اپریل 2018 - Page 2 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

منظور پشتین مظلوم پنجابیوں کیلئے تحریک اٹھاتا تو کامیاب ہوجاتا: امین اللہ کوئٹہ

shah-wali-ullah-fikr-e-waliullah-ubaid-ullah-sindhi-talaq-londi-jibri-zina-muttahida-majlis-e-amal-mufti-taqi-usmani-saudi-arab-cenima-halala-muta

جنوبی وزیرستان کے منظور پشتین میں انسانیت کا درد ہے مگر تعصب نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ محسود قبائل نے یہ درد محسوس کیااور ساتھ دیا، دوسروں سے زیادتی کا پتہ چلا تو محسود تحفظ موومنٹ کوپختون تحفظ موومنٹ میں بدل دیا۔ سوات سے کوئٹہ تک دُکھے دلوں کی آواز منظور پشتین کہتا ہے کہ طالبان ظلم کریں یا ریاستی ادارے، میں ہر ظالم پر لعنت بھیجتاہوں۔ قبائل تاریخی مظالم میں پس چکے۔ اگر اس تکلیف، مصیبت، درد، ظلم، جبر، بے عزتی،جان، مال اور عزتوں کی لوٹ مار سے کوئی دوسری قوم دوچار ہوتی تو اس کی نسلیں بھی نہیں اُٹھ سکتی تھیں۔ اسلام کی نشاۃ اول کے وقت پہلی ہجرت حبشہ اور دوسری مدینہ ہوئی تھی۔ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کی خوب عزت افزائی کی۔ انصار مدینہ نے مہاجرین کیلئے بھائی چارے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنیوالے انگریز کی جگہ اقتدار کا مالک بنے، مہاجر افغان کی دنیا بھر نے خوب مدد کی لیکن وزیرستان سے ہجرت پر مجبور ہونیوالوں سے انتہائی بدسلوک روا رکھا گیا۔
سید عتیق الرحمن گیلانی کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے۔ ایک گھر والی سندھی اور دوسری بلوچ ہیں۔ اکثر بچوں کی پیدائش شکار پور اور کراچی میں ہوئی۔ معروف ماہنامہ ضرب حق کراچی کے 10سال تک چیف ایڈیٹر رہے، کئی کتابوں کی تصنیف کے علاوہ ملک بھر سے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام ، مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی تائید، سندھ پولیس و بیورو کریسی کے اعلیٰ افسران کی تحریری و شائع شدہ تائید رہی۔ چین کیلئے پولیس سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی تھا ۔ ڈان اخبار میں تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ عتیق گیلانی پر ٹانک سے جاتے ہوئے قاتلانہ حملہ ہوا تھا اور اسکے بعد کراچی مستقل رہائش اختیار کرلی تھی،تمام اخبارات میں خبر لگی تھی کہ پیر عتیق گیلانی کے گھر پر طالبان نے حملہ کیا اور 13افراد شہید کردئیے۔ ٹی وی چینل، اخبارات کے علاوہ دنیا بھر کی میڈیا میں خبر رپورٹ ہوئی لیکن اسکے باوجود جس طرح طالبان نے رات کی تاریکی میں شبِ خون مارا۔ پاکستان کے لائق انٹیلی جنس اداروں نے اپنے لاؤ ولشکرکے ساتھ عتیق گیلانی کے گھر پر چھاپہ مارا۔ پورا علاقہ گھیرے میں لیا اور بلڈنگ کی دونوں لفٹوں کو بھی قبضہ میں لے لیا تھا۔
گھروالوں کے دل ودماغ سے طالبان کا خوفناک حملہ نہیں مٹا تھا کہ ’’ یہ بہادر گھر میں گھس گئے اور سید حمزہ کو ایک قدآور پولیس انٹیلی جنس افسر یا سپاہی نے زور دار تھپڑ رسید کیا اور پوچھا کہ’’ تمہارا باپ کہاں ہے‘‘ ۔یہ ظلم و جبر کی تاریخ رقم کرنے والی بزدل ریاست کے ظالم اہلکار کاوہ ہاتھ تھا جس نے انگریز کے بعد غلامانہ ذہنیت کا طوق اپنی گردن سے نہیں اتارا ہے، جسکے وزیراعظم کوآج ننگا کیا جاتاہے تو قانون کی پاسداری قرار دیتاہے۔ جسکے جوان عتیق کوامریکی اتاشی اسلام آباد میں سگنل توڑ کر اڑادیتا ہے لیکن پولیس اس کو چھوڑ دیتی ہے اور ہمارا دفتر خارجہ صرف احتجاج ہی کرتا ہے۔
عتیق گیلانی نے اپنے صاحبزادے کا نام حمزہ رکھاہے اور جب ان کو زور دار تھپڑ مارا گیا تو وہ حواس باختہ نہیں ہوا۔ بلکہ تھپڑ مارنے والے ظالم سے ڈٹ کر کہا کہ جب تک تم نہیں بتاؤ کہ مجھے تھپڑکیوں مارا ہے ،اس وقت تک تم نے جو کچھ بھی کرنا ہے کرلو، میں کچھ بھی نہیں بتاؤں گا۔
یہ قصہ اسلئے لکھ دیا کہ منظور پشتین غیرملکی ایجنڈے پر کام نہیں کررہا بلکہ بے گناہ لوگوں کیساتھ جو زیادتیاں ہوگئی ہیں اسکا سلسلہ روکا جائے۔ عتیق گیلانی کیساتھ یہ معاملہ ہواتھا تو دوسروں کیساتھ کیا نہ ہوا ہوگا؟۔ البتہ ریاستی اہلکار اخلاقیات سے عاری ہیں ، ان کی تعلیم وتربیت کا اہتمام نہیں ۔ نااہل نوازشریف نے پارلیمنٹ میں اقرار کیا کہ اثاثوں کا اللہ کے فضل وکرم سے میرے پاس تمام ثبوت ہیں، فیصلے چوکوں پر نہیں عدالتوں میں ہوتے ہیں اور حسین نواز نے بھی میڈیا پر کہا تھا کہ ’’میں عدالت میں اپنا ثبوت پیش کروں گا‘‘۔ ڈکٹیٹر شپ میں میڈیا پر پابندی لگتی ہے اور ملزم اپنا ثبوت و ریکارڈ میڈیا پر بھی پیش نہیں کرسکتا۔ ن لیگ کی حکومت ہے اور میڈیاکو حکومتی اشتہارات سے خرید اہے اور صحافی صحافت کے بجائے وکالت کرتے ہیں۔ذہنی پستی کا شکار جمہوریت کا نام لیکرقیادت کرپشن کی لڑائی میں کہہ رہا ہو کہ’’ پارلیمنٹ کی تقریر اور قطری شہزادے کے خط سے جو کالک اپنے منہ پر ملی تھی واجد ضیاء اس کو صاف کررہاہے‘‘ لیکن پھر بھی اپنے حواری اور مشرف کے لوٹے ہی نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمن، حاصل بزنجو، اسفندیار ولی ، اچکزئی بھی اس بیانیہ کو سپورٹ کررہے ہوں۔ متحدہ مجلس عمل کو بھی زکوٰۃ و خیرات سے اپنا ٹاؤٹ بنالیا تو قوم کہاں جائے گی؟۔ باقی سیاسی قیادتوں اور برساتی مینڈکوں کا حال بھی مختلف نہیں۔ عمران خان کے دور میں واقعی تبدیلی آ نہیں رہی ہے بلکہ تبدیلی آگئی ہے۔ پہلے سینٹ کیلئے ارکان بکتے تھے ۔ عمران خان نے اپنے ارکان کو اسلئے پیسے دینے شروع کئے کہ دوسرے خریدلیں تو ہم اپنے ارکان کو خود ہی خرید لیں۔ اس دلالی میں اپنا اُلو بھی سیدھا کرلیا لیکن بعض ارکان نے شاید پھر بھی دھوکا دیدیا۔
آصف زرداری نے محسوس کیا کہ ن لیگ کو سہارا نہیں دیا جارہاہے تو اعلان کردیا کہ’’ میں اسے گراکر دکھاؤں گا‘‘۔ طاہرالقادری کے اسٹیج کیلئے اس بے غیرتی کو بھی برداشت کرلیا کہ عمران خان سے پہلے اپنا منحوس چہرہ اسٹیج سے غائب کردونگا۔ اگر لاہوری باربار طاہرالقادری کو اینویں (پنجابی میں ایسے ہی) ڈگڈی بجاتے ، بندر ناچ گاتے نہ دیکھ چکے ہوتے تو اس ڈرامہ کو کامیابی مل سکتی تھی۔ ڈرامہ کامیاب ہوتا تو زرداری نے کہتا کہ ’’ میں نے حکومت گراکر دکھائی ہے‘‘ جب سیاستدان اس قدر گھٹیا بن جائیں بلکہ گھٹیالوگوں کے ہاتھوں میں قیادت آئے تو یہ قیامت کی علامات ہیں اور اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ سیاستدانوں کی بہت گھٹیا حرکتوں کی وجہ سے سیاست کا بہترین شعبہ بدنام ہوا ہے۔
پنجاب میں اصولوں، اعلیٰ اخلاقی اقدار ، بہترین روایات اور انسانیت کے اعلیٰ معیار کی کمی نہیں۔ ناکارہ اور لاوارث گدھا بھی کوئی غلطی سے مار دے توپٹھان قیمت وصول کرتا ہے۔ 80سال کی بوڑھی ماری جائے جسکا شوہر 20سال پہلے مرچکا ہو تو وارث یہ دعویٰ کرنے سے نہیں شرماتے کہ ایکسیڈنٹ پر غریب ڈرائیور دو افراد کی دیت دے، بڑھیا کے پیٹ میں بچہ بھی تھا۔ پنجاب میں اکلوتا بیٹا غلطی سے ماردیا جائے تو غریب باپ ایک پیسہ لئے بغیر معاف کردیتا ہے اور معاف کرنے میں احسان کا احساس بھی نہیں رکھتا، اس کو اللہ کی مرضی اور مقتول کا مقدر قرار دیتا ہے۔ آصف زرداری بے غیرت سیاسی قیادت کا ایک بے غیرت کھلاڑی ہے لیکن پرویزمشرف کو چلتا کرنے میں پنجاب کی حکومت کا موقع گنوادیا، شہبازشریف کی گالی برداشت کی، نوازشریف سے کہا تھا پہلے آپ کی باری ہے، کابینہ کا وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو بنایا۔ رات کی تاریکی میں شہبازاورجنرل کیانی کی ملاقاتوں سے تنگ آکر کئی بار کہا کہ صدارتی محل سے میری لاش ایمبولینس میں جائیگی۔ ن لیگ کیلئے پھر ان کی مشکلات کے دور میں پنجاب کے وفادار ساتھیوں کی ناراضگی مول لیکر سہارا بننے سے دریغ نہ کیا۔ نوازشریف کی بے وفائی کو خاطر میں نہ لایا ۔ 18ویں ترمیم میں صدارتی اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کردئیے۔ دوتہائی نہیں 75فیصد ووٹ حاصل کرکے تین تہائی ووٹوں سے صدر مملکت بن گئے۔ ووٹ کو عزت دینے کی ڈگڈگی بجانے والا نوازشریف غیرت، حمیت، اقدار ، رسم وروایت سے اتنا عاری ہے کہ سندھی صدر مملکت جب نوازشریف کے بھائی عباس شریف کی تعزیت کیلئے جانا چاہ رہاتھا تو نوازشریف نے تعزیت کیلئے بھی آنے سے منع کیا۔واہ واہ۔
اسٹیبلشمنٹ نے چن چن کر بے غیرتوں کا انتخاب سوچی سمجھی سازش کے تحت اپنے مفاد کیلئے کیا تاکہ ذلت ورسوائی کی آخری حدوں کو پار کرسکیں۔ منظور پشتین نام مظلوم تحفظ موومنٹ رکھ دیں اور پنجاب کے غیور عوام کی عزتوں کو بے غیرت نسل کے بدمعاشوں سے تحفظ فراہم کریں۔ جن کا پیشہ یہ ہے کہ اقتدار ، اختیار، کرپشن اور شہرت حاصل کرلو، عزت کی بات نہیں، عزت تو شوہر کے ہوتے ہوئے لٹ جانا معمول ہے جبکہ طاہرہ سید اور بشری بی بی کی کہانیاں ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ نوازشریف کی قیادت نے عوام میں یہ جذبہ پیدا کردیا کہ لاہور میں ڈاکٹر نے ایک عیسائی خاتون کو تھپڑ مارا۔ احتجاج پر ڈنڈوں سے ایک عیسائی کو مار ڈالا، اس سے پہلے بھی میاں بیوی عیسائی جوڑے کو آگ کی بٹی میں جلا ڈالا گیا تھا۔ گوجرانوالہ میں ایک شخص نے کھانا میں دیر کرنے پر اپنی دادی اور بہن کو ڈنڈے مار مار کر قتل کیا اور دوسری بہن کو زخمی کردیا۔ سندھ کے شاہ رخ جتوئی کا قصہ بھی موجود تھا کہ دوسرے جتوئی نے گانیوالی کو ناچنے کا حکم دیکر مار ڈالا۔ یہ ذولفقار علی بھٹو کا شہر ہے جہاں حبیب جالب کی آواز گونجتی ہے کہ ’’ لاڑکانہ چلو، ورنہ تھانہ چلو‘‘۔ پختون قوم سردار اور کسی لیڈر کو نہیں مانتی ۔ قوم کا اجتماعی شعور فیصلہ کرلے تو کوئی قائد بن سکتا ہے۔ قیادت کی اہمیت بالکل بھی نہیں ہوتی ہے۔
منظور پشتین سے معذرت کیساتھ PTMکی مثال کتیا کے پیچھے جمع ہونے ہونیوالے ریلے سے مختلف نہیں، جو کوئی خطرہ بن سکے۔ پنجاب کے مظلوموں کیلئے اٹھتے تو نظریاتی لوگ مل سکتے تھے۔ شک نہیں کہ تعصبات کی آگ خطرہ ہوتی ہے لیکن پٹھانوں کو تعصبات کی آگ میں جھونکا گیا تو آپس میں ہی ہڈی ڈالنے پر لڑپڑینگے۔ پختون قوم خیر کاکام کرے تو اس کو بہت راست آئیگا۔ طالبان کے بعد لسانی تعصب کو ہوا دینا بہت غلط ہے۔ محمود اچکزئی اور اسفندیار ولی نے آخر اسوقت نوازشریف کی گود میں پناہ لی جب کشتی ڈوب گئی۔

مولانا آزادؒ کی تجاویزاورہماری خوش اسلوبی کافائدہ: اداریہ نوشتہ دیوار کالم 4 صفحہ 2 شمارہ اپریل 2018

triple-talaq-in-islam-halalah-maulana-muhammad-khan-sherani-molana-yusuf-binori-agreement-marriage-nikah-mut'ah-mufti-mehmood-kathputli

مولانا ابوالکلام آزادؒ کے نظرئیے اور داڑھی کی تراش سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر ان کی قابلیت کا انکار مخالف بھی نہیں کرتا، مولانا آزادؒ بھارت کے وزیرِ تعلیم تھے تو علماء کے سامنے تجویز رکھی’’ جن کتابوں کو درسِ نظامی میں پڑھایا جاتا ہے یہ زوال کے دور کی ہیں۔ اسلامی علوم کو عروج ملا ،پھرعلوم کا زوال ہوا تو ساتویں صدی ہجری میں انتہائی پستی کا دور آیا۔ تفتازانی وغیرہ نے وہ کتابیں لکھیں کہ مغلق عبارات کی خود شروحات لکھ دیں۔ شکایت ہے کہ علماء میں استعداد نہیں لیکن یہ کتابیں علماء کو کوڑھ دماغ بنانے کیلئے کافی ہیں۔ یہ نصاب نہ بدلا تو علماء فراغت کے بعد استعداد نہیں علم وعقل سے بھی محروم ہونگے‘‘۔ آزادؒ کی تجویز کے بعد نصاب کی تبدیلی پر بازگشت رہی ہے لیکن اس پر عمل کی مطلوبہ صلاحیت نہ تھی۔ آزادؒ نے لکھ دیا کہ ’’ اصولِ فقہ میں کمزوریاں ہیں اگر کسی اہل عقل کی نظر پڑگئی تو اسکا ڈھانچہ زمین بوس ہوجائیگا‘‘۔ جمعیت علما اسلام کے مولانا محمد خان شیرانی نے مجھ سے کہا: ’’ آپ نیا نصاب تشکیل دیں تو میں ذمہ لیتا ہوں کہ اسی کو علماء پڑھائیں گے‘‘۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل بن گئے تو میں نے متعدد بار ملاقات کی، تین طلاق اور حلالے کا مسئلہ سلجھانے پر پر زور دیا مگر ان کو فرصت یا جرأت نہیں تھی یا خواتین کی عزتوں اور شرعی مسائل کی اہمیت نہ تھی۔
امام ابوحنیفہؒ کیخلاف اسماعیل بخاریؒ اور سید عبدالقادر جیلانیؒ نے بڑا سخت لہجہ استعمال کیا تھا۔ مولانا آزادؒ پر مولانایوسف بنوریؒ نے زندیق کا فتویٰ لگادیا۔فتوے سے دونوں قسم کے اکابر ؒ پر فرق نہیں پڑتا۔ اکابرؒ تو اکابرؒ تھے، صحابہ کبارؓ میں شدید علمی وعملی ، سیاسی اور مذہبی اختلافات تھے۔ صحابہؓ سے بڑھ انبیاءؓ تھے۔ موسیٰ ؑ و ہارون ؑ انبیاء سگے بھائی تھے، موسیٰ نے ہارون ؑ کو داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑ ا تو جھگڑا جائیداد کانہیں مذہبی تھا۔ موسیٰؑ نے کہا کہ ان کو شرک کیوں کرنے دیا؟۔ ہارون ؑ نے کہا کہ تیری غیر موجودگی میں تفریق اور پھوٹ سے بچانا تھا، دیوبندی و بریلوی کے اکابر ایک ہیں ۔ مفتی شاہ حسین گردیزی نے لکھا ’’دیوبندی اکابرؒ نے عاشورہ میں شہدائے کربلا کا تذکرہ بدعت قرار دیا اور بریلوی اکابرؒ نے جواز بخشا تھا لیکن نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ بریلوی اکابرؒ زیادہ کامیاب رہے اسلئے کہ پہلے بڑی تعداد میں اہلسنت کے تعزئیے نکلتے تھے اور پھر بعد میں اہلسنت کے تعزئیے بہت کم ہوگئے‘‘۔
بریلوی دیوبندی معرکۃ الآراء مسئلہ نور وبشر کا ہے مگر بریلوی مقبول کتاب ’’ بہار شریعت میں انبیاء کرام ؑ کیلئے بنیادی عقیدہ یہ لکھاہے کہ انبیاء کرامؑ بشر ہوتے ہیں‘‘۔ دیوبندی مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنی کتاب ’’نشر طیب فی ذکر حبیبﷺ‘‘ کی پہلی فصل ’’نبی ﷺ کے نور‘‘ پر لکھ دی کہ ’’کائنات میں سب سے پہلے نبیﷺ کا نور پیدا ہوا ‘‘۔ مناظرانہ بحث، ایکدوسرے کیخلاف نفرت کی ضرورت نہیں لیکن کچھ نے منافرتوں سے شہرت کمائی، یہ ذریعہ معاش نہ ہوگا تو سب ٹھیک ہوجائیگا۔
استاذ گرامی جامعہ بنوری ٹاؤن کے پرنسپل ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر مدظلہ العالی کی طرف سے ہماری تحریک کے حوالے سے میری ایک کتاب میں آپ کی تحریرہے جس میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی خواہش والوں کی حضرت امام مالکؒ کے قول سے رہنمائی ہے کہ ’’ اس امت کی اصلاح نہ ہوگی مگر جس چیز (قرآن وسنت) سے اس امت کی پہلے اصلاح ہوئی ہے‘‘۔ جب تک تعلیمی نظام درست نہ ہو تو علماء اور صلحاء سے بھی بات نہیں بنے گی۔ اکابرین ؒ نے علم و تقویٰ میں کمی نہ چھوڑی مگر علم اور تقویٰ جاتا رہاہے ۔ نصاب کی غلطیوں کو درست کیا تو رشدوہدایت کے چراغ روشن ہونگے اور مساجد ومدارس مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ دنیا کیلئے حقیقی اسلامی اور روحانی مراکز ہونگے جنکے منبر ومحراب اوربلندمیناروں سے حقیقی محبت ہوگی اوردل کی عقیدت سے علماء اور صلحاء کو لوگ چومیں گے۔ عقیدت ومحبت کا جذبہ بھی ٹھیک استعمال ہوگا۔
سعودیہ میں مذہب کا کردار نیست و نابود ہوا۔ عوام نے مذہب سے بغاوت کا راستہ اپنایا ہے۔ مذہبی سیاسی جماعتیں دوسری سیاسی جماعتوں کیلئے کٹھ پتلی کا کردار ادا کرکے گزارہ کرتی ہیں لیکن کام علماء ومفتیان کے حیلے تراشنے نے خراب کیا ہے۔ مفتی محمودؒ نے زکوٰۃ کے مسئلے پر حق کی آواز اٹھائی لیکن دارالعلوم کراچی کے مفتیان نے حیلہ تراشا۔ سود ی بینکاری کو اسلامی قرار دیا اور سارے علماء کی مخالفت نے دم توڑ دیا۔ اگر سوداسلامی ہو تو اسلامی نظام کیلئے کوشش نہیں ہر چیز کا نام بدل دیا جائے،اسلام نے اجنبیت کا بڑا سفر طے کیا،سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔
قرآن میں جنسی تعلق کے جائزطریقے 1نکاح اور2 معاہدہ ہیں۔ یمین عہد و پیمان کوبھی کہتے ہیں۔ لونڈی سے نکاح اور معاہدہ اور آزاد عورت سے بھی نکاح اور معاہدہ ہوسکتا ہے۔ ملکت ایمانکم کا جملہ قرآن میں مختلف پیرائے میں آیا ہے۔ لونڈی کیلئے اَمۃ اورغلام کیلئے عبد کا لفظ ہے۔ ملکت فعل ایمانکم اسکا فاعل ہے۔ یعنی جنکے مالک تمہارے معاہدے (ایگریمنٹ) بن جائیں۔ اس جملے کی درست وضاحت کیلئے قرآن کی آیات ہیں جن کی نشاندہی کے بعد علماء کرام ، مفتیان عظام اور قارئین پر واضح ہوگا کہ یہ جملہ قرآن میں معاہدہ کیلئے بھی استعمال ہوا ہے۔ کسی عورت کا شوہر گم ہو اور چار سال بعد اس کو عدتِ وفات کے بعد دوسرے شخص سے شادی کی اجازت ملے۔ کچھ عرصہ بعد پہلا شوہر نمودار ہوجائے تو مسئلہ کیا ہوگا؟۔ دوسرے شوہر سے اسکا نکاح نہ ہوگا بلکہ اس کی حیثیت ایک معاہدے کی ہوگی ، اگر عورت اس کو برقرار رکھنا چاہے تو بھی اس کی گنجائش ہوگی اور اگر عورت معاہدے کو ختم کرنا چاہے تو بھی اجازت ہوگی۔ یہ صورت اس وقت بھی پیش ہوگی کہ جب کوئی عورت لونڈی بن جائے یا وہ دارالکفر کو چھوڑ کر مسلمان بن جائے اور پھرکوئی شخص اس سے معاہدہ کرلے ۔ پہلا شوہر اسلام قبول کرلے اور عورت پہلے شوہر سے ہی اپنا نکاح باقی رکھنا چاہے تو دوسرے شوہر سے اسکے تعلق کی حیثیت معاہدے کی ہوگی۔ یہ اسلام کا کمال ہے کہ قرآن نے لونڈی کو بھی نکاح اور ایگریمنٹ کی اجازت دی تھی۔البتہ ایگریمنٹ کے لفظ کو لونڈی کیساتھ خاص کرنے کا کوئی جوا زنہیں تھا۔
امریکہ کی ایرانی نژاد خاتون نے ایک ضخیم کتاب لکھ کر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بڑا غلط تأثر پیش کیا۔ نکاح،متعہ اور لونڈی سے جنسی تعلق اور قوانین پیش کرکے اسلام اور اُمۃ کو بدنام کیا۔حالانکہ امریکہ اور مغرب میں نکاح و ایگریمنٹ کے قوانین بالکل غیرفطری ہیں جس سے مغرب بہت معاشرتی مسائل کا شکار ہے۔ اسلام کا درست تصور انقلاب عظیم کا بہت بڑا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور اسکا کریڈٹ مدارس کو جائیگا، اسلئے کہ میں اپنے علم کا سرمایہ افتخار اپنے اساتذہ کرام ، حنفی مسلک اور اصولِ فقہ کی تعلیمات کو سمجھ رہا ہوں۔ مدارس نے قرآن وسنت کے علاوہ مسالک کے درمیان تقابلی جائزے کا میدان کھلا نہ رکھا ہوتا تو قرآن وسنت کی درست تعبیر تک دماغ کبھی نہ پہنچتا۔ یہی وجہ ہے کہ علماء ، اسلاف وا خلاف ، اساتذہ کرام کی جو قدر ومنزلت میرے دل میں ہے وہ اپنے والدین اور پیرومرشد کی بھی نہیں۔علماء حق نے رشدوہدایت کا چراغ ہرمشکل دور میں جلائے رکھا۔ ٹمٹماتا ہوا یہ دیاپوری دنیا کو روشن کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے لیکن ہم نے قرآن وسنت کی طرف رجوع نہ کیا تو ذلت ورسوائی مقدرہوگی۔لباس واطوار،طلاق، خلع، نکاح، معاہدہ، پردہ اور دیگر معاملات پر قرآن وسنت سے رہنمائی لینی بہت ہی ضروری ہے ۔ سید عتیق گیلانی

قرآن وسنت کی تعلیم سے دنیا میں انقلابِ عظیم برپا ہوا: اداریہ نوشتہ دیوار کالم 3 صفحہ 2 شمارہ اپریل 2018

halala-ki-lanat-khawateen-ki-behurmati-fatwa-agreement-marriage-tehreef-e-quran-maulana-anwar-shah-kashmiri-

بڑی اہم بات ہے کہ مفسرین نے بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں جسے علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے معنوی تحریف کا نام دیا ۔فقہ کی کتابوں میں مکاتبت سے مراد یہ ہے کہ کوئی غلام معاہدہ لکھ کر پیسوں سے خود کو آزاد کردے، مفسرین نے یہی مکاتبت مراد لی ہے، حالانکہ قرآن کی اس آیت میں غلام کو پیسے دینا واضح ہے جو اسی صورت میں ہوسکتاہے کہ کسی خاتون خاص طور سے بیوہ و طلاق شدہ کو آزاد شخص نکاح کیلئے میسر نہ ہو تو غلام کو پیسے دیکر بھی معاہدہ ہوسکتاہے۔ غلام کو آزاد کرنے میں خیر کا تصور لینا کتناغلط ہے۔ کیایہ کہا جاسکتا ہے کہ’’ اگر آزادی میں خیر ہوتو ہی آزادنہ کرو؟‘‘۔
آگے اللہ نے فرمایا:’’ اور ہم نے تمہاری طرف واضح آیات نازل کی ہیں جیسے تم سے پہلے گزرنے والوں کیلئے نازل کی تھیں۔ تقویٰ والوں کیلئے نصیحت ہیں ۔اللہ زمین اور آسمانوں کا نور ہے۔ اسکے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہے ۔چراغ ایک قندیل(شیشے) میں ہے،قندیل گویاموتی کی طرح کا ایک چمکتا ہوا تارا ہے۔اس میں مبارک درخت زیتون کا تیل جلایا جاتاہے نہ مشرقی ہے اور نہ مغربی ہے۔ ………….. ‘‘ (سورۂ نور آیت32سے 35)۔ ان آیات کی روشنی انسانی فطرت کو ایسا متأثر کرسکتی ہے جو عظیم انقلاب کا ذریعہ ہے۔ مشرقی و مغربی تہذیب کا قرآنی آیات پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔اللہ نے واضح کردیا ہے۔
شوہر کی گمشدگی پر 80 اور 4سال کا بڑا تضاد غلط تھا۔ اللہ نے فرمایا: وانزلنا الکتاب تبیانا لکل شئی ’’اور ہم نے کتاب نازل کی ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے‘‘ تو کیا اللہ کی کتاب میں شوہر کی گمشدگی جیسے اہم مسئلے کا حل بھی موجودنہ تھا؟۔
عورت گمشدہ شوہر کیلئے خود انتظار کرنا چاہتی ہو تو مسئلہ نہیں۔ قیامت تک نکاح قائم رہتا ہے یوم یفر المرء من اخیہ وامہ وابیہ و صاحبتہ و بنیہ’’ اس دن بھاگے گا انسان اپنے بھائی سے، ماں سے، باپ سے، بیوی سے، بچوں سے‘‘۔ ناراضگی میں انتظار 4ماہ ہے، طلاق میں 3ماہ یا تین مرحلے ( 3طہرو حیض)اور وفات میں 4ماہ 10 دن۔ شوہر کی گمشدگی پر لامحدود یا غیر فطری انتظار نہیں ہوسکتا ۔
اسلام کا بڑا کمال ہے کہ طاقتور سے زیادہ کمزور کیلئے رعایت ہے۔ سورۂ النساء آیت 19میں پہلے عورت کیلئے حق خلع پھر مرد کیلئے آیت20، 21میں خواتین کے حقوق کیساتھ طلاق کی وضاحت کی ۔ حدیث میں غلام کی دو طلاق، لونڈی کی عدت دو حیض اور خلع میں عورت کی عدت ایک حیض ہے۔ جب شوہر کی موجودگی میں خلع کا حق عورت کو ہے تو شوہر کی گمشدگی میں خلع کا حق بدرجہ اولیٰ ہے۔ قرآن وسنت کے باوجود خاتون کو شوہر کی گمشدگی پر بڑے عرصہ تک مجبور کرنا بہت بڑا المیہ ہے۔
خلع و طلاق میں فرق معاملات کا ہے۔ خلع میں عورت کو شوہر کا گھر چھوڑنا ہے اور طلاق میں مرد کو ہر دی ہوئی چیز سے دستبردار ہونا ہے۔ اگر عورت شوہر کی گمشدگی پر خلع لینا نہ چاہتی ہو اور طلاق کی خواہش بھی نہ رکھتی ہو لیکن جنسی تسکین چاہتی ہو توپھر مسئلہ ہوگا مگر یہ مسئلہ بھی محرمات کی فہرست کا آخری جملہ حل کردیتا ہے۔ مملوکہ بننے کے بعد شوہر والی عورت کو جائز قرار دیا گیا ہے،تو اس سے زیادہ شوہر کی گمشدگی پر اس آیت سے عورت کیلئے دوسرا نکاح یا متعہ ومسیار کرنے کی گنجائش نکلتی ہے۔
اصولِ فقہ میں قرآن وسنت پر تفریعات ہیں۔ حقیقت ومجاز میں ’’ نکاح وطی کیلئے ہے عقد کیلئے نہیں ‘‘ کو پڑھا جائے تو دماغ کے شریانیں پھٹ جائیں گی۔ نکاح اور زناعرفِ عام، لغت اور شریعت میں ایکدوسرے کی ضد ہیں جو آدم ؑ و حواء ؑ ، ہابیل وقابیل سے لیکر موجودہ دور کے تمام انسانوں میں رائج ہے۔ لغت کا تصور معاشرے سے الگ نہیں ۔ معاشرے کی بنیادی اکائی میں میاں بیوی کے درمیان نکاح ہے۔حنفی مسلک نے بہت نامعقول انداز میں یہ تصور دیا کہ لغت میں نکاح کا معنیٰ ملاپ ہے ، عورت اور مرد کا یہ ملاپ جائز نکاح سے ہو یا زنا سے دونوں صورت میں نکاح ہے۔ جبکہ امام شافعیؒ شرعی نکاح مراد لیتے ہیں۔ (نورالانوار)حقیقت ومجاز کی یہ وضاحت ہے کہ باپ کیلئے باپ کا لفظ حقیقت اور دادا کیلئے مجاز ہے، باپ کیلئے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ باپ نہیں لیکن دادا کیلئے کہا جاسکتا کہ وہ باپ نہیں۔ شیر جنگل کے جانور کیلئے حقیقت اور بہادر آدمی کیلئے مجاز ہے۔ جب حقیقی معنیٰ مراد لیا جاسکے تو مجازی معنیٰ مراد نہیں ہوسکتا۔ لاتنکحوا مانکح آبائکم من النساء ( نکاح نہ کرو، جن سے تمہارے آباء نے نکاح کیا ہو) میں حقیقی معنیٰ لغت کے اعتبار سے ملاپ کا ہے جس میں نکاح و زنا شامل ہیں ۔سوال ہے کہ آباء سے مراد پھر صرف باپ مراد لیا جائیگامگر دادا نہیں تو جواب یہ ہے کہ دادی سے نکاح کی حرمت کو اجماع سے ہم حنفی ثابت کرتے ہیں ،قرآن سے نہیں۔( قوت الاخیار شرح نورالانوار)
اگر علماء اصولِ فقہ کو سمجھتے تو حلالہ کے نکاح میں حقیقی معنیٰ ملاپ قرار دیتے کہ زنا سے حلالہ ہوجاتاہے جس کیلئے عقدِنکاح اور عدت شرط نہیں ۔بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہوتا کہ حقیقی معنیٰ کے ہوتے ہوئے مجازی معنیٰ مراد ہوہی نہیں سکتا، اور حقیقی معنیٰ ملاپ اور زنا ہے اور مجازی معنیٰ عقدِ نکاح ہے۔تو اصولِ فقہ کے قاعدے کے مطابق حقیقت کے ہوتے ہوئے مجاز مراد نہیں ہوسکتا اسلئے عقدِ نکاح سے عورت حلال نہیں ہوسکتی بلکہ صرف اور صرف زنا سے ہی حلال ہوسکتی ہے۔ ملا جیونؒ کی انتہائی سادگی پر حضرت مولانا قاری مفتاح اللہ صاحب مدظلہ العالی بہت لطیفے سنایا کرتے تھے۔
حلالہ کو نبیﷺ نے لعنت، جمہور فقہاء نے اسے زنا قرار دیا۔ جس سے عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوسکتی۔ احناف کی نظر میں حلالہ کا جواز نہ تھا اور نہ حلالہ سے عورت پہلے شوہر کیلئے حلال ہوسکتی تھی۔ بعض احناف نے حیلہ سے جائز کہا مگرانکے پاس کوئی مستند حوالہ نہ تھا ۔قرآن وسنت تو بہت دور کی بات ہے۔ علامہ ابن ھمام اور علامہ بدرالدین عینی نے غیر معروف بعض مشائخ اور لایعنی کتاب کا حوالہ دیا ہے۔ یہ لوگ 900 ہجری میں آئے ہیں اور حنفی مسلک کے اصول وفروع سے کوئی حوالہ نہیں دے سکے ہیں۔انہوں نے حلالہ کو کارِ ثواب کہنے کا کارنامہ بھی انجام دیا ہے۔
مولانا سلیم اللہ خانؒ نے لکھا کہ ’’حلالہ کیلئے جس حدیث میں جماع کا ذکرہے، وہ خبر واحد ہے۔ احناف خبر واحد کی وجہ سے قرآن پر اضافہ نہیں کرتے ،پھرحلالہ کیلئے صرف نکاح کافی ہونا چاہیے تھا ؟ ،جواب یہ ہے کہ حنفی حدیث سے جماع کو ثابت نہیں کرتے بلکہ نکاح کا معنیٰ جماع ہے‘‘۔( کشف الباری فی شرح صحیح بخاری)
سعودیہ نے ابن تیمیہؒ کے تین طلاق سے رجوع کا فتویٰ ختم کیا ۔پھر گھمبیر صورتحال سے مسیار کے نام سے متعہ کی اجازت دی مگر گھمبیر مسائل حل نہ ہوئے۔ محرمات سے تعلقات کا مسئلہ در پیش تھا تو مغرب کی آزادی کیلئے کھلم کھلا اقدامات شروع کردئیے ہیں۔ قرآن وسنت مسائل کا حل ہیں۔ نبی ﷺ نے متعہ کی اجازت اور آیت کا حوالہ دیا: لاتحرموا مااحل اللہ لکم من الطیبات ’’ جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا، اسے حرام نہ کرو‘‘۔(بخاری) نبیﷺ نے حلت کو اللہ کی طرف منسوب کیا، اللہ نے قرآن میں منع کیا کہ اپنی طرف سے حلال اور حرام کی نسبت اللہ کی طرف نہ کرو۔ خیبر کے موقع پر پالتو گدھے اور متعہ کی حرمت حضرت علیؓ کی طرف غلط منسوب ہے۔ گدھا، گھوڑا اور خچرکوئی نہ کھاتا تھا۔دومرتبہ حرمت کا تصور غلط ہے ۔ حضرت عمرؓ کے ابتدائی دور تک متعہ جاری تھا۔( صحیح مسلم)

اسلام کو اجنبیت سے نکالنے کی ٹھوس راہ اور حنفی مسلک: اداریہ نوشتہ دیوار کالم 2 صفحہ 2 شمارہ اپریل 2018

Larki-ki-shadi-uski-marzi-k-bina-karna-saudi-arabia-londi-nikah-court-marriage-daf-bajana-binori-town-madrassa-fatwa

حنفی اصول ہے کہ پہلے قرآن وسنت میں تطبیق( موافقت پیدا کی جائیگی) اگر تطبیق نہ ہو تو قرآنی آیت پر عمل اور حدیث کو ترک کیا جائیگا۔ اصول الشاشی کا پہلا سبق یہی ہے کہ حدیث اور جمہور کیخلاف عورت کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر درست ہے۔ کورٹ میرج کیلئے حنفی مسلک بنیاد ہے جو درسِ نظامی کا حصہ ہے۔
نکاح کیلئے حدیث میں دو عادل گواہی کا ذکر ہے اور قرآن میں طلاق کیلئے بھی دو عادل گواہوں کا حکم ہے۔ قرآن کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے طلاق کے گواہ کا خاتمہ کردیا تو معاشرے میں اسکے بھیانک نتائج نکلے۔ بھاگی لڑکی شادی کرلے تو نکاح کیلئے دوعادل گواہ کی شرط تھی اور شریف اس نکاح پر گواہ نہیں بن سکتے۔ اسلئے دوسری حدیث کو بھی فقہ میں روند ڈالا گیا۔ چنانچہ حدیث کے منافی دوفاسق گواہ بھی کافی قرار دئیے گئے مگر حدیث نے غیرفطری راستہ روکنے کیلئے مزید پابندی لگائی ہے کہ دف بجاکر نکاح کا علان کرو تاکہ سب جان لیں کہ نکاح ہوا، کیونکہ نکاح خفیہ یاری نہیں ۔ فقہاء نے اسکا بھی توڑ نکالا اور دوفاسق گواہ کو اعلان قرار دیا ۔ پوری دنیا میں شادی کیلئے بدمزگی کے واقعات کورٹ میرج، مارکٹائی ، قتل وغارت نہیں۔ جسکے مناظر یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ علماء ومفتیان خاص طور پر جامعہ بنوری ٹاؤن والے پاکستان بلکہ دنیا بھر سے بڑے علماء ومفتیان کو دعوت دیں اور یہ مسائل حل کریں۔
حنفی مسلک اور قرآن کے مطابق عدت میں نکاح قائم رہتا ہے۔قرآن نے عدت میں باہمی رضامندی اور عدت کی تکمیل پر بار بار رجوع کی گنجائش دی۔ رجوع نہ کرنے کی صورت پر دوعادل گواہ بھی مقرر کرنے کا حکم دیا جبکہ ایک حدیث نہیں کہ قرآن کے برعکس عورت کو طلاق کے بعدعدت میں حلالہ کا حکم ہو، ایک عورت نے عدت کی تکمیل کے بعد دوسرا نکاح کیا ۔تووہ حدیث قرآنی آیات کے منافی نہیں۔
حضرت مولانا بدیع الزمانؒ نے اصولِ الشاشی کا پہلا سبق پڑھایا تو میں نے یہ سوال کیا کہ ’’قرآن وسنت میں تطبیق ہے، آیت سے طلاق شدہ عورت کو نکاح کی اجازت اور حدیث سے کنواری مراد لی جائے۔ کنواری و طلاق شدہ وبیوہ کے احکام بھی مختلف ہیں؟‘‘۔ استاذ محترم کو میری بات پسند آئی اور ہلکا تبسم کیا اورپھر فرمایا کہ ’’اگلی کتابوں میں جواب ملے گایا خود کسی نتیجہ پر پہنچوگے، یہ ابتدائی کتاب ہے‘‘۔ بیوہ کیلئے واضح ہے کہ لاجناح علیکم ما فعلن فی انفسھن ’’تم پر گناہ نہیں کہ (بیوہ عدت کے بعد) اپنی جانوں کے بارے میں جو فیصلہ کریں‘‘۔ طلاق شدہ وبیوہ قرآن میں آزاد ہوں تو حدیث سے اجازت کا پابند بنانا غلط ہوگا ۔ حدیث کنواری تک محدود ہو جو آیت سے متصادم نہیں تو احناف اور جمہور کو بھی اعتدال پر آنا ہوگا۔
جب بیوہ و طلاق شدہ کو آزاد اور کنواری کو ولی سے اجازت کا پابند بنایا جائے تو مسالک کیساتھ ساتھ اسلامی معاشرے میں بھی اس اعتدال کا چھوٹے سے لیکر بڑی سطح تک خیرمقدم کیا جائیگا۔ خواتین کے حقوق کی حفاظت کا ببانگِ دہل منبر ومحراب سے اعلان کیا جائے تو دنیا بھر کی خواتین ہی نہیں بلکہ مرد حضرات بھی اپنی بہنوں اور بیٹیوں کیلئے شانہ بشانہ کھڑے ہونگے۔ بخاری میں ہے کہ’’ باپ اگر بیٹی کی اجازت کے بغیراسکا نکاح کردے تو یہ نکاح منعقد نہیں ہوتا ہے‘‘۔ کنواری بیٹی اور اسکا باپ پابند ہو تومعاشرے میں اعتدال آئیگا جو پوری انسانی دنیاکیلئے قابلِ رشک ہوگا۔
آیات اور احادیث صحیحہ میں قطعی طور پر تضاد نہیں ۔ قرآنی آیات کو بھی مسالک نے اپنی ناسمجھی سے متضاد بنانے میں اپنا بنیادی کردار ادا کیا ۔ آیات میں طلاق شدہ وبیوہ کیلئے کھل کر خود مختار ہونے کا ذکر ہے، آیت وانکحوالایامیٰ منکم و الصٰلحین من عبادکم وایمائکم (اورنکاح کراؤ طلاق شدہ وبیوہ خواتین کا اور نیک غلاموں و لونڈیوں کا ) میں اللہ نے انکے نکاح کی ترغیب دی۔ الایمکنواری کے مقابلے میں طلاق شدہ وبیوہ کو کہتے ہیں۔ مگر ان کی حیثیت بھیڑ بکریوں کی طرح نہیں کہ انکا اختیار اس آیت سے ختم سمجھا جائے ۔ البتہ عام طور پر معاشرے میں بیوہ وطلاق شدہ خواتین کے نکاح کا احساس نہیں ہوتا ہے اسلئے معاشرے پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ اگر وہ خود شرم و حیاء ، عفت و عصمت اور شوہرو بچوں کا احساس رکھ کرشادی کیلئے اقدام نہ اٹھاسکتی ہوں تو معاشرہ یہ کردار ادا کرے۔
ممکن نہیں کہ قرآن نے بیوہ وطلاق شدہ کو خود مختار اور محتاج بھی قرار دیا ہو۔ اس آیت میں لونڈی و غلام کا بھی ذکر ہے ،قرآن کی دوسری آیت میں واضح ہے کہ فانکحوھن باذن اہلھن ’’ ان سے انکے مالکوں کی اجازت سے نکاح کرو‘‘۔ قرآن میں تضادنہیں بلکہ تمام حدود و قیود کھل کر واضح ہیں۔ ایک آیت سے ثابت کرنا کہ نکاح کرانے کا حکم ہے تو وہ اجازت کی پابند ہیں اور دوسری آیت سے ان کی آزادی ثابت کرنامسلکی تضادات اور افراط وتفریط ہے اعتدال کی راہ سے امت ہٹ گئی ۔ قرآن امت وسط کو افراط تفریط نہیں اعتدال و صراط مستقیم کی راہ بتاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ وانکحوالایا میٰ منکم والصٰلحین من عبادتکم وامائکم ان یکونوا فقراء یغنیھم اللہ من فضلہ واللہ واسع العلیمOولیستعفف الذین لایجدون نکاحًاحتی یغنیھم اللہ من فضلہ والذین یبتغون الکتٰب مماملکت ایمانکم فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیرًا واٰتوھم من مال اللہ الذی اتٰکم ولاتکرھوافتےٰتکم علی الابغاء ان اردن تحصنًا لتبتغواعرض الحیاۃ الدنیا ومن یکرھن فان اللہ من بعد اکراھن غفور رحیمO ان آیات میں بیوہ وطلاق شدہ خواتین اور نیک غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کرنے کا حکم ہے اور اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ ان کو مالدار بنادے گا۔ پھرفرمایا کہ جولوگ نکاح تک پہنچ نہیں رکھتے ، ان کو پاکدامنی کی زندگی گزارنی چاہیے یہانتک کہ اللہ ان کو مستغنی کردے۔ بیوہ وطلاق شدہ سے نکاح کیلئے کوئی آزاد تیار نہ ہو تو اللہ نے کہا کہ’’ مشرک سے غلام بھی بہتر ہے‘‘۔ اگر کوئی غلام کسی آزاد عورت سے معاہدے کے مطالبہ پر راضی ہو تو اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر اس میں خیر نظر آئے تو یہ معاہدہ بھی کرلینا چاہیے اور جو اللہ کی طرف سے عطاء کردہ مال میں سے اس کودیدو۔ بیوہ وطلاق شدہ اور غلام ولونڈی کی بات کے بعد اللہ نے کنواریوں کا مسئلہ بھی حل کیا۔ فتیات سے مرادلڑکیاں ہیں جن کو مرضی سے شادی نہ کرنے دیجائے یا زبردستی سے جہاں چاہت نہ ہو وہاں شادی پر مجبور کردیا جائے۔ سعودی عرب جیسے ملک میں بھی بیٹی کی قیمت وصول کرکے اسکی مرضی کے بغیر شادی کی جاتی ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’لڑکیوں کو بغاء(زنا یا بغاوت) پر مجبور نہ کرو، اگر وہ شادی کرنا چاہتی ہوں تاکہ تم اپنا دنیاوی مفاد اس میں تلاش کرو، اور جس نے ان کو زبردستی سے مجبور کیا توان کی مجبوری کے بعد اللہ غفور رحیم ہے‘‘۔
لڑکی بغاوت کرے یا چھپ کر تعلق رکھے تو سرپرست بھی ذمہ دار ہوگا اگر لڑکی کی اسکی چاہت کے بغیر زبردستی سے شادی کردی تو اس ناجائز پر اللہ معاف کریگا۔ احادیث کو قرآن کی تفسیر میں لکھاجاتا تو معاشرے پر اچھے نتائج مرتب ہوتے۔یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ قرآنی آیات کی بھی غلط تشریح کی گئی ۔عرب آج بھی اپنی بیٹیوں کو بیچتے ہیں۔ قرآن کی یہ تعلیم نہیں کہ’’ لونڈی پاکدامن رہنا چاہے تو ان کو بدکاری پر مجبور نہ کرو، اگر مجبور کیا تو اللہ غفور رحیم ہے‘‘ پھر عذاب الیم شدید العقاب کالفظ ہوتا۔

تین طلاق سے رجوع کی درست تعبیرعلم کی روشنی میں: اداریہ نوشتہ دیوار کالم 1 صفحہ 2 شمارہ اپریل 2018

hazrat-umer-hazrat-ali-imam-abu-hanifa-imam-malik-imam-shafai-imam-hanbal-halalah-teen-talaq-triple-talaq-quran-syed-atiq-ur-rehman-gailani-ibn-e-majah-haiz-allama-ibn-e-qayyim-bakri-doodh

قرآن وسنت میں طلاق و عدت 3 طہرو حیض ہے۔تین دن کے تین روزے کی طرح طلاق 3طہراور عدت 3حیض ہے۔ حیض نہ آتا ہو تو طلاق وعدت 3 ماہ ہے۔ یہ قرآن و احادیث میں روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ سورہ بقرہ آیت 228، 229 اور سورۂ طلاق آیت1اور2میں کے علاوہ بخاری کتاب التفسیر سورۂ طلاق، کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں نبیﷺ نے یہ وضاحت فرمائی تھی۔
اُمت نے بدقسمتی سے قرآن وسنت کی طرف رجوع نہ کیا۔ مسالک کی وکالت اور تقلیدجاری رکھی ۔ شاہ ولی اللہؒ نے قرآن و سنت کی ترغیب دی۔ شاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے تقلید کو بدعت قرار دیا۔ اکابرِ دیوبند ؒ نے تائید کی اور اعلیٰ حضرت بریلویؒ کی طرف سے ’’حسام الحرمین‘‘ کے فتوے سے مقلد اور حنفی ہونے کی وضاحت کردی۔ نواب صدیق حسن خانؒ نے پھر اہلحدیث مسلک کی بنیاد رکھ دی۔
حنفی مسلک میں تقلید نہیں اس اجتہاد کی تعلیم ہے کہ امام و دیگر شخصیات تو دور کی بات ہے قرآن سے متضاد احادیث کو بھی رد کیا گیا۔ اہل حق کایہ سلسلہ قیامت تک باقی رہیگا۔ حدیث میں رضاعتِ کبیر کی آیات اور انکا نبیﷺ کے وصال پر بکری کے کھا جانے سے ضائع ہونے تک کی باتیں صحاح ستہ کی کتاب ابن ماجہ میں موجود ہیں۔ حنفی مسلک کی تعلیم نے اُمت مسلمہ کو اس حد تک گمراہی میں نہ جانے دیاتھا۔
تین طلاق پر قرآن وسنت میں کوئی ابہام نہیں۔ تین طلاق سے صرف اور صرف تین حیض کی صورت میں تین روزے کی طرح3 طہر مراد ہیں۔حمل کی صورت میں عدت کے تین مراحل ہیں اور نہ تین مرتبہ طلاق کا کوئی تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار واضح فرمایا کہ ’’ طلاق سے رجوع کا تعلق عدت سے ہے‘‘ اور یہ کہ ’’ عدت کے اندر بھی باہمی صلح واصلاح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے‘‘۔ اور یہ کہ ’’ عدت کی تکمیل پر رجوع ہوسکتا ہے‘‘ اور یہ کہ ’’ عدت کی تکمیل کے بعدرجوع اور نکاح ہوسکتا ہے‘‘۔ سورۂ بقرہ کی آیت224سے232تک اور سورۂ طلاق کی پہلی 2 آیات میں جو طلاق سے رجوع کا نقشہ ہے ،اسکے بعد یہ بات تو سمجھ میںآتی ہے کہ حلالہ کا مروجہ مسئلہ قرآن وسنت اور حنفی مسلک کے ہوتے ہوئے نہیں پروان چڑھنا چاہیے تھا مگر یہ سمجھنا ہوگا کہ مغالطہ کیسے پیدا ہوگیا؟۔ جامعہ بنوری ٹاؤن اور دارالعلوم امجدیہ کراچی کے رئیس دارالافتاء اپنی اپنی ٹیموں کیساتھ اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی و مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن اپنے نامزد کردہ افراد کو تشکیل دیں۔ انشاء اللہ ان کی تسلی بھی ہوجائے گی اور اگر نہ مطمئن نہیں کرسکا تو ان کا جوتااور میرا سر۔
احادیث صحیحہ میں ایک ایسی حدیت نہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہو کہ ’’ عدت میں بھی رجوع نہیں ہوسکتا ، حلالہ کروانے کا حکم تو بہت دور کی بات ہے‘‘ اگر بالفرض کوئی روایت ہوتی توبھی حنفی مسلک نے اپنی اصولِ فقہ کے تحت اس حدیث صحیحہ کو رد کرنا تھا اسلئے قرآن کی وضاحت کے بعد حنفی مسلک کا یہی تقاضہ ہے۔ جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن میں اکٹھی تین طلاق پر نبیﷺ غضبناک ہوئے تو غضبناک ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ رجوع نہیں ہوسکتا تھا، اسلئے کہ حضرت ابن عمرؓ کی طرف سے حیض کی حالت میں طلاق دینے پر بھی غضبناک ہوئے اور پھر رجوع کا حکم بھی دیا۔( بخاری)۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ابن عمرؓ نے تین طلاق دئیے تھے، جس سے نبیﷺ نے رجوع کا حکم دیاتھا‘‘۔بہر حال یہ بات تو قطعی طور پر ثابت ہے کہ نبیﷺ قرآن پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے غضبناک ہوئے تھے لیکن یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ ’’ اگر کوئی قرآن کیخلاف ایک ساتھ تین طلاق دیگا تو اس کی طلاق واقع ہوگی اور عدت کے بعد عورت کو دوسری جگہ شادی کی اجازت ہوگی‘‘۔ البتہ اس پر غور کرنے کی ضرورت تھی کہ اگر ایک ساتھ تین طلاق کے بعد میاں بیوی باہمی رضامندی سے رجوع پر راضی ہوں تو قرآن نے رجوع کا تعلق میاں بیوی کی رضامندی اور عدت سے جوڑ دیا ہے۔ اس روایت کی کوئی غلط تشریح کی ضرورت نہ تھی کہ نبیﷺ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی تین سال تک ایک ساتھ تین طلاق بھی ایک شمار ہوتی تھی۔ ( صحیح مسلم)۔ جب رجوع کا تعلق باہمی رضامندی سے اصلاح کیساتھ ہو تو یہ گھر کا معاملہ تھا جس کو گھر میں حل کیا جاتا۔ میاں بیوی کے درمیان تفریق کے خطرہ پر دونوں جانب سے ایک ایک رشتہ دار تشکیل دیا جاتا تھا ۔ جب معاملہ میاں بیوی اور ایک ایک رشتہ دار کے ہاتھوں سے نکل گیا اور صورت اکٹھی 3 طلاق کی تھی۔ ایک طرف لوگوں کے ذہن میں یہ بات تھی کہ دو مرتبہ طلاق کے بعد شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہے اور دوسری طرف میاں بیوی کے درمیان اکٹھی 3 پر شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ آیا تو حضرت عمرؓ نے قرآن کے مطابق ٹھیک فیصلہ دیا کہ ’’ تنازع میں ایک ساتھ تین طلاق پر رجوع نہیں ہوسکتا ‘‘۔ قرآن میں عدت میں باہمی صلح واصلاح کی شرط پر رجوع کا حق تھا۔ جب تنازعہ ہوا تو حضرت فاروق اعظمؓ نے قرآن کے عین مطابق بالکل ٹھیک فیصلہ دیدیا۔ باب العلم حضرت علی المرتضیٰؓ نے حضرت عمرؓ کا فیصلہ درست قرار دیتے ہوئے یہ واضح کردیا کہ ’’ ایک ساتھ تین طلاق پر بھی باہمی صلح سے رجوع ہوسکتا ہے لیکن تنازعہ کی صورت میں یہی فتویٰ دیتے تھے کہ شوہر رجوع نہیں کرسکتا ہے‘‘۔ خلفاء راشدینؓ نے قرآن کی روح کے بالکل عین مطابق عمل کیا تھا۔
چاروں امام ؒ نے بھی بالکل 100 فیصد درست فتویٰ دیا کہ ایک ساتھ تین طلاق نہ صرف واقع ہوتی ہیں بلکہ شوہر کیلئے رجوع کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ اگریہ فتویٰ نہ دیتے تو عورت طلاق کے بعد رجوع سے نکاح میں آتی اور زندگی بھر کسی اور سے نکاح نہ کرسکتی۔ حضرت عمرؓ ،حضرت علیؓ اور ائمہ ؒ نے قرآن وسنت کی مکمل پاسداری سے خواتین کے حقوق کی زبردست حفاظت کی ۔ کیونکہ بالا دست مردوں سے رجوع کا حق چھین لیا۔ مرد باہمی سوچ ،سمجھ ، باہوش وحواس تمام مراحل طے کرکے ایسی صورت میں بھی طلاق وعدت کے بعد دوسری جگہ شادی نہ کرنے دیتے تھے جب وہ خود رجوع بھی نہ کرنا چاہتے ہوں اور کوئی رابطہ بھی نہ رکھنا چاہتے ہوں۔ اس خاص صورتحال کی اللہ تعالیٰ نے بھرپور وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اگر اس صورت میں طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے‘‘۔ مردوں کے پاس اتنی طاقت آج بھی ہے کہ اگر وہ دوسری جگہ بسانے سے روکنا چاہتے ہوں تو عورت کو تین طلاق دینے کے بعد بھی اسکا نکاح کسی سے کروادینگے اور پھر اس کو بٹھادینگے۔ اسلئے نبیﷺ نے بہترین رہنمائی فرمائی کہ نکاح کافی نہیں بلکہ ایکدوسرے کا ذائقہ چکھ لینا بھی ضروری ہے۔حلالہ کے فتوے خواتین کی عزتیں لٹوانے کیلئے نہیں بلکہ مردوں کی بالادستی سے جان چھڑانے کیلئے تھے لیکن قرآن کی طرف رجوع ہوتا تو مروجہ حلالے کا تصور بھی ختم ہوتا۔ نورالانوار میں حنفی مسلک یہی ہے کہ ’’ اس طلاق کا تعلق متصل فدیہ کی صورت ہی کیساتھ ہے‘‘۔ علامہ ابن قیمؒ نے ابن عباسؓ کی یہی تفسیر زادالمعاد میں نقل کی ہے۔ بخاری کی حدیث میں عدت ونکاح کے بعد ذائقہ چکھ لینے کی بات ہے جس کا سورۂ بقرہ کی آیات سے کوئی ٹکراؤ نہیں اور ابوداؤد کی روایت میں تین طلاق اور عدت کے بعد حلالہ کے بغیر نکاح واضح ہے۔ قرآن واحادیث اور اصولِ فقہ کے بنیادی قواعد سے تمام مسائل کا حل نکل سکے گا۔

منظور پشتون کی تحریک سے عوام کو ریلیف مل گیا مگر سیاسی جماعتیں خوفزدہ ہیں: امین اللہ کوئٹہ

ptm-manzoor-pashtoor-wazeer-e-azam-imran-khan-pervaiz-bushra-manika-iddat-period-shah-naimatullah-wali-

نوشتۂ دیوار کے نمائندہ خصوصی امین اللہ کوئٹہ نے کہا کہ منظور پشتون مظلوموں کا قائد بن کر ابھرا ۔ محسود قوم کی حالت کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ قبائل بدترین غلامی کا سامنا کررہے تھے۔ بہت لوگ غلط و بے بنیاد پروپیگنڈہ کرکے منظور پشتون کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔عوام نے فوجی آپریشن کی مشکلات کو بھی خندہ پیشانی سے برداشت کیا تھا لیکن جب ظلم اس حد تک بڑھ گیا کہ مٹنے پر تل گیا تو منظور پشتون کو توفیق مل گئی۔ سیاسی جماعتیں اپنا وقار کھو چکی ہیں اور عوام میں کسی مقبول قیادت کی ضرورت ہے۔ خیبر پختونخواہ میں متحدہ مجلس عمل، اے این پی و پیپلزپارٹی کے بعد پنجاب کے عمران خان کو بھی حکومت مل گئی۔
تحریک انصاف میں شمولیت سے محض دوہفتے قبل ڈاکٹر عامر لیاقت نے کہا کہ ’’ عمران خان نے عدت میں شادی کی ہے، قرآن اس نکاح کی اجازت نہیں دیتا، یہ حرامکاری اور گناہ ہے۔ عمران خان قیادت کے لائق نہیں ہے‘‘۔ پھر علامہ اقبالؒ کے بقول’’ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں‘‘۔
پنجاب کی سرزمین بڑی زرخیز بھی ہے اور مردم خیز بھی مگر اسٹیبلشمنٹ نے نوازشریف اور عمران خان جیسے لوگوں کی پشت پناہی کرکے پنجاب اور ملک وقوم کا بیڑہ غرق کیا ۔ قائداعظم کی زبان بھی قوم نہیں سمجھ سکتی تھی مگرقوم کے اجتماعی ضمیر کا فیصلہ پاکستان بنانے کے حق میں تھا تو قراردادِ مقاصدکوکامیابی ملی۔ 23مارچ 1940 ؁ء میں برصغیر پاک وہند کی فوج ایک تھی لیکن قائدکی کامیاب سیاسی حکمت نے پاکستان کو وجود بخش دیا تھا۔
علماء ومفتیان کا حال یہ ہے کہ اگر عمران خان عدت میں شادی کا اعتراف بھی کرلیں تو ایک گروپ حرامکاری کہے گا اور دوسرا اس کو 100فیصد جائز قرار دیگا۔ ڈاکٹر عامر سے تو بعید نہیں کہ ’’ کہے کہ میرے ماں باپ عمران خان پر قربان ہوں ، انکا نکاح بھی عدت میں ہوا تھا، میں خود بھی عدت کی توپیداوار ہوں‘‘۔ پنجاب کی اس قیادت سے عوام کا بیڑہ پار ہوگا کہ ایک طرف عمران خان جعلی و اصلی علماء ومفتیان کیساتھ نمودار ہوکر الیکشن مہم چلائیں ۔ دوسری طرف مریم نواز اپنا شوہر کیپٹن صفدر کو قریب نہیں آنے دیگی اور کزن کیساتھ ساتھ گھومتی نظر آئے گی ۔ آخر ماجراء یہ ہے کیا؟۔ زمین و آسمان کی مخلوق پریشان ہے۔ کیپٹن صفدر کا حرمت مصاہرت کا مسئلہ بھی ہوسکتاہے جسکے بعد حلالہ پر بھی بیوی جائز نہیں بنتی ۔ علماء نے اسلام کو بگاڑ دیا۔
محترم رضا ربانی کی پونی پر قربان ہونا چاہیے اسلئے کہ ہر خاص وعام کی زبان پر آپ کی تعریف ہے۔ جناب رضا ربانی نے آنسو بہاتے ہوئے فوجی عدالتوں کو ووٹ دیا کہ ’’ یہ میری پارٹی کی امانت ہے‘‘ تو عوام نے پسندکیا۔ جب پارلیمنٹ سے ختم نبوت، الیکشن فارم سے جائیداد کی معلومات اور سب چیزیں غائب کردی گئیں اور پھر نااہلی کے خلاف سینٹ کی اکثریت کے نہ چاہتے ہوئے بھی بل منظور کیا گیا تو سینٹ کی نااہلی ثابت ہوگی ،رضاربانی اسکے بڑے ذمہ دار تھے۔ ن لیگ کی سینٹ میں اقلیت تھی تو بھی رضا ربانی نے خاصی رعایت دی یا مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا۔ تو جب ن لیگ والوں کو نسبتاًزیادہ تعداد مل گئی ہے پھر رضا ربانی کو چیئرمین بنادیا جاتا تو اسکے مزید بھیانک نتائج نکلتے۔ خفیہ رائے شماری کے فارم پر نام کا اندراج ہوا تو ضمیر وں کو مزید زنجیروں سے جکڑ دیا جائیگا۔ یہ قانون فوج نے نہیں بنایا بلکہ جمہوری تقاضہ ہے تاکہ روتے ہوئے وہ ووٹ پول کرنے پر مجبور ہونے کے بجائے اپنے ضمیر کیمطابق فیصلہ کرے۔ سیاسی جماعتوں کی مت ماری گئی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور نوازشریف بے ضمیری سے ضمیر والے ان ارکان کا فیصلہ کردیں جن کی سیاست اور نظرئیے کیلئے قربانی پر کوئی اختلاف نہیں جیسے رضاربانی صاحب وغیرہ تب بھی ضمیر والے مجبور ہوتے ہیں۔ جمہوریت کی سپرٹ کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، کارکنوں اور قائدین سے مفقود ہے۔ نوازشریف خود اداروں کے بوٹ چاٹنے کے چکر میں ہے مگر جمہوریت کے علمبردارمحمود اچکزئی، حاصل بزنجو، مولانا فضل الرحمن وغیرہ ان کی دھوتی میں چھپ رہے ہیں۔
قوم کا اجتماعی ضمیر مروجہ سیاستدانوں سے نفرت کرتاہے اور منظور پشتون جیسے نوجوان ہرقوم ، ہر صوبے ، ہر علاقے اور ہر حلقے سے اٹھیں اور یکجہتی سے ایک ایسی تحریک کا آغاز کریں کہ ہماری ریاست اور سیاست دونوں بچ جائیں۔ اب ریاست کی فکر نہیں لیکن سیاست بچانے کی فکر سیاستدان ضرور کریں۔
ہماری تجویز سے منظور پشتون وزیراعظم نہیں بن سکتالیکن پنجابی اکثریت سے کسی کو بھی وزیراعظم بناسکتے ہیں چاہے گدھا ہو ، خچر ہو یا گھوڑا۔ پہلے پنجاب میں جسے بدنام کردیا جاتا تھا وہ وزیراعظم نہ بن سکتا تھا۔ عمران اور نوازشریف نے ایکدوسرے کو جتنا بدنام کیا ، عدالت اور میڈیا پر جس طرح ایکدوسرے کے کپڑے اتارے گئے تو قوم کا اجتماعی ضمیر کسی بھی سیاستدان کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ہندوستان کی سیاست تو کانگریس، جمعیت علماء ہند اور مجلس احرار کے ہاتھوں میں تھی ۔ قائداعظم تو سرآغا خان کے منشی تھے ۔ علامہ اقبال کبھی ایک دن ملک کی خاطر جیل نہ گئے تھے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کی عوام کیلئے قائداعظم کی شکل ، زبان اور لباس کچھ بھی مانوس نہیں تھا لیکن قوم کے اجتماعی ضمیر نے سب نامانوسی کے باوجود ایک گونگی آواز کو قبول کیا۔ مولانا فضل الرحمن نری بکواس کرے کہ جمعیت علماء اسلام نے پاکستان کیلئے قربانی دی تو اس کی مرضی ہے لیکن اس جھوٹ کی حیثیت اتنی ہے کہ’’ جیسے عمران خان اعتراف کرلے کہ اس نے بشریٰ بی بی سے نہ صرف عدت میں شادی کی بلکہ نکاح سے پہلے محترمہ کو حمل بھی تھا۔ پھر اس بچے کو حرامی قرار دیتا رہے لیکن جب یہ بچہ بڑا ہوکر پاکستان کا تاجدار بادشاہ بن جائے تو مولانا فضل الرحمن کی آنے والی نسلیں کہیں کہ اس بچے کے جواز کے فتوے ہم نے دئیے تھے، ڈاکٹر عامر لیاقت کو توعمران خان ایم کیوایم سے کھینچ کر لائے ہیں، عمران خا ن کا نکاح پڑھانے والے تو ہمارے مفتی سعید خان ہیں‘‘۔ جمعیت علماء اسلام کا وجود اتنا تھا جتنا عمران خان کا مفتی سعید خان سے تعلق ہے مگر جمعیت علماء اسلام تو یہودی سازش سے لیکر الزام کی بوچھاڑ کرنے میں پیش پیش ہے۔ حقائق کو مسخ کرنا بد دیانتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن سودی نظام سے زکوٰۃ کو شراب کی بوتل پر آب زم زم کی لیبل قرار دیتا تھا اور پھر اپنوں کیلئے اس کو جنت کی شراب کو طہور کا نام دیکر پاک کردیاہے۔ یہ آدمی ہے یا پاجامہ؟۔ اسلام کیلئے کرو اسلام آباد کیلئے نہیں۔
ریاست سے عوام کو تکلیف پہنچے یا ریلف نہ ملے تو ظلم و جبر کیخلاف آواز اٹھانا جرأت و بہادری ہے۔ سیاستدانوں کے خلاف تو ہجڑے بھی آواز اٹھاسکتے ہیں لیکن فوج اور طالبان کیخلاف آواز اٹھانا بہت بہادری تھی۔ عمران خان نے طالبان اور فوج کیخلاف کبھی آواز نہیں اٹھائی۔ پرویز مشرف کے دور میں پٹھانوں کے خون بہا پر جو ڈالر کمائے۔ ان پر کراچی کی تعمیر وترقی ہوئی ۔ پختون کو گلہ نہیں، کراچی پختونوں کا بھی شہر ہے۔ پٹھان درختوں پر لٹک کر فوج کی سلیکشن کیلئے اپناقد لمبا کرنے کی کوشش کرتے تھے اسلئے پاک فوج میں زیادہ پٹھان فوج میں بھرتی ہیں۔ بلوچ قدآور سردار فوج میں جانا نہیں چاہتے تھے اور پست قد فٹ نہ ہوتے تھے۔ پنجاب کے لوگ محنت مزدوری کیلئے بلوچستان پہنچ جاتے ہیں مگر مقامی لوگ ٹف مزدوری پر آمادہ نہیں۔ ریاست سے جائز گلے شکوے سب کا حق ہے۔ مشرکین مکہ کی باقاعدہ فوج نہیں تھی، حضرت عمر فاروق اعظمؓ، حضرت امیر حمزہؓاور علی المرتضیٰؓ جیسے بہادر سپوت اسلام قبول کرچکے تھے۔ اللہ نے مکہ کو چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرنے کا حکم دیالیکن جہاد کی اجازت نہ دی۔ سیاستدان ہتھیار نہیں دماغ رکھتا ہے ۔ فوجی کے پاس ہتھیار ہوتا ہے مگر دماغ نہیں ہوتا ۔ امریکہ کے تاجرحکمران اسلحہ کی تجارت سے دنیا اور امریکہ کو تباہ کررہے ہیں۔ صدیق اکبرؓ پہلے خلیفۂ راشد بن گئے تو تجارت کو چھوڑ دیا۔ حکمران اپنی تجارت کیلئے حکومت کرتے ہیں۔ دنیا میں خلافت کیلئے جمہوری بنیادوں پر کوششوں کا آغاز کرنا ہوگا۔
پنجاب کے جس حصہ کو سب سے زیادہ ظالم اور غاصب کہا جاتاہے جو سرائیکی، پختون، سندھی، بلوچ، کشمیری ، گلگت و بلتستان اور کراچی پر حکمران تصور ہوتے ہیں انکا حال سب سے زیادہ خراب ہے۔ اپنی تسکین کیلئے 100بچوں کو مارکر تیزاب میں گلا دینے والا بھی لاہوری تھا۔ قصور کے بچوں اور بچیوں کیساتھ بھی یہاں زیادتی ہوئی اور انہیں مزید ٹارچر کیا جا رہاہے جس کی تفصیل میڈیا نے عوام کو دکھادی ۔ ریاست نے قانون کا راستہ اختیار کرنا ہوتا ہے۔ بدمعاش بہت قتل کرتاہے لیکن راؤ انوار کو ایک نقیب اللہ محسود پر کتنے مشکلات کا سامنا ہوا ہے؟۔ سید عتیق الرحمن گیلانی کے گھر پر حملہ کرنے والے قاتلوں کو مجلس عمل کی حکومت اور فوج کے افسران نے کھلی چھوٹ دی تھی۔جو مسلح آمد ورفت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ لیکن عتیق گیلانی تو سب کی خیر خواہی چاہتے ہیں اور یہ اسلام کا کمال ہے، اسلام نام ہی خیرخواہی کا ہے۔ محسود،وزیر لشکری قوم ہیں،ا نکا رخ درست طرف مڑجائے تو پنجاب کے وہ ظالم لوگ جو بچوں اور بچیوں کیساتھ زیادتی کے باوجود مظلوم کو دھمکیاں دیتے ہیں اگر منظور پشتون کے احتجاج سے فوج کی آنکھیں کھل سکتی ہیں اور عوام سے رویہ درست ہوسکتاہے تو مینار پاکستان پر مظلوموں کیلئے ایک زبردست آواز اٹھانے پر بھی قصور کے قصور وار ظالم اپنی حرکتوں سے باز آسکتے ہیں۔محسود قوم کی سب سے بڑی اور زبردست خوبی یہی تھی کہ کسی برائی کا فیصلہ کرنے کے بعد اس کا خاتمہ قومی لشکر کے ذریعے سے کرتے تھے۔ ریاست کی رٹ کو بحال کرنے کیلئے صرف وزیرستان، قبائل ، پختونخواہ، پاکستان اور افغانستان کی سطح پر نہیں بلکہ مظلوم کشمیری عوام اور فلسطینی عوام کیلئے بھی قومی لشکر میں محسود قبائل کا طرزِ عمل دنیا کو نجات دلا سکتا ہے۔احادیث صحیحہ اور شاہ نعمت اللہ کی پیش گوئی بھی ایسی ہیں۔پنجاب کی عوام بھی پشتونوں کے لشکر کا زبردست استقبال کرے گی۔

دومختلف، متضاد، متفرق کردار، ملا فضل اللہ اور ملالہ یوسفزئی: تحریر سید عتیق الرحمن گیلانی

talibanization-asma-jahangir-jmaat-e-islami-abdul-sattar-khan-niazi-mulla-fazal-ullah-malala-yousafzai

سوات پختونخواہ کے دو متضاد کردار ملافضل اللہ ، ملالہ یوسفزئی ہیں۔ ملافضل اللہ کی شریعت کے سامنے ہماری ریاست اور سیاست دونوں سجدہ ریز تھیں۔ مینگورہ میں مسلکی اختلاف کے سبب ایک مذہبی شخصیت کو قتل کیا گیا اور پھر قبر سے نکال کر کئی روز تک اس کی لاش کو چوک پر لٹکادیا گیا، یہ ایک واقعہ نہ تھا بلکہ اس واقعہ سے صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر جیسے لوگ اس ذہنیت اور ریاست کو اسکے آگے لیٹ جانے کی مخالفت کرتے تھے تو ان کو امریکی ایجنٹ کہا جاتا تھا۔ اے این پی کی حکومت آئی تو میاں افتخار حسین جیسے بہادروں نے بھی طالبانِ سوات سے شریعت کے نفاذ پر معاہدہ کیا تھا اور جب سوات کے طالبان کے بارے میں مولانا فضل الرحمان نے حکومت کی توجہ دلائی کہ طالبان اسلام آباد کے قریب پہنچ چکے ہیں تو ن لیگ کے مقبول ترین رہنما سید ظفر علی شاہ نے کہا کہ ’’ مولانا فضل الرحمن امریکہ کا ایجنٹ ہے اور طالبان کیخلاف بول رہاہے‘‘۔ آپریشن کا آغاز ہوا تو کلثوم نواز واحد مسلم لیگی رہنما تھی جس نے کھل کر کہا کہ ’’ یہ وہ طالبان نہیں جس کی ہم نے حمایت کی تھی‘‘، آپریشن کے بعد حالات بہتر ہوئے تو ملالہ کے سر میں سکول جاتے ہوئے گولی ماری گئی۔ فوج نے اس کو ہیلی کاپٹر سے پشاور پہنچادیا اور اس کو زندگی مل گئی پھر فوج نے معذوری سے بچانے کیلئے بیرون ملک بھیجا۔
کسی اور کی بات نہیں کرتا، میرا اپنا ایک بیٹا شاہین ائر میں کام کرتا ہے، وہ پہلے میرے دوست کے آفس میں تھا۔ ایک دن مجھے کہا کہ اورنگی ٹاؤن میں مہاجر پٹھانوں کے ناک کاٹ رہے ہیں، لانڈھی میں پٹھان مہاجروں کے ناک کان کاٹ رہے ہیں۔ میں نے بہت ڈانٹا کہ ’’اس طرح کی افواہوں پر موبائل فون اور تیز رفتار میڈیا کے دور میں بہت بری بات ہے، آئندہ کسی ایسی سرگرمی کا حصہ نہیں بننا‘‘۔ پھر جب ملالہ یوسف زئی کا واقعہ ہوا تو میرے بیٹے نے کہا کہ ’’ اس کو گولی نہیں لگی ،یہ بہت بڑی سازش ہے‘‘۔ میں نے کہا کہ ’’پہلے تجھے ڈانٹا تھا۔ اب پھر وہی بکواس کررہے ہو؟‘‘۔ اس نے کہا کہ میڈیا پر بات چل رہی ہے۔ میں نے غصہ میں کہا کہ میڈیا بھی بکواس کرتا ہے۔ پھر جب ملالہ یوسف زئی کا زخمی چہرہ میڈیا پر نظر آتا تھا تو میں اس سے کہتا تھا کہ اب یقین آیا ہے کہ گولی لگی ہے؟‘‘، جب واقعہ ہوا تھا تو میرے بھائی نے بھی کہا کہ ’’سازش سے ایک چھوٹی سی گولی ماری گئی ہے تاکہ اس کو آئندہ استعمال کیا جاسکے‘‘۔ میں نے اس سے بھی عرض کیا کہ یہاں بدگمانی کی ایک فضاء ہے جو ماحول میں پروان چڑھ گئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ جرم تھا۔ مولانا عبدالستار خان نیازیؒ نے داڑھی اس تحریک میں شمولیت کی وجہ سے ہی مونڈھ ڈالی تھی۔ بریلوی مکتبۂ فکر کا جو رہنما حصہ لیتا تھا اس کو اپنے مکتب کی طرف سے بھی ملامت کا نشانہ ہی بنایا جاتا تھا کہ دیوبندی گستاخان رسول قادیانیوں سے بدتر ہیں انکے ساتھ مل کر تم گمراہوں کے خلاف تحریک کیوں چلارہے ہو؟۔ جب فوج نے طالبان سوات پر تشدد کیا، ان کو ہیلی کاپٹروں سے گرانے کی خبریں آئیں تو عاصمہ جہانگیر نے طالبان کیساتھ غیر انسانی سلوک کی شدید مذمت کی۔ جب عاصمہ جہانگیر سے سوال کیا گیا کہ آپ اتنی بہادری سے حق کہتی ہیں تو ملالہ کو آپ کیوں مشورہ نہیں دیتیں کہ وہ خدمت کیلئے آئے؟ جس پر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ’’ میں اپنی عمر گزار چکی ، مجھے گولی لگے بھی تو مسئلہ نہیں لیکن ملالہ کو نہیں آناچاہیے اس کو زندگی گزارنی ہے اور یہاں اس کو مخصوص ذہنیت کی طرف سے خطرہ ہے‘‘۔ ایک طرف وسعت اللہ خان، مبشر زیدی، ضرار کھوڑو، ماریہ میمن جیسے دیانتدار صحافی تو دوسری طرف طارق پیرزادہ جیسے لوگ میڈیا کے ٹاکشوز میں اپناخیال پیش کرتے ہیں بلکہ مسلط ہوجاتے ہیں۔
وہ لوگ بھی ہیں جو نوازشریف کی طرح زندگی بھر خود اسٹیبلیشمنٹ کے گھٹنوں نے نیچے سر کے تمام بال گراتے ہیں اور انڈے جیسے سر سے یہ بات نکلتی ہے کہ ریاست نے 70سال سے سازش کی ہے۔ پاکستان بن رہا تھا تو کچھ لوگ ہندوستان کی محبت میں تقسیم ہند کے مخالف تھے۔ ہندو بھی وطن کو ماتا سمجھ کر پوجتے ہیں، وہ بھی ہندو سے متأثر تھے بلکہ وطن سے محبت کا جذبہ فطری ہوتاہے لیکن ان پر ہندوؤں کے ایجنٹ کا الزام لگایا گیا۔ علامہ اقبال نے جمعیت علماء ہند ، دارالعلوم دیوبند کے مولانا حسین احمد مدنی کی سوچ کو ابولہب کا دین قرار دیا۔ آج یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ وطن دشمنی کا سہرا بانیان پاکستان کے سر نہ باندھا جائے۔ فوج اپنا کوئی دماغ نہیں رکھتی۔ 1940میں پاکستان کے قرار داد مقاصد پیش نہ ہوتے تو پاکستان نہ بنتا۔ ایک ٹھوس لائحہ عمل کے ذریعے سے نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم اُمہ کو ایک کرنیکی ضرورت ہے

مولانا طارق جمیل اور سوشل میڈیا کی یہ تصویر: حنیف عباسی

tablighi-jamaat-haji-muhammad-usman-molana-tariq-jameel-hajre-aswad-muslim-khwateen-ragra-jannat-ki-hoor

صحابہ کرامؓ کے دور میں خواتین مساجد میں نماز پڑھتی تھیں۔ بیت اللہ میں آج بھی پنج وقتہ نماز میں خواتین کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے۔ حجر اسود کو چومنے کیلئے جم گھٹا لگتا ہے تو خواتین و حضرات مذہبی جذبات میں اجنبیت کے حدود کا بھی لحاظ نہیں رکھتے۔ صحابہؓ کے دور میں لونڈی کا پردہ نہیں ہوتا تھا اور لباس بھی بہت مختصر ہوتا تھا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اسلام کو بھی اپنے ماحول کے نرغے میں ہی ڈھالنا چاہتے ہیں۔ میڈیا ٹاک شوز میں خواتین کا نمایاں کردار ہے اور علماء و مفتیان بھی خواتین اینکر پرسن کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اسکے عادی ہوچکے ہیں اور سوشل میڈیا یا کسی اخبار میں کوئی تصویر چھپ جاتی ہے تو مذہبی جذبات کا تلاطم خیز طوفان اٹھتا نظر آتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ تبلیغی جماعت کے بانی حضرت مولانا الیاس قدس سرہ العزیز ایک بڑی شخصیت تھی جس نے اس عظیم کام کے ذریعے سے لاکھوں کروڑوں عوام کے دلوں میں کسی معاوضہ کے بغیر دینی اور روحانی جذبہ بیدار کیا۔ آج مساجد و مدارس اور خانقاہیں اسی کام کے دم سے آباد ہیں۔ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاسؒ کے انتقال کے بعد صاحبزادہ مولانا یوسفؒ کو امیر بنا دیا گیا۔ جس کا تبلیغی جماعت سے کوئی واسطہ نہیں تھا لیکن بڑے اچھے عالم دین ہونے کیوجہ سے کام کو چار چاند لگادئیے۔ پھر ایک بزرگ شخصیت مولانا انعام الحسن ؒ کو امیر بنایاگیا کیونکہ مولانا یوسفؒ کے بیٹے مولانا ہارون کی عمر بہت کم تھی۔ مولانا احتشام الحسن کاندھلویؒ مولانا الیاسؒ کے ہی قریبی ساتھی تھے جس نے ’’موجودہ پستی کا واحد علاج‘‘ کتابچہ لکھا تھا جو تبلیغی نصاب میں شامل تھا۔ مولانا احتشام الحسنؒ آخر میں اس کام کے سخت مخالف ہوگئے تھے کہ اب یہ فتنہ بن چکا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ تبلیغی جماعت میں جو غلط لوگ شامل ہوئے ہیں انکی وجہ سے جماعت بدنام ہے لیکن اس ماحول کی یہ خامی ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمن کی ایسی تصویر دیکھتے تو استغفار کرتے اور اپنے بزرگ کو دیکھا تو اس کو اللہ کی طرف سے حکمت قرار دیا یہ روش غلط ہے۔

ڈان لیکس پر ملعون نواز شریف یا جنرل راحیل شریف: قوم کو حقائق سے جلد از جلد آگاہ کیا جائے: اشرف میمن

dawn-leaks-supreme-court-ispr-GHQ-pml-panama-leaks-raheel-sharif-maloon-nawaz-sharif

نوشتہ دیوار کے پبلشر اشرف میمن نے کہا ہے کہ جنرل راحیل شریف کے آخری وقت میں ڈان لیکس کا معاملہ خبروں کی زینت بنا ۔ نواز شریف نے ایک بہت نازک وقت میں یہ الزام لگایا کہ فوج نے ہمارے خلاف ڈان لیکس کی سازش کی ہے۔ اب تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ سازش کرنیوالے نواز شریف تھے یا جنرل راحیل شریف؟ ۔ جو بھی اس سازش کی لعنت میں ملوث تھا اس کو منظر عام پر لاکر قوم کے سامنے ننگا کیا جائے۔ تاکہ پھر کسی کو اس طرح سازش کرنے کی جرأت نہ ہو۔ لوگوں میں بھوک ، افلاس ، عزتوں کے تار تار ہونے ، جان و مال کے خطرات ، ظلم و جبر اور ستم کا سارا ریکارڈ ٹوٹ رہا ہے لیکن وہ یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں کہ بڑوں میں کون ملعون ہے اور کون نہیں ؟ اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچ رہے ہیں۔ عوام کو بیوقوف بنانا بند کیا جائے اور جلد سے جلد ان تمام رازوں سے پردہ چاک کیا جائے جن کو سازشوں کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر نواز شریف نے پاک فوج کیخلاف کوئی گھناؤنی سازش کی ہے تو عوام کے سامنے اس کو بے نقاب کیا جائے اور اگر فوج نے نواز شریف کے خلاف کوئی سازش کی ہے تو اس کو بھی بے نقاب کیا جائے ۔ الیکٹرانک میڈیا کے چینل تقسیم ہیں اور اپنے اپنے ایجنڈوں پر لوگوں کو چلاتے ہیں۔نواز شریف اور سیاسی قیادتوں کا جمہوری نظام صرف اور صرف اپنے اپنے مفادات کی خاطر ہے جس سے عوام الناس کو فائدہ نہیں۔