فروری 2021 - Page 3 of 4 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

لا اسئلکم علیہ اجرًا الا مودة فی القربیٰ کی تفسیر میں پہلے مشرکینِ مکہ مخاطب اور بعد میں مسلمان مخاطب

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

صلح حدیبیہ سے پہلے نبیۖ پر ذنب بوجھ کا کیا مطلب تھا، فتوحات کے دروازے کھلنے کے بعد ذنب بوجھ کا کیا مطلب تھا؟

فرقہ وارانہ جہالتوں سے مسلمانوں کو نکالنے کیلئے قومی اسمبلی اور سینٹ میں علم وتحقیق کی روشنی میں قراردادیں پیش کرینگے؟

سورۂ فتح میں فرمایا: انافتحنا لک فتحًا مبینًاO لیغفرلک اللہ…..
”بیشک ہم نے آپ کو کھلی فتح عطاء کی ۔تاکہ آپ کا اگلا پچھلابوجھ آپ سے ہٹادے۔ اور آپ پر اپنی نعمت کی تکمیل کرکے رکھ دے۔ اور آپ کو سیدھا راستہ دکھا دے۔اور آپ کی مدد کرے زبردست مدد۔ وہ اللہ ہے جس نے مؤمنوں کے دلوں پر سکینہ نازل کیا،تاکہ ایمان کا اضافہ ہو،ان کے ایمان کیساتھ۔اور اللہ کیلئے آسمانوں اور زمین کے سب لشکر ہیں۔ اور اللہ جانتا ہے اور حکمت والا ہے۔ تاکہ مؤمنوں اور مؤمنات کو داخل کردے ایسے باغات میں جس میں ہمیشہ رہیں اور ان کی برائیوں کو ان سے دُور کردے۔ اور یہی اللہ کے نزدیک عظیم کامیابی تھی۔ اور منافق مرد،عورتوں اور مشرک مرد ، عورتوں کو عذاب دے جو اللہ سے برا گمان رکھتے ہیں۔ ان کے اوپر برائی کا گھیراؤ مسلط ہے۔ اور اللہ کا غضب ہے ان پر اور ان پر اس نے لعنت کی ہے اور ان کیلئے جہنم مہیا کررکھی ہے۔ اور یہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ اور آسمانوں وزمین کے سب لشکر اللہ ہی کیلئے ہیں۔ اور اللہ تو تھا ہی زبردست حکمت والا۔ بیشک ہم نے آپ کو بھیجا گواہی دینے والااور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا۔ تاکہ اے لوگو! تم ایمان لاؤ اللہ اور اسکے رسول پر۔ تاکہ تم اس کی مدد کرو اور اس کی توقیر کرو۔اور تم اللہ کی پاکی صبح وشام بیان کرو۔ بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کررہے ہیں ،بیشک یہ لوگ اللہ سے بیعت کررہے ہیں۔ اللہ کا ہاتھ انکے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ پس جو عہد کو توڑیگا تو اپنے نفس کیخلاف عہد کو توڑے گا۔ اور جو اس عہد کو پورا کریگا جس بات پر اس نے اللہ سے عہد کیا ہے تو اس کو عنقریب بہت بڑا اجر دے گا۔(پہلا رکوع)
اسلام میں ایک دور مشکلات کا اور دوسرا دور فتوحات کا ہے۔ رسول اللہۖ کی بعثت سے ہجرت تک ، غزوۂ بدر،غزوہ اُحد وغیرہ اورصلح حدیبیہ تک مشکلات کا دور تھا۔ ان مشکلات کے دور میں بھی رسول اللہۖ پر بہت بڑا بوجھ تھا۔ دین کی تبلیغ اور اسلام کے غلبے کا خواب پورا ہونے کیلئے جس ماحول کی ضرورت تھی وہ میسر نہیں تھا۔ مشرکین مکہ اصل دشمن تھے جنہوں نے حبشہ پہنچ کر نجاشی سے مسلمانوں کی دشمنی کی انتہاء کردی تھی۔ جب قیصر روم کو رسول اللہۖ کے دشمن کی زباں سے حالات معلوم ہونے پر یقین تھا تو رسول اللہۖ کو اپنی تحریک کی کامیابی پر کتنا یقین ہوگا؟۔ تاہم جن مشکلات کا سامنا خاص طور پر اہل مکہ کی طرف سے تھا وہ بہت بڑا بوجھ تھا اور اس بوجھ کو سورۂ فتح میں ذنب کہا گیا۔ جب کوئی انسان کسی مشکل میں پھنس جاتا ہے تو وہ اس کا اظہار اس طرح کرتا ہے کہ بس اللہ میرے گناہ معاف کردے لیکن اس گناہ سے مراد اس طرح کا گناہ نہیں ہوتا جس طرح کے عام گناہوں کا تصور ہے۔ علماء حضرات ایک عام محاورے کی زبان سمجھنے کے بجائے گناہ کاترجمہ کرتے ہوئے نبیۖ کی لغزش، کوتاہی اور گناہ کی مقدار کا پیمانہ لیکر کھڑے ہوگئے۔
رسول اللہۖ کی سیرت اسوۂ حسنہ کو اسلئے اعلیٰ اور مثالی نمونہ نہیں قرار دیا کہ رحمة للعالمینۖ کی زندگی میں کوئی لغزش تھی۔ فلاتمن تستکثر ”آپ احسان اسلئے نہ فرمائیں کہ خیر کثیر کا بدلہ ملے گا” بلکہ بھلائی کے بدلے مشرکینِ مکہ نے جانی دشمن بننا ہے۔ عام قاعدہ جزاء لاحسان الا حسان ہے لیکن جب انسانی زندگی کے معیارات میں فرق ہوتا ہے تو پیمانے جدا جدا ہوتے ہیں اور اللہ نے فرمایا کہ ”ہم تمہیں ضرور بضرور آزمائیں گے خوف میں سے کچھ چیز پر، اموال اور جانوں کی کمی سے اور ثمرات کی کمی سے۔ بشارت دو صبر کرنے والوں کو”۔
ثمرات پھل اور خشک میوے نہیں وہ تو اموال میں شامل ہیں بلکہ تحریک کا اچھا نتیجہ نکلنا ثمر ہوتا ہے۔ نبیۖ کو مکہ میں شعب ابی طالب میں کتنے سال اپنے خاندان اور ساتھیوں سمیت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قل لااسئلکم علیہ اجرًا الا مودة فی القربیٰ ”کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تحریک پر کوئی صلہ نہیں مانگتا مگر قرابتداری کی محبت چاہتا ہوں”۔ قریشِ مکہ نبیۖ کے قرابتدار ، پڑوسی، ہم زبان ، قوم اور قبیلے سے تعلق رکھتے تھے تو اس میں فطری محبت کا لحاظ ہوتا ہے۔ نبیۖ سے فرمایا کہ اہل مکہ سے اس کا مطالبہ کرو۔ جب صلح حدیبیہ ہوگئی تو نبیۖ نے اطمینان کا سانس لیا کہ دشمن سے خوامخواہ کے خطرات ٹل گئے۔ مسلمان مکہ سے ہجرت کرگئے مگر مدینہ میں بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا گیا۔ اس کی مثال پاکستان اور بھارت کی ہے۔ اگر ہندوستان سے ایسا معاہدہ ہوجائے کہ ہماری جان چھوٹ جائے تو اس سے پاکستان اطمینان کا سانس لے گا۔ دنیا کے ہر کونے میں پاکستان کا پیچھا کیا جاتا ہے۔
صلح حدیبیہ کو اللہ نے فتح مبین کہا، ابوجندل کو حوالے کرنا دل گردے کا کام تھا مگر صلح حدیبیہ سے بوجھ نبیۖ کا ہٹ گیا اور اس بوجھ کو ذنب کہا۔ فتوحات کا دروازہ کھل گیا تو انصار، مہاجرین اور اہلبیت نے خلافت پر فائز ہوکر دنیا کا نظام سنبھالنا تھا۔ اگر قریش وانصار نے خلافت کے استحقاق کیلئے نبیۖ کے کفن دفن کو پسِ پشت ڈال کر اس فتنہ انگیزی سے نمٹنا تھا تو نبیۖ کو اس کی فکر بھی ضرورتھی۔نبیۖ نے اسلئے مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تمہارے لئے اس مودة فی القربیٰ سے مراد میرے اہلبیت ہیں۔جن میں علی وآل علی شامل تھے۔
نبیۖ پر اسلامی فتوحات کے بعد اپنے خلفاء اور تخت نشینوں کا قرآن و سنت کے اعلیٰ ترین مشن سے پھر جانے کا بوجھ بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کو سورۂ فتح میں یہ بوجھ اترنے کی بھی خوشخبری دیدی۔ نبیۖ نے فرمایا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا ہے کہ جسکے کچھ جانشین اسکے مشن پر چلتے ہیں، پھر ناخلف جانشین آتے ہیں جس کام کا ان کو حکم ہوتا ہے وہ نہیں کرتے، جس کا حکم نہیں ہوتا وہ کرتے ہیں۔ نبیۖ کے اس بوجھ کو اللہ نے فتوحات کے حوالے سے ہٹا دیا تھا۔ حضرت عثمان کی شہادت کا سانحہ پیش آیا تھا تو پھر شمع بجھنے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ پھر علی و حسن کے دَور تک معاملہ چلتا رہا۔ پھر حسن نے صلح کرکے امیرمعاویہ کی امارت پر امت کو متفق کردیا ۔ یزید کے بیٹے معاویہ نے اقتدار چھوڑ دیا۔ ابوسفیان کی اولاد سے اقتدار منتقل ہوکر مروان بن حکم اور اس کی اولاد کا دور شروع ہوا۔ پھر عمر بن عبدالعزیز نے خلافتِ راشدہ کا دور تازہ کیا۔ پھر بنو اُمیہ سے خلافت چھن گئی اوربنو عباس نے خلافت سنبھال لی۔
علی کی اولادکو اسلئے محروم کیاگیا کہ عباس چچا اور علی چچازاد تھا مگر علی کا باپ مسلمان نہیں۔ سلطنت عثمانیہ نے اقتدار سنبھالا تو الائمة من القریش بھول گئے جو انصار کے مقابلے میں ابوبکر و عمر نے پیش کی تھی۔ رسول اللہۖ نے ان ادوار، جبری حکومتوں اور پھر رسول اللہ ۖ نے طرزِ نبوت کی خلافت کا ذکر فرمایا جو پوری دنیا میں قائم ہوگی۔ شیعہ سنی ہی نہیں یہودونصاریٰ اور زمین وآسمان والے سب اس سے خوش ہونگے۔ اسلئے رسول اللہۖ پر آنے والے ذنب بوجھ کو بھی اللہ نے سورۂ فتح میں ختم کردیا تھا۔

NAWISHTA E DIWAR February Special Edition 2021
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat #imam_e_zamana

شیعہ سنی، ملحد مسلمان، پی ٹی ایم (PTM)اور ہماری ریاست کے اندر جو منافرت ہے اس کا علاج باہمی بات چیت ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

طالبان دہشت گردوں نے جس ماحول میں جو کچھ کیا تھا ،اس میں کمزوری اور نااہلی کا اعتراف براڈ شیٹ کی طرح واضح ہے؟

اگر فوج بعد میں اپنا مثبت کردار ادا نہ کرتی تو پختونوں کا حشر القاعدہ، طالبان، داعش، ازبکوں نے آخری حد تک برا کرنا تھا۔

ایک انسان کا بے گناہ قتل گویاپوری انسانیت کا قتل ہے۔ قرآن کاواضح پیغام ہے۔ کچھ افرادکا بے دریغ قتل ہوا جہاں نبیۖ نے کچھ لوگوں کی سرکوبی کا فریضہ انجام دینے کیلئے خالد بن ولید کی سربراہی میں لشکر بھیجا تھا۔ پھر نبیۖ کو زیادتی کا پتہ چلا تو فرمایا کہ ”اے اللہ ! گواہ رہنا میں خالد کے فعل سے بری ہوں”۔ لوگوں نے زکوٰة سے انکار کیا تو حضرت ابوبکر نے خالد بن ولید کی سربراہی میں لشکر تشکیل دیا۔ صحابی مالک بن نویرہ کو بھی ظالمانہ طریقے سے قتل کرکے اس کی بیوی کیساتھ زبردستی شادی رچالی۔ جس پر عمر فاروق اعظم نے کہا کہ خالد بن ولید پر سنگساری کی حد نافذ کی جائے۔ لیکن حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ ابھی ہمیں خالد بن ولید جیسے بہادرکی ضرورت ہے اور ڈانٹ ڈپٹ اور تنبیہ پر اکتفاء کیا تھا۔ یہ سارے معاملات ہمارے سنیوں کی کتابوں میں درج ہیں۔
اگر کہا جائے کہ حضرت خالدبن ولید کی قیادت میں پٹھانوں نے قتل عام کیا تو پختون اس پر فخر کرینگے ۔ جب طالبان کی شکل میں محسودوں نے لوگوں پر ظلم کا پہاڑ توڑا تو محسود طالبان پر فخر کرتے تھے۔ اگر منظور پشتین گودی بچہ تھا تو سارے محسود تو گودی بچے نہیں تھے۔ ٹانک سے لیڈی ڈاکٹر رضیہ بیٹنی کو اغواء کرکے تاوان کی رقم وصول کی گئی اور بہت کچھ کیا۔ اگر فوج جان نہ چھڑاتی تو محسودوں سے ہی طالبان، داعش، القاعدہ ،ازبک عورتیں اٹھاکر لے جاتے مگر محسودوں کی اکثریت سمجھ رہی ہے کہ ریاست نے تحفظ نہیں دیا یا کسی نے لوٹ مار کی تو ہم بھی غلطی پر ہی تھے۔
حقائق اجاگر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنے حالات میں بھی نرم گوشہ پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ ۖ نے اپنے لشکر کے سپاہ سالار کو بدلے میں قتل کیوں نہ کیا؟۔ مسلمان تأویل کریگا کہ فوجی مہم میں زیادتی ہوتی ہے لیکن ملحد یہ کبھی نہیں مانے گا۔ اگر ملحد سے کہا جائے کہ اللہ عذاب سے پہلے بے گناہوں کو نکال دیتا ہے اور پھر مجرموں کو نشانہ بناتا ہے تب بھی ملحد کہے گا کہ میں نہ مانوں۔ زلزلوں، طوفانوں میں کتنے بے گناہ مارے جاتے ہیں؟۔ اللہ ظالموںکو کیوں نہیں مارتا ہے؟۔ لیکن انبیاء کرام کی دعوتِ حق سے انکار کے سبب اللہ کا عذاب الگ ہے اور قدرتی طوفانوں اور زلزلوں کی بات الگ۔ عربی عالم دین ابوالعلاء معریٰ نے ہزارسال قبل کہا تھا کہ طوفان اندھی اونٹنی کی طرح بے گناہ اور گناہگار کو یکساں کچل دیتا ہے لیکن جس طرح انسانوں کے فعل میں فرق ہے۔ ٹارگٹ کا معاملہ جدا ہے۔ دھماکوں کا جدا ہے جس میں وہ بھی مارے جاتے ہیں جو ٹارگٹ نہیں ہوتے۔ فوجی آپریشن کا معاملہ جدا ہے۔ رسول اللہۖ نے فوجی آپریشن میں بے گناہ افراد کے قتل سے برأت کا اعلان کیا تو وہ الگ بات تھی ۔ ابوبکر کے دور میں خالد بن ولید سے درگزر کا معاملہ ہوا تو اس پر حضرت عمر نے اختلاف کیا ۔ حضرت عمر نے اظہارکیا کہ ”نبیۖ سے کاش ہم زکوٰة نہ دینے والوں کیخلاف قتال کا حکم پوچھ لیتے؟”۔ پھر ائمہ اربعہ کا اس پر اتفاق ہوا کہ زکوٰة پر قتال نہیں ہوسکتا لیکن ان کم عقلوںنے پھر نماز کی سزا پر اختلاف کیاتھا۔
ابوبکر و عمرکے بعد حضرت عثمان کی المناک شہادت کا معاملہ بالکل جدا تھا۔ علی کا مدینہ چھوڑکر کوفہ میں شہید ہونا، پھر حسن کا خلافت سے دستبردار ہونا اور پھر یزید کی نامزدگی اور کربلا میں حسین کی بڑی بے دردی سے شہادت، عبداللہ بن زبیر کی حرم کعبہ میں المناک شہادت وہ سلسلہ ہے جس کے بعد تاریخ کے اوراق داستانوں سے بھرے پڑے ہیں۔ علامہ اقبال ایک انقلابی شاعر تھے اور انہوں نے پیش گوئی اوردعاؤں سے بھی ہمیں نوازا ہے۔
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
ہمارا وزیرستان،خیبر پختونخواہ سوات تک جس طوفان سے آشنا ہوا ہے اس پر دنیا گواہ ہے۔ اب اللہ نہ کرے کہ پنجاب کی سرزمین اس طوفان سے آشنا ہوجائے۔
مرچ کھا کر قہر خطاب برساؤ پنجابی!
راوی و چناب میں کیوں انقلاب نہیں؟
منظور پشتین بچہ ہوگاجب سردار امان الدین شہید نے مجھے، مولانا اکرم اعوان اور مولانا نور محمد شہید ایم این اے (MNA) جنوبی وزیرستان کو انکے علاقے میں جلسہ کیلئے بلایا تھا۔ مولانا اکرم اعوان نے کہا تھا کہ ”میں کاشتکار ہوں۔ جب کاشتکار فصل اٹھاتا ہے تو کچھ گندم بیچ کر قرضہ چکا تا ہے، اخراجات پورے کرلیتا ہے اور کچھ غلہ پسائی کیلئے دیتا ہے اور جو سب سے بہترین گندم ہوتی ہے اس کو فصل کیلئے رکھ دیتا ہے۔ میں قسم کھاکر کہتاہوں کہ وزیرستان کے لوگوں کو اپنے مالک اللہ نے سب سے قیمتی سمجھ کر فصل کیلئے رکھا ہے۔ دنیا میں امامت کا کام ان سے لینا ہے”۔
یہ تو سچ ہے کہ دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتا ہے۔ مجاہد لنگر خیل محسود حمید اللہ نے مجھ سے کہا کہ جہادی تنظیم کے پاس ڈیڑھ کروڑ ریال پڑے ہیں، وہ وزیرستان میں مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ ان کو صرف آپ پر اعتماد ہے۔ میں نے کہا کہ میں کسی کیلئے استعمال نہیں ہوسکتا ہوں۔ پھر حامد میر نے مفتی نظام الدین شامزئی کا انکشاف لکھاکہ ایک جہادی تنظیم واشنگٹن سے بواسطہ رابطہ عالمِ اسلامی مکہ مکرمہ پیسے منتقل کرکے علماء کو خرید رہی ہے۔ اگر یہ باز نہیں آئے تو چوراہے میں ان کا انکشاف کردوں گا۔ طارق اسماعیل ساگر نے بھی انہی سالوں کے حوالے سے قبائلی علاقہ میں امریکی ڈالروں کا بہت بڑا انکشاف کیا ہے۔
جب مجھے اسلام آباد میں پی ٹی ایم (PTM)کے پروگرام سے خطاب کا موقع مل گیا توان کا حوصلہ بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھ لیا تھا۔
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یابندۂ صحرائی یا مردِ کوہستانی
میں نے تقریر میں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ قبائل امامت کے لائق ہیں۔ گلے شکوے کرنا مردوں کا کام نہیں۔ ریاست ماں ہے تو اسکے سامنے اُف نہ کرو۔ ہماری سیاسی لیڈر شپ کورٹ میرج والی باغی بیٹیوں کی طرح ہے ،البتہ یہ نہیں پڑھاکہ:
جو فقر ہوا تلخئی دوران کا گلہ مند
اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
اگرپی ٹی ایم (PTM)ہمارے مشن کو سمجھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتی تو آج پاکستان میں تمام مظلوم قومیں اس کے پیچھے چل رہی ہوتیں۔آج پختون سیاسی ومذہبی قیادت کی سرخیل مریم نوازشریف ہیں جس کی ہڈیوں کا گودا بھی اسٹیبلشمنٹ کے خمیر سے گندھا ہوا ہے۔ محمود خان اچکزئی ، میاں افتخار حسین اور مولانا فضل الرحمن بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کیساتھ پریس کانفرنس کرکے خوش ہوتے ہیں کہ چشم ما روشن دل ماشاد مولانا نے ہی قیادت کامنصب سنبھال رکھا ہے۔ماشاء اللہ چشم بد دور۔

NAWISHTA E DIWAR February Special Edition 2021
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat #imam_e_zamana

اہل تشیع دوسروں کے اکابرین پر کھلے دل سے تنقید کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں مگر جاہلوں کو برداشت کا درس نہیں ملتا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ن لیگ کے دور میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے شخص نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو خوب باتیں سنائی تھیں!

عمران خان میں اپوزیشن کیساتھ بیٹھنے کی سکت نہیں، جب اسمبلی میں واپس آیا تو خواجہ آصف نے کوئی شرم بھی ہوتی ہے….سنایا

شیعہ سنی مسئلہ آج کا نہیں بلکہ یہ تاریخ کے ہر دور میں گھمبیر رہا ہے۔ شیعہ سمجھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ، عمر، عثمان ، معاویہ ، بنی امیہ کے اکثر خلفاء صرف معاویہ بن یزید اور عمر بن عبدالعزیز کو چھوڑ کر ، بنوعباس، سلطنت عثمانیہ کے خلفاء ،صلاح الدین ایوبی ، مغل سلطنت ، جنرل ضیاء الحق و فضل الحق اور اسٹیبلشمنٹ ان کو منصوبہ بندی سے نشانہ بنا رہی ہے۔ جنرل پرویزمشرف، پیپلز پارٹی، ن لیگ اور عمران خانی دور میں ظلم وزیادتی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ جب ہزارہ برادری کے پاس ن لیگی دورمیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ گئے تو ہزارہ سے تعلق رکھنے والے شہری نے آرمی چیف کو کھلی کھلی سنائیں۔ جلیلہ حیدر کا مؤقف واضح تھا، سوشل میڈیا پر اے آر وائی (ARY)چینل کا کلپ ہے جس میں کاشف عباسی سے وزیراعظم عمران نے کہا کہ ”سپاہ صحابہ والے خودمیرے پاس آئے کہ شیعہ سے ہماری صلح کروادو۔ آئی ایس آئی (ISI) والے ہمیں ان سے لڑادیتے ہیں اور ہماری خوامخواہ کی ان سے دشمنی بن گئی ہے”۔
بلوچستان میں مچھ شدت پسند سپاہ صحابہ والوں کا گڑھ ہے۔ پاکستان کی آبادی میں شیعہ یا سنی شدت پسند ہوں تو ان کو ریاست تباہ نہیں کرسکتی ہے۔ حکومت و ریاست کا تعلق اسی معاشرے سے ہے۔ شیعہ سنی سب ریاستی اداروں میں شامل ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی ادارہ کسی شدت پسند کی حمایت کرے لیکن افراد میں انفرادی طور پر شدت پسندی کے جراثیم ہوسکتے ہیں۔
پاک فوج نے اپنے افسران کو جاسوسی کے ثبوت میں سزائے موت اور قید کی سزا دی۔ انفرادی حیثیت میں چھپ کر جیسے قادیانی مذہب سے لگاؤ کا مظاہرہ کرکے کسی سازش میں انفرادی طور پر ملوث ہوسکتے ہیں، اسی طرح شیعہ اور سنی اہلکار، افسر بھی اپنے ذاتی اثر ورسوخ سے کوئی کام دکھاسکتے ہیں۔ یہاں ایران و سعودیہ کی پراکسی وار چلی آج بھی یہ خارج از امکان نہیں مگراسکا تعلق اداروں کے ساتھ ہرگز نہیں، سعودیہ میں میرے شیعہ دوست کا بیٹا پاک فوج کی طرف سے ڈیوٹی پر تعینات تھا۔ اگر فوج میں شیعہ سنی مسئلہ ہوتا تو پھر ایک شیعہ کو سعودی عرب کیسے بھیجتے؟
کچھ عرصہ قبل دوبئی سے شیعہ کو نکالا گیا۔میرے سنی ساتھی ناصر علی کو نام کی وجہ سے دوبئی ائرپورٹ پر مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا، حالانکہ وہ برسہابرس سے دوبئی میں رہائش پذیر تھا اور آسٹریلیا کا نیشنل تھا، اب آسٹریلیا میں ہے۔ اسلام آباد میں شیعہ دوست کے جاننے والے کی دکان دیکھی جو دوبئی سے نکالا گیا تھا۔ ہمارا شیعہ سنی مسئلہ قدیم دور سے چلا آرہاہے اور یہ حکومتوں کے بس کی بات نہیں اور جب تک اصل مسائل کے حل کی طرف توجہ نہیں دی جائے ، خطرے کی تلوار سب کی گردن پر ہمیشہ لٹکی رہے گی۔ شیعہ سمجھتے ہیں کہ جن صحابہ کے احترام پر ان کو مجبور کیا جاتا ہے ان کی عزت وتوقیر انکے ایمان کے منافی ہے اور اہلسنت سمجھتے ہیں کہ ان اکابر کی توہین ہمارے عقیدے پر ضرب کاری ہے اور اہل تشیع بھی اپنے اکابر کی ذرا بھی توہین کیا اختلاف بھی برداشت نہیں کرتے ہیں ۔
قرآن میں نبیۖ کی طرف ”ذنب” کی نسبت کو سنی مکتبۂ فکر کے معتبر علماء نے اجتہادی خطاء یا لغزش قرار دیا ہے مگر اس پر کسی نے شور نہیںکیا۔ حضرت آدم کا جنت میں ممنوعہ درخت کے پاس جانا بھی علماء کے نزدیک خطاء ہے لیکن اہل تشیع نے کبھی اس پر نہ شور کیا اور نہ غور کیا لیکن دوسروں کے اکابرکی توہین کرکے دل چھلنی کرنیوالا طبقہ خود علمی بحث بھی برداشت نہیں کرسکتا ہے۔ جس طرح وہ اپنوں کو چارج کرتے ہیں اسی طرح دوسرے بھی اپنوں کو ان سے زیادہ چارج کرنے کا بھرپور حق بھی رکھتے ہیں۔
تحریک لبیک کے علامہ آصف جلالی نے یہ کہا کہ حضرت بی بی فاطمہ نے حضرت ابوبکر کے مقابلے میں اجتہادی خطاء کی تھی تو شیعہ نے طوفان کھڑا کیا اور کافی عرصہ اس کو جیل میں گزارنا پڑا ۔ بریلوی مکتبۂ فکر کے عالم دین نے کہا کہ ”علامہ آصف جلالی کمال کا علم رکھتے ہیں لیکن ان کا طریقہ درست نہ تھا ”۔ جب کسی کی جان پر پڑے تو سب اسی کو غلط ٹھہراتے ہیں۔ جنید جمشید کی جان پر پڑگئی تو مولانا طارق جمیل نے برأت کا اعلان کیا تھا۔ ہمارے گھر پر طالبان نے حملہ کرکے ظلم کی اس حد تک انتہاء کردی کہ ”طالبان رہنماؤں نے کہا کہ اتناظلم تو یزید نے کربلا اور یہود نے فلسطین میں بھی نہیں کیا جتنا سخت ظلم طالبان نے یہاںکیا۔ اور تو اور خاندان کے لوگ بھی طالبان کو صحابہ اورمجھے غلط ٹھہرارہے تھے، بھائی اورنگزیب شہید نے گھر میں گھسنے والے امیرطالبان کوتھپڑ مارا کہ یہ ہمت کیسے ہوئی ،جس کی جرأت کو زمین کے جنات اور آسمان کے فرشتے سلام کرتے ہونگے لیکن اپنے خاندان والے نے کہا کہ یہ تھپڑ نہیں مارنا چاہیے تھا۔
میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں تھا تو ہمارے استاذپرنسپل ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ناظم تعلیمات تھے، جامعہ کی چھٹی بھی نہیںکرائی تھی ۔ سواداعظم کے اکابر مولانا سلیم اللہ خان ، مولانا اسفندیارخان اپنے مدارس سے طلبہ لیکر آئے تھے کہ ہم شیعہ کے جلوس کو یہاں سے گزرنے نہ دینگے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ” فسادی آئے ہیں”۔ مولانا یوسف بنوری ماتم کے جلوس کے شرکاء کیلئے مسجد کے مٹکے پانی سے بھرواکر رکھتے تھے۔ شیعہ کے جلوس کو روکنا ہمارے مدرسے کی روایت کے خلاف ہے۔ آپ لوگ ان فسادیوں سے دور رہو”۔
جامعہ فاروقیہ وغیرہ کے طلبہ نے مسجد کی دکانوں کی چھت پر چڑھ کر پتھر مارنا شروع کئے تو پولیس نے آنسو گیس کے شیل پھینکے۔پھر لوگ بیہوش ہونا شروع ہوگئے تو ہم نے مدد کی۔ دوسرے دن ڈاکٹر صاحب نے مجھے مخاطب کرکے ڈانٹا کہ تم لوگ منع نہیں ہوئے۔ ہمارے یہاں بال بچے ہیں۔سب کو تکلیف میں ڈال دیا”۔ ہم میں صفائی پیش کرنے کی ہمت بھی نہیں تھی۔
پھر جامعہ سے شیعہ کو قادیانیوں سے بدتر کافر قرار دینے کافتویٰ کتابی شکل میں جاری ہوا، پھر مجھے پتہ چلا کہ حاجی محمد عثمان پر فتویٰ لگایا گیا تو جامعہ والے اسکے خلاف تھے لیکن فسادی اصلاح والوں پر غالب تھے۔ پھر مولانا سید محمد بنوری کو گھر میں شہید کیا، پہلے جنگ اخبار میں خود کشی کی خبر چلی جب شہادت ثابت ہوگئی تو ڈاکٹر عبدالرزاق صاحب پر الزام لگاناشروع کیا۔ ہم نے لکھا تھاکہ استاذ جی نے کبھی مکھی نہیں ماری۔شرپسند مدرسہ پر قبضہ چاہتے ہیں۔ شہید بنوری کا تعلق جمعیت ف سے تھا۔ مولانا فضل الرحمن سے انہوں نے کہا تھا کہ مجھے قتل کردیا جائیگا مگرمولانا نے کہاکہ” تم ڈرامہ کر رہے ہو”۔ خود کشی کی خبرجنگ میں شائع کرنیوالا مفتی جمیل خان اس وقت مولانا فضل الرحمن کیساتھ تھا۔ آج نواز شریف خرچہ اٹھا رہاہے،اس وقت مفتی جمیل خرچہ اُٹھاتا تھا۔اسلئے مولانا محمد خان شیرانی نے پاکستان کو کرائے کا چوک قرار دیا تھا۔

NAWISHTA E DIWAR February Special Edition 2021
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat #imam_e_zamana

سورۂ حدید میں مسلمانوں کیساتھ دو حصوں کا وعدہ ہے، پہلا حصہ فتح روم کا دیکھ لیا اور اب دوسرے کی باری ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اسکے رسول پر ایمان لاؤ، تمہیں اپنی رحمت میں سے دو حصے دیگا اور تمہارے لئے روشنی بنادیگا۔

تاکہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ اللہ کے فضل میں سے کسی چیز پر قادر نہیں اور اللہ جس کو چاہتا ہے اپنا فضل دیتا ہے۔ الحدید

جب قیصرروم نے ابوسفیان سے نبیۖ کے متعلق اس وقت سوالات دریافت کئے تھے جب ابوسفیان نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ قیصر روم نے اوصاف سن کر کہا تھا کہ سچے نبی کے یہی اوصاف ہوتے ہیں۔ سچا، صادق اور امین ۔ سب سے زیادہ شریف خاندان سے تعلق رکھنے والا اور جنگوں میں کبھی فتح اور کبھی شکست اہل حق کی نشانی ہے اور توحید اورمعاشرتی برائیوں کے خاتمے کی دعوت بھی ایک صحیح اور سچے نبی کی علامات ہیں۔ غریب پرور اور غریبوں سے محبت کا ناطہ بھی اہل حق کی سب سے بڑی نشانی ہے۔
جب رسول اللہۖ نے قیصرروم کو خط بھیج دیا تو قیصر نے اپنے دربار میں اپنے وزیروں اور مشیروں کو بلایا کہ اس کی دعوت قبول نہیں تو ایک دن یہ تخت ان کے قدموں کے نیچے ہوگا۔ پھر جب وزیر اور مشیر مشتعل ہوگئے تو اس نے کہا کہ میں تمہاری صرف آزمائش کرنا چاہتا تھا۔
اسلام کی نشاة اول گزرچکی ہے ۔ رسول اللہۖ نے اسلام کی نشاة ثانیہ کی بھی خبر دی ہے۔ اللہ نے سورۂ الحدید کی آخری دو آیات میں مسلمانوں کو اللہ سے ڈرنے اور اس کے رسول پر ایمان کی دعوت دی ہے اور یہ واضح فرمایا ہے کہ اللہ ان کو دو حصے عطاء کرے گا۔ پہلا حصہ اسلام کی نشاة اول میں گزر چکا ہے اور اہل کتاب پر یورپ اور افریقہ میں مسلمان غالب آگئے تھے اور اب اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جو ترقی وعروج کی راہیں کھولی ہیں۔ اس میں بھی اگر ہم اللہ سے ڈرے اور اسکے رسول حضرت محمدۖ پر ایمان لائے اور ایمان لانے کا حق ادا کردیا تو آج پھر مسلمانوں کو غلبہ مل سکتا ہے۔ قرآن وسنت میں بھرپور نشاندہی موجود ہے۔
یوم تری المؤمنین والمؤمنات یسعٰی نورھم بین ایدھم و بایمانھم بشرٰکم الیوم جنٰت تجری من تحتھا الانھٰر خالدین فیھا ذٰلک ھو الفوز العظیمO یوم یقول المنٰفقون والمنٰفقٰت لذین اٰمنوا انظرونا نقتبس من نورکم قیل ارجعوا ورآء کم فالتمسوا نورًا فضرب بینھم بسور لہ باب باطنہ فیہ الرحمة و ظاہرہ من قِبلہ العذابO ینادونھم الم نکن معکم قالوا بلٰی و لکنکم فتنتم انفسکم وتربصتم وارتبتم وغرتکم الامانی حتی جآء امر اللہ و غرکم باللہ الغرورO فالیوم لایؤخذمنکم فدیة ولا من الذین کفروامأوٰکم النار ھی مولٰکم و بئس المصیرO
” انقلاب کے دن تم دیکھو گے کہ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کی روشنی ان کے آگے اور دائیں ہاتھوں میں ہوگی۔ آج کے دن تمہیں بشارت ہے۔ ایسے باغ کی جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور اس میں ہمیشہ زندگی بھر رہیں گے۔ یہ ہے وہ بہت بڑی کامیابی۔ اس نقلاب کے دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے کہ ہماری طرف بھی توجہ کریں تاکہ تمہاری روشنی سے کچھ ہم بھی حاصل کرلیں۔ کہا جائیگا کہ لوٹ جاؤ، اپنے پیچھے کی طرف اور کوئی روشنی پکڑو۔ اس دوران ان کے درمیان ایک قلعہ کی دیوار کھینچ دی جائے گی۔ جس کا دروازہ بھی ہوگا۔ دروازے کا اندرونی حصہ رحمت ہوگا اور باہر سے بظاہر بہت تکلیف دہ دکھائی دیتا ہوگا۔ وہ پکاریں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے؟۔ وہ کہیںگے کہ ہاں کیوں نہیں! لیکن تم نے اپنی جانوں کو فتنے میں ڈال دیا اور انتظار میں لگ گئے۔اور شک میں پڑگئے اور اُمیدوں نے تمہیں دھوکے میں ڈالا۔ یہاں تک کہ اللہ کا حکم آیا اور تمہیں دھوکے باز نے اللہ سے دھوکے میں ڈالے رکھا۔ آج کے دن تم سے کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائیگا اور نہ ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا۔ تمہارا آقا آگ ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔”۔( الحدید آیات12سے 15)
یہ دنیا کے انقلاب کا ذکر ہے جہاں اچھے لوگوں اور منافقوں کے درمیان ایک دن تفریق ہوگی۔ ایک قلعہ نما دیوار کے پیچھے ایک دوسرے تک بات پہنچے گی اور ان کو انکے کرتوت سے آگاہ کیا جائیگا ۔ آخرت میں فدیہ دینے کا کوئی تصور نہیں ہوگا ۔ انقلاب کے بعد منافقین کہیں گے کہ ہم بھی کچھ پیسے دینا چاہتے ہیں لیکن ان سے کہا جائیگا کہ تم سے فدیہ قبول کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ کافروں سے فدیہ لیا جائیگا۔ پہلے ادوار میں مصنوعی بجلی اور اس سے فائدہ اٹھانے کے ایسے تصورات نہیں تھے جس طرح سے پہاڑ جتنے بڑے بحری جہازوں کا تصور نہیں تھا۔ حقائق اس وقت سمجھ میں آئیں گے جب انقلاب برپا ہوجائیگا۔
بچوں کیلئے رہائشی سکول بنے ہیں جن کے گیٹ پر باہر سے لکھا ہوتا ہے کہ ” مار نہیں پیار” اور اندر لکھا ہوتا ہے کہ ”پیار نہیں مار”۔ ہٹ دھرم منافقوں سے پیچھا چھڑانے کے دروازے کے باطن اور ظاہر کا فرق ہتھیار ہوگا۔
یہاں پر بات اللہ نے ختم نہیں کی ہے بلکہ اسکے بعد اچھی طرح سے مؤمنوں کو سمجھادیا ہے کہ اُٹھ جاؤ۔
الم یأن للذین اٰمنوا ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ و مانزل من الحق ولایکونوا کالذین اوتوالکتٰب من قبل فطال علیھم الامد فقست قلوبھم وکثیر منھم فٰسقونO اعلموا ان اللہ یحی الارض بعد موتھا قد بینالکم الاےٰت لعلکم تعقلونO (الحدید آیات16، 17)
”کیا ایمان والوں کیلئے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکرکیلئے ڈر جائیں اور جو اللہ نے حق کیساتھ نازل کیا۔ اور ان لوگوں کی طرح مت ہوجاؤ، جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی اور پھر ان پر ایک لمبی مدت گزر گئی تھی۔ پھر ان کے دل سخت ہوگئے۔ اور ان میں اکثر فاسق تھے۔ تم لوگ جان لو! کہ بیشک اللہ زمین کوزندہ کرتا ہے اس کی موت کے بعد ۔ تحقیق ہم نے اپنی آیات کو واضح کردیا ہے ہوسکتا ہے کہ تم عقل سے کام لے لو”۔
اللہ نے آگے فرمایا کہ ”
لقد ارسلنا رسلنا بالبینٰت و انزلنا معھم الکتٰب والمیزان لیقوم الناس بالقسط وانزلنا الحدید فیہ بأس شدید و منافع للناس ولیعلم اللہ من ینصرہ ورسلہ بالغیب ان اللہ قوی عزیزO
” بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو دلائل کیساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب نازل کی اور میزان تاکہ لوگوں میں انصاف کیساتھ قیام کریں۔ اور ہم نے لوہا اتارا ،جس میںبہت سختی ہے اور اس میں لوگوں کیلئے منافع ہیں۔ اور تاکہ اللہ جان لے کہ اس کی اور اسکے رسول کی کون غیب کے باوجود مدد کرتا ہے۔ اللہ بہت طاقت والا زبردست ہے۔ (الحدید آیت25)
اہل کتاب نے افغانستان، عراق ، لیبیا اور شام کو تباہ کردیا لیکن مسلمانوں کی حکومت آئے گی تو لوہے کو صرف منافع بخش چیزوں کیلئے دنیا میں استعمال کریں گے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ معاشی، معاشرتی اور تعلیمی کسی قسم کا انصاف ہم نے قائم نہیں کیا ہے۔ جس کی وجہ سے امت مار کھارہی ہے اورغریب اور امیر کے درمیان دیواریں کھڑی ہیں۔

NAWISHTA E DIWAR February Special Edition 2021
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat #imam_e_zamana

سورۂ واقعہ میں قیامت اور دنیا میں تین اقسام کے لوگ واضح ہیں:السابقون، اصحاب الیمین، اصحاب الشمال

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

صحابہ کرام میں السابقون بہت تھے۔ آخر میں بہت کم ہونگے۔ اصحاب الیمین پہلے بھی بہت تھے اور آخر میں بھی بہت ہونگے

مجرموں کو پہلے بھی مغلوب ہونے کی سزا مل گئی اور اب بھی مجرموں کی دنیاوی سزا الگ ہوگی اور آخرت کی سزا الگ ہوگی

سورۂ واقعہ سے پہلے سورۂ رحمن ہے۔ اللہ نے فرمایا:
( الرحمن O عّلم القراٰن Oخلق الانسان Oعلمہ البیانO) ” رحمن ،جس نے قرآن سکھایا، انسان کو پیدا کیا، اس کو بیان سکھایا”۔ سورۂ رحمن میں سمندرمیں پہاڑوں کی طرح جہاز وں کا ذکر ہے۔ جب قرآن نازل ہوا تھا تو کسی کے دل ودماغ میں پہاڑوں کی طرح جہازوں کاکوئی تصور نہیں تھا۔ بظاہر یہ بات بڑی عجیب لگتی ہے کہ اللہ خود قرآن کیسے سکھاتا ہے؟۔ ویعلمھم الکتٰب ”اوران کو کتاب کی تعلیم دیتا ہے”۔ نبیۖ کی نبوت کا کام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سکھانے کی نسبت کیسے کردی ہے؟۔
قرآن میں کچھ محکمات تھے اور کچھ متشابہات۔ جب دنیا نے ترقی نہیں کی تھی تو اس وقت سمندر میں پہاڑ جیسے جہاز کا تصور متشابہات میں سے تھا۔ جس پر بحث مباحثہ کی ضروت مسلمان محسوس نہیں کرتے تھے۔ لیکن آج یہ آیت متشابہات سے نکل کر محکمات میں شامل ہوگئی ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے جسطرح سکھانے کی نسبت اپنی طرف کردی ہے کہ اللہ قرآن سکھاتا ہے تو کوئی شخص بھی پہاڑ جیسے جہازوں اور قرآن کی آیت کو زبردست طریقے سے خود سمجھ سکتا ہے۔
سورۂ رحمن میں بھی تین قسم کے لوگوں کا ذکر کیا گیاہے اور سب سے پہلے مجرموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ دنیا و آخرت میں اپنے اپنے حساب سے مجرموں کو سزا ملے گی۔ دوسری قسم کے لوگ السابقین ہیں جن کو دوطرح کی جنت ملنے کا ذکر ہے۔ ایک دنیا کی جنت اور ایک آخرت کی جنت۔ یہ وہ ہیں جن کو احسان کا بدلہ احسان ملے گا۔ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے دور میں جن فتوحات کا دور شروع ہوا تھا، وہ بنوامیہ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ تک کس کامیابی کیساتھ جاری رہاہے۔ مدینہ ومکہ کے درمیان کوئی دریا اور نہروں کا تصور نہیں ہے لیکن مسلمانوں کو اللہ نے سپر طاقتوں کا فاتح بناکر ہمیشہ کیلئے باغات اور بہتی ہوئی نہروں کا مالک بنادیا۔ نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر ہم دنیا میں جنت کے مالک بن گئے ہیں یہ پہلے کی قربانیوں کا صدقہ ہے جس سے ہم استفادہ کررہے ہیں۔
جب اسلام کی نشاة ثانیہ ہوجائے گی تو پھر نئی فتوحات کے دراوزے کھل جائیں گے۔ جب مکہ ومدینہ کے مختصر علاقے اور آبادی نے پوری دنیا کی سپر طاقتوں کو شکست دی تھی تو کیا آج پوری دنیا میں پھیلے ہوئے مسلمان متحد اور متفق ہوکر قرآن کی بنیاد پر دنیا میں فتحیاب ہونے کا خواب نہیں دیکھ سکتے ہیں؟۔ پاکستان کا پیسہ باہر لے جانے سے مٹی بننے سے بھی زیادہ صلاحیت نہیں رکھتا ہے لیکن باہر کے پیسے پاکستان میں لگانے سے سونا بن جاتا ہے۔
ہمارے مقتدر طبقات اپنی مٹی اور اپنے ملک میں بڑا لینڈ لارڈ ہونے کو بھی پسند نہیں کرتے لیکن باہر جھاڑو کشی کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے ایک کنواری لینڈ لارڈ جمائما خان سے شادی کی تھی لیکن پھر ایک جوان بچوں کی ماںریحام خان اورپھر بشریٰ بی بی سے شادی کرنے میں زیادہ بہتر لگا۔ جس ملک کی بیواؤں و طلاق شدہ کو دیار غیر کی کنواریوں سے زیادہ بہتر سمجھا جائے،اس کی مٹی کتنی زرخیز ہے؟۔ کشمالہ طارق جوان بیٹے کی ماں ہے اور پھر بھی یہاں کے بڑے امیرکبیر شخص نے شادی کرلی۔ جن سرگوشیوں کو قرآن میں بہت سختی کیساتھ اللہ نے منع کیا وہ سرگوشیاں ہمارے معاشرے کی اجتماعیت کو تباہ کررہی ہیں۔
سورۂ نور میں اللہ تعالیٰ نے بہتان لگانے کی سزا بھی زنا سے بیس (20)کوڑے کم مقرر کی ۔ زناکی سو (100)کوڑے اور بہتان کی اسی (80)کوڑے ہے۔ حضرت عائشہ پر بہتان سے نبیۖ اور حضرت ابوبکر نے کتنی تکلیف اُٹھائی ۔ اللہ نے ام المؤمنین اور ایک عام غریب خاتون پر بہتان لگانے کی ایک سزا مقرر کرکے دنیا کو ایسا عدل وانصاف سکھادیا ہے کہ پوری دنیا میں کوئی نظام اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے۔ اللہ نے سورۂ نور میں یہ بھی فرمایا کہ فحاشی کی باتوں کو پھیلایا مت کرو۔ اسلئے یہ بھی فرمایا کہ اس افک عظیم کے دلخراش واقعہ کو اپنے لئے برا مت سمجھو۔ بلکہ اس میں تمہارے لئے خیر ہے۔ سورۂ نور کی آیات میں مشرقی اور مغربی اثرات کا شائبہ تک بھی نہیں ہے۔ بہتان لگانے والے مسلمانوں کو کافر یا واجب القتل نہیں قرار دیا بلکہ سزا اور تنبیہ کردی۔
سورۂ واقعہ میں سابقون کا زبردست تصور دیا گیا ہے جن کا کام دنیامیں صرف اہلیت کی بنیاد پر اقتدار کا ڈھانچہ تشکیل دینا ہوگا۔ امانتوں کو ا نکے اہل کی طرف لوٹانے سے پاکستان، عالم اسلام اور پوری دنیا میں زبردست انقلاب آجائیگا۔ سورہ ٔ واقعہ میں السابقون اور اصحاب الیمین کے بعد اصحاب الشمال کی بھی زبردست وضاحت ہے۔
واصحاب الشمال ما اصحاب الشمالO
(فی سموم وحمیمO وظل من یحمومO لابارد ولاکریمO انھم قبل ذٰلک مترفینO وکانوایصرون علی الحنث العظیمO)
” اور اصحاب الشمال !اور کیا ہیں اصحاب الشمال؟۔ بادِ سموم گرم ہواؤں میں ہوں گے اورموسم کی گرمی کھائیں گے۔ کالے دھویں کے سائے میں ہونگے، جو نہ ٹھنڈا ہوگا اور نہ آرام دہ ہوگا۔ بیشک یہ وہ لوگ تھے جو پہلے بہت دولتمند تھے۔ اور بڑی بڑی کرپشن پر ہاتھ مار کر مسلسل اصرار کررہے تھے”۔
پاکستان اور دنیا بھر کے کرپٹ عناصر کی تصویربہت زبردست انداز میں اللہ نے ان آیات میں دکھائی ہے۔ جس طرح سمندر میں پہلے پہاڑوں جیسے جہاز نہیں تھے اور موجودہ دور میں اس کاواضح تصور ہے۔ اسی طرح موجودہ دور میں فیکٹریوں اور ملوں کا بھی تصور ہے جنکا سیاہ دھواں سایہ کرتا ہوا نظر آتا ہے لیکن وہ نہ تو ٹھنڈا ہوتا ہے اور نہ ہی فرحت بخش ہوتا ہے۔ آصف علی زرداری، نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن سمیت جب مسلسل بڑی بڑی کرپشن میں ملوث سیاسی ومذہبی رہنما ؤں اور فوجی جرنیلوں اور سول بیوروکریٹوں سے حرام کمائی کا دھندہ رُک جائیگا تو یہ خود اور ان کی نالائق اولادیں اپنا پیٹ پالنے اور روزگار کیلئے ملوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے لگ جائیں گے۔
عیش وعشرت اور آرام وسکون کی زندگی گزارنے کے عادی دنیا میںاپنے روزگارکو اپنے لئے جہنم سمجھیںگے۔ انہوں نے سمجھ رکھا ہے کہ یہی دنیا ہے ، اگر آخرت کی فکر ہوتی تو یہ کرتوت انکے کبھی نہ ہوتے۔ کسی قوم و ملک سے وفا دار رہنے والے بھی ایسی حرکتیں نہیں کرسکتے ہیں پارلیمنٹ میں گھوڑا ، گدھا اور طوطا بننے والوں کو عزت اور آخرت سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔ شرم وحیاء کی دہلیز سے اترکر کہاں سے کہاں یہ لوگ پہنچ چکے ہیں۔ قوم کی ایسی سیاست کرنے اور ملک کی ایسی رکھوالی کرنے سے بہتر ہے ڈھول باجے اٹھاکر عوام کے سامنے میراثیوں کا کردار ادا کریں۔
سورہ ٔ واقعہ کی مندرجہ بالا آیات (41)تا (46)پھر اگلی آیات(50)تا(57) میں قیامت کے عذاب کا الگ سے ذکر کیا ہے جس میں شجرة زقوم وغیرہ کی وضاحت ہے۔

NAWISHTA E DIWAR February Special Edition 2021
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat #imam_e_zamana

اللہ نے صحابہ کرام کے بعدآخری دور میں مسلمانوں کی کامیابی اور اسلامی نشاة ثانیہ کی زبردست بشارت د ی!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورۂ جمعہ، سورۂ واقعہ، سورۂ محمد، سورۂ حدید، سورۂ دہر، سورۂ رحمن اور قرآن کی کئی سورتوں میں بشارت عظمیٰ کی بہترین وضاحت

یارب ان قومی اتخذوا ہذالقراٰن مھجورًا”اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھاتھا”۔ قرآن

سورۂ مجادلہ کے پہلے رکوع میں بہت بڑے انقلاب کا ذکر ہے۔ کیا شیعہ سنی میں اتنی جرأت ہے کہ ائمہ اہل بیت یا صحابہ کرام کے دربار میں کسی بڑی شخصیت سے جھگڑا کریں اور اپنے حق میں اللہ کی وحی سے حمایت کی امید رکھیں؟۔
رسول اللہ ۖ سے بڑی ذات اہل تشیع کے نزدیک ائمہ اہل بیت کی نہیں اوراہل سنت کے نزدیک صحابہ کرام کی نہیں ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ شیعہ سنی عوام اپنے ذاکرین عظام اور علماء کرام سے دلیل کی بنیاد پر بھی کسی قسم کی حجت بازی کریں تو ہماری شخصیات کویہ بہت بے ادبی اور بدترین گستاخی لگتی ہے۔ مولانا طارق جمیل و بلال شہید کے درمیان پچپن (55)منٹ کی کال میں گفتگو سن لیں اور پھر اس پر مولانا طارق جمیل کی طرف سے تأثرات بھی سن لیں اور بلال شہید اور مولاناطارق جمیل کی حمایت اور مخالفت کے حوالے سے ویڈیوز بھی دیکھ لیں۔ پھر رسول اللہۖ سے سورۂ مجادلہ میں ایک خاتون کا جھگڑا بھی دیکھ لیں جس کے حق میں اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی۔
سورۂ مجادلہ کے پہلے رکوع میں ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ ظہار کرنے والے کو تین قسم کے کفارے کا حکم ہے۔ (1:)گردن آزاد کرناجو کسی غلام، لونڈی ، مزارع اور قرضدار کی ہوسکتی ہے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے اس پرعمل حکم ہے۔ (2:) اگر جو یہ نہیں کرسکتے ہو تو پھر ساٹھ (60) دن مسلسل روزے رکھنے ہیں۔ فرض رمضان ایک ماہ، یہ دو مہینے پورے ہیں۔ اوراس میں بھی ہاتھ لگانے سے پہلے کی شرط موجود ہے۔ (3:) اگر دو مہینے روزے کی استطاعت نہیں ہے تو پھر(60) مسکینوں کو کھانا کھلاناہے۔ اس میں ہاتھ لگانے سے پہلے کی کوئی شرط اللہ تعالیٰ نے نہیں لگائی ہے۔
دولت مند پر ہاتھ لگانے سے پہلے کتنا زبردست اللہ نے جرمانہ رکھ دیا۔ پھر مذہبی شدت پسند پر بوجھ ڈال دیا کہ ہاتھ لگانے سے پہلے دو ماہ مسلسل وہ روزے رکھے گا ۔ لیکن عام عوام کو اللہ نے کتنی بڑی سہولت سے نواز دیاہے۔
سورۂ مجادلہ کے دوسرے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اس بیماری سے دور رہنے کی تلقین کردی کہ سر گوشی شیطان کا عمل ہے۔ جب چند افراد ایکدوسرے کیساتھ مل کر سرگوشیوں کی بیماری میں مبتلاء ہوتے ہیں تو اس سے معاشرے میں ایک بداعتمادی، منافقت اور اجتماعی بیماریوں کی شکل میں قوم مبتلا ہوجاتی ہے۔ تبلیغی جماعت اور سپاہ صحابہ کے علاوہ اہل تشیع بھی آپس میں سرگوشیوں کے مرض میں مبتلاہیں۔ اللہ نے حکم دیا ہے کہ ایمان والے سرگوشی کریں تو تقویٰ اختیار کریں۔ ایکدوسرے کی غیبت، مخالفت اور مذاق اُڑانے کی عادت سے معاشرہ اپنی اخلاقی اقدار کھو دیتا ہے۔
صحابہ کرام کے دور میں یہ منافقین کی روش تھی اور اللہ نے ان کو ہرمحاذ پر شکست بھی دیدی۔ اہل تشیع ائمہ اہل بیت کیلئے صحابہ کرام کے مقابلے میں ایسے تأثرات قائم کرنے سے باز آجائیں کہ لوگ قرآن کی طرف دیکھنے کے بعد اُلٹا صحابہ کرام کی بجائے ائمہ اہلبیت کو منافقین کی فہرست کا حصہ سمجھنا شروع ہوجائیں۔ خوارج پہلے پکے شیعہ تھے اور حضرت علی کے ماننے والے تھے اور پھر حضرت علی کے وہی دشمن بن گئے تھے۔ اعتدال مؤمنین کی اصل راہ ہے۔
کچھ لوگ نبیۖ سے سرگوشی کیلئے وقت مانگتے تھے تو ان کا مقصد صرف اپنی دنیاوی وجاہت کا اظہار ہوتا تھا اور منافقین کا راستہ روکنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جب تم نبیۖ سے سر گوشی کرنا چاہو تو پہلے صدقہ دیدیا کرو اور اگر نہیں ہے تو کوئی بات نہیں ہے۔ یہ حکم بعض لوگوں پر گراں گزرا کہ نبیۖ نے ملاقات کیلئے بھی یہ شروع کردیا؟۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے پیسے نہ ہونے کی صورت میں اجازت دی تھی اور صدقہ نہ دینے کے باوجود معاف کردیا تھا۔
اصحاب صفہ اور مہمانوں کے اخراجات کی طرف توجہ دلانا بری بات نہیں تھی۔ آج بھی لوگ سیاسی قائدین، علماء اور پیرانِ طریقت کے لنگروں کا خیال رکھتے ہیں۔ قرآن کی ہر بات میں حکمتِ بالغہ کا سمندر غوطے کھاتا ہے۔
سورۂ مجادلہ کے تیسرے رکوع میں حزب شیطان اور حزب اللہ کی صفات کا ذکر ہے۔ حزب شیطان وہ منافقین تھے جنہوں نے ان اہل کتاب یہود کو اپنا حاکم وسرپرست بنالیا تھا جن پر اللہ کا غضب ہے۔ وہ نہ تو یہود کیساتھ تھے اور نہ مسلمانوں کیساتھ تھے۔ ایک عرصہ سے ہمارا حکمران طبقہ بھی حزب شیطان کا کردار ادا کررہا ہے۔ یہودیوں کے عالمی بینکاری نظام سے بھاری بھرکم سودی قرضے لیتا ہے۔ اسلام کی نشاة اول میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کو بلیک لسٹ قرار دے دیا تھا اور موجودہ دور میں پاکستان کو منافقین کی حرکتوں نے گرے لسٹ میں ڈال دیا ہے۔ اپنے لوگوں اور عالمی اداروں دونوں سے دغابازی ہورہی ہے۔
بعث لفظ کے دو معانی ہیں۔قیامت کے دن اُٹھانے کو بھی بعثت کہتے ہیں اور تشکیل دینے کو بھی بعثت کہتے ہیں اور قرآن میں دونوں معانی میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ۔ ”اگران دونوں(میاں بیوی) میں تفریق کا خطرہ ہوتوپھر ایک حکم تشکیل دو،شوہر کے خاندان سے” ۔(النسائ35) میں فابعثوا اسی معنیٰ میں آیا ہے۔ سورۂ مجادلہ کے مطابق منافقین اولین کو قیامت کے دن اُٹھایا جائے یا دنیا میں فتح کے مناظر دیکھنے کے بعد ان سے امتحان لیا جائے تو وہ قسم اُٹھانے میں ذرہ برابر شرم نہیں رکھتے تھے۔
اگر مقتدر شخصیات سے کرپشن پر حلف لیا جائے تو ان کے اندر کی منافقت انکے چہروں پر آجائے گی۔ پھر ان پر ان کی جماعت اور خاندان میں سے اچھے لوگوں کو درست گواہ بنادیا جائے تو وہ حزب اللہ کا کردار ادا کرتے ہوئے درست گواہی دیں گے۔ روزِ حشر سے پہلے یہاں بھی ایک یومِ حساب کا ذکر ہے۔ فیض احمد فیض کے اشعار کی صورت میں زبان خلق نقارہ خدا بن چکی ہے۔ سورۂ واقعہ میں دنیا کے اندر اس انقلاب کا ذکر ہے جس میں پہلے دو طبقات کو اجر وثواب کے علاوہ خوشحالی بھی ملے گی اور مجرموں کی دنیا اور آخرت میں الگ الگ سزاؤں کی وضاحت بھی ہے۔

NAWISHTA E DIWAR February Special Edition 2021
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat #imam_e_zamana

اللہ نے طلاق اور اس سے رجوع کا معاملہ جس طرح واضح کیا،اسی طرح صحابہ اور مفافقین کا معاملہ واضح کیا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جس طرح سنی علماء ومفتیان قرآن کی واضح آیات سے محض اسلئے انحراف کررہے ہیں کہ انہوں نے اپنا ایک ماحول بنالیا ہے۔

اسی طرح سے شیعہ صحابہ کرام کے بارے میں واضح آیات سے اپنے ماحول کی وجہ سے بہت ہی واضح انحراف کررہے ہیں۔

سنی علماء ومفتیان طویل عرصہ سے طلاق اور اس سے رجوع کے مسئلے کو قرآن کی واضح آیات میں دیکھنے کا صرف نام لینے سے بھی بدک رہے ہیں۔ وہ قرآن کی آیات اور مسلمانوں کی عزت و حرمت کی پامالی کا لحاظ نہیں کرتے ہیں اور اپنے ماحول کو اس پر قربان نہیں کرسکتے ہیں۔ کیا ان کا ماحول، ان کا دھندہ اور معاشرے میں ان کی ساکھ قرآن اور مسلمانوں کی عصمت دری سے زیادہ عزیز ہے؟۔
سپاہ صحابہ اور اس کے سرپرست اہل تشیع کو قرآن سے مانوس کرنے کیلئے پہلے خود تو قرآن کی طرف متوجہ ہوں۔ استاذ مفتی محمد نعیم نے طلاق سے رجوع کا مسئلہ قرآن سے سمجھنے کے باوجود اعلان اسلئے نہیں کیا کہ جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی کو دیوبندی وفاق المدارس سے نکال دینگے۔ کیا وفاق المدارس اور علماء ومفتیان کی صفوں میں رہنا حمایت قرآن سے زیادہ اہم ہے؟۔ حلالہ کے نام پر عورتوں سے جبری مذہبی اور مسلکی متعہ کیا جارہاہے جاہل معاشرے کے جاہل افراد کوایک طویل عرصہ سے حلالہ کی لعنت کا شکار بنایا جارہاہے۔ جس دن سنی مکتبۂ فکر کے علماء ومفتیان اپنے لوگوں پررحم کھاکر قرآن وسنت کی طرف رجوع کا اعلان کر ینگے تو اہل تشیع کے علماء وذاکرین کو بھی یہ توفیق ملے گی کہ قرآن کی طرف رجوع کرکے اپنی مجالس میں صحابہ کرام کے فضائل اپنے لوگوں کے دلوں میں بٹھا دینگے۔
جب تک سنی اپنے ماحول کی قربانی نہیں دیں گے تو شیعہ سے اپنے ماحول کی توقع رکھنا بھی غیرت کا تقاضہ نہیں ہے۔ ایک عرصہ سے ہم نے قرآن وسنت اور اصولِ فقہ کی متفقہ تعلیمات سے طلاق اور اس سے رجوع کا مسئلہ واضح کیا ہے لیکن پھر بھی وفاق المدارس اور تنظیم المدارس ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مدارس ہمارے لئے واحد ذریعہ معاش، شہرت، اعتماداور عزت ہے۔ جب تک کوئی متبادل چیز سامنے نہ آئے اپنے ماحول سے کیسے ہم جدا ہوسکتے ہیں؟۔ پھر شیعہ کو بھی یہ مہلت دینی ہوگی۔
اہل تشیع کے مخالفین دو طرح کے ہیں۔ ایک ان کو صحابہ کرام کے دشمن اوربدترین گمراہ سمجھتے ہیں۔دوسرے ان کو ایران کے مجوسی اور وہ منافقین سمجھتے ہیں جنہوں نے اسلام کا لبادہ اُوڑھ کر عرب اور مسلمانوں سے ایران کی اس شکست کا بدلہ لینا ہے جو صحابہ کرام نے کسریٰ ایران کو دی تھی۔ اول الذکر سپاہ صحابہ، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث ہیں جنہوں نے محرم میںحضرت ابوبکر اورحضرت ابوسفیان کے حق میں کراچی کے اندر بڑے بڑے جلوس نکالے تھے اور یہاں تک کہ بعض لوگوں نے یزید زندہ باد کے نعرے بھی لگائے تھے۔ یہ لوگ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ اہل تشیع صحابہ کرام میں سے کسی کی شان میں بھی گستاخی نہ کریں۔ پیپلزپارٹی کی رہنما شہلا رضا نے معاویہ کے ساتھ حضرت نہیں کہا تو مجبوراً پھر حضرت معاویہ کہہ کر یہ وضاحت کردی کہ ”میں نے عمران خان کے الفاظ کو نقل کرتے ہوئے نام اس طرح لیا، میری یہ اوقات ہے کہ خلفاء کے حوالے سے کوئی بات کہہ دوں۔ نہ مجھے تاریخ کا زیادہ پتہ ہے”۔
اگر صحابہ کرام کے فضائل میں قرآنی آیات سے اہل تشیع کے علماء وذاکرین اپنی عوام کو آگاہ کرنا شروع کردیں تو پھر اہل سنت و اہل تشیع شیروشکر ہوجائیں گے۔ لیکن جب سنی طلاق سے رجوع کے مسئلہ پر قرآنی آیات کی طرف رجوع کرکے اپنی شادی شدہ خواتین کی عزت و ناموس اور غیرت و عصمت بچانے میں ماحول کی بھی قربانی نہیں دے سکتے تو شیعہ اپناماحول کیوں چھوڑیں گے؟۔
پہلے آپ اور پہلے آپ کا مسئلہ اس وقت تک دونوں فرقوں کے درمیان چلے گا کہ جب سعودیہ ،ایران ،پاکستان اور ترکی سمیت تمام مسلم ممالک کو یہودونصاریٰ اپنا غلام بنالیںگے۔ یا پھر عوام اور ہماری ریاستوں وحکومتوں میں شعور بیدار ہوگا۔ حلالے کی لعنت اور صحابہ کرام سے عنادکی بیخ کنی میں ایک بیدار قوم کی طرح کردار ادا کریں گے۔
وزیراعظم عمران خان کو ریاست کے حساس اداروں نے اُمت مسلمہ کو مشکلات سے نکالنے پر آمادہ کیا ہے لیکن یہ ان دونوں حکومت وریاست کے بس کی بات نہیں ہے۔
کالعدم سپاہ ِ صحابہ اہل سنت کے علامہ احمد لدھیانوی نے پشاور میں وفات یوم صدیق اکبر کے موقع پر حکومت کو اپنا پیغام دیا کہ ہم کسی سیاسی جماعت(تحریک انصاف) کے اتحادی نہیں ۔ ا ہلسنت والجماعت (PDM) سے زیادہ خطرناک ثابت ہوگی۔ حکومت اپنے وزیروں اور مشیروں کا رویہ درست کرلے۔پہلے کالعدم سپاہ صحابہ عمران خان کے اتحادی کی حیثیت سے مولانا فضل الرحمن کی ہر معاملے میں مخالفت کررہی تھی۔اب شیعہ مشیروں کا غلبہ لگتا ہے۔
اہل تشیع کے دوسرے مخالف غلام احمد پرویز کے ذہن سے تعلق رکھنے والا جدید تعلیم یافتہ طبقہ ہے۔ جو شروع سے شیعہ کو ایرانی مجوسیوں کی سازش سمجھتے ہیں۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ صحاح ستہ حدیث کی چھ کتابیں بھی اہل سنت کی نہیں ہیں بلکہ یہ ایرانی مجوسیوں کی سازش ہیں۔ جاوید احمد غامدی بھی صحیح بخاری ومسلم کی احادیث کو منصوبہ بندی سے ایک گہری سازش سمجھتے ہیں۔ امام خمینی نے کہا تھا کہ میری قوم نبیۖ کی قوم سے اچھی ہے۔ سورۂ محمد کے آخرمیں ثم لایکون امثالکم ” پھروہ تمہارے جیسے نہیں ہونگے” سے مراد ایرانی قوم کو صحابہ کرام کے مقابلے میں لیا ہے۔
پھر آخر میں سوال پیدا ہوگا کہ حضرت علی، حسن ، حسین اور بنوعباس تک رہنے والے بارہ امام بھی تو عرب تھے مگر ان ائمہ نے اپنا فرض پورا نہیںکیا۔ حالانکہ امام خمینی پر فرض بھی نہیں تھا تو انقلاب لایا۔ عراق پر امریکہ نے حملہ کیا تو شیعہ نے ساتھ دیا۔ سعودیہ پر امریکہ حملہ کرکے مکہ مدینہ شیعہ کے حوالہ کردینگے تو بنی امیہ نے مکہ میں حضرت ابوبکرکے نواسے عبداللہ بن زبیر ، نبیۖ کے نواسے حسین کوکربلا میں شہید کردیا توصحافی کو ٹکڑے کرنیوالے ولی عہد کو کیوں نہ مارا جائے؟۔ اگر ابھی نہ جاگے تو ہم ایک بہت ہی زیادہ تاریک خطرناک مستقبل کی طرف جارہے ہیں۔

طلاق و رجوع پر قرآن کی واضح آیات سمجھ کر حلالے کی لعنت کیخلاف اعلان کردیں توشیعہ صحابہ کو مان لیںگے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

حنفی اپنے مسلکی اصولوں کے مطابق واضح قرآنی آیات سمجھ کر بھی حلالہ کی لعنت سے توبہ نہ کریں تو مؤمنین کیسے کہلائیںگے؟

میرے اساتذہ علماء ومفتیان حق بولیںگے مگر جاوید غامدی، شجاع الدین شیخ اور سراج الحق جیسوں کیلئے حق بولنامشکل ہوگا!

میںنے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی ، مولانا درخواستی کے مدرسہ آدم ٹاؤن نیوکراچی، مفتی کفایت اللہکے مدرسہ عربیہ فیوچر کالونی ،مولانا نصراللہ خان توحید آبادصادق آباداور مولانا محمد امین شاہو وام ہنگوکوہاٹ سے تعلیم حاصل کی اور اساتذہ کرام وطلباء عظام کے خلوص و ایمان کی دولت سے واقف ہوں۔ مفتی احمدالرحمن، مفتی ولی حسن ٹونکی، مولانا ادریس میرٹھی، مولانا محمدیوسف لدھیانوی ، مولانا محمد انور بدخشانی،مولانا بدیع الزمان، ڈاکٹر حبیب اللہ مختار ، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، قاری مفتاح اللہ اور مفتی عبدالمنان ناصر وغیرہ کی شخصیات کوبہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے۔اکابر مولانا عبدالکریم بیر شریف ، مولانا خان محمد امیرمجلس تحفظ ختم نبوت کندیاں، مولانا سرفراز خان صفدر، مولانا محمد مراد منزل گاہ سکھر، مولانا عبدالصمد ہالیجوی ، مولانا غلا رسول سعیدی، مولانا شفاعت رسول نوری، ڈاکٹر طاہر القادری ،مولانا محمد امیر بجلی گھر ، مولانا امان اللہ حقانی مروت اور مولانا ایوب جان بنوری سمیت سینکڑوں علماء سے ملنے کا موقع ملا ہے۔ علماء کرام اور مشائخ عظام میں بہت خلوص و اخلاق کا اعلیٰ معیار ہوتا ہے۔ مجھے مدینہ یونیورسٹی میں بھی پی ایچ ڈی (PHD)پڑھانے والے اساتذہ سے بات چیت کا موقع ملا ہے اور ان میں بات سمجھنے کی بھرپور صلاحیت دیکھی ہے۔
البتہ بعض اوقات لوگوں کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں ، اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا شیرانی اور موجودہ چیئرمین قبلہ ایاز صاحب کی مجبوریاں بھی میں نے دیکھ لی ہیں۔ حالانکہ یہ بااختیار وذمہ دار عہدہ ہے اگر اس پر آئندہ مفتی محمد سعید خان صاحب کو لگادیا جائے تو مجھے ان میں سمجھ ،خلوص، صلاحیت اور جرأت بھی لگتی ہے۔ وہ مولانا ابولحسن علی ندوی کے خلیفۂ مجاز ہیں اور انقلاب بھی ان کو بڑا اچھا لگتا ہے۔بااخلاق ، باکرادر اوراچھے انسان لگتے ہیں۔
مجھے پورا پورا یقین ہے کہ مخلص علماء ومفتیان نصاب کی تبدیلی کیلئے آج بھی دل میں تڑپ اور زبردست جذبہ رکھتے ہیں لیکن رائے عامہ ہموار کرنے کی دیر لگ رہی ہے اور وہ وقت دور نہیں جب قرآن کی طرف رجوع کرنے کا اعلان مدارس ومساجد سے شروع ہوجائیگا۔ البتہ جن لوگوں نے اپنے لئے دین کے نام پر ایک مخصوص گروہ بنارکھا ہے وہ بہت ہٹ دھرم ہیں۔ میری ڈاکٹر اسرار احمد سے ملاقات رہی ہے وہ اپنے خلوص اور جرأت میں پہلے نمبر پر تھے لیکن انسان میں کچھ نہ کچھ نقائص اورکوتاہیاںبھی ہوتی ہیں۔ وہ ہوتے تو مجھے یقین ہے کہ طلاق سے رجوع کے مسئلے کو سمجھ کر تھوڑی دیر توقف کے بعد حق کا اعلان ضرور کرتے۔
شجاع الدین شیخ نے تنظیم اسلامی کی امارت سنبھال کر ایک اچھے خاصے ادارے کو میرے خیال میں برباد کرکے رکھ دیا ہے ۔واللہ اعلم بالصواب۔سراج الحق صاحب نے بھی جماعت اسلامی کی امارت سیدمنور حسن کی اچانک ہی جماعت اسلامی سے فراغت کی وجہ سے سنبھالی ہے۔ اب پتہ نہیں کہ ان میں بات سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی صلاحیت بھی ہے یا نہیں ہے؟۔ جماعت اسلامی کی اس معاملے پر کوئی مجبوری نہیں ہونی چاہیے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودوی نے جماعت اسلامی جس مقصد کیلئے تشکیل دی ،وہ اقامت دین کا فریضہ ادا کرنے کیلئے طاقت کا حصول تھا لیکن اب لگتا یہ ہے کہ اقامت دین کو بھول گئے ہیں حصولِ طاقت کے پیچھے ڈھول کی تھاپ سے لیکر یوم مئی کے دن لال ٹوپی پہننے تک ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن قرآن کی طرف رجوع کرنیکی توفیق نہیں ہورہی ہے۔ اتحاد العلماء سندھ کے صدر مولانا عبدالرؤف صاحب بہت زبردست انسان تھے لیکن اب پتہ نہیں جماعت اسلامی میں کوئی ہے یانہیں؟ مگر دو دفعہ منصورہ جانے کے باوجود کوئی مجھے نہیں ملا ہے۔
جاوید احمد غامدی نے اکٹھی تین طلاق واقع ہونے کا لکھا تھا اور میں نے ان کے شاگرد ڈاکٹر زبیر احمد کو معاملہ بالمشافہہ سمجھایا بھی اور ان کو سمجھ میں بھی آیا لیکن پروگرام بند ہونے کے خدشہ کا اظہار کرتے ہوئے اس مؤقف کو بیان کرنے سے معذرت کرلی۔ جاوید احمد غامدی نے حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں میں مسلمانوں کو کسی ایک کی اولاد قرار دیکر کہا تھا کہ قرآن میں مختلف قوموں کی باریاں لگنے کا ذکر ہے۔ مسلمان اپنی باری گزار چکے ہیں اسلئے ان کو قیامت تک دوبارہ کبھی حکومت کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ لیکن جب ہم نے انہیں یاد دلایا کہ حضرت نوح سے ہم اور یہودونصاریٰ سب حضرت ابراہیم کی اولاد سے ہیں۔ تو جاوید غامدی نے اپنی غلطی کو برملا تسلیم کرنے کے بجائے کہ واقعی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل کی اولاد شامل تھی۔ حضرت نوح کے مختلف بیٹوں میں ان کو تقسیم کرنا غلط ہے۔ لیکن غامدی نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی غلطی تسلیم نہیں کی۔ اور اس میں ان کی کوئی مجبوری بھی نہیں تھی۔ ابھی اس نے اپنی غلطی کا درست جواب دینے کے بجائے یہ کہاکہ ”مسلمان کس لئے غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ہوسکے تو کوشش کرکے دیکھ لیں” ۔ حالانکہ مسئلہ یہ نہیں تھا بلکہ اصل بات حضرت ابراہیم کی اولاد کی غلط تقسیم تھی۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ حدید میں مسلمانوں کے دو حصوں کا ذکر کیا ہے۔ پہلے بھی عرب کا روم پر غالب ہونا مشکل تھا اور اب اہل کتاب پر دوبارہ غلبے کی بنیاد یہ ہوگی کہ انہوں نے لوہے کو جنگ کیلئے غلط استعمال کرکے تباہی پھیلادی۔ خوف وہراس سے دنیا کو نکالنے کیلئے لوہے کو منافع بخش چیز بنانے کے مشن پر پھر دوبارہ کامیاب ہونگے۔
جب سورۂ بقرہ میں آیات (222) سے (232) تک اور سورۂ طلاق کی پہلی2 آیات میں طلاق اور اس سے رجوع کی اتنی بہترین وضاحت ہے کہ ایک ان پڑھ انسان بھی ان سے رہنمائی حاصل کرکے ایک معاشرتی انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ علماء ومفتیان کی اکثریت تو مجبوریوں کا شکار ہے لیکن جاوید احمد غامدی کی کوئی مجبوری نہیں ہے۔ اس کی ہٹ دھرمی کی صرف یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ قرآن کی طرف وہ رجوع کی دعوت دے گا تو پھر اس کے مطالعے اور اجتہاد کی کیا حیثیت باقی رہ جائے گی؟۔ علماء بیچارے تو تقلید کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور ان کی نوکری کا معاملہ ہے اور ان کی جگہ کسی دوسرے عالم یا مفتی کو بٹھاکر اس کی روزی پر قبضہ کیا جاسکتا ہے مگرغامدی تو پہلی وحی کی حدیث کے انکار سے لیکر پتہ نہیں کس کس حدیث کا برملا انکار کرتا ہے اور پھر کہتا بھی ہے کہ میں احادیث کو مانتا ہوں۔ غلام پرویز کی فکر پر منہ مارکر ڈکار نہیں لے رہاہے مگر نام بھی نہیں لیتا ہے
قرآن میں طلاق اور اس سے رجوع کا معاملہ بالکل واضح ہے۔ چار کتابوں میں ایک ایک چیز کی تفصیل لکھ دی ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔ اور رجوع صلح کی شرط پر ہے۔ صلح نہ ہو تو دس حلالہ سے بھی اس عورت کو اپنے لئے حلال نہیں کرسکتا لیکن جب صلح کرنے کا پروگرام ہو تو عدت کے اندر اور عدت کے بعد رجوع کیلئے ڈھیر ساری وضاحتیں ہیںاور یہی درسِ نظامی کا تقاضہ ہے۔

NAWISHTA E DIWAR February Special Edition 2021
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat #imam_e_zamana

سنی شیعہ اختلاف کا ایسا حل جو شدت پسنداور گمراہ طبقے کیلئے بھی روح وجان اوردل ودماغ سے قابل قبول ہو

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مولانا طارق جمیل اور بلال شہید اور علامہ سید جواد حسین نقوی اور ان کی مخالفت میں شیعہ شدت پسندوں کی ویڈیوزدیکھ لیں۔

اتحاد کی کوشش اور مخالفین کے خلوص میں شبہ نہیں لگتالیکن خلفاء راشدینکے دور میں شدت پسندوں کا اندازہ یہاں لگائیں!

شیعہ سنی میں دو نام علامہ سید جواد نقوی اور مولانا طارق جمیل بہت معروف ہیں۔ علامہ سید جواد حسین نقوی کے ہاں دیوبند کے امام مولانا سرفراز خان صفدر کے فرزند علامہ زاہد الراشدی کی امامت میں اہل تشیع اور اہل سنت کی نماز باجماعت یو ٹیوب پر موجود ہے لیکن غلطی سے شاید علامہ راشدی کو اہلحدیث سمجھا گیا ہے کیونکہ سعودی عرب سے کوئی راشدی اہلحدیث پاکستانی کی بہت شہرت ہے۔ جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ و جمعیت علماء اسلام کے مولانا محمد خان شیرانی بھی علامہ جواد نقوی کے پاس گئے۔ ہم بھی علامہ جوادنقوی کے پاس گئے تھے ۔ ان کی دعوت بھی کھائی اور ایک رات وہاں رہے بھی تھے۔ اہلسنت کے بہت علماء کرام کو مختلف مواقع پر علامہ نقوی بلاتے ہیں اور ہمارا کوئی تعارف بھی نہیں تھا لیکن ہم از خود پہنچ گئے تھے۔
شیعہ سنی اتحاد کی وجہ سے علامہ جواد نقوی کو شاید اپنوں سے خطرات بھی لاحق ہوں، ان کی مخالفت میں بہت مواد موجود ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے حفظ وامان میں رکھے۔جب مولانا طارق جمیل کی ویڈیو کا کسی نے بتایا کہ بلال شہید نے انکو بہت خراب کیا ہے تو بلال شہید کی کافی ویڈیوز دیکھ لیں اور مجھے مولانا طارق جمیل کی حالت دیکھ کر ان پربہت رحم آیا۔ بڑی عمر کے بڑے عالم دین سے واقعی جس لہجے میں بات کی گئی ،بلال شہید نے غالباً کہہ بھی دیا کہ اگر میں سامنے ہوتا تو ہوسکتا ہے میں اس لہجے میں بات نہ کرسکتا۔
جس لہجے میں حضرت عثمان بن عفان اور حضرت علی ابن ابی طالب سے اپنے دور کے جذباتی نوجوانوں نے بات کی ہوگی، مولانا طارق جمیل اور علامہ سید جواد نقوی کی مخالفت میں انکے اپنے ہم مسلکوں کا بالکل وہی لہجہ نظر آتا ہے۔ قارئین یوٹیوب سے متعلقہ وڈیوز فیس بک پر بھی اگر ڈال دیں تو بہت اچھا ہوگا۔ مولانا طارق جمیل کا ایک بہت خیرخواہ اپنی ویڈیو میں منت سماجت کرتا ہے کہ اس کوڈیلیٹ کردو، لیکن ڈیلیٹ کرنے کی کسی نے بات نہیں مانی ہے۔
علماء دیوبند کے اچھے لوگ اپنے اکابرین پر گئے ہیں، ان میں منافقت نہیں ہے۔مولانا احمدرضا خان بریلوی کی طرف سے ان پر گستاخ، قادیانیت وغیرہ کا فتویٰ لگا لیکن انہوں نے اعلیٰ حضرت کو مخلص قرار دیا۔ مولانا طارق جمیل کا علم پختہ نہیں مگر اکابر کی راہ پرخلوص سے گامزن ہیں۔
اہل تشیع اس وجہ سے صحابہ کرام پر کفر کے فتوے نہیں لگاتے کہ یہود اور ایران کے مجوسیوں کے ایجنٹ ہیں بلکہ ان کے دل ودماغ میں یہ بات چھائی ہوئی ہے کہ منافقوں اور مرتدوں کے جس کردار کا ذکر قرآن واحادیث میں ہے وہ چند صحابہ کرام کے سوا سب پر صادق آتا ہے۔ جس طرح مولانااحمدرضا خان بریلوی سے علماء دیوبند کے اکابر نے نفرت نہیںکی۔ مولانا یوسف بنوری کے والد مولانا زکریا بنوری نے مسلک حنفی کی بقا ء کا ذریعہ امام بریلوی ہی کو قرار دیا تھا۔ سنی مکتبۂ فکر میں پروفیسر حمید اللہ ایک امام کی حیثیت رکھتے تھے۔ بہاولپور یونیورسٹی میں پڑھایا تھا اور فرانس میں ان کا انتقال ہوا ہے۔ ان کی ایک کتاب ”حدیث قرطاس” سے متعلق ہے ،جس میں پورا پورا زور لگایا گیا ہے کہ اس کا کسی طرح انکار کیا جائے کہ حضرت عمر کے مزاج سے کسی قسم کی مناسبت بھی اس میں نہیں ہے کہ حضرت عمر نے اتنی بڑی گستاخی کا ارتکاب کیا ہو۔ لیکن اگر ان کو یقین آجاتا کہ حضرت عمر نے یہ کیا ہے تو پھر کیا وہ شیعہ بن جاتے؟۔ اس میں شک نہیں ہے کہ وہ ضرور شیعہ بن جاتے۔ نبیۖ کی مخالفت میں کوئی بھی شخص نظر آئے اور اس کی کوئی تأویل بھی دل ودماغ میں نہ آئے اور نبیۖ پر اس کو ترجیح دی جائے تو ایسا بے ایمان بننے سے شیعہ بننا بہت بہتر ہے۔
مولانا شبلی نعمانی نے علماء سے اپنے وقت میں کہا تھا کہ بہتر ہے کہ اس حدیث کا انکار کیا جائے لیکن ان سے کہا گیا کہ حدیث کے منکر بننے سے کافر بن جائیں گے لیکن جب کسی روایت کا انکار کرنے سے کوئی کافر بنتا ہو تو سامنے سامنے نبیۖ کی بات کا انکار کرنے سے کیسے مسلمان کا تصور ہوسکتا ہے؟۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا داماد سید زعیم قادری اس حدیث کی وجہ سے نہ صرف کٹر شیعہ بنا تھا بلکہ ایسی گستاخانہ زبان لکھ دی تھی کہ حکومت پاکستان نے اس کی اشاعت پر بھی پابندی لگائی تھی۔ وہ کتاب میں نے بھی پڑھی ہے۔ شیعہ میں ایسی گستاخی کرنے کا تصور آج سوشل میڈیا پر بھی نظر نہیں آتا ہے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے پوتوں اور نواسوں کو بٹھاکر معاملہ دیکھا جاسکتا ہے۔
مجھے حضرت ابوبکر و عمر سے اسلئے عقیدت نہیں کہ سنی ماحول سے میرا تعلق ہے بلکہ قرآن وحدیث کے آئینے میں دونوں کا کردار شفاف آئینے کی طرح زبردست لگتا ہے۔
شیعہ سنی دونوں مکتبۂ فکر قرآن وحدیث سے بہرہ مند نہیںبلکہ اپنے اپنے ماحول کی وجہ سے سنی یا شیعہ ہیں۔ اگر حقائق کی نشاندہی کردی جائے تو پھر بہت ممکن ہے کہ شیعہ اپنی شیعیت چھوڑ کر پکے سنی بن جائیں اور سنی اپنی سنیت چھوڑکر پکے شیعہ بن جائیں اور ایسا بہت ہوا بھی ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں عیسائیوں کا ایک طرف عقیدہ یہ تھا کہ اتنے معجزات کیساتھ خدا اور خدا کا بیٹا تھا اور دوسری طرف یہود نے ان پر ولدالزنا کا الزام بھی لگایا تھا۔ عیسائی کی آج بھی مسلمانوں سے زیادہ تعداد ہے اور ان کا یہ عقیدہ کسی کیلئے قابلِ قبول نہیں تھا کہ ایک طرف حضرت عیسیٰ خدا ہوں اور دوسری طرف مظلوم۔ اہل تشیع کی تعداد بھی اچھی خاصی رہی ہے لیکن انکے اس متضاد عقیدے کو کسی دور میں بھی پذیرائی نہیں مل سکی ہے۔ جو لوگ حضرت علی سے گستاخانہ بغض رکھتے ہیں وہ بھی یہود پر گئے ہیں اور جن اہل تشیع کے اعتقاد ات میں انتہائی درجے کاتضاد ہے وہ بھی عیسائیوں کی طرح ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے کہ حضرت علی نے خلافت کو اپنا حق سمجھ رکھا تھا اور ان کی بہت کرامات بھی تھیں اور کسی قدر آپ خود کو مظلوم بھی سمجھتے تھے لیکن اس میں غلو کرنے والوں نے حضرت علی کی شخصیت کو بھی چار چاند نہیں لگائے بلکہ خراب کرکے رکھ دیا ہے۔
اگر کوئی علامہ شبلی نعمانی کی طرح سمجھدار شیعہ ہوتا تو یہ بھی ممکن تھا کہ وہ ان خرافات کو حضرت علی کی شخصیت پر بڑا دھبہ قرار دیکر مسترد کرتاجو مختلف روایات میں موجود ہیں۔ جب کوئی علامہ شہریار عابدی کی طرح کھینچ تان کر حضرت علی کی ذات کو آخری حد تک تقیہ کی انتہاء تک پہنچانے والا اس انداز میں ثابت کریگا تو انسان کا دل بھی نہیں مانے گا کہ وہ پھر حضرت علی کے پیروکار کی حیثیت سے شیعہ بنارہے۔یہ وہ روش ہے جس نے بعض شیعوں کو شیعہ مذہب چھوڑنے پر مجبور کرکے شدت پسند سنی بنادیا تھا۔ لیہ پنجاب میں ایک بہت نیک اور اچھا انسان تھا جوشیعہ سے سنی بن گیا تھا اور شیعہ مذہب سے آخری حدتک نفرت کرتا تھا۔ بھائی واپڈا میں ایکسین اور سنی ہونے والے شخص لائن مین تھے۔ مجھے شیعہ سنی سب سے ہمدردی ہے ۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ الدین النصیحة ”دین خیرخواہی ہے”۔ آج دین کی شکل بگڑ کر بہت بدخواہی بن کر رہ گئی ہے۔ العیاذ باللہ

NAWISHTA E DIWAR February Special Edition 2021
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat #imam_e_zamana

مولاناپی ڈی ایم (PDM)دوماہ کی نماز پرچلی گئی ! ریموٹ کنٹرول مریم کاہوتونمازہوگی؟ عبد القدوس بلوچ: تیز و تند

سینٹ الیکشن میں طوطا فیس لیکر ووٹ کاسٹ کرتا۔ اب گدھیڑے کیلئے بڑاگدھا صدارتی آرڈینینس جاری ہوا؟ نہیں جی! سوال غلط ہے،تبدیلی سرکار آئی ہے، اب گھوڑوں کی جگہ ڈنکی ٹریڈنگ سے قوم ملک سلطنت سربلند ہے

کہیں پرندوں کی منڈی لگتی ہے، کہیں جانوروں کی منڈی لگتی ہے، پہلے غلاموں اور لونڈیوں کی بھی دنیا میں منڈیاں لگتی تھیں،اب عوامی نمائندوں کی منڈی کا لگنا سرِ بازار رُسوائی ہے

مشروط صدارتی آرڈی نینس کی مثال: گدھے سے کسی نے پوچھا کہ ڈھینچو ڈھینچو کیوں کرتے ہو؟، جواب دیا کہ کسی کو ڈراتا ہوں،پوچھا پدو کیوں مارتے ہو؟، کہا: میں بھی ڈرتاہوں!

ریل گاڑی کا ٹکٹ کسی شخص کے پاس نہیں تھا، چیکر آیا تو ا س نے دو سو(200)رکعت کی نیت کہہ کراللہ اکبر کہا اور نماز پڑھنے لگا۔ یہ دیکھ کرچیکر پریشان ہو کرچلا گیا۔ مولانانے پی ڈی ایم (PDM) کی دو ماہ نماز باجماعت شروع کی،دھرنے اور تحریک عدمِ اعتماد پر اتفاق نہیں تھا۔ مولانا کا ریموٹ مریم چلائے تو کیا نماز ہوگی؟۔ عمران شفقت نے کہاکہ ”شاہد خاقان عباسی کا نام ای سی ایل (ECL) سے نکالنانوازشریف سے گٹھ جوڑکا فیصلہ ہواہے کہ حکومت کو مدت پوری کریگی، آئندہ ہلکی پھلکی سیاست چلے گی”۔ شاکر سولنگی نے کہاکہ ”نوازشریف آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس پی آر (DGISI)کا نام نہیں لے گا” ۔ عثمان بزدار کی جگہ پرویز الٰہی ن لیگ کیلئے زیادہ خطرہ ہے اسلئے تو پرویز الٰہی کے پیچھے مریم نواز نے مولانا فضل الرحمن کو لگادیا تاکہ پنجاب اور مرکزکی سیاست میںعمران خان کی جگہ ق لیگ، پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتوں کی انٹری نہ ہو۔یہ تحریک پہلے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نظریہ اور اب مفاد کاچربہ لگتاہے۔محمودخان اچکزئی کی آذان ، بلاول کی اقامت رائیگاں گئی۔ امام پراَنڈرایامِ خاص کا کنٹرول ہے نوازشریف کے پیسوں سے پی ڈی ایم (PDM) میڈیا میں رہے گی۔ پی سی (PC)میں مولانا کانمائندہ بھی دعوت دینے پہنچ گیا تھا۔

ہم نے لکھا تھاکہ ن لیگ پر اعتماد خوش فہمی ہے مگر ڈراونا خواب بناکر پیش کیا تاکہ کوئی گلہ نہ کرے کہ ہم آزادی کی جنگ لڑرہے تھے اور تم نے طاقتور کوسہارا دیا۔ فوج پی ٹی ایم (PTM) سے ڈرگئی پی ڈی ایم (PDM) نے دل کی بھڑاس سے رہا سہا خوف بھی نکال دیا ۔ بات طوطے کی فال سے نکل گئی۔ حکومت اپوزیشن دونوں ایک گدھے کے سوار ہیں جو ڈھینچو ڈھینچو اور ہوائیں خارج کرکے بے انتہا ء ماحولیاتی آلودگی پھیلارہے ہیں!

NAWISHTA E DIWAR February Special Edition 2021
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat #imam_e_zamana