جولائی 2018 - Page 3 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

پاکستان میں پانی کے بحران کا ہنگامی بنیاد پر آسان حل

kalabagh-dam-tharparkar-karachi-rivers-of-pakistan-bhains-colony-karachi-Jam-Kando-Karachi

مدیر مسؤل نوشتۂ دیوار نادرشاہ نے کہا چیف جسٹس ثاقب نثارنے پانی کا مسئلہ تو اٹھادیا، اسکے حل کیلئے معروضی حقائق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سندھ کویہ خوف ہے کہ پنجاب کالاباغ ڈیم سے صحراؤں کو آباد کرکے سندھ کو پانی سے محروم کریگا اسلئے اسے زندگی موت کا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ غیراسلامی جاگیرداری نظام ختم کیا جائے، صوبہ سندھ میں دریا کے مختلف مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کی جائیں، جس سے پانی دریامیں رُکے۔گھوٹکی سے ٹھٹھہ تک مختلف مقامات پر چھوٹے بڑے ڈیم بنائیں اور کراچی وتھرپارکر کیلئے خصوصًا اور سندھ کی باقی آبادی کیلئے بالعموم نہری نظام بنائیں ، یہ آسان اور سستا ہے۔ پہاڑی ومیدانی علاقے کے بچے ندی نالوں میں رکاوٹیں کھڑی کرکے پانی کی سطح بلندکرتے ہیں، جب پانی نہ ہو تو یہ پانی پینے اور مویشی کے کام آتاہے۔ ندی یا پہاڑیوں سے پتھر اٹھا کر لوہے کے جال سے سہارا دیا جائے۔ دریا میں ہمہ وقت وافر پانی کی گنجائش ہے اوراسکا فائدہ اُٹھایاجائے تو زمین کے اندر بھی پانی کی سطح بلند اور کھاری کی جگہ میٹھا پانی آجائیگا اور چھوٹے ڈیموں پر بجلی کے منصوبے بھی لگ سکتے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کی زمینوں پر سرکاری محکموں سے مل کر قبضہ کیا جارہاہے ۔کراچی کا پانی بھی چھین لیا۔اگر حیدر آباد کراچی کی راہ میں ڈیم بنا تو ملیراور لیاری ندیاں پانی سے مالامال ہوں گی۔
کراچی میں جہاں بارش کے پانی سے ذخیرہ بناکر زیرِ زمین پانی کا بندوبست کیا جاتا تھا اسکا راستہ بند کردیا گیا۔ جس کی ایک مثال بھینس کالونی موڑ سے آگے جام کنڈو راستہ میں سورتی کمپنی کے پاس خشک ندی ہے۔ جب سندھ وکراچی کو بڑی مقدار میں پانی ملے تو کالاباغ ڈیم، دریائے سندھ اور باقی دریاؤں سے پانی کے ذخائر کا موقع ملے گا۔ پانی وبجلی کا محکمہ وفاقی ہے ،وفاق سندھ سے ابتداء کرے تو مسائل کے حل میں مشکل کا سامنا نہ ہوگا۔ بلوچستان تربت بلیدی میں MPA نے سرکاری فنڈز سے بارش کے پانی سے کئی ڈیم بنائے، علاقہ سرسبزوشاداب کردیا جو قابلِ تقلیدتھا مگر ہماری سیاست، صحافت ریاست ، عدالت کے دھندے اور لگن جدا ہیں ۔ سندھ کبھی کربلا،کبھی طوفان نوح کا منظر پیش کرتاہے مگر وفاق کو صرف پنجاب کی فکر اسلئے ہے کہ مریم نواز اور ن لیگیوں نے صحرائیں خرید لی ہیں۔ کراچی میں پانی کے مسئلہ پر بلاول بھٹو پر لیاری میں پتھراؤ ہوا، سیاستدان یہ اڑا رہے ہیں کہ رینجرز نے پانی کا مسئلہ بنایا ہے، زرعی زمین کے کنوؤں سے بھی میٹھا پانی ٹینکروں کو نہیں اٹھانے دیا جارہا ہے ۔ ایسا تو یزید ، چنگیز ، فرعون اور نمرود نے بھی نہ کیا ۔ درندوں کا پیٹ بھرتا ہے مگر حکمران کا پیسے سے نہیں ۔

Nadir-Shah-Map-River

پی ٹی ایم نے کبھی ریاست اور اسکے اداروں کیخلاف بات نہیں کی اور نہ کرے گی. منظور پشتین

manzoor-pashtoon-zaid-hamid-lal-topi-wala-dumkata-ayub-masood-halala-maulana-noor-muhammad-shaheed-

Asif-Manzoor

کوئٹہ( عبدالعزیز)کالم نگار نوشتۂ دیوار امین اللہ یوسفزئی نےPTMکے منظور پشتین کوخراج تحسین پیش کیا کہ پختون قوم میں شعوروبیداری کا اعزاز تیری قسمت میں لکھا تھا، جان پر کھیل کر دنیا کی آنکھیں کھول دیں۔ فوج نے خیر مقدم کیا اور کافی مطالبات بھی مان لئے۔ جب کسی میں کھل کر یہ پوزیشن لینے کی جرأت نہیں تھی کہ ناروا سلوک پر ہلکا سااحتجاج بھی کرسکے تو منظور پشتین نے قیادت کا حق ادا کردیا ہے۔
لال ٹوپی سے انقلاب آتا تو زید حامد لاچکا ہوتا، جس کو اللہ تعالیٰ ایک لمبی دُم سے نواز دیتا تو عوام اس کی حماقت سے بے خبر نہ ہوتے مگر اللہ تعالیٰ ستارالعیوب ہے۔ PTM کا یہ فیصلہ اچھا تھا کہ پارلیمانی سیاست میں حصہ نہ لے گی اور وجہ یہ نہ تھی کہ جمہوری نہیں بلکہ انقلابی جدوجہد کرنی ہے بلکہ وجہ یہ تھی کہ پارٹیوں کو PTM نے خفا نہیں کرنا ۔PTM کا ورکراپنی اپنی پارٹی کو سپورٹ کررہاہے۔ عمران خان نے علی وزیر کو اسلئے ٹکٹ کی پیشکش کی اور PTMکا منشور درست اور حقائق کے مطابق قرار دیا کہ اس تحریک کے ورکروں کی حمایت لینی تھی۔
جب جنگ اخبار میں لسانی فساد کو تقویت دی جارہی تھی تو یہ سرخیاں چھپ گئیں کہ ’’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’’ سرکار ﷺ کا لحاظ تھا ورنہ قرآن بھی اردو میں اتارا جاتا‘‘۔ یہ لسانی ،قومی اور ملکی جذبہ انسانی فطرت ہے۔ اس میں محبت کی چاشنی ایمان اور تعصبات کی بیماری کفر کے مترادف ہے۔ پشتو شاعر نے کہا: ’’ لوگ کہیں کہ دوزخ کی زباں ہے ، میں جنت میں پشتو کیساتھ جاؤنگا‘‘۔ پختون کے علاوہ پاکستان کی تمام قوموں بلوچ، پنجابی، سندھی، سرائیکی، مہاجر اور کشمیری سب میں لامحدود خوبیاں ہیں۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ بھی انشاء اللہ پاکستان سے ہوگی۔ کسی بزرگ نے مچھر کی تعریف کی کہ میں اس کو دل سے پسند کرتا ہوں، پہلے ایک کان میں سائرن بجاتا ہے، پھر دوسرے کان میں بجاتا ہے پھر پاؤں پر بیٹھ کر ہلکا کاٹ لیتا ہے، پھر بازو پر کاٹ لیتا ہے، پھر چہرے کو بھی کاٹنا شروع کردیتا ہے۔ جب تک تہجد کیلئے اُٹھ نہ جاؤں وہ میرا پیچھا نہیں چھوڑتا ۔ ادیب نے جس وقت مچھر پر یہ مضمون لکھا اسوقت ڈینگی نہ تھا ورنہ تعریف میں احتیاط کرتا۔ بہر حال مضمون نگار نے لکھا کہ مچھر نے بزرگ کا قصہ سناتے ہوئے اپنی شرمندگی کا اظہار کیا کہ جب وہ نماز پڑھتا ہے تب بھی اس کی ٹانگوں پر کاٹنے کا سلسلہ بھی جاری رکھتا ہوں۔
رسول اللہ ﷺ کا تعلق قریش سے تھا۔ اسماعیل ؑ اصلی عرب عرب عاربہ نہیں مستعاربہ تھے۔ عرب وعجم میں نسلی امتیاز ہے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام عجم تھے ، بنی اسرائیل و بنی اسماعیل نسلاً ایک البتہ قریش عرب کا حصہ بن گئے ۔ اللہ تعالیٰ نبیﷺ کے آباواجداد کو پاکستان میں بھی آباد کرسکتا تھا لیکن عربی زبان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے عربوں میں آباد کیا ۔ مشرقی ومغربی پاکستان میں کوئی مقامی زبان ایسی نہ تھی جسے قومی زبان قرار دیا جاتاتو اللہ نے چند سوسال پہلے لشکری زباں اردو کو وجود بخشا۔ عربی گرائمر دیکھنے کے بعدیہ اندازہ مشکل نہیں کہ اتنی فصیح و بلیغ زبان انسانی دسترس میں نہیں بن سکتی۔ اگر نبیﷺ وزیرستان کے محسود ایریا میں مبعوث ہوتے تو پختونوں کیلئے بھی وہ پشتو بہت مشکل ہے۔ ایک عالمی دین کیلئے ضروری تھا کہ عربی میں نازل ہوتا۔ اردو تو اس وقت دنیا میں موجود بھی نہیں تھی لیکن اردو کیلئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ پاکستان میں مقامی زبانوں کو چھوڑکر اسی کو قومی زبان قرار دیا ۔ یہ سرکار کی نالائقی ہے کہ اب تک اس کو سرکاری زباں میں تبدیل کرنے کی کوشش نہ ہوئی۔
محسوداور پاکستانی قوم میں موجودہ عربوں کے مقابلے میں زیادہ خوبیاں ہیں۔ اللہ نے سورۂ محمد میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا : ثم لایکون امثالکم ’’ وہ پھر تمہارے جیسے نہ ہونگے‘‘۔جب طالبان نے وہاں کے شریف لوگوں کوقتل کرنا شروع کیا اور فوج کے جوانوں کو نشانہ بنایا تو اس وقت یہ قوم خلعتِ افغانیت سے بقول اقبال کے عاری تھی۔ منظور پشتین کو یاد نہ ہوگا لیکن اسکے علاقے میں فوج کی پوری کانوائی کو قتل کیا گیا جس میں ایک فوجی شعبان بچ سکا تھا۔ جب حملے کی وجہ سے اس علاقے کو خالی کرالیا گیا تو ایوب نامی ایک شخص جٹہ قلعہ علاقہ گومل میں عتیق گیلانی کے کزن کی بیٹھک میں بچوں کیساتھ آیا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ اسکا بھائی حملے میں شریک تھا۔ ایوب محسود نے بتایا کہ میری ہمدردیاں طالبان کیساتھ تھیں لیکن فوجیوں کیساتھ ظلم وستم دیکھ کر ان سے نفرت ہوگئی۔ شعبان نے پنجابی میں اپنے ماموں سے کہا تھا کہ میری ماں کو نہیں بتانا کہ میں گرفتار ہوا ہوں تو کلیجہ پھٹ رہا تھا۔ چینیوں کو اغواء کیا گیا تو اس آپریشن میں شعبان رہا ہواتھا۔
اس وقت قوم چند طالبان کو پکڑ لیتی تو یہ بیماری بڑھتی اور نہ قوم کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔ عتیق گیلانی کے گھر پر حملہ ہوا تو ایک طرف فوج کی بھرمار میں طالبان اسلحہ بردار گھومتے تھے۔ دوسری طرف کچھ عرصہ بعد فوج نے عتیق گیلانی کے عزیزکے گھر پر چھاپہ مارا اور طالبان کی پک اپ برآمد کرکے بارود سے اڑادی۔ آئی ایس آئی کے اہلکار نے خبر دی کہ اس کو خود کش کیلئے تیارکیا گیا تھا۔ عتیق گیلانی پر جب فائرنگ ہوئی تب بھی اس کو جلاوطن ہونا پڑا مگر بھائیوں اور رشتہ داروں نے طالبان کیساتھ مراسم بحال رکھے۔پاک فوج نے بہت غلطیاں کی ہونگی لیکن سب کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا پڑیگا۔ پاک فوج کے جوان اپنی غربت کی وجہ سے معمولی تنخواہوں پر کام کرکے جان کا خطرہ مول لیتے ہیں۔ وزیرستان ، پختون خواہ اور پاکستان میں امن کی بحالی پاک فوج کی نڈر قیادت جنرل راحیل شریف وجنرل باجوہ کی وجہ سے ممکن ہوسکی ۔ جنرل مشرف اور کیانی کے دورکی بات بھی چھڑجائے تو طالبان کیلئے پختون قوم کوہی قتل کرنا پڑتا، اور پختون ہی نہیں سب ہی طالبان کے بھر پور حامی تھے۔
وانا میں عوام مولانا نور محمد شہیدؒ کے خاندان کو پہلے سے فی کریٹ سبزی اور پھلوں پر ٹیکس دیتے تھے۔ اس گھرانہ کی زکوٰۃ نکال لی جائے تو وزیروں میں غریب نہیں رہے گا۔ امن کمیٹی کے افراد نہ ہوں تو فوج مقامی لوگوں میں امن کا قیام ممکن نہیں بناسکتی ہے اسلئے کہ دور دراز سے آئے ہوئے مسافر اہلکاروں کو کیا پتہ چلتا ہے کہ کون دہشت گرد ہے ؟ اور کون امن پسند؟۔ منظور پشتین نے اپنے بیان میں محسود ایریا میں موبائل نہ ہونے اور مشکلات کا ذکر کیا مگر جب لونڈا طبقہ غریب سپاہیوں کے چیک پوسٹوں پر نعرہ لگائیں کہ ’’یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے‘‘ تو اپنے لئے وہ مزید مسائل پیدا کرینگے۔ محسود ایریا میں پھر سے شرپسندی نے سر اٹھالیا اور فوج کے سپاہیوں کو سختی کرنے کا آرڈر مل گیا۔ منظور پشتین ساتھیوں کیساتھ ایسا ماحول بنائیں کہ مہمان اور غریب سپاہیوں کے دل جیت لیں۔ فوج کو عوام کا خیال نہ ہو تو پاگل کتوں نے نہیں کاٹا ہے کہ غریب سپاہیوں کو ایک جنگلی، خطرناک اور پہاڑی علاقہ میں سڑکوں پر بٹھادیں۔ نوجوان بے دریغ پاک فوج زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ پھر امن کمیٹی کے نام پر سرنڈر طالبان کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ جو عوام کے خوف و ہراس اور فوج سے بداعتمادی کی فضاء کا فائدہ اٹھاکر لوٹ مار کرتے ہیں۔ اگر اپنی قوم کی مشکلات میں اضافہ کیا تو منظور پشتین اور PTMسے نفرت کی فضاء بنے گی۔ جو عوام کو سہولت دینے نکلے تھے اور مشکلات سے دوچار کیا تو فائدہ کیا ہوگا؟۔
ایوب محسود جٹہ قلعہ سے گیا تو ایک دن حلالے کا کیس مولانا شبیر برمی کے پاس لایا۔ عتیق گیلانی نے کہا کہ حلالہ سے عورت پہلے شوہر کیلئے جائز نہیں ہوسکتی یہ حرامکاری ہے ورنہ مولوی نے حلالہ کا فتویٰ دیا تھا۔ پھر شاید حلالہ کروایا بھی ہوگا لیکن حلالہ کی وجہ سے جو تکلیف اس خاندان کو پہنچی ہوگی ، یقیناًیہ تکلیف گیلانی خاندان کو قتل وغارت سے نہیں پہنچی۔ کاش! اسوقت گیلانی نے حلالہ کا مسئلہ حل کیا ہوتا۔ اب بھی اسلام سے معاشرتی نظام کے انتہائی ظالمانہ اور بھیانک معاملات کا رخ بدلا جاسکتا ہے اور اس کیلئے بفضل تعالیٰ ہم غرباء کو کافی حد تک کامیابی مل گئی ہے۔

وانا جنوبی وزیرستان میں امن کمیٹی اور پی ٹی ایم کے درمیان فوج نے لڑائی روکی. آصف غفور

ispr-major-general-asif-ghafoor-good-taliban-ptm-manzoor-pashtoon-adiala-jail-baba-farid-imran-khan-murgha

Asif-Manzoor

دارہ اعلاء کلمۃ الحق کے جنرل سیکرٹری محمد فاروق شیخ نے کہا سوشل میڈیا پر برپا انقلاب کا راستہ روکنا ممکن نہیں۔ رمضان میں وانا وزیرستان کے عوام نے فوج کو دھکے دئیے، فائرنگ کرنیوالے گڈ طالبان کی طرف دھکیلا، پشتو میں گالی دے کر کہا کہ ہمیں گولی مارو۔گڈ طالبان کے دفاتر کو آگ لگادی، وردی والوں کے سامنے جنرل باجوہ اور آصف غفور ، کرنل جنرل سب کو دہشتگرد قرار دیا۔ نیٹ پر عجیب وغریب مناظر کی ویڈیوکلپ چل رہی ہیں۔ دنیا بھر میں اسلام آباد سے گرفتار PTM کے کارکنوں کی رہائی کیلئے مظاہرے اور سوالات اٹھائے گئے کہ سوات سے وزیرستان تک طالبان نے قتل وغارت کا بازار گرم کیا، ملا فضل اللہ فوج کو کافر قرار دیتا ، عدلیہ اور جمہوری نظام کو کفر قرار دیتا، میڈیا میں خبروں کی بھرمار ہوتی، FM ریڈیو چلتا، سکولوں کو اڑایا جاتا اور بچیوں کی تعلیم پر پابندی لگادی مگر ریاست نے ان کو غدار نہیں کہا، پروپیگنڈہ نہیں کیا، میڈیا پر پابندی نہیں لگائی اور دوسری طرف PTMاور اسکے قائد منظور پشتین کا چہرہ ہے جس نے امن کا جھنڈا اٹھایا، آئین کی بات کرتا ہے۔ تحفظ دینے کا مطالبہ کررہاہے۔ کوئی گولی، لاٹھی، پتھر اور ہاتھوں میں مٹی کے کنکر تک نہیں اٹھائے ۔ پھر بھی غدار، را کا ایجنٹ، کافر قرار دیا جارہاہے۔ منظور پشتین نے کہا کہ جو کام طالبان دہشت گرد کرتے تھے ،یہ وہی کررہے ہیں ،دونوں دہشت گرد ہیں۔ جیل میں جاتے اور نکلتے وقت قیدیوں کے حوصلے بلند اور خوش تھے۔ بلوچوں نے ریاست کیخلاف ہتھیار اٹھائے، ایم کیوایم اقتدار کی دہلیز تک بار بار پہنچی مگر PTM نے کالے سفید جھنڈوں سے جس پر امن انداز میں پذیرائی حاصل کرلی۔ اسکا راستہ تشدد سے روکا گیا تو بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑیگا۔یہ عوام کی بہادری، جرأت، جسارت اور دلیری کا ایک ایسا تاریخی کارنامہ ہے کہ اس کی مثال ڈھونڈنے سے نہیں ملتی ۔ اگر فوج کرفیو نہ لگاتی تو گڈ طالبان کے خلاف سرتاپا احتجاج عوام سب کا قلع قمع کردیتے۔ سوال ہے کہ 27افراد کورہا کیا جو بغاوت اور غداری کے سخت ترین مقدمے میں قید تھے لیکن وہ باہر آکر بتارہے تھے کہ اڈیالہ جیل میں 5ہزار قیدیوں کا بہت برا حال تھا جن میں 3500پٹھان تھے جو معمولی معمولی دفعات کے تحت قید تھے لیکن ان کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ اب یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ جنہوں نے پارلیمنٹ کا دروازہ توڑ دیا، PTV قبضہ پر مبارکباد کا تبادلہ کیا، پولیس کی درگت بنائی اور تھانے سے زبردستی ساتھی چھڑالئے ۔ ان کو اڈیالہ جیل ایک رات کیلئے بھی نہ بھیجا۔ عمران اپنی بیگم کیساتھ بابا فریدؒ کے مزار پر مرغا بننے کے بجائے یہ اعلان کرے کہ مجھ سے اور PTMکے ورکرز سے جو امتیازی سلوک ریاست نے کیا ، بھرپور مذمت کرتا ہوں اور ہم ریاست کی اس ذہنیت کو بدل ڈالیں گے۔ صرف علی وزیر کی حمایت کرنے پر معاملہ کبھی درست سمت نہیں جائیگا۔

Asif--Ghafoor-Pic

میجرجنرل آصف غفور نے کہا: ’’کچھ نے فوج کے خلاف نعرہ لگایا، جس پر مقامی افراد نے ان کو طلب کیا، دونوں فریق کے درمیان جھگڑا شروع ہوا۔ فوج نے لڑائی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس میں کوئی بچی نہیں مری ۔ کہا جارہاہے کہ فوج یا طالبان نے فائرنگ کرکے بندے مارے ۔ ہم اس نبیﷺ کے امتی ہیں جو خود پر سہہ کر معاف کردیتے تھے۔ فوجی وردی پہننے سے کوئی پاک نہیں ہوجاتا ، ان کی بھی غلطی ہوسکتی ہے‘‘۔ قتل وغارتگری کرنیوالے کس کے پیڈ لوگ تھے ؟ ۔ پتہ پریس کانفرنس بتارہی ہے۔ حقائق کے تناظر میں اس نعرے سے نہیں روکا جا سکتا کہ ’’یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے‘‘۔ ISPR کی پریس کانفرنس غلط فہمی کا ازالہ نہیں بلکہ اعترافِ جرم ہے۔ انگوراڈا سے شکئی تک وزیرستان کی چار تحصیلوں کے وسیع علاقہ میں کرفیو نافذ رہا مگر الیکٹرانک و پریس میڈیا سے عوام کو خبر بھی نہ پہنچنے دی گئی۔ پریس کانفرنس میں بھی نہیں بتایا تو عوام اس نتیجے تک پہنچنے پر مجبورہونگے کہ’’ دال ہی کالی ہے‘‘۔
سوشل میڈیا پر ویڈیوز میں پختونوں نے احتجاج کا جو انداز اپنایا ، اسکا دنیا پر کیا اثر مرتب ہوگا؟۔ کشمیر، فلسطین، افغانستان اور دنیا کے کسی کونے کھانچے میں اس خوبصورتی کیساتھ آزادی، ریاست سے تصادم اور فوج کے خلاف نعرے نہیں لگے ہیں۔ اگرچہ ان کی تعداد تھوڑی ہے لیکن کوئی حادثہ پورے خطے کا نقشہ بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگائے گا۔ یہ کون لوگ ہیں؟۔ گھربار، افراد، قبیلہ اور علاقہ کی قربانی دینے والے سالوں سال سے در درکی ٹھوکر کھانے والے قبائلی عوام ۔ انگریز کے دور میں بھی اور آزادی کا جھونکا آنے کے 70سال بعدبھی ریاستی قوانین اور ڈسپلن کے دائرے سے آزاد قبائل ۔ محراب گل افغان کے نام سے علامہ اقبال نے محسود، وزیر اور شیرشاہ سوری کا تذکرہ کیا اور انقلاب کی نوید سنائی ہے۔ پاکستان اسلام کیلئے بناتھا۔ جنرل اشفاق کیانی کے بھائی کو انٹر پول سے اپنی دولت سمیت لایا جاتا تو زرداری اور نوازشریف کی دولت بھی بیرون ملک سے لانے میں دشواری نہ ہوتی۔ زرداری نے کتنی بڑی بات صرف میڈیا ٹرائیل پر کہی کہ اینٹ سے اینٹ بجا دینگے۔ نوازشریف کتنی دولت لوٹ کر لے گیا؟۔ پارلیمنٹ اور میڈیا میں اپنی جھوٹی صفائی پیش کردی اور عدالت میں رپورٹ دینے کا چیلنج مخالفین کو دیا۔ جب عدالتوں میں کیس چلا، ثبوت نہیں ملا تو فوج پر غلط پشت پناہی کا الزام لگادیا اور بنگلہ دیش کی طرح پنجاب الگ کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ قبائل نے کھایا پیا کچھ نہیں، قربانیوں پر قرنیاں دیں۔ تذلیل پر تذلیل برداشت کی۔ ایک علاقہ میں آپریشن کا اعلان ہوتا، عوام دربدر ہوتے۔ طالبان دوسرے علاقے میں منتقل ہوتے، علاقہ کلیئر قرار دیا جاتا تو عوام کیساتھ طالبان بھی پہنچتے۔ زیادہ تر عوام ہی آپریشن میں جیٹ طیاروں کی زد میں آتے۔ یہ سلسلہ لمبے عرصے تک چلا۔ عوام کی تکلیف پر منظور پشتین نے تحریک شروع کردی جو مقبول ہوگئی۔
منظور پشتین کے خاندان کو نہ فوج نے نقصان پہنچایا ہے نہ طالبان نے۔ وہ عوام اور اپنی قوم کے درد کیلئے اٹھا ہے۔ البتہ علی وزیر کے بڑے جوان بھائی فاروق کو طالبان نے شہید کیا۔ پھر انکے والد کو شہید کیا پھر خاندان کے 17 افراد کو شہید کیا گیا۔ پاک فوج نے بھی انکی مارکیٹوں کو مسمار کردیا۔ شریف خاندان ہے، کسی قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہے۔ اپنا پیٹرول پمپ تھا۔ کاروبار تھا اور بڑی جائیداد کے مالک ہیں۔ شرافت جرم بن گئی ۔ فوج اور طالبان نے خوامخواہ دشمن سمجھ لیا۔
منظور پشتین کا تعلق غریب گھرانے سے ہے۔ علی وزیرنے محسود تحفظ موومنٹ کا ساتھ دیا تھا تاکہ وزیروں کے محسود بھائی تاریخ کے بدترین جبروظلم سے نکل سکیں۔ علی وزیر نے خود یہ درد محسوس کیا تھا۔ جہانگیرترین اور عمران خان کی جوڑی جدا ہوسکتی ہے ۔ عمران خان بیگم بدلنے میں شرم محسوس نہیں کرتا تو رہنما ء کی تبدیلی کوئی بات نہیں۔ علی وزیر اور منظورپشتین ایک ہیں۔ اگر اس تحریک کو کالے سفید جھنڈوں کیساتھ دنیا میں پذیرائی مل گئی تو کشمیر سے فلسطین کی آزادی تک دنیا کے مسائل حل ہونگے۔ کاش ! ہمارا برسر اقتدار طبقہ اور یہ لوگ ایک اور نیک ہوجائیں۔

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ مخالف اور کٹھ پتلی سیاسی جماعتوں کیلئے عدل و انصاف کے پیمانے الگ الگ ہیں

imran-khan-general-kayani-justice-iftikhar-chaudhry-nawaz-sharif-nazaryati-hijra

نوشتۂ دیوارکے ایڈیٹر اجمل ملک نے کہا: کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ مخالف اور کٹھ پتلی بیانیہ رکھنے والی جماعتوں کے درمیان عدل وانصاف کے پیمانے مختلف ہیں۔ نوازشریف نے ساری زندگی کٹھ پتلی کی طرح گزاری، اب بھی شہباز شریف کو ن لیگ کا صدر بناکر کٹھ پتلی بننے کی راہ ہی ہموار کررہا ہے۔ 2013کے الیکشن میں ٹی وی چینل پرNA1پشاور سے دھاندلی کی خبر آئی اور گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھائی تمام جماعتیں کہتی تھیں کہ کھلا دھاندلا ہوا۔ اب تو انتخابات سے قبل ہی شور برپاہے۔ شہبازشریف طالبان سے کہتا کہ پنجاب میں دھماکے نہ کرو، ہم تمہارے ساتھی ہیں اور عمران خان ضرب عضب کے بعد تک پنجاب پولیس کو طالبان کے حوالہ کرنے کی بات کرتا تھا۔ بڑی مشکل سے آرمی پبلک سکول واقعہ پرشمالی وزیرستان آپریشن کیلئے اتفاق رائے پیدا ہوا۔ اور اب بے شرمی سے دہشتگردی کے خاتمے کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ جنکو دہشتگردوں کی حمایت پر چوکوں پر لٹکانا چاہیے تھا انکو باری باری اقتدار دیا جارہاہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کا کمال ہے جو بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی ہے۔ ’’یہ جوسیاست گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے‘‘۔ بلوچوں کے بعد پختونوں کو کھودیا گیا تو پاکستان کا نقشہ بدل جائیگا۔ جبر کی زنجیر سے امریکہ بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ آزادی کے بعد سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ نے نالائق سیاستدانوں کے ذریعے سے ملک وقوم کا بیڑہ غرق کردیا ۔بیویوں سے وفا نہ کرنیوالا پاکستان سے کیا وفا کرے گا؟۔ مخلص کارکنوں، جماعت کے رہنماؤں اور قائدین سے جس نے وفا نہیں کی وہ ملک وقوم کا کیسے وفادار ہوسکتا ہے؟۔ووٹ اور نوٹ کی خاطر کونسا ڈرامہ نہیں رچایا ہے؟۔ غریب کارکنوں ، نظریاتی قائدین اور اے ٹی ایم مشینوں تک سے کوئی طبقہ وہ نہیں ہے جس سے بے وفائی کا مظاہرہ نہیں کیا ہو؟۔ وزیراعظم بننے کیلئے طالبان سے وہ بریلوی مکتب کی طرف بھی یوٹرن لے لیتا ہے۔ لوٹوں کے طوفان میں لٹو بننے والا نظریاتی نہیں ہوسکتا ہے۔ ہر الیکشن میں اس نے نظریے سے یوٹرن لیا ہے اور پھر پشیمانی کا اظہار بھی کرتا رہاہے۔ میجر رجنرل ظہیر الاسلام عباسی سیدعتیق الرحمن گیلانی کے پاس گومل گئے تھے تو وہاں ایوب خان بیٹنی سے ملاقات ہوئی۔ عباسی صاحب نے ایوب بیٹنی سے کہاکہ آپ نے عمران یہودی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا؟۔ عتیق گیلانی نے عباسی صاحب سے کہا کہ ضلع ٹانک میں JUIکا سب سے بڑا مرکز مولانا فتح خان کی جامع مسجد ہے اور جو دونوں کا مشترکہ مرکز تھا۔ مشکل حالات میں ایوب بیٹنی نے عمران خان کا ساتھ دیا تھا ،اگر آزاد حیثیت سے وہ الیکشن لڑتے تو جیت جاتے مگر عمران خان کیلئے خود کو ہرادیا۔ پھر ٹانک سے تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی کے دیرینہ کارکن داور خان کو ٹکٹ دیدیا اور ایوب بیٹنی سے ناطہ توڑ لیا۔داورخان کنڈی بھی شریف انسان ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی سیاستدانوں کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ نوازشریف70سالہ عمر میں محمود خان اچکزئی کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ ’’اب میں بھی 100%نظریاتی ہوگیا ہوں‘‘۔ 70سالہ ہجڑا کہے اب میں پیٹ سے ہوں تو ممکن ہے کہ ہو مگر کٹھ پتلی 70بار جنم بھومی کے عقیدے کے مطابق بھی کبھی نظریاتی نہیں بن سکتاہے۔ البتہ نظریاتی لوگوں کو خراب کرنے کی بیماری لگا سکتاہے۔

خلائی مخلوق بیت الخلائی لوٹوں کے ذریعے نجاست اسمبلی میں لارہی ہے

khalai-makhlooq-bait-ul-khala-lota-tarian-imran-khan-daughter-bagal-baccha-nawaz-sharif-iqama-issue-

نوشتۂ دیوار کے پبلیشر اشرف میمن نے کہا امریکہ وبرطانیہ کا کھیل ٹی وی چینلوں پر نظر آتاہے، خلائی مخلوق کرشمے دکھارہی ہے۔ مستقبل میں عمران خان روتا نظر آئیگا کہ میں صادق و امین نہیں،میری امریکن بچی ٹیرن سیتا اور برطانوی بچے سلیمان و قاسم صادق وامین ہیں۔ ان کو اقتدار دیا جائے۔ ریحام CIA کی سازش کا نتیجہ تھی توآنیوالی جمہوریت میں مریم نواز کا مقابلہ ٹیرن عمران سے ہوگا ۔ سیاستدانوں نے قومی اخلاقیات کا جنازہ نکالا۔ آئین کو بدلا جائے یاان سیاسی قائدین، رہنماؤں اور الیکٹ یبل کو جو آئین کے دفعات پر بالکل بھی پورے نہیں اترتے ہیں۔ بیت الخلاء کے لوٹوں کے پاس زبان نہیں اور موجودہ دور میں شیخ سعدی جیسا دانشور بھی نہیں جو لوٹوں کو زبان دیکر بات کرے۔ ورنہ لوٹے بھی کہتے کہ ہم ناچیز ضرور ہیں لیکن کام کتنا عمدہ انجام دیتے ہیں؟۔ قدرتی طور پر انسان سے نکلنے والی نجاست کو ہم صاف نہ کریں تو مقتدی کی نماز ہو اور نہ امام امامت کے قابل ہو۔ اب تو دنیا مسلم شاور کا نام دیتی ہے۔ یہ جو سیاستدان ہیں یہ تو ڈسٹ بین اور کچرا کنڈی سے بھی بدتر ہیں اسلئے کہ معاشرہ ان کی ضرورت سمجھتا ہے۔ عمران خان رسول اللہ ﷺ کا نام لیتا ہے مگر کام سب الٹے کرتا ہے۔ یتیموں نے مسجد نبوی کیلئے اپنی زمین دی تو نبی ﷺ نے نہیں لی۔ شوکت خاتم کیلئے ڈیفنس فیز 9کراچی میں جنرل راحیل نے جو زمین دی ہے وہ فوج کے شہدا کے بچوں کو لوٹادیں ۔ ڈیفنس کے پلاٹ سب سے پہلے افواج پاکستان کو منتقل ہوتے ہیں پھر اسکی فائل دوسرے خرید سکتے ہیں ، ڈیفنس کے پورے فیز 9کو شہدا کے بچوں کو دینا چاہیے تھا۔

imran-khan-cartoon

ہمارے علاقہ ٹانک کے عتیق گیلانی حق گوئی میں اپنی مثال آپ ہیں. مولانا مفتی گل حلیم شاہ

district-tank-jui-mufti-gul-haleem-shah-makkah-madina-akora-khattak-nowshera-allama-iqbal-mashriq

نوشہرہ(نادرشاہ،جاویدصدیقی) سابقہ ممبر صوبائی جنرل کونسل J.U.I وجنرل سیکریٹری J.U.I نوشہرہ، مہتمم دارالعلوم ذکریا گنڈیری رسالپور مفتی گل حلیم شاہ نے نمائندہ نوشتہ دیوار سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ میں آپ کا اخبار ضرب حق اور نوشتہ دیوار عرصہ دراز سے پڑھ رہاہوں ۔ آپ لوگ بہت اچھے انداز میں حق کی آواز بلندکررہے ہیں ۔ گیلانی صاحب کے حوالے سے میں یہی کہوں گا کہ دارالعلوم اکوڑہ خٹک کے مفتی محمد فریدنے کتاب سلسلہ نقشبندیہ کی ساتویں فصل میں لکھاہے کہ ایسے لوگ اقتدارکے لائق ہیں جوکسی بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ لوگ کیاکہیں گے، ملامت کریں گے یا مشکلات سے دوچارہوں گے بس وہ اپنی بات پورے زوراور سچائی کے ساتھ بیان کردیتے ہیں اوریہی بات مجھے اورمیرے رفقاء کوضرب حق کی بہت پسندتھی کہ گیلانی صاحب حق بات ببانگ دہل بیان کردیتے ہیں ۔ ہم اپنی مجالس میں یہ بات کہتے تھے کہ ہمارے علاقے ٹانک کے مولاناعتیق گیلانی حق گوئی میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ میں نے تیرہ سال جمعیت علماء اسلام (ف) میں خدمات دیں ہیں اسکے علاوہ تحریری میدان میں نجات کے نام سے پرچہ نکالتے تھے ، مولانا عبدالوہاب فاروقی کی زیرادارت ، ہمارامقصدبھی تمام استحصالی نظاموں سے نجات تھا۔ J.U.I نے صدسالہ جشن دیوبندکا پروگرام کیاتوہم نے اپنے حوالے سے ایک کتاب تیارکی ، مولانا فضل الرحمن کو دکھایا کہ یہ ہم چھاپناچاہتے ہیں ، مولانا نے وہ مسودہ ہم سے لیکراپنے نام سے شائع کردیا، اس پر ہم لوگوں نے جمعیت کو چھوڑدیا کیوں کہ یہ مفادپرستوں کا ٹولہ ہے جو جمہوریت کے نام پر اسلام دشمنی کررہاہے ۔ موجودہ جمہوریت بہترین طرزکا کاروباربن چکاہے۔ مفتی صاحب نے ایک سوال پرکہاکہ خلافت اسلامیہ کاقیام ہی مسلمانوں کیلئے نجات کا ذریعہ ہے ۔ احادیث مبارکہ میں سیاہ جھنڈوں والے لشکرکا ذکرہے توسیاہ جھنڈے والاوقت قریب آگیاہے ۔ میں2011 ؁ میں حرمین شریفین گیا، میں نے مکہ ، مدینہ کے پہاڑ ، گھاس پھوس، فصلیں ، مٹی دیکھی ، میں بالکل وثوق کے ساتھ یہ بات کہہ رہاہوں کہ بعینی یہ علاقے ڈیرہ اسمٰعیل خان، ٹانک ، قرب وجوار کے علاقے مکہ ومدینہ جیسے ہیں ، یہاں کے پہاڑ، گھاس، مٹی وغیرہ بالکل ویسے ہی ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کو مشرق کے انہی علاقوں سے ٹھنڈی ہوا اور انقلاب کی خوشبو آئی ہے جسکا ذکراقبال نے اپنے اشعارمیں کیاہے ۔ آخر میں درس نظامی کے حوالے سے کہاکہ صرف ونحو وغیرہ رہنے چاہیے لیکن لایعنی سوالات جواٹھاتے ہیں اورفضول بحث ہیں ان کو یکسرختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے طالب علم کا ذہن منتشر ہوتا ہے اوروہ اصل یعنی قرآن و حدیث سے رہ جاتاہے۔ بحرحال درس نظامی کونئے سرے سے درستگی کی ضرورت ہے۔