سیداکبر و صنوبر شاہ کا سیاہ باب اپنی قوم کے7افراد کے سازشی قتل سے شروع ہوکر ہمارے مہمانوں سمیت13شہداء تک پہنچ جاتا ہے!
”یہ ایک ایسا کیس تھاجسے مستقبل میں ان قبائل کیساتھ ہمارے معاملات میں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ محسود اور درویش خیل کی مخلوط گارسن نے گومل کھلنے کی تکمیل میںہماری ایک پوسٹ کا کامیابی سے دفاع کیااور ایک پختہ حملے کو پسپا کیااور اپنے ہی لوگوں کو گولیاں ماردیں قبائلی لوگ جو مسلسل خونریزی کو جنم دے رہے تھے۔ یہ ایک اچھا امتحان تھا ۔سررابرٹ سنڈمن کا اندازہ غلط نہیں تھاکہ اگر مناسب طریقے سے ہینڈل کیا جائے تووہ اعتماد اور بھروسہ کے قابل ثابت ہوں گے” ۔صفحہ207
سنڈیمین نے اس خطے کی عوام کو غلام بنانے کیلئے بلوچستان میں تجربہ کیا ۔ پھر وزیرستان میں تجربہ کرلیا۔ کس طرح سیداکبر شاہ ایک طرف اپنی قوم کے قتل میں ملوث تھااور دوسری طرف قوم کی طرف سے انگریز کا ٹاؤٹ تھا؟ ۔انگریز دور سے وزیرستان دوغلے پن کا شکار ہے ۔ایک طرف سرکاری عمائدین پاک فوج کے سامنے عوام کی نمائندگی کرتے ہیں اور دوسری طرف طالبان کو پالتے ہیں۔ منہاج اس کی مثال ہے۔ جسکے پردادا صنوبر شاہ اور لکڑ دادا سبحان شاہ کانیگرم کے باشندئے نہیں تھے۔ قاتل صنوبر شاہ اوراسکے بھائی مظفرشاہ ومنورشاہ کے بہیمانہ قتل کے بعد سلطان اکبر اور اسکے یتیم چچازاد بھائیوںکو ہم نے کانیگرم میںپناہ دی ۔ انگریز کیلئے اپنی قوم، وطن اور اسلام سے غداری کی اور دہشتگردوں کیلئے ہمیں قتل کردیا۔ یہ سید ہیں ؟۔جسے دیکھ کر شرمائے یزید؟۔نسب نہیں کردار بناتاہے بندے کو پاک یا پھر پلید۔ انسان کو کردار کیساتھ اچھی صفت یا بری خصلت موروثی ملتی ہے۔ ہمارے ساتھ ہوا تو میںنے اپنوںکی غلطی مانی ۔ اکبر علی کی بہن ، منہاج کے بھائی کی شہادت ہوگئی تو طالبان کے سہولت کاروں نے آسمان سر پر اٹھالیا۔بدنسل اور اصیل میںیہی فرق ہے۔
٭٭٭
PAGE:207,257
انگریز اپنی اس کتاب میں لکھتا ہے
Stimulating incidents were not wanting to keep us up to the mark. The Taji-Khel section of the Derwesh-Khels of Wana, who, not without some good grounds, were discontented with the distribution of service allowances made at Appozai, in which they thought their claims had not received due consideration, threatened to attack the KajuriKach post and prevent its being built. I urged Mr. Donald to push on with all his might the finishing of the outer walls and to get the gate up. This he did, and the very day after the gate had been fixed the Taji-Ehels came down with a force some hundreds strong and attacked the post. The garrison consisted of eighty of the lately enlisted Waziri levies, Mahsuds, and Derwesh-Khels of Wana, and a few Border police. Syud Akbar Shah and his brother, Sanobar Shah, Mahsuds of Kanigoram, both non-commissioned officers in the levies, were in charge. They had a few rifles, of which they made good use, as they successfully repulsed the attack and killed seven of the Taji-Khels, including two men of note. This was one of that class of cases which, in our future dealings with these tribes, should not be lost sight of. A mixed garrison of Mahsuds and Derwesh-Khels, in fulfilment of their engagements for the opening of the Gomal, loyally defended one of our posts, repulsed a determined attack, and shot down their own tribesmen, thereby inheriting a legacy of relentless blood feuds. It afforded a good test that Sir Robert Sandeman was not mistaken in his estimate that, if properly dealt with, they would prove deserving of 4 trust and confidence. 9 I may appropriately relate here the conclusion of the affair, as I shall not have to refer to it again. Government, on my recommendation, gave handsome rewards to the defenders of the post. After a short time the Taji-Khels, who were completely crestfallen at the defeat and loss they had suffered, came in and made submission. I realised from them in cash a fine of 700 rs., and took adequate security from them for their future good conduct. I put the case of their alleged grievances before a Council of Elders of the tribe, who settled it to the satisfaction of all parties con* cerned.
٭٭٭
As I could not, therefore, hold out the threat of a punitive expedition, I was obliged to modify the terms, and content myself with inflicting heavy fines and taking security for the future good behaviour of the incriminated persons. I fined the Derwesh-Khels 10,000 rs., and the Mahsuds 9,000 rs. The surety bonds, with agreements on the part of the Maliks in regard to distribution of fines, and holding themselves responsible for the future good conduct of the prisoners, with other conditions, were then drawn up in writing ; the Maliks affixing their seals to them, and swearing on the Koran to abide by their conditions. All the arms and other Government property stolen had been previously restored. The execution of these proceedings, which were carried out in the presence of Mr. Donald and myself, was a very striking and interesting spectacle. Some three hundred Waziris were seated on the ground in a large circle in front of my bungalow at Tank. In the centre was a chair with the Koran wrapped up in a cloth placed on it. Syud Akbar, Shah of Kanigoram, and Mullah Salem, Alizai Malik, stood beside the Koran, and each of the head men of the sections, considered to be in any way implicated or responsible for the offences, and each of the prisoners who had been brought from the lock-up, went up one by one, and, having taken off his shoes, placed the Koran on his head, and had the oath administered to him by the Syud and Mullah, swearing that he would abide by the terms of the agreement. The 19,000 rs. fines were then paid in, and I released the prisoners, and made them over to the Maliks in durbar. I know some people think no good comes from such pro-ceedings, but I cannot agree in this view, and I could refer to many similar ceremonies carried out under the directions of Sir Bobert Sandeman and myself by the Brahoe, Beluch, and Pathan tribes of Beluchistan, with the most excellent results. The Governments of India and the Punjab expressed much satisfaction at the settlement I had made, and in the letter of the Secretary to the Government of India to the Punjab Government sanctioning it he wrote thus :The Governor-General in Council desires to express his cordial concurrence in the Lieutenant-Governor’s high commendation of Mr. Bruce, and the other local officers mentioned by him, especially Mr. Donald, who have been concerned in bringing this matter to so satisfactory a termination.
قوم ، وطن،اسلام کے غدارسیداکبر اور صنوبر شاہ کی کہانی انگریز کی زبانی سادات کے نام پر وہ دھبہ لگادیا ہے جو چنگڑ قوم بھی قبول نہیں کرے گی
انگریز کاترجمہ: ہمارے حوصلے بلند رکھنے کیلئے دلچسپ واقعات کی کمی نہیں تھی۔ وانا درویش خیل کا تاجی خیل سیکشن جو اپوزئی میں خدمات کے الاؤنس کی تقسیم سے ناخوش تھے، جس میں ان کے دعوؤں کو مناسب اہمیت نہیں دی گئی ، نے کھجوری کچ پوسٹ پر حملہ کرنے اور اس کی تعمیر کو روکنے کی دھمکی دی۔ میں نے مسٹر ڈونلڈ پر زور دیا کہ وہ بیرونی دیواروں کی تکمیل اور دروازہ نصب کرنے کا کام پوری قوت سے جاری رکھیں۔ انہوں نے ایسا کیااور دروازہ نصب ہونے کے اگلے دن تاجی خیلز نے سیکڑوں کی تعداد میں آ کر پوسٹ پر حملہ کیا۔ گارسن میں اسی حالیہ بھرتی کیے گئے وزیر لیویز، محسود، اور وانا کے درویش خیلز اور چند سرحدی پولیس شامل تھے۔ سید اکبر شاہ اور اسکے بھائی صنوبر شاہ کانیگرم کے محسود، جو لیویز میں نان کمیشنڈ افسر انچارج تھے۔ ان کے پاس چند رائفلیں تھیں، جن کا انہوں نے بہترین استعمال کیا، کیونکہ انہوں نے حملے کو کامیابی سے پسپا کیا اور تاجی خیل کے7افراد کو ہلاک کیا، جن میں2اہم افراد شامل تھے۔ یہ ایک ایسا کیس تھا جسے مستقبل میں ان قبائل کے ساتھ ہمارے معاملات میں نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ محسود اور درویش خیل کی مخلوط گارسن نے، گومل کے کھلنے کے معاہدوں کی تکمیل میں، ہماری ایک پوسٹ کا وفاداری سے دفاع کیا، ایک پختہ حملے کو پسپا کیا اور اپنے ہی لوگوں کو گولی مار دی قبائلی لوگ، جو مسلسل خونریزی کی وراثت کو جنم دیتے تھے۔ یہ ایک اچھا امتحان تھا کہ سر رابرٹ سنڈمن کا اندازہ غلط نہیں تھا کہ اگر انہیں مناسب طریقے سے ہینڈل کیا جائے تو وہ اعتماد اور بھروسے کے لائق ثابت ہوں گے۔ میں یہاں اس معاملے کے اختتام کو مناسب طریقے سے بیان کر سکتا ہوں، کیونکہ مجھے دوبارہ اس کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ حکومت نے میری سفارش پر پوسٹ کے محافظوں کو عمدہ انعامات دیے۔ کچھ عرصے بعد، تاجی خیل، جو شکست اور نقصان پر مکمل طور پر مایوس ہو چکے تھے، آئے اور تابعداری کی۔ میں نے ان سے نقدی میں700روپے کا جرمانہ وصول کیا اور ان کے مستقبل کے اچھے رویے کیلئے مناسب سیکیورٹی لی۔ میں نے ان کی مبینہ شکایات کا معاملہ قبیلے کے بزرگوں کی ایک کونسل کے سامنے پیش کیا، جنہوں نے اسے تمام فریقین کی تسلی کے ساتھ حل کیا۔
٭
چونکہ میں سزا دینے والی مہم کی دھمکی نہیں دے سکتا تھا، اسلئے میں نے شرائط میں ترمیم کی اور جرمانے عائد کرنے اور مجرموں کے مستقبل کے اچھے رویے کیلئے سیکیورٹی لینے پر اکتفا کیا۔ میں نے درویش خیلز پر10ہزارروپے اور محسود پر9ہزار روپے کا جرمانہ کیا۔ ضمانتی بانڈز مالکان کی طرف سے جرمانوں کی تقسیم کے حوالے سے معاہدوں کے ساتھ اور قیدیوں کے مستقبل کے اچھے رویے کیلئے ذمہ دار ہونے کی شرائط کیساتھ تحریری طور پر تیار کیے گئے۔ مالکان نے ان پر اپنی مہر ثبت کی اور قرآن پر حلف اٹھا کر ان شرائط کی پابندی کا وعدہ کیا۔ تمام چوری شدہ اسلحہ اور دیگر سرکاری املاک پہلے ہی بحال کی جا چکی تھیں۔ ان کارروائیوں کا انعقاد، جو مسٹر ڈونلڈ اور میرے سامنے کی گئیں، ایک انتہائی شاندار اور دلچسپ منظر تھا۔ تقریبا300وزیروں کو میرے بنگلے کے سامنے ایک بڑے دائرے میں زمین پر بیٹھایا گیا۔ مرکز میں ایک کرسی تھی جس پر کپڑے میں لپٹا ہوا قرآن رکھا ہوا تھا۔ سید اکبر شاہ آف کانیگرم اور ملا سالم علیزئی ملک قرآن کے پاس کھڑے تھے، اور ہر ایک سربراہ جو کسی بھی طرح سے جرم میں ملوث یا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا اور ہر ایک قیدی جو لاک اپ سے لایا گیا تھا، ایک ایک کر کے اوپر آتا اور اپنے جوتے اتار کر قرآن کو اپنے سر پر رکھتا، سید اور ملا کے ذریعے حلف لیتا کہ وہ معاہدے کی شرائط کی پابندی کرے گا۔پھر19ہزار روپے کے جرمانے ادا کیے گئے اور میں نے قیدیوں کو رہا کر دیا اور انہیں دربار میں مالکان کے حوالے کر دیا۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن میرا تجربہ مختلف تھا۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسی کارروائیوں سے کوئی فائدہ نہیں لیکن میں اس نظریے سے متفق نہیں ہوںاور میں بلوچستان کے بروہی، بلوچ، اور پٹھان قبائل کے ساتھ سر رابرٹ سنڈمن اور میرے تحت کی گئی بہت سی ایسی ہی تقریبات کا حوالہ دے سکتا ہوں جن کے بہترین نتائج نکلے ہیں۔ ہندوستان اور پنجاب کی حکومتوں نے اس تصفیے پربہت اطمینان کا اظہار کیااور حکومت ہند کے سیکرٹری نے پنجاب حکومت کو اس کی منظوری دیتے ہوئے ایک خط میں یوں لکھا:”گورنر جنرل ان کونسل، لیفٹیننٹ گورنر کی جانب سے مسٹر بروس اور دیگر مقامی افسروں خاص طور پر مسٹر ڈونلڈ کی اعلی تعریف میں اپنی پوری ہم آہنگی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے اس معاملے کو اطمینان بخش انجام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے”۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv