مارچ 2022 - Page 2 of 2 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

مولانا اکرم سعیدی کا مشورہ بہترین ہے۔ اس نے لوگوں کے غرور کو تباہ کر دیا ہے، اس لیے لوگ حلالہ کے خلاف انقلاب کے لیے تیار نہیں!

مو لانا اکرم سعیدی کا مشورہ بہترین ہے۔ علماء کرام کو بالمشافہہ سمجھانابھی ضروری ہے۔ اسلام سے پہلے دورِ جاہلیت میں غیرت تھی اسلئے اسلامی انقلاب پہلے دور میں آیا تھا اور اب اس دور میں حکمرانوں ، سیاستدانوں، مذہبی طبقات اور تاجروں وغیرہ نے عوام میں غیرت ختم کردی ہے اسلئے حلالہ کے خلاف انقلاب پر لوگ آمادہ نہیںہیں!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

علماء کرام ، مفتیان عظام اور عوام کالانعام کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ چودہ سوسال سے صحابہ کرام ، فقہ کے ائمہ عظام نے طلاق کے جس مسئلے کو قرآن سے بالکل واضح طور پر نہیں سمجھا تو15ویں صدی ہجری ،21ویں صدی عیسوی میں جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے طالب کانیگرم جنوبی وزیرستان کے عتیق گیلانی کے سر پر کونسا ہما بیٹھا اور کس سرخاب کے پر لگے ہیں کہ ” اس کو قرآن وسنت میں طلاق کا مسئلہ اتنی وضاحتوں کیساتھ سمجھ میں آیا ”۔ اسکا جواب تحدیث نعمت کے طور پر یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا سید انور شاہ کشمیری نے ساری زندگی مدرسے کی تعلیم وتعلم میں گزاردی لیکن پھر آخر میں فرمادیا کہ ” میں نے اپنی ساری زندگی مسلک کی وکالت میں ضائع کردی اور قرآن وحدیث کی کوئی خدمت نہیں کی”۔ جسکے گواہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع تھے۔ امام ابوحنیفہ نے اپنی جوانی علم کلام کی گمراہی میں گزار دی اور پھر عمر کے آخری حصہ میں فقہ و اصول فقہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے ساری زندگی تعلیم وتدریس کرکے بڑے بڑے نامور شاگرد پیدا کئے لیکن جب مالٹا میں اسیر ہوئے تو قرآن کی طرف توجہ گئی اور آخری عمرکی گھڑیاں اس افسوس میں گزاردیں کہ نامورشاگردبھی اس روایتی تعلیم وتدریس کو چھوڑ کر قرآن کی طرف توجہ دیں اور امت مسلمہ کو فرقہ واریت سے نکالیں۔
امام غزالی نے ساری زندگی فقہ واصول فقہ کی خدمت کی اور آخر میں توبہ کیا اور تصوف کی طرف گئے۔ کتاب کا نام المنقذ من ضلال ”گمراہی سے نکالنے والی رکھا”۔ عربی میں کتاب مذکر اور اردومیں مؤنث ہے۔ علماء نے اس کتاب کے نام کا ترجمہ بھی غلط کیا ہے۔ ”اندھیروں سے روشنی کی طرف”۔ جس کا عربی میں ترجمہ من الظلمات الی النور بنتاہے۔ امام غزالی نے فقہ کی گمراہی سے نکالنے کیلئے تصوف کی روشنی کی نشاندہی کردی ہے۔لیکن یہ ترتیب بھی بالکل ہی اُلٹی لگتی ہے اسلئے امام غزالی کے اس خواب کو بیان کیا جاتا ہے کہ کوئی کتاب اور کوئی دینی خدمت کام نہیں آئی لیکن مکھی کو سیاہی پلانے سے بخش دیا گیا ہوں۔
میںنے اپنی ابتدائی زندگی میں دین کی طرف رغبت میں قدم رکھا تھا۔جب گورنمنٹ ہائی سکول لیہ پنجاب میں7ویں کلاس سے9ویں کے ابتدائی سال تک سکول سے زیادہ مذہبی کتابوں کی طرف رحجان ہوگیا۔ پھر کوٹ ادو میں بھائی کے تبادلے کے باعث منتقل ہوا اور10ویں کا امتحان دینے سے پہلے گھر چھوڑ کر کراچی کا سفر کیا۔ رزق حلال کیساتھ مدرسے کی تعلیم کو اپنا مقصد بنایا۔حضرت مولانا اللہ یار خان کے رسالے ”المرشد” میں اعتدال نظر آیا تو ان کے مریدوں کیساتھ جامع مسجد ابوبکر ڈیفنس مجلس ذکر کیلئے پہنچ گیا۔ ان کے خلیفہ سے ان کے مریدوں نے میرا حال بیان کیا تو مجھے پیشکش کی گئی کہ نوکری ، مالی امداد اور سب مسائل حل کردیں گے لیکن بیعت ہونا پڑے گا۔ میں نے کہا کہ دنیاوی پیشکش کے بعد میں کسی صورت بھی بیعت نہیں ہوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مرشد مولانا اللہ یار خان آپ کو خود بیعت نہیں کریں گے بلکہ براہِ راست نبیۖ کے ہاتھ پر بیعت کرائیںگے۔ میں نے عرض کیا کہ اب ایک مرتبہ دنیا کی پیشکش کے بعد میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ کسی بھی صورت بیعت نہیں ہونا ہے لیکن یہ بتاؤ کہ آپ کو نبیۖ سے بیعت کروائی ہے؟۔ مسجد کا امام چار ماہ پہلے بیعت ہوچکا تھا اور اس نے میرے سوال کا یہ جواب دیا کہ یہ ہرکسی کی اپنی استعداد اور قسمت ہوتی ہے۔ اللہ نے جو آپ کی قسمت اور استعداد رکھی ہے ۔یہ مجھ میں نہیں ہے۔
جب مولانا اللہ یارخان کے خلیفہ مولانا اکرم اعوان اورمولانا نورمحمد شہیدMNAجنوبی وزیرستان کیساتھ مجھے سردارامان الدین شہید نے پروگرام میں مدعوکیاتھا۔ تومولانا اکرم اعواننے اپنی تقریرمیں کہاتھاکہ” میں زمیندارہوں۔ جب کاشتکار اپنی فصل اٹھاتا ہے تو کچھ اناج سے قرضے اتارتا ہے، کچھ کو بیچ کر گھر کے خرچے پورے کرتا ہے اور کچھ سے دیگر ضروریات پوری کرتا ہے لیکن جوسب سے بہترین گندم ہوتی ہے ،اس کو بیج کیلئے چھوڑ دیتا ہے۔ وزیرستان کے لوگوں کو اللہ نے بیج کیلئے رکھا ہے اور اس سے دنیا کی امامت کا کام لینا ہے”۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں کچھ دن پہلے مولانا عبدالقدوس سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پیشکش کی کہ یارک میں میری مسجد میں جمعہ کی تقریر کریں لیکن میں نے معذرت کی کہ میرے لئے گوشہ ٔ عافیت میں لکھنے پڑھنے کا کام کافی ہے اور میرے ساتھ سکیورٹی کے مسائل بھی ہیں۔ مولانا نے حضرت انس کے واقعہ کو بیان فرمایا کہ” حجاج نے کہا کہ میں اپنے ہاتھ سے تجھے قتل کروں گا۔ حضرت انس نے فرمایا کہ تو مجھے قتل نہیں کرسکتا ہے۔ حجاج نے تلوار سے وار کیا تو خود ہی پٹخ کر گرگیا۔ پھر وار کیا تو پھر اوندھے منہ ہوکر گرگیا۔ تیسری بار حملہ آور ہونا چاہا تو رُک گیا۔ حجاج کے جلادوں نے کہا کہ کیوں رُک گئے ہو؟۔ حجاج نے کہا کہ اس کے پاس اردگرد میں دوشیر ہیں۔ پہلے ان کے منہ بند تھے اور اب وہ منہ کھولے کھڑے ہیں ،اگر میں نے حملہ کیا تودونوں شیر مجھے کھاجائیں گے”۔
میں نے عرض کیا کہ ایسا ہوجاتا ہے ۔ مجھے اور دوسرے دو افراد کو گاڑی میں دہشت گردوں نے شدید فائرنگ کا نشانہ بنایا لیکن اللہ تعالیٰ نے حفاظت رکھی۔ اور پھر جب رات کو دوبارہ ملاقات ہوئی توبلا تکلف ازراہِ مزاح کہہ دیا کہ جب اہل بیت کو کربلا میں دہشت گرد گھیر لیتے ہیں تو پھر ہمیں بچانے شیر نہیں آتے۔ حالانکہ حضرت عثمان کو شہادت سے حضرت حسن و حسین بھی نہیں بچا سکے تھے۔ مولانا عبدالقدوس نے بتایا کہ ” جب وہ23،24سال کی عمرکے تھے تو مدرسے کے فاضل تھے۔ مولانا اللہ یار خان ڈیرہ اسماعیل خان تشریف لائے تھے تو مجھے اپنے پاس چارپائی پر بٹھادیا۔ بڑے بڑے علماء کرام نیچے بیٹھے تھے اور یہ عجیب لگ رہا تھا۔ مولانا اللہ یار خان نے عربی کے کچھ اشعار پڑھے جس کو میں نے لکھ لیا اور دوسرے عالم دین نے لکھنے کی کوشش کی تو نہیں لکھ سکا ۔ مولانا اللہ یار خان نے فرمایا کہ یہ اس جوان کا کام ہے ۔ تم سے یہ نہیں ہوسکتا”۔ مولانا عبدالقدوس اب سکول سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاررہے ہیں۔ طارق کلاچی کے ساتھ وہ ایک سکول میں ڈیوٹی کرتے رہے ہیں۔ جب طارق کلاچی نے میرے والد سید مقیم شاہ سے کہا تھا کہ محسود افسر سے سفارش کردیں کہ وہ افغان رفیوجز میں کسی نوکری پر لگادیں تو والد صاحب ان کی بیٹھک میں طارق کلاچی کو لیکر گئے۔ جب پتہ چلا کہ واش روم میں وضو بنارہے ہیں تو محسود افسر سے کہا کہ ” نماز چھوڑ و، اس آدمی کو نوکری پر لگاؤ۔ شرمگاہوں کو دھونا، وضو کرنا اور نمازیں پڑھنا بوڑھی عورتوں کا کام ہے۔ مردوں کا کام دوسرے انسانوں کی خدمت کرناہے”۔ مجھے ابھی یاد بھی آرہاہے کہ طارق کلاچی نے مولانا عبدالقدوس کا بہت پہلے کہیں ذکر بھی کیا تھا۔
مولانا عبدالقدوس نے بتایا کہ ” مولانا اللہ یار خان نے کہا تھا کہ کانیگرم میں بہت پتھر ہیں اور ایک ہیرہ بھی ہے اور میں اس ہیرے کی تلاش میں آیا ہوں اور کوشش کررہا ہوں کہ وہ ہیرہ میرے ہاتھ لگ جائے”۔ مولانا اکرم اعوان نے تحریک الاخوان کے نام سے انقلاب لانے کی کوشش کی مگر ناکام ہوگئے تھے۔
جب ہم نے پاکستان کی تمام زبانوں میں نبیۖ کے آخری خطبے کے چند الفاظ ، کچھ منکرات سے منع کرنے اور کچھ معروفات کی علمی اور عملی ذمہ داری کو پورا کرنے کے اعلانات کرتے ہوئے ” اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور پوری دنیا پر چھا جاؤ”۔” اللہ اور اسکے رسول ۖ کی اطاعت میں وہ طاقت ہے کہ جس سے کمزور سے کمزور تر جماعت بھی فاتح عالم بن سکتی ہے”۔ تواس وقت جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا عبدالکریم بیرشریف لاڑکانہ سمیت بہت سارے علماء کرام نے پاکستان بھر سے ہماری تائید بھی فرمائی اور ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے والد نے ہمارے ساتھیوں سے کہا کہ”40سال سے قرآن وسنت کا درس دیتے ہوئے مدارس میں ہم چوتڑ رگڑ رہے ہیں اورامام سیدعتیق گیلانی کو مان لیں؟”۔ ہمارے ایک سندھی بلوچ ساتھی مختار سائیں نے کہا کہ ” آپ کو کس نے کہا تھا کہ چوتڑ رگڑیں؟۔ چوتڑ نہ رگڑتے ، امام تو سیدعتیق گیلانی ہی ہیں”۔
آج پاکستان کو قوم پرستی اورفرقہ پرستی کی طرف دھکیلا جارہاہے اور کئی لوگ چلے ہوئے کارتوس ہونے کے باجود پٹاخوں کی قیادت کرنے کے متمنی ہیں مگر لوگوں کو معروف چہرے بالکل منکر لگتے ہیں۔ جب بھی کوئی لاش سامری کے گوسالے کی طرح کمال جادوگری سے آواز بلند کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کو منکر نکیر فرشتوں کے سوال وجواب کا سامنا اسکے سابقہ کردار کی بنیاد پر کرنا پڑتا ہے۔ پیپلزپارٹی، نوازشریف، تحریک انصاف، مذہبی طبقے ، قوم پرست عناصر اور کراچی کے مختلف دھڑے بندیاں۔ کوئی کسی پر اعتماد کیلئے تیار نہیںہے۔
آؤ شخصیت پرستی اور گروہ پرستی کی جگہ قومی، مذہبی ، سیاسی ، معاشی ، معاشرتی، ملکی ، صوبائی اور شہری مسائل کے حل کیلئے بین الاقوامی مسائل سے آغاز کریں۔ حلالہ کی لعنت بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ عورت کے حقوق بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ مذہبی منافرت بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ جب وژن بہت بڑا ہوگا تو چھوٹے اور بہت ہی چھوٹے مسئلے بھی حل ہوجائیں گے۔ اسلام نے جائز اور ناجائز کیساتھ ہمیشہ زبردست راستہ بھی دیا ہے۔ بنی اسرائیل کی خواتین کو اہل فرعون زبردستی لونڈیا ں بناتے تھے۔ اسلام نے اس کو بدترین ظلم قرار دیا لیکن عورت کیساتھ کوئی جبر وزبردستی ہو تو اس کو حرامکاری اور زنا قرار نہیں دیا۔ ہمارے دور میں اکابرین علماء ومفتیان نے اتنے اندھے ہونے کا ثبوت دیا تھا کہ حاجی محمد عثمان کے مرید و معقتدین کے آپس کے نکاح کا انجام بھی اولادالزنا اور حرامکاری قرار دیا تھا۔ حالانکہ اسلام نے غیر مسلموں کے آپس کے نکاح کو بھی بالکل جائز اور درست قرار دیا ہے۔ نکاح وطلاق کے مسائل میں علماء وفقہاء کے آپس کا اختلاف بھی اتنا گھناؤنا ہے کہ اگر اس پر قومی اسمبلی اور سینٹ میں بحث ہوگئی تو مدارس اپنے نصاب کو ٹھیک کرنے میں بالکل بھی دیر نہیں لگائیں گے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیات222سے232تک خواتین کے حقوق بیان کئے ہیں لیکن علماء وفقہاء کا قرآن کی واضح آیات پر اختلاف ہی اسلئے تھا کہ انہوں نے اصل مقصد خواتین کے حقوق کا تحفظ نظر انداز کرکے شوہر کے حق پر بحث کی ہے کہ اس نے اپنا حق استعمال کیا یا نہیں کیا؟۔ آیت226البقرہ میں ایلاء یعنی شوہر کی بیوی سے طلاق کا اظہار کئے بغیر ناراضگی پر 4ماہ کے انتظار کا حکم ہے ۔ پھر اگر وہ آپس میں راضی ہوگئے تو ٹھیک ورنہ عورت کی عدت پوری ہے اور وہ پھر جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے۔ جمہور فقہاء ومحدثیں نے کہا کہ ” چار ماہ کیا چار سال اور عمر بھر نکاح میں رہے گی اسلئے کہ شوہر نے اپنا حق طلاق کے اظہار کو استعمال نہیں کیاہے”۔ احناف نے کہا کہ ” چار ماہ تک عورت کے پاس نہ جانے سے شوہر نے اپنا حق استعمال کرلیا اسلئے وہ طلاق ہوگئی”۔
حالانکہ اللہ نے عورت کے حق کے تحفظ کیلئے چار ماہ کی عدت بیان کی ہے کہ اس کے بعد عورت پر کوئی انتظار نہیں ہے اور اس میں بھی اس کی رضامندی کے بغیر شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔ جب نبیۖ نے ایلاء کیا تھا تو اللہ نے حکم دیا تھا کہ ” ان کو نکاح میں رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دیدیں”۔ قرآن نے صنف نازک کمزورعورت کو جو تحفظ دیا ہے وہ طلاق کا اظہار ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں اس کا اختیار ہے۔ حنفی مسلک حق کے قریب تھا۔ لیکن جب اللہ نے ناراضگی اور طلاق کی صورت میں عورت کو اختیار دیا ہے تو پھر طلاق رجعی میں اس کا اختیار چھین لینا قرآن وسنت کے بالکل منافی ہے۔ صحابہ کرام اور ائمہ عظام نے دراصل عورت کے اختیار ہی کو تحفظ دیا تھا لیکن بہت بعد والوں نے اسلام کا بیڑہ غرق کردیا۔ جب حضرت عمر کے سامنے مسئلہ آیا کہ عورت کو شوہر نے حرام قرار دیا ہے اور عورت رجوع کیلئے راضی ہے تو رجعت کا حکم دیا اور جب حضرت علی کے سامنے یہی مسئلہ آیا لیکن عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو علی نے پھر رجوع کرنے کو حرام قرار دیا۔ قرآن وسنت کا بھی یہی تقاضا تھا لیکن بعد کے علماء نے قرآن ولاتصفوا بالسنتکم الکذب ہذا حلال وہذا حرم ” اور اپنی زبانوں کو جھوٹ سے ملوث مت کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام”۔ کے خلاف صحابہ کرام ، خلفاء راشدین اور ائمہ عظام کی طرف جھوٹ کی نسبت کردی ہے۔
آیت229کے آخر میں230کے ابتداء میں نہ خلع کا ذکر ہے اور نہ ہی تیسری طلاق کا بلکہ مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بعد ایسی جدائی کا ذکر ہے جس میں دونوں میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والے اس بات پر اتفاق کرلیں کہ آئندہ کیلئے ان دونوں میں رابطے کا کوئی ذریعہ بھی چھوڑا گیا تو یہ دونوں ایکدوسرے کیساتھ لگ کر اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ جب آپس میں رجوع نہیں کرنے کی بات طے ہوجائے تو پھر عورت کیلئے بھی خدشہ رہتا ہے کہ سابقہ شوہر اس کو کسی اور سے نکاح نہیں کرنے دیتا ہے اور اس ظلم کا خاتمہ قرآن نے کردیا ہے کہ جب تک دوسرے شخص سے نکاح نہ ہو تو پہلے کیلئے حلال نہیں ہے۔ پھر اس کے بعد کی آیات231اور232میں پھر بھی واضح کردیا ہے کہ عدت کی تکمیل کے فوراً بعد اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بھی معروف طریقے سے باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے۔ آیات226،228اور229میں عدت کے اندر باہمی رضامندی سے معروف رجوع کی وضاحت بھی عورت کے حق کی حفاظت کیلئے ہے تاکہ عورت عدت کے بعد آزاد ی کا سانس لے سکے اور آیات231اور232میں عدت کی تکمیل کے بعد معروف رجوع اور باہمی رضامندی کی وضاحت اسلئے ہے تاکہ یہ ابہام نہ رہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی یہ خلاصہ پیش کیا گیا ہے لیکن حنفی علماء کرام اور مفتیان عظام بھی حقائق کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں۔ میں نے سنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن اپنی نجی مجالس میں ہمارا یہ کہتا ہے کہ اپنا آدمی ہے اور اگر کامیاب ہوگیا تو یہ ہماری جیت ہے۔ مولانا میرے سامنے بھی یہ بات کہہ چکے تھے اور آج ہم یہی کہتے ہیں کہ ” ہرکوئی ہمارا ہے اور ہم ہر کسی کے ہیں”۔ قاری محمد طیب کی نعت دیوبندی بریلوی اتحاد کیلئے اچھی ہے لیکن ایک عالم دین کی ایسی غزل بھی ہے کہ جس میں سب کی اپنائیت ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

تین (3) طلاق کا تصور قرآن وسنت اور فقہ حنفی کی روشنی میں اورحلالہ کے بغیررجوع کا فتویٰ؟

تین (3) طلاق کا تصور قرآن وسنت اور فقہ حنفی کی روشنی میں اورحلالہ کے بغیررجوع کا فتویٰ؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اللہ نے قرآن میں طلاق اور اس سے رجوع کا مسئلہ سب سے زیادہ واضح کردیا ہے۔اس کے ایک ایک پہلو سے بہت ہی فصیح وبلیغ انداز میں ایسا پردہ اٹھایا ہے کہ اس میں ابہام کی کوئی بھی صورت بالکل بھی نہیں چھوڑی ہے۔ تاہم بدقسمت اُمت مسلمہ نے قرآن سے ایسا موڑ دیا ہے کہ اتنے واضح مسائل کی طرف بھی علماء کرام ، مفتیانِ عظام اور عوام الناس کی توجہ نہیں گئی ہے۔ یہ ایک بہت دیرینہ بیماری ہے کہ بعض لوگ جب خود کوضرورت سے زیادہ ہوشیار سمجھنے لگتے ہیں تو وہ قرآن کی موٹی موٹی باتوں کی طرف توجہ دینے کے بجائے اپنی ذہنی موشگافیوں کا شکار کھیلتے ہیں،جس سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس کی ہستی کو عام لوگوں سے امتیازی حیثیت کا حامل سمجھا جائے۔ اس بدفطرتی کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جہاں غوروفکر اور تدبر کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ہے وہاں پر وہ اپنے ذہن کی رسائی کا کمال دکھانا چاہتے ہیں۔جس سے کچھ لوگ اس کو بڑا دانشور مان لیتے ہیں لیکن وہ اللہ کی واضح اور موٹی موٹی باتوں کے سمجھنے سے بھی قاصر ہوجاتا ہے۔
سورۂ بقرہ کی آیات222سے232تک طلاق اور اس سے رجوع کا معاملہ واضح کرنے کیلئے بہت کافی ہیں اور سورۂ طلاق کی پہلی دوآیات میں بھی انہی آیات کا زبردست خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ متعدد بارپہلے بھی سمجھانے کی کچھ کوشش کی تھی اور اب ایک مرتبہ پھر اللہ کے عربی پیغام کا خلاصہ اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہوں۔
آیت222میں حیض سے متعلق سوال اور اس کا جواب ہے۔ اللہ نے فرمایاَ: حیض اذیت ہے اور حیض کی حالت میں عورتوں کے قریب مت جاؤ ،یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں اور جب وہ پاک ہوجائیں تو جیسا اللہ نے حکم دیا ہے ویسے ان عورتوں کے پاس آؤ۔ بیشک اللہ توبہ کرنے اور پاکیزہ رہنے والوں کو پسند کرتاہے ۔
اس آیت میں دوچیزوں کی حیض سے متعلق وضاحت ہے ۔ایک اذیت اور دوسری عدم طہارت۔ جس چیز سے بھی عورت کو اذیت ہو تو شوہر کو اس سے اجتناب برتنا ہوگا اور اسی طرح طہارت کا بھی مسئلہ بہت اہم ہے۔ اس آیت میں اللہ نے عورت کی اذیت کو مقدم کرکے یہ درس دیا ہے کہ عورت کی اذیت کا خیال رکھنا ہے۔
آیت223کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اپنے شوہروں کا اثاثہ (ایسٹ) قرار دیا ہے۔ جس طرح سائنس کی زبان میں عناصر کی صفات کو ان کا اثاثہ قرار دیا جاتا ہے اور عناصر سے اس کی صفات الگ نہیں ہوسکتی ہیں۔ اسی طرح مردوں کا اپنی عورتوں کیساتھ رشتہ انتہائی مضبوط اور یگانگت والا اللہ نے بتادیا ہے۔ اس ضمن میں بہت فضول قسم کی باتیں جن کو دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
آیت224طلاق کے اس مذہبی تصور کی بیخ کنی کیلئے سب سے بڑا بنیادی مقدمہ ہے جس میں شوہر کسی قسم کے بھی الفاظ ادا کرتا ہے اور پھر اس پر یہ فتویٰ دیدیا جاتا ہے کہ اب تمہارے مذہب نے رجوع کا دروازہ بند کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت واضح الفاظ میں اس بات کی نفی کردی ہے کہ اللہ کو ڈھال بناکر نیکی ، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح کرانے کا جو راستہ روکا جاتا ہے تو یہ بالکل غلط اور لغو بات ہے اور اللہ تعالیٰ نے بہت زبردست الفاظ میں اس کی نفی کردی ہے۔
میاں بیوی کے درمیان صلح سے بڑھ کر نیکی اور تقویٰ کا ماحول پیدا کرنے اور کیا بات ہوسکتی ہے؟۔ یمین کے کئی معانی ہیں۔ کام کرنے کے عہد کو یمین کہتے ہیں اور نہ کرنے کے عہد کو بھی یمین کہتے ہیں۔حلف کو بھی یمین کہتے ہیں اور طلاق اور اسکے متعلق تمام الفاظ کو بھی یمین کہتے ہیں۔ یہاں کی آیات طلاق کا مقدمہ ہیں لیکن مفسرین اور اصول فقہ والوں نے خوامخواہ حلف کی بحث چھیڑ دی ہے۔ جبکہ سورہ مائدہ میں کفارۂ یمین کیساتھ اذا حلفتم کی بھی بھرپور وضاحت ہے۔
آیت225میں اللہ نے واضح فرمایا ہے کہ ” اللہ تمہیں لغو یمین ( طلاق کے الفاظ) پر نہیں پکڑتا ہے مگرتمہیں پکڑتا ہے بسبب جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے”۔
اس میں طلاق صریح اور طلاق کنایہ کے تمام الفاظ شامل ہیں۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”تین چیزیں مذاق اور سنجیدگی میں معتبر ہیں۔ طلاق، عتاق اور رجعت”۔ طلاق اور رجعت میں سنجیدگی اور مذاق اس وقت معتبر ہے جب عورت کی طرف سے اس پر ایکشن بھی لیا جائے۔ اگر شوہر طلاق یارجوع کے الفاظ استعمال کرے اور عورت اس پر پکڑ کرے تو وہ کرسکتی ہے لیکن اللہ کی طرف سے اس پر پکڑ نہیں ہے اور آیت میں باہمی رضامندی سے طلاق کے بعد رجوع کا مقدمہ پیش کیا گیاہے۔
آیت226میں اللہ نے واضح فرمایا ہے کہ ” جو لوگ اپنی عورتوں سے لاتعلقی اختیار کرلیتے ہیں ان کیلئے چار ماہ ہیں ۔ پھر اگر انہوں نے آپس میں رجوع کرلیا تو اللہ غفور رحیم ہے”۔ اس آیت میں یہ واضح ہے کہ جب شوہر نے طلاق کا اظہار نہیں کیا ہو تو عورت ساری زندگی اس کے آسرے میں بیٹھنے پر مجبور نہیں ہے بلکہ چارماہ تک انتظار ہے اور پھر اگر باہمی رضامندی سے رجوع کرلیا تو ٹھیک ہے۔
یہ اس معاشرتی مسئلے کا حل ہے جس میں شوہر بیوی کو غیر اعلانیہ طور پر طلاق کے بغیر آسرے میں بٹھا کر رکھتا ہے۔ طلاق کے اظہار کی صورت میں عدت تین ماہ یا تین طہرو حیض ہیں۔ اور طلاق کا اظہار نہ کرنے کی صورت میں عدت ایک ماہ تک اللہ نے بڑھادی ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کیا ہے کہ مدتوں تک شوہر کے انتظار میں عورت کو بیٹھنے پر مجبور کیا جائے۔ اگر طلاق کا عزم ہو اور اس کا اظہار نہ کرے تو پھر یہ دل کا وہی گناہ ہے جس پر پکڑ کی وضاحت آیت225اور227میں ہے۔
آیت227میں ہے کہ ” اگر ان کا طلاق کا عزم ہو تو پھر اللہ سننے جاننے والا ہے”۔ طلاق کا اظہار کئے بغیر بھی وہ دل کے عزم کوسنتا سمجھتا ہے۔اس دل کے گناہ پر پکڑتا ہے اسلئے کہ عزم کا اظہار نہیں کیا تو عورت کی عدت ایک ماہ مزید بڑھ گئی۔ اللہ نے ایک ماہ کی مدت بڑھانے پر دل کے گناہ اور اس پر پکڑنے کی وضاحت کی ہے لیکن مولوی حضرات عورتوں کو برسوں بٹھائے رکھنے کو بھی دین سمجھ رہے ہیں۔
آیت228میں ہے کہ ” طلاق والی عورتیں تین قروء (طہروحیض) تک انتظار کریں۔ اور نہ چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کیا ہے ،اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہوں۔ اور ان کے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں بشرط یہ کہ اصلاح چاہتے ہوں ”۔
حمل کی عدت بچے کی پیدائش تک ہے۔ حیض والی عورت کی عدت تین طہرو حیض ہیں اور اگر حیض نہ آتا ہو یا اس میں کمی وبیشی کا شبہ ہو تو پھرعدت تین ماہ ہے۔ چونکہ طلاق سے رجوع کا تعلق اللہ نے حیض کی تعداد سے نہیں رکھا ہے بلکہ اصلاح کی شرط پر عدت کا پورا پورا دورانیہ رکھا ہے۔ حمل کی صورت میں اور جب حیض نہ آتا ہو تو پھر تین ادوار یا تین مرحلوں کی گنتی نہیں ہوسکتی ہے۔ لیکن حیض کی صورت میں تین ادوار یا تین مراحل کی گنتی ہوسکتی ہے۔ تین مرتبہ طلاق کا تعلق صرف اور صرف تین طہرو حیض کی صورت ہی سے عملی طور پر ہے۔ حمل کی صورت میں نہ تین مراحل ہیں اور نہ تین مرتبہ طلاق کی نوبت آسکتی ہے۔ عربی میں مرة کا تعلق ایک فعل سے جو ایک زمانے کیساتھ خاص ہے۔ جب عورت طہر کی حالت میں ہوتی ہے تو اس پر ایک مرتبہ کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے کہ جب اس کے بعد حیض آجائے۔ دوسری مرتبہ طلاق کا تعلق دوسرے طہرو حیض کے مرحلے سے ہے اور تیسری مرتبہ طلاق کا تعلق تیسرے طہرو حیض کے مرحلے سے ہے۔ اگلی آیت میں اللہ نے مزید سمجھایا:
آیت229میں ہے کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے………..”۔
یہ تین ادوار یا تین مراحل تک عورت کے انتظار اور شوہر کی طرف سے طلاق کے تین مرتبہ فعل کی وضاحت ہے۔ نبیۖ سے صحابی نے پوچھ لیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا” تسریح باحسان یعنی تیسرے مرحلے میں تیسری مرتبہ کی طلاق ہے”۔ قرآن کی ان آیات میں عدت کے تینوں مراحل میں تین مرتبہ طلاق کا فعل بالکل طے شدہ معاملہ ہے۔ جس طرح دن رات میں ایک مرتبہ ایک روزہ ہوتا ہے، اسی طرح ایک طہر میں عورت سے پرہیز کرنے کا فعل ایک مرتبہ کی طلاق ہے۔ پھر دوسرے طہرمیں عورت سے پرہیز کا عمل دوسری مرتبہ کی طلاق ہے یہاں تک کہ دوسرا حیض آجائے اور تیسرے طہرمیں تیسری مرتبہ پرہیز کا عمل تیسری مرتبہ کی طلاق ہے۔ یہاں تک کہ تیسراحیض آجائے ۔
سورۂ طلاق میں بھی عدت میں طلاق کے عمل کو اس طرح گنتی شمار کرکے پورا کرنے کا عمل سمجھایا ہے۔ جب نبیۖ کو حضرت عمر نے اطلاع دی کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ حیض میں تین طلاق دئیے ہیں تو رسول اللہ ۖاس پر بہت غضبناک ہوگئے کہ میری موجودگی میں تم لوگ قرآن کیساتھ کھیل رہے ہو؟ حضرت عمر نے عرض کیا کہ کیا میں اس کو قتل کردوں؟۔ نبیۖ نے اس کو بلانے کا حکم دیا اور پھر سمجھایا کہ اپنی بیوی سے رجوع کرلو۔ پھر اگر طلاق دینا چاہو تو طہر میں اسے رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر طہر کی حالت میں رکھو یہاں تک کہ اسے حیض آجائے اور پھر تیسری مرتبہ طہر آئے تو اگر رجوع کرنا چاہو تو رجوع کرلو اور چھوڑنا چاہو تو چھوڑ دو، یہ ہے وہ عدت جس کا اللہ نے قرآن میں اس طرح سے حکم دیا ہے۔ نبیۖ کا ابن عمر پر بہت غضبناک ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن کی وضاحتوں کو نہ سمجھنا ایک بہت بڑی کم عقلی کا مظاہرہ تھا۔ غضبنا ک ہونا اس بات کا ثبوت نہیںتھا کہ اب حلالہ کے بغیر رجوع بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ حضرت عمر اللہ کے احکام میں سب سے زیادہ شدید تھے اسلئے اس کو نبیۖ کے غضبناک ہونے پر قتل کرنے کی اجازت مانگی۔ نبیۖ کو معلوم تھا کہ قرآن کیساتھ یہ امت بھی وہی حشر کرے گی جو پہلوں نے اپنی کتابوں کیساتھ کیا تھا اسلئے حیض میں اور ایک ساتھ تین طلاق پر غضبناک ہونا فطری بات تھی۔
حضرت ا بن عمر کے حوالے سے یہ روایت الفاظ کی کمی بیشی کیساتھ صحیح بخاری کی کتاب التفسیر سورہ ٔطلاق اور صحیح مسلم کے علاوہ احادیث کی دوسری کتابوں میں موجود ہے۔ فقہاء کے ایک طبقہ نے اس سے یہ بھی اخذ کیا ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق نہیں ہوتی ۔ جس طرح دن کی حالت میں روزہ ہوتا ہے لیکن رات میں روزہ نہیں رکھ سکتے ہیں۔ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر کا یہ قول نقل ہے کہ ” نبی ۖ نے ایک مرتبہ طلاق کے بعد مجھے بیوی کے پاس لوٹنے کا حکم دیا اور اگر میں دومرتبہ کے بعد تیسری مرتبہ طلاق دیتا تو مجھے رجوع کا حکم نہ دیتے”۔ اور اس زبردست وضاحت کے بعد کم عقلی اور کم علمی کی یہ انتہاء ہے جس کی مت ماری گئی ہو کہ پھر اس سے تین طلاق کی تعداد مراد لی جائے۔ طلاق کی تعداد اور طلاق کے فعل میں واضح فرق ہے۔ تین روٹیاں کھانے اور تین مرتبہ روٹی کھانے میں جو فرق نہیں کرسکتا ہے وہ گدھا ہے اور اس لائق ہرگز نہیں کہ اس سے قرآن وسنت کے معاملے میں فتوے کی رہنمائی لی جائے اور امت اس ہوس پرست گدھے یا چالاک کتے سے اپنی خواتین کی عزتوں کو حلالہ کے نام پر لٹوائے۔ حضرت حسن بصری نے کہا کہ ابن عمر نے تین طلاق دی تھی ۔ بیس سال تک کوئی مستند شخص ایسا نہیں ملا جس نے اس کی تردید کی ہو ، بیس سال بعد زیادہ مستندشخص نے بتایا کہ ایک طلاق دی تھی۔( صحیح مسلم)
احادیث کی کتابوں میں جھوٹی اور من گھڑت روایات کی بھرمار کرنے والوں کا پتہ لگانا ہو تو صحیح الاسناد احادیث کے مقابلے میں ضعیف ومن گھڑت روایات کی ایک جھلک ہی دیکھ لی جائے۔ پورے ذخیرہ احادیث میں امام شافعی کو ایک ساتھ تین طلاق کے جواز کیلئے ایک عویمر عجلانی کی طرف سے لعان کے بعد ایک ساتھ تین طلاق کے الفاظ نکالنے پر تکیہ کیا ہے اور وہ بھی احناف اور مالکیہ کے نزدیک لعان کے بعد استدلال کے قابل نہیں ہے اور مولانا سیدانورشاہ کشمیری نے بخاری کی شرح ”فیض الباری” میں لکھ دیا ہے کہ ” ہوسکتا ہے کہ عویمر عجلانی نے الگ الگ مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی ہو”۔ قرآن میں ویسے بھی فحاشی پر عدت کے مراحل میں مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بجائے ایک دم فارغ کرنے کی وضاحت ہے۔
رفاعی القرظی کے واقعہ میں تین طلاق کا بھی احادیث میں ذکر ہے اور مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کی بھی وضاحت ہے۔ بخاری کی ایک روایت میں اجمال اور دوسری روایت میں تفصیل ہے۔ مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس پاکستان نے لکھ دیا کہ ”ایک روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوتی ہے اور دوسری روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ مراحلہ وار تین مرتبہ طلاق دینا چاہیے۔ کیونکہ احناف کا مؤقف یہ ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں اور سنت یہ ہے کہ مرحلہ وار تین طلاق دینا چاہیے”۔ (کشف الباری)
علامہ ابوبکر جصاص رازی نے بھی احکام القرآن میں یہی روش اختیار کی ہے کہ ایک طرف جب طلاق کا سنت طریقہ ثابت کرنا چاہتے ہیں تو لکھتے ہیں کہ ”الطلاق مرتان سے طلاق کے دوعدد مراد نہیں ہوسکتے ۔ جس طرح دو روپیہ کو دو مرتبہ روپیہ نہیں کہا جاسکتا ہے ،اسی طرح دو مرتبہ طلاق سے طلاق کے دو عدد مراد نہیں لئے جاسکتے”۔ دوسری طرف جب علامہ ابوبکرجصاص رازی یہ مؤقف ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہوتی ہیں تو پھر وہ کہتے ہیں کہ” جب الگ الگ مجالس میں تین طلاق واقع ہوسکتی ہیں تو ایک ساتھ تین مرتبہ طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے۔ یہ ایک باریک مسئلہ ہے جو سمجھ میں نہیں آتا ہے لیکن ایک مرتبہ میں بھی تین مرتبہ طلاق واقع ہوجاتی ہیں”۔( احکام القرآن)
علامہ ابوبکر جصاص رازی اور علامہ سید انور شاہ کشمیری نے قرآن واحادیث پر اپنی انفرادیت اور علمیت بھی جمانے کی کوشش فرمائی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کیلئے قرآن وسنت کی ایسی غلط اور متضاد تعبیر کردی ہے جس کا عدل وانصاف اور فطرت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ علامہ کشمیری نے اپنی عمر ضائع کرنے کی وضاحت فرمائی اور علامہ جصاص کا بھی خاتمہ بالخیر ہوا ہوگا۔ لیکن قرآن کی اچھی وضاحت کے بعد مسلک کی حفاظت میں اپنی خدمت ضائع کردی۔
سابقہ ادوار میں اپنے اپنے فقہی مسلک سے انحراف بھی بہت بڑا گھمبیر مسئلہ ہوتا تھا جس پر جان ومال اور عزت کے لالے پڑتے تھے۔ آج بھی مختلف علماء کی طرف سے بات سمجھنے کے پیغامات مل رہے ہیں لیکن جب انقلاب آئے گا تو پھر اس حمام میں بہت سے ننگوں کاپتہ چل جائے گا کہ کس کس نے حلالہ اور اپنے ذاتی اغراض کی خاطر قرآن وسنت کو قبول نہ کرکے خواتین کی عزتیں لٹوانے میں کردار ادا کیا تھا۔ البتہ کچھ لوگ اچھے ہونے کے باوجود معذور لگتے ہیں ۔دلائل کی الٹی سیدھی بھرمار اور جس ماحول میں پلے بڑھے ہیں اب قرآن کے فطری حقائق کو سمجھنے سے بھی قاصر نظر آتے ہیں۔ ہم بار بار اس مسئلے کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ بند دماغوں کی گتھیاں سلجھ جائیں اور امت کو قرآنی تعلیم سے پھر دنیا میں زندہ کیا جائے۔ قرآن زندہ ہے لیکن امت مسلمہ کے اجتماعی مردہ ضمیرکوپھر زندہ کرنا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

پشتون قوم اورعالمی حالات میں پاکستان کی صورتحال پر دیانتدارانہ تجزئیے کی کوشش!

پشتون قوم اورعالمی حالات میں پاکستان کی صورتحال پر دیانتدارانہ تجزئیے کی کوشش!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو پنجاب میں راجہ رنجیت سنگھ کی حکومت تھی اور انگریز کیلئے بڑا دردِ سر رنجیت سنگھ تھا۔ خیبر پختونخواہ پنجاب کا حصہ تھا۔ سیداحمد بریلوی اور شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے خلافت کا خواب دیکھا تو انگریز نے اس کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی۔ اسلئے کہ خراسان کے مہدی کی خلافت قائم کرنے میںوہ کامیاب ہوتے یا نہیں لیکن راجہ رنجیت سنگھ کو نقصان پہنچاسکتے تھے۔ رنجیت سنگھ نے یہ خواہش بالاکوٹ کی سرزمین میں دفن کردی اور یہ نظریہ ٔپاکستان کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔ ہندوستان سے خلافت کیلئے ہجرت کرنے والوں نے اپنی بیگمات و بچے سندھ میں چھوڑے تھے اور کیا پتہ کہ کراچی رنچھوڑ لائن کا علاقہ اسی لئے مشہور ہو کہ لوگ اپنی رن یعنی بیگم چھوڑ کر اطمینان سے جہاد پر جاتے ہوں۔ ایم کیوایم کی تحریک زوروں پر تھی تو رنچھوڑ لائن والوں نے کافی عرصے تک اپنے علاقے میں گھسنے نہیں دیا تھا۔
پختون قوم پرستوں میں غفار خان اور عبدالصمد خان نمایاں ہیں، دونوںکا تعلق کانگریس سے تھا۔ تحریک بالاکوٹ سے تعمیر پاکستان اورروس سے امریکہ تک کے مجاہدین کے خلاف رہے۔ انگریز دور میں علماء نے فتویٰ دیا تھا کہ ہندوستان دارالحرب ہے اور جو ہجرت نہ کرے گا ،اس پر بیوی حرام ہوجائے گی تو غفار خان نے کہا کہ اس فتوے کی وجہ نہ صرف ہم نے افغانستان ہجرت کی بلکہ ہماری بیویاں بھی ہم سے آگے آگے بھاگ رہی تھیں۔ افغانستان کی ہجرت ناکام ہوگئی تو علماء کے فتوے بھی ناکام ہوگئے۔ ملاعمر کے اسلام سے آج طالبان منحرف ہیں لیکن ملاعمر کا اسلام پہلے بھی متضاد تھا اور آج بھی قابلِ عمل نہیں ۔
پاک فوج راجہ رنجیت سنگھ کی فوج سے زیادہ مضبوط ہے۔ طالبان کا یہ گھمنڈ ہے کہ نیٹو جیسی طاقت کو شکست دی تو پاکستان کو بھی شکست دے سکتے ہیں۔ انگریز نے دی پٹھان میں لکھا ہے کہ” وزیرستان پر کبھی بھی کسی نے حکومت نہیں کی ہے اسلئے کہ حکومت کا کام ٹیکس وصول کرنا ہوتا ہے اور وزیرستان کے لوگوں نے کبھی کسی حکومت کو ٹیکس نہیں دیا ہے”۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیرستان میں اتنے بڑے پیمانے پر اناج اور وسائل نہیں تھے کہ کوئی حکومت قبضہ کرکے ٹیکس کا حصول یقینی بنانے کی تگ ودو میں اپنا وقت اور فوجیوں کو ضائع کردیتی۔
ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ برطانیہ اور افغانستان کے درمیان بعد میں ہواتھا۔ پہلے ایک طرف قبائل نے انگریز کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی اور دوسری طرف وہ خود کو افغانستان کا حصہ نہیں سمجھتے تھے۔ افغانستان کی حکومت نے قبائل سے مدد ضرور لی ہے لیکن قبائل کو افغانستان کا باقاعدہ حصہ کبھی نہیں سمجھا ہے۔ انگریزی سرکاری رپورٹ اور ہمارے خاندانی ذرائع سے یہ معلومات کہ ”میرے دادا سیدامیرشاہ اوردومحسود قومی نمائندے گئے اور افغانستان کے بادشاہ امیر شیرعلی سے انگریز کے خلاف ایکدوسرے کیساتھ باہمی تعاون کا معاہدہ کیا تھا اور افغانستان کے بادشاہ نے کانیگرم میں آسمانہ منجہ کے مقام پردفاعی قلعہ کی بھی اجازت مانگی تھی”۔ کسی ایک ملک کے افراد میں اس طرح باہمی تعاون کا معاہدہ نہیں ہوتا۔ پھر میرے دادا کے بڑے بھائی سیداحمدشاہ کی قیادت میں بیٹنی قبائل کاوفد بھی افغانستان گیا اور وہاں سے تحائف، نقدی بھی دئیے گئے۔ جب امیر امان اللہ خان کے خلاف بغاوت ہوگئی اور بچہ سقہ نے حکومت پر قبضہ کیا اور پھر وزیرستان کے قبائل نے بچہ سقہ کے خلاف لشکر بھیجا جس پر انگریز نے بمباری بھی کی اور1937کے زمیندار اخبار میں اس پر تبصرے ہوئے۔ امیرامان اللہ خان کی جگہ اس کے کزن نادر خان نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور حکومت پر قبضہ کرلیا جو ظاہرشاہ کا باپ تھا۔ جب امیر امان اللہ خان کے بھائیوں کی طرف سے نادرشاہ خان کاتختہ الٹنے کی سازش کا انکشاف ہواتو سیدایوب شاہ عرف آغا ولد سیداحمد شاہ کو توپ سے اُڑانے کاحکم سنایاگیا اور بعد از آں افغانستان سے ہمیشہ کیلئے جلاوطن کردیا گیا،جو افغانستان میں پہلے اخبار کے چیف ایڈیٹر تھے۔
سرحدکے گاندھی اور بلوچستان کے گاندھی متحدہ ہندوستان کا حصہ رہنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن جب پاکستان بن گیا تو پھر افغانستان سے ملنے کی دھمکی ایک سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرنے لگے۔ ناراض بلوچوں سے ناراض پختونوں کے قائدین بھی پہلے سے موجود تھے لیکن بلوچ بندوق اٹھانے میں جلد بازی کا مظاہرہ روایتی طور پر کرتے ہیں۔ پختون طالبان بھی بنتے ہیں تو ایک طرف قطر میں مذاکرات اور دوسری طرف نیٹو سے افغانستان میں لڑائی کا سلسلہ بھی جاری رکھتے ہیں۔ کوہِ سلیمان میں سلمان تخت کے قریب قیس عبدالرشید کی قبر ہے اور اس پہاڑ کا نام بھی ”قیسے غر” یعنی قیس کا پہاڑ ہے۔ فتح مکہ میں پختون قبائل نے اہم کردار ادا کیاتھا ۔ خالد بن ولید کا تعلق در اصل بنی اسرائیل سے تھا اور پختون بھی بنی اسرائیل تھے۔ سلیمان تحت کے ارد گرد شیرانی قبیلہ آباد ہے اور مولانا محمد خان شیرانی اورشیرانی قبیلے نے تحریک طالبان کو اپنے ہاں گھسنے نہ دیا ۔ مولانا شیرانی کہتے تھے کہ اغیار کی اس جنگ کا مقصد مسلمانوں ، پشتون اور خطے کا کباڑہ ہے۔ پاکستان کرائے کا وہ چوک ہے جس میں سیاستدان بھی کرائے پر ملتا ہے، مجاہد اور صحافی اور مفتی بھی کرائے پر ملتا ہے اور فوج اور حکومت بھی کرائے پر ملتی ہے۔ جیسے مزدور اپنے اوزار لیکر چوک پر موجود ہوتے ہیں۔
جب امریکہ افغانستان میں اترنے کیلئے شمالی اتحاد سے مدد لے رہاتھا تو مولانا معراج الدین قریشی محسود قبائلی لشکر کی قیادت کرتے ہوئے افغانستان پہنچا تھا۔ وہاں سے واپسی پر وہ طالبان اور افغانیوں سے سخت ناراض تھے اور اس خدشے کا اظہار کرتے تھے کہ یہ بڑی گیم ہے جس کا طالبان بھی حصہ ہیں۔ جب مجھ پر فائرنگ ہوئی تو اس سے پہلے بھی مولانا معراج الدینMNAاور مولانا صالح شاہ سینیٹر نے طالبان کو سازش قراردیا اور پھر مولانا معراج الدین نے مجھ پر فائرنگ کے بعد کہا تھا کہ مولانا شیرانی صاحب نے مولانا فضل الرحمن سے پوچھا تھا کہ ”یہ معلوم کیا جائے کہ امریکہ کی آخری منزل کیا ہے؟”۔ آج صورتحال تبدیل ہوگئی ہے ۔ امریکہ اور طالبان کی ڈیل ہوگئی ہے۔ جب قبائل خود مختار تھے توپھر افغانستان تو بہت دور کی بات ہے ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کی حدود پر قبضہ اور جرائم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن اب عوام بھی بے اختیار ہوگئے ہیںاور حکومت بھی اپنی رٹ وہاں قائم نہیں کرسکی ہے۔ نیازی نسلاً پٹھان اور سرائیکی زبان بولتے ہیں جس کی وجہ سے سب کیلئے درمیانی حیثیت رکھتے ہیں۔ عمران خان نیازی اپنے والد سے زیادہ اپنی والدہ شوکت خانم برکی پر نازکرتا ہے لیکن اس کی والدہ جالندھر بھارتی پنجاب سے تعلق رکھتی تھی اسلئے عمران خان کبھی خود کو قبائل کانیگرم جنوبی وزیرستان کے برکی قبیلے کا بھانجا کہتا تھا اور کبھی خود کو ماں کی وجہ سے آدھا مہاجر کہتا تھا۔ کرکٹ میں بینٹنگ اور بالنگ کے علاوہ آوارہ گردی اور شوکت خانم کے نام پر چندوں کا تجربہ بھی رکھتا تھا۔ سیتاوائٹ، جمائماخان، ریحام خان کے ناکام تجربات کے بعد بی بی بشریٰ سے شادی رچائی ہے۔ عوام نے اس کی شہرت اوربونگی مارنے پر اعتماد کرکے ووٹ دئیے لیکن جسٹس وجیہ الدین، جاوید ہاشمی، جہانگیر ترین، افضل چن سے لیکر حفیظ شیخ اور شہزاد اکبر تک پتہ نہیںکہ لباس مکمل ہے یا اس حمام میںچڈی اُترچکی ہے؟۔ پیرنی کا گھر اُجاڑ دیا اورمدینہ کی ریاست کے نام پر ملک کو تباہ کردیا۔
میاں نوازشریف کا پارلیمنٹ میں بیان اور قطری خط تک کی داستان سامنے ہے۔ پیپلزپارٹی بھی حقیقی بھٹوز اور نظریاتی لوگوں کے ہاتھوں سے نکل کر زرداری آپاؤں کی چنگل میں ہے۔ میڈیا کاروباری ہے۔ اگر منظور پشتین محسن داوڑ اور علی وزیر کو الیکشن میں حصہ لیتے ہی پارٹی قیادت سے ہٹادیتے اور خان زمان کاکڑ کو متوازی حیثیت دیدیتے تو پھر خیبر پختونخواہ اور بولان میںPTMایک مضبوط قوت بن کر ابھرتی۔ اب کالے تیتر کی طرح دوسروں کا شکار ہونے کیلئے ”سبحان تیری قدرت” کہہ سکتے ہیں لیکن کالے عقاب کی طرح کالی چٹانوں پر بیٹھ کر شکار نہیںکھیل سکتے ۔ ہماری حکومت وریاست کوTTPسے خطرہ لگتا ہے لیکن ابPTMسے خطرہ نہیں۔ جب لوگ طالبان کوانبیاء کی طرح مقدس اور فرعون کی طرح طاقتور سمجھتے تھے تو بھی ہم نے ان کے غلط تقدس اور غلط خوف کو بڑے اچھے انداز میں پامال کرکے رکھ دیا تھا۔ آج تو انقلاب آچکاہے کہ وہی لوگ ان سے خوف بھی نہیں رکھتے اور تقدس کا درجہ بھی نہیں دیتے ۔ اگر پاکستان کاقومی ترانہ زبردستی سے گانے اور مخصوص لباس پہننے پر انہیں سرنڈر کرکے مجبور کیا جائے تو ان کا دل ودماغ جبر سے نہیں بدل سکتا ہے لیکن جب اسلام کی حقیقت اور پشتو روایت کی حقیقت سمجھائی جائے تو ان کا ذہن بدل سکتا ہے۔PTMنے بہت کام اس طرح سے کیا کہ عوام کو اپنی رسم وروایت کی طرف راغب کرکے تشدد سے نکال دیا لیکن تعصبات پھیلانے والے خود شکار ہوگئے اور اب محسن داوڑ اور عبداللہ ننگیال مخالف صفوں میں کھڑے ہوگئے ہیں۔
ایسی تحریک کی ضرورت ہے جہاںعوام کے دل ودماغ میں مذہب کا غلط بھوسہ یاغلط فہمی پیداکی گئی ہے اس کی جگہ اسلام کی لہلہاتی ہوئی کھیتی سامنے لائی جائے۔ جس سے پاکستان بلکہ افغانستان وایران میں بھی پھلوں اور پھولوں کی بہار آئے۔ پھر عرب بھی اس بہار سے فائدہ اٹھائیں گے، پوری دنیا بھی اسلامی بہار سے استفادہ کرے گی۔ اسلامی خلافت کسی سے اختیار چھین لینے کا نام نہیں ہے بلکہ اپنا اختیار درست استعمال کرنااور اپنا فریضہ پورا کرنا حقیقی خلافت ہے۔ رسول اللہ ۖ نے بادشاہوں کے نام خطوط لکھے تھے تو ان میں دھمکی نہیں دعوت تھی۔ اگر حق کو قبول کرکے ظالمانہ نظام کو ختم کرتے تو نبیۖ نے ان سے اقتدار چھین کر اپنے ساتھیوں کے حوالے نہیں کرنا تھا۔
آج دنیا میں حقیقی جمہوریت نہیں بلکہ مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے اقتدار میں لوگ اپنے مفاد کیلئے آتے ہیں۔ عمران خان اتنا کم عقل تھا کہ جب فوج ضرب عضب کے نام سے طالبان کے خلاف آپریشن کررہی تھی تو وہ پنجاب پولیس کو اسلام آباد دھرنے سے طالبان کے حوالے کرنے کی دھمکیاں دیتا تھا۔ بابا فرید گنج شکر کے مزار پر حاضری دی تو راہ گیروں کے پیروں کی جگہ راہداری کو بوسہ دے دیا۔ کھلاڑی کو تصوف، سیاست، جہاد اور کسی چیز کا بھی کبھی ڈھنگ نہیں آیا۔ البتہ لوگ پھر بھی خوش اسلئے ہیں کہ سیاسی ڈھونگ رچانے والی جماعتوں کا پول کھول دیا۔ اللہ نے کوئی مکھی بھی بے فائدہ پیدا نہیں کی ہے تو ایک اہم ملک پاکستان میں ایک سیاسی جماعت کے قائد اور وزیراعظم سے کوئی نہ کوئی خدمت تو ضرور لینی تھی۔ بے شرموں کا مقابلہ بے شرمی سے کیا جاسکتا تھا۔
پاکستان نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ہندوستان، اسرائیل، امریکہ، ایران اور افغانستان سے اسکے خلاف محاذ کھڑا ہوجائے تو نیست ونابود ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ یمن میں حوثی باغیوں کے پیچھے ایران ہے اور اسلامی ممالک کے نیٹو کا سربراہ جنرل راحیل شریف ہیں۔ یمن میں عوام تباہ ہیں۔ یوکرین پر روس قبضہ کے چکر میں ہے۔ دوسری طرف امریکہ و نیٹو روس کے خلاف کھڑے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف قتل عام کی علامات پوری ہیں۔کردوں اور داعش کے درمیان پھرقتل وغارت کیلئے بین الاقوامی ایکٹرز سرگرم ہیں ۔ پاکستان کے خلاف بھی اندرونی اور بیرونی سازشیں اپنا کام دکھا سکتی ہیں۔ اپنی تباہی کیلئے ہمارا اپنا ہوم ورک بھی کافی ہے۔ دنیا میں قتل وغارتگری شروع ہونے سے پہلے پاکستانی ریاست کو بحران سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ ایسا نہ ہو کہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حکیم الاسلام قاری محمد طیب کی طرح مدارس ومساجد، فوجی بیرکوں، قلعوں اور کینٹ ایریاز میںپھر بے بسی کے عالم میں اس قسم کی نعت پڑھنے کی محفلیں سجانے لگ جائیں اور پھر اس کا کوئی فائدہ بھی دکھائی نہیں دے۔
باچا خان سے گاندھی جی نے کہا تھاکہ اپنی پختون قوم پر محنت کریں ۔جس کے جواب میں باچا خان نے کہا کہ آپ میرے ساتھ بازار چلیںاور ایک ہندو موچی کے کیلوں کا برتن ٹھوکر سے بکھیر دیں۔ گاندھی نے ٹھوکر ماری تو ہندو غصہ ہوا لیکن جب اس کو تعارف کرایا کہ گاندھی جی ہے تو ہاتھ جوڑ کر گستاخی پر معافی بھی مانگ لی۔ پھر آگے چل کر باچا خان نے پختون موچی کے کیلوں کوٹھوکر مار کر گرایا تو پختون موچی نے کہا کہ ایسا کیوں کیا؟۔ باچا خان نے کہا فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کیلئے ہے ،آپ کے ٹھئے لگانے کیلئے نہیں۔ غلطی سے پیر لگ گیا تو کیا ہوا؟۔ میںپختونوں کا اتنا بڑا لیڈر باچا خان ہوں۔ پٹھان موچی نے کہا کہ فٹ پاتھ پر سب ٹھئے لگاتے ہیں اور آپ جو بھی ہیں، اپنی غلطی کا ازالہ کریں اور کیلیں اکٹھی کرکے دیدیں۔ باچا خان نے گاندھی سے کہا کہ یہ ہماری قوم کا حال ہے۔ باچا خان اور گاندھی دونوں نے قوم کے جوہر آزادی کو سمجھنے میں غلطی کی تھی۔ ایسی قوم اور اس کے جذبات سے دنیا کو فتح کیا جاسکتا ہے لیکن غلامی کے خوگر ہندو اور آزادی کے پاسبان پختون قوم کے جوہر کو سمجھا نہیں گیا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ پٹھان موچی معروف شاعر حبیب جالب کے والد ہوںجو میانی پٹھان قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ ہمارے گومل میں میانی قوم کے افراد بھی سفید نہیں سانولے رنگ کے ہیں اور شکلیں بھی حبیب جالب سے ملتی ہیں۔ ہمارے ایک پڑوسی شاعر حبیب آباد نے بھی پشتو میں آزادی کی بڑی زبردست غزلیں گائی ہیں۔ اس کے کچھ اشعارارود ترجمہ کیساتھ ہم نے شائع بھی کئے تھے۔
جالب نے جنرل ایوب ، جنرل ضیاء الحق سب کیخلاف آواز اٹھائی اور آخر میں نوازشریف، شہباز شریف اور بینظیر بھٹو کو بھی نہیں چھوڑا لیکن اعتزاز احسن نے جھوٹی وکالت کرکے روایتی پنجابی ہونیکا ثبوت دیا کہ ”بی بی جالب نے آپ کی تعریف کی ہے”۔ قابل خوشامدی ٹولہ ہمیشہ قومی قیادت کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہے۔ پختونوں سے اس وقت دھوکہ ہوا تھا جب بلوچستان میں سردار مینگل اور سرحد میں مفتی محمود کو وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ جو اسلام ، جمہوریت اور پشتو کے لحاظ سے غلط تھا۔ قائداعظم اور قائدملت کی طرح باچاخان و اچکزئی خاندان کا بھی غریب عوام سے فاصلہ تھااور مولانا فضل الرحمن نے بھی اڑان بھری ہے۔ اسلامی انقلاب کیلئے طبقاتی تقسیم کے بجائے نظام کی تبدیلی بہت ضروری ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

مولانا نور محمد فاضل دار العلوم دیوبند ، نورانی بستی کورنگی کراچی کے ستمبر 2001 میں شائع اشعار

مولانا نور محمد فاضل دار العلوم دیوبند ، نورانی بستی کورنگی کراچی کے ستمبر2001میں شائع اشعار

کب تلک شکم کی آگ بجھاؤ گے؟
چھوڑ دو مفادات تو فلاح پاؤ گے
اختلاف بھڑکانا ڈیوٹی نہیں للہ
خفیہ اشارے پر ہمیں لڑاؤ گے
قرآں میں ممنوع آپس کی لڑائی
طاغوتی جال میں سادے پھنساؤ گے
مساجد میں غارت گری کے مقاصد
دین داغدار ، جنازے بھی اٹھاؤ گے
آستیں چڑھائے رکھنا دسترخواں پر
قربانی کے بکرے کارکن مکاؤ گے
فرقہ وارانہ ہڈی کتوں کا راشن
مالک چھیڑے تو بھی غراؤ گے
اغیار تھامے ہیں گلے کی رسی
بغاوت سے دار چڑھ جاؤ گے
ذلت کی زندگی سے مرگ بہتر
شہادت سے ملت کو بچاؤ گے
مفاد پرستی میں سرمست ، عمل میں بدمست
دائم خرمست ! اُمت کو ستاؤ گے
اظہار حق سے بڑوں کو خوف
انہیں موت کی نیند سلاؤ گے
پیارے باز آؤ جانب منزل ورنہ
معاشرے میں رہی ساکھ گھٹاؤ گے
ادھر کے رہو گے نہ اُدھر کے
بیچ رہبر و سپاہ لٹک جاؤ گے
انتشار راس نہ آیا تو ہوا ڈر
راہِ حق میں بھی بھٹک جاؤ گے
کرلو توبہ دروازہ بند نہیں ہوا
جہنم میں کیا راکھ اڑاؤ گے
لا تفرقوا فرض ، نہیں مروڑِ پیٹ
وحدت کی راہ سے سدھر جاؤ گے
ضرب حق سے ہوجائے شرح صدر
میری غزل گا گا کے سناؤ گے
نعرہ بدلے ہوا کے ساتھ ساتھ
”عتیق ہے ہمارا” کبھی جتلاؤ گے
بہر صورت کسی قیادت پر کرو اتفاق
ورنہ جہالت کی موت مرجاؤ گے
اتفاق سے قائم کرو نظام خلافت
بفضل ربی تقدیرِ قوم جگاؤ گے
دیوبندی رہے نہ پھندے میں بند
سی آئی اے امریکہ مار بھگاؤ گے
بریلوی رہے نہ روزگارِ جہالت
موالی مجاور کو ریس کراؤ گے
رہے نہ اہل حدیث سعودی فیس
ان نسبتوں سے جان چھڑھاؤ گے
ابراہیم نے رکھا نام مسلم تمہارا
اُمت مسلمہ سے چھا جاؤ گے
اُمةً وسطاً کی گواہی ہوگی ضرور
پھل دار ٹہنی جیسے نفس جھک جاؤ گے
دوستو! گیلانی کی مجالس میں بیٹھو
ان فتنوں کے نشان مٹاؤ گے
قوت یکجا کرو مانند قرونِ اولیٰ
اسلام دنیا میں غالب پاؤ گے
لڑنے سے اکھڑے گی ریح تمہاری
انتشار کی خاطر کافر بلاؤ گے
خانہ جنگی کی کیفیت ہوگی یہاں
در اقوام متحدہ کھٹ کھٹاؤ گے
دہشت گرد را موساد ، کھاتہ تمہارا
گر لگی آگ کدھر جاؤ گے
بھڑکے فرقہ پرستی کے شعلے قاسمی
وحدت کی برسات کب برساؤ گے
مولانا نور محمد قاسمی ۔ فاضل دار العلوم دیوبند ، مدیر مدرسہ ابوبکر صدیق، مسجد نبوی نورانی بستی کورنگی کراچی کے یہ اشعار ”وحدت کی برسات” ماہنامہ ضرب حق کراچی میں شائع ہوئے تھے ۔ آج پل کے نیچے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے ۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

کراچی سے ایک پائیدار اسلامی جمہوری انقلاب آسکتاہے

کراچی سے ایک پائیدار اسلامی جمہوری انقلاب آسکتاہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ڈاکٹر فاروق ستار اور اس کا گروپ، ایم اکیو ایم بہادر آباد، ایم کیوا یم حقیقی، جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن، پیپلزپارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی، سندھ کی تمام مقامی پارٹیاں اور مہاجر،پنجابی، پشتون، بلوچ، سرائیکی، ہزارے وال،کشمیری اور پاکستان کے چپے چپے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک اچھی خاصی تعداد کراچی میں پرامن طریقے سے اپنے روزگار کیلئے رہتی ہے۔ اگر یہاں اخوت اوربھائی چارے کا ماحول پیدا کیا گیا تو مقتدر قوتوں کو بھی عوام کے مفاد میں اپنی مفادپرستی سے ہاتھ اُٹھانے پڑیں گے۔ یہاں بجلی، گیس، پانی ، ٹوٹی ہوئی سڑکوں، تعلیم اور علاج کے علاوہ قبضہ مافیا ز کے بہت سارے مسائل ہیں۔ ہلڑ بازی اور لڑائی سے مسائل بڑھ سکتے ہیں لیکن کم نہیں ہوسکتے ہیں۔ کون کس کو ماموں بنارہاہے؟ ۔ اس کا اندازہ کسی کو بھی نہیں ہے۔ جماعت اسلامی نے پیپلزپارٹی سے کامیاب معاہدہ کیا لیکن گیم سندھ پارلیمنٹ کے ہاتھ میں ہے جس پرمعاہدہ کرنے والے عمل در آمد نہیں کراسکتے ہیں۔ اب عدالت نے ایم کیو ایم کی درخواست پر سندھ حکومت کے خلاف فیصلہ دیا ہے کہ شہری حکومت میں صوبائی حکومت مداخلت نہیں کرسکتی۔
ڈکٹیٹر شپ نے بھی روشنی اور امن وامان کے شہر کراچی کو ہتھوڑا گروپ سے لیکر بیت الحمزہ کے نام سے ٹارچر سیل بنانے اور گرانے تک پتہ نہیں کیا کیا دیا؟۔ اب پھر عوام کے اندر تعصبات کا کیڑا جگانے کی ناکام کوشش ہورہی ہے لیکن اب عوام کا کسی پر بھی اعتماد نہیں ہے کیونکہ عوام کیلئے کسی نے بھی کچھ نہیں کیا ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار، حافظ نعیم الرحمن، ایم کیوایم متحدہ اور ایم کیوایم حقیقی کے اصحاب حل وعقد کے علاوہ تمام پارٹیوں اور قومیتوں کے سرکردہ لوگ بیٹھ جائیں۔ ماؤں ،بہنوں، بیٹیوں اور بیگمات کی عزتوں کے تحفظ کیلئے سب سے پہلے کراچی شہر سے حلالہ کی لعنت کے خاتمے کیلئے بڑے بڑے مدارس میں میٹنگ رکھ کر فیصلہ کن کردار ادا کریں۔ اسلام، مذہب اور معاشرے کی سمت درست ہوجائے گی تو پھر دوسرے مسائل کی طرف بھی توجہ جائے گی۔ جماعت اسلامی سندھ کے دفتر فیڈرل بی ایریا میں اتحادالعلماء سندھ کے صدر مولانا عبدالرؤف سے ملاقات کیلئے حاضری دی تھی تو ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی سے بھی سرسری دعا سلام ہوئی تھی۔ مولانا عبدالرؤف کے داماد مفتی محمود شاہ نے پیشکش کی تھی کہ حلالہ کے بغیر رجوع کیلئے ایک مدرسہ قائم کرلیتے ہیں لیکن مجھے گروہی کام میں دلچسپی نہیں ہے۔ اسلام ایک اجتماعی دین ہے اور سواداعظم کے نام سے لوگوں نے اپنے چہرے سیاہ کئے ہیں لیکن ایسا کام نہیں کیا کہ اس کی وجہ سے امت مسلمہ کی ایک بہت بڑی جماعت عوام کا رُخ درست جانب موڑ سکے۔ ویسے اعظم کے معنی اکثر کے نہیں ہیں اسلئے کہ عربی میں اکثر کا لفظ استعمال ہوا ہے اور قرآن نے اکثریت کو معیار بنانے کی مخالفت کی ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”میری امت میں ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے اور وہ سب پر غالب ہونگے”۔
جس کو اہل حق ہونے کا یقین ہوتا ہے تو وہ صلح حدیبیہ کی شرائط پر بھی صلح کرتا ہے اور فاتح مکہ بن کر بھی اپنے دشمنوں کو عزت بخش دیتا ہے لیکن جو اندرسے بڑا کمزور ہوتا ہے وہ گروہ پرستی اور طبقات پرستی کے تعصبات کو ہوا دینے میں عافیت ڈھونڈتا ہے۔ انگریز نے لڑاؤ اور حکومت کی پالیسی بنائی اور آج بھی اس کی باقیات اپنی سوچ سے تائب ہونے کیلئے تیار نہیں ہے لیکن اس کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑتا ہے۔ سلیم صافی نے چند جنرلوں امجد شعیب ، اعجاز اعوان اور اسد خٹک کی بیٹھک کرائی اور تینوں نے اپنا اپنا نکتہ نظر پیش کیا ۔ امجد شعیب نے فوج کے خلاف سخت پروپیگنڈے کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن اس بات کی طرف نہیں دیکھا کہ جب سروس روڈ ، پبلک پارک اور سرکاری تعلیمی اداروں پر فوج کے ادارے قبضہ کریں تو عام آدمی کی زبان پر بھی حقائق آئیں گے اور جو غلط وکالت کریگا وہ بھی مسترد ہوگا۔ اعجاز اعوان نے بہت اچھی باتیں کیں کہ اشرافیہ کا تعلق جس طبقے سے بھی ہو اسکی بے تحاشاہوس زر نے قوم کو اس حد تک پہنچادیا ہے۔ اسد خٹک نے عام آدمی کے نام سے سیاسی پارٹی بنانے کی خبر دی ہے۔
قرآن کی سورۂ واقعہ میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو بڑے بڑے ہاتھ مارنے پر مسلسل اصرار میں مگن ہوں اور ان کا دنیا میں حشر نشر بھی بتایا ہے۔ سورہ دھر میں ایک انقلاب عظیم اور ملک عظیم کی خبر ہے اور ایک بدنما بیماری کا ذکر بھی ہے۔ کرونا کے حوالے سے مولانا سلیم اللہ خان نے صحیح بخاری کی حدیث کا ذکر کیا ہے۔ اب قرآنی اور اسلامی انقلاب کی راہ میں عوام اور سیاسی پارٹیاں نہیں بلکہ مذہبی لوگ سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جماعت اسلامی ایک منظم جماعت ہے۔ جمعیت علماء اسلام ایک بڑی مذہبی جماعت ہے اور بریلوی ، دیوبندی ، شیعہ اور اہلحدیث بڑے بڑے فرقے ہیں۔ سب اسلام چاہتے ہیں لیکن ایمان لانے کو تیار نہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

جب تک اسلام کا سماجی اور معاشی نظام قائم نہیں ہو گا پاکستان میں کوئی نظام کامیاب نہیں ہو گا۔ عتیق گیلانی

پچھلے شمارے میں اتفاق سے ہم نے ملک میں صدارتی نظام کے حوالے سے اپنا نکتہ نظر پیش کیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے میڈیا میں صدارتی نظام کی بحث چھڑ گئی اور اب اس حوالے سے کچھ وضاحت بھی کردیتے ہیں۔ جب تک اسلام کا معاشرتی اور معاشی نظام رائج نہیں ہوجاتا تو پاکستان میں کوئی نظام کامیاب نہیں ہوگا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

پاکستان اسلام کے نام پر جمہوریت سے بنا۔ مملکت کانام اور آئین بھی اسلامی جمہوری ہے ۔ جمہوریت سکہ رائج الوقت ہے۔ لیکن آج تک ملک کو جمہوری اسلامی پاکستان ہمارے اصحاب حل وعقد نہیں بناسکے ۔ قائداعظم نے منتخب صدر کی جگہ نامزد گورنر اور قائدملت لیاقت علی خان نے غیرمنتخب وزیراعظم بننا قبول کیا۔ مسلم لیگ کے نظریاتی رہنماؤں نے چاہا کہ پارٹی صدارت اور سرکاری عہدے جدا جدا ہوں لیکن لیاقت علی خان کا کوئی حلقہ انتخاب بھی نہیں تھا اسلئے وہ مسلم لیگ کی صدارت اور وزیراعظم کا عہدہ دونوں اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے۔ قائداعظم کا قائدملت سے یہ پھڈہ تھا کہ وہ کیوں اپنا حلقہ انتخاب بنانے کیلئے ہندوستان کے مخصوص مہاجرین کو کراچی میں آباد کرنا چاہتے ہیں۔ لسانی پھڈہ اسلئے شروع ہوا کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے لوگ بنگالی کو سرکاری زبان بنانا چاہتے تھے لیکن بابائے قوم قائداعظم نے خود ارود نہ بولنے کے باوجود اردو کو مسلط کردیا۔ ہندوستان کی ہندی اور اردو زبان میں معمولی فرق ہے۔مشرقی اور مغربی پاکستان کوایک قومی رابطے کی زبان پر متحدکرنے کیلئے اردو کے علاوہ دوسرا چارہ نہ تھا۔ پاکستان کی بنیاد بنگال اور سندھ سے پڑی اور سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں کراچی، حیدر آباد، میرپور خاص،سکھر اور نوب شاہ وغیرہ میں ہندوستان سے آئے ہوئے اردو بولنے والے مہاجرین دوسرے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن سندھی زبان لکھائی اور پڑھائی میں مضبوط ہونے کی وجہ سے پورے پاکستان میں ایک واحد زبان ہے جواردو کے مقابلے میں مضبوط چٹان کی طرح کھڑی ہے۔ پنجابی، سرائیکی، پشتو اور بلوچی کے مقابلے میںاردو نے اپنا زیادہ اثر اسلئے دکھایا کہ مقامی زبان میں لکھائی پڑھائی کا سلسلہ بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ جتنے بھی لکھے پڑھے لوگ تھے وہ مقامی زبان سے زیادہ دوسری زبانوں میں لکھنے پڑھنے کی مہارت رکھتے تھے۔ خان عبدالغفار خان اور عبدالصمد خان شہید کے خاندان اردو اور انگریزی زبانوں میں زیادہ مہارت رکھتے تھے۔ اردو زبان کو پختونخواہ، پنجاب، اور بلوچستان سے بہت زیادہ ادیب اور شاعر بھی مل گئے ۔سندھی زبان کا یہ اعزاز تھا کہ فارسی واردو سے پہلے سندھی میں قرآن کا ترجمہ ہوچکا تھا۔ اگرشاہ عنایت شہید کا مشن کامیاب ہوجاتا جو اس نے اسلامی نظام کیلئے شروع کیا تھا کہ ”جو فصل بوئے گا وہی کھائے گا” تو کارل مارکس اور اس کے نظرئیے کیمونزم اور سوشلزم کی پوری دنیا میں پذیرائی نہیں ہوسکتی تھی۔ اسلئے کہ سندھ سے اُٹھنے والے اسلامی نظام نے پوری دنیا میں عدل واعتدال کا جھنڈا بلند کرنا تھا۔ یہ وہی شاہ عنایت شہید کی روح اوراس کے ہزاروںساتھیوں کی قربانی تھی جس نے آنے والی نسل کوپاکستان بنانے میں پہل پر آمادہ کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے پاکستان کو اسلامی آئین دیا، مرزائیوں کو کافر قراردیا اور اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا لیکن جب اس کوپھانسی دی گئی تو اس کو ہندو ثابت کرنے کیلئے اس کے ختنے کی تصویرلی گئی۔
جنرل ایوب خان نے فوجی وردی میں الیکشن لڑا تو مقابلے میں مادر ملت فاطمہ جناح تھی۔ جوقائداعظم کی بہن تھی لیکن اگر قائداعظم کی غیرمسلم بیگم رتن بائی زندہ ہوتی یا اس کی بیٹی دینا جناح اپنے غیرمسلم کزن سے شادی نہ کرتی تو قائداعظم کے ولی وارث بیوی اور بیٹی بنتے۔ ایک طرف فوجی ڈکٹیٹر الیکشن لڑرہاتھا تو دوسری طرف مادر ملت نے پاکستان مخالف جماعتوں نیشنل عوامی پارٹی اور جماعت اسلامی وغیرہ کی قیادت کرتے ہوئے الیکشن لڑا۔ مخالفین الیکشن میں الزام لگانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ،اسلئے فاطمہ جناح پر بھارتی ایجنٹ کا الزام لگادیا ۔
پاکستان کاایک بہت بڑا نمایاں سانحہ یہ تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے ریفرینڈم سے منتخب ہونے کیلئے لوگوں سے پوچھا تھا کہ ”تم اسلام چاہتے ہو یا نہیں؟”۔ اسلام چاہنے کا مطلب اسلام نہیں بلکہ جنرل ضیاء کا وردی میں صدر منتخب ہونا تھا اور اسلام نہ چاہنے کا مطلب کافر بن جانا تھا۔گویا امیرالمؤمنین جنرل ضیاء الحق کوسراپا مجسمۂ اسلام ماننا تھا۔ جماعت اسلامی اور کراچی کے اکابر مفتیان نے جنرل ضیاء کے ریفرینڈم کو اسلام اور کفر کا محاذ قرار دیا۔ جماعت اسلامی واحد جمہوری جماعت ہے لیکن اس کا اپنا طرزِ عمل ڈکٹیٹر شپ اور ڈکٹیٹروں کی لونڈی والارہاہے۔ جماعت اسلامی نے اسلامی جمہوری اتحاد میں غلام مصطفی جتوئی کی قیادت میں آئی ایس آئی کی مدد سے انتخابات میں حصہ لیا تھا تو جماعت کے جنرل سیکرٹری پروفیسر غفوراحمد کوبہت بعدمیںخبر ہوئی کہ جماعت اسلامی استعمال ہوگئی ۔ کیا اسلامی اور جمہوری پارٹی کا یہ کردار ہوسکتا ہے؟۔ مدارس کے علماء ومفتیان اور جماعت اسلامی کی اپنی سب سے بڑی کمزوری اسلام اور جمہوریت دونوں سے جہالت ہے۔
مولانا فضل الرحمن اور ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان دونوں نے ریفرینڈم اور اس کے حق میں دئیے جانے والے فتوؤں کی مخالفت کی تھی اور پاکستان بھر سے علماء نے پہلا فتویٰ مولانا فضل الرحمن پر لگایا تھا جس کے خلاف بائیس بہترین اشعار لکھ کر میں نے بفضل تعالیٰ ناکام بنایا تھا اور پھرکراچی کے اکابرنے حاجی محمد عثمان پربھی بھونڈے فتوے لگائے اس کو بھی میں نے بفضل تعالیٰ ناکام بنایا تھا۔
میں عربی کی درجہ ثانیہ میں تھا تو جنرل ضیاء الحق کے ریفرینڈم پر طلبہ میں تقریر کی کہ عربی میں اعراب کی16اقسام ہیں۔ زیدُ’،زیداً،زیدٍ۔ ابو، ابا، ابی اور موسیٰ، موسیٰ ، موسیٰ…….۔ضیاء الحق کے ریفرینڈم کیلئے اعراب کی نئی17ویں قسم ایجاد کرنی پڑے گی۔ جو اس کی مدت کوکھینچنے پر دلالت کرے۔ اعراب ضیاء پر آتا ہے ۔ جب ضیاء کے ہمزہ کو کھینچ لیا جائے تو ضیاء الحق سے ضیاع الحق بن جائے گا۔ مدارس کے مفتیوں کا کام سیاسی فتوے نہیں۔ سیاسی میدان کا آدمی مولانا فضل الرحمن ہے ، ہرفن کا اپنا آدمی ہوتاہے۔ شریعت، تصوف اور سیاست کااپنا اپنا میدان ہے۔ فتوے کا کام فقہ کے مسائل کا حل ہے۔ علماء ومفتیان نے اس وقت سیاست اور تصوف دونوں اعتبار سے انتہائی غلط فتوے دئیے۔پھر پتہ چلا کہ یہ فقہی میدان کے گدھے ہیں۔ قرآن نے عقل وسمجھ کے اعتبار سے بعض کو گدھا قرار دیا لیکن لالچ کے لحاظ سے (عالم باعورائ) کو کتا قرار دیا، جس نے دین کو چھوڑ کر دنیا کی طرف جھکاؤ اختیارکرلیا تھا۔مفتی ولی حسن سیدھے سادے تھے اورمفتی تقی عثمانی چالاک ہیں۔
پنجاب کے پانچ دریا سندھ کی شاخیں ہیں۔پانی سے پاکی ہے۔ پاک دریا کو ناپاک کرنے کیلئے فیکٹریوں، کارخانوں اور ملوں کے علاوہ گٹر کے گند سے دریا کے پانی کو آلودہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ۔ زیرِ زمین ذخائر بھی آلودگی سے بھر دئیے گئے ۔ پاکستان کا ظاہر اور باطن دونوں گندے کردئیے گئے تو اس کو پاکستان کی جگہ ناپاکستان کہا جاسکتا ہے۔ کیا فوج، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ، تحریک انصاف نے کبھی پاکستان کو اس گند سے پاک رکھنے کی کوشش کی؟۔ علماء ومفتیان نے فتویٰ جاری کیاہے کہ دریا میں گند ڈالنا جائز نہیں؟۔ فوج تو ادارہ ہے جسکے سربراہ بدلتے رہتے ہیں لیکن پارٹیوں میں کیا جمہوریت کا تصور ہے؟ جہاں قیادت کی تبدیلی ممکن ہو؟۔ زمین جنبد یا نہ جنبد گل محمد نہ جنبد۔ زمین ہلے یا نہ ہلے مگر گل محمد نہیں ہلتا۔ بلاول بھٹوزرداری، نوازشریف، عمران خان، مولانا فضل الرحمن ، چوہدری شجاعت، شیخ رشید اور سب چھوٹی بڑی پارٹیوں کے سربراہ اپنی پارٹیوں کے گل محمد ہیں۔ جماعت اسلامی کوحقیقی جمہوری پارٹی کہا جاتا ہے جو ہمیشہ بد چلن رہی ہے ۔ جب سید منور حسن سے سلیم صافی نے بیان اگلوایا تھا کہ ”طالبان کے مقابلے میں امریکی فوجی شہید نہیں ہیں تو پاک آرمی بھی شہید نہیں ”۔ جسکے بعد امیر جماعت سیدمنور حسن کو جانا پڑا تھا اورچالاک سراج الحق کو جماعت اسلامی کا امیر بنانا پڑا تھا ۔
جمہوری پارٹیاںاپنا بااختیار صدر چاہتی ہیں لیکن پارلیمانی نظام کیلئے صدارتی نظام کے بجائے کٹھ پتلی وزیراعظم کا نظام اسلئے چاہتی ہیں کہ اس میں ان کو ہر حکومت میں حصہ بقدر جثہ ملتا ہے۔وہ ہمہ وقت اقتدار میں رہتی ہیں۔ مسلم لیگ ق کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے ادوار میں جمعیت علماء اسلام ف حکومت کا حصہ تھی تو ڈیرہ اسماعیل خان میں سرکاری محکموں کے آفیسر کی تعیناتی مولانا کے اختیار میں ہوتی تھی اور انکے بھائی پیسوں کے لین دین پر تبادلے کرتے تھے۔ لوگ اگر علماء کو چندے دیتے تو دوسرے علماء کرام مولانا کے مقابلے میں زیادہ دولتمند نظر آتے۔ سیاست مفادات کا ایک پیشہ بن چکا ہے۔اگر نوازشریف اور شہباز شریف سیاسی مصروفیت کے باوجود اتنے کا میاب موروثی طور پر کاروباری بن سکتے ہیں تو دوسرے بھائی اور کزنوں کو زیادہ امیر ہونا چاہیے تھا اسلئے کہ وہ خالص کاروبار کررہے تھے۔ کیپٹن صفدر کو اپنی چہیتی بیٹی مریم نواز دینے والے اور جنرل ضیاء الحق کو شہید اور امیرالمؤمنین کہنے والے نوازشریف کیابدل گئے ؟۔
دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے
پنجاب، پاک فوج اور کٹھ پتلی جمہوریت میں چولی دامن کا ساتھ تھا لیکن نواز شریف کے بعد عمران خان کی صورت میں نیا مہرہ تلاش کیا گیا تو نوازشریف نے پنجاب میں فوج کے خلاف آگ لگائی۔ پختونخواہ، بلوچستان اور کراچی نے اقلیت ہونے کے ناطے نظریۂ ضرورت کے تحت اپنا ذاتی مفادحاصل کرنا ہوتاہے اورپیپلز پارٹی سندھ میں واحد وفاق کی حامی پارٹی ہے جس کی پنجاب و دیگر صوبوں میں اپنی جڑیں مضبوط نہیں۔ پہلے مشرقی پاکستان کی کہانی ختم ہوگئی اور اب سندھ، پختونخواہ، بلوچستان ، کراچی اور پنجاب تعصبات کی زد میں ہیں۔ عمران خان کی بھڑکیوں نے باشعور، پڑھے لکھے طبقے اور سیاسی کارکنوں و رہنماؤں کیساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی متأثر کیا لیکن اب اگر وہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت میں نکل کھڑا ہوا تو عوام کسی بھی اشارے کے بغیر وہ خالی کرسیاں اسکے سرپر ماریں گی جو میڈیا اس کو کامیاب بنانے کیلئے دن رات دکھاتا رہتا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کمزور ہے اور سیاسی پارٹیوں میں بھی دَم نہیں رہا بلکہ گھوڑوں، لوٹوں اور گدھوں سے بات آگے نکل چکی ہے۔ عوام کے اعتماد کے بغیر کوئی حکومت اور ریاست بھی نہیں چل سکتی ہے۔اگر ابوسفیان کے کہنے پر حضرت ابوبکر مسند سے اتار دئیے جاتے اور علی کو بٹھادیا جاتا تو خلافت راشدہ کے ابتدائی دور میں فتنے کھڑے ہوجاتے اور حدیث قرطاس لکھوائی جاتی تو مدارس اور مساجد سے لیکر پارٹیوں ، جماعتوں اور اقتدار کے ایوانوں تک وصیت پر کام چلتا۔
اسلام کے قلعے مدارس گمراہی کے مراکز بن گئے ۔ ان گمراہیوں کے قلعوں کا حدیث میں ذکرہے۔ معیشت کی اہمیت کا اندازہ قرآن کی سورۂ جمعہ سے لگائیں۔ عبادا ت میں اہم ترین نماز اورنمازِ جمعہ کی سب زیادہ اہمیت ہے لیکن جمعہ کی آذان پر تجارت چھوڑ نے اور نماز پوری ہونے کے بعد اللہ کے فضل کیلئے نکلنے کے حکم سے معیشت کی اہمیت کا زبردست اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ علماء ومفتیان دنیا کی بے رغبتی دلاکر چندہ مانگتے ہیں تو ان کی وجہ سے لوگ اسلام کی طرف راغب ہونگے؟۔
قرآن وسنت کے تحفظ میں علماء کرام کی خدمات سب سے زیادہ ہیں لیکن پھر اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیلنے میں بھی سب سے بڑا گھناؤنا کردار انہی کا ہے۔ جب حامدمیر کو افغانستان میں طالبان کارکنوں نے پکڑلیا کہ تمہاری داڑھی نہیں اور کیمرہ ساتھ ہے تو اپنے بڑوں کے کہنے پر چھوڑدیا تھا۔ اُسامہ بن لادن اورالجزیرہ ٹی وی کو اس وقت بھی افغانستان میں تصاویر کی اجازت تھی ۔ اگر حامد میر جیو ٹی وی پر اس وقت ان تضادات کو اجاگر کرتا تو افغانستان اور پاکستان کی عوام کو شعور ملتا لیکن جب اسٹیبلشمنٹ نے پیپلزپارٹی دور میں طالبان کی مخالفت کا بیڑہ اٹھایا تو حامد میر نے یہ انکشاف کیا کہ” طالبان امریکہ نے بینظیر بھٹو اور جنرل نصیراللہ بابر کے ذریعے بنوائے تھے”۔ صحافت کا مشن قوم کو بروقت دیانتدارانہ شعور دینا ہے۔
پاکستان میں اسلامی جمہوری بنیاد پر انقلاب برپا ہو تو ملک وقوم میں خوشحالی کا طوفان آجائے،مایوسی کے شکار عوام اور مملکت کے ریاستی اداروں میں نئی روح پیدا ہوجائے۔ زن، زمین ،زر فتنہ اور آزمائش ہیں اور خوشحالی یا بدحالی کا اہم ذریعہ بھی۔ عورت کے اسلامی حقوق بحال ہوں تو اسلام کا ڈنکا بجے گا۔ اسلامی مزارعت سے پاکستان دنیا میںبہت بڑا زرعی ملک بن جائیگا۔ سود کا مکمل خاتمہ ہو تو معیشت کی ترقی میں اتنی تیزی آئے گی کہ پوری دنیا سود کے خاتمے پر متحد ومتفق ہوجائے گی۔
پاکستان کو جنت بنانے میں بالکل دیر نہیں لگے گی۔ جن لوگوں میں ڈاکٹر اور انجینئربننے کی صلاحیت ہو ،ان کو تعلیم کے ذریعے انسانیت کی خدمت کیلئے تیار کیا جائے اورجن لوگوں کے دماغ موٹے ہوں ان سے محنت مزدوری کا کام لیا جائے تو ان کی صحت اور طبیعت دونوں ٹھیک رہیں گے۔ دریاکے پانی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے ،ایک کھانے پینے اوردوسرے کھیتی باڑی کیلئے ۔ گٹر لائن سے جنگلات آباد کئے جاسکتے ہیں۔ گومل ڈیم کے نیچے پختونخواہ اور پنجاب کے کئی علاقوں کو بڑے پائپوں کے ذریعے پینے کا شفاف ، تازہ اور صحت بخش پانی پہنچایا جاسکتا ہے۔اسی طرح دریائے کرم، دریائے کابل، تربیلہ ڈیم، دریائے جہلم وچناب اور دریائے راوی کو نہ صرف آلودگی سے پاک رکھا جاسکتا ہے بلکہ کھانے پینے اور کھیتی باڑی کیلئے الگ الگ معیاری پانی کا بھی بندوبست ہوسکتا ہے ۔ پانی سے سستی بجلی پیدا کرکے ملک وقوم کو خوشحال بنایا جاسکتا ہے اور کارخانوں، فیکٹریوں ، ملوں کو پابند بنایا جاسکتا ہے کہ آلودگی صاف کرنے والی مشینریاں بھی لگانی ہوںگی۔
ایسی پارٹی کی ضرورت ہے جو بڑے پیمانے پر انتخابات جیت کر ملک و قوم کو مشکلات سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ پرویز مشرف کوعدلیہ نے تین سال تک قانون سازی کی اجازت دی۔ ریاستی اداروں کا کسی سیاسی پارٹی کو سپورٹ کرنا مجرمانہ فعل ہے مگرحق کی آواز بلند کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنا آئینی فریضہ ہے۔ سیاسی و مذہبی جماعتیں غنڈہ گردی سے ہرکسی کا جینا دوبھر کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ہم نے حلالہ کا مسئلہ اٹھایا، علماء نے حمایت شروع کی، پھر اخبار بندکرنے کا سرکاری حکم جاری ہوا اور دہشتگردوں نے گھر پر حملہ کرکے13شہداء کی سوغات دی۔صحافی محمد مالک نے ہم ٹی وی پر اس مسئلے پر پروگرام کاوعدہ کیا لیکن بہادری کا ایسا مظاہرہ نہیں کرسکاجس کا ہمارے سامنے اظہار کیا تھا۔اسلئے ریاست تحفظ کو یقینی بنائے۔
پاکستان74سالوں میں پارلیمانی نظام ، صدارتی نظام،مارشل لاء اور سول و ملٹری بیوروکریسی کے ذریعے چہرے بدلتا رہاہے لیکن برطانیہ کی کالونی سے تاحال نکل نہیں سکے ہیں۔ خلیفہ المسلین کیلئے صدارتی نظام کا تجربہ ناگزیر ہے تاکہ دنیا کے دل سے اسلام کا خوف جمہوری انداز میں نکلے اور بادشاہت بھی قائم نہ ہو۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

پاکستان احیائے اسلام کا مرکز ہے اور یہاں بسنے والی قومیں قیادت کی حقدار ہیں۔ مولانا عبید اللہ سندھی

اسلام کی نشاة ثانیہ کا مرکز اور یہاں بسنے والی قومیں امامت کی حقدار
مولانا عبیداللہ سندھی نے اپنی تفسیر المقام المحمود کی سورة القدر کی تفسیرمیں بہت بڑاانکشاف کردیا تھا؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مولانا عبیداللہ سندھی نے کراچی کو اسلامی تحریک کا مرکز بنانے کا مشورہ دیا اور اگر کراچی میں یہ ممکن نہ ہو تو شکارپور سندھ کو مرکز بنانے کی تجویز رکھی تھی۔ آپ کا مشن اپنے استاذ اسیرمالٹا شیخ الہندمحمود الحسن کی تلقین پر قرآن کی طرف رجوع اور فرقہ واریت کا خاتمہ تھا۔ قرآن کے آخری پارہ عم کی تفسیر المقام المحمود میں سورة القدر کی تفسیر میں مولانا عبیداللہ سندھی نے زبردست انکشاف کیا ہے کہ
”سندھ، بلوچستان، کشمیر، پنجاب، فرنٹیئراور افغانستان میں جس قدر قومیں بستی ہیں یہ سب کی سب امامت کی حقدار ہیں۔ اسلام کی نشاة ثانیہ یہیں سے ہوگی ۔ اگر پوری دنیا کو بھی ہمارے مقابلے پر ہندو لے آئیں تو اس خطے سے ہم دستبردار نہیں ہوں گے۔ کیونکہ اب اسلام کی نشاة ثانیہ عرب نہیں عجم سے ہوگی اور عجم کا مرکزی حصہ یہی ہے۔ سندھ کا احادیث میں ذکر ہے اور پنجاب کے پانچوں دریا اور دریائے کابل وغیرہ اس کا حصہ ہیں۔ حنفی مسلک کی بنیاد قرآنی تعلیمات ہیں اور امام ابوحنیفہ ائمہ اہل بیت کے شاگرد تھے اسلئے ایران بھی یہاں کی قیادت کو قبول کرلے گا”۔(المقام المحمود)
مولانا عبیداللہ سندھی نے جلاوطنی کی زندگی گزاری ،تحریک ریشمی رومال کا آپ حصہ تھے جس میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور آپ کے شاگرد مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا عزیر گل مالٹا جیل پہنچائے گئے تھے۔1920میں شیخ الہند مالٹا جیل سے رہاہوکر ہندوستان واپس آگئے اور جیل میں قرآن کی طرف رجوع کا احساس پیدا ہوا تھا۔ دارالعلوم دیوبند اور مدارس نے آپ کی نصیحت اور وصیت کو نظرانداز کردیا کہ درسِ نظامی کو چھوڑ کر قرآن کی طرف رجوع اور فرقہ واریت کا خاتمہ کیا جائے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے شیخ الہند کے مشن کیلئے سکول وکالج کے طلبہ پر توجہ دینے کی تلقین فرمائی۔ شیخ الہند نے1920میں حکیم اجمل خان کی یونیورسٹی کا افتتاح کیا، اسی سن میں وفات پاگئے۔ جمعیت علماء ہند سیاسی ڈگر پر کانگریس اور جمعیت علماء اسلام مسلم لیگ کیساتھ ہوگئی اور مولانا انور شاہ کشمیری نے دارالعلوم دیوبند کی تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔مولانا الیاسنے تبلیغ شروع کردی۔ مدارس اور تبلیغی جماعت کے کارکنوں نے اپنے اپنے حساب سے دین کی خدمت اور فرقہ واریت کے بیج بونے میں بھی زبردست کردار ادا کیا۔ مولانا عبیداللہ سندھی کی تحریک دھری کی دھری رہ گئی۔ مولانا انورشاہ کشمیری نے عمرکے آخری حصہ میں مولانا سندھی سے معافی مانگ لی اور یہ بھی واضح فرمایا کہ”میں نے مدرسے کی تدریس میں ساری عمر ضائع کردی، کیونکہ قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ فقہ کی فضول وکالت میں اپنی ساری زندگی ضائع کردی”۔
مولانا محمدالیاس نے عوام کے اندر دین کے فضائل کے ذریعے زبردست تحریک چلائی لیکن مدارس اور خانقاہوں سے بڑی تعداد میں لوگوں کے رجوع کا سلسلہ جاری ہونے کے باوجود کوئی خاطر خواہ نتیجہ اسلئے نہیں نکل سکا کہ قرآن کی طرف رجوع کے بجائے مولانا انور شاہ کشمیری کے طرز پر زندگی ضائع کرنے کا سلسلہ جاری تھا۔ علامہ سید محمدیوسف بنوری نے اپنے مدرسے کی بنیاد تقوے پر رکھی لیکن نصاب کی تبدیلی کا انقلاب برپا کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حضرت حاجی محمد عثمان نے فرقہ وارنہ تشخص کے خاتمے کیلئے مسجد کانام الٰہیہ رکھا۔ مدرسے کانام محمدیہ رکھا، خانقاہ کانام چشتیہ ، یتیم خانہ کا نام سیدنا اصغر بن حسین رکھا اور خدمت گاہ کا نام قادریہ رکھا۔ ہزاروں مکاشفے دیکھنے والوں میں علماء کرام، تبلیغی جماعت میں چار ماہ لگانے والے اور اہلحدیث حضرات بھی شامل تھے۔
ایک مکاشفہ یہ بھی بیان ہوا کہ حضرت شیخ الہندمحمود الحسن نے مولاناالیاس کے ہاتھ سے حاجی محمد عثمان کی تاج پوشی کردی۔ مولاناسید محمد یوسف بنوری کی حاجی محمد عثمان سے دوستی تھی۔ مفتی احمدالرحمن ، مفتی ولی حسن ٹونکیحاجی عثمان کے ہاں آتے تھے۔ جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر اور میرے استاذمولاناشیرمحمد کہتے تھے کہ ”مفتی ولی حسن میرے استاذہیں لیکن اپنے دشمن مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی اور مفتی رشید لدھیانوی کے ہاتھوں اپنے دوست حاجی محمد عثمان کے خلاف استعمال ہوگئے”۔ بڑے معروف مدارس کے علماء و مفتیان حاجی محمدعثمان سے بیعت تھے اور8بریگڈئیر،ایک کور کمانڈر نصیر اختر اورمیجر جنرل خواجہ ضیاء الدین بٹ بھی بیعت تھے۔ جس کو پھر بھاگنے کے بعد پرویزمشرف کے دور میں آرمی چیف بننے پرانتہائی ذلت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اگر دارالعلوم کراچی1970میں جمعیت علماء اسلام کے خلاف سازش نہ کرتی تو جمعیت علماء پاکستان کیساتھ مل کر اقتدار میں بھی آسکتی تھی۔ اس فتوے کا اثر آج بھی جمعیت علماء اسلام کے خلاف مذہبی حلقوں میں موجود ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے اسلامی سوشلزم کے مقابلے میں مفتی محمود ، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا عبیداللہ انور اور مولانا عبداللہ درخواستی کی جماعت امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں پاکستان کو اسلامی نظام دے سکتی تھی۔کیونکہ یہ لوگ مولانا عبیداللہ سندھی سے عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ جماعت اسلامی نے امریکہ ہی کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ آخر کار مذہبی سیاسی قیادت سے بدظن مدارس نے جماعت اسلامی کے شانہ بشانہ امریکی جہاد کا بیڑہ بھی اٹھالیا ۔ جماعت اسلامی کرائے کے مجاہد کی ماں اور جنرل ضیاء الحق اس کا باپ تھا اور امریکہ اس کا دادا تھا۔ جب امریکہ نے عاق کردیا ۔ جنرل ضیاء فوت ہوگیاتو مولانا فضل الرحمن سوتیلا باپ بن گیا۔ جماعت اسلامی کچھ عرصہ متحدہ مجلس عمل میں جمعیت علماء اسلام کیساتھ رہی اورپھر اپنے سارے ڈھانچے کے باوجود ایک کونے میں سمٹ گئی۔ ابMQMکے ساتھ ملکر کراچی میں بلدیاتی نظام کے نام پر توانائی حاصل کرنے میں لگی ہے۔
ملی یکجہتی کونسل میں اسکے پارٹنر جمعیت علماء اسلام س کا وجود محدود ہوگیا ہے اور اسلامی جمہوری اتحادمیں اسکے پارٹنر مسلم لیگ ن پر جمعیت علماء اسلام نے اپنا اثر جمالیا ہے۔متحدہ مجلس عمل کو چھوڑ کر تحریک انصاف کیلئے بھی جماعت اسلامی نے بیساکھی کا کردار ادا کیا تھا لیکن اب وہ آخری حربے کے طور پر الطاف حسین کے دریتیم کوکسی اشارے پر استعمال کرنا چا ہے گی۔ پہلے احتجاجی دھرنے کے بڑے بڑے بینروں پر جماعت اسلامی نے نام تک بھی نیک نامی کی وجہ سے درج نہیں کیا تھا لیکن جب پیپلزپارٹی کے رہنما سعید غنی نے بڑا طعنہ دیا تو پھر جماعت اسلامی لکھ دیا گیا۔ بہروپ بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا ،اصلیت اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ مشعال خان کے بہیمانہ قتل پر سراج الحق کا اسلام کچھ اور تھا اور سری لنکن شہری کے قتل پر کچھ اور تھا۔ سلیم صافی جیو گروپ کے ناطے نوازشریف سے تعلق اور مولانا فضل الرحمن سے ہمدردی کے باوجود سخت سوالات کرلیتا ہے لیکن جب سراج الحق نے سری لنکن شہری پر اپنا مؤقف دیا تو سلیم صافی نے صحافت کا حق ادا کرتے ہوئے مشعال خان کے بارے میں رویہ کا سوال نہیں اٹھایا۔ جو صحافت، اسلام اور پشتو غیرت کا کوئی تقاضہ نہیں ہے لیکن جماعت اسلامی سے پرانی یاری کا حق ادا ہورہاہے۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی اور دار العلوم دیوبند کے ماننے والوں نے جب سود کو جائز قرار دیا ہے تو پھر لڑائی کس بات پر ہے؟۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

بھارت مسلمانوں کیلئے خطرناک ترین، عارفہ خان شیروانی

بھارت مسلمانوں کیلئے خطرناک ترین، عارفہ خان شیروانی

بھارت مسلمانوں کیلئے دنیا کی سب سے خطرناک جگہوں میں سے ایک بن گیا ہے۔ روانڈا میں قتل عام سے پہلے کے جو آثار تھے وہی آثار اب بھارت میں پیدا ہوچکے ہیں۔ جس سے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے قتل عام کے خدشات پیدا ہوچکے ہیں۔ میں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے کچھ واقعات کا تذکرہ کروں گی جس سے آپ کو پتہ چلے گا کہ کس طرح بھارت اس قتل عام کی طرف جارہا ہے۔ بھارتی مسلمان کی زندگی تنگ کی جارہی ہے کہ وہ بیڈ روم میں کیا کرتا ہے؟، وہ باتھ روم میں کیا کرتا ہے؟، وہ سڑک پر کیا کرتا ہے؟، وہ ٹرین میں کیا کررہا ہے؟، وہ بس میں کیا کررہا ہے؟، اسکول میں کیا کررہا ہے؟ کالج میں کیا کررہا ہے؟۔ کرناٹک کے ایک اسکول کا واقعہ آپ کو یاد ہوگا جہاں ابھی تک بھی آدھے درجن سے زیادہ وہ لڑکیا ں ہیں جو حجاب پہن کر اسکول جانا چاہتی تھیں مگر انہیں اسکول کی انتظامیہ نے اندر نہیں گھسنے دیا۔ ان کا جو بنیادی حق ہے اپنے مذہب پر عمل کرنے کا اور پریکٹس کرنے کااس کا بھی تحفظ نہیں کیا جارہا۔ کیونکہ قانون اور آئین اپنے آپ میں کچھ بھی نہیں ہے جب تک اس پر عمل درآمد کروانے والے لوگ ناکارہ ہیں۔ اور انہی کا بھارت کے قانون اور آئین پر یقین نہیں ہے ، اگر پولیس، جج، حکومت، سیاستدان اور بیروکریٹس ہی اس پر عمل درآمد نہیں کررہے تو صاف طور پر کہا جاسکتا ہے کہ قانون وآئین کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ مسلمانوں کی زندگی کے ہر پہلو کو ادھیڑا جارہا ہے ، چاہے وہ مسجد میں نماز پڑھنے سے لے کر کھلے میں نماز پڑھنے کا معاملہ ہو، گڑ گاؤں میں ہم نے دیکھا گذشتہ تین ماہ سے ہر جمعے کو انتہائی دائیں بازوں کے ہندو گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد باقاعدگی سے انڈیا کے دار الحکومت نئی دہلی کے پوش علاقے گڑ گاؤں میں جمع ہوتے ہیں جہاں ان کا مقصد عوامی مقامات پر نماز پڑھنے والے مسلمانوں کو روکنا ہوتا ہے۔ جہاں ہندو انتہا پسند جمع ہوکر نمازیوں پر جملے کستے ہیں اور نعرے بازی کرتے ہیں، انہیں جہادی اور پاکستانی کہہ کر پکارتے ہیں۔ اور بھارت کا پر امن ہندو طبقہ چند لوگوں کے علاوہ اس پر اپنی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ دوسرا واقعہ جسے بتاتے ہوئے مجھے شرم محسوس ہورہی ہے یہ کلب ہاؤس کا واقعہ ہے۔ کلب ہاؤس انڈیا کا ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے جہاں آڈیو کے ذریعے لوگ آپس میں بات چیت اور بحث کرسکتے ہیں جس طرح زوم میٹنگ کے ذریعے ہوتا ہے۔ میں یہ نہیں چاہتی کہ نابالغ لوگ اس پروگرام کو دیکھیں اور ان کے دماغ پر اس کا برا اثر پڑے۔ اس کلب ہاؤس میں شامل ہونے والے لوگ مسلمان خواتین کے جسمانی اعضاء پر کھل کر بحث کررہے تھے کہ مسلم خواتین کی شرمگاہ کس رنگ کی ہے کس شیپ کی ہے اور اسکے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟۔ اس طرح کی گھٹیا اوربھدی باتیں اس پلیٹ فارم پر ہورہی تھیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پلیٹ فارم میں خواتین بھی شامل تھیں۔ لوگ اس پر یہ بات کررہے تھے کہ اگر آپ کسی مسلمان عورت کا ریپ کرتے ہیں تو اس میں اتنا ثواب ملے گا جتنا کہ اتنے مندر بنالینے پر ملے گا، دوسرے نے کہا نہیں نہیں اس پر اتنا ثواب ملے گا جتنا کہ اتنی مسجدیں گرادینے پر ملے گا۔ افسوس کی بات ہے کہ بھارت کے شہر ہردوار سے مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں باقاعدہ اعلان کیا گیا تھا، اتنے لاکھ مسلمانوں کو مارا جائے گا۔ بھارتی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے قتل عام کی باتیں کرنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جارہی ہے۔ صرف دو لوگوں کو گرفتار کیا جن میں یتی سنگھانند اور دوسرے جتیندر نارائن تیاگی جو کہ وسیم رضوی ہوا کرتے تھے۔ اور ان دو لوگوں کی گرفتاری پر بدلہ لینے کیلئے ریلی نکالی گئی ۔اور بھارتی جنتہ پارٹی کی طرف سے انیل پارا شر علی گڑھ سے ہیں وہ اس ریلی میں موجود تھے اور وہاں پوجا شگن پانڈے جو کہ خود کو ان پورنا ماں (ہندوؤں کی ایک دیوی کا نام ہے) کہتی ہیں وہ ہردوار کے مسلمانوں کے قتل عام اور بدلہ لینے پر ریلی کا حصہ تھیں بھارتی جنتہ پارٹی کے انیل پاراشر نے ان کا پیر چھوکر استقبال کیا۔ بھارتی حکومت اس طرح کے عناصر کو سپورٹ کررہی ہے۔ اس ریلی میں کھلے عام اسلام کو ختم کرنے کے بارے میں تقاریر کی گئیں۔ اور انٹرنیشنل ایکسپرٹ جنہوں نے روانڈا اور دوسرے ممالک میں قتل عام پر ریسرچ کی ہے ان کا کہنا ہے کہ بھارت سے بھی اس طرح کے اشارے مل رہے ہیں۔ انڈیا کے مشہور صحافی کرن تھاپر نے ڈاکٹر سٹینٹن (Dr. Stanton) کا ایک انٹرویو کیا، جو کہ صدر ہیں جینو سائڈ واچ (Genocide Watch)کے ، جو کہ ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو واشنگٹن ڈی سی میں نسل کشی کے خلاف مہم چلارہی ہے۔ جس میں 24ممالک کی 70تنظیمیں شامل ہیں۔ جن میں اقلیتی گروپ، انٹرنیشنل کرائسز گروپ، ایجس ٹرسٹ اور سروائیول انٹرنیشنل شامل ہیں۔ جینو سائڈ واچ نے کوسو و، مشرقی تیمور، سوڈان، عراق، شام، یمن اور میانمار میں نسل کشی کے خاتمے کے لئے اتحادی کوششوں کی قیادت کی ہے۔
ڈاکٹر سٹینٹن نے انٹرویو کے دوران کرن تھاپر کو کہا ہے کہ” یو ایس کانگریس کو ریزولوشن پاس کرنا چاہئے تاکہ بھارت کو اسلئے دھمکی دی جاسکے کہ آپ کے یہاں قتل عام ہوسکتا ہے۔ اور جو اگلی بات انہوں نے کہی وہ اور بھی زیادہ خوفزدہ کرنے والی ہے کہ قتل عام کی جو ابتدائی علامات اور اشارے ہوتے ہیں وہ بھارت میں مل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قتل عام سے پہلے کی ابتدائی دس علامات بھارت میں پائی جاتی ہیں”۔
بھارت اس وقت اسلام کے ماننے والے لوگوں کیلئے سب سے زیادہ خطرناک اور غیر محفوظ جگہ بن گیا ہے۔ روہنٹن ناریمن جو کہ سپریم کورٹ کے جج رہ چکے ہیں انہوں نے الرٹ کیا ہے اور کہا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جو نفرت انگیز تقاریر ہیں ان کو قابو کرنے کی کوشش تو درکنار بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ انہوں نے ہردوار کی احتجاجی ریلی کا ذکر کرتے ہوئے کہا جو اشتعال انگیز تقاریر کرتے ہیں سرکار کی طرف سے ان پر کاروائی کرنے میں بہت زیادہ جھجک سے کام لیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ”ان اشتعال انگیز تقاریر کو کرمنلائز کیا گیا ہے153Aاور505Cمیں انڈین کورٹ کے بھارتی قانون کے تحت۔ چونکہ اس میں تین سال کی سزا ہے اور زیادہ تر لوگ اس میں کم سزا میں ہی چھوٹ جاتے ہیں اسلئے وہ یہ گزارش کرتے ہیں بھارت کے سینٹ کو چاہئے کہ قانون میں ترمیم کرکے کم سے کم تین سال کی سزا ضرور طے کی جائے”۔ اب بھارتی سماج ، بھارتی سرکار کے جاگنے کا وقت ہے اور بھارت کے اندر کے ایکسپرٹ اور باہر کے ایکسپرٹ لگاتار اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv