اگست 2022 - Page 2 of 2 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

ہمارا مذہبی اور ریاستی نظام کوئی تیتر ہے اور نہ بٹیر بلکہ سراسر ہے اس میں ہیر پھیر العیاذ باللہ۔

ہمارا مذہبی اور ریاستی نظام کوئی تیتر ہے اور نہ بٹیر بلکہ سراسر ہے اس میں ہیر پھیر العیاذ باللہ۔

پشاور عظمت قرآن کانفرنس میں اہل تشیع کے علامہ عابد حسین شاکری کی دعوت پر آئے ہوئے دیوبندی ، بریلوی،اہلحدیث،جماعت المسلمین کے نمائندے ایک بار پھر آئیں!

قرآن کی عظمت اور اس کے تحفظ اور احکام پر چند نشستوں میں بات کریں،ہمارے ہاں ہر برائی کو ا.مریکہ اور خفیہ ا.یجنسیوں کی ٹوپی پہنائی جاتی ہے مگر مسئلہ ہمارے اندرہی ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مذہب ایسی بلا ہے جس کی وجہ سے قا.دیانی، یہود.ی، عیسائی،ہندو، بدھ مت،دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، شیعہ، جماعت المسلمین، پرویزی اور اسلام کے مقابلے میں انواع واقسام کے مذاہب، فرقے ،مسالک، مکاتبِ فکر اور مذہبی شخصیات کے گرد تقلیدی افراد پیدا ہوئے جن میں مولانا مودودی ، ڈاکٹرا سرار،ڈاکٹر ذاکر نائیک، جاویداحمد غامدی، علی مرزا جہلمی، فرحت ہاشمی وغیرہ لاتعدادشامل ہیں۔فرقہ پرستی اور شخصیت پرستی کے بت نظر آئیں گے۔

جس طرح اسلام کے مقابلے میں مستقل ادیان یہودیت، نصرانیت اور ہندو مت ہیں اسی طرح اسلام کے اندر مستقل فرقوں اور مسالک نے مذاہب کی شکل اختیار کرلی ہے۔ سنی اور شیعہ فرقوں میں بڑی تعداد کے اندر ایسے لوگ ہیں جو دوسروں سے زیادہ آپس میں ایک دوسرے سے نفرت رکھتے ہیںاور پھراغیار اور دشمنانِ اسلام اس نفرت کا بھرپور فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ اگر دُشمن ہمیں نہیں لڑائے تب بھی ہمارے اندر کے تضادات اور گمراہانہ عقائد وماحولیات لڑانے کیلئے کافی ہیں اس سے نکلنے کیلئے اُمت مسلمہ امام مہدی کا انتظار کررہی ہے۔ دوسری طرف مسلم ممالک کاسیاسی و انتظامی ڈھانچہ خدشات کے سیلاب کے سامنے ریت کی دیوار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ہے۔ ا.فغا.نستان، عراق، لیبیا،شام اور یمن کی تباہ حالی کے بعد پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑانظر آرہاہے۔ ایک مضبوط فوج اور ایٹمی قوت نے امریکہ ونیٹو کی افواج کے مقابلے میں افغا.ن طا.لبان کی طرح مقابلے کرنے کے بجائے سرنڈر بننے کو ترجیح دیتے ہوئے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگادیا۔ امریکہ کے ڈھائی ہزار فوجی و سول لوگ اس جنگ میں لقمۂ اجل بن گئے ۔1لاکھ سے زائد پاکستانی فوج اورعوام کو قربانی دینی پڑی۔ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کیلئے شرائط بھی ہمارے منہ پر کالک ملنے کیلئے کافی ہیں لیکن ہم کریڈٹ لیتے ہوئے بھی ہرگز نہیں شرماتے۔

ہمارے مذہبی ، ریاستی ، سیاسی ،صحافتی اور سماجی حالات بہت خراب ہیں لیکن ہم نے ڈھیٹ پن کو اپنی پیشہ ورانہ خدمات کا نام دے رکھا ہے۔ اسلام کے نام پر پاکستان کو ہندوستان سے جدا ہوا، پھر دولخت ہوگیا۔ بنگلہ دیش نے آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنی حالت بہتر بنادی۔ بلوچستان وسندھ، کراچی کے مہاجر اور پشتون قوم بھی باغیانہ روش پر قائم ہیں۔ آج الطاف حسین پر پابندی ہٹ جائے تو کراچی ، حیدرآباد اور سندھ کے شہری علاقوں سے بڑی تعداد میں اتنے لوگ امنڈ آئیںگے کہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب نظر آئیگا۔ کینیڈا سے لائی گئی ایک بلوچ خاتون کی لاش سے بھی ہماری ریاست خوفزدہ تھی، میڈیا پر تشہیر نہ ہونے کے باوجود بھی جگہ جگہ استقبال کرنے والوں سے منہ چھپائے اس کو دفن کیا گیا۔ بھٹو اور اکبر بگٹی کی لاش سے خطرات تھے۔ علی وزیر کی رہائی سے خوف ہے ۔ خڑ کمر کے واقعہ میں جتنے مجرم ریاستی اہلکار تھے اتنے ہی مجرم موقع سے فرار ہونے والے محسن داوڑ اور علی وزیر تھے جن کی پارٹیاں اب الگ الگ ہیں۔PTMنے قوم پرستوں سے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا تو الیکشن لڑتے ہی علی وزیر اور محسن داوڑ کو خلاف ورزی پر الگ کرنا تھا۔

تحریک لبیک اور طا.لبان سے ماورائے آئین بات ہو تو قوم پرستوں کا گلہ بنتا ہے۔MQM،TTPاور لیاری امن کمیٹی کو ختم کرنے کیلئے جو ہتھکنڈے استعمال ہوئے وہ ریاست کا نہتے یرغمال عوام پر احسان تھا لیکن شاعرکہتاہے کہ

گھر کی اک دیوار سے مجھ کو خطرہ ہے
اندر کے کردار سے مجھ کو خطرہ ہے
گھر محفوظ ہے لیکن میں محفوط نہیں
گھر کے پہریدار سے مجھ کو خطرہ ہے
میں ٹیپو سلطان ہوں عہدِ حاضر کا
اپنے ہی سالار سے مجھ کو خطرہ ہے
سوچ کو آنکھیں دینے کا میں مجرم ہوں
ایک اندھی سرکار سے مجھ کو خطرہ ہے
دل کی بات کہوں تو سب مجھ کو سمجھاتے ہیں
میرے ان افکار سے مجھ کو خطرہ ہے

سورہ نور سے طاغوتی نظام کا خاتمہ ہوگا۔ عتیق گیلانی کا ”عظمت قرآن کانفرنس” جامعہ شہید پشاور سے خطاب۔

سورہ نور سے طاغوتی نظام کا خاتمہ ہوگا۔ عتیق گیلانی کا ”عظمت قرآن کانفرنس” جامعہ شہید پشاور سے خطاب۔

جب حضرت اماںعائشہ پر بہتان عظیم لگا تو مسلمانوں کا وہ ردِ عمل نہیں تھا جو آج عمر پر عالم اسلام میں اٹھایا جارہاہے۔بہتان زیادہ بڑا مسئلہ تھا

ام المؤمنین اور عام جھاڑو کش عورت پر بہتان کی سزا ایک تھی جس کی وجہ سے پہلے بھی طبقاتی طاغوتی نظام کا خاتمہ ہواتھااور آج بھی ہوسکتاہے

سید عتیق الرحمن گیلانی نے عظمت قرآن و حج کانفرنس ، مدرسہ جامعہ الشہید سید عارف حسین الحسینی پشاور میں خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ جو مین مسائل ہیں ان کی طرف ہمارے جو بڑے اکابر بیٹھے ہیں ان کی توجہ مبذول کراؤں کہ ہمارے مسائل کیا ہیں؟۔ علامہ عابد حسین شاکری نے تحریف قرآن کے حوالے سے گفتگو فرمائی ہے عام طور پر لوگ اس کو بہت ہلکا لیتے ہیں۔ جب عوام کا اجتماع ہوتا ہے تو عوام کے اندر کہتے ہیں کہ زیر زبر اور پیش کی بھی تحریف نہیں ہوئی۔ لیکن جب مدارس کے اندر پڑھاتے ہیں۔ میں اپنے مکتبہ فکر کی بات کروں گا۔ اگرچہ میرا کوئی خاص مکتب نہیں۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان محدث العصر کہلاتے تھے۔ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم تھے ان کی بخاری کی شرح ہے کشف الباری ۔جسکے اندر بخاری کی ایک روایت ہے حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ رسول اللہ ۖ نے دو گتوں کے درمیان دو جلدوں کے درمیان ہمارے پاس جو قرآن چھوڑا ہے اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں چھوڑا ہے۔ اب یہ بخاری کی حدیث ہے اور مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے کشف الباری کے اندر نقل کی ہے۔ اور اس کی وضاحت اور تشریح میں یہ لکھا ہے کہ امام بخاری نے یہ روایت کیوں نقل کی ہے؟۔ یہ اسلئے نقل کی ہے کہ چونکہ اہل تشیع تحریف قرآن کے قائل ہیں۔ تاکہ اس روایت سے ثابت کیا جاسکے کہ علی بھی تحریف قرآن کے قائل نہیں تھے۔ ابن عباس بھی نہیں تھے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ حضرت عثمان جب قرآن جمع کررہے تھے تو حضرت عبد اللہ ابن مسعود ناراض تھے کہ مجھے جمع قرآن میں شریک نہیں کیا۔ وہ عبد اللہ ابن مسعود جس کے بارے میں رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اگر قرآن سیکھنا ہو تو عبد اللہ ابن مسعود سے سیکھو۔ ہمارے جو بڑے بڑے مفسرین ہیں مولانا مودودی ، علامہ شبیر احمد عثمانی ، علامہ غلام رسول سعیدی، انہوں نے اپنی اپنی تفاسیر کے اندر معوذتین کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود معوذتین کی قرآنیت کے قائل نہیں تھے نماز میں بھی پڑھنا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ پھر دلیل دی ہے کہ چونکہ اس وقت اجماع نہیں تھا اسلئے وہ کا.فر بھی نہیں تھے۔ آج اجماع ہوچکا ہے اگر آج کوئی انکار کرے گا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ تو اس کا مطلب کیا ہے کہ اجماع کو ہم نے قرآن کے اوپر مقدم کردیا ہے۔ یہ جو میں بات کررہا ہوں یہ ایسے ہی نہیں کررہا۔ اس کیلئے میں نے بڑی تحریک چلائی ہے ماشاء اللہ بڑا کام کیا ہے اس کیلئے۔ اور بڑے بڑے لوگوں کیساتھ اس کو ڈسکس کیا ہے لیکن وہ اندرون خانہ اس کو غائب کردیتے ہیں۔

آج ایک مسئلہ ہے ایک ہندو خاتون نے کسی ٹاک شو کے اندر غصے ہوکر کہا کہ میرا منہ نہ کھلواؤ۔6سال کی عمر میں نکاح اور9سال کی عمر میں رخصتی۔ جس پر عالم اسلام میں ایک کہرام برپاہے۔ لیکن کیا یہ کوئی ایسی راز کی بات ہے کہ جس سے ہندو عورت نے پردہ اٹھادیا ہے؟۔ یہ مسلمانوں کے اندر عام بات ہے اور اگرچہ بات بھی بالکل غلط ہے اسلئے کہ حضرت عائشہ کا نکاح16سال کی عمر میں اور رخصتی19سال کی عمر میں ہوئی ۔ بعثت سے5سال قبل پیدا ہوئیں،5سال دارارقم کی خفیہ تبلیغ میں موجود تھیں۔11نبوی میں آپ کی عمر16سال تھی۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ11نبوی میں آپ کی عمرچھ سال تھی تو5نبوی سے11نبوی تک آپ کی عمر چھ سال بنتی ہے اور اس دوران یہ کیسے ممکن تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق نے اپنی بیٹی ایک مشرک دشمن کو دی تھی؟۔ حالانکہ حضرت ابوبکر صف اول میں نبیۖ کے رائٹ ہینڈ تھے۔ اس کٹھن مرحلے میں دشمن کس طرح اتنی چھوٹی عمر میں حضرت ابوبکر کی بیٹی سے رشتہ کرسکتا تھا؟۔اگر ہم یہ مان لیں کہ اس وقت کے دستور کے مطابق باہمی رضامندی سے نکاح کا معاملہ اس عمر میں ہوا تھا تو پھر بھی اس بات پر کہرام مچانا زیادہ مناسب ہے جو سب کو معلوم ہے لیکن جب حضرت عائشہ صدیقہ پر بہتان عظیم لگایا گیا تو اس وقت اتنا کہرام مچایا گیا تھا ، جو مچایا جارہاہے؟۔ میں یہ پوچھتا ہوں کہ نکاح زیادہ بڑی بات ہے یا حضرت عائشہ پر بہتان عظیم کا مسئلہ بڑا تھا؟۔

اس بات کو سمجھنا ہوگاکہ اسلام سے پہلے آزادی اور غلامی کا تصور تھا۔ اللہ نے طبقاتی نظام کو ختم کرکے حضرت عائشہ پر بہتان لگانے والوں کیلئے وہی سزا دینے کا حکم نازل کیا جو کسی عام جھاڑو کش عورت پر بہتان لگانے کا ہو۔ مساوات کے نظام سے دنیامتاثر ہوئی تومسلمانوں نے خلافت راشدہ ، بنوامیہ و بنوعباس کے ادوار امارت اور سلطنت عثمانیہ کی بادشاہت کے دور میں فتوحات حاصل کیں۔ دنیا میں اسلامی سلطنت کی توسیع کا معاملہ جاری رہاہے۔ پھر جب انگریز نے یہاں قبضہ کیا تو وہ پھر دورِ غلامی اور طبقاتی تقسیم کو رواج دے گئے۔ جرنیل، جج اور بیوروکریٹ کے بڑے عہدے انگریز کے پاس ہوتے تھے اور کلرک ،چوکیدار، چپڑاسی اور نچلے درجے کی ملازمت غلام عوام کے پاس ہوتی تھی۔ جج، جرنیل اور سول بیوروکریٹ افسروں کی عزت ہوتی ہے اور غلاموں کی کوئی عزت نہیں تھی۔ آج بھی انگریز کا طاغوتی نظام ہمارے ہاں موجود ہے اور اس طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے کیلئے حضرت عائشہ پر بہتان عظیم کا واقعہ قرآن اور سنت میں موجود ہے اور سورۂ نور کی روشنی سے آج بھی ہم اس طبقاتی نظام کو ختم کرکے دنیاکو غلامی سے نجات دلاسکتے ہیں۔

علامہ عابد حسین شاکری نے کہا کہ زکوٰة کا منکر کافر اور زکوٰة نہ دینے والوں سے جہاد ہے لیکن میں وضاحت کرتا ہوں کہ لا اکراہ فی الدین (دین میں زبردستی نہیں ہے) ایک شخص سے نبیۖ نے دعا کی درخواست کی کہ اس کو مال ملے اور پھر اس کو بہت سارا مال مل گیا لیکن اس نے زکوٰة دینے سے انکار کردیا۔ نبیۖ نے اس کے خلاف قتا.ل نہیں کیا۔ نماز، حج اور روزہ وغیرہ کسی چیز میں زبردستی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نبیۖ کی رہنمائی فرمائی۔ غزوہ بدر میں دشمنوں کو معاف کردیا تو اللہ نے فرمایا کہ” ان کا خون کیوں نہیں بہایا؟۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے”۔ پھر جب غزوہ احد میں شدید زخم لگے تو انتقام کا پروگرام بن گیا۔ اللہ نے منع فرمایا کہ ” کسی قوم کے انتقام کا جذبہ اس حد تک نہ لے جائے کہ تم اعتدال سے ہٹ جاؤ”۔ جب ایک نابینا کی آمد پر پیشانی کے بل نمودار ہوئے تو اللہ نے فرمایا عبس وتولیٰ ان جاء ہ الاعمیٰ ” چیں بہ جبیں ہوا ایک شخص کہ اسکے پاس نابینا آیا”۔ قرآن نے لمحہ بہ لمحہ نبیۖ کی رہنمائی فرمائی تھی۔

قرآن کے ذریعے سورۂ نور کی ان آیات کے ذریعے ہم طاغوتی نظام سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ وآخر دعوٰنا ان الحمد للہ رب العالمین۔

تبصرہ نوشتۂ دیوار ہونا یہ چاہیے تھا کہ عظمت قرآن کے منتظم اور تمام مہمانان گرامی اس تقریر پر خوش آمدید کرتے اور سورۂ نور کی روشنی میں طاغوتی نظام کے خلاف راستہ ہموار کرنے کا عہد کرتے لیکن بعض لوگوں کے چہروں پر ہوائیاں اُڑتی دیکھی گئیں۔ درویش مسجد کے عالم دین نے کہا کہ ” تحریف قرآن کے حوالے کسی کی تحقیق کا ذکرکرنا مناسب نہیں تھا” لیکن یہ تحقیق کی بات نہیں ہے بلکہ اس بات کا کھلا اعتراف ہے کہ صحیح بخاری میں جو ایک ہی روایت قرآن کے محفوظ ہونے کے حوالے سے مل رہی ہے اس کا بھی انکار کرکے دوسرے کھاتے میں اس کو ڈالا جائے۔ یہ انفرادی مسئلہ بھی نہیں ہے بلکہ درسِ نظامی میں قرآن کی جس طرح کی تعریف پڑھائی جاتی ہے تو اس میں کھلم کھلا تحریف کا بھی عقیدہ پڑھایا جارہاہے۔ امام شافعی کے نزدیک قرآن کی کوئی ایسی آیت معتبر نہیں ہے جو خبر واحد یا مشہور ہو کیونکہ قرآن سے باہر کی آیت پر ایمان لانا کفر ہے۔ ان کے نزدیک بسم اللہ میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے۔ وہ جہری نمازوں میںجہری بسم اللہ بھی پڑھتے تھے ، جس کی وجہ سے ان پر رافضی ہونے کا فتویٰ بھی لگایا گیا تھا۔ امام شافعی کے دور میں حکمرانوں کا رویہ تبدیل ہوا تھا لیکن امام ابوحنیفہ قاضی القضاة (چیف جسٹس)کاعہدہ قبول نہ کرنے کی پاداش میں جیل میں بند کرکے شہید کئے گئے تھے۔ مسلک حنفی میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ ”خبر واحد کی بھی آیت قرآن کے حکم میں ہے”۔ جب قرآن سے باہر کی آیات کو قرآن مانا جائے تو پھر قرآن کی حفاظت کا عقیدہ نہیں رہتا۔ جب بسم اللہ کو مشکوک کہا جائے تو ذٰلک الکتٰب لاریب فیہ ” یہ وہ کتا ب ہے کہ جس میں کوئی شبہ نہیں ”۔ کا عقیدہ نہیں رہتا ہے اسلئے قرآن کی غلط تعریف اصولِ فقہ میں پڑھانا چھوڑ دیا جائے۔ قرآن کی بہت ساری آیات سے المکتوب فی المصاحف سے لکھاہوا قرآن ثابت ہوتا ہے۔ پہلی وحی میں تعلیم بالقلم کا ذکر ہے۔ والقلم ومایسطرون ” قسم ہے قلم کی اور جو سطروں میں موجود ہے اس کی قسم ”سے بھی ثابت ہوتاہے کہ قلم سے سطروں میں لکھا ہواقرآن اللہ کا کلام ہے۔ اصولِ فقہ کے گمراہانہ عقائد مدارس والے پڑھتے اور پڑھاتے ہیں مگر سمجھتے اور سمجھاتے نہیں ہیں۔ ورنہ کب کی توبہ کرچکے ہوتے۔

ابن مسعود کے مصحف میں سورۂ فاتحہ اور آخری دو سورتوں کے صفحات پڑھنے پڑھانے کی وجہ سے پھٹ کرضائع ہوگئے اور جس نے کافی عرصہ بعد ابن مسعود کے مصحف کی زیارت کی تو اس نے بتایا کہ اس حالت میں مصحف کو دیکھا ہے اور اس پر کہانی گھڑنے والوں نے اپنا اپنا زوالِ علم وعرفاں دکھادیاتھا۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ابن مسعود سے متعہ کے حق میں ایک حدیث نقل ہے اور قرآن کی آیت پر اس حدیث کی وجہ سے اپنی تفسیر لکھ دی ہے ، جس طرح جلالین میں تفسیری نکات قرآن کے بین السطور میں درج ہیں لیکن بدقسمت لوگوں نے اس کو ابن مسعود کے مصحف کا حصہ بناڈالا۔ حالانکہ اگر متعہ کی آیات میں مقررہ وقت کا اضافہ ہوتا تو پھر احناف کو اپنے مسلک کے مطابق متعہ کا قائل ہونا چاہیے تھا۔ اسلئے کہ خبر واحد کی آیت بھی ان کے نزدیک قابلِ اعتبار بلکہ حدیث سے زیادہ معتبر ہے۔

بریگیڈیئر حامد سعید اختر نے ”میزان عمر عائشہ ” کتاب لکھ کر اُمت کے علماء کا کفارہ ادا کیا۔ مولانا قاضی یونس انور ۔ خطیب جامع مسجد شہداء مال روڈ لاہور۔

بریگیڈیئر حامد سعید اختر نے ”میزان عمر عائشہ ” کتاب لکھ کر اُمت کے علماء کا کفارہ ادا کیا۔ مولانا قاضی یونس انور ۔ خطیب جامع مسجد شہداء مال روڈ لاہور۔

بخاری کی روایت رسول اللہ ۖ کی ناموس، حضرت عائشہ ، حضرت ابوبکر کے گھرانے اور اسلام پر حملہ ہے،جو کھلے حقائق کے بھی منافی ہے

بخاری کی احادیث رفع یدین کو گائے کی دُم اور ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کو باطل قرار دینے کے منکرینِ حدیث کا منہ توڑ جواب بھی نوشتۂ دیوار کے تبصرے میں پیش کیا گیا

قاضی محمد یونس انور خطیب جامع مسجد شہداء مال روڈ لاہورنے ”سیدہ عائشہ کی نکاح کے وقت عمر”کے موضوع پر نماز جمعہ کے خطاب میں کہا کہ نبی کریم ۖ کی زوجیت میں حضرت عائشہ صدیقہ کتنی عمر میں آئیں ؟یہ ہے اصل سوال۔ ہمارے یہاں مشکل یہ ہے کہ جب کوئی بڑا آدمی غلطی کر بیٹھتا ہے یا اس کی طرف سے کوئی منسوب چیز آجاتی ہے تو ہم تقلیدی ذہنیت رکھتے ہوئے اتنا جمود اختیار کرلیتے ہیں کہ اس سے باہر نکل نہیں سکتے۔ بدقسمتی سے حضرت عائشہ صدیقہ کی6سال میں نکاح کرنے والی روایت بخاری اور مسلم میں آگئی اور یہ دونوں ہی درجہ اول کی کتابیں ہیں۔ پوری اُمت کا اس بات پر اجماع ہے کہ بخاری و مسلم دونوں کو صحیحین کہا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ اس میں ایک بات بھی کمزور نہیں لیکن بالکل غلط بات ہے۔ صحیحین کا معنی تغلیباً ہے کہ غالب اکثریت ان روایات کی صحیح ہے لیکن یہ کہ ہر ہر بات ان کی سو فیصد صحیح ہے قرآن کی طرح، بالکل غلط بات ہے یہ۔اللہ تعالیٰ علامہ جلال الدین سیوطی کی قبر پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے انہوں نے کتاب ”تدریب الراوی” حدیث کے اصولوں پر لکھی ہے اس میں لکھا ہے کہ” مسلم شیعت سے بھری پڑی ہے”۔ بخاری میں تلسانی کتاب التوحید کے اندر ایک راوی ہے عباد بن یعقوب الرواجنی جو بڑے محدث ہیں۔ حدیث پڑھانے والے زیادہ جانتے ہیں لیکن میرے جیسا طالب علم بھی تھوڑی سی کوشش کرتا ہے تو کوئی نہ کوئی بات مل جاتی ہے۔ اسکے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں ”صدوق رافضی حدیث فی البخاری” وہ رافضی ہے بخاری میں اس کی روایت موجود ہے۔ فلے بن سلیمان ایک راوی ہے عبد الملک اس کا اصل نام ہے لیکن اس کی کنیت فلے بن سلیمان ہے۔ بخاری کے ہر دوسرے تیسرے صفحے پر موجود ہے نہایت کمزور راوی ہے۔ اس سے بھی قطع نظر پچھلے جمعے عرض کرچکا ہوں اس روایت کا راوی ہے ہشام۔ محدثین جانتے ہیں کہ شروع زمانے میں بڑا معتبر راوی تھا۔ وہ بات کررہا ہوں جو عام آدمی کے ذہن میں آسکے۔ سارے محدثین نے اس سے روایتیں لی ہیں۔ بدقسمتی سے آخیر زمانے میں ان کا حافظہ بہت خراب ہوگیا تھا۔ اور یہ روایت6اور9سال والی اسی زمانے کی ہے۔ ان سے نقل کرنے والے جتنے مدنی شاگرد ہیں کوئی ایک مدینے والا شاگرد اس روایت کو نقل نہیں کرتا۔ جتنے بھی شاگرد اس کو نقل کرنے والے ہیں وہ سب کے سب عراقی ہیں۔ جس آدمی نے اس پر ایک ایک چیز تحقیق کی چونکہ رسول اللہ ۖ کی آبرو، عائشہ صدیقہ کی ناموس کا مسئلہ تھا ۔ دنیائے کفر نے اس روایت کو لے کر بڑا طوفان بد تمیزی کیا ہے۔ مغرب میں جو خاکے شائع ہوئے وہ اسی روایت کی بناء پر ہوئے۔ مثال کے طور پر نقل کفر کفر نہ باشد یہ لفظ کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کہ مسلمانوں کا پیغمبر اتنا ہوس پرست تھا معاذ اللہ معاذ اللہ کہ اپنے ایک مرید کو اقتدار کا لالچ دیکر اسکے ساتھ اقتدار کا وعدہ کرکے کہ میرے بعد آپ نے ہی اقتدار لینا ہے اس کی چھوٹی سی نابالغ6برس کی بچی کو نکاح میں لے لیا۔ میں اور آپ جتنی تاویلیں بھی کریں میرے دوستو! جتنا بھی بچائیں بخاری کی روایت کو ۔ یا بخاری کی روایت کو بچالیں یا رسول اللہ ۖ کی ناموس کو بچالیں۔ بخاری کی روایت کے مجروح ہونے سے ہمارا کفر لازم نہیں آتا۔ لیکن نبی ۖ کی ذات مجروح ہوجائے تو ہمارا ایمان باقی نہیں رہتا۔ یہ راوی کا بیان ہے رسول اللہ ۖ کافرمان نہیںہے۔ اس روایت کے ذریعے سے دشمن نے کئی شکار کئے ۔ نبی کی ذات پر بھی حملہ کیا عائشہ صدیقہ کی شخصیت کو مجروح کیا۔ ابوبکر صدیق کے گھرانے کو مجروح کیا بلکہ پورے اسلام کو مجروح کیا ہے۔ جبکہ حقائق اسکے برعکس ہیں۔ اس کا منفی اثر یہ نکلا کہ جتنے بھی خاکے رسول اللہ ۖ کے خلاف یورپ کے اندر مغربی دنیا میں شائع ہوئے ہیں ان روایات کا سہارہ لیکر انہوں نے رسول اللہ ۖ کی ذات پر کیچڑ اچھالا ہے۔ اس کے بعد پھر ہنگامے ہوئے مظاہرے ہوئے مردہ باد کہیں یا کچھ بھی کہیں لیکن دشمن کو جب ہم ہتھیار خود دیں گے تو اس ہتھیار کو وہ ہمارے خلاف استعمال کرے گا تو کیسے ہم اس کا توڑ کرسکتے ہیں؟۔ قرآن کی آیت کا انکار کرنا کفر ہے کسی راوی کی روایت کا انکار کرنا کفر نہیں ہے۔

اس روایت کو ایک طرف رکھئے اب میں کچھ حقائق آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ پچھلے جمعے میں عرض کرچکا ہوں طبری قدیم مورخ ہے۔ کتابیں میرے پاس ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ کر یہ بات کررہا ہوں۔ اس نے کہا کہ صدیق اکبر نے زمانہ جاہلیت میں یعنی اسلام آنے سے پہلے دو عورتوں کے ساتھ نکاح کیا تھا ایک کا نام قتیلہ، ایک کا اُم رومان تھا۔ قتیلہ سے صدیق اکبر کے دو بچے تھے، بیٹی کا نام اسمائ تھا۔ بیٹے کا نام عبد اللہ تھا۔ دوسری خاتون اُم رومان سے بھی دو بچے ہوئے۔ ایک کانام عبد الرحمن تھا اور بیٹی کا نام عائشہ تھا۔ یہ زمانہ جاہلیت میں پیدا ہوچکے تھے۔ یعنی ابھی اسلام آیا نہیں تھا اس سے پہلے حضرت عائشہ صدیقہ پیدا ہوچکی تھیں۔ اب اسلام جب آیا تو پیغمبر اسلام ۖ کی عمر کتنی تھی؟40سال۔ آپ ۖ نے مکہ معظمہ میں کتنے عرصے زندگی گزاری؟۔13سال۔ اس سے پہلے جو بچی پیدا ہوگئی ہے اس کو2سال کی3سال کی بھی تسلیم کرلیں تب بھی حضرت عائشہ صدیقہ14،15،16سال کی بوقت نکاح ہر صورت میں ثابت ہیں۔ دوسری بات، حضور ۖ نے جب نبوت کا اعلان فرمایا تو آپ پر ایمان لانے والے ابتدائی40آدمی ان میں عائشہ صدیقہ کا نام بھی ہے۔ آپ سیرت ابن ہشام پڑھ کر دیکھ لیں اسکے ترجمے میں لکھا ہوا ہے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ کوئی بچہ جب ایمان لاتا ہے تو ایمانیات کے اصولوں کو سمجھنے کیلئے اس کا ہوش مند ہونا ضروری ہے کہ نہیں؟۔ اور1،2سال کے بچے کے ایمان کا کوئی اعتبار ہوتا ہے؟۔ کم از کم6،7سال کا بچہ ہو تب وہ بات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تو عائشہ صدیقہ اس فہرست میں شامل ہیں جو ابتداء میں رسول اللہ ۖ پر ایمان لانے والے لوگ تھے۔ کم از کم5،6سال کی عائشہ صدیقہ کو تسلیم کریں تو تب ان کے ایمان کا اعتبار ہوتا ہے۔ اگر وہ5سال کو پہنچ چکی تھیں تو ایمان لائیں تو13سالہ مکی زندگی ہے پھر رخصتی کا زمانہ کتنا بنتا ہے؟ میں پچھلے جمعے ایک بات عرض کرچکا ہوں حساب کتاب کے ماہرین فوراً سمجھیں گے اس کو ان کی بڑی ہمشیرہ دوسری ماں سے جن کا نام حضرت اسمائ بنت ابی بکر ہے مشہور صحابیہ ہیں۔ان کا تذکرہ سب نے لکھا ہے۔ حتیٰ کہ صاحب مشکوٰة نے ، مشکوٰة ہماری احادیث کی کتابوں میں سب سے پہلے پڑھائی جاتی ہے اس کے آخر میں راویوں کی ایک لمبی فہرست ہے اس کا نام ہے ”الاکمال فی اسماء الرجال”۔ اس میں حضرت اسمائ کا تذکرہ ہے۔ اس میں لکھا ہے وہ100سال کی عمر میں فوت ہوئیں۔ کب فوت ہوئیں؟۔ سن73ہجری میں ۔ سب نے لکھا ہے یہ مسلمات میں سے ہیں اختلاف کسی کا نہیں۔ یہ اپنی چھوٹی بہن عائشہ سے10سال عمر میں بڑی تھیں۔ ان تینوں چیزوں کو سامنے رکھ کر ذرا حساب لگائیں۔ اس بات کو محدثین نے بھی لکھا ہے مورخین نے بھی لکھا ہے۔ اسماء بنت ابی بکر اپنی چھوٹی بہن سے کتنی بڑی تھیں؟10سال۔ فوت کب ہوئیں؟۔73ہجری میں۔ کتنی عمر میں فوت ہوئیں؟۔100سال کی عمر میں ۔ جو خاتون100سال کی تھیں73ہجری میں وہ یکم ہجری کو کتنے سال کی ہوںگی؟27سال کی۔ اور یکم ہجری کو27سال کی تھیں تو ان سے10سال عمر میں جو چھوٹی ہمشیرہ وہ یکم ہجری کو کتنے سال کی ہوئیں؟۔ کوئی بھی پہلو لے لیں یا کسی صورت کے اندر حضرت عائشہ صدیقہ6سال کی عمر کی نہیں تھیں بوقت نکاح۔ یہ تو میں نے سمپل دو چار باتیں کی ہیں۔ آپ کو دسیوں دلائل اور دئیے جاسکتے ہیں۔بخاری شریف کی پہلی حدیث کتاب الایمان میں نزول وحی والی۔ اس کا عنوان ”سب سے پہلے رسول اللہ ۖپر جو وحی نازل ہوئی اس کی کیفیت ”اس کی راوی حضرت عائشہ ہیں حضرت خدیجة الکبریٰ نہیں۔40کی عمر میں رسول اللہ ۖ پر وحی آئی تو وحی کی کیفیت کون بیان کر رہا ہے؟ ۔حضرت عائشہ بیان کررہی ہیں۔ دوسری زوجہ حتیٰ کہ حضرت خدیجہ بھی بیان نہیں فرمارہیں۔27ویں پارے میں ایک سورت ہے سورہ قمر یہ قرآنی ترتیب کے حساب سے54نمبر کی سورت ہے اورنزولی ترتیب سے37ویں نمبر کی ہے۔ اس کی46ویںنمبر کی آیت ہے والساعة ادھٰی و امر قیامت کا منظر پیش کیا گیا ہے قیامت بڑی خوفناک ہوگی بڑی تلخ حقیقت ہوگی۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں جب یہ سورہ مبارک نازل ہوئی تو ہمارے گھروں کے اندر تلاوت ہوتی تھی اور مجھے اچھی طرح یاد ہے یہ سورہ مبارکہ سن4نبوی میں نازل ہوئی۔ نبوت کا چوتھا سال تھا۔ تو جو بچی یہ کہتی ہیں کہ میں بڑی ہوشیار تھی کھیلتی کودتی تھی اور یہ سورت نازل ہوئی اور اس کی آیت مجھے اچھی طرح یاد ہے تو کب پیدا ہوچکی تھیں؟۔ رسول اللہ ۖ کی ابتدائے نبوت سے پہلے پیدا ہوچکی تھیں۔ جو پہلو بھی لے لیا جائے میرے دوستو! سوائے بخاری اور مسلم کی ان دو روایتوں کو چھوڑ کر جتنے بھی حقائق ہیں وہ سب کے سب ثابت کررہے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ جب رسول اللہ ۖ کے نکاح میں آئیں تو وہ بالغ ہوچکی تھیں۔ یہاں ایک اور بات۔ جب صدیق اکبر کو یہ پیغام پہنچایا اس خاتون نے کہ رسول اللہ ۖ کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کردیں۔ اور انہوں نے یہ فرمایا کہ حضور تو میرے بھائی ہیں۔ جو اشکال ظاہر کیا وہ بھائی ہونے کاکیا۔ اگر عائشہ صدیقہ6سال کی ہوتیں تو یہ کہتے کہ یہ کیونکر ممکن ہے وہ تو بچی ہیں ابھی۔ اگر کسی چھوٹی سی بچی کے ساتھ نکاح کا پیغام دیں تو ہر ماں باپ کہتا ہے کہ وہ تو ابھی بچی ہے۔ صدیق اکبر نے اور حضرت اُم رومان نے یہ اشکال پیدا نہیں کیا کہ وہ ابھی بچی ہے بلکہ یہ کہا کہ حضور ۖ صدیق اکبر کو بھائی قرار دے چکے ہیں۔ اچھا کہا جاتا ہے کہ6سال کی عمر میں حضرت عائشہ صدیقہ کا نکاح حضور ۖ کیساتھ ہوگیا۔ مولویوں کی تاویلیں۔ عرب معاشرہ بڑا گرم تھا۔ گرم معاشرے میں لڑکیاں جلدی جوان ہوجاتی ہیں۔ ان خرافات کی بھی حد ہوگئی خدا کی قسم۔ بس اس گرم معاشرے میں ایک عائشہ صدیقہ جوان ہوئیں، ہزاروں لاکھوں انسانوں میں سے کوئی اور بچی جوان نہیں ہوئی؟۔ انہوں نے عقیدت میں یہ بات تو کہہ دی لیکن میں پوچھتا ہوں ان مولوی صاحبان سے جو اس روایت کو بچانے کیلئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں کہ تم اپنے کسی پیر و مرشد کو جو50سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں ، تمہارے پیر و مرشد تمہارے استادکو6سال کی بچی اسکے نکاح میں دے دو۔ تیار ہو؟۔ آپ دوستوں سے میں پوچھتا ہوں کہ آپ کا کوئی پیر ومرشد ہو جس کیساتھ آپ کو بے انتہا محبت ہے وہ اگر آپ کی6سال کی بچی کی پیشکش کرے کہ میرے نکاح میں دیدو تو آپ کو تعجب نہیں ہوگا کہ ہمارے حضرت صاحب اتنے نیک انسان ہیں اللہ کے ولی بزرگ ہیں کیسی باتیں کررہے ہیں؟۔ عقل مانتی ہے اس بات کو؟۔ میرے دوستو! اس روایت کو بچاتے بچاتے صرف اتنی تاویل کی جاسکتی ہے کہ راوی سے غلطی ہوگئی16سال کہنا تھا وہ6سال کہہ گیا19سال کہنا تھا وہ9سال کہہ گیا۔ بس اتنی سی بات ہے۔ بریگیڈئیر حامد سعید اختر اللہ انہیں سلامت رکھے انہوں نے ایک بڑا خوبصورت شعر اور ایک مضمون لکھا جو ایک کتاب کی شکل میں چھپ گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں اس نے لکھا ہے دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ بہت خوبصورت شعر کہا ہے شاعر بھی ہیں وہ انہوں نے مجھے وہ شاعرانہ کلام دکھایا جو انہوں نے لندن میں ہائڈ پارک کے کنارے پر بیٹھ کر لکھا تھا بڑا زبردست ہے ان کی کمال کی شاعری دلیل ہے۔ یہ دنیوی پڑھے لکھے لوگ سارے ڈفر نہیں ہوتے، بڑے سلیم الفطرت بھی ہوتے ہیں ۔ بریگیڈئیر حامد سعید کے گھر میں گیا ہوں ایک سے زائد مرتبہ بہت اچھے انسان ہیں ۔ ڈیفنس میں رہتے ہیں۔ اللہ انہیں سلامت رکھے اور ان کے جذبات کو قبول فرمائے۔ انہوں نے یہ کتاب کمال کی لکھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پوری دنیا کے مسلمان علماء کا کفارہ ادا کیا انہوں نے۔ کہتے ہیں کہ دن رات6مہینے تک میں سویا نہیں۔ اس قدر تکلیف ہوئی مجھے ان خاکوں سے۔ اور پھر میں نے پورا تجسس کرنے کے بعد اس روایت کا پورا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد وہ کتاب لکھی۔ بہت شاندار کتاب ہے ”میزان عمر عائشہ”۔ اور لکھا ہے کہ

دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ
ان سب کو مانتا ہوں مگر مصطفی کے بعد

رسول اللہ ۖ کی ذات سب سے پہلے ہے۔ دنیا کی کوئی کتاب کوئی روایت جس سے رسول اللہ ۖ کی شخصیت مجروح ہوتی ہو ، آپ کی ذات مجروح ہوتی ہو، آپ کی بے ادبی نکلتی ہو آپ کا گھرانہ مجروح ہوتا ہو ۔ سب کو ہم دیوار پر دے ماریں گے نبی کی ذات کو نہیں چھوڑیں گے۔ آخر میں ایک بات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں، قرآن کی تو روزانہ تلاوت کرتے ہوں گے نا آپ لوگ؟۔ کرتے ہیں نا؟ ۔ کمزور سر نہ ہلائیں مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ میں یہ بات اسلئے کررہا ہوں کہ اللہ پاک نے مجھے توفیق دی ہے کہ صبح کی اذان سے پہلے میں تلاوت کرچکا ہوتا ہوں۔ ہم عہد کریں کہ ہم قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کرینگے۔ انشاء اللہ ، اللہ جزائے خیر عطا فرمائے۔ اور میں کوشش کررہا ہوں کہ جو قرآن کریم میں شائع کروں آپ کو ایک ایک نسخہ دوں اس شرط کے ساتھ کہ آپ تلاوت کریں۔ انشاء اللہ ۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ قرآن کریم سورہ نساء اس کے چھٹے نمبر کی آیت ہے توجہ کریں۔ وابتلو الیتامٰی حتیٰ اذا بلغو النکاح کہ کسی کی بچیاں بچہ یتیم رہ جائیں تو ان کے مال کی حفاظت کرو وہ مال تمہارا نہیں ان بچوں ہی کا ہے، ان کو وقتاً فوقتاً آزماتے رہو کہ وہ مال کا تحفظ کرسکیں گے کہ نہیں کرسکیں گے۔ یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں۔ سب مفسرین میں نے دیکھا اذا بلغو حد البلوغ نکاح کا معنی کیا حد البلوغ بلوغت کو پہنچ جائیں۔ قرآن کریم میں اللہ کیلئے مشکل نہیں تھا کہ یوں فرماتا کہ حتیٰ اذا بلغو حد النکاح اس کے بجائے اللہ نے فرمایا حتیٰ اذا بلغو النکاح تو لفظ نکاح بول کر بلوغت مراد لی ہے۔ اس سے پتہ یہ چلا کہ منشائے الٰہی یہ ہے نکاح کی عمر وہی ہے جو بلوغت والی ہے۔ حتیٰ اذا بلغو النکاح ۔ اچھا یہ بتائیں گرمی پہلے تھی اب نہیں ہے؟۔ آپ کے لاہور پنجاب میں گرمی نہیں ہوتی؟۔ سبی اور جیکب آباد کا علاقہ سب سے زیادہ گرم ہے پاکستان میں۔ عرب ممالک میں گرمی ہوتی ہے آج سے14سو سال پہلے عرب ممالک کی گرمی اور اب گرمی میں کوئی فرق پڑا ہے؟۔ کوئی فرق نہیں پڑا۔ بلکہ اب کچھ زیادہ ہے۔ الیکٹرانک آلات زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے گرمی زیادہ ہے۔ اچھا یہ بتائیں کہ اس زمانے میں لوگوں کی معیشت والی حالت زیادہ اعلیٰ تھی یا اب اعلیٰ ہے؟۔ تو اب جو بچیاں وہاں رہتی ہیں وہ کھانے پینے کی اشیاء اعلیٰ سے اعلیٰ اس زمانے کے مقابلے میں استعمال نہیں کرتیں؟۔ کرتی ہیں۔ تو اس زمانے میں کتنی6سال کی بچیاں بالغ ہوتی ہیں جو نکاح ہوتے ہیں۔ عجیب تماشہ ہے خدا کی قسم کہ د.شمنان اسلام نے حملہ بھی کیاتو پیغمبر کی ذات پر۔ نبی کے گھرانے کو مجروح کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس میں ہمارا کردار ہے ہم مولویوں کا کہ ہم نے سوچے سمجھے بغیر ان روایات کو سہارا دیا اور یہ نہ سمجھا کہ اس سے نبی کی ذات مجروح ہورہی ہے۔ بھئی اگر ترمذی ، ابن ماجہ، حدیث کی دوسری کتابوں کی بہت ساری روایات کو تم چھوڑ دیتے ہو ضعیف اور موضوع ہونے کی بناء پر اس کے باوجود بھی امام ترمذی کا ادب و احترام بدستور قائم ہے ابن ماجہ کا احترام موجود ہے دیگر محدثین کا، امام احمد کی مسند کا احترام موجود ہے، باوجود یہ کہ بے شمار روایتیں اس کے اندر کمزور ہیں۔ اگر بخاری و مسلم کی کسی ایک روایت کو کمزور کہہ دیا گیا تو اس سے امام بخاری کی نہ شخصیت مجروح ہوتی ہے نا ان کی توہین ہوتی ہے نا اسلام کا کوئی ستون گرتا ہے۔ البتہ یہ کہ ان روایتوں کے انکار کرنے کے سبب سے رسول اللہ ۖ کی ذات بچتی ہے عائشہ صدیقہ کی شخصیت بچتی ہے صدیق اکبر کا گھرانہ بچتا ہے۔ ہمارے لئے روایتوں کو بچانے کے بجائے نبی کا احترام اور اس کو قائم رکھا جائے زیادہ اہم ہے۔ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ رسول اللہ ۖ کی ذات کا ادب و احترام یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے اگر نبی کی ذات مجروح ہوتی ہے اور ہم اس کوبرداشت کرلیتے ہیں تو ہمارے اندر ایمان باقی نہیں رہتا۔

تبصرۂ نوشتۂ دیوار اللہ نے حقائق کو چھپانے کی تعلیم نہیں دی۔ جب نبیۖ نے خواہش رکھی کہ ”اگر زیدنے کسی صورت بھی اپنی بیوی کو اپنے پاس نہیں رکھا تو اس کی دل جوئی کیلئے نبیۖ شادی کریں اور خوف تھا کہ لوگ کہیں گے کہ لے پالک بیٹے کی بیوی سے نکاح کا۔ وحی نازل ہوئی وتخشی الناس واللہ احق ان تخشٰہ ”اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے اور اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرو”۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو حضرت عائشہ نے کہا کہ ” اگر نبیۖ کسی بات کو چھپانا چاہتے تو وحی کی ان آیات کو چھپاتے”۔ (صحیح بخاری)

یہ غیرمسلموں کیلئے قطعی طور پر قابل قبول نہیں کہ کسی بات کا انکار اسلئے ہو کہ اس سے نبیۖ کی ناموس پر اثر پڑتا ہے۔ البتہ یہ واضح حقیقت ہے کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر16سال اور رخصتی کے وقت19سال تھی اور مسلمانوں کا فرض بنتاہے کہ لوگوں کے سامنے حقائق لائے جائیں۔ قرآن کی جس آیت میں ایسی عورتوں کا ذکر ہے جن کو حیض نہیں آتا ہے تو اس سے مراد عمر کی زیادتی، بیماری اور بانجھ ہونا ہے۔ بچیاں مراد نہیں ہیں۔ بچیوں پر نساء کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ بچی کو حیض آتا ہے اور نہ اس کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ قرآن میں یتیم بچوں کیلئے نکاح کی عمر تک پہنچنے کی بات ہے اور اس سے جنسی بالغ ہونا مراد نہیں کیونکہ انسانوں میں صلاحیت مختلف ہوتی ہے جس عمر میں یتیم مال سنبھالنے کے قابل بن جائیں وہ عمر مراد ہے ۔ بسا اوقات بالغ ہونے کے باوجود کوئی کاروبار کے قابل بھی نہیں ہوتاہے بلکہ اس کو زیادہ عمر تک تجربہ درکار ہوتا ہے۔

صحیح بخاری میں ابنة الجون کے بارے میں مختصر ذکر ہے کہ نبی ۖ کے پاس لایا گیا۔ نبی ۖ نے اس کو دعوت دی کہ خود کو مجھے ہبہ کردو۔ اس نے کہا کہ کیا ملکہ خود کو بازارو کے حوالے کرسکتی ہے؟۔ نبیۖ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس نے کہا کہ اعوذباللہ منک میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔نبی ۖ نے فرمایا فقد عذت بمعاذ ”جس کی پناہ مانگی جاتی ہے اس کی آپ نے پناہ مانگ لی اور اس کو دوچادریں دیکر اسکے گھر پہنچانے کا حکم دے دیا۔(صحیح بخاری)

صحیح بخاری کی اس روایت کی تشریح میں علامہ غلام رسول سعیدی اور مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی اپنی بخاری کی شرح میں علامہ ابن حجر کی وضاحت نقل کی ہے کہ ” سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبیۖ کا اس سے نکاح نہیں ہواتھا تو اسے خلوت میں کیسے لیا؟، ہبہ ہونے کی دعوت دی؟ اور ہاتھ کیسے بڑھایا؟۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبیۖ کا صرف اس کو طلب کرنا نکاح کیلئے کافی تھا ،چاہے وہ خود راضی ہو یا نہیں ہو اور اس کا ولی راضی ہو یا نہیں ہو۔ نبیۖ نے محض تطیب خاطر کیلئے پوچھا ورنہ تو اس کی ضرورت نہیں تھی”۔(کشف الباری ، نعم الباری)

جس نبی ۖ نے فرمایا کہ جس عورت کا نکاح ولی اس کی اجازت کے بغیر کردے تو اس کا نکاح نہیں ہوا۔ جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے۔ اس نبیۖ پر اتنا بڑا بہتان لگانا کتنا گھناؤنا جرم ہے؟۔ جب اس کی پوری تفصیل بھی موجود ہے کہ الجون نے نیا نیا اسلام قبول کیا تھا اور اپنی بیٹی کا عرض کیا کہ عرب کی خوبصورت ترین عورت سے آپ کا نکاح کردوں؟ اور نبیۖ نے حامی بھرلی۔ حق مہر طے ہوا۔ ازواج مطہرات نے بناؤ سنگھار کیا اور اس کو سمجھایا کہ اس طرح کا رویہ رکھو اور یہ جواب دو۔ ان کو معلوم تھا کہ نبیۖ پہلے حسب معمول پوچھتے ہیں تاکہ عورت کی رضامندی معلوم ہو جائے ۔ اس عورت ابنت الجون نے سادگی سے ازواج مطہرات کی باتیں مان لیں اور جب گھر لوٹ گئی تو گھر والوں نے کہا کہ آپ بدنصیب ہیں کہ اس شرف سے محروم ہوگئیں اور جب نبیۖ کو پتہ چلا تو فرمایا کہ ”سوکنوں نے سوکناہٹ کا معاملہ دکھا دیا”۔

اس واقعہ کی تمام تفصیلات سامنے آجائیں تو سورۂ یوسف کے احسن القصص سے بھی نبی ۖ کی اعلیٰ سیرت قابل اتباع بنتی ہے اور یہ ازل سے ابدتک معاشرتی مسائل کا بڑا حل ہے لیکن بخاری کی حدیث کی مختصر روایت پر کتنا بے تکا تبصرہ کیا گیاہے اور اس کو کتنی بے شرمی سے نقل کیا گیا ہے؟۔

بخاری کی کتنی احادیث میں نمازوں کے اندر رفع یدین کا ذکر ہے لیکن مولوی کہتے ہیں کہ ”یہ العیاذ باللہ گائے کی دُم کو ہلانے کی طرح ہے۔ حالانکہ عیدین میں تین تین بار ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں لیکن ان کو گائے کی دُم نہیں کہا جاتاہے۔ اور جب نبیۖ نے ولی کی اجازت کے بغیر عورت کے نکاح کو باطل قرار دیا تو کتنی ڈھٹائی کیساتھ اس حدیث کو رد کردیتے ہیں اور بہت سارے معاملات میں بخاری کے اندر تضادات موجود ہیںمگر ان تضادات کی طرف علماء میں متوجہ کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ بیوی کو حرام کہنے سے تیسری طلاق واقع ہوجاتی ہے اور ایک روایت چھوڑ کر اگلی روایت میں ہے کہ حرام کہنے سے کچھ بھی واقع نہیں ہوتا کیونکہ یہ نبی ۖ کی ا سوہ ٔ حسنہ (سورہ تحریم) سے ثابت ہے۔

مفتی منیر شاکر نے بھی پشتو زبان میں اپنی تقریر میں یہ کہا کہ لوگ ہندو عورت کے پیچھے پڑگئے لیکن6سال اور9سال والی روایت تو بخاری میں ہے جو مدارس میں پڑھائی جاتی ہے تو اسکا کچھ کرو”۔ اس پر پشتو میں شیخ ابو حسان اسحق السواتی نے کہا کہ” اس حدیث کا انکار قرآن کا انکار ہے اسلئے کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ رسول ۖ کی اطاعت کرو۔ مفتی منیر شاکر قرآن کی بات کرتا ہے ،وہ اس حدیث کا انکار کرکے قرآن کا منکر ہے”۔

حکیم نیاز احمد فاضل دیوبند نے ایک بڑی ضخیم کتاب کشف الغمة عن عمر ام الامة یعنی تحقیق عمر عائشہ صدیقہبہت پہلے لکھی ہے اور اس موضوع پر کئی دوسری کتابیں بھی آچکی ہیں۔ فن حدیث ،مختلف روایتوںاور راویوںکوتحقیقی انداز میں پیش کیا ہے۔ اہل علم کو چاہیے کہ تحقیقی انداز کو اپنائیں اور اپنی عاقبت خراب ہونے سے بچاہیں۔ فقہ حنفی میں بہت ساری احادیث کو قرآن سے متصادم قرار دیا جاتا ہیں۔ نبیۖ نے فرمایا کہ جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے۔ لیکن حنفی فقہ اس کی مخالف ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ نکاح کیلئے دوصالح گواہ ضروری ہیں۔ حنفی کہتے ہیں کہ دو فاسق بھی کافی ہیں۔ اور نبی ۖ نے فرمایا کہ دف بجاکر نکاح کا عام اعلان کرو، مگر حنفی کہتے ہیں کہ دوفاسق گواہ کا خفیہ نکاح اعلان ہے۔اگر حدیث کا انکار قرآن کا انکار ہے تو پھر شیعہ ٹھیک کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے حدیث قرطاس کا انکار کیا تو قرآن کا بھی انکار کردیا؟۔ علماء ومفتیان سے گزارش ہے کہ تعصبات کی جگہ علم سیکھ اور سمجھ کر قرآن واحادیث کی درست خدمت کریں۔حنفی مسلک کا کمال ہے کہ قرآن کے مقابلے میں احادیث کو رد کیا لیکن قرآن میں پہلے شوہر سے آزادی دلانے کیلئے طلاق کے بعد عورت کونکاح ثانی کا حکم ہے۔ حدیث میں ولی کی اجازت سے مراد کنواری ہے اور قرآن نے بیوہ کو بھی عدت کے بعد آزاد قرار دیا۔ لیکن جمہور حدیث کے خلاف آیت کی تصریح بھی نہیں مانتے ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں مولانا عبدالواحد قریشی نے کہا کہ ”قرآن کا ترجمہ پڑھنے سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں اسلئے علماء کی نگرانی میں قرآن کا ترجمہ پڑھنا چاہیے”۔ جواب میں مولانا سراج الدین نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ ” شاہ ولی اللہ اور انکے بیٹوں نے قرآن کا ترجمہ عوام کو گمراہ کرنے کیلئے کیا؟۔دیوبند کے اکابر شیخ الہند محمود الحسن، مولانا اشرف علی تھانوی، علامہ شبیر احمد عثمانی اور دیگر اکابر نے کیا عوام کو گمراہ کرنے کیلئے قرآن کا ترجمہ کیا تھا؟۔ یہ کیسی جہالت کی باتیں ہورہی ہیں”۔

ان دونوں علماء کرام کا تعلق علماء دیوبند اور فقہ حنفی سے ہے اور اتنے بنیادی اختلاف میں بھی دونوں کی باتوں میں بڑا وزن ہے۔ میں نے مدارس کی خاک چھانی تھی اور ایک قابل طالب علم سمجھاجاتا تھا لیکن مدارس کی سرپرستی میں قرآن کا ترجمہ پڑھنے سے طلاق کا مسئلہ سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ پھر طلاق کا مسئلہ سمجھنے کیلئے قرآن کی طرف رجوع کیا تو میرے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ آج کی دنیا میں صرف اسرا.ئیل کو چھوڑ کر کوئی ایسا ملک نہیں ہے کہ جہاں کی عوام نے حلالے کے خلاف ہم سے فتویٰ نہیں لیا ہو۔ اگر قریشی قرآن سے عوام کو منع کرتاہے تو اس میں وزن ہے اور مولانا سراج الدین کی بات میں بھی وزن ہے۔

بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ۖ نے متعہ کے حوالے سے فرمایا لاتحرموا مااحل اللہ لکم من الطیبٰت ”جس چیز کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے اس کوحرام مت کرو”۔ اور بخاری میں ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پرنبیۖ نے متعہ اور گھریلو گدھوں کو حرام کیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عرب میں گدھے کھانے کا رواج تھا؟۔ پہلے کھایا بھی جاتا تھا ؟۔ اس کا جواب نفی میں ہے اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے خیل یعنی گھوڑے، خچر اور گدھے کو زینت اور سواری کی چیز بتایا ہے اور اگر لوگ ان کو کھاتے تو سواری کی جگہ کھانے کا ذکر ہوتا۔ اگر نبی ۖ نے متعہ کو فتح خیبر کے موقع پر حرام کردیا تھا تو پھر فتح مکہ کے موقع پر دوبارہ کیسے حلال کردیتے؟۔ علماء ومفتیان کا فرض بنتا ہے کہ تحقیقات کرکے اسلام کا روشن چہرہ واضح کریں اور صرف کھانے پینے اور عیش اڑانے تک محدود نہ ہوں۔