جون 2023 - Page 2 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

قرآن کو سمجھنے کیلئے علماء ، معاشرے اور برسراقتدار طبقے کا غیرت مند ہونا انتہائی ضروری ہے ۔جب میاں بیوی ، معاشرے،برسراقتدار طبقے اور مفتی کی غیرت ختم ہوچکی ہو تو پھر اسلام سمجھ نہیں آسکتا ہے!

قرآن کو سمجھنے کیلئے علماء ، معاشرے اور برسراقتدار طبقے کا غیرت مند ہونا انتہائی ضروری ہے ۔جب میاں بیوی ، معاشرے،برسراقتدار طبقے اور مفتی کی غیرت ختم ہوچکی ہو تو پھر اسلام سمجھ نہیں آسکتا ہے!

فحش لاہوری عورت سے بے غیرت فوجی کا نکاح اورمفتی تقی عثمانی کا ایک انتہائی بیہودہ غلیظ فتویٰ

کہاںنبیۖ کا ایلاء اور تفویض طلاق پراللہ کاحکم اور کہاںیہ بے غیرت اور بدکردار جوڑا؟

سوال میں تاریخ کے تضادات کی زبردست بھر مار ہے۔غلط اور بیہودہ مسائل پرتنبیہ کرنے کی جگہ پیسہ لے کرمرد کے حق میں عورت کا سکون تباہ کرنے کا فتویٰ دیدیا گیا؟

مسئلہ غلط سمجھنے کی بناء پر تفویضِ طلاق محقق نہ ہونے کے باوجود طلاقِ بائن کا وقوع سمجھنا۔ فتاوی عثمانی ص404تا409انتہائی بے غیرتی پر مبنی سوال وجواب

فتویٰ میں یہ تأثر ہے کہ” فوجی اپنے بچوں کی ماں پر غیرت نہیں کھاتے تو مادرِ وطن پر کیا غیرت کھائیں گے؟” اگر نبیۖ کی توہین پر غیرت نہیں آتی توپاک فوج اپنی توہین پرغیرت کھائے

مفتی تقی عثمانی واضح کردیتا کہ فحاشی کے ارتکاب کی صورت کو نبیۖ کی ذات اور ازواج مطہرات سے مشابہ قرار دینے پر توبہ کرو۔فحاشی میں طلاق ناپسندیدہ عمل نہیں بلکہ تم تو لعان کرو

کسی نے انتہائی عیاری سے سوال مرتب کرکے کچھ دے دلا کر فتویٰ لیا ہے تاکہ عوام الناس کا علماء ومفتیان پراعتماد ختم ہو ۔علماء میرے لئے نہیںبلکہ اللہ اور اسکے رسولۖ کیلئے اُٹھ جائیں

سوال : ۔ میری شادی لاہور میں24جولائی1953کو یعنی چوبیس سال قبل نجمہ خاتون سے ہوئی، نجمہ خاتون کے ماں باپ نہیں تھے۔ اپنی خالہ اور پھر خالہ کی وفات کے بعد خالہ زاد بہنوں کے پاس پرورش پائی۔ میری شادی ان کی خالہ زاد بہن کے ذریعے سے ہوئی۔ شادی سادہ طریقے پر ہوئی ۔ مہر مبلغ پانچ ہزار معجل عندالطلب قرار پایا۔ میں پاکستان ائیرفورس کا ملازم تھا، پانچ اولادیں ہوئیں، تنخواہ قلیل تھی لیکن زندگی ہنسی خوشی سے گزر ی، اس کے بعد میری بیوی نے مانع حمل دوائیں استعمال کرکے اپنے کو مزید اولاد سے بچالیا (چونکہ کالج میں داخلہ لے لیا تھا اور مزید بچوں کی پیدائش تعلیم میں مانع ہوسکتی تھی)۔
جب میری شادی ہوئی تو وہ معمولی پڑھی لکھی تھی، گھر میں پڑھانا شروع کیا۔ پہلی بچی ہونے والی تھی اُسے آٹھویں جماعت کا کورس پڑھانا شروع کیا ۔1960میں تیسرابچہ پیدا ہوا تو اس کو میٹرک کا امتحان دلوایا، وہ دو تین پرچوں میں فیل ہوگئی۔1969میں بچی میٹرک کا پرائیویٹ امتحان دے رہی تھی ، بیوی کو ساتھ پڑھایا اور دونوں کا امتحان دلادیا، خدا کے فضل سے دونوں کامیاب ہوگئیں۔ بعد میں بچی نے بی اے کرلیا اور بیوی کو طبیہ کالج کراچی میںچارسالہ کورس کیلئے داخلہ دلوادیااور میں نے یہ اس خیال سے کیا کہ اگر میں مرجاؤں تو میری بیوی کسی پر بار نہ بنے اور عزت کیساتھ اپنا پیٹ بھر کر بچوں کی پرورش و تعلیم دلاسکے۔
1965کی سترہ دن کی جنگ میں ایک دم بوڑھا ہوگیا ، جب سرگودھا سے واپس آیا تو میرے سر کے آدھے سے زیادہ بال سفیدہوچکے۔12فروری1964کو پاکستان ائیر فورس کی طرف سے میں دو، تین سال کیلئے ابوظہبی ائیرفورس میں مقرر ہوکر چلاگیا، اس وقت میری بیوی طبیہ کالج میں زیرِ تعلیم تھیں اور میں کورنگی کریک میں رہتا تھا، جانے سے قبل ناظم آباد میں کرایہ پر مکان لیکر بیوی بچوں کو منتقل کر دیا اور چلاگیا۔
1967 میں طبیہ کالج سے چار سالہ کورس مکمل کرلیا، کالج کے ایک ساتھی جو ان سے دوسال پہلے فارغ ہوچکے تھے،وہ ان دنوں کلینک چلارہے تھے اور اپنی ہونے والی بیوی کیلئے علیحدہ کلینک چلانے کا پروگرام تھا۔ ان شرائط پر کہ ان کی زیرِ نگرانی شام کے اوقات میں کلینک پر بیٹھیں گی اور وہ جلد ہی ان کو رجسٹریشن کیلئے سر ٹیفکیٹ دیں گے اور ساتھ ہی اپنی آمدنی میں سے کچھ حصہ ان کو مل جایا کرے گا۔ لہٰذا وہ بیٹھنے لگیں ، یہ تمام باتیں میری بیوی نے مجھ کو خط کے ذریعے مطلع کیں اور میں نے اجازت دیدی، چونکہ مجھے اپنی بیوی پر مکمل اعتماد تھااور میں اس کی بات پر شک نہیں کرتا تھا ،اب تک ہماری زندگی انتہائی مسرت سے گزری تھی ۔
ابوظہبی کے دورانِ قیام میں تین ہزار ماہوار بھیجتا رہا ، دو ہزار خرچ اور ایک ہزار مکان کی تعمیر یا مکان خریدنے کیلئے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ تین ہزار خرچ ہوتے رہے اور پھوٹی کوڑی بھی جمع نہ کرسکی ، اس دوران انہوں نے دوسرا مکان ناظم آباد میں کرایہ پر لیا جس کا کرایہ چار سو روپے ماہوار تھا، اس میں ٹیلیفون بھی تھا۔ مجھے یہ کہا گیا کہ ٹیلیفون سے یہ فائدہ ہے کہ مہینے میں کم ازکم ایک بار ٹرنک کال پر بات ہوسکتی ہے، میں مطمئن بلکہ خوش تھا لیکن یہ ٹیلیفون میرے لئے سب سے بڑی پریشانی کا سبب بنا ، میری بیوی نے دوستیاں بڑھانا شروع کردیں، ماں بیٹے میں جھگڑے شروع ہوگئے ، میرے بڑے لڑکے کو ان باتوں پر اعتراض تھا ، تنگ آکر لڑکے نے مجھ کو ایک خط میں ان حالات سے مطلع کیا ، میں نے لڑکے کو بہت سخت اور ڈانٹ کر خط لکھا کہ تم نے اپنی ماں کے بارے میں ایسا کیوں سوچا؟، ساتھ ہی اپنی بیوی کو بھی کافی ڈانٹ کر سخت خط لکھا، یہ بات فروری1966کی ہے لیکن میری بیوی نے مجھے اور اپنی اولاد سے اب جھوٹ بولنا شروع کردیا اور ان کی دوستی کا سلسلہ چلتا رہا ، انتہا یہ کہ انہوں نے اپنے ایک ” بھائی” کے اشتراک میں علیحدہ کلینک کھول لی اور مجھ کو انہوں نے یہ باور کرایا کہ لڑکا شادی شدہ ہے ( جوکہ غلط تھا) ، اور ایک ڈاکٹر صاحب کا لڑکا ہے ( یہ بھی غلط تھا) ، خود میڈیکل کی تعلیم حاصل کررہاہے (یہ بھی غلط تھا) ، غرض یہ کہ مجھ سے تمام باتیں جھوٹ اور غلط لکھ کر نئی کلینک کھولنے کی اجازت لے لی ، اب حالات اور خراب ہوگئے دو، دو ماہ تک خط کا منتظر رہتا ، خیرت کی اطلاع نہیں ملتی ، روپیوں کا کوئی حساب نہیں معلوم ہورہاتھاکہ ان کے پاس کتنے کس قدر رقم جمع ہوئی ہے؟۔
دوسرے لوگوں کے خطوط کے ذریعہ معلوم ہوا کہ گھر کا ہر فرد تباہ ہورہاہے، بچے سکول نہیں جا رہے ہیں اور مسلسل ناغوں کی وجہ سے ایک بچے کا نام کٹ گیا ہے۔ غرض یہ کہ نہایت پریشان کن اطلاعات ملتی رہیں، ان حالات سے تنگ آکر ایک تفصیلی خط لکھا اور اس میں ان تمام حالات کی نشاندہی کی ، ساتھ ہی ساتھ خط میں ایک جملہ محض روانی میں تحریر کردیا : ” حالات اس قدر خراب ہوگئے ہیں کہ اللہ کو جائز کاموں میں سب سے ناپسند کام طلاق نہ ہوتا تو شاید کب کا دے چکا ہوتا ، بہر حال اگر تم چاہو تومیں اس پر غور کرسکتا ہوں۔”
حسنِ اتفاق سے میں انہی دنوں تفہیم القرآن کا معالعہ کررہاتھا اور یہ بھی محض اتفاق تھا کہ اس دن جو سورت زیرِ مطالعہ تھی وہ سورہ اَحزاب تھی، جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ ۖ پر ظاہر کیا کہ اگر تمہاری بیویاں دنیا کی آسود گیاں چاہتی ہیں تو ان کو کچھ دے کر علیحدہ کردو ،اور اگر اللہ اور رسول کا قرب چاہتی ہیں تو اس کا بڑا اجرو ثواب ہے۔ جب میں نے اس کی تفسیر پڑھی تو میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑگئے اور میں یہ سمجھا کہ میرے اس مذکورہ جملے سے میں نے اپنی بیوی کو یہ حق منتقل کردیا حالانکہ قبل ازیں میرا کوئی ارادہ یا مقصد نہ تھا اور نہ بعد میں کوئی ارادہ ہوا ،اور نہ اب ہے۔ چنانچہ میں نے اس جملے کے بعد کا سارا مضمون جو زیادہ اہمیت کا حامل نہ تھا، حذف کیا اور تفہیم القرآن کی وہ تمام عبارت جو اس سورة سے متعلق تھی نقل کی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ :” میں نے محض اتفاقیہ طور پر نادانستہ یہ جملہ لکھ دیا تھا، لیکن اب پتہ چلا کہ اگر مرد ، عورت کو طلاق کا اختیار دیدے اور وہ اس کو حاصل کرنے کے بعد مانگ لے تو ایک عدد طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے اور اسکے بعد سارا معاملہ ختم ہوجاتا ہے ، لہٰذا تم کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اچھی طرح حالات کودیکھ لو، اسی لئے میں نے تم کو پوری تفسیر نقل کرکے روانہ کی ، ساتھ ہی ساتھ میں اس تفسیر کے مطالعہ کے بعد وقت معین کر رہا ہوں یعنی24جولائی1976کو رات بارہ بجے تک تم مجھ کو اپنے جواب سے مطلع کردو۔ خیال رہے کہ یہ تاریخ ہماری شادی کی سالگر ہ بھی ہے ، تمہارا جواب30،31جولائی کو مل جائے گا۔ میں بہت بے چینی سے تمہارے خط کا منتظر ہوں ۔” وغیرہ۔ اس کے جواب میں انہوں نے جو خط بھیجا اس میں اس سے متعلق جو جملہ تھا وہ اس طرح کا تھا :” آپ کو یاد ہوگا میں نے ایک بار کہا تھا کہ ہماری زندگی میں لفظ طلاق اگر کبھی مذاق میں بھی آیا تو میں سمجھوں گی کہ ہوگئی، اس خط میں تو آپ نے لفظِ طلاق سینکڑوں بار استعمال کیاہے”۔
میں نے انکے جواب سے سمجھا کہ طلاق مانگ لی ، چنانچہ میں نے ان کو خط لکھا اس میں جو جملہ تحریر تھا وہ یہ تھا :” آپ کے خط کے بموجب ایک عدد طلاق بائن واقع ہوگئی ہے ، باقی طلاقیں خود بخود وقت مقررہ پر واقع ہوجائیں گی۔ جس کی تفصیل میں اپنے پچھلے خط میں تحریر کرچکا ہوں۔” ساتھ ہی ان کو ہدایات کیں کہ اپنی رہائش کیلئے کسی جگہ کا انتخاب کرلیں، حق مہر ادا کرچکا ہوں ، پھر بھی آپ کہتی ہیں کہ نہیں ملاتو جو رقم آپ کے پاس بینک میں جمع ہے اس میں سے آپ اپنا مہر لے سکتی ہیں ، گھر کی ہر چیز آپ کی ملکیت ہے ، البتہ بچی کی جہیز کی جو چیزیں ہیں وہ اس کو دے دیںاور اگر بچوں کے کپڑے دے دیں گی تو آپ کا بڑا احسان ہوگا۔ ساتھ ہی میں نے اپنی بچی کو تفصیلی خط لکھا کہ تمہاری ماں کو میں نے محض اتفاقیہ یہ جملہ لکھا تھا اور انہوں نے فوراً طلاق حاصل کرلی ، میں ان کو زندگی کے کسی حصے میں سکون سے نہیں رہنے دوں گا ، بچوں سے پوچھ لو کہ وہ کس کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں؟ اگر ماں کیساتھ رہنا پسند نہ کریں تو ان کو میرے بڑے بھائی کے گھر پہنچادو۔
اس خط کے جواب میں23اگست کو میری بیوی کا جو خط آیا اس میں انہوں نے لکھا کہ آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ نہ تو میں نے جب طلاق مانگی تھی اور نہ اب مانگ رہی ہوں ، میں نے اس خط میں آپ کو محض ایک بات یاد دلائی تھی ،آپ ذرا ذرا سی بات کو کس قدر اہمیت دے رہے ہیں۔ میرا کون ہے اور اب میں طلاق لے کر کیا کروں گی؟۔ وغیرہ وغیرہ ۔ جب یہ خط مجھ کو ملا ، میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور نمازِ شکرانہ ادا کی ، لہٰذا24ستمبر سے پہلے13ستمبر کو میں پاکستان آیا اور باقاعدہ تعلقات زن وشوہر قائم کئے ۔
اب میری بیوی کو چند لوگوں نے یقین دلایا کہ طلاق ہوچکی ، چنانچہ میں ابوظہبی سے قیام ختم کرکے جون1977کو واپس آیا تو کچھ عرصہ بعد ہی اس نے کہنا شروع کیا کہ ہماری طلاق ہوچکی ہے اور18ستمبر1977کو بچوں اور گھر کو چھوڑ کر چلی گئی اور عدالت میں تنسیخِ نکاح کا دعویٰ بھی کردیا۔ اس کا کہنا یہی ہے کہ یہ مجھ کو طلاق دے چکے ہیں۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا واقعی ان حالات میں طلاق واقع ہوگئی یا نہیں ؟۔
تنقیح:۔ صفحہ:5کے آخری خط کشیدہ عبارت اور صفحہ:6کی شروع کی خط کشیدہ عبارت کے متعلق چند باتیں وضاحت طلب ہیں ، جن کے بارے میں آپ کی زبانی عبارت زیادہ مناسب ہے ۔ لہٰذا آپ جمعہ کے علاوہ کسی دن بھی صبح9بجے دارالافتاء دارالعلوم کورنگی کے ایریا کراچی نمبر14میں تشریف لاکر ملاقات کریں۔ والسلام بندہ عبدالرؤف سکھروی ١٦/٤ / ١٣٩٨ ھ
جوابِ تنقیح :۔1:۔ حالات اس قدر خراب ہوگئے ہیں کہ اگر اللہ کو جائز کاموں میں سب سے ناپسند کام طلاق نہ ہوتا تو شاید میںکب کا طلاق دے چکا ہوتا ، بہر حال اگر تم چاہو تو اس پر غور کرسکتا ہوں۔2:لیکن اب پتا چلا کہ اگر مردعورت کو اختیار دیدے اور وہ اسکو حاصل کرنے کے بعد طلاق مانگ لے تو ایک عدد طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے اور اسکے بعد معاملہ ختم ہو جاتا ہے ۔3:ساتھ ہی ساتھ اس تفسیر کے مطالعے کے بعد وقت معین کر رہا ہوں یعنی ٢٤جولائی ١٩٧٦ء رات بارہ نجے تک تم مجھے جواب سے مطلع کردو ۔4:آپ کو یاد ہوگا میں نے ایک بار کہا تھا کہ ہماری زندگی میں لفظ طلاق اگر مذاق میں بھی آیا تو میں سمجھوں گی ہوگئی اور اس خط میں تو آپ نے یہ لفظ طلاق سینکڑوں بار استعمال کیا ہے ۔5:آپ کے خط بمو جب ایک عدد طلاق بائن واقع ہوگئی باقی طلاقیں خود بخود وقت مقررہ پر ہوجائیں گی ،جسکی تفصیل پچھلے خط میں تحریر کر چکا ہوں۔6:آپ کو کیا ہوگیا ہے ؟ نہ تو میں نے طلاق مانگی تھی ، نہ اب مانگ رہی ہوں ،میں نے اس خط میں(سیاہ )تو آپ کو محض ایک بات یاد دلائی تھی ،آپ ذرا ذرا سی بات کو کس قدر اہمیت دے رہے ہیں اور میں اب طلاق لیکر کیا کروں گی ۔7:میں نے ان خطو ط کی نقل اپنے پاس رکھ لی تھی جو میں نے پھاڑ کر جلادیئے تاکہ ا س تلخ واقعے کی یاد پھر کبھی نہ آئے ۔8:یہ معلوم کر نا چاہتا ہو ں کہ واقعی ان حالات میں طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟۔
جواب :۔ جس قدر باتیں سوال میں لکھی گئی ہیں ،اگر وہ درست ہیں تو صورت مسئولہ میں سائل کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ سائل نے جو جملے صفحہ: 4کے آخر میں نقل کیا ہے کہ :” اگر اللہ تعالیٰ کو جائز کاموں میں سب سے ناپسند طلاق نہ ہوتا توشاید میں کب کا طلاق دے چکا ہوتا، بہر حال اگر تم چاہوتو میں اس پر غور کرسکتا ہوں” اس جملے سے تفویضِ طلاق متحقق نہیں ہوتی ،لیکن سائل نے تفہیم القرآن کے مطالعے سے غلط طور پر یہ سمجھا کہ مذکورہ جملے سے طلاق ہوگئی ہے۔ اس کی بنیاد پر جب بیوی نے خط لکھا تو سائل نے کہا کہ ”آپ کے خط کے بموجب ایک عدد طلاق بائن واقع ہوگئی ہے۔”
یہ انشاء طلاق نہیں بلکہ حکم شرعی کا غلط بیان ہے اسلئے اس سے طلاق واقع نہ ہوگی لیکن یہ جواب صرف اس صورت میں ہے جبکہ سائل نے اپنے خطوط میں یا یا زبانی انشاء طلاق کا کوئی جملہ استعمال نہ کیا ہو۔ اگر کوئی ایسا جملہ اس نے کہا یا لکھا ہو جس کا ذکر اس سوال میں نہیں تو صورت حال مختلف ہوگی لہٰذا بہت سوچ سمجھ کر اور آخرت کو پیشِ نظر رکھ کر عمل کریں۔ ھٰذا ماعندی واللہ سبحانہ اعلم فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ404تا409

___تبصرۂ نوشتہ دیوار___
قارئین عوام حضرات بالعموم اور علماء مفتیان حضرات بالخصوص اس بات کو سمجھ لیں کہ ہمارا کوئی الگ علم و فہم نہیں ہے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر مدارس دینیہ کے اساتذہ سے فقہ اور اصول فقہ کی جو تعلیم میں نے حاصل کی ہے ۔ علم النحو،اصولِ فقہ اور قرآن کے ترجمہ وتفسیر میں شیخ التفسیرحضرت مولانا بدیع الزمان سے بنیادی تعلیم حاصل کی ہے جو مفتی محمد تقی عثمانی اوردیگر بڑے علماء کرام حضرت مولانا قاری اللہ داد مدظلہ العالی کے بھی استاذ ہیںاورمزے کی بات یہ ہے کہ دورانِ طالب علمی میرے اساتذہ کرام نے درس نظامی کی تنقید پر نہ صرف میری تائید اور حوصلہ افزائی فرمائی ہے بلکہ اس امید کا بھی اظہار کیا ہے کہ میں اصلاح کرلوں گا۔ اہل تشیع کا اپنی فقہ کو حضرت امام جعفر صادق کی طرف منسوب کرنا اہل سنت کی نقل اور شیعہ مسلک کے اصول کے منافی ہے اسلئے بارہ اماموں میں سے کسی ایک طرف فقہ کی نسبت عقیدۂ امامت کا تقاضہ نہیں ہے۔
مولانا طارق جمیل نے کہا کہ کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں۔ ایک مولانا سے مسئلہ پوچھ لیا تو اس نے کہا کہ حرام ہوچکی ہے، رجوع نہیں ہوسکتا ۔ آخر کار اس شخص نے مصلے کے نیچے پیسے رکھے تو مولانا نے کہا کہ طلاق عربی کا لفظ ہے۔ جس کے آخری ق کو اس طرح سے پڑھتے ہیں۔ آپ نے کتے والا کاف طلاک کہا ہے اسلئے طلاق نہیں ہوئی ۔ بڑے مدارس کے مفتی اعظم وشیخ الاسلام کا طریقہ واردات مختلف ہوتا ہے۔ مفتی تقی عثمانی اور مفتی عبدالرؤف سکھروی کے فتوے ، تنقیح وجواب تنقیح میں کیا ہے؟، سوال وجواب اورتنقیح وجواب تنقیح خودمرتب کرکے اچھے پیسے لئے ہونگے تاکہ اس فتویٰ سے وہ شخص عورت کو تنگ کرسکے۔
اس فتوے میں اس بات کی ضرورت تھی کہ سائل پر واضح کردیا جاتا کہ
1:تم بے غیرت نے اپنی بدکردار بیوی کا معاملہ نبی ۖ اور ازواج مطہرات پر قیاس کرکے انتہائی بے شرمی کا مظاہرہ کیا، سب سے پہلے اس سے توبہ کرلو۔ قرآن کے ایلاء کا اس بے غیرتی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
2:جب کوئی عورت فحاشی میں مبتلاء ہو تو پھر اسلام نے طلاق کو ناپسندیدہ عمل بالکل بھی قرار نہیں دیا ۔
3:جب تم نے اپنی عورت پر فحاشی میں کھل کر مبتلاء ہونے کا اعلان کردیا ہے تو شریعت کا تقاضہ ہے کہ تمہارے درمیان لعان کے ذریعے سے جدائی ہو ، یا پھر اس کو طلاق دے کر فارغ کردیتے۔
4:تمہارے سوال میں وضاحت کہ ”ساتھ ہی میں نے اپنی بچی کو تفصیلی خط لکھا کہ تمہاری ماں کو میں نے محض اتفاقیہ یہ جملہ لکھا تھا اور انہوں نے فوراً طلاق حاصل کرلی ، میں ان کو زندگی کے کسی حصے میں سکون سے نہیں رہنے دوں گا ۔” سے معلوم ہوتا ہے کہ غلط بیانی سے کام لے کر تم نے اس کا سکون فتوے سے تباہ کرنا ہے۔ جب وہ تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہے تو فتوے بازی کے بجائے اس کا پیچھا کرناچھوڑ دو۔
5:سوال میں ان معاملات کی تنقیح کرتے۔ الف: عورت ماں باپ کے بغیر نسل پر الزام لگ گیا اوریہ تأثرہے کہ فوجیوں کی بیگمات کس قسم کی ہوتی ہیں؟۔ب: شوہر سے خیانت کے باوجود فوجی اس کو رکھتے ہیں۔ جس فوجی میں اپنے بچوں کی ماں کیلئے غیرت نہیں ہوگی تو وہ مادرِ وطن کے دفاع کیلئے کیا غیرت کرے گا؟۔ ج:مسلمانوںکو بے غیرتی کی تعلیم قرآن نے دی، پرویزیوں کی غلط تفاسیر میں یہی واضح طور پر موجود ہے۔ د: اس فتوے کے سوالات کی ترتیب سے یہ بھی لگتا ہے کہ یہ شخص پرویزی ہو گااور اسلام کو بدنام کرنے کیلئے یہ سوالنامہ مرتب کیا ہو اور فتویٰ فروشوں کی وجہ سے اسلام کو بدنامی پہنچائی جارہی ہو۔
6:ایک طرف یہ لکھ دیا ہے کہ”1965کی سترہ دنوں کی جنگ نے مجھے بوڑھا کردیا اور جب سرگودھا سے واپس آیا تو آدھے سے زیادہ بال سفید ہوچکے تھے” اور ساتھ ہی لکھ دیا کہ”12فروری1964کو پاکستان ائیر فورس کی طرف سے میں دو، تین سال کیلئے ابوظہبی ائیرفورس میں مقرر ہوکر چلاگیا”۔ یعنی65کی جنگ کے دوران جب تھا نہیں تو پھر17دن کے جنگ سے الو کا پٹھا بوڑھا کیسے ہوگیا؟۔ ایک طرف لکھ دیا کہ”1969میں بیوی نے میٹرک کاا متحان دیا، دوسری طرف وہ1964میں طبیہ کالج کراچی میں زیر تعلیم تھی؟۔ جو1967میں طبیہ کالج سے کورس مکمل کرکے پریکٹس بھی شروع کردی؟۔ یہ سارا جھوٹ کا پلندہ لگتا ہے جو پرویزی اور مفتی تقی عثمانی نے مل جل کر قرآن ، نبی ۖ ، مسئلہ طلاق اور اسلام کو بدنام کرنے کیلئے رچایا ہے۔ فتوے میں عورت کا نام ہے لیکن شوہر کا نہیں ہے؟۔
جس طرح بہت سارے مخلص مذہبی لوگ مولویوں کی وجہ سے قرآن وسنت سے دور ہیں ،اسی طرح سے پرویزیوں نے بھی بہت مخلص لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ ہمارا مقصد قرآن وسنت کی وہ درست تصویر پیش کرنا ہے جس کی وجہ سے بہت مختصر وقت میں دنیا کی دونوں سپر طاقتیں قیصر وکسریٰ کی حکومتوں کو شکست مل گئی تھی۔
فقہ الگ دنیا نہیں جس میں پیسہ لیکر حیلہ سازی سے عورت اور کبھی شوہر کے حق میں فتویٰ دیا جائے۔ بلکہ قرآن وسنت کے درست فہم کا نام فقہ ہے۔ اور اس کے ذریعے سے عوام کی درست رہنمائی کا نام مفتی کی اہلیت ہے۔ جب مفتی تقی عثمانی نے حاجی محمد عثمان پر فتویٰ لگایا تو اس وقت جمعیت علماء اسلام پاکستان کے دو دھڑے تھے۔ جمعیت مولانا فضل الرحمن و جمعیت مولانا عبداللہ درخواستی نے حاجی عثمان کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ یہ اظہاربھی کیا کہ ان علماء ومفتیان نے الائنس موٹرز (ٹی جے ابراہیم مضاربہ کمپنی ) سے اچھا خاصا مال بٹور کر فتویٰ دیا اسلئے کہ1970میں اکابرین جمعیت علماء اسلام کے خلاف خوب مال بٹور کر فتویٰ دیا گیا۔
ہم اپنے اساتذہ کرام کی توقعات کے عین مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے فقہ ، اصول فقہ ، قرآن اور حدیث کے ذریعے درست رہنمائی کا فرض ادا کررہے ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی کی بھی یہی خواہش تھی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

معاشرت کا نظام مسلمان درست کریں تواللہ پوری دنیا کے معاش کا نظام درست کردے گا

معاشرت کا نظام مسلمان درست کریں تواللہ پوری دنیا کے معاش کا نظام درست کردے گا

پاکستان کو ایران سستا گیس اور تیل دینے کیلئے تیار ہے، ایران سے زرداری اور مولانا فضل الرحمن نے گیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا تو یہ لکھ دیا کہ اگر پاکستان نے10سال تک معاہدے پر عمل نہ کیا تو18ارب ڈالر جرمانہ دے گا۔
سی پیک کے مغربی روٹ کازرداری اورمولانا فضل الرحمن نے چین سے مل کر نقشہ ڈالا ۔ پھر نوازشریف اور مولانا فضل لرحمن نے مغربی روٹ بدل دیا۔ اگر وہی روٹ رہتا تو اب سپلائی ہورہی ہوتی۔ عمران خان کے دور میں پراجیکٹ بند ہوا لیکن سابقہ حکومتوں کا بھی غلط کردارنظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اب جنرل عاصم منیر کی وجہ سے چین کا سی پیک بحال ہوگیا ہے اور امریکہ نے اگر اجازت نہیں دی تو بھی مجبوری میں ایران کیساتھ تیل وگیس کی سپلائی کا معاملہ پورا کرنا پڑے گا اسلئے کہ18ارب ڈالر جرمانہ ادا نہیں ہوسکتا۔ اس میں کسی کا کمال نہیں ہوگا بلکہ جس طرح مجبوری میں انسان پوٹی پیشاب کرتا ہے اور اپنی تکلیف سے نجأت پاتا ہے اس طرح پاکستان بھی نجأت پائے گا۔انشاء اللہ
پاکستان کا اصل مسئلہ قرآن وسنت اور اسلام کی طرف رجوع ہے۔ پاکستان میں اگر چہ سنی عوام اور مدارس کی اکثریت ہے اور شیعہ بہت کم ہیں لیکن قرآن و سنت کے حوالے سے جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ان میں سنیوں کا موقف بہت کمزور ہے۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا : لاتتخذوا الیہود والنصٰریٰ اولیاء ”اور یہود ونصاریٰ کو اپنے اولیاء (بااختیارسرپرست) مت بناؤ”۔ قرآن کے ترجمہ میں معنوی تحریف کی جاتی ہے کہ ” یہود ونصاریٰ کو اپنا دوست مت بناؤ”۔ حالانکہ جب یہودونصاریٰ خواتین سے شادی کی اجازت ہے تو بیوی سے بڑھ کر دوست کون ہوسکتا ہے؟۔نبی ۖ نے فرمایا :ایما المرأة نکحت بغیر اذن ولیھا فنکاحھا باطل باطل باطل ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے ، باطل ہے ، باطل ہے”۔ کیا ولی سے مراد یہاں دوست ہے کہ جس عورت نے اپنے بوائے فرینڈکی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے ؟”۔ یہود ونصاری کو اس طرح کا ولی بنانے سے منع کیا گیا ہے۔ہم نے امریکہ کو اپنا اس قسم کا ولی بنایا ہوا ہے کہ مہنگائی سے عوام مررہی ہے ، ملک دیوالیہ ہورہاہے اور سود پر سود لینے سے سب کا بیڑہ غرق ہورہاہے اور ہمیں امریکہ اجازت نہیں دے رہاہے کہ ایران سے سستا تیل اور گیس خرید سکیں۔ سب اُلو کے پٹھے ہیں اور عمران خان پہلے نمبر پر ہے۔ اگر یہ امریکہ کا غلام نہ ہوتا توIMFسے قرضہ لینے کے بجائے سولی پر چڑھ جاتا اور ایران سے تیل وگیس لے لیتا مگر اس کا باپ بھی امریکہ کا غلام تھا اور اس سے امید رکھنے والے بہت اچھے مگر سادہ طبیعت کے لوگ لگتے ہیں۔
نبیۖ نے فرمایا کہ ” جس کا میں مولا ہوں ،علی اس کا مولا ہے”۔ علماء کہتے ہیں کہ اس سے دوستی مراد ہے۔ جب ان لوگوں کو مولانا کہا جاتا ہے تو اس سے دوست مراد ہوتا ہے؟۔ اپنے معتقدین نے تو اس کو رب کا درجہ دیا ہوتا ہے؟۔
جب نبی ۖ نے فرمایا کہ ” قلم اور کاغذ لاؤ ، میں ایسی وصیت لکھ دیتا ہوں کہ میرے بعد تم گمراہ نہیں ہوگے” ۔تو حضرت عمر نے کہا کہ” ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے”۔ حضرت عمر نے آخری وقت میں کہا تھا کہ کاش ہم نبیۖ سے بعد میں آنے والے خلفاء کے نام پوچھ لیتے۔ اپنے بعد حضرت عمرنے جس شوریٰ کے افراد کو مقرر کیا تھا تو ان میں ایک بھی انصاری صحابی نہ تھا۔ جنہیں کہا گیا تھا کہ ہم امیر بنیں گے اور تم مشیراور وزیر بن جاؤ۔ ان سے یہ وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ بے سروسامانی میں جن انصار ومہاجرین نے مدینہ کی بھرپور حفاظت کی تھی، پھر وہ وقت آیا کہ دنیا بھر کو فتح کرنے والے مسلمان اتنے کمزور ہوگئے کہ حضرت عثمان کا40دن تک محاصرہ کیا گیا اور شہید کیا گیا۔ یہی وہ حضرت عثمان تھے جن کی شہادت کی جھوٹی افواہ پر بیعت رضوان لی گئی تھی اور نبی ۖ اور صحابہ احرام کے لباس میں عمرہ کرنے گئے ،جنگ کا وہم وگمان بھی نہ تھا۔ پھر صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوا۔ اگر یزید تک بات پہنچنے سے پہلے حضرت علی کی ولایت قبول کرلی جاتی تو اسلام کی بلڈنگ اتنے کم عرصہ میں اس حدتک نہ پہنچتی کہ حضرت عثمان مسندخلافت پر شہید اور حضرت علی کو مدینہ چھوڑ کر کوفہ کو دارالخلافہ بنانا پڑا تھا۔
اگر یہی سنیت اور حنفیت ہے کہ نبیۖ کی حدیث قرطاس کی وصیت کو غلط رنگ میں پیش کیا جائے اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے اپنے بعد والوں کیلئے نامزدگی اور شوریٰ کو درست مانا جائے تو اس پر کسی کا دل کبھی بھی مطمئن نہیں ہوگا اور پھر یہ ہے کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں ہے ۔نبی ۖ کی حدیث کو رد کردیا جائے اور علماء کے اس فتوے کو مان لیا جائے کہ عجم نسل کی کوئی اوقات نہیں ہے ، عرب نسل کی بیٹی اگر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گی تو اس کا نکاح منعقد نہ ہوگا۔ اور جس قرآن کیلئے حدیث کو نہیں مانا جاتا ہو ، اپنے اچھوت ذہنیت کے فتوے کیلئے اس قرآن کو مسترد کردیا جائے اور یہی سنی اور حنفی مذہب کہلائے تو میں اس مذہب پر ہزاروں لعنت بھیجتاہوں۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ بھی کہ عجم نسل کی لڑکی کو اغواء کرکے زبردستی سے ڈرادھمکاکر نکاح کیا جائے تو یہ شرعی نکاح منعقد ہوگیا اور اب لڑکی یا اس کے رشتہ دار خلاصی چاہتے ہوں تو اس کا واحد راستہ یہی ہے کہ اغواء کار سے طلاق لی جائے؟۔
آزادی کے بعد انگریز کے خلاف لڑنے والے قومی ہیروز خان عبدالغفار خان ، سیدعطاء اللہ شاہ بخاریاور قربانی دینے والے مقامی لوگ عتاب کا شکار تھے اور انگریز سے سر، خان، شمس العلماء ، جائیداد حاصل کرنے والے درگاہوں کے پیر اور انگریز کے ملازم ملک کے مالک بن گئے۔ جس مرزاغلام احمد قادیانی دجال نے نبوت، مسیح ومہدی کا دعویٰ کرکے انگریز کے خلاف جہاد کو منسوخ قرار دیا تھا ،اس کا نمائندہ سرظفراللہ خان یہاں کا وزیرخارجہ بن گیا۔ جس نے جہاد کو منسوخ قرار دیا تھا اس کی ذریت نے فوج اور سول بیورو کریسی میں پرویزیوں نے خاصی طاقت حاصل کرلی۔ یہ درپردہ مسلمانوں کے دشمن ہیں جس کی وجہ سے پنجاب کی بدنامی ہوئی۔ ان کے ہاتھ میں میڈیا، فوج اور عدلیہ کے جج کھیلنے لگے۔ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر چڑھادیا۔ علماء حق کا ناحق خون کیا اور فرقہ واریت کی دکانیں کھول کر مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر خون خرابہ کردیا۔
مولانا سید عبدالمجید ندیم کا بیٹا شہید کیا گیا تو ہم ملتان تعزیت کرنے گئے۔ ندیم صاحب نے کہا کہ پہلے دوسرے فرقوں کے مشائخ استعمال ہوتے تھے اور اب سب سے زیادہ دیوبندی علماء ومفتیان استعمال ہوتے ہیں۔ نظریاتی طبقہ بالکل ختم ہوکر رہ گیا۔ دین و دلیل کو ماننے والے اکابر مٹی میں چل دئیے اور سازشی عناصر نے مدارس، مذہبی جماعتوں اور خانقاہوں پر قبضہ کرلیاہے لیکن اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔علامہ سیدمحمد یوسف بنوریکیلئے بڑی اہم شخصیت علامہ سیدانور شاہ کشمیری کی تھی۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے فرمایا کہ میں نے ساری زندگی فقہ کی درس وتدریس میں ضائع کردی۔ علامہ انورشاہ کشمیری کیلئے شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی شخصیت آئیڈیل تھی۔ شیخ الہند نے مالٹا کی جیل میں نتیجہ نکالا تھا کہ درسِ نظامی میں قرآن سے دوری اور فرقہ واریت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور اسی تعلیم وتربیت کے نتیجے میں امت مسلمہ زوال کا شکار ہے۔
مولانا یوسف لدھیانوی شہید کی کتاب ” عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” مارکیٹ سے غائب کردی گئی ہے۔ جس میں علماء ، مفتیان ، مذہبی طبقات، حکمرانوں، عوام الناس اور سبھی کا ایک زبردست آئینہ پیش کیا گیاہے۔ سازشی عناصر اپنے اپنے چہرے کا عکس اس آئینہ میں دیکھ کرگھبرا اٹھے ہیں اور اس کو مارکیٹ سے غائب کرنے اور شائع نہ کرنے دینے میں اپنی عافیت سمجھ بیٹھے۔
نکاح وطلاق کے معاشرتی نظام کو اسلام کے مطابق پیش کیا جائے تو لعنتوں کا خاتمہ ہوگا۔ عورت کو حقوق مل جائیں گے تو مردوں کا بھی بھلا ہوگا۔ مدارس و مساجد میں اسلام کی درست تعلیمات پیش کی جائیں تو علماء کی حیثیت انبیاء کے وارثوں اور اولیاء اللہ کی بن جائے گی۔اقتدار اور اسلام ایک دوسرے سے پھر زبردست مربوط ہوں گے۔ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی قدرو منزلت سے انکار نہیں مگرباب العلم اور بہترین قاضی کو مشاورت اور اقتدار سے دور رکھا گیا تو صحابہ کرام کی موجودگی میں یزید نے تخت خلافت کا مسند سنبھال لیا اور بنوامیہ اور بنوعباس کے دور اقتدار میں علماء حق سے کیا سلوک روا رکھا؟۔ امام ابوحنیفہ ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل بادشاہوں کے تشدد کی وجہ سے مقبولِ عام بن گئے۔ ان سب کا یہ اتفاق تھا کہ زمین کو مزارعت پر دیناسود ہے۔ پھر کس طرح احادیث کی کتب میں یہ روایات آگئی تھیں کہ آل ابوبکر، آل عمر اور آل علی مزارعت پر زمین دیتے تھے۔ جب رسول اللہ ۖ سے مرفوع احادیث میں منقول ہے کہ سود کی آیات نازل ہونے کے بعد رسول اللہ ۖ نے مزارعت کو سود قرار دیکر اس پر پابندی لگادی تھی اور اس کی وجہ سے مدینہ کے کاشت کار اور بازار ایک ترقی یافتہ شہر کا منظر پیش کررہے تھے۔ ایک صحابی نے نبی ۖ سے عرض کیا کہ ایک لڑکی سے باقی سب کچھ کرلیا ، صرف دخول نہیں کیا تو نبی ۖ نے فرمایا کہ چھوٹے گناہ نماز سے معاف ہوتے ہیں۔ ایک صحابی نے دخول کا بھی اعتراف کیا تو نبی ۖ نے نماز کا وقت ہونے کی وجہ سے پہلے نماز پڑھ لی اور پھر فرمایا کہ نماز کی وجہ سے تیری توبہ قبول ہوئی۔ جب ایک شخص سزا کیلئے خود حاضر ہو تو یہ بھی توبہ ہے کہ آئندہ غلطی نہ کرے گا۔ حضرت عمر نے کہا کہ اس نے اعتراف جرم کیا۔ نبیۖ نے فرمایا کہ رہنے دیں،اس نے توبہ کی۔
حضرت عمر کے دور میں جب مغیرہ بن شعبہ کے خلاف چار گواہ پیش ہوئے تو حضرت عمر نے ان گواہوں کو ٹالنے کی پوری کوشش کرلی اور آخری گواہ کو ٹیکنیکل بنیاد پر رد کیا اور پھرپہلے تینوں کو حد قذف80،80کوڑے بھی لگادئیے۔ چونکہ حدود کا جاری کرنا معمول کا حصہ نہ تھا اورپہلے تورات کے مطابق شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنے اور سال کیلئے جلاوطن کرنے کا حکم تھا ۔ جو قرآن کی سورۂ نور میں100،100کوڑے لگانے سے واضح ہوگیا تھا کہ تورات کا حکم تحریف شدہ ہے۔ اگر حضرت عمر کے دل میں سنگساری کا حکم نہ بیٹھا ہوتا تومغیرہ بن شعبہ پر100کوڑے کی حد جاری کرتے، گواہوں کو80،80کوڑے نہ لگواتے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عمر نے کہا ” اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کردیا ہے تو میں اس کو قرآن میں لکھ دیتا”۔ لیکن حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ شادی شدہ کیلئے رجم اور بڑے کو دودھ پلانے کی دس آیات نبی ۖ کے وصال تک موجود تھیں اور پھر بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوگئیں۔( ابن ماجہ شریف) دونوں روایات میں بہت بڑا تضاد ہے۔
نبی ۖ نے ازواج کو اپنے بعد حج سے منع کیا ۔ حضرت عائشہ کے گھر کی طرف اشارہ کیا کہ فتنہ یہاں ہے۔ (بخاری)۔ حضرت عائشہ سے فرمایا کہ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا کہ حوائب کے کتے آپ پر بھونکیں۔ فرمایا: وہ لشکر فلاح نہیں پاسکتا جس کی قیادت عورت کررہی ہو۔ (بخاری) ان احادیث صحیحہ کے علاوہ حضرت علی کے حق میں بھی واضح احادیث تھیں لیکن معاملہ اتنا گھمبیر تھا کہ ساری احادیث کو ایک طرف رکھ کر حضرت عائشہ نے علی سے جنگ شروع کردی اور یہ سمجھ لیا کہ شہادت عثمان کی افواہ پربیعت الرضوان کا معاملہ ابھی برقرار ہے۔ قرآن کی بنیاد پر احادیث صحیحہ کو مسترد کیا گیا لیکن جب شکست کھالی تو حضرت عائشہ نے اپنی غلطی کا برملا اظہار فرمایا۔ امام خمینی ایک شیعہ عالم دین تھا اور اس نے سنی و شیعہ کو اکٹھاکرکے شاہ ایران کی بادشاہت کو زیروزبر کردیا لیکن اپنی اولاد کیلئے موروثی عہدے نہیں چھوڑے۔ مولانا سیداابولاعلیٰ مودودی سید تھے تو جماعت میں بیٹے یا بیٹی کو وارث نہیں بنایا۔ مولاناسید محمد یوسف بنوری نے اپنا پہلاجانشین پختون، دوسرا مہاجربنالیا اسلئے کہ سید تھے۔ مولانا الیاس میواتی تھے، ان کے بیٹے کا تبلیغی جماعت سے کوئی تعلق نہ تھا مگر اس کے باوجود اس کے خلیفہ اور دیرینہ جماعتی ساتھی مولانا احتشام الحسن جانشین نہیں بن سکے۔ آج مولانا الیاس کے پڑپوتے اور تبلیغی جماعت کی شوریٰ آپس میں تقسیم ہیں۔
ہمار ے مرشدحاجی محمد عثمان نے جن مریدوں اور علماء کو خلافت دی تھی تو ان کے بارے میں مجھے پہلے بھی احساس تھا کہ سب نااہل ہیں۔جاہل مریدوں کی اعتقادی حالت بھی درست نہیں تھی اسلئے جب خلفاء نے دھوکہ دیا تو میں نے کہا کہ اچھا ہوا کہ یہ جاہل بھاگ گئے ، ان کا اعتقاد درست ہوگیا،جو یہ سمجھتے تھے کہ حاجی عثمان اس وقت بھی ان کو دیکھتے ہیں جب وہ بیوی سے مباشرت کرتے ہیں اور جب قریبی لوگوں نے دھوکہ دیا تو بھلے بھاگ گئے مگر اعتقاد تو درست ہوا۔
حاجی عثمان نے اپنی بیگم، بیٹے، بیٹیوں اور داماد کو خانقاہ کے قریب نہیں آنے دیا۔ ان کو قید کیا گیا تو داماد نے حال نہ بتایا۔ کریم بھائی نے پوچھا کہ حضرت جی کا کیا حال ہے ؟۔ کہا ٹھیک ہے۔ کریم بھائی نے پکڑا کہ یہ سازش ہے۔ پھر سب کو بتانا شروع کردیا۔ حاجی عثمان نے اپنی وفات سے قبل مجھے منع کیا کہ کسی کے ہاتھ کا کچھ نہیں کھانا، خاص طورپر دامادوں کا فرمایا۔ ایک موقع پر دامادمنصور کا کہا کہ ”یہ ظالم اور ڈاکو ہے”۔ حاجی عثمان کی وفات کے بعد عارف بھوجانی کو شک تھا کہ دامادوں نے زہر کھلادیاہے۔ کریم بھائی نے یاسین کے بھائی یونس سے کہا کہ ”ہمیں ان پر شک ہے اور پان بھی کھلاتے ہیں”۔ ہم نے شک کا کھیل ختم کیاتھامگر قلندر ہر چہ گوئید دیدہ گوئید ۔ ظالم اور ڈاکو والی بات درست تھی اسلئے کہ گینگ بنایا جو فتنہ تحقیق پر چلتا ہے ۔ ہم نے قرآن وسنت کی تعلیم مسجد الٰہیہ، مدرسہ محمدیہ ، خانقاہ چشتیہ، خدمت گاہ قادریہ اور یتیم خانہ سیدنا اصغر بن حسین اور پوری دنیا میں اسلام کی بلڈنگ پاکستان سے کھڑی کرنی ہے۔انشاء اللہ۔ جب تک ان کی فرقہ پرستی کی ہوا نہ نکال دیں تو یہ اُلو بادمخالف سے گھبرائیںگے ۔ بارہ امام آئندہ آئیں گے اور شیعہ سنی اول تاآخر سب پر بالکل متفق ہوجائیں گے۔ قادیانی اور پرویزی متفق ہیں کہ حضرت عیسیٰ کا باپ نعوذباللہ یوسف نجار تھالیکن قرآن میںاس کی واضح نفی ہے۔ اسرائیلی یہودی قادیانیوں و پرویزیوں کو اسلئے سپورٹ کریںگے کہ مسلمان وعیسائی اس فتنے کا شکار ہوں گے۔اس دو دھاری تلوارسے مسلمان و عیسائی دونوں کے مذہبی عقیدے کاخاتمہ کیا جارہا ہے۔
نبیۖ کی ازواج اُمت کی امہات ہیںاور نبی ۖ کا مال وخلافت سب کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ حضرت عائشہ نے اپنے حجرے میں حضرت حسن کے دفن کی اجازت دی مگر مروان بن حکم نے روک لیا۔ صحابہ ، جوانانِ جنت کے سردار امام حسین کی موجودگی میں یزید کو خلافت دی گئی اور جو ہوگیا سوہوگیا ۔ لیکن اب اپنی خواتین کی عزتوں کو حلالہ سے تار تار ہونے سے بچالیا اور جبری نکاحوں کا تصور ختم کرلیا تو بھی بہت بڑی غنیمت ہے۔ وزیرستان کی کہاوت ہے کہ جو برتن ٹوٹ چکے ہیںوہ میں نے چھوڑ دئیے مگر جو رہ گئے ہیں ان کو تومت توڑیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

راشدہ کا شوہر3سال سے لاپتہ،کیا اپنے تحفظ اور بچوں کی کفالت کیلئے نکاح کرسکتی ہے؟

راشدہ کا شوہر3سال سے لاپتہ،کیا اپنے تحفظ اور بچوں کی کفالت کیلئے نکاح کرسکتی ہے؟

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان عظام قرآن و سنت کی روشنی میں
میرا شوہر تین سال قبل سمندر میں ماہی گیری کے دوران انڈین آرمی کے ہاتھوں گرفتارہوچکا تھا ،اس وقت سے لیکر آج تک اس کے زندہ ہونے یا مرنے کی کوئی خبر نہیں ہے ، میرے5بچے بھی ہیں ،ان کی کفالت میرے لئے بہت مشکل ہوچکی ہے۔میں خلع اختیار کرکے دوسری جگہ شادی کرنا چاہتی ہوں۔ تاکہ شرعی حدود میں رہ کر اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کرسکوں۔
جناب میں ایک عورت بہت ہی بے کس اور غریب ہوںاور خلع کیلئے کیس فائل کرنے کی میرے پاس استطاعت نہیں۔ لہٰذا میرے خلع کے بارے میں قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت جاری فرمائیں۔آپکی بڑی نوازش ہوگی۔
از طرف : راشدہ بنت نور عالم سکنہ محمدی کالونی ماڑی پور روڈ کراچی

الجواب: قرآن وسنت میں عورت کو خلع کا حق حاصل ہے جس طرح مرد کو طلاق کا حق حاصل ہے۔ خلع اور طلاق میں حقوق وفرائض کا فرض ہے۔ عورت جب اپنے شوہر سے شادی کرلیتی ہے تو اس کا نان ونفقہ ، رہائش، بچوں کی تعلیم و تربیت اور سارا خرچہ شوہر پر اپنی حیثیت اور بیگم کے حالات کے مطابق فرض بن جاتا ہے۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کا سب سے بڑا کارنامہ اور کریڈٹ یہ ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی اور مفتی محمد شفیع تک کے علماء وفقہاء نے واضح کیا تھا کہ ” بیوی کے علاج معالجے کا خرچہ شوہر کے ذمے نہیں ہے اور مفتی تقی عثمانی نے یہ وضاحت کی کہ” میرے خیال میں بیوی کا علاج شوہر کے ذمہ ہونا چاہیے”۔

___زوجۂ مفقود کا حکم___
سوال : ایک بیوی کا شوہر تقریباً دوسال سے نہیں ہے کچھ پتہ نہیں چلتا، اب یہ بیوی نان نفقہ کی وجہ سے کسی دوسرے آدمی کے ساتھ نکاح کرسکتی ہے یا نہیں؟
جواب : صورت مسئولہ میں مذکورہ عورت کی خلاصی کی صورت یہی ہے کہ وہ عورت کسی مسلمان حاکم کی عدالت میں نان ونفقہ نہ ہونے اور مبتلا بالمعصیة ہونے کے اندیشے کی بناء پر فسخِ نکاح کا دعویٰ دائر کرے ۔ عدالت شوہرمذکورہ کو حاضر ہونے پر مجبور کرے ۔اور اگر ثابت ہوجائے کہ وہ نہیں آتاتو اس کی طرف سے یہ عورت کو طلاق دیدے، اس کے بعد عورت عدت طلاق گزار کردوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔ اگر عدالت مذکوہ بالا کاروائی کرلے تو اس کا فیصلہ شرعاً نافذ ہوگا۔ہاں ! دعویٰ دائر کرنے میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ خلع یا شوہر کے مفقود ہونے نہ ہونے کا دعویٰ نہ ہو، بلکہ شوہر پر نان ونفقہ ادا نہ کرنے کا دعویٰ ہو کیونکہ خلع اور مفقود کے دعوؤں سے متعلق موجودہ عدالتیں جو فیصلے کررہی ہیں ان میں شرعی شرائط کا لحاظ نہیں رکھا جاتا ۔ واللہ سبحانہ اعلم احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
الجواب صحیح بندہ محمد شفیع فتاوی عثمانی جلد دوم صفحہ457
جب عورت علماء کی تفاسیر میں پڑھتی ہے کہ شوہر کو چار شادیاں کرنے کی اجازت اسلئے ہے کہ ایک کو حیض ہوگا تو دوسری سے شہوت پوری ہوگی اور دو کوحیض آئے تو تیسری اور تین کو حیض آئے گا تو چوتھی سے شہوت پوری ہوگی اور ایسا تو نہیں ہوگا کہ بیک وقت چار بیویوں کو حیض آئے لیکن عورت کو برسوں تک ترسانے کے باوجود بھی خلع کی اجازت نہیں دیتے۔ کیا یہی فطری دین ہے؟۔
علماء ومفتیان نے اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے فتوؤں میں عجیب وغریب انداز اپنانے کی کوشش کی ہے۔ اصل معاملہ مفقودالخبر اور خلع کا ہے اور اس کو طلاق کی صورت دی جارہی ہے ۔ کیا جھوٹ پر مبنی بیانیہ مسئلے کا حل ہوسکتاہے؟۔
ومن اوتی الحکمة فقد اوتی خیر کثیرًا” اورجس کو حکمت دی گئی تو اس کو خیر کثیر دیا گیا”۔(القرآن) من یرید اللہ بہ خیرًا یفقہہ فی الدین ”جسکے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ دیتا ہے”۔( حدیث)
حکمت اور فقہ ( سمجھ) کی دَین (عطائ) اللہ کی طرف سے ہی ہوتی ہے۔ جس کو حکمت دی گئی اس کو خیر کثیر سے اللہ نے نواز دیا اور جس کیساتھ بھلائی کا ارادہ کیا تو اس کو دین کی سمجھ دے دی ۔ اگر مدارس،تبلیغی جماعت اور خانقاہوں میں حکمت اور فقہ یعنی دین کو سمجھنے کی تعلیم ہوتی تو بہت زبردست اثرات اس کے مرتب ہوسکتے تھے۔ افسوس یہ ہے کہ مدارس میں بھی فقہ کے نام پر قرآن وسنت کی جگہ بھول بھلیوں کی تعلیم دی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں ان مراکز کو دین کی خدمت سے زیادہ اپنے دنیاوی مفادات کے تحفظ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور پھر نتیجے میں قرآن وسنت اور مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہوتی ہے اور یہ لوگ مدارس کو تجارت کے مراکز بناکر دنیا کی شادابی کا مزہ لیتے ہیں۔
بشری بی بی نے خاور مانیکا سے خلع لیا تو اس پر کیا نان ونفقہ نہ دینے کا الزام تھا؟۔ جب علاج شوہر کے ذمہ نہ ہو تو کیا عورت محنت مزدوری کریگی یا پھر یاری دوستی سے کام چلائے گی؟۔ خدا غارت کرے ، ان مذہب فروشوں نے دین کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ رسول اللہ ۖ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ مجھے اپنے شوہر سے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں ہے اور میں اس سے خلع لینا چاہتی ہوں۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” وہ باغ جو اس نے آپ کو دیا ہے وہ واپس کرسکتی ہو؟”۔ اس خاتون نے عرض کیا کہ اور بھی بہت کچھ۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ”اور کچھ نہیں” ۔ چنانچہ نبیۖ نے اس کو طلاق دینے کا حکم فرمایا اورباغ اس کا واپس کردیا۔ یہ حدیث قرآن کی سورہ النساء آیت19کی تفسیر میں لکھنے کی ضرورت تھی۔ جس کو سورۂ بقرہ کی آیت229کے ضمن میں احادیث کی کتب میں لکھ دیا گیا ہے۔ حدیث سے واضح ہوتاہے کہ قرآن کے مطابق جب عورت خلع لینا چاہتی ہو تو اس کو غیرمنقولہ جائیداد باغ وغیرہ واپس کرنے پڑتے ہیں مگر کپڑے ، زیورات اور منقولہ اشیاء میں سے بعض چیزیں بھی شوہر کو واپس لینے کا کوئی حق اور اختیار نہیں اور نہ عورت کو زبردستی سے نکاح میں رکھنے کا اختیار ہے۔ کاش قرآن و سنت کی تعلیم کو مسلمان معاشرہ اپنے ماحول کا حصہ بنادیتا اور قرآن کے مطابق بار بار طلاق کے باوجود باہمی رضا مندی سے رجوع کا اختیار مل جاتا اور عورت کو خلع کا پورا پورا اختیار حاصل ہوجاتا تو مظلوم خواتین کی چیخوں سے عرش لرزتا نظر نہ آتا۔ یہ محاورے کی زبان ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب فرشتے زمین میں انسان کی حالت دیکھتے ہیں اور ان کو عذاب کی اجازت اللہ نہیں دیتا ہے تو قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے ۔ پھر فرشتے اہل زمین کی مغفرت اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی نے اپنے ”آسان ترجمہ قرآن ” کے حاشیہ پر اس کی تفسیر میں لکھ دیا ہے کہ فرشتے اتنی بڑی تعداد میں عبادت کرتے ہیں کہ آسمان ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ایسے کم عقل لوگوں کو سود کے جواز کی وجہ سے شیخ الاسلام بنادیا ہے ۔ عوام پر اسلام کے نام سے ظلم کرنا چھوڑ دیاجائے، ورنہ عذاب آسکتا ہے اور اس سے بڑا عذاب کیا ہوگا کہ غلط فتوؤں کے پول کھل رہے ہیں؟۔
راشدہ بی بی کا شوہر موجودہوتا تو بھی اس کو خلع لینے کا اختیار تھا۔ عدالت کا مقصد شریعت کا تقاضہ پورا کرنا نہیں ہوتاہے بلکہ دنیاوی طور پر حقوق کے تحفظ کی ضمانت دینا ہوتا ہے۔ جس طرح شوہر کو طلاق کا حق حاصل ہے ،اسی طرح اس عورت کو بھی خلع کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ خلع کی عدت بھی صرف ایک ماہ ہے اور صحیح حدیث میں اس کی بھرپور وضاحت ہے۔ وہی فقہ حنفی معتبر ہے جو قرآن وسنت کے مطابق ہے۔ باقی چوں چوں کا مربہ مولوی اپنے پاس رکھیں۔
خلع اور طلاق میں حقوق اور فرائض کا فرق ہے۔ خلع کی صورت میں بیوی کو شوہر کے گھر سے نکلنا پڑے گا اور غیرمنقولہ جائیداد سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ طلاق کی صورت میں منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کی مالک عورت بن جائے گی اور طلاق و خلع کی صورت میں بچوں کا خرچہ بھی شوہر ہی کے ذمہ ہوگا۔
قرآن میں ایک ایک مسئلے کی بھرپور رہنمائی اورزبردست حل موجود ہے اور اس کیلئے عدالتوں میں خرچہ اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر مرد یہ دعویٰ کرے کہ وہ طلاق نہیں دیتا ہے یا اس نے طلاق نہیں دی ہے تو پھر عدالت ہی یہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ عورت کو خلع کے حقوق ملیں یا پھر طلاق کے؟۔ راشدہ بی بی کے شوہر کا اگر کوئی مکان یا جائیداد ہے اور وہ اتنے طویل عرصہ سے غائب ہے اور اس کی مجبوری ہے کہ وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں ادا نہیں کرسکتا ہے اور اس کی بیگم اپنے اور اپنے بچوں کے اخراجات کیلئے مجبور ہے اور کسی اور شخص سے شادی کرنا چاہتی ہے تو یہ اس کا بالکل حق بنتاہے کہ وہ شادی کرلے۔ اس شوہرکو بھی اطلاع ملنے پر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ بیوی کی عزت اور بچوں کے پیٹ کا بندوبست ہوگیا ہے۔ اگر وہ بھارت کی جیل سے چھوٹ کر واپس آجائے تو پھر عورت کے پاس اختیار ہوگا کہ اگر اس کا پہلا شوہر اس کو واپس لینا چاہتا ہو اور وہ بھی اس کے پاس ہی جانا چاہتی ہو تو پھر دوسرے شوہر سے خلع لے اور اگر اس بات میں کوئی تشویش ہے کہ شوہر والی کا نکاح کیسے ہوسکتا ہے؟۔ تواس کا جواب یہی ہے کہ خلع کے ذریعے پہلے شوہر سے تعلق منقطع ہوگیا ہے۔
قرآن نے محرمات کے آخر میں فرمایا: و ان تجتمع بین الاختین والمحصنات من النساء الا ما ملکت ایمانکم ”اور یہ کہ تم دوبہنوں کو جمع کرو اوربیگمات عورتوں میں سے مگر جن سے تمہارا ایگریمنٹ ہوجائے”۔
جب دو جڑی ہوئی بہنوں کے بارے میں مولانا سیدابولاعلیٰ مودودی سے فتویٰ پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ” قرآن میں عام حالت میں یہ منع ہے لیکن جب خاص حالت ہو تو مخصوص صورت اس سے مستثنیٰ ہے”۔ المیہ یہ ہے کہ قرآن وسنت کے خلاف مخصوص صورتوں میں فتویٰ دینے والے لوگ قرآن کے واضح احکام پر فتویٰ دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے ہیں اسلئے کہ پھر نام نہاد علماء ومفتی صاحبان کی ضرورت یہ نہیں پڑے گی۔ قرآن وسنت اور اسلام فطری دین ہیں۔
بیوہ وطلاق شدہ ساری زندگی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے تو اپنی نسبت کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ جنت میں میاں بیوی کا نکاح اسی طرح برقرار رہتاہے۔
قال تعالیٰ :جنّٰت عدن یدخلونھا و من صلح من آبائھم وازواجھم و ذریاتھم ”ہمیشہ کیلئے باغات ہوں گے جن میں یہ داخل ہوں گے اور ان کے نیک آباء واجداداور ان کی اولادیں”۔ (القرآن)
عورت دنیا کے اپنے آخری شوہرکیساتھ ہوگی،میمون بن مہران سے الحرانی نے الرقة کی تاریخ میںنقل کیا ہے کہ معاویہ بن ابوسفیان نے ام درداء کیلئے نکاح کا پیغام بھیج دیا تو اس نے انکار کردیا اور کہا کہ ابودردائ نے رسول اللہ ۖ سے روایت نقل کی ہے کہ عورت اپنے آخری شوہر کیساتھ ہوگی۔ اسماء بنت ابی بکر زبیر بن عوام کے نکاح میں تھی۔ وہ اس پر سخت تھے اور اس نے اپنے باپ سے اس کی شکایت کردی تو ابوبکر نے فرمایا: پیاری بیٹی صبر کرو۔ جب عورت کا شوہر نیک ہوتا ہے اور اس سے فوت ہوجاتا ہے اور پھراس کے بعد وہ کسی اور سے نکاح نہ کرے تو ان دونوں کو جنت میں جمع کردیا جاتا ہے”۔(ابن عساکر)۔
بیہقی نے اپنی سنن میں یہ روایت ذکر کی ہے کہ حذیفہ نے اپنی بیوی سے کہا کہ ” اگر آپ چاہتی ہیں کہ جنت میں میری بیوی رہو تو پھر میرے بعد شادی مت کرو اسلئے کہ جنت میں عورت اپنے آخر شوہر کیساتھ ہوگی” ۔
ابن کثیر کی النھایة فی الفتن وملاحم میں وارد ہے کہ ام حبیبہ نے کہا :یارسول اللہ! اگر عورت کے دنیا میں دو شوہر ہوں تو دونوں میں سے کس کیساتھ ہوگی؟۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: دونوں میں جس نے زیادہ اچھا برتاؤ کیا ہو ۔ تو ام حبیبہ نے کہا کہ حسن اخلاق کا سونا تو دنیا اور آخرت میں بہترین چیز ہے۔
حضرت علی کی ہمشیرہ ام ہانی کو اپنے مشرک شوہر سے اتنی محبت تھی کہ اس نے اپنے شوہر کی خاطر اللہ کے حکم کے مطابق ہجرت تک نہیں کی ۔ جب مکہ فتح ہوا تو حضرت علی نے اس کے مشرک شوہر کو قتل کرنا چاہا۔ ام ہانی نے اپنے شوہر کیلئے نبیۖ سے پناہ طلب کی تو نبیۖ نے فرمایا کہ اپنے شوہر اور جس کو بھی چاہو ،پناہ دے سکتی ہو۔ یہ وہی مولیٰ علی تھے جس کے بارے میں نبیۖ نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ لیکن امت کے پہلے مولیٰ رسول اللہ ۖ نے حضرت علی کے مقابلے میںآپ کی بہن ام ہانی کو ترجیح دیتے ہوئے اسکے مشرک شوہرکو پناہ دیدی۔ جب امت کے پہلے مولیٰ نبیۖ سے ظہار کے مسئلے پر حضرت خولہ بنت ثعلبہ نے مجادلہ کیا تو اللہ نے عورت کے حق میں فیصلہ نازل فرمایا۔ جب امت کے پہلے مولانبیۖ کے بارے میں قرآن کے اندرسورہ مجادلہ کی وضاحت موجود ہے اور دوسرے مولا علی کرم اللہ وجہ کے بارے میں حدیث کا واقعہ موجود ہے تو اس کا مطلب نبی ۖ و علی کی توہین نہیں بلکہ قیامت تک یہ رہنمائی مقصود ہے کہ مذہب کے نام پر کسی کو مولانا اور مفتی بن کر عورت کے حقوق کو غصب کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
راشدہ بی بی کیلئے کوئی حیل وحجت نکالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس سے نکاح کرنا چاہتی ہو تو وہ کرسکتی ہے۔ پاکستان بھر میں مسنگ پرسن کے مسائل ہیں اور جو لوگ سال سال اور ڈیڑھ سال کیلئے یا اس سے بھی زیادہ بیرون ملک رہتے ہیں اور ان کی بیگمات خلع لینا چاہتی ہوں تو وہ لے سکتی ہیں۔ تبلیغی جماعت نے بہت بگاڑ پیدا کیا ہے۔ مولانا الیاس نے زندگی بھر میں چار مہینے اسلئے رکھے تھے کہ حضرت عمر کے دور میں مجاہدین کی بیگمات سے مشورہ کرکے یہ چار ماہ کی مدت رکھی گئی تھی اور قرآن میں بیوہ کی عدت4ماہ10دن ہے اور ناراضگی کی عدت4ماہ ہے۔ گمشدگی کی حنفی فقہاء نے پہلے80سال اور پھر امام مالک کے مسلک کے مطابق4سال کردی اور قرآن وسنت میں اس کی کوئی بھی اصل نہیں ہے۔
جب عورت کا اختیار غصب کیا گیا تو آیت226البقرہ میں4مہینے کا ذکر ہے۔ حنفی مسلک کے نزدیک4ماہ کے بعد طلاق ہوجائے گی اور دونوں کا نکاح ختم ہوجائے گا۔جمہور کے نزدیک عمر بھر نکاح ختم نہیں ہوگا ۔جب تک کہ شوہر زبان سے طلاق نہ دے۔ کیا واضح آیات پر یہ اختلاف ہوسکتاہے؟۔ ایک طبقہ کہتا ہے کہ شوہر نے اپنا حق استعمال کیا اسلئے طلاق ہوگئی ۔ دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ شوہر نے حق استعمال نہیں کیا اسلئے طلاق نہیں ہوئی۔ حالانکہ اللہ نے عورت کی عدت بیان کی ہے کہ طلاق سے ایک ماہ زیادہ ہوگی اور اگر طلاق کا عزم تھا تو یہ دل کا گناہ ہے جس پر شوہر کی پکڑ ہوگی۔جب نبی ۖ نے ایلاء کیا تھا تو ایک ماہ کے بعد رجوع پر اللہ نے فرمایا کہ اب عورتوں کو اختیار دے دو کہ آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں یا نہیں؟۔ قرآن کے کھلے الفاظ سے بھی مولوی کا دماغ نہیں کھلتا ہے یا اس کو جان بوجھ کر سمجھنا نہیں چاہتا ہے کہ کاروبار دنیا تباہ ہوجائے گا؟۔
جب شوہر مرتا ہے تو بیوہ کو4ماہ10ماہ کے بعد اختیار مل جاتا ہے کہ فوت شدہ شوہر سے تعلق برقرار رکھے یا کسی اور سے نکاح کرلے۔ علماء سانس نکلتے ہی نکاح تڑوا بیٹھتے ہیں اور پھر بے شرم اپنی ماؤں کو اپنے باپ کی زوجہ کی تختی لگاتے ہیں۔ کاش ! علماء قرآن وسنت کی طرف رجوع کرکے امت کا بیڑہ پار کردیں اور غلط نصاب تعلیم اور فتوؤں کے حصار سے باہر نکلیں۔ جس سے مساجدو مدارس اور علماء ومفتیان کی رونقیں بڑھیں گی اور پاکستان بھی سرسبز وشاداب بن جائے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

علماء ومفتیان کا حال :ان عقل کے اندھوں کواُلٹا نظر آتا ہے …….مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتاہے

علماء ومفتیان کا حال :ان عقل کے اندھوں کواُلٹا نظر آتا ہے …….مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتاہے

فقہاء نے غلط فتوے کیلئے فقہ ایجاد نہیں کیا تھا بلکہ یہ حکمت تھی کہ اگر عورت کمزور اور مرد طاقتور ہو تو اس پر عمربھر کی حرامکاری کا فتویٰ لگانے کے بجائے بامر مجبوری عورت کیلئے حلال کاری کا فتویٰ جاری کیا جائے۔ قرآن وسنت میں اس بات کی وضاحت ہے کہ نکاح کیلئے عورت کی رضامندی شرط ہے اور عورت کو مجبور کرنا جائز نہیں ہے۔ اللہ نے فرمایا : ولاتکرھوا فتیٰتکم علی البغاء ان اردن تحصنًا لتبتغواعرض الحےٰوة الدنیا ومن یکرھھن فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیمO”اگرتمہاری لڑکیاں نکاح کرنا چاہتی ہوں تو ان کو بدکاری (یا بغاوت) پر مجبور مت کرو۔ اسلئے کہ تم اپنی دنیاوی وجاہت تلاش کرو اور جس نے ان لڑکیوں کو مجبور کیا توپھر ان کو مجبور کرنے کے بعد اللہ غفور رحیم ہے”۔ (سورہ النور آیت33)
کسی کی لڑکی کو عشق ہوگیا، ایسے لڑکے سے نکاح چاہتی ہے جس کی خاندانی حیثیت دنیامیں نہیں تواس لڑکی کو بدکاری یا بغاوت پر مجبور مت کرو۔اگر اس کو اس کی مرضی کے بغیر کسی دوسرے سے نکاح پر مجبور کیا گیا تو یہ بدکاری ہے اور اگر لڑکی نے بھاگ کر اسی لڑکے سے نکاح کیا تو یہ بغاوت ہے۔ جب لڑکی کو اس کی مرضی سے نکاح کرنے دیا جائے اور اس کو بغاوت پر مجبور نہ کیا جائے تو یہی منشاء قرآن کی ہے۔ لیکن جب باپ اور ولی کو اس میں اپنی توہین لگتی ہو اور وہ زبردستی سے لڑکی کو اپنے عاشق سے نکاح نہ کرنے دے اور جہاں اس کی مرضی نہ ہوتو پھر یہ بالکل ناجائز اور بدکاری ہے لیکن لڑکی کو مجبور کرنے کے بعد اللہ غفور رحیم ہے۔ یعنی اس پر بدکاری اور حرامکاری کا اطلاق نہیں ہوگا اسلئے کہ غلطی باپ اور اولیاء کی ہے۔
عربی میں شادی شدہ ،طلاق شدہ اور بیوہ عورتوں کو محصنات کہتے ہیں جیسے اردو میں ان کو بیگمات کہا جاتا ہے اور کنواری لڑکیوں کو فتیات کہتے ہیں۔ ایسی خواتین جن کا معاشرے میں زبردست اسٹیٹس ہو اور وہ اپنا اسٹیٹس برقرار رکھنا چاہتی ہوں تو ایسی بیوہ اور طلاق شدہ کو عدت کے بعد بھی نکاح کا پیغام تک دینا بھی منع کیا گیا ہے اور جن خواتین کو نکاح کی ضرورت ہے تو ایسی طلاق شدہ اور بیوہ خواتین اور غلام اور لونڈی کا نکاح کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن وسنت میں ایک ایک بات ایسی ہے کہ مسلمانوں کے تمام فرقے ومسالک اس کو قبول کریں گے اور فقہ وفتویٰ کے نام پر جو قرآن وسنت اور فطرت کے مخالف مسلک سازی کی گئی ہے تو اس کو کوئی ہم مسلک اور ہم فرقہ بھی تسلیم کرکے اپنی فطرت نہیں بگاڑ سکتا ہے۔
ایک لڑکی نبی ۖ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ میرا نکاح میرے باپ نے میری مرضی کے خلاف کیا۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ”یہ نکاح منعقد نہیں ہوا”۔ وہ لڑکی پہلے سے طلاق شدہ تھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ لڑکی کنواری ہوتی تو نبی ۖ کاحکم ہوتا کہ اب تم اس نکاح سے نہیں نکل سکتی ہو اور یا نابالغ بچی ہوتی تو پھر نبی ۖ فرماتے کہ تیرے باپ نے نکاح کردیا ہے یا بردہ فروش دلال نے نکاح کردیا ہے تو اب یہ نکاح قائم دائم رہے گا۔ جیسا کہ مفتی تقی عثمانی نے فتویٰ دیا کہ عدالت سے خلع لینے کے بعد دوسری جگہ شادی کی تو اسکے ساتھ تعلق حرامکاری تھا اور پہلے سے نکاح اسلئے برقرار ہے کہ باپ نے بچپن میں کردیا ۔ اور زیادہ سے زیادہ تجھے اگر خلاصی لینی بھی تھی تو بالغ ہوتے ہی نکاح کو فسخ کرتی ۔ اگرچہ وہ بھی اس وقت معتبر ہوتا کہ جب کسی دلال نے تیرا نکاح کیا ہوتا؟۔ اگر بالفرض رسول اللہ ۖ کسی نابالغ بچی یا بالغ لڑکی کو اس فتویٰ کے مطابق شریعت پر مجبور کرتے تو وہ ضرور عرض کرتی کہ مجھے جاہلیت میں زندہ درگور کیا جاتا تو بہتر تھا۔
مفتی تقی عثمانی اور اس کے جاہل مفاد پرست یا کم عقل سادہ باپ نے جو فتویٰ جاری کیا ہے وہ اسلام اور انسانیت کی توہین ہے۔ جس طرح سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز کی بات اپنی کتابوں سے کھل کر اعلان کیا تھا ،اس طرح اپنے ان غلط فتوؤں سے اعلان کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں ڈنڈے والی سرکار نے غلط فتوؤں اور حلالہ کی لعنت سے ڈنڈے کے زور پر روکنا ہے اسلئے کہ قرآن میں زانی کو100کوڑے مارنے کا حکم ہے جس پر کچھ لوگوں کو گواہ بھی بنایا جائے۔ جب تک کوڑے نہیں مارے جائیں گے تو حلالہ کے رسیا دارالافتاء اور مدارس میں معزز خواتین کو اپنے گمراہ کن فتوؤں سے ورغلانے سے باز نہیں آئیں گے۔
مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب ” حیلہ ناجزہ” میں بھی یہ مسئلہ لکھا ہے کہ ” اگر شوہر بیوی کو ایک بار میں تین طلاق دے اور پھر مکر جائے تو عورت کو دو گواہ لانے پڑیں گے اور اگر عورت کے پاس دوگواہ نہ تھے اور شوہر نے جھوٹی قسم کھالی کہ اس نے طلاق نہیں دی ہے تو عورت اس پر حرام ہوگی لیکن عورت حرامکاری سے بچنے کیلئے خلع لے لیکن اگر شوہر کسی صورت خلع بھی نہ دے تو وہ عورت حرامکاری پر مجبور ہوگی اور عورت کا فرض بنتا ہے کہ جب اس کا شوہر اس سے لذت اٹھارہاہو تو وہ لذت اُٹھانے سے اجتناب کرے ”۔
یہ بکواس شرعی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اسلام، انسانیت اور فطرت پر بدترین داغ ہے۔ ایسے مذہبی طبقات کو اپنے والدین اور اپنے ایسے روئیے دیکھنے کو مل رہے ہوں تو الگ بات ہے لیکن کسی بھی مسلک وفرقہ کیلئے اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ مسئلے اسلئے پیدا ہوئے ہیں کہ قرآن نے عورت کو خلع کا حق دیا ہے اور انہوں نے اپنے گمراہ کن فرقہ وارانہ اور مسلکانہ ذہنیت کی وجہ سے قرآن کو مسترد کیا ہے۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مالٹا میں قید کاٹنے کے بعد یہ احساس کیا کہ قرآن سے دوری اور فرقہ پرستی امت کے زوال کا سبب ہیں اور علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی درس وتدریس میں اپنی زندگی کھپائی ہے اور پھر آخر میں فرمایا ہے کہ میں نے ساری زندگی ضائع کردی۔یہاں علماء ومفتیان کی دنیا بدل گئی ہے اسلئے اس کو منافع بخش کاروبار سمجھتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت کیساتھ خلع وطلاق پر زیادتی دو آیات کا غلط ترجمہ وتفسیر کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے

عورت کیساتھ خلع وطلاق پر زیادتی دو آیات کا غلط ترجمہ وتفسیر کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے

سورۂ بقرہ آیت:229میں خلع کا کوئی تصور نہیں ہے اور نہ اس کا ایک فیصد احتمال بنتا ہے کہ اس سے خلع مراد لیا جائے لیکن جاویداحمد غامدی ، مولانا مودودی اور مولانا وحیدالزمان نے بھی غلط کردیا

سورۂ نساء آیت:19میں خلع ہی مراد ہے مگراس سے خلع مراد نہیں لیا گیا، جس کی وجہ سے نہ صرف عورت کے حق کو پامال کیاگیا بلکہ دیگرقرآنی آیات میں بھی تضاد کا شکار ہوگئے!

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے۔ اور تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے۔ پس اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوںاللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے تودونوں پر کوئی حرج نہیں ہے کہ عورت کی طرف سے اس چیز کو فدیہ کردیا جائے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں ،ان سے تجاوز مت کرو اور جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ (البقرہ آیت:229)
اس آیت میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری بار طلاق کی بھی وضاحت ہے اور نبی کریم ۖ نے ایک صحابی کے پوچھنے پرفرمایا کہ قرآن میں تیسری طلاق یہی ہے جس کا ذکر آیت229البقرہ میں ہے کہ معروف طریقے سے رکھنے کے بجائے اس کو احسان کیساتھ چھوڑ دیا جائے۔ مولانا سلیم اللہ خان اور علامہ غلام رسول سعیدی نے اس حدیث کو اپنی اپنی بخاری کی شرح میں نقل کیا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں واضح ہے کہ مرحلہ وار تیسری مرتبہ طلاق کے فیصلہ کے بعد شوہر نے جو کچھ بھی بیوی کو دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لینا جائز نہیں۔
پھر دوشرائط کیساتھ اس شرط پر صرف اس صورت میں وہ چیز واپس لینا جائز ہے کہ جب ان دونوں کو خدشہ ہو کہ اگر وہ دی ہوئی چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے ۔ اور یہ کہ فیصلہ کرنے والے بھی ڈرتے ہوں کہ اگر شوہر نے وہ دی ہوئی چیز واپس نہیں کی تو حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔
ایسی صورت میں وہ دی ہوئی عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ اسلئے کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو پھر فیصلہ کن طریقے سے جدائی کے بعد وہ ذریعہ بنے گا اور اس کی وجہ سے ایکدوسرے کے رازوں سے آشنا جب میل ملاپ کریں گے تو پھر دونوں اللہ کی حدوں کو توڑ سکتے ہیں۔
آیت میں واضح ہے کہ شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیز بھی واپس لینا جائز نہیں ہے لیکن مجبوری میں زیادہ بڑے نقصان اور اللہ کی حدود توڑنے کے خدشہ پر واپس فدیہ کرنے کی اللہ نے گنجائش رکھ دی ہے۔
اس آیت میں خلع کا کوئی تصور بھی نہیں ہوسکتا ہے اسلئے کہ تین مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا تصور کہاں سے آئے گا؟۔ اللہ نے عورت کو مالی تحفظ دیا ہے کہ اس کا شوہر طلاق کے بعد بہت مجبوری اور زیادہ بڑے نقصان کے پیش نظر ایسی چیز واپس کرسکتی ہے جو شوہر نے دی ہے۔ لیکن جاوید غامدی اور مولانا مودودی نے بھی اس سے خلع مراد لے کر الٹا عورت کو بلیک میل کرنے کا راستہ ہموار کردیا ہے۔ اس غلط تشریح کی وجہ سے عورت ہی نہیں علماء وفقہاء بھی طلاق کے مسائل پر تضادات ہی تضادات کا شکار ہوکر گمراہی کے طوفان میں غوطہ زن ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” اے ایمان والو! عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو اور نہ اسلئے ان کو روکو کہ جو کچھ بھی تم نے ان کو دیا ہے کہ اس میں سے بعض چیزیں واپس لے لو مگر یہ کہ جب وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں۔ اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ ہوسکتا ہے کہ تمہیں وہ بری لگتی ہوں اور اللہ اس میں تمہارے لئے خیرکثیر بنادے۔(النساء آیت:19)
ایک آزاد عورت اور لونڈی میں یہی فرق ہوتا تھا کہ لونڈی مملوکہ ہوتی تھی اور آزاد عورت اپنی آزاد حیثیت سے اپنے شوہر کی بیوی ہوتی تھی لیکن عملی طور پر بیوی بھی شوہر کی مملوکہ سے بھی بدتر مملوکہ ہوتی تھی۔ جیسے پہلے یہاں لوگ انگریز کے غلام تھے اور آزادی کے بعد بھی مقتدر سیاستدان، پولیس، عدالت، فوج ، سول بیوروکریٹ ، طاقتور علماء ومشائخ اور ہر طاقتور طبقہ اپنے سے کمزور طبقے کو اپنا غلام یا مزارع اور خود کو وارث اور مالک سمجھتا ہے۔ راجن پور میں ایک رکشہ ڈرائیور کے ساتھ کار مالک نے جس طرح کا تشدد کیا وہ گوانتا ناموبے میں بھی قیدیوں کیساتھ نہیں ہوا ہوگا۔ جب طاقت کا توازن قانون سے بالاتر ہو جائے تو یہی زبردستی سے کسی کے وارث بننے کی بات ہے۔ اگر عمران خان اپنے دورِ اقتدار میں نعرہ لگاتاجب شہریار آفریدی کے عزیز نے ایک کمزور لڑکی سے زبردستی سے شادی کرنے کی کوشش کی اورپھر انکار پر اس کو قتل کردیا کہ لوگ غلام ہیں کیا تو آج ریاستی نظام سے خواتین پر مظالم کے سچے جھوٹے دعوؤں کی کوئی ضرورت پیش نہ آتی۔ الطاف حسین کا66سالہ بھائی گورنمنٹ ملازمت سے ریٹائرڈاور28سالہ بھتیجا جن کا ایم کیوایم اور سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا انکو اغواء اور پھر بہت ظالمانہ طریقے سے قتل کرکے لاشیں پھینک دیں۔ ایم کیوایم نے انسانی حقوق کی پامالی کی تھی اور حقیقی کی شکل میں انکے ساتھ وہی ہواتھا۔MQMاور طالبان کا راج تھا تو وہ بھی خود کو بدمعاشی سے مالک سمجھتے تھے۔
عورت کو اللہ نے شوہر کی مملوکہ نہیں بنایا ہے۔ جب بھی وہ خلع لینا چاہتی ہو تو وہ خلع لیکر گھر سے نکل سکتی ہے اور یہی اس کی طلاق ہے۔ شوہر طلاق دے تو عورت کی عدت تین مہینے ہے اور عورت خلع لے توعورت کی عدت ایک مہینے ہے۔ صحیح حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ سعودیہ میں اس پر عمل ہوتاہے لیکن یہاں بشریٰ بی بی کی خلع پر ہنگامہ کھڑا کیا گیا اور وہ بھی بہت دیر سے خیال آیا۔
خلع میں عورت کو گھر اور تمام غیر منقولہ دی ہوئی جائیداد سے دست بردار ہونا پڑتا ہے اور طلاق میں مرد کو گھر سے نکلنا پڑتا ہے کیونکہ گھر عورت کا ہوتا ہے اور اگر خلع وطلاق کے یہ حقوق واضح ہوتے اور ریحام خان کو طلاق دینے کے بعد عمران خان کو بنی گالہ کا گھر چھوڑنا پڑتا تو ریاستِ مدینہ کی تصویر نظر آجاتی مگر علماء نے خلع اور طلاق کی درست وضاحت نہ کرکے اسلام کا کباڑہ کرکے رکھ دیا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بعض لوگ غلط کہتے ہیں کہ یہ فتوے فقہی کتابوں میں موجود ہیں ،یہ آپس میں بھی نہیں ملتے!

بعض لوگ غلط کہتے ہیں کہ یہ فتوے فقہی کتابوں میں موجود ہیں ،یہ آپس میں بھی نہیں ملتے!

مفتی تقی عثمانی نے جس طرح دانتوں کو بدل دیا ،اسی طرح اپنے فتوؤں کو بھی بدل دیا ۔ کھوجہ قوم شیعہ ہیں اور اگر لڑکی کو اغواء کرکے زبردستی سے نکاح کرلیا تو کونسے فقہ کی کتاب میں ہے کہ یہ نکاح منعقد ہواہے ؟۔ اور اس کو رضامندی کا نکاح کہتے ہیں اور اب اس سے جان چھڑانے کیلئے لڑکی اور اس کے رشتے داروں کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ لڑکے سے طلاق حاصل کریں؟۔
جب حاجی عثمان پر فتوے لگائے گئے تو مفتی حبیب الرحمن درخواستی نے حاجی عثمان کے حق میں فتویٰ دیا اور آپ کے چھوٹے بھائی ہمارے استاذمولانا انیس الرحمن درخواستی شہید حاجی عثمان سے بیعت ہوگئے۔دین پور شریف میں خانپور کٹورہ کے قریب مولانا عبیداللہ سندھی اور مرشد مولانا خلیفہ غلام محمد بھی مدفون ہیں ۔ جو سندھ کے مراکز ہالیجی شریف ، امروٹ شریف ، بھرچنڈی شریف سب درگاہوں کے مرشد تھے اور قوم کے بلوچ تھے۔مولانا عبداللہ درخواستی اور آپ کے صاحبزدے اور نواسے جامعہ عبداللہ بن مسعودوالے آرائیں قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔کیا وہ اس فتوے کو گوارا کرلیںگے؟۔ چوہدری محمدسرور جس نے برطانیہ پارلیمنٹ کی رکنیت پاکستان کیلئے چھوڑدی اور پہلے ن لیگ نے ان کو گورنر پنجاب اور پھر تحریک انصاف نے گورنر پنجاب بنادیا اور اب ق لیگ میں گئے ہیں اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے بھی اچھے دوست ہیں اور آپ کا تعلق پنجاب کے دل ساہیوال اور آرائیں قوم سے ہے ۔ کیا مفتی تقی عثمانی و مفتی شفیع دیوبندی کا مندرجہ بالافتویٰ وہ قبول کرلیں گے؟۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران نیازی بھی فسٹ کزن ہیں اور ان کی قوموں کیلئے یہی فتویٰ ہے کیا وہ اس کوقبول کریں گے؟۔ مولانا فضل الرحمن ، پختون، بلوچ ، پنجابی ، سرائیکی ، سندھی ، مہاجروغیرہ سب اس فتوے کو قبول کریںگے؟۔افغانستان ، ایران اور ہندوستان عجم کی قومیں کرد، ترک ، تاجک، ازبک اور چین وغیرہ کی قومیں اس فتوے کو قبول کریں گی؟۔ اگر قرآن وحدیث یا فقہ کے ٹھوس دلائل ہیں تو قل ہاتوا برہانکم ”کہہ دو کہ اپنے دلائل لے کر آؤ”۔ کھوجہ شیعہ نے کچھ رقم دی ہوگی توایمان بھی بیچ دیا ہوگا۔ پہلے چھوٹے چھوٹے فتوؤں پرچھوٹی چھوٹی رقم پر ایمان بیچتے تھے اور اب سرکار نے سودکی عالمی منڈی میں چھلانگ لگاکر استدراج حاصل کیا ہے؟۔
یقول تعالیٰ: والذین کذبوا بآیاتنا سنستدرجھم من حیث لایعلمون :فی تفسیر ابن کثیرومعناہ ان یفتح لھم أبواب الرزق ووجوہ المعاش فی الدنیا حتی یعتروا بما فیہ و یعتقدوا انھم علی شی ء کما قال تعالیٰ : فلما نسوا ماذکروابہ فتحنا علیھم ابواب کل شیء حتی اذا فرحوا بما اوتوااخذنٰھم بغتة فاذھم مبلسون
جب سود کے معاملے میں عرب بادشاہوں اور مفتی تقی عثمانی نے اللہ کی واضح آیات کو جھٹلادیا تو ان کو ایسی ترقی مل گئی کہ وہ سمجھ ہی نہیں پائے۔ جس کی ابن کثیر نے یہ تفسیر کردی ہے کہ اس کا معنی یہ ہے ان کیلئے رزق کے دروازے کھل گئے اوردنیا میں معاش کے مختلف راستے بن گئے یہاں تک وہ اس میں جنون کی حد تک مبتلاء ہوگئے اور یہ سمجھنے لگے کہ وہ کسی خاص منصب پر پہنچ گئے ہیں۔ اسلئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” جب انہوں نے بھلادیا جس کی انہیں یاد دہانی کرائی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے، یہاں تک کہ جب وہ اس پرخوش ہوگئے جو ان کو دیا گیا تو ہم نے اچانک ان کو پکڑلیا اور پھر مایوسی کی حالت میں پہنچ گئے۔
مفتی تقی عثمانی نے اسلام کو اپنے گھر کی کھیتی سمجھ رکھا ہے۔ جب وہ چاہے تو کھوجہ زبردستی سے اغواء بھی کرلے تو آرائیں لڑکی کا نکاح منعقد ہوجاتا ہے اور جب وہ چاہے تو کفاء ت میں عرف کا بھی اعتبار ہوجاتا ہے اور جب وہ چاہے تو بریلوی مکتب سے بھی نکاح نہیںہوتا اور جب وہ چاہے تو شیعہ سے نکاح ہوجاتا ہے اور جب وہ چاہے تو شیعہ سے نکاح نہیں ہوتا ہے۔ تضادات کا انبار ہے جس میں مفتی تقی عثمانی نے جس طرف چاہا فتویٰ دے دیا۔ جس کتاب کا جو حوالہ نقل کیا ہے ،اس میں واضح ہے کہ جب تک بچہ نہ جن لے ، اس کے بعد اس کا حکم مختلف ہے۔ انہوں نے تو حاجی عثمان کے معتقد پرعمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا کے فتوے بھی جاری کردئیے ۔ حالانکہ اس میں کفاء ت کا مسئلہ بھی نہ تھا۔
اس9،10سالہ بچی کیساتھ کتنی بڑی زیادتی فتوے میں کی گئی ہے کہ بالغ ہونے کے بعد لڑکا بھاگ گیا۔ مفقودالخبر ہوا۔ پانچ سال تک عدالت میں لڑکی اور اس کے باپ نے مقدمہ لڑا۔ فسخ نکاح کا فتویٰ ملا تو پھر دوسری جگہ شادی ہوئی اور پھر فتویٰ دیا کہ دوسرا نکاح غلط ہے ، پہلے کا نکاح برقرار ہے اور وجہ یہ ہے کہ باپ نے بچپن میں نکاح کرایا اور دوسرا یہ کہ بلوغت کے وقت نکاح توڑنے کی بات نہیں کی۔ حالانکہ یہاں تو معاملہ یکسر مختلف تھا ، مولانا اشرف علی تھانوی کے فتوے کو بھی نہیں مانا تھا۔ اب تو مولانا سلیم اللہ خان وغیرہ سب کو چھوڑ دیا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی پر مبنی مفتی تقی عثمانی اور مفتی محمد شفیع کے فتاویٰ عثمانی

عورت کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی پر مبنی مفتی تقی عثمانی اور مفتی محمد شفیع کے فتاویٰ عثمانی

سوال:۔ ایک آدمی نے عاقلہ بالغہ لڑکی کو اغواء کیااور اسے ڈرا دھمکاکر نکاح کرلیا، لڑکی کے والدین اس پر ناراض ہیں، کیونکہ لڑکی آرائیں قوم سے ہے اور لڑکے کا تعلق شیخ قوم سے ہے۔ (شیخ سے مراد کھوجہ قوم ہے) اور دونوں قوموں کی شرافت میں فرق ہے۔ آرائیں معزز سمجھے جاتے ہیں اور شیخ ذلیل، تو کیا اس صورت میں نکاح ہوسکتا ہے؟۔
جواب :۔ آرائیں اور کھوجہ دونوں عجمی نسلیں ہیں اور عجمیوں کے درمیان کفاء ت میں نسل کا اعتبار نہیں ہے اور مذکورہ نکاح چونکہ عاقلہ بالغہ نے اپنی اجازت ورضامندی سے کیا ہے اسلئے نکاح شرعاً منعقد ہوگیا، اب اگر لڑکی یا اس کے رشتہ دار نکاح ختم کرنا چاہتے ہیں تو سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ لڑکے سے طلاق حاصل کریں ۔ قال فی الدر المختار واما فی العجم فتعتبر حرےة واسلاما (شامی ج ٢، ص ٣١٩) واللہ سبحانہ اعلم احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ الجواب صحیح بند ہ محمد شفیع عفااللہ عنہ فتاوی عثمانی جلد دوم صفحہ ٢٨٠
دوسری جگہ تقی عثمانی اسکے بالکل برعکس ایک اور طرح کا رباب بجاتا ہے۔
تنقیح:1:احمد کی لڑکی نے جس مرد سے نکاح کیاہے، وہ قومی اور خاندانی اعتبارسے احمدکا کفو ہے یا نہیں؟۔ یعنی دونوں خاندان میں اتنا فرق ہے کہ ایک خاندان دوسرے خاندان میں شادی بیاہ کو عرفاً عار اور عجیب سمجھتا ہو؟۔ یا اتنا فرق نہیں ہے اور دونوں خاندانوں میں بغیر کسی عار کے شادی بیاہ ہوتے ہیں۔
2:کیا دینداری کے اعتبار سے احمد کے گھرانے اور اس مرد کے گھرانے میں کوئی فرق ہے؟۔ ان دو سوالوں کا جواب لکھ کر بھیجئے ۔ محمد تقی عثمانی
جواب تنقیح: وہ مرد اور اس کے گھرانے میں اتنا فرق دینداری کے اعتبار سے ہے کہ احمد اور احمد کے گھرانے موحد ہیںاور جس مرد سے احمد کی لڑکی کا نکاح کیا گیا وہ مرداور اس کے گھرانے بدعتی ہیں، اور ان میں مشرکانہ صفتیں بھی ہیں۔ چند صفتیں یہ ہیں : حضور ۖ کو حاضر وناظر سمجھتاہے، مشکلات میں پیر کو پکارتا ہے، مرنے کے بعد عہدنامہ قبر میں دفن کرتا ہے ، نماز جنازہ پڑھ کر دائرہ بناکر اسقاط کرتا ہے، احمد ان باتوں کے خلاف ہے۔
جواب:۔ صورت مسئولہ میں احمد کی لڑکی کا نکاح جس شخص سے کیا گیا وہ احمد کا کفو نہیں ہے، لما فی ردالمختار:فانھم قالوا لایکون الفاسق کفو لبت الصالحین (شامی ج ٢،ص ٣٢٠ باب الاکفائ)اور فسق اعتقادی فسق عملی سے اشد ہے ۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں احمد کی رضامندی کے بغیر جو نکاح کیا گیا ہے وہ باطل ہے۔ احمد کی بیٹی کو چاہیے کہ وہ فوراً اس شخص سے الگ ہوجائے۔ لمافی ردالمختار: ولہ اذاکان عصبة الاعتراض فی غیر الکفو ما لم تلد منہ ویفتیٰ بعدم جواز اصلًا وھو المختار للفتویٰ للفساد الزمان.( شامی ج ٢ ص ٢٩٧) اللہ سبحانہ اعلم
فتاویٰ عثمانی جلدووم صفحہ 292،293
سوال :۔ زید بعمر5سال کا، سعیدہ بعمر2سال سے نکاح ہوا۔ بالغ ہونے پر سعیدہ نے نکاح کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، زید نے نوٹس کے ذریعے سعیدہ کی رخصتی کا مطالبہ کیا، تو سعیدہ نے نوٹس کے جواب میں زید کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیااور عدالت عالیہ سے درخواست کی کہ اسکے اس حق کو تسلیم کیا جائے اور نکاح کو منسوخ قرار دیا جائے، سات سال کی مقدمہ بازی کے بعد عدالت نے اس حق کو تسلیم کرلیا اور اس بات کی تصدیق کردی کہ نکاح منسوخ ہوگیا ہے ، اس کیخلاف اپیل کی جو مسترد ہوگئی ، اب فرمائیں نکاح شرعاً منسوخ ہوگیا یا نہیں؟۔
جواب: صورت مسئولہ میں اگر سعیدہ کا نکاح خود اسکے باپ نے کیا تھا تو اب بالغ ہونے کے بعد سعیدہ کو اسکے فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہے ،تاوقت یہ کہ وہ سوئے اختیار کو ثابت نہ کرے اور اگر سعیدہ کا نکاح کرنے والا خوداس کا باپ نہیں تھا، خواہ باپ کا وکیل ہی کیوں نہ ہو تو لڑکی کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے۔ اس صورت میں عدالت کا منسلکہ فیصلہ شریعت کے مطابق ہوگا۔ ولزم النکاح ولوبغبن فاش…. اوبغیر کفوء ان کان والولی ………واللہ تعالیٰ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ الجواب صحیح بندہ محمد شفیع عفااللہ عنہ
سوال :۔ رحیم بخش نے اپنی حقیقی لڑکی کا نکاح بحالت نابالغی بعمر9،10سال کے خوشی و رضا مندی کیساتھ کردیا ، کچھ عرصہ بعد شیرمحمد باہر چلا گیا اور عدم الخبرہوا۔ عرصہ چار پانچ سال بعد لڑکی کے باپ نے عدالت میں تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر کیا۔ مقدمہ سات آٹھ ماہ چلتا رہا، عدالت نے شیرمحمد کے وارثوں کو حکم دیا کہ تین ماہ کے اندر اندر حاضر کریں، ورنہ حکم تنسیخ کردیا جائیگا، چنانچہ اس قلیل وقت میں لڑکے کو عدالت میں حاضر نہ کیا جاسکا تو عدالت نے تنسیخ نکاح کا حکم دے دیا۔ تنسیخ سے قبل عدالت نے سرکاری طور پر شیرمحمد کو تلاش نہیں کیا، نہ تو عدالت نے کوئی نوٹس دیا اور نہ اعلان یا اخبار میں اشتہار دیا، تنسیخ کے بعد دوسری شادی کی اجازت دیدی گئی۔ چنانچہ بعد تین ماہ عدت گزارنے کے لڑکی کے باپ نے اس کی شادی ایک اور شخص محمد شفیع سے کردی ، نکاح کے دو تین ماہ بعد شیرمحمد آگیا اور اس نے اپنی بیوی کا مطالبہ کیا مگر لڑکی کے والد نے انکار کردیا اور کہا کہ لڑکی دوسرے شخص محمد شفیع کے گھر میں رہے گی، کیونکہ عدالت نے نکاح ثانی کی اجازت دے دی ہے اور اب تک بضد قائم ہے۔ لہٰذا اب صورت مذکورہ میں کیا نکاحِ اول منسوخ ہوگیا یا نہیں؟۔
جواب :۔ اس سوال کیساتھ عدالت کا جو فیصلہ منسلک تھا،اس میں فسخِ نکاح خیار بلوغ کی بناء پر کیا گیا ہے ، جس پر تنقیحات کی گئیں، ان تنقیحات کے بعد مندرجہ ذیل اُمور ثابت ہوئے۔1:لڑکی کا نکاح خود باپ نے کیا تھا ۔2:لڑکی نے آثار بلوغ ظاہر ہوتے وقت نکاح نامنظور کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا۔
لہٰذا اولاً تو یہ نکاح چونکہ باپ کا کیا ہوا ہے (اور اس کے سیئی الاختیار ہونے کا دعویٰ لڑکی نہیں کرتی) اسلئے اس میں لڑکی کو خیارِ بلوغ سرے سے حاصل ہی نہیں ہے، کما ھو مصرح فی سائر کتب الفقہ ، دوسرے اگرحاصل ہوتا تب بھی لڑکی نے خیارِ بلوغ کے حق کو استعمال کرنے کا وقت گزار دیا، لہٰذا شرعاً خیارِ بلوغ کی بناء پرعدالت کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار نہیں تھا اور شریعت کی رو سے اس کا فسخِ نکاح صحیح نہ ہوا ، لہٰذا محمد شفیع سے اس کا نکاح باطل وکالعدم ہے اور اصل خاوند شیرمحمد بدستور لڑکی کا شوہر ہے۔البتہ اگر محمد شفیع لڑکی کیساتھ صحبت کرچکا ہو تو جب تک تین حیض نہ آجائیں شیر محمد کیلئے اس سے صحبت کرنا جائز نہیں ۔واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم احقر محمد تقی عثمانی ٤/٢/١٣٨٨ھ الجواب صحیح بندہ محمد شفیع عفا اللہ عنہ فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ 282۔283

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکستان میںمساجد، مدارس، امام بارگاہوں ، خانقاہوں سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز ہوگا!

پاکستان میںمساجد، مدارس، امام بارگاہوں ، خانقاہوں سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز ہوگا!

پاکستان کا آئین قرآن وسنت کا پابند علماء ومشائخ اور ذاکرین کی وجہ سے ہے لیکن کیا مدارس خود قرآن وسنت کے پابند ہیں ؟ اوراگر نہیں توپھرکیانشاندہی یہودونصاریٰ کریں گے؟

پارلیمنٹ میں تحفظ وصحابہ اہلبیت بل کی حمایت پر تمام اہل سنت اور اہل تشیع متفق ہوں گے اور پاکستان نہیں ایران سمیت دنیا بھر میں اس پر عمل بھی کریںگے مگر صحابہ واہل بیت کون ہیں؟

پاکستان کا آئین علماء ومشائخ اور شیعہ ذاکرین کی وجہ سے قرآن وسنت کا پابند ہے لیکن کیا مدارس قرآن وسنت کے پابند ہیں؟۔ مدارس کا نصاب تعلیم قرآن میں تحریف ،فقہی کتابیں قرآن کی توہین کا سبق دے تو کیا پارلیمنٹ میں اس پر بل پیش نہیں ہونا چاہیے ؟۔ قرآن میں متواتر اور غیرمتواتر آیات کا عقیدہ تحریف قرآن نہیں ؟۔سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا جاتا ہو تو پھر اس سے بڑھ کر قرآن کی کوئی توہین ہے؟۔مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی دوکتابوں سے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز کے اوراق ایسے غائب کردئیے جیسے کہ اس نے اپنے سامنے کے دو بدنما دانت اڑادئیے۔ مگر اسکے بعد عمران خان کے نکاح خواں مفتی سعیدخان نے اپنی کتاب ” ریزہ الماس” میں فقہ حنفی کی فتاویٰ قاضی خان کی بھرپور تائید کردی ہے کہ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے علاج کیلئے لکھنے کا جواز بنتا ہے جیسے خنزیرکا گوشت ضرورت کے وقت جائز بن جاتا ہے۔
میرے آباء واجداد ایسے توحید پرست تھے کہ دیوبند کے اکابر اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ میری اپنی تعلیم وتربیت جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور مرشد حاجی عثمان کے ہاں ہوئی ہے۔جن کا تعلق تبلیغی جماعت سے تھا اور شریعت کے پابند اللہ والے تھے۔ اگر کرامات کو ماننا شرک ہے تو قرآن میں حضرت عیسیٰ کے جو معجزات ذکر کئے گئے ہیں تو اس سے بڑا شرک نعوذ باللہ اور کیا ہوسکتاہے؟۔ علماء دیوبند کی کرامات سے کتابیں بھری پڑی ہیں اور اللہ نے حاجی محمد عثمان سے دیوبند کے ماحول میں کام لینا تھا تاکہ خلقِ خدا گمراہی سے بچ جائے۔ البتہ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کو دیکھنے والے عیسائی جاہل مشرک بن گئے تو اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی قصور نہیں تھا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کے ہاں بغیر باپ کے بیٹا پیدا کیا تو اس پر حضرت مریم علیہا السلام خوش نہیں بلکہ بڑی پریشان تھی اور فرمایا کہ ”اے کاش! میں لوگوں کے ذہن سے نکل کر بھولی بسری بن جاتی ”۔ اللہ نے اس کرامت کے ذریعے بد عقیدہ یہود کو درست کرنا تھالیکن بعض ہٹ دھرم یہود اپنی خباثت پر ڈٹے رہے اور اکثریت مسیحی بن گئی ہے۔
مولانا احمد رضاخان بریلوی نے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کی تأویل کرتے ہوئے لکھ دیا کہ ” علامہ شامی نے لکھا ہے کہ اگر یقین ہو کہ علاج ہو گا تو پھر لکھنا جائز ہے لیکن یقین کا حاصل ہونا وحی کے بغیر ممکن نہیں اور وحی کا سلسلہ بند ہوگیا ہے۔ اسلئے فقہ حنفی میں اس بات کا ثبوت ہے کہ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے”۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے لکھ دیا کہ ”علامہ شامی کے دل میں قرآن کی بہت بہت توقیر اور تعظیم تھی لیکن فقہاء نے بال کی کھال اتارنے کے چکر میں یہاں ایک غلطی کردی۔ اگر سورج کی طرح یقین ہوجائے تو بھی پیشاب سے سورۂ فاتحہ کو لکھنے سے مرجانا بہتر ہے”۔
مفتی تقی عثمانی نے لکھا کہ ” حنفی فقہاء نے سورہ ٔ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز کو یقین سے مشروط کردیا ہے لیکن میں نے امام ابویوسف کی کتابوں کو چھان مارا اور مجھے یقین کی شرط کہیں نہیں ملی”۔ یعنی یقین نہ ہو تب بھی علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھناجائز ہے”۔ اور مفتی سعیدخان نے لکھ دیا کہ ” سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے میں حرج نہیں ہے اسلئے کہ یہ علاج پیٹ میں نہیں جاتا ہے اور خنزیر کا گوشت تو پیٹ میں بھی جاتا ہے اسلئے وہ زیادہ خطرناک مگر جائز ہے”۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے ہم نے فتویٰ لیا تو انہوں نے لکھ دیا کہ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا تصور بے دینی اور گمراہی ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہے اور اس کیلئے اگرچہ فقہ کی کتابوں میں کوئی حوالہ نہیں ملا اسلئے نوروز میں تعویذ اپنے دروازے پر لٹکانے کی عبارت لکھ دی جس میں مشرکوں کی مشابہت ہے۔
اگر حنفی اس وجہ سے حدیث کو نہیں مانتے کہ قرآن سے متصادم ہے تو ہدایت کا یہی راستہ ہے۔ حنفی مسلک کا سب سے بڑا اعزاز یہی ہے کہ قرآن کے تحفظ کیلئے تن تنہاء اس اصول کے تحت بہت بڑا بند باندھ دیا۔جس کو تمام مسالک بھی بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور امت مسلمہ کی بہت بڑی اکثریت نے قبول بھی کرلیا۔ دیوبندی ،بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ ماحول کی بنیاد پر اپنے مسلک اور فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ نبیۖ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ” اسلام سے پہلے دورِ جاہلیت میں جو لوگ سونا چاندی تانبا ، پیتل اور کوئلہ کی طرح تھے تو وہ اسلام کے بعد بھی ویسے ہی ہیں۔ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل سکتا ہے مگر انسان اپنی فطرت نہیں بدل سکتا ہے”۔یہ زبردست فطری حقیقت ہے۔ابن صائد، مروان بن حکم اور ذوالخویصرہ جیسے لوگ دورِ جاہلیت میں بھی کوئلہ کی طرح تھے اور اسلام کے بعد بھی اپنی فطرت سے نہیں ہٹ سکے تھے۔ آج بھی بہت لوگ فطری طور پر اچھے اور بہت لوگ بدخلق اور بدکردار ہیں۔ جو ہر ماحول ومذہب میں ملتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” بیشک جو لوگ مسلمان ہیں، جو یہودی ہیں ، جو عیسائی ہیں اور جو صائبین ہیں ،جوبھی اللہ اور آخرت پر ایمان لائے اور صالح عمل کئے تو ان کیلئے اجر ہے اور ان پر نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگیں ہو ں گے۔ (البقرہ :62)
عمل صالح کا تعلق عبادات نماز، روزہ اور حج سے نہیں بلکہ حقوق العباد سے ہے۔ عبادات اور اللہ کے ذکر میں سب کا منہاج الگ الگ ہے مگر حقوق العباد میں سب کیلئے ایک طرح کے اصول ومعاملات ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہماری ایک بہت نیک، صالح، قابل عزت وقدر اور مظلوم بہن ہوسکتی ہے لیکن اس پر ظلم اس امریکہ نے کیا جس نے افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور پاکستان کو بھی تباہ کردیا ہے۔ گوانتا ناموبے میں انسانی مظالم کی آخری حدیں پار کردیں ۔ ہوسکتا ہے کہ9/11کے حادثے کی وجہ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت سب کچھ دنیا کو ٹھیک بھی لگتا ہو لیکن اسلام کے نام پر خواتین کیساتھ کیا ہورہاہے؟۔
ایک برمی یا بنگالی پاگل خاتون”چری” ٹانک کے بازار میں گھومتی تھی اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی اسلئے کہ وانا بازار میں بھی ایک پاگل خاتون گھومتی تھی۔ البتہ ٹانک برمی یا بنگالی خاتون کیسے پہنچی؟۔ اس طرح کتنی خواتین اذیتوں کا شکار ہوں گی؟۔ ہمارے ایک شخص نے چند بچوں سمیت خاتون خرید لی تھی۔ ابراہم لنکن نے امریکہ میں غلاموں کی خرید وفروخت اور سپلائی پر پابندی لگادی تو اللہ نے امریکہ کو سپر طاقت بنادیا۔ اسلام نے غلاموں اور لونڈیوں کے انسانی حقوق بحال کرکے دنیا میں انقلاب برپا کیا تو خلافت راشدہ کے دور میں دنیا کی دونوں سپر طاقتوں مشرق میں پارس اور مغرب میں روم کو شکست دی اور پھر1924تک مسلمانوں کی خلافت کا ڈنکا بج رہاتھا۔ پاکستان بننے سے پہلے بھی سوات میں خواتین کی منڈی لگتی تھی اور وزیرستان کانیگرم میں بھی ایسی خواتین تھیں لیکن شادی بیاہ کی وجہ سے ان کی حیثیت لونڈی نہیں بلکہ آزاد خواتین کی ہی تھی۔
پاکستان کے آئین میں قرآن وسنت کی پابندی ہے لیکن قرآن وسنت کیا چیز ہیں؟، اس کا پارلیمنٹ تو دور کی بات ہے مدارس والوں کو بھی پتہ نہیں ہے۔ نبیۖ نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑکرفرمایا :من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ ” میں جس کا مولا ہوں یہ علی اس کا مولا ہے”۔ مولا کے ساتھ ”نا” لگایا جائے تو مولانا بنتا ہے جس کا مطلب ”ہمارامولا” ہے۔ آج ہر مدرسہ کے فارغ التحصیل عالم دین کو مولانا کہا جاتا ہے لیکن جب مولانا طارق جمیل نے کہا کہ حدیث کی وجہ سے میں آج کے بعد علی کیلئے بھی مولا کا لفظ استعمال کروں گا تو یارلوگ بہت برا مان گئے اور مولانا طارق جمیل کے پیچھے ہاتھ دھوکے پڑگئے ۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہ ۖ کی ذات سے زیادہ مدارس کی سند کو ہمارے ہاں اہمیت حاصل ہے؟۔ بالکل! یہی بات ہے۔ مدارس میں پڑھاتے ہیں کہ نبی ۖ نے فرمایا ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے ، باطل ہے ”۔ ساری امت اس حدیث کو مانتی ہے لیکن حنفی کہتے ہیں کہ یہ قرآن سے متصادم ہے اسلئے قابلِ قبول نہیں ہے ۔ یہ بہت خوب واقعی قرآن سے متصادم حدیث کو نہیں ماننا چاہیے لیکن جب کسی فقیہ کی عبارت آتی ہے کہ نسلی اعتبار سے عجم کی حیثیت نہیں ہے اور جعلی عربی کی لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو اس کا نکاح منعقد نہیں ہوتا ہے تو پھر مفتی قرآن کو بھی نہیں مانتا ہے اور مفتی اعظم پاکستان اور شیخ الاسلام اس حد سے بھی گزر جاتا ہے کہ ”اگر عجم نسل کی بالغ عورت کو اغواء کرکے ڈرادھمکا کرنکاح کرلیا تو بھی اگر لڑکی یا اس کے رشتہ دار اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں تو واحد طریقہ یہ ہے کہ لڑکے سے طلاق لی جائے”۔ اگر مفتی تقی عثمانی سے فتویٰ طلب کرنے والے آرائیں میں غیرت و طاقت ہوتی اور اس فتوے پر مکا رسید کرکے مفتی تقی عثمانی کی چونچ توڑ دیتا جس میں ناک اور آگے دونوں دانت شامل تھے تو پھر اس قسم کی بکواس کو ” فتاویٰ عثمانی جلد دوم ” میں شائع کرنے کی جرأت نہ کرتا اور اپنی حدود میں رہتا۔ عورت اور نسل کیساتھ اس سے بڑی زیادتی کیا ہوسکتی ہے؟۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا: قلم اور کاغذ لاؤ، میں ایسی چیز لکھ کر دیتاہوں کہ میرے بعد گمراہ نہ ہوگے۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ ہمارے لئے قرآن کافی ہے۔ کچھ نے حضرت عمر کی تائید کی اور کچھ نے نبی ۖ کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ کیا نبیۖ ہذیان بول رہے ہیں؟۔ جب شوراُٹھاتونبی ۖ نے فرمایا کہ میرے پاس سے نکل جاؤ۔ ( صحیح بخاری ) اگر نبیۖ کی بات مان لیتے تو پھر نبی ۖ کے بعد خلافت کے مسئلے پر انصار ومہاجرین اور قریش واہل بیت میں کوئی دراڑ نہ پڑتی۔ حضرت عمر نے بھی فرمایا تھا کہ کاش ہم نبی ۖ سے پوچھتے کہ آپ کے بعد خلفاء کس کس کو مقرر کیا جائے اور زکوٰة نہ دینے والوں کا حکم بھی پوچھ لیتے۔ یہودی نے حضرت علی سے کہا کہ نبی ۖ کی تجہیزوتکفین اور تدفین سے پہلے تم خلافت پر لڑرہے تھے؟۔ تو حضرت علی نے جواب دیا کہ تمہارے ابھی دریائے نیل سے پیر خشک نہیں ہوئے تھے کہ بچھڑے کو اپنا معبودبنا لیا تھا۔
پہلا سوال یہ ہے کہ حدیث قرطاس کے نقصانات اپنی جگہ پر مسلمہ ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز بھی نہیں ہے کہ حضرت عمر نے کسی کفرو گمراہی کا ارتکاب کیا بلکہ منشاء الٰہی یہ تھی۔ حضرت عمر کے ذریعے اللہ نے یہ سبق سکھایا کہ پیپلزپارٹی کا بینظیر بھٹو کی وصیت کے ذریعے ایک جمہوری پارٹی کا چیئرمین بنانا، نوازشریف کا مریم نواز کو نامزد کرنا اور مولانا فضل الرحمن کا اپنے بیٹے اسد محمود کو نامزد کرناغلط ہے۔ مفتی محمد شفیع کا اپنے بیٹوں کا نہ صرف نامزد کرنا بلکہ مدرسے کی وقف زمین کا خریدنا اور اس کے خلاف فتویٰ دینے پر مفتی رشیداحمد لدھیانوی کا پیٹنا سب غلط تھا۔ چندوں اور وقف کے مال وجائیدادکو موروثی بناناشریعت اور اخلاقی اقدار کے بالکل منافی ہے۔ایران بھی امام خمینی کی اولاد اور کسی صدر کو نامزد کرنے کے بجائے عوامی رائے سے اپنا سربراہ منتخب کرتا ہے۔حضرت عمر کے اقدام نے بھی اسلام کے حوالے سے نامزدگی اور موروثیت کا راستہ روکا ہے۔
پاکستان میں جمہوریت سے خلافت کے اسلامی نظام کو زندہ کیا جائے تو دنیا بھرکے مسلم و غیرمسلم ممالک اسلام کامعاشرتی، معاشی ، اخلاقی اور عدالتی نظام قبول کرنے میں دیر نہیں لگائیںگے۔ عورت ماں ہے جس کے قدموں کے نیچے جنت ہے لیکن جب ماں کیلئے دنیا جہنم بنادی جائے تو پھر اس کے بچوں کیلئے دنیا کیسے جنت نظیر بن سکتی ہے؟۔ قرآن وسنت نے ہرنوع کی عورت کو جس طرح کا انسانی حق دیا ہے اس کو دنیا قبول کریگی مگر مذہبی طبقے نے جس طرح کا بگاڑ پیدا کیا ہے تو اسے غیرمسلم تو بہت دور کی بات ہے کوئی مسلمان بھی قبول نہیں کرسکتا ہے۔ چلتی کا نام گاڑی ہوسکتا ہے لیکن اگاڑی کا نام پچھاڑی نہیں ہوسکتا ۔علماء اور مفتیان نے سود کے عالمی نظام کو اسلامی جواز بخش کر جو خود کش حملہ قرآن وسنت اور اسلام پر کردیا ہے۔ اب اس نظام کو نئے سرے سے اپنے اصل کی طرف لانا پڑے گا۔ ہمارے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر پر نسپل جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی نے ہمیں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے لیٹر پیڈ پر لکھ دیا کہ ” حضرت امام مالک کا یہ قول سامنے رکھنا چاہیے کہ اس امت کی اصلاح کبھی نہیں مگر جس چیز سے اس کی امت کی پہلے اصلاح ہوئی تھی ”۔آج مفتی تقی عثمانی اپنے استاذ مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس پاکستان اور میرے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر صدر وفاق المدارس پاکستان سے منحرف ہوا ہے ،پھر بھی علماء نے پتہ نہیں کس لالچ میں اس کو وفاق المدارس کا صدربھی بنادیاہے ؟۔
زوال وپستی کی ایک حد ہوتی ہے جب کوئی قوم اس کو پہنچ جاتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کو دوبارہ اٹھانے کی سبیل پیدا کردیتا ہے۔ عرب ممالک کا پیسہ مغرب کے بینکوں میں پڑا رہتا تھا اور وہ اپنا سود نہیں لیتے تھے۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے ان کو جواز کا حیلہ پیش کردیا ۔ جب انہوں نے سود کو جائز سمجھ کر کھانا شروع کردیا تو پھر اس کے اثرات بھی سعودی عرب پر پڑ گئے۔ مولانا سلمان ندوی نے کہا کہ جب مدینہ منورہ میں سینما گھر کھولنے کا فیصلہ ہوا تو مفتی تقی عثمانی نے اس پر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا۔حالانکہ یہ کافی نہیں ہے بلکہ پاکستان کی فوج کو چاہیے کہ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ سے ان خرافات کو دور کرنے کیلئے میدان میں اترے اور بزور بازو مسلمانوں کے مقدس مقامات کاخرافات سے تحفظ کرے۔
علماء و مشائخ اور ذاکرین نے مجھے تنہا اس بوجھ کو اٹھانے کیلئے چھوڑ دیا ہے جو میرے بس کی بات نہیں ۔اللہ کے فضل سے اس کی مدد شاملِ حال ہے اور اب شیطان کے بچھائے مکڑی کے جالوں سے اس جدید دور میں جان چھڑانا مشکل نہیں ۔اور کیا واقعی عمران خان سیاسی جماعتوں اور نظام کے خلاف کھڑا ہے؟۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مفتی تقی عثمانی کا اسلامی معاشی نظام پر خودکش حملہ

مفتی تقی عثمانی کا اسلامی معاشی نظام پر خودکش حملہ

قرآن وسنت کے مقابلہ میںغلط اجتہاد سے بیڑہ غرق ہوا۔سودی بینکاری اسلام پر خود کش حملہ تھا۔
نبیۖ کے بعد صحابہ نے خود کو فتنے میں مبتلاء پایا۔ انصارصحابہ نے خلافت کیلئے محفل سجائی اور حضرت ابوبکر و عمر کے بعد عثمان کی شہادت پرحضرت علی وعائشہ کی جنگ پھر خلافت پر امارت کا قبضہ، یزیدکی بدمعاشی،پھر فقہاء کے مسائل پر تضادات کی بھرمار، قرآنی تفسیرمیں انتہائی گڑبڑاور احادیث کااختلاف ، من گھڑت فرائض ، بے دھڑک فرقے۔ قرآن وسنت سے دُوری۔اسلام اور اقتدار دونوں کا ستیا ناس
رسول اللہ ۖ پر وحی کا نزول ہوتا تھا۔ سورۂ مجادلہ میں عورت کے حق میں وحی نازل ہوئی۔ بدر ی قیدیوں پر اکثریت کے مشورے پر نبی ۖ نے فیصلہ کیاتھا اور حضرت عمر و حضرت سعد کے حق میں وحی نازل ہوئی۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ رسول اللہ ۖ نے اپنی صوابدید پر کیا ،اللہ نے فتح مبین قرار دیا اور جس بوجھ نے آپ کی کمر دہری کررکھی تھی ،اللہ نے اگلا پچھلا بوجھ ہلکا کردیا۔ انا فتحنا لک فتحًا مبینًالیغفراللہ ماتقدم من ذنبک وماتأخر منہ ” بیشک ہم نے آپ کو فتح عطاء کی ہے کھلی فتح۔تاکہ آپ سے آپ کا اگلااورپچھلا بوجھ ہلکا کردے”۔ الم نشرح لک صدرک ووضعنا عن وزرک الذی انقض ظھر ک ”کیا ہم نے آپ کا سینہ نہیں کھولا ؟اور آپ سے وہ بوجھ نہیں ہٹایا جس نے آپ کی کمر توڑ رکھی تھی؟”۔ مفتی تقی عثمانی و مفتی عبدالرحیم کے گناہ گنوائے جاسکتے ہیں جو انہوں نے ماضی میں کئے اور مستقبل میں جاری ہیں لیکن ان سے کوئی کہے کہ ” اللہ تمہارے اگلے پچھلے گناہ معاف کرے” تو ان کے معتقدین برا منائیں گے کہ یہ اللہ کے ولی محفوظ ہیں پھرمعصوم نبیۖ کی طرف گناہ کی نسبت قرآن کا ترجمہ قرار دینے سے بڑھ کر گمراہی کے دلدل میں یہ امت کیسے پھنس سکتی ہے؟۔
صحابی نے خواب دیکھا کہ آسمان سے ترازو اترتا ہے ۔ نبی ۖ اوردوسرا پلڑا برابر ہوتے ہیں۔ پھر حضرت ابوبکر کے مقابلے میں دوسرا پلڑا ہلکا ہوجاتا ہے۔ پھر حضرت عمر کے مقابلے دوسرا پلڑا مزید ہلکا ہوجاتا ہے۔ پھر ترازو آسمان پر اٹھالیا جاتا ہے۔نبیۖ نے یہ تعبیر فرمائی کہ آسمانی اقتدار ابوبکروعمر ہی تک رہے گا۔ نبیۖ کو رضا کارانہ عشرو زکوٰة ملتا تھا اور کسی نے انکار کیا تو اسکے خلاف قتال نہ کیا۔ حضرت ابوبکر نے زکوٰة دینے سے انکار پر قتال کیا۔سردارِ انصار سعد بن عبادہ کو حضرت عمر کے دور میںجنات نے قتل کیا؟۔ حضرت عمر کے قتل کے بعد قاتل نے خود کشی کی۔ عبیداللہ بن عمر نے قاتل کی بیٹی سمیت تین افراد کو قتل کیا۔ حضرت عثمان نے مشاورت کی تو حضرت علی نے کہا کہ قصاص میں قتل کرو۔ عمرو بن عاص کے کہنے پر حکومت نے دیت دی ،پھر حضرت عثمان گھر میںشہید کئے گئے پھر حضرت علی کی شہادت کے بعد حسننے امیرمعاویہ سے صلح اور یزید کے خلاف حسیننے قیام کیا۔ عمر بن عبدالعزیزاور حجاج کی طرح انفرادی اچھے برے آئے۔ اقتدار کی رسی آمریت اوربادشاہت کے بعد جبری دورِ حکومت تک جاپہنچی ہے۔اقتدار کی امانت البیعة للہ ” بکنا صرف اللہ کیلئے ہے”کے سپرد کرینگے تو مشکلات ختم ہوں گی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

()

See more:
https://zarbehaq.com/islam-o-iqtidar-jurwa-bhai-hain//