اپریل 2018 - Page 3 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

اسٹیفن ہاکنگ کی آخری وصیت جنات اور قرآن کی تصدیق ہے: عبد القدوس بلوچ

stephen-hawking-jinnat-and-quran-sir-syed-ahmad-khan-ghulam-ahmad-pervez-science-roohaniyat-black-hole

عظیم سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کی آخری وصیت’’ زمین پر ہم اکیلے نہیں کوئی اور مخلوق بھی ہے جس سے رابطہ خطرناک ہوسکتاہے‘‘ نے قرآن کی آیات میں جنات کی موجودگی کا سائنسی بنیاد پر اعتراف کرلیا ہے۔ سرسید احمد خان سے غلام احمد پرویزتک نے سائنس کی وجہ سے جنات کی غلط اور گمراہ کن تعبیرات کی تھیں،علماء کرام نے قرآن وسنت کا تحفظ کیا ۔ ہوا یہ ہے کہ سائنس کی دنیا میں جنات کا واضح ثبوت نہیں تھا مگر سائنس نے جنات کا انکار بھی نہیں کیا تھا۔ میڈیکل سائنس نے بیماری کے علاج کیلئے جدید طریقے دریافت کئے ہیں مگر روحانی طور سے علاج کو بھی نفسیاتی علاج قرار دیا ۔ بہت سے ناعاقبت اندیش ،کم عقل ، بیوقوف اور پرلے درجے کے متعصب لوگوں نے جنات کا انکار شروع کیا، حالانکہ اگر سائنسی بنیادوں پر کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سائنس اس کی منکر ہے۔ اب بھی شاید بہت عرصہ لگے کہ جنات مادی لحاظ سے بھی ثابت ہوں مگر اسٹیفن ہاکنگ نے ایک بند دریچہ کھول دیا ہے۔ بلیک ہول پر جنکے نظریات کو دنیا مانتی ہے تو جنات کا تصور بلیک ہول کے تصور سے بہت قریب تر ہے ۔ عظیم انقلاب آئے گا۔

خادم حسین رضوی نے اربوں کے املاک کو تباہ کیا تو اسکا ذریعہ معاش کیا ہے: جسٹس فائز عیسیٰ

justice-faiz-essa-allama-khadim-hussain-rizvi-shaftaloolyari-gang-war-lashkar-e-jhangvi-imamia-asghar-khan-case-muh-kala-karna

نوشتہ دیوار کے خصوصی ایڈیٹر سید ارشاد علی نقوی نے کہا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے بڑا اچھا کیا ہے کہ ایک قومی مسئلے پر خصوصی توجہ دی ہے۔ ختم نبوت کے مسئلے پر حکمرانوں نے اپنا اعتراف جرم نہ کیا ہوتا تو ملک میں کسی قسم کا کوئی جلاؤ گھیراؤ نہیں ہوسکتا تھا۔ بدقسمتی سے اس جرم میں صرف حکومت ہی نہیں بلکہ پوری قومی قیادت بھی شریک تھی ۔ حکومت کی طرف سے راجہ ظفر الحق کو تحقیقاتی کمیٹی کا چیئر مین بھی بنایا گیا تھا اور راجہ ظفر الحق نے میڈیا پر بتایا کہ بہت ہوشیاری کے ساتھ ختم نبوت کیخلاف یہ سازش کی گئی تھی جس کو دھر لیا۔ جسٹس شوکت صدیقی نے بھی عدالت میں رپورٹ طلب کی تھی لیکن عدالت کوئی خاطر خواہ نتیجہ نکالنے کی پوزیشن میں نہیں لگتی۔ اب یہ خبر کہ علامہ خادم حسین رضوی کو گرفتار کرنیکا عدالت نے حکم دیا ہے۔ واضح کیا جائے کہ عدالتیں یہی شف شف کی رٹ لگائیں گی یا کبھی شفتالو بھی بولیں گی؟۔ پہلے ڈاکٹر فاروق ستار ، عمران خان اور جانے کون کون اشتہاری رہا لیکن عدالتوں نے ان کو گرفتار نہیں کیا۔ عوام کو اب یہ مذاق لگتا ہے کہ اشتہاری چھوٹو گینگ ، لیاری گینگ ، لشکر جھنگوی ،امامیہ والے ہیں یا کھلم کھلا جلسے جلوس کے سیاسی قائدین بھی اسی طرح کے اشتہاری ہوتے ہیں؟۔ جج ٹریفک پولیس کی طرح توہین عدالت کا پرچہ درج دیتی ہیں لیکن کیا سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اشتہاری قرار دینا ان کی توہین نہیں ؟۔ وضاحت کی جائے کہ اشتہاری کے الگ الگ اقسام ہیں یا یہ کوئی مذاق؟۔کیا سیاسی جماعتوں کیلئے امیر ترین ہونا بہت ضروری ہے تاکہ عدالتوں کے وکیلوں اور ججوں کے کام آئیں؟ ۔ اس پر تو قانون موجود ہے کہ مخصوص مقدار سے زیادہ الیکشن مہم میں پیسہ خرچ نہیں کیا جاسکتا۔سیاسی قائدین خلاف ورزی کرتے ہیں اور ججوں نے کبھی بھولے سے ان کا نوٹس بھی نہ لیا ۔ اسپیکر ایاز صادق اور علیم خان کے مقابلے میں پچاس پچاس کروڑ سے زیادہ کا خرچہ کیا گیا اور جہانگیر ترین نے ایک ارب تک کا خرچہ کیا، مگرعدالتوں نے کوئی نوٹس نہ لیاغریب سیاست نہیں کرسکتا تو براہ مہربانی آئین کے آرٹیکل کا بھی ضرور حوالہ دیا جائے تاکہ غریب غرباء سیاست میں حصہ لیکر شرمندہ نہ ہوں۔
عمران خان اور طاہر القادری نے کونسے ذرائع سے پیسہ کمایا ہے اور کیا کاروبار کیا ہے جو علامہ خادم حسین رضوی پر تنقید ہورہی ہے؟۔ ایک نواز شریف کے پاس سیاست کی سند ہے تو اس کو ISIنے رقم دی تھی جس کا فیصلہ اصغر خان کیس میں بمشکل 16سال بعد ہماری تیز رفتار عدالتوں نے کیا۔ ماشاء اللہ چشم بددور۔ اس کا بھی تاحال شرمناک عدالتوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔ افتخار چوہدری عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلٹ پروف گاڑی واپس کرنے سے بھی انکاری ہے۔ کیا مسجدوں کے امام اور خطیبوں پر انگشت نمائی اچھی روایت ہے؟۔ مسجد اور خطابت سے تو پھر بھی پیسہ مل جاتا ہے لیکن عوام کے ٹیکس پر جج عوام کو انصاف نہیں دیتے ہیں انکے منہ پر کسی دن ضرور کالک ملی جائے گی۔قرآن میں جھوٹی گواہی پر کہا گیا کہ ’’ اسکا دل گناہگار ہے‘‘۔ عدالت میں جان بوجھ کر غلط فیصلے کرنیوالوں کے چوتڑوں کو داغنے کا قانون بناناہوگا۔ عدلیہ وہ واحد ادارہ ہے جہاں ججوں کا اختلاف بھی ہوتا ہے اور غریب کو بھی داد رسی کیلئے دروازے کھلے ہوتے ہیں مگر بہت بدلنا ہوگا۔

ن لیگ پنجتن پاک ٹبر ہے: نواز شریف، مریم نواز، کلثوم نواز، شہباز شریف اور حمزہ شہباز

hazrat-umar-and-Hadith-Qirtas-panjtan-pak-tabbar-nawaz-sharif-maryam-nawaz-kulsoom-nawaz-shahbaz-sharif-hamza-shahbaz-

چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ کہا ہوگا کہ ’’حضرت عمرؓ جیسے لوگوں کی تلاش ہے‘‘۔ اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، جب حضرت نبی کریم ﷺ حدیث قرطاس لکھوانا چاہ رہے تھے تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ پھر حضرت عمرؓ کی شہادت کا وقت قریب آیا تو خلافت کیلئے ایک شوریٰ تشکیل دی اور اپنے بیٹے پر پابندی لگائی کہ وہ خلیفہ نہیں بن سکتا۔ شیعہ سمجھتے ہیں کہ اس وصیت میں نبی ﷺ حضرت علیؓ کو نامزد کرنا چاہ رہے تھے۔ ن لیگ کے نزدیک حفظ مراتب کیساتھ پانچ افراد ہیں ۔ اگر سینٹ میں انکی اکثریت ہو تو ان 52افراد کی فہرست بھی اب لوگوں کو بتادیں ۔ سینٹ الیکشن میں کامیاب نہیں ہونا تھا مگر حصہ لیا اور ناکام ہوئے تو پھر ووٹ کو عزت دینے کے بجائے تذلیل کردی

فیصل آباد کی طالبہ عابدہ کا 4 روز اجتماعی زیادتی کے بعد قتل پاکستان کے منہ پر کالک ہے: عتیق گیلانی

Rapists-murderers-of-Faisalabad-university-student-still-at-large-justice-for-abida-ptm-manzoor-pashteen-ispr-general-asif-ghafoor

چیف ایڈیٹر نوشتۂ دیوار عتیق گیلانی نے کہا پنجاب کے دل جڑانوالہ فیصل آباد میں ایک طالبہ عابدہ کو اغوا کرکے 4روز اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کرنے کی خبر تمام پاکستانی اداروں عدلیہ ، سول و ملٹری بیروکریسی ، پولیس ، سیاسی حکومتوں کے ذمہ دار افراد کے منہ پر کالک ہے۔ 4روز تک تھانے میں رپورٹ بھی درج نہیں ہوئی۔ طالبات کے احتجاجی کمیپ کو بھی پولیس نے سپوتاژ کرنے کا اقدام اٹھایا ہے۔ منظور پشتین اپنے نوجوان طالبعلم ساتھیوں کے ساتھ پختونوں کا رونا دھونا چھوڑ کر پنجاب کی غریب عوام کی داد رسی کیلئے پہنچ جائیں۔ یہ محض ایک حادثاتی واقعہ نہیں بلکہ پنجاب کے بچے اور بچیاں بدمعاش سیاسی مافیا کی وجہ سے روز روز جنسی تشدد ،بے دردی سے قتل کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اسکاتدارک کرنے کیلئے محمد بن قاسمؒ ، صلاح الدین ایوبیؒ اور محمود غزنویؒ کو قبروں سے اٹھ کر نہیں آنا ہے۔ سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ نے فرمایا کہ ’’جان پر آئے تو مال قربان کردینا ، عزت پر آئے تو پھر جان قربان کردینا اور ایمان پر آئے تو جان مال عزت سب قربان کردینا‘‘۔ پنجاب کے فرقہ وارانہ عناصر اور پختونخواہ کے جن شدت پسند طالبان نے اپنے خون سے اس چمن کو رنگین کردیا تو انکے گمان میں دین ، اسلام اور ایمان کیلئے قربانیاں دی گئیں۔ سینکڑوں سال سے حلالہ کے نام پر لوگ اپنی عزتوں کو ایمان پر قربان کررہے ہیں۔ منظور پشتون تحفظ موومنٹ کے سرگرم اور متحرک کارکن و رہنما خان زمان کاکڑ کا ایک بیان سوشل میڈیا پر دیکھا جس میں وہ پنجابی اور پختون کی جنگ اور تعصبات کیلئے بات کررہے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا سب سے گھناؤنا کردار نواز شریف جیسے لوگوں کی پیداوار ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ٹاؤٹوں نے ہمیشہ عوامی قیادت ابھرنے کے راستے روکے ہیں۔ پنجاب سے چھوٹے صوبوں اور سرائیکی کی نفرت بلاوجہ نہیں ہے۔ فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور ISPRنے حالیہ بیان میں کہا کہ ’’امریکہ کو سپر طاقت بنانے میں ہمارا مثبت کردار ہے‘‘۔ فوجیوں کو سیاست نہیں آتی۔ جن کو فوج کا ٹاؤٹ سمجھا جاتا ہے وہ دوسروں پر امریکہ نواز ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ جب تک ایسے فالتو یا پالتو ٹاؤٹوں کو لگام نہ دی جائے پاک فوج کے اجتماعی ضمیر کو درست سوچنے کا موقع بھی نہیں ملے گا ۔ کراچی میں موبائل فون چھیننے والوں کا قلع قمع ہو یا بلوچستان میں بغاوت کی سرکوبی ہو یا پختونخواہ میں طالبان کی وجہ سے عوام کا جینا دوبھر ہو، ان میں ریاست کو عوام سے بھی شکایت ہوسکتی ہے اور عوام کو ریاست سے بھی شکایت ہوگی لیکن پنجاب کے اندر جو کچھ ہورہا ہے ایسی زیادتی دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ منظر عام پر آرہی ہے۔ ایک سال میں 41بچے اپنے والدین نے بھوک و افلاس اور ٹینشن کی وجہ سے قتل کئے ہیں۔ دورِ جاہلیت سے بھی بدترین حالات دوہرائے جارہے ہیں۔ جب میرے گھر کے مرد و خواتین ، رشتہ دار ، امام مسجد ، گھر کے خادم اور مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے آفریدی ، مروت ، جٹ اور محسود مہمانوں کو بھی شہید کیا گیا تو ریاست و حکومت بھی تماشہ دیکھ رہی تھی اور محسود قوم کے قبائلی عمائدین بھی طالبان کی معافی کیلئے دہشتگردوں کیساتھ آئے تھے۔ مجھے میرے بھائی نے دلاسہ دینے کیلئے کہا کہ ’’اگر ہمارے اس واقعہ کی وجہ سے قوم کو دہشتگردی سے نجات ملتی ہے تو یہ ہمارے لئے سستا سودا ہے‘‘۔ میں نے جواب میں کہا کہ ’’پنجاب میں خواتین کیساتھ جس طرح سے جنسی زیادتیاں ہورہی ہیں ، اصل ظلم وہ ہے اور جب تک ان کو تحفظ نہ ملے ہماری حالت کبھی ٹھیک نہ ہوگی‘‘ ۔ یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں کیساتھ زیادتی ہوتی ہے ان کا جذبہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔ دنیا بھر میں دہشتگردی کا واحد واقعہ ہمارا تھا جس پر طالبان نے باقاعدہ نہ صرف معافی مانگی بلکہ مجرموں کو شریعت کے مطابق سزا دینے کا اعلان بھی کیا۔ اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طالبان نے مجھے نظریاتی طور پرمخالف سمجھ کر نشانہ بنایا اور باقی قتل و غارت انہوں نے نظریات کیلئے نہ کئے، حکیم اللہ محسود اور قاری حسین کی اپنی گاؤں میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ملک خاندان بہت شریف النفس اور گاؤں کے معتبر شخص تھے۔ جب انکو شہید کیا گیا تو انکے بیٹے نے کہا کہ میں قاتلوں کو پہچان گیا ہوں ، ان کو پکڑ کر باندھ لوں گا اور پوچھوں گا کہ تم نے یہ کیوں کیا؟۔ ملک خاندان کے بیٹے نے گاڑی اسلئے لی کہ کوئی اپنی گاڑی میں لفٹ دینے سے ڈرتا تھا۔ پھر ان کو بھی گھر کے افراد کیساتھ شہید کیا گیا جن میں ایک حافظہ بچی بھی تھی۔ محسود قوم کے اندر غیرت نہیں رہی تھی جبکہ کانیگرم کی برکی قوم اٹھ گئی اور اپنے اغوا کردہ فرد گلشا عالم خان کا طالبان کے مرکزوں میں جاکر پوچھا۔ جب طالبان پورے ملک میں تباہی مچارہے تھے تو ایک مرتبہ میرے من میں بھی بات آئی کہ اپنے گھر کے افراد کے ذریعے ان پر خود کش حملے شروع کروں اور ایک ایسی تحریک اٹھاؤں کہ محسود قوم کے تمام افراد کو جہاں کہیں بھی ملے نشانہ بنا ڈالوں کیونکہ جب وہاں لاشیں جائیں گی تو یہ لوگ خود ہی انکے ٹھکانے ختم کرنے پر مجبور ہو نگے۔ جب دوسروں پر ان کو فرق نہیں پڑتا تو قوت مدافعت کا یہ فطری طریقہ قرآن میں بھی ہے مگر ایک بھائی نے کہا کہ بے گناہ لوگ بھی مارے جائینگے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟۔ میں نے کہا کہ فتنہ ختم کرنے کیلئے لازم ہے کہ ان کو احساس ہوجائے ، گناہگار جہنم میں اور بیگناہ جنت میں چلے جائیں گے۔ دوسرے بھائی نے کہا کہ ’’ایک بے گناہ بھی مارا جائے تو میں اپنی آخرت خراب نہیں کرسکتا‘‘۔ پھر میں نے سوچا کہ نقاب پوشوں کو کون ،کہاں اور کیسے تلاش کیا جاسکتا ہے؟۔ ایک موقع پر جب طالبان نے کہا کہ تمام مجرم افراد کو ہم ماردینگے تو بھائی نے کہا کہ ہم معاف کردینگے اسلئے کہ اتنی خون ریزی ہماری وجہ سے ہو تو لوگ ہم سے بھی نفرت کرینگے۔ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ ایک بھائی نے کہا کہ اب طالبان کیخلاف جہاد بنتا ہے تو میں نے عرض کیا کہ جب ذاتی دشمنی شامل ہو تو یہ جہاد نہیں بنتا۔ جس طرح حضرت علیؓ نے کافر کو چھوڑ دیا تھا۔
یہ سب باتیں عرض کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ پختون تحفظ موومنٹ کے جوان بھڑکیاں مارنے کے بجائے اصل کام کی طرف توجہ دیں۔ مسجد کا امام اس وقت مضبوط ہوتا ہے جب اسکے پاس ایمان کی دلیل ہوتی ہے۔ حلالہ کے حوالے سے ہم نے علمی بنیادوں پر تصفیہ کردیا کہ ’’اب بے غیرتی کی ضرورت نہیں‘‘۔پختون ، پنجابی ، سندھی، بلوچ اور مہاجر علماء کرام کے ساتھ ملکر شعور کی تحریک چلائیں۔ جبری جنسی زیادتی کے خلاف اور مروجہ ریاستی و حکومتی ڈھانچہ بدلنے کی تحریک چلائیں۔ جب قوم کے سامنے خواتین اور عوام کے حقوق کی بات آئے تو سب سے پہلے مدارس ، جامعات ،اسکول کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبہ ملکر اپنا کردار ادا کریں۔ گورنمنٹ کے ملازم کی ریٹائرمنٹ 60سال پر ہوجاتی ہے ۔ قومی اسمبلی ، سینٹ ، وزیر اعظم، صدر، صوبائی اسمبلی وزیر اعلیٰ ، گورنر اور یونین کونسل و ضلع کونسل و میئر وغیرہ کیلئے بھی زیادہ سے زیادہ 60سال کی عمر مقرر کی جائے۔ زیادہ سے زیادہ 63سال کی عمر تک سرپرستی کرنیوالے عہدوں پر فائز ہونے کی گنجائش ہو۔ قرآن میں بھی ایک حد سے زیادہ عمر بڑھنے کے بعد انسان کی سمجھ بوجھ ختم ہونے کی نشاندہی ہے لیکن ہمارے ہاں حکمرانوں میں اقتدار کی ہوس کبھی پوری نہیں ہوتی۔ پاکستان میں عزتوں اور جانوں کے تحفظ کیساتھ ساتھ جو لوگ بھی ملک کو لوٹ کر لے گئے ہیں اور قرضوں کو عوام اپنے ٹیکسوں سے چکا رہے ہیں ان کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانا بھی ضروری ہے۔ میڈیا پر جرائم کی تشہیر ہوتی ہے اور سزاؤں کا کوئی رواج نہیں ہے جس کی وجہ سے روز بروز جرائم بڑھ رہے ہیں۔ فرسودہ عدالتی نظام اور بے ضمیر ججوں کو حقیقت نظر نہیں آتی.

وزیر اعظم اور چیف جسٹس ناجائز دو گھنٹے خلوت صحیحہ پر مستعفی ہوجائیں: فیروز چھیپا

supreme-court-nawaz-sharif-panama-leaks-imran-khan-dawn-leaks-saqib-nisar-memo-gate-hussain-haqqani-khalwat-e-sahiha-haq-mehr-

ڈائریکٹر فائنانس نوشتۂ دیوار محمد فیروز چھیپا نے کہا ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے میمو گیٹ پر حسین حقانی کو امریکہ سے طلب کرلیا اور کہا کہ ’’سپریم کورٹ کی عزت کا مسئلہ ہے ‘‘ جبکہ نواز شریف نے کہا کہ ’’میمو گیٹ میں پیش ہونا میری غلطی تھی‘‘۔ نواز شریف کا کھلے عام میمو گیٹ میں پیش ہونا اتنی بڑی غلطی نہیں تھی جتنی وزیر اعظم عباسی کا چیف جسٹس سے ملنا ہے۔ اس ملاقات کی حیثیت خلوت صحیحہ کی تھی جس کا فقہی مطلب یہ ہے کہ نکاح کے بعد اگر شوہر سے بیوی ایسی خلوت میں ملے کہ سب کچھ یہ آپس میں کرسکیں اس پر خلوت صحیحہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ نکاح کے بعد طلاق دی جائے اور خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو تو قرآن میں آدھا حق مہر اور عورت پر عدت فرض نہیں ہوتی۔ خلوت صحیحہ کے بعد عورت پر عدت شوہر پر پورا حق مہر فرض ہوتا ہے۔ یہ فقہ حنفی کا مسئلہ ہے جس پر زیادہ ترلوگ پاکستان میں عمل پیرا ہیں، اس خلوت صحیحہ سے اختلاف بھی ہوسکتا ہے لیکن چیف جسٹس اور وزیر اعظم کی خفیہ ملاقات کا کسی صورت میں کوئی جواز نہیں تھا۔ وزیر اعظم کھلے عام میڈیا پر نواز شریف کے کیسوں کے حوالے سے چیف جسٹس اور عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بناتا رہا اور کسی چیف جسٹس ، جج ، مجسٹریٹ تو دور کی بات ہے گاؤں کے پنچایت کے کسی رکن و سربراہ کو بھی اس طرح سے متاثرہ فریق سے خلوت صحیحہ میں ملنے کے بعد اس کی ثالثی پر اعتماد نہیں رہ سکتا۔ چیف جسٹس نا اہل نواز شریف کے وکیل رہ چکے ہیں۔ عمران خان کو گھسیٹنے کے بعد ریلیف دینا اور جہانگیر ترین کو سزا دینا ایک منصوبہ بندی لگتی تھی۔ پھر اپنے کیس چھوڑ کر سندھ حکومت کے معاملات میں مداخلت اور پھر پنجاب کے ہسپتالوں کا رُخ کرنا عدالت نہیں سیاست لگتی ہے جو اپنے سابقہ کلائنٹ نواز شریف کو بچانے اور حقائق سے توجہ ہٹانے کی بظاہر منصوبہ بندی لگتی ہے۔ حدیبیہ پیپر ملز میں ریلیف کے بعد چیف جسٹس کے ان ریمارکس کا نتیجہ بھی یہی نکلتا ہے کہ جو آپ نے نواز شریف کے حوالے سے میڈیا پر کھلے عام ذکر کئے کہ ہم تمہاری وجہ سے جن مشکلات کا سامنا کررہے ہیں وہ ہمیں پتہ لیکن یہ مشکلات وہی لگتے ہیں جو چیف جسٹس ثاقب نثار بابا رحمت بن کر اپنے سابقہ کلائنٹ کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر برداشت کررہے ہیں، وزیر اعظم سے اس خفیہ ملاقات کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں تو یہ ملک و قوم کیلئے اچھی مثال قائم ہوگی۔ وزیر اعظم کیلئے بھی استعفیٰ دینا زیادہ مناسب اسلئے ہے کہ جسکے کہنے پر ملنے گیا تھا وہ میمو گیٹ پر بھی اپنی غلطی کا اظہار کررہا ہے۔ عمران خان کی طرف سے جب چوہدری افتخار سے معافی مانگی گئی تھی پھر انکار کیا تھا تو اسکے وکیل حامد خان نے غیرت کا مظاہرہ کرکے کہا تھا کہ آئندہ عمران خان کا کیس نہیں لڑوں گا۔ اگروکیل سے زیادہ وزیر اعظم میں عزت نہ ہو تو یہ تاریخ کا سب سے بڑا الیمہ ہے۔ عمران خان کو تو بابر اعوان مل گیا جو آصف زرداری کے تقدس کی قسمیں کھاتا تھا۔ اب وہ عمران خان کی صفائی پیش کریگا۔