دسمبر 2021 - Page 2 of 2 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

طلاق کے مسائل کا بگاڑ۔ مولانا فضل الرحمان ایک انقلابی شخصیت ہیں۔ علمائے دیوبند اور بریلوی پہل کریں۔

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر2021۔ صفحہ نمبر3
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

اب ہم کو قرآنی آیات اور طلاق سے رجوع کے احکام کو نظر انداز کرنے کی روش سے کھل کر توبہ کرنے کی سخت ضرورت ہے

جب ایک عورت پر حلالہ کی مصیبت پڑتی ہے تو اس کے پاؤں سے زمین بھی نکل جاتی ہے اور آسمان بھی سایہ فگن نظر نہیں آتا ہے۔ جب حضرت مریم نے بچے کی خوشخبری سنی تھی تو اس نے فرمایا تھا کہ ” کاش مجھے ماں نے جنا نہیں ہوتا اور میں نسیاً منسیا بھولی بسری بن جاتی”۔ حال ہی میں جب ایک19سالہ لڑکی کو ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالے کا مژدہ سنایا گیا تو اس نے خود کشی کرلی تھی۔ جس عورت کا حلالہ کیا جاتا ہے تو وہ اور اسکے خاندان والے ویسے بھی زندہ زمین میں گڑ جاتے ہیں۔ دورِ جاہلیت میں دو قسم کے لوگ تھے ،ایک بے غیرت تھے جن کی خواتین سے ایک ساتھ تین طلاق کے نام پر حلالہ کی لعنت کروائی جاتی تھی اور دوسرے غیرتمند خاندان ہوتے تھے جن کی بیویوں کو ایک ساتھ تین طلاق پر اپنے شوہروں سے ہمیشہ کیلئے جدا کردیا جاتا تھا۔ جن عورتوں کا حلالہ کروایا جاتا تھا ،ان کا معاملہ اور مثال زندہ دفن کرنے کے مترا دف ہی ہوتا تھا۔
قیامت میں ہمیشہ کیلئے جدا کئے جانے والوں کو ملایا جائیگااورزندہ دفن کئے جانے والی سے پوچھا جائیگا کہ کیوں زندہ دفن کیا گیا؟۔ واذا النفوس زوجتOواذالمو ء ودة سئلتOبای ذنب قتلت۔ آج یہاں دوبارہ دورِ جاہلیت کا زمانہ لوٹ آیا ہے۔ کسی مولوی، کسی لیڈر اور کسی بڑے شخص کی بیگم ، ماں، بیٹی اور بہن یا کسی قریبی رشتہ دار کا حلالہ کروایا جائے تو اس کو یہ پتہ بھی چل جائے گا کہ زمین میں زندہ دفن ہونے کے مترادف ہے یا نہیں؟۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بعض انسانوں کو اَنعام یعنی چوپاؤں سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔ جن وحشیوں کے نزدیک حلالہ کی لعنت ایک سزا ہے اور جرم مرد کرتا ہے اور اس کی سزا عورت کو ملتی ہے تو ان وحشیوں کو ایک دفعہ یہاں بھی جمع کرنا چاہیے تاکہ قیامت سے پہلے ایک قیامت اور جزا وسزا کا میدان سج جائے۔
کیا کوئی یہ تصور بھی کرسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شوہر کے جرم میں اس کی بیوی کو کسی اور شوہر کے ذریعے ریپ کرنے کی سزا دے سکتا ہے؟۔ پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے تمام حدود معطل ہیں۔ زانی، چور، ڈکیت ، قاتل اور زنابالجبر کے مرتکب کو کوئی سزا نہیں دی جاتی ہے لیکن حلالہ کی لعنت کو شرعی سزا کے طور پر جاری رکھا ہواہے۔ ایک عرصہ سے مختلف کتابوں ،اخباراور ویڈیو کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مجھ ناچیز سے یہ کام لیا ہے جس پر اللہ کے اس بڑے فضل کا بہت شکرادا کرتا ہوں لیکن بڑے بڑے لوگ میدان میں کیوں نہیں آتے ہیں؟۔ پاکستان میں اہل حق کا دعویٰ کرنے والے اور بھی بہت لوگ ہیں مگر اس طرح سے ہمارا ساتھ نہیں دیتے ہیں۔ میرے چند ساتھی ہی میرا ساتھ دے رہے ہیں لیکن ہمارامشن اتنا بڑا ہے جتنا ہم اپنے اللہ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں اور ہمارا مشن قرآن ہے جس کو رب العالمین نے اتارا ہے اور ہمارا نبی خاتم النبیین ۖ ہیں جو رحمة للعالمین بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ حلالہ ایک لعنت اور زحمت ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے طلاق کے مقدمہ میں فرمایا ہے کہ ” اپنے عہدوپیمان کو ڈھال مت بناؤ کہ نیکی ، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ”۔ البقرہ : آیت224
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام الفاظ اور عمل کو نیست ونابود کردیا ہے جو میاں بیوی کے درمیان صلح کے اندر کسی قسم کی کوئی رکاوٹ کا سبب بن جائیں۔ اس سے اگلی آیات میں الفاظ کی جگہ دل کے گناہ پر پکڑکی وضاحت ہے اور پھر طلاق کا اظہار کئے بغیر عورت کے انتظار کی عدت چار مہینے بتائی گئی ہے لیکن اگر طلاق کا عزم تھا تو اس پر اللہ کی پکڑ ہوگی اسلئے کہ یہ دل کا گناہ ہے اور اس کی وجہ سے عورت کی عدت میں ایک مہینے کا اضافہ ہے اور اگر طلاق کااظہار کردیا توپھر عورت کی عدت تین مہینے ہے۔ دیکھئے آیات225،226،227،228
اللہ کیلئے عورت کی عدت میں بے جا ایک مہینے کا اضافہ بھی قابل قبول نہیں ہے اسلئے کہ اگر طلاق کا ارادہ تھا لیکن اسکا اظہار نہیں کیا تو اس پر اللہ کی پکڑ ہے۔
احناف کے نزدیک چار ماہ گزرتے ہی طلاق واقع ہوگی اسلئے کہ شوہر نے اپنا حق استعمال کرلیا۔ جمہور کے نزدیک جب تک شوہر طلاق کے الفاظ کا زبان سے اظہار نہیں کرے گا تو شوہر نے اپنا حق استعمال نہیں کیا اسلئے عورت اس کے نکاح میں ہی رہے گی۔ جمہور نے تو چار مہینے کی وضاحت کا لحاظ بھی نہیں رکھا تھا اسلئے ان کی گمراہی میں شک کی گنجائش بھی نہیں ہونی چاہیے لیکن احناف نے بھی چار ماہ گزرنے کے بعد طلاق پڑنے کا مسئلہ بنایا ہے جس کے بعد عورت کو مزید عدت بھی گزارنی پڑے گی اسلئے وہ حق کے قریب ہونے کے باوجود بھی گمراہی کا راستہ نہیں بھولے ہیں اور امام مہدی کے انتظار میں ہدایت کے منتظر ہیں۔
بڑی ضلالت اور گمراہی یہ ہے کہ قرآن کی وضاحت کے باوجود اتنے بڑے تضادات کا کیسے شکار ہوئے ہیں؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے اس کی عدت کا تعین کیا ہے اور عورت ہی کا حق بیان کیا ہے لیکن یہ الو کے پٹھے اس بات پر لڑتے ہیں کہ شوہر کا حق استعمال ہوا ہے کہ نہیں؟۔ اگر یہ اس بات پر توجہ دیتے کہ اللہ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے اس کے حق کا ذکر کیا ہے تو اس روشن آیت پر تضادات تک نوبت نہ پہنچتی۔ جب عورت کی عدت بیان ہوئی ہے تو پھر عورت کیلئے چار ماہ کا انتظار ضروری ہے اور اس میں بھی عورت کی رضامندی سے ہی رجوع کی وضاحت ہے اور عدت مکمل ہونے کے بعد اگر عورت پھر بھی اسی شوہر کیساتھ رہنا چاہتی ہو تو اوراس کا شوہر بھی راضی ہو تو کتنی ہی مدت گزرجائے تونکاح بحال ہے اور اگر عورت عدت کی تکمیل کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح کرنا چاہے تو اس شوہر کیلئے پھر عورت پر پابندی لگانا حرام ہے اور اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ دوسرے شوہر ہی سے عورت اپنی مرضی سے نکاح کرلے۔ جس طرح بیوہ عورت کی مرضی ہے کہ عدت پوری ہونے کے بعد اپنے مردہ شوہر سے نکاح بحال رکھنا چاہتی ہے یا پھر نئے شوہر کا اپنی مرضی سے انتخاب کرتی ہے۔ اسی طرح ناراضگی کابھی اسے بدرجہ اولیٰ یہی حکم ہے۔ کاش قرآن کے احکام کو سمجھ کر فیصلے کئے جائیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ آیت228میں تین چیزوں کا ذکر کیا ہے ایک حیض کی صورت میں عدت کے تین مراحل تک عورت کو انتظار کا حکم دیا ہے اور حمل کی صورت میں حمل کو چھپانے سے منع کیا ہے اسلئے کہ پھر عدت حمل ہے۔ دوسرا یہ کہ عدت کے دوران شوہر کو اصلاح کی شرط پر رجوع کی اجازت دی ہے۔ تیسرا یہ کہ مردوں اور عورتوں کے حقوق کو برابر قرار دیا گیا ہے لیکن مردوں کو ان پر ایک درجہ عطاء کیا گیا ہے۔ ایک درجہ یہی ہے کہ عورت کی عدت ہوتی ہے اور مردکی عدت نہیں ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ دو، تین اور دس درجات نہیں دئیے گئے۔
آیت کا پہلاتقاضہ یہ ہے کہ ایک طلاق کے بعد بھی صلح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور تین طلاق کے بعد بھی صلح کی شرط پر عدت میں رجوع ہوسکتا ہے۔ دوسرا تقاضہ یہ ہے کہ حیض کی حالت میں تین مرتبہ طلاق کا فعل خود بخود وارد ہوگا اور حمل کی صورت میں عدت کے تین مراحل اور تین مرتبہ طلاق کے فعل کا کوئی اطلاق نہیں ہوسکتا ہے۔ صحیح بخاری کی احادیث میں نبیۖ نے یہی وضاحت فرمائی ہے جو کتاب التفسیر سورہ ٔ طلاق، کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں موجود ہے۔ اگلی آیت229البقرہ میں بھی اسی کی وضاحت ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ آیت229میں الطلاق مرتان کے بعد تسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے۔ اصولِ فقہ کی کتابوں میں تضادات کی جھک ماری گئی ہے۔
آیت229البقرہ میں تینوں طلاق قرآن واحادیث اور انسانی فطرت سے ثابت ہیں کیونکہ قرآن وسنت میں طلاق کو ایک فعل بتایا گیا ہے اور پہلی مرتبہ کا طہر و حیض عدت کا پہلا مرحلہ اورپہلی مرتبہ کی طلاق ہے، دوسری مرتبہ کا طہروحیض عدت کا دوسرا مرحلہ اور دوسری مرتبہ کی طلاق ہے اور تیسری مرتبہ کاطہروحیض عدت کا تیسرا مرحلہ اور تیسری مرتبہ کی طلاق ہے۔ لیکن ان تینوں مرتبہ کی طلاق سے بھی حرمت غلیظہ ثابت نہیں ہوتی ہے جس کی وجہ سے دوسرے شوہر سے اس کا نکاح کرانا ضروری ہو۔ احناف کے نزدیک البقرہ آیت226کے چار مہینے میں طلاق کااظہار کئے بغیر بھی طلاق کا فعل واقع ہوجاتا ہے اور اگر عورت حیض والی ہو تو تین مرتبہ کی جگہ چار مرتبہ طلاق کا فعل واقع ہوجاتا ہے لیکن اس سے حرمت مغلظہ ثابت نہیں ہوتی کیونکہ حرمت مغلظہ کا سبب ہی قرآن میں کچھ اور ہے۔
امت کی بڑی گمراہی کا سبب یہ ہے کہ آیت229میں تین مراحل کے اندر تین مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا ذکر نہیں ہے بلکہ طلاق کے بعد عورت کو شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیزوں کا ذکر ہے کہ ان کا واپس لینا جائز نہیں ہے۔ مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی نے بھی اپنی نری جہالت کی وجہ سے عورت کی طرف سے اس مجبوری کے فدیہ کو خلع کا معاوضہ قرار دیا ۔ حالانکہ یہ کتنی بھیانک بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ طلاق کے بعد یہ وضاحت کی ہے کہ شوہر کیلئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی اس کو دیا ہے تو اس میں سے کچھ بھی واپس لے۔ یہی بات سورۂ النساء کی آیات20اور21میں طلاق کے حوالے سے اللہ نے کی ہے اور خلع کا حکم سورہ النساء آیت19میں بالکل واضح ہے۔آیت229البقرہ میں تین مرتبہ طلاق کے بعددی ہوئی کسی بھی چیز کو واپس لینا حلال نہ ہونے کی وضاحت ہے لیکن اس صورت میں یہ استثناء ہے کہ جب اس چیز کی وجہ سے دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے، اور اس کاتعلق دونوں کے میل ملاپ سے ہے۔ جب عورت اور شوہر کا ازدواجی تعلق ختم ہوجائے تو پھر شوہر کی دی گئی کسی چیز کی وجہ سے میل ملاپ اور دونوں کا اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو تو وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔
یہ کس قدر کم بختی اور بدقسمتی کی بات ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے عورت کو تحفظ فراہم کیا ہے کہ تین مرتبہ طلاق کے فعل اور علیحدگی کے حتمی فیصلے کے بعد عورت سے شوہر وہ کوئی بھی چیز نہ لے جو اس نے دی ہو لیکن مذہبی طبقہ اسی بات کو خلع اور عورت کی بلیک میلنگ کا ذریعہ بنارہاہے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کردیا کہ آیت226البقرہ کی عدت میں بھی باہمی رضامندی کے بغیر عورت کو رجوع پر زبردستی سے مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے اورآیت228البقرہ میں بھی طلاق کے بعدصلح کے بغیر عورت کو زبردستی سے مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ایک مرتبہ کی طلاق ہو یا تین طلاق اور تین مرتبہ کی طلاق کیونکہ اس سے رجوع کا تعلق عدد سے نہیں بلکہ عدت کی مدت سے ہے۔ البتہ عورت سے صلح کئے بغیر رجوع کرنا شوہر کیلئے حلال نہیں ہے۔ آیت229میں بھی معروف طریقے کی رجوع سے صلح کی شرط پر رجوع مراد ہے۔ اور صلح کی شرط کے بغیر نہ ایک مرتبہ کی طلاق کے بعد رجوع ہوسکتا ہے اور نہ دومرتبہ کی طلاق کے بغیر۔ اور صلح کی شرط کیساتھ تین مرتبہ کی طلاق کے بعد رجوع کرنے کی ممانعت نہیںہے اور جس چیز کے حلال نہ ہونے کا حکم ہے وہ شوہر کی طرف سے دیا گیا مال ہے۔
جب آیت229میں وہ صورتحال بیان کی گئی ہے کہ جب دونوں اور فیصلہ کرنے والے اس بات کو پہنچ جائیں کہ آئندہ رابطے کی بھی کوئی چیز نہیں چھوڑی جائے تو سوال رجوع کرنے یا نہ کرنے کا نہیں پیدا ہوتا ہے بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس علیحدگی وطلاق کے بعد پہلا شوہر اس عورت کو اپنی مرضی سے جس سے بھی چاہے نکاح کی اجازت دے سکتاہے؟۔ انسان کی غیرت اور فطرت گوارا نہیں کرتی ہے کہ اس کی بیوی اور بچے کی ماں اس طلاق کے بعد اڑوس پڑوس یا قریبی رشتہ داروں اور احباب سے نکاح کرلے۔ کیونکہ یہ غیرت انسانوں کے علاوہ چرندوں ، پرندوں اور وحشی درندوں میں بھی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس مردانہ غیرت سے کسی بھی طلاق کے بعد عورت کو زبردست تحفظ دے دیا ہے۔
جن الفاظ سے تحفظ دیا ہے وہ بھی کمال کے ہیں اور اس وجہ سے بہت زیادہ خواتین نے ظالم وجابر اور بہت زیادہ طاقتورمردوں سے چھٹکارا پایا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بنوں کی سوشل میڈیا پر ایک مولوی کے خلاف زنا بالجبر کا کیس مشہور ہوا تھا جس نے کسی عورت سے اس کی اجازت کے بغیر حلالے کا ارتکاب کیا تھا اور اس وجہ سے اس مولوی کو جیل بھی جانا پڑا تھا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کیس کی تحقیقات کرکے اس کو پوری دنیا کے سامنے بھی لاسکتے ہیں۔
آیت230میں اس طلاق کے بعد عورت کا دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کو آیت229کی صورتحال سے نتھی کرنا درست ہے ۔ فقہ حنفی، علامہ ابن قیم اورحضرت عبداللہ بن عباس کی طرح قرآن کے فہم کا یہی تقاضا ہے جس کو نظر انداز کیا گیا ہے اور اس آیت230میں بھی یہ وضاحت کی گئی ہے کہ دوسرے شوہر سے طلاق کے بعد پہلے شوہر اور اس عورت کا اس شرط پر رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جب دونوں کو یہ گمان ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیں گے۔ اسلئے کہ دوسرے شوہر سے ازوداجی تعلقات کے بعد پھر جب اس کو طلاق دی جائے تو اس عورت کا دوسرے شوہر سے تعلق نہ بنے اور پہلاشوہر اس کو پھر قتل نہ کردے۔ یہ پوری طرح اطمینان ہونا چاہیے کہ پہلے شوہر کے مقابلے دوسرے شوہر کی جسمانی، مالی اور ہر لحاظ سے کیفیت ایسی نہ ہو کہ عورت بھی اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکے اور شوہر بھی اس کو غیرت کے نام پر پھر اس کو قتل کردے۔
قرآن نے اپنی آیات بینات کے ذریعے سے معاشرے کی تمام برائیوں کا خاتمہ کردیا ہے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عدت کے اندر باہمی صلح واصلاح سے بہر صورت اللہ نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا تھا لیکن کیا عدت کی تکمیل کے بعد بھی اللہ نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے؟۔ فقہ حنفی میں فدیہ جملہ معترضہ نہیں ہے بلکہ آیت230کی طلاق سے مربوط ہے۔ اور آیت229میں دومرتبہ کے طلاق کا تعلق ف تعقیب بلامہلت کی وجہ سے اگلے جملے سے بنتاہے جس میں فامساک بمعروف او تسریح باحسان کی ف تعقیب بلامہلت ہے۔ اسلئے اس تین مرتبہ کی طلاق کے بعد عدت کی تکمیل سے معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش واضح تھی اور پھر ایک خاص صورتحال کا ذکر کیا گیا کہ اس طلاق کے بعد عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہے جب تک دوسرے شوہر سے نکاح نہیں کرلے۔ پہلی آیات میں بھی یہ واضح تھا کہ صلح واصلاح کے بغیر شوہر کیلئے رجوع کرنا حلال نہیں ہے لیکن جب تک سمندر کے شکاریوں کی طرح مچھلیوں کو جھینگا نہیں پھینکا گیا تو مولوی قرآن کی آیات کا شکار نہیں ہوئے اور نہ اُمت مسلمہ ان کا شکار بن گئی لیکن جونہی حلالے کا جھینگا پھینک دیا گیا فوری طور پر مولوی اس کا شکار ہوگیا۔ ویسے تو قرآنی آیات کو پوچھتا تک نہیں ہے لیکن حلالے پر ایسی ایسی منطقیں گھڑ دی ہیں کہ شیطان بھی عورت کی اس توہین پر مولوی کو نہیں پہنچ سکتا تھا لیکن پھر اللہ نے اگلی آیات231اور232میں جس طرح عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف یعنی اصلاح کی شرط پر رجوع کا دروازہ کھولا ہے۔ جس کے سامنے مولوی کا سارانام نہادفقہ مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ثابت ہوتا ہے۔

مسائل طلاق کی بہت بگڑی حالت
میرے کزن ، بچپن سے دوست اور ہر دلعزیز شخصیت سید عبدالوہاب شاہ گیلانی نے پاکستان میں مہنگائی کے طوفان اور اس بد حالی کی صورتحال پر کہا کہ ”پاکستان بھی کرائے کی سائیکل ہے جس پر مختلف لوگوں کو حکمرانی سکھانا جاری ہے، اب یہ کرائے کی سائیکل عمران خان کو دی گئی ہے کہ تم اس پر سیکھو۔ اس سے پہلے محمد خان جونیجو، شوکت عزیز، ظفراللہ جمالی ، نوازشریف، بینظیر بھٹو، زرداری اور سب نے اس پر سیکھا ہے ، اب خیر ہے عمران خان بھی سیکھ لے گا”۔
جو صورتحال پاکستان کے حکمرانوں کی ہے جنہوں نے سودی قرضوں سے ملک وقوم کوIMFکے ہاتھوں گروی رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور پہلے ادوار میں موٹرویز بنائے تھے جن میں ایکسیڈنٹ کے خطرات نہیں ہوتے تھے اور لانگ روٹ کی گاڑیوں کومقامی گاڑیوں سے بالکل الگ کرنا انسانی جانوں کے خوامخواہ کے نذرانے پیش کرنے سے بچانے کیلئے ضروری تھا لیکن حیدر آباد اور کراچی کی سپر ہائی وے کو موٹر وے میں بدلنے کے بعد یہ ایک خواب بن گیاہے اور ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ لاہور اسلام آباد جی ٹی روڈ میںبھی لانگ روٹ کی گاڑیوں پر پابندی لگائی جاتی لیکن نوازشریف کے قافلے میں حادثاتی موت کو بھی شہادت کا درجہ دیا گیا تھا کیونکہ مجھے کیوں نکالا کے پاس کوئی شہادت نہ تھی۔
اسلام کا بھی مختلف ادوار میں فقہاء اور علماء نے وہی حال کیا ہے جو پاکستان کی موٹروے کا حیدر آباد سے کراچی اور متوقع طور پر سکھر سے حیدرآباد تک دکھائی دیتا ہے۔ لیاقت علی خان ، محمد علی بوگرہ،سکندر مرزا، فیلڈ مارشل ایوب، ذوالفقار علی بھٹو،جنرل ضیاء الحق، نوازشریف سے عمران خان تک اچھے برے لوگوں نے اقتدار کی کرسی سنبھال کر پاکستان سے کچھ لیا اور کچھ دیا ۔ اس طرح اسلام کی بھی علماء ومشائخ نے بہت خدمت بھی کی ہے اور نقصان بھی پہنچایا ہے۔
مدارس عربیہ کی بات میں نہیں کرتا ہوں کیونکہ مدارس عربیہ کا سب سے بڑا کریڈٹ قرآن کے الفاظ ، عربی تعلیم اور دین کی حفاظت ہے اور ان کے پاس کوئی وسائل بھی نہیں ۔ لکیر کے فقیروں کو اس میں مویشی منڈی کی طرح ڈال دیا جاتا ہے اور وہاں مفت میںکھانے ، پینے اور ہگنے کیساتھ ساتھ چندوں کے نام پر اپنا کاروبار کرنے والوں سے تھوڑی بہت تعلیم حاصل کی جاتی ہے تاکہ بیروزگار طبقے کو مذہب کے نام پر تھوڑا بہت روزگار مل جائے۔ میں بھی رسیاں توڑ کر نہیں جاتا تو مجھے اپنے گھر والے مدارس میں تعلیم کی اجازت کبھی نہیں دے سکتے تھے۔
سرکاری خزانوں سے نوازے جانے والے شیخ الاسلاموں اور ملاؤں کی تاریخ بہت لمبی ہے اور سکہ رائج الوقت کی طرح فتویٰ انہی کا چلتا ہے۔ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد سے مسائل طلاق پر ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں فقہ کے تمام مسالک کے بنیادی مسائل بیان ہوئے ہیں اور اس سے بھی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بانیانِ فقہ نے اسلام کیساتھ کس طرح کا مذاق کیاہے؟۔
پہلی بات یہ ہے کہ طلاق رجعی کیلئے جن آیات سے استدلال کیا گیا ،ان پر بھی مختلف مذاہب یا مسالک کا اتفاق نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ طلاق رجعی کا جو تصور دیا گیا ہے اس سے قرآنی تعلیمات کے بنیادی ڈھانچے کا بیڑہ غرق ہوتا ہے اسلئے کہ دو مرتبہ کی طلاق رجعی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شوہر کو ایک عدت کا عورت پر حق حاصل نہیں بلکہ تین عدتوں کا حق حاصل ہے کیونکہ شوہر طلاق دیکر ایک مرتبہ رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے تو وہ طلاق دے اور جب عورت کی عدت پوری ہونے کے قریب ہو تو رجوع کرلے۔ اس طرح ایک عدت گزرنے کے بعد عورت دوسری اور پھر تیسری مرتبہ عدت کے آخر میں رجوع کرنے کے بعد عورت کو تیسری عدت گزارنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔

قرآنی طلاق کی سدھری حالت تھی
جب دو مرتبہ طلاق رجعی کے غلط تصور سے قرآنی آیات میں عدت کی مدت کا بہت کباڑہ ہوجاتا ہے تو اکٹھی تین طلاق سے ایک طلاقِ رجعی مراد لینے کا اس سے بھی زیادہ بھیانک تصور ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کی واضح آیات کے مطابق صلح کی شرط کیساتھ رجوع کو منسلک کیا جائے تو پھر دونوں صورتوں میں کسی خرابی کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا ہے۔ طلاق ایک مرتبہ کی ہو، دومرتبہ کی ہو یا تین مرتبہ کی ہو۔ ایک طلاق کا تصور ہویادو طلاق کاتصور ہو یا تین طلاق کا تصور ہو لیکن رجوع کیلئے صلح واصلاح اور معروف طریقے سے باہمی رضامندی کو شرط قرار دیا جائے تو پھر کسی قسم کی کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ہے۔ اصل سبب عورت کو اذیت سے بچانا ہے اور اصل علت باہمی رضامندی اور صلح واصلاح ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض آیات میں عدت کے اندر ہی رجوع کیلئے گنجائش رکھی گئی ہے اور بعض آیات میں عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع کی گنجائش رکھی گئی ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟۔ تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ ایک طرف عدت کے اندر ہی رجوع کی گنجائش رکھ کر یہ واضح کیا گیا ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد عورت کیلئے دوسرے سے شادی کرنا بھی جائز ہے اور دوسری طرف عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے یعنی صلح کی شرط اور باہمی رضامندی سے رجوع کی گنجائش رکھ دی گئی ہے تاکہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی جتنا عرصہ گزرے تو رجوع ہوسکتا ہے اور اس میں بھی عورت اور اس کے شوہر کو رجوع کی گنجائش دی گئی ہے۔
کہاں قرآن کریم کی یہ وسعت اور کہاں فقہاء کی تنگ نظری ؟۔
مسئلہ٢٦:بچے کا اکثر حصہ باہر آچکاتو رجعت نہیں کرسکتامگر دوسرے سے نکاح اسوقت حلال ہوگا کہ پورا بچہ پیدا ہولے۔ ( رد المختار ، الطلاق ج5ص193نعم الباری شرح بخاری ج10ص766شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی)
دارالعلوم کراچی سے یہ فتویٰ جاری ہوا تھا کہ حاجی عثمان کے معتقد کا اس کے مرید کی بیٹی سے نکاح منعقد ہوجائے گا لیکن بہتر ہے کہ ان کے حالات سے اس کو آگاہ کردیں اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے یہ فتویٰ آیا تھا کہ جن باتوں کو حاجی محمدعثمان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اگر وہ باتیں ان میں نہیں ہیں تو علماء کا فتویٰ بھی ان پر نہیں لگتا ہے لیکن نکاح تو بہرحال جائز ہے۔ پھر مفتی رشید احمد لدھیانوی کے نالائق شاگردوں نے استفتاء اور اس کا جواب خود مرتب کرکے لکھا کہ اس نکاح کا انجام کیا ہوگا؟۔ عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا۔ جس پر مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی نے لکھ دیا کہ ”نکاح جائز نہیں ہے گو کہ منعقد ہوجائے”۔
جب ہم نے اکابر ین کے حوالے سے نام لئے بغیر فتویٰ لیا تھا تو یہ لوگ معافی مانگنے کیلئے دوڑے لگارہے تھے اور اس وقت مولانا فضل الرحمن نے بھی مجھ سے کہا تھا کہ” دنبہ آپ نے لٹادیا ہے اور چھرا آپ کے ہاتھ میں ہے ،ان کو ذبح کردو، اگر یہ ٹانگیں ہلائیں گے تو ہم پکڑ لیں گے” اور مفتی محمد تقی عثمانی نے وکیل کے جواب میں کہا تھا کہ ہم نے نام سے کوئی فتویٰ نہیں دیا ہے لیکن جب ہم نے چھوڑ دیا توپھر ان لوگوں نے اپنی خباثت کی انتہاء کردی۔ البتہ ہمارے لئے اس میں سب سے زیادہ خیر تھی اسلئے کہ اس دھکے سے ہمارے اندر لڑنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے اپنی بیگم کو اسوقت طلاق دی تھی جب مفتی محمد رفیع عثمانی اپنی ماں کے پیٹ میں تھے اور پھر جب بالکل وہ آدھا ماں کے پیٹ کے اندر اور آدھا ماں کے پیٹ سے باہر نکل چکے تھے تو اس کا رجوع کرنا درست تھا یا نہیں تھا؟۔ اور اس کے بعد شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اس رجوع کے بعد اسی عورت کے پیٹ سے جنم لیا ہے تو اس کی حیثیت جائز ہے یا ناجائز؟۔ سودکو جواز بخشنے سے کیا سودی نظام جائز بن جائے گا؟۔ بینوا وتوجروا۔

مولانا فضل الرحمن انقلابی شخصیت؟
مولانا فضل الرحمن اور ان کے بھائی کہتے ہیں کہ وہ مفتی نہیں ہے اسلئے طلاق کے مسائل پر اپنی رائے نہیں دے سکتے ہیں اور مفتی شاہ حسین گردیزی نے کہا ہے کہ میں طلاق کے حوالے سے فتویٰ نہیں دیتا ہوں۔ دارالعلوم کراچی کے مفتی عصمت اللہ شاہ نے بھی طلاق کے مسائل پر فتویٰ دینا چھوڑ دیا ہے ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مفتی محمد نعیم نے ملاقاتوں میں طلاق کے مسائل پر اتفاق کا اظہار کیا تھا۔ اور وفات سے قبل مفتی زر ولی خان سے بھی میں نے ملاقات کی تھی کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ مجھے بہت سے مسائل پر اتفاق ہے لیکن جب ان کی وفات ہوئی تو دوبارہ ملاقات کا موقع نہیں مل سکا تھا لیکن میں نے ملاقات اور آئندہ وقت دینے کی درخواست کی تھی جس پر انہوں نے بہت خوش دلی کے ساتھ فرمایا تھا کہ ” بالکل ! چشم ماروشن دل ماشاد” اور ملاقات کے بعد میری بہت تعریف بھی اپنے شاگرد سے کی تھی اور میں نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا لیکن وہ پہچان گئے تھے۔ وہ جرأت مند انسان تھے ۔ میں نے اپنی کتاب ‘ ‘ عورت کے حقوق ” میں ان کا خاص طور پر تذکرہ بھی کیا تھا۔
اپنے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی خدمت میں بھی حاضری دی تھی اور انہوں نے مجھے تحفے میں عطر بھی عنایت فرمایا تھا۔ اپنی تحریک کیلئے دعا لینے مولانا خان محمد کندیاں امیر عالمی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت، مولانا سرفراز خان صفدر ، مولانا عبدالکریم بیرشریف لاڑکانہ ، مولانا عبدالصمد ہالیجی، امروٹ شریف شکار پوراور مولانا عبداللہ درخواستی صاحب سے دعائیں لی تھیں اور میرے استاذشیخ الحدیث مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید میرے مرشد حاجی عثمان سے فتوؤں کے بعد بیعت ہوئے تھے اور مولانا حبیب الرحمن درخواستی صاحب ، مولانا محمد مکی حجازی، مولانا سیف الرحمن جامعہ صولیہ مکہ مکرمہ ، مولانا سید عبدالمجید ندیم شاہ، مولانا سید محمد بنوری، مفتی محمد نعیم سرمایہ داروں کے ایجنٹوں کی طرف سے فتوے کے بعد بھی حاجی عثمان سے ملنے آئے تھے۔ ٹانک کے اکابر علماء مولانا فتخ خان، مولانا عبدالرؤف گل امام ، مولانا عصام الدین محسود جمعیت علماء اسلام( ف) ، مولانا شیخ محمد شفیع شہید جمعیت علماء اسلام (س) مولانا غلام محمد مکی مسجد ضلعی امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ، قاری محمد حسن شکوی شہید وزیر گودام مسجد ٹانک اور ملک بھر سے مختلف مکاتب کے علماء کرام کی طرف سے تائیدات کا ایک بہت ذخیرہ ہمارے پاس موجود ہے۔ جس کو کتابوں اور اپنے اخبار میں شائع بھی کردیا ہے۔ حضرت شیخ سیدعبدالقادر جیلانی سے میرے دادا تک علماء ومشائخ کا ایک سلسلہ تھا اور میں نے پھر دیوبندی مکتبہ فکر کے مدارس سے تعلیم حاصل کی ہے۔
حاجی محمد عثمان نے تبلیغی جماعت میں35سال لگائے تھے اور ان کا مدعا یہ تھا کہ اکابر بھی عوام کیساتھ نشست وبرخاست، کھانے پینے اور وقت لگانے میں گھل مل جائیں۔ جس وقت تقریر کررہے ہوں تو منبر ومحراب اور اسٹیج پر لیکن عام حالت میں عوام کیساتھ سامعین کی نشست میں بیٹھ جائیں۔ جس سے ان کی بھی اصلاح جاری رہے گی۔ اگر تبلیغی جماعت اس مرد قلندر کی بات پر عمل کرتی تو پھر عالمی مرکز بستی نظام الدین بھارت اور رائیونڈ میں امیر کے مسئلے پر تفریق پڑنے تک نوبت نہیں پہنچ سکتی تھی۔ مرز اغلام احمد قادیانی ایک نبی اور مھدی تو بہت دور کی بات ہے ایک اچھا انسان بھی نہیں تھا اسلئے کہ محمدی بیگم کے حوالے سے اس نے جھوٹی وحی کے ذریعے بہت گری ہوئی حرکت کی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کا اگر انقلابی بننے کا پروگرام ہے تو پہلے فقہ کے نام پر قرآن وسنت اور فطرت سے دوری کا راستہ روکنے کیلئے ہمارا کھل کر ساتھ دیں اور پھر اسلامی انقلاب کیلئے بھی راستہ ہموار ہوجائے گا۔ یہ وقت کھونا اچھا نہیں۔ ورنہ پھر پانی سر سے گزر جائیگا۔

علماء دیوبند اور بریلوی پہل کریں!
فقہ حنفی کے نام پر درسِ نظامی کے علمبردار دیوبندی اور بریلوی دونوں مکتبۂ فکر کے علماء ومفتیان اور مشائخ کام کررہے ہیں۔ مولانا مفتی زرولی خان ایک سخت گیر پٹھان تھے اسلئے مولانا منظور مینگل کے خلاف علامہ خادم حسین رضوی کی حمایت پر تجدیدِ نکاح کا فتویٰ جاری کردیا تھااورمولانا احمدرضاخان بریلویبھی ایک قندھاری پٹھان اور الٹا بانس بریلی کے رہائشی تھے اسلئے علماء دیوبند اور دیگر فرقوں اور مسالک کے لوگوں پر بھی قادیانیت کے فتوے جاری کردئیے لیکن پاکستان میں متفقہ تحریک ختم نبوت چلانے والے دیوبندی بریلوی ایک تھے۔
افغانستان کے طالبان نے ملاعمر کی قیادت میں جو سخت گیر مؤقف اپنایا تھا تو آج کے افغانی طالبان اس سے بہت پیچھے ہٹ گئے ہیں ۔ بریلوی مکتب فکر کے ایک بڑے عالم وشیخ طریقت نے لکھا ہے کہ ” شاہ اسماعیل شہید نے شروع میں نئے جذبے سے بدعات اور شرکیہ عقائد کے خلاف جو کتابیں لکھی تھیں تو اس میں اعتدال کے خلاف بعض جملے لکھ دئیے تھے مگر پھر علم اور ان کی عمر میں پختگی آئی تو منصب امامت اور صراط مستقیم جیسی اعتدال پسندانہ کتابیں لکھیں ہیں۔
حکومت نے تحریک طالبان پاکستان اور تحریک لبیک سے معاہدہ کرکے بڑا اچھا کیا ہے۔ شدت پسندانہ جذبات کا غبار وقت کیساتھ ساتھ خود بخود اُتر جاتا ہے۔ نکاح وطلاق کے حوالے سے جو مسائل گھڑے گئے ہیں اگر حکومت نے اس حوالے سے مقتدر علماء ومفتیان اور دانشوروں کی ایک کمیٹی تشکیل دیدی تو پھر ریاست مدینہ کی طرف سب مل کر زبردست اقدام اٹھا سکتے ہیں۔ آج عمران خان کیساتھ بھی اچھا وقت ہے اور اپوزیشن بھی اس کو گرانے کے چکر میں نہیں لگتی ہے۔ اگر صرف حلالہ کی لعنت کا مکمل خاتمہ بھی ہوجائے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ فواد چوہدری ، علامہ طاہر اشرفی ، مفتی سعید خان ، وزیرتعلیم شفقت محمود اور علی محمد خان وغیرہ اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔
حکومت آنی جانی چیز ہے لیکن مذہبی نصاب ِ تعلیم کے حوالے سے اُمت کی اصلاح ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔ بفضل تعالیٰ ہم نے اتنا سارا کام کرلیا ہے کہ معروف مدارس کے علماء ومفتیان اور طلبہ اس کا زبردست استقبال بھی کریں گے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، ڈی جی آئی ایس آئی ، ڈی جی ایم آئی اور چیف جسٹس آف پاکستان ، چاروں صوبائی چیف جسٹس اس میں اپنا حصہ ڈال لیں۔ سندھ ، بلوچستان، پنجاب اور بلوچستان کی حکومتیں اور اپوزیشن جماعتیں بھی اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے رہنما اور قائدین بھی اس کار خیر میں بھرپور شرکت کریں۔
پورے پاکستان میں ہم سے زیادہ کمزور سے کمزور تر جماعت کوئی بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے بے خطر ہم میدان میں اترگئے۔ آج بہت سے لوگوں کے مسائل بھی اللہ کے فضل سے حل ہوئے ہیں۔ ہماری دشمنی کسی کی ذات ، شخصیت ، جماعت اور اپنے دشمنوں سے بھی نہیں ہے کیونکہ غلط فہمی کے نتیجے میں کوئی ہم سے دشمنی کرتا ہے تو یہ اس کو حق پہنچتا ہے اور ہم بعض لوگوں اور اپنے حوالے سے نشاندہی بھی مجبوری کے تحت کرتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہمیں کسی سے کوئی بغض وعناد ہے۔ ہمارے جد امجد رسول اللہ ۖ نے جب اپنے چچا امیر حمزہ کے کلیجے نکالنے والے وحشی کو اور چبانے والی ہندہ کو فتح مکہ کے وقت معاف کردیا تھا تو ہم اسی سنت پر عمل کرنے کے خود کو پابند سمجھتے ہیںلیکن جب تک لوگ راہِ حق پر نہیں آجاتے ہیں تو اپنی عقل اور صلاحیت کے مطابق ٹھیک طریقے سے کام کرنے کی کوشش کریںگے اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھیں گے کہ ہماری بھی ایک دن اصلاح فرمائے۔ عتیق گیلانی

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

تین طلاق کے بعد بھی میاں بیوی بغیر حلالہ کے رجوع کر سکتے ہیں۔ سورہ البقرہ

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر2021۔ صفحہ نمبر2
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

_ طلاق سے رجوع کی علت صلح ہے!_
سفر میں روزے معاف ہونے کی بنیادی علت سفر ہے۔ شرعی اصولوں میں علت اور سبب میں ایک بنیادی فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ سفر میں روزہ معاف ہے اور اس کا سبب مشقت ہے لیکن اس کی علت سفر ہے۔ مشقت محنت مزدوری میں بھی ہوتی ہے لیکن اس سبب کی وجہ سے روزہ معاف نہیں ہوتا ہے اور جب سفر میں مشقت نہ ہو تب بھی روزہ معاف ہے۔ یہ فرق علماء وفقہاء کا بہت بڑا کمال اور زبردست کریڈٹ ہے۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ” بدعت کی حقیقت ” میں اس فرق کو واضح کیا ہے اور بعض معاملات میں علماء وفقہاء کے مغالطہ کھانے کا بھی ذکر کیاہے۔ اس کتاب کے اردو ترجمہ کا مقدمہ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نے لکھا ہے۔
طلاق اور اس سے رجوع کی علت اور سبب معلوم کرنے کیلئے علماء کرام و فقہاء عظام نے شاید کبھی غور وتدبر سے کام نہیں لیا ہے اور اگر لیا ہے تو اس تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ ابن رشد کی کتاب ” بدایة المجتہد نہایة المقتصد” میں اس پر تفصیل سے بحث ہے۔ ظواہر کا مؤقف قرآن کے ظاہری الفاظ سے مطابقت رکھتا ہے اور باقی فقہاء نے احادیث وروایات پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔
قرآنی آیات میں طلاق سے رجوع کیلئے بنیادی سبب عورت کو اذیت سے بچانا ہے اور اللہ تعالیٰ نے طلاق سے رجوع کیلئے بنیادی علت باہمی رضامندی اور اصلاح کو قرار دیا ہے۔ اگر عورت صلح و اصلاح کیلئے راضی نہ ہو تو پھر شوہر بھی طلاق سے رجوع کا کوئی حق نہیں رکھتا ہے۔ قرآن کی تمام آیات میں طلاق سے رجوع کیلئے بنیادی شرط صلح واصلاح ہے۔ جس کی تفصیل قرآنی آیات میں واضح طور پر موجود ہے۔ طلاق سے رجوع کیلئے ایک ایک آیت کے اندراس کی بھرپور وضاحت بھی کردی گئی ہیں لیکن افسوس کہ امت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔
جس طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کا ذکر ہے تو اس سے پہلے یہ وضاحت بھی کردی گئی کہ عدت کے تین مراحل تک عورت کو تین مرتبہ طلاق دی جائے۔ جس کے بعد شوہر کیلئے عورت کو دی ہوئی کوئی چیز حلال نہیں ہے مگر اس صورت میں جب دونوں کو یہ خوف ہو کہ وہ باہمی رابطے کے ذریعے سے اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہی خوف ہو کہ اس چیز سے وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو پھر اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ایسی صورت میں طلاق کے بعد یہ سوال بھی پیدا نہیں ہوتا ہے کہ اگر رجوع کرلیا تو ہوجائے گا یا نہیں؟۔ بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی طلاق کے بعد شوہر اس عورت پر اپنی مرضی کے مطابق نکاح کرنے پر کوئی پابندی لگاسکتا ہے یا نہیں ؟ اور اگر لگائے تو اس عورت کو اللہ نے کوئی تحفظ دیا ہے یا نہیں؟۔ اسی تحفظ کیلئے اللہ تعالیٰ نے انتہائی درجہ کا حکم نازل کیا کہ اس طلاق کے بعد وہ اس کیلئے حلال نہیں حتی کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔
جہاں تک باہمی رضامندی اور صلح سے رجوع کی بات کا تعلق ہے تو اس کی اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے کی دو آیات228،229میں عدت کے اندر رجوع کی وضاحت کردی ہے اور پھر اسکے بعد آیات231،232میں عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے اور باہمی رضامندی کی بنیاد پر رجوع کی بھرپور انداز میں وضاحت کردی ہے۔ آنکھوں کا نہیں اصل میں دل کا اندھا اندھا ہوتا ہے۔

احادیث پر اشکال کابہترین جواب
رفاعة القرظی نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دی تھیں اورپھر اس نے دوسرے شوہر سے نکاح کیا تھااس نے نبیۖ سے عرض کیا کہ میرے شوہر کے پاس ایسی چیز ہے اور اپنے دوپٹے کا پلو دکھایا تھا۔ جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ کیا آپ رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو ؟۔ آپ نہیں جاسکتی ہو یہاں تک کہ تیرا دوسرا شوہر تیرا ذائقہ نہ چکھ لے اور آپ اس کا ذائقہ نہ چکھ لیں۔(صحیح بخاری)
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن میں باہمی اصلاح سے بار بار صلح کی گنجائش کی وضاحت ہے تو رسول اللہ ۖ نے اس پر فتویٰ کیوں نہیں دیا تھا؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر وہ خاتون حضرت رفاعة القرظی کی طلاق کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرتیں تو اس کو نبیۖ سے اپنے شوہر کی شکایت بھی نہ کرنی پڑتی بلکہ وہ خود حضرت رفاعہ سے رجوع کی درخواست کرسکتی تھیں۔ البتہ اگر حضرت رفاعة اس کے باوجود بھی راضی نہ ہوتے تو ان کو باہمی رضامندی کے بغیر رجوع پر مجبور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس واقعہ کی پوری تفصیل صحیح بخاری میں موجود ہے۔ پہلی بات یہ معلوم ہے کہ حضرت رفاعة نے مرحلہ وار تیں طلاقیں دی تھیں۔ عدت کی تکمیل کے بعد اس نے عبدالرحمن بن زبیر القرظی سے شادی کی تھی۔ کیا اسکے باوجود علماء ومفتیان کا اس حدیث کی بنیاد پر یہ فتویٰ دینا جائز ہے کہ ایک دم تین طلاق پر حلالے کا فتویٰ دیا جائے؟۔ حالانکہ قرآن میں واضح طور پر صلح کی گنجائش موجود ہو؟۔
دوسری بات یہ ہے کہ صحیح بخاری میں یہ تفصیل بھی موجود ہے کہ جب اس عورت نے اپنے شوہر کی شکایت لگائی تو حضرت عائشہ کے سامنے خلوت میں اپنے جسم پر شوہر کے مارنے کے نشانات دکھائے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ میں نے ایسی سخت مار کے نشانات کسی جسم پر نہیں دیکھے۔ اس کے سفید جسم پر نیل کے نشانات پڑے تھے۔ جب اس نے اپنے شوہر پر نامرد ہونے کا الزام لگایا تو اس کے شوہر نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میرے اندر اتنی مردانہ قوت ہے کہ میں اس کی چمڑی کو ادھیڑ کر رکھ دیتا ہوں۔ احادیث کی تمام تفصیل کے بغیر اس بات پر فتویٰ جاری کرنا کس قدر حماقت ہے کہ اس عورت نے کہا تھا کہ شوہر کے پاس دوپٹے کے پلو جیسی چیز ہے ، جس کی وجہ سے وہ عورت حلال بھی نہیں ہوسکتی تھی تو نبیۖ اسکے ذریعے حلال ہونے کا فتویٰ کیسے دیتے؟۔
نبی کریم ۖ کو معلوم تھا کہ حضرت رفاعة القرظی نے اس خاتون کو واپس لینا نہیں ہے اور عبدالرحمن بن زبیر القرظی کو سمجھا دیا ہوگا کہ مار دھاڑ سے شکایت بھی پیدا ہوئی ہے اسلئے دوبارہ اس قسم کی شکایت نہیں آنی چاہیے۔ فقہ وفتوے کی کتابوں میں حلالہ کیلئے راستے تلاش کرنے کے بجائے اس کا سدباب بھی کرنا چاہیے تھا لیکن جب مفتی عزیز الرحمن جیسے لوگ اپنے شاگرد صابر شاہ جیسے لوگوں کو بھی نہیں چھوڑتے تو یہ باشرع لوگ حلالہ کیلئے کیا بہانے تراشتے ہوں گے؟۔ اس کی تفصیلات سامنے آجائیں تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
پھر سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آسانی سے عدت میں رجوع ہوسکتا تھا تو رسول اللہۖنے اکٹھی تین طلاق پر سخت ناراضگی کا اظہارکیوں کیا تھا؟۔اس کا جواب یہ ہے کہ بخاری کی کتاب التفسیر سورۂ طلاق میں حدیث ہے کہ جب حضرت عمر نے نبیۖ کو اطلاع دی کہ ابن عمر نے اپنی بیوی کو حیض میں طلاق دی ہے تو رسول اللہ ۖ بہت غضبناک ہوگئے اور پھر اس کو رجوع کا حکم دیا اور پہلے طہر میں اپنے پاس رکھنے حتی کہ حیض آجائے۔ پھر دوسرے طہر میں رکھنے حتی کہ حیض آجائے اور پھر تیسرے طہر میں چاہے تو رجوع کرے اور چاہے تو طلاق دے اور یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے طلاق کا طریقہ امر کیا ہے۔ جس میں غضبناک ہونے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔

حضرت عمر نے قرآن پر عمل کیا تھا؟
ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع نہ کرنے کا فیصلہ حضرت عمر کی طرف منسوب ہے۔ کیا یہ نسبت درست ہے؟ اور حضرت عمر نے قرآن پر عمل کیا تھا؟۔
حضرت عمر ایک عادل حکمران تھے۔ قرآن کی آیات کے احکام سے اچھی طرح واقف تھے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے باہمی رضامندی اور صلح کی نبیاد پر طلاق کے بعد رجوع کی اجازت دی ہے۔ لیکن اگر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو پھر شوہر کو رجوع کرنے کا حق قرآن نے نہیں دیا ہے۔ طلاق سے رجوع کا مسئلہ بہت پرانا تھا۔ شوہر کو بیوی کی رضامندی کے بغیر رجوع کا حق حاصل ہوتا تھا۔ جب حضرت عمر کے دور میں خلافت کی توسیع ہوگئی تو دور دراز کے علاقوں سے بھی عوام کی ایک بڑی تعداد مسلمان بن کر خلافت کے زیر اثر آگئی تھی۔ جب ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیں تو پھراس کی بیوی صلح کیلئے راضی نہیں تھی۔ اسلامی خلافت میں بیوی پر جبر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور وہ شخص حضرت عمر سے انصاف لینے آگیا۔ حضرت عمر چاہتے تو اس شخص کو اس کی بیوی واپس دلانے کا حکم جاری کرتے۔ لیکن حضرت عمر نے قرآن کے مطابق یہ فیصلہ کیا کہ اس نے جلد بازی میں ایک ساتھ تین طلاق دے دی ہیں اسلئے اس کو حکومت اپنی طرف سے کوئی مدد فراہم نہیں کرسکتی اور وہ رجوع نہیں کرسکتا ہے۔
جب حضرت عمر کے ناقدین نے حضرت عمر کے خلاف زہر اگلنا شروع کیا کہ حضرت عمر نے قرآن کے خلاف ایک ساتھ تین طلاق کا فیصلہ کردیا ہے تو اس پر اُمت مسلمہ میں اختلافات کی دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں۔ بہت ہی شاذ ونادر ایسے لوگ تھے۔ جنہوں نے حضرت عمر کے خلاف اپنا فتویٰ اور فیصلہ مرتب کیا تھا کہ یہ فیصلہ قرآنی تعلیمات کے منافی ہے۔ لیکن ان کو پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جب شوہر اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دیدے ۔ پھر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو اور فیصلہ اور فتویٰ یہ دیا جائے کہ یہ ایک طلاق ہے اور اس سے غیرمشروط رجوع کا حق شوہر کو حاصل ہے ۔تو اس سے عورت کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا تھا۔ یہ قرآن وسنت اور فطرت کے بالکل منافی تھا۔ چنانچہ چاروں ائمہ فقہ حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ اس کا سبب عورت کو مشکلات سے بچانا تھا اور اس کی علت یہ تھی کہ باہمی اصلاح کے بغیر صلح نہیں ہوسکتی ہے اور یہ قرآن اور فطرت کا بنیادی تصور ہے۔
قرآن عربی زبان میں اترا ہے اور عرب لوگ اپنے گھروں میں قرآن کی آیات کا ادراک رکھتے تھے۔ جب میاں بیوی کے درمیان ناچاقی یا ایک ساتھ تین طلاق کی بات آتی تو وہ اگر آپس میں صلح کیلئے راضی ہوتے تھے تو حکمران سے کوئی فیصلہ لینے اور مفتی سے کوئی فتویٰ پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ پھر وہ وقت آیا کہ حکمرانوں نے اپنے مفادات کیلئے خلافت پر خاندانی قبضے شروع کردئیے اور کچھ لوگوں کو مذہب کی تشریح کا حکمرانوں نے ٹھیکیدار بنانا شروع کیا اور پھر اسلام کی حقیقت روایات میں کھو گئی۔ اس حقیقت کو ڈھونڈنے کیلئے ان سراغ رساں انسانوں کی ضرورت ہے جو ثریا کے اوپر سے بھی علم ، دین، ایمان کی حقیقت معلوم کرنے کیلئے طاقت پرواز رکھتے ہوں۔ یہ اللہ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں ہے لیکن اللہ کا فضل کوئی مشکل بھی نہیں ہے کہ کسی پر بھی ہوجائے۔

_ اکٹھی تین طلاق پرفتوؤں کی بھرمار _
سلف صالحین کے ادوار میں ایک ساتھ تین طلاق کی بحث اس حد تک تھی کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوتی ہیں یا نہیں؟۔ احادیث اور فتوؤں کی بھرمار نے مسالک کی توسیع میں اپنا اپنا کام دکھانا شروع کردیا۔ احناف اور مالکیہ نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں ہوجاتی ہیں لیکن یہ بدعت اور گناہ ہیں۔ شافعی مسلک والوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ایک ساتھ تین طلاق سنت اور مباح ہیں۔ امام احمد بن حنبل کے ماننے والوں نے اپنے امام کے دو اقوال بھی بنالئے، ایک قول کے مطابق بدعت وگناہ اور دوسرے قول کے مطابق سنت اور مباح قرار دیا گیا۔ پہلے تو صرف ایک ساتھ تین طلاق کا معاملہ اس حدتک ہی تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوتی ہیں یا نہیں؟۔ جس میں واقع نہ ہونے کا فتویٰ شاذ ونادر تھا اسلئے کہ عورت اور مرد کی طرف سے لڑائی اور صلح نہ کرنے کی وجہ سے بات فیصلے اور فتوے تک پہنچ جاتی تھی۔
پھر بہت بعد میں سیدھے سادے لوگوں نے قرآن کی طرف دیکھنے کے بجائے صلح کیلئے بھی فتوے لینے شروع کردئیے۔ یہ وہ دور تھا جب قرآن کی جگہ امت مسلمہ نے اپنے علماء ومشائخ کو پوجنا شروع کردیا تھا۔ ان علماء ومشائخ نے بھی قرآن کی طرف دیکھنے کے بجائے روایات کی طرف دیکھنا شروع کردیا اور اس کے نتیجے میں قرآن اُمت کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ احادیث اور فتوے کی کتابوں میں بہت سارے اقوال تھے جن میں ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کا فتویٰ تھا۔ پہلے مردوں کی طرف سے یک طرفہ رجوع کا راستہ روکا گیا تھا اور پھر عورت کی طرف سے صلح کی خواہش کے باوجود بھی رجوع کا راستہ روکا گیا اور جاہلیت پہلے کی طرح بالکل عروج پر لوٹ آئی ۔جب باہمی رضامندی سے صلح کا راستہ رُک گیا تو تفریق کے فتوؤں نے معاشرے میں جاہلیت اولیٰ کی مثال قائم کردی۔ کچھ لوگوں نے زوجین کی تفریق کا راستہ روکنے کیلئے حلالہ کی لعنت کو جواز فراہم کرنا شروع کیا لیکن ایک بڑی اکثریت نے حلالہ کے ذریعے حلال نہ ہونے کا فتویٰ جاری کردیا۔ حیلہ سازی میں احناف کے علماء نے اقدام اٹھایا تھا۔ علامہ بدر الدین عینی اور علامہ ابن ہمام نے حلالہ کو کارثواب تک قرار دیا اور اس کی نسبت اپنے بعض نامعلوم مشائخ کی طرف کردی تھی۔
علامہ ابن تیمیہ نے ایک ساتھ تین طلاق کو ایک قرار دینے کا فتویٰ جاری کیا اور اس غل غپاڑے میں ائمہ اہل بیت کے پیروکار اہل تشیع کے فقہاء نے طلاق دینے کیلئے سخت شرائط کا اہتمام کیا تھا۔ ان کے نزدیک طلاق کیلئے مرحلہ وار عدت کی مدت میں طلاق کے شرعی صیغے اور ہرمرتبہ کی طلاق پر دوگواہ کی موجودگی بھی ضروری قرار دے دی گئی۔ مذہبی طبقات نے یہ تأثر پھیلایا کہ ابن تیمیہ بھی اس مسئلے میں شیعہ بن چکے ہیں لیکن ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے اس مسئلے میں تحقیقات کو بہت حد تک بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔
پھر ہندوستان کے اہل حدیث نے حضرت ابن عباس کی روایت پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھ دی۔ حالانکہ احادیث کی کتابوں میں جس کثرت سے ایک ساتھ تین طلاق کی روایات تھیں اہل حدیث کے مزاج سے انکا مسلک بالکل بھی کوئی مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ صحاح ستہ میں اکٹھی تین طلاق کے واقع ہونے کے عنوانات ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عویمر عجلانی کا ایک ساتھ تین طلاق دینے کی روایت بہت مضبوط ہے۔ اسی طرح محمود بن لبید کی روایت ہے کہ ایک شخص کے بارے میں نبیۖ کو خبر ملی کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو نبیۖ اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میں تمہارے اندر موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو؟ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل کردوں؟۔
اس طرح بہت سی روایات میں ایک ساتھ تین طلاق کے تذکرے ہیں۔

قرآن اوراحادیث کے حقائق
قرآن کے الفاظ میں کوئی رد وبدل نہیں اور اس کی ذمہ داری اللہ نے خود لی ہے لیکن احادیث کے الفاظ اور معانی میں بہت سے اختلافات اور تضادات بھی ہیں۔ اصولِ فقہ میں حنفی کی کتابوں میں قرآن کے مقابلے میں بہت سی احادیث صحیحہ کی تردید صرف اسلئے کی گئی ہے کہ وہ قرآن کے کسی آیت کے تقاضے کے ہی خلاف ہیں۔ فقہ حنفی کی کتابوں میں احادیث کی اہمیت بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ مثلاً قرآن کی آیت حتی تنکح زوجاًغیرہ ” یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے ” میں اللہ نے عورت کو اپنی مرضی سے دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کا اختیار دیا ہے اور حدیث ہے کہ ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے ،باطل ہے”۔ اس حدیث میں عورت کو اپنے ولی کی اجازت کا پابند بنایا گیا ہے۔ جمہور فقہاء اور محدثین کے نزدیک ولی کی اجازت کے بغیر حدیث صحیح ہے اور عورت کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر درست نہیں ہے بلکہ یہ حرام کاری ہوگی۔ احناف نے یہ حدیث قرآن کی اس آیت کے مقابلے میں ناقابلِ عمل قرار دیدی ہے۔
احناف کی سب سے بڑی غلطی اور بدترین قسم کی کوتاہی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مسلک کے مطابق قرآن کی واضح واضح آیات کو اپنی فقہ کی کتابوں میں درج کرکے احادیث اور دوسرے مسالک کو چیلنج نہیں کیا ہے۔ مثلاً اللہ نے فرمایا کہ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوااصلاحًا ”اور ان کے شوہر اس عدت میں ان کے لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔( البقرہ:228)
اس آیت میں وضاحت کیساتھ اللہ تعالیٰ نے اصلاح کی شرط پر عدت میں طلاق شدہ کے شوہروں کو انکے لوٹانے کا زیادہ حقدار قرار دیا ہے۔ اگر کوئی ایسی حدیث ہوتی جس میں عدت کے اندر اصلاح کی شرط پر رجوع کی ممانعت ہوتی تو اس حدیث کو قرآن کے واضح الفاظ کے سامنے ناقابلِ قبول قرار دیا جاتا ۔اور یہ حنفی مسلک کا سب سے بڑا اور بنیادی تقاضہ تھا۔پہلی بات یہ ہے کہ احادیث کا ذخیرہ چھان لیا جائے تو کوئی ایک بھی ایسی حدیث صحیحہ نہیں ہے کہ جس میں اس قرآنی آیت کیخلاف عدت میں اصلاح کی شرط کے باوجود رجوع کی ممانعت ہوتی لیکن اگر کوئی ایسی حدیث ہوتی بھی تو قرآن کے مقابلے میں رد کی جاتی۔
احناف نے اپنے اصول فقہ میں اس بات کی وضاحت تو کردی کہ پانچ سو ایسی آیات ہیں جو احکام سے متعلق ہیں اور اللہ کی کتاب سے اصول فقہ میں وہی مراد ہیں لیکن ان آیات کا کوئی نام ونشان بھی فقہ واصول فقہ کی کتابوں میں نہیں ملتا ہے۔ اگر طلاق اور اس سے رجوع سے متعلق قرآنی آیات کو پیش کیا جاتا اور پھر ان پر احادیث وروایات کو پیش کیا جاتا اور پرکھا جاتا تو امت مسلمہ کی درست رہنمائی ہوتی اور ہوسکتا ہے کہ احناف نمازوں میں رفع یدین کی مخالفت نہ کرتے لیکن طلاق کے مسائل میں بہت سی احادیث کو ناقابلِ قبول ضرور قرار دیتے۔
میرا اپنا تعلق حنفی مسلک اور دیوبندی مکتب سے ہے اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اساتذہ کرام نے جو حوصلہ افزائی طالب علمی کے دوران فرمائی ہے تو اس کا یہ نتیجہ ہے کہ آج ایک ایسے انقلاب کی بنیاد رکھ رہاہوں کہ دیوبندی بریلوی کے علاوہ اہلحدیث اور اہل تشیع کو بھی بہت اچھا لگتا ہے اور غلام احمد پرویز کی فکر رکھنے والے بھی میری تائید کررہے ہیں اور انشاء اللہ بہت بڑا انقلاب آئے گا۔

_ احادیث سے احادیث کے حقائق _
جب ہم احادیث کی کتابوں اور احادیث کی مستند شروحات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک طرف کی بھرمار نظر آتی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور دوسری طرف پھر ان میں بہت سی احادیث غائب ہوجاتی ہیں کہ جب جمہور کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کے دلائل میں چند احادیث نظر آتی ہیں۔ مثلاً جمہور کے نزدیک رفاعة القرظی کی حدیث جمہور کی دلیل ہے اور فاطمہ بنت قیس کا واقعہ بھی جمہور کی دلیل ہے۔ عویمر عجلانی کے لعان کا واقعہ بھی جمہور کی دلیل ہے اور محمود بن لبید کی روایت بھی جمہور کی دلیل ہے۔ لیکن دوسری بہت ساری احادیث وروایات کو جمہور کی دلیل کے طور پر نہیں لیتے ہیں اسلئے کہ انکی حیثیت بہت ہی ضعیف اور مجروح ہے اور ان کو دلیل بنانا جمہور کی شان کے بھی بالکل منافی ہے۔ البتہ بعض جاہل علماء ان روایات کو بھی دلیل بناتے ہیں۔
جمہور کے مقابلے میں ایک ہی روایت ہے جو حضرت ابن عباس سے ہی منقول ہے کہ رسول اللہ ۖ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی سال تک ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک قرار دیا جاتا تھا اور پھر حضرت عمر نے ایک ساتھ تین کو تین قرار دے دیا۔ اس کو اقلیت اور اہلحدیث اپنے لئے دلیل بناتے ہیں۔
پھر جب بات آتی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا گناہ وبدعت ہے یا پھر مباح وسنت تورفاعة القرظی کی سابقہ بیوی کے واقعے کو بھی ایک ساتھ تین طلاق کیلئے کوئی دلیل نہیں قرار دیتا ہے کیونکہ صحیحہ روایات سے ثابت ہے کہ الگ الگ تین طلاقیں دی تھیں۔ اور فاطمہ بنت قیس کے واقعہ کو بھی دلیل نہیں بنایا جاتاہے اسلئے کہ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ اس کو الگ الگ تین طلاقیں دی گئیں تھیں اور پھر امام شافعی کے نزدیک صرف روایت ہے کہ اکٹھی تین طلاق دینا سنت ہے اور وہ عویمر عجلانی کے واقعہ میں لعان کے بعد اکٹھی تین طلاق کی روایت ہے اور احناف اور مالکیہ کے نزدیک صرف ایک روایت ہے محمود بن لبید والی جس میں ایک ساتھ تین طلاق پر نبیۖ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا لیکن وہ امام شافعی کے نزدیک بڑی مجہول روایت ہے اسلئے قابلِ قبول نہیں ہے۔
جب احناف ایک ساتھ تین طلاق کو خلافِ سنت ثابت کرنا چاہتے ہیں تو وہ ایک طرف محمود بن لبید کی مجہول روایت پر گزارہ کرتے ہیں تو دوسری طرف حضرت عویمر عجلانی کے واقعہ کی تأویل کرتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ طلاق کی آیت نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہو اور علامہ انور شاہ کشمیری نے فیض الباری میں یہ بھی لکھ دیا کہ ”ہوسکتا ہے کہ عویمر عجلانی نے بھی الگ الگ مراحل میں الگ الگ مرتبہ طلاق دی ،جس طرح رفاعة القرظی کے واقعہ میں تین طلاق کا ذکر ہے لیکن تفصیل میں الگ الگ مراحل میں الگ الگ مرتبہ طلاق کی وضاحت ہے”۔
غرض احناف کی سوئی پھر صرف اور صرف محمود بن لبید کی روایت پر اٹک جاتی ہے۔ محمود بن لبید کی روایت میں یہ وضاحت بھی ہے کہ جس شخص نے کہاتھا کہ کیا میں اس کو قتل نہیں کردوں؟۔ تو وہ حضرت عمر تھے۔ اور کس نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں تو وہ حضرت عبداللہ بن عمر تھے جس کی اطلاع بھی حضرت عمر نے خود ہی دی تھی۔ حضرت حسن بصری نے کہا مجھے ایک مستند شخص نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے اکٹھی تین طلاقیں دی تھیں جس سے نبیۖ نے رجوع کا حکم دیا تھا اور پھر بیس سال تک کوئی اور ایسا شخص نہیں ملا جس نے اس کے خلاف کوئی بات کی ہو۔ پھر بیس سال بعد ایک اور زیادہ مستند شخص ملا، جس نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی۔( صحیح مسلم) یہ روایت محمود بن لبید کی روایت سے زیادہ مستند ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہونے کیلئے باقاعدہ مہم جوئی کی گئی تھی۔ فاطمہ بنت قیس کے واقعہ کے حوالے سے بھی باقاعدہ ضعیف احادیث میں عجیب وغریب قسم کی مہم جوئی کاواضح ثبوت ہے۔

صحیح اور ضعیف احادیث کی تأویل!
حضرت امام ابوحنیفہ کے مسلک کے اندرقرآن کے مقابلے میں حدیث صحیح بھی قابلِ قبول نہیں ہے لیکن حتی الامکان ضعیف سے ضعیف احادیث کوبھی رد نہیں کرنا چاہیے، بلکہ حتی الوسع اس کی تأویل کرنی چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر احادیث میں صحیح اور ضعیف کا تضاد ہو تو ان میں ایسی تطبیق کرنے کی کیا صورت ہے کہ ضعیف حدیث بھی قابلِ قبول بن جائے؟۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ فاطمہ بنت قیس کے واقعہ میں حدیث صحیحہ یہ ہے کہ الگ الگ مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی گئی تھی اور ضعیف حدیث میں ہے کہ آن واحد میں طلاق بدعی دی گئی تھی ۔ ان دونوں میں تطبیق کیسے ہوسکتی ہے؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آن واحد میں تین طلاقیں دی گئیں اور پھر ان کو ایک شمار کیا گیا اور مرحلہ وار بھی ایک ایک طلاق کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ اس طرح دونوں احادیث کے متضاد ہونے کے باوجود ان کی تردید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اسی طرح حضرت عبداللہ ابن عباس کی روایت ہے کہ نبیۖ ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی تین سال تک تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی اور پھر ایک ساتھ تین کو تین ہی نافذ کردیا گیا اور دوسری طرف ان کے شاگردوں کی طرف سے یہ کہنا کہ ابن عباس نے ایک ساتھ تین طلاق کیلئے یہ فتویٰ دیا کہ اب رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ حضرت ابن عباس کے قول وفعل میں تضاد ثابت کرنے کے بجائے یا کسی کی ایک بات کی خوامخواہ کی تردید کرنے کے بجائے یہی درست تأویل ہے کہ جب بیوی کی طرف سے اصلاح کا پروگرام ہو تو پھر قرآن کے مطابق رجوع ہوسکتا ہے اور جب بیوی کی طرف سے قرآن کے مطابق اصلاح کا پروگرام نہ ہو تو پھر رجوع کا فتویٰ نہیں دے سکتے تھے۔
ایک مجلس میں ایک شخص نے حضرت ابن عباس سے سوال کیا کہ کیا کسی کو قتل کرنے کے بعد معافی مل سکتی ہے ؟ ، تو ابن عباس نے ان آیات کا حوالہ دیا کہ جن میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس پر بہت سخت وعیدیں ہیں۔ اس کے بعد اسی مجلس میں ایک اور شخص نے یہی سوال کیا تو اس کو یہ جواب دیا کہ اللہ نے معافی کی گنجائش رکھی ہے اور ان آیات کاحوالہ دیا جن میں توبہ کرنے پر معافی کی گنجائش ہے۔ اہل مجلس نے پوچھا کہ سوال ایک تھا تو جواب الگ الگ کیسے دیا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ”پہلے شخص نے قتل کیا تھا اسلئے اس کو ایسی آیات کا حوالہ دیا جس میں معافی کی گنجائش تھی تاکہ وہ مزید توبہ کرلے اور دوسرے نے قتل کا پروگرام بنایا تھا تو اس کو ان آیات کا حوالہ دیا تاکہ قتل سے وہ رُک جائے۔ صحابہ نے قرآن کو سمجھا تھا اور اسی کے مطابق رہنمائی کرتے تھے۔
جب طلاق کے حوالے سے احادیث کا بھرپور مطالعہ کیا جائے تو اس کا یہی خلاصہ نکلتا ہے کہ اس میں صحیح و ضعیف روایات کا ایک بہت بڑا سلسلہ ہے اور ان میں اپنے اپنے مسلک کی وکالت کیلئے حقائق کے منافی ترجیح قائم کی جاتی ہے اور حلالہ کیلئے بہت دلچسپی رکھنے والے اس میں دے مار ساڑھے چار کی طرح نہ صرف قرآن کی آیت کو بالکل غلط استعمال کرتے ہیں بلکہ احادیث کو بھی بہت غلط استعمال کرتے ہیں ۔ اب تو دارالعلوم کراچی والے اپنے فتوؤں میں صرف اور صرف فقہ اور فتاویٰ کی کتابوں سے حوالہ جات نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں اسلئے کہ میں نے انکواپنی کتابوں سے قرآن وحدیث کے حوالہ جات کا جواب دیاتھا۔

فقہ حنفی حق کے قریب تر مگرکچھ غلطی!
حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک ، حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد بن حنبل اور حضرت امام جعفر صادق بہت بڑی شخصیات تھیں۔ سلف صالحین کے نزدیک قرآن کی تعلیم، دین کی تبلیغ اور فرائض کی ادائیگی پر کوئی معاوضہ لینا جائز نہیں تھا لیکن اب علامہ سید جواد حسین نقوی نے چیلنج کیا کہ کوئی شیعہ ذاکر بغیر معاوضہ کے مجلس پڑھ کر دکھائے تو اس کی موت کے پروانے جاری کردئیے ہیں۔ مجھ سے بھی یہ غلطی ہوگئی کہ بھائیوں اور دوستوں سے گاڑی کی سہولت لیکر سفر کرنے کے بجائے بسوں کی چھتوں اور پک اپ کی باڈی پر کھڑے ہوکر بھی سفر کرتا تھا تو لیڈرعلماء کے دل ودماغ میں خناس بیٹھ گیا کہ ہم گاڑی مانگ کر سفر کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ اتنی کتابوں کا مصنف اور ہم سے زیادہ امت مسلمہ کو لیڈ کرنے کی بات کرنے والا اپنی کوئی حیثیت بھی نہیں جتلاتا ہے تو ہماری اس لیڈری کا کیا بنے گا جو پرائے اور بھیک کے پیسوں پر چلتی ہے؟۔
فقہ کے ائمہ نے زمین کی مزارعت کو متفقہ طور پر ناجائز قرار دیا تھا مگر جب انکے شاگردوں نے دین کے نام پر معاوضے لیکر مزے اڑانے شروع کردئیے تو اپنے اماموں کے مؤقف سے انحراف کرنے لگے۔فقہ حنفی کے امام ابوحنیفہ نے جیل میں زہر کھاکر شہادت پائی اور آپ کے شاگرد نے شیخ الاسلام بن کربادشاہ کیلئے اس کے باپ کی لونڈی جائز قرار دینے کے حیلے بتائے تھے۔ آج کا شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن بھی معاوضہ لیکر سودی نظام کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ فتاویٰ عالمگیریہ میں پانچ سو علماء نے یہ فتویٰ جاری کیاہے کہ بادشاہ قتل، زنا، چوری اور کچھ بھی کرے تو اس پر حد جاری نہیں ہوسکتی ہے اسلئے کہ اورنگزیب کو بھائیوں کے قتل کی سزا سے بچاناتھا۔یہ فقہ حنفی نہیں بلکہ اسلام کے نام پر بدترین دھبہ ہے لیکن فقہ حنفی کا کمال ہے کہ اسلام کو تحریف سے بچانے کیلئے زبردست اصول عطاء کردئیے تھے۔ فقہ حنفی نے صحیح حدیث کو رد کرکے ضعیف احادیث کا ناطقہ بند کردیا ہے ،ورنہ امت گمراہ ہوتی۔
طلاق شدہ عورت کیلئے قرآن میں آزادی کا قرینہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جس سے اور جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔ اس سے زیادہ واضح الفاظ میں اللہ نے بیوہ عورت کیلئے چار مہینے دس دن کے بعد اپنے نفس کے بارے میں آزادانہ فیصلے کا اختیار دیا ہے۔ جمہور فقہاء ومحدثین ایک صحیح حدیث کی بنیاد پر بیوہ کیلئے بھی ولی سے آزادی کا تصور نہیں مانتے ہیں جو قرآن کے سراسر منافی ہے ۔ ولی کا تعلق کنواری لڑکی سے ہوتا ہے اور جب اس کی شادی ہوجاتی ہے تو اس کا شوہر اس کا سرپرست بن جاتا ہے اور جب اس کو طلاق ہوجائے یا بیوہ بن جائے تووہ خود مختار اور آزاد بن جاتی ہے۔ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کے باطل ہونے کی حدیث سے اس آیت کی بنیاد پر انکار کرنا درست نہیں ہے کیونکہ ولی کا تعلق کنواری لڑکی سے ہوتا ہے اور طلاق شدہ پر اس کا سابقہ شوہر پابندی لگاتا ہے کہ وہ دوسرے سے نکاح نہ کرے اسلئے ولی کی اجازت والی روایت کو مقابلے میں لانا بھی حماقت ہے۔ جب مولانا بدیع الزمان نے بنوری ٹاؤن کراچی میں ہمیں یہ سبق پڑھایا تھا تو میں نے اسی وقت سوال اٹھایا تھا کہ حنفی مسلک میں پہلی ترجیح حدیث کی تأویل کرنا ہے اور یہ حدیث قرآنی آیت سے متصادم نہیں ہے بلکہ اس کی تأویل ہوسکتی ہے جس پر استاذ محترم نے میری حوصلہ افزائی فرمائی تھی۔
اگر فقہ حنفی کی درست تعلیمات اور اصول کے مطابق طلاق کے حوالے سے قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کی وضاحت کی جائے تو یہ نصابِ تعلیم نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کو قابلِ قبول ہوسکتا ہے۔ بریلوی مکتب کے مولانا مفتی خالد حسن مجددی قادری اور دیوبندی مکتب کے مفتی محمد حسام اللہ شریفی جیسے جید علماء کرام اور مفتیان عظام کے علاوہ بہت سے علماء ہماری تائید کرتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مولانا سمیع الحق نے کہا تھا کہ درس نظامی پر کوئی ایسی وحی نہیں ہے جسے تبدیل نہ کیا جا سکے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ اس خاندان میں عتیق جیسے علماء موجود ہیں۔

مولانا قریشی کو بہت وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔ مولانا سمیع الحق شہیدکا بیان تھا” درسِ نظامی کوئی وحی نہیں کہ تبدیلی نہ ہوسکے” ۔مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ” اس خاندان میں عتیق جیسے اہل علم ہیں”

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر۔ صفحہ نمبر1
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

درسِ نظامی کا بہت بڑا فائدہ ہے کہ قرآن ناظرہ تجوید،قرآت اور اسکا ترجمہ پڑھایا جاتا ہے۔ درسِ نظامی کا پہلا اصول قرآن ہے۔ مسئلہ قرآن میں موجود ہو تو احادیث کو تلاش کرنے کی ضرور ت نہیں اور اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اس کو ناقابلِ عمل سمجھا جائے گا۔ درسِ نظامی کے اس بنیادی اصول نے آج تک امت مسلمہ کو صراط مستقیم پر قائم رکھنے میں بہت زبردست کردار ادا کیا ہے۔
مگرافسوس کہ علماء اور گمراہ مذہبی طبقے نے یہ اصول کماحقہ امت کے سامنے پیش نہیں کیا۔ جاہلوں نے اپنے اصول بنالئے لیکن اس کی طرف توجہ نہیں دی۔ جاویداحمد غامدی تک نے بھی اپنی طرف سے اصول بناڈالے اور میڈیا پر اس کی مسلسل تشہیر کررہاہے لیکن قرآن کی طرف امت کو متوجہ کرنے کی کوشش نہیں کی اور یہی حال غلام احمد پرویز اور دوسرے جدید جاہل مفکرین اسلام کا رہا ہے۔
مثلاً قرآن میں طلاق اور اس سے رجوع کے حوالے سے تفصیلات واضح ہیں۔ اگر ان پڑھ لوگوں کے سامنے اس کا سادہ ترجمہ بھی رکھا جائے تو اس میں ایسی رہنمائی ہے کہ پڑھا لکھا، ان پڑھ ، عالم ، جدید دانشور اور مسلم وغیرمسلم اور عرب وعجم ہر ایک اس کے بہت سادہ اور واضح احکامات کو سمجھ سکتا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے مختلف زبانوں میںاور مختلف زمانوں میں انبیاء کرام کے بھیجنے کی نشاندہی قرآن میں فرمائی ہے تو مذہبی طبقات اور قوم کے سرداروںنے کس طرح انبیاء کرام کی مخالفت کی تھی؟۔ سب ادیان کا بیڑہ انکے علماء ومشائخ نے غرق کیا ہے لیکن رسول اللہ ۖ آخری نبی ہیں اور قرآن آخری کتاب ہے اسلئے قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لے لیا ہے۔ اگرچہ قرآن کریم کی لفظی تحریف مذہبی طبقات کیلئے ممکن نہیں تھی لیکن پھر بھی بعض مذہبی طبقات نے اپنا عقیدہ بگاڑ دیا کہ قرآن میں لفظی تحریف بھی ہے اور معنوی تحریف کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ تو سلامت ہیں لیکن اس کے معانی بگاڑ دئیے گئے ہیں۔ فتویٰ دیوبند پاکستان میں ڈیرہ اسماعیل خان کلاچی کے قاضی عبداالکریم کا ایک سوال چھپ گیا جس کا جواب مفتی اعظم پاکستان مفتی فریدحقانیہ اکوڑہ خٹک نے دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ” مولانا سیدانور شاہ کشمیری کی شرح فیض الباری میں یہ عبارت دیکھ کر پاؤں سے زمین نکل گئی کہ قرآن میں معنوی تحریف تو بہت کی ہے لیکن لفظی تحریف بھی کی ہے یا تو مغالطے سے یا عمداً کی ہے۔ کیونکہ کفار کی طرف اس بات کی نسبت نہیں ہوسکتی ہے اور صحابہ کرام پر یہ تہمت لگتی ہے”۔ جس کا جواب مفتی فرید نے غیر تسلی بخش دیا ہے کہ ”فیض الباری مولانا انورشاہ کشمیری کی تحریر نہیں ہے، کسی نے ان کی تقریروں کو لکھ کر ان کی طرف منسوب کیا ہے”۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے لکھا ہے کہ ” مولانا انورشاہ کشمیری نے عمر کے آخری حصے میں فرمایا کہ میں نے اپنی زندگی ضائع کردی کیونکہ قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ فقہ کی وکالت میں اُلجھ کر ساری زندگی ضائع کی”۔
شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے قرآن کے ترجمہ وتفسیر میں لکھ دیا ہے کہ ” مجھے اس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ مولانا اشرف علی تھانوی نے ترجمہ وتفسیر لکھی ہے۔ بعض احباب کے اصرار پر شاہ عبدالقادر کے ترجمہ وتفسیر میں مغلق الفاظ کی تسہیل کی کوشش کررہاہوں”۔ پھر اس کی تفسیر علامہ شبیراحمد عثمانی نے مکمل کی ہے جس کو تفسیر شیخ الہند کے بجائے بجا طور پر تفسیر عثمانی ہی کہا جاتا ہے۔
تفسیر عثمانی علماء دیوبند کی سب سے زیادہ سہل، بہترین اور مستند تفسیرہے لیکن پھر بھی اردو زبان کی تبدیلی کی وجہ سے اس میں مزید گنجائش پیدا ہوگئی ہے ۔ جبکہ مولانا سیدابولاعلیٰ مودودی کے ترجمے وتفسیر کو زیادہ آسان فہم سمجھا جاتا ہے۔
علماء نے قرآن کے ترجمے اور تفاسیر میں فقہی مسالک کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا تھا اسلئے ان کی تفاسیر عوام کی سمجھ سے بالاتر رہیں اور مولانا سیدمودودی نے عوام کا بھی خیال رکھا ہے اورعلماء کے ترجمہ وتفسیر کو زیادہ سے زیادہ عام فہم بنایا ہے۔
سورۂ طلاق میں ہے کہ اذاطلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن ”جب تم عورتوں کو چھوڑنا چاہو تو عدت تک کیلئے چھوڑ دو” ۔عربی میں طلاق عورتوں کے چھوڑنے کو بھی کہتے ہیں۔ یہ بالکل سادہ زبان میں اس کا ترجمہ ہے لیکن جب اس کو فقہی مسالک میں ڈھالنے کی کوشش کریںگے تو پھر ہر فقہ کا اپنا ترجمہ ہوگا۔
فقہ میں پہلا اختلاف یہ ہے کہ جمہور کے نزدیک عورتوں کی عدت سے مراد ان کے پاکی کے ایام ہیں اور احناف کے نزدیک ان کے حیض کے ایام ہیں۔
فقہ کا دوسرا اختلاف یہ ہے کہ امام شافعی کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق دینا سنت اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق دینا بدعت ہے۔اور اہل تشیع کے نزدیک ضروری ہے کہ ہرطہر یعنی پاکی کے ایام میں ایک بار طلاق دی جائے اور اسکے الفاظ شریعت کے مطابق ہوں اور اس پر دوگواہ مقرر ہوں۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے بخاری کی اپنی شرح ”کشف الباری ” میں لکھا ہے کہ ” عدت کی دو قسمیں ہیں ایک عدت الرجال یعنی مردوں کی عدت، جس میں مرد عورتوں کو طلاق دیتے ہیں اور وہ عورت کی پاکی کا زمانہ ہے اور دوسری قسم عدت النساء ۔یعنی عورتوں کی عدت۔ جس میں عورتوں کو انتظار کرنا پڑتا ہے اور وہ عورتوں کے حیض کا زمانہ ہے۔
مولانا سلیم اللہ خان نے حنفی فقہاء کی بات نقل کی ہے جو لوگوں کو زیادہ قابل فہم لگتی ہے کہ شوہر عورت کو ایسے پاکی کے دنوں میں طلاق دیں کہ جس میں جماع نہیں کیا ہو اور عورتیں حیض تک انتظار کریں تو معاملہ لوگوں کو ناقابلِ فہم نہیں لگتا۔
لیکن جب علما ء اپنی فقہ کے مطابق قرآن کا ترجمہ کرتے ہیں تو عوام کو قرآن نہیں سمجھا سکتے ہیں اسلئے انہوں نے ایک طرف اپنے دانتوں میں اپنی فقہ کو بھی مضبوط پکڑا ہوا ہوتا ہے اور دوسری طرف قرآن کا ترجمہ بھی عوام کو سمجھانا چاہتے ہیں۔ جب قرآن اور فقہ دونوں میں کوئی جوڑ نہیں دیکھتے تو ایک تماشا بنتا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ نے قرآن کا فارسی میں پہلی مرتبہ ترجمہ کیا تھا تو آپ کو دوسال تک روپوش ہونا پڑا اسلئے کہ سمجھدار علماء نے محسوس کیاتھا کہ ہم اس کی وجہ سے بہت مصیبت میں پڑسکتے ہیں۔ پھر شاہ ولی اللہ کے بیٹوں نے قرآن کا اردو میں ترجمہ کیا۔ شاہ رفیع الدین نے لفظی اور شاہ عبدالقادر نے بامحاورہ ترجمہ کیا۔ پھر دیوبندی مکتب کے مولانا اشرف علی تھانوی اور بریلوی مکتب کے مولانا احمد رضاخان بریلوی نے اپنے اپنے ترجمے کردئیے تھے لیکن سمجھدار علماء نے پھر بھی اپنی اور عوام کی تشفی کیلئے قرآن کے ترجموں کا سلسلہ جاری رکھاہے۔
قرآن کے الفاظ یہ ہیں کہ ” جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کو ان کی عدت تل کیلئے طلاق دو”۔ جب طلاق کا ایک مخصوص قسم کا فقہی مذہب کے مطابق کوئی تصور آتا ہے تو بندہ قرآن کے ایک ایک لفظ پر خوب غور کرتا ہے کہ کس طرح سے کوئی ایسا معنی کشید کرے کہ جو اس کے فقہی مسلک سے متضاد بھی نہ ہو اور قرآن کی بھی بالکل غلط وکالت نہ کرے۔ جہاں تک قرآن اور فقہی مسلک کے مطابق قرآن کے ترجمے کا تعلق ہے تو اس میں بہت بڑا تضاد ہے اسلئے کہ قرآن میں عورتوں کی عدت کے مطابق طلاق دینے کا حکم دیا گیا ہے اور اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ حنفی مسلک میں عورتوں کی عدت کا زمانہ ان کے حیض کا دور ہے۔ حنفی مسلک کے مطابق ترجمہ کیا جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ ”جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کو حیض کے دور میں طلاق دو”۔ مسلک حنفی میں یہ ترجمہ بھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتا ہے اسلئے کہ ” مسلک حنفی میں یہ واضح ہے کہ مردوں نے طہر یعنی پاکی کے ایام میں طلاق دینی ہے”۔
قرآن کے الفاظ میں مردوں نے عورتوں کی عدت میں طلاق دینی ہے توپھر عدت الرجال اور عدت النساء کے الگ الگ تصور کا فقہی مسلک بھی بالکل ہی غلط ثابت ہوگا۔ ایک طرف قرآن اور دوسری طرف فقہی مسالک کی حفاظت کا معاملہ سامنے آئے گا تو دونوں کام نہیں ہوسکیں گے اسلئے علامہ سید انورشاہ کشمیری نے ٹھیک کہا کہ” میں نے قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ فقہ کی وکالت میں اپنی ساری زندگی ضائع کردی” ۔ یہ اللہ والے ہوسکتے تھے مگر عالم نہیں۔
شیخ الہند مولانا محمودالحسن یوبندی کے ترجمے کی تفسیر عثمانی میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی نے لکھا کہ” عورتوں کی عدت کا زمانہ انکے حیض کا زمانہ ہے اور قرآن کے الفاظ کا معنی یہ ہے کہ ”عورتوں کے حیض سے تھوڑ ا پہلے طلاق دو ”۔ حالانکہ قرآن کے الفاظ کے یہ معانی قطعی طور پر نہیں بن سکتے ہیں۔
جب طلاق کاایک مسلکی اور شرعی تصور آئیگا تو پھر فرقہ ومسلک کی ترجمانی بھی کرنی پڑے گی اور جب فقہ ومسلک اور قرآن میں کسی ایک ہی کا انتخاب کرنا پڑے تو انسان کی مرضی ہے کہ قرآن سے استفادہ کرے یا پھر مسلک کی پیروی کرے۔ مسلک کی پیروی نے اگر قرآن سے دور کردیا تو پھر مسلک دین میں معنوی تحریف کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور مولانا سید محمدانور شاہ کشمیری نے اس بات کی نشاندہی کردی کہ قرآن میں معنوی تحریف کا بہت ارتکاب ہواہے۔
اکثرپڑھے لکھے لوگ اسلئے علماء کے تراجم اور تفاسیر کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں اور جدید مذہبی اسکالرز اوردینی مفکرین سے استفادہ کرتے ہیں۔حالانکہ یہ لوگ بھی انہی مذہبی مسلک اور تراجم سے تھوڑے بہت اختلاف کیساتھ وہی کچھ لکھتے ہیں جو قرآن کے تراجم اور تفاسیر میں پہلے سے لکھا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” اے پیارے نبی! جب آپ لوگ عورتوں کو چھوڑ و تو ان کو ان کی عدت کیلئے چھوڑ دو۔ اور عدت کا شمار رکھ کر اس کا پورا پورااحاطہ کرو۔ اور اللہ سے ڈرو،جو تمہارا رب ہے۔ ان کو ان کے گھروں سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیں مگر جب وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں۔ اور یہ اللہ کی حدود ہیں اور جو اللہ کی حدود سے گزر جائے تو تحقیق کہ اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا۔اس کو خبر نہیں کہ شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی راہ پیدا کرلے”۔ (سورہ الطلا ق آیت1)
آیت میں فقہی مسائل ومذاہب سے بے خبر اس وقت سادہ لوح عوام کو یہ حکم دیا گیا کہ جب مدارس وجامعات اور سکول وکالج اور یونیورسٹیوں کا کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ ایک آدمی قرآن کے اس پیغام کو بہت اچھی طرح سمجھ سکتا تھا۔
قرآن اور عام زبان میں عورت کی عدت کا مفہوم بالکل واضح ہے اور عدت تک چھوڑنے اور عدت کو شمار کرکے اس کا پورا پورا احاطہ کرنے تک کی بات بھی بالکل واضح ہے اور اس کو اسکے گھر سے نہ نکالنے اور نہ خود نکلنے کی بات بھی بالکل واضح ہے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں اور اس سے نہ نکلنے کا پیغام بھی واضح ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو اس واضح پیغام کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پھر اس کا نقصان کیا ہے؟۔ اللہ نے اس کو بھی واضح کیا ہے کہ اگر یک دم اس کو چھوڑ دیا اور گھر سے نکال دیا تو یہ اپنے ساتھ ظلم ہے اسلئے کہ ہوسکتا ہے کہ پھر اس کے بعد اللہ کوئی دوسری صورت نکال دے۔یعنی آپس میں صلح ہوجائے ۔ اسلئے قرآن کے واضح پیغام کو سمجھنے اور سمجھانے میں کوئی مسئلہ کسی کیلئے بھی نہیں ہے۔
اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی نے لکھا ہے کہ ” ہوسکتا ہے کہ اللہ کی طرف سے کوئی نیا حکم نازل ہوجائے”۔ حالانکہ اس کا کوئی تک نہیں بنتاہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اگر ایک ساتھ تین طلاق دے دی تھیں یا پھر عورت کو گھر سے نکال دیا تھا، یا پھر عدت کے تین مراحل میں الگ الگ تین مرتبہ طلاق دی تھی اور پھر اس پر اہل تشیع کی طرح تمام مراحل میں گواہ بھی بنالئے تھے تو پھر حنفی، اہلحدیث اور شیعہ کا کیا فتویٰ ہے اور قرآن کا کیا حکم ہے؟۔ اپنے اپنے مسلک کا جواب سب فرقوں اور مسالک نے خود دینا ہے لیکن قرآن نے مسلمانوں کیلئے پہلے سے سب کیلئے بہترین راستہ تجویز کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ
” جب وہ عورتیں اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو ان کو معروف طریقے سے روکو یا معروف طریقے سے الگ کرلو۔ اور اپنے میں سے دو عادل گواہ بھی اس پر مقرر کرلو۔ اور اللہ کیلئے گواہی کو قائم کرو۔ یہ وہ قرآن ہے جس کے ذریعے سے ان کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔ اور جو اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کیلئے اس مشکل سے نکلنے کیلئے راہ بنادیتا ہے”۔ (الطلاق :2)
قرآن کی اس آیت میں یہ بات بھی واضح ہے کہ عدت مکمل ہونے کے بعد بھی معروف طریقے سے رجوع کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے بند نہیں کیا ہے۔ جب عورتوں کی عدت مکمل ہوجائے تو پھر معروف طریقے سے رجوع کی بہت واضح وضاحت کے بعد یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اگر معروف طریقے سے عورت کو الگ کردیا تو پھر دو عادل گواہ بھی مقرر کرلو۔ اور گواہی بھی اللہ کیلئے قائم کرو۔ اب اگر عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کے بعد عدت کی تکمیل کے بعد عورت سے معروف طریقے سے رجوع کا فیصلہ کرنے کے بجائے معروف طریقے سے اس کو الگ کردیا اور اس پر دو عادل گواہ بھی بنالئے توپھر بھی اللہ تعالیٰ نے رجوع کا دروازہ بند نہیں کیا ہے۔ بلکہ جس نے اللہ کا خوف کھایا اور اس نے دو گواہوں کی موجودگی میں عورت کے تمام حقوق ادا کرتے ہوئے طلاق یا جدائی کا فیصلہ کیا توپھر بھی اللہ تعالیٰ نے اس مشکل صورتحال سے نکلنے اور رجوع کا راستہ کھلا رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ جن مذہبی طبقات کے نرغے سے قرآن کریم نے عوام کو نکال دیا تھا افسوس کہ انکو پھر ان گدھوں نے اپنے حصار میں لے لیا ہے اور منکوحہ عورتوں کو گدھی سمجھ کر گدھے حلال کرنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن قرآن وسنت سے رہنمائی حاصل کرنیکی زحمت اور ہمت نہیں کرتے ۔ اگر فقہ کی ایک ایک بات کی درست اور سب کیلئے قابلِ قبول وضاحت نہ کروں تو اپنا مشن چھوڑدوں گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

جنگوں میں مردوں اور عورتوں کو غلام بنانے کا خیال۔ زرعی زمین کسان کو کرائے پر دینا حرام ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
نوشتہ دیوار کراچی۔ سوشل میڈیا پوسٹ ماہ نومبر

_ لونڈی اور غلام بنانے کے تصورات_
عام طور پر یہ مشہور ہے کہ جنگوں میں پکڑے جانے والوں کو لونڈی اور غلام بنالیا جاتا تھا لیکن یہ غلط اسلئے ہے کہ غزوہ بدر میں70افراد کو غلام بنالیا گیا لیکن کسی ایک کو بھی غلام نہیں بنایا گیا اور نہ دشمن کو اس طرح سے غلام بنانا ممکن تھا اس لئے کہ دشمن گھر کا نوکر چاکر اور غلام بننے کی جگہ اپنے مالک کو بدترین انتقام کا بھی نشانہ بناسکتا ہے۔بدر کے قیدیوں پر مشاورت ہوئی تو ایک رائے یہ تھی کہ سب کو قتل کردیا جائے اور دوسری رائے یہ تھی کہ فدیہ لیکر معاف کردیا جائے۔ جمہور کی رائے کے مطابق سب سے فدیہ لیکر معاف کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لیکن ان کو غلام بنانے کی تجویز زیرِ غور نہیں آئی تھی اور نہ ان کو غلام بنانے کا کوئی امکان تھا۔
غلام اور لونڈیاں بنانے کا جنگ کی صورتحال کے بعد ایک غلط تصور بٹھادیا گیا ہے جس کوبہت سختی کیساتھ رد کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن میں اہل فرعون کا بنی اسرائیل کے بیٹوں کا قتل کرنا اور عورتوں کو زندہ رکھ کر عصمت دری کرنے کا ذکر ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی رحمتۖ کی بعثت اسلئے نہیں کی تھی کہ اہل فرعون کی جگہ امت مسلمہ بنی اسرائیل اور دیگر لوگوں کی خواتین کو لونڈیاں بنائیںگے۔ تاریخ کے اوراق میں یہ درج ہے کہ جب حضرت عمر فاروق اعظم نے ایران کو فتح کیا تھا تو شاہ فارس کی تین شہزادیوں کو حضرت حسن، حضرت حسین اور حضرت محمد بن ابی بکر کے حوالے کیا تھا۔ حضرت محمد بن ابی بکر بیٹا حضرت ابوبکر کا تھا مگر اس کی پرورش حضرت علی نے بیٹے کی طرح کی تھی اسلئے کہ ان کی ماں سے شادی ہوئی تھی اور اس سے پہلے وہ خاتون حضرت ام عمیس حضرت علی کی بھابھی تھیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خلفاء راشدین نے فارس کے بادشاہ کے ساتھ وہی سلوک کیا تھا جو اہل فرعون نے بنی اسرائیل کیساتھ کیا تھا اور حضرت عمر کے اس کردار میں ائمہ اہل بیت برابر کے شریک تھے؟۔ پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول ہۖ نے فتح خیبر کے بعد حضرت صفیہ سے نکاح کیا تھا تو اس میں بھی آل فرعون کا کردار تھا؟۔ زمانے کے رسم ورواج کو سمجھنے کیلئے بہت زیادہ اور وسیع سے وسیع تر حقائق کو سمجھنا ضروری ہے۔ سردست یہ لگتا ہے کہ حضرت صفیہ اور وہ تینوں شہزادیاں جو حضرت حسن و حسین اورحضرت محمدبن ابی بکر کی خدمت میں پیش کی گئیں تھیں وہ پہلے سے لونڈیاں تھیں اور ان کو آزاد کرکے ان کی عزت افزائی کی گئی تھی۔ جس طرح حضرت ابراہیم کی زوجہ حضرت سارہکو بادشاہ نے لونڈی حضرت حاجر ہ پیش کی تھی ،البتہ حضرت حاجرہ اصل میں شہزادی تھیں۔
لونڈی و غلام بنانے کا اصل ادارہ جاگیردارنہ نظام تھا۔ کھیتی باڑی سے کچھ لوگ اپنی گزر بسر کرتے تھے اور کچھ لوگ بڑے بڑے لینڈ لارڈ ہوتے تھے، جن کے مزارعین ہوتے تھے۔ مزارع لونڈیوں اور غلاموں کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ لینڈ لارڈ ان کو دیہاتوں سے شہروں کی منڈیوں میں لاکر فروخت کرتے تھے۔ منڈیوں میں فرو خت ہونے والے لونڈی اور غلام خوبصورتی اور تربیت کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ قیمت میں فروخت ہوتے تھے اور منڈیوں میں کاروبار کا یہ بھی ایک حصہ ہوتا تھا۔ مزارعین کو لونڈی وغلام بننے میں کوئی دکھ بھی نہیں ہوتا تھا اسلئے کہ کھیتی باڑی میں ان کی زندگیاں زیادہ مشکلات کا شکار ہوتی تھیں۔
ابراہم لنکن نے امریکہ میں غلام ولونڈی کی فروخت وخرید و درآمد پر پابندی لگادی اسلئے امریکہ کو اللہ نے سپر طاقت بنادیا۔ اسلام نے غلام ولونڈی بنانے کے ادارے مزارعت پر پابندی لگادی۔ مسلمان اور کافر کاشتکار اپنی محنت کی کمائی کے مالک تھے اور مسلمان زکوٰة وعشر اور کافر جزیہ کے نام پر حکومت کو ٹیکس دیتے تھے اور اس کی وجہ سے مسلمان ہی دنیا کی واحد سپر طاقت بن گئے مگرپھر رفتہ رفتہ مسلمانوں نے مزارعت کے نظام کو دوبارہ فقہ حنفی کے نام پر جواز بخش دیا تھا۔

لونڈی و غلام کی عزت وتوقیر کامقام
اسلام نے غلام ولونڈی بنانے کے نظام مزارعت کا خاتمہ کردیااور آزادی کیلئے بہانے تراش لئے۔ لونڈی اور غلام کو پورے پورے انسانی حقوق دیدئیے اورآزاد کے مقابلے میں ان کی سزاؤں میں کمی کے رحجانات کے قوانین بنائے۔ عرب کی جاہلیت کے نسلی امتیاز کو اسلام نے کردار کی بنیاد پر خاک میں ملادیا تھا۔ ابولہب وابوجہل ، عتبہ وشیبہ، ولیدو امیہ اور ڈھیر سارے خاندانی سرداروں کے مقابلے میں خاندانی غلام حضرت سیدنا بلال، حضرت مقداد، حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت اسود کووہ اعزاز بخشا کہ تاریخ ان دونوں طرح کی شخصیات کے حوالہ سے عبرت کا آج بھی بہت بڑانشان نظر آتی ہیں۔
قرآن نے واضح کردیا کہ ” مشرک عورتوں سے نکاح مت کرو، یہاں تک وہ ایمان لائیںاور مؤمن غلام مشرک سے بہتر ہے،اگرچہ تمہیں مشرک پسند ہو اور مشرک مردوں سے اپنی عورتوں کا نکاح مت کراؤ،یہاں تک کہ ایمان لائیں اور مشرک عورتوں سے مؤمن لونڈیاں بہتر ہیں اگرچہ مشرک عورت پسند ہو”۔
نسلی امتیاز کے شکار جاہلانہ قبائل کیلئے یہ احکام بڑی کاری ضرب تھے۔ پہل بھی مشرکوں نے خود کی تھی۔ حضرت عائشہ کے رشتے کو پہلے مطعم بن جبیر سے طے کیا گیا تھا لیکن اسلام کے بعد انہوں نے یہ رشتہ رد کیا تھا۔ حضرت بلال کے باپ اور خاندان کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا اور اس طرح بہت سے غلاموں کی اپنے خاندانی حساب سے کوئی شناخت نہیں تھی لیکن حضرت زید خاندانی غلام نہیں تھا۔ بردہ فروشوں نے بچپن میں چوری کرکے بیچا تھا۔ بھائیوں نے حضرت یوسف کوکنویں میں ڈالا تو قافلے والوں نے غلام سمجھ کر بیچ دیا تھا۔ پھر جب معلومات مل گئیں تو حضرت یوسف کی نسبت اپنے باپ یعقوب بن اسحاق بن ابرہیم کی طرف کی گئی۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ ” جن کے باپ دادا کا پتہ نہیں ہے تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور جنکے باپ کا پتہ ہے تو ان کو انکے باپ کی طرف ہی منسوب کیا جائے اور تقویٰ کے زیادہ قریب ہے”۔
حدیث میںتمام مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیا گیا ہے۔ مشرکوں کی رشتہ داری سے اسلئے منع کیا گیا تھا کہ انصار ومہاجرین کے رشتے ناطے اہل کتاب کی نسبت مشرکوں سے زیادہ تھے۔ حالانکہ اہل کتاب بھی مشرکانہ عقائد رکھتے تھے لیکن انکی خواتین کو مسلمانوں کیلئے حلال قرار دیا گیا تھا۔ مشرکوں کے مقابلے میں غلاموں اور لونڈیوں سے نکاح کو ترجیح دینا بہت بڑی بات تھی۔ جس طرح غلام و لونڈی سے نکاح اور معاہدے کی اجازت تھی،اسی طرح سے آزاد مسلمانوں اور غلاموں ولونڈیوں کے درمیان ایگریمنٹ کی بھی اجازت تھی۔ یہ بہت ہی بڑا معاملہ تھا کہ ہجرت نہ کرنیکی وجہ سے نبی ۖ کی چچااور ماموںکی بیٹیوں کو نکاح کیلئے حلال نہیں قرار دیا گیا تھا لیکن حضرت صفیہ سے ایگریمنٹ کی جگہ نبی ۖ نے نکاح کیا تھا۔ حضرت ام ہانی نبیۖ کی زوجہ تھی اور نہ لونڈی بلکہ ان سے ایگریمنٹ کا تعلق تھا ۔حالانکہ حضرت ام ہانی اولین مسلمانوں میں سے تھیں ۔
حضرت صفیہ مال غنیمت کی وجہ سے نبیۖ کی زوجہ بنی تھیں۔ اللہ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ” وہ چچا اور ماموں کی بیٹیاں آپ کیلئے حلال ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور وہ بھی حلال ہیں جو مال غنیمت میں ملی ہیں”۔ کیونکہ اگر حضرت ام ہانی سے رشتہ ہوجاتا اور پھر چھوڑنا پڑتا تو سوال پیدا ہوتا تھا کہ غنیمت کے مال میں آنے والیوں کا کیا حکم ہے؟ اسلئے اللہ نے اس کی وضاحت فرمائی ۔ حضرت صفیہ کی دعوتِ ولیمہ صحابہ نے کھائی تو سوال اٹھایا کہ لونڈی ہیں یا منکوحہ؟ جس کا جواب یہ دیا گیا کہ ”پردہ کروایا گیا تو منکوحہ اور نہیں کروایاگیا تولونڈی”۔ صحیح بخاری اور دیگر احادیث اور قرآن کے واضح احکام بیان کرنا ضروری ہے۔

قرآن کے احکام کو نہیں سمجھنے کا نتیجہ
وانکحوا الایامیٰ منکم والصالحین من عبادکم وایمائکم ”اور نکاح کراؤ، اپنوں میں سے بیوہ وطلاق شدہ کا اور اپنے اچھے غلاموں اور لونڈیوں کا”۔ بیوہ اور طلاق شدہ کے نکاح کرانے کے حکم پر ایسا عمل ہوا تھا کہ ایک ایک عورت کا تین تین چار چار جگہ بھی یکے بعد دیگرے نکاح کرایا گیا تھا۔
لونڈی وغلام کے حقوق کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طلاق شدہ وبیوہ کی طرح ان کے نکاح کرانے کا بھی حکم دیا گیاہے۔لونڈیوں سے نکاح کی بات تو سب کو سمجھ میں آجاتی ہے اور غلام سے بھی نکاح کی بات قابل فہم ہے لیکن جب آزاد عورت کا کسی غلام سے ایگریمنٹ کا معاملہ ہو تو یہ صورت مشکل سے سمجھ میں آتی ہے۔ قرآن کی آیات میں مکاتبت سے یہ صورتحال لگتی ہے۔ اور پھر اس کے بعد فتیات کا ذکر ہے جس میں ان کوبغاوت پر مجبور نہ کرنے کو واضح کیا گیا ہے۔ بظاہر فتیات سے کنواری لڑکیوں کا مسئلہ سمجھ میں آتا ہے جن کواپنی مرضی کے مطابق نکاح سے روکنا یا زبردستی سے کسی ایسے شخص سے نکاح پر مجبور کرنا ہے جس سے وہ نکاح نہیں کرنا چاہتی ہو۔ قرآن میں بغاوت کے ایک معنیٰ بدکاری کے ہیں اور دوسرا اپنی حدود سے تجاوز کرنے کے ہیں۔
معاشرے میں ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جب کوئی لڑکی کسی سے اپنی مرضی کے مطابق شادی کرنا چاہتی ہو لیکن اس کے سرپرست اس کو دنیاوی وجاہت کے خلاف سمجھتے ہوں۔ پھر اگر وہ چھپ کر تعلقات استوار کرے یا پھر بھاگ جائے تو اس کی ساری ذمہ داری سرپرست کے سر ہوگی اور اگر سرپرست اس کی شادی زبردستی سے ایسی جگہ کردے جہاں اس کی مرضی نہ ہو توپھر ناجائز ہونے کے باوجود اس کا گناہ سرپرست کے سر ہوگا۔ قرآن میں یہ معاملہ بہت ہی اچھے انداز میں واضح کیا گیا ہے لیکن بدقسمت اُمت مسلمہ میں قرآن فہمی کا دعویٰ کرنے والوں نے اس کا یہ مفہوم نکالا ہے کہ ” لونڈیوں کو بدکاری کے دھندے پر مجبور مت کرو،اگر وہ پاک دامنی چاہیں ”۔ جس کا بہت غلط مطلب نکلتا ہے اور قرآن اتنی بڑی غلطی کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کا معنی یہی مناسب ہے کہ اپنی کنواری لڑکیوں کو بدکاری یا بغاوت پر مجبور مت کرو،جب وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں”۔ ان اردن تحصنًا کے دونوں معنی ہوسکتے ہیںلیکن ایک بہت عمدہ اور دوسرا انتہائی غلط ہوگا۔ اسلئے کہ نکاح کیلئے راضی ہونے پر کنواری کو غلط راستے پر مجبور نہیںکرنے کی بات بالکل فطری طور پر درست ہے لیکن یہ کہنابالکل غلط ہوگا کہ” لونڈی کو اس وقت بدکاری پر مجبور نہ کیا جائے ،جب وہ پاک دامن رہنا چاہتی ہو” اسلئے کہ پھر مطلب یہی ہوگا کہ جب وہ خود دھندہ کرنا چاہتی ہوتو پھر اس کو بدکاری کا دھندہ کرانے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔
اسلام نے بیوہ وطلاق شدہ، غلام ولونڈی اور کنواری کے جن مسائل کا نکاح کے ذریعے حل پیش کیا ہے تو اس سے قدیم دور سے لیکر موجودہ دور تک معاشرتی برائیوں اور مشکلات کا زبردست طریقے سے خاتمہ ہوسکتا ہے۔ اسلام نے ایک طرف معاشرے کے اندر خواتین کے سرپرستوں کو حکم دیا ہے کہ ان کا نکاح کرایا جائے تو دوسری طرف ان کی مرضی کے بغیر ان کا نکاح کرانے کو ناجائز قرار دیا۔ ایک طرف طلاق شدہ وبیوہ کو اپنی مرضی سے نکاح کے فیصلے اور ان کی مدد کرنے کا حکم دیا تو دوسری طرف کنواری کے فیصلے میں رکاوٹ نہ ڈالنے کا حکم دیا۔ ایک طرف عورت کی مرضی کا خیال رکھا اور اس پر اپنی مرضی کو مسلط کرنے کو ناجائز قرار دیا تو دوسری طرف عورت کیلئے اپنے ولی کی اجازت کو شرط قرار دیدیا۔ جس سے کنواری لڑکیاں ہی مراد ہوسکتی ہیں۔ اگر غیرمسلم اور مسلم کیلئے ان معاملات کے حوالے سے شعور وآگہی کو بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی تو اچھے نتائج نکلتے۔

نکاح اور ایگریمنٹ میں بڑا فرق
اللہ نے فرمایا کہ ” تم نکاح کرو، عورتوں میں سے جن کو تم چاہو، دودواور تین تین اور چارچار ، اگر تمہیں خوف ہو کہ عدل نہیں کرسکوگے تو پھر ایک یا تمہارے معاہدے جن عورتوں کے تم مالک ہو”۔ عربی میں غلام کیلئے عبد اور لونڈی کیلئے اَمة کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اگر چہ قرآن نے کہیں کہیں غلام ولونڈی پر بھی ماملکت ایمانکم کا اطلاق کیا ہے لیکن اس میں ایک معاہدے کی بات واضح ہے اور لونڈی وغلام سے بھی ایک معاہدہ ہی ہوتا ہے۔ جب اس کو مطلوبہ رقم کا عوض مل جائے تو پھر وہ اس معاہدے سے آزاد ہوسکتا ہے۔ البتہ قرآن میں جہاں عورتوں سے نکاح کے متبادل کے طور پر اس کا ذکر ہوا ہے تو اس سے لونڈی وغلام مراد نہیں ہیں ،کیونکہ غلام سے تو جنسی عمل کی اجازت نہیں ہوسکتی اور لونڈی سے بھی نکاح کا حکم بھی ہے۔ لہٰذا اس سے ایگریمنٹ مراد ہے اور اس کا تعلق نکاح کے مقابلے میں ایک دوسرا معاہدہ ہے۔ نکاح میں عورتوں کو انصاف مہیا کرنے کا فرض شوہر کے ذمے ہوتا ہے جبکہ ایگریمنٹ میں یہ ذمہ داری نہیں ہوتی ہے۔ ہزاروں لونڈیوں کو قید میں رکھ کر کیا انصاف دیا جاسکتا ہے؟۔ قرآن نے وہ مسائل حل کئے ہیں جو بادشاہوں نے اپنے محل سراؤں کیلئے بنائے تھے۔
قرآن کی آیات کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ لونڈیوں کا نکاح کرانے کا حکم دیا اور آزاد عورتوں کیساتھ نکاح میں رکھ کر پورا پورا انصاف مہیا کرنے کا تصور دیدیا اور زیادہ عورتوں کو انصاف مہیا نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر ایک یا پھر جن کے مالک تمہارے معاہدے ہوں۔ معاہدے والی کو انصاف مہیا کرنے کی ذمہ داری بھی ایک محدود وقت اور مالی معاونت تک کیلئے ہوسکتی ہے۔عورت اپنا خرچہ خود بھی اٹھاسکتی ہے۔ اگر عورت آزاد ہو اور شوہر غلام تو ان میں بھی معاہدہ ہوسکتا ہے جو لکھنے کی حد تک باہمی مشاورت سے طے ہوسکتا ہے۔ قرآن نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ” اگر تمہیں اس میں خیر نظر آئے تو غلام کی مالی معاونت بھی کرو”۔ قرآن فہمی کا دعویٰ کرنے والوں نے لکھا ہے کہ ” اگر تمہیں غلام کو آزاد کرنے میں خیر نظر آئے تو اس کے ساتھ آزادی کیلئے پیسہ لے کر مکاتب کرو”۔ مولانا سید مودودی نے لکھ دیا ہے کہ ” اگر تمہیں غلام کی سرکشی کا خوف نہ ہو اور اس میں خیر نظر آئے تو اس کے ساتھ مکاتبت کا معاہدہ کرلو”۔ حالانکہ غلام کی آزادی میں بجائے خود خیر ہے۔ کفارہ ادا کرنے کیلئے پہلی ترجیح غلام و لونڈی کو آزاد کرنا واضح کیا گیا ہے۔
نکاح و ایگریمنٹ کا فرق اس سے مزیدواضح ہوجاتا ہے کہ نکاح میں شوہر کو پوری ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے اور ایگریمنٹ میں عورت اپنی حیثیت ہی کے مطابق کبھی مرد کو سپورٹ تک کرتی ہے۔ خاص طورپر اگرمرد غلام ہو اور عورت آزادہو۔ایگریمنٹ میں عورت کی پوزیشن نہیں بدلتی ہے۔ علامہ بدرالدین عینی نے نبیۖ کی28ازواج میں حضرت ام ہانی کو بھی شامل کیا، جس کو علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر تبیان القرآن اور شرح حدیث نعم الباری میں نقل بھی کیا ہے۔ حالانکہ ایگریمنٹ سے عورت کا تشخص نہیں بدلتا ہے۔ پہلے شوہر ہی کی طرف اس کی دنیا میں نسبت ہوتی ہے۔ ام المؤمنین ام حبیبہ سے بھی نبیۖ نے فرمایا تھا کہ ” اپنی بیٹیوں کو مجھ پر پیش نہ کرو”۔ جب قرآن میں اللہ نے یہ واضح کیا کہ ‘ ‘ تمہارے لئے وہ چچا اور ماموں کی بیٹیاں حلال ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور پھر ام ہانی کے ساتھ ایگریمنٹ کا معاملہ ہوا تو یہ سمجھ لیا گیا کہ نکاح اور ایگریمنٹ کے حلال وحرام میں فرق ہے۔ لیکن نبی ۖ نے یہ واضح فرمایا کہ ”جن سے محرم ہونے کی وجہ سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے ان سے ایگریمنٹ بھی نہیں ہوسکتا ہے”۔ حضرت علی نے بھی امیر حمزہ کی بیٹی پیش کردی تھی ۔ نبیۖ نے فرمایا کہ” یہ میری رضائی بھتیجی ہے”۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت کی رضامندی کے بغیر اس کی شادی نہیں ہو سکتی۔ صحیح بخاری کی حدیث کا عنوان

عورت کی حق تلفی کے معرکة الآراء مسائل کی بنیادیںاور ان کے حل کی طرف توجہ طلب امور کے مختصر تذکرے اور نشاندہی!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
نوشتہ دیوار کراچی۔ سوشل میڈیا پوسٹ ماہ نومبر

صحیح بخاری کی احادیث کا عنوان ہے کہ ” عورت کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح نہیں کرایا جاسکتا ہے”۔ رسول اللہ ۖ سے ایک خاتون نے شکایت لگائی کہ اس کا نکاح اس کے ولی نے اس کی مرضی کے بغیر کردیا ہے تو رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ” یہ نکاح نہیں ہوا ہے”۔ قرآن کے بعد فقہ کے اصول میں حدیث کا نمبر ہے۔ جب رسول اللہۖ کی بات سامنے آئے اور وہ قرآن کے خلاف ہو تو پھر اس کو رد کیا جائے اسلئے کہ قرآن پہلے نمبرپر ہے لیکن اس کے بعد کسی دوسرے کے قول حجت نہیں بلکہ قرآن وسنت اور شرعی اصولوں کے بالکل منافی ہے۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے استاذ اور وفاق المدارس العربیہ کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خان نے صحیح بخاری کی اپنی شرح ”کشف الباری ” میں ایک عنوان ” ولایت اجبار” کے نام سے نقل کیا ہے۔ جس میں کسی امام کا یہ مسلک بھی نقل کیا ہے کہ ” عورت کنواری یا طلاق شدہ وبیوہ ، بہر حال ولی کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کا نکاح جبری طور پر اس کی اجازت اور رضامندی کے بغیر کسی بھی اس شخص سے کردے ”۔دوسرا مسلک یہ ہے کہ ” بچی اور کنواری بالغ لڑکی کا زبردستی سے اس کی اجازت کے بغیر نکا ح کرانا ولی کیلئے جائز ہے لیکن طلاق شدہ بچی اور بالغ عورت کا زبردستی سے نکاح کرانا جائز نہیں ہے”۔ یہ شافعی مسلک ہے ۔ اور تیسرا حنفی مسلک یہ ہے کہ ” بچی کنواری ہو یا طلاق شدہ اس کا نکاح زبردستی کرانا ولی کیلئے جائز ہے مگربالغ کنواری اور بیوہ وطلاق شدہ کا زبردستی نکاح کرانا جائز نہیں ہے”۔ چوتھا مسلک یہ ہے کہ ” بچی ،بالغ ، کنواری ، بیوہ و طلاق شدہ کا ولی کیلئے زبردستی سے نکاح کرانا جائز نہیں اور بچی کا نکاح جائز نہیں ہے ”۔ علامہ شبرمہ کے اس مسلک پر جامعہ ازہر مصر کی رہنمائی سے مصر کی حکومت نے بھی1923ء میں قانون سازی کی تھی۔ یہی عدالتوں کیلئے معیار بن گیا ہے۔
مسالک کے نام پر بچیوں اور خواتین کے استحصال کی اجازت انتہائی غلیظ اور گھٹیا بات ہے اور مردوں کے معاشرے میں عورت پر اس سے بھی زیادہ جبر روا رکھا جاتا ہے لیکن اسلام کے نام پر چلنے والی حکومتوں نے اس کا کوئی نوٹس بھی نہیں لیا ہے۔ حضرت مالک بن نویرہ کے قتل کے بعد اس کی خوبصورت بیگم سے اس کی عدت میں جب حضرت خالدبن ولید نے جبری نکاح کرلیا تو حضرت عمر نے خلیفۂ وقت حضرت ابوبکر صدیق سے عرض کیا کہ اس جرم میںخالد بن ولید پر سنگساری کا حکم جاری کردیتے ہیں۔ ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ تنبیہ کافی ہے اسلئے کہ اس فتنے وارتداد کے دور میں ہمیں حضرت خالد کی ضرورت ہے۔
قرآن میںحضرت داؤد کے مشہور واقعہ کا ذکر ہے کہ جب کچھ لوگ اچانک محراب میں داخل ہوگئے تو وہ گھبرا گئے۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہم مسئلہ پوچھنے آئے ہیں، یہ میرا بھائی ہے اور اس کی99دنبیاں ہیں اور میری ایک دنبی ہے ،اس کی چاہت ہے کہ ایک دنبی بھی مجھ سے چھین لے۔ حضرت داؤد نے کہا کہ اگر یہ سچ ہے تو تیرے ساتھ یہ ظلم ہے اور پھر سمجھ گئے اور اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اللہ سے اپنے غلط عزائم کی معافی مانگ لی ۔پس اللہ نے اسکو معاف کردیا”۔ قرآن کے اس واقعہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ حضرت داؤد کی99بیویاں تھیں اور ان کے مجاہد حضرت اوریا کی ایک بیوی تھی اور حضرت داؤد کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ بھی اپنے مجاہد اوریا سے لے لے۔ پہلے ادوار میں عورت کی اپنی حیثیت ایک جانور کی ہوتی تھی۔ بڑے پیمانے پر لونڈیاں رکھنے کا رواج تھا اور طاقتور کمزوروں سے عورت چھین لیتے تھے۔اسلام نے عورت کو ایک انسان اور اپنی جان کے مالک اور اپنے اوپر اختیارات رکھنے کا تصور دنیا کو دے دیا تھا۔
قرآن وسنت کے خلاف مختلف مسالک گھڑ کر اختلافات کے انبار کھڑے نہ کئے جاتے تو آج دنیا میں قرآن وسنت کا نظام عملی طور پر رائج ہوتا۔ پاکستان کی حکومت نے مرد اور عورت کی شادی کیلئے18سال کا قانون اسلئے بنادیا ہے کہ مرد اور عورت کا معاشرے کی طرف سے شادی پر مجبور کرانے کی رسم وروایت کا خاتمہ ہوجائے لیکن جب کوئی بالغ لڑکا اور لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرنے کے موڈ میں ہوتے ہیں تو ان کو معاشرے اور حکومت کے قوانین سے بغاوت کرنے کے نتائج دیکھنے پڑتے ہیں۔ مذہب کی جبری تبدیلی کا معاملہ بھی اصل میں اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔جنسی خواہشات اور شادی کیلئے جب دو افراد سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے سماج، رسم ورواج، مذہب اور کسی بھی رکاوٹ اور قانونی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔ مغرب نے اس کے حل کیلئے جنسی آزادی کو بنیاد قرار دیا ہے اور شادی کیلئے مشترکہ جائیداد اور طلاق کے بعد جائیداد کی تقسیم کو قانون بنادیا ہے۔
عورت کے حق کیلئے نظریۂ ضرورت ہر دور میں حائل رہاہے۔ جب قرآن کی آیات لعان کے حوالے سے سورۂ نور میں نازل ہوئیں تو انصار ی سردارحضرت سعد بن عبادہ نے کہا کہ میں قرآن کے اس حکم لعان پر عمل نہیں بلکہ قتل کروں گا۔ نبیۖ نے انصار سے کہا کہ تمہارا صاحب یہ کیا کہتا ہے؟۔ انصار نے عرض کیا کہ یار سول اللہ صل اللہ علیک وسلم ! یہ بہت غیرت والا ہے۔ ہمیشہ کنواری سے شادی کی اور جب طلاق دی تو کسی اور سے اس کو شادی نہیں کرنے دی۔ طلاق شدہ اور بیوہ سے کبھی شادی نہیں کی۔ نبیۖ نے فرمایا کہ” میں اس سے زیادہ غیرتمند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرتمند ہے”۔ (صحیح بخاری)
انصارنے اپنی غیرت کیلئے حضرت سعد بن عبادہ کی غیرت کو ڈھال بنایااور ان کے دلوں میں یہی تھا کہ اگر بیوی کیساتھ کسی اجنبی کو فحاشی کی حالت میں دیکھ لیں گے تو ہم بھی غیرت کی وجہ سے قتل کردیں گے۔ نبیۖ نے یہی صورتحال دیکھ لی تو فرمایا تھا کہ ” اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا تھا اور یہ عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا۔ پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے”۔ نبیۖ نے یہ خواب دیکھا تھا کہ دین اسلام محض ایک مذہب نہیں رہے گا بلکہ معروضی حقیقت بن جائے گا۔ تمام ادیان پر غالب ہوگا اور آسمان وزمین والے دونوں اس سے خوش ہوں گے۔ اس کو حقیقت میں بدلنے کیلئے وہ اجنبیوں کی جماعت ہوگی جو قرآن کے احکام سے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونکے گی۔قرآن کے الفاظ کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے خود لی ہے اور اس کے معانی اپنے طور پر بہت واضح ہیں لیکن افسوس کہ علماء ،دانشور اور عوام اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ہیں۔
مرد کی سب سے بڑی کمزوری عورت اور عورت کی سب سے بڑی مرد ہے۔ ماں، بہن اور بیٹی تو تقدیر سے ویسے مل جاتے ہیں لیکن بیوی کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ مرد چار وجوہات کی وجہ سے بیگم کا انتخاب کرتا ہے۔نمبر1:حسن وجمال، نمبر2:حسب ونسب، نمبر3:مالداراور صاحب حیثیت،نمبر4:کردار واخلاق، نبیۖ نے ان چاروں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”تیری ناک خاک آلود ہو ، آپ کردار کو سب سے زیادہ ترجیح دو”۔پہلے تین وجوہ کیلئے ترغیب کی ضرورت نہیں ہے، لوگوں میں حسن وجمال، حسب نسب اور مالدار ہونے کی ویسے بڑی رغبت ہوتی ہے مگر نبیۖ نے اصل چیز کی نشاندہی فرمادی۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے اس حدیث کی تشریح میں لکھ دیا کہ ”پہلے تو یہ چاروں کی چاروں صفات اس عورت میں ہونے ہوں لیکن اگر سب نہ ہو ں تو پھر کردار ضرور ہونا چاہیے”۔ علماء کرام میں دنیا کی محبت اتنی گھرکر گئی تھی کہ نبیۖ کی اس حدیث کی درست تشریح کرنے کی توفیق بھی اللہ نے نہیں دی تھی۔
انسان کی فطرت میں حب الشہوات من النساء (عورتوں سے شہوت کی محبت) موجود ہے اور اس کی نشاندہی قرآن نے کردی ہے۔ نبیۖ کو آئندہ شادی نہ کرنے سے اللہ نے منع کرتے ہوئے فرمایا: ولواعجبک حسنھن ” اور اگرچہ ان کا حسن آپ کو اچھا لگے”۔پھر الا ماملکت یمینک ”مگر جو آپ سے ایگریمنٹ والی ہو” کی اجازت دیدی۔حضرت ام ہانی حضرت علی کی ہمشیرہ کوفتح مکہ کے بعدنبیۖ نے شادی کی پیشکش کی لیکن حضرت ام ہانی نے معذرت کرلی۔ جس پر نبیۖ نے ان کی تعریف کی تھی اور پھر اللہ نے فرمایا کہ ” ہم نے تمہارے لئے چچااور ماموں کی ان بیٹیوں کو حلال کیا ہے جنہوں نے آپ کیساتھ ہجرت کی تھی….. اور پھر آئندہ کسی سے بھی نکاح نہ کریں ، چاہے ان کا حسن کتنا اچھا کیوں نہ لگے مگر جس سے آپ کا معاہدہ ہو”۔
علامہ بدر الدین عینی نے نبیۖ کی28ازواج کا ذکر کیا ہے جن میں حضرت ام ہانی کو بھی شامل کیا ہے۔ حالانکہ قرآن کے الفاظ میں ان سے ایگریمنٹ ہی ہوسکتا تھا لیکن باقاعدہ نکاح کی ممانعت تھی اسلئے کہ ام ہانی نے ہجرت نہیں کی تھی اور فتح مکہ سے پہلے وہ اپنے مشرک شوہر کیساتھ ہی رہی تھیں۔ مشرکوں سے نکاح منع ہونے کے باوجود کسی نے بھی انکے ازدواجی تعلقات کو حرام کاری قرار نہیں دیا تھا۔ البتہ مولیٰ علی نے اس کے شوہر کو قتل کرنا چاہا تھا جس پر آپ نے نبیۖ سے اپنے شوہر کیلئے پناہ کی درخواست کی تھی۔ نبیۖ نے فرمایا کہ” صرف شوہر ہی نہیں جس کو چاہو پناہ دے سکتی ہو”۔قرآن اور نبی ۖ کی سنت فطرت کے اتنے محافظ ہیں کہ صلح حدیبیہ کے معاہدے کے بعد جو مرد شرک چھوڑ کر مسلمان ہوجاتا تو اس کو واپس کردیا جاتا لیکن جب خاتون شرک اور اپنے شوہر کو چھوڑ کر مدینہ پہنچ جاتی تو نبیۖ اس کو واپس نہ کرتے۔ اللہ نے سورۂ ممتحنہ میں فرمایا کہ ”ان ہجرت کرنے والی عورتوں سے امتحان لو،اگر واقعی انہوں نے اسلام قبول کیا ہو تو پھر انکو واپس مت لوٹاؤ۔ اسلئے کہ وہ اپنے شوہروں کیلئے اب حلال نہیں ہیں اور نہ ان کے شوہر ان عورتوں کیلئے حلال ہیں۔ ان کوحق مہر دے کر ان سے نکاح کرلو”۔ یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ عورت کیلئے وہ حلال نہیں ہیں کیونکہ مسلمان کو حلال وحرام کا لحاظ کرنا تھا لیکن اس کا کیا مطلب ہے کہ مشرک شوہروں کیلئے وہ حلال نہیں ہیں؟۔ یہ شرعی مسئلہ نہیں تھا بلکہ سماجی مسئلہ تھا۔ اگر ان خواتین کو واپس بھیج دیا جاتا تو پھر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاسکتا تھا۔اسلئے دونوں طرف حلال نہ ہونے کی نسبت کی گئی اور جب ام ہانی نے ہجرت نہیں کی تھی تو ان پر اس بات کا اطلاق بھی نہیں ہوتا تھاکہ وہ اور اس کے شوہر ایک دوسرے کیلئے حلال نہیں۔
قرآن نے سماجی غیرت کا اتنا لحاظ رکھا کہ جب مشرکوں کی مسلمان عورتیں اپنے مشرک شوہروں کو چھوڑ کر مسلمانوں کے پاس آرہی تھیں تومسلمانوں کو بھی اللہ نے یہ حکم دیا کہ ” کافر عورتوں کو اپنے پاس چمٹائے مت رکھو، ان کو رخصت کردو”۔ اس سے بڑھ کر یہ بھی واضح کردیا کہ مشرکوں کے دورِ جاہلیت کے خاص رواج کے مطابق ان کی جو عورتیں بھاگ کر تمہارے پاس آئی ہیں تو ان کے وہ خرچے جو ان کے شوہروں نے ان پر کئے ہیں وہ ان کو واپس لوٹادیں اور تم بھی ان سے وہ خرچہ لے لو جو تم نے ان کافر عورتوں پر کیا ہے اور اگر یہ تمہیں چھوڑ کر خرچہ واپس نہ کریں تو اللہ سے ڈرو اور ان کو معاف کردو”۔
ترجمہ وتفسیر والوں نے کھلے الفاظ کے باوجود یہ مغالطہ کھایا ہے کہ اگر کافر اپنی عورتوں کو وہ خرچہ نہ لوٹائیں تو تمہیں بھی بدلے میںکافر عورتوں کے حق مہرنہیں لوٹانا ہے۔ حالانکہ کافر کیساتھ انکے رواج کے مطابق معاملہ کرنیکا حکم دیا تھا اور اگر ان کی طرف سے اسکی پاسداری نہ ہو تو پھر اللہ نے انتقامی کاروائی سے روکا تھا اور اگر قرآن کا درست ترجمہ اور درست تفسیر ہو تو طالبان،شیعہ، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک والے شدت پسندی کی جگہ آج بھی اعتدال پر آسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و حواء کو جس شجرہ کے قریب جانے سے روکا تھا تو وہ جنسی خواہشات کاشجرۂ نسب تھا۔ اللہ نے انسانوں سے فرمایا ہے کہ ” اے بنی آدم ! شیطان تمہیں ننگا نہ کردے ، جیسے تمہارے والدین کو ننگا کرواکر جنت سے نکال دیا تھا”۔ شجرۂ نسب ہی وہ چیز ہے جس کے قریب جانے سے بھوک و ننگ کا معاملہ ہوتا ہے۔ اکل کے معنی عربی میں کھانے کے بھی ہوتے ہیں اور کنگھی کرنے کے بھی۔ جس طرح جماع کیلئے قرآن میں لامستم النسائ، مباشرت اور مقاربت کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اسی طرح آدم و حواء کے قصے میں بہت زبردست طریقے سے اخلاقیات کے اعلیٰ درجے کے ادب کی زبان میں بات کی گئی ہے۔ جنسی خواہش کی تکمیل میں یا اپنی حدود سے تجاوز کرنے کیلئے یہ الفاظ بہت موزوں ہیں کہ ” ہم نے اپنے اختیار سے ایسا نہیں کیا ہے”۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا بھی سچ ہے کہ ولم نجد لہ عزمًا ”اورہم نے اس کا عزم نہیں پایا”۔لیکن تاہم جس چیز سے اللہ نے منع کیا تھا وہ بہر حال ہوچکی تھی اسلئے اللہ نے فرمایا کہ عصی آدم ربہ فغوی ” آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور پھر وہ بہک گیا”۔ اس فعل کی نسبت حضرت آدم وحواء دونوں کی طرف ہوتی ہے لیکن فاعل اور مفعول میں فرق ہوتا ہے۔ اصل ذمہ دار فاعل حضرت آدم ہی کو قرآن نے قرار دیا ہے لیکن افسوس کہ جرم کے ارتکاب کی ذمہ دار پھر حضرت حواء کو ٹھہرایا جاتا ہے کہ اس نے حضرت آدم کو ورغلایا تھا اور یہ بھی ایک معاشرتی حقیقت ہے کہ جب تک عورت راضی نہ ہو تو مرد کیلئے زبردستی کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ ایک رشتہ بیوی کا ہوتا ہے اور دوسرا ماں کا ہوتا ہے، اس کے علاوہ کئی بہنوں اور بیٹیوں کا بھی معاملہ ہوتا ہے اور محرم وغیرمحرم رشتہ داروں کا بھی معاملہ ہوتا ہے۔ جب تک انسان کے دل ودماغ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ سب خواتین کے مفادات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے اس وقت تک مسائل کا حل ممکن نہیں اور اگر قرآن وسنت کو دیکھ لیں اور پھر مقابلے میں مسلک سازی کے اختلافات کا جائزہ لیں تو مکڑی کے جالوں کی طرح سب صاف ہوجائیں گے۔
اللہ نے فرمایا: الذین یجتنبون کبائر الاثم والفواحش الا اللمم ”وہ لوگ جو اجتناب کرتے ہیں بڑے گناہوں اور فحاشی سے مگراللمم کے”۔ انسان بہت کمزور ہے اور اس میں جنسی خواہشات موجود ہیں اور کہیں نہ کہیں اس سے غلطیوں کا ارتکاب بھی ہوسکتا ہے لیکن اس کی مجموعی زندگی مؤمنانہ کردار کے اندر گزرتی ہو، بڑے گناہوں اور فحاشی سے بچتا ہو تو قرآن نے اللمم کی چھوٹ بھی دیدی ہے۔ اللمم سے کیا مراد ہے؟۔ یہ انسانوں کے ماحول میں ایک مجبوری کا نام ہے جس میں دل ودماغ اور انسان کو اپنے عزائم پر قابو نہیں رہتا ہے اور یہ معاشرے کے اجتماعی رویوں اور انسانوں کے انفرادی اعمال میں ایک راز ہے جس کی وجہ سے انسان اپنی نہیں بلکہ اپنے ربّ کی تعریف اور پاکی بیان کرنے پر ہی دل سے مجبور ہوتا ہے۔ دوسروں کیلئے اچھے جذبات اور اپنی کمزوریوں کے احساس میں زندہ رہتا ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” غیبت کرنا زنا سے بھی زیادہ سخت گناہ ہے” اور اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ”ایک دوسرے کی غیبت مت کرو کیاتم میں سے کوئی اپنے مردے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے”۔
اپنے لئے خدا سے اللمم کی ایک لمبی تاریخ اور زندگی کی تفسیر بیان کرنا لیکن اپنے مسلمان بھائی کے لمحات کی غلطیوں کو سرپر اٹھالینا کوئی اخلاقیات نہیں ہیں۔ بہترین قوانین اور ان پر عمل کرنے سے ہی ہمارا معاشرہ بہترین بن سکتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حدیث قرطاس اور اسلامی اعتدال، بارہ اماموں کی حدیث کا تصور، خواتین کا حق اور اسلامی رنگ، مفتی تقی عثمانی اور سید منور حسن

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
نوشتہ دیوارکراچی ،سوشل میڈیا پوسٹ ماہ نومبر۔

اسلام اور جبر کے درمیان بڑافرق!
قرآن کہتا ہے کہ لااکراہ فی الدین ” دین میں کوئی جبر نہیں ہے”۔ مگر مسلمانوں کے دل ودماغ میںپے درپے خاندانی آمریت نے یہ تصور بٹھادیا کہ ” اسلام جبری نظام کا نام ہے”۔ جب رسول اللہ ۖ نے دنیا کی سپر طاقتوں کو اسلام قبول کرنے کے خطوط بھیجے تو اس میں تبلیغ کا عنصر ہی غالب تھا اسلئے کہ قیصرروم اور فارس کے بادشاہ کی ایسی پوزیشن نہیں تھی اور نہ مسلمانوں کی ایسی حیثیت تھی کہ ایسا حکم دیا جاتا کہ ہتھیار ڈال کر تسلیم ہوجاؤ ورنہ سر قلم کردیا جائیگا۔ البتہ رسول اللہ ۖ کو اعتماد تھا کہ ایک دن حق کے سامنے باطل سرنگوں ہوگا۔ اسلام نے جبری حکومت کے طرز پر خلافت راشدہ کا خواب مسلمانوں کو نہیں دکھایا۔ جب تک مذہبی طبقات کا دل ودماغ اعتدال پر نہیں آئے گا، مسلمانوں سے شدت پسندی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کا گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ اسلام کا درست تصور دنیا اور اپنی عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ افغان طالبان مخمصے کا شکار ہیں کہ اگر ملاعمرکے اقدامات سے منہ پھیر لیتے ہیں تو اپنے داعش میں شامل ہوتے ہیں اور اگر ملاعمر کی اطاعت کرتے ہیں تو دنیا میں تنہائی کا شکار ہوں گے۔ اس مشکل صورتحال سے نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ اسلام کا وہی تصور پیش کیا جائے جو اللہ اور اسکے رسول ۖ نے ساڑھے چودہ سوسال پہلے پیش کیا تھا اور پھر اسلام مختلف ادوار میں اجنبیت کی نذر ہوتا چلا گیا ہے۔
میثاق مدینہ کا تعلق ریاستِ مدینہ کی داخلہ پالیسی کے نظام سے تھا اور صلح حدیبیہ کا تعلق ریاستِ مدینہ کی خارجہ پالیسی کے نظام سے تھا۔دونوں پالیسی کا نظام ایمان واسلام پر مبنی تھا اور ان کا کفر ونفاق کے نظام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
صلح حدیبیہ کا معاہدہ محاذ جنگ کے کنارے کھڑے ہوکر نہیں کیا گیا تھا بلکہ مشرکینِ مکہ مسلمانوں کو عمرہ کی ادائیگی کیلئے مکہ میں آنے کی اجازت سے روک رہے تھے اور مسلمانوں کی خواہش تھی کہ احرام عمرہ کے بغیر کھولنے کے بجائے عمرہ ادا کرکے واپس چلے جائیں۔ جب یہ جھوٹی افواہ پھیلادی گئی کہ مسلمانوں کے قاصدحضرت عثمان کو شہید کیا گیا ہے تو رسول اللہ ۖ نے جنگ کیلئے بیعت لے لی۔ لیکن پھر معلوم ہوگیا کہ حضرت عثمان زندہ سلامت ہیں اور اس وقت پھر یہ افسوسناک صورتحال پیش آئی جب باغیوں نے حضرت عثمان کو تخت خلافت پر شہید کردیا تھا۔ کہاں مسلمانوں کا یہود کیساتھ میثاقِ مدینہ کرنا اور مشرکین مکہ کے ساتھ صلح حدیبیہ کا معاہدہ کرنا اور کہاں حضرت عثمان کومسند پر شہید کرنا؟۔آج تک مسلمانوں نے پھر زیادہ اچھے دن نہیں دیکھے ہیں۔ اگر نبیۖ کیلئے اللہ کی مدد نہ ہوتی تو صلح حدیبیہ اور میثاق مدینہ کے خلاف بھی بغاوت ہوسکتی تھی۔
کتنی گھمبیر صورتحال ہوگی کہ اللہ نے نبیۖ کی ازواج مطہرات کو حکم دیاتھا کہ وقرن فی بیوتکن ”اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہیں”۔ نبیۖ نے امہات المؤمنین سے فرمایا ”میرے ساتھ جو حج کیا، وہ کافی ہے، میرے بعد حج نہ کرنا اور تمہارا کیا حال ہوگا کہ جب حواّب کے کتے آپ پر بھونکیں گے”۔ اور یہ بھی فرمایا کہ” وہ قوم کامیاب نہیں ہوسکتی ہے جس کی قیادت عورت کررہی ہو”۔ (صحیح بخاری) پھرحضرت علی کے خلاف لشکر کی قیادت حضرت عائشہ نے کی تھی۔ مگرحضرت عثمان کیلئے قرآن میں پہلے سے بیعت کا معاملہ بھی بہت سنگین تھااور حدیث قرطاس سے زیادہ پردۂ غیب میں نافرمانی کا تصور بھی زیادہ بڑا نہیں تھا۔

حدیث قرطاس اور اسلامی اعتدال
جب تک شیعہ سنی کے درمیان مکالمے کا دروازہ نہیں کھلے گا تو اسلامی تاریخ بھی سمجھ میں نہیں آئے گی۔ غالی شیعوں کا یہ حال ہے کہ کہتے ہیں کہ ”اگرفاطمہ نہ ہوتی تو نہ محمدۖ ہوتے اور نہ علی ہوتے”۔اہل تشیع کی اکثریت کا حال یہی ہے کہ وہ شخصیت پرستی کا بدترین شکار ہیں اور اس سے امت مسلمہ اور خاص طور پر شیعوں کو زیادہ نقصان پہنچنے کا سخت اندیشہ ہے۔ امریکہ دنیا میں37فیصد اسلحہ فروخت کرتا ہے اور اس میں24فیصد سعودی عرب اسلئے خرید رہاہے کہ یمن کے حوثی شیعہ سے ان کو خطرات لاحق ہیں۔ جونہی امریکہ افغانستان سے نکل گیا تو داعش نے شیعوں کی مساجد پر دھماکے شروع کردئیے۔ جب شیعہ شدت پسندوں کیلئے تحریر وتقریر کی آزادی ہے اور دلائل سے زیادہ شخصیت سوزی اور شخصیت سازی میں مسلسل لگے ہوئے ہیں تو اس کے نتیجے میں فرقہ واریت کو زبردست ہوا ملے گی۔ یہود شخصیت سوزی میں اس انتہاء کو پہنچ گئے کہ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ پر تہمت باندھنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ اور عیسائی شخصیت پرستی کا اس طرح سے شکار ہوئے کہ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ کو بھی اللہ کی خدائی میں شریک بنالیا۔ اہل تشیع ایک طرف اہل بیت کے حوالے سے بہت غلو کا شکار ہیں اور دوسری طرف سے صحابہ کرام کیخلاف گستاخانہ لہجہ استعمال کرتے ہیں اور یہ دونوں ہی اصل میں فساد کی وہ جڑیں ہیں جن پر بڑے بڑے درخت اُگ گئے ہیں۔
جب حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن عباس کے سامنے نبیۖ نے فرمایا کہ ” ایک قلم اور کاغذ لیکر آؤ تاکہ میں تمہیں ایسی چیز لکھ کردوں کہ میرے بعد آپ گمراہ نہ ہوجاؤ۔ تو حضرت عمر نے عرض کیا کہ ہمارے پاس قرآن کافی ہے”۔
حضرت علی نے اس وجہ سے حضرت عمر کے خلاف کوئی تلوار نہیں اٹھائی کہ نبیۖ کی نافرمانی کی یہ انتہاء ہوگئی ہے۔ جب حضرت عائشہ نے حضرت علی کے خلاف جنگ کی تھی تو بھی حضرت علی نے آپ کے احترام میں کوئی فرق نہیں کیا اور جب اللہ نے ام المؤمنین قرار دیا تو اپنی ماں کی بے احترامی کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں تھا۔اختلاف تو دو پیغمبروں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون میں بھی ہوا تھا۔داڑھی اور سر کے بالوں کو پکڑنے تک بھی بات پہنچ گئی تھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی ایک کی شخصیت سازی اور دوسرے کی شخصیت سوزی کی جائے۔ اہل تشیع کے جن لوگوں میں پشت درپشت اہل بیت کی شخصیت سازی اور صحابہ کرام کے خلاف شخصیت سوزی کا جذبہ ہے ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے ، ان پر زبردستی سے اپنے عقائد ٹھونسنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اسلام کا نزول ہوا تو ایک مقدس پیغمبر حضرت عیسیٰ کی پوجا کرنیوالی قوم عیسائیوں کے خلاف واجب القتل کے فتوے جاری نہیں کئے گئے اور نہ ہی اس وجہ سے یہود یوں کو قتل کرنے کے فتوے جاری کئے گئے کہ وہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں کوئی گستاخانہ عقائد رکھتے ہیں۔اہل تشیع کو انکے بہیمانہ عقائد رکھنے کی وجہ سے واجب القتل سمجھنا اسلام کے بنیادی معاملات کو نہ سمجھنے کے مترادف ہے۔
یہودونصاریٰ کی خواتین سے مسلمانوں کو نکاح کی اجازت دی گئی تھی تو اس کا یہی مطلب تھا کہ شخصیت سوزی اور شخصیت سازی کرنے والوں کے خلاف اشتعال پھیلانے اور واجب القتل کے فتوے جاری کرنے کا ایجنڈا اسلام نہیں کسی اور کا ایجنڈہ ہے۔ امریکہ جس طرح داعش کو ختم بھی کرنا چاہتا ہے تو اس کو زندہ بھی رکھنا چاہتا ہے اور ایران اور اہل تشیع کیساتھ بھی ان کا یہی معاملہ ہے۔
اگر سیرت رسول ۖ کو پیشِ نظر رکھا جائے تو پھر صلح حدیبیہ اور میثاق مدینہ کے خلاف دہشت گرد پیدا نہیں ہوں گے لیکن ان کو نظر انداز کیا جائے تو خلافت راشدہ کے دور میں حضرت عثمان اور حضرت علی کی شخصیات بھی شدت پسندوں کے ہاتھوں اذیت اور شہادت سے نہیں بچ سکیں۔ فیصلہ ہم نے کرنا ہے۔

کیامان لیا اپنی ماضی کی غلطیوں کو؟
جب وحی کا سلسلہ جاری تھا تو نبیۖ کی بھی بہت معاملات میں وحی کے ذریعے سے رہنمائی ہو جاتی تھی۔ سورۂ مجادلہ، سورۂ احزاب ، سورۂ عبس اور غزوۂ بدر اور غزوۂ اُحد کے بعد کی آیات میں اس حوالے سے بہت روشن دلائل ہیں ۔ جب وحی کا سلسلہ بند ہوا تو مشاور ت سے حضرت ابوبکر کی خلافت قائم نہیں ہوئی تھی بلکہ یہ ایک حادثہ تھا اسلئے کہ انصار کی چاہت تھی کہ خلیفہ انصار میں سے ہوتا اور انہوں نے کھل کر کہا تھا کہ پہلے معاملہ نبیۖ کا تھا۔ جب نبی مہاجرین میں سے تھے تو ہم نے تمہارا ساتھ دیا۔ نبی کا انتخاب اللہ خود کرتا ہے لیکن خلیفہ ہم نے منتخب کرنا ہوتا ہے۔ مہاجرین سے زیادہ انصار خلافت کے حقدار ہیں۔ جب یہ بات حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے نہیں مانی تو انہوں نے کہا کہ ایک امیر آپ میں سے ہو اور ایک امیر ہم سے ہو۔ لیکن یہ بات بھی مہاجرین نے نہیں مانی بلکہ یہ تجویز پیش کی کہ ہم امیر بنیں گے اور تم وزیر بن جاؤ۔ حضرت سعد بن عبادہ اس پر زندگی کے آخری لمحے تک ناراض رہے ۔ حضرت ابوبکر وعمر کے پیچھے نماز تک بھی نہیں پڑھتے تھے۔ حجاز وعرب میں قریش کی اہمیت اپنی جگہ پر تھی۔ نبیۖ نے بھی فرمایا تھا کہ ”امام قریش میں سے ہوں گے ”۔ لیکن اہل بیت حضرت علی و ابن عباس وغیرہ میں خلافت کے مسئلے پر دوسرے قریش سے اختلاف تھا۔ پھر حضرت ابوبکر سے حضرت امام حسن نے کہا تھا کہ آپ میرے باپ کے منبر پر بیٹھے ہیں اور حضرت امام حسین نے حضرت عمر سے یہی بات کہی تھی اور پھر جب حضرت عثمان مسندِ خلافت پر شہید کئے گئے تو حضرت علی کو بھی مدینہ چھوڑ کر کوفہ کو اپنا مرکز بنانا پڑا تھا۔ اما م حسن نے قربانی دیکر امیرمعاویہ کی سپورٹ کی تھی۔ پھر بنو امیہ اور بنوعباس نے باری باری خلافتوں پر قبضہ کیا اور آخر ترک عثمانیوں نے خلافت کو اپنے خاندانی قبضے سے نوازنے کا شرف حاصل کرلیا تھا۔ پھر ان کو محمود غزنوی نے بھی بلیک میل کیا کہ اگروہ جگہ میرے حوالے نہ کی توہاتھیوں کیساتھ حملہ کرنے تشریف لاؤں گا۔ اس وقت کے ترک عثمانی بادشاہ نے کہا تھا کہ کیا تم مجھے ہاتھی والوں کی طرح ڈراتے ہو ؟، جسکا ذکر سورۂ فیل میں اللہ نے کیا ہے۔
اہل بیت خاص طور پر امام حسن کی اولادپر عباسی خلیفہ قاہر نے بہت مظالم کی انتہاء کردی تھی۔ جب اما م حسین کی اولاد کو فاطمیوں کے نام سے حکومت مل گئی تو وہ آج آغا خان خانی اور بوہریوں کی شکل میں موجود ہیں۔ امامیہ فرقے نے پہلی مرتبہ ایران میں حکومت قائم کرلی ہے، حالانکہ ان کے اہل بیت کا قول یہ تھا کہ ہماری اولاد میں سے جس نے خروج کیا وہ ایسے پرندے کا بچہ ہوگا جو اغیار کا پالتو ایجنٹ ہوگا۔ امام خمینی نے فرانس سے ایرانی حکومت پر قبضہ کرلیا۔
اہل تشیع کی کتابوں میں ہے کہ نبوت اور ولایت کا نور حضرت آدم سے شیبہ حضرت عبدالمطلب تک ایک تھے۔ پھر حضرت عبداللہ کے توسط سے حضرت محمد ۖ اور حضرت ابوطالب کے توسط سے حضرت علی تک دونوں نور الگ الگ ہستیوں کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نوروالایت پہلے حضرت امام حسن میں منتقل ہوا تو پھر ان کی اولاد میں منتقل ہونا چاہیے اور پھر یہ نور حضرت امام حسین اور ان کی اولاد میں کیسے منتقل ہوا؟۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ نورامامت حضرت امام حسن اور نورولایت حضرت امام حسین میں منتقل ہوگیا تھا لیکن اہل تشیع فرقہ امامیہ نے اس کواپنے طور پر درست سمجھانہیں تھا؟۔

_ بارہ اماموں کی حدیث کا تصورکیا؟ _
اہل تشیع کے بارہ اماموں کا تصور بہت واضح ہے۔شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوینے بھی اپنی کتابوں میں ان کے حوالے سے بہت وضاحت کی ہے اور صوفیاء وعلماء کی کتابوں میں انکے تذکرے ہیں ۔ لیکن جس طرح کی احادیث اہل تشیع پیش کرتے ہیں ان پر ائمہ اہل بیت کا یہ سلسلہ پورا نہیں اترتا ہے۔ اسلئے کہ کشتی نوح اور قرآن واہل بیت کے حوالے سے مہدی ٔ غائب کے پھر غائب ہونے کی گنجائش نہیں بچ سکتی ہے۔ جب ہمارا امام غائب ہو تو امام زمانہ کو نہ پہچاننے کی ذمہ داری امت پر کیسے پڑے گی؟۔
جب امت کو ہلاکت سے بچانے میں قرآن کیساتھ دوسری چیز اہل بیت ہو تو اہل بیت کی غیبت میں ذمہ داری امت پر کیسے پڑسکتی ہے؟۔اگر اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی ہو تو پھر کشتی کے غائب ہونے کے بعد امت کی ہلاکت کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے گا؟ ۔ اہل بیت کو یا پھرامت مسلمہ کو؟۔ شیعہ بہت منطقی لوگ ہیں اور جب نااہل قسم کے ذاکرین اور علماء اپنے تضادات کو اجاگر کررہے ہیں تو اس اختلاف کو ختم کرنے کیلئے اللہ کرے کہ مہدیٔ غائب تشریف لائیں۔
جب اہل تشیع اہل سنت کی کتابوں میں بارہ ائمہ اہل بیت کا جواب دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں تو وہ اہل سنت پر برس پڑتے ہیں۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے پہلے مرشدپیر سید مہر علی شاہ گیلانی گولڑہ شریف نے اپنی ایک کتاب ” تصفیہ مابین شیعہ وسنی ” میں لکھ دیا ہے کہ حدیث میں جن بارہ اماموں کا ذکر ہے ،وہ ابھی تک نہیں آئے ہیں۔ جن میں سے ہر ایک پر امت کا اجماع ہوگا اور اس کا ذکر علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب ” الحاوی للفتاویٰ” میں کیا ہے۔ جبکہ اہل تشیع کو اپنی حدیث کا جواب بھی اسی سے مل سکتا ہے۔ اہل تشیع نے لکھ دیا ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے کہ جس کے اول میں مَیں ہوں، اس کے درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ ۔ اور ہوسکتا ہے کہ درمیانے زمانے کے مہدی سے مراد عباسی خلیفہ مہدی ہو۔ اسلئے کہ عباسی خاندان کے خلفاء سے ان کے ائمہ اہل بیت کے مراسم بھی اچھے تھے۔پھر یہ بھی لکھا ہے کہ ہماری کتابوں میں یہ حدیث ہے کہ مہدی کے بعد گیارہ مہدی اور بھی آئیں گے جن کو اقتدار بھی ملے گا۔ لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخری امیر کا آخری ہونا پھر کیسے ثابت ہوگا؟۔ اس کا جواب یہی ہے کہ عباسی مہدی کی جگہ درمیانہ زمانے میں ایک مہدی کو مانا جائے اور اس کے بعد گیارہ مہدیوں کو خلافت ملے گی تو آخری امیر بھی اپنی جگہ پر آئیں گے اور روایات پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ علامہ طالب جوہری نے لکھا ہے کہ مشرق سے ایک دجال آئے گا اور اس کے مقابلے میں حسن کی اولاد سے کوئی شخص آئے گا ۔ یہ دجال کوئی اور دجال ہوگا اور حسن کی اولاد سے سید گیلانی مراد ہوسکتے ہیں۔
شیعہ اکثریت گیلانی سادات اور امام حسن کی اولاد پر اعتراض کرتی تھی مگر اب انہوں نے امام حسن کی اولاد سے اپنے شجرے بھی نکال لئے ہیں۔ ہماری کوشش صرف اتنی ہے کہ قتل وغارتگری کا بازار گرم ہونے کی جگہ ایک اچھا ماحول بن جائے۔ باقی جب صحابہ کرام اور اہل بیت کی موجودگی میں بھی بڑے بڑے فسادات ہوئے تھے تو موجودہ دور کے فسادیوں کو کون اور کس طرح سے روک سکتا ہے؟۔ اہل سنت کی مشہور کتاب مظاہر حق شرح مشکوٰة شریف میں روایت ہے کہ پہلے چھ افراد امام حسن کی اولاد سے ہوں گے اور پھر پانچ افراد امام حسین کی اولاد سے ہوں گے اور آخری فرد پھر امام حسن کی اولاد سے ہوگا؟۔ اہل تشیع کی کتابوں میں بھی یہ نقشہ واضح ہوگا اسلئے کہ علامہ طالب جوہری نے لکھا ہے کہ امام حسن کی اولاد سید گیلانی کے حوالے سے بہت تفصیلات روایات میں موجود ہیں۔ اور یہ کتاب1987ء میں شائع ہوئی تھی جب ہماری تحریک نہیں تھی۔

عورت کا حق اور اسلامی رنگ
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
انسان، حیوان اورپرندہ اپنی اپنی جبلت رکھتے ہیں۔ جوڑے میں نرطاقتور اور مادہ کمزور ہوتی ہے۔ سائز میں بھی طاقتور نر اور صنف نازک کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ نر جنسی خواہشات کے مسئلہ میں جبر کا خوگر اور مادہ بہت محتاط ہوتی ہے۔ نر کو جنسی خواہش پوری کرنے کے بعد سنگین نتائج کا سامنا نہیں ہوتا ہے مگر مادہ کو بچے جننے سے لیکر دودھ پلانے تک بہت ساری ذمہ داریوں سے نمٹنا پڑتا ہے۔
اسلام نے مرد پر نکاح کیلئے حق مہر کی ذمہ داری ڈالی ہے۔ عورت اور بچوں کا سارا خرچہ، گھر بار مہیا کرنے، تعلیم وتربیت اور علاج معالجے تک سب کچھ مرد کے ذمے لگایا ہے۔ وہ خواتین بالکل غلطی پر ہیں جو دنیا بھر میں مردوں سے برابر کے حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں کیونکہ اگر قانونی بندھن ختم ہوگیا توپھر مادہ جانوروں کی طرح وہ اکیلے بچے پالنے کی ذمہ داری اٹھانے پر مجبور ہوں گی اور کوئی عورت اپنے مضبوط بیک گراؤنڈ کے تحت یہ صلاحیت رکھتی ہو اور اس کو معاونت کی کوئی ضرورت نہ ہو تو پھر قرآن وسنت میں اس کا بھی راستہ موجود ہے۔ عبدالمطلب کا اصل نام شیبہ تھا۔حضرت ہاشم کے انتقال کے بعد اُن کی والدہ نے اُنکے بھائی مطلب کے پاس بھیج دیا تو لوگ سمجھ رہے تھے کہ شاید یہ مطلب کا غلام ہے ،اس وجہ سے ان کا نام عبدالمطلب پڑ گیا۔ام المؤمنین حضرت خدیجة الکبریٰ تجارت کرتی تھیں، رسول اللہۖ سے شادی ہوئی تو اس مالدار خاتون کے احسانات نے اسلامی تحریک کوبہت فائدہ پہنچایا ۔نبیۖ نے فرمایا : سیدالقوم خادمھم ”قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے”۔مرد عورت کا چوکیدار ہوتا ہے جیسے فوج کے سپہ سالار کو اپنی قوم کی چوکیداری پر فخر ہوتا ہے،اسی طرح مردوں کو اپنی خواتین کی چوکیداری پر بہت فخر ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے اسلامی آئین سے ڈرانے کیلئے ابلیس اعظم کی آواز کو برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں تک اردو میں پہنچایا ہے۔
الحذر آئینِ پیغمبر سے سوبار الحذر حافظِ ناموسِ زن مرد آزما مرد آفریں
قائداعظم کے مزارکراچی میںپنجاب سے آنے والی ایک نو بیاہی عورت کو بندوق کے زور سے یرغمال بناکر انتظامیہ کے ایک کمرے میں لے جایا گیا اور پھر اس کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ خاتون نے تینوں مجرموں کو پہچان لیا اور ان کاDNAسے بھی جرم مثبت آیا۔ کیس میڈیا کی زینت بھی بن گیا تھا لیکن اب مجرموں کو عدالت نے باعزت بری کردیا ہے۔ پرویزمشرف کے دور میں2006ء میںحدود آرڈنینس کے تحت زنا بالجبر میں چار عینی گواہوں کا قانون ختم کرکے اس کو تعزیرات پاکستان کی سزا دینے کا قانون بنایا گیا تھالیکن عدالت نے پھر بھی مجرموں کو سزا سے بچانے کیلئے اسی ختم شدہ قانون کے تحت مجرموں کو بری کردیا ہے۔ تفصیلات ڈان نیوز کے پروگرام ”ذرا ہٹ کے” میں اس خاتون کی وکیل سے سوشل میڈیا پر دیکھ لیں جس کی ناموس کو عدالت نے تحفظ نہیں دیا۔
مفتی محمد تقی عثمانی اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں جیسے لوگوں کا ضمیر بالکل ختم ہے۔ ایک ایسی مظلوم عورت کے خلاف فتویٰ مرتب کرنا اور مذہب کے نام پر قرآن وسنت کا تماشہ بنانا کہاں کی انسانیت ہے جس کو اپنے پرظلم کیخلاف آواز اُٹھانے پر بھی کوڑے مارے جائیں۔ یہ بہت زیادہ غیرت رکھنے والے اللہ اور اسکے غیرتمند رسول ۖ کا قانون نہیں ہے بلکہ ظالموں کے حامیوں کی فقہ ہے۔

_ مفتی تقی عثمانی اور سید منورحسن _
جب عورت کو جبری زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور وہ انصاف کیلئے تھانہ کچہری جاتی ہے تو اس سے چار گواہوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے جو باشرع اور باکردار ہوں اور عین موقع کی گواہی دیدیں۔ اگر عورت کے پاس چار موقع کے گواہ نہ ہوں تو پھر اس پرمرد کی ہتکِ عزت کرنے کے تحت سزا کا قانون بھی ہوتا ہے۔ بہت سی خواتین اس قانون کے تحت تھانوں اور جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بند ہوتی تھیں کہ ان کے پاس کوئی گواہ نہیں ہوتا تھا ۔ پرویزمشرف کے دور میں حدود آرڈنینس کی جگہ تعزیراتِ پاکستان کے تحت زنا بالجبر کے مجرموں کو سخت سزا دینے کا قانون اسمبلی میںلانے کی بات ہوئی تو شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اس کے خلاف ایک تحریر لکھی جس میں انتہائی بھونڈے دلائل تھے اور جماعت اسلامی نے اس کو شائع کیا تھا۔ جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن سے صحافی نے پوچھا کہ اگر کسی عورت کیساتھ جبری جنسی زیادی ہوجائے تو پھر وہ کیا کرے؟۔ سیدمنور حسن نے کہا کہ ” وہ خاموش رہے اور برداشت کرے”۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے لکھا تھا کہ ”سورۂ نور میں زنا کی سزا کا ذکر ہے اور اس میں یہ قید نہیں ہے کہ زنا رضامندی سے ہو یا جبرسے ہو”۔ حالانکہ یہ سراسر بکواس بات تھی اسلئے کہ سورۂ نور میں رضامندی ہی کی وضاحت ہے۔اللہ نے فرمایا کہ” زانیہ عورت اور زانیہ مرد میں سے ہر ایک کو سوسو کوڑے لگاؤ” ۔ جس طرح کوئی عورت جبری جنسی زیادتی کی شکار ہوجائے تو اس کو کوئی سزا نہیں دی جاسکتی ہے بلکہ رضامندی سے بدکاری کرے تو اس کو سزا دی جاسکتی ہے اسی طرح سورۂ نور میں یہ سزا بھی رضامندی سے بدکاری کرنے والوں کیلئے ہے۔
قرآن وسنت میں واضح ہے کہ زبردستی سے عورت کو ہراساں کرنے والوں کا حکم پہلے بھی قتل تھا اور اس امت میں بھی قتل ہے۔ جہاں یہ آیات نازل ہوئیں کہ جب نبیۖ کھانے کیلئے دعوت دیں تو وقت سے پہلے آکر مت بیٹھو اور نہ کھانا کھانے کے بعد باتیں کرنے بیٹھ جاؤ ، اس سے نبیۖ کو اذیت ہوتی ہے اور آپۖ یہ کہنے سے حیاء کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ حق کہنے سے نہیں شرماتا ہے اور نبیۖ کی ازواج سے نکاح مت کرو۔ اس سے نبی ۖ کو اذیت ہوتی ہے ۔ تو اس کیساتھ دوسرے رکوع میں اللہ نے فرمایا ہے کہ ”مؤمنوں کی خواتین سے کہہ دیں کہ باہر نکلتے وقت ایسا لباس پہن کر نکلیں تاکہ وہ پہچانی جائیں اور پھر ان کو اذیت نہیں دی جائے۔ جو منافق لوگ اور جن کے دلوں میں مرض ہے شہر میں رہتے ہیں ،ان پر آپ کو مسلط کیا جائے گا تو وہ پڑوس میں رہیں گے مگر بہت کم عرصہ۔ یہ اللہ کی پہلوںمیںسنت رہی ہے کہ یہ لوگ جہاں پائے گئے پکڑے گئے اور قتل کئے گئے”۔ ان آیات میں زنا بالجبروالوں کیلئے قتل کی سزا ہے۔
ایک خاتون سے ایک شخص نے زنا بالجبر کیا تو اس نے نبیۖ سے شکایت کردی۔ نبیۖ نے اس شخص کو پکڑ کر لانے کا حکم دیا اور اس کو سنگسار کردیا گیا۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنے ہم مشربوں کی بات نقل کردی کہ نبیۖ نے شہادتوں کے بغیر غلط فیصلہ کیا تھا اورآپ ۖ نعوذباللہ شریعت سے واقف نہیں تھے ۔کسی دوسرے شخص نے کہا کہ میں نے یہ جرم کیا ہے تو نبیۖ نے اقرار کرنے والے کو سنگساری کی سزا کا حکم دیا تھا۔ اگر یہ دوسری روایت صحیح ہو تو بھی نبیۖ نے قرآن اور فطرت کے مطابق عورت کی شکایت اور اس کی سچائی کے یقین پر ہی فیصلہ فرمایا تھا اور قیامت تک آنے والے فقہاء اور دانشوروں کو بتادیا تھا کہ جب عورت اپنے خلاف زیادتی کی شکایت کرے تو چار گواہوں کی جگہ اس کی سچائی پر یقین کے بعد فوری طور پر مرد کو سنگسار کیا جائے اور قرآن میں اس کے قتل کا حکم ہے۔ طالبان کسی کو زنابالجبر پر سنگسار کردیں اور ہماری عدالتیں ظالموں کو چھوڑ دیں تو پاکستان میں طالبان کی طرز کے اقتدار کو ہی پسند کیا جائے گا۔

اسلا می قانون ہی قابلِ قبول!
مغرب میں عورت کی حفاظت کیلئے بہت سخت قوانین بنائے گئے ہیں، کوئی عورت کسی مرد کی شکایت لگادے تو اس کی خیر نہیں ہے لیکن پھر بھی بڑے پیمانے پرجبری جنسی جرائم کا قلع قمع ممکن نہیں ہوسکا اسلئے8آزادی مارچ عورت کے حقوق کیلئے مناتے ہیں۔ پاکستان میں بھی چند سالوں سے یہ مہم شروع ہے۔
مغرب میں عورت کو مرد کے برابر حقوق حاصل ہیں۔ ہمارے مردوں کو جنسی بے راہروی کامعاشرتی اور قانونی تحفظ حاصل ہے جبکہ وہاں عورتوں کو بھی جنسی بے راہ روی کا معاشرتی اور قانونی تحفظ حاصل ہے۔اسلئے بہت سے لوگ پاکستان میں عورت آزادی مارچ کو مغرب اور جنسی بے راہ روی کا مقدمہ اور مشن سمجھتے ہیں اور بہت سی این جی اوز کو موردِالزام بھی ٹھہراتے ہیں۔
مغرب نے عورتوں کو جو حقوق دئیے ہیں تو اس کے مقابلے میں اسلام نے عورتوں کو بہت زیادہ حقوق دئیے ہیں لیکن افسوس کہ عورتوں کے حقوق کو ہمارے علماء وفقہاء اور معاشرے نے مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ مغرب نے مرد کو یہ حق دیا ہے کہ وہ عورت کو پہلے خوب استعمال کرسکتا ہے اور پھر اگر اس کو اطمینان مل گیا تو اس سے شادی بھی کرسکتا ہے لیکن اگر پھر اس نے طلاق دیدی تو عورت سے اس کا آدھا مال بھی لے سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو جمائما نے بنی گالہ کا مکان گفٹ کیا ہے یا یہ جھوٹ ہے؟، لیکن اگر عمران خان چاہتا تو جمائما کو طلاق کے بعد اس کی آدھی دولت بھی قانونی طور پر واپس لے سکتا تھا۔
اسلام کا قانون یہ ہے کہ نکاح اور ایگریمنٹ سے پہلے عورت کو ہاتھ لگانا بھی جائز نہیں ہے۔ پھر اگر ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دیدی تو مقرر کردہ مال کا نصف پھر عورت کو دینا ہوگا۔ اگر پورا یا زیادہ دے تو قرآن نے یہ زیادہ بہتر قرار دیا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ قرآن کی غلط تفاسیر سے عوام ہی نہیں علماء کرام کی ہستیاں بھی گمراہی کا شکارہیں اسلئے کسی امام ہدایت اور مہدی کا انتظار ہے۔
اگر اسلام کے مطابق جنسی بے راہ روی کی جگہ باقاعدہ نکاح یا ایگریمنٹ کا قانون نافذ کیا جاتا تو سیتاوائٹ کو امریکہ میں عمران خان کے خلاف اپنی بچی ٹیرن وائٹ کا کیس نہ لڑنا پڑتا۔ جہاں مغرب میں سنگل پیرنٹ بچے پیدا ہوتے ہیں تو وہاں ہمارے ہاں بھی جھولوں میں ڈالے جانے والے بچوں کی پیداوار بہت زیادہ ہوتی جارہی ہے جن کو سنگل پرنٹ کا سایہ اور شناخت بھی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں شناختی کارڈ وں کا بھی بہت بڑا مسئلہ رہتا ہے۔
ایک جوان سال لڑکی کا شوہر شہید ہوجاتا ہے جس کو نشانِ حیدر بھی مل جاتا ہے تو اس وقت یہ مراعات اس کو ملتی ہیں جب تک وہ لڑکی کسی اور سے نکاح نہیں کرلیتی ہے۔ جب وہ کسی اور سے نکاح کرلے تو ریاست کی طرف سے پینشن اور تمام مراعات بھی ختم ہوجاتی ہیں۔ اسلام نے اس کو جنسی خواہش کی تسکین اور اپنے دوسرے جائز بچے پیدا کرنے کا راستہ بھی دیا ہے اور دوسرے نکاح کی جگہ اس کو ایگریمنٹ کی اجازت دی ہے جسکے بعد اس کا سابقہ اسٹیٹس بھی برقرار ہوگا اور معاشرے میں بے راہروی بھی نہیں پھیلے گی۔ اسلام کاعورت کے تحفظ کیلئے ایک ایک حکم قابلِ تحسین ہے مگر معاشرے نے اس کو بالکل نظر انداز کردیا ہے۔
اگر ہم نے اسلام کی طرف رجوع نہ کیا تو بے راہروی اور جبری جنسی زیادتی کے معاملات اتنے بڑھ سکتے ہیں کہ زمین وآسمان والے ہم پر لعنت بھیجیں گے۔

دنیا سے بہتر ہے ہمارا اسلام!
مغرب میں کم شرح سود پر قرضہ ملتا ہے اور ہمارے ہاں زیادہ شرح سود پر قرضہ دیا جاتا ہے لیکن اس کا نام اسلامی رکھنے سے کیا یہ اسلامی بن جائے گا؟۔IMFنے جتنے سودی قرضے دئیے ہیں ان کو شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کو معاوضہ دیکر اسلامی غیر شرعی سود بنالو اور پھر ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن وغیرہ سے پوچھ لیں کہ کیا قوم کی تباہی میں تبدیلی کا امکان اس سے ہوسکتا ہے؟۔IMFکے ایجنٹ ضرور کہیں گے کہ اس کا بہت بڑا فائدہ ہے اور اسلام کی خدمت بھی چندے کے بغیر نہ کرنیوالی مذہبی جماعتیں بھی کہیں گی کہ ” اس کا اور کوئی فائدہ ہو یا نہیں ہو لیکن قرآن میں اللہ اور اس کے رسول ۖ کیساتھ سود کو اعلان جنگ کہاہے، اس وعید سے ہم بچ جائیں گے”۔
اگر اسلام کے نام سے جائز ہونے والے سود پر ایک زمانہ گزر جائے گا تو پھر علماء حق کے جانشینوں کو یہ بھی پتہ نہیں چلے گا کہ کبھی اس سود کی کسی نے مخالفت بھی کی تھی اور اسلام اجنبیت کے آخری کنارے تک پہنچ جائیگا۔ یہی حال عورت کے حقوق کیساتھ بھی روا رکھا گیا۔ آج قرآن وسنت کے اہم ترین قوانین کے حوالے سے ہمارے مدارس کے نصاب میں بھی ان کا سراغ نہیں ملتا ہے۔
پاکستان1988ء میں پیپلزپارٹی کے دور میں پہلی مرتبہIMFکی گود میں گیا،جب آصف علی زرداری کے گھوڑوں کو سرکاری خزانے سے مربہ کھلایا جاتا تھا۔ بینظیر بھٹو اور نوازشریف کی باری باری حکومتوں نے اپنی بیرون ملک بڑی جائیدادوں سرے محل اور ایون فیلڈ کیلئےIMFسے سودی قرضے لیکر پاکستان کے بچے بچے کو مقروض بنایا اور مہنگائی کا طوفان کھڑا کیا تھا ۔جالب نے کہاتھا
ملک ہزاروں کا ہے مقروض پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
پرویزمشرف نے2004ء سے2008ء تکIMFکے چنگل سے نکالا تھا۔ڈاکٹر قدیر خان نے ملک کیلئے سب سے مخلص غلام اسحاق خان کو قرار دیا تھا لیکن نوازشریف نے اپنے دور میں ڈاکٹر قدیر خان کی کردار کشی شروع کروائی تھی اور پریزمشرف نے بھی معافی منگوائی تھی۔ ایک طرف ایٹم بم پاکستان کا بہت بڑا سرمایہ ہے تو دوسری طرفIMFکے گردشی سودی قرضوں نے ملک وقوم کو تباہی کے کنارے پہچادیا ہے۔مہنگائی کے خلاف عوامی ردِعمل سے بچنے کیلئے کچھ لوگوں کو سڑکوں پر لایا جارہاہے اور کچھ نے پردہ ڈالنے کیلئے تماشا لگا رکھا ہے لیکن اصل مسائل کی طرف توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور اب عمران خان نے بتدریج زیادہ سے زیادہ گردشی قرضوں میں ملک وقوم کو پھنسادیا ہے اور ان کوئلہ کے دلالوں نے منہ کالا کرنے کیساتھ ساتھ بہت کچھ کما بھی لیا۔
اگر اپنے ملک سے سودی نظام کا خاتمہ کردیا اور مزارعت کاسودی نظام ختم کرکے واقعی میں اسلامی بنادیا تو ہماری بچت ہوسکتی ہے لیکن معاشرتی نظام کے بغیر اسلام کی افادیت کو اچھے اور مخلص لوگوں تک پہنچانا بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے مولانا محمد یوسف بنوری کے داماد مولانا طاسین کے حوالے سے تحریری تائید بھی کی تھی۔ مزارعت کے ناجائز ہونے اور جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کیلئے ان کی علمی خدمات کو بہت سراہا تھا۔ آج سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی سیاست کھیلنے کی جگہ پھٹی ہوئی بوریوں پر بیٹھ کر قال اللہ اور قال رسول اللہۖ کا درس دینے والوں کی طرف لوٹ جائیں اور علامہ جواد نقوی کو حق پہنچتا ہے کہ امیر معاویہ کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ پر اعتراضات کے نشتر چلائیں لیکن مسجدالعتیق کے منبر ومحراب سے بھی اسی شاہانہ ٹھاٹ باٹ ہی کا تومظاہرہ کیا جا رہا ہے؟۔ پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب لمبی لمبی داستانیں اور فلسفیانہ ماحول کی جگہ اسلام کے سیدھے سادے نظام کو بہت ہی مختصر پیرائے میں پیش کریں تو پاکستان کی تقدیر بدلنے میں ان کا اثرو رسوخ بھی بہت کام آسکتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عدالت نے مزار قائد پر زیادتی کے جرم میں ملوث تین ملزمان کو باعزت بری کر دیا۔

اب بتاؤ! قائداعظم کے مزار میں زنابالجبر کے جرم میں ملوث تین ملزمان کو عدالت نے باعزت بری کردیا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

_ لبیک ،شیخ رشید اور عمران خان _
تحریک طالبان پاکستان نے جب پاک فوج کو شہید کرنا شروع کیا تو اس پر دہشت گردی کاٹھپہ لگ گیا اور تحریک لبیک نے پولیس اہلکاروں کو شہید کرنا شروع کیا ہے تو اس کو بھی دہشت گردی ایکٹ کے تحت کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ جب تحریک طالبان اور حکومت کے مذاکرات ہوتے تھے تو دیوبندی مکتب کے علماء کو استعمال کیا جاتا تھا اور جب تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہیں تو بریلوی مکتب کے علماء ومشائخ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں تحریک طالبان پاکستان نے جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی سے مایوس ہوکر میاں نوازشریف اور عمران خان کو اپنی طرف سے نمائندہ نامزد کیا تھا۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ مولانا فضل الرحمن نے تحریک طالبان پر خراسان کے دجال والی حدیث فٹ کی تھی اور قاضی حسین احمد نے کہا تھا کہ اگر پاک فوج امریکہ کی مدد کرتی ہے تو اسکے ساتھ جہاد جائز نہیں ہے اور اگر افغان حکومت امریکہ کے بل بوتے پر کھڑی ہے تو اسکے ساتھ جہاد فرض ہے۔ جس پر حکیم اللہ محسود نے کہا تھا کہ” قاضی حسین احمد تمہارا اسلام دھوکہ ہے۔ تم قوم پرست ہو۔ تمہارے ایمان اور اسلام پر ہم کبھی بھروسہ نہیں کریں گے”۔جب دیوبندی شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے کہا تھا کہ ” قوم مذہب سے نہیں وطن سے بنتی ہے توپھر علامہ اقبال نے مولانا حسین احمد مدنی کی فکر کو ابولہب سے تشبیہ دی تھی۔
آج ریاست پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ ” سندھی ، بلوچ، پشتون، پنجابی، ہندوستانی مہاجر، گلگت وبلتی اورکشمیری ایک قوم پاکستانی ہیں۔ افغانی، ایرانی، عرب اور سوڈانی الگ الگ وطن ،ممالک اور قومیں ہیں”۔ علامہ اقبال نے جس بنیاد پر مولانا حسین احمد مدنی کو ابولہب قرار دیا تھا تو آج وہی نظریہ ہمارے ریاستی اداروں اور حکومت کا ہے۔ علامہ اقبال نے محراب گل افغان کے نام سے محسود اور وزیر کا بھی ذکر کیا ہے اور قوم پرست پشتونوں کا مؤقف یہ ہے کہ ہم افغان ہی ہیں۔ جس طرح ہندوستان اور پاکستان کے پنجابیوں کی قومیت نہیں بدلتی ہے، اسی طرح پختونوں کی افغان قومیت بھی نہیں بدلتی ہے۔ البتہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جس طرح ہندوستان کے پنجابی پاکستانی نہیں ہیں اسی طرح پاکستانی پختون افغان ہیں لیکن افغانی نہیں ہیں ،البتہ افغانستان کے پختون، تاجک اور ازبک وہزارہ وغیرہ سب افغانی ہیں۔
جب عمران خان اور طاہر القادری نے پارلیمنٹ کا دروازہ ہیوی مشینوں سے توڑنے کی کوشش کی تھی اورPTVپر قبضہ کیا تھا تو اس وقت ریاست کی رٹ کا کوئی احساس نہیں تھالیکن آج تحریک لبیک کے احتجاج پر پاکستان کے اسلام کا قلعہ ہونے کا احساس ہوگیا ہے؟۔ سیاسی دہشت گردوں کو حکومت ملے اور مذہبی اور قوم پرست دہشت گردوں پر پابندیاں لگیں تو یہ لوگ بھی سیاسی لبادے میں ہی ریاست کی رٹ کا خاتمہ کرکے اپنی من مانی چلانے کی کوشش کرینگے۔
ریاست، سیاست ، صحافت اور اسلام کے نام پر لوگوں سے دھوکہ کرنا چھوڑ دیں تو ملک وقوم میں خوشحالی آئے گی۔ فرقہ واریت کا روگ، لسانیت کاخمار، مفادپرستی کا جھگڑا اور جاہلانہ جذباتیت کا میلہ سب لے ڈوبے گا اورپھر امن وسلامتی ، قانون کی بالادستی، ریاست کی رٹ اور اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے گا اور معیشت کی تباہی سے بھوک وافلاس کے مارے انسان سب کوبھسم کرینگے۔

_ اسلام کو مفاد کیلئے استعما ل کرنا _
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ” جس نے کسی ایک جان کو بغیر جان کے یا فساد کے قتل کیا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک زندہ کیا تو گویا اس نے تمام انسانیت کو زندہ کردیا”۔ مذہبی لوگوں کا مذہب کے نام پر قتل کی وارداتیں کرنا غنڈوں ، ڈکیتوں اور کرپٹ سیاستدانوں سے بھی بدتر ہیں۔
مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والے غنڈوں نے مذہب کا صرف لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ تبلیغی جماعت کا اصل مرکز بستی نظام الدین بھارت میں تھا۔ رائیونڈ پاکستان اس کی سب سے بڑی شاخ تھی۔ جس کا حجم اپنے اصل مرکز کی نسبت بھی بڑا تھا۔ جس طرح رسول اللہ ۖ کے نواسے حضرت حسن پانچویں خلیفہ راشد تھے اور آپ کے مقابلے میں امیرشام حضرت معاویہ کی طاقت زیادہ تھی اور آخر کار حضرت امام حسن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے بڑے دو گروہوں میں صلح کروائی، اسی طرح بستی نظام الدین میں مرکزی امیر مولانا سعد ہیں جو مولانا الیاس بانی تبلیغی جماعت کے پڑپوتے ہیں لیکن ان کی حیثیت زیادہ مضبوط نہیں اور دوسری طرف رائیونڈ مرکز کی حیثیت زیادہ طاقتورہے۔
مولانا الیاس کے بیٹے حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی کی وفات سے 3 دن پہلے آخری تقریر ” امت پنا” کے نام سے شائع ہوئی تھی جس میں اُمت کو جوڑنے پر آمادہ کرنے کیلئے زبردست وعظ ہے اور اس میں حضرت سعد بن عبادہ کا بھی ذکر ہے کہ السابقون الاولون صحابہ کی فہرست میں شامل ہونے کے باوجود اسلئے جنات کے ہاتھوں قتل ہوئے کہ وہ امت میں توڑ پیدا کررہے تھے۔
رائیونڈ کے مدرسہ سے فارغ اور کڑمہ جنوبی وزیرستان مدرسہ کے مہتمم محسود ملک دینائی حضرت مولانا شاہ حسین حفظہ اللہ پر محسود تبلیغی کارکن نے فیصل آباد کی مسجد میں اس وقت قاتلانہ حملہ کیا تھا کہ جب مولانا شاہ حسین تبلیغ کی تشکیل میں وقت لگارہے تھے۔اس وقت اگر مولانا نور محمدوزیرشہید ایم این اے رکاوٹ نہ بنتے تو کلہاڑی کے دوسرے وار سے مولانا شاہ حسین کا سر قلم کردیتے۔ طالبان کا اس وقت تک کوئی وجود نہیں تھا۔ محسود مثالی امن والی قوم ہے اور تبلیغی جماعت مثالی پرامن مذہبی جماعت تھی ۔ آج مذہب کے نام پر محسود اور تبلیغی جماعت کی امن پسندی دنیا کے سامنے شرمندۂ تعبیر ہوگئی ہے۔
اگر قائداعظم محمد علی جناح کے مزار کی حدود میں ایک عورت سے جبری زیادتی ہوجائے اور تین افراد کو عورت پہچان لے اور ان کےDNAسے بھی ان کاجرم ثابت ہوجائے اور پھر بھی اسلامی قانون کے نام پر مجرموں کو باعزت بری کردیا جائے تو ایسے اسلام، ایسی ریاست اور ایسی عدالت کا غریب اچار ڈالے گا؟۔ اسلام ایسا نہیں ہے بلکہ مذہبی طبقات نے اسلام کا نہ صرف حلیہ بگاڑ دیاہے بلکہ اپنے مفادات کیلئے اسلام کو ڈھال بنادیا ہے۔سب سے پہلے مذہبی لوگوں کے رُخ کو قرآن وسنت کے ذریعے درست اسلام کا تصور سمجھنے کی طرف موڑنا ہے۔کرپٹ سسٹم اور بداخلاق وبدکردار لیڈروں کے وارے نیارنے بننے سے کوئی نیک نامی نہیں کماسکتے اور نہ ہی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکا جاسکتا ہے۔ معاشرے کی ہر چول سیدھاکرنے کی سخت ضرورت ہے اور ہر شخص اپنے ذمے کا کام بہترین طریقے سے کرے گا تو دن دگنی رات چگنی تبدیلی نظر آئے گی اور خوشحالی کے کھیت اور کھلیان سے پھر جلدیہ سرزمین شاد اور آباد ہوجائے گی۔

امیرمعاویہ پر امت کونہ لڑاؤ!
وکیل اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے قاتل، زنابالجبر کے مرتکب اور گھناؤنے کردار کے مؤکل کو بے قصور اور بے داغ کردار کا مالک ثابت کرنا چاہتا ہے تو اپنی مہارت سے ججوں کی آنکھوں میں بھی دھول جھونک دیتا ہے اسی طرح جب ایک فرقہ پرست اپنے فرقہ والوں سے اپنی اجرت کھری کرنے کے چکر میں فرقہ واریت کو ہواد یتا ہے توپھر شخصیت سازی اور شخصیت سوزی کرنے میں ایسی مہارت دکھاتا ہے جیسے یہود حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ پر تہمت اور عیسائی ان کو خدا کی خدائی میں شریک کردیتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کو عیسائی بھی مانتے ہیں ورنہ قرآن سے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر زبردست وار کرتے اور اس واردات سے فرقہ واریت کو خوب ہوا مل جاتی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے قوم پرستی کی بنیاد پر غلطی سے قتل ہوگیا جس کی وجہ سے نبوت اور معجزات ملنے کے بعد بھی ڈرہے تھے اور اللہ نے فرمایا کہ ”اس سے پہلے کوئی رسول بھی نہیں ڈرے ہیں لیکن جس سے ظلم سرزد ہوا ہو”۔ اب اگر یہ کہنا شروع کردیں کہ حضرت موسیٰ ظالم،قوم پرست اور ڈرپوک تھے تو اس سے کتنا انتشار پھیلے گا؟۔اور حضرت موسیٰ نے ایک مرتبہ توراة کی تختیوں کو پھینک کر زمین پر ڈالا تو ان پر گستاخی کے فتوے لگائے جائیںتو کیا حال ہوگا؟۔
کچھ اہل تشیع نے اپنامشن ہی توہین آمیز معاملات کو اجاگر کرنا بنالیا ہے جس طرح کچھ ملحدین مذہب کی توہین کو اپنامشن سمجھتے ہیں۔ حضرت امیرمعاویہ سے حضرت سعد بن عبادہ افضل تھے اسلئے کہ اللہ نے فتح مکہ سے پہلے اور بعد کے مسلمانوں میں فرق کا اعلان کیا ہے۔ حضرت مولانا یوسف لدھیانوی نے اپنی کتاب ” عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” کے اندر لکھا ہے کہ بندر اور خنزیر کی شکل میں جہنم کے اندر پھینکے جانے والے حکمران ۔ ایک مرتبہ جمعہ کے خطبے میں حضرت امیرمعاویہ نے فرمایا کہ حکومت کا مال میرا ذاتی ہے، جس طرح میں خرچ کروں یہ میری مرضی ہے۔ دوسرے جمعے کو پھر یہی اعلان کردیا اور کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تیسرے جمعے کو پھر یہ اعلان کردیا تو ایک شخص نے کہا کہ غلط بات ہے۔ یہ تیرا مال نہیں ہے اور نہ تیرا اس پر کوئی ذاتی حق ہے۔ یہ بیت المال کا ہے اور مسلمانوں کا اس پر حق ہے۔ جمعہ کے بعد جب حضرت امیرمعاویہ نے اس شخص کو بلایا تو گمان یہ تھا کہ جلاد سے اسکا سرقلم کردیا جائے گا۔ لیکن امیر معاویہ نے اپنے ساتھ اس کو چارپائی پر بٹھایا اور فرمایا کہ اس شخص کا اللہ بھلا کرے۔ میں نے نبیۖ سے یہ سنا تھا کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ حکمران مسنداقتدار پر ہرقسم کی الٹی سیدھی بات کرے گا اور اس کو ٹوکنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔ اس کو جہنم میں بندر اور خنزیر کی شکل میں پھینکا جائے گا۔ مجھے یہ گمان ہواکہ کہیں میرا حال بھی وہی تو نہیں۔ جب پہلے اور دوسرے جمعہ کو جواب نہیں آیاتو یقین ہوا کہ میرا بھی یہی حشر ہوگا۔ اس شخص نے مجھے بچالیا ہے”۔
نبیۖ نے امیرمعاویہ کیلئے ہادی اور مہدی بننے کی دعا فرمائی تو قبول نہیں ہوئی اسلئے کہ پھران کا دور خلافت راشدہ میں شمار ہوتا جیسا عمر بن عبدالعزیز کے دور کو بھی خلافتِ راشدہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے بھی امیرمعاویہ ہی کا ساتھ دیا لیکن منبر ومحراب سے حضرت علی کے خلاف سبّ وشتم کو سپورٹ نہیں کیا اسلئے کہ حضرت علی کے فضائل نے اس کی اجازت نہیں دی۔

_ حکمران بھی خود کو جلدبدل دیں!_
جب عمران خان نے عالمی کرکٹ میچ نہیں جیتا تھا اور اسلامی جمہوری اتحاد کے صدر غلام مصطفی جتوئی الیکشن ہار گئے تھے اور سینئر نائب صدر مولانا سمیع الحق شہید نے اپنی جگہ پنجاب سے اسلامی جمہوری اتحاد کے قائد نوازشریف کو مرکز میں اپنی جگہ وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ جمعیت علماء اسلام ف پنجاب کے نائب امیر مولانا حق نوازجھنگوی شہید کی جماعت انجمن سپاہ صحابہ نے جمعیت کو چھوڑ کر اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا اور مولانا ایثارالحق کی کامیابی جھنگ سے اسلئے ممکن ہوسکی کہ مسلم لیگ کی شیعہ رہنماعابدہ حسین نے اس سیٹ پرتعاون کیا تھا۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے ریاستی ادارے، سیاسی جماعتیں اور مذہبی تنظیمیں کوئی زیادہ تابناک کردار کی حامل نہیں ہیں۔ بس ایک دوسرے کے خلاف الٹی سیدھی باتیں اور اپنے خلاف کچھ بھی برداشت کرنا ان کا وطیرہ نہیں ہے۔ انسان کو اللہ نے کمزور پیدا کیاہے۔ اچھے کرداراور شرافت کا معیار رکھنے والے لوگ برے وقتوں میں ایکدوسرے کے کام آتے ہیں۔
یہ بات کیسے لوگوں کے دل ودماغ میں بٹھائی جاسکتی ہے کہ تحریک لبیک کی طرف سے حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنا اور عوام کو تکلیف دینا اس وقت صحیح تھا جب عمران خان اور شیخ رشید خود بھی یہی کام کررہے تھے اور اب جب وہ حکومت میں آئے ہیں تو یہ اسلام، انسانیت اور ملک وقوم کے مفاد کے خلاف ہے؟۔ عمران خان کو پاکپتن کے مزار کی راہداری میں سر سجدہ نما اور چوتڑ دغابازی نما بننے کی جگہ عوام کے سامنے میڈیا پر مرغا بننا چاہیے کہ میں نے بھی غلط کیا تھا۔ مزارات کے دشمن طالبان سے یاری کا ازالہ کرنے کیلئے پاکپتن کے مزار پر مرغا بننے سے بہتر یہی تھا کہ پوری قوم سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگ لیتا۔
جب عمران خان نے جمائما سے شادی کی تو اسلامی پردہ یاد نہیں آیا۔ ریحام خان سے شادی کی تو پردہ یاد نہیں آیا لیکن جب بشریٰ بی بی سے شادی کی تو پردہ یاد آگیا۔ قرآن میں یہ واضح ہے کہ بیوہ کو عدت میں اشارے کنائے سے نکاح کا پیغام دے سکتے ہیں لیکن طلاق شدہ کو عدت میں دوسرے سے نکاح کا پیغام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ عمران خان نے منکوحہ کو شادی کا پیغام دیا اور عدت پوری ہونے سے پہلے نکاح کرلیا تو اس کے خلاف میڈیا نے مہم جوئی نہیں کی اسلئے کہ میڈیا والوں کو کسی نے اُکسانے کی کوشش نہیں کی۔اسلامی احکام، حکومت اور ریاست شکن توپوں کی قیادت سے پاکستان میں اقتدار ملتا ہو تو پھر شریف شہری اپنی جگہ رہیں گے اور بدمعاشوں کے اندر مقابلہ بازی ہوگی۔ قوم صرف یہ دیکھے گی کہ کس نے کس کو پچھاڑ دیا اور گراؤنڈ کے باہر تماشہ دیکھے گی۔ جب بھی الیکشن آتا ہے تو نعرہ لگتا ہے کہ اندھوں میں راجہ یہ قائد ہے۔ حالانکہ یہ دجالوں کی چال ہے۔ ملک وقوم کو جس جانب دھکیلا جارہاہے اس سے واپسی کا راستہ اسلام ہی کا نظام ہے لیکن افسوس کہ اسلام کا مذہبی طبقات نے خود ہی بیڑہ غرق کیا ہواہے۔موجودہ دور کے حکمرانوں اور اپوزیشن لیڈر وں سے صحافیوں کا مافیا وہ سوالات نہیں کرتا ہے جس سے ان کے غباروں سے ہوا نکل جائے گی اور جب صحافت کا شعبہ بھی اپنے اصل کام کو چھوڑ کر کسی ایک طبقے کی وکالت کرنے اور دوسرے طبقے کی مخالفت کرنے لگ جائے تو اس بے اعتدالی سے عوام کے دل ودماغ کا توازن کبھی درست نہیں ہوسکتا ۔ہمارااخبارکہاں پہنچ سکتا ہے؟۔

مولوی کی منبر سے ایمل ولی پر تنقید
ایک نوجوان عالم دین نے منبر ومحراب سے ایمل ولی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ باچا خان نے کہا تھا کہ میری پہلی شادی میں ڈھول باجے تھے لیکن دوسری شادی کی تو اسلام کے مطابق سادگی سے کروں گا۔ اس میں ڈھول باجے نہیں ہوں گے۔ پختون اور میراثی دو الگ الگ ذاتیں ہیں اور ہمارے کلچر سے ملی ہمیں یہی باتیں ہیں۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ تم پختون ہو یا ڈم (میراثی) ؟۔ اب باچا خان کا پڑپوتا کہتا ہے کہ میں پختونوں کو رباب سکھاؤں گا۔ اب ان میں اور میراثی میں کیا فرق رہ گیا ہے؟۔ میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ میں کسی کا سپوٹر ہوں۔ میری اے این پی، تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام سب سے ہمدردیاں ہیں اور کسی سے نفرت نہیں کرتا ہوں۔ امام ابوحنیفہ نے کہا تھا کہ ” موسیقی حرام ہے اور اس سے لذت اٹھانا کفر ہے”۔
ایک نوجوان جذباتی عالم دین کا جذبہ اپنی جگہ پر ہے اور کبھی ہم بھی اس گھاٹی سے گزرے ہیں۔ بہت ہی معذرت کیساتھ باچا خان کے بعد کسی بھی عالم دین ، مفتی، شیخ الحدیث، مفسر اور شیخ القرآن نے ڈھول باجے کی مخالفت کی ہے؟۔ جب شیخ القرآن مولانا طاہر پنج پیری کی نواسی پہلی خاتون لیفٹینٹ جنرل نگار کو پنج پیر صوابی میں ڈھول کی تھاپ اور ڈانس کی چھاپ پرلے جایا جارہاتھا تو کبھی سوچا کہ تمہاراپختون کلچر اور ملائیت کا جنازہ نکل گیا ہے؟۔ کبھی علماء ومفتیان نے کوئی فتویٰ دیا ہے اور اس پر کوئی تنقید کرنے کا حق ادا کیا ہے؟۔
ہمارے ایک دوست نے کہا تھا کہ اوچ دیر کے مولانا غلام اللہ حقانی پختون ہیں ملا نہیں ہیں۔ جس پر میں نے پوچھا کہ کیا ملا پختون نہیں ہوتے؟ تو کہنے لگا کہ نہیں ، ملا کسب گر قوم ہے یہ پختون نہیں ہیں۔ پہلے ترکھان، لوہار، میراثی، نائی،موچی اور ملا وغیرہ کو فصل کی آمد پراپنا معاوضہ دیا جاتاتھا۔ ملا کا کام مردے نہلانا اور مسجد کو آباد کرنا ہوتا تھا۔جمعیت علماء اسلام کے مولانا مفتی محمود اور مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علماء ہند، شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور کانگریس کے مولانا ابوالکلام آزادکی سیاست کو پاکستان میں زندہ رکھا۔ مفتی ولی بھائی بھائی کے بھی نعرے لگے ہیںاور پیپلزپارٹی والوں نے دونوں بھائی سکھ عیسائی کے نعرے بھی لگوائے ہیں۔ مرکزی جمعیت علماء اسلام نے اس جمعیت علماء اسلام کو ذوالفقار علی بھٹو اور کیمونسٹوں پر کفر کا فتویٰ نہ لگانے کی وجہ سے کفر کے فتوے بھی لگائے۔
جمعیت علماء اسلام کے اعتدال کی وجہ سے مذہبی طبقہ اپناتوازن برقرار رکھتا ہے لیکن جب یہ طبقہ سیاست سے کٹ جاتا ہے تو پھر منبر ومحراب سے فتوے لگانا شروع کردیتا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے فرمایا ہے کہ ”موسیقی حرام ہے اور اس سے لذت اٹھانا کفر ہے”۔یہ قول شاید اسلئے نقل کیا جاتا تھا کہ مولوی حضرات نکاح پڑھاتے وقت اپنی فیس کھری کرلیتے تھے اور کہتے ہوں گے کہ ”ہم مجبوری کے طور پر شادیوں میں موسیقی سن لیتے ہیں مگر اس سے لذت حاصل نہیں کرتے”۔
ہم نے1990ء میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تحریک کا آغاز کیا تھا جس میں نبیۖ کے آخری خطبے کے کچھ جملے تھے اور منکرات کے خلاف جملے تھے۔مسلمانو ! خبردار ظلم نہ کرنا ، …مسلمانو! تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری جان ایکدوسرے کیلئے حرمت والی ہیں۔ جاندار کی تصویر جائز نہیں ،جاندار کی تصویر کو مٹادو۔ پردہ کرنا فرض ہے، شریعت کے مطابق پردہ کرو۔داڑھی منڈانا جائز نہیں شریعت کے مطابق داڑھی رکھو۔ گانا بجانا حرام ہے ،گانا مت بجاؤ۔ نماز، روزہ ، زکوٰة اور حج بیت اللہ کی علمی اور عملی ذمہ داری پوری کرو۔جہاد کرنا فرض ہے اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ اللہ اور اسکے رسول ۖ کے حکموں میںوہ طاقت ہے کہ جس کے ذریعے کمزور سے کمزور تر جماعت بھی فاتح عالم بن سکتی ہے۔

بدقسمتی سے ایمل باچا خان کا پڑپوتا!
سلیم صافی نے باچا خان کے پڑپوتے ایمل ولی خان سے انٹرویو لیاہے۔ پہلے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش ! اسفندیار ولی تندرست ہوتے اور آج میں اس سے انٹرویو لیتا لیکن یہ بھی غنیمت ہے کہ ایمل ولی خان سے مجھے وقت مل گیا ہے۔ پھر ایمل ولی خان سے پوچھا کہ آج ایک پختون عمران خان کی حکومت ہے۔ کیا آپ عمران خان اور نیازی قوم کو پختون نہیں مانتے؟۔ ایمل ولی خان نے کہا کہ میرے خیال میں وہ پختون نہیں ہیں۔ میرے خیال میں ہر پختون افغان ہوتا ہے اور وہ افغان نہیں ہیں۔ ( نیازی قبیلہ افغانستان میں بھی ہے اور نیازی خود کو نیازی پٹھان کہتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی کہا تھا کہ میں یوسفزئی پٹھان ہوں، نسل کی بنیادآباء واجداد سے چلتی ہے لیکن کلچر بھی اہم ہوتا ہے۔ نبیۖ حضرت ابراہیم کی اولاد سے تھے اور ابراہیم عجم تھے مگر نبیۖ کی وجہ سے عرب بن گئے، البتہ نسل تبدیل نہیں ہوئی۔ عرب عاربہ اصل عرب تھے اور عرب مستعاربہ جو بعد میں عرب بن گئے تھے، خالد بن ولید بنی اسرائیل تھے اور نسلاً پختون قبائل سے وہ ایک تعلق رکھتے تھے جس کی وجہ سے بعض لوگ ان کو پختون بھی قرار دیتے ہیں ، نسلی یکانگت کی وجہ سے پختون قبائل کو فتح مکہ کیلئے بلایا تھا اور پھر جب بعض عرب قبائل پر فتح مکہ کے دوران مظالم کئے تھے تو نبی ۖ نے فرمایا تھا کہ اے اللہ ! گواہ رہنا میں خالد کے فعل سے بری ہوں)
ایمل ولی خان سے سلیم صافی نے پوچھا کہ پرویز خٹک کیا پختون نہیں؟ علی محمد خان، مراد سعید اور اسد قیصر پختون نہیں ہیں؟ ۔ تو ایمل ولی خان نے کہا کہ بدقسمتی سے وہ پختون ہیں۔
کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ طالبان اور ملا عمر پختون نہیں ، صوفی محمد اور ملا فضل اللہ پختون نہیں۔ تو ایمل ولی خان یہی کہتا کہ ان لوگوں کو پختون نہیں کوئی اور ہی لایا ہے۔ جیسے تحریک انصاف کو کوئی اور لایا ہے۔ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ جب مفتی محمود کو خیبر پختونخواہ کا وزیراعلی بنوایاتھا تو اس وقت عطاء اللہ مینگل کو تم نے کیوں حکومت دلائی تھی؟۔ ایک طرف بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کا ہولڈ ہوتا جن میں پختونوں کی اکثریت تھی تودوسری طرف خیبر پختونخواہ میں مفتی محمود کی جگہ ولی خان اور تمہاری پارٹی کے پاس اقتدار ہوتا؟۔ پشاور کے شہریوں میں تمہاری پارٹی کے بڑے رہنمابھی پختون نہیں تھے جن کوپختوزبان ٹھیک سے نہیں آتی تھی۔ حاجی عدیل خان اور بلور خاندان کو کبھی اقتدار میں لاتے ۔ جب وزیراعلیٰ سرحد کیلئے امیر حیدر خان ہوتی اہل ہوسکتے تھے تو کیا بشیر بلور شہید اس کی اہلیت نہیں رکھتے تھے؟۔ بنگال کے مولاناعبدالحمید بھاشانی سے پنجابی حبیب جالب اور بلوچستان کے بابائے جمہوریت میربخش بزنجو تک کتنے بڑے بڑے لوگ تمہارے ساتھ تھے؟۔ جنرل ایوب خان پختون تھے مگر تم نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔ان تضادات نے ہی آپ لوگوں کی جماعت کو ختم کرکے رکھ دیا کہ کبھی پختون بن جاتے ہیں تو نظریہ نہیں مانتے اور کبھی نظریاتی بن جاتے ہیں تو پختون کو نہیں مانتے۔مرکز میںPDMمیں شامل تھے اور بلوچستان میں باپ پارٹی کی حکومت میں شریک تھے۔ افغانستان کا دعویٰ صرف اٹک تک نہیں بلکہ میانوالی تک بھی ہے۔ متنازعہ ڈیورنڈ لائن ختم ہوجائے توپھر نیازیوں کو پٹھان ہی ماننے میں پختونوں کا زیادہ فائدہ ہے۔ بلوچ قوم پرست ڈیرہ غازی خان تک راجن پور اور جام پور سے اسلئے دستبردار نہیں ہوتے ہیں کہ ان بلوچوں نے آج سرائیکی زبان اور کلچر اپنالیا ہے۔ اے این پی کی قیادت متذبذب ہے اور تذبذب کی وجہ سے اسفندیار ولی اور اب ایمل ولی کی بات میرے خیال میں بدقسمتی تک محدود ہوگئی ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان کا باچا خان کی نسل سے ہونا بدقسمتی ہے۔

مذہبی دنگل سے قوم پرستی کے جنگل تک
پختونوں نے مذہبی بنیاد پر اپنی امن وسلامتی کو داؤ پر لگادیا اور بلوچوں نے قوم پرستی کی بنیاد پر اپنی بلوچ قوم کو کہاں سے کہاں تک پہنچادیا؟۔ تربت مکران سے لائی ہوئی لاشوں کو بلوچ خواتین نے کندھا دیا ہوا تھا اور مرد بھی شریک تھے لیکن کیا بلوچوں کے آباء واجداد نے یہ سوچا تھا کہ ایسا دن بھی دیکھنا پڑے گا؟۔ ڈیرہ اسماعیل خان قریشی موڑ پر ایک محسود خاتون کو پہلی مرتبہ اپنی بیمار بچی کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کیلئے بس میں بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تو بہت افسوس ہوا۔PTMکے منظور پشتین اور نئی جمہوری جماعت کے سربراہ محسن داوڑ پشتونوں پر صرف سیاسی دکان چمکا سکتے ہیں یا قوم کی عزت وننگ اور غیرت وحمیت کا پاس بھی رکھ سکتے ہیں؟۔ ایک طرف قوم پرستوں نے قوم پرستی کے نام سے اپنی قوم کو تباہ کردیا ہے تو دوسری طرف فرقہ پرستوں نے مذہب کے نام پر لوگوں کو جس تباہی کے کنارے پہنچادیا ہے اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ تیسری طرف حکومت اور اپوزیشن لیڈروں کے گفتاراور کردار نے تنزلی کی انتہاء کردی ہے اور چوتھی طرف صحافیوں نے صحافت کی ناک کٹا دی ہے۔ پانچویں طرف ریاست کے ذمہ داروں نے خود غرضی کو اپنی انتہاء پر پہنچادیا ہے۔ چھٹی طرف اللہ اگر آسمان سے کوئی رحم وکرم کردے تو زمینی حقائق اور معروضی حالات بدلے جاسکتے ہیں۔ اللہ کا ایسا دروازہ ہے کہ اس کو بجایا نہیں جاسکتا ہے لیکن وہ سنتا ہے اور پکارنے والے کو جواب بھی دیتا ہے۔ جب ایک شخص نے قریشی موڑ ڈیرہ پر محسود لڑکوں کو بھٹے بیچتے دیکھا تو خوشی محسوس کی کہ ایک غیرتمند قوم اپنے پاؤں پر کھڑی ہے مگر جب محسود بھکاری خاتون کو بھیک مانگتے دیکھا تو دل ہی دل میں دکھ کا اظہار کیا کہ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے؟۔ اور پھر چندہزار روپے میں سے ایک ہزار کا نوٹ اس بھکارن خاتون کو تھمادیا۔ جس پر خاتون نے محسودی پشتو میں دعائیں دینا شروع کردیں لیکن سفر میں دعاؤں کی ضرورت اور خوشی کیساتھ ساتھ اس کے دل میں مزید دکھ بھی بڑھ گیا، اسلئے کہ محسودی پشتو میں ایک خاتون کی زبان سے نکلنے والی دعائیں ایک طرف عرش تک پہنچتی دکھائی دے رہی تھیں تو دوسری طرف ایک قومی غیرت کا مسئلہ تھا کہ ایک خاتون بھری بس میں اس طرح بول رہی ہیں۔ اگر شروع میں پوری محسودقوم طالبان کیساتھ کھڑی نہیں تھی تو کسی نے ان کو مجبور بھی نہیں کیا تھا لیکن جب ہواؤں کے رُخ پر پوری قوم نے طالبان کا ساتھ دیا تو پھر پاک فوج نے ان کو بار بار ہجرت پر بھی مجبور کیا ہے لیکن جنوبی وزیرستان وزیر ایریا میں پاک فوج نے کبھی ہجرت پر لوگوں کو مجبور نہیں کیا ہے۔ جس کی وجہ سے وزیروں کے مقابلے میں محسود بہت زیادہ خستہ حال ہیں ۔
اب مذہب کی چنگاریاں دب کر ختم ہوگئیں ہیں لیکن قوم پرستی کی نئی فضاؤں سے نمٹنے کیلئے شاید کوئی نئی ترکیب بنے گی۔ بین الاقوامی سازشوں کے تحت بڑا کچھ ہوتا ہے لیکن اس کو عملی جامہ پہنانے والے اپنے ہی لوگ ہوتے ہیں اور یہ ریاست اور عوام دونوں طرف سے اپنا اپنا کام دکھاتے ہیں اور اپنی قوم کو کھڈے لائن لگادیتے ہیں۔سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر تخریب کاری کو ہوادیدی جاتی ہے اور کرکٹ کے کھیل کی طرح لوگ فتنوں کا شکار بن جاتے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی میلاد النبیۖ کے جلسے جلوس اور خوشی منانے کو بدعت کہتے ہیں لیکن شیخ الاسلامی کے عہدے سے سود کو جواز فراہم کرنے تک کسی چیز کو اس طرح سے بدعت قرار نہیں دیتے۔ یہ سب فرقہ واریت کی بیماری ہے اور دوسری طرف میلادالنبی کیلئے طائفہ عورت کو پیسے دیکر حور بناکر پیش کیا جاتا ہے اور کسی کو شیطان بناکر ناچنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ پوری قوم اور ملت اسلامیہ کو اپنے اقدار کی طرف واپس آنے کی ضرورت ہے اور اصلاحِ حال بہت ضروری ہے۔

بہت نازک موڑ پرکھڑاہواپاکستان
ایک طرف حکمران نالائق ہیں تو دوسری طرف اپوزیشن ان سے بھی بہت گئے گزرے ہوئے۔ جبPDMسے پاکستان پیپلزپارٹی کو باہر نکالا گیا تھا تو ہم نے نشاندہی کی تھی کہ اصل یہ نہیں تھا کہ پیپلزپارٹی نے باپ سے ووٹ لیا تھا بلکہ اصل مسئلہ پنجاب اور مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت کو گرنے کا خطرہ تھا اور اس سے بچانے کیلئے پیپلزپارٹی کوPDMسے باہر کیا گیا تھا۔ آج سب ہی کو اس حقیقت کا پتہ چل گیا ہے کہ پیپلزپارٹی اورPDMکی دوسری جماعتوں میں اتنا فاصلہ نہیں تھا جتنا ن لیگ اور ش لیگ میں نظر آرہا تھا اور ن لیگ اور ش لیگ بظاہر مخالف مگر اندر سے ایک ہیں۔ جب پیپلزپارٹی نے مذہبی کارڈ کھیل کر اسمبلی میں قادیانی کو کافر قرار دینے میں اپنا کردار ادا کیا تھا اور پھر جب ن لیگ کی طرف سے حلف نامے میں اسمبلی کے اندر تبدیلی کی سازش ہوئی تو پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام سب ساتھ میں تھے۔ جس کی وجہ سے پھر تحریک لبیک میدان میں نکلی تھی اور ن لیگ نے اپنے ذمہ دار وزیر زاہد حامد کو بھی فارغ کردیا تھا۔ طاہرالقادری پیپلزپارٹی کے دور میں آیا تھا تو شہبازشریف نے پنجاب سے بہت لاڈ کیساتھ اسلام آباد بھیج دیا۔ قمر زمان کائرہ نے طاہر القادری کی نقل اتار کر اس کا سارا پانی اتار دیا تھا اور پھر رسم قل کیلئے ایک معاہدہ ہوا تھا۔ پھر نوازشریف کے دور میں طاہرالقادری دھرنا دینے پہنچ رہا تھا تو اس کے مرکز ماڈل ٹاؤن لاہور میں14افراد شہید کردئیے گئے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے اس فسٹ کزن کی حکومت میں طاہرالقادری کیوں نہیں آرہاہے؟۔ کیا طاہرالقادری کے ناک کے پانی کی طرح اب شہداء کا خون بھی سوکھ گیا ہے؟۔
تحریک انصاف نے طالبان کی طرح تحریک لبیک کو بھی سپورٹ کیا تھا اور اس مرتبہ سرکاری سطح پر میلاد النبی ۖ کا بھی اہتمام کیا لیکن تحریک لبیک کیساتھ وعدے پورے نہیں کئے۔ کیونکہ یہ خوف تھا کہ اگر فرانس کے سفیر کو نکالنے کے حوالے سے قرار داد پیش کی گئی تو ن لیگ ،جمعیت علماء اسلام اور پیپلزپارٹی کے لوگ اس کو سپورٹ کرکے پاس بھی کرسکتے ہیں۔ ہماری جمہوریت بھی تو ایسی ہی ہے کہ جب نہیں بھی چاہتی ہے تو آرمی چیف کی ایکس ٹینشن کیلئے حرکت کرلیتی ہے اور جب چاہتی ہے تو جمہوری حکومت کو خراب کرنے کیلئے فرانس کے سفیر کو بھی نکالتی ہے۔ امریکہ اور نیٹو نے افغانستان، عراق اور لیبیا میں قتل وغارتگری کا بازار گرم کررکھا تھا تو ہماری حکومتوں اور اپوزیشنوں کو اسمبلیوں میں ایک قرارداد لانے کی بھی توفیق نہیں ملی۔ چاہے مسترد ہوتی لیکن کسی نے جرأت نہیں کی تھی۔ اور اگر کوئی قرار داد لائی جاتی تو باور یہ ہے کہ سب اس کومتفقہ طور پر منظور کرتے۔
امریکہ نے افغانستان میں کیا نہیں کیا؟۔ بوڑھے مردقیدیوں کیساتھ جنسی تشدد کرکے بھی بے غیرتی کی انتہاء کردی ۔BBCنے جرأت کرلی مگر ہمارے ہاں عوام کو دھوکہ میں رکھا گیا اور یہ کسی حد تک اچھا بھی تھا اسلئے کہ پھر ہمارے وہ غازی چلے ہوئے کارتوس کی جگہ چھدے ہوئے کارتوس کہلاتے۔ اگر امریکہ کی یہی شکست ہے تو پھر بار بار ایسی جنگ اور شکست کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ ہمارا میڈیا اس قدر بٹاہوا، دبا ہوا اوربکا ہوا ہے کہ حقائق کسی طرح سے سامنے نہیں لاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں مولانا فضل الرحمن نے کہاتھا کہ طالبان مارگلہ کے پہاڑ تک پہنچ چکے ہیں تو ن لیگ کے قائدین اس کو امریکی ایجنٹ کہتے تھے۔ پھر ن لیگ کے دور میں فوج نے طالبان کے خلاف آپریشن کئے تو ن لیگ اس پر آمادہ بھی نہیں تھی لیکن پھر بھی دہشت گردی کے خاتمے کا کریڈٹ لیتی ہے۔
سیاست ، ریاست اور صحافت اب منافقت کی دہلیز سے نکل کر بے شرمی کی جسارت پر کھڑی ہیں اور اس سے چھٹکارا پانے کیلئے علم وشعور کی ضرورت ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

معاونت حضرت مولانا قاری محمد طیب قریشی خطیب تاریخی مسجد مہابت خان پشاور اور پاکستان کا سیاسی و مذہبی منظر نامہ

حضرت مولانا محمد طیب قریشی خطیب مسجد مہابت خان کی خدمت میں بھی وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ یہ شمارہ محکمہ اوقاف کے چیف خطیب کے توسط سے تمام ائمہ مساجد اور خطباء کے نام ہے اور سب کو سلام

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جنرل ایوب خان کے مارشل لاء سے پہلے سول بیوروکریسی کی حکومت تھی۔ پاک فوج کا اس میں کردار بالکل ضمنی تھا ۔ جنرل ایوب خان نےADاورBDکے انتخابات کے ذریعے پاکستان میں جمہوریت کی بنیاد رکھ دی۔ جنرل ایوب خان کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کے بعد پاکستان میں جمہوریت اور پاک فوج کی قیادت میں کشمکش شروع ہوگئی ۔جنرل ایوب خان کے جانے کے بعدشفاف الیکشن ہوگئے تو مشرقی پاکستان کے مجیب الرحمن کو واضح اکثریت مل گئی لیکن سول اور فوجی قیادت نے سمجھا تھا کہ اگر اقتدار مجیب الرحمن کے حوالے کیا گیا تو مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکل جائے گا۔ پارلیمنٹ مغربی پاکستان میں تھا لیکن جمہوریت کی جگہ منافقت کا عمل جاری تھا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کا مشرقی حصہ بنگلہ دیش بن گیا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے پاکستان سے صوبہ پنجاب نوازشریف کی وجہ سے بھارت کی مدد سے الگ ہوجائے۔ بنگلہ دیش میں93ہزار کے ہتھیار ڈالنے کے ذمہ دارجنرل نیازی اور ذوالفقارعلی بھٹو تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اتوار کی جگہ جمعہ کی چھٹی دی، اسلامی جمہوری آئین دیا اور قادیانیوں کو کافر قرار دینے میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ بھٹو ایک عرب بادشاہ کے طرز پر ایک سویلین ڈکٹیٹر حکمران بننے کا زبردست خواہاں تھا۔
قادیانی تعداد میں کم لیکن فوج میںسب سے زیادہ طاقتور تھے۔پھر بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا گیا اور جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کے طرز پرمگرفوجی امیر المؤمنین بننے کی کوشش کی۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود نے کراچی میں جلسۂ عام سے خطاب میں جب جنرل ضیاء الحق کی مرزائی نوازی کے دلائل دیناشروع کردئیے ،تو قاری شیرافضل خان نے نعرہ لگایا کہ ” مرزائی نواز مردہ باد”۔ مفتی محمود صاحب نے کہا کہ ”مرزائی نواز نہیں مرزائی بولو”۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی امیرمولانا عبدالکریم بیرشریف نے زندگی بھر جنرل ضیاء الحق کو قادیانی قرار دیا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں مفتی محمود نے مفتی تقی عثمانی اور مفتی محمد رفیع عثمانی کو بینک کے سودسے زکوٰة کی کٹوتی پر بحث کی دعوت دی۔ دونوں بھائیوں نے مفتی محمود کی طرف سے چائے کے کپ کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ہم دن میں ایک بار چائے پیتے ہیں پھر دن بھر نہیں پیتے۔ مفتی محمود نے کہا کہ میں چائے خود زیادہ ہی پیتا ہوں لیکن اگر کوئی کم پیتا ہے تو مجھے یہ پسند ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے پان کا بٹوا دکھادیا کہ حضرت ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔ مفتی محمود نے کہا کہ یہ تو چائے سے بھی بدتر ہے۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے اصرار کرکے پان کھلادیا ۔ تھوڑی دیر بعد مفتی محمود پر غشی طاری ہوگئی اور مفتی محمد رفیع عثمانی نے دورۂ قلب کی خاص گولی حلق میں ڈال دی ۔ پھر مفتی صاحب ہسپتال پہنچنے سے پہلے شہید ہوگئے۔
مفتی محمود کی وفات کے بعد مفتی تقی عثمانی نے ماہنامہ البلاغ دارالعلوم کراچی اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نے ماہنامہ البینات جامعہ بنوری ٹاؤن میں جو مضامین لکھے تھے ، ان کو ایک ساتھ اقراء ڈائجسٹ کراچی نے شائع کیاتھا۔ مفتی محمد تقی عثمانی اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے مضامین میں صرف یہ فرق تھا کہ مفتی تقی عثمانی نے اصرار کیساتھ پان کھلانے اور مفتی رفیع عثمانی نے جو گولی حلق میں ڈالی تھی ،اس کا ذکر نہیں کیا۔ وفاق المدارس پاکستان اور جمعیت علماء اسلام ان دونوں تحریرات کو شائع کرکے مساجد ومدارس میں تقسیم کریں۔
مثلاًایک شخص نے10لاکھ بینک میں رکھے ہیں۔ اس کو سالانہ ایک لاکھ سود اس پر ملتا ہے۔ اس کی کل رقم11لاکھ بن گئی اور اس میں سے27ہزار پانچ سو زکوٰة کے نام پر کٹ گئے۔ جس کے بعد اس کی بینک میں10لاکھ72ہزار پانچ سو روپے بچ گئے۔ پہلے اس کی کل رقم10لاکھ تھی اور اب اس میں ایک لاکھ سود کی جگہ72ہزار پانچ سو کا اضافہ بھی ہوگیا تو پھر زکوٰة کی رقم کیسے ادا ہوگئی؟۔ زکوٰة کے نام پر یہ رقم تو بالکل سود کی ہے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمودنے کہا تھا کہ” اس سودی رقم سے زکوٰة ادانہیں ہوسکتی ہے۔ زکوٰة ایک فرض ہے اور اس کا ادا کرنا انتہائی اہم ہے۔ عوام کو اس اہم فرض کی ادائیگی سے روکنا بہت بڑا جرم ہے۔ سرکار کی اس حرکت سے سر سجدے میں ہے اور چوتڑ دغا بازی میں ہے”۔
مولانا فضل الرحمن اپنے جلسے جلوسوں میں کہتے تھے کہ ” مدارس زکوٰة کے نام پر سود کھارہے ہیں۔ یہ شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل ہے”۔ پہلے مدارس کی طرف سے یہ حیلہ کیا گیا تھا کہ زکوٰة کے نام پر اس سودی رقم سے لیٹرین بنائے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر انہوں نے پینترا بدل دیا کہ روزی روٹی بھی تو آخر کار معدے میں جاکر لیٹرین میں بدل جاتی ہے۔ حکومت کی سودی زکوٰة کی نحوست سے لوگوں کی زکوٰة کھانے اور اس سے تجارت کرنے کی طرف بھی پھر یہ لوگ بہت زبردست طریقے سے مائل ہوگئے۔ پھر تو جس کا بس چلتا گیا اس نے اپنے پاؤں میں حلال وحرام زکوٰة کے ذریعے اپنے پاؤں میں زنجیر یں ڈالنا شروع کردیں۔ ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں کی جگہ پھر تو ہم تو مائل بہ جرم ہیں کوئی پائل ہی نہیں نے لے لی ۔
جب قوم سے کہا جائے کہ تمہارے پاس ایسا فتویٰ آیا ہے کہ سود کی رقم کا بھی اضافہ ہوگیا اور زکوٰة بھی ادا ہوگئی اور عوام کو زکوٰة کے نام پر سود کھلایا جائے تو پھر دونوں کا اپنا اپنا فائدہ نظر آئے گا۔ سرمایہ دار کہے گا کہ سود بھی ملا اور زکوٰة بھی ادا ہوگئی تو اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے؟۔ اس سود خور کو ویسے بھی زکوٰة سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟۔ جو سود لیتا ہے وہ زکوٰة کیا دے گا؟۔ دوسری طرف لالچ کی وجہ سے جس کو زکوٰة کے نام پر سود ملتا ہے اس کو بھی اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ کیا حلال ہے ؟ اور کیا حرام ہے؟۔ بس اس کو مفت میں پیسہ ملتا ہے تو یہ زیادہ سے زیادہ اپنے مفاد ہی کی بات ہے۔ اور اپنا فائدہ کون چھوڑ تا ہے۔
پہلی بلا پاکستان پر یہ نازل ہوئی کہ زکوٰة کا فریضہ ساکت ہوگیا اور سود خور کو شرف مل گیا کہ سود بھی مل رہاہے اور زکوٰة بھی ادا ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سود کو انسانوں کا اللہ اور اس کے رسول ۖ کے خلاف جنگ قرار دیا ہے۔ جب ہم نے اللہ کیساتھ جنگ کو بھی زکوٰة کی ادائیگی کا فرض اور اپنی ضرورت کیلئے جائز کہا تو شیطان نے علماء ومشائخ کو لوریاں دیکرخواب غفلت کی بڑی نیند سلانا شروع کردیا۔ تحریک طالبان پاکستان اور تحریک لبیک نے اسلام کے نام پر دہشتگردی اور شدت پسندی کو زبردست فروغ دینا شروع کردیا۔ اللہ اور اسکے رسولۖ سے جنگ کے نتائج ہم مختلف عذاب کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ ہمارے سیاسی اور مذہبی جلسے جلوسوں میں جتنا تاجروں اور عوام کا نقصان ہوتا ہے اور جو ان پر خرچے ہوتے ہیں ، یہ سب سودی منافع سے زیادہ قوم کے نقصانات ہیں ۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی اب قوم کے دونوں بھائی یاجوج ماجوج بن گئے ہیں۔ پہلے سودی زکوٰة کے نام پر مدارس کا بیڑہ غرق کردیااور اخلاق وکردار کی بلندیوں سے مذہبی طبقات کو پستیوں کی جانب دھکیل دیا۔ جمعیت علماء اسلام کے بلند کردار کے مالک اس کے سامنے مضبوط بند ثابت ہونے کے بجائے خس وخاشاک کی طرح بہہ گئے۔ پھر دونوں بھائی یاجوج ماجوج نے بینکوں کے سودکو بھی اسلامی قرار دے دیا۔ مدارس کے بلند کردار کے مالکان مولانا سلیم اللہ خان ، مفتی زر ولی خان اور ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر سمیت سارے مدارس کے سارے علماء ومفتیان دونوں بھائیوں یاجوج ماجوج کے سامنے کھڑے ہوگئے لیکن آخر کار مفتی محمد تقی عثمانی نے سب کو شکست دیدی اور پھروفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر بھی بن گئے ہیں۔
پاکستان1947ء سے1988ء تک آئی ایم ایف کے سود کی قید سے آزاد تھا۔ کراچی اور ملک بھر کے جید علماء کرام اور مفتیان عظام حضرت حاجی محمد عثمان کے مرید یا دوست تھے۔ بڑے پیمانے پر فوجی افسران بھی حاجی محمد عثمان کے مرید تھے۔ پھر الائنس موٹرز کے نام پر مضاربة کا کاروبار سود میں بدل گیا تو اپنے مرید و خلفاء کی بغاوت اور معروف علماء ومفتیان کے فتوؤں نے ایک اللہ والے کو نشانہ بنایا۔نبی ۖ نے فرمایا کہ” اللہ کہتاہے کہ جس نے میرے ولی کو اذیت دی تو میں اس کے ساتھ اعلان جنگ کرتا ہوں”۔ ایک طرف جنرل ضیاء الحق کا جہاز تباہ ہوا تو دوسری طرف معروف علماء ومفتیان نے حاجی محمد عثمان سے مغالطہ کھاکر شیخ عبدالقادر جیلانی ، شاہ ولی اللہ ، مولانا محمدیوسف بنوریاور شیخ الحدیث مولانا زکریا پر بھی فتوے لگادیئے۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی نے پہلے لکھا تھا کہ اس طرح کے عقائد رکھنے والے پیر کی خانقاہ پر حکومت کو پابندی لگانی چاہیے جو سید عتیق الرحمن گیلانی نے ایک مخلص مریدکی حیثیت سے لئے ہیں لیکن جب حقائق کا پتہ چل گیا تو سال بعد ہفت روزہ تکبیر کراچی نے لکھ دیا کہ اگر علماء ومفتیان سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو غلط بیانی کے بجائے اپنی غلطی کا کھل کر اعتراف کریں اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن غلط بیانی سے ان کو زیادہ نقصان پہنچے گا۔
پھر وہ وقت آیا کہ بینظیربھٹو کی حکومت آئی اور پھر اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پر مسلم لیگ کے میاں نوازشریف وزیراعظم بن گئے۔دو دو باریاں دونوں نے لے لیں لیکن1989ء سے2004ء تک پاکستان کوIMFکے شکنجے میں پھنسادیا۔آصف علی زرداری کے گھوڑوں کو مربے کھلانے ،اسکے سرے محل اور نوازشریف کے ایون فیلڈلندن کے فلیٹ اسی ادوار کی یادگاریں ہیں۔ کرپشن کی زیادہ ابتداء سیاسی قیادتوں نے آئی ایم ایف کے سودی قرضوں سے کی ہے لیکن پرویزمشرف کے دور میں2004ء سے2008ء تک پاکستان نے پھرIMFکے چنگل سے آزادی حاصل کرلی تھی۔پھر کرپٹ آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف نے باری باری حکومتیں کرکے پاکستان کو زیادہ سے زیادہIMFکے چنگل میں دیدیا اور جب نوازشریف کے دور میں ہم نے اپنے اخبار میں پورے فیگر لکھ دئیے تھے کہ گردشی سودی قرضہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ دفاعی فنڈز سے سود کی رقم زیادہ ہے لیکن ہماری بات پر کسی ذمہ دار طبقے نے کان نہیں دھرے۔ پھر عمران خان نے اس سے بھی زیادہ سودی قرضے لئے۔ پاکستان میںIMFکی حکومت ہے۔ یہ ہم اللہ اوراسکے رسولۖ سے جنگ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
یاجوج ماجوج کا لشکر جامعة الرشیدکراچی کی طرف سے مدارس کے نئے بورڈ مجمع علوم اسلامی میں بھی تیار ہورہاہے اور وفاق المدارس العربیہ کی چوٹی پر بھی گدھ کی طرح مفتی تقی عثمانی بٹھادئیے گئے ہیں۔ اب یہ ہربلندی سے پستی کی طرف سفر کرکے سب چیزوں کو چٹ کر جائیں گے۔ سود، زکوٰة ، صدقہ، خیرات اور چندے غریبوں سے بھی چھین لینے ہیں۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے جونہی وفاق المدارس پاکستان کی صدارت کا منصب سنبھال لیا تو دارالعلوم کراچی میں بجلی پیدا کرنے کی مشینری کیلئے کروڑوں اور اربوں کے چندے کا اعلان کردیا ہے۔ یاجوج ماجوج نے سب کچھ چٹ کئے بغیر بلندوادیوں سے پھسلتے ہوئے گہری گھاٹیوں میں بہتے ہوئے اپناسفر کرنا ہے اور ہرقسم کا دانہ بھی انہوں نے چگنا ہے اور یہ مظاہرہ انسانوں نے دیکھنا ہے۔ وفاق المدارس پاکستان کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خان اور ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے جس طرح یاجوج اور ماجوج کے سودی نظام کو اسلامی قرار دینے کی تردید کردی ہے وہ قابل تحسین ہے لیکن مچھلی کی چوکیداری کیلئے بلی کو مقرر کرنا بھی بہت ہی بڑی زیادتی ہے۔
جس دن مساجد کے ائمہ اور خطیب حضرات نے قرآنی آیات اور سنت سے عوام کی رہنمائی کرنا شروع کردی تو بہت زبردست انقلاب میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ بس ہمت وجرأت ، علم وتقویٰ اور ایمان وکردار کی سخت ضرورت ہے۔ یاجوج ماجوج کا مقابلہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور مدارس کے نئے بورڈمجمع علوم اسلامی کی سربراہی ان علماء ومفتیان کو دی جائے جو اپنی قدامت پسندی، حق پرستی اور سود کے عدم جواز کی روش پر قائم ہیں۔ جنہوں نے اللہ ، اسکے رسول ۖ ، اپنے اکابرو اسلاف سے بغاوت اور انحراف کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے ان کو ذمہ عہدوں سے سبکدوش کردیا جائے۔ وفاق المدارس کے اجلاس مدعو کرنے کی بات تو بہت دُور کی ہے حق کی آواز اٹھانے والی بہت بڑی اکثریت کو اجلاس میں شرکت کی اجازت بھی نہیں دی جاتی ہے۔ مدارس کی سطح پربھی مجلس شوریٰ کے نام پرایک استحصالی طبقہ مسلط ہوگیا ہے اور مخلص لوگوں کو اجلاس میں برداشت کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ہوتا ہے۔ مفتی عزیزالرحمن اور صابر شاہ کا اسیکنڈل منظر عام پر نہ آتا تو اس قسم کے لوگ ایکدوسرے کے وارث بنتے ہیں اور اس سے پہلے جامعہ امدایہ فیصل آباد کے شیخ الحدیث مولانا نذراحمد کے حوالے سے بھی بڑا بھیانک اسکینڈل منظر عام پر آیا تھا۔
یہی دہشت گرد بنتے ہیں تو مساجد ومدارس پربھی خود کش حملے کرنے کروانے سے دریغ نہیں کرتے ۔ جن کی نظر میں نام نہاد مقدس شخصیات کی فی الواقع کوئی حیثیت بھی نہیں ہوتی ہے ۔مذہبی سیاسی جماعتوں میں ان کو کردار کی وجہ سے نہیں بلکہ بے ضمیری کی وجہ سے کوئی بڑا مقام بھی مل جاتا ہے۔ اسلام انسانیت کے کردار کو درست کرنے کا زبردست ذریعہ ہے لیکن اسلام کی حقیقت کو مفاد پرست ٹولوں نے مختلف ادوار میں ایسا بدل کر رکھ دیا ہے کہ علامہ اقبال نے اپنے فارسی اشعار میں کہا ہے کہ ” علماء ومشائخ کا ہم پر بڑا احسان ہے کہ جن کی وجہ سے اسلام ہم تک پہنچا۔ اگر اللہ، رسول اللہۖ اور جبریل اس اسلام کو دیکھ لیں گے تو حیران ہوں گے کہ کیا یہ وہی اسلام ہے”۔ علماء ومشائخ کو کھویا ہوا مقام پانا ہے تو اسلام کو واپس لانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور علم کو زندہ کرنے پر لگانا ہوگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

میں گیلانی صاحب کی اسلام پر تحقیق سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ حضرت مولانا قاری محمد طیب قریشی خطیب تاریخی مسجد مہابت خان پشاور۔

میں گیلانی صاحب کی تحقیقات سے سو فیصد متفق ہوں۔ حضرت مولانا قاری محمد طیب قریشی چیف خطیب محکمۂ اوقاف پختونخواہ۔ خطیب تاریخی مسجد مہابت خان

(پشاور) خیبر پختونخواہ حکومت محکمۂ اوقاف کے چیف خطیب علماء دیوبند کی ہردلعزیزشخصیت خطیب جامع مسجد مہابت خان پشاور مولانا قاری محمد طیب قریشی نے نوشتہ دیوار میں گیلانی صاحب کی تحریرات کے حوالے سے کہا ہے کہ اس زمانے میں شاہ صاحب کی خدمات معجزے سے کم نہیں ہیں۔ کیونکہ ہر طرف ہوس و لالچ اور اقرباء پروری ہے۔ مگر آپ حق کہنے میں کسی اپنے پرائے کی تخصیص نہیں کرتے۔ آپ کی باتیں تلخ تو ہوتی ہیں مگر مبنی بر حق ہوتی ہیں۔
میں گیلانی صاحب کی تحقیق سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ آپ کے ساتھی بغیر کسی لالچ کے جس خلوص اور مستقل مزاجی سے کام کررہے ہیں۔ وہ ایک حیران کن حقیقت ہے۔ آپ کے ساتھی شاہ وزیر میرے پاس اخبار دینے آتے رہتے ہیں ۔میں ان کا بھی بہت احترام کرتا ہوں۔ ایک ایسے وقت میں جب بڑے بڑے نام نہاد مذہبی اور سیاسی لوگ مغرب کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ شاہ صاحب مسلسل امت کو بیدار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
میں شاہ صاحب کا مداح ہوں اور اکثر پروگراموں میں آپ کی تحقیقات کی تشہیر بھی کرتا ہوں ۔ مولانا طیب قریشی نے کہا کہ پاکستان نہیں ساری امت مسلمہ آئی ایم ایف کے ظلم کا شکار ہے۔ ہمیں اس سودی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ میرا یہ مؤقف ہے کہ جب تک پاکستان کے بڑے اذہان مل کر اپنی تجارت اور اپنے اقتصادی معاملات کو اسلامی اصولوں پر استوار نہیں کریں گے تو ہم یونہی ہمیشہ اس ظالمانہ سودی نظام اور مہنگائی کی چکی میں پستے ہی رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں خواتین کو وہ حقوق دینے ہیں جس کا قرآن نے ہمیں حکم دیا ہے۔ حق مہر، طلاق، خلع کے حوالے سے ہیومن ریسورسز کے ایک پروگرام میں یہی بات کی۔ ہمارا آئین بھی یہی کہتا ہے مگر عمل کی ضرورت ہے۔
اب یہ وقت آگیا ہے کہ تمام عالمِ انسانیت اپنے نظام کے حوالے سے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے اعلان کرے کہ نظام صرف اللہ کا ہی چلے گا۔
آخر میں قبلہ گیلانی صاحب کی خدمت میں بہت بہت سلام۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv