جنوری 2023 - Page 2 of 2 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

پاکستان وافغانستان کی جنگ پر غضب کہانی : وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی بدترین زہر افشانی

پاکستان وافغانستان کی جنگ پر غضب کہانی : وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی بدترین زہر افشانی

پاکستان اور افغانستان میں جنگ سے فائدہ اور نقصان کس کس کا ہوگا؟۔ یہ بات واضح ہے کہ روس افغانیوں کی وجہ سے آیا تو جنگ میں امریکہ ، یورپ ، چین اور دنیا بھر کی قوتیں کود گئیں۔ پاکستان ، ایران ، سعودی عرب اور دنیا بھر کے مسلم اور غیرمسلم ممالک جنگ کا حصہ بن گئے۔ جہاد کو زندہ کرنے والے سب منافقین اور کفار بھی تھے جو مخلص مسلمانوں کو شہادت کے تمغے کیلئے استعمال کررہے تھے۔ مال غنیمت کہیں اوربٹ رہا تھا اور آگ کا ایندھن کوئی اور تھا۔ جنرل ضیاء الحق آرمی چیف صدر پاکستان اور خاموش مجاہدISIچیف جنرل اختر عبدالرحمان اور کئی بڑے فوجی افسر امریکی سفیر سمیت حادثے کا شکار ہوگئے۔ اعجازالحق کو بھی میڈیا میں یہ شکایت رہی ہے کہ” اس کے باپ کیساتھ تحقیقاتی اداروں اور عدلیہ نے انصاف نہیں کیا ہے”۔شہیدملت لیاقت علی خان کی بیوہ کو بھی شکایت تھی کہ اسکے خاوند کو قتل کرنے میں بڑے بڑے ملوث تھے مگر انصاف نہیں ملا۔ بیگم راعنا لیاقت علی خان کیلئے5ہزار ماہانہ وظیفہ رکھا گیا اور پھر اس کو جرمنی میں سفیر بھی بنایا گیا۔ اپنے سٹاف کے ملازم سے کہا کہ ” عصر کے بعد چھٹی کے اوقات میں بھی یہ تیری سرکاری ڈیوٹی ہے کہ میرے ساتھ بیٹھ کروقت گزارو” اور پھر شراب کے نشے میں دھت ہوکر اپنے شوہر قائدملت کی شہادت کا ذمہ دار تمام سول اور فوجی حکمرانوں کو قرار یتی تھی۔ قائد ملت کی زوجہ محترمہ کو مادرِ ملت کا خطاب نہ مل سکا۔
خاموش مجاہدISIچیف جنرل اختر عبدالرحمن کے صاحبزادگان کبھی اپنے باپ کے قتل کی شکایت زبان پر نہیں لائے لیکن جب دوسری بار پانامہ کی طرح خفیہ رقم کے مالک کا قصہ میڈیا پر آیا تو ان کی بہت دولت نکلی۔ مشہور تھا کہ موصوفان پاکستان میںسب سے زیادہ دولت مند ہیں اور تھے بھی اسلئے کہ نوازشریف اینڈکمپنی کو اسلامی جمہوری اتحاد کیلئےISIنے لاکھوں کے حساب سے روپیہ دیا اور ہارون اختروہمایوں اختر کی دولت اس وقت اربوں میں تھی۔ اگر نوازشریف کروڑ پتی ہوتے تو لاکھوں روپےISIسے لینے کی کیا ضرورت تھی؟۔
زرداری اور بینظیر بھٹو کی شادی کے اخراجات عزیز میمن اور بلاول ہاؤس کو ایک پنجابی بلڈر نے موصوفان کو گفٹ کیا تھا۔ حکومت میں آنے کے بعد دولت کی لوٹ مار سے سرے محل اور سوئیس اکاؤنٹ کے قصے شہباز شریف اور میڈیاکا نمایاں کردار تھا۔ بابائے اسٹیبلشمنٹ غلام اسحاق خان کو بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر اللہ خان کے مقابلے میں بینظیر بھٹو اور نوازشریف نے مل کر جتوایا تھا ۔ پھر دونوں کی حکومتوں کو کرپشن کی بنیاد پر ہی غلام اسحاق خان نے ختم کردیا تھا۔
نوازشریف کو اقتدار میں لانے اور بینظیر بھٹو کو پچھاڑنے میں افغان مجاہدین اور اسامہ بن لادن کا بھی بڑا کردار تھا۔ نوازشریف کے خلاف بینظیر بھٹو بھی لندن اے ون فیلڈ کے مہنگے فلیٹوں کی کہانی میڈیا پر سامنے لائی۔ جس کے سارے ثبوتARYنیوز پر ارشد شریف نے اپنے لیپ ٹاپ سے چلادئیے۔ نوازشریف نے بینظیر بھٹو پر امریکہ کے ایجنٹ کا الزام لگایا تھا اور بینظیر بھٹو نے نوازشریف پر اسرائیل کے ایجنٹ کا الزام لگایا تھا۔ بہت بعد میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ مولانا احمد لاہوری کے صاحبزادے جمعیت علماء اسلام میں اپنے گروپ کی معروف شخصیت مولانا اجمل قادری کو نوازشریف نے تعلقات بنانے کیلئے اس دور میں اسرائیل بھیج دیا تھا اورحامد میر نے بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جب زرداری کے پیچھے شہبازشریف، نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے کارندے ہاتھ دھوکر پیچھے پڑے تھے توATVچینل (PTV) پر بتایا تھا کہ ” امریکہ ہی بینظیر بھٹو اور جنرل نصیراللہ بابر کے ذریعے طالبان کو اقتدار میں لایا تھا”۔
صاحبزادہ حامد رضا نے جنرل فیض کے بیٹے کی شادی میں شرکت کے بعد یہ انکشاف کیا کہ حامد میر، سلیم صافی وغیرہ جو فوج کی مخالفت کرتے ہیں تو ہرتیسرے دنGHQکے گیٹ پر ملتے ہیں اور وہاں سے ہدایت ہوتی ہے کہ کچھ ہمارے خلاف بھی بولیں تاکہ عوام کے اندر معتبر ٹھہر جائیں۔باقی وہاں سے جو بریفنگ ملتی ہے وہی میڈیا پر پھیلاتے ہیں۔ بینظیر بھٹونے افغان کمانڈروں کے خلاف طالبان کو منظم کرکے امیرالمؤمنین ملاعمر کی حکومت بناڈالی۔ نوازشریف پر اسامہ اور اسرائیل کے ایجنٹ کا الزام لگادیا۔ افغان جہاد کی ایک آنکھ اسامہ اور دوسری ملاعمرتھے۔9/11ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا امریکہ میں واقعہ ہوا تو اسامہ نے ذمہ داری کو قبول نہیں کیا لیکن اس کو خوش آئند قرار دے دیا۔ امریکہ نے ملا عمر سے اسامہ کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا اور ملاعمر نے جرم میں ملوث ہونے کا ثبوت مانگا۔
پرویزمشرف پاکستان کی معیشت کیلئے پریشان تھا، بینظیر بھٹو اورنوازشریف نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ باری باری اقتدار میںIMFسے بڑے سود کا قرضہ لیا تھا۔ بجلی بنانے کو فرنس آئیل اور کوئلہ سے مشروط کرکے پانی سے بجلی بنانے کا راستہ روکا تھا۔ جب امریکہ نے20ارب ڈالر کی پیشکش کردی تو پھر پرویزمشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صف اول کا کردار ادا کرنا سب سے پہلے پاکستان کیلئے ضروری سمجھ لیا۔IMFکا قرضہ بھی اتار دیا اور اس ملک میں پہلی مرتبہ متحدہ مجلس عمل اور ق لیگ پہلی اور دوسری پوزیشن پر آئے تھے اور نوازشریف اور بینظیر بھٹو سائیڈ لائن پر کر دئیے گئے۔ دہشت گردوں نے جو بینظیر بھٹو کو راستے سے ہٹایا تھا تو اس کا فائدہ پیپلزپارٹی کو اقتدار کی شکل میں مل گیا۔ عمران کہتا تھا کہ سولی پر چڑھ جاؤں گا لیکنIMFکے پاس نہیں جاؤں گا۔ تحریک طالبان پاکستان نے پیپلزپارٹی کی حکومت سے مذاکرات کیلئے عمران خان اور نوازشریف کو اپنا نمائندہ نامزد کردیا تھا۔ جب نوازشریف نے پنجاب میں ق لیگ کو ساتھ ملایا تو مرکزمیں حکومت سے الگ ہوگئے تھے اور پھر پنجاب سے پیپلزپارٹی کو بھی نکال باہر کیا تھا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ خواجہ شریف پر قتل کے الزام کا مقدمہ صدر مملکت آصف علی زرداری اور سلیمان تاثیر پر بنناتھا لیکن پولیس کے ایک سپاہی نے سچ بولا اور یہ کہانی ناکام ہوگئی تھی۔ رؤف کلاسرا نے اس پر ایک کتاب ” ایک قتل جو ہو نہ سکا” لکھ ڈالی تھی۔ نوازشریف کے حامی جیو کے بزرگ صحافی نے اس دور میں انصار عباسی کوTVپر کتے کا بچہ کہا تھا۔
جنگ کراچی نے شہہ سرخی لگائی تھی کہ ”وزیرمذہبی امور مولانا حامد سعیدکاظمی نے حج میں کرپشن کا اعتراف کرلیا ہے”۔ جس کی اسی روز شام کو مولاناکاظمی نے حلفیہ تردید کردی تھی۔ ان دنوں اعظم سواتی اور جیو ٹی وی ایک پیج پر تھے۔پھر وہ وقت آیا کہ ڈاکٹر خالد سومرو کے بیٹے مولانا فضل الرحمن کے تقدس کی قسم کھانے کی جرأت کررہے تھے ۔ انصار عباسی نے حامد میر کے پروگرام میں دستاویز ات دکھانے شروع کردئیے کہ مولانا فضل الرحمن ، اس کے بھائی اور اکرم درانی کے فرنٹ مین، سیکرٹری اورفلاں کے نام پر اتنی اتنی فوجی زمینیں الاٹ ہوئی ہیں۔
جب دہشت گردوں نے پختونخواہ میں خاص اور پاکستان میں عام طور پر خون خرابے کا بازار گرم کررکھاتھا تو انصار عباسی ان کی اس طرح تائید کرتا تھا کہ گویا نذیر ناجی نے اس کے خلاف100%سچی گالی بکی تھی۔صاحبزادہ حامد رضا نے جنرل فیض حمید کے بیٹے کی شادی کے بعد حالیہ انٹرویو میں یہ بھی بتایا کہ ” فضل الرحمن خلیل کے مدرسہ میں خود کش حملہ آور پکڑے گئے تھے جس میں ان مدرسہ کے اساتذہ بھی ملوث تھے اور ڈان نیوز میں یہ رپورٹ چھپ گئی تھی لیکن ہرجگہ خاص میٹنگوں میں اداروں کے افراد کیساتھ یہ بیٹھے نظر آتے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ محمود خان اچکزئی کی وجہ سے ہمارے لوگ مارے گئے لیکن اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہورہاہے؟”۔
جب انصار عباسی کے سامنے کہا جاتا تھا کہ ” آئین میں صدر زرداری کو تحفظ حاصل ہے تو کہتا تھا کہ اسلام میں یہ جائز نہیں ہے کہ صدر کو آئین میں تحفظ ملے اور جب پاک فوج پر تنقیدکا کہا جاتا تھا تو انصار عباسی کہتا تھا کہ آئین میں ان پر تنقید کی اجازت نہیں ہے”۔ یہ منافقت والا اسلام انصار عباسی کے مفادات میں یوں ہچکولے کھارہاتھا کہ جب پیپلزپارٹی اور اسٹیبلیمشنٹ کی لڑائی سامنے آتی تھی تو موصوف کا ایمان پاک فوج کی طرف جھک جاتا تھا اور جب نوازشریف کے خلاف پاک فوج کا کردار نظر آتا تھا تو اس کا ایمان شریف خاندان کی طرف جھک جاتا تھا۔ پہلی مرتبہ پرویزمشرف کے سب سے جھوٹے وزیر محمد علی درانی نے میڈیا پر انصار عباسی کو واحد ایماندار صحافی قرار دیا تھا۔
جب نوازشریف کے خلاف عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنے کی دوسری مرتبہ سیاست کھیلی تھی تو انصار عباسی کہتا تھا کہISIچیف اب آرمی چیف سے بھی زیادہ طاقتور ہیں۔ حامد میر پر حملہ ہوا تو جیو ٹی وی نےISIچیف کا چہرہ اسکرین پر دکھایا کہ یہ دہشت گرد ہے۔ فوج پر حملہ کرنے کا کریڈٹ نواز شریف اور اس کے حواریوں کو سب سے پہلے جاتا ہے اور اب عمران خان کو بھی فوج سے لڑانے میں ان کا زبردست کردار ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے پہلے تین سال آرمی کے کھاتے میں جاتے ہیں اور آخری تین سال پارلیمنٹ کے مرہونِ منت ہیں جس میں نوازشریف ، عمران خان اور زرداری سب شامل ہیں لیکن اس کی وجہ سے فوج کو بدنام کرنے کی مہم جوئی بہت طریقے سے جاری ہے اور اس کے نتائج ملک وقوم کیلئے اچھے نہیں نکلیںگے۔ انصار عباسی کو مری کے گھر کیلئے شہبازشریف نے کروڑوں روپے کا سرکاری روڈ بناکر دیا تھا۔ مری کے بازاروں میں یورپ کا منظر تھا لیکن طالبان خود کش نہیں کرتے تھے اور پختونخواہ کے گھر، مساجد، مدارس ، بازار، چوک اور سیاستدان کچھ بھی محفوظ نہیں تھا۔
پشتو کہاوت ہے کہ ”جب سچ کا پتہ چلتا ہے تو جھوٹ گاؤں بہا کر لے جاچکا ہوتا ہے”۔ پاک فوج ضرب عضب آپریشن میں مشغول تھی اور عمران خان نے دھرنے کے اسٹیج سے پنجاب پولیس کے گلوبٹوں کو طالبان کے حوالے کرنے کی دھمکیاں دینی شروع کردی تھیں۔ جنرل راحیل شریف نے دو کام کئے تھے ایک دہشت گردوں کے خلاف راست آپریشن اور دوسرا فوج سے کرپشن کا خاتمہ۔ نوازشریف کے خلاف پانامہ کا اعمالنامہ جیو کے صحافی عمر چیمہ نے نکالاتھا لیکن نوازشریف نے جنرل راحیل شریف کو دھائی دینی شروع کردی کہ مجھے بچاؤ۔ پھر جنرل قمر جاوید باجوہ کو لایا لیکن پارلیمنٹ میں جھوٹے بیان اور قطری خط کے حوالے سے عدالت میں کاروائی چل رہی تھی اور نوازشریف بوکھلاہٹ میں اپنے پاؤں پر کلہاڑیاں مارنے کے وار کر چکا تھا ۔ نااہل ہوا تو مجھے کیوں نکالا کی رٹ شروع ہوگئی۔ صحافی حضرات کی مشکل یہ ہے کہ کرائے پر چلتے ہیں اسلئے پورا سچ کبھی بتانے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتے ہیں۔ دودھ کے دھلے ہوئے کون ہیں؟۔
جب آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خلاف سعودی عرب کو جھوٹی کہانی گئی یا یونہی یہ بنادی گئی ہے ؟ مگر جنرل قمر جاوید باجوہ کیلئے پہلے ن لیگ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم اس کو ایکسٹینشن نہیں دیںگے۔ جب بھی کہا یہی بولا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ ایکسٹینشن نہیں لینا چاہتے ہیں۔ نجم سیٹھی قلابازی کھاکھا کر کھا کھاکر ایک طرف عوامی مقبولیت کیلئے یہ بیانیہ پیش کررہاتھا کہ نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہے، دوسری طرف کہتا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نوازشریف سے ملی ہوئی ہے اور تیسری طرف بیان دیتا تھا کہ عمران خان کیساتھ گٹھ جوڑ ہے اور چوتھی طرف مارشل لاء کی افواہیں چھوڑتا تھا۔ جس طرف چاہتا تھا تو اپنا کلپ نکالنے کا حکم دیتا تھا کہ میں نے فلاں دن یہی بات کی تھی۔ اب حکومت کا حصہ بن گیا۔
ایک دفعہ ٹینشن پیدا ہوئی تو ن لیگ کے قریبی آدمی نے دعویٰ کردیا کہ ارشد شریف کو نوازشریف اور مریم نواز نے مروادیا ہے۔ میڈیا میں لوگوں نے تبصرہ شروع کردیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے نوازشریف کے خلاف اپنا مہرہ کھڑا کردیا ہے ۔ اب اسٹیبلشمنٹ منظر سے غائب ہے اور وہ شخص اپنی جگہ کھڑا ہے۔ ارشد شریف کی شہادت میں کینیا پولیس اور اس وقت موجود بلیک واٹر کے کارندوں کا کھیل قابلِ ذکر ہے۔ جب بڑے پیمانے پر پاکستان میں بلیک واٹر کے کارندوں کا کھیل جاری تھا تو اس وقت شہبازشریف طالبان کیساتھ کھڑاہوا کرتا تھا۔
القاعدہ ایک نمبر بھی تھا اور دونمبر بھی تھا، طالبان امریکہ کیلئے بھی گڈ اور بیڈ تھے اور پاکستان کیلئے بھی گڈ اور بیڈ تھے۔ امریکہ اور اسرائیل کا کھیل ایک بھی تھا اور الگ الگ بھی۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے کردار میں بھی الگ الگ معاملہ ہوتا تھا۔ آرمی چیف جنرل عاصم باجوہMIاورISIدونوںکے چیف رہے ہیں اور بھروسہ کرنا چاہیے کہ اچھا آدمی ہوگا۔ جنرل جاوید اقبال کو امریکہ کی جاسوسی کے الزام میں پہلے14سال کی ناجائزسزاسنائی گئی اور پھرکم کرکے7سال کردی اب اس کو چھوڑ دیا گیا ہے ۔ امید ہے کہ فوجی اور عام عدالتوں سے اس کو بالکل بے گناہ ثابت کرکے مراعات بھی بحال کی جائیں گی۔ اس کی سزا کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ جنرل حمیدگل وغیرہ کے کلپ کو بطور دلیل پیش کیا جاتا تھا کہ فوج میں ترقی اور بڑی تعیناتی امریکہ کی ڈکٹیشن پر ہوتی ہے اور اس جھوٹ کا بھانڈہ کھل گیا۔
جب مولانا فضل الرحمن و زرداری کی حکومت تھی تو سی پیک کے مغربی روٹ کا افتتاح ہوگیا تھا۔ پھر نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن اقتدار میں آئے تو اس روٹ کو پنجاب کی طرف موڑ دیا جس میں راستے لمبے ہونے کے علاوہ فوگ بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اگر پاکستان مغربی روٹ کو بحال کردے تو ٹول ٹیکس چین کی گاڑیوں سے زیادہ وصول کرکے قرضہ ادا کیا جاسکتا ہے اسلئے کہ اس میں پٹرول اور وقت کیساتھ بہت معاملات کی بچت ہوگی اور فوگ کی تکلیف بھی نہیں ہوگی۔ ناراض بلوچ اور پسماندہ پشتونوں کو کوئٹہ اور پشاور سے کاروبارکا فائدہ ملے گا۔
اوریا مقبول جان اور حمیدگل جیسے لوگوں کی زندگیاں جہاد اور جنت پانے کی تمنا میں گزرگئی مگر خود اور اپنے بچوں کواس سعادت سے محروم رکھا۔ اوریا مقبول جان نے اپنے نئے ویلاگ میں پھر کہا ہے کہ ” جہاد ہند شروع ہونے والا ہے اور پاکستان کا پتہ چل جائے گا کہ کس جانب کھڑا ہے؟”۔ جب رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ہم افغانستان میں دہشت گردوں کو گھس کر ماریںگے تو طالبان نے اس کے سخت جواب کو مناسب اور اپنا حق سمجھ لیا کہ ” ہم یہاں برطانیہ، روس اور امریکہ کی سپر طاقتوں کو پہلے بھی دفن کرچکے ہیں ایسی غلطی دہرانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے”۔ اس پر میڈیا میں بحث مباحثہ تھا کہ افغانستان میں کاروائی کی خبر آئی۔ پاکستان نے اس کی تردید کردی اور افغانستان کے میڈیا نے اس کو اجاگر کردیا۔ وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ کا کام خارجہ امور پر بیان دینا نہیں تھا کیونکہ یہ وزیرخارجہ بلاول بھٹو اور اس حناربانی کھر کا کام تھا جس نے کابل کا دورہ بھی کرلیاہے۔
رانا ثناء اللہ نے اسکے بعد زہریلا اور خطرناک چھکا یہ ماردیا۔ صحافی نے پوچھا کہ امریکہ نے ڈرون کے ذریعے تحریک طالبان کو افغانستان میں نشانہ بناکر پاکستان کی مدد کی ہے؟۔ جس پر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ” فی الحال میں اس پر بات کرنا ملک کے مفاد کے خلاف سمجھتا ہوں اسلئے بات نہیں کرنا چاہتا ہوں”۔
TTPنے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی۔ پختون دہشتگردی کیخلاف مظاہروں میں کھڑے ہیں ۔TTPکے امیر نور ولی محسود نے علماء سے اپیل کی کہ بندوق رکھنے کا راستہ بتائیں۔ مثبت اقدامات کے بغیرپاکستان اور افغانستان لیبیا اور عراق بننے سے نہیں بچ سکیں گے۔ مل جل کر گریٹ گیم سے نکلنے میں ایکدوسرے کی مدد کریںگے تو معاملہ حل ہوجائیگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

طلاق کے بعد شوہر کے کزن سے دو دن کا حلالہ زندگی بھر کا عذاب بن گیا۔

طلاق کے بعد شوہر کے کزن سے دو دن کا حلالہ زندگی بھر کا عذاب بن گیا۔

اسلام میں حلالہ جائز ہے یا نہیں؟۔ سنئے شائستہ کی دکھ بھری کہانی
یوٹیوب نیونیوزTVپر اس خاتون اینکر نے پہلے حلالہ کا شکار ہونے والی شائستہ سے دُکھ بھری داستان پوچھی ہے اور اس نے بتایا کہ12سال شادی کو ہوچکے تھے۔ دو بچے ایک بیٹا اور ایک بیٹی بھی تھی۔ پھر شوہر کی دلچسپی کم ہوگئی اور کچھ دیگر معاملات کا پتہ چل گیا تو وہ اپنے باپ کے گھر میں بیٹھ گئی۔ واپس اپنے شوہر کے پاس جانا نہیں چاہتی تھی اسلئے والد نے خلع کا مقدمہ بھی دائر کردیا تھا۔ پھر شوہر نے گھر پر طلاق دیدی۔ ایک عورت کو شادی کے بعد دوبارہ اپنے بھائی اور بھابھیوں کے پاس رہنا پڑجائے تو وہ کتنے بھی اچھے ہوں لیکن کئی معاملات میں وہ خوش نہیں رہ سکتی ہے۔ آخر کار وہ بھی واپس جانا چاہتی تھی اور شوہر نے بھی رجوع کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ پھر یہ طے ہوگیا کہ حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور حلالہ کیلئے وہ تیار نہیں تھی لیکن والد اور دوسروں نے سمجھایا کہ ایک بار یہ تلخ معاملہ برداشت کرنا پڑے گا۔ وہ بالکل راضی نہیں تھی کہ کسی اجنبی شخص کیساتھ اسے راتیں گزارنا پڑیں۔ پھر وہ مجبور ہوگئی اور اپنی رضا سے حلالہ کرنے پر آمادہ ہوگئی۔ اس کے شوہر کا کزن تھا ،جس کیساتھ دو دن کا حلالہ ہوا۔ وہ اس کو بھائی کی طرح سمجھ رہی تھی لیکن شوہر کو کسی اور پر اعتبار نہیں تھا اسلئے اس کیساتھ حلالہ کرادیا تھا۔ اب وہ دو دن جس طرح گزرے ہیں اس کا صدمہ دماغ پر بیٹھ گیا ہے اور اس انتہائی کرب وبلا سے دل ودماغ ایک عرصہ سے دوچار ہے۔
پروفیسر حفیظ اللہ بلوچ نے کہا کہ ”یہ واقعہ سن کر بہت دکھ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں228سے242تک ان مسائل کا حل بتایاہے۔ جس جاہل نے اس بہن کو حلالہ کا مسئلہ بتایا ہے تو اس میں جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔ نبیۖ نے فرمایا: ”جو حلالہ کرے اور جس کیلئے حلالہ کیا جائے تو دونوں پر اللہ کی لعنت ہو”۔ اس بہن نے جس جاہل سے مسئلہ پوچھا ہے اس کے پاس علم نہیں تھا۔ حلالہ کی ایک جائز صورت بھی ہے وہ یہ ہے کہ دوسراشوہر گھر بسانے کی نیت سے نکاح کرے۔ پھر اگر ان میں نہ بنے تو اس کو طلاق دے۔ مسئلہ پوچھنے کیلئے تمام اہل علم کے پاس جانا چاہیے۔ یہ جو ہم نے مخصوص طبقات بنائے ہیں یہ غلط ہے”۔
بلوچ صاحب! جس چیز کو آپ جائز حلالہ قرار دے رہے ہیں یہ مسئلے کا حل نہیں تھااور اس سے فرار اختیار کرنے کیلئے ہی حنفی علماء نے حلالے کا راستہ نکالا ہے۔ علامہ بدرالدین عینی اور علامہ ابن ہمام نے پانچ ،چھ سو سال قبل اس حلالہ کو کارِ ثواب بھی قرار دیا ہے۔ کراچی کے مفتی عطاء اللہ نعیمی نے ” تین طلاق اور حلالہ کی شرعی حیثیت” کتاب میں ان حوالہ جات کو نقل بھی کیا ہے۔ ایک طرف لکھ دیا کہ رسول اللہ ۖ نے حلالہ کرانے والے کو کرائے کا سانڈھ یا بکرا قرار دیا ہے ۔جس کی تشریح میں لکھاہے کہ اس کی وجہ غیرت میں کمی ہے ۔ دوسری طرف لکھ دیا ہے کہ ” جو حلالہ کو بے غیرتی اور بے حیائی قرار دیتا ہے تواس کے ایمان وایقان کی جگہ بے غیرتی اور بے حیائی نے لے لی ہے”۔ اس جملے کا اثر نبی کریم ۖ کی ذات کے حوالے سے بدترین توہین کی صورت میں نکلتا ہے۔
برصغیر پاک وہند اور دنیا بھر میں حنفی اصولِ فقہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ طلاق کی تین اقسام احناف میں یہ ہیں۔ طلاق احسن۔ طلاق حسن ۔ طلاق بدعت۔ دوسرے مسالک والے طلاق کی ان اقسام کے قائل نہیں ہیں۔ شافعی اکٹھی تین طلاق کو بھی سنت سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عویمر عجلانی نے لعان کے بعد عورت کو ایک ساتھ تین طلاق دئیے تھے۔ حنفی مسلک کی طرح دیگر مسالک بھی بگاڑ دئیے گئے ہیں۔ ائمہ اربعہ نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہوجائیںگی ۔ کسی کے نزدیک سنت اور کسی کے نزدیک بدعت لیکن اس کا اصل مدعا کیا تھا؟۔ اس کی طرف کسی نے بھی دھیان نہیں دیا ہے۔
حضرت عمر نے ایک واقعہ میں فیصلہ کیا کہ جب شوہر نے تین طلاقیں دیں اور عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی کہ ”شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے”۔ اس کے بعد جب بھی میاں بیوی میں ایک ساتھ تین طلاق پر جھگڑا ہوتا اور بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں ہوتی تھی تو شوہر رجوع نہیں کرسکتا تھا۔ اس سے پہلے اگر شوہر اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دیتا تھا تو وہ آپس میں اکٹھے رہتے تھے اور وہ ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھی۔ شریعت نہیں بدلی تھی بلکہ لوگوں کے روئیے میں فرق آگیا تھا۔ اگر ایک ساتھ تین طلاق کے بعد بھی میاں بیوی آپس میں اکٹھے رہنا چاہتے تھے تو ان کو زبردستی کون الگ کرسکتا تھا؟۔ لیکن جو خود جدائی کیلئے کوئی بہانہ ڈھونڈتے تھے تو اکٹھی تین طلاق کو بنیاد بناکر جدائی اختیار کرلیتے تھے۔
پھر سوال یہ پیدا ہوا کہ حضرت عمر نے کوئی بدعت ایجاد کی ہے یا سنت ہے؟ تو امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے مسلک والوں نے اس کو بدعت اور گناہ قرار دیا اور امام شافعی نے اس کو سنت اور مباح قرار دیا اور امام احمد بن حنبلنے دونوں قول اپنائے ہیں، ایک میں سنت ومباح اور دوسرے میں بدعت وگناہ قراردیا۔
اصل مسئلے کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی کہ اگر کوئی معقول بات ہو تو پھر اس ایک ساتھ تین طلاق کو سنت اور مباح کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ جیسا کہ حضرت عویمر عجلانی نے نبیۖ کے سامنے لعان کے بعد ایک ساتھ تین طلاق دیدئیے تھے اور اس کی تصدیق قرآن کی سورۂ طلاق کی پہلی آیت میں بھی ہے کہ کھلی ہوئی فحاشی کی صورت میں ایسا کرسکتے ہیں ۔ نبیۖ نے فاطمہ بنت قیس سے فرمایا کہ ”عدت اپنے شوہر کے پاس گزارنے کے بجائے عبداللہ بن مکتوم کے گھر میں گزار لو اسلئے کہ وہ نابینا تھے اور کپڑے بدلنے میں تکلیف نہ ہوگی”۔
محمود بن لبید کی روایت میں جب ایک شخص کے بارے میں نبیۖ کو خبر دی گئی کہ اس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دیں تو نبیۖ کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میرے ہوتے ہوئے اللہ کے دین کیساتھ کھیل رہے ہو؟۔ ایک شخص نے پیشکش کردی کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟”۔ (ترمذی شریف) یہاں پر ضرورت کے بغیر اکٹھی تین طلاق کا مسئلہ تھا اسلئے نبیۖ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا۔ ان روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اکٹھی تین طلاق دینے سے عورت کو فارغ کیا جاسکتا ہے۔ بسا اوقات یہ ناپسندیدہ اور بسا اوقات اس میں کوئی حرج نہیں ہوتا ہے۔ احادیث صحیحہ سے بالکل ثابت ہے اور اس کا انکار کرنا بالکل غلط اور کھلے حقائق سے بہت ہی گھناؤناانحراف ہے۔
یہ بات اچھی طرح سے سمجھنے کی ہے کہ اگر ایک ساتھ تین طلاق دے دئیے جائیں یا پھر الگ الگ مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق دی یا پھر زندگی میں دومرتبہ الگ الگ طلاق دی جائے اور پھر تیسری بار بھی طلاق دی جائے تو کس طلاق کی بنیاد پر حلالے کا ثبوت ملتا ہے؟۔حنفی، اہلحدیث، شیعہ اور غلام احمد پرویز و ڈاکٹر ذاکر نائیک نے الگ الگ طرح سے حلالے کیلئے اپنا اپنا فتویٰ دیا ہے اور سبھی غلط بھی ہیں اور حدیث کی بات بھی درست ہے کہ گمراہی پر امت اکٹھی نہیں ہوسکتی ہے۔
اصل میں فطری طریقے سے میاں بیوی کی جدائی کو طلاق کہتے ہیں۔ شوہر جدائی کاقدم اٹھائے تو یہ طلاق ہے۔ بیوی جدائی کا قدم اٹھائے تو یہ خلع ہے اور دونوں اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ اب ہمارا آپس میں رابطے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہونا چاہیے تو اس میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا ہے کہ رجوع کرلیا جائے تو ہوجائیگا یا نہیں ہوگا؟۔ کیونکہ جب دونوں آئندہ رابطہ نہ کرنے پر متفق ہوں تو پھر یہ سوال بالکل فضول بنتا ہے کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ البتہ ایک بہت بری رسم یہ بھی ہے کہ شوہر اسکے بعد کسی اور شخص سے عورت کو اپنی مرضی کے مطابق نکاح کرنے دیتا ہے یا نہیں؟۔ قرآن نے اس کا جواب بہت سخت الفاظ میں یہ دیا ہے کہ اس طلاق کے بعد جب تک عورت کسی اور شخص سے نکاح نہ کرلے تو اس کیلئے حلال بھی نہیں ہے۔ اس حکم سے عورت کی ایک غلط رسم سے جان چھڑانی تھی۔
باقی رہی یہ بات کہ اکٹھی3طلاق کے بعد باہمی صلح سے رجوع ہوسکتاہے یا نہیں؟۔ تو اس کا جواب قرآن نے بہت واضح الفاظ میں دیا ہے کہ وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحًا ” اور ان کے شوہر اس عدت میں اصلاح کی شرط پر ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔(البقرہ:228)
ایک ساتھ تین طلاق دی ہوں یا تین ہزار طلاق دی ہوں۔اللہ نے رجوع کو طلاق کی گنتی کیساتھ نہیں بلکہ عدت میں باہمی اصلاح کیساتھ مشروط رکھا ہے اور اگر اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ نبیۖ نے قرآن کی واضح آیت کے بالکل برعکس اکٹھی تین طلاق سے رجوع کیلئے باہمی اصلاح نہیںبلکہ حلالہ کو شرط قرار دیا ہے تو دعوے کی دلیل کیلئے صحیح وضعیف نہیں من گھڑت روایت پیش کردے۔ حالانکہ احناف اور دیگرمسالک کا یہ مسلک ہے کہ اگر قرآن کے مقابلے میں کوئی صحیح حدیث بھی پیش کی جائے تو قرآن پر عمل کیا جائیگا اور حدیث جھوٹی ہوگی۔
عالم نما جاہل یہ سوال بڑے شد ومد سے اٹھاتے ہیں کہ ” پھر نبیۖ نے اکٹھی تین طلاق پر اتنی سخت ناراضگی کا اظہار کیوں فرمایا، جس شخص کی خبر دی گئی تھی تو اس کو رجوع کرنے کا حکم کیوں نہیں دیا؟”۔ پہلی بات ہے کہ محمود بن لبید کی یہ روایت ایسی ہے کہ جس کو امام شافعی نہیں مانتے تھے اسلئے اکٹھی تین طلاق کو سنت اور مباح قرار دیتے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ محمود بن لبید ایک تابعی تھے اور اس روایت میں جس شخص کا ذکر ہے کہ اس نے طلاق دی تھی تو وہ ابن عمر تھے اور جس نے قتل کی پیشکش کی تھی تو وہ حضرت عمر تھے۔ تیسری بات یہ ہے کہ صحیح مسلم میں حضرت حسن بصری سے روایت ہے کہ ایک مستند راوی نے بتایا کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دئیے تھے ۔ بیس سال تک مجھے کوئی دوسرا مستند شخص نہیں ملا، جس نے اس بات کی تردید کی ہو کہ اکٹھی تین طلاق نہیں دئیے تھے۔ بیس سال بعد ایک اور زیادہ مستند شخص نے بتایا کہ ابن عمر نے ایک طلاق دی تھی۔ صحیح مسلم کی اس روایت میں جن دو مستند اشخاص کا ذکر تھا تو حضرت حسن بصری کے مطابق دونوں مستند تھے لیکن کون کون تھے؟۔ کیا واقعی دوسرا زیادہ مستند تھا؟۔ ناموں کا کوئی ذکر نہیں ہے لیکن ایک مہم جوئی معلوم ہوتی ہے کہ کس طرح سے اکٹھی تین طلاق کے بعد رجوع کی روایت کو غائب کرنے کی پلاننگ شروع ہوگئی تھی؟۔ دیگر روایات میں بھی اس قسم کے مسائل ہیں کہ حضرت فاطمہ بنت قیس کے واقعہ میں صحیح احادیث میں الگ الگ تین طلاقوں کا ذکر ہے اور ضعیف روایت میں اکٹھی تین طلاق کی بات گھڑی گئی ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ عالم نما جاہلوں نے جو اصل اعتراض کیا ہے کہ ”جب رجوع ہوسکتا تھا تو نبیۖ اتنے غضبناک کیوں ہوئے، رجوع کا حکم دیتے؟”۔ تو اس کے جواب میں یہی بات کہی جاسکتی ہے کہ بخاری میں ابن عمرکے واقعہ کا ذکر ہے اور اس میں نبی ۖ غضبناک بھی ہوئے اور پھر حلالہ کے بغیر رجوع کا حکم بھی دیا اور فرمایا کہ رجوع کرلو،پھر پاکی کے ایام میں طلاق دو، یہاں تک کہ اس کو حیض آجائے۔ پھر پاکی کے ایام اور اس کے بعد حیض آجائے۔ پھر پاکی کے ایام میں چاہو تو رجوع کرو اور چاہو تو طلاق دو یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم دیاہے۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورہ ٔ الطلاق)
ابوداؤد شریف کے مصنف عبداللہ بن مبارک کے شاگرد تھے، ابورکانہ کے والدنے ابورکانہ کی ماں کو تین طلاقیں دیں۔ پھر کسی اور خاتون سے نکاح کیا اور اس نے نامرد ہونے کا الزام لگادیا۔ نبیۖ نے اس کو طلاق دینے اور ام رکانہ سے رجوع کافرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ وہ تین طلاقیں دے چکاہے۔ جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور سورۂ طلاق کی ابتدائی آیات کی تلاوت فرمائی۔ (ابوداؤد شریف) سورۂ طلاق میں مرحلہ وار تین طلاق کے باوجود اللہ نے رجوع کا راستہ عدت کے اندر، عدت کی تکمیل کے فوراً بعد اور عدت کی تکمیل کے عرصہ بعد بالکل کھلا رکھا ہے اور سورۂ بقرہ کی آیات231،232میں بھی عدت کی تکمیل کے بعد اللہ تعالیٰ نے طلاق سے رجوع کا راستہ کھلا رکھا ہے۔
قرآن میں اتنا تضاد کیسے ہوسکتا ہے کہ آیات228،229میں عدت کے اندر رجوع کی باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے اجازت ہو اور231اور232میں عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے اور باہمی اصلاح ورضامندی سے رجوع کی اجازت ہومگر بیچ میں تین طلاق پر رجوع کا دروازہ بند کیا جائے؟ ایک ایک بات اپنی مختلف کتابوں، تحریرات اور تقریروں میں ثابت کی ہے۔
ایک بخاری کی روایت پیش کی جاتی ہے جس میں رفاعة القرظی کی سابقہ بیوی نے کسی اور شخص سے نکاح کیا تھا اور اس کو شکایت تھی کہ دوسرا شخص نامرد تھا جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ ”جب تک دونوں ایک دوسرے کا ذائقہ نہ چکھ لو تو رفاعہ کے پاس نہیں لوٹ سکتی ہو”۔ پہلی بات یہ ہے کہ کیا نامرد میں ذائقہ چکھنے یا چکھانے کی صلاحیت ہوتی ہے؟۔ اگر نہیں ہوتی ہے تو نبیۖ پر جھوٹ گھڑ ا گیا ہے؟۔بخاری کی دوسری روایت میں ہے کہ اس کے شوہر نے کہا کہ میں نامرد نہیں ہوںبلکہ اپنی مردانگی سے اس کی چمڑی ادھیڑ کر رکھتا ہوں۔یعنی ذائقہ تو وہ چکھ چکی تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ رفاعة القرظی نے مرحلہ وار تین طلاقیں دی تھیں اور اس عورت نے کسی اور سے نکاح کرلیا تو اس پر اکٹھی تین یا مرحلہ وار تین طلاق کے بعد کسی اور شخص سے حلالہ کرانے کا حکم کہاں سے لگ سکتا ہے؟۔ تیسری بات یہ ہے کہ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے لکھ دیا ہے کہ یہ خبر واحد کی حدیث ہے جس میں نکاح کے علاوہ جماع کی صلاحیت نہیں تھی تو حنفی حدیث کی وجہ سے نہیں قرآن میں نکاح کو جماع کے معنی میں لیتے ہیں۔
ہم نے اپنی گزارشات اور کتابیں اسلامی نظریاتی کونسل، منصورہ لاہور اور بڑے بڑے معروف مدارس تک پہنچادی ہیں لیکن مذہبی طبقات میں غیرت نام کی کوئی چیز نہیں ہے اسلئے حلالہ کی لعنت کا سلسلہ جاری رکھا ہواہے۔ حلالہ سے زیادہ دنیاوی مفادات اور ووٹ بینک کا مسئلہ ہے۔ جس شجرہ ممنوعہ نے حضرت آدم کو جنت سے نکلوادیا جس پر اللہ نے فرمایا:عصٰی آدم فغویٰ ” آدم نے نافرمانی کی اور پھر وہ بہک گئے”۔ (قرآن)۔ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کیلئے دو آزمائش اور فتنوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک نبیۖ کا خواب اور ہے پوری دنیا کے تمام ادیان پر اسلام دین حق کا غلبہ اور دوسرا قرآن میںشجرہ ملعونہ۔ حضرت آدم کو اتنا نہیں روکا گیا تھا جتنا مسلمانوں کو رجوع کے احکام بتاکر حلالہ کی لعنت سے روکا گیا ہے لیکن مذہبی طبقے نے اسی کو دنیا میں اپنی جنت اور حکمرانی سمجھ لیا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

دعا زہرہ عرصہ بعد والدین کیساتھ چل دی!

دعا زہرہ عرصہ بعد والدین کیساتھ چل دی!

کراچی سے شیعہ لڑکی سیدہ دعازہرہ کاظمی لاہور پنجاب کالج کے ظہیرکے ساتھ محبت کی شادی کرکے گھر سے بھاگ گئی تھی۔ دونوں کا کورٹ میرج ہوا تھا اور عدالت میں کیس اغواء برائے تاوان تھا لیکن جب پیش کیا گیا تو عدالت نے دعا زہرہ کو زہیر کیساتھ جانے دیا۔ پھر عرصہ بعد دوبارہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ تبدیل ہوئی اور دعا زہرہ کو16سال سے کم ثابت کرکے دارالامان بھیج دیا گیا۔ اب عرصہ بعد دعا زہرہ اپنے والدین کیساتھ دارالامان سے گھر چلی گئی ہے۔
پاکستان میں نکاح کے قانون بھی دو ہیں اور علماء کی شریعت بھی دو ہیں۔ پنجاب میں16سال سے زیادہ عمر کی لڑکی قانونی طور پر شادی کرسکتی ہے لیکن سندھ میں شادی کیلئے قانونی عمر کم ازکم18سال ہے۔ اگر لڑکی کورٹ میرج کا شکار ہوگی تو پنجاب میں16سال اورسندھ میں18سال تک دارالامان میں رہنا پڑے گا۔ پھر شوہر کیساتھ جاسکتی ہے۔ اگر پہلے دارالامان سے نکلنا چاہے تو والدین کیساتھ جاسکتی ہے۔ دعا زہرہ نے والدین کیساتھ جانے کا فیصلہ کیا لیکن اغواء اور دیگر الزام نہیں لگائے۔ اب میڈیا والے اپنی کہانیاں چھوڑدیں۔ کل اگر دعا کے والدین اس شادی پر راضی ہوگئے تو کہانیوں کا کیا بنے گا؟۔
علماء کی شریعت دو ہیں۔ حنفی مسلک میں بالغ لڑکی کو والد کی اجازت کے بغیر نکاح کی اجازت ہے۔ اسلئے دعا زہرہ نے جو نکاح کیا، وہ شرعاًدرست ہے جبکہ اہلحدیث، شیعہ، مالکی، شافعی ،حنبلی کے شرعی مسلکوں میں والد کی اجازت کے بغیر نکاح شرعاًدرست نہیں۔ جمہور کی دلیل حدیث نبوی ۖ ہے کہ ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے ، باطل ہے ، باطل ہے”۔ دعا زہرہ نے والد کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اسلئے یہ نکاح باطل اور ناجائز ہے۔ جمہور کے ہاں اس پر حرامکاری کے فتوے لگتے ہیں۔
حنفی کے نزدیک قرآنی آیت حتی تنکح زوجاً غیرہ ” یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرے” سے عورت خود مختارثابت ہے ۔آیت میں نکاح کی نسبت عورت کی طرف ہے ۔ حدیث کو صحیح سمجھنے کے باوجود خبر واحد کا درجہ دیتے ہوئے قرآن کے مقابلے میں ناقابلِ عمل قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اصل حنفی مسلک یہ ہے کہ پہلے تطبیق دینے کی کوشش کی جائے گی، اگر تطبیق ہوسکے تو پھر حدیث کو ناقابلِ عمل نہیں قرار دیا جائیگا۔ اگر حدیث سے کنواری لڑکی مراد لی جائے اسلئے کہ آیت میں طلاق شدہ کی بات ہے تو پھر اس حدیث کو بھی رد کرنے کی ضرورت نہیں۔ جب اس حدیث پر معاشرے میں عمل ہوگا تو لڑکیوں کا گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کا سلسلہ رُک جائے گا۔ برصغیر کے علاوہ جہاں حنفی مسلک جمہور کی وجہ سے رائج ہے کہیں یہ دلخراش واقعات نہیں ہوتے۔ بڑے علماء و مفتیا ن کے ہاں بھی لڑکیوں کے ایسے مسائل کا معاملہ ہوتا ہے جو اپنے اثر ورسوخ کی وجہ سے دبا دیتے ہیں لیکن غریب والدین کو بہت رُلنا پڑتا ہے۔
جب شیعہ واہلحدیث کی لڑکی کو بھاگنے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو حنفی مسلک کا سہارا لیا جاتا ہے اور جب اکٹھی تین طلاق کے بعد حلالہ کی لعنت سے بچنے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو اہلحدیث اور شیعہ مسلک کا سہارا لیا جاتاہے۔ جب تک قرآن وحدیث کے اصل احکام سامنے نہیں لائے جائیں تو اسلام علماء و مفتیان کیلئے بازیچۂ اطفال بنا رہے گا۔آخرمیں ہم یہ کھل کر کہنے پر مجبور ہوںگے کہ
شریعت کے پاسباں ہم ہیں فتویٰ چلے گا ہمارا
اے جاہلوں کے جاہل! جاہل ملا تمہارا
شیعہ سنی دونوں اس جاہلیت کا شکار ہیں کہ” شوہر جب تک طلاق نہ دے تو عورت نکاح میں رہنے پر مجبور ہے۔اگر عورت خلع لینا چاہے تو جب تک شوہر اپنی مرضی سے طلاق نہیں دے گا تو عورت نکاح میں رہنے پر مجبور ہوگی”۔
اس جاہلیت کا قرآن وحدیث سے تعلق نہیں ۔عورت کو خلع کا حق قرآن کی واضح آیت19سورہ ٔ النساء میں موجود ہے۔ مذہبی طبقات نے جاہلیت کی حد کو پار کرتے ہوئے آیت229البقرہ کے آخری حصہ سے خلع مراد لیا ۔ جس سے خلع مراد لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن جاوید غامدی اور مولانا مودودی کیلئے ربوبیت کے درجے کا یقین رکھنے والے بھی حقائق ماننے پر آمادہ نہیں ہیں۔
علامہ سید جواد حسین نقوی جامعہ عروة الوثقیٰ لاہور نے بتایا کہ ایران کے علمی مرکز قم میں قرآن پڑھانے کا کوئی استاذ بھی نہیں تھا۔ جن آیات میں نبیۖ کو تلقین کی گئی کہ ”ہم نے آپ کیلئے ان چچا کی بیٹیوں کو حلال کیا جنہوں نے آپ کیساتھ ہجرت کی ”۔ اس کی تفسیر میں شیعہ کیا کہتے ہیں؟۔ اہل سنت کی تفاسیر میں واضح ہے کہ حضرت علی کی ہمشیرہ ام ہانی نے ہجرت نہیں کی تھی جو مشرک کے نکاح میں تھیں، فتح مکہ کے وقت حضرت علی نے اسکے شوہر کو قتل کرنا چاہا اسلئے کہ مشرک کیساتھ نکاح قرآن میں منع تھا ۔ام ہانی کو مشرک شوہر سے اتنی محبت تھی کہ ہجرت بھی نہیں کی اور اسکے نکاح میں رہی۔ نبیۖ نے اسکے شوہر کو قتل سے بچایا۔ پھر اس کا شوہر چھوڑ کر گیا تو اسکے بعد نبیۖ نے حضرت ام ہانی کو نکاح کی پیشکش کردی لیکن امام ہانی نے یہ پیشکش قبول نہیں کی اسلئے کہ وہ سنی تھی اور نہ شیعہ بلکہ حضرت ابوطالب کی بیٹی اور حضرت علی کی ہمشیرہ تھیں۔ مشرک سے نکاح کو حرامکاری نہیں قرار دیا جاسکتا تو پھر غیرسید اور سنی سے نکاح کو کیوں حرامکاری کہا جائے گا؟۔ اگر قرآن وسنت ،سیرت وتاریخ اور فقہ اسلامی کا درست علم ہوتا تو حضرت ام ہانی کے مشرک سے نکاح کو بھی حرامکاری قرار دینے کے بجائے اپنا اپنا فقہی مسلک درست کیا جاتا اور فرقہ واریت کی آگ میں بھی اپنی قوم کو نہیں جھلسایا جاتاتھا۔ شیعہ کے جب تک امام غائب حاضر نہیں ہوتے تو ان کو انکے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ امام ابوحنیفہ کے مسلک والے قرآن وسنت کی بنیاد پر سود کو حلال کرنے کا دھندہ چھوڑ کربڑا انقلاب برپا کریں۔
علامہ سید جواد حسین نقوی نے کہا تھا کہ ” والدین اپنے ایسے نافرمان اولاد کا پیچھا چھوڑ دیں” ۔مگر علامہ شہریار عابدی نے علامہ جواد نقوی کو اس بات پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ایک اتحاد امت کے علمبردار ہیں اور دوسرے انتشار امت کے سب سے بڑے علمبردار ہیں جو سنیوں کی کتابوں سے حوالہ جات نکال نکال کر اتحاد واتفاق کی فضاء کو بہت دھچکا پہنچارہے ہیں۔ ایک دوسرے پر بھی الزامات کی بوچھاڑ کرنے میں کوئی باک نہیں سمجھتے ہیں۔ ہماری گزارش صرف اتنی ہے کہ قرآن نے ایک انسان کے ناجائز قتل کو تمام انسانیت کا قتل قرار دیا ہے اور پھر ایک انسان کے زندہ کرنے کو تمام انسانیت کے زندہ کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ایک لڑکی کی عزت بچانا تمام انسانیت کی عزت بچانے کے مترادف ہے۔ اور اس کی تذلیل کرنا تمام انسانیت کی تذلیل کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان کی جمہور عوام کا مسلک حنفی ہے اور دعا زہرہ کیلئے عدالتوں کا فیصلہ حنفی مسلک کے مطابق ہوگا۔ لڑکی شیعہ ہے جو نکاح کیلئے شیعہ مسلک چھوڑ کر سنی بن سکتی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی بات طے ہوئی تورتن بائی کی عمر16سال تھی۔ اس کا والد پارسی تھا،جو بڑی عمر کے مسلم سے اپنی لڑکی کو نکاح کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ رتن بائی نے کورٹ میرج کا فیصلہ کیا تو انگریز عدالت میں نکاح کیلئے لڑکی کا خودمختار ہونا،18سال شناختی کارڈکی عمر ضروری تھی۔والد کو عدالت میں مقدمہ درج کرنا پڑاکہ” پارسی عورت کا اہل کتاب سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے”۔ قائداعظم نے لکھ دیا کہ ”میرا کسی کتابی مذہب سے تعلق نہیں ”۔ جس پر مجلس احرارالاسلام کے شیعہ رہنما نے قائداعظم کو کافراعظم اسلئے کہا کہ غیرمسلم لڑکی کی خاطر اسلام کو چھوڑ دیا۔ رتن بائی کا انتقال ہوگیا تو آغا خانیوں کے مذہبی عالم نے اس کا جنازہ پڑھنے سے اسلئے انکار کردیا کہ رتن بائی نے ہمارا دین اسلام قبول نہیں کیا ۔ قائداعظم نے سر آغا خان سے سفارش کیلئے کہا لیکن سرآغا خان نے کہا کہ” مذہبی عالم جو کہتاہے ٹھیک کہتا ہے، میراکوئی جبر نہیں” ۔
رتن بائی نے اسلام قبول کیا تھا یا نہیں؟۔لیکن اگر وہ زندہ رہتی تو کلثوم نواز ، نصرت بھٹو، بشریٰ بیگم کی طرح خاتون اول سے بڑھ کر مادرملت کہلاتی۔ محترمہ شہلارضا نے کہا کہ ” دعا زہرہ ایک تعلیم یافتہ شریف خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور زہیرایک مالی کا بیٹا ہے”۔ اگر اونچ نیچ کا یہ معیار معتبر ہے تو پھر کہاں بینظیر کی حیثیت پیپلزپارٹی کے جیالوں میں اور کہاں آصف علی زرداری؟۔ جس کی بڑی لیڈر بینظیر بھٹو کے مقابلے میں مالی کی حیثیت بھی نہیں تھی۔ البتہ ان کی شادی پر والدہ کو اختلاف نہیں تھا والد تو مرحوم ہوچکے تھے۔ بھائی جلاوطن اور راضی نہ تھے تو الگ بات تھی۔ پھر بینظیر بھٹو نے راستہ ہموار کیا تو مرتضیٰ بھٹو واپس پاکستان آسکا تھا۔ مریم نواز نے بھی نوازشریف کوسعودی عرب جلاوطن کرنے کا اوراب دوبارہ لندن سے پاکستان آنے کا راستہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
قائداعظم کی بیٹی دینا جناح نے باپ کی مرضی کے بغیر پارسی سے نکاح کیا تھا۔ قائداعظم کا جنازہ دیوبندی علامہ شبیراحمد عثمانی نے پڑھایا اور شیعہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک جنازہ پہلے خفیہ طور پر انہوں نے بھی پڑھایا۔ بڑے آدمی کیلئے نکاح اور جنازے کے مسائل نہیں ہوتے مگر مولوی غریب کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑجاتے ہیں۔ دعا زہرہ بہت غریب تو نہیں مگر امیر کبیر بھی نہیں ہے۔
قرآن وسنت کی روشنی میں شیعہ سنی، دیوبندی بریلوی اور حنفی اہلحدیث اس مسئلے کو ایساحل کرسکتے ہیں کہ دعا زہرہ کیلئے بھی آئندہ کی زندگی میں کوئی عار نہ ہو اور قرآن وحدیث کی وضاحتیں بھی مذہبی طبقات اور عوام الناس کے سامنے کھل کر سامنے آجائیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صحیح حدیث میں اس نکاح کو باطل کہا گیا ہے اسلئے کہ والد کی طرف سے اجازت نہیں تھی لیکن باطل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس نکاح کو حرام کاری قرار دیا جائے۔ والد اجازت دے تو پھر یہی نکاح برقرار ہی رہے گا اور والد اجازت نہ دے تو لڑکی اپنے شوہر کے گھر میں یتیم لڑکی سے بھی زیادہ لاوارث کی طرح زندگی گزارے گی اسلئے کہ خاندان کی سپورٹ سے محروم رہے گی اور اس سے بڑھ کر نکاح کا باطل ہونا اور کیا ہوسکتا تھا کہ قرآن نے سسرالی رشتے کو بطور احسان جتلایا ہے اور یہ دشمنی میں بدل جائے؟۔
اگر والدین کی بات دعا زہرہ مان لے تو نکاح کے باطل ہونے کا مطلب بالکل واضح ہے کہ اس نکاح کی شرعی حیثیت ختم ہوجائے گی۔ جس کا نقصان شوہر سے زیادہ عورت کو اسلئے ہوگا کہ طلاق کے مالی حق سے محروم ہوگی۔ شریعت میں طلاق اور خلع میں عورت کا مالی حق ہے۔شیعہ سنی ،دیوبندی بریلوی اور حنفی اہلحدیث نے نہ صرف عورت کو خلع کے حق سے محروم کیا ہے بلکہ عورت کیلئے بہت سارے مسائل بھی کھڑے کردئیے ہیں۔ عورت سے منہ مانگی قیمت وصول کئے بغیر شوہر خلع کیلئے راضی نہ ہو تو عورت کی جان بھی نہیں چھوٹ سکتی ہے۔اگر عورت کو اتنا فائدہ مل جائے کہ والدکی اجازت کے بغیر نکاح باطل قرار دیا جائے تو یہ بھی عورت کیلئے اس وقت بڑی غنیمت ہوگی کہ جب وہ طلاق چاہتی ہو۔
مفتی تقی عثمانی کے والد مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع مولانا اشرف علی تھانوی کے طفل مکتب تھے۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب ”حیلہ ناجزہ” میں لکھا ہے کہ ” اگر شوہر نے بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیں اور پھر مکر گیا تو اس کے بعد عورت کو اپنی جان چھڑانے کیلئے دو عادل گواہ لانے پڑیںگے۔ اگر اس کے پاس دو گواہ نہ ہوئے اور شوہر نے جھوٹی قسم کھالی کہ اس نے طلاق نہیں دی ہے تو عورت خلع لے، اگر شوہر خلع نہ دے تو پھر عورت حرام کاری پر مجبور ہوگی”۔
یہ شریعت اور اسلام نہیں بلکہ پرلے درجے کی بے غیرتی ہے لیکن پختون قوم اس بے غیرتی کو اسلئے قبول کرنے پر مجبور ہوںگے کہ اپنی بہن و بیٹی کو بڑی رقم کے بدلے بیچ دیتے تھے۔ پنجابی جہیز دیتے ہیں۔ عرب وعجم میں جہیز و حق مہر کے نام پر عورت کو مسلنے کی رسم نے شریعت کی حقیقت کو بالکل غیرمؤثر بنادیا تھا۔ قرآن وسنت میں حق مہر برائے نام نہیں بلکہ استطاعت کے مطابق اچھا خاصہ ہے۔ عورت کو خلع کا اختیار اور مالی حقوق ہیں۔خلع سے زیادہ عورت کو طلاق میں مالی حقوق حاصل ہیں۔ عورت طلاق کا دعویٰ کرتی ہو تو اس کو مالی حقوق زیادہ ملتے ہیں اسلئے شوہر کے انکارکی صورت میں مالی حقوق حاصل کرنے کیلئے دوگواہ پیش کرنے ہونگے۔ فقہاء نے طلاق سے رجوع میں عورت کی صلح کا اختیارچھین لیا تو عورت کو اندھیر نگری میں دھکیل دیا۔جس طرح مغرب نے یہود ونصاریٰ کے دین سے اپنا معاشرہ جمہور کے ذریعے چھڑا دیا ہے اسی طرح سے مسلمانوں کی اکثریت بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔ہم سادات کاکام شریعت کو تحفظ دینا ہے۔
قرآن میں جس طرح طلاق شدہ وبیوہ ، غلام اور لونڈی کا نکاح کرانے کی تلقین ہے ،اسی طرح کنواری لڑکیوں کے نکاح کا مشکل مسئلہ بھی حل کردیا ہے۔ فرمایا کہ ولاتکرھوا فتےٰتکم علی البغاء ان اردن تحصنًا ” اور اپنی لڑکیوں کوبغاوت پر مجبور مت کرو،جب وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں”۔ جب لڑکی کسی کے عشق میں مبتلاء ہوجائے تو والدین کو چاہیے کہ اس کو بغاوت پر مجبور نہیں کریں بلکہ نکاح کی اجازت دیں۔ عربی میں بغاء کے معنی بغاوت اور بدکاری ہے۔ کھل کر اعلانیہ نکاح کرنا بغاوت ہے اور چھپی یاری کرنا بدکاری ہے اور دونوں صورتوں سے بچنے کیلئے والدین کو اپنا فرض پورا کرنا چاہیے۔ بچیوں کی ایسی جگہ بھی نکاح کی خواہش ہوسکتی ہے کہ والدین اس کو اپنے خاندانی وجاہت کے خلاف سمجھتے ہوں۔ اللہ نے فرمایا کہ اپنے خاندانی وجاہت کی وجہ سے اپنی بچیوں کی عزت کو داؤ پر نہ لگاؤ۔ حدیث میں واضح ہے کہ اگر لڑکی کا نکاح والدین نے اس کی اجازت کے بغیر کردیا تو اس کا نکاح نہیں ہوا۔ عورتوں کو یہ رعایت بھی قرآن نے دی ہے کہ اگر ان کو مجبور کیا گیا تو اللہ ان کو نہیں پکڑے گا۔
ہم نے اپنی کتابوں اور اخبار کے مختلف مضامین میں دلائل سے بھرپور تمام مسائل سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ مسلک حنفی کی مثال ایک موٹر وے ہے جس کو چھوڑ کر حنفی مسلک والے اور دوسرے مسالک والے پگڈنڈیوں میں سرگرداں مختلف وادیوں میں گمراہ شاعروں کی طرح گھوم پھر رہے ہیں۔جس دن حقائق کی طرف سب متوجہ ہوئے تو پھر اسلامی انقلاب کا دھماکہ راتوں رات ہوگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت کے حقوق کا بہترین قرآنی چارٹر

عورت کے حقوق کا بہترین قرآنی چارٹر

1: حق مہر شوہر کے وسعت کے مطابق عورت کی سیکیورٹی ، تحفظ اور انشورنس ہے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں بھی آدھا حق مہر دینا ہوگا۔ ہاتھ لگانے کے بعد گھر کی مالکہ عورت ہوگی۔ شوہر طلاق دے تو شوہر کو گھر سے نکلنا ہوگا۔ اگر عورت خلع لے توعورت کو گھر اوردی ہوئی غیرمنقولہ جائیداد چھوڑنا پڑے گی لیکن حق مہر اور دی ہوئی لے جانے والی چیزیں عورت کا حق ہوگا۔ اولاد بھی مشترکہ ہوگی اور کسی کو نہیں ستایا جائیگا۔
2: طلاق کا اظہار نہ کرنے کی صورت میں عورت4مہینے کی عدت کے بعد فارغ ہوگی۔ جہاں بھی چاہے گی شادی کرسکتی ہے اور طلاق کے اظہار کی صورت میں3حیض وطہر یا تین ماہ اور خلع میں ایک حیض کی عدت ہے۔ عورت جب چاہے ، شوہر کو چھوڑ کر خلع کا حق رکھتی ہے۔ آیت229البقرہ کی تشریح غلط کی گئی ہے اورسورہ النساء آیت19کے مطابق عورت کو نہ صرف خلع کا حق حاصل ہے بلکہ مالی حقوق کا تحفظ بھی ہے۔
3: اسلام میں حلالے کی کوئی سزا نہیں ہے۔ جرم مرد کرے اور سزا عورت کو ملے؟۔ ایسی شرمناک سزا کو اسلام تو بہت دور کی بات ہے ہندو مذہب کی فطرت بھی قبول نہیں کرتی۔ مرد کو پھدو مارنے کی سزا دی جائے تو مرکر بھی قبول نہیں کرے گا تو عورت کو حلالہ کی لعنت سے سزا دینا اسلام نہیں مولوی کی سازش ہے۔
4: عورت کو حق مہر اور جہیز کے نام پر معاشرے میں نیلام کرنے کا راستہ روکا جائے تو کیمرے کی آنکھ کے سامنے اور پیچھے بدکاری کے سارے دھندے ختم ہوجائیںگے۔ پشتون عورت کو ہی پورا پورا حق مہر دے اور پنجابی جہیز لینے کی لعنت کو ختم کردے۔ اسلامی حقوق بحال نہیں کئے گئے تو دہشتگردی کا عذاب آئیگا۔
5: بیوہ اور طلاق شدہ کو نہ صرف نکاح کی اجازت دی جائے بلکہ ایک ایسا ماحول فراہم کیا جائے کہ معاشرے میں کوئی جوان اور ادھیڑ عمر کی ایسی عورت بغیر نکاح کے نہیں رہے جس کو نکاح کی ضرورت ہو۔ اس سے معاشرے پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوںگے۔ اگر کسی بڑے افسر، عزتدار اور سردار کی بیگم کو دوسرے شوہر کی وجہ سے سرکاری مراعات اور عزت پر زد آتی ہو تو پھر ایگریمنٹ کا ماحول قائم کرنا قرآنی حکم ہے۔
6: جس پشتون اور عرب معاشرے میں عورت کا حق مہر بھی باپ کھائے تو اس میں دوسرے حقوق کا کیا تصور قائم ہوسکتا ہے؟۔ عرب میں اسلام نافذ ہوا اور پٹھانوں نے اسلام کیلئے خود کش تک کی قربانیاں دیں لیکن اپنی خواتین کو حقوق نہیں دے سکے۔ عرب کے ہاتھوں اسلام کی نشاة اول ہوئی تھی لیکن یزید کے بعد پھر کربلا، مکہ اور مدینہ میں ظلم کے بازار گرم کئے گئے اور آج تک موروثی نظام سے جان نہیں چھوٹ رہی ہے۔
7: اسلام نے عورت کو مخلوط مسجد، خانہ کعبہ کے طواف، صفا ومروہ کی سعی (دوڑ) اور جہاد میں شامل کرکے دنیا کو سب سے پہلے روشن خیالی کا درس دیا۔ دارارقم کے40افراد میں حضرت ابوبکر کی صاحبزادیاں حضرت اسمائ ، حضرت عائشہ اوردیگرخواتین شامل تھیں۔ مکہ اور مدینہ سمیت دنیا بھر میں خواتین کیلئے گھروں میں رفع حاجت کا کوئی طریقہ نہیں تھابلکہ عورتیں رفع حاجت کیلئے شہر سے باہرجاتی تھیں ۔ہماراکانیگرم جنوبی وزیرستان دنیا کا پہلا شہر ہے جہاںخواتین کیلئے گھروں میں رفع حاجت کا بندوبست تھا۔
8:اسلام میں جمہوری اقتدار ہے۔ نبی ۖ نے اپنا جانشین نامزد نہیں کیا یا نامزد نہیں کرنے دیا گیا۔ حضرت ابوبکر کی خلافت کو عوام کی اکثریت نے قبول کیا ۔ ابوسفیان نے طاقت سے ہٹانا چاہا مگر علی نے اس کو اسلام کے حق میں بہتر نہیں سمجھا۔سنی اور اعتدال پسند شیعہ حضرت علی کے مؤقف پر ہیں اورشدت پسند شیعہ و شدت پسند سنی ابوسفیان ، ذوالخویصرہ اور خوارج کے مؤقف پر کھڑے ہیں۔ نبیۖ نے حضرت فاطمہ کیلئے فدک کے جائیداد سے مسلمانوں میں یہ نصیحت چھوڑ دی ہے کہ بیٹیوں کو باپ اپنی زندگی میں نہ صرف اپنا حصہ دے بلکہ عملی طور پر اس کے سپرد بھی کردے تاکہ بعد میں داماد اور بیٹے جائیداد پر لڑتے نہ پھریں۔
9: علی کیخلاف حضرت عائشہ نے جنگ کی قیادت کی تھی۔ علی کے مقابلے میں یہود، مشرکین ، فارس کے مجوسی اور روم کے یورپی عیسائی نہیں آسکتے تھے تو کون مقابلہ کرسکتا تھا؟۔جب بھی مرد مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں تو عورتیں میدان میں اترتی ہیں۔ حضرت ام عمارہ نے جنگ احد میں دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔ جب خواتین کو ڈاکٹر، سائنسدان، فوجی ٹریننگ اور ہر میدان میں مواقع دئیے جائیںگے تو قوم ترقی کرے گی۔
10:اللہ نے مردوں کے مقابلے میں خواتین میں قدرتی ایسی صفات رکھی ہیں جس سے معاشرے میں توازن پیدا ہوسکتا ہے۔اللہ نے فرمایا: قانتات صالحات حافظات للغیب بما حفظہ اللہ ”خواتین تواضع اختیار کرنے والی ہوتی ہیں۔ فطری طور پر نیک ہوتی ہیں۔ عزت کی حفاظت کرتی ہیں غیب کی حالت میں بھی جو اللہ نے ان میں ودیعت کررکھی ہے”۔ یورپ اور مغرب کے مقابلے میں ہم جنس پرستی کے رحجانات ہمارے ہاں اسلئے زیادہ ہیں کہ مردوں میں حفاظت کا مادہ نہیں ہوتا ہے۔ قرآن میں قوم لوط کی تباہی کا ذکر ہے جو مرد وں کی جنس پرستی کا نتیجہ تھا۔ کسی قوم پر عورت کی جنس پرستی کی وجہ سے عذاب نہیں آیا تھا۔ جاہلیت کے غلط مذہبی رسوم کو اسلام نے ختم کیاتھا ،انبیاء کرام مذہب کے غلط رسوم کی اصلاح کیلئے آئے تھے۔

نوٹ: اس آرٹیکل کو مکمل پڑھنے کیلئے متصل عنوانات والے آرٹیکل
” مرد وں کاعورتوں پر درجے کا مطلب؟” اور
” معاشرے میں گرد آلودہ مذہبی فضائیں!” ضرور پڑھیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

معاشرے میں گرد آلودہ مذہبی فضائیں!

معاشرے میں گرد آلودہ مذہبی فضائیں!

ہمارا معاشرتی، ریاستی ، حکومتی، سیاسی ، عدالتی ، انتظامی اور معروضی نظام زندگی ایسا ہے کہ اسلام کی بات مشکل سے سمجھ میں آسکتی ہے لیکن مغرب اور یورپ کو اسلام کی بات زیادہ اچھی طرح سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ چونکہ مغرب اور یورپ ہمارے وحشیانہ نظام کی وجہ سے اسلام سے متنفر ہیں اسلئے مسلمانوں کو ہی اسلامی نظام کے حقائق پہلے سمجھانے پڑیںگے۔ جس دن مسلمانوںکی سمجھ میں اسلام آیا تو اس پر عمل کرنا بھی بالکل مشکل نہیں ہوگا۔ اسلام کو قرآن وسنت سے نکال کر فقہ و روایات کی کتابوں میں تقسیم در تقسیم فرقہ واریت کا شکار بنایا گیاہے۔ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی اور جعفری کے علاوہ بھی کئی مسالک اور فرقے ہیں۔ مسلک حنفی کا میدان روایات نہیں قرآن کریم اور سنت نبوی ۖ تھا۔ قرآن میںہے کہ ” گدھے، گھوڑے اور خچر سواری اور زینت کیلئے ہیں”۔ نبی کریم ۖ کے ماحول میں گدھے اور گھوڑے کھانے کیلئے نہیں بلکہ سواری کیلئے ہوتے تھے۔ نمازمیں رفع یدین بھی روایات نہیں ماحول امام ابوحنیفہ کے مسلک کی دلیل تھا۔ برصغیر پاک وہند میں قرآن وسنت کا ماحول ہے۔گھوڑے ، گدھے کو کھایا نہیں جاتا ۔ سواری ، مال برداری اور زینت کیلئے رکھا جاتا ہے۔ انکے گوشت کو کھانے کیلئے حرام وحلال کی بحث کرنا قرآن وسنت کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ جب نبیۖ کے پاس گوہ نما جانور کا گوشت پیش کیا گیا تو نبیۖ نے فرمایا کہ” ہم یہ نہیں کھاتے مگر حلال یا حرام نہیں قرار دیتے”۔ فرقہ واریت اور مسلکانہ چپقلش نے نکاح،طلاق ، رجوع اور خلع میں انواع واقسام کے خود ساختہ حلال وحرام کے مسائل سے انبار لگادئیے ہیں کہ آسمان کے فرشتے بھی الحفیظ والامان کی صدا لگاتے ہیں۔
نکاح شرعی عقد ہے جسکے بعد معاہدے کو بچانے کیلئے اللہ نے فرائض و حقوق ٹھہرائے ہیں۔ طلاق کے بعدعدت میں باہمی صلح ومعروف رجوع،عدت کی تکمیل پر باہمی صلح ومعروف رجوع اور عدت مکمل ہونے کے عرصہ بعد اللہ نے رجوع کاحق واضح آیات میں بیان کیا ہے۔ جو تعلیم یافتہ ، جاہل سب کو یکساں سمجھ میں آسکتی ہیں۔ مرد کو اللہ نے طلاق اور عورت کو خلع کا حق دیاہے۔ پڑھے لکھے ڈنگروں، دانشور خچروں اور مولوی گدھوں کویہ پتہ نہیں کہ اللہ نے کونسی آیت میں عورت کو خلع کا حق دیا ہے؟۔ مذہبی طبقہ یہ بات سمجھنے کی کوشش نہیںکرتا کہ سورۂ النساء آیت19میں خلع کا حق ہے اورسورۂ النساء آیت20اور21میں طلاق کا حق ہے۔ خلع و طلاق میں عورت کو مالی تحفظ ہے ۔آیت229البقرہ میں خلع مراد نہیں ہوسکتا ہے۔ دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری طلاق فامساک بمعروف اوتسریح باحسان ( معروف طریقے سے رکھ لو یا احسان کیساتھ چھوڑدو) احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہی تیسری مرتبہ طلاق ہے۔عربی قاعدہ اور حنفی مسلک میں ”ف” کے حرف کی وجہ سے دومرتبہ طلاق کا تعلق اس متصل طلاق سے ہے۔ نبیۖ سے صحابہ نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ تسریح باحسان آیت229تیسری طلاق ہے۔
آیت229البقرہ میں تین مرتبہ طلاق کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کیا ہے کہ ” ان طلاق شدہ عورتوں کو جو کچھ بھی دیاہے ،ان سے کچھ بھی واپس مت لو مگر یہ کہ دونوں کوخوف ہو کہ اس چیز کو واپس کئے بغیر دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیںگے۔ پھر (اے فیصلہ کرنے والو!) اگر تمہیں خوف ہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیںگے تو عورت کی طرف سے وہ چیز فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں ان سے تجاوزمت کرو۔ جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہ لوگ ظالم ہیں”۔(آیت229البقرہ )
قرآن وحدیث میں تین مرتبہ طلاق اور اس تیسری مرتبہ کے بعدحلالے کا کوئی تصور نہیں ۔ سورہ ٔالطلاق میں بھی تین مرتبہ مرحلہ وار طلاقوں کے بعد دوسری آیت میں پھر عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع کی اجازت ہے۔ قرآن میں بار بار صلح واصلاح ، معروف اور باہمی رضامندی کی بنیاد پر طلاق کے بعد رجوع کی اجازت ہے ۔حضرت عمراور حضرت علی میں طلاق اور حلالہ کے مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں تھا۔ جب عورت رجوع کیلئے راضی ہوتی تھی تو رجوع کرنا حلال ہوتا تھا اور جب عورت رجوع کیلئے راضی نہیں ہوتی تھی تو رجوع کرنا حلال نہیں ہوتا تھا۔ جس دن حلالہ کی بے غیرتی اور عورت کے حقوق سلب کرنے کا معاملہ ٹھیک ہوگیا توپشتونوں، پاکستانیوں ،افغانیوں اور دنیا بھر میں اسلامی انقلاب کے آغاز میں بالکل دیر نہیں لگے گی۔
جاویداحمد غامدی اور مولانا مودودی نے بھی اس آیت سے خلع مراد لیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں طلاق کے بعد عورت کو مالی تحفظ دیا ہے کہ اسے شوہر نے جو کچھ بھی دیا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس لینا تمہارے لئے حلال نہیں۔البتہ دوشرائط کیساتھ بالکل محدود چیز واپس لینا حلال قرار دیا۔ پہلی شرط یہ ہے کہ دونوں کو یہ خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں۔ یعنی طلاق کے بعد وہ رابطے کا ذریعہ بنے اور دونوں کے ناجائز جنسی تعلقات کا خطرہ ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والے بھی یہ خطرہ محسوس کرتے ہوں کہ ان دونوں کا اس کی وجہ سے رابطہ ہوگا اور وہ ناجائزجنسی تعلق میں پڑیں گے۔ایسی صورت میں شوہر کی طرف سے وہ دی ہوئی چیز فیصلہ کن طلاق کے بعد بھی واپس کرنا حلال ہوگا۔

نوٹ: اس آرٹیکل کو مکمل پڑھنے کیلئے متصل عنوانات والے آرٹیکل
” مرد وں کاعورتوں پر درجے کا مطلب؟” اور
”عورت کے حقوق کا بہترین قرآنی چارٹر” ضرور پڑھیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مرد وں کاعورتوں پر درجے کا مطلب؟

مرد وں کاعورتوں پر درجے کا مطلب؟

بنیادی بات یہ ہے کہ قانون کا مقصد کمزور کو تحفظ دینا ہوتا ہے۔ طاقتور اپنا حق کمزور سے زبردستی حاصل کرسکتا ہے۔ انسانی تہذیب وتمدن کی ترقی وعروج میں کمزوروں کو پورا انصاف ملے گا۔ نوازشریف اور عمران خان دونوں کا تعلق پنجابی اسٹیبلیشمنٹ سے ہے۔ نواز شریف اشتہاری مفرور مجرم ہونے کے باوجود لندن میں ڈپلومیٹک پاسپورٹ حاصل کرچکا ہے اور عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے لیکن اپنی مرضی کیFIRدرج نہ ہونے کی شکایت کررہاہے۔ اس کو پختون، بلوچ ،سندھی اور مہاجر پنجاب کا پنجۂ استبداد سمجھ رہے ہیں۔
اسلام میں طاقتور نہیں کمزور کو تحفظ ملتاہے ۔ ملت ابراہیمی کو یہ بتایا ہے کہ جب نمرود نے حضرت ابراہیم کو آگ میں پھینک دیا تو اللہ نے آگ سے کہا : یا نار کونی بردًا وسلامًا علی ابراہیم ” اے آگ ہوجاؤ ٹھندی اور سلامتی والی ابراہیم پر”۔ وزیرستان کی نامورشخصیت ڈاکٹر سیدعالم محسود نے پشتومیں تفصیل سے بات کی کہ ”پاکستان سودی گردی قرضوں میں پھنسا ہوا ہے اور اس سے نکلنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اسلام اور پختونوں کو بیچ کر دوبارہ امریکہ کی جنگ مسلط ہو۔ افغانستان میں اصل اقتدار پنجابی طالبان، لشکر طیبہ، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اور آئی ایس آئی کی پیداوار کا ہے۔ ایک منصوبے کے تحتTTPکو اسلحہ سمیت پختونخواہ میں لایا گیا۔ ان کیساتھ جنرل فیض نے وعدہ کیا کہ اسلحہ تمہارے پاس ہوگااور قبائلی علاقہ تمہارے سپرد ہوگا۔ سوات سے چمن تک پشتون قوم کو متحد ہوکر ایک بات کرنی ہوگی کہ ہمیں امن چاہیے۔ باقی یہ ایک دوسرے کو ماریںتو یہ جانے اور ان کا کام جانے۔ اور امریکہ ، پنجاب کی اسٹیبلیشمنٹ اور انکے پروردہ ہمیں آگ میں پھر دھکیل رہے ہیں”۔پاکستان میں مدارس اور مساجد میں90فیصد پختون اور10فیصد دوسری قوم کے ہیں۔
سلیم صافی سے مولانا فضل الرحمن نے کہا :”میں بندوق اٹھانے کے حق میں نہیںلیکن جب سن1973سے جمہوری بنیاد پر اسلام کا راستہ روکا جائے گا تو لوگ بندوق اٹھانے پر مجبور اور حق بجانب ہوں گے”۔
سب سے زیادہ اسلام کے علمبردار پختون اور سب سے زیادہ محکوم اور مظلوم بھی پختون خواتین ہیں۔ بلاشبہ اللہ نے قرآن میں فرمایا : الرجال قواموں علی النساء ”مردوں کو عورتوں پر محافظ بنایا گیا ہے”۔ پاکستان کی محافظ پاک فوج ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ قوم کے محافظ کا مطلب یہ ہے کہ سیاست، عدالت، معاشرت، معیشت، عبادت اور ہر چیز میں اس کو قانون سے بھی بالادستی حاصل ہے یا پھر اس کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں؟۔ اسلام نے طاقتور کے فرائض زیادہ رکھے ہیں لیکن حقوق میں برابری رکھی ہے بلکہ طاقتور کے مقابلے میں کمزور کو زیادہ حقوق دئیے ہیں۔ پاکستان میں پروفیسر احمد رفیق اختر اسٹیبلیشمنٹ کے بھی استاد اور پیر ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں خواتین ورکر کی تعداد بہت ہی کم ہے، جب تک وہ گھریلو ذمہ داریوں کو ادا کرے گی اور مرد حضرات کمائی کا فرض ادا کریںگے تو ان کی یہی محکوم حیثیت رہے گی اور جب عورتوں کی اس حوالے سے تعداد بڑھ جائے گی تو پھر برابری حاصل ہوگی ۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ ہندوستان سے پاکستان نے جس بنیاد پر علیحدگی اختیار کی تھی کہ اکثریت میں حقوق نہیں مل سکیںگے تو60فیصد پنجاب کے مقابلے میں باقی تین صوبوں کو بھی اقلیت میں کبھی حقوق نہیں ملیںگے۔ پھر تو قوم پرستی اور جہادیوں کیلئے اس ظلم واستبداد کے خلاف کھڑے ہوئے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں بنتا ہے؟۔
جب تک اسلام کی درست تصویر نہیں پیش کی جائے گی تو پاکستان کو جنگ وفساد، ناانصافی اور ظلم وجبر کے نظام سے نکالنا کسی پروفیسر، پیرطریقت، مولوی، سیاستدان، حکمران اور دانشور کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام طاقتور کو نہیں کمزور کو تحفظ دیتا ہے اور ظالم کی نہیں مظلوم کی حمایت کرتا ہے۔ عورت دورِ جاہلیت میں بھی کمزور اور مظلوم تھی اور آج بھی کمزور اور مظلوم ہے۔ ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ بات سنتا نہیں ہے، سنی جائے تو سمجھنے کی کوشش نہیں ہوتی اور سمجھ لی جائے تو اس پر عمل کی ہمت نہیں ہوتی ہے۔ نبیۖ نے جو انقلاب برپا کیا تھا ،اس کیلئے صحابہ کرام کی ایسی جماعت پیدا کرلی کہ وہ سنتے بھی تھے، سمجھتے بھی تھے اور عمل بھی کرتے تھے۔ قرآن کی آیات تلاوت ہوتی تھیں تو ان کو ترجمہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں تھی وہ کھلی ہوئی اپنی مادری عربی زبان کوخوب سمجھتے تھے۔ نبی کریم ۖ ان کا تزکیہ فرماتے تھے۔ ان کو کتاب کے احکام کی تعلیم دیتے تھے اور انہیں سیاست کی حکمتِ عملی بھی سکھاتے تھے۔ سورۂ جمعہ میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے کہ جو اس عمل کے ذریعے سے پہلوں سے مل جائیںگے۔سورۂ واقعہ اور سورۂ محمد میں بھی ان کا ذکر ہے کہ صحابہ کرام کے مقابلے میں وہ بہت قلیل ہوں گے اور عرب کے بجائے وہ بالکل عجم ہوں گے۔
پختون عالم نے کہا کہ ”پٹھانوں میں خارش ہے، پنجابی آرام سے بیٹھے ہیں اُدھر دھماکے نہیں ہوتے”۔ مفتی نور ولی محسود نے کہا کہ ”جن علماء اور دانشوروں کا مؤقف تھا کہ جہاد ٹھیک تھا دلائل سے سمجھائیں کہ کس طرح بندوق رکھیں؟”۔
1: اسلام کے معاشرتی حقوق اور نظام کو پہلے نافذ کرنا ہوگا۔
2: خود محفوظ جگہ پر بیٹھ کر مخلص لوگوں کو مروانا اسلام نہیں۔
3: امریکہ وپاکستان اور افغانستان میں تمہاری وجہ سے ہی جنگ ہوگی۔

نوٹ: اس آرٹیکل کو مکمل پڑھنے کیلئے متصل عنوانات والے آرٹیکل
” معاشرے میں گرد آلودہ مذہبی فضائیں!” اور
”عورت کے حقوق کا بہترین قرآنی چارٹر” ضرور پڑھیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ا بن مبارک کے درس میں40ہزار طلبہ شریک ہوتے مگرفقہ حنفی میں انکے نام کاذکر نہیں؟

ا بن مبارک کے درس میں40ہزار طلبہ شریک ہوتے مگرفقہ حنفی میں انکے نام کاذکر نہیں؟

شاگردامام ابوحنیفہ، فقیہ العصر ،محدث اعظم، صوفی باصفا، مجاہدکبیرحضرت عبداللہ بن مبارک
علماء حق کی اصل ذمہ داری صرف اسلام کا تحفظ ہے

آج عوامی سطح پر علماء و مفتیان مجبور ہیں کہ عبد اللہ ابن مبارک کے مطابق قرآن کی حفاظت کا عقیدہ لوگوں کو بتائیں۔ درباری علماء نے درسِ نظامی میں جو عقیدہ شامل کیا وہ چھپایا جارہا ہے۔

مولانا عبیداللہ سندھی نے قرآن اوراصل مسلک حنفی کا معاملہ اُٹھایا تو انگریز نے دارالعلوم دیوبند سے نکلوادیا ، مولانا انورشاہ کشمیری نے بعد میں معافی مانگی مگر نصاب درست نہیں ہوسکا

وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ماشاء اللہ قرآن کے تحفظ کی بات کی ہے تو مدارس کے نصاب میں قرآن کے علاوہ آیات اور بسم اللہ میں شبہ کی تعلیم کا نوٹس لیکر تحریف قرآن کا سلسلہ ختم کیا جائے

عام مسلمان امام ابوحنیفہاور عبداللہ بن مبارک کے عقیدے پر ہیں۔ منبر و محراب پر علماء یہ تعلیم دیتے ہیں کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا اور اس میں تحریف ، شک وشبہ کا عقیدہ کفر ہے ۔1980کی دہائی میںمولانا محمد منظور نعمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی نے شیعہ پر کافر کا فتویٰ لگایا تھا۔ جس کی تائید پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان کے مدارس اور علماء ومفتیان نے کی مگر مفتی محمد تقی عثمانی اور دارالعلوم کراچی نے تائید اسلئے نہ کی کہ وہ جانتے تھے کہ”گدھوں کو پتہ نہیں کہ شیعہ کتب میں تحریف قرآن ہے تو سنی میں بھی ہے”۔ پھر مولانا سلیم اللہ خان ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر علماء نے شیعوں پر کفر کے فتوے سے رجوع کرلیا۔کیا درسِ نظامی میں تحریف قرآن کا عقیدہ ہے ؟۔ عبداللہ بن مبارک ، مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ وہ حنفی علماء تھے جنہوں نے عوام کا عقیدہ ٹھیک کیا۔ درباری علماء کا عقیدہ کتے کی دُم ہے جو ٹھیک ہونے کیلئے تیار نہیں۔مفتی تقی عثمانی پہلے درباری تھا ۔ اب جامعة الرشید کا مفتی عبدالرحیم نمبر لے گیا ۔ مفتی محمود اور جمعیت علماء اسلام پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ حاجی محمد عثمان کے خلاف سازش کی۔ پہلے شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کی لین دین کو سود اور اسکے کم ازکم گناہ کو اپنی سگی ماں سے زنا کے برابر قرار دیا پھر عالمی سودی بینکاری کو بھی اسلامی قرار دیا۔ ریاست کی پشت پناہی سے سودی نظام مدارس کے نصاب کا حصہ بن جائیگا۔ علمائِ حق نے مخالفت کی تھی لیکن ان کی اولاد یہ نصاب پڑھائیں گے۔تاریخ میں ہمیشہ یہ دھندہ چلتا رہا اور نصاب گندا رہا۔ جب کور کمانڈروں ، لیفٹینٹ جنرلوں اور برگیڈئیروں کی تعداد کم ہوتی تھی تو جنرل ضیاء الدین خواجہ ، کورکمانڈر جنرل نصیر اختر ،8برگڈئیرحاجی عثمان سے بیعت تھے۔ مفتی تقی و مفتی رفیع عثمانی کے استاذ مولانا عبدالحق، استاذ جامعہ بنوری ٹاؤن مولانا فضل محمداور بڑی تعداد میں مدارس کے فضلائ،مدرسین اورمساجد کے ائمہ بیعت تھے۔ مدینہ منورہ کے عرب سرکاری آفیسر اورشام کے عربی بھی بیعت تھے۔ شیخ الحدیث مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید وغیرہ تو فتوے کے بعد بیعت ہوئے تھے۔
الائنس موٹرز کا پیسہ لگانے والوں سے یہ معاہدہ تھا کہ ”رقم واپس لینے کیلئے ایک ماہ پہلے اطلاع دینی ہوگی اور اس اطلاعی مدت کا منافع نہیں ملے گا”۔ پھر مفتی عبدالرحیم نے الائنس موٹرز کے کہنے پر پہلے اس اطلاعی مدت کو 3ماہ تک اور پھر بعد میں6ماہ تک بڑھانے کا شرعی فتویٰ لکھ دیا۔ مفتی رشیداحمد لدھیانوی کی اجازت سے اس کی طرف سے الجواب صحیح کے دستخط بھی خود کردئیے تھے۔
کیا فریقین کا معاہدہ یکطرفہ فتویٰ سے بڑھایا جاسکتا ہے؟۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پہلے سودی کٹوتی کو زکوٰة قرار دیا اور پھر عالمی سودی بینکاری کو اسلامی قرار دیا۔ علامہ زاہدالراشدی نے کہا کہ ” مدارس کے علماء کے پاس جدید تعلیم یافتہ طبقے کو سمجھانے کا اسلوب نہیں۔ سود کے حوالہ سے قرآنی آیات، احادیث اور فقہ کی کتابوں کا حوالہ دیںگے تو بات سمجھ میں نہیں آئے گی۔ قرآنی آیت میں نفع کے مقابلے میں زیادہ نقصان کا ذکر ہے۔ جدید طبقے نے سودی نظام کے نقصانات کا ذکر کیا ہے تو وہ بتانا شروع کردیں۔ سود کی شرح کو کم ازرکھیں۔کتنا کم رکھیں؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ زیرو فیصد رکھیں”۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ”حرمت سود کانفرنس” کراچی میں شرکت کی تو اس نے بتایا کہ جب اسلامی بینک میں شرح سود عام بینکوں سے بھی 2فیصد زیادہ ہے تو کون ان بینکوں میں آئے گا؟۔ آپ اس کو کامیاب کرنا چاہتے ہیں یا ناکام؟”۔ وفاق المدارس کے سابق صدور مولانا سلیم اللہ خان اور ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر سمیت ملک بھر کے علماء ومفتیان نے سودی بینکاری کیخلاف فتوے دئیے تھے لیکن حرمت سود کانفرس کے نام پر ”حلت سود کانفرنس” میں بڑے مدارس کے نمائندوں اور صاحبزادوں کی شرکت نے بھی مفتی محمدتقی عثمانی اورمولانا فضل الرحمن کا حوصلہ نہیں بڑھایا اسلئے کہ ہمارا دنبے کے کپوروں کی تصویر کیساتھ ”کٹاکٹ بنے گا یا دودھ نکلے گا” کا اخبار پہلے شائع ہوچکا تھا اورسود کانفرنس کے ہال میں بھی پہنچ چکا تھا۔
جامعة الرشید اور پنچ پیر والوں کا الگ وفاق بن چکاہے۔ آنے والے وقت میں سارے مدارس کو اسی طرزمیں بدل دیا جائیگا۔ امریکہ واسرائیل نے پہلے جو جہادی تنظیمیں بنائی تھیں جن کے ذریعے روس کے خلاف جہاد ہوا لیکن کشمیر اور فلسطین کیلئے کچھ نہیں ہوا۔ ضرب مؤمن کراچی نے اس کو سپورٹ کیا اور اب یہ شکل تبدیل ہوچکی ہے اور امریکہ نے جامعة الرشید کی شکل میں اسلامی اقتصادی نظام کوتبدیل کرنا شروع کردیا ہے اور مدارس بھی بدلیںگے۔ مدارس کو تجارت اورمذہبی سیاسی جماعتوں کو دین کے تحفظ سے نہیں بلکہ سیاسی قوت حاصل کرنے سے غرض ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے المقام المحمود میں سورة القدر کی تفسیر میں پاکستان اور افغانستان کو قرآن اوراصل مسلک حنفی کی طرف رجوع کی بنیاد قرار دیا ہے اور یہ عبداللہ بن مبارک سے کڑی ملانے کی کوشش تھی۔

__حضرت عبداللہ بن مبارک حنفی __
افغان طالبان دیوبندی ہیں۔ خیبر پختونخواہ، بلوچستان ، پنجاب اور سندھ میں دیوبندی اکابرین کی سند میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، مجدد الف ثانی، عبداللہ بن مبارک، امام ابوحنیفہ ، عبداللہ بن مسعوداور حضرت عمر شامل ہیں۔
عبداللہ بن مبارک کا والد غلام اورباغ کا چوکیدار تھا۔مالک نے اس سے ترش انار مانگا تو میٹھا نکلا۔ مالک نے ناراضگی کا اظہار کیا تو مبارک نے کہا کہ میں چکھتا تو پتہ چلتا کہ کونسا انار ترش ہے۔ مالک نے کہا کہ نہیں چکھا؟۔ مبارک نے کہا کہ ” چوکیداری کیلئے رکھاتھا، ،انار چکھنے کیلئے تو نہیں ”۔ مبارک کا مالک اتنا متأثر ہوا کہ اپنی بیٹی سے شادی کرادی اور خوب مال ودولت سے بھی نواز دیا۔
مبارک ہندو سے مسلمان بنا تھا۔ خراسان ترکمانستان کے شہر مرو سے تعلق تھا۔ بیٹا عبداللہ کنیز کے عشق میں مبتلاء ہوا ۔ ایک رات انتظار کے بعد خیال آیا کہ اللہ کیلئے رات گزارتا تو اچھا ہوتا۔ خواب میں دیکھا کہ چڑیا آیت پڑھ رہی ہے کہ ” کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ لوگوں کے دل اللہ کی طرف متوجہ ہوں”۔ توبہ کی توفیق مل گئی اور والد نے تجارت کیلئے رقم دی لیکن آپ نے علم حاصل کیا۔ والد نے مزید رقم دی کہ علم حاصل کرے۔ پھر والدہ کی طرف سے بہت سارا مال وارثت میںملا اور ایک اچھے تاجر تھے۔ ابوحنیفہ ، مالک اور معروف ائمہ حدیث کے شاگرد تھے اور چار ہزار افراد سے احادیث کی روایات حاصل کیں مگر صرف ایک ہزار اساتذہ کرام کو اس قابل سمجھا کہ ان سے روایات نقل کی جائیں۔
عبداللہ بن مبارک نے فرمایا کہ ” اگر میں امام ابوحنیفہ سے سیکھنے کی توفیق نہ پاتا تو عام لوگوں جیسا ہوتا”۔ آپ کے درس میں40ہزار افراد شریک ہوتے تھے۔آپ کی بہت تصانیف نایاب ہیں۔ درسِ نظامی میں امام ابوحنیفہ اور آپ کے دوسرے شاگردوں کا مسلک ہے ۔ عبداللہ بن مبارک کا مسلک نہیں جو فقیہ، محدث، صوفی اور مجاہد تھے۔ حالانکہ اسماء الرجال میں عبداللہ بن مبارک کے مقام کو کوئی نہیں پہنچتا ۔ بڑے بڑوں نے لکھا ہے کہ ”آپ اور صحابہ کے اندر ایک فرق تھا کہ آپ نے نبی کریم ۖ کی صحبت نہیں اٹھائی تھی”۔ جب فقہاء اور محدثین اور علماء وصوفیاء میں کسی بھی بات پر اختلاف ہوتا تو عبداللہ بن مبارک پر سب اتفاق سے آپ کو فیصل بناتے۔جب عبداللہ بن مبارک نے نمازمیں رفع الیدین کیا تو امام ابوحنیفہ نے کہا: ”میں سمجھ رہا تھا کہ آپ نماز میں اُڑ نہ جائیں۔ جس کے جواب میں عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ ” اگر تکبیر تحریمہ کے وقت آپ رفع الیدین کرتے ہوئے نہیں اُڑے تو رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت میں بھی رفع یدین سے کیسے اُڑ سکتا تھا؟”۔ رفع یدین کی احادیث میں اختلاف ہے۔ اور زیادہ روایات سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ یہ معمول کا حصہ بھی تھا اسلئے کہ خلاف معمول چیز زیادہ روایت کی جاتی ہے۔ جیسے کالی پگڑی کی روایات بھی سب سے زیادہ ہیں لیکن اس سے معمولات کے زیادہ ہونے کی دلیل نہیں بنتی۔
بریلوی دیوبندی علماء شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، مجدد الف ثانی اور عبداللہ مبارک کواپنی سند سمجھتے ہیں۔ حنفی مسلک کے دو مختلف روپ ہیں۔ ایک میں شیخ الاسلام قاضی القضاة امام ابویوسف سے لیکر شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن تک کا ایک درباری سلسلہ ہے اور دوسرا عبداللہ بن مبارک، مجدد الف ثانی ، شاہ ولی اللہ اور اسیرمالٹا شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور کالے پانی کی قید کاٹنے والے مولانا فضل الحق خیر آبادی کے توسط سے مفتی محمد حسام اللہ شریفی اور مفتی خالد حسن مجددی تک موجودہ دور کے علماء حق ہیں۔
جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اساتذہ سے تلمذ اورحاجی محمد عثمان سے طریقت کا شرف ملا۔ امام ابوحنیفہ کے شاگرد نے چیف جسٹس کے عہدے پر تعیناتی اختیار کرکے دربارکا شرف حاصل کیا اور امام ابوحنیفہ جرم کے بغیر جیل میں قید کرکے شہید کردئیے گئے۔ عبداللہ بن مبارک مایہ ناز شاگرد تھے لیکن سکہ رائج الوقت نہ بن سکے ۔ جس طرح امام ابوحنیفہ کے مسلک کو بگاڑنے والے درباری علماء نے ریاست کی مدد سے مدارس پر قبضہ کیا ۔ حاجی محمد عثمان کے خلفاء نے سازش کرکے فتوے سے سولی پر چڑھانے کی کوشش کی اور عبداللہ بن مبارک کی طرح ان کے مشن کو زندہ رکھنے والے عتیق گیلانی کو منظرعام سے غائب کرنے پر مجبور کیا گیااور سازشی ومفاد پرست ٹولہ خانقاہ پر قابض ہوا۔
عبداللہ بن مبارک کے توسل سے علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب ”تاریخ الخلفائ” میں لکھا کہ ” وقت کے خلیفہ کا دل اپنے باپ کی لونڈی پر آیا تو امام ابویوسف نے جواز فراہم کرنے پر معاوضہ مانگا اور پھر باپ کی لونڈی کو بیٹے کیلئے جائز کردیا”۔ یہی باتیں امام غزالی نے لکھ دیں تو ان کی کتابوں کو مصر کے بازاروں میں جلادیا گیا۔ ٹانک شہر میں علماء دیوبند کے سرخیل جمعیت علماء اسلام کے امیرمولانا فتح خان نے جلسۂ عام میں میرے مشن کی تائید میں فرمایا کہ ”امام غزالی کی کتابوں کو جلانے والے علماء کو آج کوئی نہیں جانتا مگر غزالی کو دنیا جانتی ہے”۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نے فرمایاکہ ” جس طرح امام مالک کے خلاف فتوے لگانے والے علماء کو آج کوئی نہیں جانتا ،اسی طرح وہ وقت آئیگا کہ تاریخ حاجی محمد عثمانکے نام سے واقف ہوگی لیکن ان پر فتوے لگانے والے تاریخ میں نہیں ہوںگے”۔ ہمارافرض بنتاہے کہ امام ابوحنیفہ کے درست مسلک کو عبداللہ بن مبارک کی طرح عام کریں۔ لوگوں نے قرآن واحادیث کے ترجمے اور تشریح کی طرح اپنے اپنے مسالک میں بہت زیادہ بگاڑ پیدا کیا اور اس کو درست کرنا ہوگا۔صحیح عقیدہ یہی ہے کہ قرآن محفوظ ہے لیکن درس نظامی میں امام ابوحنیفہ سے متعلق غلط عقیدہ پڑھایا جاتاہے کہ قرآن محفوظ نہیں ہے۔
اصولِ فقہ ہم نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذالاساتذہ مولانا بدیع الزمان سے پڑھی۔ کتاب میں قرآنی آیت کے مقابلے میں صحیح حدیث کو مسترد کیا گیا ہے کہ” حتی تنکح زوجًا غیرہ (یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرے) میں عورت خود مختار ہے اور حدیث ( جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے) خبر واحد ہے اسلئے ناقابل عمل ہے”۔ میں نے مولانا بدیع الزمان سے عرض کیا کہ ” حنفی مسلک میں قرآن وحدیث کی تطبیق کی جائے گی۔ جبکہ یہاں قرآنی آیت میں طلاق شدہ مراد ہے اور حدیث سے کنواری مراد لی جائے”۔ استاذ کو بات بہت اچھی لگی اور میری حوصلہ افزائی فرمائی کہ” اس میں بڑا وزن ہے، جب آئندہ کتابوں کا علم حاصل کرو تو کسی نتیجہ پر پہنچ جاؤگے”۔
اس نکتے پر نہ صرف اصل حنفی مسلک کو سمجھا بلکہ قرآن وسنت کی روشنی میں راہِ حق ایسا دکھائی دیا کہ تمام فرقوں کو مسلکِ حق قبول کرنا پڑے گا۔ دعا زہرہ ایک شیعہ لڑکی کا ایک سنی لڑکے سے مسلک حنفی کے عین مطابق نکاح اور قرآن و احادیث سے مسئلے کا حل بہت بڑا چیلنج ہے۔ کیا یہ نکاح جائز یا حرام کاری ہے؟۔ قرآن وحدیث اور مسلک حنفی کی روشنی میں ہم نے شیعہ ، حنفی، اہلحدیث اور جماعت اسلامی سب کیلئے قابل قبول حل پیش کردیا۔ اس طرح تین طلاق سے حلالہ کے بغیر رجوع کا معاملہ بھی سب کیلئے قابلِ قبول حل پیش کردیا لیکن سفید پوش علماء ومفتیان نے بگلوں کی طرح آنکھیں بند کرکے مینڈکوں سے نہیں عوام کی عزتوں سے کھیلنے کا سلسلہ جاری رکھا ہواہے جو قرآن کا بالکل مذاق ہے۔
حضرت عمرنے نبیۖ کے سامنے حدیث قرطاس کا منع کیا کہ ہمارے لئے قرآن کافی ہے۔ قرآن کے مقابلے میں خبرواحد کی تو دور کی بات متواتر حدیث کی بھی صرف امام ابوحنیفہ ہی نہیں بلکہ کسی امام کے نزدیک کوئی حیثیت نہیںتھی ۔

__اصل مسلک حنفی کیا تھا کیابنادیا؟__
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے کہاتھا جو ضرب مؤمن و ضربِ حق میں شائع ہوا کہ ” صرف15فیصد امام ابوحنیفہ اور باقی85فیصد انکے شاگردوں کا مسلک فقہ حنفی ہے”۔ مسلک حنفی یہ ہے کہ ” قرآن کے مقابلے میں اگر صحیح حدیث آئے تو قابلِ قبول نہیں ”۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم قاری محمد طیب نے اپنی کتاب ” تقلید کی شرعی حیثیت ” میں لکھا کہ ” مسلک حنفی میں تطبیق ممکن ہو تو ضعیف حدیث کو رد نہیں کیا جائیگا”۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ ” حدیث صحیح ہو تو وہی میرا مذہب ہے”۔ عبداللہ بن مبارک نے چارہزار راویوں میں ایک ہزار کو مستند سمجھا تویہ امام ابوحنیفہ کے مسلک کی تفسیر تھی۔ ا بویوسف نے باپ کی لونڈی کو بادشاہ کیلئے جائز قرار دیا تویہ امام ابوحنیفہ سے انحراف تھا۔مجد د الف ثانی اور اکبربادشاہ کے درباری علماء میں سجدۂ تعظیمی اور دین الٰہی کا اختلاف تھا۔ فتاویٰ عالمگیریہ میں بادشاہ کیلئے قتل، زنا، چوری اور ڈکیتی پر شرعی حد نافذ نہ کرنے کا فتویٰ500درباری علماء نے دیا تھا جن کیخلاف شاہ ولی اللہ نے فک النظام ”نظام کی کایا پلٹ دو” کا نعرہ بلند کیا۔ حالانکہ ان کاوالد شامل تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے ریفرینڈم کو اسلام قرار دینے والے مدارس، علماء اور جماعت اسلامی نے درباری کا کردار ادا کیا لیکن مولانا فضل الرحمن اور حاجی محمد عثمان نے علماء حق کا کردار ادا کیا تھا۔ سود ی زکوٰة کیلئے فتویٰ دینے والے مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی نے علماء سو ء اور مولانا مفتی محمود اور مولانا شاہ احمد نورانی نے علماء حق کا کردار ادا کیاتھا۔ مولانا فضل الرحمن بھی علماء حق کا کردار ادا کررہے تھے۔ سودی بینکاری پر مفتی محمد تقی عثمانی نے علماء سوء کا کردار ادا کیا اور مولانا سلیم اللہ خان ، مفتی زرولی خان، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ، مولانا عبدالمجید دین پوری شہید اور سارے علماء دیوبند نے علماء حق کا کردار ادا کیا۔ اب ایک طرف کتب خانوں اور مدارس میں سودی بینکاری کیخلاف متفقہ فتوے کا مواد ہے اور دوسری طرف اکابر اوراپنے باپ سے انحراف کرنے والے سود کی بینکاری کو اسلامی قرار دے رہے ہیں۔ شریعت کسی کے باپ کی مولی نہیں کہ جو معاوضہ لیکر اور ماحول کی زد میں آکر اس کو گٹر کے پانی میں اُگادے اور اس کو حلال بھی قرار دیدے۔
کہتے ہیں کہ لوہے کو لوہا کاٹتاہے۔ امام ابوحنیفہ نے بند باندھ دیا کہ ” قرآن کو احادیث سے مسترد نہیں کیا جاسکتا ” تو یہ راستہ نکالا گیا کہ” قرآن کے مقابلے میں جھوٹی آیات خبر احاد یا مشہور ہوں تویہ شریعت ہیں”۔ یہ بہت بڑی گھناؤنی بات تھی۔ امام محمد پہلے سے امیرزادے تھے اسلئے مذہب کو کاروبار نہیں بنایا اور امام شافعی جیسا شاگرد پیدا کیا جس نے قرآن کے مقابلے میں جعلی آیات کو کفر و نفاق قرار دیا۔قرآن پرامام شافعی اورامام ابوحنیفہ کا عقیدہ ایک ہی تھا۔
امام ابوحنیفہ، عبداللہ بن مبارک ،امام شافعی اور علمائِ حق کا عقیدہ مساجد کے منبروں پر سکھایا جاتا ہے کہ ”قرآن محفوظ ہے جس میں کمی بیشی نہیں ۔ ایک حرف اور حرکت کا اس میں ردوبدل ممکن نہیں اور نہ اس کے علاوہ کوئی آیات ہیں”۔ درسِ نظامی میں یہ کفریہ عقیدہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کے مسلک میں ”قرآن کے مقابلے میں خبر واحد کی حدیث معتبر نہیں مگر خبر واحد کی آیت معتبر ہے”۔بڑا علمی مقام رکھنے والے علامہ مناظراحسن گیلانی نے ”تدوین القرآن” کتاب لکھ کر ان خرافات سے قرآن کو تحفظ دیا جس کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے بھی شائع کردیا ۔ عبداللہ بن مسعود پر بہتان ہے کہ ان کا الگ مصحف موجودہ قرآن سے مختلف تھا ، جس میں سورۂ فاتحہ اور آخری دو سورتیں شامل نہیں اور متعہ کے حوالہ سے یہ اضافہ تھا کہ ” الی اجل مسمٰی” (مقررہ مدت تک) کے قرآنی الفاظ انکے مصحف کا حصہ تھے۔ اگر یہ درست ہوتا تو درسِ نظامی میں یہ پڑھایا جاتا کہ مسلک حنفی میں متعہ قرآن کی آیت سے جائز ہے۔ درسِ نظامی میں تو امام مالک کی طرف منسوب ہے کہ” وہ وقتی نکاح (متعہ)کے قائل تھے”۔
مفتی حسام اللہ شریفی کے پاس اورنگزیب بادشاہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن ہے جس میں سورۂ فاتحہ اور آخری پانچ سورتیں نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اورنگزیب بادشاہ کا عقیدہ خراب تھا بلکہ اس نسخے کے کچھ صفحات پھٹ کر ضائع ہوگئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کے مصحف کی بھی اصل بات یہی تھی، جلالین کی طرح تفسیر بیچ میں لکھ دی تو اس کو نالائقوں نے الگ مصحف بنادیا ۔ علماء حق کو چاہیے کہ خرافات کو درسِ نظامی سے نکال باہر کرنے پر متفق ہوجائیں۔ حرمت سود کانفرنس کی طرح خرچہ دیکر ہم تمام مکاتبِ فکر کے علماء ومفتیان کو اکٹھا نہیں کرسکتے ہیں لیکن اگر دینی غیرت اور حمیت کوئی چیز ہوتو میدان میںاترنا ہوگا۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر یہ کام کرسکتے ہیں ۔ جن سیاسی پارٹیوں اور مذہبی تنظیموںکو جنم دینے کیلئے پاک فوج کوبدنام کیا جاتا ہے ۔ کارِ خیر میں پاک فوج اقدامات اٹھائے تو قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ جس کے اثرات افغانستان، بھارت، سعودی عرب ،ایران اور دنیا کے مسلم و غیر مسلم ممالک پر پڑیںگے اور پھردہشت گرداور ان کے استاذ بھی نئی اور مثبت سوچ پر مجبور ہوں گے۔
پاکستان بننے سے بھی پہلے علامہ سید سلیمان ندوی نے ”معارف اعظم گڑھ” میں مدلل طریقے سے صرف ان تصاویر اور مجسموں کو شریعت اسلامی بلکہ سابقہ شریعتوں میں بھی ناجائز قرار دیا جن کی پوجا کی جاتی تھی۔ ان کے علاوہ مجسموں اور تصاویر کو قرآن واحادیث سے بالکل جائز قرار دیدیا۔ سات فقہاء مدینہ میں دو فقہاء کے عجائب گھر تھے جن میں عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم کی تصاویر اور مجسمے تھے۔ عیسائیوں کیلئے جو تصاویر ومجسمے پوجا پاٹ کا ذریعہ تھے وہ مسلمانوں کیلئے عجائب گھر کی حیثیت رکھتے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی موجودہ دور کی جدید تصاویر کو شرعاًجائز قرار دیا تھا لیکن جاہل مفتی محمد شفیع کو دارالعلوم دیوبند کے اکابر نے جواب کی تلقین کرتے ہوئے لالچ دی کہ ”تمہارا مضمون دیوبند کے ماہنامہ میں شائع کیا جائے گا” تو اس نے کم علمی وکم عقلی کا ریکارڈ قائم کرکے جواب دیا تھا۔جس پر جاہل کے سامنے علماء حق نے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔
پاکستان بننے کے بعدمفتی شفیع اندھوں میں کانا راجہ بن گئے تو جاندار کی تصویر کو ریاست و تجارت کیلئے جائز قرار دیا۔ اگر علامہ سید سلیمان ندوی کی کتاب ”معارف اعظم گڑھ” شائع کردی جاتی تو غلط فتوے سے علماء و عوام کو نجأت مل جاتی۔ اپنی خطاء سے اعلانیہ رجوع شعور میں بڑااضافہ کرتا ہے۔ ظہارکے مسئلے پر نبی کریم ۖ سے ایک عورت نے بحث وتکرار کا حق ادا کردیا تو اللہ نے عورت کے حق میں سورۂ مجادلہ نازل فرمائی۔ اپنی غلطی پر ڈٹ جانا اور اس کو چھپانا نبی کریم ۖ کی وراثت اور جانشینی نہیں بلکہ ڈھیٹ ابلیس کا وظیفہ ہے۔
مولانا فضل الرحمن، مفتی محمد تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن،مولانا اویس نورانی، مفتی محمدانس مدنی ، علامہ ساجدمیر، علامہ شہنشاہ حسین نقوی اور علامہ جواد حسین نقوی کی قیادت میں علماء ومفتیان کی ایک ٹیم تشکیل دی جائے جو چند دنوں میں فقہی مسائل کا قرآن کی روشنی میں متفقہ حل نکال لیں۔ مجھے بھی حاضر خدمت کا موقع دیا جائے تو نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان، ایران اور سعودی عرب کی طرف سے بھی ایک مثبت اسلامی انقلاب کی تائید ہوسکتی ہے جس سے ملک میں جاری دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے میں مدد ملے گی۔ امریکہ اس خطے میں اسلامی سود ی نظام اور دہشت گردی کا قیام چاہتا ہے۔الحاد سے ہمارے ذہین اور جدید تعلیم یافتہ طبقے کے ذہن ودل بہت متأثر ہیں اور اس میں غلطی ان ہٹ دھرم علماء ومفتیان، مدارس ، مذہبی تنظیموںاور سیاسی جماعتوں کی ہے جنہوں نے مذہب کو تجارت اور سیاست طاقت کیلئے آلۂ کار بنایا ہے۔

__دہشت گردی کی نئی لہرکا بڑا آئینہ__
پاکستان و افغانستان کیلئے بڑا مسئلہ دہشت گردی کا تدارک ہے۔ جب تک امن وامان قائم نہیں ہوتا تو سیاسی اور معاشی حالات بہتر نہیں ہوسکتے ہیں۔9/11سے پہلے بینظیر بھٹو کے دور میں جنرل نصیراللہ بابر کے ذریعے ملاعمر کی حکومت قائم ہوئی تو نجیب اللہ شہیدکو لٹکایا گیا اور ناک میں سگریٹ ٹھونسے گئے۔ ملا محمد عمر کی طالبان حکومت کو پاکستان، سعودیہ اور عرب امارات نے تسلیم کیا۔ سیاسی پارٹیوں، مذہبی جماعتوں، صحافیوں ، علماء ومدارس اور عوام الناس کے علاوہ ریاستِ پاکستان کیلئے افغانستان کی تاریخ میں یہ پہلی دوست حکومت تھی۔
داڑھی ، تصویر، عورتوں کے پردہ، نماز میں جبر سمیت موجودہ طالبان کے مقابلے میںسابقہ طالبان کا طرزِ عمل سخت تھا ،اسکے باوجودامیرالمؤمنین ملا عمر اور طالبان سب کی آنکھوں کے تارے، دل کے چاند اور دماغ کے سورج تھے۔ جو چیز انسان اپنے لئے پسند کرے وہ اپنے بھائی کیلئے بھی پسند کرے۔ نصیراللہ بابر، بینظیر بھٹو ، ہماری ریاست نے جو افغانستان کیلئے پسند کیا اپنے لئے پسند کیا؟۔ افغانیوں کو جس دلدل میں دھکیل دیا گیا اس کا خمیازہ بینظیر بھٹو شہید نے بھائی مرتضی بھٹو ساتھیوں سمیت قتل ، اقتدار کا خاتمہ، آصف علی زرداری کی طویل جیل ، خود ساختہ جلاوطنی اور قتل تک بھگت لیا۔ طالبان نے نجیب اللہ سے لیکر افغانیوں پر جو مظالم کئے تواسکی سزا مقامی سطح سے گوانتا ناموبے تک بھگت لی ۔کرنل امام، خالد خواجہ اور ہمارے گھرانے نے بھی ظلم کی حمایت کرنے کی سزا بھگت لی ۔
طالبان نے افغانستان کے اندر کچھ اقدامات شروع کردئیے توISIکے ایک خٹک اہلکار نے مجھ سے کہا کہ آپ کا مشن خلافت کا قیام ہے ، افغانستان میں خلافت قائم ہوگئی ہے، آپ خود بھی جائیں اور اپنے ساتھیوں کو بھی لے جائیں۔ میں نے کہا کہ ” یہ تم امریکہ کے کہنے پر کررہے ہوگے؟ اپنے ملک میں خلافت قائم نہیں کرنی ہے تو دوسرے ملک میں کیا ضرورت ہے؟”۔
پاکستان اسلامی نظرئیے کی بنیاد پر بناتھا ۔ افغانستان حکومت کی بنیاد افغانی قومیت تھی۔پاکستان اپنے اوپر اسلام نافذنہیں کرتا تو دوسرے ملک پر اسلام نافذ کرنے میں کیسے مخلص ہوگا؟۔ طالبان کے حامی بڑے بڑے صحافی، مذہبی و سیاسی قائدنفاق کا شکار نظر آتے تھے۔ہم نے طالبان کو کچھ وجوہات کی بنیاد پر ہدفِ تنقید بنایا۔ اسامہ بن لادن پر امریکہ نے کروز میزائل سے حملہ کیا جس میں اسامہ بچ گیا ،150پاکستانی شہید ہوگئے تو ہمارے اخبار ضر ب حق کی شہہ سرخی یہ تھی کہ ” کلنٹن کی بیٹی کو اسامہ کی لونڈی بنایا جائے”۔ تفصیلی بیان یہ تھا کہ اسلام میں دہشت گردی نہیں ۔ اگر امریکہ سے جہاد کرنا ہوا تو اعلانیہ جہاد کیا جائے گا۔ اسلام کی دعوت دی جائے گی، پھر اسلام کی دعوت قبول نہ کرے تو جہاد کیا جائے گا اور قیدی بنانے کی شکل میں مردوں کو غلام اور عورتوں کولونڈی بنایا جائے گا۔
پھرطالبان حکومت قائم ہوئی تو امریکہ و پاکستان کی مخالفت کے باوجود طالبان نے اقتدار حاصل کیا۔ آرمی پبلک سکول کے واقعہ پر قومی ایکشن پلان کے تحت شمالی اور جنوبی وزیرستان محسود ایریا اور قبائلی علاقہ جات کے دیگر علاقوں سے عوام کو نقل مکانی کروانے کے بعد آپریشن کا فیصلہ ہوا تو بڑی تعداد میں خاندان افغانستان چلے گئے۔ پھردوبارہ ان کو اسلحہ سمیت واپس آنے دینے کا فیصلہ کیا گیا اور اب کافی شور شرابے سننے کے بعد آرمی چیف کی کمان بھی بدل گئی اور پھر بنوں تھانے پر قبضے کا واقعہ ہوا اور اسلام آباد کو بھی خطرہ محسوس ہوا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کی آل پارٹیز کانفرنس پشاور میں جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم نے کہاکہ ”سن2001سے دہشت گردی کا معاملہ بتائیں۔…… ڈیرہ اسماعیل خان سے بنوں تک پولیس کے چیک پوسٹوں پر ہماری بے عزتی کی حد تک تلاشی ہوتی تھی، اب چوکیاں خالی ہیں ،لگتاہے کہ طالبان اور فوج کو لانے کا پروگرام ہے۔ جب وردی پہنتے تھے تو فوجی کا کردار ادا کرتے تھے اور جب وردی اتارتے تھے تو طالبان بن جاتے تھے۔یہاں کی گیس یہاں والوں کو دینے کی بجائے مرکز کو دی جارہی ہے، معدنیات منتقل ہورہے ہیں۔یہ وسائل پر قبضہ کرنے کا چکر تو نہیں ہے؟عجب ہے کہCTDپولیس کا سینٹر بنوں شہر سے باہر منڈان میں تھا تو چھاؤنی میں کیسے منتقل ہوا؟۔ جہاں حال ہی میں واقعہ ہوا۔ اگرCTDپولیس سول ادارہ ہے تو اس کو سول رہنا چاہیے اور فوجی ہے تو فوجی ہونا چاہیے۔ ساہیوال میں بھی بچوں کے سامنے والدین کو قتل کسی اور ادارے نے کیا اور نامCTDپولیس کا لیا گیا۔ جنرل پاشا نے سن2008میں ہمیں میٹنگ میں بتایا تھا کہ مغربی سرحد مشرقی سرحد کی طرح نہیں ہے کہ اس پر باڑ لگائی جائے۔ کیونکہ دونوں طرف ایک خاندان کے لوگ رہتے ہیں۔ ایک طرف گاؤں ہے دوسری طرف اس کی مسجد ہے۔ گیٹ پر دہشت گردوں کا راستہ نہیں روکا جاتا بلکہ وہاں پر بیٹھے فوجی اہلکار بھی عوام سے پیسہ لیتے ہیں۔ ایک دن بیمار بچہ والدین پشاور ہسپتال لانا چاہتے تھے مگر نہیں آنے دیا گیا۔
جب پختونخواہ میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی تو جمعیت علماء اسلام کھل کر دہشت گردی کی مخالفت کرتی تھی مگر جماعت اسلامی ان کی معشوقہ تھی۔ ریکارڈ پرمولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ حکومت کا سرکاری نہیں بلکہ شرعی فریضہ بھی ہے کہ دہشت گردوں کا خاتمہ کرے۔روزنامہ مشرق پشاور۔ مولانا فضل الرحمن نے ان کو دجال کا لشکر قرار دیا تھا لیکن میڈیا نے رپورٹ نہیں کیا۔ پولیس نے عوام سے کوئی بدسلوکی کبھی نہیں کی لیکن اب واقعات کے بعدشاید خوفزدہ ہوںگے۔
منظور احمد پشتین قائدPTMنے جانی خیل بنوں میں بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” لاہور میں مختلف مذہبی سیاسی جماعتوں، فرقوں اور مذاہب کے علاوہ متضاد کردار کے لوگ آپس میں ایکدوسرے کیساتھ رہتے ہیں اور کوئی لڑائی جھگڑا ، دنگا فساد اور بدامنی کی فضاء نہیں پھیلاتے ہیں تو پشتون قوم کو بھی چاہیے کہ آپس میں امن وامان سے رہیں۔ پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی، جمعیت علماء اسلام اور کسی بھی مذہبی سیاسی جماعت سے اس کا تعلق ہے لیکن پشتون قوم کو اپنے اندر اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ جلسے، جلوس اور دھرنے سیاسی عمل ہیں اور اس سے امن وامان کی فضاء پیدا ہوتی ہے۔ پہلے جب یہاں ہمارا اجتماع ہوتا تھا تو دشمن نے کسی کو حملہ کرنے کیلئے کھل کر بٹھایا ہوتا تھا اور اب ایسا نہیں ہے۔ فضاء ہماری قربانیوں کی بدولت بہت بدل چکی ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ الیکشن ، ممبری، سیاسی مفادات پر لوگ لڑتے ہیں ہم الیکشن میں حصہ نہیں لیںگے ۔
محسن داوڑ نے باجوڑ میں بڑے جلسہ عام سے خطاب میں کہا : میں نے اب پارلیمنٹ میں بھی یہ بات اُٹھائی ہے کہ ہماری فوج کرائے کا کام کرتی ہے جبکہ امریکہ اپنی پراکسی کیلئے ہماری قوم اور ہماری مٹی کو استعمال کرتاہے۔ راناثناء اللہ نے کہا کہ ہم افغانستان میں کاروائی کرینگے اورامریکی ترجمان نے اس کی تائید کردی۔ ہم اس کھیل کا حصہ نہیں بنیںگے۔ جنگ کی پرامن مزاحمت کرینگے۔
پشاور ہائی کورٹ نے بونیر سے تعلق رکھنے والے ایک خانہ بدوش گجر خاندان میں جرگے اور دونوں خاندانوں کے فیصلے پر ریپیسٹ اور بچہ جننے والی مظلوم یتیم لڑکی میں صلح کراتے ہوئے دونوں کی آپس میں شادی کرانے پر فیصلہ دیاہے۔ جس پر ڈان نیوز میں وسعت اللہ خان وغیرہ نے ”ذراہٹ کے” میں اپناتبصرہ کیاہے اور ایک خاتون کی رائے بھی اس میں شامل کی ہے۔ ریپیسٹ کی سزابھی وہی ہو جو قرآن وسنت میں ہو اور زنا بالرضا کی سزا بھی وہی ہو جو قرآن وسنت میں ہے تو افغانستان ، پاکستان، ایران اور سعودی عرب کے اسلام کو دنیا قبول کرنے میں تھوڑی دیر بھی نہیں لگائے گی لیکن ہم اس میں مخلص بن جائیں۔

__دہشت گردی کا تدارک کیسے ہوسکتاہے؟ __
افغانستان میں داعش دھماکوں کی ذمہ داری قبول کررہاہے اور پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو دھمکی دی گئی ہے اور پختونخواہ میں کافی عرصہ سے بدامنی کی فضاء کا ایک ماحول قائم ہے جس میں دن بہ دن خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے۔ عوام میں مایوسی کی فضاء ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دو جرائم کا ذکر کیا ہے کہ مدینہ میں انقلاب آنے کے بعد ایسا نہیں ہوگا کہ لوگ خواتین کو تنگ کریں اور دوسرا یہ کہ افواہ سازی کی فیکٹریاں ختم ہوجائیںگی۔ یہ لوگ معلون ہیں جہاں پائے گئے قتل کئے گئے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کے بارے میں افواہ چھوڑ دی گئی کہ وہ قادیانی ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اسکے باپ اور دادا کی قبریں گھگڑ منڈی گوجرانوالہ میں ہیں۔ علامہ زاہدالراشدی نے بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کے مسلمان ہونے کی تصدیق کی۔ غلط افواہ پھیلانے میں سابقہDGISIجنرل رضوان اختر کا کردار تھا جو بعد میں کور کمانڈر کوئٹہ تھے اور اس جرم کی پاداش میں جبری ریٹائرڈ کیا گیاتھا۔ اب جنرل سیدعاصم منیرکے بارے میں ٹاپ کے فوجی جنرل ، بیوروکریٹ اور سعودی اہلکار نے یہ افواہ اڑادی تھی کہ شیعہ ہیں۔ جس کی وجہ سے سعودی عرب نے اس کی تعیناتی پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ پاکستان اور دنیا میں سب سے بڑی بیماری افواہ سازی کی بنیاد پر دوسروں کو نقصان پہنچانا ہے۔ اگر ان لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا کرکے صفائی کا بھی میڈیا پر بھرپور موقع دیا جائے مگر معقول بات پیش نہ کرنے پر قتل کی سزا دی جائے تو اس فتنے کا سدباب ہوجائے گا ۔ معاشرے کو اس سے بہت زبردست نقصان پہنچ رہاہے۔ سوشل میڈیا کے علاوہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بھی منظم افواہ سازی کی جاتی ہے۔
سورہ النساء کی ایک آیت میں اللہ نے فرمایا کہ ” اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی کھلم کھلا فحاشی پھیلانے کے ارتکاب میں مبتلاء ہو تو اس کو اپنے گھروں میں بند رکھو،یہاں تک کہ اللہ کوئی راستہ بنالے”۔ ایک عورت بھی خراب ہوجائے تو معاشرے میں بہت زیادہ فحاشی پھیل سکتی ہے۔ اگر چار افراد یہ گواہی دیں تو پھر اس عورت کو گھر میں بند رکھنے پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتاتھا؟۔ قرآن کی بات آج بھی پوری دنیا کیلئے قابلِ قبول ہے کہ ایسے ناسور کا تدارک کرنا اسکے اپنے گھر والوں کا فرض ہے۔ یہ حکومت کا کام نہیں ہے اسلئے کہ حکومتی اہلکار کس کس خاتون کو کہاں کہاں سے اٹھاکر کیا کیا کریںگے؟۔
علماء نے لکھا ہے کہ ”اس آیت میں آئندہ حکم کیلئے انتظار ہے اورپھر سورۂ نور میں اللہ نے سزا کا حکم نازل کیا ”۔ سوال یہ ہے کہ سورہ ٔ نور میں کیا احکام ہیں؟۔ پہلا حکم یہ ہے کہ ” زانیہ عورت اور زانی مرد کو100،100کوڑوں کی سزا ہے۔ جن پر کچھ لوگوں کو گواہ بھی بنایا جائے”۔کیا علماء یہ حکم مانتے ہیں؟۔ صحیح بخاری میں ایک صحابی سے پوچھا گیا کہ ”کیا سورۂ نور کی آیات کے بعد کسی کو سنگسار کیا گیاہے؟”، تو اس نے جواب دیا کہ ”میرے علم میں نہیں کہ کوئی سنگسارہوا ہو”۔
حنفی مسلک بلکہ سارے مسالک میںیہ بات مسلمہ ہے کہ ”قرآن سے کوئی بھی حدیث متصادم ہو تو اسکے جھوٹا ہونے کیلئے یہی کافی ہے”۔ قرآن میں زنا کی سزا100کوڑے ہیں تو سنگساری والی روایات قرآن کیخلاف ہیں۔ جن آیات سے قرآن کی دوسری آیات منسوخ ہوسکتی ہیں تو کیا ان سے احادیث کو منسوخ نہیں کیا جاسکتا؟۔ غیرت اس سے بڑھ کر کس میں ہوسکتی ہے کہ ” شوہر اپنی بیوی کو کسی اور کیساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ لے؟”۔ قتل کی اجازت نہیں تو کسی اور کو کیسے قتل کیاجاسکتا ہے؟۔ غیرت کاقتل اسلام نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے اکھاڑ پھینکا۔ سورۂ نور میں لعان کی آیات ہیں۔ عورت نے انکار کیا تو ا سے سزا نہیں دی جائے گی۔ لعان کی آیات کوعام کیا جائے اسلئے کہ انگریز نے برصغیرپاک و ہند میں غیرت کے نام پر قتل کی اجازت دی اور بے غیرت مولویوں نے حلالہ کے نام پر روئے زمین کی تاریخ میں بے غیرتی کے سب ریکارڈ توڑدئیے ۔
سوال یہ ہے کہ لعان یا سزا کے بعد کیا کاروائی کی جائے گی؟۔ اس کا جواب بھی قرآن نے دیا ہے کہ ” زانی کا نکاح زانیہ یا مشرکہ سے کیا جائے اور زانیہ کا نکاح زانی یا مشرک سے کیا جائے اور یہ مؤمنوں پر حرام ہے”۔ جس عورت کو جس مرد کیساتھ پکڑا جائے تو100کوڑوں کی سزا کے بعد اس کا نکاح اس مردسے کرایا جائے۔ وہ زانی مرد مسلمان ہو یا مشرک کوئی فرق نہیں۔ معاشرے میں خبیث کا تعلق عقیدے سے نہیں اس کے خباثت والے عمل سے ہے۔
اللہ نے مؤمن خواتین سے فرمایا کہ” ایسا لباس پہنو تاکہ تم پہچانی جاؤ اور تمہیں ستایا نہ جائے”۔ حکمرانوں کو یہ حکم نہیں کہ کسی کے لباس پر گرفت کریں۔ طالبان سعودی عرب اور ایران کے برعکس خواتین پر لباس کی پابندی نہ لگائیں بلکہ یہ قانون نافذ کردیں کہ ” اگر کسی نے جبری بنیاد پر کسی عورت سے زیادتی کی تو اس کو سنگسار کردیا جائے گا”۔ کچھ افراد سنگسار ہوجائیں تو پوری دنیا میں سب خواتین اور باضمیر مرد حضرات ان کے حق میں کھڑے ہوجائیںگے۔ یہی اسلام اور پشتو کا مشترکہ قانون ہے۔ قرآن میں قتل کرنے کا حکم ہے اور حدیث ایسے شخص کو سنگسار کرنے کا حکم دیتی ہے۔ طالبان کو اس پر عمل کرنا چاہیے۔
نام نہاد احناف قرآن کے مقابلے میں صحیح حدیث کو بھی نہیں مانتے ۔ابن ماجہ کی روایت ہے کہ شادی شدہ کیلئے سنگسار کرنے اور بڑے آدمی کو دودھ پلانے سے رضاعت ثابت ہونے کی دس آیات تھیںجو نبیۖ کی وفات کے وقت بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوگئیں۔ حالانکہ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عمر نے کہا کہ ” اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ لوگ کہیںگے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کیا ہے تو رجم کا حکم قرآن میں لکھ دیتا”۔یہ متضاد روایات خرافات کی بڑی دلیل ہیں احناف کے نزدیک قرآن کے مقابلے میں احادیث قابلِ قبول نہیں لیکن قرآن کے مقابلے میں جعلی آیت قابلِ قبول ہے ۔ سورہ نور کی واضح آیت کے مقابلے میں جعلی آیت الشیخ والشیخة اذا زنیا فاجرموھما ”جب بوڑھا مرد بوڑھی عورت سے زنا کرے تو دونوں کو سنگسار کردو”۔ ایسی آیت ہے جس کا حکم باقی ہے اور تلاوت منسوخ ہے؟۔یہ شادی شدہ کیلئے نہیں بلکہ بوڑھوں کو رجم کرنے کا حکم ہے، چاہے بوڑھا شادی شدہ ہو یا کنوارا۔ یہ توراة کی آیت ہو تو مطلب ہوگا کہ بوڑھا بوڑھی کوزنا پرکوڑے مارنے کے بجائے لعنت بھیجو۔ شیطان لعنت بھیجنے سے رجیم ہے۔ کوڑوں کے کھانے کے بڈھے متحمل نہیں۔ ایگریمنٹ والی سے نکاح کے بعد آدھی سزا50اور نبی ۖ کی ازواج کیلئے ڈبل200کا حکم ہے۔درباری ملاجیون کے” نورالانوار”کی جگہ علامہ مناظر احسن گیلانی کی کتاب ”تدوین القرآن” کو درسِ نظامی میںہونا چاہے تھا۔
اگر ہمارے پشتون مخلص طالبان بھائی افغانستان میں درباری فقہ احناف کی جگہ درست فقہ احناف نافذ کردیںگے توپاکستان ، ایران اور سعودی عرب سے بھی اس کا خیرمقدم ہوگا اور پوری دنیا میں اسلامی انقلاب کا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا۔ داعش اور تحریک طالبان پاکستان بھی ضائع ہونے سے بچ جائیں گے۔ یہ خطہ دہشت گردی کی جگہ امن وامان کا گہوارہ بن جائے گا۔ افغانستان، ایران اور پاکستان کو امن وامان اور بھارت و چین وغیرہ کو راہداری دینے کے بدلے اتنا زرمبادلہ مل جائے گا کہ ہماری ریاستیں دنیا کی امیر ترین ریاستیں ہوں گی۔ مزارعین کو مفت میں زمینیں اور دنیا کو سستی راہداری دینے سے انقلاب آئے گا۔ ہند اور بیت المقدس لڑائی کے بغیر فتح ہوںگے لیکن ہم اسلام کو اپنائیں تو سہی!۔ ریاستِ پاکستان اصلی اسلام کوسامنے لانے کی ذمہ داری کی طرف توجہ دے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عثمان لالا کی خواہش تھی کہ خواتین شانہ بشانہ ہوں،صاحبہ بڑیچ

عثمان لالا کی خواہش تھی کہ خواتین شانہ بشانہ ہوں،صاحبہ بڑیچ
جب بھی میرے بھائیوں نے ہم پر بھروسہ کیا ہم پورا اترے فیروزہ کاکڑ

پشتونخواہ ملی نے خوشحال کاکڑ کو قیادت سونپ دی اورمحمودخان اچکزئی نے سازش قرار دیا

خوشحال خان کی قیادت میں نئی پارٹی قیادت نے ڈکٹیٹر شپ ، اقرباء پروری اور پارٹی کے اہداف و مقاصد سے ہٹ کر پنجاب اور اسٹیبلشمنٹ کے ایماء پر طالبان کو تسلیم کرنے کا الزام لگادیا

محمود خان اچکزئی نے سہہ روزہ10ہزار کرسیوں ، رہائش اور خوراک کے بڑے انتظام کو بڑی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ پختون داڑھی اور مونچھوں والوں میں تقسیم ہوکر لڑ رہے ہیں

پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے نئے دھڑے نے عثمان کاکڑ شہید کے بیٹے خوشحال خان کاکڑ کی قیادت میں خواتین ونگ کا اعلان کردیا۔ اگلی بار برابری کی سطح پر10ہزار خواتین کا اعلان کیا

پختونخواہ ملی عوامی پارٹی تقسیم ہوگئی۔ عثمان خان کاکڑ کے بیٹے خوشحال کاکڑ اور ناراض یا نکالے گئے رہنماؤں نے نیا سفر شروع کیا۔ خواتین ونگ بن گیا ۔ صاحبہ بڑیچ،فیزروزہ کاکڑ ودیگر خواتین نے خطاب کیا۔ ایک خاتون رہنمانے کہا کہ امید ہے کہ سینٹ اور قومی اسمبلی میں کچن خواتین نہیں کارکن خواتین کو بھیجا جائیگا۔ پشتون خواتین سیاسی سرگرمی میں حصہ لیں تو بنیادی مسائل حل ہونگے۔ اسلامی حقوق کاچارٹ بن جائے تو پشتواور اسلامی غیرت سے انقلاب آئیگا۔
محمود اچکزئی نے کہا کہ پشتون نسلی اونچ نیچ کا فرق نہیں رکھتے۔ باقی اقوام کے نواب، وڈیرے ،چوہدری اپنے سے نیچے طبقے والے کو ساتھ نہیں بٹھاتے۔ انہوں نے کہا کہ بہت وقت ساتھ گزاراہے اسلئے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ افغانستان کے اسٹیک ہولڈرز ایک حکومت پر متفق ہوں اور خون خرابے سے توبہ کی جائے۔ افغانستان وپاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ۔ اغیار یہاں پر جنگ برپا کرنا چاہتے ہیں تاکہ وسائل پر قابض ہوں۔ اگر وہ پھر آگئے تو ہم سب مل کر اغیار کیخلاف لڑینگے۔ عراق و لیبیا کو تیل کیلئے لوٹ لیا گیا۔ ہم پاکستان اور افغانستان میں دوستی اور امن چاہتے ہیں۔ ایک طرف پختون داڑھی رکھ کرکہتاہے کہ میں مسلمان ہوں۔ دوسرا مونچھ رکھ کرکہتاہے کہ انقلابی ہوں ۔ ایکدوسرے کوکتا، گالی اور ایجنٹ کے الزامات چھوڑ کر بھائی چارہ قائم کرنا ہوگا۔
سب سے پہلے خواتین کے حقوق کا مسئلہ حل کرنا ہوگا جو طالبان سے زیادہ پشتون قوم کی قیادت کے پاس ہے۔ علماء کرام اور پشتون قومی قیادت بیٹھ جائیں اورقرآن میں لکھے گئے ایک ایک رسم جاہلیت کو ختم کرنے کا اعلان کریں پھر یہ قوم پاکستان اور دنیا بھر کی اقوام کی قیادت کرنے کے قابل بن جائے گی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv