اور اللہ کی وکالت کافی ہے۔اللہ نے کسی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے اور نہ ان بیویوں کو تمہاری ماں بنایا ہے جنہوں نے تمہیں جنا ہے اور نہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا ہے”۔
اللہ کا مقصد یہ نہیں تھا کہ انسان کے جسمانی سینے میں دو دل نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ اللہ نے یہ بتایا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی عورت کو انسان ایک دل سے اپنے بچوں کی ماں کو اپنی بیوی سمجھے اور دوسرے دل سے اس کو اپنی ماں سمجھے۔ مگر علماء ومفتیان نے اس سے میڈیکل کی دنیا مراد لی ہے۔ اگر کبھی کوئی ایسا بچہ پیدا ہوگیا کہ دوسروں کی طرح اس کے دو دل بھی ہوئے توپھر علماء کہیں گے کہ فارمی مرغیاں اور جانور وں کے یہ نقصانات ہیں کہ انسانی جسم کا توازن بگڑ گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے محرمات کی فہرست چوتھے پارے کے آخر میں بیان کی ہے اور سب سے پہلے فرمایا ہے کہ ” ان عورتوں سے نکاح مت کرو، جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے مگر جو پہلے ہوچکا ہے”۔ باپ کی منکوحہ سے نکاح کا جواز مذہبی گدھوں اور گِدھوں نے کیوں نکالا؟۔ فقہاء یہود ونصاریٰ اور مشرکین مکہ کے جاہلوں نے سابقہ مذاہب حضرت ابراہیم وحضرت موسیٰ کے صحائف میں یہ دیکھا ہوگا کہ ” مائیں صرف وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے” جیسے سورۂ مجادلہ میں ہے تواس سے یہ اخذ کیا ہوگا کہ ”باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنا جائز ہے اسلئے کہ مائیں صرف وہی ہیں جنہوں نے جنا ہے”۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا ہے کہ اسکے ذریعے بہت لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے اور بہت لوگوں کو ہدایت ملتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں باہمی صلح کی بنیاد پر تمام آیات میں رجوع کا دروازہ کھول دیا ہے۔ کسی ایک آیت سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ باہمی صلح کے بغیربھی رجوع ہوسکتا ہے۔ طلاق رجعی کیلئے فقہی مذاہب میں جن آیات سے استدلال لیا گیا ہے ،ان آیات پربھی مسالک کا اتفاق نہیں ہے، جن آیات سے استدلال لیا گیا ہے ان میں بھی صلح کی شرط کے بغیر رجوع کا تصور نہیں ہے۔
کوئی ایک بھی ایسی آیت اور حدیث نہیں ہے کہ جس سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ عورت کی رضامندی اور صلح کے بغیر بھی اس کا شوہر رجوع کرسکتا ہے۔ جب رجوع کیلئے فقہی مسالک ومذاہب میں غلط بنیادیں رکھی گئی ہیں تو اہل حق کا اس سے آہستہ آہستہ اتنا دماغ خراب ہوتا گیا کہ انہوں نے تین طلاق سے صلح کے بغیر رجوع نہ کرسکنے کا جو فتویٰ اور فیصلہ شروع کیا تھا تو اس کو بدلتے بدلتے یہاں تک پہنچادیا کہ ” صلح کے باوجود بھی حلالے کے بغیر رجوع نہ کرنے کے فتوے دینے شروع کردئیے”۔ پچھلے شمارے میں بہت تفصیل سے قرآن وحدیث سے بہترین دلائل دئیے تھے اور مجھے امید ہے کہ میرے استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصر اور دوست مولانا نیازمحمد ناطق بالحق کو بھی معاملہ سمجھ میں آیا ہوگا اور ان سے زیادہ مولانا مسعود اظہر اور مولانا فضل الرحمن اور ان کے بھائیوں کو بھی سمجھ میں آیا ہوگا اور جن کو بات پھر بھی سمجھ میں نہیں آرہی ہے تو بالمشافہہ بھی بات سمجھانے کیلئے میں ہر وقت تیار ہوں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چئیرمین مولانا محمد خان شیرانی سے کئی نشستیں ہوئی تھیں اور موجودہ چئیرمین قبلہ ایاز صاحب کو بھی دوبار ملاقات میں معاملہ اچھی طرح سے سمجھا یا ہے اور ان کی سمجھ میں بھی آیا ہے لیکن اپنے منصب اور عہدے کی مراعات انہیں زیادہ اچھی لگتی ہیں۔
تاہم پھر بھی اگر سمجھانے میں کوئی کسر باقی رہ گئی ہے تو اس کیلئے ہمہ وقت میرا اخبار حاضر خدمت ہے۔ اپنا کوئی اشکال اور سوال ہمیں بھیج سکتے ہیں لیکن قرآن وسنت کی غلط تشریح پر لچک دکھائی تو میری آخرت برباد ہوجائیگی۔ میںتھک سکتا ہوں، لوگوں سے مایوس ہوسکتا ہوں لیکن اللہ کی ذات پر ایمان اور بھروسہ ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

تین طلاق کے بعد صلح کی شرط پر میاں بیوی بغیر حلال کے رجوع کر سکتے ہیں۔

قرآن میں صلح کی شرط پر بار بار رجوع کی بات ہے لیکن علماء نے حلالے کی رٹ لگائی ہے۔ حضرت مولانا پیر مفتی خالد حسن مجددی قادری، جامعہ فاطمة الزہرہ جامع مسجد نقشبندیہ عیدگاہ مین بازارکھوکھرکی سیالکوٹ روڈ گوجرانوالہ

(گوجرانوالہ) چیئر مین تحریک تحفظ امن پاکستان ، امیر مجلس تحفظ ختم نبوت، رہنما جماعت اہل سنت پاکستان پیر مفتی خالد حسن مجددی قادری رفاعی نے نمائندہ نوشتہ دیوار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ بغیر کسی لالچ و منصب کے جس طرح کام کررہے ہیں اسکی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی ۔ اس وقت چھوٹے بڑے سب علماء دین بیچ رہے ہیں۔ اپنے ماضی کا جائزہ لیں تو پیران پیر شیخ عبد القادر جیلانی ، حضرت داتا گنج بخش ، بہاء الدین زکریا ملتانی، عبد اللہ شاہ غازی جیسی ہستیاں ملیں گی انہوں نے کتنے محلات بنائے؟ کتنا مال جمع کیا؟ جبکہ آج کے پیر محلات کے مالک ہیں زمینوں کے مالک ہیں ان کے دستر خوان پر ڈھیروں اقسام کے کھانے موجود ہوتے ہیں۔ آج کے پیر اور علماء اپنی پوجا کرواتے ہیں انہیں اپنی دوکانداری خراب ہونے کا خوف ہے تو ایسے میں دین کیسے آگے بڑھے گا؟۔ طلاق کا مسئلہ اور اس کا حل جو گیلانی صاحب نے پیش کیا ہے اور قرآن کے دلائل سے سمجھایا ہے اس پر یہ بلا تردد سرِ تسلیم ختم کرتے مگر انہوں نے اب تک قرآن کی آیت ”حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ” کی تشریح سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے اور قرآن کس طرح بار بار صلح کی شرط پر رجوع کی بات کرتا ہے اسے کبھی بیان ہی نہیں کیا ہے۔ بس تین طلاق کے بعد اب کچھ نہیں ہوسکتا کی رٹ اور حلالہ کی غلیظ ترین بات ۔
انہوں نے کبھی بھی حساس ترین مسئلہ کو سمجھا ہی نہیں کہ عزتیں لٹ رہی ہیں عورت کی تذلیل ہورہی ہے مگر یہ خاموش ہیں۔ موجودہ دور کے مسائل پر بھی ریسرچ نہیں کرتے ۔ درس نظامی کو جدید تحقیقات کی روشنی میں استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ آج نام نہاد مفتیان نے سود کو جائز قرار دے دیا ہے ۔ میں کہتا ہوں سود کو نہیں بلکہ سؤر کو حلال کردیا ہے۔ اس سوال پر کہ پھر آخر اسکے خلاف کون آواز بلند کرے گا تو مفتی صاحب نے کہا کہ ماضی میں بھی اورنگزیب عالمگیر کے دور میں ان علماء نے ہی دنیاوی مفاد کیلئے بادشاہ وقت کو قتل، چوری ، زنا و دیگر جرائم پر سزا سے استثناء کا فتویٰ دیا تھا جو آج بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل والے بھی مراعات و دنیاوی مفاد کیلئے ہر طرح کے منکرات کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ حق بات کبھی بھی ان کے منہ سے نہیں نکلتی ہے۔ ان لوگوں کو گیلانی صاحب نے بہت جھنجھوڑا مگر یہ سب مایا کے بندے بنے ہوئے ہیں۔
قرآن کریم میں آتا ہے کہ ”قلیل من عبادی الشکور” بہت کم ہیں جو اللہ کے شکر گزار ہیں ۔ ”قلیل من الآخرین” کا ذکر قرآن میں آیا ہے ایسا لگتا ہے کہ حق کہنے والے قلیل من الآخرین سے بھی کم ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں بقول اقبال اپنے بھی خفا ہیں اور بیگانے بھی ناخوش مگر یہ مٹھی بھر حق گو لوگ امت مسلمہ کی خیر خواہی میں کسی ملامت گر کی ملامت سے بھی نہیں گھبرائے ہیں۔ اور جو بات ملت کیلئے زہر قاتل ہے ، امت کی بربادی کا موجب ہے اسے کبھی نہیں چھپاتے ہیں۔ یہی قلیل لوگ نبی ۖ ، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ، ائمہ حق اور اولیاء کے جانشین ہیں۔ آخر میں شاہ صاحب کی خدمت میں سلام۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

نواز شریف کو بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے باہر لانا پارٹ ون اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا آڈیو اور ویڈیو سکینڈل پارٹ ٹو ہے۔

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ دسمبر2021۔ سوشل میڈیا پوسٹ
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

جب برطانیہ نے نوازشریف سے کہا کہ صحت کی بنیاد پر ویزے میں مزید توسیع نہیں دے سکتے تومردہPDMمیں دوبارہ جان ڈال دی گئی ، مفاہمت اور مزاحمت کا فیصلہ نوازشریف کی آمد اور مفاد کیلئے کیا جائیگا، پیپلز پارٹی کو اسلئے باہر کردیا گیا کہ پھرنوازشریف اپنے مفاد کی سیاست کھل کر نہیں کھیل سکتا تھا۔ بیماری کا جھانسہ دیکر باہر جانا پارٹ ون اور ویڈیوز اسکینڈل پارٹ ٹو ہے۔ریاست اور سیاست کی منافقت نے اب عوام کے اعتماد کو ہر چیز سے اٹھادیاہے!

اس میں کوئی شک نہیں کہ عدالت، فوج، سیاست، سول بیوروکریسی، پولیس، انتظامیہ،مذہبی لوگ، سوشلسٹ اور پاکستان کی تما م عوام میں عظیم لوگوں کی کوئی کمی پہلے بھی نہیں تھی اور آج بھی نہیں ہے لیکن حالات کچھ اس طرح سے ہیں کہ عظیم نہیں بن پارہے ہیں۔ پاکستان کا قومی ترانہ ”ترجمانِ ماضی، شانِ حال اور جانِ استقبال ” کو سوچے سمجھے بغیر ہمارے بچے ، جوان اور بوڑھے پڑھتے ہیں۔
مسلمانوں کا شاندار ماضی وہی تھا جس میں اسلام کی بنیاد پر نبی رحمت ۖ کے دور کی بھی خلافت علی طرز نبوت نے دنیا کی دو سپر طاقتوں مشرق میںایران اور مغرب میں روم کو شکست سے دوچار کردیا تھا۔ جب قومی ترانے کے الفاظ میں” ترجمانِ ماضی ” پڑھا جاتا ہے تو ہمارا ذہن اپنے شاندار ماضی کی طرف نہیں جاتا ہے۔ اگر ترجمانِ ماضی کی طرف ذہن نہیں جاتا ہے تو پھر ”شانِ حال ” کا بھی پتہ نہیں چل سکتا ہے اور ” جانِ استقبال” کا بھی پتہ نہیں چل سکتا ہے۔
جب پاکستان سے دوبارہ طرز نبوت کی خلافت کا آغاز کیا جائے تو پھر اس کو ”شانِ حال ” کہہ سکتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل کا یہ کہنا خوش آئند ہے کہ عمران خان ریاستِ مدینہ کی بات کرتا ہے تو بھی بہت اچھا ہے۔ حدیث میں جہاد ہند سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ایک نظام کی نشاندہی ہے۔ جس میں شانِ حال اور جانِ استقبال کا پورا پورا نقشہ موجودہے۔ اگر پاکستان میں ریاستِ مدینہ قائم ہوگئی تو نہ صرف مشرقی پاکستان دوبارہ مل جائیگا بلکہ پورے کا پورا ہندوستان بھی اپنی مرضی سے بغیر کسی دباؤ کے اسلام قبول کرلے گا اور جو متعصب ہندو پھر بھی ہندو بن کر رہنا چاہتے ہوں تو ان پر کوئی زور وزبردستی اور جبر نہیں ہوگا مگر اسلام کا معاشی اور معاشرتی نظام ان کیلئے بھی مسلمانوں کی طرح قابلِ قبول ہوگا۔ سکھ بھی ہمارے ساتھ مل جائیں گے اور کشمیری بھی مظالم سے بچ جائیں گے۔
عدالت، ریاست ، اپوزیشن ،سیاسی اورمذہبی جماعتوں کا حال یہ ہے کہ نواز شریف کا اسلامی جمہوری اتحاد دراصل انتقامی جرنیلی انتشار تھا۔1988ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی نے اقتدار سنبھالا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے پاکستان کو پہلی مرتبہIMFکا مقروض بنایا اور نوابزادہ نصراللہ خان کے مقابلے میں غلام اسحاق خان کو صدر بنادیا۔جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی دو لخت ہوگئی۔ میرمرتضیٰ بھٹو شہید نے موجودہ پیپلزپارٹی کو اس وقت زرداری لیگ قرار دیا۔ اسلامی جمہوری اتحاد کابانی جنرل حمید گل تھا اور تحریک انصاف کا اصل بانی بھی جنرل حمیدگل تھا۔
جنرل حمید گل نے اپنی وفات سے چند دن پہلے ہمیں بتایا کہ دوشخصیات سے وہ متأثر ہیں۔ ایک قائداعظم محمد علی جناح اور دوسرے امیرالمؤمنین ملا عمر۔بس جب وہ اپنے مشن کیلئے کھڑے ہوگئے تو پھر اس کی تکمیل کرکے ہی چھوڑا تھا۔
علامہ اقبال نے کہا کہ” مجموعۂ اضداد ہوں اقبال نہیں ہوں”۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا: ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافًا کثیرًا ”اگریہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی غیر کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سارے تضادات وہ (مخالف) پاتے ”۔ انسان وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا ہے اور اس کے کردار میں بہت سارے تغیرات اور تضادات نمایاں طور پر موجود ہیں اور ہم پاکستان کو مملکتِ خداداد کہتے ہیں لیکن اس کی تشکیل اور وجود میں بھی بڑے تضادات ہیں۔ دوقومی نظرئیے کے تحت پاکستان بن گیا لیکن بنگالی اور سندھی، پنجابی، پختون اور بلوچ پھر مشرقی اور مغربی پاکستان کی ایک قوم کی جگہ دو الگ الگ قومیں بن گئیں۔ ایک بنگلہ دیشی قومیت اور دوسری پاکستانی قومیت۔ کیاوجہ تھی کہ پاکستان و ایران کے بلوچ، پاکستا ن وافغانستان کے پختون، پاکستان و ہندوستان کے پنجابی الگ الگ قومیت اور ملک سے تعلق رکھتے ہیں لیکن کشمیری اب بھی ایک قوم ہیں؟۔ بنگلہ دیش و پاکستان کے لوگ ایک قوم تھے لیکن ایران و افغانستان اور عرب ممالک کے ساتھ پوری دنیا سمیت پاکستان کے لوگ ایک مسلم قوم نہیں تھے؟۔ متحدہ ہندوستان کی قومیت کا نعرہ لگانے والے کانگریس اور جمیعت علماء ہند کے علماء کرام پر علامہ اقبال سے لیکر جاہل مسلم لیگی کارکنوں تک نے ابولہب اور کافر کے فتوے لگائے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، عبدالغفار خان اور عبدالصمد خان اچکزئی نے متحدہ ہندوستان کی ایک قومیت کا نعرہ لگایا تھا لیکن وہ افغانستان کیساتھ اکٹھا ہونے کیلئے تیار نہیں تھے؟۔ آج لر وبر یوافغان کا نعرہ جو لوگ لگارہے ہیں وہ اپنے قائدین سے انحراف کررہے ہیں۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر مریم نواز کی طرف سے ویڈیوز کے انکشافات کا سلسلہ جاری رکھنے کا معاملہ موضوعِ بحث ہے جس کی بنیاد پر کیسوں اور سزاؤں کو جھوٹا اور انتقامی قرار دیا جارہاہے لیکن میڈیا یہ کام کیوں نہیں کرتا کہ نوازشریف کی پارلیمنٹ کی تقریر جس میں2005ء میں سعودیہ کی وسیع اراضی اور دوبئی مل بیچ کر2006ء میں لندن کے ایون فیلڈ لندن کے فیلٹ خریدنے کا نیا انکشاف تھا ۔ حالانکہ بینظیر بھٹوکے دوسرے دورِ حکومت میں اس پر اٹل ثبوتوں کیساتھ کیس چلے تھے اور غلام اسحاق خان نے نوازشریف کی حکومت کو اسی کرپشن کی وجہ سے ختم کیا تھااورنوازشریف کوISIنے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پرپیسے بھی دئیے تھے اور یہ سب چیزیں عدالت، ریاست ، میڈیا اور عوام کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
یہ کس قدر ناکام نظام کی بات ہے کہ اگر اتنے واضح ثبوتوں کے باوجود بھی اسٹیبلشمنٹ کو زور لگانا پڑجائے کہ نوازشریف کو سزا دی جائے؟۔ یہ بھی پتہ نہیں چلتا ہے کہ جسٹس قیوم اورملک ارشد کی طرح جسٹس ثاقب نثار بھی نوازشریف کیساتھ اندورن خانہ ملے ہوں اور ایک ویڈیو بھی بنادی ہو۔ جب انکار کرنے کے بعد پوری قوم ثاقب نثار کی پشت پر کھڑی ہوجائے اور پھر وہ پیسے کھاکر اسکا اعتراف کریں کہ مجھ پر نوازشریف کو نکالنے اور عمران خان کو لانے کیلئے دباؤ تھا۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عدلیہ اور فوجی اسٹییبلشمنٹ دونوں کو ایک ساتھ رگڑا دینے کیلئے ثاقب نثار کی ویڈیوز کو استعمال کیا جائے۔ جیسے حامد میر نے امریکی اخبار کیلئے ایک کالم میں نیا انکشاف کیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایجنسیوں نے عمران کی چھٹی کرانے کا فیصلہ کیا ہو ۔ گوگلی نیوز میں یہی خبریں دی جارہی ہیں۔
جس طرح ایک وکیل پیسے کھاکر اپنی قانونی پوزیشن مجرم کی حمایت یا مخالفت میں بدلنے کیلئے کوئی شرم نہیں کھاتا ہے ،اسی طرح بڑی رقم ملنے کے بعدآن ڈیوٹی اور ریٹائرڈ جج بھی اپنی اخلاقیات بیچ کر امیروں میں شامل ہونے کیلئے وہ سب کچھ کرنے کیلئے تیار ہوجاتا ہے جو ایک عام انسان کا خاصا ہوتا ہے۔ حدیبیہ پیپر ملز کا کیس ختم ہونے کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ کی بیگم کے نام پر لندن میں پراپرٹی برآمد ہونے کاکیا نتیجہ نکل سکا تھا؟۔ جب جج، جرنیل اور سیاستدان اپنی اپنی جائزاولادوں اور بیگمات کو بھی اپنے سے الگ کرکے ترقی یافتہ ممالک کے آزاد شہری قرار دیتے ہوں اور بڑے پیمانے پر سودی قرضے لیکر منی لانڈرنگ کا معاملہ جاری ہو تو کون کس سے کیا پوچھے گا؟۔ مجرم قانون سے بچنے کے تمام طریقے جانتے ہیں اور عوام پر سودی قرضوں کی وجہ سے مہنگائی کا بوجھ بڑھتا جارہاہے۔
عمران خان اور نوازشریف کے تضادات اور ڈھیٹ پن کا نام سیاست رکھ دیا گیاہے۔ اگر نوازشریف کے خلاف لندن ایون فیلڈ کیس کا تاریخی جائزہ بھی لیا جائے اور ملک ارشد اور ثاقب نثار کی ویڈیوز پر اس کو معصوم اور بے گناہ قرار دینے کی تحریک کا بھی جائزہ لیا جائے تو عوام و خواص سب اس نظام سے مایوس ہوں گے اور عمران خان کی تمام ویڈیوز اور موجودہ کردارکو دیکھا جائے تو بھی سبھی اس نظام سے مایوس ہوں گے۔ جس نظام نے نوازشریف کا کچھ نہیں بگاڑا اور جس نظام کے ذریعے اتنے وعدوں کے باوجود عمران خان ، اس کی پشت پناہی والے کچھ نہیں کرسکے بلکہ اس مدت میں سودی گردشی قرضے ڈبل کردئیے ۔ زرداری سے پہلے پرویزمشرف نے قرضہ اتارنے کے بعد پھر قرضہ لیا۔ پھر زرداری اور نوازشریف اور عمران خان نے اس سلسلے کو جاری رکھا اور اب بات یہاں تک ہی پہنچ گئی ہے کہ جتنا گردشی قرضے کے عوض ہم سود دیتے ہیں ،وہ ہمارے ٹیکس کے قریب پہنچ گیا ہے۔ نوازشریف کے دور میں دفاعی بجٹ سے سود زیادہ ہوگیا تھا اور اب سود اسکے ڈبل تک پہنچ کر ہمارے ٹیکس کی کل مقدار تک پہنچ گیا ہے۔
اسلامی انقلاب کے ذریعے سب سے پہلے ہم اپنی اصلاح کرسکیں گے اور جس طرح امریکہ اور نیٹو کو افغانستان میں اسلامی جذبے نے شکست دی تھی اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کی ظالم فوج کو بھی ہم شکست دے سکتے تھے۔ ہماری ریاست غریب کو انصاف دینے میں مکمل ناکام ہے ۔ بڑے لوگوں کو اپنے انجام تک پہنچانا ممکن نہیں ہے ۔ چور ہیں سب چور ہیں کا شور مچانے سے کچھ نہیں ہوگا ، اپنے نظام انصاف کو درست کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ اور جمہوری ذرائع سے انتخابات بھی تجارت ہیں۔ سینٹ کے انتخابات میںکروڑوں کے اندر ایک ایک ووٹ کی قیمت لگنے سے پتہ چلتا ہے۔ پیسوں کیساتھ کھیلنے والے اس نظام کے کرتے دھرتے اور کرتوت ہیں۔ نظریاتی سیاست کا کوئی نام ونشان تک نہیں۔
سندھ ، پنجاب، مہاجر ، بلوچ اور پختون کارڈ کھیلنا کوئی نظریہ نہیں ۔ پنجاب میں برادری ازم کارڈ کھیلا جاتا ہے اور جب انتخابات کا وقت آتا ہے تو تعصبات اور پیسوں کی جیت ہوتی ہے۔ ایسا ملک اور ایسی قوم کبھی بھی کوئی اچھا وقت نہیں دیکھ سکتی ہے۔ طاقتور طبقات لینڈ مافیا اور بدمعاشوں کی سرپرستی کررہے ہوں اور مظلوم اور کمزور طبقات کو خدا کے سہارے پر چھوڑ دیا گیا ہو۔ فلسطین ومقبوضہ کشمیر کے حالات ہمارے ہاں بھی کم عقل لوگوں کی بیوقوفیوں سے بنتے جا رہے ہیں۔ عمران خان اداروں کو مضبوط کرنے نکلے تھے لیکن ادارے اپنے مضبوط کردار کی بدولت ہی مضبوط بن سکتے ہیں۔ نوازشریف پر بہت زبردست اور سچے کیس بن گئے تھے اور عمران خان بھی پشاورBRTسمیت کئی کیسوں کی نذر ہوسکتے ہیں۔ زرداری اینڈ کمپنی پر ہمارے ناقص نظام کی وجہ سے کوئی چیز ثابت کرنا مشکل ہے اور جو بے قاعدگیاں ہمارے ریاستی اداروں اور اہلکاروں کی طرف سے کی جاتی ہیں تو بڑے بڑے مجرم بھی معصوم لگنے لگتے ہیں کہ یہ توآوے کا آوا بگڑا ہواہے اور سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ قانون کی بالادستی کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
کراچی میں نسلہ ٹاور کے علاوہ بہت سارے غیرقانونی قبضے چھڑائے گئے لیکن شاہراہ فیصل اور اس کی ملحقہ سڑکوں پر سروس روڈوں پر بھی قبضے کئے ہوئے ہیں اور ائرپورٹ کے سامنے شاہراہ فیصل پر ریلوے کی زمین پر ناجائز بلڈنگ سمیت پوری شاہراہ فیصل پر کہاں کہاں قبضے ہوئے ہیں ان سب کا جائزہ لیکر اس اہم شاہراہ کی توسیع کردی جاتی تو سبھی لوگ خوش ہوتے کہ قانون کی واقعی اس ملک میں بالادستی ہے۔ کراچی کا پانی مافیا بیچ رہاہے۔ کراچی کے تھانے بکتے ہیں اور کراچی بلڈنگ مافیا کھلے عام ندی نالوں پر قبضہ کرکے فلیٹ بیچ رہے ہیں اور کراچی میں لیز کی تیس سالہ زمینوں پر بلڈنگ مافیا غریب کو دھوکہ دے رہاہے۔ ہماری حکومت اور ریاست کہیں بھی نظر نہیں آرہی ہے ۔ لوگوں کو حکمران طبقے سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ کسی حکمران طبقے کی شکل بھی کسی کو اچھی نہیں لگ رہی ہے لیکن مجبوری اور مظلومیت کی فریاد عرش تک بھی نہیں پہنچائی جارہی ہے اسلئے کہ مخلوق اور خالق کے تعلقات بھی بہت خراب نظر آتے ہیں۔ امیر طبقے سے بھی زیادہ غریب ظالم بنتا جارہاہے، دو ٹکوں کیلئے کسی کی جان لینا بھی بڑی بات نہیں سمجھتے ہیں۔ پوری قوم کو توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کرپشن پر بڑے بڑے ہاتھ مارتے ہیں اگر یہ سیدھے ہوگئے تو لوگوں کو جائز روزگار ملے گا اور پھر ڈکیتی اور چوریوں کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ یہ ملک کہیں ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
مذہبی طبقات کا حال یہ ہے کہ مفتی عزیزالرحمن نے اپنے باریش طالب علم صابرشاہ کو امتحان میں پاس کرنے کی لالچ پر جنسی ہوس کا نشانہ بنایا تھا اور پہلے یہ ظالم کا طرۂ امتیاز ہوتا تھا کہ وہ مظلوم کی ویڈیو بناکر ڈراتا تھا کہ تمہارا جنسی معاملہ آشکار کرکے لوگوں میں بدنام کرکے رکھ دوں گا لیکن اب مظلوم نے بھی اپنی ہی ویڈیو بناکر یہ تماشا دنیا کو دکھا دیا کہ یہ ہو کیا رہاہے؟۔جب پاس کرنے کی لالچ میں صابرشاہ جیسے لوگ یہ کام کرسکتے ہوں تو پھر دہشت گردی، مفادپرستی اور دیگر معاملات میں کہاں سے کہاں اور کیا سے کیا لوگ نہیں کرتے ہوں گے؟۔
امام حسن کو زہر دے کر شہید کیا گیا تھا اور امام حسین کو کربلا میں شہید کیا گیا تھا لیکن اب کالعدم سپاہ صحابہ کے بانی مولانا حق نوازجھنگوی شہید کے بیٹے مولانا اظہار الحق جھنگوی کی لاش پہلے ہوٹل میں مردہ حالت میں ملی تھی جس کا کوئی بھی سراغ نہیں لگ سکا تھا اور اب دوسرے صاحبزادے مولانا مسرورجھنگوی کوبھی باغی قرار دیا جارہاہے۔ کہیں سانحہ کربلا پیش نہ آجائے۔ مولانا حق نواز جھنگوی کا تعلق جمعیت علماء اسلام ف سے تھا اور انہوں نے1988ء میں جمعیت ف کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا اور جمعیت ف کے صوبائی نائب امیر بھی تھے لیکن جب ان کو شہید کیاگیا تو مولانا ایثارالحق قاسمی نے بیگم عابدہ حسین شیعہ کے ساتھ اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے اتحاد کرکے جھنگ کی سیٹ شیعوں کے ووٹوں سے جیتی تھی۔ مولانا حق نوازجھنگوی کے بچے اس وقت بہت چھوٹے تھے لیکن آج مولانا حق نواز جھنگوی کا بیٹا اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چل کر مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دے رہاہے تو اس کو کالعدم سپاہ صحابہ کا نہیں صحابہ کرام کا بھی باغی قرار دیا جارہاہے۔ مولانا سید محمد بنوری شہید نے بھی مولانا فضل الرحمن کیلئے اپنی جان کی قربانی دیدی تھی لیکن مولانا فضل الرحمن نے اس کا پھر ساتھ نہیں دیا تھا۔
مذہبی اور سیاسی انتشار اور بے اعتمادی سے پہلے ایسی فضاء کی ضرورت ہے کہ جب بنوامیہ اور بنوعباس کی طرح ناجائز لوگ خاندانی بنیاد پر قبضہ کرکے اہل بیت پر مظالم کے پہاڑ اسلئے توڑیں کہ ان کی حیثیت چیلنج ہورہی ہو تو ایسے مظالم کی فضاء نہ بننے دی جائے۔ آج تبلیغی جماعت والے اپنے بانی مولانا الیاس کے پڑپوتے مولانا سعد اور اپنے مرکز بستی نظام الدین کے پیچھے پڑگئے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکستان کا مستقبل روشن ہے یا تاریک یہ وقت کا فیصلہ ہے۔ لیکن ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے۔

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ دسمبر2021۔ سوشل میڈیا پوسٹ
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

آج ہندوستان کے شہروں سے کوہ ہندوکش تک اور بھارت کی ہندی زباں سے پختونخواہ کے شہر ٹانک ،اس کے مضافات اور پشاور تک ہندکو زباںوالے ایک تہذیب وتمدن ، ایک وطن اور ایک جیسے ملتے جلتے لوگ تھے۔مسلمان اور ہندوکے درمیان سکھ مذہب اور رنجیت سنگھ کی پنجابی حکومت تاریخ کا روشن یا سیاہ باب ہے؟، روشن مستقبل یاتاریک سے تاریک تر حالات ہونگے؟،یہ فیصلہ وقت نے کرنا ہے لیکن ہم نے اپنا فرض منصبی ضروراداکرنا ہے !

یہاں انگریز آیا، تقسیم بنگال ، تقسیم ہند،مسئلہ کشمیر، ڈیورنڈ لائن اور انگریزکی سیاسی، انتظامی، انتقامی، تعلیمی، نوابی، فوجی اور عدالتی باقیات اس قوم کی اندھیر نگری میں ایک مؤثر کردار کا سبب آج تک ہیں اور اندھیرنگری ہے میرے آگے

انگریز نے ایسٹ انڈین کمپنی سے مضبوط تجارتی مراکز بناکر ہندوستان کے طول وعرض پر قبضہ کیااور پھر اپنی باقیات کے ذریعے یہاں کی عوام کو مکمل غلامانہ نظام کے سپرد کردیا۔ مزاحمت کرنے والوں کو آپس میں اُلجھا دیا۔ہندو اور مسلم کے درمیان تفریق ڈالنے کیلئے بنگال کو بنیادبنا دیا۔ ہندوؤں نے انتظامی بنیاد پر مشرقی بنگال کو علیحدہ صوبہ بنانے کی مخالفت کی تو مسلمان اس کی حمایت میں کمربستہ ہوگئے۔ یوں انگریز کی یہ چال کامیاب ہوگئی کہ ہندو اور مسلمان کو آپس میں دشمن بنادیا۔ انگریز مخالف ہندو اور مسلمانوں کی ایک مشترکہ تحریک آل انڈیا کانگریس کی بنیاد پڑگئی اور اس کے مقابلے میں انگریز سے راز ونیاز رکھنے والے مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ نواب وقار الملک ، سر آغا خان اور دیگر اسلام ناآشنا لوگوں نے ایک مسلم قومیت اور دوسری ہندو قومیت کی بنیاد پر ایک تحریک کا آغاز کردیا۔ ایک قومی نظریہ اور دو قومی نظریہ کے میدانِ جنگ کیلئے زمین ہموار ہوئی۔ کانگریس کے قائداور رہنما ہندوستان کے ایک قومی نظریے اور مسلم لیگ کے قائدین اور رہنما دوقومی نظریے پر زور دیتے تھے۔قائداعظم محمد علی جناح کی ابتداء کانگریس سے ہوئی اور وہ وکیل کی حیثیت سے چاہتے تھے کہ ہندوستان کی غلام عوام کوبھی ویسے شہری حقوق مل جائیں جو برطانیہ اور یورپ کے آزاد شہریوں کو اپنے وطن میں حاصل ہیں۔یورپ کا مذہب عیسائی تھا لیکن انتظامی اعتبار سے وہ مختلف ممالک برطانیہ، جرمنی، فرانس ، اٹلی، سوئٹزر لینڈ، اسپین، ناروے ، سویڈن اور دیگر چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم تھا۔مذہب کی بنیاد پر ملکوں کی تقسیم کاکوئی ماحول دنیا میں موجود نہ تھا۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں”سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا ” بہترین نظم بھی لکھی لیکن جب ہند و مسلم کے درمیان نفرت کی فضاء بن گئی تو تقسیم ہند کی ناگزیری پر شاعرِ مشرق اقبال اور قائداعظم بھی مفکر پاکستان اور بانی پاکستان بن گئے۔ دونوں کی قابلیت، خلوص اور انسانیت پر شک نہ تھا لیکن اپنی یوٹرن سے اپنی اپنی پوزیشن کو ایسا بدل ڈالا کہ اس سے اس خطے کی تاریخ میں بھی نمایاں تبدیلی آگئی۔
ہندو،مسلم، سکھ، بدھ مت اور عیسائی سے تعلق رکھنے والے سب ہندوستانی لوگ ایک طرح کی ملتی جلتی صوفیت کے نظام سے وابستہ تھے۔عیسائیت نے بھی رہبانیت کی بدعت خود ایجاد کرکے اس کی ابتداء کی لیکن پھر وہ اس کی پاسداری نہ کرسکے۔ ہندو اور بدھ مت بھی بہت قدیم مذاہب تھے اور انکا تاریخی پسِ منظر صوفیت کی یاد گار تھا۔ اسلام اور مسلمانوں پر بھی ہندوستان میں تصوف کی چھاپ تھی۔ سکھ مذہب نے بھی صوفیت کے دامن سے جنم لیا۔اس مزاج کی وجہ سے تاریخ کے اندر تمام خونخواروں نے جب بھی برصغیرپاک وہندکا رُخ کیا تویہاں کے پُر امن صوفی مذہب لوگوں نے کوئی مزاحمت نہیںکی۔ جس طرح نیم حکیم خطرۂ جان نیم ملا خطرۂ ایمان مشہور ہے اسی طرح نیم صوفی خطرہ ٔ امن اور امان بھی ہوتاہے۔ انگریز نے ایسٹ انڈین کمپنی سے ہندوستان پر قبضے کی جو ابتداء کی تھی تو وہ جاتے جاتے ہندوستان کو بہت سے مسائل کی آماجگاہ بناکر چھوڑ گیا تھا اور اب باتIMFکی غلامی تک پہنچ گئی ہے۔ علماء کی اکثریت نے پاکستان کی مخالفت کی تھی اور صوفیوں کی اکثریت نے حمایت کی تھی لیکن پنجاب کے پانچ دریاؤں کے علاوہ تقسیم ِ ہند کے وقت ایک چھٹا دریا انسا نیت کے خون سے بھی بہہ گیا تھا، جس کا مولانا ابوالکلام آزاد کہتے تھے کہ ” آزادی دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے لیکن اتنا خون بہنے کی قیمت پر آزادی بھی قبول نہیں ہے”۔
دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان اور پاکستان ایک ہی تاریخ، وقت اور لمحے میں ایک ہی اعلان کیساتھ آزاد اور دولخت ہوگئے لیکن مسئلہ کشمیر کی بنیاد پر یہ دونوں ممالک دو جڑواں بہنوں کی جگہ دو سوکن بن گئیں۔ مقبوضہ کشمیر سے قبضہ تو نہیں چھڑایا جاسکا ،البتہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش سے ہم نے ضرورہاتھ دھو لئے اور 74سال بعد بھی اپنے غلامانہ نظام سے جان چھڑانے کا رونا رو رہے ہیں۔ انڈوں پر بیٹھنے کی وجہ سے کڑک مرغی کا سینہ پروں سے گنجا ہوجاتا ہے لیکن آخری عمرتک دیسی مرغیوں کے سرکے بال نہیں گرتے ۔جبکہ فارمی مرغیوں کے سر بھی آخر میں گنجے ہوجاتے ہیں۔پاکستان میں برسراقتدار آنے والے سیاسی حکمران فارمی مرغیوں کی طرح مصنوعی طریقے سے اقتدار میں آئے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان تحریک انصاف اپنے اپنے وقت کی زندہ مثالیں ہیں۔PPP،PMLNاورPTIایک دوسرے سے اس بات پر اُلجھ رہی ہیںکہ کس پارٹی کو کس کس جنرل نے جنم دیا ہے۔جب تقسیم ہند کے وقت ہندو پاکستان سے ہجرت کرکے ہندوستان چلے گئے تو ان کی جگہ بھارت سے آنے والے مسلمانوں نے لے لی۔ پاکستان کے شہری علاقوں میں تمام کے تمام پوش علاقوں، تجارتی مراکز اور بڑی بڑی زمینوں کے مالک ہندو تھے ، جب وہ یہاں سے رخصت ہوئے تو جائز اور ناجائز کی تمیز کئے بغیر ان املاک کے مالک ہندوستان سے آنے والے مہاجر بن گئے۔ علاقائی اور مقامی مسلمان اسلئے خوش تھے کہ انگریزوں اور ہندوؤں کی جگہ مقامی حکمرانوں اور مہاجر مسلمانوں نے لی ، جو خوش آئند تھی لیکن جب خوشحال طبقہ مفاد پرست بن جائے تو علاقے کی عوام کبھی خوشحالی نہیں پاسکتے ہیں۔سول وملٹری بیوروکریسی میں میٹرک کرنے والے جن کی حیثیت متحدہ ہندوستان میں کلاس فور کی نوکری سے زیادہ نہیں تھی وہ یہاں آکر بڑے بڑے افسر بن گئے۔ جو درمیانے درجے کا طبقہ تھا اس نے میرٹ کی بنیاد پر ملک وقوم کی باگ دوڑ سنبھال لی۔ جو جنرل اور سیکٹری لیول کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے تو وہ بڑے بن گئے۔ فوج اور سول اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کا اقتدار سنبھال لیا تو گورنر جنرل قائداعظم اوروزیراعظم لیاقت علی خان کی لڑائی کا شاخسانہ یہ تھا کہ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کی نہیں بنتی تھی اور قائد اعظم اسلئے لیاقت علی خان سے ناراض تھے کہ بھوپالی مہاجرین کو کراچی میں آباد کرکے اپنا حلقہ انتخاب بنانا چاہتے تھے۔ جب نووارد جمہوری لیڈروں کے پاس انتخابی حلقے تک بھی نہیں تھے تو وہاں سے اس میں جمہوریت کی بحالی کیلئے کوئی کام کرسکتے تھے اسلئے ہمارے ہاں جمہوریت کے بانی جنرل ایوب خان بن گئے ۔ جس کی کوکھ سے ذوالفقار علی بھٹو قائدعوام نے جنم لیا تھا۔
انورمقصود نے بہت اچھا نقشہ کھینچاہے کہ مہاجر کو پتہ چل گیا کہ سندھ ، پنجاب ، بلوچستان اور پختونخواہ کے لوگ سید سے محبت کرتے ہیں تو انہوں نے اپنے شجرے بھی تبدیل کر ڈالے۔ جب لوگ نسلوں کی تبدیلی پر آگئے تو قصائی سید کا درجہ نہیں حاصل کرسکتے تھے لیکن قریشی بننے تک پہنچ گئے۔ جولاہے انصاری، تیلی عثمانی بن گئے۔ کوئی صدیقی،فاروقی اور علوی بن گیا۔ معروف اسلامی اسکالر جاویداحمد غامدی نے اسی روش میں غامدی کہلانے کا شوق پال لیا لیکن جب اس کو توجہ دلائی گئی کہ جب ایک صحابیہ غامدیہ پر سنگسار کرنے کا حکم جاری کیا گیا تو اس کا بچہ دودھ روٹی کھانے کے لائق بن گیا تھا اور اس بچے کی نسل سے غامدی کی نسبت ہوسکتی ہے تو جاوید احمدغامدی نے واضح کردیا کہ ”میرا عرب قبیلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں نے محض شوق کیلئے غامدی نسبت اختیار کرلی ہے”۔
جاوید احمد غامدی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ ”عرب میں داماد کو اہل بیت قرار نہیں دیا جاتا ہے اور حضرت علی نبیۖ کے داماد تھے”۔ نبیۖ ابوسفیان کے بھی داماد تھے اور حضرت ابوبکر وعمر کے بھی داماد تھے۔ سسرالی رشتے کا کسی قوم کی تاریخ میں بھی اہل بیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ یہودونصاریٰ کی خواتین کی بھی مسلمانوں میں شادیاں ہوئی ہیں اور نبیۖ کی چھ ازواج مطہرات کا تعلق قریش سے تھا اور چار کا دیگر قوموں سے تھا اور ایک کنیز ماریہ قبطیہ کا تعلق عرب سے بھی نہیں تھا۔ عرب نہیں عجم میں بھی داماد اور سسر ایک دوسرے کے اہل بیت نہیں ہوتے ہیں۔حضرت علی نبیۖ کے چچازاد بھائی تھے، جب بنی امیہ سے خلافت کی مسند چھڑائی گئی تو بنوعباس نے خلافت پر اسلئے قبضہ کیا کہ وہ نبیۖ کے چچا کی اولاد ہیں۔ بنو امیہ کا طاقت اوربنوعباس کا نبیۖ سے قرابتداری کی بنیاد پر مسندِ خلافت کرنے کی تاریخ سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے اور ان ادوار میں نبیۖ کے اہل بیت حسنی اور حسینی سادات پر مظالم کے پہاڑ ڈھانے کی وجہ بھی صرف یہی تھی کہ یہ لوگ اقتدار تک نہ پہنچ پائیں۔ بنی فاطمہ نے بھی اقتدار کا قبضہ سنبھالا تھا جو آغاخانی اور بوہری کی شکل میں آج موجود ہیں۔ امامیہ شیعہ نے پہلی مرتبہ ایران میں امام خمینی کی قیادت میں اقتدار حاصل کیا ہے اور اس سے پہلے ان کے ائمہ کہتے تھے کہ ”ہم میں سے جو خروج کریگا وہ ایسے طائر کا بچہ ہوگا جس کو اغیار نے پالا ہوگا”۔ امام حسن نے خون کے دریا کو روکنے کیلئے امیر معاویہ کی امارت کو تسلیم کرلیا لیکن پھر اقتدار ظالم بادشاہت میں تبدیل ہوگیا۔ اسلام اور پاکستان کی کہانی بھی ایک دوسرے سے بالکل ملتی جلتی ہے۔اللہ خیر کرے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

نواز شریف نے آئی ایم ایف سے اتنا قرضہ لیا کہ سود کی مد میں ادا کی جانی والی رقم ہمارے دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے۔

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ دسمبر2021۔ سوشل میڈیا پوسٹ
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کے اسلامی اسکالرکو انٹرویو میں کہا ہے کہ ریاست مدینہ کی فلاحی ریاست کا ماڈل بنانے کیلئے میں نے سیاست میں قدم رکھا۔آج امت مسلمہ کے قائدین میں طاقت و دولت کی دوڑ لگی ہوئی ہے، ان میں آزادی اور غیرت کا فقدان ہے، ہم نے جو جدوجہد کی ہے اس کے اثرات ہزاروں سال بعدتک مرتب ہوںگے، میرے سامنے مافیاز تھے،جنہوں نے میری20سال تک کردار کشی کی مگر آخر کار وہ ناکام ہوگئے !

وزیراعظم عمران خان ! اگر ایک طرف گردشی قرضوں کے سود کی رقم ہمارے ٹیکس کے محصولات سے بھی زیاہ ہو جس کا سارا بوجھ عوام پر مہنگائی کی صورت میں پڑے اور دوسری طرف لنگر خانے کھولے جائیں تو یہ ریاستِ مدینہ ہے؟

وزیراعظم عمران خان ! پاکستان کو مدینہ کی ریاست کا ماڈل بنانے کیلئے جس طرح بیٹنگ اور بالنگ آپ کررہے ہیں، اس پرذرا غور کرنے کی ضرورت ہے۔
جب نوازشریف نےIMFسے اتنے قرضے لے لئے کہ ہمارے دفاعی بجٹ سے زیادہ سود میں دی جانے والی رقم تھی تو ہم نے جلی حروف سے نشاندہی کردی تھی کہ نوازشریف بڑے سودی قرضے لیکر ملک میں خوشحالی نہیں بدحالی کے مرتکب بن رہے ہیںلیکن ہماری بات کسی نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ جب رونا رویا جارہاتھا کہ دفاعی بجٹ نے پاکستان کو غریب اور بدحال بنادیا ہے تو ہم نے بتادیا کہ اصل تباہی گردشی سودی رقم کی ہے جس کا ہمیں بہت جلد خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ دفاعی بجٹ کا تعلق اپنے دشمن کا سامنا کرنے کیلئے ہوتا ہے اور گھر میں بھی جس طرح کے حالات ہوتے ہیں ،اسی طرح سے اسلحہ وغیرہ کا اہتمام بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایک آدمی کو اپنے دشمن سے اپنی جان اور اپنی عزت کے خطرات کا سامنا ہو اور دوسری طرف وہ اسلحہ رکھنے کے بجائے قیام وطعام اور حلوے مانڈے کھانے پر بہت سارا مال خرچ کرے اور اپنے پاس بندوق پِسٹل نہیں رکھے۔ یہ غیرفطری بات ہوگی۔ جب مشرقی پاکستان میں ہماری فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو پاکستان کے اہل اقتدار نے ایٹم بم بنانے کا ٹھیک فیصلہ کیا تھا۔
اگر ایک گھر کا سربراہ یا تجارتی کمپنی کا چیف اپنے اثاثے پر سود لینے کا سودا کرے اور وہ نقصان ہی نقصان میں جارہا ہو تو ایک دن اپنے سارے اثاثوں سے بھی ہاتھ دھو لے گا۔ یہ بہت خسارے ، شرمندگی اور بوجھ کی تجارت ہوگی۔ ہمارے اصحابِ اقتدار اپنے ملک میں یہی تجارت کررہے ہیں۔پہلے اپنے ملک کو چلانے کیلئے سودی قرضے لینے پڑتے تھے کیونکہ ٹیکس چوری کی وجہ سے ملک کا نظام نہیں چل سکتا تھا۔ کسٹم اور انکم ٹیکس کے محکموں میں نوکریاں سب سے زیادہ فائدہ مند اسلئے سمجھی جاتی تھیں کہ ان میں چوری کا پیسہ بہت زیادہ ہوتاتھا۔ سیاسی خاندان بھی اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے تھے۔ بڑے تاجروں نے بھی ٹیکس چوری کرنے کے طریقۂ واردات کا پورا پورا فائدہ اٹھانا سیکھ لیا تھا۔ ٹیکسوں پر مملکت کا نظام چلتا تھا۔ ریاست چلانے کیلئے ٹیکس ناکافی تھا تو سودی قرضہ مجبوری تھا۔
جب سودی قرضے لینا شروع ہوئے تو پھر منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک بڑی بڑی رقم کی منتقلی اور جائیدادوں کی خریداری بھی سامنے آگئی۔ بہت بڑے پیمانے پر سیاستدانوں ،سول وملٹری بیوروکریسی کے اہم اہلکاروں اور ان کے آلۂ کار تاجروں نے بلیک منی سے اپنے منہ کالے کرلئے تو اچھائی اور برائی کی تمیز بھی ختم ہوگئی۔ اشرافیہ کو قرآن میں مترفین کہا گیا ہے جن کو خوشحال لوگ سمجھا جاتا ہے۔ ہردور میں اہل حق کی مخالفت اور اہل باطل کی حمایت ان لوگوں کا محبوب مشغلہ رہاہے۔ جب ہم نے مولانا فضل الرحمن، کراچی کے اکابر علماء اور بہت سارے لوگوں کو دیکھا تھا تو خوشحالوں کی فہرست میں شامل نہ تھے۔ مولانا فضل الرحمن ، مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا عبداللہ درخواستی،مفتی محمد نعیم، مفتی رشیداحمد لدھیانوی، مولانا یوسف لدھیانوی، مفتی ولی حسن ٹونکی، مولانا مفتی احمد الرحمن، مولانا اسفندیار خان،مفتی زرولی خان،مولانا حق نواز جھنگوی ،مولانا مسعود اظہر، مولانا اعظم طارق اور بہت سارے مذہبی لوگ غریبوں کی فہرست کا حصہ تھے لیکن آج یہ لوگ اور ان کی اولاد اور جماعتوں کے رہنما خوشحال ہیں۔ خوشحال سے مراد روحانی اور ذہنی خوشحالی نہیں ہے بلکہ مال واسباب کی خوشحالی ہے ۔
ججوں، بیوروکریٹوں، جرنیلوں ، سیاستدانوں اور تاجروں اور مذہبی طبقات کی غربت کم ہوگئی ہے اور یہ خوش آئند ہے لیکن ملک وقوم کی بدحالی کے ذمہ دار کون ہیں؟۔سب اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیںاور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے غریب عوام بدحال ہیں اور یہ لوگ خوشحال ہیں یا معاملہ کچھ دوسرا بھی ہے؟۔ کسی نے کسی کے منہ سے روٹی کا نوالہ نہیں چھینا ہے مگرپھر بھی مڈل کلاس ختم ہوگئی ہے ۔ایک طرف امیر طبقات ہیں جو ساتویں آسمان تک پہنچ چکے ہیں اور دوسری طرف غریب غرباء ہیں جو زمین کے ساتویں طبق میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ جب مڈل کلاس کا گزارہ مشکل ہوگیا ہے تو غریب کس حال پر پہنچے ہوں گے؟۔ آنے والے حالات زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں۔
اس سے پہلے پہلے کہ عدالت، فوج، سیاستدانوں، سول انتظامیہ، پولیس، بدمعاشوں اور غنڈوں کے ہاتھوں سے تمام حالات نکل جائیں اور غریب بہت بڑا طوفان برپا کردیں جس سے ایسی افراتفری پھیل جائے کہ سب کا سکون بھی غارت ہوجائے ،کوئی ایسا فارمولہ قوم وملک اور سلطنت کو دیا جائے جس سے ہم ایک اچھے نتیجے پر پہنچنے کی امید کرسکیں۔ اب معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ ہمارا تمام ٹیکس تقریباً سود کے مد میں جاتا ہے اور ریاست وحکومت کو چلانے کیلئے مزید سودی قرضے بھی لینے پڑتے ہیں۔ ایسے میں عمران خان کی طرف سے ایک کروڑ نوکری کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ تمام ریاستی اداروں کو بے روگاز کیا جائے گا۔
کامریڈ لعل خان نے کہا تھا کہ ” ہماری فوج میں اب یہ صلاحیت باقی نہیں رہی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کیلئے لڑسکے۔ اس میں مارشل لاء لگانے کی صلاحیت بھی ختم ہوچکی ہے اسلئے کہ اس کا کردار پٹواری، آڑھتی اور دلالوں کی طرح ہے۔ یہ انتہائی کرپٹ ہوچکی ہے۔ کرپٹ لوگوں میں عزت کی خاطر لڑنے مرنے کا کوئی جذبہ نہیں ہوسکتا ہے۔ اب یہ پیسے بنانے میں لگ چکی ہے”۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے حالیہ انٹرویو میں اسلامی سکالر کے سامنے علامہ اقبال کے شاہین کا ذکر کیاہے ۔ ہمارے وزیرستان میں ایک طرف ہماری فوج اور طالبان کے لوگ سرکاری کاموں میں بھتے وصول کرنے میں مصروف ہیں اور دوسری طرف چیک پوسٹوں پر فوجی جوان دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ سقوطِ مشرقی پاکستان بہت بڑا سانحہ تھا لیکن اس وقت بھی غیرت کا مظاہرہ ہماری فوج نے اسلئے نہیں کیا تھا کہ اپنے بنگالی بھائیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے پیپلزپارٹی اور سیاسی جماعتوں کو غیر مؤثر بنانے کیلئے لسانی اور فرقہ وارانہ فسادات کیلئے راہ ہموار کردی اور کٹھ پتلی سیاستدان متعارف کرائے تھے۔ جنرل حمیدگل نے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پر انتقامی جرنیلی انتشار تشکیل دیا تھا اور عمران خان کی تحریک انصاف کے بانی بھی وہی تھے۔
نوازشریف اور عمران خان ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔ دونوں نے پاک فوج کا بیڑہ غرق کرنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ظھر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدی الناس ”خشکی وسمندر میں فساد برپا ہوگیا بسبب لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے”۔یہ سب کرتوت ہماری ایجنسیوں کے ہی اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے جنہوں نے بنگلہ دیش کھو دیا۔ کشمیر کو آزاد نہیں کراسکے مگر روس اور امریکہ کو شکست دینے سے لوگوں کو ورغلارہے ہیں۔ ایک طرف میڈیا کا ایک مافیا نوازشریف کو سپورٹ کرنے کیلئے جھوٹ کے طوفان کھڑے کرتا ہے اور دوسری طرف کا میڈیا مافیا پاک فوج کے سر پر جھوٹ کے ہما بٹھا رہاہے۔
لعنت اللہ علی الکاذبین ” جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو” کا جملہ قرآن کی تلاوت میں مسلمان بڑے پیمانے پر پڑھتے ہیں اور اللہ کے فرشتے دن رات جھوٹوں پر لعنت بھیج کر ان کو اپنے انجام تک پہنچانے کا انتظار کررہے ہیں۔
پاکستان کے ہر طبقے میں اچھے لوگوں کی بالکل بھی کمی نہیں ہے۔ جنہوں نے ملک وقوم کا بیڑہ غرق کیا ہے اس میں کوئی خاص طبقہ سول وملٹری بیوروکریسی اور سیاستدان ملوث نہیں ہے بلکہ سب کو اللہ تعالیٰ نے مواقع دئیے ہیں اور سب میں اچھے اور برے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔سب کو اپنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ عمران خان ایک کرکٹر ہے اسلئے فلسفے جھاڑنا اس کی فیلڈ نہیں ہے۔
قوم کو سودی قرضے بڑھانے اور لنگر خانے کھولنے سے غیرتمند نہیں بنایا جاسکتا ہے۔جاوید ہاشمی سینئر سیاستدان ہیں ۔ جماعت اسلامی سے مسلم لیگ اور پھر تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کا حصہ بن گئے۔ ہاشمی صاحب کہتے تھے کہ ہم اپنے سیاسی قائدین کے مزارع نہیں ہیں۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ ایک مزدور ، نوکر اور مزارع میں کیا فرق ہوتا ہے۔ افغانی ایک دوسرے کو طعنہ دیتے ہیں کہ” تم پنجاب کے مزدور ہو”۔ ” امریکہ کے نوکر ہو”۔ اپنے ملک وقوم کی مزدوری اور نوکری میں ہر کوئی فخر محسوس کرتا ہے لیکن اغیار کی مزدوری ونوکری میں عار محسوس کرتا ہے۔ پاکستان کے بعض مردہ ضمیر لوگوں کی بات میں نہیں کرتا ہوں جو ایک طرف کہتے ہیں کہ ہم نے نیٹو کو شکست دی ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے نیٹو کیلئے صف اول کی خدمت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن میں منافقوں کیلئے فرمایا ہے کہ ” نہ یہ ادھر کے ہیں ،نہ ادھر کے۔ بس درمیاں میںتذبذب کا شکار ہیں”۔ لیکن مزارعت گھناؤنا فعل ہے جو بہت زیادہ مجبور نہ ہو تو وہ کسی کا مزارع نہیں بن سکتا ہے۔ اسلام نے مزارعت کو ختم کیا تھا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بریلوی دیوبندی حنفی اہل حدیث اور اہلسنت و اہل تشیع ڈیرہ اسماعیل خان، مولانا فضل الرحمان اور دیگر نامور علمائے کرام اور مفتیوں کا اجلاس بلائیں، اور مجھے بلا کر لوگوں کی جانیں بچائیں۔ حلالہ کی لعنت

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر2021۔ صفحہ نمبر4
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

ڈیرہ اسماعیل خان کے دیوبندی بریلوی ، حنفی اہلحدیث اوراہلسنت واہل تشیع مولانا فضل الرحمن اور دیگر اکابرعلماء ومفتیان کا اجلاس بلائیں اورمجھے طلب کریں،تاکہ حلالہ کی لعنت سے عوام کی جان چھڑائیں!

جب طلاق کی واضح آیات پر علماء ومفتیان کی غلط فہمی دور ہوگی تو مرزاغلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت اورقادیانیوں کا بھی بیڑا غرق ہوجائیگا

محترم السلام علیکم_
ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے موضع شور کوٹ کے ایک مولوی کا جو اپنے آپ کو مفتی کہتا ہے دیا گیا ایک فتویٰ بھیج رہا ہوں تسلی فرما کر قرآن و سنت کے مطابق جواب عطا کرکے عند اللہ ماجور فرمائیں۔ جبکہ جس نے طلاق دی وہ کہتا ہے کہ میں نے اپنے بیان میں قرآن پاک کا تذکرہ نہیں کیا تھا اور نہ اس وقت اس مولوی کے ساتھ کوئی دوسرے علماء بیٹھے ہوئے تھے۔ اصل میں اس مفتی کے فتوے کو رد کرنا ہے کیونکہ اس مولوی نے پورے شہر میں کہا کہ اگر یہ لوگ نکاح ثانی بغیر حلالہ کے کرتے ہیں تو عورت مرد زنا کے مرتکب ہوں گے اور زانی سے ہر قسم کے تعلقات کا بائیکاٹ کیا جائے ۔ اب یہ لوگ پریشان ہیں۔ شکریہ۔ و السلام
از محمد ادریس علوی صوبائی جنرل سیکریٹری تحریک استقلال پاکستان خیبر پختونخواہ

_ بسم اللہ الرحمن الرحیم_
الاستفتا ء :کیا فرماتے ہیں علماء دین مفتیان شرع متین کہ بقول غلام صمدانی اس نے اپنی زوجہ ہاجرہ بی بی کے مطالبہ پر بایں صورت کہ زوجہ نے شوہر کی گود میں قرآن رکھا اور طلاق کا مطالبہ کیا۔ اب غلام صمدانی نے علماء کے سامنے اور اپنی زوجہ کے سامنے دوران بیان اقرار کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیں اور اس کی بیوی منکر ہے کہ بعض الفاظ میں نے نہیں سنے۔ اور اس کی بیوی رو رہی تھی اور غلام صمدانی مسلسل اپنی زوجہ کے سامنے مذکورہ بیان دیتا رہا۔ ان بیانات پر حکم شرع بیان فرمائیں۔

_ الافتا ئ_
صورت مسئولہ میں عدت بائنی مغلظہ ہے۔ اور بلا تحلیل کے زوج اول حلال نہ ہوگی۔ کما فی التنزیل :فلا تحل لہ حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ الآیہحضرت عبد اللہ بن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا۔ اور آپ حضرات نے جواب دیا ۔فقالا لانری ان تنکحھا حتی ……
حررہ سنی حنفی قادری ۔آل رسول محمد شعیب شاہ گیلانی ۔
مدرس فیضان مدینہ، خادم العلماء و الافتائ۔ خادم جامعہ غوث الاعظم دستگیر۔ شور کوٹ ۔ ڈیرہ اسماعیل خان ۔

محترم ادریس علوی صاحب
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
صورت مسئولہ میں شرعاً حنفی وشافعی ، دیوبندی ،بریلوی اور دیگر تمام مسالک کے نزدیک بیوی کی رضامندی کیساتھ رجوع کرنا قرآن وسنت کاحکم ہے اور حلالہ کی لعنت قرآن وسنت کے خلاف قطعی طور پر حرام ہے۔ قطعی دلائل یہ ہیں کہ
علامہ ابن قیم اپنی کتاب ” حکم رسول اللہۖ فی الخلع ” کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: وثبت بالسنة واقوال الصحابة أن العدة فیہ حےة واحدة و ثبت بالنص جوازہ بعد الطلقتین و وقوع ثالثة بعدہ و ھذا ظاہر جدا فی کونہ لیس بطلاق فانہ سبحانہ تعالیٰ قال:الطلاق مرتان فامساک بمعروف أو تسریح باحسان ولایحل لکم أن تأخذوا مما ء اتیتموھن شیئا الا ان یخافا االا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ]البقرة:٢٢٩[وھذا ان لم یختص بالمطلقة تطلیقتین فانہ یتناولہا غیرھما ولا یجوز أن یعود الضمیر اِلی من لم یذکر ویخلی منہ المذکور اِ ما ان یختص بالسابق أو یتنالہ و غیرہ ثم قال فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد وھذایتناول من طلقت بعد فدیة و طلقتین قطعاً لأنھا ھی المذکورة فلا بد من دخولھا تحت اللفظ وھکذا فھم ترجمان القرآن الذی دعا لہ رسول اللہۖ أن یعلمہ اللہ تأویل القرآن و ھی الدعوة مسجابة بلا شک زاد المعاد جلد ٤،ص١٧
اس عبارت میں حنفی مسلک کے خلاف خلع کو طلاق سے علیحدہ چیز بتایا ہے اوراس میں سنت، صحابہ کے اقوال اور قرآن کے نص کی دلیل کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور عبارت کے آخر میں لکھا گیا ہے کہ ” آیت تحلیل میں مذکورہ عورت جس کو طلاق دی گئی ہو فدیہ اور دو مرتبہ طلاق کے بعد قطعی طور پر اسلئے کہ اس کو تحت اللفظ کے تحت داخل کئے بغیر چارہ نہیں اور اسی طرح کا فہم حضرت عبداللہ ابن عباس ترجمان القرآن ہے جس کو نبیۖ نے دعا دی تھی کہ اللہ اس کو قرآن کا علم دے اوروہ دعا بلا شک قبول ہوئی ہے۔ زادالمعاد ج4ص17
علامہ ابن قیم نے یہاں اس عبارت میں احناف کے مقابلے میں امام شافعی کے مسلک کی خلع کے حوالے سے حمایت کی لیکن پھر بھی فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ الآیہ کو اس سے پہلے فدیہ اور دومرتبہ طلاق کیساتھ ہی نتھی کردیا۔ اور اس کیلئے حضرت ابن عباس کے فہم کا حوالہ بھی دیدیا۔ جبکہ حنفی مسلک کی اصول فقہ کی کتابوں میں بھی اس آیت کو فدیہ کیساتھ ہی منسلک کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہی بنتا ہے کہ اس آیت میں مذکور طلاق کا تعلق احناف کے نزدیک بھی فدیہ کی صورت سے ہی ہے۔
حضرت ابن عباس کی طرف یہ بھی منسوب ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق کو ایک قرار دیتے تھے اور بعض شاگردوں نے یہ بھی کہا کہ جب کسی شخص نے پوچھا کہ میں نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دی تھیں تو ہم سمجھ رہے تھے کہ وہ اس کو اس کی بیوی لوٹادیں گے لیکن اس نے کہا تمہاری بیوی تم سے الگ ہوچکی ہے کیونکہ تو نے اللہ کا خوف نہیں کھایا اور جس چیز میں رعایت تھی اس کا غلط استعمال کیا۔
ابن عباس کے دونوں قسم کے فتوؤں کے تضاد میں یہ تطبیق ہے کہ جب عورت رجوع کیلئے راضی ہو تو پھر قرآن کے مطابق رجوع کا حکم ہے ا ور جب رجوع کیلئے راضی نہ ہو تورجوع حرام ہے اور یہ صرف آیت230البقرہ کا تقاضہ نہیں بلکہ آیت228،229اور231،232البقرہ اور سورۂ طلاق آیت1،2 کا بھی یہی حکم ہے۔ صورت مسئولہ میں عورت راضی ہو توحلالہ کئے بغیر رجوع کا حکم قرآن وسنت سے ثابت ہے اور عورت راضی نہ ہو تو شوہر کیلئے رجوع حرام ہے۔ صحابہ کرام، ائمہ عظام کا قرآن کے واضح احکام پر اجماع تھا اور اسکو بعد میں نااہل لوگوں نے غلط رنگ میں پیش کرکے نااہلی کا ارتکاب کیا۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکستان اور دنیا کے بیشتر ممالک سے حلال کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے ہم نے فتویٰ جاری کیا ہے۔

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر2021۔ صفحہ نمبر4
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

پاکستان اور دنیا بھر کے اکثر ممالک سے حلالہ کی لعنت کو ختم کرنے کیلئے بہت سوں کو ہم نے فتویٰ دیا اور بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث علماء ومفتیان اپنے مسلک کے برعکس قرآن وسنت کی تائیدکر رہے ہیں

_ سورۂ طلاق اور حدیث پاک_
صفحہ نمبر ایک پر سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات کا بالکل سادہ مفہوم لکھ دیا ہے تو کیا حدیث سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے؟۔ اس سوال کا تسلی بخش جواب یہی ہے کہ دورجاہلیت میں مذہبی گدھوں نے طلاق کے شرعی تصور کا حلیہ بالکل بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ ایک ایسی فضاء تھی کہ اس سے نکالنے کیلئے قرآن کریم کو ایک ایک بات پر زبردست وضاحتوں سے کام لینا پڑا تھا۔ جب ایک غلط چیز معاشرے میں سرایت کرجائے اور معاشرہ اس سے متأثر ہوجائے تو بہت مشکل پڑتی ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے اللہ کی وحی کو بھی اپنی آخر حد تک جانا پڑتا ہے۔
حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : میں ایک ایسی آیت جانتا ہوں کہ اگر تمام لوگ اس پر عمل کریں تو وہ آیت انہیں کافی ہوگی۔ صحابہ نے پوچھا : یارسول اللہ ! وہ کون سی آیت ہے؟۔ تو آپ ۖنے فرمایا:
ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجًا (الطلاق:2) اور جو اللہ سے ڈرا تو اللہ اس کیلئے راستہ بناتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث:4220، صحیح ابن حبان) تفسیر تبیان القرآن ،ج12، صفحہ69۔ علامہ غلام رسول سعیدی)
جب نبی کریم ۖ نے طلاق کی دوسری آیت کو اتنی اہمیت دی ہے تو اس میں صرف تقویٰ کی بات نہیں ہے کیونکہ تقویٰ کا ذکر تو بہت سی آیات میں ہے۔ سورۂ طلاق کی آیت2میں طلاق کے تمام مسائل کا حل ہے۔ جس میں قرآن کی وضاحتوں کے مطابق طلاق دینے اور پھر اس سے رجوع کیلئے راستہ کھلا رکھنے کا معاملہ ہے۔ پہلا معاملہ یہ ہے کہ طلاق مرحلہ وار دی جائے، دوسرا معاملہ یہ ہے کہ عورت کواس کے گھر سے نہ نکالا جائے اور نہ وہ خود نکلے۔ تیسرا معاملہ یہ ہے کہ عدت کی تکمیل تک پہنچنے پر معروف رجوع یا معروف الگ کرنے پر عمل کیا جائے ۔اور اس میں عورت کے مال کو تحفظ فراہم کیا جائے اور پھر بھی رجوع کے دروازے کو کھلا رکھا جائے اور یہ نبیۖ کا لوگوں کیلئے کافی ہونے کا فتویٰ ہے۔
حضرت رکانہ کے باپ نے رکانہ کی والدہ کو طلاق دی اور دوسری عورت سے شادی کرلی، اس نے رکانہ کے نامرد ہونے کی شکایت کردی تو نبیۖ نے فرمایا کہ رکانہ کے بچے اس سے کس قدر مشابہہ ہیں اور پھر اس عورت کو چھوڑنے کا حکم دیا اور حضرت رکانہ کی والدہ سے رجوع کا حکم فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو تین طلاق دے چکا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: مجھے معلوم ہے اور سورۂ طلاق کی ابتدائی آیات کی تلاوت فرمائی۔ ( سننن ابوداؤد شریف)
قرآن میں جتنی وضاحت کیساتھ طلاق اور اس سے رجوع کے احکام ہیں اور اس سے امت مسلمہ نے غفلت اختیار کررکھی ہے تو اللہ تعالیٰ نے بجا فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ کے رسول ۖ امت کے خلاف یہ شکایت فرمائیں گے کہ وقال الرسول یاربّ ان قومی اتخذوا ہذالقرآن مھجورًا ” اور رسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ طلاق سے رجوع کیلئے سورۂ طلاق کی آیت2بھی امت کیلئے عمل کی کافی دلیل ہے۔کاش علماء ومفتیان اس پر عمل کا فتویٰ دیکر امت کا کافی بھلا کریں۔

_ قرآن کے تراجم میں گمراہی_
شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اورشیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی تفاسیر اور تراجم میں بھی تضادات ہی تضادات ہیں۔ اسی طرح مولانا احمد رضا خان بریلوی، مولانا پیر کرم شاہ الازہری اور علامہ غلام رسول سعیدی کی تفاسیر اور تراجم میں تضادات ہی تضادات ہیں۔ اگر کسی ایک مکتب فکر ،مسلک اور فرقے کے علماء ومفتیان میں قرآن کے ترجمے پر بھی بنیادی تضاد ہو تو اس سے ہدایت کیسے مل سکتی ہے؟۔
وجہ اس کی یہی ہے کہ قرآن کا سادہ ترجمہ اور تفسیر انکے مسلکوں پرپورا نہیں اترتی ہیں۔1973ء کو ہندوستان میں ”ایک مجلس کی تین طلاق ”پر سیمینارمنعقد ہوا۔ جس کی صدارت دیوبندی مکتب کے مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے کی تھی ۔ اس میں جماعت اسلامی، بریلوی مکتب، اہلحدیث اور دیوبندی مکتب کے اکابر علماء و مفتیان نے شرکت کرکے اپنے اپنے مقالے پڑھے تھے اور یہ پاکستان سے بھی کتابی شکل میں شائع ہوئے ہیں۔ جس میں مولانا پیر کرم شاہ الازہری کا کتا بچہ” دعوت فکر ” بھی شامل کیا گیا ہے۔ ان میں حلالے کی لعنت سے جان چھڑانے کی زبردست کوشش کی گئی ہے اور اس کو ایک جرأتمندانہ اقدام قرار دیا گیاہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کے تراجم اور تفاسیر میں جو بہت فاش غلطیاں کی گئیں ہیں تو ان کا ازالہ کئے بغیر امت مسلمہ کی درست رہنمائی ممکن نہیں ہے۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے ” آسان ترجمۂ قرآن ” میں عربی کے الفاظ میں بھی کھلم کھلا تحریف کا ارتکاب کیا ہے۔ اذابلغن اجلھن کے الفاظ قرآن میں متعدد بار آئے ہیں۔ سورہ ٔ بقرہ کی آیات231،232،234میںاور سورۂ طلاق آیت2میں ایک ہی لفظ کا مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے مطلب کیلئے پہلی مرتبہ متضادترجمہ کیا ہے۔ تکاد السمٰوٰت ُ من فوقھن والملئکة یسبحون بحمد ربہم ویستغفرون لمن فی الارض (الشوریٰ آیت:5) کی تفسیر میں احمق نے لکھ دیا ہے کہ ” فرشتے اتنی تعداد میں آسمان میں عبادت کرتے ہیں کہ قریب ہے کہ آسمان ان کے وزن سے پھٹ جائے اور نیچے گر جائے”۔
جب سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے پر عوامی دباؤ پڑا تھا تو مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں ” تکملہ فتح الملہم ” اور”فقہی مقالات جلد4” سے اس کو روزنامہ اسلام اخبار اور ہفت روزہ ضرب مؤمن کراچی میں نکالنے کا اعلان کردیا تھا۔ گھوڑے کیلئے اشارہ کافی ہوتا ہے اور گدھوں کو مارپیٹ اور تشدد سے راستے پر لایا جاتا ہے۔ قرآن میں توراة کی تحریف کے مرتکب یہود کے علماء کی مثال بھی گدھے سے دی گئی ہے۔اردو میں کہا جاتا ہے کہ فلاں کی ماں بہن ایک کردی ہے۔ یعنی اس گالی کو کسی کی حالت بری کردینے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور پشتو زبان میں کسی کی حالت بری کرنے کیلئے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے کہ اسکی بیوی……… دی ہے۔ حلالہ کے نام پر علماء ومفتیان نے امت مسلمہ کیلئے وہی عمل کردیا ہے جو پشتو کی گالی ہے۔ اسلام کے نام پر کسی کو بیوی کی لعنت کا شکار کرنے سے بڑی بات کیا ہوسکتی ہے؟۔ مگر امت پھر بھی غیرت نہیں کھاتی ہے۔

قرآن کریم کے بہت واضح حقائق
سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات کے ترجمے وتفسیر میں بھی علماء ومفتیان اور نام نہاد اسلامی دانشوروں کے تضادات ہی تضادات ہیں اور اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ان کا مسلک، عقیدہ اور نظریہ قرآن کے الفاظ پر پورا نہیں اترتا ہے۔ اپنے لئے قرآن کے الفاظ کا مفہوم بدلنا کتنی بڑی گمراہی ہے؟۔ علامہ اقبال نے کہا: خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق؟
سورۂ بقرہ کی آیات222سے232تک دو رکوع کے مضامین اور232تک جتنی وضاحتوں کیساتھ اللہ تعالیٰ نے طلاق کے مسائل بیان فرمائے ہیں اور طلاق سے رجوع کیلئے جس طرح کی بھرپور وضاحتیں کردی ہیں،اگر قرآن کے مسائل کو قرآن ہی کے ذریعے سمجھنے کو اولیت دی جائے، جس طرح فقہ حنفی میں درسِ نظامی کی تعلیمات کادرست خلاصہ بھی ہے توپوری دنیا میں ہدایت کا ایک ایسا انقلاب آسکتا ہے جس کی خوشخبری رسول اللہۖ نے فرمائی ہے کہ اس سے آسمان وزمین والے دونوں کے دونوں خوش ہونگے۔ یہ دنیا کی پہلی خلافت اور نبیۖ کا وہ خواب ہوگا جو کھلی آنکھوں سے نبی کریم ۖ کو اللہ نے معراج میں دکھایا تھا۔ جس مشاہدے میں نبیۖ نے تمام انبیاء کرام کی بیت المقدس میں امامت کی تھی۔ سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں واقعہ معراج کا ذکر ہے ۔ اللہ نے قرآن وسنت کے ذریعے اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ دلانا ہے۔ جس کا قرآن میں جگہ جگہ تذکرہ ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت60میں دوچیزوں کو امت کی آزمائش قرار دیا گیا ہے ،ایک نبیۖ کے خواب کو جو دن کے غالب کرنے کا وژن تھا اور دوسرا قرآن میں شجرۂ ملعونہ کو آزمائش کا سبب قرار دیا گیاہے ۔
سورۂ بقرہ کی230میں جس طلاق کے بعد حلالہ کئے بغیر پہلے شوہر سے رجوع نہ کرسکنے کی کھلی وضاحت ہے تو یہ امت کو قرآن کی طرف متوجہ کرنے کا بھی سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اگر اس سے پہلے کی آیات228،229اور بعد کی آیات231اور232کو نظر انداز کرکے حلالہ کی لعنت کا حکم دیا جائے توپھر یہ امت مسلمہ کیلئے بہت بڑی خرابی، قرآن کو چھوڑنے کے علاوہ بہت بڑی بے غیرتی کا باعث ہے۔ اُمت مسلمہ کے زوال کی ابتداء وہاں سے شروع ہوئی تھی جب سورۂ نور کی آیات میں لعان کے حکم پر اسلئے عمل نہیں کیا گیا کہ مشرقی غیرت کے تقاضوں کے خلاف تھا اور اس کے زوال کی انتہاء اس وقت شروع ہوئی کہ جب قرآن میں شجرہ ملعونہ کے ذکر حلالہ کی لعنت کو سیاق وسباق کے بغیر لوگوں پر مسلط کیا گیا اور بے غیرت لوگوں نے قرآن وسنت کی طرف توجہ کرنے کی جگہ اپنی بیگمات کی عزتیں بھی پہلے چھپ کر اور اب کھل کرلٹواناشروع کردیں۔
سورہ بقرہ کی ان آیات میں اول سے آخر تک باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کرنے کی زبردست گنجائش بلکہ واضح حکم ہے اور حلال نہ ہونے سے پہلے وہ صورت ہے جس میں نہ صرف میاں بیوی بلکہ جدائی کا فیصلہ کرنے والے سب لوگ اس پر اتفاق کریں کہ آئندہ رابطے کی بھی ان دونوں میں کوئی صورت باقی نہ رہے، جس میں صلح کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتاہے۔

_ بے غیرتی کی انتہاء کا یہ آغاز_
آج سے تقریباً21،22سال پہلے جب میں جامعہ العلوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر مدارس میں پڑھتا تھا تو طلاق اور حلالے کے فتوے نام کے بغیر دئیے جاتے تھے۔ ایڈریس کیساتھ حلالے کا فتویٰ بہت قریب کے دور میں شروع ہوا ہے۔ کس کی بیوی کا حلالہ ہوا؟۔ کس کی تحویل میں کس نے حلالہ کیا؟۔ کسی کو کانوں کان بھی خبر نہیں پڑتی تھی۔ شرافت رکھنے والے علماء اور عوام اس کا تذکرہ بھی بہت معیوب سمجھتے تھے۔ پھر کھلم کھلایہ بے غیرتی شروع ہوئی اور حلالہ سینٹروں کی دنیا بھر میں بھرمار ہوئی اور مدارس کے علماء ومفتیان نے ایڈریس اور شناختی کارڈ کیساتھ فتوے دینے شروع کردئیے۔
1947سے1988تک پاکستانIMFکے قرضے سے آزاد تھا اور پھر2004سے2008تک پھرIMFکے سودی قرضوں کا غلام بن گیا۔ ”موت کا منظر ”نامی کتاب بہت عام ہے اور سن1970ء کی دہائی میں مجھے اس کے پڑھنے کا موقع ملا تھا، اس میں زنا بالجبر کی سزا کا ذکر ہے کہ نبیۖ نے ایک عورت کی گواہی قبول کرکے اس شخص کو سنگسار کرنے کا حکم دیا جس نے اس کا ارتکاب کیا تھا۔ قرآن کی سورۂ احزاب میں بھی عورتوں کی بے حرمتی کرنے پر ملعونوں کو جہاں پایا جائے ،ان کو پکڑ کر قتل کرنے کی سزا کا حکم پہلی امتوں کے حوالے سے بھی اللہ کی اس سنت کا ذکر ہے۔ جب کوئی اپنے مال پر ڈاکہ ڈالنے والے ڈکیت کو قتل کرتا ہے تو داد پاتا ہے اور حدیث میں آیا ہے کہ اگر گھر میں داخلے پر چور کو قتل کیا جائے تو اس کا گھر والے کو حق ہے۔ پھر کون اتنا بے غیرت ہوگا کہ کسی عورت کی عزت زبردستی سے لوٹی جائے اور وہ عدالتوں سے سزا دلوانے کیلئے4گواہوں کو پیش کرے؟۔ ایسے لوگوں کو قتل کرنا ہر قوم ومذہب اور ہردور کا تقاضہ تھا۔ جس قانونِ فطرت کی قرآن نے بھی وضاحت کردی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جسٹس مفتی تقی عثمانی نے حدود آرڈنینس کے نام پر ”یہ قانون” بنایا تھا کہ ” اگر کسی عورت پر زنا بالجبرہو اور اس کے پاس4باشرع مرد صالح گواہ نہیں ہوں تو اس کو حدقذف کے تحت سزا دی جائے گی”۔ جب پرویزمشرف کے دور میں بہت سی خواتین اسلئے جیل میں بند تھیں کہ انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف شکایت کی تھی تو اس قانون کو بدل دیا گیا۔ جس پر مفتی تقی عثمانی اور جماعت اسلامی نے پمفلٹ شائع کرکے شور شرابہ کرنیکی کوشش کی تھی مگر میں نے اس کا مدلل جواب لکھ کر خاموش کردیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن اس وقت اپوزیشن لیڈر تھے ۔2006ء میں یہ قانون تبدیل ہوگیا مگر اب پھر جناح کے مزار میں زیادتی کا شکار ہونے والی پنجاب کی بیٹی کے مجرموں کو اسی پہلے قانون کے تحت باعزت رہا کردیا گیا ہے، حالانکہ اس عورت نے مجرموں کو پہچان لیا تھا اور ان کاDNAسے بھی ثبوت ملا تھا۔ عالمی دباؤ کے تحت اگر قرآن وسنت کے مطابق پاکستان جبری زیادتی کرنے والوں کو قتل اور سرِ عام سنگسار کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرسکتا تو کم ازکم حلالہ کی لعنت سے امت مسلمہ کی جان چھڑانے میں کوئی عالمی دباؤ بھی نہیں ہے۔ اندر ونی صفحات پر تسلی بخش دلائل ملاحظہ کریں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv