جنوری 2022 - Page 2 of 2 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

تبلیغی جماعت پر سعودی عرب کی طرف سے پابندی اور اس پرتبلیغی جماعت سمیت مختلف لوگوں کا ردِ عمل لیکن اصل بات اور اسکے اصل حقائق!

تبلیغی جماعت پر سعودی عرب کی طرف سے پابندی اور اس پرتبلیغی جماعت سمیت مختلف لوگوں کا ردِ عمل لیکن اصل بات اور اسکے اصل حقائق!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
چیف ایڈیٹر: اخبار نوشتہ دیوار کراچی

سعودی عرب نے تبلیغی جماعت اور دوسری تنظیموں پر کھلم کھلا اعلان کرکے نہ صرف پابندی لگائی ہے بلکہ جمعہ کے خطبات میں تبلیغی جماعت پر شدید الزام تراشی بھی کی ہے۔ شرکیہ عقائد کی تشہیر ، قبرپرستی، قرآن وسنت اور علماء حق سے دوری کے علاوہ ضعیف احادیث اور جھوٹے قصے کہانیاں سے عقائد بگاڑنے کا الزام بھی لگایا ہے۔ تبلیغی جماعت کے نصاب میں پہلے فضائل درود شریف شامل تھا جس کا مولانا زکریا نے اپنی ”آپ بیتی” میں لکھا ہے کہ ” رسول اللہ ۖ نے خواب میں فرمایا کہ زکریا اپنے معاصرین میں فضائل درود کی وجہ سے سبقت لے گیا ہے”۔
تبلیغی جماعت نے سب سے پہلے سعودی عرب کے علماء اور حکمرانوں کو خوش کرنے کیلئے اپنے نصاب سے فضائل درود کو نکال دیا اور تبلیغی نصاب کی جگہ اس کا نام بھی ” فضائل اعمال ” رکھ دیا۔ مولانا محمد الیاس بانی تبلیغی جماعت کے ایک بہت اہم ساتھی مولانا احتشام الحسن کاندھلوی نے تبلیغی جماعت میں نہ صرف بہت ساتھ دیا تھا بلکہ ان کی کتاب ” موجودہ پستی کا واحد علاج ” بھی نصاب کا حصہ تھا ۔ جب مولانا الیاس کے انتقال کے بعد آپ کے صاحبزادے مولانا محمد یوسف کاندھلوی کو تبلیغی جماعت کا امیر بنایا گیا تو صاحبزادہ حضرت جی مولانا یوسف نے جماعت میں کوئی وقت نہیں لگایا تھا لیکن اچھے عالم دین تھے اور جب وہ مولانااحمد علی لاہوری کے پاس گئے تو مولانا لاہوری نے ان سے فرمایا تھا کہ ” جس دن اس جماعت نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ دین کا بس صرف یہی کام ہے ۔ مدارس، خانقاہوں اور دوسری مذہبی وسیاسی جماعتوں کو اہمیت دینی چھوڑ دی تو اس کا زوال شروع ہوجائے گا”۔
حضرت جی مولانا محمد یوسف کے دور میں تبلیغی جماعت اپنی روح پر کاربند تھی لیکن جب مولانا انعام الحسن کو امیر بنایا گیا تو تبلیغی جماعت نے اپنے اصل کام سے انحراف شروع کردیا۔ مولانا احتشام الحسن کاندھلوی نے سب سے پہلے مخالفت شروع کردی اور یہ لکھ دیا کہ ” پہلے بہت ساری چیزوں کی پابندی کیساتھ جماعت کو اس کام کی شریعت میں اجازت تھی لیکن اب بہت ساری خرابیاں کی وجہ سے تبلیغی جماعت اس بات کی اہل نہیں رہی ہے کہ شریعت میں اس ترتیب کیساتھ اس کو کام کرنے کی اجازت ہو”۔ مولانا احتشام الحسن کاندھلوی مولانا الیاس کے ساتھی اور خلیفہ تھے۔علماء دیوبند کے اکابر حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے مرید وخلفاء تھے اور بریلوی دیوبندی اختلافات میں 7اہم اور بنیادی مسائل پر انہوں نے کتاب بھی لکھی تھی جو دیوبندی وبریلوی دونوں مکتبۂ فکر کیلئے قابل قبول تھی۔ دیوبندی فکر کے لوگ ان سات مسائل کو بدعت اسلئے سمجھتے تھے کہ ” شریعت میں ان کا جواز تھا لیکن بہت سارے لوگوں نے ان کو فرض وسنت کا درجہ دے رکھا تھا”۔ جب تبلیغی جماعت کا بھی وہی حال ہوا تو مولانا احتشام الحسن کاندھلوی نے اس جماعت کے خلاف بھی شریعت کا تقاضہ سمجھ کر آواز اُٹھائی تھی لیکن تبلیغی جماعت نے اس آواز کو دبا دیا۔ اگر دیانتداری سے یہ آواز تبلیغی جماعت کے اکابر اور کارکن حضرتات عوام تک پہنچادیتے تو شاید تبلیغی جماعت بے اعتدالی سے ہٹ کر اعتدال پر آجاتی۔
جب تبلیغی جماعت اپنے ہٹ پر قائم رہی تو شیخ الحدیث مولانا زکریا اور آپ خلفاء نے تبلیغی جماعت کی اصلاح کیلئے کوشش شروع کردی۔ مولانا محمدالیاس کے اس قول کی تشہیر ایک خط کے ذریعے سے شروع کردی کہ ” اس جماعت کے دو پَر ہیں،ایک علم اور دوسرا ذکر۔ اگر جماعت میںعلماء ومشائخ کے کام کی اہمیت نہ رہے تو پھر اس کا مٹانے والے مولانا الیاس کے اصل نمائندے ہوں گے”۔ آج مولانا زکریا کے خلفاء اور مریدوں کی اکثریت تبلیغی جماعت کی سخت خلاف ہے۔
تبلیغی جماعت کے ایک اکابر مولانا جمیل احمد صاحب نے ایک مسجد کے امام کو اس پر بات پر اپنے فون پر بہت ڈانٹا ہے کہ” تمہارا عقیدہ علماء دیوبند کا نہیں ہے اسلئے کہ علماء دیوبند اس بات کے قائل ہیں کہ رسول اللہ ۖ اپنی قبر میں اس دنیاوی حیات کے ساتھ زندہ ہیں اور آپ برزخی حیات کے قائل ہیں اسلئے تمہارا عقیدہ علماء دیوبند کے خلاف ہے اور علماء دیوبند کے لبادے میں چھپ کر تمہیں مسجد کے انتظامیہ کو ہٹادینا چاہیے۔ تمہارے پیچھے ہماری نماز نہیں ہوتی ہے”۔
مولانا منظور مینگل نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ ” حاجی عبدالوہاب کے سامنے ایک تبلیغی عالم نے کہا کہ حاجی عبدالوہاب کی روح عزائیل نے نکال دی توحاجی صاحب سے فرشتوں نے سوال کیا کہ تمہارا رب کون ہے؟، رسول کون ہے؟ اور تمہارا دین کیا ہے؟۔ حاجی عبدالوہاب نے کہا کہ مجھے مولانا الیاس، مولانا یوسف اور مولانا انعام الحسن کے پاس بستی نظام الدین پہنچادو۔ جس پر فرشتے بھی لاجواب ہوگئے اورحاجی صاحب کو انہوں نے دوبارہ زندہ کردیا”۔
نبیۖ نے فرمایا کہ ” المر ء مع من احب :آدمی اس کے ساتھ ہوتا ہے جس سے اس کی محبت ہوتی ہے”۔ایک حدیث میں آتا ہے کہ قبر میں نبیۖ کی زیارت کرائی جائے گی اور پوچھا جائے گا کہ وماتقول فی ھٰذا الرجل ” اور اس شخص کے بارے میں آپ کیا کہتے ہو؟”۔ مسلمان اس نبیۖ کو پہچان کر گواہی دے گا کہ خاتم النبین رحمة للعالمینۖ ہیںاور غیرمسلم کہے گا کہ” لاادری : میں نہیں جانتا ہوں” ۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حاجی عبدالوہاب پر ایک کیفیت یہی طاری کردی ہو کہ موت کے بعد رب، نبی اور دین کے بارے میں پوچھا جائے گا تو اس کو بستی نظام الدین بھارت کے اکابر کے علاوہ کچھ بھی سوجھائی نہیں دیتا ہو تاکہ وہ زندگی میں اپنا قبلہ درست کرلے اور تبلیغی جماعت کے اکابر اور اسکے کارکن اس سے عبرت پکڑ لیں۔ جب مولانا منظور مینگل نے بھی تبلیغی جماعت کے اہم ترین اکابر حاجی عبدالوہاب اور انکے اردگرد کے ماحول کے بارے میں یہ نشاندہی کی تھی تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے تھی کہ موت کے بعد دنیاوی حیات نہیں برزخی حیات شروع ہوتی ہے۔ اگر دنیاوی حیات ہوتی تو پھر نماز ، وضو، پوٹی پیشاب اور کھانا کھانے کی گنجائش بھی قبر میں چھوڑدی جاتی اور تعففن سے شاید عقیدہ بھی درست ہوجاتا ۔
سعودی عرب کے وہابی علماء کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہ ۖ اپنی قبر میں دنیاوی حیات نہیں بلکہ برزخی حیات کے ساتھ زندہ ہیں تو تبلیغی جماعت اپنا عقیدہ سعودی عرب میں کیوں چھپاتی ہے؟۔ پہلے تبلیغی جماعت نے فضائل درود کی وجہ سے بہت سارے بریلوی مکتبۂ فکر کے لوگوں کو اپنا شکار بنایا لیکن جب سعودیہ سے خوف کھانے کی وجہ سے اپنے نصاب سے ” فضائل درود ” کو نکال دیا تو مسلمانوں کی مشترکہ جماعت کی جگہ اس پر دیوبندی فرقے کا لیبل لگ گیا۔ بریلوی نے پھر اپنی دعوت اسلامی بنائی اور اہلحدیث نے بھی اپنی نئی تبلیغی جماعت بنائی۔
قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا ذکر ہے جس میں اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرنا، ابرص کے مریضوں اور مادر زاد اندھوں کو ٹھیک کرنا بھی شامل تھالیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ قرآن شرک کی تعلیم دیتا ہے اور اگر یہ قرآنی آیات نہ ہوتی تو محمد بن عبدالوہاب کے جاہل پیروکار اس کو بھی شرکیہ اعتقادات سمجھ کر قرآن کے واقعات پر پابندی لگوانے سے دریغ نہ کرتے۔ دیوبند کے اکابرین نے پہلے محمد بن عبدالوہاب کی سخت مخالفت کی تھی لیکن جب سعودیہ کی حکومت قائم ہوگئی تو ان کے علم ، کشف اور شرح صدر کا محور بدل گیا تھا۔ اگر اسلام میں قبر کی مخالفت ہوتی تو نبیۖ اور پہلے دو خلفاء حضرت ابوبکر و حضرت عمر کی قبر کا حضرت عائشہ صدیقہ کے حجرے میں ہونا ہی اسلامی احکام کی بیخ کنی ہوتی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جس طرح انسان کی پیدائش، تخلیق اور اس کیلئے راستہ آسان ہونے کو احسان کے طور پر جتلایا ہے ، اسی طرح فاماتہ و اقبرہ اور اس کو پھر موت دیدی اور قبر دیدی کو بھی احسان کے طور پر شمار کیا ہے۔
تبلیغی جماعت کتنی پرامن اور غیر مضر ہے؟ ۔تو اس کا حال تبلیغی جماعت کے اندر ہی سے لیا جائے۔ ہندوستان میں اس کا عالمی مرکزبستی نظام الدین میں ہے۔ پاکستان میں اس کا مرکز رائیونڈ میں ہے۔ افریقہ میں بھی رائیونڈ کی جماعت والے بستی نظام الدین مولانا الیاس کے پڑپوتے مولانا سعد کی جماعت والوں وہاں کام نہیں کرنے دیتے ہیں جہاں ان کا بس چلتا ہے۔ جب یہ ایکدوسرے کے مراکز میں خود ایکدوسرے کو نہیں چھوڑتے ہیں اور جس مسجد میں ان کا غلبہ ہوتا ہے وہاں پر قرآن کا درس بھی نہیں ہونے دیتے ہیں تو دوسروں سے گلہ کرنے کے بجائے پہلے اپنے طرزِ عمل پر بھی غور کریں۔ بستی نظام الدین اور رائیونڈ کے مراکز میں اختلاف کے باوجود جس تبلیغی جماعت کے اکابر اور کارکنوں کی آنکھیں نہیں کھلتی ہیں تو یہ سچ قرآن میں اللہ نے لکھ دیا ہے کہ ” اصل اندھا وہ ہے جو دل کا اندھا ہے”۔
سعودی عرب کے نمک خوار سعودیہ کی حمایت اپنے مفادات کی وجہ سے کرتے ہیں ، اگر دین کی بنیاد پر حمایت ہوتی تو حکومتی سطح پرفحاشی پھیلانے کے اقدامات کی سخت مخالفت کی جاتی ۔ اگر دین کی سمجھ ہوتی تو سعودی عرب میں جس طرح انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے غیرملکی مزدوروں کیساتھ بہت ناروارویہ رکھا جاتا ہے اور پاکستانیوں کیساتھ بہت زیادتیاں ہوتی ہیں تو پاکستان کی دینی جماعتیں اعلان کرتیں کہ مغرب اور مشرق میں سب سے بدتر ین لوگ یہی ہیں جو مسافرمجبور عوام کے حقوق کھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں بلکہ قانونی طور پر اجنبی لوگوں کو اپنے انسانی حقوق سے محروم کررکھا ہے اور ان کا پیسہ بھی غلط طور پر کھاتے ہیں۔
جب سعودی عرب اہلحدیث والوں کو پیسہ دیتے تھے اور مساجد ومدارس بھی بناکر دیتے تھے تو بہت سارے حنفی دیوبندی خاص طور پر اور بریلوی عام طور پر اپنے مسلک اور عقیدے کو بدل رہے تھے۔ مولانا انورشاہ کشمیری کے پوتے نے بھی اپنا مسلک تبدیل کرکے اہلحدیث کا مسلک اختیار کرلیا۔ جب ایرانی انقلاب کے بعد شیعہ سنی اختلافات کو ہوا مل گئی تو جمعیت علماء اسلام ف کے نائب صوبائی امیر مولانا حق نواز جھنگوی نے انجمن سپاہ صحابہ کے نام سے ایک نئی جماعت بناڈالی۔ سعودیہ نے ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش کے علماء سے شیعہ کے کافر ہونے کا فتویٰ بھی لگوادیا اور پھر جب سپاہ صحابہ کی مرکزی قیادت مولانا حق نواز جھنگوی، ضیاء الرحمن فاروقی اور دوسرے رہنما ہاتھ میں نہیں آرہے تھے تو مرکزی قیادت کو راستے سے ہٹادیا گیا اورپھر بات نہیں بن رہی تھی تو لشکر جھنگوی تشکیل دی گئی۔ جس رفتارسے لشکر جھنگوی نے ترقی پائی تھی ،اگر ہماری ایجنسیاں ان کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے توشاید دہشت گردی اس رفتار سے نہ آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ عمران خان نے جب ایران کا دورہ کیا تھا تو اپنی ریاست کے اس کرتوت کا ذکر بھی افسوس کیساتھ کیا تھا۔
ایک آدمی نے شکایت کی تھی کہ میرا گدھا بہت سست چل رہاہے، اس کو تیزی کا کوئی نسخہ کھلا دو۔ حکیم صاحب نے گدھے کو پیچھے سے مرچ ڈال دی تو گدھا بہت تیز بھاگنے لگا تھا۔ گدھے کے مالک نے شکایت کی کہ اب گدھا بہت تیز بھاگ رہا ہے لیکن میں پہنچ نہیں پاتا ہوں۔ میرا بھی علاج کردو۔ حکیم صاحب نے اس کو پیچھے سے مرچ ڈال دی تو وہ بھی تیز بھاگنے لگا تھا۔ پھر ان کو پتہ چل گیا کہ یہ نسخہ کارآمد نہیں بلکہ بہت بیکار تھا۔ پہلے ہمارے ملک میں سعودی عرب کے خلاف بولنے کی بھی اجازت نہیں تھی لیکن اب حکیم صاحب کے نسخے کی کھل کر بہت مخالفت ہورہی ہے۔ چلو در آید درست آید۔ پاکستان کو فتنوں سے بچانے کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔
شیعہ، سنی، حنفی اہلحدیث اور بریلوی دیوبندی کے علاوہ تحریک طالبان ، داعش اور تحریک لبیک کی شکل میں مذہبی انتہاء پسندی کا دروازہ کبھی بھی ملک وقوم میں فساد برپا کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ سختی اور پابندی مسائل کا حل نہیں ہے۔ ڈالی ہوئی مرچیں بھی نکالنا ضروری ہیں اوراس پر مکھن لگانے کی بھی سخت ضرورت ہے۔ ہمارا صحافی طبقہ صرف پیسہ کھاکر اپنے ملک اور اغیار کیلئے کام کرنا جانتا ہے اور کچھ نہیں۔
پرویزمشرف اور فوج کے خلاف جتنی باتیں کی جائیں کم ہیں لیکن کیا کوئی ایک بھی ایسا کلپ ہے کہ نوازشریف سے کسی نے پوچھا ہو کہ پارلیمنٹ میں لندن کی پراپر ٹی کے حوالے سے تحریری بیان جاری کیا تھا تو وہ کس کے کہنے پر کیا تھا؟۔ پھر اس کی تردید کیلئے جھوٹا قطری خط اور پھر اس سے دستبرداری کیسے اختیار کی تھی؟۔ جیو نیوز کا نوازشریف سے بہت اچھا تعلق ہے ، شاہ زیب خانزادہ نوازشریف کی صفائی میں اپنی صحافت کھپاتا ہے تو کم ازکم ایک سوال تو نوازشریف سے بھی بنتا تھا؟۔
ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب اور دیگر لوگ سوشل میڈیا پر پاک فوج کا دفاع نہیں کرتے ہیں بلکہ اُلٹا باشعور لوگوں میں نفرت کو بڑھاتے ہیں۔ اگر بنگلہ دیش کا ذمہ دار ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن اور جنرل یحییٰ خان تھے تو پھر پاک فوج زندہ باد کا نعرہ نہیں بنتا ہے۔ اگر کسی کاقتل ہونا ہی اس کا برے انجام کو پہنچنا ہے توپھر جنرل ضیاء الحق کا حادثہ اور جنرل پرویزمشرف کا اپنے ملک میں نہ آسکنا کیا ہے؟ ۔ یزید کو پھر کہنے کا حق تھا کہ نبیۖ کے خانودے حضرت علی اور حسن و حسین اور کربلا کے لوگوں کا کیا انجام ہوا تھا۔ یہ کتنی کم عقلی کی بات ہے کہ ایک طرف ایک جنرل کو اسلئے سزا دی جاری ہے کہ اس نے امریکہ کو غلط معلومات فراہم کرکے بے گناہ قائلیوں کا خون کیا تھا اور ریٹائرڈمنٹ کے بعد امریکہ کا ایجنٹ بن گیا اور دوسری طرف ایک جنرل پر الزام ہے کہ اس نے امریکہ کو خفیہ معلومات فراہم کیں ؟۔ حالانکہ عدالت میں اس نے جنرل بلال اکبر کے واٹ سیپ پیش کئے کہ اعتماد میں لیاتھا اورجس کا الزام ہے وہ پہلے سے سب میڈیا پر موجود تھا اسلئے خفیہ معلومات پہنچانے کی بات بالکل غلط ہے۔ ایک باعتماد قیادت کی بہت ضرورت ہے۔ ہمارے سارے سیاسی قائدین بشمول وزیراعظم عمران خان آج کل عوام کو نوسر باز لگتے ہیں۔ اگر فوج اور ریاست سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا تو ریاست میںافراتفری کی فضاء سے عوام کو زیادہ نقصان پہنچے گا۔ ریاست کو اپنا کردار کو درست کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
امجدشعیب نے اچھا کیا کہ بتادیا کہ ہندوستان نے بنگلہ دیش سے93ہزار صرف فوجی نہیں پکڑے تھے بلکہ31ہزار فوجی اور62ہزار سیولین تھے جن میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ریاستی اداروں کے پاکستانی ہندوستان کے حوالے کئے گئے تھے۔ پہلے بہت سے باشعور لوگوں سے ہم سنتے تھے کہ فوج نے طالبان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا۔ اللہ ہندوستانی فوج اور طالبان سے پاکستانی فوج کو سخت ترین شکست سے دوچار کرے۔ اب طالبان کے حامی پھر یہ کہتے ہیں کہ طالبان کی حمایت ہم فوج کی وجہ سے کررہے تھے۔ اللہ کرے کہ افغانی طالبان اور ہندوستان کے فوجیوں کے ہاتھ سے ہمارے فوجی چٹنی بن جائیں اور ان کی بیگمات ہمارے لئے رہ جائیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کی زندگیاں مسلم لیگ اور ملا کی حمایت میں گزری ہے اور ب پیپلزپارٹی کے حامی بن گئے ہیں۔
امجد شعیب کی باتوں سے فضاء بدلنے والی نہیں ہے کیونکہ بنگلہ دیش آج اتنا مقروض نہیں ہے، جتنا پاکستان مقروض ہے۔ ہم سے پسماندہ بنگلہ دیش بھی آگے نکل گیا ہے۔ اگر ہماری ریاست نے ٹھان لی ہے کہ پنجاب کو مشرقی پنجاب سے ملا دینا ہے ، آدھے بلوچستان اور پختونواہ کو افغانستان کے حوالے کرنا ہے اور سندھ کو آزاد کرنا ہے تاکہ بین الاقوامی قرضوں سے اس کی جان چھوٹ جائے تو عوام کو اعتماد میں لیکر شائستگی سے یہ کام کریں لیکن اگر پاکستان کو باقی رکھنا ہے تو اپنا رویہ بھی بدلیں۔ عوام پر قرضوں اور قبضوں کا بوجھ لادنے کے بجائے ان کوخوشحال بنائیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

 

آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے سری لنکن شہری کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا۔ مشال خان کی شہادت پر مذہبی جماعتوں کا رویہ کیا تھا؟

 

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
چیف ایڈیٹر: اخبار نوشتہ دیوار کراچی

سری لنکن شہری کے بہیمانہ قتل پرآرمی چیف جنرل قمر باجوہ کا پہلا ردِ عمل خوش آئندتھا اور کور کمانڈرز کانفرنس کا اعلامیہ بھی خوش آئندہے ورنہ یہ دلّے اور دلّال کیپٹن صفدر اور سراج الحق پھر اپنی سیاست چمکانے کیلئے نیچ حرکت کرتے؟

ایک وقت وہ تھا کہ جب مردان میں انتہائی وحشیانہ اور بہیمانہ طریقے سے ایک غریب کے قابل ترین بیٹے کو محض حسد وکینے اور جرمِ ضعیفی کی سزا دیکر شہیدکیا گیا تھا۔ جیونیوز اورARYنیوز سب میڈیا نے اس کی مذمت کی تھی اور مفتی محمد نعیم نے اس کو شہید بھی قرار دیا تھالیکن مسلمان، پختون اور مذہبی وسیاسی طبقات کی بزدلی نے مشعال خان کے جنازے اور تعزیت کے معاملے کو بھی بہت زیادہ شرمناک حدتک قابلِ مذمت بنایا ۔ عام لوگوں نے اُٹھ کر جب کلاشنکوف اٹھائی اور بندوق کی نوک پر جنازہ اور تدفین کردی تو پولیس اس کی قبر کی حفاظت کیلئے بھی تعینات کردی گئی۔ آج جس طرح سری لنکن شہری کے قتل پر فضاء بدل گئی تو اس کاکریڈٹ کس کو جاتا ہے؟۔ اگر جنرل قمر جاوید باجوہ اس وقت مشعال خان کی بہیمانہ شہادت پر اسی طرح یہ کردار ادا کرتے تو مذہبی بہروپئے جنازے کیلئے نہیں تو تعزیت کیلئے ضرور مشعال خان کے گھر پہنچ جاتے اور وقت کا حکمران اس وقت بہادری کی تصویر بننے والے فرد کے کردار پر اس کو تمغے سے بھی نوازتے۔
اس وقت جب جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف مہم چل رہی تھی کہ قادیانی ہے اور اس کا باپ قادیانیوں کے قبرستان میں دفن ہے تو اوریا مقبول جان نے ایک شخص کا خواب بیان کیا کہ رسول اللہ ۖ نے جنرل باجوہ کو اس وقت ایک تحفہ سپرد کردیا جب آرمی چیف بننے کا کوئی چانس بھی دکھائی نہیں دیتا تھااور جنرل باجوہ نے وہ تحفہ پہلے بائیں ہاتھ سے لیا اور پھر حضرت عمر کی رہنمائی سے جنرل باجوہ نے اس تحفے کو دائیں ہاتھ میں لیا تھا۔
خواب کی اصل تعبیر تو تعبیر کے ماہرین ہی بتاسکتے ہیں لیکن آرمی چیف بننے کیلئے نوازشریف نے اس وقت منتخب کیا تھا جب نوازشریف کے سامنے اس پر قادیانیت کا الزام بھی تھا لیکن پھر دوسری مرتبہ عمران خان ، نوازشریف اور بڑی تعداد میں جمہوریت کے دعویداروں نے جنرل باجوہ کو دوبارہ ایکس ٹینشن دی۔ پہلی مرتبہ اگر جنرل قمر جاوید باجوہ اس تحفے کو بائیں ہاتھ میں لینے کے بجائے قبول کرنے سے معذرت کرتے ہوئے عرض کردیتے کہ مجھ سے زیادہ اہلیت رکھنے والے دوسرے جنرل زیادہ حقدار ہیں تو یہی جنرل باجوہ کیلئے بہتر تھا اسلئے کہ جنرل راحیل شریف کے دور میں جس طرح فوج نے دہشتگردی اور کرپشن کے خلاف بہت زبردست مؤقف اپنایا تھا اگر دہشت گردی کیساتھ ساتھ کرپشن کے خلاف بھی مہم جاری رہتی تو آج پاکستان سودی نظام کے بھاری بھرکم گردشی سودی قرضوں کے تحت اتنا زیادہ مصیبت میں گرفتار نہیں ہوسکتا تھا۔
تین دفعہ ملک کا وزیراعظم بننے والے ٹاؤٹ نوازشریف نے کہا کہ” سری لنکن شہر ی کا قتل فیض آباد دھرنے میں ایک ایک ہزار روپیہ بانٹنے والے جنرلوں کے کھاتے میں جاتا ہے”۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر اس وقت شیخ رشید کی بات پارلیمنٹ میں سن لی جاتی اور قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس سے پہلے ہی اس بل کے خلاف پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا مشترکہ مؤقف سامنے آتا تو فیض آباد دھرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ پھر اگر نوازشریف کے چہیتے داماد کیپٹن صفدر جیسے لوگ تقریریں نہ کرتے کہ جنرل ضیاء الحق نے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ختم نبوت کیلئے کردار ادا کرنے پر سزا دی ہے تو فیض آباد دھرنے میں جان نہیں پڑ سکتی تھی۔ جب فیض آباد دھرنے کے وقت حکومت ن لیگ کی تھی اور پاک فوج کو کردار کیلئے آمادہ کرنا بھی اسی کا کام تھا تو دھرنے کے شرکاء کو واپسی کا کرایہ دینے میں کتنا خرچہ ہوا ہوگا؟۔ اور پھر اسکے ذمہ دار کون تھے؟۔ اگر نوازشریف کے دور میں پشاور آرمی پبلک سکول کا واقعہ واقعی بقول نوازشریف کے ٹاؤٹ راشد مراد کھریاں کھریاںMRٹی وی برطانوی فوج نے خود کروایا تو پھر نوازشریف اس وقت خوشی سے نہال کیوں تھا؟۔ فیض آباد دھرنے اور آرمی پبلک سکول پشاور کے واقعہ کے وقت گدھے کی کھال پہنے ہوئے گیدڑ نوازشریف کی حکومت تھی جو ببر شیر بننے کا دعویدار ہے۔
اصل کہانی اس وقت شروع ہوئی تھی جب پیپلزپارٹی کی مرکز میں حکومت تھی اورپنجاب میں شہبازشریف کی حکومت تھی۔ بقول انتہائی جھوٹا اور مکار شخص پرویزمشرف دور کے وزیراطلاعات ق لیگ محمد علی درانی ”انصار عباسی واحد ایک ایماندار صحافی ہیں”۔ شہبازشریف نے انصار عباسی کے گھر تک مری میں سڑک بناکر اس پر کروڑوں کا خرچہ کیا تھا۔ انصار عباسی کہتا تھا کہ ” ہمارا آئین اسلامی ہے اور اسلام میں صدر آصف علی زرداری کے استثناء کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کی مثال خلفاء راشدین کے طرزِ عمل کی ہے”۔ جب اس سے کہا جاتا تھا کہ پاک فوج پر تنقید ہوسکتی ہے تو انصار عباسی کا اسلام بدل جاتا تھا اور کہتا تھا کہ ”آئین نے فوج کو استثناء دیا ہے اسلئے ان پر تنقید کرنا غلط ہے”۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب چوہدری نثار اور شہبازشریف چپکے چپکے رات کی تاریکی میں ہی آرمی چیف جنرل پرویز کیانی سے ملاقات کرنے جاتے تھے۔ اس وقت خواجہ شریف چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے خلاف قتل کی سازش کا انصار عباسی نے انکشاف کیا تھا جس میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر ، آصف علی زرداری وغیرہ کو ملوث قرار دینے کی کوشش کی گئی تھی لیکن یہ سارا پلان ناکام ہواتھا۔ اگر اس وقت انصار عباسی کو کٹہرے میں لاکر قرارِ واقعی سزا دی جاتی تو اب دوبارہ انصار عباسی کو اس قسم کی نئی نئی باتوں پر کورٹ میں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ نذیر ناجی نے اس وقت کہا تھا کہ ”یہ سب کتے کا بچہ انصار عباسی ہے”۔ حالانکہ دونوں کا ایک ہی جنگ گروپ اور جیونیوز سے تعلق تھا۔ جب گورنر سلمان تاثیر کو خواجہ شریف کے قتل میں ملوث کرنے کی سازش ناکام ہوگئی جس پر رؤف کلاسرا نے ایک کتاب بھی لکھی ہے کہ ” ایک قتل جو ہونہ سکا”۔پھر سلمان تاثیر کے قتل، اسکے بیٹے شہبازتاثیر کے اغواء سے موجودہ دور کے سفر تک مسلم لیگی رہنما ؤں اور قیادت کا معاملہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
تحریک لبیک اور وزیراعظم عمران خان کا بھی چولی دامن کا ساتھ تھا۔ جب تک قوم کا اجتماعی کردار درست نہیں ہو توپھر مذہبی وسیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ سے بھی خیر کی توقع نہیں رکھی جاسکتی ہے۔ قوم کے اجتماعی شعور کی بیداری کا اثر پاک فوج کی قیادت اور مذہبی وسیاسی رہنماؤں اور قائدین پر بھی پڑتا ہے۔ سلیم صافی نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے بات کا آغاز کرتے ہوئے یہ کریڈٹ بھی دیا کہ سب سے پہلے سری لنکن شہری کے بہیمانہ قتل کی مذمت اسی نے کی ہے۔ سراج الحق نے بتایا کہ وہ عیسائی جوڑے اور دوسرے افراد کی بھی پہلے تعزیت کرچکے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا دین ہمیں ایسا کرنے کاحکم دیتا ہے۔ کسی بھی انسان کو اس طرح وحشیانہ انداز میں قتل کی اجازت رحمت للعالمینۖ کا دین ہمیں نہیں دیتا ہے۔ کاش سلیم صافی سراج الحق سے یہ بھی پوچھنے کی جسارت کرتا کہ مشعال خان کیساتھ جو وحشیانہ اور بہیمانہ بربر یت کی گئی تھی اورتم لوگ اس وقت قاتلوں کے حق میں پشاور شہر میں جلسہ کررہے تھے تو تم اس کردار پر شرمندہ ہو یا نہیں؟۔ یا اس وقت رحمت للعالمین ۖ کی جگہ زحمت اسلامی کا دین جدا تھا؟۔ جب تک اس کردار سے جماعت اسلامی کھل کر توبہ نہیں کرتی ہے لوگوں کے دل ودماغ میں اس کے ڈھانچے پر منافقت کے نقوش قائم رہیں گے۔ پہلے جماعت اسلامی ن لیگ کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی اور اب مولانا فضل الرحمن پر بھی ن لیگ کے منافقانہ تضادات کے کردار کا اثر پڑاہے۔
فیض آباد دھرنے میں ہزار ہزار روپے واپسی کا کرایہ بانٹنااتنی بڑی بات نہیں تھی جتنا اسلامی جمہوری اتحاد بنانے کے حوالے سےISIنے لاکھوں روپے اس وقت نوازشریف کو وزیراعظم بنانے کیلئے دئیے تھے۔ اگر نوازشریف نے سعودیہ کی جلاوطنی کے بعد سے اب تک اپنا دو رخی اور متضاد کردار ترک کیا ہوتا تو بھی کوئی بات ہوتی لیکن ن لیگ اور ش لیگ کی نورا کشتی سے قوم کو دھوکہ دینے کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔مولانا فضل الرحمن اس جرم میں ملوث ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور کورکمانڈرز ایک مرتبہ حلالہ کے خلاف بھی اپنا بیانیہ واضح کردیں تو علماء حق خواتین کی عزتیں بچانے میں اپنا کردار بھی ادا کریں گے اور ان مذہبی بہروپیوں سے اسلام اور عوام کی جان بھی چھوٹ جائے گی جو اسلام کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ خواتین کے حقوق کی بحالی افغانستان کے طالبان نے اسلامی بنیاد پر شروع کردی ہے لیکن یہاں پاکستان کے نام نہاد علماء ومفتیان اور مذہبی سیاسی قیادت اب تک کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں، جب آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور کورکمانڈرز اپنی طرف سے حلالہ کی لعنت کے خلاف اور خواتین کے حقوق پر اپنی پالیسی واضح کریںتو غیر اسلامی مذہبی انتہاء پسندی کے خاتمے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔آج راست اقدام سے جنرل باجوہ دائیں طرف والوں میں شامل ہوسکتے ہیں۔
سری لنکن شہری کو بہیمانہ اور وحشیانہ طریقے سے قتل کرنے والوں کو سری لنکا کی حکومت کے حوالے کیا جائے اور وہی سزا دی جائے جو کچھ انہوں نے کیا ہے۔ جب مشعال خان کو شہید کیا گیا تھا تو ہم نے لکھا تھا کہ سزاؤں سے بچنے کیلئے یہ نام نہاد عاشقانِ رسول اب اپنی پشت میں اپنی دُم گھسیڑنے کے بجائے کھل کر اعترافِ جرم کریں۔ نبی رحمت ۖ کے نام پر کسی کو قربان کرنا عشق رسول نہیں ہے بلکہ خود کو قربانی کیلئے پیش کرنا اصل عشق رسول ہے۔
تحریک لبیک کا جو جتھہ تیار ہے جس کے بانی علامہ خادم حسین رضوی کی قبر پر مولانا طارق جمیل نے گل دستے پیش کئے اور اہلحدیث نے بھی ان کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا تھا۔ یہ یاد رکھا جائے کہ علامہ خادم حسین رضوی کی جماعت کا تعلق اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضاخان بریلوی سے ہے جو دیوبندی اور اہلحدیث کو گستاخان رسول اور قادیانیوں کی طرح کافر سمجھتے تھے۔ اگر تشدد کی فضاء بن گئی تو پھر سری لنکن شہری کی طرح دیوبندی ، اہلحدیث اور جماعت اسلامی کے لوگ بھی عتاب میں آسکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو خوف تھا کہ احسن اقبال کی طرح وہ بھی تحریک لبیک کے کارکنوں اور جذباتی عوام کا نشانہ نہ بن جائے اسلئے پہلے سری لنکن کے قتل کی ذمہ داری میں ریاست کو شامل کیا اور پھر احسن اقبال کی طرف سے کھراپیغام آنے کے بعد اپنے روئیے کو بدل دیا۔
افسوس، مذمت اور کیفر کردار تک پہنچانے کے بیانات کچھ نہیں۔ جب تک اسٹیج سے من سبّ نبےًا فقتلوہ ” جس نے نبیۖ کو گالی دی تو اس کو قتل کردو” کا نعرہ ایسے لوگوں کے ہاں سے بلند ہوگا جو دوسروں کو گستاخ بھی سمجھتے ہیں تو پاکستان میں بڑے پیمانے پر شدت پسندی کی بنیاد پر قتل وغارت کا خدشہ باقی رہے گا۔ علامہ خادم حسین رضوی کے جنازے نے اسکا فیصلہ کردیا تھا۔ دوسری طرف جب تحریک طالبان پاکستان کو موقع مل گیا تو بریلوی لوگوں کو نہ صرف قتل کیاگیا بلکہ سوات جیسے پرامن اور شریف لوگوں کی فضاء میں مینگورہ شہر میںایک پیر کی لاش قبر سے نکال کر کئی دنوں تک چوک پر لٹکائی گئی تھی۔اس وقت امن کی نام نہاد فاختہ مولانا طارق جمیل کہتا تھا کہ ” ہماری اور طالبان کی منزل ایک ہے ، صرف طریقہ واردات جداجدا ہے”۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے دہشتگردی کے خلاف فتویٰ دینے سے انکار کیا تھا۔جماعت اسلامی کے رہنما ؤں نے خاص طور پر اور جمعیت علماء اسلام کے بعض رہنماؤں نے عام طور پر دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے کا ٹھیکہ اٹھارکھا تھا اور پھر آخر میںعلماء نے دہشتگردی کے خلاف فتویٰ دیا۔ مسلم لیگ ، دیوبند اور بریلوی کی تحریکیں ہندوستان سے آئی ہیں۔ سول ملٹری بیورو کریسی پہلے متحدہ ہندوستان کا حصہ اور انگریز کی غلام تھی۔
انگریزہندو مسلم فسادات کے ذریعے ہندوستان کی عوام کو کنٹرول کرتا تھا۔ ہماری سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی سنی وہابی ، شیعہ سنی تفریق و انتشارایک غنیمت سے کم نہیں کیونکہ مختلف گروہوں کو ایکدوسرے سے خطرات ہوں گے تو نااہل ریاست کیلئے عوام پر اپنا ناجائز اقتدار مسلط کرنے میں مشکل نہ ہو گی۔ بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ میں بہت ٹاؤٹ قسم کی مخلوق ملے گی۔ جماعت اسلامی نے ہمیشہ ٹاؤٹ کا کردار ادا کیا ۔ مسلم لیگ ن، ق، جونیجو، ضیاء اور وہ کونسی سیاسی جماعت ہے جس نے بقول شیخ رشید کے فوجی گملے میں پرورش نہ پائی ہویا پھر اس کیGHQکے گیٹ نمبر چار سے رسم وراہ نہیں ہو؟۔
محمود خان اچکزئی نے درست کہا کہ ” کم بختو! قائد پیدا ہوتے ہیں بنائے نہیں جاتے ”۔ لیکن کیا نوازشریف قائد پیدا ہوا تھایا بنایا گیا ؟۔ ایک وہ قیادت ہے جو مصنوعی طریقے سے بنائی گئی اور دوسری وہ ہے جنہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ قیادت کوئی خانوادہ ہوتا ہے۔ نبیۖ نے تحریک چلائی تو حضرت ابوبکر،عمر، عثمان ،علی ،معاویہ ، طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص، خالد بن ولید قیادت کیلئے ایک جماعت تیار ہوئی۔ یزید قائد نہ تھا بلکہ باپ کی وجہ سے امارت پر قابض ہوا تھا۔ بنوامیہ اور بنوعباس نے موروثی خا نوادے کی بنیاد پر قیادت سنبھال لی تھی ۔
میرے مرشد حضرت حاجی محمد عثمان نے تبلیغی جماعت میں بہت وقت لگایا تھا اور وہ جب اسٹیج پر تقریر کرتے تو اکابرین میں ہوتے تھے اور جب سامعین میں ہوتے تھے تو عوام کے پنڈال میں بیٹھتے تھے۔ کھانا پینا ، نشست وبرخاست اور جماعت کے نظم کے مطابق ہفتے میں دوگشت، مہینے میں سہ روزہ،سال میں چلہ اور زندگی میں چار مہینے کے نصاب پر عمل پیرا تھے۔35سالوںتک جماعت کے نظم کی پابندی اور تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھاہوا تھاتو ان کی مقبولیت سے گھبرا کر بعض مفادپرستوں نے اندرونِ خانہ انکے خلاف پروپیگنڈہ کیا جو جماعت کے نصاب کی دعوت دیتے تھے لیکن خود خواص بن کر نصاب کے مطابق نہیںچلتے تھے ۔ قول وفعل کے تضاد نے اکابرکو متکبر اور رذائل کی آماجگاہ بنادیا۔ حاجی عثمان پر یہ الزام تھا کہ ” ان کی وجہ سے جماعت شخصیت پرستی کا شکار ہورہی ہے”۔
ایک دن حاجی عثمان نے تبلیغی جماعت کے مرکز میں یہ اعلان کروایا کہ اس اتوار کی نشست میں تبلیغی جماعت کے لوگ شریک ہوسکتے ہیں۔حاجی عثمان نے بیان کا موضوع یہ رکھا کہ جماعت شخصیت سازی کی بنیاد ہے اور اگر جماعت شخصیات پیدا نہ کرے توپھر یہ جماعت نہیں بھیڑ ہے۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کو کیسٹ بھیجی گئی اور شیخ الحدیث نے تبلیغی اکابرین کو بیان سنادیا اور فرمایا کہ ” ان کی بات سو فیصد درست ہے”۔ آج مرکز بستی نظام الدین بھارت میں مولانا الیاس کا پڑپوتا مولانا سعد اور دوسری طرف رائیونڈکی نام نہادشوریٰ ہے۔ جماعت دو حصوں میں اسلئے بٹ گئی ہے کہ ایک متفقہ امیر کے چناؤ پر اتفاق نہیں ہورہا تھا۔ حالانکہ کیا تبلیغی جماعت اور کیا اس کی امارت کے مفادات؟۔
ہماری ریاست اور سیاسی پارٹیوں نے انقلابی پیدا نہیں کئے بلکہ مصنوعی اور موروثی لیڈر شپ سے عوام نے دھوکہ کھایا۔پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی وشیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی سے زیادہ اہلیت ڈاکٹراقبال اوروکیل قائداعظم محمد علی جناح میں تھی۔ اگر پاکستان نہ بنتا تو ایوب خان فیلڈمارشل ، ذوالفقار علی بھٹو قائد عوام، جنرل ضیاء الحق امیر المؤمنین اور محمد خان جونیجو قائدجمہوریت ، نوازشریف اینٹی اسٹیبلیشمنٹ اور علامہ شبیراحمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع سے لیکر موجودہ شیخ الاسلام اور مفتی اعظم کاوجود بھی نہ ہوتا۔ موروثی اور مذہبی قیادت نے جنرل ایوب خان یا فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔ اگر پاکستان نہ ہوتا تو نہ مسٹرجناح قائداعظم اورنہ نوابزادہ لیاقت قائد ملت بنتے اور پھر ان کی باقیات فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت بھی نہ ہوتیں۔ سول وملٹری اسٹیبلیشمنٹ کے پنجے بھی مضبوط نہ ہوتے اور نہ ہی مصنوعی اور موروثی قیادتوں سے یہ ملک وقوم اور سلطنت شادآباد کے بجائے یوں تباہ وبرباد ہوتے۔
علماء ومشائخ ، سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ادارے اور سیاسی قیادتیں پاکیزہ اور قابلِ احترام ہیں مگر جب یہ اپنے مقصد سے ہٹ کر دوسرے کاموں پر لگ جائیں تو پھر ادارے، سیاسی جماعتیں اورقیادتیں بھی کرپٹ بنتی ہیں اور ملک و قوم اور سلطنت کو بھی رسوائی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ جب علماء ومشائخ دین سے ہٹ کر اپنا ذاتی ایجنڈا اپنے عقیدت مندوں پر مسلط کرتے ہیں تو یہ فرقہ واریت کی چھتری کے نیچے تعصبات کی سانسیں لیکر ہی جی سکتے ہیں۔
لسانیت ، غیرانسانیت اور جاہلیت کے نام پر بہت زیادہ معاشرے میں ظلم و زیادتیاں ہوتی ہیں مگرمذہبی لوگ بارود کے ڈھیرپر بیٹھتے ہیں۔ توہین رسالت و توہین مذہب کے نام پر کسی وقت بھی یہ بارود پھٹ کر نہ صرف کسی انسان کا وہ حال کرسکتا ہے جو مشعال خان کا ہوا، ایک بینک منیجر کا ہوا اور کئی مثالوں کے علاوہ اب سری لنکن شہری کا ہوا۔ اس انجام سے ہماری سول،ملٹری ،مذہبی، سماجی اور سیاسی قیادتیں بہت خوف کھاتی ہیں۔ درود والے بھی بارود کے ڈھیر پر بیٹھے رہتے ہیں اور بارود والے بھی درود والوں کو نہیں چھوڑتے ہیں۔اہل بیت وصحابہ کے نام پر بھی غلیظ ترین کردار کے مالک اپنی غلاظت کو چھپاتے ہیں۔
سورۂ نور کی روشنی خود چمک کراُٹھ سکتی ہے۔ قرآن کی لوگ دنیا کے چپے چپے پر تلاوت کرتے ہیں، ان کا ضمیرکسی وقت جاگ سکتا ہے کہ رسول اللہ ۖ کی حرم ام المؤمنین حضرت عائشہ پر بہتان لگایا گیا تو قرآن و سنت نے قتل کی اجازت نہیں دی اور بہتان پر وہ سزا دی گئی جو کسی بھی محترمہ پربہتان لگانے کی ہے۔ حضرت حسان،مسطح اور حمنہ بنت جحش نے اماں عائشہ پر بدکاری کا بہتان لگایا ۔ حسان ایک نعت خواں تھے۔ مسطح حضرت ابوبکر کے قریبی رشتہ دار تھے اور حمنا حضرت ام المؤمنین زینب بنت جحش کی بہن تھیں۔ رسول اللہ ۖ کو اس واقعہ سے بڑی اذیت کسی بھی واقعہ اور بات سے نہیں پہنچ سکتی تھی۔
نبیۖ نے صحابہ کی بارود کے ڈھیر پر بٹھانے کی تربیت نہیں کی۔ وحی کے ذریعے سے رہنمائی ہوتی تھی ،جب افک عظیم کا واقعہ پیش آیا تو یہ وحی نازل نہیں ہوئی کہ ان بہتان طرازوں کی بوٹیاں کرکے ہڈیاں توڑ دو اور پھر ان کو جلادو۔ نبیۖ کو اس سے بڑی گالی اور کیا ہوسکتی تھی؟۔ اللہ نے صحابہ سے فرمایا کہ” تم اگر کہہ دیتے کہ یہ بہتان عظیم ہے”۔ ابوبکر نے عہدوپیمان کیا کہ اپنے رشتہ دار مسطح پر آئندہ کوئی مالی احسان نہ کروں گا تو اللہ نے فرمایا کہ ” تم سے جو مالدار ہیں ان کیلئے مناسب نہیں کہ اپنے عزیزوں کیساتھ احسان نہ کرنے کا عہد کریں ”۔ مذہبی تنظیمیں ، سیاسی جماعتیں اور ہماری میڈیا کے صحافی سورۂ نور کی آیات کو بھی چھپاتے ہیں اسلئے کہ یہ سب لوگ غلام احمد پرویز کی گمراہانہ فکر سے متأثر ہیں۔ غلام احمد پرویز سورۂ نور کی احادیث صحیحہ کی تفسیر کا منکر تھا۔وہ کہتا تھا کہ صحیح بخاری و مسلم میں یہ واقعہ اہل تشیع نے حضرت عائشہ کے خلاف گھڑ ا ہے۔ سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں پرویزی فکر کی وجہ سے شیعہ کے خلاف زیادہ غم وغصہ اسلئے ہے کہ وہ اماںعائشہ پر حملہ آور ہیں ۔ علماء ومشائخ نے قرآن کی تفسیر اور احادیث صحیحہ کو دیکھنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ جاہلیت کے روپ دھارے جبے قبے پہننے سے کوئی عالم اور شیخ طریقت نہیں بن سکتا ہے۔ تحریک لبیک کے علماء ومشائخ سورۂ نور کی آیات کا اپنی گرم محافل میں صرف حوالہ دیں تو جاہلیت کی اندھیر نگری سے ان کی اپنی جماعت اور پوری قوم نکل آئے گی۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا ہے کہ ” جن لوگوں پرعلم وسمجھ کی زیادتی ہے لیکن اس پرعمل نہیں کرتے ہیں تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور یہود کی طرح ہیں اور جن میں عمل کی قوت زیادہ ہوتی ہے لیکن علم وسمجھ نہیں ہوتی ہے وہ گمراہ ہوتے ہیں اوروہ عیسائیوں کی طرح ہیں۔ یہود ونصاریٰ کی طرح ہمارے فرقوں کا بھی وہی حال ہے ”۔ دیوبندیوں پر یہود کی طرح خدا کا غضب ہے اور بریلوی کا طبقہ عیسائیوں کی طرح گمراہ ہے۔ عربی میں ضال کے معانی گمراہی کے بڑے درجے سے لیکرآخری درجے میں حق کی راہ میں سرگردان کے آتے ہیں اسلئے قرآن میں اللہ نے نبیۖ سے فرمایا کہ ووجدک ضال فھدیٰ ”ہم نے آپ کو سرگرداں پایا تو راہ ہدایت کی رہنمائی کردی”۔ عیسائیوں میں ایسے ایمان رکھنے والے بھی بہت تھے جنہوں نے حق کی آواز سنی تو کہنے لگے کہ ” ہم تو پہلے ہی سے مسلمین ( حق کو ماننے والے)تھے”۔ جس طرح سونے والا مؤمن جب آذان کی آواز سنتا ہے اور نیند سے بیدار ہوتا ہے تو نماز کی طرف لپکتا ہے۔ اسی طرح عیسائیوں میں ایمان پر قائم طبقے نے جب قرآن کی آواز سن لی تو حق تسلیم کرلیا۔ نیند میں مگن شخص کو نیند سے اٹھایا جاسکتا ہے لیکن جب اپنے اوپر زبردستی کوئی نیند طاری کرلے تو اس کو نیند سے اٹھانا ممکن نہیں ہوتا ہے۔
یہود وہ تھے جن پر اللہ کا غضب تھا اور ان کی اکثریت جانتے بوجھتے حق کے مخالف تھی۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے دیوبندیوں کی اکثریت کو بھی یہود ہی کی طرح قرار دیا ہے جو سب کچھ سمجھنے کے باوجود بھی حق کی مخالفت کرتے ہیں۔
اگر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سری لنکن شہری کے قتل پر یہ بیان جاری کرتا کہ ” فرانس تک ہماری پہنچ نہیں ہے لیکن پاکستان میں کسی مسلم اور غیر مسلم کو توہین مذہب پر جوکوئی سزا دے گا تو اس کو ہم بچا نہیں سکیں گے ”توساری مذہبی و سیاسی جماعتیں سیالکوٹ کی عوام کو خراج تحسین پیش کرتیں اور جس کو تمغۂ جرات سے نوازا گیا ہے وہ کسی غیر ملک میں بھاگ کر پناہ لینے پر مجبور ہوجاتا۔ باجوہ کو بھی سب خراج عقیدت پیش کرتے اور سیاسی ومذہبی جماعتیں توہین مذہب پر اپنے اپنے حصے کا ووٹ پانے کیلئے پنجاب میں بڑے بڑے جلسے کرتیں۔ عمران خان بھی کہتا کہ ” سری لنکن شہری کے قتل سے دنیا کو ایک اچھا پیغام گیا ہے”۔
جنرل قمر جاویدباجوہ اور کور کمانڈرز کانفرنس نے جونہی اپنے رویے کا اظہار کردیا تو سب کے سب میں جرأت وبہادری کی روح دوڑ گئی ہے۔ قومی ایکشن پلان کیلئے قرآن وسنت کے اصل کردار کو عوام کے سامنے لانا ضروری ہے اسلئے کہ حیلے کے نام پر سود کو حلال کرنے سے قومی معیشت کو کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ہے اور جن شیخ الاسلاموں اور مفتی اعظموں پاکستان نے حیلے کے نام سے سودی نظام اور حلالہ کے نام سے عورتوں کی عزتیں لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے یہ بدمعاش ہماری میڈیااور ہماری ریاست وحکومتوں نے مسلط کئے ہیں۔
نبیۖ نے فرمایا کہ الکاسب حبیب اللہ ” محنت کرکے کمانے والا اللہ کا دوست ہے”۔ موچی، لوہار، نائی اور تمام کسب والے مزدور ہمارے سروں کے تاج ہیں اسلئے کہ نبیۖ نے ان کو اللہ کا حبیب قرار دیا ہے اور اس سے بڑی عزت کرپٹ سیاستدان ،دین فروش مولوی، جرنیل ، بیوروکریٹ ، خان ونواب کی نہیں ہوسکتی ہے لیکن عوامی اصطلاحات کی وجہ سے دورِ جاہلیت کی ایک مثال سے سمجھانا چاہتا ہوں کہ ایک بادشاہ نے اپنی بیٹی دوسرے بادشاہ کے بیٹے کو بیاہ دی۔ بادشاہ کی بیٹی نے اپنے باپ سے کہا کہ ویسے تو بہت اچھے لوگ ہیں اور دنیا کی ہرسہولت وہاں موجود ہے لیکن مجھے یہ شکایت ہے کہ جس سے شادی کروائی ہے وہ اصل بادشاہ نہیں بلکہ ذات کے موچی ہیں۔ بادشاہ نے اپنی بیٹی سے کہا کہ اس کی فکر نہ کرو اور ہاتھ کے اشارے سے استرا چلاتے ہوئے کان میں بتایا کہ میں بھی ذات کانائی ہوں۔ سیاسی جماعتیں ایکدوسرے پر الزام لگاتی ہیں کہ کون کس کی ممی ڈیڈی ہے اور کس کو کس نے پالا ہے مگر سب ایک جیسے ہیں۔
جب اسلام کی حقیقت سامنے آگئی تو انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہ یکے وتنہاء رہ گئے اور قریش کے ایک کمزور ترین قبیلے بنوتمیم کے حضرت ابوبکر مسندِ خلافت پر بیٹھ گئے۔ حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علیو حسن، حضرت معاویہ سب کو اپنی اپنی باریاں مل گئیں لیکن پھر خلافت راشدہ ملوکیت میں بدل گئی، جس نے ادیبوں سے عوام کو ورغلانے کیلئے لیلیٰ مجنون کی کہانی لکھوا ئی ،تاکہ عوام عشق ومحبت کے سانچوں میں ڈھل کر اقتدار سے بے نیاز بن جائیں اور دوسری طرف اپنا مذہبی طبقہ بھی پیدا کیا جو اقتدار کے کاروبار میں انکے ساتھ شریک تھا۔ اسلام نے نام نہاد شیوخ پیدا نہیں کئے بلکہ حکمرانوں نے شیخ الاسلام اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے بنا ڈالے۔ اسلام کا شیخ کون ہوسکتا ہے؟مگر جنہوں نے اسلام کی بیخ کنی شروع کی تھی وہ اہل اقتدار کی طرف سے شیخ الاسلام کے منصب پر فائز کردئیے گئے۔ امام ابوحنیفہ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے اپنے حکمرانوں سے سزائیں کھائیں اور شاگردوں اور شاگردوں کے شاگردوں نے اسلام بیچ کر شیخ الاسلامی کا منصب حاصل کرلیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب ”تذکرہ” میں تاریخ کے اوراق سے کچھ اسباق کا ذکر کیا ہے۔
آج اگر سورۂ نور کی آیات سامنے لائی جائیں تو عوام اور حکمرانوں کی عزتوں کافاصلہ اور جمود ٹوٹ جائے گا۔ ابوجہل کے بیٹے حضرت عکرمہ کی طرح لیڈروں کے بچے لیڈر بننے کے بجائے اچھے مجاہد بن جائیں گے۔ یزیدیت کا شاخسانہ بھی ختم ہوجائے گا اور حضرت حسین کی طرح لوگوں کو قربان کرنے کے بجائے قیادت اور اقتدار کی منزل تک نیچے سے اوپر تک ہر جگہ پہنچایا جائے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv