جنوری 2024 - Page 2 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ
ماہ رنگ بلوچ کو پرواہ نہیں شہادت کی
اس کی جدوجہد میں خوشبو ریاضت کی
بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال دیا
بلوچوں کو غلامی سے نکالنے کی عبادت کی
مظلوم کمزوروں کو لے کر شہر اقتدار پہنچی
اس نے بے بسوں کی خوب قیادت کی
بلوچوں نے مارا بھی اور مار کھائی بھی
76 سالوں میں داد نہ پائی سیادت کی
ماہ رنگ کی چادر سے دنیا میں دھوم مچی
مبارک ہو مبارک نئی مقبول ولادت کی
بدقسمت قوم ریاست کی مار کھار ہی تھی
تصویر دکھا دی شقاوت کی عداوت کی
وہ مارچ پہ مارچ کئے جارہی تھی آخر
منزل پالی ہے راحت کی سعادت کی
اب کوئی بھی ظلم کی جرأت کرے گا نہیں
شرارت ختم ہوئی لگڑ بگڑ کی خباثت کی
ہر قوم نے پیش کردیا ہے خراج تحسین
بلوچ شیرنی زینت بن گئی ریاست کی
پولیس کی روش کسی کے لئے بھی ٹھیک نہیں
وہ مظلوم ماری ہوئی تھی دور کی مسافت کی
اگر ان پر ظلم نہ ہوتا تو ہمدردی نہ ملتی
ظالم جابروں کا شکریہ اچھی ضیافت کی
ایک شرمائے دوسرا ٹانگ اٹھا کے پدو مارے
بلوچ پنجابی پیداوار الگ الگ ثقافت کی
دو لتی اُٹھاکے مارنا گدھے منحوس کی فطرت
کتابیں لاد کے رکھنا نشانی ہے جہالت کی
گدھے رہیں گے گدھے یا آدمی بنیں گے؟
ظلم قائم رہے گا یا باری آئے گی عدالت کی
اگرحافظ آرمی چیف واقعی ہے سید واجہ
توپھر رکھ لے گا لاج فوجی بسالت کی
سب قوموں کے لئے قابل فخر ہے یہ بات
بلوچ رانی نے پائی ہے داد شجاعت کی
نہ گالی نہ گلوچ کیا طرزِ عمل ہے واہ بلوچ
ادا تجھ سے کوئی سیکھ لے بڑی بغاوت کی
میرا ایک دوست تھا عبدالقدوس بلوچ
مثالی یادیں چھوڑیں جس نے رفاقت کی
بالاچ کے باپ نے فواد حسن کی ٹھوڑی پر
ہاتھ رکھ کر بڑی عزت سے منت سماجت کی
بلوچ روایت میں معزز کے لئے یہی دستور
ماہ رنگ سے برداشت نہ ہوئی ادا لجاجت کی
حکومتی وفد کے سامنے کہہ دیا کہ تم بیٹھ جاؤ
دکھادی اپنی اوقات بلوچی شانِ وجاہت کی
قوم بھوک افلاس اور بیروزگاری سے مری
سیاسی پارٹیوں میں جنگ ہے رقابت کی
دشمنی، بداخلاقی، افواہیں اور بہت کچھ
لیاقت ضائع ہے فصاحت کی بلاغت کی
مسائل کا حل قرآن میں منہاجِ نبوت
لوگ منتظر ہیں آئے گی ندا خلافت کی
جب تک حقیقی اسلام کی سمجھ نہ آئے گی
کربلا سے کشتی پار نہ لگے گی صداقت کی

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بلوچستان کا مسئلہ جنرل ڈائیر ہے۔ حامد میر

بلوچستان کا مسئلہ جنرل ڈائیر ہے۔ حامد میر

جو سن1916سے اب تک جاری ہے اور ختم نہیں ہورہا ہے۔
رانا ثناء اللہ اور عطا تارڑ نے مجھ سے بلوچ لاپتہ افراد کی لسٹ منگوائی اس کے بعد اس لسٹ سے بلوچوں کو نکال نکال کر مارنا شروع کردیا

حامد میر نے کہا کہ ایک واقعہ کا میں عینی شاہد ہوں، پروسیس میں شامل تھا۔ مجھے کہا گیا کہ جن کو آپ چاہتے ہیں کہ رہا کردیا جائے یا کورٹ میں پیش کردیا جائے۔ تو میں نے ادھر اُدھر سے پوچھ پاچھ کے صرف50لوگوں کی لسٹ دی، پولیٹکل ورکر یا اسٹوڈنٹ تھے یا کوئی شاعر تھا یا ادیب تھا۔ پچھلی حکومت کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ ، وزیر قانون عطا ء تارڑ اور کچھ دیگر حکام۔ تو انہوںنے نام نکال نکال کر مارنا شروع کیا۔ آپ پر اعتبار کون کرے؟ اسلئے عورتیں اور بچے کدھر جائیں؟۔ یا تو علیحدگی پسندوں کیساتھ شامل ہوجائیں۔ یہ آتے ہیں اسلام آباد، آپ ان کو دھتکار دیتے ہیں۔ تو بلوچستان کا مسئلہ جنرل ڈائیر ہے۔ اس نے سن1916میں بلوچستان میں جو خانہ جنگی، مارپیٹ شروع کی جو بلوچ کو تقسیم کرو اورحکومت کرو کی پالیسی کے تحت مرواناشروع کیا آپس میں دشمنیاں پیدا کیں شیعہ سنی فساد کروائے۔ وہ کام ہوتا جارہا ہے ہوتا جارہا ہے۔ خان آف قلات ،اکبر بگٹی ، خیر بخش مری سب نے کوشش کی پاکستان کیساتھ چلیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت نہیں آتی ۔ ایوب خان ، یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف آجاتا ہے پھر یہ لوگ بلوچستان میں اپنے فیورٹ تلاش کرلیتے ہیں اور انکے ذریعے بلوچستان کو چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو اگر آپ اپنے منتخب شدہ لوگوں کے ذریعے چلانے کی کوشش کریں گے تو بلوچستان تو نہیں چلے گا۔ تو بلوچستان کو حقیقی جمہوریت دینی ہے۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں الیکشن نہیں فراڈ ہوتا ہے۔ ابھی بھی الیکشن نہیں ہوگا ایک فراڈ ہوگا۔ اور کوشش کی جائے گی اس فراڈ میں بھی کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرو اور ماورائے عدالت قتل بند کرو۔ کوشش کی جائے گی کہ وہ لوگ اسمبلیوں میں نہ پہنچیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پنجاب سب سے زیادہ مظلوم ہے:قاری حنیف ڈار

پنجاب سب سے زیادہ مظلوم ہے:قاری حنیف ڈار

ہر وہ ظلم جو غیر پنجابیوں کیساتھ ہوتا ہے وہ پنجابیوں کیساتھ بھی ہوتا ہے۔مگر دوسروں کو غم ہلکا کرنے کیلئے پنجابیوں کو گالی دینے کا ہاجمولا دستیاب ہے، پنجابی لاشیں اٹھاکر کسی کو گالی نہیں دے سکتا ۔ غزوہ احد میںرسول اللہ ۖ نے حضرت حمزہ کا غم یوں منایا کہ70شہداء کے ہر جنازے کیساتھ حمزہ کا جسد خاکی ساتھ رکھ کر جنازہ پڑھایا۔ اُحد سے واپسی پر مدینہ کے ہر گھر سے شہداء کے ماتم کی آہ و بکا سن کر رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اما الحمزة فلا بواکی لہ ” ہائے حمزہ تیری تو کوئی رونے والی بھی نہیں ”۔اس پر صحابہ کرام نے اپنے گھر والیوں سے کہہ دیا کہ جاکر نبی ۖ کے حجرے کے باہر حمزہ کا ماتم کرو۔رسول اللہ ۖ نے شور سنا تو باہر نکل کر پوچھا کہ کیا ماجراء ہے؟۔ خواتین نے عرض کیا کہ ہم حمزہ کا ماتم کرنے آئی ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے ماتم سے روک دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ماتم کو حرام قرار دیا ہے۔ پنجابیوں کے خلاف بدبودار مہم پڑھتا ہوں تو رسول ۖ کا وہ جملہ یاد آتا ہے اور بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے کہ پنجابیوں تمہیں کوئی رونے والا نہیں ۔ پنجابیوں کا کوئی نصاب نہیں۔ پنجابیوں کا کوئی رسم الخط نہیں ۔ پنجابی طلبہ کیلئے مادری زبان کا کوئی پیپر نہیں۔ پنجابیوں کی مادری زبان کے کوئی مارکس نہیں۔ جتنے غیر پنجابی گمشدہ ہوتے ہیں اس سے زیادہ تو پنجابی شناختی کارڈ دیکھ کرگاڑی سے اُتارکر مار دئیے جاتے ہیں مگر کوئی لاش رکھ کر ٹریفک جام نہیں کرتا۔ وزیراعظم سے ملاقات اور مذاکرات کا مطالبہ نہیں کرتا۔ گویا پنجابی نے معاملہ رب کی عدالت پر چھوڑ دیا۔ پی ٹی آئی کے خلاف مہم میں سب سے زیادہ پنجابی خواتین قید وبندو استحصال سے گزری ہیں مگر کوئی ملک توڑنے اور پاکستان کے خاتمے کی بات نہیں کرتا۔پنجابی پاکستان کی سب سے شاکر قوم ہے۔
تبصرہ :فرعون: محمداجمل ملک
قاری محمد حنیف ڈار کا بیان ”پیج فرعون” پر آیا ہے اور اس نے لکھا کہ ” پنجابی پاکستان کی سب سے شاکر قوم ہے”۔ فرعون نے بنی اسرائیل پر ظلم کیا تو بنی اسرائیل میں بھی برائیاں تھیں۔ اسلئے جو فرعون سے بچ جاتا تھا اس کو خضر مار دیتا تھا۔ فرعون کو جب تک اللہ نے غرق نہیں کیا تو وہ صابر شاکر ہی تھا۔ زرداری نے مولانا فضل الرحمن کیساتھ سی پیک کی مغربی سڑک کا افتتاح کیا لیکن نوازشریف نے پھر کوئٹہ اور پشاور سے چھین کر لاہور کی طرف موڑ دیا۔ اگر وہ روٹ ہوتا تو چین کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہوتا اور قرضہ بھی اتاردیتے۔ حکمرانوں کے کرتوت پر شکر کرتے کرتے کہیں بنگال کی طرح غرق نہ ہوں!

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سن2024کے اندر یقین کیساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں منتخب آزاد ارکان کی تعداد تمام پارٹیوں سے بھی بہت زیادہ ہوگی

سن2024کے اندر یقین کیساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں منتخب آزاد ارکان کی تعداد تمام پارٹیوں سے بھی بہت زیادہ ہوگی

بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں آزاد ارکان کی تعداد پارٹیوں کے مقابلہ میں زیادہ تھی۔ عمران خان پرویزمشرف کے ریفرینڈم کا حامی اور تحریک انصاف کا جنرل سیکرٹری معراج محمد خان ریفرینڈم کا مخالف تھا۔ یہ جمہورت کا وہ گھناؤنا چہرہ تھا جس کا عوام کو آج تک شعور نہ مل سکا ہے پھر انتخابات ہوئے تو عمران خان صرف اپنی سیٹ پر جیت سکا۔ پرویزمشرف اس کو وزیراعظم بناسکتا تھا لیکن عمران خان نے اچھا کیا کہ نہیں بنا تھا اور پھر بلوچستان سے مرحوم ظفر اللہ جمالی کو وزیراعظم بنایا گیا۔
ظفر اللہ جمالی میں جمہوریت، اسلام اور انسانیت تینوں چیزیں واضح مقدار میں تھیں لیکن مولانا فضل الرحمن کے مقابلہ میں ایک ووٹ سے وزیراعظم بن گیا تھا۔ اس وقت اس ایک ووٹ کی بہت زیادہ اہمیت تھی۔جس کے ذریعے سے ظفراللہ جمالی وزیراعظم اور مولانا فضل الرحمن میں کانٹے دار مقابلہ تھا۔ عمران خان نے اپنا ووٹ مولانا فضل الرحمن کو دیا تھا اور کالعدم سپاہ صحابہ کے مولانا اعظم طارق نے اپنا ووٹ ظفراللہ جمالی کو دیا۔ درست و صحیح صحافت کا ایک پروگرام ڈان نیوز میں وسعت اللہ خان، ضرار کھوڑو اور مبشر زیدی کا ” ذرا ہٹ کے” تھا۔ جس میں یہ الزام بھی لگایا گیا کہ ظفراللہ جمالی کو زیادہ ووٹوں سے بھی منتخب کروایا جاسکتا تھا لیکن فوج نے جمہوریت کو طاقتور نہیں ہونے دینا تھا اسلئے کچھ ووٹ چھپا ئے تھے۔ ظفراللہ جمالی ایک ووٹ سے کمزور وزیراعظم بنادیا گیا تاکہ جب فوج کو ضرورت ہو تو ایک ووٹ کو ادھر سے ادھر کرکے جمالی کو اتاردیا جائے۔ حالانکہ یہ بات اس وقت کی جاتی کہ اگر جمالی کے پاس اپنے علاوہ کوئی دوسرا ووٹ بھی ہوتا۔
اگر درست جمہوری تصور ہو تو طاقتور کے مقابلے میں کمزور لوگ بھی اقتدار میں آسکتے ہیں۔افغانستان میں طالبان طاقت کے ذریعے سے اقتدار تک پہنچے اگر جمہوریت نہیں آتی توپھر وہاں تبدیلی طاقت کے بغیر نہیں آسکتی ہے لیکن پاکستان میں یہ نہیں ہے کہ بندوق اٹھائی جائے تو تبدیلی آسکتی ہے۔
رسول اللہ ۖ نے اقتدار کیلئے جنگ نہیں کی تھی مکہ والوں نے مجبور کیا تو ہجرت کی اور مدینہ میں جمہوری اقتدار کی بنیاد رکھ دی ۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” قلم اور کاغذ لاؤ۔ میں ایسی چیز لکھ کر دیتا ہوں کہ تم میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے”۔ حضرت عمر نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ نبیۖ نے اپنا ایجنڈہ زبردستی نہیں منوایا اور یہ جمہوریت کی بنیاد تھی۔
قوم پرست انصار نے کہا کہ ہم خلافت کے حقدار ہیں۔ نبی ۖ کے عزیز واقارب بھی تھے۔ اگرچہ ووٹ کا نظام نہیں تھا لیکن جمہورکی بنیاد پر حضرت ابوبکر پہلے خلیفہ منتخب ہوگئے۔ پہلا خلیفہ انصار بنتا تو قوم پرستی کی بنیاد مضبوط ہوجاتی۔ حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کی نامزدگی جمہوری بنیاد پر کی تھی ورنہ ایک احتجاج کی صورت پیش آتی۔ حضرت عثمان کا انتخاب بھی شوریٰ نے جمہوری اور اکثریت کی بنیاد پر کیا تھا اور اس کی وجہ سے سب نے سرتسلیم خم کیا۔پھر حضرت علی خلیفہ بن گئے تو حضرت عائشہ کی قیادت میں مسلح جنگ ہوئی اور وجہ یہ تھی کہ حضرت عثمان کے قاتلوں کا بدلہ لیا جائے۔ پھر حضرت علی کے بعد امام حسن نے امیرمعاویہ سے معاہدہ کیا اور30سالہ خلافت راشدہ کے بعد امارت کا آغاز ہوگیا۔ اس کے بعد ایک غیر صحابی یزید سے خاندانی بادشاہت کا آغاز ہوگیا اور یزید ہی باطل نظام کا ایک استعارہ بن گیا۔آج ہم آزاد ا رکان کا اقتدار قائم کرکے پاکستان میں خلافت راشدہ لاسکتے ہیں۔ حضرت علی نے مدینہ کی جگہ کوفہ کو دارالخلافہ بنایا اور ہم اسلام آباد کی جگہ ڈیرہ غازی خان کو دارالخلافہ بنائیں گے۔ انشاء اللہ العزیز
پنجاب ، سندھ، بلوچستان اور پختونخواہ کے آزاد ارکان اپنا ایک مختصر منشور شائع کریں۔ پھر کامیاب ارکان آپس میں ہی اتحاد کرکے ایک شخص پر ووٹنگ کرکے اتفاق کرلیں۔ پہلے سب میں جن جن کوبھی ووٹ مل جائیں اورپھر زیادہ ووٹ لینے والا منتخب نہ ہو بلکہ کم ووٹ لینے والوں کو درمیان سے نکال کر زیادہ ووٹ لینے والوں کے درمیان ایک ہی مجلس میںمقابلہ ہو اور پھر پہلے تین پوزیشن حاصل کرنے والوں کے درمیان ووٹنگ کرائی جائے۔ پھر پہلی دو پوزیشن میں ووٹنگ کرائی جائے۔
پھر جس کے زیادہ ہوں اس پر سب متفق ہوں۔ جمہوریت کا ایک نیا طریقہ کار رائج کرنے کی ضرورت ہے جس میں پیسہ خرچ اور ایکدوسرے کے خلاف غلط پروپیگنڈے کا موقع بھی نہ دیا جائے۔ اگر آزاد ارکان خود جیتنے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو اپنے منشور کے تحت کسی اور پارٹی کو جتوائے لیکن قرآن وسنت کے بنیادی معاشرتی ڈھانچے کو نافذ کرنے کیلئے اپناکردار ادا کرے۔خلع وطلاق کے مسائل ۔ خلع وطلاق کے حق اور نکاح اور حق مہر کے معاملات قرآن میں بالکل واضح ہیں لیکن علماء و مفتیان نے مسخ کرکے رکھ دئیے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان اسلام کی طرف نہیں جارہاہے۔ جمہوریت کے دور میں سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ ہم غلطیوں کو ٹھیک کرکے اس پر مرہم و پٹی رکھ سکتے ہیں۔ شیعہ سنی ، بریلوی دیوبندی اور اہلحدیث کے متفق ہونے میں بالکل بھی دیر نہیں لگے گی۔ اسلام روشنی ہے جو اندھیروں کو کسی طاقت کے بغیر بھی بالکل اڑادیتا ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اپنی بیٹی اور بلوچ بیٹی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ سینیٹر جماعت اسلامی مشتاق احمد خان

اپنی بیٹی اور بلوچ بیٹی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ سینیٹر جماعت اسلامی مشتاق احمد خان

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے دھرنے میں پہنچ کر کہاکہ اپنی بیٹی اور بلوچ بیٹی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں سچی بات یہ ہے کہ جس بہادری، جرأت کیساتھ اس نہتی بچی ماہ رنگ بلوچ نے ریاستی جبر، پولیس دہشتگردی کا مقابلہ کیا ہے اس نے تمام جمہوریت پسند انسانی حقوق کے علمبرداروں کے سر فخر سے بلند کر دیے، حوصلہ بڑھا دیا تو بیٹے میںآپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، شاباش دیتا ہوں، آپ کیساتھ ہوں اورفرحت اللہ بابر آپ کیساتھ ہیں ،تمام جمہوریت پسند انسانی حقوق کے علمبردار وہ آپ کیساتھ ہیں۔ پریس، سٹریٹس اور پارلیمنٹ میں انشااللہ میں آپکی آواز بنوں گا۔ لانگ مارچ اسلئے ہے کہ ڈیتھ اسکواڈ ختم کیا جائے، ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ بالاچ بلوچ جیسے واقعات ہماری سرزمین پر نہ ہوں، ہماری مٹی کو ہمارے خون سے رنگین نہ کرو، ہمارے نوجوانوں کو قتل نہ کرو اور جبری گمشدگی لوگوں کو غائب کرنا۔ یہ اپنے درد کی وجہ سے آئی ہے پانچ بہنیں ایک بھائی کیلئے جو عشروں سے لاپتہ ہے یہ ریاستی دہشتگردی ہے۔ آئین قانون پارلیمنٹ دستور کی موجودگی میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ دستور کی خلاف ورزی پاکستان سے غداری ماہ رنگ نہیں کر رہی وہ لوگ کر رہے ہیں جو ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ جو جبری گمشدگی کر رہے ہیں،آرٹیکل16،17،19،9،10میں وہ ساری باتیں ہیں جوماہ رنگ بلوچ کرتی ہے۔ پولیس ،نگران اورریاستی اداروں، اسلام آباد انتظامیہ کو شرم آنی چاہیے رات ایک بجے ٹھنڈے پانی واٹر کینن سے ان پر پھینکتے ہیں ۔ سادہ کپڑوں میں ڈنڈوں سے بچوں بچیوں کو مار رہے ہیں شرم نہیں آتی یہ دہشتگردی ہے میں سینٹ آف پاکستان میں ان کو بے نقاب کروں گا اسلئے میں مطالبہ کرتا ہوں کہ معافی مانگے وفاقی حکومت اس بچی سے اس لانگ مارچ کے شرکا سے اسلام آباد انتظامیہ معافی مانگے جن لوگوں نے یہ کام کیا ہے ان کوقرارواقعی سزا ملنی چاہیے اس حکومت نے اس انتظامیہ سے عدالتوں کے اندر جھوٹ بولا انہوں نے رہائی بھی نہیں دی ،تذلیل بھی کی، بدترین قسم کا وائلنس بھی کیا ہے۔ تو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔اور جو مطالبات انہوں نے اٹھائے ہیں میں حکومت سے ریاستی اداروں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ جائز ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے کہتا ہوں کیا انصاف صرف اشرافیہ، بالادست طبقے کیلئے ہے مظلوموں، بلوچوں، جبری گمشدہ ،ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ کے شکار کیلئے نہیں ہے ؟ میں سپریم کورٹ آف پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس لانگ مارچ پر تشدد کا بھی نوٹس لیں لانگ مارچ کو انصاف دو لانگ مارچ کے مطالبات پورے کرو بلوچستان میں50ہزار لوگوں کو بیروزگار کیا، خیبر پختونخوامیں بدامنی کی لہر ہے ۔ منظور پشتین آواز اٹھاتا ہے تو اس کو جیل میں بند کر دیا یعنی جو بندہ امن، اپنی مٹی، عوام کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ، جبری گمشدی کے خلاف بات کرتا ہے ریاست کے بے لگام کو لگام دینا چاہتے ہیں ان کو جیل ،تشدد، ریاستی اداروں کوانکے خلاف استعمال کرتے ہیں تو یہ نہیں چلے گا۔ اب عوام باشعور ہو چکے ہیں۔ میں نے ابھی ایک پارٹی کنونشن میں آپ کی بات کی تو لوگوں نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں ہر محلے، ہر شہر سے آپکی حمایت ہے بلا تفریق کراچی سے چترال تک ماہ رنگ بلوچ آپنے لوگوں کو جگا دیا، مظلوم آپ کیساتھ ہے آپ مظلوموں دردمندوںاور تکلیف کے ماروں کی آواز ہیں۔ ڈٹی رہو، بہادری اور ہمت کے ساتھ اپنی اس جدوجہد کو جاری رکھو ہم آپ کے ساتھ ہیں فتح آپ کی ہے انسانی حقوق، جمہوریت کی ہے بشری حقوق کی ہے امن کی ہے اور شکست دہشت گردی کی ہوگی انشااللہ میں اور فرحت اللہ بابر صاحب تو سپریم کورٹ کے اندر بھی اکٹھے گئے ہیں اور ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ کے اندر بھی جائیں گے ہم انشااللہ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سود کو حیلے سے حلال سمجھنے والا کافرو مرتد ہے اور کھلا سود کرنے والا کافر نہیں ہے گناہگار ہے۔مولانا نور محمد وزیرشہید

سود کو حیلے سے حلال سمجھنے والا کافرو مرتد ہے اور کھلا سود کرنے والا کافر نہیں ہے گناہگار ہے۔مولانا نور محمد وزیرشہید

شیخ الحدیث و التفسیر مولانا نور محمد وزیر شہید سابقMNAجنوبی وزیرستان نے کہا تھا کہ حیلے سے سُود کو حلال قرار دینے سے بہتر ہے کہ کھلم کھلا سُودی کاروبار کیا جائے۔ کوئی کہتا ہے کہ چینی خرید کر دوں گا اور کوئی کہتا ہے کہ ٹائر خرید کر دوں گا۔ نہ ان کو کوئی شرم آتی ہے اور نہ خدا سے حیا آتی ہے اور نہ اللہ کی آیات سے وہ شرماتا ہے ۔ ظالم تم سیدھا سیدھا کہو کہ میں ایک لاکھ دیتا ہوں اور اس پر مجھے1لاکھ30ہزار دو گے۔ حیلے درمیان سے چھوڑ دو ، ہم اللہ کو دھوکہ نہیں دے سکتے ہیں۔ صاف بول دو کہ میں1لاکھ پر30ہزار لوں گا ، بتاؤ کتنے لاکھ دے دوں؟۔ تم چینی کو درمیان سے نکالو۔ کوئی کہتا ہے کہ چینی خریدتے ہیں کوئی کہتا ہے کہ ٹائر خریدیں گے کوئی کہتا ہے کہ پک اپ گاڑی لیتے ہیں ۔ تم اللہ کے قہر سے لدے ہوئے ہو۔ صرف یہ نہیں کہ تم سُود خور ہو ۔ اس طریقے سے سُود کو اپنے لئے حرام قرار دے دو ۔ جو سُود کو حرام نہیں سمجھتا ہے وہ سوفیصد کافر ہے۔ مرتد ہے ، اس کی بیوی طلاق ہے ، اس کا حج ختم ہے، اس کی نمازیں ختم ہیں، اس کے روزے ختم ہیں۔ لیکن جو اس طرح سے سُود کرتا ہے کہ یہ حرام ہے تو پھر وہ کافربھی نہیں ہے اور گناہگار بھی نہیں ہے۔ ہم نے تو خود کو کفر کیلئے سیدھا کیا ہے۔

پاکستان بننے سے پہلے علماء کا پاکستان پر اختلاف تھا ۔ مفتی محمد تقی عثمانی
اسرائیل میں2.5%اور پاکستان میں22%سُود ہے۔ اسلامی بینکاری کے نام پر2%مزید فیس کی مد میں سُود ؟۔

مفتی محمد تقی عثمانی نے کہا کہ میں یہاں یہ بات بھی سب کے سامنے عرض کردوں کہ ایک زمانہ تھا جب پاکستان بننے سے پہلے علماء کے درمیان اختلاف پیدا ہوا۔ اختلاف رائے کوئی بری بات نہیں ہوا کرتی تھی۔ مسلمانوں کے مستقبل کیلئے پاکستان بننا زیادہ بہتر ہے؟ یا نہ بننا بہتر ہے؟ اور ہندوستان کا مشترک رہنا بہتر ہے ؟۔ اس مسئلے پر اہل علم کی مختلف رائے آئیں لیکن جب پاکستان بن گیا تو حضرت شیخ الاسلام علامہ حسین احمد صاحب مدنی جن کی شروع میں رائے نہیں تھی لیکن ان کا یہ جملہ ریکارڈ پر ہے میرے پاس اس کا ثبوت موجود ہے کہ حضرت مدنی نے فرمایا کہ مسجد بننے سے پہلے کسی جگہ اختلاف ہوسکتا ہے کہ یہاں مسجد بنائی جائے یا نہیں لیکن جب ایک مرتبہ مسجد بن گئی تو اس کا تحفظ ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔
تبصرہ: جامعہ بنوری ٹاؤن ، جامعہ فاروقیہ ، جامعہ احسن العلوم اور پاکستان بھر سے اسلام کے نام پر سُودی بینکاری کے عدم جواز کا متفقہ فتویٰ دیا گیا مگر پھر بھی موصوف ڈٹ گئے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کال کریں ہم دیکھتے ہیں کہ کون آتا ہے؟۔ اُم حسان

کال کریں ہم دیکھتے ہیں کہ کون آتا ہے؟۔ اُم حسان

جامعہ حفصہ کی خواتین نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے دھرنے میں آکر یکجہتی کا اظہار کیا
یہ صحافی نہیں میراثی ہیں یہ پیسے کے پتر اور پجاری ہیں۔ جو پیسہ دے اس کی خبر لگاتے ہیں

السلام علیکم ورحمة اللہ، میں جامعہ حفصہ سے اُم حسان ہوں اصل میں جس دن ان پر رات کے وقت انہوں نے ظلم کیا، زیادتی کی اس وقت تو ہمیں نہیں پتہ لگ سکا بعد میں میں نے اس ساری جگہ چکر لگایا تو ان کی جگہ پولیس بیٹھی ہوئی تھی۔ ماشاء اللہ دونوں گراؤنڈ بھرے تھے ہمارے جوانوں سے ،جن کی جوانیاں شاید اسی لئے وقف ہیں کہ مظلوموں پر ڈنڈے برسائے جائیں اور ان پر ظلم کیا جائے ،زیادتی کی جائے۔ تو انکے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے آئے ہیں اور ہم نے انہیں کہا کہ جب کوئی پولیس یا انتظامیہ آپ کو دھمکی دے ہمیں کال کریں ہم آپکے شانہ بشانہ کھڑیں ہوں گے اور دیکھتے ہیں کون آتا ہے اور انہیں ہاتھ لگاتا ہے۔ کسی کو انہیں ہاتھ نہیں لگانے دیں گے۔ یہ اس ملک کا وطیرہ بن گیا کہ جو ظالم ہے وہ ظلم کرتا چلا جاتا ہے ، اس کا کوئی ہاتھ نہیں روکتا۔ ہم انشاء اللہ تعالیٰ ہاتھ روکیں گے بھی اور توڑیں گے بھی۔صحافی آواز اٹھائیں گے، پہلے مظلوم کا ساتھ دیا؟۔ جامعہ حفصہ آپریشن میں یہ سب اور اکبر بگٹی کو بھی مروانے میں پیش پیش تھے۔ یہ لاشوں پر دھمال ڈالنے والے پیسے کے پتر پجاری ہیں۔ جو پیسہ دیتا ہے اس کی ڈفلی بجاتے، راگ گاتے ہیں۔ تو ان بیچاروں کے پاس پیسہ تو نہیں تو میڈیا والے بات کریں گے۔ پاکستانی میڈیا کوئی میڈیا ہے؟۔ یہ مراثیوں کا گڑھ ہے۔ سارے مراثی بیٹھے ہیں جس مراثی کو پیسے مل جاتے ہیں اسی کے حساب سے زبان چلتی ہے اسی کے حساب سے اس کے ٹھمکے لگتے ہیں بات ختم۔
سوال: آپ کب تک اظہار یکجہتی کریں گے؟۔
اُم حسان: جب تک یہ یہاں پر ہیں۔ جب یہ چلے جائیں گے تب بھی۔ پاکستان میں، دنیا بھر میں کہیں پر بھی کوئی مظلوم ہے اسکے لئے ہم آواز اٹھاتے ہیں کیونکہ ہم نے ظلم خود برداشت کیا ہے اور آج تک کررہے ہیںلیکن اب بہت ہوچکا۔ جیسے اسلام آباد پولیس نے ان کو مارا ہے وہ بہت ہی شرمناک عمل ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اکثریت کو اقلیت دباکر بیٹھی ہے ہدیٰ بھرگڑی

اکثریت کو اقلیت دباکر بیٹھی ہے ہدیٰ بھرگڑی

کیا یہ ملک فوج اورمسلح افراد کیلئے بناہے؟اس میںبلوچ، سندھی ، پشتون کے حقوق ہیں یا نہیں ؟

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی حمایت عورت مارچ کی خواتین اسلام آباد پریس کلب میں پہنچ گئیں۔ ہدی بھرگڑی نے کہا:یہ جو دو قومی سلسلہ رہا ہے، تمام کے تمام عوام جو کہ میجورٹی آف پاکستان ہے اس میجورٹی کو ایک مائنورٹی کئی عرصے سے کئی سالوں سے دبا کے رکھ کے بیٹھی ہوئی ہے تو یہ سوال ہم پہ بطور پاکستانی بنتا ہے آواز اٹھائیں کہ پاکستان آخر بنا کس کیلئے ہے کیا یہ فوجیوں کیلئے بنا ہے کیا یہ مسلح افراد کیلئے بنا ہے کیا یہ صرف ایک طبقے کیلئے بنا ہے کیا یہ بلوچوں کا سندھیوں کا خیبر پختونخواہ میں پشتون کیا انکے حقوق ہیں کہ نہیں ہیں تو پاکستان کا مطلب کیا ہے؟ہمیں دوبارہ سے واضح کرنا ہوگا کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے؟، کیا پاکستان بلوچ عوام کیلئے ہے یا نہیں؟ پاکستان کا اب مطلب کیا ہے؟۔نعرے ہر جبر سے لیں گے آزادی ، ہر قہر سے لیں گے آزادی،زنجیر سے لیں گے آزادی، زندان سے لیں گے آزادی، جینے کی لیں گے آزادی، احتجاج کی لیں گے آزادی ، سی ٹی ڈی سے لیں گے آزادی ، آمر ریاست سے آزادی، فوجیوں سے آزادی ، ٹینکوں والوں سے آزادی، بوٹوں والوں سے آزادی، بندوق سے آزادی، ظالم سے لیں گے آزادی، جابر سے لیں گے آزادی، بلوچ کا نعرہ آزادی، ماہ رنگ کا نعرہ آزادی، عورت کا نعرہ آزادی، ہے حق ہمارا آزادی ، نہیں بھیک میںلیں گے آزادی، نہیں جھک کرلیں گے آزادی، ہم چھین کے لیں گے آزادی، للکار کے لیں گے آزادی، جو تم نہ دو گے آزادی، سی ٹی ڈی تو سن لے آزادی، ڈی سی تو سن لے آزادی، پولیس تو سن لے آزادی، کاکڑ توسن لے آزادی، وردی والے توبھی سن لے آزادی، ہم چھین کے لیں گے آزادی، للکار کے لیں گے آزادی، ہم لیکر رہیں گے آزادی، بلوچستان سے جاگی عورت جاگی، جی پی سے جاگی عورت جاگی، کے پی سے جاگی عورت جاگی، اسلام آباد سے جاگی عورت جاگی، جاگی جاگی عورت جاگی، ظلم کے نظام کو ہم نہیں مانتے، ظلم و جبر کیخلاف جدوجہد تیز ہو، پولیس گردی کیخلاف جدوجہد تیز ہو، ظالمو! جواب دو خون کا حساب دو۔ بلوچ کو جواب دو خون کا حساب دو، ماہ رنگ کو جواب دو ظلم کا حساب دو، بلوچ کا نعرہ آزادی، ماہ رنگ کا نعرہ آزادی، ہر جبر سے لیں گے آزادی، ہر ظلم سے لیں گے آزادی، ہر تیر سے لیں گے آزادی، تلوار سے لیں گے آزادی، بندوق سے لیں گے آزادی، ٹینکر سے لیں گے آزادی، بلوچ کا نعرہ آزادی، ماہ رنگ کا نعرہ آزادی، عورت کا نعرہ آزادی، لال سلام لال سلام ،ماہ رنگ کو لال سلام۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

میں بولتی ہوں کہ اگر اس قوم کیلئے لاکھوں بچیاں بھی یتیم ہوجائیں تو کم ہے۔ماہ رنگ بلوچ

میں بولتی ہوں کہ اگر اس قوم کیلئے لاکھوں بچیاں بھی یتیم ہوجائیں تو کم ہے۔ماہ رنگ بلوچ

ایک ماں کا وہ پہلا خیال جس نے سوچا ہوگا کہ وہ اپنے وطن کیلئے قربان ہوگی ناں۔ وہ خیال ہی اس قوم کو ہزار سال حوصلہ دینے کیلئے کافی ہے۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ
بلوچ قوم کی اس عظیم قومی تحریک کے قریب بھی کسی دوسری قوم کی تحریک نہیں پہنچی ہے، ہمارے علماء اور مدارس کے طلبہ بھی کھاد کی مشین نہیں انقلابی بنیں۔عتیق گیلانی
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اس تقریب سے یہ تحریر پڑھ کر خطاب کیا تھاجس کی کچھ جھلکیوں سے ان کے فکر وعمل کو سمجھنے میں قارئین کو آسانی ہوگی کہ اتنے حوصلے اور جرأت کے پیچھے کیا اصل عوامل کارفرماہیں۔ یہ حوصلے کی ایک چٹان کیوں ہیں؟۔
ڈاکٹر ماہ رنگ نے8مہینے پہلے اپنے خطاب میں کہا تھا: صباح اسلئے صباح تھا کہ اپنے آپ کو اجتماع سے جوڑ دیا۔ صباح نے وہ جو روایتی دانشور کی تعریف سے خود کو نکال کر وہ اپنی عوام کے ساتھ رہا۔ اس نے کہا کہ اگر میری کلاس کا ایک اسٹوڈنٹ اغوا ہورہا ہے تو میں اپنی کلاس میں بیٹھوں گا ہی نہیں جب تک کہ وہ رہا نہیں ہوجائے۔ جب بات ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ صباح نعرے نہ لگاتا تو صباح صباح نہ ہوتا۔ تو آپ بتائیں کہ اگر آپ نے ایکٹیو ازم کو محدود کردیا ہے ۔ آپ کہتے ہیں کہ قوم کیلئے کام تو ناکارہ شخص ہی کرے گا تو پھر قومی تحریک چلائے گا کون؟۔ ایک ڈاکٹر ڈاکٹری کرے، ایک وکیل وکالت کرے، ایک استاد اپنی استادی کرے تو پھر قومی تحریک چلائے گا کون؟۔ کیا یہ کوئی آسان کام ہے؟۔ یہ سب سے مشکل کام ہے۔ سب سے ذہین اور سب سے جرأتمند لوگ قومی تحریکیں چلاتے ہیں۔ یہ کسی عام کسی ڈرپوک شخص کا کام ہے ہی نہیں کہ اتنے بڑے کلیم کو لے کر آگے چلے اور اپنی زندگی اور سب کچھ قربان کردے۔ میں کہتی ہوں کہ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ قربانیاں تو اتنی ہیں کہ اس تحریک کا کوئی ادارہ اس قابل بھی نہیں ہے کہ وہ شہداء کی لسٹ بناسکے۔ تعلیم ہی اپنی کوکھ سے علم کو جنم دیکر کردار میں عملی نکات پیدا کرے تو وہ شعور اور تبدیلی کہلائی جاسکتی ہے۔ صرف تعلیم حاصل کرنے اور اپنے پاس رکھنے سے کوئی بھی طالب علم نوکری اور کاروبار تو کرسکتا ہے مگر اپنے سماج میں تحریک پیدا نہیں کرسکتا اور نا ہی انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ کوئی بھی تحریک جسکے مقاصد متعین نا ہوں تو جدوجہد علمی ہو، نظریاتی ہو، تعلیمی ہو، فکری ہو وہ وقتی جدوجہد تو بن سکتی ہے مگر اسے مستقل جدوجہد نہیں کہا جاسکتا۔ جیسا کہ البرٹ کامیوس نے کہا کہ حقیقی مایوسی طاقتور دشمن کا سامنا کرنے سے پیدا نہیں ہوتی اور نا ہی جدوجہد میں ناکامی تھکاوٹ سے ظہور پذیر ہوتی ہے۔ مایوسی اس وقت ہوتی ہے جب ہمیں اپنی جدوجہد کا ادراک نہیں ہوتا ہے۔ ہم یہ بھول چکے ہوتے ہیں کہ یہ جدوجہد کس لئے شروع کی گئی تھی۔ یہ جدوجہد قومی شناخت کی جدوجہد ہے۔ قومی بقاء کی جدوجہد ہے۔ یہ کچھ آسامیوں، نوکریوں، وسائل اور صوبائی حق خود داریت کی جدوجہد ہے ہی نہیں۔ قومی تحریکیں اشرافیہ اور طاقتور لوگوں کے بجائے عام لوگوں کی جدوجہد سے بنتی ہیں۔ وہ لوگ جن کی ہر سوچ اجتماعی ہے اور وہ اجتماعی سوچ کی بنیاد پر بولتے ہیں اور اپنے قول کو عمل میں تبدیل کرنے کی جرأت رکھتے ہیں جیسا کہ گرامسچی نے کہا: ”قبضہ گیر ریاستیں تشدد اور معاشی استحصال کیساتھ اپنے اداروں کے ذریعے ریاستی نظرئیے کو محکوم اقوام پر مسلط کرتی ہیں اور ایسے سماج میں انقلاب لانا مشکل ہوجاتا ہے جہاں محکوم حاکم کو حکمرانی کرنے کا حقدار سمجھتا ہو”۔ مگر سوال یہ ہے، آج کل ایسی سازش میں بلوچ طلبہ کو ڈالا جارہا ہے ،کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل تعلیم ہے۔ کونسی تعلیم اور تعلیم کس کیلئے ؟۔ کیا پروفیشنل ازم قومی خدمات کے برابر ہوسکتی ہے؟۔ ہماری جد و جہد کے اہم مقاصد کیا ہیں؟۔ قومی جدوجہد پر کمپرومائز کرنے والی قوتیں کون سی ہیں؟۔ جو نام نہاد قوم پرست پارٹیاں بناچکے ہیں وہ نام نہاد قوم پرست تو کہلائے جاسکتے ہیں، لیکن انہوں نے اصل مقصد اور قومی شناخت کے بجائے کچھ وسائل کو ہی جدوجہد کا نام دے رکھا ہے۔ بلوچ قوم کو ہر اس دھوکے کو پہچاننا ہوگا، سوال کرنا ہوگا کہ وہ کونسے مقاصد ہیں کہ جس کی وجہ سے ہم یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ ہماری قومی شناخت کی جنگ ہے اور ہمارے آباء و اجداد اور ہزاروں شہیدوں نے اپنی جان کی قربانی صوبائی خود مختاری ، چند اسامیوں اور تعلیم کیلئے نہیں دی ہے ۔ ہمارے نوجوان اسلئے پڑھتے ہیں کہ کل وہ اچھے ڈاکٹر بن جائیں ایک اچھے وکیل بن جائیں ؟ ،کسی پروفیشن میں ان کا نام ہو؟، ایک اچھے استاد اور لیکچرار بن جائیں؟ اور کل کواگر انہیں ایک پروٹوکول چاہیے تو وہ جاکر سول سروس میں،PCSاورCSSکرکے اپنے آپ کو علاقے کا سب سے معتبر اور سب سے تعلیمی، شعوری انسان ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ بلوچو! قومی جدوجہد کی راہ انتہائی کٹھن ہے اس میں بے پناہ قربانیاں دینی پڑیں گی۔ اور یہ کسی بھی انسان کی قوت کا کام نہیں کہ وہ اکیلے انقلاب لا سکے۔ انقلاب کیلئے ہمیشہ عوام کی ضرورت ہوتی ہے، قوم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب پوری قوم ایک تبدیلی کیلئے اپنی صبح شام لگاتی ہے ،اپنی جانوں کی قربانیاں دیتی ہے تبھی وہ کام آسان ہوسکتا ہے ایک فرد انقلاب نہیں لاسکتا۔ بھگت سنگھ کی ایک تحریر میں نے پڑھی تھی وہ انہوں نے اپنی پھانسی سے چند دن پہلے لکھی تھی انقلابیوں کے نام۔ کچھ ایسے الفاظ تھے جو مجھے سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں ہم سب کو کیونکہ ہم سب جو سطحی سیاست کا حصہ ہیں یا جہاں ہم سیاست کر رہے ہیں اس میں میں بذات خود بھی شامل ہوں اس میں میں اپنے آپ کو بورژوا نیشنلسٹ سمجھتی ہوں۔ کیونکہ میں قوم پرستی کے اس قول کو تو مانتی ہوں لیکن عملی طور پر میں ابھی تک اس میں شامل ہی نہیں ہوئی یا ہم سب اس میں شامل ہی نہیں ہوئے تو بھگت سنگھ نے کہا کہ اگر آپ ایک بزنس مین اور ایک اچھے ڈاکٹر ہیں اور اپنی زندگی کے کچھ گھنٹے جدوجہد پر بے بنیاد تنقید اور تقریروں میں صرف کرتے ہیں اور صبح ریاستی مشینری کو مستحکم کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ برائے مہربانی آگ سے مت کھیلیں۔ ایک انقلابی ورکر کے طور پر آپ کسی بھی تحریک کیلئے کار آمد نہیں ہوسکتے۔ انقلاب کیلئے ہمیں پیشہ ورانہ انقلابیوں کی ضرورت ہے۔ تحریک کے وہ کارکن جن کی زندگی کا مقصد تحریک کو آگے بڑھانے کے علاوہ کچھ بھی نہ ہو ، تحریک کیلئے جذبات قابل قدر ہوسکتے ہیں مگر تحریکیں مستقل مزاج کارکنوں کی مسلسل جدوجہد، مصیبتوں کا سامنا کرنے اور بے پناہ قربانیوں سے کامیاب ہوتی ہیں۔ راستے کی کوئی تکلیف آپ کی جدوجہد کو کم نہیں کرسکتی۔ اور اگر دشمن آپ پر وار کرتا ہے تو اس پر آپ اپنا سر پکڑ کر نہیں بیٹھیں گے کہ اُف یہ کیا ہوگیا؟ یہ تو ہم برباد ہوگئے، اب تو یہ ہماری عورتوں تک آپہنچا ہے۔ سب سے پہلے تم اپنے کلیم کو تو دیکھو کہ تم کیا مانگ رہے ہو؟۔….. میں کہتی ہوں کہ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔………..
ایک ماں کا وہ پہلا خیال جس نے سوچا ہوگا کہ وہ اپنے وطن کیلئے قربان ہوگی ناں۔ وہ خیال ہی اس قوم کو ہزار سال حوصلہ دینے کیلئے کافی ہے۔ اس کی قربانی تو بہت دور کی بات ہے۔ اس قوم کی شناخت کی بقاء ہی اس میں ہے اس قوم کی جو جدوجہد ہے جس مقصد کیلئے شروع ہوئی تھی اس کو وہاں تک پہنچایا جائے۔ کوئی بھی ڈائیورژن ان قربانیوں کے ساتھ سب سے بڑی غداری ہوگی۔….تبصرہ: مولانا عبید اللہ سندھی نے کہا کہ عرب کے بعد عجم قرآن کو سمجھ کر انقلاب لائیں گے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اسلام نے14سو سال پہلے غلامی کا تصور ختم کیا تھا

اسلام نے14سو سال پہلے غلامی کا تصور ختم کیا تھا

جو فقر ہوا تلخئی دوراں کا گلہ مند اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
عربی میں غلام کو عبد کہتے ہیں اللہ کے علاوہ عبدیت جائز نہیں
اسلام کا سب سے بڑا مشن انسانوں کی انسانوں سے آزادی
عربوں نے رومی و ایرانی عورتوں کو دیکھ کر لونڈی کو جواز بخش دیا

قرآن وسنت میں لونڈی بناناجائز ہے؟۔ ایک طرف داعش نے نکاح بالجہادکا تصور پیش کیا اور دوسری طرف خواتین کو لونڈیاں بناکر بیچ دیا تو گوانتا ناموبے جیسے عقوبت خانوں، افغانستان وپاکستان میں دہشتگردی کے نام پر قتل وغارتگری، عراق ولیبیاکی تباہی کے بعد اسرائیل کے فلسطینیوں کو تباہ کرنے کا جواز فراہم ہورہاہے اور پھر افغان طالبان پر ایٹمی ہتھیار خریدنے کے الزام کی بازگشت معروف صحافی کامران یوسف کی زبانی سنائی دے رہی ہے۔
جنگ کی ہولناکی دیکھنے والے قیامت کا منظر دیکھ چکے ہیں۔ ٹریفک کا نظام بھی دشمنی ، جنگ اور انقلابی جدوجہد میں مارے جانے کے خطرہ سے کم نہیں مگر کچھ حقائق عوام ، علماء کرام اور طلباء عظام کو سمجھنے ہوں گے۔ تاکہ اسلام کی سمجھ دنیا میں بھی عام ہوجائے اور مسلمانوں اور کفار میں اسلام کا احترام بھی آجائے۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا: الدین النصیحہ ” دین خیر خواہی ہے”۔ کیا کسی بھی قوم کی عورت کو لونڈی بنانا خیر خواہی ہوسکتی ہے؟۔ کوئی یہ خیر خواہی نہیں قرار دے سکتا۔ پھر کیا اسلام نے عورتوں کو لونڈی بنانے کی اجازت دی ہے؟۔ نبی کریم ۖ نے فرمایا: ” جنگ میں عورت پر ہاتھ نہ اُٹھاؤ” ۔جب ہاتھ اُٹھانے کی اجازت نہیں تو کیالونڈی بنانے کی اجازت ہوگی؟۔ ہرگز ہرگز بھی نہیں۔ شاہ ولی اللہ نے لکھا ہے کہ نبیۖ نے خیرالقرون کے جن تین ادوار کا ذکر کیا ہے تو ان میں پہلا دور نبی ۖ کا تھا۔ دوسرا ابوبکروعمر اور تیسرا حضرت عثمان کا دور تھا۔ حضرت علی کا دور ان میں شامل نہیں تھا اسلئے کہ اس میںفتنے برپا ہوچکے تھے۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا کہ ” میرے نزدیک پہلا دور نبی ۖ وابوبکر کا تھا اسلئے کہ ابوبکر کے دور میں ذرا سی بھی تبدیلی نہیں ہوئی۔ دوسرا دور عمر اور تیسرا دور عثمان کا تھا”۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ” ابوبکر کے دور میں یمن فتح ہوا تو کسی کو بھی لونڈی نہیں بنایا گیا”۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ”بدعت کی حقیقت” میں لکھا کہ ” صحابہ،تابعین اور تبع تابعین کے تین ادوار خیرالقرون میں جو اعمال مرتب ہوئے درست تھے اور تقلید چوتھی صدی ہجری کی بدعت ہے”۔ مولانا سیدمحمد یوسف بنوری نے اس پر تقریظ لکھی لیکن شاہ ولی اللہ کے خاندان کی شاگردی کے دعویدار کچھ بھی نہیں جانتے ہیں۔
حنفی ومالکی سمجھتے ہیں کہ” 3طلاق بدعت، گناہ اور ناجائز ہیں”۔ کیا نبیۖ کے دور میں یہ بدعت ایجاد ہوئی تھی؟۔ تراویح حضرت عمر کے دور کی بدعت حسنہ کہلاتی ہے۔ ایک ساتھ حج وعمرے کے احرام پر حضرت عمر نے پابندی لگادی تو عبداللہ بن عمر نے کہا کہ ”میرا اپنے باپ پر نہیں نبیۖ پر ایمان ہے”۔ عثمان اور علی میں حج وعمرے کا احرام اکٹھا باندھنے پر جھگڑا ہوا۔ (صحیح بخاری) جب عبداللہ بن عباس سے کہا گیا کہ یہ عمل عمر نے شروع کیا ہے تو ابن عباس نے کہا کہ ”میں نبی ۖ کی بات کرتا ہوں تو تم ابوبکر وعمر کی بات کرتے ہو۔مجھے تعجب ہے کہ تم پر آسمان سے پتھر کیوں نہیں برستے؟”۔ ابوبکر نے جبری زکوٰة وصول کی مگراہل سنت کے چارامام نے مانعین زکوٰة کے خلاف قتال کو جائز نہیں قرار دیا البتہ بے نمازی کو سزا دینے پرعقل کے پروانوں کا کچھ نہ کچھ اتفاق تھا۔ یہی تو وہ اسلام تھا جس کے عنقریب اجنبی بن جانے کی خبر نبیۖ نے دی تھی۔ حضرت عمر کے دور میں شہنشاہ فارس کی صاحبزادیوں کو لونڈیوں کی طرح بیچنے کا حکم ہوا۔ پھر حضرت علی کے مشورے پر ایک عبداللہ بن عمر ، دوسری حسین بن علیاور تیسری محمد بن ابی بکر کے نکاح میں دی گئیں۔ ان کی اولاد آپس میں خالہ زاد تھے۔
ہزار سال سے زیادہ ہواکہ شام کے مشہور عالم ابوالعلاء معریٰ نے لکھا کہ ”اسلام نے لونڈی بنانے کا جواز ختم کیا۔ عربوں نے فارس وروم کی سرخ وسفید عورتوں کو دیکھ کر لونڈی کو جواز بخش دیا”۔ جیسے آج مفتیان اعظم نے سودی نظام کو جواز بخش دیا ہے اور متعہ کو ناجائز کہنے والے حلالہ کا لطف اٹھارہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ قرآن نے شادی شدہ عورت کو پانچویں پارہ کے آغاز پر محرمات کی فہرست میں داخل کیامگر لونڈی بنانا جائز قرار دیا؟۔ والمحصنٰت من النساء الا ما ملکت ایمانکم”اور بیگمات مگر جن سے تمہارا معاہدہ ہوجائے”۔ اس سوال کا جواب دینے کے لئے قرآن کے ان دونوں الفاظ اور جملوں کو قرآن وسنت کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہی قرآن کہتا ہے کہ والمحصنٰت من المؤمنات والمحصنٰت من الذین اوتوا الکتٰب من قبلکم اذا اتیتموھن اجورھن محصنین غیرمسافحین ولامتخذی الاخدان ومن یکفر بالایمان فقد حبط عملہ وھو فی الاٰخرة من الخاسرینO(سورہ مائدہ : آیت5)
جب سورہ مائدہ میں اللہ نے محصنات کیساتھ نکاح کو جائز قرار دے دیا تو پھر سورہ النساء میں کیسے محرمات کی فہرست میں داخل کیا ہے؟۔ محصنات کی تین اقسام ہیں۔نمبر1:پاکدامن بمقابلہ آلودہ ۔نمبر2:شادی شدہ بمقابلہ غیرشادی شدہ۔ نمبر3:محترمہ بیگمات بمقابلہ بے سہارا بیوائیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی بیگم نصرت بھٹو70کلفٹن کی مالک تھی اور شوہر کی وفات کے بعد بھی اپنے شوہر کیساتھ زبردست رشتہ تھا۔ اگر کوئی جیالا یا بھٹو کا دشمن اس کو رشتہ بھیج دیتا تو کتنی زیادہ بری بات ہوتی؟۔محرمات میں باپ کی منکوحہ اور ماں، بیٹی ، بہن سے لیکر دو بہنوں کا جمع کرنا اور پھرمحترمہ بیگمات کی حرمت بیان کرکے بہت کمال کردیاہے لیکن افسوس مسلمان قرآن سے غافل ہیں۔
اگر قرآن کی طرف توجہ دی جائے تونہ صرف مسلمان بلکہ انسان کی عزت ہوگی۔ حضرت عائشہ سے کسی نے نبیۖ کی سیرت کا پوچھا تو فرمایا کہ ”نبی ۖ کی سیرت قرآن ہے”۔ قرآن میں ازواج اور لونڈیوں کے بارے میں کیا احکام ہیں؟۔اس کا صحیح تجزیہ قرآن وسنت کی روشنی میںکب کسی نے کیا ہے؟۔
علامہ غلام رسول سعیدی نے حنفی علامہ بدرالدین عینی کے حوالے سے رسول اللہ ۖ کی28ازواج کا ذکر کیا ۔ جن میں حضرت علی کی ہمشیرہ حضرت ام ہانی اور حضرت امیر حمزہ کی بیٹی بھی شامل ہیں۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے قرآن کی تفسیر اور صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی شرح کئی جلدوںمیں لکھ دی ۔ لندن تک ان کی کتابیں پہنچ چکی ہیں اور دنیا استفادہ کررہی ہے۔
نبی ۖ نے فرمایا کہ ” حمزہ میرے رضائی بھائی تھے اور ان کی صاحبزادی میرے لئے جائز نہیں، وہ میری بھتیجی ہے”۔ تو پھر کس طرح نبی ۖ کی ازواج میں شامل کرلیا؟۔ علامہ بدر الدین عینی نے غلط کیا لیکن علامہ غلام رسول سعیدی نے کیوں نقل کیا ہے؟۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے بڑا کمال کیا تھا کہ ”سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز پر مخالفت میں اپنی رائے دی تھی” اور مفتی تقی عثمانی نے بھی اچھا کیا کہ اپنی کتابوں سے سورہ فاتحہ کا جواز نکالنے کا اخبار میں اعلان کردیاتھا۔ اب مفتی منیب الرحمن نے اپنا فرض ادا کرنا ہے ۔ جاہل پیروں سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے لیکن اس سے زیادہ نقصان علماء کے غلط علمی معلومات لکھنے سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ ام المؤمنین ام حبیبہ سے نبی ۖ نے فرمایا کہ مجھ پر اپنی بیٹیاں پیش نہ کرو۔ نبی ۖ کی وہ سوتیلی بیٹیاں تھیں۔ جو آپ پر حرام تھیں۔ اگرنبی ۖ کوامیر حمزہ کی بیٹی کی پیشکش ہوئی اور نبی ۖ نے منع فرمایا کہ میری بھتیجی ہے تو پھر اس کو ازواج کی فہرست میں لکھنا کتنا گھناؤنا جرم ہے؟۔
بخاری کا دوسرا مشہور شارح علامہ ابن حجر عسقلانی شافعی ہے۔صحیح بخاری میں ہے کہ نبی ۖ کے پاس لڑکی ابنت الجون باغ میں لائی گئی ۔ کمرے میں نبی ۖ نے کہا کہ خود کو مجھے ہبہ کردو۔ اس نے کہا کہ کیا ملکہ خودکو بازارو کے حوالے کرسکتی ہے؟ نبیۖ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو اس نے کہا کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ نبیۖ نے فرمایا قد عذت بمعاذ جس کی پناہ مانگی جاتی ہے اس کی پناہ مانگ لی ہے اور اس کو دوکپڑے دئیے اورکسی سے کہا کہ اس کو اپنے گھر پہنچادو۔
علامہ ابن حجر عسقلانی نے لکھ دیا کہ ” سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب نبی ۖ سے نکاح نہیں ہوا تھا تو اپنے پاس خلوت میں کیسے بلایا۔ نکاح کے بغیر تو وہ اجنبی تھی ؟ اسکا جواب یہ ہے کہ جب نبی ۖ نے انکو اپنے پاس طلب کرلیا تو یہ نکاح کیلئے کافی تھا، چاہے وہ لڑکی راضی نہ ہو اور اس کا باپ یا ولی بھی اس نکاح کیلئے راضی نہ ہو”۔ علامہ عسقلانی کا سوال و جواب صدر وفاق المدارس پاکستان مفتی تقی عثمانی کے استاذ مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی بخاری کی شرح ”کشف الباری” اور صدر تنظیم المدارس مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کے استاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی بخاری کی شرح ”نعم الباری ” میں بھی نقل کیا۔ نبیۖ کے خاکے بنانے کا اصل سبب یہ علماء ومفتیان ہیں جن کی وجہ سے دنیا نبیۖ سے بدظن ہوگئی ہے کہ صحیح بخاری کی مستند شرح میں کیا آئینہ پیش کیا گیا ہے؟۔
اسرائیل حماس حملے سے عسقلان پر قبضہ سے خائف نہیں بلکہ وہ عسقلانی سے منسوب نبیۖ کی سیرت سے خوفزدہ ہے جس پر اگر مجاہدین کا بس چل جائے تو زبردستی سے لڑکیوں کو ان کی مرضی اور انکے باپ کی مرضی کے بغیر نکاح پر مجبور کرنے کو سنت اور اپنا حق سمجھ لیں۔ مولانا سلیم اللہ خان نے کشف الباری میں مزید تڑکا لگانے کیلئے لکھ دیا کہ ”ایک جاہل عرب نے اپنے اشعار میں کہا کہ عورت کیساتھ ناجائز جبری زیادتی میں جتنا مزہ ہے اتنا رضا سے کرنے میں نہیں ۔میں نے بہت ساری لڑکیوں کو اس حال میں حاملہ بنادیا ہے کہ جب وہ انکار کررہی تھیں اور میں نے زبردستی ان کیساتھ کرلیا”۔
حالانکہ قرآن میں احسن القصص کہانی حضرت یوسف علیہ السلام کی ہے جب زلیخا نے کوشش کی لیکن آپ کو اللہ نے بچایا تھا۔ رسول اللہ ۖ کی سیرت کا یہ قصہ اس سے بھی زیادہ بہترین تھا۔ ابنت الجون کے نومسلم والد نے نبیۖ کو پیشکش کی کہ عرب کی خوبصورت ترین لڑکی نکاح میں دوں؟۔ نبیۖ نے حامی بھری۔ حق مہر طے ہوا۔ ازواج مطہرات نے ابنت الجون سے سوکناہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا میک اپ کیا اور آداب سمجھائے کہ جب نبیۖ یہ کہیں تو یہ کہنا اور پھر اللہ کی پناہ مانگ لینا۔ ہدایات پر عمل کا نتیجہ تھاکہ نبیۖ نے سمجھا کہ وہ خوش نہیں ہے اور باپ نے اپنی مرضی مسلط کرکے بھیج دیا۔ نبیۖ نے یہ معمول رکھا تھا کہ رخصتی کے تمام مراحل سے گزرنے کے باوجود بھی پہلی دفعہ میں مکمل جانچ پڑتال کرتے اور اس معمول کا ازواج مطہرات کو ادراک تھا۔ اگر درست پہلو دنیا کے سامنے لایا جائے تو نبیۖ کے خلاف توہین آمیز کارٹونوں کا سلسلہ بھی یقینی طور پربند ہوجائے گا۔
مولانا فتح خان ٹانک اور پختونخواہ اور جمعیت علماء اسلام کی معتبر شخصیت نے کہا تھا کہ ”مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ جمعیت علماء اسلام میں شمولیت اختیار کرکے اپنے مشن کو تشہیر کریںجو عہدہ چاہیے وہ بھی دیں گے”۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مولانا فضل الرحمن ، جماعت اسلامی، تحریک لبیک اور دوسری مذہبی وسیاسی جماعتیں اسلام کی درست تعبیر اپنے پلیٹ فارم سے خود بیان کرنا شروع کردیں تو عوام میں ان کی گرتی ہوئی ساکھ کو بہت بڑا سہارا ملے گا اور پاکستان سے اسلامی انقلاب کا پوری دنیا میں ذریعہ بھی بن جائے گا۔ مسلم لیگ ن ،پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے علاوہ آزاد ارکان بھی اسلامی تعلیمات کو سمجھ کر عوام سے بڑے پیمانے پر ووٹ لے سکتے ہیں۔ مولانا فتح خان کی مسجد میں مولانا فضل الرحمن نے جمعہ کی تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”لوگ اسلام کو سخت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اسلام تو بہت تحفظ دیتا ہے۔ اگر کسی مرد اور عورت کو بدکاری کی حالت میں ایک شخص دیکھ لے تو اگروہ گواہی دے گا تو اس کو سزا ملے گی اور دوشخص دیکھ لیں اور گواہی دیں تو بھی دونوں کو سزا ملے گی اور تین افراد دیکھ لیں اور گواہی دیں تو تینوں گواہوں کو بھی سزا مل جائے گی اور بدکاروں کو تحفظ ملے گا۔ اس سے زیادہ نرمی اور کیا ہوسکتی ہے ؟۔ اسلئے عوام اسلام کیلئے علماء کو ووٹ دیں”۔
اگر مولانا صاحب یہ وضاحت بھی کردیتے تھے کہ قرآن کا حکم ہے کہ اپنی بیگم کو بھی غیرت کے نام پر قتل نہیں کرسکتے ۔ اگر عورت اپنے شوہر کو جھوٹا کہہ دے تو عورت کو سزا نہیں ہوگی اور اللہ نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ بدکار مرد اور عورت دونوں کوایک سزا100،100کوڑے مارو۔ کچھ لوگوں کو اس پر گواہ بھی بنالو۔ اور اللہ نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ بدکار عورت کا نکاح بدکار مرد یا مشرک سے کرادو۔ اگر زانیوں کو قتل کی سزا دینے کے بجائے ان کی ایک دوسرے سے شادی کرادی جاتی تو مرد غیرت کے نام پر قتل کیلئے مجبور نہ ہوتا اور عورت جس کیساتھ لائن لڑاتی ،اس کی شادی بھی اسی سے کرادی جاتی۔ افغانستان کے طالبان کی بھی مولوی کی جعلی شریعت سے بالکل جان چھوٹ جاتی اور ان کو پوری دنیا میں پذیرائی بھی مل جاتی۔
قرآن اور عربی میں غلام کیلئے عبد اور لونڈی کیلئے ” امة” کا لفظ ہے۔ مشرکوں اور مشرکات کے مقابلے میں مؤمن عبد اور مؤمنہ امة کو قرآن نے بہتر قرار دیا۔ اسی طرح طلاق شدہ و بیوہ خواتین اور غلاموں اور لونڈیوں کا نکاح کرانے کی ترغیب دی ہے۔ کنواری لڑکیوں کو بھی بدکاری یا بغاوت پر مجبوری کی حد تک پہنچانے کے بجائے ان کی مرضی سے نکاح کا حکم دیا ہے۔ لیکن ان آیات کا غلط ترجمہ اور تفسیر کرنے سے قرآنی حکم کا بیڑہ غرق کیا گیاہے۔ شیعہ حسن الہ یاری نے سوشل میڈیا پر بتایا کہ حضرت ابوبکر کے والد چکلہ کے ملازم تھے اور جسم فروشی کے دھندے زمانہ جاہلیت میں رائج تھے۔ حالانکہ جس آیت میں لونڈی کا ترجمہ کیا گیا ہے تو وہاں لونڈی مراد نہیں ہے کہ زبردستی سے بدکاری پر مجبور مت کرو۔ آیات کی جعلی تفاسیر کرنے کیلئے جعلی روایات گھڑی گئیں ہیں۔ جس طرح شیعہ لڑکی دعا زہرہ نے بھاگ کر شادی کی تو اس تعلق کو قرآن اور حنفی مسلک بہت واضح کرسکتا ہے کہ یہ غلط تھا مگر حرامکاری نہیں تھی اور اگر اس کا باپ مجبور کرکے کسی اور سے جبری نکاح کرائے تو یہ بھی غلط ہوگا لیکن اس کو حرام کاری نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس میں دعازہرہ کی مجبوری ہوگی۔ کاش ! ایک ایسا عمل ریاست کی طرف سے ہی ہوجائے کہ پاکستان کے علماء کرام اورطلباء عظام کے سامنے ان چیزوں کی وضاحت ہوجائے۔ نہ صرف ہماری فرقہ وارانہ منافرت ختم ہو بلکہ دنیا میں بھی انسانی حقوق کے حوالے سے اسلام کا بول بالا ہو۔ علماء سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی دکانیں ختم اور مدارس کو ویران کرنے کے درپے ہیں حالانکہ ہماری وجہ سے پھر ان کی عزتوں میں بھی اضافہ اور مدارس بھی آباد ہوں گے۔
قرآن میں ماملکت ایمانکم کا ذکر جہاں ہے وہاں اس کا مفہوم سیاق وسباق سے واضح ہے۔ اس سے کہیں لونڈی وغلام مراد ہیں اور کہیں پر متعہ ومسیار مراد ہے۔
سورہ مائدہ آیت5میں اللہ نے واضح کیا ہے کہ مؤمنات اور اہل کتاب کی محصنات سے نکاح کرناجائز ہے۔سورہ النساء میں جہاں محرمات کی فہرست چوتھے پارہ کے آخر اور پانچویں پارہ کے شروع تک بیان کی گئی ہے تو اس فہرست کے آخر میں دو بہنوں کا اکٹھا کرنا اور پھر محصنات کا بالکل آخرمیں ذکر ہے اور اس سے حرمت میں نرمی کی طرف رہنمائی ہے۔ مولانا مودودی نے ان دو جڑواں بہنوں کو ایک ساتھ جمع کرنے کا فتویٰ دیا تھا جن کے جسم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔
والمحصنٰت من النساء الا ما مالکت ایمانکم کی تفسیر میں اختلاف شروع سے رہاہے۔ بخاری کی شرح میں مولانا سلیم اللہ خان نے اس کا تفصیل سے ذکر کیاہے۔ ایک صحابی نے کہا کہ ” اس سے مراد ایسی عورت ہے جو کسی کے نکاح میں ہو اور وہ اپنے مالک کی لونڈی بھی ہو”۔ لیکن جمہور کا قول یہ ہے کہ” کفار کی عورتیں مراد ہیں جو جنگ میں قید کی جائیں”۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا ہے کہ ” لونڈیوں سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اپنی قوم کی نہ ہوں ۔ اپنی قوم کی4اوردوسری قوم کی لاتعدادعورتوں سے نکاح جائز ہے۔عرب میں عجمی عورتوں کی حیثیت لونڈیوں کی تھی اور ہمارے ہاں دوسری اقوام کی”۔
غرض علماء لونڈیوں کی تعریف اور سورہ النساء کی آیت کے ترجمہ وتفسیر میں تذبذب مذاہب میں گرفتار ہیں۔ قرآن میں ایسے احکام بھی ہیں جن کا تعلق بعد کے ادوار سے ہوسکتا ہے۔
محصنات عربی میں تین معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ایک شادی شدہ جس میں بیوہ اور طلاق شدہ بھی شامل ہے۔ دوسری پاکدامن اور تیسری شادی شدہ۔ کیا شادی شدہ مراد لینے سے اس بات میں عزت نہیں ہے کہ وہ بیگمات مراد لی جائیں جن کی اپنی ایک مسلمہ حیثیت ہو اور وہ اپنی حیثیت برقرار رکھنا چاہتی ہوں؟۔ جیسے نشانِ حیدر کے شہداء کی بیگمات ہیں۔ اس طرح کی دوسری ایسی خواتین ہیں جو اپنا ایک سٹیٹس شوہر کی وجہ سے رکھتی ہیں اور وہ اپنا اسٹیٹس کھونا نہیں چاہتی ہیں؟۔ پھر ان کے ساتھ نکاح کی جگہ ایگریمنٹ کا معاملہ زیادہ مناسب ہوگا جس کی وجہ سے وہ حکومتی مراعات شوہر کی پینشن وغیرہ کو بھی برقرار رکھ سکتی ہیں۔ قرآن میں کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ہے کہ لوگوں کو غلام یا لونڈی بناؤ۔ نبی ۖ نے بھی کسی کو لونڈی اور غلام نہیں بنایا ہے۔ البتہ پہلے ایک ایسا ماحول تھا جہاں لونڈیوں اور غلاموں کی اتنی کثرت تھی جتنی آج فارمی مرغیوں کی ہے۔ اسلئے اسلام نے ان ذرائع کو ختم کردیا جن کی بنیاد پرغلام اور لونڈیاں بنائی جاتی تھیں۔ جنگوں میں تربیت یافتہ لونڈی و غلام کہاں مل سکتے تھے؟۔ البتہ جو لوگ پہلے سے غلام یا لونڈی ہوں تو جنگوں میں ان کو اپنی تحویل میں لینا ممکن تھا۔ کوئی بیوقوف ہی ہوگا جو یہ سوچتا ہوگا کہ نبی ۖ نے بڑا احسان کیا کہ ابوسفیان کو غلام اور اس کی بیگم حضرت ہندکو لونڈی نہیں بنایا تھا۔ یہ ممکن بھی نہیں تھا۔ ایسا غلام اور لونڈی گھر میں کون پال سکتا تھا؟ اور اس سے زیادہ خطرناک بات کیا ہوسکتی تھی؟۔ بدری قیدیوں کو قید رکھا گیا تھا اور ان کو غلام بنانا کہاں ممکن تھا؟۔
مال غنیمت میں جس طرح سے اموال ملتے تھے اس طرح لونڈی اور غلام بھی ملتے تھے۔ البتہ عورتوں، بچوں اور بچیوں کی مجبوری اور تربیت پھر بھی ممکن ہوتی تھی۔ جب صلح حدیبیہ کے بعد کچھ خواتین مکہ سے بھاگ کر مدینہ آئیں اور نبیۖ نے ان کو لوٹانے کے بجائے رکھنے کا فیصلہ کیا تو اللہ نے حکم دیا کہ ان کے حق مہر اور خرچہ وغیرہ ان کے شوہروں کو جاہلیت کے دستور کے مطابق ان کو لوٹادو اور تم بھی کافر عورتوں کو اپنے پاس رکھنے کے بجائے واپس بھیج دو۔ ان کو چمٹائے مت رکھو۔ اگر وہ حق مہر واپس نہ کریں تو بھی در گزر سے کام لو۔ سورہ ممتحنہ کی ان آیات کا ترجمہ بھی درست نہیں سمجھا گیا جس کی وجہ سے غلط تفسیر لکھ دی گئی۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ جانچ پڑتال کے بعد ان خواتین کو واپس مت بھیجو۔ وہ اپنے ان شوہر کیلئے حلال نہیں اور نہ یہ ان کیلئے حلال ہیں۔ جن خواتین نے ہجرت نہیں کی تھی توان کیلئے یہ سوال ہی نہیں تھا۔ حضرت ام ہانی حضرت علی کی بہن نے بھی ہجرت نہیں کی تھی اور وہ مسلمان تھی اور شوہر مشرک تھا۔ حضرت علی نے اسوجہ سے فتح مکہ کے موقع پر اپنے بہنوئی کو قتل کرنا چاہاتھا لیکن پھر ام ہانی کے کہنے پر نبی ۖ نے پناہ دی تھی۔ نبی ۖ نہ ہوتے تو مسئلہ حضرت علی سے بھی بگڑجاتا اور اللہ نہ ہوتا تو سورہ مجادلہ بھی نازل نہ ہوتی۔ جس میں جاہلیت کا مذہبی فتویٰ باطل کردیا گیا۔ اللہ نے نبی ۖ سے فرمایا کہ ان چچا کی بیٹیوں کو تیرے لئے حلال کیا ہے جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ ام ہانی توامہات المؤمنین میں شامل نہیں ہوسکتی تھی پھر علامہ بدرالدین عینی اور غلام رسول سعیدی نے کیوں شامل کیا ؟۔ اللہ نے یہ بھی واضح کیا کہ جو لونڈیاں آپ کو غنیمت میں ملی ہیں وہ بھی حلال ہیں تاکہ ابہام نہ رہے لیکن پھر نبی ۖ کو کسی بھی عورت سے نکاح کرنے کا اللہ نے منع کیا اور پھر الاماملکت یمینک کی اجازت دیدی ۔ ام ہانی کے تعلق کو لونڈی اور نکاح دونوں والا قرار نہیں دیا جاسکتا ہے لیکن ایگریمنٹ ، متعہ اور مسیار ہوسکتا تھا۔ ام ہانی ان محصنات میں شامل تھی جن سے ملکت ایمانکم کی بنیاد پر تعلق ہوسکتا تھا۔
ہمارے ہاں بڑھتے ہوئے معاشرتی مسائل اور فحاشی کے معاملات کو روکنے کیلئے قرآن وسنت کا درست نظام لانا ہوگا۔ اکابر علماء ومفتیان اور دینی ومذہبی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں سے ان معاملات پر بات کرنے کے ہم خواہاں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں میں جرأت ہو تو ان کو بھی تفصیل کیساتھ بالمشافہہ معاملہ سمجھا سکتے ہیں اور مقتدر طبقے کو بھی سمجھنانے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ قرآن وسنت، اسلام اور مسلمانوں کی ایسی خدمت ہے کہ جس سے ماحول بدلے گا۔ دنیا کو قرآن سمجھنے کی دیر ہے پھر انقلاب ایک دن کا کام ہے۔
ہم نے سن 2018میں جبPTMبن گئی تھی تو تجویز پیش کی تھی کہ پشتون تحفظ موومنٹ کی جگہ مظلوم تحفظ موومنٹ بنایا جائے ۔ آجPTMاور بلوچ ایک ساتھ کھڑے ہیں تو اچھا ہے لیکن یہ سلسلہ مظلوم قومی اتحاد تک پہنچ رہاہے۔ جس کی قیادت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کررہی ہیں۔ بلوچ خاتون نے یہ واضح کیا ہے کہ ہم گلہ شکوہ کرنے نہیں آئے ہیں بلکہ حق مانگتے ہیں اور یہ بالکل درست فیصلہ ہے اسلئے کہ بھیک مانگنے سے کچھ ملتا تو پاکستان پوری دنیا میں خلافت کا نظام قائم کرچکا ہوتا۔
جو فقر ہوا تلخیٔ دوراں کا گلہ مند اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
ہم نے بھی بہت مشکلات دیکھی ہیں۔ فوج نہیں علماء کرام اور تبلیغی جماعت جیسی نرم جماعت کی زیادتیوں کو بھی دیکھا ہے اور فوج و مجاہدین کی تو تربیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ مار دھاڑ پر گزارہ کرتے ہیں۔ ان میں بھی اسلام کی عظیم تعلیمات کی وجہ سے بہت بڑی تبدیلی آسکتی ہے اور مار دھاڑ ختم ہوسکتی ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv