سیاست Archives - Page 2 of 62 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں پر کم از کم معافی تومانگ لیں۔ سہیل وڑائچ

سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں پر کم از کم معافی تومانگ لیں۔ سہیل وڑائچ

جماعت اسلامی ضیاء الحق کیBٹیم اور نواز شریف فوجی گاڑی میں بیٹھ کر مخالف کو کچل رہا ہے

بہت شکریہ میںآج صبح لاہور سے آیا ہوں آپ اہل کراچی کیلئے سلام محبت لے کے آیا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ کراچی بدل گیا مجھے یاد ہے کہ میں کراچی آتا تھا تویہ وائلنس میں پوچھتا تھا کون کرتا ہے وہ کہتے تھے یہ پتہ نہیں کون کرتا ہے ہمیں پتہ نہیں چلتا ۔ تو بات یہ ہے کہ شکر ہے کچھ انہیں پتہ چلا ہے کراچی کے لوگوں کو کہ وائلنس کون کرتا ہے اور کہاں سے ہوتی ہے۔ جب کتاب کی لانچنگ ہوتی ہے تو ہم کہتے ہیں یہ آج شادی کی تقریب ہے مظہر عباس لاڑا ہیںیہ انکی شادی کی تقریب ہے۔ کتاب کو میں بہت اہم سمجھتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں ۔میری تقریر کے دو حصے ہیں ویسے تو ایک ہی تھا صحافت لیکن چونکہ سیاست کی بات چھڑی ہے تو وہ میں دو منٹ کے لیے مؤخرکر کے پہلے صحافت پہ بات کر لیتا ہوں۔ مظہر عباس آئیڈیل صحافی دنیائے صحافت میں کسی بھی مکتبہ فکر کو دیکھ لیں مظہر عباس آئیڈیل صحافی کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ وہ صدارتی محل میں ہوں یا وزیراعظم کے ہم نشین یا لیاری کی غریب بستیوں میں انکے اندر کا صحافی ہر وقت جاگتا رہتا ہے۔ وہ نہ حکمرانوں کے دبدبے سے متاثر ہوئے اور نہ ہی جابروں کی دھمکیوں سے وہ اپنی دھن میں وہی کہتے ہیں جو انہیں کہنا چاہیے۔ انہیں اپنے قلم اور اپنی زبان پر مکمل کنٹرول ہے۔ وہ نہ کسی کی مخالفت میں حدیں پار کرتے ہیں نہ کسی کی حمایت میں چاپلوسی اور خوشامد اختیارکرتے ہیں۔ مظہر عباس زمانہ طالب علمی سے بائیں بازو کی نظریاتی سیاست میں متحرک رہے۔ بائیں بازو سے منسلک رہنے والے لوگ لازمی طور پر صاحب مطالعہ ہوتے ہیں ان کا دنیا کا ویژن بڑا واضح اور عوام دوست ہوتا ہے مظہر عباس انہی خوبیوں سے مزین ہو کر میدان صحافت میں اترے وہ عملی صحافت میں آئے تو اس وقت کراچی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا ہار تھا ایک طرف ضیاء آمریت کے ظلم کا شکار پیپلز پارٹی تھی تو دوسری طرف اردو بولنے والوں کی محرومیوں کی نمائندہMQMتھی۔ مظہر عباس اس مشکل وقت میں دونوں مخالف جماعتوں میں ہمیشہ محترم رہے حالانکہ وہ دونوں پر تنقیداور غلطیوں کی نشاندہی بھی کرتے رہے۔ انہیں لٹریچر کا تڑکا لگا ہے۔ انہیں ساری بڑی اردو شاعری ازبر ہے فیض کا ذکر ہو یا جوش کا ہندوستان کے اندر لٹریری رجحانات ہوں یا پاکستان میں شائع ہونے والی نئی کتابیں مظہر عباس اپڈیٹڈ ہوتے ہیں۔ مظہر عباس کا سینہ رازوں سے بھرا ہوا ہے وقت آگیا کہ وہ مرتضی بھٹو کے قتل ،بے نظیر سے گفتگو اور ایم کیو ایم کی اندرونی کہانیوں اور لڑائیوں کو لکھیں تاکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ مکمل ہو سکے ۔یہاں پر بڑے ماشااللہ سارے لوگ جتنے سٹیج پہ بیٹھے ہیں محترم ہیں لیکن شروع کرتے ہیں زبیر صاحب نے آ کر جمہوریت کی بات کی لیکن یہ بھول گئے کہ ان کے والد محترم جنرل غلام عمر وہ پاکستان کو جو آج اس جگہ کھڑا ہے فوج کے کردار کی وجہ سے اس میں وہ پلر تھے جنہوں نے سب سے پہلے پیپلز پارٹی، عوامی لیگ اور اس وقت کے عوامی نمائندوں کے خلاف سازشیں کیں پیسے بانٹیں اور ان کا ثبوت موجود ہے۔ پہلے تو انہیں ان سے برأت کا اعلان کرنا چاہیے کہ یہ غلط تھا پھر جمہوریت آئے گی ناں۔ بھئی آپ ہی نے تو جمہوریت کا بیڑا غرق کیا اور آپ ہی کہہ رہے ہیں کہ جناب جمہوریت ہونی چاہیے۔ جماعت اسلامی ماشااللہ جمہوریت کی بات کررہی ہے۔ اوبھائی آپ تو مارشل لاء کیBٹیم اور جنرل ضیاء الحق کے ساتھی،افغان جہاد کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ پاکستان کو تباہ کرنے میں آپ کے نظریات کا کردار تھا۔ کم از کم یہ تو کہیں کہ یار ہم نے ماضی میں بڑی غلطیاں کی ہیں آپ کون سے الیکشن کراتے ہیں۔ مجلس شوریٰ نام دیتی ہے جیسے ایران میں ہوتا ہے تو ان ناموں کو آپ ووٹ دیتے ہیں یہ کون سا الیکشن ہے۔ زبیر صاحب آپ کے والدجنرل غلام عمر کابھی پاکستانی سیاست کو گندا کرنے میں، سیاسی جماعتوں کو نقصان پہنچانے میں بہت بڑا کردار تھا، جنرل یحییٰ خان کے ایڈوائزر تھے اور انہوں نے پیسے بانٹے سیاست دانوں میں۔ تو آپ کو بھی ان کے غیر جمہوری کردار سے برأت کا اعلان کرنا چاہے۔ جناب فاروق ستار اورMQMسے گزارش یہ ہے کہ کراچی سب سے پڑھا لکھا شہر ،سارے آپ لوگ پڑھے لکھے کیا کرتے رہے ہیں ؟۔ الطاف بھائی کے کہنے پہ وائلنس کو سپورٹ کرتے رہے ،لوگوں کو مارنے کو سپورٹ کرتے رہے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے آپ کو کچھ خیال نہیں آیا کہ آپ میںکوئی تعلیم، کوئی عقل ہے کچھ خیال نہیں آیا ؟۔ تو بھائی آپ بھی کم از کم شرمندہ تو ہوں۔ زبیر صاحب سے مسلم لیگ ن کے آپ گورنر رہے ہیں تو سن لیں۔ بھئی گزارش یہ ہے کہ جو کام عمران خان نے2018میں کیا اس دفعہ آپ وہ کر رہے ہیں۔ بھئی وہ اسٹیبلشمنٹ کی گاڑی میں بیٹھ کے آیا تھا اور سب کو روند کے انہوں نے اس کو وزیراعظم بنا دیا اب آپ یہ کر رہے ہیں تو بھائی کیسے جمہوریت آئے گی؟۔ آپ سارے تو استعمال ہوتے ہیں۔ اگر تنقید کرتے ہیں تو سب نے میڈیا پہ پابندیاں لگائی ہیں۔ بھئی آپ بھی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں۔ پیپلز پارٹی، بھئی آپنے دو لیڈرشپ کی قربانیاں دیں بڑی بات ہے واحد پارٹی ہے جس نے اپنے لیڈرشپ کی قربانی دی لیکن اب آپ کیا کر رہے ہیں اب آپ تو فوج کے سیکنڈ کیا، تھرڈ کمانڈ کے سامنے بھی جھک کے آپ سیاست کر رہے ہیں۔ کیا یہ عوامی سیاست ہے ؟۔ آپ اس سے محروم طبقات کو فائدہ دیں گے؟۔ تو بھائی بنیادی بات یہ ہے کہ ہم تو آپ سیاست دانوں کے ہمیشہ خیر خواہ رہے میں نے اپنی زندگی بھر کسی سیاست دان پر کبھی الزام نہیں لگایا کبھی کوئی اس کا سکینڈل نہیں کیا کیونکہ میں سیاست دانوں کی عزت کرتا ہوں لیکن سیاسی جماعتوں کا کیا یہی کردار ہونا چاہیے ہمارے معاشرے میں؟۔ کیا یہی جمہوری کردار ہے؟۔ ہرگز نہیں! مظہر عباس اور میں اس کو نہیں مانتے۔ اور ہم نہیں مانیں گے تھینک یو ویری مچ۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ایسٹ انڈیا کمپنی سے آج تک سلیکٹڈ و سلیکٹر کی سیاست۔ رضاربانی

ایسٹ انڈیا کمپنی سے آج تک سلیکٹڈ و سلیکٹر کی سیاست۔ رضاربانی

پاکستان کی ریاست نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نصاب میں تاریخ کو مسخ کر رکھا ہے

جناب مظہر عباس! اسٹیج پہ بیٹھے مقررین خواتین و حضرات! سب سے پہلے تو میں مظہر کا نہایت شکر گزار ہوں۔ مجھ سے پہلے نہایت تفصیل کیساتھ بہت اچھی تقاریر ہوئی اور میں نہیں سمجھتا کہ کچھ زیادہ گنجائش ہے کہ ان کو مزید وسعت دی جائے۔ مظہر کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں گو کہ مظہر کی کتاب کے مختلف آرٹیکلز چھپ چکے ہیں اور ایک جو نہیں چھپا اس کا مجموعہ ہے لیکن اس مجموعے کو میں ایک نوجوان نسل کیلئے ہسٹری بک بھی سمجھتا ہوں ۔کیونکہ بدقسمتی سے پاکستان کی ریاست نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کی سیاسی تاریخ کو اور پاکستان کی عمومی تاریخ کو مسخ کیا ہے۔ اور آج جو نصاب یونیورسٹیز، کالجز اور سکولوں میں پڑھایا جا رہا ہے اس میں تاریخ یقینی طور پہ وہ نہیں جو حقیقت میں ہے۔ نوجوان نسل اگر سیاسی تاریخ کا جائزہ لینا چاہتی ہے تو یقینی طور پہ مظہر کی یہ کتاب سنگ میل ہے۔ میرے حساب سے ہم بہت عرصے سے ایک دوسرے پہ الزام رکھتے چلے آئے اور آئندہ بھی یہ روش جاری رہے گی۔ لیکن آج پاکستان ایسے مرحلے پہ کھڑا ہے جہاں آپ جیسے لوگ جو دانشورہیں جو سوچ رکھتے ہیں جو فہم رکھتے ہیں ان کو یہ بات لازم ہے کہ اگر اس بھنور سے اس ملک نے نکلنا ہے اور یقینی نکلنا ہے تو ایک نیشنل ڈیبیٹ کا آغاز لازم ہے۔ اور نیشنل ڈیبیٹ آئیسولیشن میں نہیں ہوسکتی ہم اگر کہیں کہ جی یہ ایک لائٹ سوئچ ہے آف کریں گے تو کلISIکی مداخلت پاکستان کی سیاست میں ختم ہو جائے گی یہ ممکن نہیں ہے۔ اگر آپ اس خطے کی تاریخ کو اٹھا کے دیکھ لیں تو ایسٹ انڈیا کمپنی سے لے کے آج دن تک سلیکٹڈ اور سلیکٹر کی سیاست ایک یا دوسری شکل کے اندر چلتی آئی ہے۔ پہلے برٹش راج سلیکٹرز تھا۔ برطانوی سامراج یہاں سے گیا تو بدقسمتی سے پاکستان سے سامراج تو چلا گیا لیکن کلونیل مائنڈ سیٹ اور کلونرائزیشن جو وہ کر کے گیا وہ آج دن تک موجود ہے آج بھی پاکستان کی نوکر شاہی چاہے سول یا ملٹری بیوروکریسی ہو اس کا وہی برطانوی سامراج کا کلونیل مائنڈ سیٹ ہے۔ لہٰذا وہی بات آج بھی چل رہی ہے۔47میں پاکستان کا جو مقصد تھا جس کو قائد اعظم نے بنایا اور کہا کہ یہ ویلفیئر سٹیٹ ہوگی لیکن انکے جانے کے بعد سول اور ملٹری بیورکریسی نے پاکستان کا مقصد تبدیل کر دیا اور اسے گیریزن سٹیٹ بنا دیا لہٰذا جب آپGarrisonStateبن جاتے ہیں جب آپ نیشنل سیکیورٹی سٹیٹ بن جاتے ہیں تو آپ کے تقاضے مختلف ہو جاتے ہیں۔47میں اور اس کے بعد پاکستان کی ملٹری بیوروکریسی نے سول بیوروکریسی کو ساتھ ملاتے ہوئے مختلف پارٹنرز کی تلاش شروع کی اس میں سیاسی جماعتیں شامل تھیں اس میں مذہبی رائٹ شامل اس میں پاکستان کی عدلیہ شامل تھی۔ اور اس میں پاکستان کی معذرت کے ساتھ میڈیا کے کچھ اشخاص بھی شامل تھے جس کی جب ضرورت پڑتی تھی اس وقت وہ پسندیدہ ہوجاتے تھے۔
2017 میں جب میں چیئرمین سینٹ تھا تو ہم نے کمیٹی آف دی ہول کی اور چیف آف آرمی سٹاف کو بلایا اور چیف آف آرمی سٹاف اور ڈی جیISIاس کمیٹی آف دی ہول کے سامنے پیش ہوئے۔ اسی طرح ہم نے چیف جسٹس آف پاکستان اس وقت جمالی صاحب تھے ان سے درخواست کی کہ وہ بھی تشریف لائے۔ لیکن صرف ڈائیلاگ اس کا راستہ نہیں ہے ڈائیلاگ کے علاوہ سب سے بڑی چیز جو ہے وہ مائنڈ سیٹ کی تبدیلی ہے۔ جب تک مائنڈ سیٹ کی تبدیلی تمام سٹیک ہولڈرز کے اندر نہیں آئے گی اس وقت تک یہ ممکن نہیں ہے اور مائنڈ سیٹ کی تبدیلی کون لائے گا؟۔ مائنڈ سیٹ کی تبدیلی آپ لائیں گے۔ پاکستان کی سول سوسائٹی لیکر آئے گی۔ پاکستان کے دانشور لیکر ائیں گے۔ وہ پریشر بلڈ کریں گے کہ ماضی میں جو ہوا سو ہوا لیکن اب حق ِحکمرانی پاکستان کے عوام کا ہے شکریہ بہت بہت شکریہ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

نثار عثمانی نے صحافت میں سکھایا کہ وقت پر سچ بولا جائے۔ مظہر عباس

نثار عثمانی نے صحافت میں سکھایا کہ وقت پر سچ بولا جائے۔ مظہر عباس

جنرل حمید گل نے بتایا کہ1988میں جرنیلوں کو خطرہ تھا کہ بینظیر دو تہائی اکثریت لے گی

میں رضا ربانی، سہیل وڑائچ،زبیر صاحب کا ڈاکٹر ریاض شیخ ،وسعت اللہ خان، احمد شاہ اورآپ سب کا بے انتہا شکر گزار ہوں ۔ابھی میں سہیل صاحب سے بھی یہی کہہ رہا تھا کہ مجھے امید نہیں تھی کہ کسی کتاب کے لانچنگ میں ہال بھرا بھی رہ سکتا ہے۔ تو سہیل صاحب نے کہا کہ آپ کو اپنی مقبولیت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ کتاب کا عنوان ”سلیکٹر سے سلیکٹڈ” تک یہ الفاظ ہماری سیاست میں نایاب تھے لیکن چند سالوں میں اس میں اضافہ ہو گیا اور جب یہ الفاظ آئے تو اس کی ایک خاص وجہ تھی اس کے بعد امپائر کی اصطلاح بھی آئی وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا یہ اصطلاح بھی آئی اور کرکٹ کی تمام اصطلاحیں آئیں کیونکہ کرکٹر سیاست میں آگیا۔ جس کا ابھی اکرم ذکر کر رہے تھے اکرم قائم خانی سے اتنی پرانی دوستی اور اتنی گہری دوستی ہے کہ جب یہ انڈر گراؤنڈ تھے تو انہوں نے اپنا نام مظہر عباس رکھ لیا تھا۔ میں نے کہا یار آپ مجھے بتا تو دیتے کہ آپ نے یہ نام رکھا۔ تو انہوں نے کہاآپ یقین جانیں کہ جب واپس آیا ہوں اور مرتضی بھٹو اگر زندہ ہوتے تو وہ مجھے اکرم قائم خانی سے نہیں مظہر عباس کے نام سے پہچانتے ۔ بہت حسرت تھی جب ہم سٹوڈنٹ لائف میں تھے کہ اس ملک میں جمہوریت پائیدار ہو مضبوط ہو طاقتور ہو ۔ہم نے آزادی صحافت کیلئے نثار عثمانی، پیکر نقوی جیسے لوگوں کو اسٹرگل کرتے دیکھا تھا کہ جب وہ اپنے گھر سے گرفتاری دیتے تھے عثمانی صاحب کا ذکر کروں گا جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا ۔وہ کہتے تھے کہ سچ وہ ہے جو وقت پر بولا جائے اور انہوں نے حاکم وقت کے سامنے بھی وقت پر سچ بولا تو وہ جب جا رہے تھے جیل گرفتاری کے لیے تو ان کی جو بیوی کی آنکھیں کمزور تھیں اور جب وہ جیل سے واپس آئے تو صرف ان کی آواز سے وہ ان کو پہچان سکیں۔ جب وہ جیل گئے تو جیلر سے کہا کہ دیکھو مجھے قیدیوں کا لباس لا کے دو اور مجھے بتا ؤکہ مشقت کیسے کرنی ہے؟۔ تو جیلر نے کہا عثمانی صاحب آپ لوگ بڑے کازکیلئے اسٹرگل کر رہے ہیں آپ کیوں مجھے شرمندہ کرتے ہیں۔ یہ تو ہوتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا نہیں مجھے قید با مشقت ہوئی ہے لہٰذا مجھے تمہیں مشقت کا بھی بتانا ہے اور قیدی کا لباس بھی لا کر دینا ہے۔ یہ وہ پلرز تھے جن کو دیکھتے ہوئے ہم نے صحافت کا آغاز کیا۔ پیکر نقوی رات کو بسوں میں جاتے تھے کیونکہ لانڈھی کورنگی میں رہا کرتے تھے اتنی دیر سے جاتے تھے کہ بسوں کا ٹائم ختم ہو جاتا تھا تو وہ وہیں سو جاتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو صحافت کی آبرو تھے اور یہ لوگ آزادی صحافت کیلئے اسلئے سٹرگل کر رہے تھے کہ یہ سمجھتے تھے اور ہم بھی سمجھتے تھے کہ آزادی جمہوریت آزادی صحافت کے بغیر ممکن نہیں۔ تو جس ملک میں آج تک جمہوریت نہیں آئی ہو اس ملک میں آزادی صحافت کیسے آ سکتی ہے؟۔ سلیکٹرز کون رہے ہمارے ملک میں1954میں جگتو فرنٹ نے دو تہائی اکثریت حاصل کی اور مغربی پاکستان کی لیڈرشپ نے اسے قبول نہیں کیا اس حکومت کو برطرف کردیا گیا۔ اس ملک کا پہلا سلیکٹر ایوب خان تھا جنہوں نے اپنے ہی آپ کو سلیکٹ کیا۔ اور یہ پھر تسلسل چلتا رہا کبھی سلیکٹرز اپنے آپ کو سلیکٹ کرتے تھے تو کبھی اپنی سلیکشن ٹیم کو سلیکٹ کرتے تھے ۔اور اگر کوئی قابل قبول نہیں ہے تو وہ ملک توڑنے کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے اور بالآخر ہم نے دیکھا کہ آدھا ملک الگ ہو گیا تو اس کتاب کا عنوان یہی ہے کہ اس ملک کے سلیکٹرز یہاں سیاسی جماعتیں بناتے ہیں سیاسی جماعتیں توڑتے ہیں حکومتیں بناتے ہیں حکومتیں توڑتے ہیں۔ کبھی کوئی بدعنوان ہو جاتا ہے اور پھر وہی اہل ہو جاتا ہے ، اسی وجہ سے اس ملک میں جمہوریت مضبوط نہیں ہوئی۔ اس کتاب کو لانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کیونکہ اب الیکشن ہونے والے ہیں 8فروری کو، کہنے کو الیکشن ہے لیکن یہاں بیٹھے ہال میں تقریبا ہر آدمی کو پتہ ہے کہ سلیکشن ہونے جا رہا ہے۔ تو جس واقعے کا احمد شاہ نے ذکر کیا ہم وہی حسرت لیے وہی ڈریم لے کے چلے تھے ۔گاؤں دیہاتوں میں گئے لوگوں سے بیٹھ کے بات کی نوابشاہ ، لاڑکانہ، ملتان ، رحیم یار خان ،فیصل آباد تو میں نے کہا کہ بائی روڈ چلیں کیونکہ11سال کے بعد اس ملک میں جمہوریت آرہی ہے اور پھر ہم لاہور پہنچے لاہور پہنچے تو بے نظیر بھٹو نے مجھ سے کہا کہ کیا سچویشن ہے؟۔ میں نے کہا وہاں تو سب ہار رہے ہیں۔ کہنے لگیں تمہارا کیا مطلب ہے؟۔ میں نے کہا جتوئی، پیر پگاڑا ، سلطان چانڈیو سب ہار رہے ہیں۔ اس نے کہا کیسے ہو سکتا ہے پیر پگاڑا ہار جائے۔ میں نے کہا کیونکہ اس کے پیر ہم سے کہہ رہے ہیں کہ یہ ووٹ بھٹو کا ووٹ ہے ظاہر ہے بھٹو کو پھانسی ہوئی تھی88میں۔ میں نے کہا جتوئی کے گاؤں دیہات میں ٹریکٹر چلانے والے کے ٹریکٹر پر پیپلز پارٹی کا جھنڈا لگا ہوا تھا اس نے کہا ہم نے سائیں سے کہہ دیا یہ ووٹ بھٹو کا ووٹ ہے۔ ادھر جب ہم پہنچے تو ہم نے دیکھا وہاں سب سے پہلے اسلامی جمہوری اتحاد کا جلسہ ہو رہا تھا واحد وہ جلسہ تھا جس میں پریزیڈنٹ فورٹ اور بیگم نصرت بھٹو کے ڈانس کی تصویریں سپیشل ہیلی کاپٹر سے گروائی گئی تھیں۔ وہاں مجھے پھر اندازہ ہوا کہ یہ الیکشن نہیں ہو رہا۔ کچھ سالوں بعد جنرل حمید گل سے انٹرویو کیا اور جنرل حمید گل سے میں نے پوچھا کہ آئی جی آئی کیوں بنائی آپ نے؟۔ تو اس نے کہا مظہر صاحب86میں جب بے نظیر آئی تھی تو فوج کے کئی جنرل پریشان ہو گئے تھے کہنے لگے کہ یہ تو بہت خوفناک صورتحال ہے یہ تو دو تہائی اکثریت لے جائے گی تو ہم نے الیکشن کو مینج کیا اور آئی جی آئی بنائی۔88میںIJIبنتی ہے90میں اصغر خان کیس سامنے آتا ہے93میں ایک جنرل صاحب سب کو بٹھا کے پریزیڈنٹ اور پرائم منسٹر ریزائن کرتا ہے اور یہ سلسلہ آج تک چل رہا ہے۔ ایک مضمون میں میں نے لکھا کہ جب تک سلیکٹرز عوام نہیں ہوں گے اس وقت تک اس ملک میں الیکٹڈ لوگ نہیں آئیں گے جس دن عوام سلیکٹرز بن گئے اس دن الیکشن کو ہم سب مان لیں گے۔ تو میری کتاب کا محور یہی ہے کہ ہمیں انتظار کرنا چاہیے ایک اچھے الیکشن کا یہ نہیں کہ ہمیں ووٹ نہیں دینا چاہیے ہمیں ووٹ دینا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ سلیکشن کو ہم الیکشن میں تبدیل کر دیں جس دن عوام نے سلیکشن کو الیکشن میں تبدیل کر دیا تو صحیح معنوں میں اس ملک میں جمہوریت آجائے گی اس ملک میں جمہوریت صحیح معنوں میں آگئی تو آزادی صحافت کا وہ مشن بھی مکمل ہو جائے گا جو نثار عثمانی ایم اے شکور صاحب نے شروع کیا تھا۔ آج ہی ابھی جب ہم آ رہے تھے تو یہ خبر آئی کہ65یوٹیوبرز کو بشمول407جنرلسٹ ان کو نوٹسFIAنے دیے ۔ پرنٹ پر پریشر ہے الیکٹرانک میڈیا پہ پریشر ہے ڈیجیٹل میڈیا پہ پریشر ہے۔ ایسے میں اس ملک کا وزیراعظم کیسے یہ کہہ سکتا ہے کہ اس ملک میں آزادی اظہار ہے۔ تو میرے خیال میں میں یہاں لوگوں سے اسی لیے میں نے اسے ایک ابتدائیہ کے طور پہ پیش کیا اتنے پرانے پرانے ہمارے سیاسی کارکن آئے ہوئے ہیں جنہوں نے جیلیں کاٹ لی ہیں جنہوں نے شاہی قلعہ کاٹا جنہوں نے ٹارچر برداشت کیا ایک خواب کے لیے اور آج بھی وہ خواب خواب ہی ہے ہم جس جگہ کھڑے ہیں آرٹس کونسل میں اوربڑے سال لگے اس آرٹس کونسل کو بنانے میں اور اب اتنا وائبرنٹ ہے کہ میں نے ابھی احمد شاہ سے کہا کہ ایسا بنے گا پاکستان تو چلے گا پاکستان بہت بہت شکریہ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

1970 میں بلوچستان کے میر بخش بزنجو ، خیر بخش مری ، عطاء اللہ مینگل جمہوری تھے اب باپ پارٹی لائی گئی۔ افراسیاب خٹک

1970 میں بلوچستان کے میر بخش بزنجو ، خیر بخش مری ، عطاء اللہ مینگل جمہوری تھے اب باپ پارٹی لائی گئی۔ افراسیاب خٹک

میںANPکا صوبائی صدر تھا تو مجھے خبر ہوئی کہ گُڈ اور بیڈ طالبان ان کے اپنے بنائے ہوئے ہیں اصل خطرہ ان کو بلوچستان اور پختون قوم پرستوں سے ہے۔ ان کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

افراسیاب خٹک نے کہا کہ یہ تو صحیح ہے کہ پاکستان میں طبقاتی مشکلات بھی ہیں اشرافیہ اور ورکنگ کلاس، وہ بھی ہونا چاہیے اصول کی بات ہے۔ لیکن یہ اس بات کا جواز نہیں بن سکتی کہ جب طبقاتی تقسیم ختم ہوجائے اس کے بعد جمہوریت آجائے گی۔ جمہوریت کیلئے الیکشن اس کی ایک بیسک خصوصیت ہے۔ تو اس الیکشن کو ممکنہ حد تک آزاد اور غیر جانبدارانہ ہونا چاہیے۔ اور یہ کیوں آزادانہ نہیں ہورہے؟۔ میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ جو خاکی پولیٹکل انجینئرنگ کی فیکٹریز ہیں۔ جب تک یہ بند نہ ہوں گی یہاں آزادانہ انتخابات نہیں ہوں گے۔ (سوال: کیسے ہوگا؟ یہ مزاحمت ہمیں نظر آرہی ہے۔ ) ایسے ہوگا جیسے جنرل مشرف پر مقدمہ چلا۔ نواز شریف کو میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں یہ مقدمہ شروع کیا جنرل مشرف پر۔ مشرف سے ہمیں ذاتی دشمنی خدانخواستہ نہیں لیکن پاکستان کے آئین کو روند نا یہ تو لکھا ہے کہ غداری ہے اور لوگ یہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ فلاں کیخلاف کررہے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ جس کیخلاف بھی کررہے ہوں یہ نہیں کرنا چاہیے۔ سیاست میں جن کا کام نہیں ہے قانون نے جس کو روکا ہے ان کو سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ان کو لینا چاہیے تو پھر آئین بدل دیں۔ جیسے کچھ ملکوں میں انڈونیشیا، چلی اور ترکی میں مستقل طور پر فوج کی حکومتیں تھیں ۔ لیکن جب ایک وفاقی جمہوری پاکستان جو قائد اعظم محمد علی جناح کا ویژن تھا اور وہی چل رہا ہے لیکن چلائیگا کوئی اور ؟۔ آئین میں ایک بات لکھی ہوگی لیکن ہوگی کوئی اور یہ تو نہیں ہوسکتا ناں؟۔
سوال: مگر سوال وہی ہے کہ کیسے ہو؟۔ انقلاب آنا تھا تو آچکا ہوتا۔ انقلاب نہیں آنا آپ نے ہتھیار بھی نہیں اٹھانا ریاست کیخلاف تو اس کی حکمت عملی کیا ہے؟۔
افراسیاب خٹک: دیکھیں امپائر چلارہے ہیں سلطنت۔ بزنس کی سلطنت، سیاسی اقتدار کی سلطنت۔ یہ سلطنت صرف لاجک سے نہیں ہوگی کہ ہم ان کو سمجھائیں کہ دیکھیں جی یہ غلط ہے آپ نہ کریں۔ نہیں! عوامی تحریک۔ پاکستان کے اصل مالک 25کروڑ عوام کے پاس جانا ان کو اٹھانا اور ان کو سیاست سے نکالنا جن کو سیاست نہیں کرنی ہے یہ آئین کی بحالی، آئینی نظام اور جمہوریت کی بحالی ہے اور جوMRDنے کیا تھا ضیاء الحق کیخلاف ، جو چارٹر آف ڈیموکریسی پر جنرل مشرف کیخلاف ہوا تھا۔ (سوال: مگر خٹک صاحب! عوام خود بخود تو نہیں اٹھتے ایک لیڈر شپ ہوتی ہے ، سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں جو عوام کو لیڈ کرتی ہیں۔ وہ ڈائریکشن دیتی ہیں، ان کی منصوبہ بندی ہوتی ہے کہ اس وقت دو قدم آگے جانا ہے دو قدم پیچھے جانا ہے اس کو ایسے ہینڈل کرنا ہے ۔ یہ عوام تو نہیں کررہی ہوتی ۔وہ مجھے بتائیں)۔ میری تجویز یہ ہے کہ نیا چارٹر آف ڈیمو کریسی ہو بغیر اسکے کہ اس میں کونسی فلاں پارٹی ہے یا نہیں۔ یہ تلخ تجربہ آجPTIکے ساتھ ہے کل ن لیگ کیساتھ تھا پرسوں پھر ن لیگ کیساتھ یا کسی اور کیساتھ ہوسکتا ہے۔ جیسے پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے آپس میں19کی دہائی میں ایکدوسرے کے تختے الٹے۔ اور پھر کیسے اس نتیجے تک پہنچے کہ یہ نہیں ہونا چاہیے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی ہونا چاہیے۔ مجھے یاد ہے غوث بخش بزنجو اور ہم حیدر آباد جیل میں تھے بھٹو نے جو مقدمہ نیب پر چلایا تھا میں بھی ان ملزموں میں سے تھا۔ مجھے یاد ہے بھٹو کا آدمی آیا اس نے بزنجو سے کہا کہ وہ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں اور آپ کی کیا تجویز ہے؟۔ بزنجو بہت ہوشیار آدمی تھے۔ وہ پاکستان کے بہترین سیاستدانوں میں سے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں علی گڑھ کالج میں فٹبال ٹیم میں تھا ، فٹ بال اس وقت تک کھیلا جاسکتا ہے جب تک لوگ ریفری کی وسل سنتے ہیں۔ آپ نے بال بغل میں دبالیا ہے اور گول کی طرف جانا شروع کردیا ہے ۔ بلوچستان کی منتخب حکومت کو آپ نے زبردستی توڑ دیا۔ تو یہ نہ کریں اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ آپ کرسکتے ہیں تو کل کوئی زیادہ طاقتور آجائیگا بال کو سینے کیساتھ لگا کر گول میں لیٹ جائیگا اور کھیل ختم ہوجائیگا۔ اور بالکل ایسا ہی ہوا ضیاء الحق آیا اور11سال تک کھیل ختم ہوگیا۔ لوگوں نے سیکھا اس سے تو میں سمجھتا ہوں اب جو کچھ گزرا ہے پچھلے10سالوں میں2014کے بعد جو سلسلہ ہے ن لیگ ،PTIپھرPTIکیساتھ جو ہوا، اس سے ہمیں یہ سیکھنا چاہیے کہPTIن لیگ ، پیپلز پارٹی،ANP، مولانا فضل الرحمن سب لوگوں کو ایک نیا چارٹر آف ڈیموکریسی کرنا چاہیے جیسے انہوں نے سبق سیکھا تھا2007میںچارٹر آف ڈیموکریسی۔ اسی طرح سے ایک نیا چارٹر آف ڈیموکریسی ہو جس میں سب شامل ہوں۔ اور وہ فیصلہ کریں عوام جس کو بھی ووٹ دے۔ چاہے بہت برا لگتا ہے لیکن لوگوں نے جس کو ووٹ دیا ہو اس کو حکومت ملنی چاہیے۔ میں اس کمیشن میں تھا جو جسٹس اطہر من اللہ کے حکم پر بنا تھا بلوچستان طلبہ کی شکایت کیلئے۔ اختر مینگل اسکے کنوینئر تھے اور ہم لوگ اسکے ممبرز تھے۔ تو میں بلوچستان گیا تھا2022نومبر میں کوئٹہ میں یہ کیمپ تھابلوچستان یونیورسٹی گئے۔ ہم نے جو دیکھا زیادہ میڈیا میں تو رپورٹ نہیں ہوا لیکن وائس چانسلر نے الگ سے ایک رسمی سی بریفنگ دی لیکن جب ہم اسٹوڈنٹس سے ملنے گئے تو پہلے تو اسٹوڈنٹس آئے نہیں کچھ تھوڑی تعداد میں ایک دو قطاروں میں تھے باقی ہال خالی تھا۔ بہرحال ہم نے شروع کیا اپنا فنکشن۔ تھوڑی دیر کے بعد اسٹوڈنٹس بڑی تعداد میں آئے لڑکیاں بھی لڑکے بھی اور ہال اور گیلریاں بھرگئے۔ ہم حیران تھے اختر مینگل نے کہا کہ ہمیں تو شک تھا کہ آپ کو کسی نے روکا ہے کیا بات ہے؟۔ تو وہاںکے مقامی سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ سردار صاحب آپ نے غور نہیں کیا۔ یہ بچے دور کھڑے تھے آنہیں رہے تھے ۔ ان کو پتہ تھا کہ پہلے تلاوت ہوگی پھر قومی ترانہ ہوگا، اسکے بعد ایجنڈہ شروع ہوگا۔ یہ قومی ترانہ پڑھنا نہیں چاہتے تھے۔ ہزاروں بلوچ لڑکے لڑکیاں۔ اگلے دن گورنر ہاؤس میں میٹنگ تھی میں نے کہا کہ کل بلوچستان یونیورسٹی میں میں نے وہ دیکھا جو ڈھاکہ یونیورسٹی میں71میں میں نے دیکھا تھا۔ اگر آج آپ نوٹس نہیں لیں گے تو کیا17دسمبر کا انتظار کریں گے کیا یہ وقت نہیں کہ آپ آج کہیں کہ یہ غلط ہورہا ہے۔ جبری گمشدگی بنیادی طور پر ریاستی دہشت گردی ہے۔ جو لوگ اس میں ملوث ہیں ان کو پکڑنا چاہیے ان کو سزا دینی چاہیے لیکن ان کے بارے میں جب بل آجاتا ہے تو ہاؤس میں گم ہوجاتا ہے۔یہ ماننے والی بات ہے کہ پارلیمنٹ میں قانون گم کیسے ہوسکتاہے؟۔ یہ پاکستان کوناکام اسٹیٹ بنارہے ہیں۔ اصل ذمہ داری جنرل شاہی پر ہے۔ جب تک پاکستان کے عوام اور سیاسی پارٹیاں اٹھ کر یہاں پر جمہوریت اور آئینی نظام کی بحالی نہیں کریں گی یہ قصے ہوتے رہیں گے خدانخواستہ کسی اور حادثے سے ہمارا سامنا نہ ہوجائے۔
میںANPکا صوبائی صدر تھا۔ صوبے کے انتخابات کی نگرانی میری ذمہ داری تھی۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ کوئی دہشت گردی نہیں تھی۔ سرکاری انٹیلی جنس ایجنسیوںکی سیاسی انجینئرنگ کا ایک طریقہ تھا۔ میں نے مباحثوں میں سنا ہے کہ طالبان کوئی خطرہ نہیں ہیں۔ طالبان ہم نے بنائے ہیں کبھی گڈ طالبان کبھی بیڈ طالبان ۔ وہ کہتے ہیں اصل پشتون اور بلوچ نیشنلسٹ ہیں ان کو ہم نے قابو کرنا ہے یا ان کو ہٹانا ہے۔ تو وہاں پر دہشت گردی کا یہ سارا سلسلہ پولیٹیکل انجینئرنگ کی ایک نئی شکل ہے۔ دیکھیں محسن داوڑ پر حملہ ہوا کیوں حملہ ہوا؟۔ کیونکہ وہ ایک اور نظرئیے سے بات کرتا ہے۔ ڈیموکریسی، نیشنل رائٹس اور پولیٹیکل رائٹس کی بات کرتا ہے۔ بلوچستان جو مرکز تھا جمہوری سیاست کا ۔
نیشنل عوامی پارٹی1970کے انتخابات وہاں جیتی صوبائی گورنمنٹ اسکی آئی ۔ غوث بخش بزنجو، عطاء اللہ مینگل، خیر بخش مری یہ بڑے نام تھے پاکستان میں بڑی جمہوری پسند تحریک کے۔ باپ کو بٹھادیا وہاں، باپ کیا ہے؟۔ اردو میں ایک صوفی شاعر کا شعر ہے وہ کہتے ہیں منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے
یہ جو باپ ہے وہ منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے۔ بنیادی طور پر سینٹ کیا ہے؟۔18ویں ترمیم میں اسکے نام کیساتھ بڑھایا گیا ”ہاؤس آف فیڈریشن”۔ وفاق کی اتحاد کی علامت کوHouseOfConspiracyبنادیا گیا۔
چیئر مین کا انتخاب کیسے ہوا؟۔ جب میں ہیومن رائٹس کمیٹی کا چیئر پرسن تھا سینٹ میں2009سے2015تک تو گمشدگیوں کی خبریں بہت آئیں لوگ ہمارے پاس شکایتیں لیکر آئے ہم نے تھوڑی سی تحقیقات کیں اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ان گمشدگیوں میں بڑا ہاتھISIکا ہے۔ اور کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کے بارے میں قانون بنانا چاہتے ہیں ۔ ہم نے ڈیفنس منسٹری کو خط لکھا اور ایک آؤٹ لائن اس قانون کا ہم نے بھیجا کہ یہ قانون ہم پیش کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے انہوں نے کہا کہ ہاں ہم جواب دیں گے۔ جنرل آصف یاسین ملک اس وقت ڈیفنس سیکریٹری تھے۔ وہ آئے کمیٹی میں لیکن پھر وہ چپ ہوگئے او ر انہوں نے جواب دینا بند کردیا۔ ہم نے سینٹ سے منظور کرایا ۔ ان کا خیال تھا کہ یہ پاگل ریٹائرڈ ہوجائیں گے تو ختم ہوجائے گی یہ بات۔ لیکن اس کے بعد فرحت اللہ بابر اور رضا ربانی نے دوبارہ اس کو پیش کیا۔ دوسری بار جب وہ آیا تو پھر ایجنسی نے فیصلہ کیا کہ اب سینٹ کو ہم نے کنٹرول کرنا ہے۔ اس کیلئے سنجرانی فارمولا ۔ یہ بلوچستان میں ن لیگ کی پارٹی کو ختم کرکے آزاد ممبران کا گروپ لایا گیا اور6سال سے چیئر مین کو اسلئے بٹھایا کہ ایجنڈے میں یہ قانون پھر کبھی نہ آئے۔ اب آپ دیکھیں سینیٹ میں فلٹر لگائے گئے ۔ فرحت اللہ بابر کو اپنی پارٹی نے ٹکٹ دیا اس کے اور سینیٹر ہوگئے پختونخواہ کے وہ نہیں ہوسکے۔ اسلئے کہ فلٹر میں وہ نہیں جاسکتے۔ تو اس طرح کی یہ ساری چیزیں ہیں اسلئے ہم یہ بے یقینی کی باتیں کررہے ہیں۔ مجھے لگ نہیں رہا کہ یہ فیئر الیکشن ہوں گے۔ یہ عدالت کا فیصلہ آیا لیکن میں کوڈ کرکے بات ختم کرنا چاہتا ہوں کہ وہ جو امریکی سپریم کورٹ کی چیف جسٹس تھیں مارشل اس نے کہا تھا ہم سیاسی فیصلے کرتے ہیں اور اس کو قانونی ڈریسنگ یا لبادہ پہناتے ہیں لیکن ہوتے یہ سیاسی فیصلے ہیں۔ تو یہ رات کا فیصلہ بھی بنیادی طور پر سیاسی فیصلہ ہے۔ اس کو صرف قانونی شکل دی گئی ہے۔
سوال: آپ نے دو باتیں کیں کہ نئی انجینئرنگ کی شکلKPاور بلوچستان میں مگر کیا وہاں مولانا فضل الرحمن پر حملے ہورہے ہیں۔ تو وہ اسی چیز کا حصہ ہیں؟ ۔
افراسیاب خٹک: مولانا فضل الرحمن صاحب کی پارٹی پر ایک جگہ حملہ ہورہا ہے باجوڑ میں۔ اور باجوڑ میں اسلئے ہورہا ہے کہ کنڑ میں داعش کا مرکز ہے۔ داعش مولانا فضل الرحمن پر اسلئے حملے کرتی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ طالبان کے اتحادی یا حامی ہیں۔ داعش طالبان کے خلاف ہے۔ لیکن ان کے اوپر ایسے عام حملے نہیں ہورہے ہر جگہ۔باجوڑ میں جہاں کنڑ سے بارڈر ملتا ہے جہاں سے داعش والے لوگ آتے ہیں تو بنیادی طور پر ان پر حملے کی وجہ یہ ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سپوت و کپوت کیلئے ملک کو تباہ کیا ہمیر سنگھ

سپوت و کپوت کیلئے ملک کو تباہ کیا ہمیر سنگھ
عمر کوٹ سندھ کے راجہ ہمیر سنگھ کو وزیر اعظم بنایا جائے

مسلم لیگ کی بنیاد مشرقی پاکستان بنگال میں رکھی گئی تھی۔ مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے دلت رہنما جوگندر ناتھ منڈل کو ہندوستان نے پہلا وزیر قانون بنانے کی پیشکش کی تھی جو انہوں نے مسترد کردی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے کہنے پر پاکستان کے پہلے وزیر قانون بن گئے۔ جوگندر نے اسلام کو انسانیت کا مذہب سمجھ کر پاکستان کو ترجیح دی تھی۔ اگر وہ وزیر اعظم یا گورنر جنرل کے منصب پر بٹھادئیے جاتے تو نہ صرف مشرقی پاکستان ہمیشہ کیلئے قائم رہتا بلکہ ہندوستان میں بھی مغربی تہذیب و تمدن اور تعلیم و انتظامی معاملات کی جگہ وہ اسلامی تعلیمات رائج کردی جاتیں جو14سو سال پہلے قرآن میں نازل اور سنت کے ذریعے رائج ہوئی تھیں جس کی وجہ سے دنیا میں ایک طویل عرصے تک صرف اور صرف اسلام اور مسلمانوں کا ڈنکا بج رہا تھا۔ راجہ داہر نے نجومی کے کہنے پر اپنی بہن سے شادی کی اور نواز شریف و بینظیر بھٹو بابا دھنکا سے اقتدار لینے کیلئے ڈنڈے کھاتے تھے۔ عمران خان کو عدت میں نکاح پر سزا ہوئی ۔ اگر عمر کوٹ کے راجہ ہمیر سنگھ کا ایک دن جیو کے ساتھ انٹرویو دیکھ لیں تو ہماری جمہوری پارٹیوں کے مقابلے میں ان کو وزیر اعظم بنانا مناسب ہوگا۔
ہمیر سنگھ نے سہیل وڑائچ سے کہا کہ بیٹے اور بیٹی کو یکساں تعلیم و تربیت دینا دونوں کا حق ہے۔ اپنی حیثیت کے مطابق اپنی جان پر خرچہ کرنا چاہیے۔ اولاد کیلئے کچھ چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اسلئے کہ قابل بیٹے کو سپوت کہتے ہیں نالائق کو کپوت ۔ سپوت اپنی گزر اوقات کیلئے اپنی لیاقت پر گزارہ کرتا ہے اور اس کیلئے دولت چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کپوت نالائق ہوتا ہے اگر اس کیلئے دولت چھوڑ بھی دی جائے تو وہ ضائع کرے گا۔ اسلئے کپوت کیلئے دولت نہیں چھوڑنی چاہیے۔ ہمارے ملک کے بااثر طبقات نے اپنے سپوتوں اور کپوتوں کیلئے پاکستان کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔
رانا ہمیر سنگھ نے کہا کہ درخت بہت قیمتی چیز ہیں ان کو کاٹنا وطن عزیز کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ جلانے کیلئے کچھ مخصوص قسم کے درخت ہوتے ہیں۔ عام درختوں کو کاٹنا بہت بڑا جرم ہے۔ عمر کوٹ کے جنگلات بھی محفوظ ہیں لیکن ہمارے کرتے دھرتوں نے پہاڑوں کے جنگلات کے ساتھ بھی بڑی زیادتیاں کی ہیں۔ جس کی روک تھام کیلئے کسی کے پاس ضمیر نہیں ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں ان نا اہلوں کی وجہ سے ہیں۔
رانا ہمیر سنگھ نے کہا کہ دین سب کا ایک ہے لیکن عقیدہ اپنا اپنا ہے۔ اگر پاکستان اقلیت کے ساتھ جبر کرتا تو5%ہندو اور دیگر غیر مسلم اقلیتیں5منٹ میں مسلمان بن جاتیں۔ یہاں پر مذہب کے جبری تبدیلی کے حوالے سے الزام میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ بھارت میں اقلیت کا تحفظ بالکل ڈھونگ ہے۔ پاکستان کے بڑے صوبے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے اقلیتوں کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا ہے۔ بھارت کا کوئی ایسا نامور شخص نہیں ہے جس نے اقلیت کیلئے جان دی ہو۔پاکستان میں اقلیت کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اگر کہیں کوئی تشدد کا واقعہ ہوتا ہے تو یہ شدت پسند لوگ مسلمانوں کے ساتھ بھی وہی تشدد والا برتا ؤ روا رکھتے ہیں۔ ریاست کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتاہے۔
رانا ہمیر سنگھ نے بتایا کہ جب ایوب خان نے لینڈ ریفارمز کے تحت رقبوں کو محدود کردیا تو اس کے بعد بڑی بڑی جاگیریں کوئی نہیں رکھ سکتا ہے۔ پہلے جاگیرداری سسٹم تھا اب کھاتے داری نظام ہے۔ بچوں اور کزنوں کے نام زمینیں کردی ہیں۔
رانا ہمیر سنگھ نے کہا کہ مشرقی اور مغربی تہذیب کا ملاپ نہیں ہوسکتا ہے۔ جیسے آدھا تیتر آدھا بٹیر بننا بیکار ہے اسی طرح ان دونوں تہذیبوں سے نئی تہذیب بنانا انتہائی خطرناک ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں اتحاد کے حوالے سے کہا کہ دونوں کی ریاستوں میں ڈرامہ چل رہا ہے لیکن عوام ایک دوسرے سے پیار رکھتے ہیں۔ اسلئے کہ دونوں کا خون ایک ہے۔ دونوں اپنے اپنے عقیدے پر رہ کر ایک دین انسانیت کیلئے کام کریں اور دونوں ریاستوں کا حال ان دو بلیوں والا ہے جو آپس میں ایک روٹی پر لڑے اور پھر بندرنے دونوں کا ماما بن کر روٹی اوپر درخت پر چڑھادی۔ دونوں سے کہا کہ میں انصاف کروں گا۔ کبھی ایک طرف سے نوالہ کھاتا اور کہتا کہ زیادہ کھالیا پھر برابر کرنے کیلئے دوسری طرف نوالہ کھاتا اور ساری روٹی کھاگیا۔ اگر ہندوستان اورپاکستان لڑتے رہے تو تیسری قوت آئے گی اور یہاں کے وسائل پر ماما بن کر قبضہ کرے گی۔ جیسا کہ اتنا عرصہ ہوا کہ پاکستان سے امریکہ ڈو مور ڈو مور کا مطالبہ کررہا ہے۔ ہمارا ملک مقروض ہوگیا ، دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گیا مگر اس کے مطالبے ختم نہیں ہورہے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کو ان کی چال سمجھ کر آپس میں مل بیٹھنا ہوگا۔
رانا ہمیر سنگھ کے کزن وکرم سنگھ ڈائریکٹر سول ایوی ایشن کی حیثیت سے رہے اور کراچی جناح ایئر پورٹ ، لاہور، اسلام آباد اور ملک کے دوسرے ایئر پورٹ بنانے میں کردار ادا کیا۔
ہمیں ہندوؤں سے کوئی تعصب نہیں۔ قرآنی تعلیمات کو مسلمانوں نے چھوڑ رکھا ہے۔ البتہ پاکستان میں نوکریاں بھی رشوت دے کر حاصل کی جاتی ہیں۔ وہ ہندو جو اصل میں را کے ایجنٹ ہیں جن کے کاروبار ہندوستان میں ہیں اور یہاں بہت بڑی رقم دے کر نیب میں نوکریاں حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنا پیسہ کمانے کیلئے نیب کے ذریعے سے پاکستان کے قابل لوگوں کو تباہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اس طرف ریاست کو خصوصی طور پر توجہ دینی ہوگی تاکہ ملک کو بچایا جاسکے۔
نوٹ: اس آرٹیکل کے بعد ”رسول اللہ ۖ ، صحابہ ، امام ابوحنیفہ ، شاہ ولی اللہ اور دار العلوم دیوبند کے سپوت کپوت تک کا سلسلہ” عنوان کے تحت آرٹیکل پڑھیں۔
اس آرٹیکل کے بعد ”دارلعلوم دیوبند کے سپوتوں کی چند یہ مثالیں” کے عنوان کے تحت آرٹیکل پڑھیں۔
اس آرٹیکل کے بعد ”دارالعلوم دیوبند کے کپوتوں کی یہ چند مثالیں” کے عنوان کے تحت آرٹیکل پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

خالد خان مروت کااحتجاج رنگ لایا

خالد خان مروت کااحتجاج رنگ لایا

ویلی کونسل ناظم خالد خان مروت عمر خیل ضلع ٹانک نے یہ احتجاج نوٹ کراتے ہوئے کہا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ اسلحہ اٹھاؤ مگر ہم کس لئے اسلحہ اٹھائیں۔ تنخواہیں سیکورٹی فورسز کو ملتی ہیں اور جب ان سے ہم کہتے ہیں کہ مسلح افراد کے خلاف کاروائی یا کوئی طریقہ کریں تاکہ وہ یہاں سے چلے جائیں تو جواب نہیں دیا جاتا اور پھر اچانک لڑائی میں عوام ماری جاتی ہے۔ یہ احتجاج عمر اڈہ ٹانک میں کچھ بے گناہ افراد کے مارے جانے پر ہوا تھا جس کی قیادت صدر بیٹنی اتحاد مولانا نقیب اللہ نے کی تھی اور کہا تھا کہ فوج اور طالبان آبادیوں کو میدان جنگ نہ بنائیں۔ اگر کافر بھی مظلوم ہو تو اس کا ساتھ دینے کا اسلام حکم دیتا ہے۔
خالد خان کے فوجی قیادت کیساتھ کامیاب مذاکرات پر عبد اللہ ننگیال و دیگر مہمانوں کا وقت پر ساتھ دینے کیلئے شکریہ ادا کیا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مسلح افراد کیلئے کبھی احتجاج نہیں کیا ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

مسلح افراد کیلئے کبھی احتجاج نہیں کیا ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

اسلام آباد میں دھرنے میں شریک لواحقین کے4لاپتہ افراد کو مچھ واقعہ کے بعد زندان سے نکال کر قتل کردیا گیا
ریاست پرامن جدوجہد کا راستہ اپنانے والے بلوچوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ناکام کرنا چاہتی ہے

معزز صحافی حضرات ! آپ اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے کہ گذشتہ دو مہینے سے زائد عرصے تک بلوچستان انسانی حقوق کی سنگین پامالی بلوچ نسل کشی جس میں سر فہرست ہے۔ لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کیخلاف کیچ سے دھرنے کی شکل میں اسلام آبادکی طرف مارچ کیا بلوچستان کے ہر شہر اور گاؤں سے ہزاروں لوگوں نے ریاستی ظلم کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیااور سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ بلوچ عوامی رد عمل کے باوجود ریاست بلوچستان میں اپنی پالیسیوں میں کسی قسم کی تبدیلی لانے کیلئے تیار نہیں۔ لانگ مارچ میں سینکڑوں لاپتہ افراد کے لواحقین نے اس امید اور بھروسے پر لانگ مارچ میں حصہ لیا کہ انکے پیاروں کو فیک انکاؤنٹر میں قتل نہیں کیا جائے۔ بدقسمتی سے ریاست ظالمانہ پالیسی کو جاری رکھنے کی خواہش رکھتی ہے۔ حالیہ مچھ واقعہ میں جس طرح زندان سے لاپتہ افراد کو نکال کر قتل کیا گیا یہ ظلم اور جبر کی انتہاء ہے۔ ریاست مسلح افراد کی کاروائیوں کا جواز بنا کر لاپتہ افراد کو قتل کرکے غیر انسانی عمل کا ارتکاب کررہی ہے۔ ریاست نے جھوٹے بیانئے پر بلوچ نسل کشی جاری رکھی ہے کہ لاپتہ افراد پہاڑوں پر ہیں۔ لیکن حقیقت اسکے بالکل برعکس ہے۔ جو لوگ مسلح لڑائی لڑ رہے ہیں ان کیلئے کبھی بھی لاپتہ افراد کے لواحقین نے احتجاج نہیں کیا ریاست مسلح جدوجہد کا جواز بناکر جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کا قتل عام کررہی ہے اور قتل عام کو جھوٹے بیانئے کے ذریعے متنازع بنارہی ہے۔ لیکن ہم ریاست پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جبری گمشدگی کے شکار افراد کو ماورائے عدالت قتل کرنے پر ہم کسی بھی صورت خاموشی اختیار نہیں کریں گے۔
مچھ واقعہ میں جتنے مسلح افراد شامل رہے ہیں ان میں سے کسی ایک کا نام بھی لاپتہ افراد کی لسٹ میں شامل نہیں۔ اور ناہی ان کے خاندان نے ان کے جبری طور پر گمشدہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ریاست روزانہ کی بنیاد پر درجنوں افراد اٹھاتی ہے۔ انہیں دو مہینے چار مہینے حتیٰ کہ کئی کئی سالوں تک خفیہ زندانوں میں رکھا جاتا ہے۔ اور بعد ازاں انہیں رہائی حاصل ہوتی ہے۔ جن کی خبریں میڈیا اور لواحقین کی جانب سے آتی ہیں۔ ان افراد کی تعداد اندازاً لاکھوں میں ہوگی۔ ہمارا اصولی مؤقف قائم ہے کہ جبری گمشدگی اقوام متحدہ سمیت ازخود پاکستان کے اپنے آئین اور قانون کے مطابق سنگین جرم ہے۔ اگر ریاست کسی کو مجرم سمجھتی ہے یا کوئی الزام ہے تو عدالتیں موجود ہیں۔ ملکی قوانین کے تحت انہیں پیش کیا جائے تاکہ عدالتیں اور قانون فیصلہ کریں کہ یہ لوگ بے گناہ ہیں یا مجرم ہیں۔ اگر کوئی بھی جرم ثابت ہوتا ہے تو انہیں سزا دینے کیلئے عدالتیں موجود ہیں۔ لیکن غیر قانونی طور پرلوگوں کو جبری گرفتار کرکے انہیں مہینوں اور سالوں خفیہ زندانوں میں قید رکھنا اور کسی بھی مسلح کاروائی کے رد عمل میں جبری گمشدگی کے شکار افراد کو حراست سے نکال کر قتل کرنا انسانیت کی دھجیاں اڑانے اور ریاستی قانون اور آئین کو توڑنے کے مترادف ہے۔ مچھ واقعہ کے بعد پانچ میں سے چار لاشوں کو ان کے لواحقین نے شناخت کیا ہے۔ جو پہلے سے ریاستی اداروں کے پاس جبری گمشدہ تھے۔ ایک لاش کا ہمیں خطرہ ہے کہ وہ بھی جبری گمشدگی کا شکار فرد ہی ہے۔ جن کی شناخت ہوگئی ہے ان میں بشیر احمد مری ولد حاجی خان اور ارمان مری ولد نہال خان مری جنہیں2جولائی2023کو اٹھایا گیا، تیسراصوبیدار ولد گلزار خان ہرنائی بازار سے9ستمبر2023کو جبری طور پر گمشدہ کیا گیا تھا۔ ان تینوں لاپتہ افراد کے لواحقین نے اسلام آباد دھرنے میں شرکت کرتے ہوئے بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔ اور چوتھی لاش کی شناخت شکیل احمد ولد محمد رمضان سکنہ زہری سے ہوئی ہے۔ جن کی شناخت ان کے خاندان نے کی۔ خاندان کے مطابق4جون2023کو جبری گمشدہ کیا گیا تھا۔ جن لواحقین کے افراد نے دھرنے میں شرکت کرکے بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔ آج وہ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے آئے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ریاست بلوچستان میں پرامن جدوجہد کی تمام راہیں بندکرنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ لوگ ریاست سے مایوس ہوں۔ جبکہ دوسری جانب سول ہسپتال میں لائی گئی لاشوں کیلئے آنے والے خاندانوں کو ذہنی کوفت سے گزارا گیا وہ قابل افسوس ہے۔ آج بلوچستان میں ریاست کے حوالے سے بڑھتی مایوسی کی ذمہ دار ریاستی ادارے ہیں۔ جو مسلسل غیر قانونی اور غیر انسانی کاروائیوں سے خوف پیدا کرنے میں لگے ہیں۔ ارمان مری اور بشیر مری اور صوبیدار کے لواحقین اس امید سے اسلام آباد آئے تھے کہ انہیں اس ریاست سے انصاف ملے گا جو کہ ہر شہری امید رکھتا ہے۔ لیکن انصاف کے بجائے انہیں انکے بچوں کی مسخ شدہ لاشیں ملیں۔ جبکہ ایک لاش اتنی مسخ کی گئی کہ اس کی شناخت نہیں ہوپارہی ہے۔ جو بلوچ دشمنی اور بلوچوں سے نفرت کی واضح مثال ہے۔ جن پانچ لاشوں کو کل سول ہسپتال کوئٹہ لایا گیا تھا ان کے حوالے سے ریاستی ادارے یہ جھوٹا بیانیہ قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ پانچ افراد مسلح تھے جو اس واقعہ میں مارے گئے ہیں۔ لیکن ریاست اس چھوٹی سے بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ جھوٹے بیانئے بنانے سے ریاست اپنے ظلم اور جبر کو چھپا نہیں سکتی۔ ان خاندانو ںکو اپنے بچوں کی لاشو ںکو لینے کیلئے ایک غیر قانونی فارم زبردستی دستخط کرنے کیلئے دیا جارہا ہے۔ جن میں زبردستی ان کے بچوں کو دہشت گرد ثابت کیا جارہا ہے۔ لہٰذا جن جبری گمشدگی کے شکار افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا انکے خاندان کسی صورت غیر قانونی فارم پر دستخط نہیں کریں گے۔ جبکہ ہم ایک مرتبہ پھر دنیا پر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں اس وقت بلوچ قوم کی نسل کشی جاری ہے اور اس میں روز بروز شدت لائی جارہی ہے۔ لاپتہ افراد کو پھر جعلی مقابلوں میں قتل کرکے ریاست نے پیغام دیا ہے کہ وہ بلوچستان میں اپنی پالیسیاں تبدیل نہیں کرے گی۔ ہم اقوام متحدہ سمیت ہیومن رائٹس اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں ان واقعات کا نوٹس لیں۔ جبکہ بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے لوگوں کی جبری گمشدگیوں پر خاموشی کے بدلے سیاسی جدوجہد کی راہ اپنائے۔ اور ہم اس پریس کانفرس کے ذریعے بلوچستان کی کوئٹہ کی عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد سول ہسپتال پہنچیں اور جو لاپتہ افراد کے لواحقین اتنے عرصے سے درد اور کرب میں مبتلا تھے جن کے پیاروں کی لاشیں یہاں پر پھینکی گئی ہیں ان لاشوں کو ان لاپتہ افراد کے لواحقین کوہینڈ اوور کرنے میں ان کی مدد کریں۔
ایک صحافی کے سوال کے جواب میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ یہ لاپتہ افراد کے لواحقین آج نہیں تو کل اپنی لاشیں یہاں سے لیکر جائیں گے پیچھے جو رہ جائیں گی وہ صرف نفرتیں ہوں گی۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

لشکر ساتھ تھا تو خاور کی بیگم چھین لی تعلق خراب ہوا تواپنی بیگم چھن گئی؟کیا تأثر پھیل رہاہے؟

لشکر ساتھ تھا تو خاور کی بیگم چھین لی تعلق خراب ہوا تواپنی بیگم چھن گئی؟کیا تأثر پھیل رہاہے؟

کہ اللہ دسرہ مل نہ وی رحمانا کہ لشکرے دسرہ وی یک تنہا یے (رحمان بابا)ترجمہ : اگر اللہ ساتھ نہ ہو اے رحمان تو لشکربھی ساتھ ہوں گے تو اکیلے ہو!
کہ لشکر در سرہ مل نہ وی عمرانا کہ خلق در سرہ وی یک تنہایے ترجمہ: اگر لشکر ساتھ نہ ہو اے عمران ! تو اگر عوام ساتھ ہوں گے پھر بھی تم اکیلے ہو!

عمران خان و بی بی کو عدت میں نکاح پر سزاہوئی ؟ بنیاد یہ ہے کہ خاور مانیکا نے کہا کہ اس کا حق رجوع کا حق مجروح ہوا۔ حالانکہ خاور مانیکا نے بشریٰ کے کہنے پر خلع دیا ۔ خلع میں شوہر کو رجوع کا حق نہیں ۔عدت بھی ایک ماہ ہے۔ طلاق میں بھی شوہرعورت کی رضا کے بغیر رجوع نہیں کرسکتا لیکن فقہاء نے قرآن و سنت کی تعلیمات کو روند ڈالا۔ اگرمولانا فضل الرحمن، مفتی تقی عثمانی، مفتی سعیدخان اور تمام فرقوںکے علماء ومفتیان کو حافظ عاصم منیر کورکمانڈرز کانفرنس میں بلالیں تو خواتین سے زیادتی رک جا ئے گی۔ عورت کو قرآن وسنت نے یہ واضح حق دیا کہ عدت میں اس کی مرضی کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا تو جج نے کس طرح5سال بعد شوہر کا حق رجوع کو تسلیم کرکے نکاح کو ناجائز قرار دیا؟۔یہ عمران خان کا نہیں بلکہ قرآن وسنت، انسانیت اور امت کا مسئلہ ہے۔یہ ریاستی منہ پربہت بڑا طمانچہ ہے کہ کس کس طرح اپنے معزز شہریوں سے انتقام لیتی ہے؟۔
اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی اندھے کو اندھیرے میں بڑی دُور کی سوجھی

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کیا قرآن و سنت کے مطابق آئین سازی اسلئے نہیں ہوسکی کہ مدارس نے معاملہ بگاڑا ہے؟

کیا قرآن و سنت کے مطابق آئین سازی اسلئے نہیں ہوسکی کہ مدارس نے معاملہ بگاڑا ہے؟

اللہ نے فرمایا: ”اپنے یمین کو ڈھال مت بناؤ کہ تم نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ”۔آیت224البقرہ۔قرآن نے صراط مستقیم عطاء کی مولوی نے برج اُلٹ دیا؟
نیکی کرنا توبڑی قربانی ہے۔تقویٰ اختیار کرنا بھی بڑی تربیت مانگتا ہے لیکن لوگوں کے درمیان صلح کرانے میں کوئی مشکل نہیں اور قرآن کو بالکل الٹا پیش کرکے صلح پر پابندی کا ذریعہ بنایا گیا!

آئین کہتا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ رب العالمین کی ہوگی ، اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، تمام قوانین قرآن اور سنت کے تابع ہوںگے، قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنے گا، پھر1973سے لیکر آج تک کوئی قانون سازی ہوئی کیوں نہیں؟۔ اسلئے کہ ایوانوں کو ایسے لوگوں سے بھردیا جاتا ہے کہ جن کو قرآن و سنت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ لہٰذا ہمیں اس رُخ پر بھی سوچنا ہوگا۔ اس پہلو کو ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ ہمارے ملک کا ایک قومی المیہ ہے آج تک جس کا ہم سامنا کررہے ہیں۔ جس کو ہم اہمیت نہیں دینا چاہتے۔ تو یہ چیزیں مد نظر رہیںآپکے۔ قائد جمعیت علماء اسلام حضرت مولانا فضل الرحمن

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے ٹھیک کہا ہے کہ1973کے آئین کے بعد ایسے لوگ پارلیمنٹ میں نہیں لائے گئے جو قرآن وسنت کے مطابق آئین سازی کو یقینی بناتے۔قومی اتحادجمع تحریک نظام مصطفی ۖ، ضیاء الحق کا اسلامی ریفرینڈم، اسلامی جمہوری اتحاد،اسلامی جمہوری محاذ اور اسلامک فرنٹ سے لے کر متحدہ مجلس عمل اور عمران خان کے ریاستِ مدینہ و جنرل سید حافظ منیر کی طرف سے قرآنی آیات کے حوالے دینے تک عوام سب پر اپنا اعتماد کھوچکے ہیں۔
قرار داد مقاصد سے پاکستان کا مطلب کیا ؟لاالہ الا اللہ ! اور پاکستان دولخت ہونے تک دھوکہ بازی کے سیاہ دھوئیں ہی نظر آتے ہیں۔ کیا انگریز کی آمد سے پہلے اورنگزیب مغل بادشاہ کے دور میں جن500علماء نے فتاوی عالمگیریہ مرتب کیا تھا تو وہ قرآن وسنت کے مطابق تھا؟۔جس پر شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم نے مہر تصدیق ثبت کی تھی؟۔ جس میں بادشاہ پر قتل ،زنا،چوری اور ڈکیتی کی کوئی سزا نہیں ہے؟۔ جیو ٹی وی پر سلیم صافی نے اپنے جرگہ پروگرام میں مفتی عبدالرحیم کو بڑاہی مستند ومعتبر بناکر پیش کیاتھا جس نے یہ شریعت بھی واضح کردی کہ حجاج بن یوسف نے لاکھوں بے گناہ لوگوں کوقتل کیا مگر اسکے خلاف بھی بغاوت جائز نہیں تھی؟۔ حالانکہ امام ابوحنیفہ نے یہ واضح کیا تھا کہ بنوامیہ کے ظالم حکمرانوں سے جہاد ایسا ہے جیسے نبی ۖ نے بدر میں مشرکینِ مکہ کے خلاف جہاد کیا تھا۔جب امام زید نے خروج کیا تھا تو امام ابوحنیفہ نے اس کو شریعت کے منافی نہیں قرار دیا تھا بلکہ کامیابی کی امید نہیں تھی۔یزید کے خلاف امام حسین کا قیام خلاف شریعت نہیں تھا لیکن کوفیوں سے وفا کی امید نہیں تھی۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل نے کتاب ” شہید اہل بیت امام ابوحنیفہ” لکھ کر شائع کی ہے۔
درباری مولوی بے چارہ توہمیشہ طاقتور کیساتھ ہی رہاہے اور اگر یزید کے مقابلے میں امام حسین کی فتح ہوتی تو یہ خوف تھا کہ مولوی شیعہ بن کر حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور امیر معاویہ کی خلافت وامارت کو بھی باطل قرار دیتا۔ شیعہ سنی فرقے اللہ نے نہیں بنائے ہیں بلکہ شیعہ سنی علماء نے پیٹ کیلئے بنائے ہیں۔
جب بنوامیہ کا تخت الٹ دیا گیا تو علماء ومفتیان نے فتویٰ دیا کہ خلافت بنو عباس کا حق ہے اسلئے کہ حضرت عباس نے ہی اسلام قبول کیا تھا،نبی ۖ کے چچا ابوطالب نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔چچا کی موجودگی میں چچازاد بھائی حضرت علی اپنے نبی ۖ کی وراثت کا حقدار نہیں تھا۔ لہٰذا علی کی اولاد سے زیادہ چچا عباس کی اولاد خلافت کی حقدار ہے۔ ایک طویل عرصہ تک فقہ کی دنیا پر بادشاہت کرنے والے عباسی خلفاء کو سادات سے نفرت دلانے کیلئے فتوے دیتے رہے۔ حالانکہ پھر تو فتوے کی زد میںوہ خلفاء راشدین اور بنوامیہ کے حکمران بھی آرہے تھے جو نہ چچا تھے ، نہ چچازاد اور نہ ان کی اولاد؟۔ بنگلہ دیش میں جتنے بنگالی مفتی تقی عثمانی ومفتی رشیداحمد لدھیانوی کے قبیلے یا مسلک سے ہیں ان سے فتویٰ پوچھ لیا جائے کہ بنگال کا پاکستان سے آزادی حاصل کرنا درست تھا تو جواب دیں گے کہ بڑا جہاد تھا! اور پاکستانی علماء ومفتیان اس کو بغاوت اور ناجائز کہیں گے۔
ان سے فتویٰ پوچھا جائے کہ خاور مانیکا سے ریاست نے بیوی چھین کر عمران خان کیساتھ عدت میں بیاہ دی تو فتوی دیں گے کہ اگر بشریٰ بی بی کی رضانہ ہو تو بھی ریاست نے یہ ٹھیک کیا ہے اور اب شریعت کے مطابق عمران خان کاہی اختیار ہے۔ جبری نکاح کے جواز سے ان کے فتاویٰ بھرے پڑے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے خلاف جب فتویٰ لگتا تھا تو فتوے کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھنے کی بات کرتے تھے۔جب مولانا فضل الرحمن کی حیثیت کمزور تھی توفتوے لگتے تھے اور مولانا بھی سودی زکوٰة کو شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل قرار دیتا تھا۔ اب تو اسلام کے نام پر سودی بینکاری کو جواز بخش دیاہے اسلئے کہ غیبی مدد سے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی صفوں میں تگنی کا ناچ اپنی جماعت کوبھی نچارہاہے۔اسلامی سود، اسلامی ناچ اور اسلامی جاگیرداری سب کچھ دنیا میں رائج ہورہاہے۔ پہلے سے ہی آوے کا آوا بہت بگڑا ہواہے جس سے نکلنے کی ضرورت ہے ۔
سورہ بقرہ کی آیات224سے232میں تک ہدایت کا وہ نور ہے جس کی طرف امت نے اگر توجہ کرلی تو ایک ہی دن میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں عظیم انقلاب آسکتا ہے۔ آیت نمبر224البقرہ میں تین بنیادی باتیں ہیں:
نمبر1:اللہ کو ڈھال مت بناؤ کہ تم نیکی نہ کرسکو۔ نیکی کرنا تو بہت بڑے درجے کی فضیلت ہے لیکن اس میں بہت قربانی کا بھی معاملہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق اکبر کے رشتے دار مسطح نے حضرت عائشہ پر بہتان لگایا تو حضرت ابوبکر نے یہ عہدکرلیا کہ آئندہ اس پر احسان نہیں کروں گا۔ اللہ نے قرآن کی سورہ نور میں آیت نازل فرمائی کہ ”تم میں سے جو مالدار ہیں وہ یہ عہد نہ کریں کہ وہ مستحق لوگوں کیساتھ احسان نہیں کریں گے”۔
حضرت ابوبکر کی طرف سے نیکی کرنا پہلے بھی بڑی بات تھی اور پھر بہتان عظیم کے باوجود بھی نیکی کرنا بہت بڑی قربانی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے حکم واضح کیا کہ تمہارے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ نیکی کرنے سے ہاتھ روک لو۔ نیکی ہر میدان میں اللہ نے دشمنوں کو معاف کرنے سے لیکر ہرسطح پر جاری رکھی ہے اور اس کی ایک بڑی مثال یہ بھی ہے کہ جب رسول اللہ ۖ کی طرف سے واضح حکم آیا کہ چار افراد کا قتل مباح ہے۔اگرچہ وہ خانہ کعبہ کے غلاف میں چھپ کر پناہ لیں تب بھی قتل کریں۔ ان میں ایک وحی کا کاتب مرتد بن گیا تھا۔حضرت عثمان نے اس کو چھپایا اور نبی ۖ کی خدمت میں معافی کی درخواست کی تو نبی ۖ نے چہرہ انور پھیر لیا۔حضرت عثمان نے پھر آکر دوسری مرتبہ درخواست کی تو نبی ۖ نے پھر دوسری طرف منہ مبارک پھیر لیا۔ پھر حضرت عثمان نے اس طرف درخواست کی تو نبی ۖ نے تیسری مرتبہ معاف فرمادیا اور لوگوں سے فرمادیا کہ تم لوگوں نے میری بات کو سمجھ کر معاف کرنے سے پہلے قتل کیوں نہیں کیا؟۔ مرزا محمد علی جہلمی ایک مخصوص ماحول کی پیداوار ہے اسلئے اس واقعہ کو اس انداز میں بیان کیاکہ جیسے حضرت عثمان نے کوئی بڑی گستاخی کا ارتکاب کیا ہو؟۔ حالانکہ حضرت عثمان کیلئے یہ بہت بڑے اعزاز کی تھی۔ یہ نبی ۖ رحمت للعالمین تھے اور اس واقعہ سے دشمنان رسول ۖ بھی نبی کی اس عظیم صفت پر ایمان لاسکتے تھے۔ ابوجہل کا بیٹا حضرت عکرمہحالت کفر میں بھی نبی ۖ کی اس صفت پر ایمان لایا تھا۔ہند نے بھی یہ صفت دیکھ لی۔ نیکی کرنا مشکل کام ہے لیکن اللہ نے اس کا راستہ نہیں روکا ہے اور یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔
نمبر2:سورہ بقرہ کی آیت224میں دوسری بات تقویٰ اختیار کرنے سے نہ رکنے کا حکم ہے۔ تقویٰ اختیار کرنا بھی بڑا مشکل کام ہے۔ جب حضرت یوسف کے پیچھے عزیز مصر کی بیوی زلیخا پڑگئی تو حضرت یوسف نے فرمایا کہ اگر میرے رب کی طرف سے برھان نہ ہوتی تو میں اپنے آپ کو نہیں بچاسکتا تھا۔ رشوت، حرام ، جنسی خواہشات سے بچنے کیلئے انسان کو حد درجہ تعلیم وتربیت اور اچھے ماحول کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و حواء کو جنت میں تمام چیزیں اپنی خواہشات کے مطابق کھانے پینے کی اجازت دی لیکن شجرہ ممنوعہ سے روک دیا تھا۔ فرمایا:لاتقربا ہذہ الشجرہ فتکونا من الظالمین ” اس درخت کے قریب نہ جاؤپھر تم ظالموں میں سے ہوجاؤ گے”۔ پھر شیطان نے ان دونوں کو ورغلایا ۔ تقویٰ اختیارکرنا بھی بہت مشکل کام ہے۔جہاں برائی کے مواقع ہوں اور آدمی تقویٰ اختیار کرے تو یہ بھی عظیم لوگوں کی بڑی عظمت ہے۔ اس کیلئے زبردست اچھے ماحول کی بہت ضرورت ہے۔ اچھی تعلیم وتربیت کے بغیر تقویٰ اختیار کرنا بہت مشکل کام ہے۔مدارس و خانقاہوں کے ماحول میں بھی تقویٰ اختیار کرنا بڑی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بہت ساری آیات میں تقویٰ کی تعلیم دی ہے۔ جب تک دنیا و آخرت میں سخت مواخذے کا خوف نہ ہو تو تقویٰ اختیار کرنا بہت بڑی بات مگر مشکل کام ہے۔
نمبر3:سورہ بقرہ کی آیت224میں تیسری بات یہ ہے کہ اللہ کو ڈھال کے طور پر استعمال کرکے لوگوں کے درمیان صلح میں رکاوٹ مت ڈالو۔ ان آیات کا اصل موضوع یہی ہے۔
پل صراط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بال سے باریک ہے ، تلوار سے تیز ہے اور پانی سے نرم ہے۔5سو میل چڑھائی ہے،5سو میل سیدھا ئی ہے اور5سو میل اترائی ہے۔ مفتی منیر شاکر نے اس پر ایک وزیرستانی کالطیفہ بھی سنادیا ہے۔آخرت کو چھوڑ دو۔قرآن کی ان آیات میں بھی پل صراط کا منظر ہے۔
آیات224سے232البقرہ اور سورہ طلاق میں بھی دو باتوں کی وضاحت ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اگر میاں بیوی صلح کیلئے راضی ہوں تو اللہ تعالیٰ نے انکے درمیان صلح میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی ہے۔ بجلی کے کرنٹ کی طرح دنیا اس پل صراط پر گزر جائے گی مگر جس نے مفتی کا کورس کیا ہوگا وہ اس سے قطعی طور پر بھی نہیں گزر سکے گا اسلئے کہ اسکے دل اور دماغ پر فتاویٰ شامیہ وغیرہ کی وہ چھاپ لگی ہوگی جس نے اس کی انسانی صلاحیتوں کو زنگ لگادیا ہوگا۔ پنج پیری مزاج کاانسان قرآن کی رٹ لگائے گا مگر قرآن میں حضرت خضر، حضرت عیسیٰ ، حضرت ابراہیم اور نبی ۖ کا واقعہ معراج اس کے دماغ میں کبھی نہیں اتر سکے گا۔ اگر قرآن و سنت کا حوالہ دئیے بغیر اس کا تذکرہ ہوگا تو اس کو عقل، دل اور شریعت کے منافی لگے گا۔ بھیا ڈھول کی تھاپ پر جتنا چاہو ، دوسرے پر شرک وکفر کا فتویٰ لگاؤ لیکن طلاق کا مسئلہ تو سمجھ لو۔ فتاویٰ شامیہ میں تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے تو پھر تمہارے لئے تو پنجاب کی شلوار بابا والی سرکار بھی معتبر ہونا چاہیے۔ فتاویٰ قاضی خان اور فتاویٰ شامیہ سے بڑھ کر اور کیا گمراہی ہوسکتی ہے کہ سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے تک جائز قرار دے دیا۔ مفتی تقی عثمانی کو تو ہم نے تائب کرادیا لیکن مفتی سعید خان نے ریاست مدینہ سرکار کا نکاح پڑھایا تھا وہ تو اتنا بڑا جرم تھا یا نہیں؟۔ لیکن اپنی کتاب ”ریزہ الماس” میں جو فتاویٰ قاضی خان کی بات کو درست قرار دیا ہے کہ سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے؟۔ اسکا کالیا سرکار کے پاس جواب ہوگا؟۔ فقہی مسائل صراط مستقیم ہیں یا پل صراط کی گمراہانہ پگڈنڈیاں؟ جبکہ ” اللہ میاں بیوی کے درمیان صلح کی راہ میں رکاوٹ ہی رکاوٹ ہے”۔ حالانکہ اللہ نے موٹر وے سے زیادہ واضح کردیا ہے کہ یہ مذہبی فتویٰ نہیں ہوسکتا ہے کہ میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہوں اور مفتی مذہب کے نام پر ان میں کوئی رکاوٹ کھڑی کردے۔ یہی نیکی اور تقوے کا تقاضہ بھی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان کوئی بھی رکاوٹ نہ کھڑی کی جائے ۔ اسلامی مدارس میں قرآن کی اس صراط مستقیم اور موٹر وے کے خلاف سب سے زیادہ گمراہی کے فتوے اسی سلسلے میں ہی دئیے جاتے ہیں جن پرآخر میںو اللہ اعلم بالصواب بھی لکھاجاتا ہے۔یعنی اس پل صراط پر ظن وتخمین سے یہ سبھی چلتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے دوسری بات یہ واضح کردی ہے کہ اگر عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو تو پھر شوہر کو صلح کرنے کا کوئی اختیار نہیں ۔ آخری حد تک زبردست وضاحتوں کے باوجود بھی پل صراط کی یہ چڑھائی مفتی صاحبان کی سمجھ میں نہیں آئی ہے۔اسلئے جج کی طرف سے فیصلہ آ گیا ہے کہ5سال پہلے عدت میں خاور مانیکا کا استحاق مجروح ہوا تھا اور بشریٰ بی بی نے عمران خان سے جو نکاح کیا تھا تو اس میں اس نے تین طلاقیں نہیں دی تھیں اسلئے اس کو رجوع کا حق تھااور اس حق کی وجہ سے معزز عدالت نے بھی عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے۔ جس میں دونوں کو7،7سال قید اور5،5لاکھ جرمانے کی سزا ہوئی ہے۔ فقہ حنفی میں حدیث صحیحہ کے خلاف عورت کی عدت خلع میں بھی3مہینے ہے۔ خاور مانیکا نے جو تحریری طلاق دی تھی تو اس میں ایک ماہ سے زیادہ مگر3بلکہ2ماہ سے بھی کم مدت گزری ہے۔ تحریری طلاق میں3طلاق کے الفاظ نہیں جس کی وجہ سے عدت میں خاور مانیکا کو رجوع کا حق تھا۔ جج نے اسلئے نہ صرف خاور مانیکا کے استحقاق کو مجروح قرار دیا ہے بلکہ عدت میں نکاح پر سزا اور جرمانہ بھی عائد کردیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے درست کہا ہے کہ1973کے آئین کے مطابق قرآن و سنت کی قانون سازی ضروری تھی۔ جو اسلئے نہیں ہوسکی کہ پارلیمنٹ میں ایسے لوگوں کو لایا جاتا ہے جو قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کو ترجیحات میں نہیں رکھتے۔ اگر فقہ حنفی کے مطابق قانون سازی ہو تو پارلیمنٹ میں علاج کیلئے سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا بل بھی پاس ہوسکتا ہے۔ مولوی کا نصاب بذات خود قرآن و احادیث سے بالکل متصادم ہے تواس کے مطابق قانون سازی نہیں ہوسکتی ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کی سرپرستی میں قرآن و سنت کی درست تشریح کیلئے ایک لائحہ عمل تشکیل دیا جائے تو نہ صرف مدارس کے نصاب میں خوشگوار تبدیلی آئے گی بلکہ پوری دنیا پر اس کے زبردست مثبت اثرات پڑیں گے۔ میاں بیوی کیلئے یہ فتویٰ بالکل عام ہوجائے گا کہ ناراضگی کے بعد طلاق رجعی کا کوئی تصور نہیں ہے اور اگر میاں بیوی راضی ہوں تو طلاق مغلظہ اور طلاق بدعت کا کوئی تصور نہیں ۔ جب میاں بیوی کیلئے صلح کے دروازے قرآن نے کھول رکھے ہیں اور مولویوں نے بند کردئیے ہیں تو دوسرے انسانوں اور مخلوقات پر بھی صلح کے دروازے بند کئے گئے ہیں۔ قوم پرستوں اور طالبان کے ساتھ بھی صلح کی ر اہیں ہموار ہوں گی اور پڑوسی ممالک ہندوستان، ایران، افغانستان، چین، سعودی عرب، عمان اور دوبئی وغیرہ کے ساتھ بھی مثالی تعلقات قائم ہوں گے۔ پاکستان میں سونے کے بیش بہا خزانے ہیں۔ حال ہی میں بلوچستان کے اندر سیندک ، ریکوڈک سے بھی بہت بڑا ذخیرہ ایران کی سرحد پر دریافت ہوا ہے۔ اس طرح وزیرستان میں سونے اور تیل و گیس کے بڑے ذخائر ہیں۔ مذہبی اور لسانی تعصبات انسانیت کو نگلنے کا شیطانی منصوبہ ہے۔ سلال بلوچ کا تعلق پنجگور بلوچستان سے تھا۔ جس نے بیرون ملک اپنی نوکری چھوڑ کرBLAمجید بریگیڈ کے فدائین میں حصہ لیا۔ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا اور بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ وصیت کی تھی کہ مجھ پر شہادت کے بعد کوئی غم نہ منایا جائے۔ اسکی والدہ اور بہنوں نے کتنے بڑے دل کیساتھ اس کی وصیت پر عمل کیا ہوگا؟۔ ہمارے خانقاہ کے امیر شفیع محمد بلوچ نے اپنے بیٹے سے معاہدہ کیا تھا کہ ایک دوسرے کی میت کو غسل دیں گے۔ بیٹا ایکسیڈنٹ میں شدید زخمی ہوا اور باپ نے جب میت کو غسل دیا تو شاید ان کا دل پھٹ گیا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا تھا کہ اگر ہماری مذمت سے کام چلتا ہے تو کردیتے ہیں اور بہت لاشیں اٹھاچکے ہیں اب مزید لاشیں اٹھانے کو ختم کرنا ہوگا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

وزیرستان کو ڈویژن بنادو اور کانیگرم جنوبی وزیرستان کو اس کا مرکز

وزیرستان کو ڈویژن بنادو اور کانیگرم جنوبی وزیرستان کو اس کا مرکز

ملک ربنواز نے چھڑی لہرا کر کہا کہ ہم اسکے ساتھ لڑ نہیں سکتے ہیں خود کو قتل کیلئے پیش کریں گے،30ہزار مریں تو ختم نہیں ہونگے!
بیٹے کو20لاکھ میں خودکش کیلئے بیچ دینا اتنی بڑی بے غیرتی نہیں جتنی اپنی بیٹی پر نکاح کے نام پر لینا مگر عرب اور پشتون نہیں سمجھتے

ڈاکٹرماہ رنگ بلوچ کو امید ہے کہ دنیا اُٹھے گی اور بلوچ پر ہونے والے مظالم کو روکنے کا اقدام اٹھائے گی لیکن ہمارے حکام انہی کے تو پروردہ ہیں۔ شمالی وزیرستان اتمانزئی وزیر کے قبائلی ملک حاجی ربنواز نے جو گفتگو کی ہے وہ بھی جان پر کھیلنے کی مجبوری کی یہ بات کررہے ہیں کہ ”ہمارے ساتھ دھوکہ مت کرو، ہم نے تمہاری بادشاہی مان لی ، تمہیں مسلمان سمجھا ، ہم تمہیں برا بھی نہیں کہتے لیکن ہمارے ساتھ مسلمان بن کر چلو، دھوکہ نہ دو، جتنے وعدے تم نے کئے کوئی پورا نہیں کیا۔ لاٹھی کے سوا لڑنے کیلئے ہمارے پاس کچھ نہیں لیکن ہم جانوں کو قربانی کیلئے پیش کرسکتے ہیں۔30ہزار مرینگے تو کم نہیں ہوں گے”۔طالبا ن ایک حقیقت ہیں تو علاج کیا ہے؟۔
وزیرستان کا امن اتنا مثالی تھا کہ پاکستان کے عام علاقے اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ بدامنی آئی جس کی مثال بلوچستان سمیت کہیں پر نہیں۔ وزیرستان کا مسئلہ طالبان اور فوج حل نہیں کرسکتے۔ کانیگرم کی سب سے قیمتی زمین کچھ لوگوں سے دستخط کرا کر پاک فوج کو دی۔ اب فوج نے مقامی باشندوں کو عارضی نقل مکانی کراکے اپنے قلعے تعمیر کرنا شروع کردئیے ہیں ۔ اگر پاک فوج مہربانی کرے اور دی ہوئی زمین بھی واپس کردے اور اس پر ایک زبردست ائیر پورٹ بنایا جائے ۔ پھر کانیگرم سے لدھا تک کی زمین سرکاری عمارات کمشنر آفس،گھر اور دیگر اداروں کے افسروں کے دفاتراور گھر تعمیرکئے جائیں تو کلاس فور کی نوکریوں سے بھی بے روزگار طالبان باروزگار بن جائیں گے۔ میرانشاہ کے گیس کو بھی عوام اور سرکاری لوگوں کی خوشحالی کیلئے انگور اڈہ تک پہنچایا جائے۔ امریکہ اور نیٹو کو شکست دینے سے لیکر اپنے علاقے اور خاندانوں تک کوتباہ کرنے میں لوگوں نے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ وزیرستان کو ڈویژن کا درجہ دلائیں ۔شرعی مسائل کو معاشرتی سطح پر اجاگر کریں۔اپنے بیٹے کو20لاکھ میں خود کش کیلئے بیچنے سے زیادہ بڑی بے غیرتی اپنی بیٹی کو نکاح کے نام پر بیچنا ہے مگرافسوس ہے کہ عرب اور پشتون نہیں سمجھتے ہیں۔حقائق کی طرف لوگوں کو توجہ دلائیں۔

گوادر و تربت میں ایسا لگتا ہے کہ کسی اور ملک نے قبضہ کیا ہو، ہودبائی

فوج ہی فوج ،چیک پوسٹ ہی چیک پوسٹ،ہر پہاڑی پر مشین گنیں لگائی ہیں، مورچے بنائے ہیں!
گوادر میں جو میں نے دیکھا تربت میں دیکھا ۔ فوج ہی فوج چیک پوسٹ ہی چیک پوسٹ۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی اور ملک نے آکر قبضہ کیا ہوا ہے اس پر۔ تو ہر پہاڑی کے اوپر مشین گنیں لگائی ہیں ، مورچے اور قلعے بنائے ہیں اور ہر سڑک پر آپ ادھر سے اُدھر جائیں پوچھ کر روکتے ہیں کون ہیں آپ؟، کہاں سے ہیں ؟۔ ٹھیک ہے، وہ مجھے نہیں روکتے کیونکہ میں باہر کا ہوں ناں۔ باہر کے لوگوں کیلئے ٹھیک ہے لیکن ادھر کے جو مقامی لوگ ہیں ایسا لگتا ہے کہ ان پر قبضہ ہوا ہے کسی باہر کی …۔ گوادر کے اطراف میں دیکھیں ، زمینوں پر جو قبضہ کیا ہے یہاں فوج، یہاں کسٹمز ، یہاں نیوی، یہاں کوسٹ گارڈ، یہاں پیراملٹری، سب نے اتنی زمین وہاں پر گھیری ہوئی ہے اور اُدھر یہ بنائیں گےDHAاور اسی طرح کی چیز۔ آخر لینڈ مافیا تو ہر طرف ہے۔ اب جو اُدھر کے گوادری ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تو اِدھر سے دھکیلا جارہا ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ وہاں مچھیرے ہیں ۔ صدیوں سے یہی کام کرتے چلے آرہے ہیں۔ اب ادھر جو انہوں نے بندرگاہ بنائی ہے اس بندرگاہ سے تو ان کو ایک طرف کردیا۔ ادھر جو سڑک جاتی ہے تو سڑک کے ایک طرف یہ کشتیاں بناتے ہیں اب اس سڑک کو وہ استعمال کرنے نہیں دیتے اور دھمکی دی ہے کہ یہاں سے ہم ایک اور سڑک نکالیں گے جو ٹھیک بندرگاہ کی طرف جائے گی تو اب آپ لوگ یہ استعمال نہیں کرسکیں گے۔ تو وہ پھر کہتے ہیں کہ ہم لوگ اپنی کشتیاں کیسے بنائیں؟۔ یعنی ادھر جو ہم صدیوں سے کرتے آئے ہیں۔ کہتے ہیں جاؤ تمہیں جدھر بھی جانا ہے جاؤ۔ یہ بے حسی جو ہے ناں یہ مارڈالتی ہے۔ اب یہ کیسا پاکستان ہے جو صرف پنجاب کیلئے بنا ہے؟۔ یہ نہیں چلے گا، نہیں چلے گا۔

ٹیپو سلطان لتا حیائ

ہمارے جو ہیرو ہیں چونکہ وہ مسلمان تھے اسلئے ان کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نام بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بڑے دم خم کے ساتھ جب یہ فیشن چلا ہوا ہے کہ ٹیپو سلطان کو بدنام کیا جائے تو لتا حیاء اسٹیج سے ٹیپو سلطان پر نظم کہتی ہے آپ سب کے سامنے سنئے گا۔ کہنے کی کوشش کی ہے سنئے۔ جب میں میسور گئی اور ٹیپو سلطان کے مزار پر گئی تو مجھ پر یہ نظم ہوئی اجازت ہے سنئے گا اور آخری مصرعے پر غور کیجئے گا۔
جس کا ہے اتحاس سنہرا یہ وہ ہندوستان ہے
سمے سے کب ہے کوئی جیتا سمے بڑا بلوان ہے
لیکن جس کے نام سے سہمے بڑے بڑے بلوان کئی
تھرائیں بندوقیں جس سے سہمے تیرکمان کئی
کرناٹک کی دھرتی پر ایک شیر دہاڑا کرتا تھا
دشمن کے سینوں کو اپنی تیغ سے پھاڑا کرتا تھا
جس کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے بندوقیں تھراتی تھیں
اس کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے پربت تک ہل جاتے تھے
دانتوں تلے فرنگی اپنی انگلی سنا چباتے تھے
کوئی کچھ بھی بولے سچ کہنا میری پہچان ہے
وہ شیر میسور ہے بھارت کا ٹیپو سلطان ہے
صدیوں میں پیدا ہوتا ہے اک ٹیپو جیسا راجہ
جو نہ کیول ہمت والے تھے عالم فاضل بھی تھے
جس نے کرناٹک کی شیروں کی طرح رکھوالی کی
پر اس کے لوگوں نے اس کے ساتھ حیاء غداری کی
اس کی یوں بے خوف شہادت تاریخی بلدان ہے
وہ شیر میسور ہے بھارت کا ٹیپو سلطان ہے
ٹیپو کی درگاہ پہ آکر آج عجب احساس ہوا
مرے رونگٹے کھڑے ہوگئے دل میں بھی کچھ خاص ہوا
دفن نہیں ہے فقط یہاں پر جسم کسی سلطان کا
دفن ہے اک اتحاس یہاں پر پورے ہندوستان کا
جس کی دو تلوار دیکھ کے دشمن کی جان نکلتی تھی
جس کی لاش بھی چھونے سے انگریزی سینا ڈرتی تھی
راکٹ سے لے کر ماڈرن کلینڈر کے موجد ٹیپو
کم پڑ جائے گا ان کے بارے میں جتنا بھی لکھو
نظم ہے میری بالکل چھوٹی ٹیپو بڑا مہان ہے
وہ شیر میسور ہے بھارت کا ٹیپو سلطان ہے

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv