نومبر 2020 - Page 2 of 2 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

مسلمان تاریخ کے مشکل ترین دور کی آخری سرحد پر. تحریر: عتیق گیلانی

جب رحمة للعالمین محمد مصطفی احمد مجتبیٰ خاتم الانبیاء و المرسلین ۖ کی بعثت ہوئی تو دنیا جہالت سے گزر رہی تھی۔ ابراہیم علیہ السلام کی نسبت والے مشرکین مکہ، یہود اور نصاریٰ اصل دین سے ہٹ چکے تھے۔ مجوسی ، بدھ مت، ہندو اور دنیا بھر میں مختلف مذاہب اپنی اصل سے ہٹے تھے اور جاہلیت کی اندھیر نگری کا ڈیرہ لگا تھا۔
رسول اللہ ۖ کی 13سالہ مکی اور 10سالہ مدنی زندگی میں مسلم اُمہ بہت مشکلات سے گزر رہی تھی لیکن رسول اللہ ۖ مسلمانوں کیلئے اعلیٰ ترین رول ماڈل تھے۔ قرآن کریم وقتاً فوقتاً ہر مشکل و سہولت کی گھڑی میں نازل ہوتا۔ رسول اللہ ۖ نے اکیلے طائف میں تبلیغ کا مشکل فرض ادا فرمایا۔ کفار نے توہین آمیز رویہ اپنایہ اور پتھروں سے سرکارِ دو جہاں ۖ کو لہولہان کردیا۔ آپ ۖ نے ہتک آمیز رویہ اور پتھر مارنے والوں سے کوئی گلہ نہیں کیا۔ اللہ کی بارگاہ میں انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ ہاتھ اٹھائے اور عرض کیا کہ الٰہی تو مجھ سے ناراض تو نہیں کہ مجھے ان لوگوں کے حوالے کیا۔ اگر آپ مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے اس سلوک کی کوئی پرواہ نہیں۔
آج امت کھڈے لائن لگائی جارہی ہے،ہماری آزادی چھین رہی ہے اور ہماری تباہی و بربادی پر دشمنوں کے دل ٹھنڈے نہیں ہوتے مگرہم لمحہ بھر کیلئے بھی سر جوڑ کر نہیں بیٹھتے کہ ہم سے بھول چوک تو نہیں ہوئی ؟۔ افغانستان ، لیبیا ، عراق اور شام تباہ ہوگئے لیکن ہم نے ہوش کے ناخن نہیں لئے۔ مسئلۂ فلسطین وکشمیر حل ہونے کے بجائے مزید الجھ گیا۔ اسرائیل کا پنجہ مضبوط تر ہوتا گیا۔ مٹھی بھر یہود نے امریکہ ، برطانیہ ، یورپ اور غیر مسلم و مسلم ممالک کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور شکنجہ پاکستان پر بھی کسا جارہا ہے مگر ہم ہیں کہ اپنے مستقبل کا کوئی احساس تک بھی نہیں رکھتے ۔
بڑے دانشور طبقے کی رائے ہے کہ ”یہود و نصاریٰ اور ترقی یافتہ ممالک نے عروج اسلئے حاصل کیا کہ مذہب سے جان چھڑالی ”۔ لا مذہب روس سے دنیا کو غلبے کے خطرات لاحق ہوئے۔ عالمی طاقتوں نے جہاد سے اس کا بیڑہ غرق کیا۔ چین کی ترقی کے پیچھے ماؤزے تنگ کا ہاتھ تھا ۔ شمالی جنوبی کوریا، جاپان کی ترقی بدھ مت کی مرہون منت نہیں۔ گاؤ کے پجاری بھارت کی ترقی سیکولر ازم کی مرہون منت ہے۔ سعودیہ تیل سے دنیا کا امیر ترین ملک بن سکتا تھا لیکن پابندشرعی سلاسل آل سعود کو بھی مذہب سے ہجرت کرنا پڑ ی۔ شیخ الحدیث و القرآن مفتی زر ولی خان نے فرمایا کہ ” مفتی محمد تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ ہوا ، بال بال بچ گئے، شکر ہے۔ دار العلوم کراچی میں کوؤں کی بھرمار تھی۔ شیخ الاسلام کو دار العلوم سے کوؤں کو بھگانے کی توفیق نہیں۔ میں نے احسن العلوم میں باقاعدہ ایک آدمی کوؤں کو بھگانے کیلئے رکھا ہے۔ یہاں پر آپ کو کوئی کوا نظرنہیں آئیگا۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ پانچ چیزیں فاسق ناپاک ہیں جن کو حرم کی حدود میں بھی قتل کیا جائے۔ سانپ، بچھو، کوا، باؤلا کتا اور چیل”۔
مفتی تقی عثمانی ومفتی رفیع عثمانی کا فتویٰ ہے کہ ”کراچی و حیدر آباد کے کوے حلال ہیں”۔ پابندِشرع تھے تو شاید کوے مرغوب غذا ہو، جب شریعت چھوڑ کر سُود کو جواز فراہم کردیا تو ترقی کرلی۔ علماء نے تصویر کی حرمت کو چھوڑا توویڈیو کی ترقی کرلی۔ عمران خان لوٹوں کی مخالفت کرتا تھا تو سیٹ مشکل سے جیتتا تھا اور جب اس نے اپنا نظریہ چھوڑ دیا تو وزیر اعظم بن گیا۔ کیا ان تمام باتوں سے یہی نتیجہ نکالا جائے کہ ہم اپنے دین اور نظرئیے کو چھوڑ دیں گے تو پھر ترقی کی راہیں ہموار ہوجائیں گی؟۔
پہلے توہین رسالتۖ کی خبر پر سلمان رشدی مغرب میں چھپتا پھرتا۔ پھر ڈینمارک کے کارٹوں سے جذبات کا سمندر اُبل پڑا۔ اب فرانس نے حکومتی سطح پر گستاخانہ کارٹونوں کی نمائش کرکے اُمت مسلمہ کو چیلنج کردیا مگر دھیمے لہجے میںآواز اُٹھ رہی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ جذبہ کشمیر کی آزادی کی طرح خواب بن کر رہ جائیگا ۔ ہم نے دوسروں کی غلطیوں پر نظر رکھی۔ مولانا حسین احمد مدنی سے مولانامحمد یوسف لدھیانوی تک مولانامودودی کو علماء دیوبند نے انبیاء ، اُمہات المؤمنین اور صحابہ کاگستاخ لکھ دیا۔ ایک مودودی سو یہودی کا نعرہ لگانے کے بعد اتحاد کی ضرورت پیش آئی تو مولانا مودودی اور اسکے پیروکار بھی شامل کئے۔ جسکی وجہ سے ضمیر ڈھیٹ بن گئے اور نظریات کے ٹیٹ نکل گئے۔ مولانا منظور نعمانی کے استفتاء اور علماء دیوبند کے فتوے میں اہل تشیع کو تین وجوہات کی بنیادپر قادیانیوں سے بدتر کافر قرار دیا۔ 1:قرآن کو نہیں مانتے،2: صحابہ کو کافر کہتے ہیں،3: عقیدۂ امامت پر ختم نبوت کے منکر ہیں۔ پھر اتحاد تنظیمات المدارس، ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کا حصہ بنایا۔ مذہبی طبقہ پتہ نہیں کونسے حکیم کے لونڈے سے دوا لیتاہے کہ متضاد نظریات ، عقیدے اور فتوے کے لکڑ پتھر ہضم کرلیتاہے۔ بریلوی دیوبندی،جماعت اسلامی اہلحدیث اور شیعہ سنی ایکدوسرے پر کفر، گستاخی، گمراہی انواع و اقسام کے فتوؤں سے فارغ نہیں ہوتے تو پھر کسی اور کی طرف توپوں کا رُخ کیسے ہوگا؟۔ شعور کی دنیا میں اسلام سے محبت کرنیوالا مذہبی طبقہ سب سے زیادہ اندھیر نگری اور بے شعوری کا شکار ہے۔
مذہبی طبقات کے مقابلے میں وہ لوگ زیادہ گمراہی کا شکار ہیں جنہوں نے مذہب کیساتھ جدید دانش کی شراب بھی پی ہوئی ہے ۔ اس سے پہلے کہ داعش طالبان کے نام سے دہشت گردی کی فضاء گرم ہو، فرقہ واریت کی بدبو دار لہروں سے ماحول آلودہ ہو،لسانی تعصبات کی آگ بھڑک اُٹھے، سیاستدانوں اور ریاستی اداروں کے درمیان جنگ و جدل سے پاکستانی قوم بے یقینی کی موت مر ے اور ہماری لاشوں پر عالمی طاقتیں ڈھول بجائیں ہمیں سب کیلئے قابل قبول حقائق کی طرف آنا ہوگا۔
ملحد جس انداز میں پیغمبراسلام ۖکی توہین فیس بک پر کررہے ہیں ، فرانس کے کارٹون تو اسکے سامنے کچھ بھی نہیں۔ سیاستدان اور علماء کو عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلنا آتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن ، مریم نوازاور عمران خان اعلان کریں کہ فرانس میں انکے لوگ اثاثے بیچ کر نیشنلیٹی چھوڑ دیں تو مذہب سے حقیقی محبت کا پتہ چلے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی تو کئی جیالوں نے خود سوزی کرلی۔ کیا نبیۖ کے ناموس سے علامہ خادم رضوی، شاہ محمود قریشی، مولانا فضل الرحمن، مریم نواز، علامہ الیاس قادری ، علامہ شہنشاہ حسین نقوی وغیرہ کو اتنی محبت بھی نہیں کہ جتنی جیالوں کو بھٹو سے تھی اور جس طرح خود کش حملوں کو جائز قرار دیا جاتا تھا تو احتجاجاً خود کو آگ لگانے سے احتجاج کا صحیح حق ادا ہوجائیگا۔ اپنی ماچس کی تیلیوں سے اپنی رقم سے بنائے ہوئے مجسموں کو جلانا اللہ اور اسکے رسولۖ کی بارگاہ میں قبول نہیں۔
عمران خان جب اپوزیشن میں تھا تو کم ڈرامے کئے تھے؟ کہ اب اقتدار میں بھی اس کی ڈرامہ بازی ختم نہیں ہوتی ہے۔ ملاضعیف کوامریکہ کے حوالے کیا تھا اور پنجاب پولیس کے گلوبٹوںکو طالبان کے حوالے کرنے کی دھمکیاں دیتا تھا تو فرانس کے سفیر کو طالبان کے حوالے کیا جائے۔ ورنہ فرانس کے سفیر کو فرانس بھیج دیا جائے اور اپنا سفیر بلالیا جائے۔ نہیں تو عوام کو بھڑکانے اوراس ڈرامہ بازی کی کیا ضرورت ہے کہ” سارے مسلمان حکمرانوںکو آخری حد تک لیجانے کی کوشش کروں گا”۔
ایک ایسی سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے کہ مغرب کے مسلمان بھی افغانستان، عراق ،لیبیا ، شام ، فلسطین،بھارت اور کشمیر کے مسلمانوں کی طرح مشکلات کا شکار نہ ہوں۔ایک ایک مسئلے کا مدبرانہ حل اسلامی تعلیمات کے عین مطابق موجود ہے مگر مسلمان حکمران اور علماء ومفتیان اسلام کی حقیقت سے بالکل بہرہ مند نہیں ہیں۔

دہشتگردی اور سیاست گردی کا گٹھ جوڑ: ملک محمد اجمل ایڈیٹر نوشتہ دیوار

تحریر:ملک محمد اجمل ایڈیٹر نوشتۂ دیوار
پشاور میں نبوت کے دعویدار مرزائی کو قتل کیا گیا تو سوشل میڈیا سے لیکر عوامی جلسے جلوسوں تک ایمانی جذبوں کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر چشم فلک نے دیکھا۔یہ اس فرد کو اسلام سے نکلنے کی سزا دی گئی یااپنے مذہب مرزائیت سے ارتداد کی سزادی گئی؟۔ گند کی نالی میں کھڑا ہوا شخص یہ جرم کرلے کہ ایک بالٹی مزید گندا پانی اپنے اوپر ڈال دے تو کیا اس جرم کی سزا کیلئے خوشیوں کے شادیانے بجائے جاسکتے ہیں اور مجرم جب قادیانی تھا تو اس نے نبوت کا دعویٰ کرکے اپنی مرزائیت سے بغاوت کا ارتکاب کیا تھا؟۔
سیاستدان 72سالوں سے غلامانہ نظام کا حصہ ہونے کے باوجود جب تک حکومت کے اندر ہوتے ہیں تو سب ٹھیک نظر آتا ہے لیکن جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کو غلامانہ نظام کا غم کھاتاہے۔ پرویزمشرف اور نوازشریف ”دونوں میں بھی پاکستان ہوں تو بھی پاکستان ہے ”کا نعرہ لگانیوالے پاکستان کے عدالتی نظام سے بھاگے ہوئے ہیں۔ پاک فوج پہلے پرویزمشرف سے گزارش کرے کہ یہاں آکر اپنے اعمال کا حساب دے ۔ن لیگ نوازشریف سے گزارش کرے کہ یہاں آکر اپنے اعمال کا حساب دے۔
پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ لیکن حکمرانوں نے پارلیمنٹ میں کوئی بھی ایسی قانون سازی نہیں کی جس سے لگے کہ ہم نے انگریز کے نظام سے چھٹکارا حاصل کیا ہے۔ جنرل جیلانی نے نوازشریف کا بیج بویا۔ جنرل ضیاء الحق نے گود لیا۔ آئی ایس آئی نے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پر وزیراعظم بنایا۔ غلام اسحاق خان نے اس کو کرپشن کی بنیاد پر نکال دیا۔ لندن فلیٹ کا قصہ اسی وقت سے معرض وجود میں آیا مگر تیسری بارمنتخب وزیراعظم نوازشریف نے پوری قوم سے تحریری پارلیمنٹ میں جھوٹ بھونکا تھا۔ پھر قطری خط لکھ کر ملک اور قوم کو بین الاقوامی بدنامی سے دوچار کیا اور پھر قطری خط سے مکر کر ہٹ دھرمی کے ریکارڈ توڑ دیے لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ علامہ اقبال نے خود سومناتی قرار دیدیا ہے اور ہماری قوم سورج پرست ہے اسلئے کہ زمین سورج کا حصہ ہے اور انسان مٹی کی پیدوار ہے۔چڑھتے سورج کی پوجا عوام کی مجبوری الاصل ہے۔
پاک فوج اور اس کی ناپاک پیدا وار کا جھگڑا اس وقت تک جاری رہے کہ جب داعش اور طالبان کی لڑائی دوبارہ میدان میں لڑی جائے۔ کچھ لوگ طالبان کیساتھ اور کچھ داعش کیساتھ کھڑے ہونگے۔ پھر اس نظام سے تنگ عوام جس طرح ن لیگ اور فوج کی جنگ میں بٹے ہوئے ہیں اس طرح داعش اور طالبان میں بٹ جائیں گے۔ جب قوم خمیرہ بنے گی تو داعش اور طالبان کا بھی لڑتے لڑتے دم نکل جائیگا۔ پھر طالبانِ خیر اُٹھ کھڑے ہونگے اور اس ملک کو درست اسلامی نظام سے روشناس کرائیںگے۔ اب تو اگر داعش وطالبان کا نظام آبھی جائے تو درست نہیں ہوگا۔
ہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ خالد خان نے جس طرح مرزائی امت کے مرتد کو قتل کیا اور قوم نے خوشیوں کے شادیانے بجائے اور جس طرح اسٹیبلیشمنٹ اور ن لیگ کے وفادار خود کو تمام گناہوں سے پاک سمجھتے ہیں اور دوسرے کو ناپاک سمجھتے ہیں ، اسی طرح خالد جان اور اس کی حمایت کرنے والوں کا جذبہ پاکیزہ ہے اور اسی طرح طالبان اور داعش کا جذبہ بھی ایمانی ہے۔
کسی نے کہا کہ سید عتیق الرحمن گیلانی اپنے زمانہ سے دس سال آگے کی سوچ رکھتے ہیں اسلئے لوگ سمجھ نہیں پاتے اور دوسرے تو کیا ہماری سمجھ جواب دے جاتی ہے۔ زمانے کے رُخ کو بدلنا مشکل کام ہے۔ جب سورج کی طرف زمین کا رُخ ہوتا ہے تو دنیا کو دن دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان کو اسلام ہی کی بنیاد پر بنایا گیا تھا اور اسلام ہی کی بنیاد پر بچایا جاسکتا ہے مگرمحمود خان اچکزئی کومولانا فضل الرحمن کے امام انقلاب کا نعرہ لگانے میں دیر لگ گئی ہے۔ اصل امامہ انقاب تو مریم نواز شریف ہیں۔ جسکے پاپا جانی نے ا س وقت بھی محمود اچکزئی ، عمران خان اور جماعت اسلامی کو دھوکہ دیا تھا کہ انتخابات سے بائیکاٹ کرواکے خود الیکشن لڑلیا تھا۔
یہ وہی نوازشریف ہیں جو لکھے ہوئے معاہدے سے ڈھٹائی کیساتھ مکر رہے تھے کہ کوئی معاہدہ ہے تو دکھاؤ۔ اور یہ وہی تو ہیں جو ائرپورٹ پر نوازشریف زندہ باد کا نعرہ لگانے پر جھاڑ رہے تھے کہ چپ کرو، تم نعرے لگاتے تھے کہ قدم بڑھاؤ، نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ جب مڑ کر دیکھا تو پیچھے کوئی بھی نہیں تھا۔ حالانکہ موصوف معاہدے کرکے جارہے تھے۔
عمران خان کے تضادات بھی بیشمار ہیں۔فوج کا بھی متنازعہ کردار تاریخ کا بڑا حصہ رہاہے۔ نوازشریف کا پیدا کرنا بہت بڑا جرم تھا۔ عمران خان کو سپورٹ کرنا بھی اس سے کم جرم نہیں۔ اگر سیاسی ڈائیلاگ شروع ہوجائے تو پہلے پہلے ملک سے باہر سیاستدانوں،ججوںاور جرنیلوں کو اولاد اور جائیداد سمیت ملک کے اندر بلانا ہوگا ۔
پارلیمنٹ میں سیاست نہیں تجارت کا بازار گرم ہے۔ عدالتوں میں انصاف مل نہیں رہا ہے بلکہ بِک رہا ہے۔ فوج ملک کی خدمت نہیں کررہی ہے بلکہ قیادت کی تشکیل اور اپنے کاروبار کا غم کھارہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ، نواز شریف ، عمران خان سب نے کٹھ پتلی بن کر کردار ادا کیا۔
قائداعظم محمد علی جناح اور نوابزادہ لیاقت علی خان سے لیکر غدارشیر بنگال کے پوتے سکندرمرزا تک مسلم لیگی قیادت نے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو غدار بنایاتھا اور مسلم لیگ کی نااہلیت کے سبب جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرکے بھٹو کو تشکیل دیا۔ بھٹو نے قائدعوام کا خطاب پایا تو ساری اپوزیشن کو پھانسی گارڈ میں بھر دیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپوزیشن کی جان چھڑائی اور نوازشریف کو پرومٹ کیا کیونکہ محمد خان جونیجو اس فوجی کیفے ٹیریا میں مس فٹ تھا۔
جنرل ضیاء الدین خواجہ نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں پرویزمشرف کا آرمی چیف بننے کا کوئی چانس نہیں تھا لیکن نواز شریف نے وہی کام کیا جو بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کو کمزور اور عاجز سمجھ کر کیا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ کارگل میں پہلی باربھارت سے پاکستان نے بدلہ لیا۔ کرنل شیرخان کا نشانِ حیدر اس کا ثبوت ہے لیکن نسیم زہرہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ نوازشریف نے انڈین سے کہا تھا کہ ہم پرویزمشرف سے حساب لیںگے۔ جب نوازشریف نے چھپ کر پرویزمشرف پر وار کردیا تویہ خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ فوج آپس میں ہی لڑلڑ کر تباہ ہوجائے لیکن نوازشریف کے مقررکردہ آرمی چیف نے ہتھیار ڈالنے کو ترجیح دیدی۔ جب نوازشریف نے آرمی چیف جنرل راحیل کو منتخب کیا تو پاک فوج نے پہلی مرتبہ اپنے اندر سے کرپشن کو ختم کرنے کے اقدامات اُٹھائے۔ عدالت نے نوازشریف سے حساب مانگا تو نواز شریف کو برداشت نہیں ہوا۔ حالانکہ جب عدالت میں کرپشن کے خلاف فوجی وردی کیساتھ کالا کوٹ پہن کر نوازشریف گئے تھے تو یہ ٹھیک تھا۔ یوسف رضاگیلانی اور زرداری کی جمہوریت پسندنہیں تھی لیکن اپنی کرپشن پاک لگتی تھی۔
کافی عرصہ خاموشی توڑنے کے بعد اس آرمی چیف کو موردِ الزام ٹھہرانے کی یہ وجہ معلوم ہے کہ کرپشن پر ڈیل نہیں ملی ہے اور اب طوفان برپا کردیا ہے۔ پنجاب پر ہمیشہ انگلی اُٹھتی تھی کہ ٹاؤٹ کا کردار ادا کیا جارہاہے لیکن اگر مریم نواز اس داغ کے دھونے کا نام لیکر اپنے باپ کی بڑائی بیان نہ کریں تو امامہ انقلاب کہلانے کی مستحق ہوگی۔ نوازشریف خود تو بیمارہیں لیکن اسکے فرزندوں کو تو ایسی بیماریوں کا سامنا نہیں؟ لیکن ان کو بھی بٹھارکھا ہے۔صحافت نے جانبداری کاریکارڈ توڑ کر وکالت کابازار گرم کررکھا ہے لیکن سوشل میڈیا کے دور میں جھوٹ کی دال گلانہ کسی کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔ اب اسلامی انقلاب ہی واحد راستہ ہے لیکن اسلامی انقلاب معاشرے اور گھر کے نظام سے شروع ہوکر عالمی سطح تک حالات بدلنے کی صلاحیت کا نام ہے اور ہمارے خیال کے مطابق وہ صلاحیت سید عتیق الرحمن گیلانی میں موجود ہے،اس لئے نہیں کہ شخصیت کا کمال ہے بلکہ اسلئے کہ اسلام میں یہ کمال موجود ہے۔
مولانا فضل الرحمن کے دائیں طرف مریم نواز بائیں طرف بلاول بھٹو زرداری اور آگے اویس نورانی اور پیچھے محمود اچکزئی ہیں۔ حافظ حسین احمد نے کہاہے کہ مولانا عبدالغفورحیدری نے بریگڈئیر سے کہا تھا کہ مجھے وزیراعلیٰ بنا دیں۔ صادق سنجرانی کی طرح حیدری نے اسپیکر بننے کی کوشش بھی فرمائی تھی۔امام انقلاب اقتدار کی دہلیز پر اپنا حصہ بقدر جثہ نہیں مانگتا ہے۔ جن بیساکھیوں کیخلاف انقلاب لانا ہے ، انکے سہارے انقلاب نہیںلاسکتے۔ البتہ ہلچل مچاؤ۔ اجمل ملک: ایڈیٹرنوشتۂ دیوار

گستاخانہ کارٹونوں کے معاملے پر ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنا مؤقف بدلا اور علامہ خادم حسین رضوی نے چندوں کا حق ادا نہیں کیا

فرانس نے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرکے گالی دینے کو آزادیٔ رائے کانام دیا ہے جو بہت قابلِ مذمت ہے ۔ جب بھی کسی مسلمان کو موقع ملے گا تو کاروائی کرکے دکھائے گا۔البتہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو علامہ خادم حسین رضوی اسلئے گالیاں دیتا ہے کہ پہلے توہینِ رسالت پر پاکستان میں ایک مؤقف تھا اور اب کینیڈا کے شہری بننے کے بعد اپنا مؤقف یکسر بدل دیا ہے۔ اس سے تو اچھا کینیڈا کا حکمران ہے جس نے کسی طبقے کے جذبات کو آزادیٔ رائے نہیں قرار دیا ہے۔ جب آسیہ کو حکومت نے ملک سے باہر بھیج دیا تو ریاست کے خوف سے علامہ خادم حسین رضوی نے بھی چندوں کا حق ادا نہیں کیا ۔مولانا سمیع الحق کو قتل کیا گیالیکن علماء کا ردِ عمل نہیں آیا۔فرانس کے خلاف بھی توقع سے بہت کم ردِ عمل آیابلکہ فرانس کے خلاف احتجاج کرنیوالے بینک منیجر کو توہین رسالت کے بہتان پر شہید کیا گیا تو لوگوں کے جمِ غفیر نے تھانے پر قبضہ کرلیا۔ چھلانگیںلگاتے ہوئے مجاہد گارڈ کو عقیدت سے ایک استقبال کرنے والے شخص نے ہاتھ لگایا تو گارڈ زمین پر خوف کے مارے گرنے لگا تھا۔ جب اسلام کا نزول ہورہاتھا تو یہودونصاریٰ کے مذہبی عناصر اتنے شدت پسند تھے کہ اہل کتاب کا ایک طبقہ حضرت عیسیٰ کو زنا کی اولاد اور دوسرا طبقہ آپ کی ماں کو خدا کی بیوی کہتاتھا۔ اسلام نے دونوں طرح کے اعقتادات رکھنے والی خواتین سے نکاح کی اجازت دی اور مسلمانوں کی اولاد کو یہ تعلیم دی کہ ماؤں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ اس سے بڑھ کر تحمل وبردباری کی تعلیم یہ تھی کہ اماں عائشہ پر بہتان لگانے والوں کو وہی سزا دی جو قیامت تک کسی ادنیٰ عورت پر بہتان لگانے کی ہے۔ اگر دنیا کو اسلام کی عظمت کا پتہ چل جائے تو فرانس سمیت پوری دنیا میں رحمة للعالمینۖ کو مسلمانوں سے زیادہ احترام کی نگاہوں سے دیکھا جائیگا۔ 20گریڈ کے افسر اور چوکیدار کی عزت برابر نہیں ہے اور قوم کی دولت لوٹنے والے سیاستدانوں کی عزت کھربوں میں ہوتی ہے لیکن کارکن کی عزت کوڑی کی نہیں۔ اسلام نے جو مساوات قائم کی تھی اس کی مثال دنیا کے کسی نظام میں نہیں ہے لیکن اسلام بیان کرنے سے مذہبی لوگ دُم گھسیڑنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ تھوڑی بہت تفصیلات ادارایہ صفحہ نمبر2پر دیکھ لیجئے گا۔

یہ غلط ہے کہ نبیۖ کا حضرت عائشہ سے نکاح ہوا تو 6 سالہ اور رخصتی میں 9سالہ بچی تھیں.

جبری نکاح کا تصور

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

1: حسن بصری و امام نخعی کے نزدیک عورت کا زبردستی سے نکاح کرایا جاسکتا ہے۔کنواری ہو بیوہ یا طلاق شدہ ۔ 2:ابن شبرمہ کے نزدیک عورت کا زبردستی نکاح صحیح نہیں 3: امام شافعی کے نزدیک کنواری کا نکاح زبردستی سے کرایا جاسکتا ہے مگر طلاق شدہ وبیوہ بچی ہویا بالغہ عورت کا نہیں۔ 4: حنفی مسلک میں بچی کا زبردستی سے نکاح کرایا جاسکتا ہے لیکن بالغہ کا نہیں کرایا جاسکتا۔ چار اماموں کا اتفاق ہے کہ کنواری بچی کا زبردستی سے نکاح کرایا جاسکتا ہے۔ (کشف الباری ج ٣ صفحہ٢٤٦:مولانا سلیم اللہ خان(
بچی کا زبردستی سے نکاح کرانے سے بہتر یہ ہے کہ اس کو زندہ زمین میں گاڑ کر دفن کیا جائے۔ پاکستان نے بہت بڑا احسان کردیا ہے کہ بچپن کی شادی پر پابندی لگادی ہے اور جب کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پولیس گرفتار کرلیتی ہے۔ پاکستان کے آئین میں یہ بنیادی بات ہے کہ ” کوئی بھی قانون قرآن وسنت سے متصادم نہ ہوگا”۔
یہ غلط ہے کہ نبیۖ کا حضرت عائشہ سے نکاح ہوا تو 6 سالہ اور رخصتی میں 9سالہ بچی تھیں۔ عن عائشة ان النبیۖ تزوجہا وھی بنت ست سنین وادخلت علیہ وھی بنت تسع و مکثت عندہ تسعًا ”حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ آپۖ سے نکاح ہوا تو 6 سالہ لڑکی تھیں اوررخصتی ہوئی تو9سالہ لڑکی تھیں اور آ پ کیساتھ9سالوں تک رہیں”۔ (بخاری)
6 سالہ اور9سالہ ہو تو بجائے بنتکے طفلة ست سنین6 سالہ بچی ، طفلة تسع سنین 9سالہ بچی کے الفاظ استعمال ہوتے۔ یہ ترجمہ غلط ہے کہ 6 سالہ لڑکی تھی تو نکاح ہوا اور9سالہ لڑکی تھی تو رخصتی ہوئی۔دوسری روایت ہے کہ 9سالہ لڑکی تھی تو جماع ہوا ۔(بخاری )
نکاح سن11نبوی، رخصتی سن 1 ھ کو ہوئی۔ سن 11 نبوی کو اماں عائشہ کی عمر16 سال ہو تو 5سال قبل ازنبوت پیدائش بنتی ہے ۔ حضرت اسمائ کی وفات100سال کی عمر میں73ھ کو ہوئی۔ جو اماں عائشہ سے دس سال بڑی تھیں۔ 100 سے72سال نکالے جائیں تو حضرت اسماء کی عمر ہجرت کے وقت28 سال بنتی ہے اور 13 سال مکی دور کے نکالے جائیں توحضرت اسماء کی بعثت نبوی کے وقت15سال بنتی ہے۔ اس حساب سے اماں عائشہ کی عمر بعثت کے وقت عمر5سال اور11نبوی کوآپ کی عمر ٹھیک 16سال ہی بنتی ہے۔
یتیم لڑکوں کا اللہ نے فرمایا: ” مال انکے حوالہ کرو حتی اذابلغوا النکاح جب نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں” ۔ لڑکی کا نکاح کی عمر کو پہنچنا فطری بات ہے۔6اور9 سالہ بچی ہوتی ہے۔ بچی کا پردہ ہے اورنہ نکاح ۔ بنات کا پردہ اور نکاح ہے۔ مراھقہ کی عمر11، 12، 13سال ہوتی ہے بنات 14، 15سے 20،22 کی لڑکیاں ہیں۔
عربی میں عبدالقادر کو ” یاقادو” کہہ سکتے ہیں۔ کروڑوں کابنگلہ ہوتوخالی 10 کہنے سے 10کروڑاور لاکھوں کی گاڑی ہو تودس سے10 لاکھ مرادہوتے ہیں۔ عربی گنتی 11 سے19 تک احد عشرة، اثنا عشرة… ست عشرة… تسع عشرة کیلئے ست سے مراد 16 اورتسع سے مراد 19ہے۔ اسلئے کہ نکاح کیلئے بچی نہیں لڑکی کا ہونا ضروری ہے۔
چند سال پہلے اخبار ”عوام” جنگ میں خبر شائع ہوئی کہ کینیڈا میں 66سالہ شخص کا نکاح 36سالہ عورت سے ہوا۔ 30سال عمروں میں فرق ہے۔ 20سال معاشقہ چلااورآخرکار دونوں میںرشتہ ہوگیا۔ اگر اماں عائشہ سے متعلق درست معلومات ہوتیں تو گستاخانہ فلم کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا ۔جدید تحقیق کے مطابق بچے میں جنسی خواہش کا مادہ ہوتا ہے جبکہ بچی میں جنسی خواہش بالکل نہیں ہوتی۔
علماء کرام و مفتیان عظام آگے بڑھ کر اعلان کریں کہ جب تحقیق سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عائشہ کی عمر رخصتی کے وقت19برس تھی تو پوری دنیا کو پیغام پہنچادیں کہ نبیۖ کے خلاف کارٹون کی مہم بنیاد ہی غلط ہے۔ جس میں اغیار سے زیادہ ہماری غفلت کا نتیجہ ہے۔جب اغیار نبیۖ کی سیرت کا مطالعہ کرینگے تو گرویدہ بنیں گے۔

مشکواة کیساتھ الاکمال فی اسماء الرجال کی کتاب میں واضح طور لکھا ہے کہ حضرت اسماء کا انتقال 100سال کی عمرمیں 73ھ کو ہوا اور آپ اپنی بہن ام المؤمنین حضرت عائشہ سے 10سال بڑی تھیں۔
ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ مجھے خبر دی یوسف …نے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت عائشہ اُم المؤمنین کے پاس تھا ۔ آپ نے فرمایا کہ جب یہ آیت اتری تھی: بل الساعة موعدھم و الساعة ادھٰی و امر تو اس وقت میں چھوکری تھی اور کھیلا کود اکرتی تھی۔( بخاری)
یہ سورة القمر ہجرت سے 5سال پہلے نازل ہوئی، جس میں شق القمر کا واقعہ ہے۔ اس وقت اماں عائشہ کی عمر 13 سال بنتی ہے۔ جب رسول ۖ نے نکاح کا پیغام بھیجا تو حضرت ابوبکر نے عرض کیا کہ میں پہلے جبیر بن مطعم کو ان کا رشتہ دے چکا ہوں۔ جب حضرت ابوبکر نے مطعم کے سامنے رشتے کی بات رکھی تو اس نے کہا کہ آپ لوگ اپنا دین بدل چکے ہو اسلئے میں اپنے بیٹے کیلئے تمہاری بیٹی نہیں لیتا ہوں۔حضرت ابوبکر بہت قریبی صحابی تھے ،یہ کیسے ممکن تھا کہ سن 5نبوی کو حضرت عائشہ کی پیدائش ہوئی اور 5 نبوی سے 11نبوی تک کے اس انتہائی کٹھن مرحلے میں ایک مشرک سے اپنی چھوٹی بچی کا رشتہ بھی طے کردیا ؟۔
5نبوی تک دارارقم میں چھپ کر تبلیغ ہوتی تھی۔ دار ارقم کے محدود افرادمیں اسماء بنت ابوبکر اور عائشہ بنت ابوبکر شامل تھیں۔ ابوبکر کی چار اولاد کی پیدائش نبوت سے قبل ہوئی ۔(طبقات ابن سعد)
آیت”جن عورتوں کو حیض نہیں آتا ”سے یہ دلیل غلط ہے کہ کم عمر بچیاں مراد ہیں حالانکہ وہ خواتین مراد ہیں، جن کا سلسلہ حیض ختم ہویا بانجھ ہوں۔ اگر کوئی بضد ہوکہ اماں عائشہ کی رخصتی اور جماع کا عمل 9سالہ عمر میں ہوا۔ عرب جتنا گرم پاکستان، بھارت ہیں تو کیاکوئی شریف انسان اپنی بچی کواس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اس عمر میں نکاح کیلئے پیش کریگا؟۔
کیا عورت کے نکاح میں شریعت سازی کاحق تھا؟۔ بچی کا نکاح ہوتوپھر بلوغت کے بعد نکاح برقرار رکھنے یا توڑنے کے حق پر اختلاف ہوتو یہ شریعت ہوسکتی ہے؟۔ جس غلط مفروضے پر جعلی شریعت کی بنیاد رکھی گئی ہے اس کو ڈھانے کیلئے کسی مسیحا کے انتظار کا حکم ہے؟۔ مفتی اعظم پاکستان برادر شیخ الاسلام مفتی محمد رفیع عثمانی کہتے ہیں کہ ” ہم علماء کو معلوم نہیں ہے کہ کس کا مسلک حق اور کس کا غلط ہے۔ جب امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہوگا تو اس کی ہر بات حق ہوگی اور اس کا مخالف باطل ہوگا”۔ کیا امام مہدی تک بیٹھ کر گمراہی میں رہنا ہے؟۔
نبیۖ نے فرمایا” جسکے پاس بچی(لونڈی) ہو، پھر اس کی بہترین تعلیم کرے، بہترین تربیت کرے۔ پھر اس کو آزاد کرے ، پھر شادی کرے تو اس کیلئے دو اجر ہیں” بخاری۔فائدہ :لونڈی بچی ہو تو جنسی تعلق نہیں تعلیم وتربیت دینی ہوگی اور پہلے بلوغت، آزادی اور پھر شادی کا تصور دیا گیا ہے۔کم عمر بچوں کو جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنانے والوں کا ضمیر کبھی اس بات پر نہیں جاگ سکتاہے کہ نبی پاکۖ کی توہین کاراستہ روکنے کیلئے حدیث کی زبردست تحقیق کو مان لیں۔ ان کا ضمیر جگانے کیلئے بڑی محنت درکار ہے۔

خلافت کامختصر تصور: تحریر سید عتیق الرحمن گیلانی

رسول اللہ ۖ کے بعد تیس سالہ خلافت راشدہ ، پھر امارت، پھر بادشاہت، پھر جبری حکومت پھر طرزِ نبوت کی خلافت کا وہ تصور ہے جس سے آسمان وزمین والے سب خوش ہونگے۔دنیا کی سپر طاقت امریکہ میں جمہوریت کا نتیجہ خانہ جنگی کی نوبت تک پہنچ چکاہے۔ پاکستان میں بھی ن لیگ اور پیپلزپارٹی والے ایکدوسروے کو چوکوں میں گھسیٹنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ پھر عمران خان نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جب سوات میں طالبان کو اپنا موقع مل گیا تھا تو ایک بریلوی پیر کو شہید کرنے کے بعد قبر سے نکالا تھا اور اس کی لاش کو چند دن چوک پرلٹکادیا تھا۔
پشاور کے حالیہ دھماکے میں مدرسے کے مہتمم نے بتایا کہ” داعش کا جلال الدین نامی شخص کسی مدرسے کے مہتمم کا داماد ہے جس نے کئی لوگوں کو ذبح کیا ہے اور یہ تکفیری لوگ ہیں”۔ جماعت اسلامی کے امیر سنیٹرسراج الحق اور MNA مشتاق صاحب مہتمم کی پریس کانفرنس میں دائیں اور بائیں جانب کھڑے تھے لیکن پشتو زبان کا اردو ترجمہ بھی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نہیں پہنچایا۔ یہ خیانت ہے یا خوف کا نتیجہ ہے مگر یہی کام دہشتگردی کے عروج کے دور میں بھی ہوتا رہاہے۔ پیپلزپارٹی ، اے این پی اور مولانا فضل الرحمن دہشت گردوں کی کھل کر مخالفت کرتے تھے اور ن لیگ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی توپوں کا رخ کبھی بھی دہشت گردوں کی طرف نہیں ہوا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے دہشت گردوں کو حدیث کا حوالہ دیکر خراسان کے دجال کا لشکر قرار دیا تھا مگر اس وقت میڈیا دہشت گردوں کی حامی تھی۔ آج بھی مولانا فضل الرحمن نے وہی مؤقف اختیار کیا ہے جو اس نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں جمہوریت کے حق میں اختیار کیا تھا۔ اس وقت مولانا فضل الرحمن پر مدارس نے کفر وگمراہی کے فتوے لگائے تھے اور آج مولانا کے حق میں دیوبندی مدارس کی اکثریت کھڑی نظر آرہی ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے PDMکے سربراہ کی حیثیت سے مدارس کے ایک اصلاحی بیان میں فرمایا ِکہ ”جب مفتی محمود ہندوستان میں صد سالہ جشن دیوبند کانفرنس میں گئے تو اتنا بتایا کہ آزادی سے دوسال پہلے ہندوستان گیا تھا اور اسکے بعد پہلی مرتبہ بھارت جارہاہوں۔ پھر بعد میں ایک تحریر پڑھی جس میں لکھا تھا کہ ہندوستان میں علماء کا ایک اجلاس1945ء کو ہوا تھا جس میں مولانا زکریا بھی تھے اور مفتی محمود کا نام بھی اس میں تھا۔ علماء نے ہندوستان کی سرزمین پھر امارت شریعہ کے بارے میں شرعی رائے لینی تھی۔ مفتی محمود نے اس وقت اپنی رائے دی تھی کہ امارت شریعہ کیلئے قوت نافذہ کی حیثیت ایک رکن کی ہے اور اس کے بغیر شرعی امارت قائم نہیں ہوسکتی ہے”۔
مفتی محمود نے اپنی رائے سے علماء کے جم غفیر کو رہنمائی فراہم کی تھی۔ امیرشریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کو بھی لقب اسلئے ملا تھا کہ وہ ہندوستان میں حکومتِ الٰہیہ کا قیام چاہتے تھے۔ جب متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت تھی تو بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والی جمہوری حکومت کو اتنا اختیار بھی نہیں دیا گیا کہ اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دے سکے۔ وزیراعلیٰ کے خاندان پر طالبان نے حملہ کیا تو اکرم خان درانی نے میڈیا پر بیان جاری کیا کہ جس نے حملے میں طالبان کا نام لیا تو اس پر ہتک عزت کا دعویٰ کروں گا۔ جب مجھے ٹارگٹ کرنے کیلئے طالبان نے میرا گھر نشانہ بنایا تو جمہوری حکومت کی کوئی رٹ نہ تھی ،ہماری حفاظت کیلئے پولیس نہیں فوج کھڑی تھی۔ طالبان بارودی سرنگ اور بم دفناکر گئے تھے تو حکومت نے بم ڈسپوزل اسکواڈ تک دینے سے انکار کردیا تھا۔ پرائیوٹ ادارے سے خدمت لینی پڑی تھی۔ ایسے میں امیرطالبان کے پاس قوت نافذہ تھی لیکن جمہوری حکومت اور پاکستانی ریاست کے پاس نہیں تھی۔ عوام کے تیور طالبان کیخلاف اس واقعہ کے بعد بدل چکے تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے دہشت گردوں کو خراسان کے دجال کا لشکر قرار دیا اور مولانا عطاء الرحمن نے بیان دیا کہ سیکورٹی فورس کی صرف حکومتی وریاستی ذمہ داری نہیں بلکہ شرعی فریضہ بھی ہے کہ دہشت گردوں کو مار دیں۔ جس کے بھی ڈاکٹر شاہد مسعود کے کالم طالبان کے حق میں اور مولانا فضل الرحمن کے خلاف چھپ گئے ۔ پھر پیپلزپارٹی اورANP کے دور میں جب طالبان کے مارگلہ کے پہاڑ تک پہنچنے کی خبر مولانا فضل الرحمن نے دی تو ن لیگ کے رہنما مولانا فضل الرحمن کو امریکہ کا ایجنٹ قرار دینے لگے۔ طالبان نے عمران خان اور نوازشریف کو اپنی طرف سے نمائندگی کرنے کیلئے نامزد کیا تھا۔ پنجاب میں کاروائیاں نہ کرنیکی شہباز شریف کا کھلا بیان تھا۔
مفتی محمود کے انتقال کے بعد جب مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علماء اسلام کی قیادت سنبھالی تو ایک بیانیہ یہ تھا کہ عقیدے کو بدلنے کیلئے دعوت کی ضرورت ہے اور نظام کو بدلنے کیلئے بندوق اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ انبیاء کی سنت ہے مگر علماء جہالت کا مظاہرہ کرکے بالکل الٹ چلتے ہیں، دوسرا بیانیہ یہ تھا کہ جمعیت علماء جماعت ہے اور احادیث میں اس جماعت سے ہٹنے کی وعیدوں پر اپنے مذہبی اعتقادات کا زور دیتے تھے۔ جب 1945ء میں ہندکے علماء نے امارت شریعہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا تومفتی محمود نے رکاوٹ ڈال دی، جب مولانا فضل الرحمن نے اپنی جماعت پر امارت شریعہ کا اطلاق کیا اور الیکشن کی سیاست چھوڑنے کا فیصلہ کردیا تو پاک فوج نے ڈرا دھمکا کر فیصلے کے اعلان سے روک دیا تھا۔ پھر جب ہم نے ایک کتاب ” اسلام اور اقتدار” میں مولانا فضل الرحمن کو سمجھا دیا تو اپنی جماعت کو امارت شریعہ کا مؤقف چھوڑ دیا۔
وزیرستان کو اللہ نے اتنی حیثیت دیدی کہ پاکستان کی ریاست سے لیکر امریکہ تک اس کی دھاک دنیا میں بیٹھ گئی لیکن اس طاقت کا درست استعمال کرنے کے بجائے اپنی قوم کو تباہ وبرباد کرنا شروع کردیا۔ لیڈی ڈاکٹر تک کو اغواء برائے تاوان میں لے گئے۔ محسود قوم کی ناک کاٹ دی ۔ اب بھی وہ بے غیرت ہیں جو ان نکمے ، بدقماش و بدکردار طالبان پر اپنی فیک آئی ڈی سے فیس بک پر فخر کرتے ہیں لیکن اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ پنجاب میں پختون کے خلاف نفرت کی فضاء نہیں ہے اور اگر ایک دفعہ ہوا دی گئی تو پختونوں کیساتھ تاریخ میں مہاجر قومی موومنٹ کے مظالم بھول جائیںگے اسلئے کہ کراچی میں بہت علاقوں میں وہ اپنا ہولڈ رکھتے تھے۔ پنجاب میں پختون کا سارا کاروباری طبقہ ہے۔ پختونوں نے طالبان بن کر ناکامی کا ثبوت دیا لیکن اگر پنجاب کے لوگ طالبان بن گئے تو پھر انکا راستہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔ سرنڈرطالبان سے بھی وزیرستان کے نام نہاد قبائلی ملکان کی حیثیت کمزور تھی جن پر حکومت اور ریاست کا انحصار ہوتا تھا۔ سرنڈر طالبان نے زبردستی سے پاکستان کا قومی ترانہ گایا ہے اسلئے اسلام کے وفادار نہیں ہوسکتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے۔
اگر داعش اور طالبان نے مل کر آپس میں لڑنے کے بجائے عوام کی فلاح وبہبود اور اسلام کا درست تصور سمجھ کر اس پر عمل کرنا شروع کیا تو پاکستان کی ریاست اور عوام بھی ان کو جمہوری بنیادوں پر پذیرائی بخشیںگے۔ خود کش حملے دشمن کو کمزور کرسکتے ہیں لیکن عوام کے دلوں میں جگہ نہیں بنا سکتے ہیں۔ وزیرستان کی عوام میں آج بھی قوت نافذہ ہے اور جب وہ ہیروئن ومنشیات کو روک سکتے ہیں جس پر دنیا کو قابو کرنا مشکل ہے تو اسلام کی فطری تعلیم بھی نافذ کرسکتے ہیں۔ جب کس کے دل ودماغ اوروہم وگمان میں خلافت کا تصور نہیں تھا تو ہم نے وزیرستان سے اس کو شرعی فریضہ سمجھ کر اُٹھانے کی کوشش کی تھی اور تمام مکاتبِ فکر کے علماء ہماری حمایت کررہے تھے۔ دیوبندی مکتبۂ فکر ٹانک کے تمام اکابر علماء نے کھلی مجالس، جلسہ ٔعام میں ہماری حمایت کی تھی۔ اخبارات اور کتابوں میں تائیدات کی تفصیل بھی چھپ گئی تھی لیکن مولانا فضل الرحمن اور اسکے بھائیوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں علماء اور ریاستی مشنری کو استعمال کیا اور ہم پر وہ فتویٰ لگوایا جس سے ہم نے ان کو بچانے میں مدد کی تھی پھر جب ناکامی ہوئی تو گھر پر آکر جھوٹ بولا کہ ”ہم نے ہمیشہ حمایت کی ہے”۔ اسکے بعد بھی جمعیت کے باغی مولانا عبدالرؤف کی مزاحمت سے ہم نے ہی بچایا تھا اور آج ایسے وقت میں ایک دفعہ ریاست ، حکومت اور اس اپوزیشن کو خبردار کرتا ہوںکہ اسلام خیرخواہی کانام ہے اگر یہ وقت ہاتھ سے نکل جائیگاتوپھر رونا بھی کام نہیں آئیگا۔ امن کی فضاء بہت کچھ کہنے کی رعایت کیلئے سازگارہے۔
اسلام کی درست تعبیر پیش ہوجائے تو ملحدین اسلام کو بطورِ نظام قبول کرنے میں دیر نہیں لگائیںگے۔ پوری دنیا اس خلافت کیلئے راضی ہوجائے گی جسے سب خوشی کی بنیاد پر قبول کرینگے۔ ریاست، حکومت اور اپوزیشن بہت زیادہ تضادات کا شکار ہے اور اس سے فساد کے علاوہ کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔سید عتیق الرحمن گیلانی