اپریل 2022 - Page 2 of 2 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

پشاور شیعہ مسجد میں دہشت گردی کے بعد انجینئر محمد علی مرزا کے چینل پر دیوبندی عالم دین کا بیان

پشاور شیعہ مسجد میں دہشت گردی کے بعد انجینئر محمد علی مرزا کے چینل پر دیوبندی عالم دین کا بیان

دیوبندی عالم کیساتھ مرزا محمد علی نے اپنے چینل پر مفتی محمد تقی عثمانی کی تصویر بھی لگائی ہوئی ہے۔جسکا کہنا تھا کہ پشاور بم دھماکے میں ہماری ہمدردیاں شیعوں کیساتھ ہیں لیکن وہ کافرہیں!
سوال یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل، آئین پاکستان اور سعودی عرب میں حرم کے حدود میں داخل ہونے والے شیعہ کے بارے میں کیا رائے ہے؟۔لوگوںکو ضرور آگاہ کیا جانا چاہیے؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

علامہ سید جواد نقوی جامعہ عروة الوثقٰی لاہور کے ہاں دیوبندیوں کے امام مولانا سرفراز خان صفدر کے فرزندعلامہ زاہدالراشدی، بریلوی اور اہلحدیث جاتے ہیں۔ ایک طرف شیعہ شدت پسند عناصر علامہ سید جواد نقوی پر شیعہ سے خارج ہونے اور دیوبندی ہونے کا فتویٰ لگارہے ہیں تو دوسری جانب دیوبندی شدت پسند عناصر کا رویہ شیعوں کے معاملے میں سخت ہے۔ جب سپاہ صحابہ کے شدت پسندوں کے عروج کا دور تھا تو جمعیت علماء اسلام کے تمام دھڑے اور اکثر دیوبندی مکتب کے مدارس مولانا حق نواز جھنگوی اور مولانا ایثارالحق قاسمی کیساتھ کھڑے تھے۔بنوری ٹاؤن اور مدارس کا متفقہ فتویٰ آج بھی موجودہے۔
ہواؤں کا رُخ دیکھ کر بدلنے والے علماء ومفتیان کے تیورحالات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں لیکن شیعہ شدت پسندوں اور دیوبندی شدت پسندوں کو ایک مؤقف پر اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک غلط فہمیاں دور نہیں ہوتی ہیں توکم ازکم دہشتگردی کے خلاف اتفاق رائے بہت ضروری ہے کیونکہ دہشت گرد مسلک وفرقے سے بالاتر سبھی کونشانہ بناتے ہیں۔ جنوبی وزیرستان کے محسود اور وزیر علماء ایم این ایز مولانا نور محمد وزیر اور مولانا معراج الدین محسود کو شیعہ نے نہیں دیوبندی دہشتگردوں نے نشانہ بنایا تھا۔اگر شیعہ کافر ہیں تو آئین پاکستان پر ان کی اتفاق رائے ضروری تھی؟ اور آج اسلامی نظریاتی کونسل میں دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث علماء اہل تشیع کیساتھ کیوں بیٹھتے ہیں؟۔ کیاقادیانیوں کیساتھ بھی بیٹھ جائیں گے؟۔ اگرشیعہ کافر ہیں تو حرم کے حدود میں کافروں کا داخلہ ممنوع ہے۔ پھر کیوں شیعوں پر حرم کے حدود پابندی نہیں ہے؟۔ مولانا حق نواز جھنگوی نے مولانا فضل الرحمن کے پلیٹ فارم سے شیعہ کا فر کا نعرہ نہیں لگایا۔ مولاناحق نواز جھنگوی کے بعد سپاہ صحابہ جے یو آئی ف سے علیحدہ ہوگئی اور پھر اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے شیعہ بیگم عابدہ حسین کی حمایت سے مولانا ایثار الحق قاسمی نے وہ سیٹ جیت لی جس پر بیگم عابدہ حسین نے مولانا حق نوازجھنگوی کو شکست دی تھی۔ کیا اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے سپاہ صحابہ کا اہل تشیع کے ساتھ اتحاد درست تھا؟۔ ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل میں شیعہ سنی ایک پلیٹ فارم پر کیوں متحد تھے؟۔ کیا قادیانی بھی ہوسکتے ہیں؟۔ اتحاد تنظیمات المدارس میں دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ کیوں اکٹھے ہوگئے تھے؟۔
علامہ سیدجواد نقوی کہتے ہیں کہ ”مشرک شیعہ نصیری کافر ہیں۔ ان کو شیعوں کی صفوں سے نکالو”۔ دارالعلوم دیوبند کے قاری طیب نے رسول ۖ سے استدعا کی تھی کہ میرے دیوبندی دشمن سے انتقام لے لو تو کیا ا ن پر شرک وکفر کا فتویٰ لگتا ہے، بریلویوں پر لگتا ہے؟۔ کس کس پر لگتا ہے بتائیے گاضرور!
علامہ جواد نقوی نے کہا کہ سارے فرقہ پرستوں کا ایکدوسرے کو کافر کہنے پر اتفاق ہے لیکن ریاستی ایجنسیاں اس کا نوٹس نہیں لیتی ہیں۔ شیعہ پر کفر کا فتویٰ تین وجوہات سے لگایا گیاتھا۔ قرآن کی تحریف، صحابہ کی تکفیر اور عقیدۂ امامت۔ جب تک بڑے پیمانے پر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر قرآن سے متعلق سنی شیعہ دونوں طرف کی مستندکتابوں پر بحث نہیں ہوگی تو کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔
شیعہ سنی اختلافات بہت پرانے ہیں۔ سپاہِ صحابہ وسپاہ محمد نے اتنے شیعہ سنی علماء وعوام کو نہیں مارا ہے جتنے حضرت علی کے دور میں جنگ جمل وصفین میں قتل و غارتگری ہوئی تھی۔پہلے دور میں ہمارا عقیدہ ہے کہ ان جنگوں میں خلوص تھا لیکن آج فرقہ پرستی کا ماحول، ذاتی مفادات اور عالمی قوتوں کی مداخلت کا بھی معاملہ ہے۔ درسِ نظامی میں قرآن وسنت کی تعریف اور احکام میں حنفی ، شافعی اور مالکی مسالک کے درمیان فرق کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو پھر اصلاح کی طرف لوٹنے کی گنجائش پیدا ہوگی۔ علامہ جواد نقوی اپنوں کو ذوالجناح و زنجیر سے نکال رہے ہیں ۔ ہم بھی ذرا سوچیں تو سہی!۔ مالکی مسلک میں بسم اللہ قرآن کا حصہ نہیں اور شافعی مسلک میں بسم اللہ قرآن کا بھی حصہ ہے اور سورۂ فاتحہ کا بھی۔ حنفی مسلک میں خبر آحاد کی آیات قرآن کا حصہ اور شافعی مسلک میں قرآن پر اضافہ اور کفریہ عقیدہ ہے۔ حنفی مسلک میں بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے لیکن اس میں شبہ ہے جس کی وجہ سے اس کامنکر کافر نہیں ۔ اگر بسم اللہ مشکوک ہو اور قرآن کے باہر آیات کو مانا جائے تو قرآن میں شک اور کمی بیشی کا عقیدہ پیدا ہوتاہے۔اگر قرآن پر صحابہ کے اختلاف کا عقیدہ رکھا جائے توپھر سنی شیعہ کس بات پر لڑیںگے؟۔کیا سنی مل بیٹھ کر قرآن اور اسکے واضح احکام پرا تفاق اور عمل کیلئے تیار ہیں؟۔جب سنی اپنی خرافات کو چھوڑ کر قرآن پر عمل کرینگے تو شیعہ بھی ٹھیک ہوجائیں گے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

جن کو پنجتن سے پیار نہیں ان کے کلمے کا اعتبار نہیں

جن کو پنجتن سے پیار نہیں ان کے کلمے کا اعتبار نہیں

ایک شعر صدیق اکبر کی تعریف میں بھی پڑھ لیتے ۔شرم نہیں آتی حضر ت اماں عائشہ لباس ہیں آمنہ کے لعل ۖکا۔

ایک گھنٹہ ہوگیا ہے کہ میں بیٹھا ہوں اور آنے کیساتھ ہی پرچی مل گئی کہ یہ پڑھنا ہے۔ میں نے دیکھا کہ تم لوگ ذکر بہت پیاراکرتے ہو۔ یہ نہیں کہ علی علی ہم کرتے ہیں تو دوسروں کاذکر ہمیں نہیں آتا۔ یہ ہماری کمزوری ہے کہ علی علی کرتے ہیں ۔ ابھی آپ مجھے ہوٹل پر لیکر گئے تو وہاں کئی قسم کے کھانے تھے سب حلال تھے، چاول بھی تھے، قیمہ بھی تھا، کباب بھی تھے۔ سارے ہی کھائے نا ۔ ہم حضور ۖ کے یاروں کے بھی نوکر ہیں اور پانچ بارہ کے بھی نوکر ہیں۔ مجھے گھنٹہ ہوگیا آپ سب کے نام لے رہے ہو ایک شعر نعت خوان صاحبان صدیق اکبر کا بھی پڑھ لو۔ اگر تمہیں واہ واہ نہ ملے اور پیسے نہ ملیں تو ایک ہی کام میں لگے رہو گے؟۔ مہربانی کرو، رازق خدا ہے۔کمال ہے تمہارا یہ نہ کرو ،ون سائڈڈ مت ہو۔ یہ نہ عابد کا عقیدہ ہے نہ طفیل مرحوم کا عقیدہ تھا۔ ہومیو پیتھک بھی رہتا ہے ماناوالا میں، ایلوپیتھک بھی رہتا ہے، قرشی والا بھی ہے۔ جن کو قرشی سے شفاء ملتی ہے وہ ہومیوپیتھک کو گالیاں نہیں دیتا۔ اس کو ڈاکٹر مانتا ہے، جو قطرے پیتا ہے وہ ٹیکہ لگانے والوں پر فتوے نہیں لگاتا ۔ جہاں سے شفاء ملتی ہے تم وہیں لگے رہو کسی کو ڈی گریڈ نہ کرو۔ ان کو اگر علی مل گیا تو یہ ان کی اپنی قسمت ہے علی بھی شان والا ہے اور انکے یار بھی شان والے ہیں۔ نعرہ رسالت (یا رسول ۖاللہ)۔ بیکار مت بنو ۔اپنا عقیدہ اچھے انداز میں بیان کرو، مجھے ایمانداری سے بتاؤ کہ جو قرآن کا غلاف ہے وہ پاک ہے یا نہیں؟ اگر قرآن کا غلاف میلا ہو تو قاری صاحب بچے کو کہتا ہے کہ اس کو دھو کر آجاؤ ۔ تو اس کی امی پہلے غلاف کو چومے گی اور پھر چھت پر لے جائے گی۔ پھر اس کو اسپیشل سرف سے دھوئے گی۔ اس کو واشنگ مشین میں نہیں ڈالے گی۔ کیونکہ یہ کپڑا اور ہے اور وہ کپڑے اور ہیں۔ شرم نہیں آتی ہے اللہ فرماتا ہے کہ ھن لباس لکم و انتم لباس لھن تمہاری بیویاں لباس ہیں تو تم بیویوں کے لباس ہو۔ تیری بیوی تیرا لباس ہے میری بیوی میرا لباس ہے اماں عائشہ میرے نبی ۖ کا لباس ہیں۔ ایمان سے بتاؤ اماں عائشہ لباس ہیں آمنہ کے لعل کا۔ یہ میرے سامنے رحل پڑی ہے خدا کی قسم آپ اس کو لاکھ میں بھی نہیں بیچیں گے کیو نکہ اس میں قرآن رکھا ہے۔ میرا نبی جب دنیا سے جارہا تھا ،جس طرح رحل پر قرآن ہے اسی طرح اماں عائشہ کی جھولی میں میرے نبی کا سر مبارک تھا۔ الحمد للہ ہم حضورۖ کے بھی نوکر ہیں اور حضور کے یاروں کے بھی نوکر ہیں۔ مجھے وہ بندہ سنے جو حضور کے یاروں کے ساتھ پیار کرتا ہے ، حضور کے خاندان کے ساتھ پیار کرتا ہے۔ میرے ہاتھ میں قرآن ہے اگر مجھے عابد پیارا ہے تو اس کا باپ بھی پیارا ہے، اسکے یار بھی پیارے ہیں۔ عابد کے دوست ملتان آئیں گے تو میں ان کو رہائش بھی دوں گا اور یہ بھی کہوں گا کہ کوئی خدمت ہے تو بتاؤ۔ مہربانی کرو جن کا کلمہ پڑھا ہے ان کے بھی یار ہیں۔ بیٹا آپ سبحان اللہ کیوں نہیں کہہ رہے ہیں؟۔
اس کا مطلب ہے کہ جو حق چار یار ہیں وہ بھی تمہیں پتہ ہیں خم غدیر کیا ہے ؟ ولیوں کا پیر کیا ہے؟ ۔اللہ نے اس خاندان کو بڑا حسن دیا ہے۔ محمد کریم بھی بہت سوہنا، علی بھی سوہنا، حسن بھی سوہنا، حسین بھی ، سجاد بھی، باقر بھی، جعفر صادق بھی علی رضا بھی، علی تقی بھی، علی نقی بھی، حسن عسکری بھی۔ مسجد میں نبی کے منبر پر بیٹھا ہوں، نیشا پور ایران میںامام علی رضا جب آئے تھے تو آپکے چہرے پر نقاب تھا، چالیس ہزار عالم قلم لیکر کھڑا تھا کہنے لگے علی رضا ذرا چہرے سے کپڑا تو اٹھاؤ، تجھے دیکھیں تو سہی تو کتنا حسین ہے؟۔ جب علی رضا کا چہرہ دیکھ لیا تو چالیس ہزار بندہ بے ہوش ہوگیا۔ جب علی رضا اتنا سوہنا ہے تو مصطفی کتنے سوہنے ہونگے؟۔
لوہا ر مشہور ہیں لوہے کی وجہ سے، سنار مشہور ہیں سونے کی وجہ سے، مستری مشہور ہیں تعمیر کی وجہ سے، کمہار مشہور ہیں برتنوں کی وجہ سے، تو میرے نبی ۖ کا خاندان کیوں مشہور ہے میں تم سے نہیں پوچھتا قرآن سے پوچھتا ہوں۔ میں مولوی سے کیوں پوچھوں ؟ ہوسکتا ہے وہ صدقے کا بکرا کھا کر کسی اور طرف لے جائے۔ میں کسی مجتہد سے نہیں پوچھتا ہوسکتا ہے وہ فنڈ شنڈپی کے ہونٹ نہ ہلائے۔ میں اندھا نہیں ہوں کیونکہ میرا علی قرآن کیساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے۔ میں قرآن کے پانچویں پارے سے پوچھتا ہوں نمازیں پانچ ہیں، پاکوں کی تعداد پانچ ہے، حواس خمسہ پانچ ، اسلام کے بنیادی ارکان پانچ ہیں۔
جن کو پنجتن سے پیار نہیں ان کے کلمہ پر بھی اعتبار نہیں
پارہ ہے پانچواں، سورت ہے نسائ، آیت نمبر ہے 54، پہلے لکھو گے 5پھر 4، اسکا مطلب ہے کہ پانچ کے نوکر اور چار کے نوکر ہیں۔ اللہ میرے نبی کے خاندان کی تعریف بیان کرتا ہے۔ فرماتا ہے کہ ان سے جلو مت، ام یحسدون الناس علیٰ ما اتاہم اللہ من فضلہ اے لوگو! جو میں نے فضل کیا ہے ابراہیم کے خاندان پر تم جلتے کیوں ہو؟۔ میں نے نبی کے خاندان پر ابراہیم کی آل پر فضل کیا ہے تم جلتے کیوں ہو؟۔ فضل میں نے کیا ہے جلتے تم ہو۔
اللہ کیوں فرماتا ہے ؟ فرمایا وقد اٰتینا اٰل ابراہیم الکتاب و الحکمة و اٰتیناھم ملکًا عظیمًاہم نے ابراہیم کی آل کو کتاب اور حکمت دی ہے اور ہم نے ملک عظیم کی بادشاہی بھی دی ہے۔ بیٹا میری طرف دیکھو! بندے بابر اعظم کا چوکا مس نہیں کرتے تم نبی کی آل کا ذکر مس کررہے ہو۔ میرا تجربہ ہے اندھے کو شیشہ دکھانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ گنجے کو کنگا دینے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ بھینگے کو سرمہ لگانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ لنگڑے سے دوڑ لگوانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ منکر کو اہل بیت کا ذکرسنانے کا بھی کوئی بقیہ صفحہ 3نمبر1پر

بقیہ نمبر1 … مولانا جعفر حسین قریشی
فائدہ نہیںہے۔خدا کی قسم نبی کے خاندان کو اللہ پاک نے پانچ چیزیںایسی بخش دی ہیں جو کسی کو نہیں دی ہیں۔ میں میٹرک اس وقت کرسکتا ہوں جب دس سال لگاؤں گا، FAاس وقت کرسکتا ہوں کہ جب بارہ سال لگاؤں گا۔BA اس وقت کرسکتا ہوں جب کہ چودہ سال لگاؤں گا۔MA اس وقت کرسکتا ہوں جب سولہ سال لگاؤں گا۔ جب تک میں اسٹڈی نہیں کروں گا پڑھ نہیں سکوں گا۔ یہ ہے علم کسبی۔ اللہ نے پانچ چیزیں خود دی ہیں۔ بتاؤ پہلی چیز کیا دی ہے؟۔ پہلی چیز اللہ نے حسن دیا ۔ یوسف علیہ السلام حسین تھے۔ اور جس کو دیکھ کر قدم رک جائیں اس کو یوسف کہتے ہیں، اور جس کو دیکھ کر یوسف خود رک جائیں اسے محمد کہتے ہیں۔ جس کو دیکھتے ہوئے عورتیں انگلیاں کاٹ ڈالیں اسے یوسف کہتے ہیں، اور جسے دیکھ کر گردنیں کٹ جائیں اسے آمنہ کا لعل کہتے ہیں۔ میرا نبی سوہنا، میرے نبی کا بابا عبد اللہ کتنا سوہنا تھا؟ بیٹا تقریر تحفہ ہے اسے قبول کرو۔ آپ کا بابا تھا مکے کا چاند، عبد اللہ کا نکاح جب بی بی آمنہ کیساتھ ہوا تو مکے کی دو سو کنواری بچیاں مر گئیں کہ ہائے یہ ہمارا دولہا ہوتا۔ دوسری چیز اللہ نے نبی کے خاندان کو دی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے ان کو علم عطا فرمایا ہے۔ ابرہہ جب ہاتھی لیکر آیا تھا تو سارا مکہ تھر تھر کانپ رہا تھا کہ آگیا آگیا۔ حضور کے دادا نے کہا کہ آگیا تو پھر کیا ہوا میں ہوں ناں۔ یمن کا بادشاہ ہاتھیوں کیساتھ آیا خانہ کعبہ کو گرانے کیلئے تو آپ ابراہہ کے پاس چلے گئے۔ جب ابرہہ نے حضور کے دادا کو دیکھا تو اٹھ کھڑا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ آپ بادشاہ ہیں تو اس نے کہا کہ میں بادشاہ نہیں اسکے چہرے سے نور ٹپک رہا ہے یہ بادشاہ ہے۔ ابرہہ اس طرح سے کانپ رہا تھا۔ اگر ڈی سی کے سامنے کوئی جائے تو ساری باتیں بھول جاتا ہے۔ عبد المطلب سامنے گیا اور فرمایا ابرہہ ! کہا جی! ۔ فرمایا میرے اونٹ مجھے واپس کر۔ یہ ہے علم ۔ گاڈ گفٹ جن کو وہ پڑھائے، یونیورسٹیوں میں یہ علم نہیں ملتا۔ ابرہہ نے کہا کہ لو جی بابے کے کام دیکھو۔ میں آیا ہوں کعبے کو گرانے کیلئے اور تم اپنے اونٹ مانگ رہے ہو؟ ۔ یہ ہے علم۔ آپ نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ اے ابرہہ! اونٹ میرے ہیں کعبہ ہے خدا کا ، تو مجھے میرے اونٹ دے۔ کعبہ جانے اور کعبے کا خدا جانے۔ جب نجاشی کے دربار میں جعفر خطبہ دے رہے تھے۔ یہ کونسا آکسفورڈ کا پڑھا ہوا تھا۔ یہ کونسا ایچی سن کالج کا پڑھا ہوا تھا؟۔ نجاشی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور کہا کہ مکہ کے چوہدریوں چلے جاؤ اپنے تحفوں سمیت ، جعفر بھی ٹھیک ہے اس کا نبی بھی ٹھیک ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

شیخ رشید وزیر داخلہ ، عمران خان وزیر اعظم ہو تو پھر ملک کا یہ حال ہوگا۔ آرمی چیف کو مولانا فضل الرحمن کا فون

شیخ رشید وزیر داخلہ ، عمران خان وزیر اعظم ہو تو پھر ملک کا یہ حال ہوگا۔ آرمی چیف کو مولانا فضل الرحمن کا فون

پارلیمنٹ ، PTVپر حملہ کرنے والوں کو عدالت نے عدم ثبوت کی بنیاد پر رہا کردیا ہے جن میں صدر مملکت بھی شامل تھے اوراب کیا سندھ ہاؤس پر دھاوا بولنے والوں نے بھی ہمت پکڑ لی ؟

مولانا فضل الرحمن اپوزیشن میں اہم کردار ادا کررہے ہیں جس کے فوائد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور کیایہ اس خواب کی تعبیربھی ہوسکتی ہے؟

رسول اللہ ۖ کا خواب مولانا فضل الرحمن کی شکل وصورت میں آمد اور بیٹھ کرروئی سے گند صاف کرنے کی کیا تعبیر ہے؟۔ پچھلی بار مولانا فضل غفور نے کسی عالم دین کا خواب بیان کیا، جس پر موافق ومخالف علماء نے کہرام برپا کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے حضرت آدم علیہ السلام سے ٹیلی فونک گفتگو کا خواب بھی بیان کیا۔ آدم نے پوچھا کہ چاہتے کیا ہو؟۔ مولانا نے جواب دیا کہ ”امن ”۔
وزیرداخلہ شیخ رشید نے کہا کہ ” مولانا فضل الرحمن نے تیل میں ڈنڈے بھگو کر رکھے ہیں، ایک عالم دین ہیں، ماؤزے تنگ نہیں۔ مولا جٹ نہ بنیں”۔ ڈنڈے کا جواب ڈنڈے اور پتھر کا جواب پتھر سے دینے پر قرآن نے کہا ہے کہ ”جتنی انتقامی کاروائی کا نشانہ تمہیں مخالف بنائیں تم بھی اتنا کرسکتے ہو”۔
مولانا فضل الرحمن حلیہ وزبان سے نبی کریم ۖ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اُمت پر موت کی کیفیت ہے اور میت کا گند روئی سے صاف کیا جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے مخالفین کہتے ہیں کہ ملا کا کام میت کو غسل دینا اور عبادات ہیں تو سیاست میں یہ کیوں آئے ہیں؟۔ مولانا کے حامی کہتے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک کا سہرا مولانا فضل الرحمن کے سر پر سج گیا ہے۔ میرے بھائی پیر نثار احمد شاہ پہلے مولانا فضل الرحمن کے عقیدتمند اور کارکن تھے اور اب عمران خان سے خیر کی اُمید رکھتے ہیں۔ کسی کا اپنے مفاد کیلئے ساتھ دیا اور نہ کسی کے کہنے پر چلتے ہیں۔
اگر اس وقت عمران خان کا میں کارکن ہوتا تو مولانا فضل الرحمن کیلئے مجھے گریبان سے پکڑتے کیونکہ جب عمران خان سیاست میں نہیں تھے تو اخبار میں اسلام کے حوالے عمران خان کے اچھے مضامین دیکھ کراس نے پیشگوئی کی تھی کہ ”یہودی لابی اس کو سیاست میں لاکر اقتدار پر مسلط کرے گی”۔ لیکن آج اگر عمران خان کیخلاف مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دیا تو ممکن ہے کہ میرے گریبان میں ہاتھ ڈال دے۔ جلیل القدر پیغمبر موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون کو داڑھی اور سرکے بالوں سے پکڑاتھا تو ہماری کیا اوقات ہے؟۔ نبی کریم ۖ نے انصار کے اوس وخزرج اور انصار ومہاجرین کو بھائی بھائی بنادیا۔ مؤمنین ومنافقین کو بھی لڑنے نہ دیا۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے بیٹے مخلص صحابہ تھے۔ تثلیث کا عقیدہ رکھنے والے مشرک عیسائی اور حضرت عیسیٰ و مریم کیخلاف گستاخانہ عقائد رکھنے والے یہود کی خواتین سے نکاح کی اجازت دی۔ تزکیہ ،کتاب و حکمت کی تعلیم، بدرو احد، حنین وخیبر ، صلح حدیبیہ وفتح مکہ اور میثاق مدینہ سے دنیا کو وہ پیغام پہنچایا کہ مشرق ومغرب کی سپر طاقتیں اس قوم کے سامنے سر نگوں ہوگئیں جو پہلے ان پڑھ اور جہالتوں سے مالامال تھی۔آج ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ پڑھے لکھے طبقے کو بھی جہالت وہٹ دھرمی کی طرف دھکیل کر اپنی مشکلات کا خیال رکھے بغیر اپنے تھوڑے سے وقتی اور غیر یقینی مفادات کی بھینٹ چڑھارہے ہیں۔
خان حکومت اتحادیوں اور لوٹوں سے بنی تھی۔ پارلیمنٹ کے اندر، باہرندیم افضل چن اور ترین گروپ کے علاوہ حفیظ شیخ کا سینیٹ الیکشن ہارنا بھی حکومت کا اخلاقی جواز ختم کرنے کیلئے کافی تھا۔ اپنوں کی وفاداری بدلیں اور اتحادیوں کے پاس جانے کی سبکی بھی اٹھانی پڑی۔ اگر عمران خان نے پھر بھی ہتھکنڈے استعمال کرنا نہیں چھوڑے تو ٹائیگروں میں اس کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوجائے گی۔ دودھ کے دھلے دوسرے سیاستدان بھی نہیں البتہ اس حکومت کی مخالفت پر کمر کس لینا جس کی پشت پناہی ہو۔ مولانا فضل الرحمن کو بڑا کریڈٹ جاتا ہے۔
نیوٹرل کوجانور کہنا بزدلی اور بدمعاشی سے اقتدارپر جمے رہنا حماقت ہے۔ مولانا کیوجہ سے خانی توپوں کا نشانہ اسٹیبلشمنت کے بجائے سیاستدان بن گئے۔ استحکامِ پاکستان نبیۖ کا فیضان اور فیضان کے مظہرمولانا فضل الرحمن ہیں؟۔

عقیدت مندعلماء کی طرف سے ویڈیوپیغام
خواب دیکھا کہ نبی کریم ۖ مولانا فضل الرحمن کی شکل میں موجود ہیں
میں تو اس کو چھپارہا تھا لیکن ساتھیوں کے اصرارپر بیان کررہا ہوںتاکہ دوسرے بھی مطلع ہوں۔ دودن پہلے رات ساڑھے چار بجے کے وقت یہ خواب دیکھا کہ نبی کریم ۖ مولانا فضل الرحمن قائدJUIکی شکل و صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ آپ ۖ کھڑے ہیں لیکن شکل و صورت کپڑے لباس سب مولانا فضل الرحمن کا ہے۔ پھر وہ نیچے بیٹھ جاتے ہیں انکے ہاتھ میں بہت ساری روئی ہے اور نیچے زمین پر کوئی گند پڑا ہوا ہے اس روئی سے اس گند کو صاف کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میں اس گند کو صاف کرونگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

نشتہ دیور کے کالم نگار عبدالقدوس بلوچ انتقال کر گئے۔

انا للہ و انا الیہ راجعون
بطلِ حریت، شیر یزداں، کوہِ استقامت، بحر عزیمت، طوفانِ عظمت
عبد القدوس بلوچ انتقال کرگئے

بہت میر پھر ہم جہاں میں رہیں گے اگر رہ گئے آج شب کی سحر تک
دکھائی دیں گے ہم میت کے رنگوں اگر رہ جائیں گے جیتے سحر تک

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

عہدساز شخصیت ، قہاری و غفاری و قدوسی وجبروت چار عناصرکابڑا نمونہ عبدالقدوس بلوچ علالت کے باعث اپنے ربّ کے حضور پہنچ گئے جس منزل کی طرف کشاں کشاں ہم سب رواں دواں ہیں۔انا للہ وانا الیہ راجعون
وفات سے ایک رات پہلے قدوس بھائی سے ہسپتال میں کافی دیر گپ شپ لگی ۔ماجد بھائی نے بتایا کہ آج صبح خواب دیکھا کہ” رسول اللہ ۖ، حضرت علی ، حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے خیمے لگے ہیں۔ہم کئی ساتھی بھی حاضر ہیں پھرسب کو جانے دیا گیا اور قدوس بھائی کو اپنے پاس روک دیا گیا اورپہلے قدوس بھائی کا چہرہ کچھ بجھا سا تھا پھر بہت زیادہ ہشاش بشاش ہوگیا”۔ میں نے باقی تین خلفاء راشدین کے نام سن لئے مگر حضرت علی کے نام کو نہیں سنا تو ماجد بھائی سے پوچھا کہ کیا حضرت علی خواب میںنظر نہیں آئے؟۔ ماجد بھائی نے بتایا کہ کیوں نہیں۔سب سے پہلے تو علی ہی کا نام لیا ہے۔ خواب کا مطلب تو بالکل واضح تھا کہ قدوس بھائی کا بلاوا ا گیا ہے۔ قدوس بھائی بہت زیرک انسان تھے۔ اشارہ سمجھتے تھے۔ میں نے کہا کہ انشاء اللہ اس رمضان میں قدوس بھائی خانقاہ میں ذکر کرائیں گے۔ میں نے قدوس بھائی کی زبردست خدمات کو انکے سامنے خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے مجھ سے اظہارِ عقیدت کیا۔ میں نے کہا کہ آپ نے عمر میں بڑے ہونے کے باجود بھی ہمیشہ جس طرح کی خدمت کی۔ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہردَم ، ہر وقت اور ہرلمحے جب ضرورت پڑ گئی تو نامعلوم منزل کی جانب ساتھ چلنے کیلئے تیار ہوگئے۔ساری زندگی وقف کی تھی، اپنے والدین، بہن بھائی، عزیزواقارب ، بیوی بچوں ، اپنے کاروبار اوراپنے گھر ووطن سب ہی پر اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کو ترجیح دی تھی۔ صفحہ3 بقیہ نمبر2

بقیہ نمبر2…… عبد القدوس بلوچ کی وفات پر تعزیتی پیغام
اللہ نے قرآن میں فرمایا قل ان کان اٰباء کم وابناء کم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال اقترفتموھاوتجارة تخشون کسادھا ومساکن ترضونہا احب الیکم من اللہ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یأتی اللہ بامرہ واللہ لایھدالقوم الظٰلمینO ”کہہ دیجئے (اے حبیب ۖ) کہ تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیگمات اور تمہارے عزیز واقارب اور تمہارا وہ مال جو تم نے اکٹھا کررکھا ہے اور تمہاری وہ تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہواور تمہارے وہ ٹھکانے جہاں تم رہنا پسند کرتے ہو۔تمہیں زیادہ محبوب ہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے تو پھر انتظار کرو !، یہاں تک کہ اللہ اپنے حکم لیکر آجائے اور اللہ ہدایت نہیں دیتا ہے اس قوم کو جو ظلم والے ہیں”۔ اور اللہ نے فرمایا وجاہدوا فی اللہ حق جہادہ ھواجتبٰکم وماجعل علیکم فی الدین من حرج ملة ابیکم ابرٰھیم ھو سمّٰکم المسلمین من قبل وفی ھٰذالیکون الرسول شہیدً١علیکم وتکونوا شہداء علی الناس فاقیموالصلوٰة واٰتوا الزکوٰةواعتصموا باللہ ھومولٰکم فنعم المولیٰ ونعم النصیرO ”اور اللہ (کے احکام) میں جہادکا حق ادا کرو، اس نے تمہیں منتخب کرلیا ہے،اور دین (پر چلنے)میں تمہارے لئے کوئی مشکل نہیں رکھی ہے۔تم اپنے باپ ابراہیم کی ملت ہو اور اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے ۔پہلے بھی اور اس دور میں بھی۔تاکہ رسول تمہارے اوپر گواہ بنے اور تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ۔ پس نمازقائم کرو، زکوٰة ادا کرو اور اللہ کو تھام لو،وہ تمہارا مولیٰ ہے اچھا مولی اور اچھا مددگار ”۔ ان آیات کی بنیاد پر ہم نے تحریک کا آغاز کیا ہے۔
حضرت حاجی محمد عثمان نے تبلیغی جماعت میں 35برس گزارے۔ چار ماہ،سالانہ چلہ، ماہانہ سہ روزہ ، ہفتہ میںدو گشت اپنے محلے اور دوسرے محلے میں۔ اپنے خلفاء اور ہم مسلک دوست علماء نے فتویٰ لگانے میں دشمنوں کا کردار ادا کیا تو بہت لوگ چھوڑ کر گئے۔ محدود لوگ رہ گئے جن میں عبدالقدوس بلوچ بھی شامل تھے۔ میرے بھائی سیدامیرالدین اس وقت مجسٹریٹ تھے جو بعدمیں اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ، اسسٹنٹ پولیٹکل آفیسر، پولیٹیکل ایجنٹ، DSOہنگو، کمشنر بنوں اور سیکریٹری کے عہدوں پر فائز ہوکر ریٹائرڈ ہوگئے۔
مجسٹریٹ کی تنخواہ ڈھائی ہزار تھی تو اسوقت عبدالقدوس بھائی پانی کے جہاز میں40ہزار مہینہ لیتے تھے۔ حاجی محمد عثمان پر آزمائش آئی تو قدوس بلوچ نے نوکری چھوڑ کر سیکیورٹی سنبھال لی تھی۔ الائنس موٹرز کے مالکان اور خلفاء کی جگہ لینے کے خواہشمند ہرنائی چائے کے ہارون نے عبدالقدوس بلوچ کی جمع پونجی سے گاڑی لی اور پھر وہ لوگ بھی بھاگ گئے تھے۔ پھر عبدالقدوس بلوچ کی شادی ہوگئی۔ یثرب پلازہ شو مارکیٹ میں رہائش پذیر حاجی محمد عثمان کی چوکیداری کرنے والے عبدالقدوس بلوچ کے پاس کبھی کبھارہفتوں بعد گھر جانے کیلئے بھی کبھی کرایہ ہوتا تھا اور کبھی نہیں ہوتا تھا۔نوکری ، کلاکوٹ لیاری کاگھر، والدین ، بہن بھائی سب ہی چھوڑ دئیے تھے۔ بیگم صاحبہ آخر کار اپنے والدین کے گھر میں بیٹھ گئیں۔ چھوٹے بچے فضیل کیساتھ علیحدگی کا معاملہ تھا کہ میں نے قدوس بھائی کو سسرال پہنچادیا اور قدوس بھائی کو مجبور کیا کہ اپنا آنا جانا رکھے۔
قدوس بھائی کی ایک ہمشیرہ محمد علی سوسائٹی میں رہتی ہیں۔ جب میں 2004ء میں نرسری کے اندر ایک مرتبہ کی چھٹیاں گزارنے کیلئے گھروالوں کیساتھ آیا تو میری ہمشیرہ سے قدوس بھائی کی ہمشیرہ نے کہا تھا کہ ”آپ کے بھائی کیساتھ قدوس بھائی کی دوستی پر ہم بہت خوش ہیں۔جب قدوس بھائی بہت ہی چھوٹا بچہ تھا تو اس نے کسی بات پر ناراض ہوکر اپنی قمیض اتارکر آگ میں ڈال دی تھی۔ غصے کے اتنے تیز تھے کہ معمولی معمولی بات پر طوفان کھڑا کردیتے تھے۔ ہم ہروقت انکے رعب سے سہمے رہتے تھے۔اب بہت نرم مزاج اور اچھی طبیعت کے ہوگئے ہیں”۔ یہ قدوس بھائی کی بہن کا اظہارِ تشکر اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ ہمارے بھائیوں میں جو سب سے زیادہ کمانے والا تھا، جس نے لیاری کلا کوٹ کا آبائی گھر تعمیر کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا، جس کے بچوں کو سسرال میں رہنا پڑگیا مگر اس تما م قربانیوں کے باوجود بھی ہم آپ کے بھائی سے ناراض نہیں بلکہ خوش ہیں۔ قدوس بھائی کے چھوٹے بھائی کی ناراضگی کا یہ عالم ہے کہ قدوس بھائی کی وفات کا بھی مسجد میں اعلان کروادیا مگر قدوس بھائی کے جنازے پر نہیں آیا۔ لوگ اس کو پیرجی کہتے ہیں۔ دوسرے بھائی بھی سخت ناراض تھے لیکن ایک بھائی وہاب بلوچ بہت ملنسار ہیں اسلئے گاہے بگاہے وہ چکر لگاتے رہتے تھے۔ جب قدوس بھائی کی والدہ کا انتقال ہوا تھا تو ہمارے دوست اشرف میمن جو دنیا کی مختلف خوشبوؤں کے شوقین اور پہچان میں بہت مہارت رکھتے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ قدوس بھائی کی والدہ کی میت اور قبر سے ایسی خوشبو آرہی تھی کہ کبھی اس طرح کی خوشبو نہیں سونگھی ۔ یہ دنیا کی خوشبو نہیں تھی اور قدوس بھائی کی ساس کے انتقال پر اشرف میمن آئے تو کہہ رہے تھے کہ اب بھی وہی خوشبو آرہی تھی۔ جب قدوس بھائی کے والد صاحب ہمارے پاس گومل ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان کے پروگرام میں آئے تو میرے بڑے بھائی ایکسین واپڈا نے کہا کہ ”ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس عتیق کی وجہ سے ایسے ایسے لوگ آتے ہیں ورنہ ہمارے پاس کتنی بھی دولت، خاندانی وجاہت اور دنیا کا اقتدار ہوتا تو ہمیں یہ سعادت نہیں مل سکتی تھی”۔ قدوس بھائی کے والد صاحب کے پاس رحمان ڈکیٹ پہنچا تھا کہ ”میرے سر پر ہاتھ رکھ لو” انہوں نے فرمایا کہ ”دفع ہوجاؤ!تمہارے سر پر شیاطین کا نزول ہورہاہے؟”۔ بینظیر بھٹو پر کراچی میں خود کش حملہ ہوا تھاتو رحمان ڈکیٹ نے ہی بحفاظت پہنچایا تھا۔ قدوس بھائی کہتے تھے کہ لیاری کے بلوچ تمام بلوچوں میں سب سے زیادہ اچھے تھے۔ اقدار کے پابند، قوم پرستی اور تعصبات سے پاک اوربہت ملنسارا ورزبردست روادار لیکن پیپلزپارٹی نے بدمعاشوں اور منشیات فروشوں کی سرپرستی کرکے ان کا بیڑہ غرق کردیا اور حلیہ بگاڑ دیا۔ جس کی وجہ سے لیاری کے لوگ بدنام ہوگئے ۔ قدوس بلوچ کے بھائی وہاب بلوچ لیبر یونین کے رہنما تھے۔ عزیزمیمن اور وہاب بلوچ ایک گروپ میں تھے اور ہمارے دوست محمداجمل ملک پنجابی گروپ میں تھے۔ وہاب بلوچ نے بتایا کہ جب ہمارے گروپ کے دوبندوں کی باہر کے بدمعاشوں سے پٹائی لگوائی گئی تو میں نے لیاری کے مشہورزمانہ بدمعاش رحمن ڈکیت کے باپ دادل سے کہا کہ ہمیں مسئلہ ہے۔ دادل نے کہا کہ آپ نے کبھی خدمت بتائی نہیں ۔ لیاری سے لڑکوں کا ٹرک بھرکر پہنچا دیا۔ مخالفیں سارے بھاگ گئے۔ ایک شخص مل گیا تو اس کی صحیح طریقے سے پٹائی لگادی۔ اسکے بعد رعب جم گیا اور کسی نے الجھنے کی ہمت نہیں کی۔ دادل وہی بدمعاش تھا جس کے ذریعے ذوالفقارعلی بھٹو نے جے رحیم کیساتھ جیل میں بہت برا کروایا تھا۔ عزیز میمن نے بینظیر بھٹو کے جلسوں اورشادی کے اخراجات ککری گراؤنڈ میں اٹھائے تھے۔
حاجی محمد عثمان کے دور میں ایک مرتبہ مفتی رشیداحمد لدھیانوی کے کارندوں نے ہمارے ساتھیوں سے لڑائی کی تو دونوں طرف والوں کو لاک اپ میں بند کردیا گیا۔ مخالف جانب سے لشکر جھنگوی کے مشہور زمانہ ملک اسحاق نے رعب جھاڑنے کیلئے کرتب دکھانا شروع کیا تو قدوس بھائی نے اس کو ڈانٹ کر کہا کہ پہلے پنچ بنانا تو سیکھ لو۔ جس کے بعد وہ ایک کونے میں بالکل دُبک کر بیٹھ گیا۔ وہاب بلوچ نے مشہور رہنما سلیم اختر کو مدد کیلئے بھیج دیا تو اس نے کہا کہ قدوس بلوچ کو لاک اپ سے نکلوانے کی سفارش کی لیکن قدوس بھائی نے لاک اپ سے اکیلے نکلنا قبول نہیں کیا۔ بھتیجے کے محسود دوست نے اسلام آباد میں لال مسجد کے غازی عبدالرشید سے پوچھا تھا کہ وزیرستان کے ایک سید عتیق الرحمن گیلانی عالم دین ہیں ،اس کو آپ جانتے ہیں؟۔ اس نے کہا تھا کہ وہ عالم دین نہیں بلکہ کراچی میں نمبر ایک بدمعاش اور غنڈہ گرد ہے۔ ایک مرتبہ جب خانقاہ میں حالات کچھ مخدوش ہوگئے تھے تو قدوس بھائی کے چھوٹے بھائی لیاری سے ایک ٹیم لڑنے کیلئے لائے تھے۔ لیکن اگر ہم چاہتے تو اس وقت مذہبی شخصیات کی کوئی سیکیورٹی نہیں ہوتی تھی اور بہت کچھ کرسکتے تھے مگر کچھ نہیں کیا۔
جب عبدالقدوس بلوچ کی قیادت میں ڈیرہ اسماعیل خان کے اندر ہمارے ساتھیوں پر سپاہ صحابہ والوں نے ڈنڈوں، زنجیروں اور ہنٹروں سے حملہ کیا تو نہتے عبدالقدوس بلوچ نے پہلے مکوں سے کئی افراد کا کام کردیا اور پھر ہوٹل سے لکڑی اٹھاکر ایک کا سر پھاڑ دیا اور باقی سب بھاگ گئے۔ گومل کے رہائشی نے کسی کو بتایا کہ میں نے سوچا کہ اچھا موقع ہے کہ ان لوگوں کو میں بھی ماروں۔ جب مجھے چھوٹے قد کے بوڑھے آدمی نے مکا مارا تو مجھ سے زمین غائب اور آسمان گم ہوگیا۔ درد کی شدت سے پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کس طرف بھاگ رہا ہوں۔ قدوس بھائی نے بتایا کہ ایک شخص سرائیکی میں کہہ رہا تھا کہ ”میں کس کو ماروں؟”۔ اس سے پہلے کہ وہ ہمیں مارتا تو ایک مکا اس کو ماردیا، جس سے وہ بیہوش ہوکر زمین پر گر گیا۔ اس لڑائی میں عارف بھوجانی، حافظ شاہد جمال اور شاہ وزیر اور دوسرے کئی ساتھی جم کر لڑے اور کچھ ساتھی جوتے چھوڑ کر بھاگ بھی گئے تھے۔ پھر نہ صرف جھوٹی ایف آئی آر درج کروائی بلکہ پولیس کی تحویل میں ساتھیوں کو سپاہ صحابہ والوں نے مارا پیٹابھی ۔ خلیفہ عبدالقیوم کو ہم نے گھر سے اٹھایا اور اسکا اسلحہ خود لے لیا، کیونکہ دہشت گردوں کے آنے سے پہلے اعتبار میں دشمن کو دھوکہ دینا پشتوروایت وحمیت کے خلاف تھا۔سول ہسپتال ڈیرہ اسماعیل خان کی مسجد میں خلیفہ عبدالقیوم کے دوسرے ساتھی بھی پہنچ گئے۔ خلیفہ عبدالقیوم نے بتایا کہ” ہمارے ساتھی استعمال ہوگئے، اصل منصوبہ دوسرے علماء کا تھا۔مجھے آپ سے ملاقات کرنے کا شوق تھا۔دوسرے علماء سے آپ ملتے تھے لیکن ہم سے کبھی ملاقات نہیں کی۔میں آپ کی علمی صلاحیت کا بہت معترف ہوں”۔
میرے سکول کا افتتاح مولانا فضل الرحمن نے کیا ۔ الیکشن میں جلسہ تقسیم انعامات میں سکول کے بچوں کی بہترین کارکردگی دیکھ کر جمعیت علماء اسلام ف اور س کے ضلعی امیروں مولانا عبدالرؤف گل امام اور شیخ الطریقت مولانا شیخ محمد شفیع نے اپنی طرف سے نقد انعامات دئیے اور پھر ٹانک کے تمام اکابر علماء نے ہماری تحریری تائید کی تھی۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے کچھ علماء نے دیکھ کر کہا تھا کہ اگر یہ ہے تو ہم بھی تائید کریںگے۔ پھر ہم نے ٹانک و ڈیرہ اسماعیل خان کے علماء کا مشترکہ پروگرام بنایا مگر ڈیرے والے نہیں آسکے اور ٹانک والوں نے بہت کھل کرتائید فرمائی۔پھر سکول کے جلسۂ عام میں ٹانک کے اکابر علماء نے زبردست تائید کی ، جو ماہنامہ ضرب حق میں شہہ سرخیوں کیساتھ بیانات لگے۔ جس سے مولانا فضل الرحمن کے پیٹ میں جلن اور مروڑ پیدا ہواتھا اور اخبار واسکٹ کی جیب میں لیکر اس دن ٹانک کے اکابر علماء کے پاس جاکر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ تم نے ایسی تائید کیوں کی ہے؟۔ جمعیت علماء اسلام کے ضلعی امیر مولانا عبدالرؤف نے کہا تھا کہ ” اگر پیر عتیق الرحمن گیلانی میں کوئی خامی ہے تو مجھے بتاؤ، میں مقابلہ کرونگا لیکن اگر خواہ مخواہ حسد ہے تویہ غلط ہے”۔پھر ایک ایسا وقت آیا کہ مولانا فضل الرحمن نے مولانا فتح خان ،مولانا عبدالرؤفاور مولانا عصام الدین محسود جیسے علماء کو کنارے لگاکر مولوی شریف الدین جیسوں کو قیادت سونپ دی تھی، جس میں چمچہ گیری اور مفاد پرستی کے علاوہ شکل وصورت اور علم وعمل کی کوئی معمولی سی معمولی خوبی بھی نہ تھی۔ مولانا فضل الرحمن کو مولانا عبدالرؤف نے بجلی کے فیڈر کا افتتاح کرنے سے روک دیاتو مجلس عمل کی حکومت بھی کام نہیں آئی۔
سپاہ صحابہ کے ایک جوشیلے کارکن نے کہا کہ تم شیعہ کو کافر کہتے ہو یا نہیں؟۔ میں نے کہا کہ کفر کی وجہ بتاؤ تو اس نے کہا کہ شیعہ قرآن کو نہیں مانتے۔ میں نے کہا کہ قرآن کو اگر سنی نہیں مانتے تو وہ بھی کافر ہیں۔ پہلے آپس کی نشست ہوجائے کہ قرآن کو وہ نہیں مانتے یا درسِ نظامی میں قرآن کی تحریف پڑھائی جارہی ہے۔ پھر اس پر اتفاق ہوا کہ ایک نشست ڈیرہ اسماعیل خان میں علماء کی رکھیں گے اور پھر مقررہ وقت پر علماء کرام کیساتھ نشست کی فضاء بھی خراب کردی گئی تھی اور پھر فتویٰ لگایا گیا، پھر فتوے لگانے والوں نے معافی طلب کی اور مولانا فضل الرحمن اس کے بعد گھر پر تشریف لائے اور کہا کہ میں ہمیشہ سے آپ کی حمایت کرتا رہا ہوں لیکن حقائق اللہ تعالیٰ بھی جانتا ہے اور عوام کو بھی معلوم ہیں۔ مجھے پیر عبد الغفار ایڈوکیٹ اور جلال محسودکی طرف سے سپاہ صحابہ والوں کو سیدھا کرنے کی پیشکش کی گئی لیکن میں نے ان کو کاروائی سے روک دیا تھا۔
عبد القدوس بلوچ کی زندگی جدوجہد کا حق ادا کرنے والوں کی قیادت سے عبارت ہے، پاکستان کے تمام صوبوں اور بہت سے شہروں تک پیغام حق کو پہنچایا۔ جماعت کا امیر کبھی کوئی ہوتا اور کبھی کوئی ہوتا تھا اور ایسا بھی ہوا کہ امیر نے عبدالقدوس بلوچ کی جماعت میں روٹی کھانے پر پابندی لگاکر فاقہ کشی کی سزا تک دی ۔ قدوس بھائی نے ساری زندگی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لازوال قربانیاں دی ہیں جو تحریر کے الفاظ میں ہرگز ہرگز نہیں آسکتی ہیں۔ تاہم وہ ایک انسان تھے جس میں غلطی کا امکان نہ ماننا کفر ہے مگر اللہ کی راہ میں جدوجہدکا حق ادا کرنے والے قدوس بلوچ کی شخصیت بہت ہی قابلِ رشک تھی۔ میں نے کئی ماہ پہلے لاعلاج مرض کی خبر سن کر سوگ کے لمحات اس امید سے گزاردئیے کہ جانبر ہوگئے ۔زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے؟
اللہ نے قرآن میں فرمایا :” جدوجہد کرنے والے بعض اپنی قضاء کے ہدف کو پہنچ گئے اور کچھ انتظار میں ہیں”۔ عارف بھوجانی، محمد مالک، چچا اصغر علی،اشفاق صدیقی، چاچا اسرار ، غلام محمد جی ایم ، حنیف رکشے والا ، محمد حنیف نمک والا، ذوالفقار،محمد نعیم، اعظم بلوچ اور دیگر کئی ساتھی داغ مفارقت دے گئے اور ایک ایک کی زندگیاں کردار ہی کردار سے عبارت ہیں اوران کے عجیب واقعات اپنی اپنی جگہ پر بہت بڑی یادگارہیں۔
عبدالقدوس بلوچ ستاروں میں چودھویں کے چاند اور میری جان تھے۔ جماعت کے روح رواں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک آزمائش ان پر ڈالی اور وفات سے پہلے اس کا بوجھ بھی اتاردیا۔ جماعت نے جمہوریت کے طرز پر مشاورت کرکے عبدالقدوس بلوچ کو جماعت کا امیر بنادیا تھا۔ یقینا اس خلاء کو دوسرا ساتھی پورا نہیں کرسکتا ہے اور مجھے اس بات کا پتہ ہے کہ عبدالقدوس بلوچ امارت کا بوجھ اٹھانے پر راضی نہیں تھے لیکن جب خدمت ان پر ڈالی گئی تو انکار بھی نہیں کرسکتے تھے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا تھا کہ ”جو اپنی خواہش سے عہدہ طلب کرکے اس کا بوجھ اٹھاتا ہے تو اللہ اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے لیکن جس کی خواہش نہیں ہوتی ہے اور اس پر کوئی ذمہ داری ڈالی جاتی ہے تو اس کی اللہ تعالیٰ مدد بھی کرتا ہے”۔ ہمارا ایک ساتھی مختار سائیں جماعت کا امیر بننا چاہتا تھا اور ساتھیوں نے بنادیا۔ پھر تو اس کا وہ حشر ہوا کہ پیروں میں پڑکر معافیاں مانگتا تھا کہ مجھ سے اس بوجھ کو خدا کیلئے ہٹادو۔ میں نے کہا کہ دوسرے امیروں کو آپ نے کم تنگ کیا تھا؟۔ اس نے کہا کہ ”میں بہت کوچڑائی کرتا تھا اور اب بہت بھگت چکاہوں”۔ خلفائے راشدین نے اپنے اور اپنی اولاد کیلئے کبھی بھی امارت کی خواہش نہیں رکھی لیکن جب اپنے اور اپنی اولاد اور خاندان کیلئے امارت کی خواہش کا آغاز ہوگیا تو خلافت کا نظام امارت اور بادشاہت میں بدل گیا۔ ہماری سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ خلافت راشدہ کے طرز پر اپنی جماعتوں کو چلارہے ہیں یا آمریت ویزیدیت کا جھنڈا بلند کررہے ہیں؟۔
عبدالقدوس بلوچ قلیل من الاٰخرینسورہ ٔ واقعہ اور واٰخرین منھم لما یلحقوبھمسورۂ جمعہ کا مصداق تھے۔ امیر حمزہ، حضرت زیداور شہدائے بدر واُحد کی طرح کئی صحابہ نے فتح مکہ کا منظر نہیں دیکھا۔ جسکے بعد دشمنوں کے سردار ابوسفیان، بیگم ہند اور بیٹے معاویہاور حمزہ کے قاتل وحشی نے سرنڈر ہونے کا فیصلہ کرکے اسلام قبول کرلیااور عزت بھی کمائی۔اسلئے ہمارے دشمنوں کوکبھی ہم سے کوئی خوف نہیں کھانا چاہیے۔ ہماری جماعت نے کم تعداد اور کمزور سے کمزور تر ہونے کے باوجود ایک بہت بڑاانقلاب برپا کردیا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv