فروری 2021 - Page 2 of 4 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

اگر مولانافضل الرحمن مریم نواز کا دوپٹہ اور مریم نواز مولانا کا رومال سرپر باندھ دے تب بھی قوم زندہ باد کے نعرے لگائے گی!

مسلمان ماضی پرنہ لڑیں اپنے حال کو سدھاریں، اگر بروقت قرآن سے رہنمائی لینے کی کوشش نہ کی تو دیر ہوجائے گی! پھرکہنامت ،موقع نہیں ملے گا ۔جتنا بھی تم سے ہوسکے اپنے ارمان نکال لو، یہ دریائے کافری کے اُترنے کا وقت ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مولوی کے درسِ نظامی سے لیکر نظام مملکت تک، فک النظام”نظام تہس نہس کرکے رکھ دو” شاہ ولی اللہ، کبھی ہندو پنڈت بھی ہندوستان کو کلمہ پڑھانے کا کہتاہے اور توکبھی علامہ اقبال

سورۂ نور سے مشرق اور مغرب کی ظلمت ختم ہوسکتی ہے ،اگر مولانافضل الرحمن مریم نواز کا دوپٹہ اور مریم نواز مولانا کا رومال سرپر باندھ دے تب بھی قوم زندہ باد کے نعرے لگائے گی!

اسلام اس بات کا نام ہے کہ جو کچھ قرآن میں ہے اس کو من وعن تسلیم کیاجائے اور مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ انہوں نے فرقے اورمسالک پکڑ کر رکھے ہیں لیکن قرآن کو چھوڑ رکھا ہے۔ قرآن میںہی ان کی اس خامی کا ذکر ہے۔
وقال الرسول یارب ان قومی اتخذا ھٰذالقرآن مھجورًا
”اور(قیامت کے دن اللہ کے نبیۖ) رسول کہیںگے کہ اے میرے رب ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔
المOذٰلک الکتٰب لاریب فیہ ھدیً للمتقینOالذین یؤمنون بالغیب ویقیمون الصلوٰة ومما رزقنٰھم ینفقونOوالذین یؤمنون بما انزل الیک وماانزل من قبلک وبالاٰخرة ھم یؤقنونOاولٰئک علی ھدیً من ربھم واولٰئک ھم المفلحونO
” الم، یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے۔ ھدایت ہے اس میں پرہیزگاروں کیلئے۔جو لوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو ہم نے رزق دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اور اس پر جو آپ سے پہلے نازل کیا اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں”۔ البقرہ
ایک شیعہ علامہ حضرت صاحب ہیں جو آئے روز اپنے سامعین کے سامنے کوئی نہ کوئی نیا انکشاف کرتے ہیں کہ قرآن میں چار مرتبہ حضرت علی بن ابی طالب کا نام اور پھر اپنی منطق بیان کرتے ہیں کہ جہاں محمد کا ذکر ہے وہاں علی کا ذکر ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ زندگی میں پہلا انکشاف ، قرآن میں حضرت حسین بن علی کا ذکر ہے۔ سامعین پھر اس کے نئے انکشاف پر سر دھنتے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ شاید جاری رہے گا۔
ایک اور علامہ ہیں جو والفجر ولیال عشر سے مختلف اقوال کا ذکر کرتے ہیں کہ دس راتوں سے محرم کا پہلا عشرہ یارمضان کا آخری عشرہ یا پھر فجر سے مراد امام زمانہ ہیں یا پھر بارہ امام اور حضرت فاطمہ ورسول ۖ کیساتھ چودہ افراد کیلئے چودہ قسم ہیں۔
بعید نہیں کہ کوئی شیعہ الم سے مراد آل محمد بھی لے۔ال سے آل اور م سے محمد مراد ہیں۔ درسِ نظامی میں تفسیر کی آخری کتاب بیضاوی میں ہے ” الم” سے کیا مراد ہے؟یہ اللہ کے سواء کوئی نہیں جانتا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الف سے اللہ، لام سے جبرئیل اور میم سے محمدۖ مراد ہیں ۔ یعنی اللہ نے جبریل کے ذریعہ محمدۖ پر کتاب نازل کی۔ میں درسِ نظامی کا طالب علم تھا۔ مولانا فداء لرحمن درخواستی کے مدرسہ انوارالقرآن میں ہمارے استاذ مولانا شبیراحمد رحیم یار خان والے تھے۔ بیضاوی کا یہ سبق تھا تو میں نے عرض کیا کہ پہلا تضاد یہ ہے کہ اگر صرف اللہ کو معلوم ہے تو پھر یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اللہ نے جبریل کے ذریعے حضرت محمدۖ پر یہ کتاب نازل کی ہے۔ دونوں قول میں تضاد ہے۔ دوسرا تضاد یہ ہے کہ اللہ کا پہلا حرف، محمدۖ کا پہلا حرف تو جبریل سے بھی پہلا حرف ہونا چاہیے۔ الف جیم میم ہونا چاہیے تھا۔ استاذ نے برملا درس کے دوران کہہ دیا کہ ”عتیق کی بات درست ہے ، بیضاوی کی تفسیر غلط ہے”۔
حضرت ابوبکر نے زکوٰة نہ دینے والوں کے خلاف قتال کیا تو حضرت عمر نے آخر میں کہہ دیا تھا کہ کاش ہم نبیۖ سے زکوٰة نہ دینے پر قتال کا حکم پوچھ لیتے۔ حضرت خالد بن ولید کی سربراہی میں مانعین زکوٰة کیخلاف قتال ہوا تھا، حضرت عمر نے اقتدار میں آتے ہی حضرت خالد بن ولید کوہی منصب سے معزول کردیا تھا۔ اہل سنت کے چار فقہی امام حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل بالکل متفق تھے کہ مانعین زکوٰة کے خلاف قتال کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ انکی طرف منسوب ایک اور گمراہی ہے کہ نماز پر سزاؤں اور اس سزا پر اختلافات کے مسائل ہیں۔ اہل سنت و اہل تشیع اس پر متفق ہیں کہ قرآن کیخلاف کوئی حدیث اور قول قبول نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”یہ وہ کتاب ہے کہ جس میں کوئی شک نہیں ہے” لیکن سنی و شیعہ دونوں ایک دوسرے پر شکوک اور تحریف کا الزام لگاتے ہیں اور اس مسئلے کا سنجیدہ حل نکالنا ہے۔ سینٹ الیکشن سے پہلے قومی اسمبلی میں اس پر بحث کی جائے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” یہ کتاب پرہیزگاروں کیلئے ہدایت ہے” جبکہ شیعہ سنی اپنے فاسق طبقہ کو بھی ہدایت یافتہ اور دوسروں کے پرہیزگار طبقہ کوبھی گمراہ سمجھتا ہے۔
اللہ نے ہدایت یافتہ لوگوں کی پہلی صفت یہ بیان کی کہ ” وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں ”۔ لیکن دیکھا جائے تو مسلمانوں کا حاضروموجود پر ایمان لگتا ہے کہ جو مولوی نے بتادیا اور جس سے دنیا میں اچھی گزر بسر ہو۔ امریکہ اور دنیا کا نظام پہلے نمبر پر ہے۔
اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ” جو نماز قائم کرتے ہیں”۔ مسلمانوں کا پچانوے (95)فیصد طبقہ نماز پڑھتا نہیں ہے لیکن پھر بھی اپنے اپنے فرقوں کو گمراہ نہیں ہدایت یافتہ قرار دیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” جو ہم نے ان کو رزق دیا ہے ،اس میں سے خرچ کرتے ہیں”۔ ہم نے طبقات بانٹ دئیے ہیں جو نماز کا اہتمام کرتے ہیں وہ مرکر بھی خرچ کا کوئی اہتمام نہیں کرتے اور جو نماز نہیں پڑھتے ان کیلئے مولوی پر خرچہ ہدایت ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” جو ایمان لاتے ہیں جو احکام آپ کی طرف نازل کئے اور جو آپ سے پہلے نازل کئے ہیں”۔ ہم کہتے ہیں کہ ہماری عبادت ، معاشرت ، معیشت اور حکومت بھلے اپنے نبیۖ کی طرف نازل کردہ کتاب کے مطابق نہ ہو تب بھی ہم ہدایت پر ہیں اور وہ اپنی طرف نازل ہونے والے احکام پر ٹھیک عمل بھی کرتے ہیں تو بھی وہ گمراہ ہیں اور فلاح نہیں پائیںگے۔ کیا ہم اپنے نبی ۖ پر نازل کردہ کتاب کے احکام کو قبول کرنے کیلئے آمادہ ہیں؟۔ یقین جانئے کہ نہیں اور بالکل نہیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں کہتا ہے کہ ” طلاق کے بعد عدت میں باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے”۔ جس میں حلالہ کی لعنت غیرفطری ہے۔ دنیا کے کسی مذہب ، ملک اور قوم کے پاس اللہ کے اس حکم کو لے جاؤ، وہ اس حکم پر سر تسلیم خم کردے گا اور یہ ثابت کرے گا کہ اسلم تسلم اس نے اسلام کا یہ حکم قبول کیا لیکن مسلمان انکار کرکے کفر کریگا۔ پھر بھی ہم مسلمان اور وہ کافر؟۔ ہمیں صرف اپنے روئیے پر غور کرناچاہیے۔
اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر فرقے کی اکثریت نماز قائم نہ کرنے کے باوجود ہدایت پر ہے تو حضرت ابوطالب بھی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ ہمیں ابوطالب کی گود میں پناہ ملے گی اور اگر ہم اللہ کے دئیے ہوئے میں سے خرچ نہیں کرتے تو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔
صحیح بخاری میں اہل بیت کے افراد کیساتھ علیہ السلام لکھا ہے۔ ہمارے اکابر نے بھی علیہ السلام لکھا ہے۔ ہم تو اہل قبور کو بھی سلام کرتے ہیں اور جاہلوں کو بھی سلام کہتے ہیں اور قرآن میں مخاطب کے صیغے سے بھی حق کا انکار کرنے والوں کوسلام کہا گیا ہے کہ سلام علیکم لا نبغی الجاہلین ”تم پر سلام ہو ، ہم جاہلوں کو نہیں چاہتے ہیں”۔ علماء دیوبند اور بریلوی نے اپنے اپنے اکابر کیساتھ رضی اللہ عنہ بھی لکھ دیا ہے اور کوئی جل جلالہ بھی لکھ دے تو مناسب اسلئے ہے کہ اللہ سے اپنے اکابرہی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہودونصاریٰ کی طرح اپنے علماء ومشائخ کو اپنے رب کا درجہ دیا ہے۔ عام مسلمانوں کو چاہیے کہ اُٹھ کر جاہلوں کا راستہ روکیں۔ ورنہ جس طرح پختون قوم طالبان کے ہاتھوں تباہ ہوگئی تھی ،اب دوسرے اپنے مولوی کے ہاتھوں تباہ ہونگے اور ہماری حکومت و ریاست جب قادیانیوں سے بھی بے بس ہو اور قادیانیوں کیلئے بھی بے بس ہو۔ جو نہ قادیانیوں کے خلاف کچھ کرسکے اور نہ قادیانیوں کے حق میں چاہنے کے باوجود کچھ کرسکے تو ایسی بے بس حکومت وریاست نے بلیک میل ہی ہونا ہے۔
شیعہ سنی دونوں مکتبہ فکر کے شدت پسندوں نے صحابہ واہل بیت سے زیادہ اپنے پیٹ کا مسئلہ سمجھ رکھا ہے۔ جس طرح یہود ونصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت سوزی اور شخصیت سازی پر ہلاک ہوئے تھے اور جب سے انہوں نے فرقہ واریت کو چھٹی دیدی ہے تو عروج وترقی کی راہ پر گامزن ہوگئے ،اسی طرح شیعہ سنی بھی کچھ دیر کیلئے اپنی سابقہ شخصیات کو جنتی یا دوزخی بنانے کی رٹ چھوڑ دیں۔ کسی کے کہنے سے کوئی جنت میں جاسکتا ہے اور نہ جہنم میں جاسکتا ہے لیکن ان لوگوں کو سابقہ لوگوں کے جنت اور جہنم سے زیادہ اپنے پیٹ کیلئے دنیا کو جنت یا جہنم بنانے کی لگی ہے۔
اہل سنت سے عملی طور پر اہل تشیع زیادہ لچکدار بن سکتے ہیں اسلئے کہ اگرحضرت عثمان چالیس (40) یاستر (70)دن محاصرے کے دوران خلافت سے دستبردار ہوجاتے تو شہادت کی منزل پر نہیں پہنچتے۔ جبکہ حضرت حسن نے خلافت سے دستبردار ہوکر حضرت معاویہ کے سپرد کردی تھی۔ اہل سنت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ امام مہدی امام حسن کی اولاد سے اسلئے آئیںگے کہ حضرت حسن نے خلافت کی قربانی دی تھی اور حضرت حسین نے حرص کیا تھا اسلئے حضرت حسین کی اولاد کو آئندہ بھی خلافت کایہ انعام نہیں ملے گا۔ اہل تشیع بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی اولاد کو کیا اسلئے خلافت نہیں ملے گی کہ انصار سے خلافت کے مسئلے پر نامناسب وقت پر الجھے تھے؟۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت حسن نے کسی مجبوری کے بغیر ہی خلافت چھوڑ دی تھی اور اس کی وجہ یہی تھی کہ مسلمانوں کا آپس میں لڑنے سے زیادہ خلافت سے دستبردار ہونا ہی بہتر ہے۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے دور میں بھی انصار و مہاجرین ، اہل بیت کے اسی روئیے نے امت مسلمہ کی قوت کو پوری دنیا میں سپر طاقت بنادیا تھا۔ حضرت حسین نے شہادت کیلئے خود فیصلہ نہیں کیا تھا اگر یزیدی لشکر ان کو چھوڑ دیتا تھا تو پھر وہ مدینہ واپس چلے جاتے۔ اگر یزید کے پاس بھی جانے دیتے تو حضرت ہند اپنے پوتے یزید کو ایسا نہ کرنے دیتی ،کیونکہ ایک مرتبہ رسول اللہۖ نے فتح مکہ کے بعد معاف کیا اور پھر امام حسن نے تمام تلخیوں کے باوجود حضرت معاویہ کے حق میں دستبرداری اختیار کی تھی اور اگر حضرت حسین نے اپنا مقصد شہید ہونا ہی مقرر کیا تھا تو آپ کی اولاد میں پھر کوئی بھی اس طرح آرام سے بیٹھنے کے بجائے باری باری قیام ہی کرتے۔
البتہ حضرت حسین نے سمجھوتہ نہیں کرنا تھا اور سمجھوتے کیلئے تیار ہوجاتے تو پھر یہ ممکن نہ ہوتا کہ امت کبھی بھی ظالم کے سامنے مزاحمت کی سیاست کرتی۔ امام حسین ہی ظالموں کے خلاف مزاحمت کا استعارہ اور یزید ظلم کا استعارہ اس قربانی کے سبب بن گئے ہیں۔ آج ہم نے پھر پوری دنیا میں حسین کے کردار سے یزیدیت کا بستر گول کرنا ہے اور یزیدیت کی صرف ایک شکل خاندانی طور پر حکومتوں اور پارٹیوں پر قبضہ کرنا ہی نہیں ہے بلکہ سول وملٹری بیوروکریسی اور اس کے آلہ ٔکار حکمران ، میڈیا اور مذہبی طبقہ سب یزید کے لشکر سے زیادہ بڑے یزیدی ہیں۔
حضرت حسین یزید کے ہاتھ پر بیعت ہوجاتے تو کربلا کے میدان میں شہادت کی موت نصیب نہ ہوتی۔ باقی ائمہ اہل بیت اور علماء حق نے بھی ظالموں کی چوکھٹ پر اپنا سر نہیں جھکایا تھا۔ البتہ دین خیرخواہی کا نام ہے اور موسیٰ کی فرعون سے خیرخواہی تھی اور ہردور میں فرعون ایک نئی روح کیساتھ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہو تو مزاحمت کرنا ہی انبیاء کرام اور ان کے وارثوں کا وطیرہ رہاہے۔ اگر اکبر بادشاہ کے دربار میں حسین کو ماننے والے ابولفضل فیضی شیعہ اور شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی سنی ہو توپھر یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ کس کا عقیدہ کیا ہے ؟۔ بلکہ حسینی کردار والا ہی اہل حق ہے۔
اب تو مسئلہ یہ ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہواہے اور اگر مولوی اور اہل اقتدار سب کو اپنے حال پر بھی چھوڑ دیا جائے تو سب کا یونہی تیا پانچہ ہونے والا ہے۔ اب ہم نے ان کو گرانا نہیں سدھارنا اور بچانا ہے اسلئے کہ مشرکین مکہ نبیۖ کو مجبور نہ کرتے توپھر ہجرت بھی نہ ہوتی اور صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی نہ ہوتی تو مکہ اس طرح فتح نہ ہوتا۔

NAWISHTA E DIWAR February BreakingNews Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

قرآن میں نبیۖ کے خواب اور شجرہ ملعونہ کا تصور کیا ہے؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

قرآن میں نبیۖ کے خواب اور شجرہ ملعونہ کا تصور کیا ہے؟۔سید ابوالاعلیٰ مودودی اور جاویداحمد غامدی میں کس بات پر اختلاف ہے؟ اور اصل حقائق کیا ہیں؟۔ علماء کرام اور قوم کے دانشورتوجہ کریںگے تو معاملہ حل کرسکتے ہیں !

رسول اللہۖ کو بیت المقدس کی دومرتبہ فتح اور اہل کتاب کی شکست کا بیداری کے عالم میں جو خواب دکھایا گیا تھا وہ پورا ہوگا تو اختلافات کے ختم ہونے میں دیر نہیں لگے گی

قرآن میں شجرہ ملعونہ سے کیا مراد ہے اور یہ لوگوں کی آزمائش کیسے ہے؟۔ جنت سے نکلوانے، جنسی فتنہ سامانی کا خطرناک کھیل اورحلالہ کی لعنت کا غیرفطری تصورواقعی بڑ ی آزمائش ہے!

رسول اللہ ۖ نے آخری خطبہ میں فرمایا:” اے لوگو! وہ باتیں سن لو ! جس سے تم ٹھیک زندگی گزار سکوگے۔ خبردار ظلم نہ کرنا، خبردار ظلم نہ کرنا، خبردار ظلم نہ کرنا۔
مسلمانو!تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزتیں حرمت والی ہیں۔
مسلمانو! شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ نماز پڑھنے والے اس کی پرستش کریں لیکن وہ تمہارے اندر رخنہ اندازی کرے گا۔
سب انسان ایک آدم کی اولادہیں اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی۔ کالے کو گورے اور گورے کو کالے پر ، عرب کو عجم پر اور عجم کو عرب پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ فضیلت کا معیار تقویٰ ( کردار) ہے۔ ……….. میرا یہ پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچادو!”۔
قرآن میں ایک صحابی زید کے نام کا ذکر ہے ، نبیۖ نے اس کو اپنا منہ بولا بیٹا اور جانشین بھی نامزد کیا تھا۔ حضرت زید نے نبیۖ کی حیات طیبہ میں شہادت کا مرتبہ پایا۔ جب وصال سے پہلے نبیۖ نے اسامہ بن زید کی قیادت میں لشکر تشکیل دیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا کہ کسی بڑے تجربہ کار شخصیت کو مقرر فرمائیں لیکن نبیۖ نے فرمایا کہ آپ لوگوں نے اسکے باپ زید پر بھی اعتراض کیا تھا لیکن اس نے اپنی اہلیت ثابت کردی تھی۔
خطبۂ حجة الوداع میں نبیۖ نے جو قاعدہ کلیہ بتادیا تھا وہ اس بات کا تقاضہ کررہا تھا کہ رسول اللہۖ کے وصال فرمانے کے بعد انصار وقریش ، اہلبیت اور آنے والے ہردور کے حکمرانوں کو منصبِ خلافت کا حقدار تسلیم کیا جائے۔ حکمران کے تقرر پر اختلاف کا وجود باعث رحمت تھا ۔ آج تمام امت مسلمہ اس کا بھرپور فائدہ اٹھارہی ہے۔
حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے جس طرح سے اقتدار کا نظم ونسق سنبھالا تھا وہ قابلِ تحسین تھا۔ رسول اللہۖ سے مختلف معاملات میں صحابہ نے اختلاف کیا اور کئی مرتبہ وحی بھی انکے حق میں نازل ہوئی جیسے سورہ ٔ مجادلہ اورغزوۂ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے کے معاملے میں۔ خلفاء کیلئے اختلاف کی گنجائش نہ ہوتی تو پھر ان کا مقام ومرتبہ رسول اللہۖ سے بڑا تصور ہوتا۔ رسول اللہۖ کی رہنمائی وحی سے ہوتی تھی اور خلفاء کی رہنمائی باہمی مشاورت کے ذریعے سے ہورہی تھی۔ جب حضرت علی پر کسی نے اعتراض کیا کہ نظم ونسق آپ سے صحیح نہیں سنبھل پارہاہے ،آپ میں سابقہ خلفاء کی صلاحیت نہیں ہے تو حضرت علی نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر و عمر کے مشیر ہم تھے اور میرے مشیر تم لوگ ہو۔ یہ میری کمزوری نہیں بلکہ تمہاری غلط اور کمزور مشاورت کا نتیجہ ہے۔
خواب کے دو معانی ہیں۔ ایک نیند کی حالت میں خواب دیکھنا اور دوسرا مستقبل کے اندر اپنی تحریک اور مشن کے خواب دیکھنا۔ دونوں پر خواب کا اطلاق ہوتا تھا۔ بنی اسرائیل کی سورة میں جس خواب کا ذکر ہے جو نبیۖ کو بیداری کے عالم میں راتوں رات دکھایا گیا تھا۔ اس کی تعبیر اگلی آیات میں موجود ہے کہ بنی اسرائیل دو مرتبہ فساد برپا کریںگے۔ پہلی مرتبہ سخت قوم سے واسطہ پڑے گا۔ تاریخ میں روم کی سپر طاقت کو شکست دی گئی تھی ۔ یورپ کے بحر کو مسلمانوں کے جس طوفان نے آشنا کردیا تھا ، اس کی تعبیر نہ سمجھنے والے پاپڑ بیلیں یا بیچیں۔ اب دوبارہ پھر انشاء اللہ مسلمان فاتحانہ انداز میں ہی بیت المقدس میں اپنا داخلہ کرکے نبیۖ کے خواب اور قرآن کی آیات کو عملی جامہ پہنائیںگے۔
جب مسلمانوں کیخلاف ہونے والی سازشوں پر اہل کتاب کے کرتے دھرتوں کے منہ کالے ہونگے کہ کس طرح انسانیت کو تباہ وبرباد کیا۔ وسائل پر قبضہ کیا۔ ہیروئن و دیگر منشیات سمگلنگ کرنے کے جال بچھائے۔ نااہل حکمرانوں کے ذریعے لوٹ مار کا بازار گرم کئے رکھا۔ دہشت گردوں کی پشت پناہی کی۔ ریاستوں کے نظام کو تباہ کیا۔ انسانی جانوں کو بے پناہ تشدد اور جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا۔ قرآن میں الفاظ یہ ہیں کہ
فاذا جاء وعد لاٰخرة لیسوء وجوھکم ولیدخلوا المسجد کما دخلوہ اول مرة و لیتبروا ماعلوا تتبیرًاO
” جب دوسرا وعدہ آئے گا تاکہ تمہارے منہ کالے کردئیے جائیں اور تاکہ مسجد(اقصیٰ) میں داخل ہوں ، جیسے پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے، تاکہ تمہاری بڑائی خاک وخاکستر کردیں”۔ یہ شکست جسمانی تشدد اور بلڈنگوں کو تباہ کرنے کے ذریعے سے نہیں ہوگی بلکہ بہت بڑی اخلاقی شکست کا سامنا ان کو کرنا پڑے گا۔
سورۂ الحدید کے آخر میں بھی مسلمانوں کیلئے کفیلین دو حصوں کا ذکر ہے۔ پہلا حصہ گزر چکا ہے اور دوسرا حصہ باقی ہے۔ جس میں اہل کتاب کو یہ یقین ہوجائے گا کہ زمین پر ان کی اجارہ داری نہیں ہے۔ سورہ الحدید کی آخری دوتین آیات بھی دیکھ لیں۔
قرآن میں شجر ہ ملعونہ کا ذکر ہے۔ جنت سے نکلنے کا بھی یہی ذریعہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اے بنی آدم ! شیطان تمہیں ننگا نہ کرے جیسے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوادیا تھا۔ مذہبی طبقے نے ہمیشہ عوام کا استحصال کیا ہے۔ دورِ جاہلیت میں عورت کے حقوق پامال ہوتے تھے۔ قابیل نے ہابیل کا خون بھی عورت کی وجہ سے کیا تھا۔ آج جنسی تشدد کے بعد بچیوں کے واقعات جس طرح سے بڑھ رہے ہیں۔ ڈارک ویب کے فتنے ہیں، عورتوں کی ہراسمنٹ کا ہر جانب فتنہ عروج پر پہنچا ہوا ہے۔ مولوی حلالہ کے نام پر جس طرح عورت کا شکار اور استحصال کررہاہے اس نے غیرت، عزت، ضمیر، قانون ، انسانیت اور اخلاقیات کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ اس سے بڑھ کر لعنت کا ثبوت کیا ہوگا؟۔
قرآن میں طلاق اور اس سے رجوع کا معاملہ روزِ روشن کی طرح بالکل واضح ہے مگر مولوی اس کو سمجھنے کے باوجود نظرانداز کررہاہے۔ جس کے کرتوت مدارس کے طلبہ پر ہاتھ صاف کرنے سے بھی گریز نہ کرتے ہوں تو حلالہ کی لعنت پر اسکا ضمیر کیا جنبش کرے گا؟۔ ہم نے اپنی چار کتابوں اور اخبار کے بہت سے شماروں میں کافی وضاحت کردی ہے۔ تاہم یہ ممکن ہے کہ بعض لوگوں کے ہاں حقائق نہیں پہنچے ہوں اور غلط فہمی کا شکار ہوں اسلئے بار بار مختلف شماروں میں مختلف انداز سے تھوڑی بہت وضاحت کرنی پڑتی ہے۔شجرہ ملعونہ سے کیا مراد ہے؟ ۔ قرآن میں ناجائز جنسی تعلقات کے قریب جانے سے روکا گیا ہے۔
الذین یجتنبون کبٰرالاثم والفواحش الا اللمم ان ربک واسع المغفرة ھو اعلم بکم اذ انشاَکم من الارض و اذا نتم اجنة فی بطون امھٰتکم فلاتزکوا انفسکم ھو اعلم بمن اتقٰیO
”جو لوگ اجتناب کرتے ہیں بڑے گناہوں اور فحاشی سے مگر کچھ قصور سرزد ہوجائے۔ بیشک تیرا رب وسیع مغفرت والا ہے۔ وہ تمہیں جانتا ہے جب تمہیں زمین سے نکالا اور جب تم ماں کے پیٹ میں جنین تھے پس اپنے نفس کی پاکی بیان مت کرو۔ وہ جانتا ہے کہ کون متقی ہے”۔( سورۂ النجم آیت32)
انسان کی پیدائش کس غلے سے ہوئی ہے وہ بھی اللہ جانتا ہے اور جب ماں کے پیٹ میں جنین ہوتا ہے تب بھی وہ جانتا ہے۔ انسان اتنی کمزور چیز ہے کہ کھیت کی ہریالی میں بھی مست ہوجاتا ہے، اپنے بود وباش میں بھی مست ہوجاتا ہے۔ اس کے دل ودماغ میں کسی چیز کی واضح تصویریں اور نفسانی ہیجانات میں خواہشات کے رحجانات میں بہت کمزور واقع ہوتا ہے اسلئے اپنے نفس کے تزکیہ کیلئے غرور ودھوکہ دہی سے منع کیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ اللہ جانتا ہے کہ کون تقویٰ اختیار کرتا ہے۔ اچھے لوگوں کی یہ خوبیاں بیان کی ہیں کہ وہ بڑے گناہوں اور فحاشی سے اجتناب کرتے ہیں مگر تھوڑا سا قصور سرزد ہوجائے۔
اگر اللہ تعالیٰ بڑے گناہوں اور فحاشی سے اجتناب کا حکم نہ دیتا تو معاشرہ جانوروں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ بدتر ہوجاتا۔ انسانیت شرافت کا نام ہے جانور پن کا نہیں ۔ پاکستان ، ایران کا متعہ اور سعودی عرب کا مسیار بھی شجرہ ملعونہ کی فتنہ سامانیوں کا بادَ سموم ہی ہے۔ مغرب نے معاشرے کو بالکل تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ محمد شاہ رنگیلا اور خلافت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید کی ساڑھے چار ہزار لونڈیوں کے علاوہ سعد اللہ جان برق کی کتاب ”دختر کائنات” اور دوسری متعلقہ کتابوں میں شجرہ ملعونہ کی داستانیں دیکھ سکتے ہیں۔ دنیا میں جس طرح کی روش برپا ہے وہ کسی کی نظروں سے بالکل بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ جب اسلامی قانون سازی میں حضرت عمر فاروق اعظم کے دور میں بصرہ کے گورنرحضرت مغیرہ ابن شعبہ کے واقعہ میں بخاری کی روایات اور فقہاء کے اختلافات کاسلسلہ دیکھنے کو ملتا ہے تو پھر اس بنیاد پر کسی کے اندر یہ ہمت نہیں ہوسکتی ہے کہ اس واقعہ اور اس کے حوالے سے قانون سازی کو دنیا کے سامنے کوئی پیش کرسکے۔ سب سے کمزور گواہ نے جس طرح سے گواہی دی تھی وہ بھی اتنی دلچسپ اور معانی خیز ہے کہ انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیںگے تو شاید کسی دوسرے کو دیکھنے کی ہمت بھی نہیں ہوگی۔ اسلامی قانون سازی پر ایک اچھی پیش رفت اور قابلِ لائحۂ عمل اس وقت ممکن ہے کہ جب علماء ، دانشور اور حکام مخلص ہوکر بیٹھ جائیں اور پھر اس پر عمل بھی کریں۔ سنگساری کی سزا صرف جبری جنسی تشدد کی صورت میں ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی وضاحت بھی ہے۔ سورۂ نور میں سب کیلئے یکساں سزا کا حکم ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہورہاہے۔
طلاق اور اس سے رجوع پر جتنی وضاحت قرآن وسنت میں موجود ہے،اگر اس کی حقیقت کھل کر عوام کے سامنے آگئی تو بڑے بڑے مولانا چہرے چھپاتے پھریںگے لیکن اس شرط پر کہ وہ اس میں ملوث رہے ہوں اور ان میں شرم وحیاء کی رمق بھی باقی ہو،جو بڑی مشکل بات ہے۔ طلاق اور اس سے رجوع کو جتنا حساس معاملہ قرار دیا گیا ہے قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں اس کی حساسیت اس سے بہت زیادہ ہے لیکن اس کو سمجھنے کی کوشش پر کسی نے شاید اپنا وقت ضائع کرنے کی کوشش نہیں کی اور اگر کسی نے اپنا ایجنڈا بناکر مسائل کے حل کی کوشش کی ہو تو یہ نفسِ مسئلہ کیلئے نہیں ہے بلکہ اسکے اپنے مخصوص مقاصد کیلئے ہے۔
طلاق کے حوالے سے چند بنیادی باتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
(1:) طلاق سے رجوع کیلئے اللہ کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ لیکن شرط یہی کہ میاں بیوی اس طلاق کے بعد کسی بھی مرحلے پر صلح کیلئے رضامند ہوں۔
(2:) ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں عدت نہیں ہے لیکن مقرر کردہ حق مہر کا نصف ہے اور اگر مقرر نہ ہو تو غریب وامیر پر اپنی اپنی وسعت کے مطابق آدھا حق مہر ہے۔
(3:) ہاتھ لگانے کے بعد طلاق کی عدت بھی ہے۔ اگر طلاق کا اظہار نہ کیا جائے تو پھر عدت چار ماہ ہے اور رجوع کیلئے شرط باہمی رضامندی ہے اور اگر طلاق کا ارادہ تھا اور پھر اظہار نہیں کیا تو یہ دل کا گناہ ہے اس پر اللہ کی پکڑ ہے۔ اسلئے کہ طلاق کے اظہار سے عدت کی مدت میں ایک ماہ کی کمی آتی ہے۔
(4:) طلاق کے بعد عورت صلح پر راضی نہ ہو تو ایک طلاق کے بعد بھی رجوع کی اجازت نہیں ہے اور عورت اس کیلئے بالکل حرام ہے۔ زبردستی سے دس حلالے کے تصور سے بھی وہ حلال نہیں ہوسکتی ہے۔ یہی طلاق کی اصل اور بنیادی بات ہے۔ جو قرآن میں واضح کی گئی ہے اور اس کو اصلاح، معروف اور باہمی رضامندی سے واضح کیا گیا ہے۔
(5:) عورت کو حیض آتا ہو تو طلاق کی عدت تین طہرو حیض ہے۔ حیض نہیں آتا ہو یا کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے بہت جلد یاخلاف معمول دیر سے آتا ہو تو عدت تین ماہ ہے۔
(6:) عدت کے دوران کسی اور سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ عدت اللہ نے رجوع اور پشیمانی کیلئے رکھی ہے۔ طلاق کی گنتی کا اصل معاملہ صرف عدت کی گنتی کیساتھ ہے۔ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ پہلے طہروحیض، دوسرے طہرو حیض اور تیسرے طہرو حیض کی عدت اور تین مرتبہ طلاق کا معاملہ قرآن واحادیث میں بالکل واضح ہے۔
(7:) قرآن میں اتنا بڑا تضاد تو نہیں ہوسکتا ہے کہ ایک آیت میں عدت کے اندر باہمی اصلاح سے رجوع کی اجازت دے اور دوسری آیت میں عدت کے اندر رجوع پرپابندی بھی لگادے؟۔ علماء وفقہاء نے قرآن کریم کو تضادات کی عجیب کتاب بناکررکھ دیا ہے۔
(8:) عدت میں رجوع کرنے کی وضاحت صرف اسلئے کی گئی ہے تاکہ عورت عدت کی مدت پوری ہونے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزادی کا حق سمجھ لے۔ لیکن اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ قرآن میں بار بار وضاحت کی گئی ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی باہمی رضامندی سے رجوع ہے۔
(9:) آیت(228)البقرہ میں یہ واضح ہے کہ ایک مرتبہ طلاق کے بعد بھی اصلاح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور دس مرتبہ طلاق کے بعد بھی عدت میں رجوع ہوسکتا ہے۔ رجوع کا تعلق عدد سے نہیں بلکہ باہمی رضامندی اور عدت سے ہے۔آیت(229)میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ عدت کے تین مراحل سے تین مرتبہ طلاق کا تعلق ہے اور تیسرے مرحلہ میں بھی معروف طریقے سے ہی رجوع ہوسکتا ہے جس کو باہمی اصلاح ہی کہہ سکتے ہیں۔
(10:)جب عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو تو پھر کسی بھی طلاق کے بعد مرد کیلئے رجوع کرنا حلال نہیں یہاں تک کہ عورت اپنی مرضی سے کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ لیکن اگر وہ راضی ہو تو معروف طریقے اور باہمی رضامندی سے عدت کی تکمیل کے فوراً بعد اور عرصہ بعد رجوع کا دروازہ اللہ نے نہ صرف کھلا رکھا ہے بلکہ دوسروں کو بھی رجوع میں رکاوٹ نہ بننے کا حکم دیا ہے۔ علماء ومفتیان کو تفصیل کی ضرورت ہو تو سورہ بقرہ و سورہ طلاق کی آیات دیکھ لیں اور نہیں سمجھ میں آتی ہوں تو ہماری کتابوں میں تفصیلات موجود ہیں۔

NAWISHTA E DIWAR February BreakingNews Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

قرآن میں مختلف مذاہب کیلئے گنجائش ہے تو کیا مسلمان فرقے ایک دوسرے کیلئے اسکا مظاہرہ کریں گے؟

ان الدین عنداللّٰہ الاسلام : بیشک اللہ کے ہاں فقط اسلام دین ہے۔اسلام کا معنی تسلیم یعنی اللہ کو ماننا اللہ کی ماننا!
ان الذین اٰمنوا والذین ھادوا والنصٰرٰی والصٰبئین من اٰمن باللہ والیوم اٰخر وعمل صالحًا..

بیشک جو لوگ مسلمان ہیںاور یہودی اور عیسائی اور صابئین ہیں، جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کئے تو ان کیلئے اجر ہے اور ان پر خوف نہ ہوگا اورنہ وہ غمگین ہوں گے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

قرآن نے جس فراخ دلی سے مختلف مذاہب کیلئے گنجائش نکالی ہے تو کیا مسلمان بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث اور شیعہ کیلئے پاک وہند میں اس فراخ دلی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں؟۔

اہل تشیع اسلام کی ایک ایسی مسخ شدہ تصویر پیش کرتے ہیں کہ اسلام میں بارہ امام تھے اور پہلے امام سے آخری امام تک سب کا ایسے حالات سے سامنا پڑا تھا کہ آخر کار آخری امام حضرت خضر کی طرح ہزار سال سے زیادہ عرصہ ہوا کہ غائب ہوگئے ہیں۔ حالانکہ امام کا کام منصب اقتدار سنبھالنا ہے ،اگر اقتدار سنبھالنا نہیں ہے تو پھر اہل اقتدار سے زیادہ الجھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اُمت مسلمہ کے بارہ امام کا سلسلہ آئندہ آنا باقی ہے۔ جس طرح نبوت و خلافت کا سلسلہ پہلے بنی اسرائیل میں تھا، پھر قریش میں منتقل ہوا۔ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی ، حضرت حسن کے بعد بنوامیہ اور بنوعباس تک جاپہنچا اور پھر سلطنت عثمانیہ قائم ہوئی۔ محمود غزنوی کی حکومت کا دور ختم ہوا تو مغل سمیت مختلف خاندانوں نے ہندوستان پر حکومت کی ہے۔
ہندوستان کی آزادی کا پروانہ جاری ہوا تو علماء دیوبند کی اکثریت نے تو متحدہ ہندوستان کے حق میں تحریک چلائی ۔ بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان کے مسلمان ایک ہوتے تو کشمیریوں پر مظالم نہ ہوتے۔ لیکن متحدہ ہندوستان میں ہندوؤں کی اکثریت کی وجہ سے ہمیشہ ہندوؤں کی حکومت رہتی۔ اہل تشیع کی سمجھ بوجھ کے مطابق کافر ومرتد نام نہاد مسلمان حکمرانوں کے زیر دست انکے ائمہ اہلبیت نے مجبوری کی زندگی گزاری ہے لیکن مذہب کی قیادت وسیادت کا تمغہ حکمرانوں اور اہل اقتدار کے ہاتھوں میں نہیں تھا۔ اہل تشیع کے مراجع ائمہ اہل بیت ہی رہے ہیں۔ امام کی غیبت کبریٰ کے بعد مسلک اہل بیت کی آبیاری اہل تشیع کے فقہاء ومجتہدین نے آیت اللہ کی طرح جاری رکھی ہے۔
جس طرح ہندوستان کی آزادی کے بعد اقتدار کی باگ ڈور سیکولر ہندو کے ہاتھ میں تھی اور دیوبند، بریلوی اور اہلحدیث کے شیخ الاسلام اپنے اپنے تھے لیکن یہاں ووٹ کے ذریعے جمہوریت کا نقشہ تھا اور وہاں خاندانی تسلط کا راج قائم ہوتا تھا۔ اہل اسلام کیلئے بظاہر یہ جبری بادشاہت سے چھٹکارا تھا لیکن انگریزی نظام کی گرفت نے مضبوط جبری نظام کی آخری حدپار کردی۔
پہلے تو جائز وناجائز ، حلال وحرام اور قانونی وغیرقانونی معاملات کا بہت معروف تصور تھا۔ اس کے علاوہ اخلاقیات کی زینت سے معاشرہ مزین ہوتا تھا۔ مثلاً ایک آدمی کاگھر، اس کی زمین اور دکان کی قانونی حیثیت معروف تھی اور اس پر ناجائز قبضوں کا تصور پہلے تو تھا نہیں لیکن اگر کوئی ظالم حق تلفی کی کوئی کوشش کرتا تھا تو مظلوم کو قانون سے تحفظ مل جاتا تھا۔ قانون کے علاوہ بہت بڑا تصور معاشرتی اخلاقیات کا بھی ہوتا تھا کہ کوئی گھر ، دکان، زمین کسی ایک کی ملکیت ہوتی تھی ،دوسرے افراد کرایہ کے بغیر فائدہ اٹھاتے تھے۔
انگریز نے جس نظام کو ہماری قوم کو غلام بنانے کیلئے تشکیل دیا تھا ہم نے اس کو جب سے اپنا قانون بنالیا ہے تو اخلاقیات کا جنازہ نکلنے میں کیسے دیر لگ سکتی تھی کہ جب قانون طاقت اور سرمائے کا غلام بن گیا ہے؟۔ پاکستان میں جس ڈھٹائی سے طاقتور لوگوں کو غلط قانون نے معاشرے میںننگا کرکے رکھ دیا، اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کم ملتی ہوگی لیکن ہمارے لئے یہ شعور ایک بہت بڑا سرمایہ ہے اور یہ بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔
معروف اینکر پرسن سید محمد بلال قطب نے دینی مدارس میں بھی 7سال کا کورس کیا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کیساتھ بھی رہے ہیںاور اسلامی اسکالر بھی ہیں لیکن اسکے باوجود مولانا طارق جمیل کے ناقل مولانا آزاد جمیل سے سوال پوچھا کہ سسرالی رشتہ داروں کوحدیث میں آگ اور موت قرار دیا گیا ہے تو کیا جب عورت کا شوہر مرجائے تو اس کا نکاح اپنے سسر سے ہوسکتا ہے؟۔
مولانا آزاد جمیل نے جواب دیا کہ اگر مجبوری ہو تو ہوسکتا ہے۔ سیدبلال قطب نے کہا کہ یہ کیسا مسئلہ ہے کہ جس کو آگ قرار دیا گیا ہے، اس عورت کی اس سسر سے شادی ہو جس کو آگ قرار دیا گیا ہے، اس کیلئے زندگی گزارنا کتنا مشکل ہوگا؟۔ اس پروگرام میں دوسرے مکتبۂ فکر کے علامہ صاحبان بھی بیٹھ کر یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے اور یہ پروگرام رمضان میں افطاری سے پہلے نشر ہوا ۔ پھر سحری کے وقت نشر مکرر میں بھی چلا،دیکھا تو یقین نہیں آتا تھا کہ اتنی بڑی جہالت کا مظاہرہ کیسے ہوسکتا ہے؟۔ حالانکہ قرآن میں واضح الفاظ کے اندر جہاں محرمات کا ذکر ہے وہاں وحلائل ابناء کم ”جو تمہارے بیٹوں کیلئے حلال ہوں”۔ جس میں بہو کے علاوہ بیٹے کی لونڈی وغیرہ شامل ہیں۔
اگر فقہ واصولِ فقہ کی کتابوں کے علاوہ احادیث کی شروحات کے تناظر میں حرمت مصاہرت اور دوسرے مسائل دیکھ لئے جائیں اور ان کو پارلیمنٹ میں میڈیا کے سامنے لایا جائے تو مولانا فضل الرحمن، مولانا عبدالغفور حیدری اور دیگر علماء کی شلواریں واقعی گیلی ہوجائیں گی۔ کہیں لکھا ہے کہ غلطی سے بھی سوتیلے بچے کو شہوت کا ہاتھ لگ گیا تو بیوی حرام ہوجائے گی اور کہیں لکھ دیا ہے کہ بیوی کے سوتیلے سے لواطت کا فعل کرنے سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔ علاوہ ازیں بھی بہت شرمناک قسم کے مسائل لکھے ہیں۔
پارسی مذہب میں بہن بھائی کی شادی ہوسکتی ہے۔ قبل از اسلام جاہلیت کے دور میں سوتیلی ماؤں سے نکاح کیا جاتا تھا۔پھر اسلام نے روک دیا اور یہ واضح کیا کہ الا ماقدسلف ‘مگر جو پہلے ہوچکا ہے’۔ علماء وفقہاء نے بعد میں اسلام کے نام پر جو مسائل گھڑے ہیں وہ تو جہالت کو بھی مات دے گئے ہیں۔ گدھوں کی طرح آنکھیں بند کرنے سے مسائل حل نہیں ہونگے بلکہ اس سے پہلے پہلے کہ غیر مسلم ہم پر مکمل قابو پالیں اور پھر علماء مشائخ سے آپریشن کا اہتمام کروائیںاور مسلمانوں کو اسلام سے بدظن کریں،ہم نے بروقت اپنے دین کا دفاع کرنا ہوگا۔ قرآن اور اسلام کا محافظ مولوی نہیں اللہ ہے۔
قائداعظم کے دادا نے اسکے باپ کا نام پونجا جناح رکھا تھا۔ ہندوستانی اپنی اردو میں پوجا کو پونجا بھی کہتے ہیں۔ یہ اہل تشیع کے گھوڑے ذوالجناح کی طرف منسوب ہے وہ جو امام حسین کے نام پر محرم میں نکالتے ہیں۔ قائداعظم آغا خانی شیعہ تھے ۔ پارسی مذہب سے آغا خانی بن گئے تو شکر ہے کہ رتن بائی پارسی خاتون سے شادی کرلی۔ آغا خانی سیکولر قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ان کا مذہب سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا ہے۔ سید بلال قطب کا یہ حال ہے تو پھر ان کا کیا حال ہوگا؟۔ ہمارے کانیگرم میں ہمارے خاندان کے بڑوں کا ایک دوست تھا۔ جو بہت پکا قسم کا کانگریسی تھا۔ قائداعظم کا بہت سخت مخالف تھا جو گالی گلوچ کی حد تک بھی آجاتا تھا۔ جب اس کو چھیڑا جاتا تھا تو کہتا تھا کہ میں اس کی اس بیوی کی ایسی کی تیسی کردوں جس کو وہ اپنی بہن کی جگہ پراپنے ساتھ گھماتا ہے۔ یہ ایک طرح سے بڑوں کا آپس میں مذاق ہوتا تھا۔
آج قائداعظم محمد علی جناح، نوابزادہ لیاقت علی خان، مادرملت فاطمہ جناح ، بیگم رعنا لیاقت علی خان اور سول وملٹری بیوروکریسی اور سیاستدانوں کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان کو ملٹری ڈکٹیٹرشپ نے نقصان پہنچایا یا سیاسی طبقات نے؟۔ اس بحث میں ہماری قوم الجھی رہے گی اور آخر کار سقوط بغداد میں جس طرح چنگیز خان اور ہلاکو خان کی قوم نے مسلمانوں کا حشر نشر کردیا جو لایعنی فقہی مسائل، فرقہ وارانہ تعصبات اور ماضی کی یادوں میں گم تھے اور حال کی خبر لینے کی صلاحیت سے قاصر تھے۔ ارتغرل غازی کے ڈرامے سے قوم کی نشاة ثانیہ کیلئے کوئی کردار ادا نہیں ہوسکتا ہے۔
انجینئر محمد علی مرزا نے انکشاف کیا کہ مولانا احمدرضاخان بریلوی کا فتویٰ ہے کہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے اور دیوبندی ، اہلحدیث، شیعہ اور قادیانی ہزار بار بھی اللہ کانام لیکر کسی جانور یا پرندے کو ذبح کریں تو وہ حلال نہیں۔ مولانا احمد رضاخان کے پیروکاروں کی پنجاب میں اکثریت ہے علامہ آصف جلالی کو اہل تشیع نے تائب کردیا تو اس کا سارا غبار دیوبند کیخلاف نکل رہاہے دوسری طرف علامہ سعدرضوی کے قافلے میں اوریا مقبول جان جیسے دیوبندی بھی شامل ہورہے ہیں جس کا منطقی نتیجہ پنجاب میں دیوبندی واہلحدیث اور بریلوی تصادم کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ ہماری ریاست نے مجاہد تنظیموں اور سپاہ صحابہ سے سبق سیکھ لیا کہ نقص امن کا ذریعہ بن سکتے ہیں تو پاکستان میں اسلام کی روح زندہ رکھنا بھی ضروری ہے۔علامہ اقبال نے دعا دی تھی کہ
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے کہ تیرے بحرکی موجوں میں انقلاب نہیں
جب شیخ مجیب الرحمن نے الیکشن جیت لیا تو ذوالفقار علی بھٹو اقتدار منتقل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے ”ادھر تم اور ادھر ہم ” کا غم کھارہاتھا جس کا نتیجہ مشرقی پاکستان میں انتہائی کربناک شکست کا سامنا کرکے ایک طوفان سے پاکستانی قوم آشنا ہوگئی ۔ پھر بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کی حکومت بن رہی تھی اور خیبرپختونخواہ میں نیشنل عوامی پارٹی بلوچ وپشتون قوم پرستوں کی۔ لیکن مفتی محمود اور نیشنلسٹ مافیا نے ساز باز کرکے اپنی جمہوریت اور طاقت کیساتھ منافقانہ کھیل سے بلوچستان میں بلوچ نیشنلسٹ اور سرحد میں مفتی محمود کی حکومت قائم کردی۔ بلوچستان کی حکومت نے نوابی اور سرداری نظام ختم کرنے کا ایجنڈہ پیش کیا تو اس وقت کی اسٹبیلشمنٹ اور ذوالفقار علی بھٹو نے مل کر بلوچستان حکومت ختم کرکے سردار اکبر بگٹی کے ذریعے گورنر راج قائم کیا۔ جس کے نتائج بلوچستان میں طوفان کی شکل میں آسمان والوں نے دیکھ لئے ہیں۔ پھر بھٹو کی طاقت کو ختم کرنے کیلئے اپوزیشن کو مضبوط کیا گیا اور بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر چڑھانے کے بعد جماعت اسلامی کے کارکنوں کو روس کیخلاف جہاد کے مشن پر لگایا گیا اور سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیوایم سے طوفان اٹھانے کی خدمات لی گئیں کراچی میں کشت وخون کے بعد ابھی معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ طالبان کی مخالفت اور حمایت کرکے پختون قوم کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔
اگر بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام اور پختونخواہ میں نیشنلسٹ حکومت ہوتی تو پھر یہ پاکستان مخالف عناصر تھے۔ جس طرح فتح مکہ تک بنوامیہ نے ابوسفیان کی قیادت میں ڈٹ کر مسلمانوں کا مقابلہ کیا تھا اسی طرح یہ مذہبی اور قوم پرست طبقہ کہتا تھا کہ ہم پاکستان کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔ جس طرح بنی امیہ نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے کے بعد خلافت پر قبضہ کرلیا تھا ،اسی طرح نیشنلسٹ اور جمعیت علما ء ہند کے پیروکار وں کی طرف سے بھی پاکستان پر قبضہ ہوجاتا تو پھر پاکستان کو ہندوستان سے الگ کرنے کا تک بھی باقی نہیں رہتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو تو پہلے نیشنل عوامی پارٹی میں بھی شامل ہونے کیلئے تیار تھے لیکن اس نے جنرل سیکرٹری کا عہدہ مانگ لیا تھا۔
بریلوی خود کو مؤمن ، دیوبندیوں کو یہودی، اہلحدیث کو نصاریٰ اور شیعہ کو صابئین کا درجہ دینے کیلئے تیار ہوجائیں تو بھی غنیمت ہوگی۔ اسی طرح دیوبندی، اہلحدیث اور شیعہ بھی خود کو مؤمن اور دوسروں کو دیگر مذاہب کی طرح مان لیں تو اچھے نتائج برآمد ہونگے اور لوگوں کو الجھاؤ سے نکالنے کیلئے ہمیں قرآن وسنت کی طرف جلدسے جلد رجوع کرنا ہوگا۔

NAWISHTA E DIWAR February BreakingNews Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

بیت المقدس کی فتح سمیت پوری دنیا میں عالمی خلافت قائم ہونے کا وقت بالکل آن پہنچا ہے!

ان ھٰذا القراٰن یھدی للتی ھی اقوم ویبشر المؤمنین الذین یعملون الصٰلحت ان لھم اجرًا کبیرًاO
بیشک یہ قرآن رہنمائی ہے زیادہ اقامت کی اور بشارت دیتا ہے مؤمنوں کو جو صالح عمل کرتے ہیںبڑے اَجر کا۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

پاکستان فرقہ واریت کے لحاظ سے نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ اگر ہم نے صحیح کردار ادا کیا تو بیت المقدس کی فتح سمیت پوری دنیا میں عالمی خلافت قائم ہونے کا وقت بالکل آن پہنچا ہے!

اسلام کی نشاة ثانیہ ہوگی تو پورا ہندوستان دین فطرت کی سب سے زبردست آماجگاہ بن جائیگا۔ پاکستان میں ملحد طبقہ اسلام دین فطرت کو سمجھنے کے بعد روس کی اشتراکیت کو چھوڑ دیگا۔

اللہ تعالیٰ نے سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا:”پاک ہے وہ جو لے گیا رات کو اپنا بندہ، مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے ارد گرد کو اس نے برکت دی ہے۔ تاکہ ہم آپ کو اپنی نشانیوں میں سے دکھائیں۔بیشک وہ سننے دیکھنے والا ہے۔ اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کو بنایا بنی اسرائیل کیلئے ہدایت۔ خبردار! میرے علاوہ کسی کو وکیل مت بناؤ۔ یہ نسل تھی جن کو ہم نے نوح کیساتھ سوار کیا۔ بیشک وہ شکرگزار بندہ تھا۔ پھر ہم نے بنی اسرائیل کیلئے کتاب میں فیصلہ لکھا کہ تم ضرور دو مرتبہ فساد کروگے اور اپنی بہت بڑی بڑائی کامظاہرہ کروگے۔ جب تمہارے (فساد برپا کرنے کا) کا پہلا وعدہ آئے ،تو ہم تم پر سخت جنگجو قوم بھیج دیںگے ، پس تمہارے دیار میں ہر طرف پھیل جائیںگے۔ اور گویا کہ وعدہ پورا ہوچکا ہے۔ پھر اس کی گیند کو انکے خلاف تمہاری عدالت میں ڈال دیںگے۔ اور تمہاری امداد کریںگے، اموال اور بیٹوں سے اور تمہیں واضح مؤثراکثریت سے نوازیں گے۔پھر اگر تم اچھائی کروگے تو اپنے لئے کروگے اور اگر برائی کے مرتکب ہوگے تو اس کا نتیجہ مرتب ہوگا۔پھر جب دوسرا وعدہ آجائے تاکہ تمہارے چہروں کو سیاہ کردے۔ تاکہ وہ مسجد میں داخل ہوں جیسے وہ پہلے داخل ہوچکے تھے تاکہ مسمار کریںتم نے جو بڑائی اختیار کررکھی تھی اچھی طرح سے مسمار کرنا۔ ہوسکتا ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے۔ اور اگر تم پھر اپنی روش کی طرف لوٹوگے تو ہم بھی لوٹیںگے۔ اور ہم نے جہنم کو کافروں کیلئے چٹائی بنارکھا ہے۔ بیشک یہ قرآن رہنمائی کرتا ہے اس راہ کی جو سب سے زیادہ اقامت والا ہے۔ اور بشارت دیتا ہے مؤمنوں کو جو صالح عمل کرتے ہیں،بیشک ان کیلئے بڑا اجر ہے۔ اور بیشک جن لوگوں کا آخرت پر ایمان نہیں ہے ،ان کیلئے ہم نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے”۔
سورۂ بنی اسرائیل کے اس پہلے رکوع میں بہت کچھ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کا ماحول دکھایا توروم یورپ اس وقت ایک سپر طاقت تھی اور دوسری سپر طاقت ایران تھی۔ جس طرح روس وامریکہ دو سپر طاقت تھیں۔ قیصر روم بڑا اچھا بادشاہ تھا ،اگر رسول اللہۖ کی دعوت قبول کرنے کیلئے اس کے مشیراور وزیر اور قوم کے افراد مان جاتے تو ان کی طاقت تہس نہس نہ ہوتی۔ پھر ان کا سابقہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر فاروق اعظم ، حضرت علیفاتح خیبر اور حضرت خالد بن ولید جیسے لوگوںسے کردیا تھا۔ نبیۖ کے غلام حضرت زید ، حضرت بلال، حضرت عمر کے غلام ابولؤلو فیروز، حضرت علی کے غلام اشتر سے لیکر محمود غزنوی کے غلام ایاز تک مسلمانوں کا بہت شاندار ماضی علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں بیان کیا ہے۔
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
اگر چہ تاریخ میں مسلمانوں کے مدوجزر اُتار چڑھاؤ کا سلسلہ جاری رہاہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو زمین پر اجارہ داری کا ٹھیکہ نہیں دیا ہے،جب اصولوں کی خلاف ورزی ہو،تو عروج والی قوم کو ذلت ورسوائی کی شکست کا سامنا ہوتاہے۔
متعصب سنی شیعہ اسلامی تاریخ اور صحابہ کرام واہل بیت کے حوالے سے پاکستان میں فضاؤں کو آلودہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان کی ریاست اور حکومت کیلئے اپنے وزن پر کھڑا رہنا مشکل ہوگیا ہے تو دوسری طرف فرقہ وارانہ تقاریر، جلسے جلوس، سوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ علامہ سیدجواد حسین نقوی و دیگر حضرات نے برطانیہ کی ایم سولہ (MI6)کے ملوث ہونے کا بھی انکشاف کیا ہے۔ امریکہ، بھارت، اسرائیل اور ایران وسعودی عرب پر بھی الزامات لگائے جاتے ہیں۔
ہمیں صرف شیعہ سنی فسادات کا ہی راستہ نہیں روکنا ہے بلکہ دیوبندی بریلوی اور حنفی اہلحدیث کے اختلافات کو بھی ختم کرنا ہے۔ دیوبندی دیوبندی، شیعہ شیعہ، اہل حدیث اہل حدیث اور بریلوی بریلوی کو بھی آپس میں کھلا چھوڑ دیا جائے تو فسادات کی حد تک بات پہنچ سکتی ہے۔ اگر ہم نے قرآن وسنت کی راہ اپنائی تو مسلمان، یہود، نصاریٰ ، صابئین کو بھی اتحاد واتفاق اور وحدت کی راہ پر ڈالا جاسکتا ہے۔ ہندو، سکھ اور بدھ مت کے لوگوں سے بھی مسلمان امن وسلامتی کا رشتہ قائم کرسکتے ہیں۔
سورۂ بنی اسرائیل میں امن وسلامتی کابڑا پیغام ہے۔ رحمت للعالمینۖ سے فرمایا کہ” میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بات کریں جو اچھی ہو۔ بیشک شیطان انکے درمیان تنازعہ کھڑا کرنا چاہتا ہے اور بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے”۔( آیت53)
یہاں غلط بات سے روکا گیا تا کہ باہمی تنازعہ اور فتنہ وفساد اُبھرنے کا اندیشہ نہ ہو۔ فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے والے قرآن کے پیغام کو اچھی طرح سے سمجھیں۔ موجودہ دور سے لیکر صحابہ واہل بیت تک ایسی فضاء بنانے سے گریز کرنے کی سخت ضرورت ہے جس کی وجہ سے فتنے وفسادات ، جھگڑے اور باہمی نفرتوں کے اندیشے ہوں۔
اگلی آیت میں یہ پیغام مزید زبردست اور بہت واضح ہے کہ ” تمہارا رب تمہیں زیادہ جانتا ہے ، اگر وہ چاہے تو تمہارے اوپر رحم کرے یا چاہے تو تمہیں عذاب دے، اور ہم نے آپ کو ان پر وکیل بناکر نہیں بھیجا ہے”۔ (بنی اسرائیل آیت54)
سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ گزشتہ ادوار سے لیکر آج تک اللہ اپنے بندوں سے مخاطب ہے کہ وہ تمہیں زیادہ جانتا ہے اور چاہے تو رحم کرے یا عذاب دے۔ اس بات سے ہمیں یہ پتہ چلنا چاہیے کہ کونسا فرقہ ، جماعت اور گروہ اللہ کے نزدیک برحق ہے یہ اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔ نہ ہمیں آپس میں لڑنے جھگڑنے کی ضرورت ہے اور نہ صحا بہ کرام و اہل بیت اور اکابرین یا دوسرے مذاہب کے لوگوں کیلئے اللہ کے رحم اور عذاب کے ہم ٹھیکہ دار ہیں۔ جب رسول اللہۖ سے فرمایا گیا ہے کہ آپ کا کام کسی کی وکالت کرنا نہیں ہے۔ یعنی صرف حق کا پیغام پہنچانا ہے۔ تو پھر ہماری کیا اوقات ہے کہ کسی کی وکالت یا مخالفت کرکے تنازعات کھڑے کرنے شروع کریں؟۔ جب انسان کو اپنا مفاد ملتا ہے تو فرقہ وارانہ اور مذہبی تنازعات کو پیٹ کیلئے ترجیح دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا:” اور تیرا رب خوب جانتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے۔اور بیشک کہ ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت دی اور داؤد کو زبور دی۔ کہہ دیجئے کہ پکارو،ان لوگوں کو جن کو تم اسکے علاوہ کچھ سمجھتے ہو ۔پس وہ قدرت نہیں رکھتے تم سے تکلیف اٹھانے اور نہ بدلنے کی۔ یہ تو وہی ہیں جو پکارتے ہیںتلاش کرتے ہیں اپنے رب کی طرف وسیلہ ۔ کون ان میں زیادہ قریب ہے اور وہ اس کی رحمت کے امیدوار اور عذاب سے ڈرتے ہیں۔بیشک تیرے رب کا عذاب تھا ڈرنے کے لائق۔ اور بیشک کوئی ایسی بستی نہیں مگر قیامت کے دن سے پہلے ہم نے ان کو ہلاک کرنا ہے یا سخت عذاب دینا ہے۔ یہ پہلے سے کتاب میں لکھا ہے۔ اور ہمیں نہیں روکا نشانیاں بھیجنے سے مگر یہ کہ پہلے لوگ اس کو جھٹلا چکے ہیں۔ اور ہم نے ثمود کو اونٹنی دی تو اس پر انہوں نے ظلم کیا۔ اور ہم نے نشانیاں نہیں بھیجیں مگر لوگوں کو ڈرانے کیلئے۔ اور جب ہم نے آپ سے کہا کہ بیشک تیرے رب نے لوگوں کااحاطہ کررکھا ہے۔ اور ہم نے اس خواب کو نہیں بنایا جو آپ کو دکھایا مگر لوگوں کیلئے آزمائش اور قرآن میں شجر ہ ملعونہ کو۔ اور ہم انہیں ڈراتے ہیں ان میں اضافہ نہیں ہوتا مگر بڑی سرکشی کا۔ اور جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے۔ اس نے کہا کہ کیا میں اس کو سجدہ کروں جس کو مٹی سے بنایا ہے؟۔ پھر بولا: کیا آپ نے اس کو دیکھا ہے ،یہ وہی ہے جس کو مجھ پر عزت دی ؟۔ اگر آپ مجھے مہلت دیں قیامت کے دن تک تو اس کی نسل کشی کرکے رکھ دوں گا مگر ان میں سے تھوڑے۔ فرمایا کہ جاؤ جس نے ان میں سے تیری اطاعت کی تو بیشک جہنم تمہارا بدلہ ہے ،بھرپور طریقے کا بدلہ۔ تو ان میں جس کو پھسلاسکتا ہے اپنی آواز سے، اور ان کو کھینچ لا اپنے سواروں اور پیادوں سے ۔اور ان کو شریک کر اموال واولاد میں اور وعدہ کر ان سے۔ اور ان سے شیطان کا وعدہ نہیں ہے مگر دھوکے کا۔ بیشک میرے بندوں پر تیرا بس نہ چلے گااور تیرے رب کی وکالت کافی ہے”۔( بنی اسرائیل آیت55سے65 )
ان آیات میں امت مسلمہ کیلئے بڑے زبردست حقائق ہیں۔ بعض انبیاء کرام کو بعض پر فضیلت دی ۔ حضرت داؤد کو زبور دی تھی۔ حضرت داؤد وسلیمان کو منصبِ خلافت وبادشاہت بھی عطاء کیا گیا اور نبوت بھی۔ فضیلت کا اصل معیار تخت شاہی نہیں بلکہ منصب نبوت ہے۔ خلفاء راشدین و اہل بیت کی فضیلت پر جھگڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جن شخصیات کو اللہ کے علاوہ پکارا جاتا ہے تو ان کو نعرے لگانے دو لیکن وہ ان کی مشکلات کو ختم نہیں کرسکتے ہیں ۔ وہ خود اپنے لئے رحمت کا وسیلہ اور عذاب سے بچنے کا خوف رکھتے تھے۔ جو اپنے لئے اللہ سے رحمت کی امید اور عذاب کا خوف رکھتا ہو تو اس کو پکارنے سے کیا ملے گا؟۔مشرکینِ مکہ نے حضرت ابراہیم کے نام پر بت نصب کررکھا تھا۔ بنی اسرائیل بھی شخصیت پرستی اور شخصیت سوزی کا شکار تھے۔ عیسائی حضرت عیسیٰ سے دلی عقیدت رکھتے تھے لیکن یہود مقابلے بازی میں حضرت عیسیٰ کی توہین کرکے حضرت عزیر کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے۔ حالانکہ یہود کے پاس حضرت موسیٰ ، حضرت سلیمان، حضرت یوسف جیسی شخصیات بھی تھیں۔ جو علماء دیوبند رسول اللہۖ کی ولادت کا دن نہیں مناتے ہیں وہ یوم صدیق اکبر اور یوم فاروق اعظم مقابلے میں مناتے ہیں اور اگر یہی حال رہا تو وہ وقت دور نہیں کہ ابوسفیان وہندہاور مروان ویزیدکے دن بھی منانا شروع کریںگے۔
خلافتِ راشدہ،بنوامیہ ،بنوعباس کے بعد مکہ ، مدینہ، کوفہ، بغداد اور (1857ئ) کی جنگِ آزادی میں برصغیرپاک وہند کے بہت سے شہروں کو تخت وتاراج کیا گیا۔ پھر امریکہ نے افغانستان، عراق ، لیبیا اور شام کو تباہ کردیا۔ اس سے پہلے بیروت اور دیگر شہروں کی خونریزی کی تاریخ بھی موجود ہے۔ شیطان نے جس طرح انسانوں کی نسل کشی کا عہد کیا تھا وہ اس پر عمل پیرا ہے اور نسلِ انسانی ہی اس کی آلۂ کار بنتی ہے۔ اگر انسانوں کو شیطانی دھندے سے خبردار نہیں کیا گیا تو یہ سلسلہ بہت تیزی کیساتھ بڑھے گا اور ہمارے خطے کے علاوہ دنیا میں دوسرے ممالک اور قوموں کی بھی خیر نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نبیۖ کو خواب دکھانالوگوں کی آزمائش قرار دیا اور اسی طرح شجرہ ملعونہ کو بھی آزمائش قرار دیا جس کا ذکر قرآن میں ہے ۔بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کا ذکر ہے۔ جہاں ارد گرد کا نورانی ماحول اللہ تعالیٰ نے دکھایا تھا۔ پھر وہ بھی مسلمانوں نے دیکھ لیا کہ جب مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں نے پہلی مرتبہ بنی اسرائیل کی سپر طاقت کو شکست دیکر فتح کیا تھا۔ آنے والے وقت میں پھر توقع ہے کہ مسجد اقصیٰ پھر مسلمانوں کے ہاتھ سے فتح ہوگی لیکن اس مرتبہ بنی اسرائیل کیساتھ اللہ کی مہربانی سے رحم کا سلوک کیا جائے گا۔
جس طرح نبوت کیلئے معاشرے کے شریف ترین خاندان سے تعلق فطری بات تھی، اسی طرح اگر حضرت ابوسفیان کی بات کو مثبت انداز میں لیا جاتا کہ قریش کے کمزور ترین خاندان سے حضرت ابوبکر کے مقابلے میں بنوہاشم کے حضرت علی منصبِ خلافت پر فائز ہوں تو اسکے نتیجے میں شاید حضرت عثمان کی اتنی جلد تختِ خلافت پر شہادت، مسلمانوں کا آپس میں قتل و غارتگری میں مبتلا ء ہونا اور خلافت پر بادشاہت کیلئے خاندانوں کا قبضہ ہونا ممکن نہ ہوتا۔ہمیں ایک طرف اس بات کو اجاگر کرنا ہوگا کہ حضرت ام ہانی نے حضرت محمدۖ کے رشتے کو فتح مکہ کے بعد بھی قبول نہیں کیا تو یہ بنی ہاشم کی نسل میں سرداری کے جینز تھے اور یہ بھی سراسر غلط ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ کی عمر نکاح کے وقت صرف چھ (6)سال اور رخصتی کے وقت فقط نَو (9)سال تھی۔ اس سے یہ تأثر قائم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر کے قبیلے کی کوئی حیثیت بالکل بھی نہیں تھی اسلئے کہ اتنی کم عمری میں لڑکی کا بیاہ کرنا کسی خاندان کی گراوٹ ہے۔ہم نے ناقابلِ تردید تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ حضرت عائشہ کی عمر نکاح کے وقت سولہ (16)سال اور رخصتی کے وقت اُنیس (19)سال تھی۔ جس سے حضرت ابوبکر کا سردار ہوناہی ثابت ہوتا ہے اور قبیلے میں کسی نقص کا احساس نہیں ہوتا ۔ حضرت عائشہ نے تیسری زوجہ ہونے کی حیثیت سے نبیۖ کے گھر میں اُنیس (19)سال کی عمر میں قدم رکھا تھا۔ میری اپنی ماں نے بھی اسی کے لگ بھگ عمر میں تیسری بیگم کی حیثیت سے میرے والد کے گھر میں قدم رکھا تھا اور میرے نانا کانیگرم کے خان اور میرے والد کے قریبی عزیز بھی تھے۔
بنی اسرائیل خاندانی وجاہت میں شیطان کی طرح مبتلاء ہوگئے تو ان پر ذلت اور مسکنت مسلط کردی گئی۔ وزیرستان کے محسود ، برکی اور پیر بھی جب امن وامان کی نعمت کے ناشکرے بن گئے تو ذلت ورسوائی کے مقام پر پہنچ گئے۔ اب سنورنے کا موقع ہے۔

NAWISHTA E DIWAR February BreakingNews Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

موجودہ ججوں کا ساراکچرا افتخار محمد چوہدری کی بے اصولی اور نالائقی کا کرشمہ ہے !

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

میثاق جمہوریت میں پی سی او (PCO)کے ججوں کی عدم بحالی تھی، افتخارمحمد چوہدری کی بحالی بلٹ سے ہوئی ۔اپنے آپ کو معاف کرکے چیف جسٹس نے دوسروں کونکال دیا،موجودہ ججوں کاساراکچرا اسی بے اصول نالائق کا کرشمہ ہے !

چیف جسٹس آف پاکستان نے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو میثاق جمہوریت سے پھر جانے کو افسوسناک قرار دیا ہے لیکن عدالت کے سامنے ایک یاد داشت پیش کرنے کی ضرورت ہے!

جنرل اشفاق پرویز کیانی نے میثاق جمہوریت کے منافی پیپلزپارٹی کی بزدلی کا فائدہ اُٹھاکر پی سی او (PCO)جج افتخار محمد چوہدری کو بحال کروایا ، موجودہ ججوں کا سارا ملبہ اسی اقدام کا نتیجہ ہے

چیف جسٹس آف پاکستان نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کامیثاق جمہوریت سے ہٹ جانے پر بہت افسوس کا اظہار کیا ہے۔ لیکن چیف جسٹس اور موجودہ ججوں کے سامنے ایک یادداشت پیش کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ جو اصولوں کی بحالی اور قانون کی حکمرانی کیلئے ایک بہت بڑی بنیاد بن سکتی ہے۔ ہمارا ملک اخلاقیات سے زیادہ اصولی بحران کا شکار نظر آرہاہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان اپنے دائرے سے باہر سیاسی معاہدے کی طرف جھانک رہے ہیں۔ جس کا اپنا کام قانون کی وضاحت اور آئین کی تشریح ہے۔
افتخار محمد چوہدری نے نہ صرف پی سی او (PCO)کے تحت حلف اٹھایا تھا بلکہ ججوں کے اس فیصلے میں بھی شامل تھے جس میں پرویز مشرف کو چیف آف آرمی اسٹاف و صدرمملکت کی حیثیت سے تین سال تک اپنی من مانی کے مطابق قانون سازی کی اجازت بھی دی گئی تھی۔ جس کے ضمیر نے ایک منتخب حکومت کو ختم کرنے پر ٹھنڈا ٹھار ستوکا شربت پی لیا تھا لیکن جب اسکی اپنی نوکری کی بات آئی تو پولیس والے سے بال نوچوائے لیکن اس کیلئے تیار نہیں ہوا تھا۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان میثاق جمہوریت میں یہ طے ہوا تھا کہ آئندہ کسی پی سی او (PCO)جج کو بحال نہیں کیا جائے گا۔ جب افتخار محمد چوہدری کی بحالی کا معاملہ آیا تھا تو میثاق جمہوریت کا تقاضہ تھا کہ پی سی او (PCO)کا حلف اٹھانے والے جج افتخار محمد چوہدری کو بحال نہ کیا جائے لیکن چوہدری اعتزاز احسن اور نوازشریف کی قیادت میں لاہور سے وکلاء کا جلوس اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کررہاتھا تو آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی نے صدر مملکت آصف علی زرداری اوروزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر دباؤ ڈال کر افتخارمحمد چوہدری کو بحال کروالیا۔ میثاق جمہوریت پر عمل ہوتا تو چیف جسٹس بحال نہیں ہوسکتاتھا۔
میثاق جمہوریت کو توڑتے ہوئے افتخار محمد چوہدری کی بحالی نے عدالت میں بلٹ کا بارود بھی بھر دیا تھا۔ اس نے انتہائی بے شرمی ، بے غیرتی ، بے ضمیری، بے حیائی اور اورپتہ نہیں کس کس چیز کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرویز مشرف کی طرف سے بالکل میرٹ پر بھرتی ہونے والے سارے ججوں کو نہ صرف فارغ کردیا بلکہ انتہائی ذلت امیز سلوک کرتے ہوئے ان کی ناک رگڑوانے کی بھی پوری پوری کوشش کی تھی جس پر محترمہ عاصمہ جہانگیر نے بھی بہت سخت افسوس کا اظہار کیا تھا۔ پرویزمشرف نے جس طرح ڈاکٹر عطاء الرحمن کو کراچی یونیورسٹی کا وائس چانسلر میرٹ پر لگایا تھا اور ڈاکٹر منظور احمد کو اسلامک انٹرنیشنل کا وائس چانسلر میرٹ پر لگایا تھا۔ ڈاکٹر عامر طاسین کو مدرسہ بورڈ کا چیئرمین میرٹ پر لگایا تھا اسی طرح سے عدالت کے جج بھی میرٹ پر لگائے تھے اپنے مامے چاچے نہیں لگائے۔
افتخارمحمد چوہدری نے مسلم لیگ ن کیساتھ مل کر عدلیہ کو اپنی مرضی سے بالکل گند سے بھر دیا ہے جس کی سزا آج پوری قوم کو مل رہی ہے۔ چیف جسٹس کے داماد کو کراچی میں جب میرٹ کے خلاف شادی حال کا ٹھیکہ نہیں ملا تھا تو اس کا سارا نزلہ فوجیوں پر گرادیا۔ جسٹس شوقت صدیقی اور جسٹس فائز عیسیٰ نے نوازشریف کیلئے کیا کچھ نہیں کیا ہے؟۔ جس طرح نوازشریف کیلئے اتوار کے دن بھی عدالت لگتی تھی تو اس کی کوئی مثال دنیا کی تاریخ میں ملتی ہے؟۔ وزیراعظم عمران خان کو جلاب لگ گئے تھے کہ اگر نوازشریف کو نہیں چھوڑا تو توہین عدالت کے کیس میںوزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی طرح نااہل ہوجاؤں گا۔ ججوں کی اکثریت وکالت کی پریکٹس کرنے کے بعد جج بنتی ہے ۔ وکیلوں میں کوئی کوئی تو بہت اچھا بھی ہوتا ہے لیکن ایسے بھی بہت ہوتے ہیں کہ اگر کوئی اس کی ماں یا بیوی کو آغواء کرلے اور آغواء کار اس کو اس کی ماں کے خلاف بھی وکیل رکھ لے تو پیسہ کمانے کیلئے اس سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔ یہی بے غیرت، بے شرم ، بے ضمیر اور بے حیاء وکیل بھی جب جج بن سکتے ہیں تو اس ملک میں قانون کی حکمرانی کا کیا تصور ہوسکتا ہے؟۔
جب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنا جرم پی سی او (PCO)کے تحت حلف اُٹھانا اور تین سالوں تک پرویز مشرف کو قانون سازی کی اجازت دینا معاف کیا اور جنہوں نے عدلیہ میں نوکری کی خاطر حلف اٹھایا،کوئی خلافِ قانون کام نہیں کیا اور کسی کو کوئی ریلف بھی نہیں دی تھی لیکن ان کو صرف نوکری سے ہی نہیں نکالا گیا بلکہ توہین آمیز رویہ بھی اختیار کیا گیا تھا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر وہ کسی دوسرے محکمے میں بھرتی ہوتے تو پھر عدلیہ اس کو اس طرح خلاف قانون فارغ کرنے پر لامحالہ بحال بھی کرتی۔ جن کو اپنے ذاتی بغض وعناد کی وجہ سے فارغ کیا اور پھر موجودہ ججوں کو نظریہ ضرورت کے تحت نوکری پر رکھا گیا ، آج وہی جج پاکستان کی عدلیہ میں بیٹھے ہیں؟۔ علی احمد کرد، عاصمہ جہانگیر اور دوسرے وکلاء نے جس طرح ججو ں کی بحالی کیلئے قربانی دی تھی وہ ججوں کی حالتِ زار دیکھ اپنے کردار کا رونا روتے تھے۔ چوہدری اعتزا ز احسن نے تو نوازشریف کو اس وقت دوبارہ بری کروادیا تھا کہ جب کورٹ میں دوبارہ کیس چیلنج کرنے کی قانونی مدت بھی بالکل ختم ہوگئی تھی۔
بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کو لندن کی عدالت نے جتنے ارب جرمانہ کرکے رقم پاکستان کو بھیج دینی تھی اتنی ہی رقم کا یہاں اس پر جرمانہ لگایا گیا اور پھر وہ رقم اس جرمانے کی مد میں قبول کی گئی۔ گویا بالکل مفت میں بحریہ ٹاؤن کے غیر قانونی اقدامات کو قانونی بنانے کیلئے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سیاسی چال کی عدالت نے اپنی بدترین بد چلنی دکھادی۔ جب یوسف رضا گیلانی کہہ رہا تھا کہ میں صدر کے خلاف خط اسلئے نہیں لکھ سکتا ہوں کہ اس کو آئین نے تحفظ دیا ہے تو اس کو نااہل قرار دیا گیا تھا اور جس پرویزمشرف کی آئین میں ملک پر قبضے کا کوئی قانون نہیں تھا اس کو تین سال تک آئین سازی کا حق دیا گیا۔
ریکوڈک پر جتنا جرمانہ پاکستان پر عائد کیا گیا ہے اس کی ذمہ دار نااہل عدلیہ ہے اور ججوں سے جرمانے کی تمام رقم وصول کرنے کیلئے زبردست اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ دیکھ لیا جائے کہ ججوں کی بیگمات نے کس طرح سے کن دھندوں کے تحت اتنے پیسے کماکر بیرون ملک جائیدادیں بنائی ہیں؟۔ شاہ رُخ جتوئی اور مصطفی کانجو کا ایک طرح کیس تھا تو شاہ رخ جتوئی کو راضی نامے کے باوجود نہیں چھوڑا گیا اور مصطفی کانجو ایک بیوہ ماں کا اکلوتا بیٹا تھا جو سپریم کورٹ کے سامنے کہہ رہی تھی کہ مجھے اپنی جوان بچیوں کی عصمت دری ہی کا خوف ہے اسلئے اس کیس سے پیچھے ہٹ رہی ہوں۔ اگر انقلاب کیلئے دنیا میں جہنم تیار کی گئی تو دوسرے سنگین مجرموں کو بھٹہ خشت میں ڈالا جائے گا لیکن ججوں اور وکیلوں کو اسٹیل مل کے لوہے میں ایندھن کے طور پر ڈالا جائے گا کیونکہ ان کی وجہ سے انصاف کا فقدان ہے۔

شیعہ سنی مسئلہ کا دانشمندانہ حل اور قرآن کی طرف اُمت کابڑازبردست رجوع!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

وقل لعبادی یقولوا التی ھی احسن ان الشیطٰن ینزع بینھم ان الشیطٰن کان للانسان عدوًا مبینًاO
ربکم اعلم بکم ان یشأ یرحمکم او ان یشأ یعذبکم وما ارسلنٰک علیھم وکیلًاO ا لقراٰن

اور(اے رسول ۖ) میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بات کریں جو بہتر ہو ۔ بیشک شیطان انکے درمیان تنازع کھڑا کرنا چاہتاہے اور بیشک شیطان انسان کیلئے کھلا دشمن ہے۔

تمہارا رب تمہیں خوب جانتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو تمہارے اوپر رحم کرے یا وہ چاہے تو تمہیں عذاب دیدے اور ہم نے آپ کو ان پر وکیل بناکر نہیں بھیجا ہے۔بنی اسرائیل (53،54 )

اہل تشیع کی چار معروف شخصیات ہیں۔ حضرت ابوطالب علیہ السلام، حضرت مولیٰ علی علیہ السلام ، حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام۔
حضرت ابوطالب اہل مکہ کے مسلمانوں اور مشرکین کے اندر مشترکہ عزت کے نقیب تھے۔ رسول اللہۖ نے اللہ کے حکم سے مزاحمتی تحریک شروع کردی تو حضرت ابوطالب کا کردارحضرت محمدرسول اللہۖ کیلئے سب سے زیادہ نمایاں تھا۔ شعب ابی طالب میں تین سال تک مشرکینِ مکہ کا بائیکاٹ برداشت کیا۔ رات کو سونے کے بعد حضرت علی اور نبیۖ کی جگہ تبدیل کرواتے تاکہ حملہ آور حضرت رسول خداۖ کی جگہ پر حضرت علی کو شہید کردے۔ اپنے سب سے چہیتے بیٹے کو رسول خداۖ پر قربان کرنے کے جذبے سے عالمِ اسلام کے مسلمانوں کو سبق کیا ملتا ہے؟۔
رسول اللہۖ کا ایک مشن تھا اور اس مشن کیلئے حضرت ابوطالب نے فرزند کی قربانی دینا گوارا کرنے کی ٹھان لی تھی۔ یہ سبق حضرت ابراہیم کا اپنے فرزنداسماعیل کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے سے ملا تھا۔ حضرت ابراہیم کو اللہ نے اس خواب کی تعبیر کیلئے حکم دیا کہ حضرت اسماعیل کو اپنی والدہ محترمہ کیساتھ وادی غیرذی زرع مکہ میں چھوڑ آنا تو حضرت ابراہیم نے حکم کی تکمیل کردی۔ حضرت ابراہیم کے دوسرے فرزند حضرت اسحاق کے بیٹے حضرت یعقوب اور پوتے حضرت یوسف کو بھی نبوت سے سرفراز فرمایا۔ حضرت داؤد و حضرت سلیمان اور حضرت موسیٰ وحضرت عیسیٰ تک بنی اسرائیل میں ہزاروں انبیاء آئے لیکن حضرت اسماعیل کی نسل میں کوئی نبی، خلیفہ اور بادشاہ و حکمران نہیں آیا ،یہاں تک کہ اسلام نے پوری دنیا کو نور سے رونق بخش دی۔
حضرت یوسف کو بھائیوں نے ویران کنویں میں ڈال دیا مگر حضرت محمدۖ کیساتھ چچا ابوطالب نے اپنے بیٹے سے زیادہ محبت دینے کا ثبوت پیش کیا۔ایثار کا یہ جذبہ قریش کو وراثت میں ملا تھا۔ آج علماء کرام کیلئے مدظلہ کی دعا کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور نبیۖ کیلئے حضرت ابوطالب کا سایہ ٔ عاطفت ابر رحمت تھا۔ ابوطالب نے نبیۖ کی جو پرورش کی تھی ،اس کا اثر حضرت علی میں اتنا ہرگز نہیں تھا۔ نبیۖ نے صلح حدیبیہ کی تمام شرائط صرف اسلئے مان لیں کہ یہ ابوطالب کی مفاہمت کی تربیت تھی۔ حضرت علی نے انکار کیا کہ محمد سے رسول اللہ کے لفظ کو نہیں کاٹوں گا۔ حضرت عمر اور تمام صحابہ سراپا احتجاج تھے ۔ وحی کی رہنمائی بھی نہیں ملی تھی۔ حضرت ابوطالب نے جس تربیت کا اہتمام کیا تھا اس کا نتیجہ فتح مبین کی صورت میں اللہ نے دکھادیا۔
حضرت ابوطالب کی صاحبزادی ام ہانیکا نبیۖ نے رشتہ مانگاتو حضرت نے انکار کردیا۔ بیٹے علی سے زیادہ بیٹی ام ہانی کی قربانی نہ تھی۔ لیکن ابوطالب نے درست سمجھ لیا تھا کہ نبیۖ کو مالدار خاتون کی ضرورت ہے جس کی کفالت کیلئے کام کی ضرورت نہ ہو۔حضرت ام ہانی کا نکاح جس مشرک سے کردیا ،وہ فتح مکہ کے بعد بھی مسلمان نہیں ہو ۔ ام ہانی کی اپنے شوہر سے وفاداری کا یہ عالم تھا کہ ہجرت بھی نہیں کی اور جب شوہر چھوڑ کر گیا تو نبیۖ کا رشتہ پھر بھی قبول نہیں کیا تھا۔
صلح حدیبیہ کے وقت قریش مکہ کا حلیف قبیلہ بنوبکر اور مسلمانوں کا حلیف قبیلہ بنو خزاعہ تھا۔ معاہدے میں حلیف قبائل کو بھی شامل کیا گیا، جب قریشِ مکہ نے اپنے حلیف قبیلے کا ساتھ دیکر معاہدہ توڑ دیا تو مسلمانوں نے اپنے حلیف قبیلے کی وجہ سے حضرت ابوسفیان کی طرف سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ قائم رکھنے کی استدعا مسترد کردی تھی۔ جب صلح حدیبیہ قائم تھا تو ہجرت کرکے آنے والی خواتین کو واپس کرنے سے انکار کیا گیا،تاکہ ان پر کوئی تشدد نہ ہو۔ مسلمانوں کو حق مہر ادا کرکے نکاح کی اجازت دی گئی اور انکے کافر شوہروں کو ان کا حق مہر لوٹانے کا حکم دیا گیا۔ پھر مسلمان مردوں کو یہ حکم دیا گیا کہ کافر عورتوں کو تم اپنے نکاح میں مت رکھو۔ ان سے حق مہر واپس لے لو ،جیسا کہ کافر مردوں کو چھوڑ کر آنے والی عورتوں کا حق مہر لوٹانے کا حکم ہے اور یہ تمہارے ہی درمیان اللہ کا فیصلہ ہے۔ اگر تمہاری کافر عورت تمہیں حق مہر نہ لوٹائے تو اس کا بدلہ نہ لو اور جو عورتیں اپنے شوہروں کو چھوڑ کر آئی ہیں ان کو انکے مثل واپس کرو۔ اللہ سے ڈرو۔( سورہ ٔ الممتحنة)
علماء نے قرآن کی تفاسیر میں ڈنڈیاں ماری ہیں۔ قرآن نے جس اعلیٰ معیار کا اخلاق پیش کیا آج ہندوستان کے ہندو، سکھ اور بدھ مت کو ان اعلیٰ اقدار سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے۔ مشرکینِ مکہ کی بیگمات مسلمان بن کر آرہی تھیںتو یہ جاہلانہ غیرت کیلئے بڑا چیلنج تھا لیکن اللہ نے مسلمانوں کو اپنی کافر بیگمات چھوڑنے کا حکم دیکر جاہلانہ غیرت کو پنپنے کا موقع نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کویہ حکم نہیں دیا کہ اپنے کافر شوہروں کو چھوڑ کر ہجرت کرو۔ پاکستان کے جاہل مسلمانوں کی غیرت اسلام نہیں جہالت کی وجہ سے ہے ۔ قائداعظم کی بیگم رتن بائی پارسی تھیں۔
مالدار علماء کی اکثریت اپنی بیٹیوں کا مستقبل روشن کرنے کیلئے دنیا دار کو دیتے ہیں لیکن نبیۖ کے غریب جانشینوں کو نہیں دیتے ، یہ ابوطالب کی سنت پر عمل ہے۔
جب انصار و قریش میں خلافت پر تنازعہ کھڑا ہوا لیکن حضرت ابوبکر کے حق میں فیصلہ ہوگیا تو حضرت ابوسفیان نے حضرت علی سے کہا کہ خلافت قریش کے کمزور قبیلے میں گئی، اگر آپ کہیں تو سواروں اور پیادوں سے میدان بھر دوں؟۔ حضرت علی نے اس شیطانی پیشکش کو یکسر مسترد کردیا۔ اگر حضرت علی نے تعاون نہ کیا ہوتا تو پھر قیصر وکسریٰ کی سپر طاقتوں کو شکست نہیں دی جاسکتی تھی۔ حضرت علی نے حضرت عمر سے کہا کہ آپ جنگوں میں بذاتِ خود تشریف نہ لیجائیں۔ حضرت عمر کی وفات پر حضرت علی نے حضرت عمر کی زبردست تعریف کی تھی۔حضرت عثمان کی شہادت کے وقت چالیس یا ستر دن تک محاصرہ ہوا تھا لیکن بنی امیہ کے افراد نے خلیفۂ سوم کو بچانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ حضرت علی اور حسن وحسین کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ خلافتِ راشدہ کے دور میں جس طرح حضرت علی کے کردار کو نمایاں حیثیت حاصل تھی ، اسی طرح بنوامیہ کا اقتدار حضرت حسن کے کردار سے ہی ممکن ہوسکا تھا۔ پھر یزید کے دور میں امام حسین کا کردار سب سے نمایاں تھا۔
امام زین العابدین سے امام حسن عسکریاور پھر امام محمد مہدی کی غیبت صغریٰ و کبریٰ تک ائمہ اہلبیت ظاہری خلافت کے منصب سے محروم رہے ہیں۔ آئندہ آنے والا وقت بتائے گا کہ مہدیٔ غائب کے ظہوراور حضرت عیسیٰ کے نزول کا وقت کب آئے گا؟۔ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شاہ ایران کے خلاف آیت اللہ خمینی نے انقلاب برپا کردیا تھا مگر ہمارے والے شاہ سعود کی گائے کا دودھ پی پی کر ابھی تک جوان نہیں ہوئے ہیں۔
اہل تشیع جن شخصیات کو اپنا سرمایۂ دین وملت سمجھتے ہیں یہ اہل سنت کیلئے بھی ویساہی سرمایۂ دین وملت و افتخار ہیں۔ جن ذاکرین عزاداری نے مذہب کیساتھ ساتھ اپنامعاشی معاملہ بھی بنارکھا ہے یہ ان کا حق ہے لیکن جن اہل تشیع نے اسلام کو اپنا مشن سمجھ رکھاہے وہ زیادہ لائق تحسین وافتخار ہیں۔ علامہ سید حیدر نقوی کی مجالس میں ذاکرین جایا کریںگے تو ان میں اعتدال بھی آئے گا اور مزاحمت ومفاہمت کی منزل بہت بہتر انداز میں حاصل کر سکیں گے۔اگر انہوں نے ہمیشہ اپنوں کو پٹوانے اور مروانے کا سلسلہ اپنے مفادات کی خاطر جاری رکھا تو پھر یہ امت تنزلی کی مزید منازل سر کرتی رہے گی۔

NAWISHTA E DIWAR February BreakingNews Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

پاکستان میں بیلٹ کی سیاست کو بُلٹ سے جدانہ کیا تو منافقت کی انتہاء ہوگی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جس سینیٹ کے چیئرمین کیلئے کھلی دھاندلی قابلِ قبول تھی ،جس سینیٹ کے ارکان کھلی دھاندلی سے پہلے ہی منتخب ہوکر آئے، جس قومی وصوبائی الیکشن میں قانون سے زیادہ رقم خرچ کرکے الیکشن جیتا تو بحث خوش آئند ہے؟

جس ملک کی عدلیہ الیکشن کرائے تب بھی دھاندلی کا الزام ہو، فوج کرائے تب بھی دھاندلی کا الزام ہو، پٹواری کرائے تب بھی دھاندلی کا الزام ہو اور الیکشن کمیشن بھی بالکل بے بس ہو!

جہاں سیاسی جماعتیں غنڈے استعمال کرتی ہوں، جہاں ریاست کے خلاف غنڈہ گردی کرنے والے اقتدار اور اپوزیشن میں قابلِ اعتماد ہوں، کوئی عدلیہ پر کوئی پی ٹی وی (PTV)پر چڑھ دوڑے!

پاکستان ایک ایسا خوش بخت لیکن بہت بڑا کم بخت ملک ہے کہ جو ایک طرف اپنے مصورعلامہ اقبال کے انقلابی اشعار کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے جس میں انقلاب کی تبدیلی آجائے تو یہ چار سو بدل جائے۔ تیری دعا ہے کہ دنیا بدل جائے، میری دعا ہے کہ تُو بدل جائے۔ اگر تیری ذات بدل جائے تو کیا عجب کہ چارسو بدل جائے۔ دوسری طرف بڑاکم بخت اس لئے ہے کہ ”مجموعۂ اضداد ہے اقبال نہیں ہے” کی طرح تضادات ہی تضادات کا وہ مجموعہ ہے کہ اس عجیب الخلقت قسم کے ملک کی مثال انسانی ہی نہیں حیوانی تاریخ میں بھی نہیں ملے گی اور حیوانی اسلئے کہ جہاں طاقت کا قانون ہوتا ہے وہاں جنگل کے جانور ہی کا قانون ہے۔ جبکہ ایسے ممالک بھی ہیں کہ جہاں قانون کی جگہ طاقت کی حکمرانی ہے۔ جہاں قانون کی حکمرانی کو اسلام اور طاقت کی حکمرانی کو کفر قرار دیا جائے تو بیچ کی حکمرانی کی مثال اس منافقت سے پوری طرح مماثلت رکھتی ہے جسکے انجام کو قرآن ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النار ” منافقین کاا نجام آگ کے سب سے نچلے حصے میں ہوگا” قرار دیا ہے۔

ہم خوش قسمت قوم اسلئے ہیں کہ” رنگ بدلتا ہے آسماںکیسے کیسے” کی وجہ سے ہمارے قومی شعور میں بہت تیزی کیساتھ دن دگنی رات چگنی ترقی اور زبردست اضافہ ہورہاہے۔ وہ دیکھو ! سینیٹ کا چیئرمین جناب صادق سنجرانی کے سرپر بخت کا نایاب پرندہ ہما بیٹھ گیا۔ جس شخص میں مجھے نہیں پتہ کہ یونین کونسل اور ضلعی کونسل سے لیکر صوبائی وقومی اسمبلی کی کوئی نشست جیتنے کی صلاحیت تھی یا نہیں؟۔ لیکن چیئرمین سینیٹ بننے کی صلاحیت ہرگز بھی نہیں تھی۔ مسلم لیگ ن کے دور میں بلوچستان حکومت سے تبدیلی کا آغاز ہونا شروع ہوا تو بڑا واضح ماحول دیکھنے میں آیا کہ تحریک انصاف کے عمران خان، جمعیت علماء اسلام کے مولانا فضل الرحمن اور پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری تثلیث کا مقدس زوایہ بناکر پاکستان میں بلٹ کی میگزین صاف کرکے چمکا رہے ہیں اور بلوچستان کی حکومت پر جمہوری رنگ بُلٹ سے فائر کرکے عوامی نمائندوں کی محبوبہ امن کی فاختہ کو زخمی کرکے چاروں شانے چت زمین پر ڈھا رہے ہیں۔ اس فاختہ کا ایک پَر بلوچستان کی قوم پرست جماعت تھی جسکا وزیراعلیٰ انتہائی اچھے سیاسی کارکن اور شریف آدمی عبدالمالک بلوچ تھے۔ جسکے دوسرے ساتھی ان سے بھی شریف اور شریف زادے میرحاصل خان بزنجو تھے۔ جمہوری فاختہ کے دوسرے پَر مسلم لیگ ن کے ثناء اللہ زہری تھے۔ اس فاختہ کے دل کی دھڑکن اور پروں کی پھڑکن کا اہم ترین حصہ ملی پشتون خوا عوامی نیشنل پارٹی کے محمود خان اچکزئی تھے جنکا بھائی گورنر تھا ۔

بلوچستان میں جمہوریت کی تثلیث کی مقدس گائے کو صلیب پر چڑھانے کے بعد تبدیلی سرکار کے بلٹ پروف عمران خانیہ اینڈ آصف زرداریہ نے باہمی اتفاق رائے اور بغل میں بغل بانہوں میں باہیں ڈال کر صادق سنجرانی کو چیئرمین بنادیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اس الیکشن کے دوران جماعت اسلامی کے معزز رکن کو ایوان سینٹ ہی میں گلہ دبوچنے کی کاروائی بھی کر ڈالی۔ خیر زیادہ دلچسپ معاملات کے باوجود طوالت کے خوف سے قصہ مختصر یہ ہے کہ تبدیلی سرکار کے بلٹ میں اقتدار کا نشہ بھی شامل ہوگیا، جب اپوزیشن کے بلٹ میں چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کا اتنا بڑا جادو تھا تو اقتدار میں آنے کے بعد اس میں کس قدر اضافہ ہوگا؟۔ اپوزیشن کی واضح اکثریت نے بلٹ پروف چیئرمین کو چیلنج کرنا شروع کیا تو امجد شعیب سمیت تمام دفاعی تجزیہ نگاروں کی یہی متفقہ رائے تھی کہ ”خنجر اُٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں”۔ دیکھنا نتائج جمہوریت کے برعکس بلٹ اور بلٹ پروف والوں کے حق میں سوفیصد آئیں گے۔جب نتیجہ آیا تو

دنیا ہوئی حیران یہ کیسا پاکستان ہے یہ کیسا پاکستان؟۔ بلٹ کے زور پر یہ چلتا ہے یہ میرا پاکستان ہے یہ تیراپاکستان ۔ یہ اسلام کی پہچان ہے ، یہ اوریا مقبول جان ہے۔ بڑی شدت اس کا نشان ہے ، یہ منافقت کا قبرستان ہے۔ منافق یہاں بڑا مسلمان ہے۔یہاں جمہوریت کا دسترخوان ہے ، یہاں ڈکٹیٹر شپ کا یہ پکوان ہے۔ یہاں سیاست کا خاندان ہے ، یہاں متبادل نظام طالبان ہے۔ کوئی بندہ رحمان ہے ،کوئی بندہ شیطان ہے۔ یہاں گیٹ نمبرچار (4)کی داستان ہے۔ یہاں پیٹ نمبرون کا ایک گمان ہے۔

ایک دن میں ایک سے چار چار ویڈیو سوشل میڈیا پر جاری کرنے والے صابر شاکر اور عمران خان ایک طرف فوجی حکام کی جانب سے وارننگ دیتے ہیں کہ خبردار اگر بلٹ والے کو بلٹ پروف سیاست میں ملوث کیا تو خیر نہیں ہوگی،تو دوسری طرف یہ دعوے بھی کرتے ہیں کہ فوج سے فلاں فلاں کے رابطے ہیں، فلاں فلاں نے معافی تلافی کردی۔ سوشل میڈیا کے اینکرپرسن جس انداز میں گھن گرج سے آسمانی بجلیاں گراتے ہیں اس کی چمک اور احساس ان کو بالکل واضح طور پر ہوجاتا ہے جو بالکل اندھے بہرے نہ ہوں۔ یہ سوشل میڈیا کے کارندے پرانی گاڑیوں سے دھویں چھوڑنے کی طرح ماحولیاتی آلودگی میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اندھوں بہروں کو بلٹ اور لاٹھی سرکار سے ڈرا دھماکر منہ کالا کرنے والے سیاہ دھویں اور کان پھاڑنے والی آواز کو بارانِ رحمت اور باد صبا کہنے پر مجبور کرنے کی بہتیری کوشش بھی کرتے ہیں۔خدارا ، عقل کے ان اندھوں اور فکر کے ان بہروں کو سرِ عام معافی دے دی جائے۔ ان کے سننے اور بولنے سے ملک کے مفادِ عامہ کا کوئی کام ہونے کے بجائے اچھے خاصے باشعور لوگوں کو مزید بگڑنے پر مجبور کیا جارہاہے۔ مکھی بننے والے سے یہ کیا کہنا کہ تیری دُم بہت اچھی لگ رہی ہے۔ ماشاء اللہ چشم بدور۔ بس صرف تیری موتی جیسی آنکھوں کی چمک کیساتھ تیرے سر کو اگر سرکارِ ملت نے کلغی سے بھی سجایا ہوتا تو بہت خوب ہوتا۔ کھانے پینے کی کوئی فکر مت کرو ، یہ مرغا بننے کا اعزا ز دنیا میں کسی ملک کو حاصل نہیں ہے یہ بلٹ سرکار کی نذرِ کرم اور پٹھو گرم کا کھیل ہے جو بڑے نصیب والوں کو ملتا ہے۔ مرغا بننے والے کو بات معقول سی اسلئے لگتی ہے کہ افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں مرغا بننے سے واقعی بات آگے نکل گئی ہے اور اگر ہماری قوم کی گردن میں جان ہے تو جہاں ہے ،یہ میرا اور آپ کا پاکستان ہے۔

جب پارلیمنٹ کا بلبل نما کبوتر کوئے کی طرح بہت تیزی سے کائیں کائیں کرنا شروع کردیتاہے تو اپنے اپنے گھروں میں ٹی وی دیکھنے والے سامعین کے نوالے ان کے حلق میں اٹکنے لگ جاتے ہیں۔ پھر جب قادر پٹیل شاہین کی طرح جھپٹ کر مراد سعید پر حملہ آور ہوجاتا ہے تو غلطی سے سوشل میڈیا پر کسی خراب سین کے منظرنامے کی طرح دلچسپ لیکن انتہائی شرمناک وارداتیہ بن کرسامنے آتا ہے۔ یہ جمہوریت کا حسن ہے یاپارلیمنٹ کا کوئی بازارِ حسن؟۔ ہمیں تو زیادہ دلچسپی نہیں ہے لیکن قارئین کو دلچسپی ہو تو کتابوں کی شکل میں بھی ایک ایک چیز کی تفصیل مارکیٹ سے مل سکتی ہے ۔ خاص کر اردو بازار لاہور یا کراچی سے۔ مگر اچھا ہے کہ اس دھندے کی طرف توجہ نہ کی جائے جس کی اہمیت حق مہر عندالطلب جتنی بھی نہیںہے۔فضاؤں میں پرانی گاڑیوں کی آلودگیوں کو موسم بہار کی بارش کون کہہ سکتاہے؟ اور یہ شعر وشاعری اور ادب سے دلچسپی کا باعث مشاہداللہ خان کی وجہ سے پھر بھی تھی!۔وہ بھی اپنی بہادری کے تکلف کے باوجود سیاسی وفاداری سے اپنی صلاحیت کو ضائع کرگئے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم (PDM)کو کمزور کرنے کا سارا الزام ن لیگی میڈیا پیپلزپارٹی پر لگارہاتھا لیکن اب ہم نے جب معاملہ کچھ طشت از بام کردیا تو بلاول بھٹو زرداری پی ڈی ایم (PDM) کو بھٹو کی طرح زندہ قرار دیتا ہے اور مریم شریف نے اپنا ٹائر برسٹ کرکے دکھادیا ہے۔

NAWISHTA E DIWAR February BreakingNews Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani

صحابہؓ اور اہل بیتؓ کے تنازع سے لے کر شیعہ سنی اور حنفی اہل حدیث کے ایک ایک مسئلے کا حل

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مولانا فضل الرحمن،مولانا طارق جمیل، مولانا مسعود اظہر، مولانا معاویہ اعظم، انجینئر محمد علی مرزا، پروفیسر احمد رفیق اختر، مفتی منیب الرحمن، علامہ سعد حسین رضوی، علامہ سیدجواد نقوی ، علامہ شہنشاہ نقوی، علامہ ساجد میرمتحد ہوں!

صحابہ کرام اور اہلبیت عظام میں تنازع سے لیکر موجودہ دور کے شیعہ سنی اور حنفی اہلحدیث ایک ایک مسئلے کا ایسا حل جو سب کیلئے قابلِ قبول نہ ہو تو مجھے گمراہ قرار دیکر پابندی بھی لگائیں

ریاست اور حکومت کی طرف سے انتظام ہو تو نہ صرف پاکستان ،عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیا کے تمام مسائل کاسب کیلئے قابلِ قبول حل بھی قرآن وسنت میں موجود ہے۔آؤ ذرا دیکھو!

فلسطین اور کشمیر کے مسئلے سے لیکر پاکستان کی پارلیمنٹ کے مسئلے تک اور حضرت ابوبکر و حضرت علی کے اختلاف سے لیکر موجودہ دور میں سوشل میڈیا پر بھونکنے والے شدت پسندوں تک ایک ایک مسئلے کا حل قرآن وسنت میں ہے لیکن افسوس کہ اجتماعی حیثیت میں ہمارا قرآن کی طرف دھیان تک نہیں گیا۔
دنیا بھر میں حلف اور حق کی گواہی کی ایک تسلیم شدہ حیثیت ہے۔ اللہ نے شیطان کی جماعت کو واضح کیا ہے کہ وہ جھوٹے وعدے کرتے ہیں اور جھوٹے حلف اٹھاتے ہیں۔ اللہ کی جماعت کو واضح کیا ہے کہ وہ حق کی گواہی میں اپنے باپ، بھائی اور قریبی رشتہ داروں کا بھی لحاظ نہیں رکھتے ہیں۔ ہم حلف اٹھانے کو اجتماعی حیثیت میں کوئی اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ وزیراعظم عمران تک کو حلف اُٹھانے میں الفاظ کی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اہمیت حلف کے معانی نہیں بلکہ الفاظ کی رہ گئی ہے۔ حالانکہ اصل بات حلف نامے میں معانی کی ہوتی ہے۔
جن پر کرپشن کے الزامات ہیں تو نیب اور عدالتوں کو چھوڑ کر ان سے لائیو چینلوں پر حلف لیا جائے۔ نوازشریف پارلیمنٹ کے بیان اور قطری خط کی بھی وضاحت کرے۔ پھر اسکے خاندان اور پارٹی میں موجود ان لوگوں سے گواہی طلب کی جائے جن کی صداقت سے وہ حزب اللہ میں شامل ہوجائیں۔ مسئلے کا یہ ایسا حل ہے جس کا ذکر سورۂ مجادلہ میں قیامت اور دنیا کے حوالہ سے ہے۔
حضرت ابوبکر نے خلافت کا منصب انصار سے اس بنیاد پر جیت لیا تھا کہ امام قریش میں سے ہونگے۔ پھر خلافت راشدہ کا خاتمہ ہوا تو بنی امیہ کا اقتدار پر قبضہ ہوا، بنی امیہ کا دھڑن تختہ بنوعباس نے کیا۔ عباسی اسلئے خلافت کے حقدار قرار دئیے گئے کہ حضرت عباس نبیۖ کے چچا اور علی چچازادتھے، ابوطالب نے اسلام قبول نہیں کیاتھا حالانکہ خلفاء ثلاثہ اور بنوامیہ بھی چچا تھے نہ چچا زاد۔ پھر چنگیز خان کی اولاد ہلاکو خان نے بنوعباس کا دھڑن تختہ کیاتو اسکے بعد ترک عثمانی سلطنت نے خلافت کا منصب سنبھال لیا جو قریش بھی نہیں تھے۔ ترکی بھی خلافت کی بحالی کیلئے پر تول رہا ہے۔ ملاعمر بھی امیر المؤمنین بنے تھے اور داعش، حزب التحریر اور دوسری جماعتیں بھی خلافت کی بحالی چاہتی ہیں۔ جبکہ ایران میں آیت اللہ امام خمینی کا اسلامی انقلاب ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے آزاد کشمیر کوٹلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک دفعہ کشمیر کو مکمل آزاد کردیںگے اور پھر وہ خود فیصلہ کرینگے کہ آزاد رہنا ہے یا پاکستان کیساتھ؟۔ آئی ایس آئی کے سابق افسر طارق اسماعیل ساگر نے اس کو عالمی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا سارا خرچہ رائیگاں جائیگا۔
اگر عالمی طاقتوں نے کشمیر کو آزاد کرنے کا فیصلہ کرلیا تو بھارت پیچھے ہٹ جائیگا اور امریکہ ونیٹو اور اقوام متحدہ کی افواج کشمیرمیں دفاعی امداد کے نام پر اپنے مشن کو پورا کریںگی۔ چین کا راستہ روکا جائیگا۔ اگر پاکستان اسلامی مزارعت کی بنیاد رکھ دے تو بھارتی پنجاب کے سکھ ، مسلمان اور ہندو بھی اسلامی نظام کا مطالبہ کرینگے اور بھارت کو مجبوری میںاس کوتسلیم کرنے کا فیصلہ بھی کرنا پڑیگا۔ جب بھارت کے باسی یقین کرلیںگے کہ اسلام نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے تو پھر وہ محمد شاہ رنگیلا کی عیاشیوں کو دل سے نکال کر اسلام کے گرویدہ بنیں گے۔ پھر بھارت اور پاکستان کی صلح ہوگی اور عالمی قوتیں مداخلت نہیں کرسکیں گی۔
مزارعت سے غریب عوام کو خوشحالی مل جائے گی تو عالمی قوتوں کو فرقہ پرستی اور شدت پسندی کے نام پر استعمال ہونے والا خام مال نہیں ملے گا۔ جب ان کی قوتِ خرید بڑھ جائے گی تو ملز اور فیکٹریاں چلنا شروع ہونگی۔ روزگار ملے گا تو کرپٹ عناصر اپنے نالائق بچوں کیلئے کرپشن سے باز آجائیں گے۔ جب شہری اور دیہاتی زندگی میں خوشحالی کی روح دوڑے گی تو شیطان چھٹی کرلے گا اور زمین پر بسنے والے محنت کش دو حصوں میں تقسیم ہونگے۔ دیہات دنیاوی جنت اور انڈسٹریاں دنیاوی جہنم کا مظہر نظر آئیں گی۔ کاشتکار باغات اور سہولیات سے مالا مال ہونگے تو اسلام کی تعلیم اور نظام کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہوئے نبیۖ پر سلام بھیجیںگے۔ اور جن کرپٹ عناصر سے کرپشن کی رقم چھن جائے گی وہ بادِسموم ، گرمی کی شدت اور ملوں میں کام کرنے کی وجہ سے کالے دھوئیں سے لتھڑے ہونگے ، یہ دھواں ٹھنڈا ہوگا اور نہ ہی فرحت بخش۔ یہ وہ لوگ ہونگے جنہوں نے مسلسل بڑی بڑی کرپشن پر بڑے ہاتھ صاف کرنے پر مسلسل اصرار کیا ہوگا۔ سورۂ واقعہ میں اس کی زبردست تفصیل ہے اور پھر ان کو دوسرے کافروں سمیت دعوت دی جائے گی کہ یہ دنیا کا عذاب تو بہت کم ہے اور آخرت کا عذاب بہت سخت ہوگا۔ جب شجرہ زقوم سے تواضع ہوگی ،جس سے پیٹ بھرے گا اور نہ بھوک مٹے گی۔پھر گرم پانی سے خاطر مدارات ہوگی اور اونٹ کی طرح لیٹ کر پانی پینا پڑے گا۔ جہاں تک سبقت لے جانے والوں کا تعلق ہے تو ان کا کیا کہنا۔ روح اور ریحان ہیں۔یہ صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین میں بہت تھے لیکن اسلام کی نشاة ثانیہ میں بہت تھوڑے سے ہونگے۔جب انقلاب آئے گا تو یہ حضرات چارپائیوں پر بیٹھ کر آمنے سامنے گپ شپ لگائیں گے۔ پوری دنیا سے کچھ بھی نہیں مانگا جائے گا۔البتہ اہل لوگوں کو انکا اپنا اپنا منصب دے دیا جائیگا۔ ان کوپھلوں کا جوس نبیز پلایا جائیگا جس سے وہ خمار ہونگے لیکن نہ تونشہ آئیگا اور نہ سر چکرائے گا۔ ان کی اپنی بیگمات حیاء دار اور باپردہ ہوں گی۔ جن کا سورۂ رحمن میں بھی ذکر ہے۔
جہاں تک اصحاب الیمین ہیں تو ان میں غریب امیر بہت بڑی تعداد میں ہونگے اوراصحاب الیمین نبیۖ کوبہت خوشی سے سلام بھیجیںگے۔ ان کی بیگمات بھی بہت اچھی ہوں گی۔ خوشحالی اور فراوانی کے سبب اللہ تعالیٰ ان کو کنواریوں کی طرح بنادینگے۔ دنیا بھر سے جو مہمان فیملیاں آئیں گی ، وہ بہت شریف النفس اور اچھے لوگ ہوں گے اور ان کے بارے میں فحاشی وعریانی پھیلانے کے کوئی تصورات نہیں ہونگے۔ ان کو کسی انسان اور جن نے ناجائز انداز میں کبھی چھوا تک بھی نہیں ہوگا۔ پاکستان جنت نظیر بن جائیگا تو دنیا بھر سے اتنے سیاح آئیں گے کہ ان کو بکنگ کا موقع بھی مشکل ہی سے ملے گا اور دنیا بھر سے جو اچھے لوگ آئیں گے تو اصحاب الیمین کے ہاں ان کیلئے آنے کی گنجائش ہوگی۔ پورے پاکستان کو باغات اور بہتی ہوئی نہروں سے مالا مال کیا جائے گا۔ البتہ انڈسٹریل زون بھی مناسب طور پر ان علاقوں میں بنیں گے کہ جہاں پر شہری آبادیوں کو مناسب روزگار اور دنیا میں ترقی وعروج کے مواقع مل سکیںگے۔
قرآن جب نازل ہوا تھا تو کفار اس پر کبھی یقین نہیں کرسکتے تھے کہ مکہ ومدینہ میں جہاں دریا، نہروں، ندی نالوں اور بہتے ہوئے چشموں کا کوئی تصور نہیں تھا کہ ایک دن وہ بھی آئے گا کہ مسلمان قوم ہمیشہ کیلئے دنیا میں جنت نظیر باغات،دریاؤں، نہروں اور بہتے ہوئے چشموں کے مالک بنیںگے۔ حالانکہ جب سپر طاقتوں کو خلفائ نے شکست دی تھی تو یورپ سے ایشاء تک مسلمان ہمیشہ کیلئے باغات اور نہروں کے مالک بن گئے اور پہلے کوئی کافر اور منافق اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہوتا تھاکہ نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر صرائے حجاز کے رہنے والے مسلمان کیسے باغات اور نہروں کے مالک بن جائیںگے؟۔ حضرت علی نے زمینوں کو آباد کرکے لوگوں کو مفت دینے کا بڑا مشن اپنے سر لیا تھا۔ جب حضرت سید عبدالقادر جیلانی کے والد صالح جنگی دوست کو بہتے ہوئے پانی میں ایک سیب مل گیا تو بے تکلف کھالیا پھر سوچا کہ کسی کے باغ سے نہر میں گرا ہوگا۔ اور اس باغ کے تعاقب میں نکل گئے۔ جب باغ کے مالک سے اپنی غرض پیش کی کہ سیب کیلئے معافی چاہتا ہوں تو مالک نے کہا کہ اس شرط پر معاف کر سکتا ہوں کہ میری ایک لولی، لنگڑی، اندھی اور بہری بیٹی ہے اس سے شادی کرنا پڑیگی۔
صالح جنگی دوست نے مجبوری میں ہاں کردی لیکن جب دیکھا تو وہ صحیح سلامت بہت خوبصورت لڑکی تھی۔ واپس آکر بتایا کہ میں غلط جگہ پہنچا تھا لیکن اس کو بتایا گیا کہ یہی ہے۔ یہ صفات استعارہ کے طور پر آزمائش کیلئے ذکر کئے تھے۔ اس کے قدم کبھی غلط جگہ کی طرف اُٹھے نہیں، غلط چیز کو ہاتھ نہیں لگا۔ غلط آواز سنی نہیں، غلط چیز دیکھی نہیں ہے۔ حدیث میں ہاتھ ، پیر ، کان اور آنکھ کی بدکاری کا بھی صراحت کیساتھ ذکر ہے۔ حضرت آدم اور حضرت حواء سے اللہ نے فرمایا کہ اس شجرہ کے قریب مت جاؤ۔ یہ شجرۂ نسب کا استعارہ تھا۔ پھر وہ قریب گئے اور عذر پیش کیا کہ ہم بے بس تھے، منصوبہ بندی سے اس حکم کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ قرآن میں اکلا کا ذکر ہے جو کھانے کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے اور کنگھی کیلئے بھی۔ لامستم النساء کے معنی بھی مباشرت کے واضح ہیںلیکن بعض بیوقوف ائمہ فقہ نے اس سے عورت کے اوپر محض ہاتھ لگنا قرار دیا تھا۔اس وقت حضرت آدم و حواء کی غلطی سے قابیل کی پیدائش ہوئی اور انسانوں میں فرشتوں سے بڑھ کر انسان بھی ہوتے ہیں اور شیطان سے بڑھ کر ابلیس بھی ہوتے ہیں۔ قرآن کے آخری الفاظ میں ایسے خناس کا ذکر ہے جو جنات اور انسانوں میں سے ہیں۔
جو سیب غلطی سے صالح جنگی دوست نے کھایا وہ طاقت بن کر شاید سید عبدالقادر کی شکل میں دنیا میں آیا۔ آپ کی ماں حسینی اور باپ حسنی سید تھے۔ طالب جوہری نے لکھ دیا ہے کہ ” دجالِ اکبر سے پہلے مشرق سے دجال آئیگا جسکے مقابلے میں حسنی سید ہوگا اور اس روایت سے مراد سیدگیلانی ہیں”۔ (ظہور مہدی : علامہ طالب جوہری)
جب ہمارے آبا واجداد نے کانیگرم جنوبی وزیرستان کو آباد کیا تو ہماری زمینوں اور پہاڑوں کے نیچے ندیاں بہہ رہی تھیں اور انہوں نے اس میں انواع واقسام کے بڑے باغات لگائے۔ جو آج بھی زندہ و تابند ہ ہیں۔ ہم نے بچپن میں سنا تھا کہ پہلے کانیگرم میں کالے گلاب بھی تھے۔ ہمارے بچپن میں میرے والد صاحب نے بھی گلاب کے پھولوں کی باڑ اور باغ جٹہ قلعہ علاقہ گومل میں لگایا تھا۔ بھائی نے گھر میں گلاب کے ایسے پودے لگائے تھے جو پاکستان ہی نہیں بلکہ فرانس کے شہر پیرس کے ڈزنی لینڈ پارک میں بھی نظر نہیں آئے تھے۔ ہم نے دیوبندی بریلوی علماء کو بلایا تھا کہ عرس، جلسہ ،اجتماع جس نام سے جمع ہونا تمہیں پسند ہو ،آجاؤ اور متحد ہوجاؤ۔ جس کی گواہی اب بھی زندہ رہنے والے دیوبندی اور بریلوی علماء کرام دیں گے۔
مولانا فضل الرحمن کو ہم نے صرف اس بات پر ‘ تنبیہ ‘ کردی تھی کہ اپنی جماعت پر خلافت اور مسلمانوں کی اس جماعت کے بارے میں ان احادیث کو فٹ مت کرو جن میں الگ ہونے کی صورت میں آگ اور جہنم کی وعیدیں ہیں۔ انہوں نے ہماری بات مان بھی لی اور اسکے بعد ان وعیدوں کا ذکر بھی نہیں کیا اور نہ اپنی جماعت پر ان احادیث کا اطلاق کرنے کی جرأت کی لیکن جمعیت علماء اسلام کے علاوہ سپاہ صحابہ کے کارکنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے علماء ومفتیان کو بھی ہمارے پیچھے لگادیا۔ ٹانک کے مجاہدین کو بھی ہمارے پیچھے لگادیا تھا لیکن آخر کار ہرمحاذ پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر ہمارے گھر پر تشریف لائے تو اس کو یہ خوف بھی تھا کہ کھلی کھلی باتیں سننے کو ملیں گی۔ اس کو پتہ نہیں تھا کہ اس کی جماعت کے افراد نے اس کی ساری پسِ پردہ کار گزاری مجھے بتائی ہے اور میں نے اپنے اس بھائی تک کو بھی کچھ نہیں بتایا جو اسکا کارکن رہ چکا تھا، آج بھی محض انقلاب کیلئے معاملات کا انکشاف کرنا پڑرہاہے اور کچھ چھپا ہوابھی نہیں ہے۔

NAWISHTA E DIWAR February Special Edition 2021
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat #imam_e_zamana

پچپن (55) منٹ تک گالیاں دیکر میرا دل چھلنی کردیا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جب پچپن (55)منٹ کی ویڈیو میں مولانا طارق جمیل نے انتہائی معذرت خواہانہ لہجہ اپنایا اور بلال شہید کو مطمئن نہ کرسکے تو اس پر بہت مدلل اور بیباک انداز میں بات کی جائے۔ تاکہ آئندہ غلطی نہ ہو۔اگر صاف اور دو ٹوک مؤقف نہیں آتا تو معاملہ بنے گا نہیں!۔
بلال شہید کا مؤقف تھا کہ آپ شیعہ کو مسلمان کیوں سمجھتے ہیں؟۔ تحریف قرآن، صحابہ پر کفر کا فتویٰ لگانے، عقیدۂ امامت والے کافر نہیں؟۔ مولانا طارق جمیل مسلسل کہتے رہے کہ تبلیغی جماعت کا طریقہ فتویٰ لگانا نہیں۔ یہ علماء ومفتیان کاکام ہے۔ اکابر کے فتوؤں سے متفق ہوں۔ میرا تعلق علماء دیوبند سے ہے۔ ہمارا اپناطریقہ کارہے ، ہم سب کے پاس جاتے ہیں اور میری وجہ سے بریلوی اور شیعہ علماء دیوبند کے قافلے میں شامل ہوئے ہیں۔ بلال شہید نے مولانا طارق جمیل کے ہر عذر کو ”عذر گناہ بدتر ازگناہ ” قرار دیکر مسترد کردیا۔
بلال شہید کے بھائی کمیل احمد معاویہ نے بتایا کہ مولانا طارق جمیل نے منع کیا تھا کہ اس ویڈیو کو وائرل نہ کیا جائے لیکن کچھ دوستوں کو بطور امانت یہ ریکارڈ کیلئے دی گئی تھی اور اب میں اس کی تصدیق کرتا ہوں کہ میرے سامنے یہ بات چیت ہوئی تھی۔
اب مولانا طارق جمیل صاحب کو چاہیے کہ ایک اور فون کرکے معاویہ صاحب سے گفتگو کریں اور پھر اس کو وائرل بھی کردیں تاکہ معاملات بالکل واضح ہوجائیں۔
میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان کا تعلق بھی تبلیغی جماعت اور علماء دیوبند سے تھا۔ بعض اکابر نے حاجی صاحب پر فتوے بھی لگائے تھے۔ ان فتوؤں کے باوجود مولانا عبداللہ درخواستی کے گروپ اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت والے حاجی عثمان کی حمایت کرتے تھے۔ غالبًا سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما نے حاجی عثمان پر فتوؤں کی اخبارات میں مذمت بھی کی تھی۔ میرے مشکوٰة شریف کے استاذ مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید نواسۂ مولانا عبداللہ درخواستی فتویٰ کے بعد بیعت ہوئے تھے۔ جب مولانا حق نواز جھنگوی کو شہید کیا گیا تو حاجی عثمان نے خبر سنتے ہی میرے سامنے چائے کا کپ چھوڑ دیا اور کہا کہ ” ایک ہی حق اور صحابہ کرام کا دفاع کرنے والے عالمِ دین رہ گئے تھے ان کو بھی ظالموں نے شہید کردیا۔ بہت زیادہ اس خبر پر دکھی ہوگئے تھے۔
جہاں تک شیعہ کو کافر قرار دینے کا معاملہ ہے تو مولانا حق نواز جھنگوی شہید نے بہت قربانیاں دیکر اس مشن کو اُٹھایا تھا۔ جب ایرانی انقلاب کی وجہ سے لٹریچر میں بڑا مواد صحابہ کرام کے خلاف آنا شروع ہوا تو انجمن سپاہ صحابہ واقعی اس کے ردِعمل میں سامنے آئی تھی اور پہلے وہ جمعیت علماء اسلام ف کی ہی ذیلی تنظیم تھی۔ بلال شہید نے جو معلومات سامعین کو دی ہیں، ان میں غلطیاں ہیں جن کی وضاحت ضروری ہے۔ مفتی محمود کی وفات کے بعد جمعیت دو گروپ میں اسلئے تقسیم ہوگئی کہ مولانا درخواستی نے مفتی محمود کی جگہ مولانا عبید اللہ انور صاحبزادہ مولانا احمد علی لاہوری ہی کو جمعیت کا جنرل سیکرٹری بنانا چاہا اور اکثریت نے مولانا فضل الرحمن کے حق میں فیصلہ دیا۔ جمعیت ف نے ایم آر ڈی (MRD)میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا جبکہ درخواستی گروپ جنرل ضیاء الحق کا سپورٹر تھا۔قاری طیب دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اپنا بیٹا مقرر کرنا چاہتے تھے اور شوریٰ مخالف تھی جس کی وجہ سے قاری طیب کے بیٹے نے دارالعلوم دیوبند وقف کی بنیاد رکھی۔ اگر درخواستی کی بات مان لی جاتی تو آج مولانااجمل قادری جمعیت کے قائد ہوتے ، جس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم چلائی تھی۔
زندگی جہد مسلسل ہے کوئی تماشہ تو نہیں
وہی جیتے ہیں جو لڑتے ہیں طوفانوں کی طرح
مولانافضل الرحمن نے مولانا سمیع الحق اور قاضی عبدالطیف کی طرف سے پیش کردہ شریعت بل کو جب مسترد کردیا تو میرے مرشد حاجی عثمان نے بہت جلال میں آکر جمعہ کے دن منبر پر بیٹھ کر کہا کہ ایک بڑے اللہ والے مفتی صاحب کے بیٹے نے علماء حق کا شریعت بل مسترد کیا ہے تو اس کا نکاح کہاں باقی رہا؟۔ لوگوں کی چیخ نکلی کہ ”اللہ” لیکن میری بے ساختہ ہنسی نکل گئی۔ میں نے مرشد کو سمجھایا کہ شریعت بل سے نہیں آئے گی، شریعت نظام ہے اور مارشل لاء الگ نظام ہے۔ تو مرشد نے کہا کہ بھیا! ہم تو جاہل ہیں ، مجھے کیا پتہ تھا۔ مولانا حق نواز جھنگوی جمعیت ف پنجاب کے نائب امیر تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے اسلام کے نام پر ریفرینڈم کیا تو کراچی کے اکابر علماء نے ریفرینڈم کے حق میں فتویٰ دیا لیکن مولانا فضل الرحمن نے مخالفت کی تھی۔ مجھے میرے استاذمولانا فضل محمد استاذ حدیث جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے کہا کہ آپ اکابرعلماء ومفتیان کی مخالفت کررہے ہیں تو حاجی صاحب آپ کو خانقاہ سے نکال دینگے۔ میں نے کہا کہ سیاست مفتی اور پیر کا کام نہیں ہے۔ مولانا فضل محمد مرشد کے خلیفہ بھی تھے۔ پھرمرشد سے سوال پوچھاگیا کہ مفتیان کا فتویٰ ہے کہ ریفرینڈم کے حق میں ووٹ فرض ہے۔ مرشدنے جواب دیا کہ فتوے پرنہ جاؤ۔ آٹھ (8)سالوں سے تم نے آزمایا ،اگر یقین نہیں ہے تو ووٹ نہ دو، میرا گمان ہے کہ اسلام نافذ نہیں کریگا۔
مولانا حق نوازجھنگوی نے زندگی جمعیت ف میں گزاری۔جمعیت کے اسٹیج سے کافر کافر شیعہ کافر کا نعرہ نہیں لگایا۔ مولانا محمد مکی حاجی صاحب کے پاس فتوؤں کے بعدبھی آتے تھے۔ مولانامکی نے راز سے پردہ اٹھایا کہ مولانا حق نوازجھنگوی سے کہا کہ یا توسیاست کرو یا پھر مذہبی نعرہ لگاؤ۔ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ مولانا حق نوازجھنگوی سے کچھ راز کی بات ہوئی تھی لیکن اب میں بتانہیں سکتا۔ جمعیت ف کا کہنا تھا کہ جھنگوی نے سپاہ صحابہ کو جمعیت ف میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جھنگوی شہید کے بعد علامہ ضیاء الرحمن فاروقی شہید مولانا فضل الرحمن کے حامی تھے لیکن مولانا ایثارالحق قاسمی نے آئی جے آئی (IJI) کے ٹکٹ پر جھنگ کے حلقے سے الیکشن لڑا۔جبکہ دوسرے حلقے سے عابدہ حسین آئی جے آئی (IJI)کے ٹکٹ پر کھڑی تھیں ۔ جمعیت ف کو تشویش تھی کہ اتنے دفاتر اور اتنا پیسہ کہاں سے آرہاہے؟۔ مولانا ایثارالحق قاسمی نے سعودی، قطر، عراق اور عرب امارات وغیرہ کے دورے کئے اور اسمبلی میں بیان دیا کہ” ایرانی انقلاب کا راستہ ہم نے روکا ہوا ہے”۔
مولانا اعظم طارق کا دور آیا تو مولانا فضل الرحمن نے بیان دیا کہ سپاہ صحابہ دہشت گرد تنظیم بن چکی ہے۔ سپاہ صحابہ نے مولانا سمیع الحق سے اتحاد کیا۔ مولانا عبداللہ درخواستی اور مولانا اجمل خان مولانا فضل الرحمن سے مل گئے۔ مولانا اعظم طارق اور مولانا مسعود اظہر ایک تھے ،پھر مقابل آئے تو وجہ مولانا فضل الرحمن نہیں ہوسکتے تھے۔ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کی یہ سیاست مان گیا ہوں کہ سپاہ صحابہ سے جان چھڑائی ۔
ملی یکجہتی کونسل میں سپاہ صحابہ اور تحریک جعفریہ نے ایکدوسرے کی تکفیر نہ کرنے پر دستخط کئے ۔ جمعیت ف کا فعال کردار نہیں تھا اسلئے کونسل کامیاب نہ ہوسکی۔اگر حافظ حسین احمد کے ذریعے مولانا اعظم طارق نے مولانا فضل الرحمن سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو جمعیت ف کو شبہ تھا کہ حافظ حسین احمد کا کرداربھی مشکوک تھا۔ مولانا اسکے ذریعے ظفر اللہ جمالی کی جگہ وزیراعظم بن سکتے تھے مگر مولانا نے ملنا گوارا نہیں کیاتو تفصیل حافظ حسین احمد بتائیں۔ یہ جمعیت ف کیلئے اعزاز ہے یا ندامت ؟۔ مولانا فضل الرحمن نے اکابر کو چھوڑ کر ایم آر ڈی (MRD)کو ترجیح دی اور پھر عمران خان اور ن لیگ کے ووٹ لیکر وزیراعظم بننا پسند کیا لیکن مولانا اعظم طارق کی حمایت نہیں لی؟۔ بینظیر بھٹو سے لیکر مریم نواز تک اتحاد کے سفر میں مولانا نے اپنی جہدمسلسل جاری رکھی۔ مولانا سمیع الحق کو سبزی والی چھریوں سے شہید کیا گیا اور بلال شہید بھی موت کے گھاٹ اتاردئیے گئے۔ کون جادۂ حق کا مسافر ہے اور کس نے کس مشن کیلئے اپنی زندگی کی کیسے قربانی دی ہے؟۔یہ فیصلہ کون کرے گا؟۔
اگر مولانا طارق جمیل بلال شہید سے اتنا کہہ دیتے کہ میرا شیعہ کو کافر کہنے یا نہ کہنے سے کیا اثر پڑسکتا ہے؟۔ سعودی عرب کی حکومت شیعہ کو حرم میں داخل ہونے دیتی ہے اور یہ سلسلہ چودہ سوسال سے جاری ہے پھر سعودی عرب کے خلاف مہم کیوں نہیں چلاتے ؟۔ مولانا طارق جمیل کے اس جواب سے بلال شہید کا لہجہ ٹھیک ہوجاتا لیکن مولانا طارق جمیل نے معذرت خواہانہ لہجہ جاری رکھا تو بلال شہید نے اپنے مؤقف کو مزید زیادہ مضبوط سمجھ لیا۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران سے سپاہ صحابہ نے اتحاد کیا اور زلفی بخاری کو عمران خان نے اپنی سوتیلی بیٹی بھی دی ۔ مولانا طارق جمیل سے الجھنے والے اگر سعودی عرب اور عمران خان کی طرف دیکھتے تو شاید شدت میں بہت کمی آجاتی۔ متحدہ مجلس عمل اور اتحاد تنظیم المدارس میں شیعہ سنی مذہبی اور سیاسی اتحاد کا مولانا طارق جمیل نے حوالہ دینا تھا۔
مولانا فضل الرحمن نے متحدہ مجلس عمل کے نام پر ووٹ لئے تو مولانا اعظم طارق کے کہنے پر علامہ ساجد نقوی کو کیسے چھوڑسکتے تھے؟۔ ظفر اللہ جمالی کو وزیراعظم بنایا گیا تو مشہور شیعہ عابدہ حسین کے شوہر فخر امام کو مشرف دور میں قومی اسمبلی کا اسپیکر بنادیا گیا تھا۔ مولانا اعظم طارق نے شیعہ اسپیکر کو ووٹ دیا تو مولانا فضل الرحمن توقع رکھتے؟۔ شیعہ کو کافر نہ کہنے پر مولانا فضل الرحمن کو کافر کہنے والے سعودی عرب والوں کو کافر نہ کہیں تو پھربات مذہب نہیں مفادات کی بن جاتی ہے۔ حضرت سعد بن عبادہ نے حضرت ابوبکر و عمر کی خلافت کو نہیں مانا اور نہ انکے پیچھے نماز پڑھی تو کیا ان پر کفر کا فتویٰ لگ سکتا ہے؟۔اور جس مولانا منظور نعمانی نے شیعہ کے خلاف فتویٰ لیا تھا تو اس کا بیٹا مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی اب اس فتویٰ کے خلاف کھڑے ہیں۔ جس جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے فتویٰ دیا تھا ،اس نے پھر متحدہ مجلس عمل اور اتحاد تنظیمات المدارس کے حق میں فتویٰ دے دیا تھا۔
شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ”منصب امامت” میں وہی عقیدہ لکھا ہے جو اصولی طور پر شیعہ کا ہے تو کیا ان کو کافر قرار دیا جائیگا؟۔ جہاں تک قرآن کی تحریف کا معاملہ ہے تو شیعہ سے زیادہ سنی اصولِ فقہ اور حدیث کی کتب میں تحریف کا عقیدہ موجود ہے۔ جب شیعہ پر بنوری ٹاؤن اور پورے پاکستان ، بنگلہ دیش اور بھارت کے معروف مدارس نے کفر کا فتویٰ لگایا تھا تب بھی دارالعلوم کراچی کے مفتی رفیع عثمانی اور مفتی تقی عثمانی نے اس فتوے کی حمایت نہیں کی تھی لیکن اسکے باوجود جب مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے شیعہ کے حق میں بیان دیا تھا تو مولانااحمد لدھیانوی نے اس کو دبایا تھا۔ دیوبندی جب بریلوی کو مشرک سمجھتے ہیں تو کیا مشرک مسلمان ہوسکتا ہے؟۔ مفتی زر ولی خان نے تو مولانا منظور مینگل پر مولانا خادم حسین رضوی کی حمایت اور اس کیلئے مغفرت کی دعا کرنے والوں کیلئے نکاح کی تجدید کا فتویٰ بھی جاری کردیا تھا۔
جس طرح امام حسین یا امام حسن پر ہم اہلسنت کے فقہ ، حدیث، تفسیر، تصوف ، تاریخ اور مساجد کے تمام ائمہ کو قربان کرسکتے ہیں ،اسی طرح شیعہ کے تمام مجتہدین اور موجودہ دور کے تمام افراد کو حضرت ابوبکر یا حضرت عمر پر قربان کردیںگے۔ اگر شیعہ ابوبکرو عمر سے نفرت کریں یا ان کی تکفیر کریں تو سپاہ صحابہ والے شیعہ کی تکفیر کریں ،ہماری ہمدردیاں ظاہر ہے کہ سپاہ صحابہ کیساتھ ہوں گی۔ لیکن کیا طوطے کی طرح کافر کافر کے فتوے لگانے سے شیعہ پر کوئی اثر پڑتا ہے؟۔ اگر ہم نے ان کو کافر قرار دیا تووہ آزاد ہونگے۔لیکن اگر ہم نے ان کے ذہن صاف کردئیے تو ہمیشہ کیلئے معاملہ حل ہوجائے گا۔ جس زبان میں بلال خان نے مولانا طارق جمیل سے بات کی تھی ،یہ تو پھر بھی بہت مجبوری اور غنیمت والا لہجہ تھا لیکن جس زباں میں علامہ سید جواد نقوی کو اہل تشیع نے گالیاں دی ہیں وہ تو انتہائی غلیظ ذہنیت سے علامہ جواد نقوی کی جان کے دشمن اور خون کے بالکل ہی پیاسے نظر آتے ہیں۔
علامہ طالب جوہری نے کہا تھا کہ امام ابوحنیفہ سے لیکر مفتی نظام الدین شامزئی تک سنی مکتبۂ فکر میں سید عتیق الرحمن گیلانی کی طرح کا بڑا عالم نہیں آیا ہے۔ اس نے گھبرا کر لکھا تھا کہ گیلانی صاحب اتحاد کی بات کریں انضمام کی بات نہ کریں۔ اور یہ بھی کہاتھا کہ سپاہِ صحابہ تو کچھ بھی نہیں ہے، یہ اتنا خطرناک ہے کہ کوئی شیعہ شیعہ نہیں رہے گا۔ ہم نے اسکے باوجود بھی اپنا ناطہ نہیں توڑا۔ اسکے منہ پر بولا کہ رسول اللہۖ سے قرآن میں اختلاف کی اللہ نے اولی الامر کی حیثیت سے گنجائش رکھی ہے اور تم اپنے ائمہ کیلئے بھی نہیں سمجھتے ہو۔ جسکا مثبت جواب آیا تھا۔ سپاہ صحابہ میرے ساتھ ہوتی تو معاملہ کب کا حل بھی ہوچکا ہوتا۔

NAWISHTA E DIWAR February Special Edition 2021
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat #imam_e_zamana

حضرت ابوطالب کے ایمان، حضرت عثمان کی شہادت اور سولہ (16)سال کی عمر میں حضرت عائشہ کے نکاح پر تحقیق

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اگر بڑے بڑے شیطان الجن کی طرح شیطان الانس نے بھی چپ کی سادھ نہیں توڑی تو ان کا مذہبی وسیاسی منصب غلط ہے۔

وزیراعظم عمران خان ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید مذہب کیلئے ٹھوس کردار ادا کریں۔

اگر تاریخ کے اوراق کو دیکھا جائے تو افراد کا اس پر بڑا اختلاف ہوسکتا ہے۔ موجودہ دور میں جاوید احمدغامدی کا نام ہے۔ عرب قبائل میں صدیقی، فاروقی،عثمانی اور علوی نہیںمگر برصغیر پاک وہند بھرا پڑا ہے۔غامدی عرب قبیلہ تھا۔ غامدیہ صحابیہ نے سورۂ نور میں زنا کی سزا نافذ ہونے سے پہلے خود کو سنگسار کروایا تھا۔ جاوید غامدی نے پہلے کلچر سے متأثر ہوکر اپنے لئے عربی قبیلے کا نام منتخب کیا لیکن جب اس کی توجہ شاید حضرت غامدیہ کی طرف گئی جس نے بچہ چھوڑا تھا تو یہ وضاحت کردی کہ میں نے اپنے شوق سے غامدی لکھنا شروع کیا ہے ،عرب قبیلے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔
جب احادیث صحیحہ کی بات آتی ہے تو بڑے بڑے لوگ زبردست قسم کی احادیث صحیحہ کو نہیں مانتے لیکن جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ابوطالب نے اسلام قبول کیا تھا تو کہتے ہیں کہ ہم حدیث کا انکار نہیں کرسکتے، کیونکہ ابوطالب نے کہا تھا کہ میں دین ابراہیمی پر ہوں۔ حالانکہ نبیۖ کو اور ملت اسلامیہ کو اللہ نے دینِ ابراہیمی پر قرار دیا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت ابوطالب سے شرک ثابت نہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ، انہوں نے بنوامیہ اور بنوعباس کی شکل میں خلافت پر خاندانی لحاظ سے قبضہ کرلیا۔ انہی کے ادوار میںاحادیث گھڑنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ انہوں نے ہی اپنے ان آبا واجداد سے یہ قصہ گھڑ لیا کہ ابوطالب نے اسلام قبول نہیں کیا تھا اور وجہ یہی تھی کہ حضرت علی پر منبروں سے سب وشتم کی جاتی تھی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے دور میں بڑی مشکل سے یہ سلسلہ روک دیا تھا۔
پاکستان بھر کے بڑے علماء کرام سے لیکر ضلع ٹانک کے تمام بڑے علماء کرام تک میری تائیدات اور ملاقات کا سلسلہ جاری رہتا تھا لیکن آج میرے مخالفین سے پوچھ لیا جائے تو جن علماء واکابرین کی سچائی پر ان کا عقیدہ وایمان ہے وہ پھر بھی میری مخالفت کریں گے۔ رسول اللہۖ پر چھ (6)سالہ حضرت عائشہ سے نکاح اورنو (9)سالہ سے رخصتی اور آپ کے ساتھ جماع کی حدیث بخاری میں ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضرت عائشہ کی پیدائش حضرت اسماء بنت ابی بکر سے دس (10)سال بعد ہوئی تھی ۔ ان کا انتقال سن 73ھ میں سوسال کی عمر میں ہوا۔ ہجری کے (72) سال نکالے جائیں تو حضرت اسمائ کی عمرپہلی ھجری کو اٹھائیس (28)سال بنتی ہے۔ تیرہ (13)سالہ مکی دور کو نکالا جائے تو آپ کی عمر نبوت کی بعثت سے پہلے پندرہ (15)سال بنتی ہے۔ مشکوٰة کے ساتھ شامل ”الاکمال فی اسماء الرجال” میں یہ موجود ہے۔ جس کی رو سے حضرت عائشہ کی عمر بعثت کے وقت پانچ (5)سال بنتی ہے ۔ اس طرح سن ایک ہجری میں حضرت عائشہ کی رخصتی ہوئی تھی تو اس وقت آپ کی عمر(19)سال بنتی ہے۔ پاکستان کی حکومت نے پہلے لڑکی کیلئے کم ازکم سولہ (16)سال کا قانون بنایا تھا اور پھر بعد میںاٹھارہ (18)سال کردیا ہے۔
آج متعصب لوگوں کے ہاتھ میں شریعت و قانون کا ہتھیار دیا جائے تو وہ چھ (6)سال کی عمر میں اس شادی کو غلط قرار دینا شروع کریںگے اور دوسری طرف تعصبات کا یہ حال ہے کہ پانچ (5)سال کی عمر میں حضرت عائشہ کے اسلام کو اسلئے ٹھیک قرار دینگے کہ آپ کے والدین مسلمان تھے۔ لیکن حضرت علی کے اسلام کو غیرمعتبر قرار دیں گے اسلئے کہ دس (10) سال میں بچہ قانوناً والدین کے مذہب پر ہوتا ہے۔
خلیل جبران نے ایک کہانی لکھی ہے کہ ایک پادری کو شیطان زخمی حالت میں ملا، پہلے اسکے مرنے پربے تاب ہوا لیکن جب پادری کو ابلیس نے بتایا کہ اگر میں نہیں ہوں گا تو تیری روزی روٹی بھی بند ہوجائے گی۔ لوگ گناہ اور نیکی نہ کرنے پر کفار ہ دیتے ہیں۔ جب پادری کی سمجھ میں بات آگئی تو ابلیس کو کاندھے پر اٹھاکر علاج کیلئے لے گیا۔ ہمارے فرقہ پرست عناصر اور بڑے سیاسی مولوی بھی جان بوجھ کر عوام کے اندر شعور کی کوشش اپنے لئے نہیں کرتے۔
اہل تشیع کے بعض علماء بہت زبردست اور سچے مؤمن ہیں لیکن بعض بہت شرپسند ہیں۔ علامہ سید جواد حسین نقوی اور علامہ سیدحسن ظفر نقوی اور دیگر اچھے لوگوں سے بہت معذرت کیساتھ وہ سچے مؤمن اور مجاہد ہیں لیکن بعض علامہ صاحبان جیسے علامہ شہر یار عابدی جنہوں نے جمناسٹک کی طرح ٹریننگ کرکے سوشل میڈیا پر صحابہ کرام کے خلاف بہت نازیبا حرکتیں شروع کردی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہود کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ بعض کتاب کو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں۔ علامہ شہریار عابدی وضاحت کریںکہ اللہ نے فرمایا کہ
” ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ یداللہ فوق ایدیھم فمن نکث فانما ینکث علی نفسہ ومن اوفیٰ بما عٰھد علیہ اللہ فسیؤ تیہ اجرًا عظیمًاO (سورة الفتح آیت10)
ترجمہ ” بیشک جن لوگوں نے آپ سے بیعت کرلی، تو بیشک انہوں نے اللہ سے بیعت کرلی۔ اللہ کاہاتھ ان کے ہاتھوں پر تھا۔ پس جو اس عہد کو توڑے تو اس کے توڑنے کا معاملہ اس کی اپنی ذات پر پڑے گا اور جس نے پورا کیا جس پر اللہ سے عہد کیا تھا تو عنقرب اس کو بڑا جر ملے گا”۔
خطیب العصر سید عبدالمجید ندیم نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ نبیۖ نے حضرت عثمان کا بدلہ لینے کیلئے بیعت لی تو فرمایا کہ یہ میرا ہاتھ ہے اور یہ میرے شہید بھائی عثمان کا ہاتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پھر نبیۖ کے اس ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا تھا اور اللہ کو پتہ تھا کہ حضرت عثمان( 35)ھجری میں مظلومیت کیساتھ شہید کردئیے جائیں گے۔
علامہ شہریار عابدی بتائیں کہ اس آیت میں حضرت علی کی ولایت کیلئے نبی ۖ نے لوگوں سے بیعت تو نہیں لی تھی؟۔ اگر اہل تشیع کی معتبر کتابوں سے اس آیت کی تفسیر یوٹیوب پر بیان کریںگے تو بہت سارے شبہات کا ازالہ بھی ہوجائے گا۔ اور اگر یہ حضرت عثمان کا بدلہ لینے کیلئے ہو اور پھر حضرت عثمان کی حمایت سے اس وقت دستبردار ہوگئے ہوں جبکہ صلح حدیبیہ کی طرح مسلمان کمزور بھی نہیں تھے اور حضرت علی فاتح خیبر کی بہادری اور کرامات کا انتہائی زور بھی بتایا جاتا ہو۔ حضرت علی کیلئے اس سے زیادہ گھناؤنی اور گھٹیا سوچ نہیں ہوسکتی ہے کہ یہ تصور کیا جائے کہ حضرت علی چاہتے تھے کہ حضرت عثمان باغیوں کے ہاتھوں قتل ہوں اور پھر پرائے شکار پر خلافت کامنصب سنبھال لیں۔
حضرت علی کی ذات کو اس سے بالکل مبرا سمجھنا ہوگا۔ اگر حضرت علی اس کام پر خوش ہوتے تو خود قتل کرکے اپنی فتح کے جھنڈے گاڑھ دیتے۔ شدت پسندوں کو قابو کرنا بہت مشکل کام ہے۔ دنیا میں ہماری فوج نمبر(1)ہے۔ ہماری ایجنسیاں نمبر(1)ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کی حکومت نمبر (1)تھی اور پختون قوم اور پختونوں میں محسود نمبر (1) ہیں اور ہمارے خاندان کو نمبر (1)کہاجائے تو شاید کوئی مبالغہ نہیں ہوگا لیکن دہشت گردوں نے حملہ کرکے ہمارے گھر میں(13)بے گناہ شہید کردئیے تھے۔ منگل باغ نے کتنے ماردئیے اور کتنے افراد ساتھ لے گیا تھا؟۔ قوم بے بس تھی ۔ حضرت عثمان کا مسئلہ زیادہ گھمبیر تھا۔طالبان کا امیر بیت اللہ محسود پہلے ہمارے معاملے پر طالبان سے انتقام لینا چاہتا تھا مگر پھر وہ بے بس ہوگیا۔معاملہ بعض اوقات پیچیدہ ہوتا ہے۔

NAWISHTA E DIWAR February Special Edition 2021
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat #imam_e_zamana