جولائی 2021 - Page 2 of 2 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

A dispute was raised and exploited by a group on the statement of Malala but why they keep silent on scandal of Aziz-ur-Rehman?

ملالہ کے بیان پر طوفان برپا کرنے والا طبقہ مفتی عزیز الرحمن کے اسکینڈل پر کیوں اپنی دُم گھسیڑکر بیٹھ گیا؟ جب تک علماء اپنے نصاب کو درست نہ کریں تو مدارس کی بدنامی کایہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا لیکن دنیا کے حریص خاموش ہیں!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سیاسی، مذہبی، جماعتی ، تنظیمی اور مساجد ومدارس کے علماء ومفتیان نے اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر اسلام کے بہترین نظام کو قربانی کے کٹہرے میں بہت بری طرح کھڑا کیا۔
قرآن وسنت نے تمام مذاہب کے باطل عقائد ونظریات اور مسائل کی اصلاح کرکے انقلاب برپا کردیا تھا لیکن مدارس کے نصابِ تعلیم نے پھر سے باطل عقائد ومسائل پیدا کررکھے ہیں

اس اخبار میں علماء کے نصاب و کردار پر تیر چلائے جاتے ہیں لیکن ہمارا مقصد بغض وعناد اور دشمنی نہیں۔ کالج یونیورسٹی کے طلبہ و اساتذہ سے زیادہ مدارس کے علماء و طلبہ میں صلاحیت ہے۔ مفتی سید عدنان کا کا خیل نے مشاہد حسین سید اور عوام کے سامنے کس طرح پرویزمشرف کے سامنے اپنی صلاحیت کا اظہار کردیا تھا؟۔ مفتی محمود نے قومی اتحاد اور مولانا فضل الرحمن نےPDMکی قیادت کی؟۔ طالبان نے امریکہ کو شکست دی۔ ایٹمی پاکستان کے پرویزمشرف اور جنرل محمود مرغا بن کر دانے چگ رہے تھے۔ یہ میں نہیں کہتا بلکہ اوریا مقبول جان اور سوشل میڈیا کا وہ طبقہ کہتا ہے جو فوج پر دنیا میں نمبر1ہونیکا اتنا یقین رکھتاہے جتنااللہ کی واحدانیت پر وہ حقیقی یا مصنوعی ایمان کادعویٰ کرتا ہے۔اور یہ الگ بات ہے کہ اللہ نے عرب کے بدؤوںکا فرمایا تھا کہ ”اعرابی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ ان سے کہہ دیں کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ تم اسلام لائے ہو اسلئے کہ ایمان ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے”۔ (القرآن)
جنرل حمیدگل سے لیکر چھوٹے موٹے بہت سے لوگ طالبان کا کہتے تھے کہ وہ اللہ پر ایمان لائے ہیں اور پاکستان کا اسلام اعرابیوں کی طرح ہے ، جن کے دلوں میں 70سالوں سے زیادہ عرصہ ہوا کہ ایمان داخل نہ ہوسکا ہے اور اس کے بعد ہم دولت کیلئے کتنی جنگیں لڑتے رہیں گے۔
ہماری سوچ کا زاویہ مختلف ہے۔ ایمان و عمل کیلئے بنیادی بات علم کی اصلاح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کے ذریعے سے صحابہ کرام کی تعلیم وتربیت اور حکمت سکھانے کا اہتمام کیا اور اس شعور وآگہی کی بدولت انہوں نے دنیا میں عظیم انقلاب برپا کیا ۔ قرآن کے نزول سے پہلے بہت سی برائیاں مذہب کے نام سے تھیں جن کی اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اصلاح فرمائی۔ ظہار کا حکم مذہب نے ہی بگاڑ دیا تو ایک عورت نے اپنے شوہر کے حق کیلئے رسول اللہ ۖ سے مجادلہ کیا ۔ جس پر سورۂ مجادلہ کی آیات نازل ہوئیں اور مذہبی فتویٰ غلط قراردیا گیا۔ دنیا میں عیسائی، ہندو سمیت کئی مذاہب میں طلاق کا کوئی جواز نہیں تھا یا پھر ایک ساتھ تین طلاق سمیت بہت ساری خرابیاں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اس کی اصلاح فرمائی۔ زنا اورقوم لوط کے عمل کی شکل اور سزاؤں میں بھی بہت بگاڑ آچکا تھا۔ سود کی حرمت بھی ختم کردی گئی تھی اور جاگیردانہ نظام اور جنگوں میں لونڈیاں بنانے کا بھی نظام جاری تھا۔
اللہ نے ایک ایک کرکے تمام برائیوں کا وحی کے ذریعے خاتمہ قرآن میں محفوظ کیا۔ توارة میں بوڑھے مرد عورت کے زنا پر رجم کا حکم تھا ۔قرآن نے زنا پر 100کوڑے اور جبری زنا پر قتل کا حکم دیا بخاری میں ہے کہ سورۂ نور نازل ہونے کے بعدنبی ۖ نے سنگساری کی سزا پر عمل نہیں کیا لیکن ابن ماجہ میں ہے کہ رسول اللہۖ کا وصال ہوا تو رجم کی آیات اور رضاعت کبیر یعنی بڑے آدمی کو عورت کے دودھ پلانے کی آیات کو بکری نے کھاکر ضائع کیا۔قرآنی آیت یہ بتائی جاتی ہے کہ الشیخ والشیخة اذا زنیا فارجموھما …. ”جب بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت زنا کریں تو دونوں کو سنگسار کردو”۔ اب مفتی عزیز الرحمن کو بوڑھا قرار دیکر کہا جارہاہے کہ یہ معذور ہے اس میں بدکاری کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔
جعلی آیت میں شادی شدہ اور غیرشادی شدہ کی کوئی تفریق نہیں ہے اور اگر جوان شادی شدہ ہوں تو بھی اس کی زد میں نہیں آتے ہیں۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ بوڑھوں میں100کوڑے سہنے کی صلاحیت بھی نہیں ہو اور تورات میںیہ حکم ہو کہ ” ان کو کوڑے مارنا سزائے موت کے مترداف ہے اسلئے ان پر لعنت بھیج کر چھوڑدو”۔ جب قوم لوط میں ہم جنس پرستی کا رحجان تھا تو اللہ نے اجتماعی عذاب نازل کرکے ان کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹادیا لیکن اس پر قرآن میں سزائے موت یا بہت لمبی چوڑی سزا نہیں ہے بلکہ اذیت دی جائے اور پھر توبہ واصلاح کرلیں تو ان کے پیچھے نہ پڑنے کا حکم ہے۔
جب قرآنی آیات بناکر ابن ماجہ میں پیش کی جارہی ہوں تو صحیح مسلم کی یہ روایت بھی قابلِ غور ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کہ ” اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ مجھے قرآن پر زیادتی کا مرتکب سمجھیںگے تو قرآن میں رجم کا حکم لکھ دیتا”۔ ایک طرف ابن ماجہ میں بکری کے کھا جانے سے آیات کا ضائع ہونا اور دوسری طرف مسلم میں حضرت عمر کی بات میں کتنا کھلا تضاد ہے؟۔ جب آیات کے مقابلے میں آیات ایجاد کی جائیں، احادیث اور صحابہ کبار کے اقوال ایجاد کئے جائیں تو اس کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں؟۔ اہلحدیث حضرات کہتے ہیں کہ ” اگر آدمی کسی عورت کا دودھ بڑی عمر میں پی لے تو اس کا اس عورت سے پردہ نہیں رہے گا لیکن اگر وہ شادی کرنا چاہے تو ان کی آپس میں شادی ہوسکے گی”۔ اگر دیکھ لیا جائے کہ مسلک پرست عناصر نے کس طرح متعہ ، رجم اور بڑے کے دودھ کی آیات تک گڑھ دی ہیں۔ پھر متضاد احادیث گڑھ دی ہیں جس طرح بیوی کیساتھ پیچھے سے بھی جماع کرنے کے حوالہ سے حدیثیں تک بھی گڑھ دی گئیں ہیں۔
گورنربصرہ حضرت مغیرہ ابن شعبہ سے شیخ الحدیث مفتی عزیزالرحمن تک اسلام کے حوالے سے قانون سازی اور اس پر اختلافات وتضادات کا جائزہ لینے کی سخت ضرورت ہے تاکہ روز روز کوئی بیل یہ نہیں بول سکے کہ مینارِ پاکستان پر لٹکادو اور نہ یہ بول سکے کہ شرعی گواہوں کے تصورات کا کیا کیا معیار ہے؟۔ پنجاب کا ایک معروف خطیب دوسرے ہم مسلک خطیب کیلئے کہا کرتا تھا کہ” وہ فاعل بھی ہے اور مفعول بھی۔الحمدللہ میں نہ فاعل ہوں اور نہ مفعول ”۔ سبوخ سید نے بھی کسی مسلک کے مناظر اورہم مسلکوں کی پشت پناہی اور دوسری کہانیوں کا ذکر کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے امہات المؤمنین ازواج مطہرات کیلئے قرآن میںدُگنی سزا کا ذکر کیا ہے اور لونڈی وایگریمنٹ والوں سے نکاح کے بعد فحاشی میں مبتلاء ہونے پر آدھی سزا کا حکم دیا۔ سنگساری اور قتل کو دگنا اور آدھا نہیں کیا جاسکتا لیکن مولوی تقلید کی وجہ سے صلاحیتوں سے محروم ہیں۔
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
اگر اسلام کو ان علماء کے چنگل سے آزاد کیا جائے جو مزارعت سے سودتک کو اسلامی قراردینے کے معاملات میں ہردور میں ملوث رہے ہیں تو انقلاب سالوں، مہینوں نہیں چند ہفتوں اور دنوں کے فاصلے پر ہے۔
عورت کے حقوق سے لیکر بدنام زمانہ گناہگاروں کے حقوق تک جس طرح اسلام نے انسانیت کی عزت وتوقیر اور سزا وجزاء کا سلسلہ رکھا ہے تو اس پر مسلمان ، کافر، ملحدین اور دنیا کے تمام انسان اکھٹے ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کے پاس مجھے لگتا ہے کہ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے۔ اگر جلد اچھے فیصلے نہیں کئے تو پھر افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور فلسطین سے بھی زیادہ خطرناک حالات کا سامنا ہم سب کو کرنا پڑسکتا ہے۔ ایکدوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کا وقت نہیں ہے بلکہ اپنے کھلے گناہوں کا اعتراف کرکے اللہ تعالیٰ کے دربار میں دست بستہ معافی مانگنے کا وقت آگیا ہے۔
قوم پرستی، مسلک پرستی، سیاست پرستی ، ریاست پرستی اور مفادات پرستی کے سلسلے بعد میں بھی چل سکتے ہیں لیکن ایسے وقت میں اپنی جان اور اپنی قوم کیلئے امن وامان مانگنا ضروری ہے۔ بلوچوں، پشتونوں، مہاجروں اور سندھیوں نے پہلے جو مشکلات دیکھی ہیں وہ کچھ بھی نہیں تھیں۔ پنجاب کی عوام کیساتھ پہلے بھی وہی ناانصافی ہوئی ہے جو دوسروں نے دیکھ لی ہے لیکن پنجاب کے لوگوں نے مرچیں کھانے کے باوجود اتنی زیادہ تیزی کبھی نہیں دکھائی جتنی دوسری قوموں نے کئی مرتبہ دکھائی ہے۔
عورت کو اپنے شوہر اور ماں باپ کی طرف سے وہ تحفظ مل جائے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے تو دنیا اسلامی نظام کی طرف آجائے۔ حضرت داود کی 99بیگمات تھیں اور سویں کی بھی خواہش کی جو ایک مجاہد اوریا کی بیگم تھی۔ خلافت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید کی ساڑھے 4ہزار لونڈیاں تھیں اور اسلام نے چار تک شادیوں کی اجازت دی اور اگر انصاف نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر ایک یا جنکے مالک تمہارے معاہدے ہوں۔ برصغرپاک و ہند میں اسلام کی روح پھر بھی کسی نہ کسی حد تک زندہ ہے۔ مصر کے اسلامی اسکالر نے النساء میں عورتوں کیساتھ مردوں کو بھی شامل کرنے کا تصور پیش کردیا ہے۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے لکھاکہ ”کسی عورت سے شادی ہوتو اسکے سابقہ شوہر کے بیٹے سے بدفعلی پراحناف کے نزدیک حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ”۔(کشف الباری)
نکاح و حرمت مصاہرت کی تفصیلات عوام کے سامنے آجائیں تو مفتی عزیز الرحمن کو بھول کر پہلے نصاب تعلیم کو درست کرنا ہی ضروری سمجھیں گے۔ ہم مسلسل متوجہ کررہے ہیں لیکن انکے کانوں پربھی جوں نہیں رینگتی ہے۔
مولانا عبدالغفور حیدری کا یوٹیوب پر بیان آیا جس میں قاری حنیف جالندھری وغیرہ بھی موجود تھے کہ ”جب قادیانیوں کے حق میں سینٹ کے اندر بل پاس کیا جارہاتھا جو قومی اسمبلی سے منظور ہوا تھا تو مجھے خوف تھا کہ مجھے چیئرمین سینیٹ کی غیرموجودگی میں ڈپٹی کی حیثیت سے دستخط کرنے پڑیںگے مگر الحمدللہ بل پاس نہیں ہوا۔ پھر حکومت نے قومی اسمبلی و سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل پیش کیا۔ ہم اپنے فرائض سے غافل نہیں”۔
مولانا حیدری کے بیان سے مفتی عزیز الرحمن کی طرح اعتراف جرم ثابت ہورہاتھا۔ ممکن ہے کہ مولانا صاحبان سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی سے اسلام بیچ کر اپنے اثاثے بیرون ملک بنارہے ہوں کیونکہ اتنے بھولے تو یہ حضرات نہیں ہیں۔ ان کو کٹہرے میں کھڑا کرکے پوچھنا ضروری ہے۔

Hafiz Hussain Ahmed of JUI states that Molana Fazal-ur-Rehman handed over JUI rented out to PML N.

چھوٹے سے دارالخلافہ کوئٹہ میں تبدیلی کے اثرات خطے پر پڑیں گے
جمعیت علماء اسلام کے رہنما حافظ حسین احمد کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علماء اسلام مسلم لیگ ن کو رینٹ پر دی ہوئی ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
کوئٹہ(quetta) میںبلوچ(baloch)، پختون (pakhtoon)اور ایک چھوٹی آبادی ہزارہ برادری(hazarabradri) کی ہے۔ کوئٹہ میں سب سے زیادہ ہمارے اخبار کا کام ہوا ہے۔ بلوچستان (balochistan)کے دینداروں اور قوم پرستوں میں تقسیم کی بنیاد اس وقت پڑگئی جب اکثریت نے جمعیت علما اسلام کو جمہوری بنیادوں پر بڑے پیمانے پر ووٹ دیا ۔ مفتی محمود
(mufti mehmood) اور ولی خان(wali khan) نے دینداروں، جمہوریت پسندوں اور قوم پرستوں کو دھوکہ دیا۔ جہاں جمعیت علما اسلام کی اقلیت تھی وہاں صوبہ سرحد میں مفتی محمود نے وزیر اعلی کا منصب سنبھال لیا جہاں جمعیت علما اسلام کی اکثریت تھی وہاں بلوچستان میں سردار کا درجہ نیچے اور نواب کا اوپر ہوتا ہے۔ غوث بخش بزنجو (ghuos bakhsh bizanjo)بابائے جمہوریت کی موجودگی میں نواب خیر بخش مری (nawab khairbakhsh marri)کو بھی وزیرارعلی بنانا درست نہ تھا لیکن سردار عطا اللہ مینگل (attaullah mengle)کو نوازا گیا۔ بلوچ فطری طور پربہت اچھے لوگ ہیں اسلئے جمعیت علما اسلام کے حق پر نواب، سردار اور جمہوریت پسندوں کے درمیان وزیر اعلی کیلئے کوئی لڑائی نہیں ہوئی پھر ذوالفقار علی بھٹو(zulfaqar ali bhutto) نے شبِ خون مارکر بلوچستان میں گورنر راج قائم کرکے جمہوری حکومت کا خاتمہ کردیا۔ نواب اکبر بگٹی (nawab akbar bugti)گورنر بنادئیے گئے اور جعلی جمہوریت کا خاتمہ کردیا گیا۔آج بلوچستان اسلام اورجمہوریت سے محروم ہے اور قوم پرستی کے نام پر قسمت بھی خراب ہے۔ مفتی محمود(mufti mehmood) صوبہ سرحد کے وزیراعلی تھے تو خیبر پختونخواہ میں نیشنل عوامی پارٹی کی جمہوریت اقلیت میں تبدیل ہوگئی۔ علما اکثریت سے محروم ہونے کے باجود اقتدار کا خواب دیکھنے لگے تو دہشتگردی کی جڑیں پڑ گئیں ۔ پھر مولانا فضل الرحمن (fazal rehman)بندوق اٹھانے کی بات کرتے تھے۔ پختونخواہ میں اپنی سیٹ ایک دفعہ ہارتے اور دوسری مرتبہ جیتے مگر بلوچستان کی جمعیت علما اسلام ہمیشہ حکومتوں میں شریک اقتدار ہوتی تھی جہاں سے بڑی نفری اور کرپشن کے مزوں نے علما کی عادت بہت خراب کردی تھی۔
جے یو آئی کے قدآوررہنما حافظ حسین احمد کہتے ہیں کہ ”مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علما اسلام مسلم لیگ ن کو رینٹ پر دی ہوئی ہے”۔ بلوچستان کی عوام میں نوابی اور سرداری نظام بھی بڑی حد تک مضبوط ہے۔ بدقسمت عوام نے اپنے دین کو علما ومفتیان کے سپرد کردیا ہے۔ مسلک حنفی میں تقلید کی کوئی گنجائش نہیں۔ فقہ حنفی (fiqqa e hanfi)میں اصولِ فقہ میں احادیث کے مقابلے میں قرآنی آیات پڑھائی جارہی ہیں جن سے احادیث صحیحہ کو رد کیا جاتا ہے ۔ اگرچہ اس کا بہت بڑا فائدہ بھی اس امت کو اسلئے پہنچا ہے کہ احادیث کے ذخائر میں قرآن کے خلاف سازش اور بڑا بیہودہ موادہے۔ قرآنی آیات کا بکری کے کھا نے سے ضائع ہونے کی احادیث اورحضرت عائشہ (hazrat ayesha)پر صحیح بخاری میں یہ تہمت کہ بڑے آدمیوں کو اپنا محرم بنانے کیلئے اپنی بہن کادودھ پلا دیتی تھیں۔ حالانکہ دودھ پلانے کا مخصوص وقت ہر وقت نہیں ہوتا کہ بچہ ہو یا نہ ہو مگر عورت میں دود ھ ہو۔ جب یہ تک لکھا گیا ہے کہ بڑے آدمی کو دودھ پلانے اور رجم کی آیات بکری کے کھا نے کی وجہ سے ضائع ہوگئیں تو حضرت عائشہ پر بہن کا دودھ پلانے کے حوالہ سے بہتان میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے؟۔ مسلک حنفی کی تقلید اسلئے بہت بہترین رہی ہے۔
اب جدید تعلیم کا سلسلہ بڑھ گیا ۔ علما کی بڑی تعداد بھی مدارس سے فضیلت کی دستاریں باندھ رہے ہیں۔ عربی کی سمجھ بوجھ میں بھی بڑا اضافہ ہوا ہے۔ قرآن واحادیث کے تراجم بھی موجود ہیں۔ ایسے میں علما کرام اور لکھی پڑھی عوام کیلئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اسلام کی بنیادی تعلیمات کے سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں رہی ہے۔ مولانا طارق مسعود، علامہ امین شہیدی اور مفتی شاہ حسین گردیزی دیوبندی،شیعہ اور بریلوی علما نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں گفتگو کی ہے۔ اہل تشیع بار بار چیلنج اور واضح کرچکے ہیں کہ ہماری کسی کتاب میں قرآن کے چالیس پارے اور بکری کے کھاجانے سے آیات ضائع ہونے کی کوئی روایت نہیں۔ مفتی طارق مسعود نے کہا کہ” علامہ امین شہیدی کے کہنے پر معلوم ہوا کہ شیعہ میں بھی ایسے لوگ ہیں جو قرآن کے پارے بکری کے کھانے کا عقیدہ نہیں رکھتے ”۔ سعودی عرب میں ہم نے ابن ماجہ کی روایت کتب خانے میں موجود علما کو دکھائی جو شیعہ پر قرآن نہ ماننے کا الزام لگارہے تھے تو وہ حیران ہوگئے کہ سنیوں کی یہ احادیث ہیں؟۔
کوئٹہ میں بڑے علما ، سرکاری افسران اور تعلیم یافتہ طبقات کی مدد سے فرقہ واریت اور شدت پسندی پر قابو پانے کیلئے مرکزی سطح سے علاقائی سطح تک ایسی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جس سے فرقہ واریت اور شدت پسندی کے ناسور کا خاتمہ ہوجائے تو اس کے اثرات افغانستان(afghanistan) اور ایران (iran)پر بھی پڑجائیں گے۔
مولانا فضل الرحمن،مولانا محمد خان شیرانی(molana sherani) اورحافظ حسین احمد(hafiz hussain ahmed)، سپاہ صحابہ (sipah e sahaba)اور شیعہ(shia) ، بریلوی(barailvi) اور اہلحدیث (ahlehadic)علما سے ایک مثبت گفتگو کیلئے وقت لیا جاسکتا ہے۔ حکومت اور ہماری ریاست بھی بھرپور تعاون کرے گی۔ مدارس کے نصاب(madaris ka nisab e taleem) تعلیم کے حوالے سے مولانا محمد خان شیرانی(molana khan sherani) نے مجھ پر( 2004) میں بھی اعتماد کا اظہار کیا تھا جس کو میں نے اپنی کتاب” آتش فشاں” (aatish fishan)کے سرورق پر اندر کی طرف سے جلی حروف میں واضح کردیا تھا۔ بڑے عرصہ سے فقہی لایعنی مسائل کا سلسلہ جاری ہے۔ اگر علما اور عوام کو حقیقت کا پتہ چل جائے تو انقلاب بھی آجائے گا۔ غسل کے تین فرائض بتائے جاتے ہیں ۔ منہ بھر کر کلی کرنا، ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا اور پورے جسم پر ایک مرتبہ پانی بہانا۔ یہ فرائض مسلک حنفی کے ہیں۔ شافعی مسلک والے پہلے دوفرائض کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا فرض نہیں سنت سمجھتے ہیں۔ تین میں سے دو فرائض پر اتفاق نہیں ہے اور تیسرے فرض پورے جسم پر ایک مرتبہ پانی بہانے سے مالکی مسلک میں فرض ادا نہیں ہوگا جب تک کہ مل مل کر جسم کو نہ دھویا جائے۔ گویا کسی فرض پر بھی اتفاق نہیں اور جوفرائض رسول کریم ۖ اورخلفا راشدین کے ادوار میں نہیں تھے ان کو ایجاد کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ قرآن میں ہے کہ لا تقربوا الصلو وانتم سکری حتی تعلموا ما تقولون Oوالا جنبا الا عابری سبیل حتی تغتسلوا” اور نماز کے قریب مت جا، جب تم نشے کی حالت میںہو یہاں تک کہ تم سمجھو جو کچھ تم کہتے ہو اور نہ حالت جنابت میں مگر جب کوئی مسافر ہو، یہاں تک کہ نہالو”۔ قرآن میں یہ واضح ہے کہ مسافر پر غسل فرض ہو تو بھی اس کیلئے تیمم سے نماز کی گنجائش ہے۔ نماز پڑھنے کاحکم اوراجازت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ حضرت عمر (hazrat umer)نے گنجائش سے فائدہ اٹھایا اور نماز نہ پڑھی اور حضرت عمار(hazrat ammar) نے تیمم (tayammum)سے نماز پڑھ لی ۔ نبیۖ (nabi pak)نے دونوں کی تصدیق فرمائی جو قرآن کی تفسیر ہے۔ پھر بھی حضرت عبداللہ بن مسعود(abdullah bin masood) اور حضرت ابوموسی اشعری(hazrat abu mussa ashra) کے درمیان اس مسئلے پر صحیح بخاری(sahi bukhari) میں اختلاف وتضاد(ikhtilaf o tazad)اور مناظرہ(manazra) نقل کیا گیا۔
اللہ نے فرمایا کہ” جب تم نماز پڑھنے کیلئے اٹھو تودھو اپنے چہروں کو اور ہاتھوں کو کہنیوں تک اور اپنے سروں پر مسح کرو اور پیروں کو ٹخنوں تک اور اگر تم جنابت میں ہو تو خوب پاکی حاصل کرو”۔ فقہا نے اس پر اختلاف کیا کہ خوب پاکی سے کیا مراد ہے؟۔ حالانکہ وضو کے مقابلے میں نہانا ہی خوب پاکی ہے۔ حضرت عمر نے قرآن کے اوراق مانگے تو بہن نے کہا کہ پہلے غسل کرلو ۔ جس کا مطلب یہی ہے کہ نہانا سب کو آتا تھا، عربی میں غسل نہانے کو کہتے ہیں۔
بریلوی عالم علامہ شاہ تراب الحق قادری نے فقہی مسئلہ نکالا کہ” رمضان کے روزے میں جب پاخانہ کرو تو اپنے پاس کپڑا رکھو۔ استنجا کے بعد مقعد سے جو آنت نکلتی ہے جو پھول کی طرح ہوتی ہے ،اس کو اندر جانے سے روکو اور پہلے کپڑے سے سکھا، پھر اندر جانے دو۔ اگرایسا نہیں کیا تو روزہ ٹوٹ جائیگا”۔
ہم نے اپنے اخبار ضرب حق کراچی (zarbehaq)میں اس کو تنقید کا نشانہ بنایا تو بریلوی علما نے بھی ساتھ دیا لیکن دعوتِ سلامی والے کسی کی سنتے نہیں ہیں اسلئے ان کے مفتی صاحبان بعد میں بھی لگے ہوئے تھے کہ ” استنجا کرتے وقت سانس بھی نہیں لینا۔ اگر پانی کا قطرہ گیا تو آنت سے معدے تک پہنچ جائیگا اور روزہ ٹوٹ جائیگا”۔
پہلے فقہا نے جہالت پر مبنی مسائل بنانے کیلئے خرافات گھڑنے کی کوششوں میں اپنی عمریں ضائع کردی تھیں اور اب جاہل اس پر عمل کیلئے بھی آمادہ ہوگئے۔ کوئٹہ میں اگر بلوچ، پشتون اور ہزارہ برادری نے مل کر شعور بیدار کیا تو اس کے اثرات کابل وقندھار(qandahar)،تہران وقم ، اسلام آباد(islamabad) ولاہور (lahor)، ملتان(multan) وپشاور (peshawar)اور حیدر آباد(hedrabad) و کراچی (karachi)کے علاوہ دنیا بھر پر پڑجائیںگے۔
(syed atiq ur rehman gillani)(zarbehaq)(navishta e diwar)

Pakistan’s most courageous politician Usman Kakar and party leader of Pashtunkhwa Milli Awami Party passed away.

پاکستان کے بے پناہ جرأت کے مالک سیاستدان پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما عثمان کاکڑ رحلت فرماگئے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
پاکستان کے (pakistan)مایہ ناز ہردلعزیز ، بے پناہ جرأت کے مالک سیاستدان پختونخواہ ملی عوامی پارٹی(pmap) کے منفرد، اپنی ذات میں یکتا رہنما عثمان کاکڑ(usman kakar)اس دارِ فانی سے رحلت کرگئے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس اور اپنی جوارِ رحمت میں عظیم مقام عطا فرمائے۔ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ پاکستان کے تمام سیاسی کارکنوں کیلئے عظیم رہنما کی وفات بڑا خلا ہے جو پورا نہ ہوسکے گا۔ انا للہ و انا الیہ راجعونO
محترم عثمان کاکڑ کی تصاویر چند دن پہلے فیس بک پر دیکھی تھیں ۔ معلومات کی کوشش بھی نہیں کی۔ مندرجہ بالا کلمات وفات کی خبر کے بعد لکھے ہیں۔ بتایا گیا تھا کہ گھر میں چوٹ لگی تھی ۔ پھر پتہ چلا کہ سوشل میڈیا(social media)پرافواہ پھیلائی جارہی ہے کہ ان کو سازش سے قتل کیا گیا ہے۔ اسلئے کوئٹہ(koita) میںاپنے ذرائع سے معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ کل میری پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے اہم کارکن سے بات ہوئی تھی تو اس نے بتایا تھا کہ یہ گھر کا معاملہ ہے۔ محمود خان اچکزئی(mehmood khan achakzai) ایک بہادر شخصیت ہیں یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کی پارٹی کا اہم ترین رہنما سازش کی بنیاد پر قتل کیا جائے اور وہ خاموش رہیں۔ اگر کوئی سازش تھی تو پہلے سے (FIR )درج ہونی چاہئے تھی۔ عثمان کاکڑ کھل کر بولتے تھے اور عاصمہ جہانگیر(aasma jhangir) بھی بہت کھل کر بولتی تھیں۔ خواہ مخواہ کسی معاملے کو سازش کا نام دینا ملک و قوم کے ساتھ کوئی بھلائی نہیں ہے۔ پاکستان کے ریاستی نظام پر تنقید اور اصلاح کی کوشش درست ہے لیکن غلط افواہوں کے ذریعے اپنی قوم میں بدظنی کی فضاء پیدا کرنا انتہائی گھناؤنا فعل ہے۔ محمود خان اچکزئی اس سلسلے میں کردار ادا کریں اور درست کو درست غلط کو غلط کہنے کی روایت سے انقلاب پیدا کریں۔
میری ایک مرتبہ محترم محمود خان اچکزئی اور عثمان کاکڑ سے اسلام آباد(islamabad) میں اس وقت ملاقات ہوئی تھی جب جمعیت علماء اسلام نے دھرنا دیا تھا۔ہمارا گروپ فوٹو بھی کسی کے پاس ہوسکتا ہے۔ اگر اچکزئی صاحب مولانا فضل الرحمن(molana fazalrehman) سے وہ باتیں کردیتے تو شاید انقلاب(inqilab) کیلئے (PDM)بنانے کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔
(syed atiq ur rehman gillani)(zarbehaq)(navishta e diwar)

Oh Grandmother your female peacock has been taken away by Peacock and thieves shifted water from Karachi.

Water Mafia, Khilafat, Mafia, Water Problem Karachi, Thieves Of Karachi, Water Problem Karachi, Water Problem Karachi, Water Problem Karachi, Water Problem Karachi, Water Problem Karachi, Water Problem Karachi, Water Problem Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi,

نانی تیری مورنی کو مور لے گیا…….کراچی تیرے پانی کو چور لے گیا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
ڈاکٹر اسرار (doctor israr)نے ایک بیان میں کہا کہ سندھ (sindh)سے خلافت (khilafat)کا آغاز ہونا چاہیے اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ سندھ کی so غیورعوام نے انگریزکے. اقتدار کو کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا ۔ پنجاب(punjab) اور سرحد(khaibar pakhtoon khuwah) میں بہترین کالج(college) اور سکول (school)بنادئیے مگر انگریز نے ایک سکول سندھ میں نہیں بنایا اسلئے کہ انگریز یہ جانتا تھا کہ سندھی (sindhi)ہمارے .وفادار نہیں ہوسکتے۔ (نہری نظام سے پنجاب so. کو آباد اورسندھ کو برباد کیا گیا تھا) اب بحریہ ٹاؤن (baharia town)کے ذریعے .سندھیوں کی زمینوں پر ناجائز so قبضہ اور کراچی کی عوام کو پانی سے Water Mafia, Khilafatمحروم کیا جارہاہے۔

test

کراچی میں. پولیس اور رینجرز امن و امان کی بحالی اورپانی بیچنے کے مافیاso (mafia)میں شریک ہیں اورعوام بھی کربلا کی جانب جارہی ہے۔ کراچی(karachi) پاکستان(pakistan) و سندھ. کا دارالخلافہ تھاجو so منی پاکستان ہے۔ پختون(pashtoon)، بلوچ (baloch)، سندھی ، پنجابی اور ہندوستان س(hindustan)ے آنیوالے مہاجرکی بڑی تعداد. یہاں آباد ہے۔ سندھ so کے شہری و دیہی علاقوں میں سندھی مہاجر تعصبات بھڑکانے کی کوششیں بھی ہوئیں۔ (MQM)کے دور میں امن کمیٹی کے بانی وزیرداخلہ سندھ .ذوالفقار so مرزا نے قرآن سر پر رکھ کر (MQM)کو غدار قرار دیا تھا۔

Water Mafia, Khilafat

آج مرزا کی بیگم فہمیدہ مرزا اور( MQM)رہنماؤں کا تحریک انصاف. کی حکومت میں اتحاد قائم ہے۔ so الطاف حسین آئے روز فوج کو دعوت دیتا تھا کہ جمہوری حکومت ختم کرکے اقتدار so پر قبضہ کرلو۔ پھر فوج کو ننگی گالیاں دیکر. دوسری قوموں کو پنجاب(punjab) اور فوج(foj) کے خلاف بھی. للکارنے کا کام جاری رکھا اور اپنے ساتھیوں کو so بھی غلیظ گالیوں سے نوازتا رہاہے لیکن ہر انسان میں کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں ہوتی ہیں۔

Water Mafia, Khilafat

کراچی کی عوام کو اگر (MQM)کے کارکنوں کا تحفظ حاصل so نہ ہوتا تو دوسری قومیتں. اور طالبان (taliban)نے مہاجروں کا برا حشر کردینا تھا۔ پختونوں کی آبادی والے علاقوں میں طالبان نے so کھلم کھلا اپنے فیصلے اور لوگوں سے بھتے وصول کرنا شروع .کئے تھے۔ بڑے بڑے. لوگوں کو بھی کراچی میں ہماری ریاست تحفظ نہیں دے سکتی تھی۔

test


ڈاکٹر اسرار احمد کا بیان سندھیوں کی بڑی تعریف میں ہے جنہوں نے انگریزso (british)کے اقتدار کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا، اسلئے خلافت کا آغاز بھی سندھ سے ہونا چاہیے۔پنجاب so اور سرحدکو انگریز نے اچھے سکولوں کے علاوہ نہری نظام کا تحفہ دیا جبکہ سندھ کو محروم رکھااور اب بحریہ ٹاؤن سندھیوں کی so زمینوں پر اور کراچی کی عوام کے پانی پر قبضہ کررہاہے، پانی مافیا سے عوام کربلا کی جانب جانے پر مجبورہورہی ہے

test


سندھ کی قوم پرست پارٹیوں کو کنٹرول کرنے so کیلئے پیپلزپارٹی کو استعمال کیا جاتا ہے اور پیپلزپارٹی. کو کنٹرول کرنے کیلئے (MQM)کو استعمال کیا جاتا ہے۔ کیاسرکار کے کرنے کاکام so یہی ہے؟۔ اردو ہماری قومی ، دنیا کی اہم زباں ہے جس. کو ہندوستان، افغانستان اور عرب امارات کے علاوہ دنیا میں اہمیت so حاصل ہے۔کراچی کی ڈھائی سے تین کروڑ آبادی کے علاوہ. بہت ٹی وی چینلوں کے. ذریعے مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے اربوں لوگ اس کو سمجھتے ہیں۔

Water Mafia, Khilafat

اسلام(islam) کی نشاة ثانیہ میں اسکا بہت اہم کردار ہے۔ سندھ so اور پاکستان کے اکثر چھوٹے بڑے شہروں میں مہاجر ایک. بڑی تعداد میں رہتے ہیں جن کے آباواجداد نے اسلئے ہجرت کی تھی so کہ یہاں اسلام نافذ ہوگا۔ یہاں اسلام تو دور کی بات .ہے ایساانصاف بھی نہیں مل رہاہے جو کسی بھی ریاست کا بنیادی تقاضہ ہوتا ہے۔

test


شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی (mufti taqi usmani)نے اپنی so کتابوں فقہی .مقالات (fiqhi maqalat)اور تکملہ فتح المہلم سے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز soکی عبارات نکال دینے کا اعلان کیا مگر پھر وزیراعظم. عمران خان کے نکاح خواں مفتی سعید خان(mufti saeed khan) نے اپنی کتاب” ریزہ الماس”(raza almas) میں سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا. جواز so لکھا۔اگر عوام کو مدارس(madaris) کے نصاب کی بیہودگی so اور حلالے کا پتہ چل گیا تو مفتی. عزیز کو بھول جائیں گے
جب ہم نے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی soکی کتاب فقہی مقالات کی عبارت پیش کی جس میں. فقہ Water Mafia, Khilafatحنفی کا یہ مسلک لکھا. تھا کہ” اگر ناک سے نکسیر پھوٹ جائے تو اسکے خون سے سورة فاتحہ(soorah e fatiha) کو پیشانی پر لکھنا جائز ہے اوراگر پیشاب سے لکھا جائے اور یہ یقین ہو کہ علاج ہوجائیگا تو جائز ہے”۔

test

مفتی تقی عثمانی نے اپنی so کتاب میں صاحب ہدایہ. کی کتاب تجنیس Water Mafia, Khilafatکاحوالہ دیا۔ حالانکہ یہ فتاویٰ شامیہ(fatawa e shamia) اور فتاویٰ قاضی خان(fatawa e qazikhan) میں بھی ہے۔ (MQM)کے ڈاکٹر فاروق ستار سے. سیکٹر انچارج تک سب نے so اس مسئلے پر مفتی تقی so عثمانی. کی زبردست مخالف کردی۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان(imran khan) کو ہم نے آگاہ کیا۔ جماعت اسلامی (jamat e islami)سے نکل کر تحریک انصاف میں شامل ہونیوالے so رہنماؤں نے عمران خان کو اس پر ردِ عمل سے. روک Water Mafia, Khilafat دیاتھا۔

Water Mafia, Khilafat


جب مفتی تقی عثمانی پر عوام کا شدید دباؤ بڑھ گیا so تو اس نے روزنامہ اسلام میں ایک مضمون شائع. کیا جس میں اس مسئلے سے لاتعلقی کا اعلان کردیا اور اپنی دونوں کتابوں ”فقہی مقالات ” اورعربی soکتاب ” تکملہ فتح الملہم ” سے اس کو نکالنے. کا اعلان کردیا۔پھر ایک چھوٹا سا اشتہار طرح کا بیان شائع کردیا کہ مجھ پر soکچھ لوگ بہتان لگارہے ہیں وہ اللہ کا خوف کریں۔ اور ہفت Water Mafia, Khilafat روزہ ضرب مؤمن میں دونوں so تحریریں ایک ہی. شمارے میں شائع ہوگئیں۔ جب مفتی عبدالرحیم(mufti abdulrahim) نے کہا کہ مفتی تقی عثمانی کو برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیر(toni blear) نے اپنا مشیر مقرر کیا. اور علیمیاں ابوالحسن so علی ندوی (abulhasan nadvi)اکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ(oxford university) کے انتظامی بورڈ میں شامل تھے. تو مفتی تقی عثمانی نے so دونوں باتوں کے جھوٹ ہونے کی وضاحت کردی تھی۔

Water Mafia, Khilafat


حاجی محمد عثمان (haji muhammad usman)اللہ والے پر ناجائز فتویٰ لگانے. پرعلماء نے Water Mafia, Khilafatزوال کا سفر شروع کیااور so مفتی عزیز الرحمن کا اسکینڈل (mufti azizurrehman scandle)اس کی انتہاء نہیں بلکہ یہ تو ابتداء ِ ذلت ہے Water Mafia, Khilafatروتا ہے کیا۔ آگے آگے so دیکھئے ہوتا ہے کیا؟۔ حلالہ(halala) اور مدارس(madaris) کے نصاب کا پول کھلے. گا تولوگ اسلام کے نام پر عوام کا استحصال soدیکھ کر حیران ہونگے کہ جہالت ، مفادپرستی ،غیراخلاقی حرکتوں، بیہودگی اورناشائستہ ونازیبامعاملے کا یہ گرا ہوا معیارہے؟

Water Mafia, Khilafat


حاجی محمد عثمان معروف شیخ طریقت تھے جن سے کراچی so کے کئی بڑے مدارس کے بڑے علماء بیعت تھے۔ مفتی تقی. عثمانی کے استاذ مولانا عبدالحق(molana abdulhaq) اور so دارالعلوم کراچی(darululoom karachi) کے مولانا اشفاق احمد(molana ashfaq ahmed) قاسمی فاضل دیوبند بھی بیعت تھے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی so کے مہتمم مفتی احمدا لرحمن اور مفتی اعظم. پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی (mufti wali hassan tonki)وہاں آتے جاتے تھے ۔

test

مولانا فضل(molana fazal rehman) محمد استاذ. حدیث Water Mafia, Khilafatجامعہ بنوری ٹاؤن کراچی بھی حاجی so عثمان سے بیعت تھے اور جامعہ فاروقیہ شاہ(jamia faroqia) فیصل کالونی کے ایک استاذ so بھی بیعت تھے۔ کور کمانڈر. نصیر اختر(cor commander naseer akhtar)، جنرل خواجہ ضیاء الدین بٹ(genral ziauddin but) اور کئی Water Mafia, Khilafatبریگیڈئیر(bregadier) بھی بیعت تھے۔ الائنس موٹرز کا اسکینڈل آنے سے پہلے یہ پتہ چل گیا کہ حاجی عثمان کو حبسِ بے جا میں so رکھا گیا ہے۔ پھر ان پر بہت ہی ناممکن قسم کے. الزامات لگاکر فتویٰ لگایا گیا۔ جن میں مفتی عبدالرحیم سمیت بڑے علماء ومفتیان بری so طرح پھنس گئے۔ آج بھی حقائق سب کے سامنے. لائے جاسکتے ہیں۔ ہم نے اس وقت پہاڑوں سے زیادہ مضبوط مدارس کے قلعوں کو بدترین شکست دیدی تھی۔

Water Mafia, Khilafat


سندھ کی انفارمیشن سکریٹری(sind information sectry) مہتاب راشدی(mehtab rashidi) تک ہمارے اخبار کی شکایت پہنچی کہ مفتی تقی عثمانی کے خلاف سورة فاتحہ کو. پیشاب سے لکھنے کو جائز قرار دینے کی بات شہہ سرخی سے شائع کردی ۔ حقائق بتانے پر اس نے پیشکش کردی کہوزارت داخلہ سے .سکیورٹی کیلئے پولیس گارڈ کا لکھ دوں گی لیکن ہم نے منع کردیا۔ ہماری ذاتیات کا معاملہ نہیں۔ بہت بڑی تعداد میں لوگ مذہب کے. نام پر غلط استعمال ہورہے ہیں، جنکا غیرفطری استحصال ہورہا ہے اور جن کو اسلام کے نام پر جہالتوں کے اندھیرے میں دھکیلا جارہاہے۔

Water Mafia, Khilafat

جنگ اخبار میں آپ کے مسائل اور ان کا حل میں یہ بات شائع so ہوئی کہ اگرمیاں بیوی میں سے کسی. ایک کا انتقال ہوجائے تو دوسرے کیلئے so اس کا دیکھنا کیوں جائز نہیں ہے؟۔ مولانا سعیداحمد جلالپوری(molana saeed ahmed jalalpuri) رئیس دارالافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے جواب so دیا تھا کہ ایک کے فوت ہونے کے بعد دوسرا اجنبی بن جاتا ہے۔

Water Mafia, Khilafat


اردو زبان اور کراچی(karachi) میں so زیادہ تعداد کی وجہ سے انقلاب(inqilab) کا پہلا حق کراچی والوں کا بنتا ہے۔مولانا عبیداللہ سندھی (molana ubaidullah sindhi)کی ہدایت تھی کہ اگر ہوسکے تو کراچی کو مرکز بنائیں ، نہیں so تو پھر شکارپور سندھ(shikar pur) کو اسلام کی احیاء کیلئے اپنا مرکز بنالیں۔ہمارا کراچی کے بعد مرکز ملتان اور so شکارپور میں منتقل ہوا تھا۔ اگر حاجی عثمان پر فتوے نہ لگتے تو علماء کے خلوص پر شک نہ so رہتا لیکن ہمارا اصل ہدف صرف اسلام کی نشاة ثانیہ ہے!

test

میری ایک بیگم شکار پور کی. سندھی ،دوسری تربت کی بلوچ، دو بہو مہاجر اور ایک کشمیری ہے۔ سندھی، مہاجر اور بلوچ میں یہ بات ہے کہ میاں بیوی میں سے کوئی فوت ہو تو دوسرے کیلئے وہ اجنبی ہے اور اس پر عمل بھی ہورہاہے۔ مفتی طارق مسعود کہتا ہے کہ بیوی فوت ہو تو اس کا شوہر قبر میں اس کو نہ اتارے بلکہ اسکے محرم بھائی اور بیٹے اتاریں لیکن اللہ تعالیٰ قرآن میں کہتا ہے کہ قبرسے اٹھنے کے بعد بھی میاں بیوی کا رشتہ قائم رہتا ہے۔ یوم یفر المرء من اخیہ وامہ وابیہ وصاحبتہ وبنییہ ”اس دن بھاگے گا انسان اپنے بھائی، اپنی ماں، اپنے باپ، اپنی بیوی اور اپنے بچوں سے”۔

Water Mafia, Khilafat

جس طرح دیگر رشتے قائم ہونگے اسی طرح بیوی کا رشتہ قیامت تک قائم رہے so گا۔ اگر بیوی کا رشتہ قائم نہیں رہتا ہے تو پھر علماء کی بیگمات کیساتھ اجنبی مردوں کو کیوں جوڑا جاتا ہے کہ قبر کی تختی so پر زوجہ فلاں مفتی اعظم اور زوجہ فلاں مولانا؟۔حضرت عائشہ(hazrat ayesha) سے نبیۖ نے فرمایاکہ ” اگر آپ مجھ سے پہلے فوت so ہوگئیں تو میں غسل دوں گا”۔

Water Mafia, Khilafat

حضرت ابوبکر کی میت کو آپ کی زوجہ نے غسل دیا اور حضرت علی(hazrat ali) کی میت کو حضرت فاطمہ (hazrat fatma)نے غسل دیا۔ مولوی حضرات نے قرآن وسنت کا متبادل مذہب ایجاد کررکھا ہے۔ حضرت علی کی والدہ کو نبیۖ نے اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارکر فرمایا کہ میری ماں ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح فرمایا کہ وقال الرسول یارب ان قومی اتخذوا ہٰذالقرآن مھجورًا ” اور رسول کہیں گے کہ اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ (القرآن)

test


طلاق(talaq) اور عورت کے حقوق(aurat k huqooq) پر کتابیں لکھ کر علماء پر ہم نے حجت پوری کردی لیکن مدارس میں حلالہ(halala) کے نام پر عزتوں کو لوٹا جارہاہے۔ مفتی عزیز الرحمن نے جس ڈھٹاٹی ، صفائی اور بے شرمی سے وضاحتی بیان میں کہا کہ” چائے پلاکر مجھ سے یہ کام کروایا گیا اور ممکن ہے اور بھی ویڈیو ہوں”۔ اگر حلالہ اور مدارس کے نصاب سے عوام کو آگاہ کیا جائے تو مفتی عزیز (mufti azizur rehman)کو بھول جائیںاللہ نے قرآن میں بہت وضاحتوں کیساتھ طلاق اور اس سے رجوع کے احکام کو بیان کیا ہے۔

Water Mafia, Khilafat

سب سے بڑی اہم اور بنیادی بات بار بار یہ واضح کی ہے کہ طلاق کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع کا دروازہ اللہ نے کھلا رکھا ہے اور باہمی رضامندی کے بغیر طلاق کے بعد رجوع کی اللہ نے گنجائش نہیں رکھی۔ قرآن وسنت ،حضرت عمر اورائمہ اربعہکے مسلک میں قدر مشترک یہی تھا لیکن بعد کے فقہاء ومحدثین نے جہالتوں کی وجہ سے معاملات بگاڑ دئیے ہیں۔

Water Mafia, Khilafat


قرآن میں اتنے بڑے بڑے تضادات کیسے ہوسکتے ہیں کہ سورہ ٔبقرہ وسورۂ طلاق میں بار بار اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہو کہ عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع ہوسکتا ہے لیکن درمیان میں یہ بات بھی ڈال دی ہو کہ تیسری طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا ہے یہاں تک وہ کسی دوسرے شوہر کیساتھ نکاح کرلے؟۔

Water Mafia, Khilafat

طلاق کے بعد رجوع کیلئے بنیادی شرط باہمی رضامندی ہے جو قرآن میں بار بار واضح ہے اور آیت(229)البقرہ میں یہ وضاحت ہے کہ جب دونوں آئندہ رابطہ نہ رکھنے پر متفق ہوں ۔ فیصلے والے بھی اس نتیجے پر پہنچ جائیںکہ آئندہ رابطے کی کوئی چیز انکے درمیاں نہ چھوڑی جائے تو اس میں سوال یہ پیدا نہیں ہوتا کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں بلکہ عورت کو کسی اور سے نکاح پر پابندی سے بچایاہے۔
اللہ تعالیٰ نے آیت(229)البقرہ میں پہلے یہ واضح کردیا کہ جب شوہر نے دو مرتبہ الگ الگ مراحل میں طلاق دینے کے بعد تیسرے مرحلے میں بھی رجوع نہیں کیا بلکہ طلاق دیدی تو شوہر کیلئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی اس کو دیا ہو کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لے۔

test

مگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ اس چیز کے واپس کئے بغیر اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے تو اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہی وہ صورت ہے کہ اللہ نے واضح کردیا ہے کہ دونوں کسی صورت میں بھی اب اکٹھے نہیں رہنا چاہتے ہیں اور فیصلہ کرنے والے بھی اس پر متفق ہیں تو کوئی رابطے کی چیز بھی باقی رکھنے میں اللہ کی حدود کو پامال کرنے کا خدشہ ہو توپھر حلال نہ ہونے کے باجود وہ دی ہوئی چیز واپس کی جائے تو دونوں پر حرج نہیں۔

Water Mafia, Khilafat


آیت(229)میں بھرپور وضاحت کے بعد کہ دونوں باہمی رضامندی سے نہ صرف جدا ہونا چاہتے ہیں بلکہ آئندہ کسی صورت بھی ملنا نہیں چاہتے ہیں تو اسکے بعد اللہ نے آیت(230)البقرہ میں واضح کردیا کہ ” پھر اگر اس نے طلاق دی تو وہ اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔ اس آیت میں بنیادی طور باہمی رضامندی سے رجوع کا معاملہ ختم نہیں کیا گیا ہے بلکہ عورت کو شوہر کی دسترس سے باہر نکالنے کا آخری حربہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ مردوں کی فطرت ہوتی ہے کہ اگر وہ اپنی بیوی سے رجوع نہ بھی کرنا چاہتے ہوں تب بھی کسی اور شوہر سے نکاح میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

test

قرآن نے واضح کیا کہ عدت کے اندر بھی باہمی رضا کے بغیر ایک مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن فقہاء کی کھوپڑی میں قرآنی آیات نہیں آئیں۔ پھر یہ بھی آخر میں واضح کردیا کہ جب آئندہ نہ ملنے پر اتفاق رائے ہو تو پھر جب تک اس عورت کا اپنی مرضی سے کسی اور شوہر سے نکاح نہ ہوجائے تو پہلے کیلئے حلال بھی نہیں۔ اللہ نے وحی اتاری اور انسان کے ضمیر میں اتارنے کیلئے اس انداز میں واضح بیان کردی کہ کسی کند ذہن سے بھی یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی ہے کہ اس کو سمجھ نہ سکے ۔ کراچی اور سندھ کی عوام نے توجہ دی تو اسلامی انقلاب سرپر کھڑا ہے۔

test


www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Syed Atiq ur Rehman GIlani

Through the source of king of kohsar, Waziristan, reforms are expected in Afghanistan, pashtoon nation, Pakistan and the entire world.

بادشاہ کوہسار وزیرستان سے افغانستان ، پختون قوم، پاکستان اور دنیا کی اصلاح ہوسکتی ہے؟

تحریر :سید عتیق الرحمان گیلانی
صحافی انوار ہاشمی (anwaar hashmi)نے وزیرستان (waziristan)پر اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ” جب انگریز پر حملہ کرنے کا افغانستان نے اعلان کیا تو وزیرستان کے لوگ بھاگتے ہوئے انگریز اور اس کی مقامی فوج کو بہت جانی نقصان پہنچاسکتے تھے لیکن مقامی قبائل نے صرف مال ہتھیانے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی تھی”۔ یہ اصول ہے کہ انسان میں شر کم اور خیر کا مادہ زیادہ ہے۔ امریکہ سے تختِ لاہور تک دنیا اس دوڑ میں لگی ہے کہ انسانوں کے خون بہانے کے بجائے اپنے مالی مفادات ہی حاصل کئے جائیں۔ غزوۂ بدر کی بنیاد بھی قافلہ لینے سے شروع ہوئی تھی اور مشرکینِ مکہ نے خانہ کعبہ کو پوجا پاٹ سے زیادہ اپنا مرکز تجارت بنالیا تھا۔ اللہ کی طرف سے بھی حج و عمرے میں مالی منافع اُٹھانے کی بات بالکل واضح ہے۔
طالبان دہشتگردوں سے مسلمانوں اور دنیا کو اسلئے نفرت ہوگئی کہ خونی کھیل کا آغاز کردیا گیا۔ امریکہ سے بھی نفرت اسلئے دنیا کررہی ہے کہ عراق اور لیبیا (lebya)کو تیل پر قبضہ کی وجہ سے ہی تباہ کرکے امت مسلمہ کو خون میں نہلا دیا گیا ۔ امریکہ (america)کے افغانستان سے نکلنے کے بعد افغانی اپنے اقتدار کی خاطر خون کی ہولی کھیلنے لگے ہیں جس سے ملحقہ علاقے زیادہ متأثر ہوںگے اور یہ آگ پورے خطے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ سوات سے وزیرستان، بلوچستان اور افغانستان تک کے پختون اس کھیل سے بہت زیادہ متأثر ہوں گے۔
دہشتگردوں سے مسلمانوں اور دنیاکو اسلئے نفرت ہوگئی کہ خونی کھیل کا آغاز کردیا گیا۔ امریکہ سے دنیا نفرت اسلئے کررہی ہے کہ عراق(iraq) اور لیبیا کو تیل کی وجہ سے تباہ کرکے امت مسلمہ کو خون میں نہلادیا گیا۔ امریکہ کے افغانستان (afghanistan)سے نکلنے کے بعدافغانی اپنے اقتدار کی خاطر خون کی ہولی کھیلنے لگے ہیں۔ جس سے ملحقہ علاقے متأثرہونگے اور اب یہ آگ پورے خطے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے
امریکہ نے یہودی کمپنیوں کیلئے اسلحہ کے کاروبار کو فروغ دیناہے اور امریکن فوج نے منشیات (munshiat)کی فیکٹریاں بناکر دنیا میں ہیروئن کا منافع بخش کاروبار کرنا ہے۔
پاکستان کو حکمرانوں نے اپنی اپنی تجوریاں بھرکر کاسہ لیسی پر مجبور کیا ہے۔ بھاری بھرکم سودی قرضے اور بیرون ملک اشرافیہ کی جائیدادیں اس بات کی نشاندہی کیلئے کافی ہیں کہ ملک قوم سلطنت کو کہاں سے کہاں پہنچایا جارہا ہے؟۔ قومی ترانے گانے سے کچھ نہیں ہوتا ہے۔ جس کو ملک سے ہمدردی کا ہی دعویٰ ہو تو وہ اپنے بیرون ملک اثاثہ جات اور بال بچوں کو یہاں پر بلائے۔ ان لوگوں کو عدالتی (court)، سیاسی اور دفاعی وانتظامی عہدوں پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں، جن کی آل اولاد اور جائیدادیں باہر ہوں۔جنرل کیانی(genral kiani)، جسٹس فائز عیسیٰ (julstice faiz essa)، نوازشریف(nawaz sharif)، شہباز شریف(shehbaz sharif) ، عمران خان (imran khan)بھائی، بیوی، بیٹے اور بیٹی سبھی کو پاکستان لے آئیں۔ سارے پختون یہ فیصلہ کرلیں کہ جن کی باہر جائیدادیں ، کاروبار اور آل واولاد ہیں تو ان کو اپنی سیاست سے بے دخل کرنا ہے۔ اسکے اثرات پاکستان بلکہ اس خطے ایران، افغانستان اور ہندوستان پر بھرپور طریقے سے پڑیں گے۔
پختونوں کی تاریخ میں پیرروشان(pir roshan) بایزید انصاری(ba yazeed ansari) کا بڑا نام ہے۔ ہمارے وزیرستان کے سب سے اونچے پہاڑ کا نام ”پیر غر”(pir ghar) یعنی پیر پہاڑ ہے۔ پیروں کیسیاست کا مقام افغانستان سے ہندوستان تک موجود تھا۔ میرے داد سید امیر شاہ(syed ameer shah) کو محسود قبائل(mehsood qabail) نے افغانستان میں وفد کا سربراہ بناکر بھیجا تھا کہ انگریز کے خلاف ہم ایکدوسرے سے تعان کرینگے۔ جسکا ذکر (Emperial Frontiar) کتاب میں کسی انگریز ی جاسوس نے لکھ دیا۔پھر بیٹنی قبائل کا وفد میرے دادا کے بڑے بھائی سیداحمد شاہ (syed ahmed shah)کی قیادت میں کابل پہنچ گیا تھا، جن کو افغانستان کے بادشاہ نے بہت سارے تحائف اورنقدی پیسوں سے بھی نواز دیا تھا۔
محسود قبائل کا وفد عظیم مقصد کی خاطر میرے دادا سیدامیرشاہ کی قیادت میں گیا تھا جس میں انگریز کے خلاف صرف باہمی تعاون تھا۔ پہلے لوگ اقدار کے بڑے پابند ہوتے تھے۔ سید احمد شاہ کے بیٹے سیدا یوب شاہ افغانستان میں اخبار کے چیف ایڈیٹر تھے اور فقیر اے پی(faqeer ap) مرزا علی خان (mirza ali khan)کے خطوط بھی آپ نے لکھے تھے جس کے بڑے سیاسی لوگ بھی جھوٹے دعویدار بن گئے تھے ۔
پیر بوڑھا، پیر طریقت ، سید ۔ مری ملکہ کوہسار تووزیرستان کوہسار کا شاہ ہے، رنجیت سنگھ(ranjeet singh) سے ابتک یہ ملک تباہ ہوا۔
کسی رافضی نے گدھوں کا نام ابوبکر و عمر رکھا ۔ گدھے نے لات سے ماردیاتو امام ابوحنیفہ نے کہا کہ جسکا نام عمر رکھا تھا اسی نے ماراہوگا،یہ نام کااثر تھا۔(مفتی زرولی خان)(mufti zarwali khan) پریغال(preghal) کے معنی کٹا ہوا چور۔پیر غر کا معنی سردار پہاڑہے۔ پیر غرچوروں کا بسیرا نہیں ہے بلکہ دنیا(world) کی سیادت (tourism)کیلئے ہے
پرے کٹے ہوئے اور غال چور کو کہتے ہیں۔ پیر غر کے نام کو پریغال میں تبدیل کرنے کا محرک زبان کے تلفظ میں غلطی کا نتیجہ ہے۔ نام کا اثر ہوتا ہے۔ کسی رافضی نے اپنے گدھوں کے نام ابوبکر وعمر رکھے تھے۔ جب ایک گدھے نے رافضی کو لات مار کرڈھیر کردیا تو امام ابوحنیفہ نے کہا کہ جس گدھے کا نام عمر رکھا ہوگا اسی نے قتل کیا ہوگا، پھرپتہ چلاکہ بات وہی تھی۔(مفتی زرولی خان)
انگریز دور اور بعدتک پیر غر کے سائے میں بسنے والے محسود ایریا دنیا کاسب سے پر امن علاقہ ہوتا تھا، جہاں پر لوگوں کو چوری، ڈکیتی اور قتل وغارت کا کوئی اندیشہ نہیں تھا لیکن پھر رفتہ رفتہ اس کی حالت بدلتی گئی۔ چوری اور پھر ڈکیتی کے ادوار نے علاقے کا امن وامان کافی خراب کردیا۔ آخر کار محسود قوم نے لشکر تیار کرکے چور اور ڈکیت کے گھروں کو مسمار کردیا۔
محسود ایریا دنیا کا سب سے پرامن علاقہ ہوتا تھاجہاں پر لوگوں کو چوری،ڈکیتی اور قتل وغارت کاکوئی اندیشہ نہ ہوتا تھا، پھر رفتہ رفتہ اس کی حالت بدلتی گئی،چوروں، ڈکیتوں نے امن وامان کافی خراب کردیا تو قومی لشکر کے ذریعے چور اور ڈکیت کے گھروں کو مسمار کردیا۔امریکہ وپاکستان نے اپنے لئے طالبان بنالئے تو لوگوں نے بھی اپنے بچاؤ کیلئے اپنے طالبان بنائے لیکن اب حالات بدلے ہیں۔
وزیرایریا شمالی وزیرستان میں طالبان نے بڑے بڑے ڈکیتوں کا خاتمہ کردیا اور پھر آخر کار محسود ایریا میں بھی طالبان نے بسیرے ڈال دئیے۔ اس وقت دنیا کے مسلمانوں اور پاکستان کے لوگوں کو طالبان سے بڑا پیار تھا مگر چور اور ڈکیتوں نے طالبان کا روپ دھار لیا اورانہوں نے اپنی کاروائیاں شروع کردیں۔ لوگوں نے اپنے بچاؤ کی خاطر اپنوں کوبھی طالبان بنایا۔ امریکہ اور پاکستان سے لیکر گھروں ، خاندانوں تک ہی اپنے مفادات کی خاطر طالبان بنانے اور سپورٹ کرنے کا سلسلہ چل نکلا تو اس جنگ میں شیطان کو بڑا فائدہ ہوا مگراسلام ، مسلمان، انسانیت اور علاقائی رسم ورواج کا ستیاناس کردیا گیا۔ کچھ لوگ اپنے بچاؤ کی خاطر طالبان کے سپوٹر بن گئے اور کچھ چوروں اور بدمعاشوں نے طالبان کے نام پر بڑے پیمانے پر بھتہ خوری کی مہم چلانی شروع کردی۔ آج بھی ایسے بے غیرت لوگ طالبان کے نام پر ہیں جو بھتہ خوری میں ملوث ہیں۔ سیٹل ایریا کے بہت لوگ علاقہ گومل کو چھوڑ کر ڈیرہ اسماعیل خان، کراچی ، پنجاب، پشاور ، اسلام آباد اور بلوچستان تک نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ۔ پاک فوج کو اس بات کے خطرات رہتے ہیں کہ جن بھتہخوروں کی ماؤں کے شناختی کارڈ ہیں اور باپوں کے کارڈ نہیں ہیں ، ان کی تصاویر تک بھی نہیں۔ تو اگر فوج انکے خلاف کوئی کاروائی کرے تو (PTM)والے اٹھتے ہیں کہ مسنگ پرسن کو عدالت کے حوالے کرو۔ (CTD )پولیس چھاپہ مارتی ہے تو بھتہ خور دھمکیاں دیتے ہیں کہ شکایت سے ہمارے گھروں کی بے عزتی کردی۔ اگرکوئی بہادر سامنا کرنے لگتا ہے تو بھتہ خور معافی مانگنے کیلئے بھی آمادہ ہوجاتے ہیں ۔ایسے بھتہ خور اپنی عورتوں کو چلارہے ہوں تو بھی بعیدازقیاس نہیں ہے۔
محسود قوم قابل اعتماد ہے اگر ان پر بھروسہ کرکے اسلحہ دیا تو اپنے علاقہ کے امن وامان کی صورتحال کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وزیر رسک نہیں لے سکتے اسلئے ان کے ہاں جنگ اور آپریشن کا کوئی معاملہ نہیں ہے جبکہ محسود کسی بڑے مقصد کی خاطر رسک لینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ حکومت وریاست محسود ایریا کے امن وامان کیلئے محسود قوم پر بھرسہ کرکے اسلحہ دینے میں دیر نہ لگائے!
قوم کو یہ پتہ نہیں چلتا ہے کہ فوج کی طرف سے بھتہ خوروں کو کھلی چھوٹ ہے یا فوج واقعی (PTM)کے احتجاج اور عوامی دھرنوں سے ڈرتی ہے یا پھر دونوں آپس میں مل بیٹھ کر عوام کو بیوقوف بنانے کا ملی بھگت سے ڈرامہ کررہے ہیں؟۔ وزیرستان کے قومی وصوبائی اسمبلی کے ممبرز اور سینٹرز بھی صرف فوج اور عوام کے اعتماد کیلئے کچھ مسائل کی طرف توجہ دلاتے ہیں لیکن اصل مسائل کا حل کوئی پیش کرنے کو تیار نہیں ہے یا اس کی اہلیت نہیں رکھتا ہے؟۔ محسود قوم سب سے زیادہ مسائل کا شکار اسلئے ہے کہ ان میں بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ دہشت گردوں ،فوج اور سیاستدانوں کے سامنے سرنڈر نہیں۔ مقابلہ جاری رکھا ہوا ہے تو حالات کی خرابی کے ذمہ دار بھی وہ خود ہیں۔ جنوبی وزیرستان وزیرایریا میں آپریشن ہوا اور نہ لوگوں کا ماحول ڈسٹرب ہوا۔ فوج اور طالبان کے سامنے وزیرقوم سرنڈر ہے۔ محسودقوم کی خوبی ہے کہ اجتماعی فیصلے کے ذریعے برائیوں کو جڑ سے ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جس دن محسود قوم کی طرف سے اجتماعی فیصلہ کیا گیا کہ بھتہ خوروں، دہشت گردوں اور امن ومان کی صورتحال کو خراب کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرنی ہے تو فساد کو جڑوں سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ محسود قوم مختلف تنظیموں ، جماعتوں اور گروہ بندیوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ جس دن محسود قوم نے اپنی روایت پر عمل کیا تو ان کی دنیا بدل جائے گی۔ محسود قوم کی فطرت میں دھوکہ اور فراڈ نہیں۔ اگر پاکستان کی حکومت اور فوج نے ان کو اسلحہ کی اجازت دیکر علاقے کا امن انکے سپرد کردیا تو وہ اپنے لئے سب سے پہلے قربانی دیں گے۔ البتہ وزیر قوم کا تعلیمی ادارہ واوا زندہ باد اور محسودقوم کا ادارہ ماوا مردہ برباد ہے۔ وزیر قوم کی یہ خامی ہے کہ مولانا نور محمدشہید کو بھٹو دور میں جیل کے اندر ڈال دیا گیا تو ان کے خلاف پروپیگنڈہ کامیاب ہوا۔ محسود قوم کی یہ خامی ہے کہ اگر وہ اپنے چور یا ڈکیٹ کا ذکر کرتے ہیں تو بھی بہت اہمیت دیکر پیش کرتے ہیں۔
تمام پختونوں کے مسائل کا حل یہ ہے کہ علماء اور دانشور طبقہ باہمی طور پر مل بیٹھ کراسلام کے سادہ اور عام فہم مسائل پر ایکدوسرے کا دل ودماغ کھولنے میں مدد کرے۔اسلام کے نام پرقتل ان کابہت بڑا مسئلہ ہے۔ علماء ومفتیان شدت پسندی کے جذبات سے بالکل عاری تھے۔ تصویرسے لیکر گانے بجانے، عورتوں کے شرعی پردے اور داڑھی منڈانے تک منکرات کا کوئی اثر ان پر نہیں پڑتا تھا۔ ملالہ یوسفزئی کہتی ہے کہ دوپٹہ ہمارے پختون کلچر کا حصہ ہے اور(16)سالہ ارفع کریم فخرِ پاکستان مسلمان کی بیٹی تھیں۔ پنجابن پنجابی نہیں بول سکتی تھی مگر امریکن انگلش اچھی بول سکتی تھی۔ ملالہ کو طالبان کی گولی لگ گئی تو نوبل انعام کے باوجود بھی ہمیشہ گالیوں کا شکار تھی ۔اگر وہ ارفع کریم کی طرح ایک فیصل آباد کے فوجی کی بیٹی ہوتی تو شاید اتنی گالیاں نہ کھاتی۔ پشتون قوم کیلئے یہ بہت بڑا اعزاز ہوگا کہ اگر وہ اسلام کی بنیاد پر اپنی زمینوں کو مفت میں مزارعین کو کاشت کیلئے دیں اور جب اپنے مالک کو زمین کی ضرورت ہو تو مالکان خود کاشت کریں یا کسی اورکو دیدیں۔ یہ خوشحالی اور اسلام کی اولین بنیادہے
۔ملالہ بھی مسلمان ہے اور (16)سال کی عمر میں فوت ہونے والی ارفع کریم بھی تھی پنجابی نہیں مگر امریکن انگلش بڑی مہارت سے بولتی تھی ۔جو فیصل آباد کی پنجابن اور کرنل کی بیٹی تھی،دونوں فخرِ پاکستان ہیں لیکن ملالہ کو اسلئے گالیاں کھانا پڑرہی ہیں کہ وہ پنجابی اور کسی فوجی کی بیٹی نہیں ہے! سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں اسلام کے بہت بڑے اور مغرور کھلاڑیوں کو قوم کیساتھ اپنا کھلواڑ بند کرنا پڑے گا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے آدھا تیتر آدھا بٹیر کی طرح اسلامی سوشلزم کی بنیاد پر ایک نظام کا اعلان کیا تو پختونخواہ کے باشعور علاقوں میں مزارعین نے مالکان کی زمینوں پر قبضہ کرلیا۔ جس کی وجہ سے مالکان اور مزارعین میں جنگ وجدل کی فضاء شروع ہوگئی۔ آج تک ان ناچاقیوں کو دور نہیں کیا جاسکا۔ غنی خان کا فرزند بھی اس فضاء کی وجہ سے ایک مزارع کے ہاتھوں شہید ہوا۔ اگر اسلام کا قانون ہوتا تو جن خانوں، نوابوں اور اربابوں کی بڑی بڑی زمینیں تھیں ان کو خود ہی کاشت کرنی پڑتیں اور بچی کچی بڑی بڑی زمینیں مزارعین کومفت دینی پڑتیں تو پختون ایک دوسرے کیساتھ اس اعلیٰ قانون کی وجہ سے بہت شیر وشکر ہوجاتے۔
اگر پختون عورت کو اس کا شوہر اسلام کے مطابق اپنی وسعت کے مطابق حق مہر دیتا اور اس حق مہر کی مالکن پشتون عورت خود ہوتی تو پھر ظلم وجبر اور معاشرے کی غلط رسوم ورواج کا خاتمہ کرنے میں دیر نہیں لگتی ۔ غلام اورلونڈی کا نظام تو دورِ جاہلیت اور جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے رائج تھا۔ جنگوں میں لڑاکو مردوں کو پکڑ کر غلام بنانا ممکن نہیں ہوتا ہے اور نہ دشمن پر کوئی اتنا اعتماد کرسکتا ہے کہ گھر کے فرد کی طرح اس کو غلام بناکر رکھا جائے۔ اسلام نے لونڈی اور غلاموں کا نکاح کرانے کا حکم دیا تھا۔ نکاح میں عورتوں کو نان نفقہ سے لیکر انصاف فراہم کرنے تک سب چیزوں کی ذمہ داری مردوں پر رکھی ہے۔ دو دو، تین تین، چار چار تک عورتوں سے قرآن میں نکاح کی اجازت ہے لیکن اگر عدل نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر ایک عورت یا جنکے مالک تمہارے معاہدے ہوں۔ قرآن و سنت کی تفصیلات میں یہ بات طے ہے کہ جہاں لونڈیوں اور غلاموں کو معاہدے کی ملکیت کا تصور دیا تھا وہاں آزاد عورتوں سے بھی معاہدے کی ملکیت کا تصور دیا گیا ہے۔ مغربی ممالک نے باہمی تحفظ کی خاطر ایک طرف قانونی نکاح کی سخت شرائط رکھی ہیں تو دوسری طرف گرل وبوائے فرینڈز کی اجازت دی۔ اگر مسلمان قوم اسلام پر عمل کرکے اپنے معاشرے کو اُجاگر کرتی تو پھر مغربی معاشرہ اس قدر بے راہروی کا شکار نہ ہوتاکیونکہ اسلام نے حق مہر کی صورت میں عورت کو تحفظ دیا ہے۔
ہم مغرب سے جنسی بے راہروی کی بنیاد پربہت نفرت کرتے ہیں جبکہ ہمارا معاشرہ ان کو جنسی بے راہروی کی وجہ سے قابلِ رحم نظر آتا ہے۔ چھوٹے چھوٹیبچوں پر بہت سی ویڈیوز بنائی گئی ہیں۔ کچرہ اُٹھانے والے اور کم عمری میں محنت مزدوری کرنے والے،مدارس ، جہادی تنظیموںاور یتیم خانوں میں بھی جنسی زیادتیوں کی شکایات عام ہیں۔حال ہی میں لاہور کے ملا نے کھلبلی مچائی ہے۔
اسلام بڑا جامع اور مانع معاشرتی نظام دیتا ہے لیکن اسلام کی طرف دنیا نے مذہبی طبقات سمیت کبھی رجوع تک بھی نہیں کیا ہے۔ حضرت آدم و حوا سے اللہ نے کہا تھا کہ ” اس شجر کے قریب مت جاؤ”۔ اس شجر سے مرادشجرہ نسب جنسی تعلق تھا، عربی میں اکل کھانے کو بھی اور گنگھی کرنے کو بھی کہتے ہیں۔ قرآن میں جس طرح باشراور لامستم کا لفظ جنسی تعلق کیلئے استعمال ہوا ہے جو براہ راست اور چھولینے کوبھی کہتے ہیں۔اسی طرح اکل کے معنی جنسی تعلق کیلئے ہی استعمال ہوا ہے۔ اللہ نے بنی آدم کو مخاطب کیا کہ” شیطان تمہیں ننگا نہ کردے جس طرح تمہارے والدین کو ننگا کرکے جنت سے نکلوادیا تھا”۔(القرآن)
دنیا کو یہ خوف ہے کہ اگر مسلمانوں نے دوبارہ خلافت قائم کرلی تو لوگوں کے ماں ، بہن ، بیٹیوں اور بیگمات کو لونڈیاں بنادیںگے ۔اسلئے پاکستان ، افغانستان اورکشمیر کونشان عبرت بنانے کے چکر میں ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا ہے کہ ” سندھ، بلوچستان، پنجاب، کشمیر، فرنٹئیر اور افغانستان میں جس قدر قومیں بستی ہیں یہ سب امامت کی حقدار ہیں۔ اگر ہندو پوری دنیا کو ہمارے مقابلے پر لائیں تو بھی اس سے دستبردار نہیں ہونگے، اسلام کی نشاة ثانیہ کا مرکز یہی ہے”۔ افغانستان وکشمیر کے درمیان پاکستان کو کچلنے کی تیاری ہے اور اگر ہم نے بر وقت ہوش کے ناخن نہیں لئے تو نہ صرف پختون بلکہ دوسری قومیں بھی تباہ وبرباد کردی جائیں گی۔ اسلام مردہ ضمیرقوموں کو زندہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
اگر پختونوں نے اپنی ضرورت سے زیادہ زمینیں کاشت کیلئے غریب مزارعین (formers)کو مفت میں دینا شروع کیں تو اس سے پختون بھائی چارے کی بنیاد پڑے گی اورمسلمانوں کی سربلندی میں دیر نہیں لگے گی اور ملحدوں کے تلخ لہجے کا بھی علاج ہوگا۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو اسلامی سوشلزم (socialism)کا اپنا نظریہ خیبر پختونخواہ کی جگہ سندھ میں نافذ کرتا بلکہ سندھ پر اسلام نافذ کرتا تو اسلام کی نشاة ثانیہ کا خواب پورا ہوجاتا!
سودی نظام کے ثمرات یہ ہیں کہ لوگ بھوک وافلاس سے آخری حد کو پہنچیں گے تو عزت نفس سے لیکر ہر چیز بیچنے پر مجبور ہوجائیںگے۔ اگر ہم نے پہاڑوں اور میدانوں میں محنت کشوں کو باغات اُگانے کی اجازت دیدی تو بھی ہمارے پہاڑی اور میدانی علاقے جنت نظیر بن جائیں گے اورغریب امیر اور امیر امیر تر بن جائیں گے۔ فقہ کی کتابوں میں کتاب الطہارت سے لیکر آخری کتابوں تک سادہ فہم اسلام کو جس طرح فقہاء نے غلط انداز میں گنجلک بنادیا ہے اگر ہم نے معاملہ فہم انداز میں ان کو پیش کردیا تو دنیا بھر سے طلب علم کیلئے لوگ ہمارے ہی پاس تشریف لائیںگے۔ غسل کے تین فرائض اور تین مرتبہ طلاق کی حقیقت سمجھ میں آگئی تو مذہبی طبقات کے ہوش ٹھکانے آجائیںگے کہ علم کے نام پر کس طرح کی بدترین جہالتوں کا شکار ہیں؟۔ جب علمی بنیادوں پر شکست کا اعتراف ہوگا تو معاملات کو آسانی کیساتھ سمجھنے اور سمجھانے پر بھی آمادہ ہوجائیں گے۔
ہم وثوق کیساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ عوام وخواص ، مذہبی و کامریڈ طبقہ ،جدید اور قدیم تعلیم یافتہ طبقہ سب کے سب ایک پلیٹ فارم پر د ل وجان سے اکٹھے ہونگے اور استحصالی طبقات کو نچلی سطح سے عالمی سطح تک زبردست شکست کا سامنا کرنے کے بعد ہماری امامت بھی دنیا بھر میں قبول کرنی ہوگی۔ اسلام نے دورِ جاہلیت کو شکست دی تھی تو موجودہ باشعور دور میں اس کی طاقت بہت بڑھ گئی ہے لیکن ہم نے اسلام کو خود فطرت کیخلاف بنانے میں اپناکردار ادا کیا ہے۔
جانی خیل (jani khail)بنوں (bannu)میں ایک ماہ سے زیادہ وقت ہوا کہ ملک نصیب خان کی میت کا دھرنا جاری ہے۔ حکومت کا کام ریاست اور اپوزیشن کے درمیان پل کا کام ہوتا ہے لیکن موجودہ حکومت اپوزیشن کو ریاست سے لڑائی کی فکر میں رہتی ہے۔ سلیم صافی (saleem safi)نے سوشل میڈیا پر اپنا دردمندانہ فکر اور تجزیہ پیش کردیا ہے۔صحافیوں کا کام اپنی تشہیر نہیں بلکہ قوم، ملک ، سلطنت ، علاقائی اورخطے کے مسائل کا حل ہو
معروف صحافی سلیم صافی نے جانی خیل بنوں وزیرقبائل کے دھرنے کی بھی شکایت کردی ہے کہ انہوں نے ایک مہینے سے ایک ملک نصیب خان(malik naseeb khan) کی لاش کو رکھا ہوا ہے اور وہ پہلے دھرنے میں دفن کرنے والے بچوں کی لاشوں کو بھی قبروں سے نکالنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ایمل ولی خان(aimel wali khan)، منظور پشتین(manzoor pashteen)، محسن داوڑ (mohsin dawar)جانی خیل دھرنے میں اظہارِ یکجہتی کیلئے پہنچ چکے ہیں لیکن حکومت کا کوئی نمائندہ وہاں نہیں جاسکا ہے۔ حکومت ریاست اور اپوزیشن کے درمیان پل کا کردار ادا کرتی ہے لیکن عمران خا ن کی حکومت اپوزیشن کو فوج سے لڑانے میں اپنی عافیت سمجھ رہی ہے۔ پنجاب، پختونخواہ اور بلوچستان میں بھی کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بٹھائے ہوئے ہیں۔اپوزیشن درست کہتی ہے کہ جعلی حکومت عوام کی نمائندہ نہیں ہے۔
سلیم صافی نے افغانستان کی داخلی صورتحال اور امریکہ کے کردارپر خوب روشنی ڈالی ہے اور افغانستان کی بڑے پیمانے پر خانہ جنگی کے اثرات پاکستان(pakistan) پر بھی پڑنے کا نہ صرف اپنی طرف سے اظہار کیا ہے بلکہ ملٹری لیڈرشپ (militry leadership)کو بھی اس میں سنجیدہ مگر بے بس قرار دیا ہے۔ باجوڑ (bajaur)سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی (jamateislami)کے رکن قومی اسمبلی کی طرف سے بھی گڈ و بیڈ طالبان پر رونے کاحوالہ دیا ہے۔
جب سندھی زبان میں قرآن کا ترجمہ کیا گیا تو سندھیوں نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ سندھ کے حریت پسندوں نے انگریز کے خلاف بھی لڑائی لڑی اور پاکستان کے حق میں بھی سب سے پہلے قرارداد منظور کی تھی۔ پورے سندھ میں سندھی زبان کو بولنے اور لکھنے پڑھنے کو بہت لوگ سمجھ رہے ہیں۔ سرکاری اور لازمی زبان سندھی بھی ہے۔ اگر پختونوں نے قرآن کے موٹے موٹے احکام کو آیات کی مدد سے سیکھ اور سمجھ لیا تو پختونوں کی تقدیر بدلنے میں بالکل بھی کوئی دیر نہیں لگے گی۔ بڑے بڑے معتبر علماء کرام نے فرمایا ہے کہ پختونوں کو عورتوں کا حق نہ دینے کی دنیا میں سزا مل رہی ہے۔ مدارس کی تعلیم میں عورتوں کے حقوق کا دور تک بھی کوئی تصور نہیں۔ معروف ٹک ٹاک پرسن حریم شاہ کی ویڈیوز نے بڑا تہلکہ مچادیا تھا۔ اس نے کسی مولوی مثلاًمولانا طارق جمیل سے شادی کی خواہش ظاہر کردی ہے۔ وہ بھی مدرسے کی تعلیم وتربیت یافتہ ہے۔ صابرشاہ اور اس جیسے بہت زیادہ بدکردار اور بگڑے ہوئے طلباء کی مدارس میں کوئی کمی نہیں ہے۔مولانا صاحبان میں بھی بگڑے ہوئے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد ہوسکتی ہے۔
جب شاہ ولی اللہ (shah waliullah)نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تو ان کو دوسال تک روپوش رہنا پڑا تھا اسلئے کہ ان پر قرآن کا ترجمہ کرنے کی وجہ سے کفر اور واجب القتل کا فتویٰ لگادیا گیا تھا۔ پھر جب ساری زبانوں میں قرآن کے تراجم ہوگئے تو آخر میں غرشتو سے کسی عالم دین نے پشتو میں بھی قرآن کا ترجمہ کردیا جس پر پختون علماء نے اس پر کفر کے فتوے لگادئیے تھے۔ مدارس میں زیادہ تعداد پہلے پختون طلبہ کی ہوتی تھی مگراب مدارس ایک منافع بخش کاروبار بھی بن گیا ہے اسلئے سب طرح کے لوگ بڑے پیمانے پر مدارس کے نام سے بڑی بڑی بلڈنگیں کھڑی کی جاری ہیں۔ جس میں دین کی خدمت سے زیادہ دنیاوی مفادات اور کاروبار کے معاملات کارفرما ہیں۔ پختون گھبرائے اور شرمائے نہیں بلکہ اپنانصاب درست کرکے دنیا بھر کے لوگوں کیلئے ادارے کھول کر دین اوردنیا کی دولت کمائیں۔ (syed atiq ur rehman gillani)

Why I was expelled? Pay respect to vote! Nawaz Shareef. Why I was expelled? Pay respect to Mufti. Mufti Aziz-ur-Rehman.


Mufti Aziz-ur-Rehman, Mufti, Nawaz Shareef, Pay respect to vote, Mujhe q nikala, Nawaz Shareef, Nawaz Shareef, Pay respect to vote, Mujhe q nikala..

مجھے کیوں نکالا؟ ۔ ووٹ کو عزت دو: نواز شریف
مجھے کیوں نکالا؟۔ مفتی کو عزت دو: مفتی عزیز الرحمن

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
نوازشریف نے پارلیمنٹ میں ایون فیلڈ کااعتراف کیا مگر عدالت میں مکر گیا، مفتی عزیز Mufti Aziz-ur-Rehman الرحمن نے اعترافِ جرم کیا اب دیکھنایہ ہے کہ مفتی عزیز بھی یہ واویلا کرتا ہے کہ نہیں کہ
مجھے کیوں نکالا؟ داڑھی کو عزت دو

ویڈیوکے بعد یہ حکم دیا گیا:پس نکل جا !جامعہ منظور ال so اسلامیہ، جمعیت علماء اسلام، وفاق المدارس سے، بیشک تو مردود ہے۔ استاذ ملائکہ ابلیس سے کہا گیا تھاکہ فاخرج انک رجیم

so ابلیس جنت میں فرشتوں کیساتھ تھا ۔ اللہ کی نافرمانی پر شیطان سے کہا گیا کہ فاخرج انک رجیم ”پس نکل جا! بیشک تو مردود ہے”۔ نافرمانی پر اللہ نے آدم و حواء کو بھی جنت سے نکالا۔ قرآن نے حکم so کو اتنی رازداری سے بیان کیا ہے کہ لوگوں کو یہ پتہ نہیں چلتا ہے کہ وہ درخت گندم کا تھا یا کسی اور چیز کا؟۔ مفتی عزیز الرحمن so اگر گناہ سے باز آتااورمدرسہ چھوڑ دیتا تو مدارس و داڑھی والوں کو بدنامی کا سامنا نہ کرنا پڑتا لیکن یہ ضد کہ ”مجھے so عہدے پربحال رہنا ہے” نے اس کو بدنام کردیا اور پھر وفاق المدارس پاکستان ،جمعیت علماء اسلام اور جامعہ منظورالاسلامیہ لاہور کینٹ نے اس کو نکال دیا۔

Mufti Aziz-ur-Rehman

ابلیس کی وجہ سے فرشتوں کو بدنام کرنا غلط ہے اور حضرت آدم و حوا so سے نافرمانی ہوئی تھی۔ البتہ انہوں نے جنت سے نکالنے پر جھوٹ نہیں بولا بلکہ اپنے گناہوں so پر اللہ سے معافی مانگی تھی۔ مدارس مذہبی تعلیم ہی Mufti Aziz-ur-Rehman کا نہیں بلکہ پاکستان اور دنیا میں خواندگی اورناداروں کی کفالت کی لاجواب (NGO,S)ہیں۔ کسی شخص یا چند افراد کی وجہ سے پورے نظام کو بدنام کرنے کی روایت غلط ہے ۔ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات۔ so حامد میر نے جنرل رانی کا ذکر کیا تو الیکٹرانک میڈیا میں اس پر پابندی لگ گئی ۔

Mufti Aziz-ur-Rehman

سوشل میڈیا پر so جنرل رانی کی کہانی عرصہ سے چل رہی تھی۔مولانا سمیع الحق کو Mufti Aziz-ur-Rehman سبزی کی چھریوں سے شہید کیاگیا لیکن ان کو اتنی اہمیت نہ ملی۔ مذہبی طبقے سمیت چند افراد کی وجہ سے کسی بھی طبقے کو نشانہ بنانا غلط ہے ۔ تنقید سے کوئی so بالاتر نہیں اور جس کا جتنا بڑا درجہ اور عہدہ اس کی نالائقی پر اسکے Mufti Aziz-ur-Rehman خلاف نفرت کا اظہار معمول کی بات ہے۔ عزازیل کی ڈھٹائی نے ابلیس کو

test

لعین so بنادیا اور آدم کی توبہ نے شرافت کے اعزاز کودوچند کردیا۔ صفحہ Mufti Aziz-ur-Rehman نمبر2اور دیگر صفحات پر حقائق دیکھ لیں۔
میرے وطن میرے بس so میں ہو، تو وزیر کو تختہ دار کردوں
میں کھینچ کر حاکموں so کو در در شہر شہر سنگسار کردوں
میرے وطن میرے بس میں ہو، گر میری ریاست کی سربراہی
پولیس کو جیلوں میں لاکے رکھوں عدالتیں مسمار کردوں
یہاں پہ قانون بک رہا ہے یہاں پہ مظلوم جھک رہا ہے
لگائے انصاف کی نہ بولی، میں بند یہ کاروبار کردوں
میری حکومت کو موت آئے تو اس سے بڑھ کر نہیں ہے خواہش
کرپٹ لیڈر کے قلب میں خنجروں کا لشکر سوار کردوں
یہاں درندوں کی بھوک کلیوں کو لمحہ لمحہ مسل رہی ہے
میں ان سبھی وحشی ظالموں قاتلوں کے ٹکڑے ہزار کردوں
جو آج مظلومیت پہ احسن فقط سیاست رچا رہے ہیں
میں ان پلیدوں پہ ان غلیظوں پہ لعنتیں بے شمار کردوں

www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv

In Bathroom, all remains nude but in swimming pool ML (N) absolutely becomes nude.

کسی بھی حمام میں تو سبھی ننگے ہوتے ہیں لیکن اس سوئمنگ پول میں مسلم لیگ ن بالکل ننگی تڑنگی ہے۔ ملک کی سیاست کا جائزہ

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

میڈاِن اسٹیبلشمنٹ نواز لیگیوں کا (PTI)کو سلیکٹڈ کہنانری بلیک میلنگ کے سوا اور ہو بھی کیاسکتاہے؟
شہبازشریف وزیراعظم اور حمزہ شہباز پنجاب کے وزیراعلیٰ بن سکتے تھے لیکن مریم کی راجدھانی کوخطرہ تھا

فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفورنے کہا تھا کہ اگر میڈیا آزاد ہوتا اور مشرقی پاکستان کی شکایات سے فوج کوآ گاہ کرتا تو یہ ملک نہ ٹوٹتا۔ حامد میر نے کہا کہ پہلے میں آپ کا شکریہ ادا کرتاہوں اور پھر یہ پوچھتا ہوں کہ (PTM) کو یہ شکایت ہے کہ ہمیں میڈیا پر کیوں نہیں آنے دیا جاتا ہے؟۔ آپ نے الزام لگایا ہے کہ اس کو را فنڈنگ کرتی ہے۔ میں بھی اسلام آباد کے دھرنے میں گیا تھا ، وزیراعظم عمران خان بھی (PTM) کے دھرنے میں شریک ہوا تھا۔ پھر (PTM) کو کھلم کھلا میڈیا پر دعوت کیوں نہیں دیتے؟۔ آصف غفور نے لمبا جواب دیا تھا جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ کو اور وزیراعظم کو پتہ ہوتا کہ رانے فنڈنگ کی ہے تو آپ نہ جاتے۔ میڈیا پر اگر یہ نعرہ لگانے دیا جائے کہ ”یہ جو دہشتگردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے” تو پھر ان شہداء کے لواحقین کے کیا تأثرات ہونگے جنہوں نے جانوں کے نذرانوں کی قربانیاں دی ہیں؟۔ تفصیل یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔ کیا را کی فنڈنگ کے ثبوت کو میڈیا پر سب کے سامنے واضح طور پر لانا ممکن نہیں ؟۔
آرمی چیف جنرل باجوہ نے کہا کہ علی وزیر کو بس سٹینڈ پر قبضہ کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خیبر پختونخواہ پولیس نے پھر سندھ پولیس کے حوالے کیوں کیا تھا؟۔ جبکہ بس سٹینڈ پر سندھ میں قبضہ نہیں کیا تھا؟۔ اس کا جواب یہ ہوگا کہ” سندھ میںاپنے غصے کا اظہارجرم بن گیا ہے”۔
کھریاں کھریاںکا ریموٹ نوازشریف ہے، وہ جوالزام لگاتا ہے تو کیا آرمی چیف اور (DGISI)کو بلیک میل کرکے نوازشریف پر پارلیمنٹ، میڈیا اور عدالت میں ثابت شدہ جرائم کوکلین چٹ دینے پر مجبور کر رہا ہے؟۔سیاسی مسئلے کا نچوڑ یہی ہے لیکن اس مسئلے کا حل بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
سب سے پہلے پارلیمانی سیاست کو بے نقاب کرنا بہت ضروری ہے۔ جب شاہد خاقان عباسی کا نام (ECL)سے نکال کر بیرونِ ملک جانے دیا گیا تھا تو اس وقت سوشل میڈیا پرنوازشریف کے ذاتی حجام لگنے والے سیدعمران شفقت نے کہا تھا کہ ”ن لیگ کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہوگئی ہے۔ اب عمران خان کو مدت پوری کرنے دی جائے گی۔ کبھی عمران خان اور کبھی اسٹیبلشمنٹ پرحملے ہونگے مگر یہ سیاست چلتی رہے گی”۔ مولانا فضل الرحمن کے قریبی صحافی شاکر سولنگی نے خبر دی تھی کہ اب نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کا نام لیکر مخالفت نہیں کرینگے اور وہی ہوا۔
مریم نواز نے مولانا فضل الرحمن کو لگادیا تھا کہ حکومت گرانے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ مولانا نے چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف بیان داغ دیا اور پھر پیپلزپارٹی سے مطالبہ کیا کہ پنجاب اور مرکز میں اپنے پتے شو کریں۔
ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن کے علاوہ ایک عام تأثر یہی تھا کہ یوسف رضا گیلانی کو حفیظ شیخ کے مقابلے میں جیتنا ممکن نہیں لیکن جب گیلانی جیت گیا تو ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن کی روحیں پریشان ہوگئیں۔ مریم نواز نے کھل کر کہا کہ پنجاب میں ہم عثمان بزدار کی حکومت نہیں گرائیںگے۔ مرکز میں بھی وہ عمران خان کی حکومت کو نہیں گرانا چاہتی تھی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کھلم کھلا شہباز شریف کو وزیراعظم اور حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی پیشکش کردی لیکن مریم نواز کو اپنی راجدھانی کی فکر پڑگئی۔ یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین اور مولانا عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے عہدے پر ہرادیا ۔پیپلز پارٹی کو (PDM) سے باہر دھکیل دیا گیا کیونکہ شہبازشریف اور حمزہ شہباز کو بھی اقتدار کی دہلیز پر پہنچانے سے روکنے کیلئے یہ نوازشریف اور مریم نواز کیلئے ضروری تھا۔ شہباز شریف نے کہا کہ ”میں70سال کا بوڑھا ہوں۔ پہلے بھی علاج کی غرض سے لندن جانے کے بعد واپس آیا ہوں”۔ اور یہ بیان دراصل نوازشریف کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ تھا لیکن میڈیانے اس کوبالکل اہمیت نہیں دی تھی۔
مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی ن لیگ کو جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے اور اس کی مثال اس بچے کی ہے جو دوسرے بچے سے کہتا ہے کہ تمہارے منہ میں لالی پاپ بہت خراب ہے ۔ جب وہ بچہ لالی پاپ کو پھینک دیتا ہے تو وہ خود مٹی سے اٹھاکر اپنے منہ میں ڈال لیتا ہے۔ ن لیگ خود اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے لیکن تحریک انصاف کو سلیکٹڈ کہہ کر اپنی راہ ہموار کررہی ہے اور دوسری طرف پاک فوج پر الزامات لگاکر اس پر اپنا دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔ اگر (RMtv)لندن کھریاں کھریاں میں راشد مراد یہاں تک کہتا ہے کہ آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کو بھی پاک فوج نے اپنے مذموم مقاصد کیلئے شہید کروایا تھا تو پھر پختون، سندھی، بلوچ، مہاجر، پنجابی اور سرائیکی پاک فوج کے بارے میں کیا سوچیں گے؟۔ جب نوازشریف کے دور میں عمران خان کا دھرنا ختم کرنے کیلئے راحیل شریف نے آرمی پبلک سکول کے پختون بچوں کو قتل کرنے کی سازش کی ہو توپھر لوگوں کا دماغ پنجابیوں، پاک فوج اور تختِ لاہور کے خلاف نہیں بھڑکے گا؟۔ فوج مخالف عناصر کو یہ کون سمجھائے کہ پاک فوج ایک طرف عمران خان کا دھرنا کروائے؟ اور دوسری طرف دھرنے کو ختم کرانے کیلئے معصوم بچوں کا بے گناہ خون کیوں بہائے ؟ ۔پھر تو وزیراعظم نوازشریف پر بھی لعنت ہو۔ لیکن میڈیا لوگوں کا شعور بیدار کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتا ہے۔
فوج میں ہزار خامیاں ہیں لیکن قومی سلامتی کا یہ واحد ادارہ ہے۔ہماری قوم تعلیم وتربیت اور حکمت وشعور سے بالکل عاری ہے۔ ہم کسی بڑے حادثے کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ نوازشریف کا فوج سے ان خامیوں پر کوئی اختلاف نہیں ہے جو قابلِ اصلاح ہیں بلکہ وہ اپنے جرائم پر پاک فوج کو پردہ نہ ڈالنے کی سزا دینا چاہتا ہے کہ ” مجھے کیوں نکالا؟”۔حالانکہ گیلانی کو بھی نکال دیا گیا تھا۔
اگر(1993عیسوی) میں کرپشن کے ذریعے لندن فلیٹ لینے پر فوج نے مجبور کیا اور (2013عیسوی) میں منتخب وزیراعظم بننے کے بعد فوج نے پارلیمنٹ میں جھوٹا تحریری بیان پڑھنے اور پھر قطری خط لکھنے اور اس سے لاتعلقی پر مجبور کیا تھا تو نوازشریف خالی لندن سے بیان جاری کردے اور فوج سے نمٹنا پوری قوم کی ذمہ داری ہے لیکن اپنے جھوٹ، لوٹ اور کھسوٹ کی سزا افواجِ پاکستان کو دینا ملک ، قوم اور سلطنت کی کیا خدمت ہے؟۔ جنرل راحیل شریف کو خود لائے تھے اور اس دور میں فوج کے اہلکاروں کو کرپشن پر سخت سزائیں دی گئیں تو آپ کو کرپشن سے بچانے کا ٹھیکہ اس نے کیوں لینا تھا؟۔ پھر جنرل باجوہ کو میرٹ کی خلاف ورزی کرکے آرمی چیف بنالیا۔ اس پر بقول انصار عباسی کے شبہ تھا کہ قادیانی ہے تو اس کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینٹ میں شرمناک بل پاس کرنے کی کوشش کی ۔ جب اس بل کے خلاف تحریک لبیک والے کھڑے ہوگئے تو اس کا الزام بھی پاک فوج پر ہی لگادیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بیوی کے نام سے جو جائیداد لی تھی تو اسکا حقِ نمک بھی فائز عیسیٰ نے ادا کردیا؟۔
ن لیگ کی سیاست کا محور یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ(2023عیسوی) کے الیکشن میں اس کو حکومت میں آنے کا موقع دے۔ اس نے پیپلزپارٹی کو (PDM)سے باہر کیا۔ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کے علاوہ دیگر چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو ساتھ کردیا ۔ الیکٹرانک ، سوشل اور پرنٹ میڈیا کے کئی صحافیوں کو بھی خرید لیا۔ حکومت اس کی تجارت و بادشاہت کے خواب ہیں۔ عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کے فیصلے کو ہی غلط نہیں قرار دیا بلکہ خصوصی عدالتوں کے وجود کو بھی انصاف کے منافی قرار دیا۔ پھر وہ وقت بھی دور نہیں کہ نوازشریف اور مریم نواز کے خلاف عدالتی فیصلوں کو عدالت کالعدم قرار دے دے گی۔ ساری برائیاں فوج کے کھاتے میں اس طرح ڈال دی جائیںگی کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید کے یہ کرتوت تھے۔ قوم خوش ہوگی کہ پنجابی قیادت نے فوج سے جان چھڑائی ہے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کہتے تھے کہ مجھے ان لوگوں سے بھی پیار ہے جنکے کتے انگریز کو بھونکتے ہیں۔ فوج مخالف سیاستدانوں اور مذہبی وقوم پرست پارٹیوں کو کتے راشد مراد سے بھی پیار ہوگاجو تہمینہ دولتانہ قسم کی عورت کی اولاد ہے جو جوانی سے بڑھاپے تک نواز شریف پر قربان ہیں۔
نظریاتی اختلاف کی جنگ رحمت ہے اور مفادپرستی اور تکبر کی جنگ زحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے حضرت انسان کی پیدائش پر فرشتوں نے اختلاف کیا تھا اور شیطان نے اس کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا۔ ایک اختلاف محمود اور دوسرا مذموم تھا۔ پاک فوج سول حکومت کے ہرکاروبار میں شریک ہے جس نے پوری قوم کو فوج سے بدظن کردیا ہے۔ روڈ بنانے اور پانی سپلائی سے ٹول ٹیکس کا ٹھیکہ لینے تک ہر چیز پر قبضہ کرنے کے تأثرات نے بہت خراب فضاء بنائی ہوئی ہے۔
جب پرویزمشرف نے ن لیگ کی حکومت ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تو قوم جشن منارہی تھی لیکن ہم نے اپنے اخبار کے اداریہ میں لکھ دیا تھا کہ فوج کی تعلیم و تربیت اپنے لوگوں پر حکومت کیلئے نہیں بلکہ دشمن سے انتقام کیلئے ہوتی ہے اور یہ فوج اور قوم کے مفاد میں ہرگز بھی نہیں کہ پاکستان پر فوجی اقتدار قائم ہوجائے۔ پرویزمشرف کے بعد پیپلزپارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف باری باری اقتدار کی دہلیز تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے لیکن بقول شاعر افکار علوی کے ” مقاصد تو حل ہوئے مسائل نہیں ہوئے”۔ پاکستان جس طرح چل رہاہے ہماری قوم اس کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ ہمارا اسلام، ایمان، قومی غیرت، اقدار اور سب کچھ جعلی بن چکا ہے۔ تحریک انصاف کے بعد ن لیگ کو لانے کیلئے گٹھ جوڑ کا یہ ملک ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ حکومتوں کو لانے اور حکمرانوں کو ہنکانے کیلئے لوٹوں کی فوج ظفر موج ہر وقت تیار رہتی ہے۔ طوفانوں میں ہواؤں کے دوش پر چلنے کے قائدین ریت کے ٹیلوں کی طرح ہوتے ہیں جو آبادیوں کو سہارا نہیں دے سکتے ہیں بلکہ کھیتوں اور کھلیانوں ،جانوروں اور انسانوں کو نقصان پہنچادیتے ہیں۔ ایسے وقت میں چٹانوں سے زیادہ مضبوط انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے جس کو ندی نالے بہاکر نہیں لائے ہوں بلکہ قدرت کے عظیم شاہکار ہوں۔
عام انسانوں کیلئے کاروبار، تعلیم اور مزدوری کے دروازے بند کئے جارہے ہیں۔ سود اور ٹیکسوں کے ذریعے سے ریاست اپنی عوام پر وہ بوجھ بنتی جارہی ہے کہ اب سایہ دار درخت بننے کے بجائے عوام کی کمر توڑ رہی ہے۔ سیاسی اشرافیہ کو اپنی حکومت، تجارت اور بادشاہت کی فکر پڑی ہے۔ فوج سے جنگ اپنے مفادات کیلئے ہے مگر عوام کی خاطر کسی کے اندر کوئی سوچ نہیں ہے۔ علامہ اقبال کے اشعار کی گونج” آوازِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو”اب بنتی جارہی ہے کہ
اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخِ امراء کے در ودیوار ہلادو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو
پاکستان اسلام کے نام پر بناتھا لیکن سود کے بین الاقوامی سرمایہ دارانہ نظام کو بھی اسلامی بینکاری کے نام پر جائز قرار دیا گیا ۔ مذہبی طبقے مذہبی لبادے میں سراپا شیاطین ہیں۔ اسلام کی ایک ایک بات کو مٹانے میں ان کا بہت بنیادی کردار ہمیشہ سے رہاہے۔ اگر سود کو اسلامی قرار دیا جائے تو پھر زنا، چوری، ڈکیتی اور کونسی ایسی چیز ہوگی جو غیر اسلامی ہوگی؟۔ رسول اللہۖ نے زنا بالجبر پر ہی سنگساری کی سزا دی تھی۔ علماء ومفتیان نے زنا بالجبر کیلئے بھی چار عینی گواہوں کی شرط رکھ کر اس پر اسلام کے اندر زنا کے اطلاق سے انکار کردیا۔ حالانکہ نبیۖ نے ایک عورت کی گواہی کو قبول کیا اور یہ نہیں دیکھا کہ زنا بالجبر کرنے والا شادی شدہ ہے یا کنوارا ہے؟۔ خواجہ محمد اسلام کی کتاب ”موت کا منظر” میںبھی زنا بالجبر کی سزا لکھی ہوئی ہے مگرکہیں اس کو کتب خانوں سے غائب نہ کردیا جائے۔
قرآن میں تورات کے حوالے سے اللہ نے فرمایا ہے کہ ” جان کے بدلے میں جان ہے، دانت کے بدلے میں دانت ہے،کان کے بدلے میں کان ہے، ہاتھ کے بدلے میں ہاتھ ہے اور زخموں کا بدلہ ہے اور جو اللہ کے حکم پر عمل نہیں کرتا تو وہی لوگ ظالم ہیں”۔ پاکستان میں سرمایہ دارنہ اور جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے آج تک قرآن وسنت کے مطابق آئینِ پاکستان کے تحت قانون سازی نہیں کی گئی۔ کیونکہ یہاں ہمیشہ عدالتوں میں انصاف بٹ نہیں بک رہا ہے۔
مولوی کو زکوٰة خیرات اور سیاستدانوں کی کاسہ لیسی سے فرصت ملے تو اسلام کیلئے قانون سازی کی بات کریں؟۔ ریاستِ مدینہ میں یہود اور دشمن منافق طبقے کو اسلام کے معاشرتی اور اقتصادی نظام نے شکست سے دوچار کردیا تھا مگر ہمارے ہاں شیطان نے ایسی پود تیار کررکھی ہے جن کو دیکھ کر شرمائے یہود۔
جب سود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہۖ نے زمین مفت میں کاشت کیلئے دینے کا حکم دیدیا۔ زمین کا اصل مالک اللہ ہے اور اس پر اختیار بھی اسکے حکم سے چلتا ہے۔ اسلام نے زمین کی ملکیت سے محروم نہیں کیا بلکہ زمین کو مزارعت ، کرایہ ، بٹائی پر دینے سے روکا تھا۔ امام ابوحنیفہ ، مالک اور شافعی سب متفق تھے کہ زمین کو بٹائی پر دینا حرام ہے۔ اگرمسلمان اصل اسلام پر چلتے تو دنیا میں جاگیردارانہ نظام کیوجہ سے غلام اور لونڈی کا نظام بھی کب کا ختم ہوجاتا۔ مارکس کو بھی کوئی نظریہ گھڑنے کی ضرورت پیش نہ آتی جس کیلئے علامہ اقبال نے بھی شاعری کی اور چین وروس میں یہ نظام عروج پر پہنچنے کے بعد ختم بھی ہوگیا۔
جب مدینہ کے لوگوں کو مفت میں زمینیں مل گئیں تو ان محنت کشوں میں قوت خرید بہت بڑھ گئی جس کی وجہ سے مدینہ کے تاجر وں نے دن دگنی رات چگنی ترقی کی۔ کسی شیعہ نے شکایت کی کہ آپ فقہ جعفریہ کا نام نہیں لیتے تو میں نے کہا کہ شیعہ کی تقلید کا یہ حال ہے کہ مجھ سے ایک شیعہ نے کہا کہ سمندر کی جن مچھلیوں کو ہم نہیں کھاتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ انسان ہیں جن کو مسخ کیا گیا ہے اور یہ حضرت علی کا فرمان ہے۔ دوسری طرف شیعہ کے اجتہاد کا یہ عالم ہے کہ یہاں تک لکھ دیا ہے کہ سؤر کے گوشت کو قرآن میں جس وجہ سے حرام کیا گیا ہے اگر وہ چیز نکال لی جائے تو پھر سؤر بھی حلال ہے۔ ہم اپنے فقہاء سے ہی جان چھڑا رہے ہیں جنہوں نے بعد میں اسلام کو مسخ کیا ہے تو اگر مزارعت کے مسئلے میں احادیث کو لیا جائے پھر شیعہ باغ فدک کی کئی گھڑی کہانیاں بھول جائیں گے۔
پاکستان میں حنفی مسلک کی اکثریت ہے۔ حنفی مسلک کا تعلق مسخ شدہ مسائل نہیں بلکہ امام ابوحنیفہ ہی کا مسلک ہے۔اگر زمینوں کو محنت کش مزارعین کو مفت میں صرف فصل اُگانے کیلئے دی جائے تو ہوس پرست اور حرام خور طبقہ حرام سے بڑی بڑی جائیدادیں بھی نہیں خریدے گا اور زمین سستی ہوجائے گی اور محنت کش طبقے کو اپنی پوری پوری اُجرت مل جائے گی تو یہ انقلاب کا وہ آغازہوگا جس سے مدینہ کی بہت چھوٹی سی ریاست پوری دنیا پر چھا گئی تھی۔ پاکستان بھی اس مقصد کیلئے بنایا گیا تھا اور ہمیں اسی کی طرف جلد یا دیر سے آنا ہی پڑے گا۔
مولانا فضل الرحمن مریم اور حمزہ کے گلے لگانے ،مولانا عزیز الرحمن کی مذموم حرکت کو بھی اسلام اور مشرقی اقدار کا لبادہ پہنادے تو یہ اسلامی سیاست ہوگی؟۔

خاص خاص باتیں:
بلاول بھٹو نے شہباز شریف کو وزیراعظم اور حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی پیشکش کردی مگر یہ طے ہوگیا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت کو مدت پوری کرنی دینی ہے اور اس کا اظہار شاہد خاقان عباسی کا نام (ECL) سے نکال کر لندن جانے کی اجازت دیتے ہوئے نوازشریف کے ذاتی حجام لگنے والے سوشل میڈیا صحافی سید عمران شفقت اور شاکر سولنگی نے بہت پہلے کردیا تھا جس پر عمل ہورہاہے

راشد مراد(MRtv)لندن نے کھریاں کھریاں میںالزام لگایا کہ آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کو فوج نے شہید کیا،اگر عمران خان کا دھرنے کو ختم کرنے کیلئے قدم اٹھایا گیا تھا تو وزیراعظم نوازشریف اور فوج کے بارے میں پنجابی، بلوچ، پختون، سندھی اور مہاجرکیا سوچیںگے؟۔ نوازشریف ذاتی مفاد کیلئے کتے کو لگاکر قوم کا بیڑا غرق کر رہا ہے۔ کیا ہمارا اپنا میڈیا اب اپنی قوم کو شعور دے رہاہے؟
قرآن میں جان کے بدلے جان، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور زخموں کے بدلے کا حکم ہے مگر مولوی کو زکوٰة خیرات ، سیاستدانوں کی کاسہ لیسی سے فرصت ملے تو اسلام کیلئے قانون سازی کی بات کرے ؟ ریاستِ مدینہ کے معاشی اور معاشرتی نظام نے یہود اور منافق طبقے کو انکے عروج کے دور میں شکست سے دوچار کیا،مولوی نے اب سود کے عالمی نظام کو بھی جائز قرار دیا
جب سود کی حرمت کی آیت نازل ہوئی تو رسول اللہۖ نے زمین کو مزارعت، کرایہ اور بٹائی پر دینے کو سود قرار دیا اور امام ابوحنیفہ، مالک اور شافعی سب متفق تھے کہ زمین کو بٹائی پر دینا ناجائز ہے۔ مولانا فضل الرحمن مریم و حمزہ کے گلے ملنے اور مولانا عزیز الرحمن کی بیہودہ حرکت کو بھی اب ناجائز قرار دینے کی بجائے سازش قرار دے تو یہ اسلامی اور مشرقی اقدار ہیں تو یہ بعید از قیاس بالکل بھی نہیں ہے!