طلاق اور حلالہ Archives - Page 2 of 12 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

حتی تنکح زوجًا غیرہ کو سمجھنے کیلئے غیرتمند معاشرہ ضروری ہے؟

حتی تنکح زوجًا غیرہ کو سمجھنے کیلئے غیرتمند معاشرہ ضروری ہے؟

اللہ نے فرمایا : فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ (البقرہ آیت230)
ترجمہ:۔” پس اگر اس نے طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے ”۔ جب شوہر بیوی کو طلاق دے دیتا ہے تو مدارس کے مفتی صاحبان فقہ کی کتابوں سے اس آیت کا حوالہ دے کر فتویٰ دیتے ہیں کہ جب تک وہ کسی اور شوہر سے شرعی حلالہ نہ کروائے تو اس کیلئے حلال نہیں۔
یورپ وامریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے مسلمان اور مشرقی اقدار کے غیور لوگ جب اس معاشرے کا حصہ بنتے ہیں اور ان کے بچے بچیاں اسی ماحول اور تعلیمی اداروں میں جوان ہوجاتے ہیں تو ان کو خاص طور پر لڑکیوں کے بارے میں فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ وہ دوسرے لڑکوں کیساتھ آزادانہ دوستی کریں گے تو ان کی غیرت بالکل غارت ہوجائے گی۔ مغرب کے گورے سے غیرت نکل گئی ہے تو انگریزی میں اب غیرت کیلئے کوئی موضوع لفظ بھی نہیں ہے۔ اگر مارپیٹ اور دوسرے طریقوں سے لڑکی کے ناجائز فرینڈشپ میں رکاوٹ ڈالی جائے تو انگریز کو یہ انسانیت کے خلاف جنگل کا قانون لگتا ہے اور سمجھتے ہیں کہ یہ غلط ہے۔
اللہ کا بہت بہت شکر ہے کہ ہمارے معاشرے میں شرم، حیاء ، غیرت، ضمیر اور مشرقی اقدار باقی ہیں اور اس سلیم الفطرت کی وجہ سے ہم قرآنی آیات اور سنت کے عمل کو اچھی طرح سے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ حکم کیوں دیا ہے کہ ” پس اگر اس نے طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔
کیا انسان میں یہ غیرت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی عورت سے ازدواجی تعلق قائم کرلیتا ہے تو پھر اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد بھی اس میں یہ غیرت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی اور شخص سے نکاح کرلیتی ہے تو اس کو اذیت ملتی ہے، غیرت محسوس کرتا ہے اور اس کے ضمیر میں خلش پیدا ہوتی ہے؟۔
قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ ” نبی کو اذیت مت دو۔آپ کی ازواج مطہرات سے کبھی نکاح نہ کرو”۔
جب سورہ ٔ نور میںلعان کی آیات نازل ہوئیں تو انصار کے سردار سعد بن عبادہ نے کہا کہ میں لعان پر عمل نہیں کروں گا۔اپنی بیوی کیساتھ کسی شخص کو کھلی فحاشی کا مرتکب پاؤں تو دونوں کو قتل کردوں گا۔ نبیۖ نے انصار سے کہا کہ تمہارا صاحب کیا کہتا ہے ؟۔ انصار نے عرض کیا یارسول اللہ ۖ اس میں غیرت بہت زیادہ ہے اسلئے اس سے درگزر فرمائیں۔ اس نے کبھی کسی طلاق شدہ یا بیوہ سے نکاح نہیں کیا ہے اور جس کو بھی طلاق دی ہے تو اس کو کسی اور سے نکاح نہیں کرنے دیا ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ میں اس سے زیادہ غیرتمند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرتمند ہے۔ (صحیح بخاری) علماء نے اس حدیث کی غلط تشریح کردی کہ نبی ۖ نے سعد بن عبادہ کی غیرت کی تائید کردی اور فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول بھی غیرتمند ہیں۔
قرآن کی واضح آیت لعان پر مسلمانوں کے اندر آج تک عمل در آمد کا سلسلہ نہیں ہوسکا ہے۔ غیرت ہی کے نام پر خواتین کو قتل کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ قرآن نے اس کی گنجائش بھی بالکل ختم کردی ہے۔ جب برصغیر پاک وہند میں انگریز کی حکومت تھی تو ہندو، مسلمان، سکھ ، عیسائی اور تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے اپنی بیگمات کو کسی غیر کیساتھ دیکھ کر قتل کردیتے تھے تو انگریز نے تعزیرات ہند میں غیرت کی بنیاد پر قتل کرنے میں گنجائش اور معاف کرنے کا قانون بنایا تھا۔ برطانوی شہزادہ چارلس نے لیڈی ڈیانا کو طلاق دے دی توجب وہ دودی الفائد عرب مسلمان کیساتھ پیرس فرانس میں حادثے کا شکار ہوگئی تو برطانیہ کی عدالت میں اس پر قتل کا مقدمہ درج کیا گیا کہ شاہی خاندان نے غیرت کی وجہ سے قتل کیا ہے۔
لوگ منگیتر سے شادی نہ کرسکنے پر بھی اس کی دوسری جگہ شادی کرنے پر قتل کرتے ہیںتو اپنی بیوی کیلئے دوسرا شوہر برداشت کرنا بہت بڑے دل گردے کا کام ہے۔ جب شہباز شریف اور غلام مصطفی کھر بیرون ملک سے پرویزمشرف کے دور میں پابندی کے بعد ایک پرواز میں سفر کرکے آئے تو پیپلزپارٹی کے جیالے صحافی اطہر عباس نے اس پر طعنہ زنی کے خوب تیر برسائے تھے کہ شہبازشریف نے تہمینہ کھر سے رشتہ کیا ہے اور دونوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟۔ خاور مانیکا کا بشریٰ بی بی کو چھوڑ کر عمران خان سے رشتہ بھی پنجابی عوام کو بھی بہت عجیب اور انوکھا لگ رہاتھا۔ خیر یہاں بنیادی مقصد قرآنی آیت کے اصل مفہوم کو سمجھانا ہے۔
آیت229البقرہ میں تفصیل ہے کہ” دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق دے دی تو تمہارے لئے حلال نہیں کہ عورت کو جو کچھ بھی دیا کہ اس میں سے کچھ واپس لو، مگر کوئی ایسی چیز ہو کہ اگر واپس نہ کی گئی تو دونوں میں اس سے رابطہ ہوجائے گا اور دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہی خوف ہو تو پھر دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ میں دی جائے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں،ان سے تجاوزمت کرو اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہ لوگ ظالم ہیں”۔
اس میں زبردست حدود بیان کی گئی ہیں۔1:تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے اور تیسرے مرحلہ میں عدت کے اندر رجوع نہیں کیا بلکہ طلاق دے دی۔ آیت کا یہ حصہ احادیث میں تفصیلی ہے اور نبی ۖ نے فرمایا کہ قرآن میں تیسری طلاق آیت229البقرہ میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ تسریح باحسان ہے اور یہ واضح فرمایا کہ تین طہروحیض کی عدت کیساتھ تین مرتبہ طلاق کا تعلق ہے۔
2:آیت میں یہ حد بھی واضح کی گئی ہے کہ اس حتمی طلاق کے بعد شوہر کیلئے جائز نہیں کہ جو کچھ بھی دیا ہو اس میں کچھ بھی واپس لے مگر جب دونوں اور فیصلہ کرنیوالے خوف رکھتے ہوں کہ اللہ کی حدود پر یہ دونوں قائم نہیں رہ سکیںگے۔ یعنی جدائی کے بعد شوہر دی ہوئی چیزواپس نہیں لے سکتا اس جدائی میں باہوش وحواس دونوں کا نہ صرف کردار ہو بلکہ فیصلہ کرنے والوں کا بھی کردار ہو۔اور اس پر اتفاق ہوجائے کہ آئندہ کیلئے صلح کا دروازہ بند ہے، اختلاط کی کوئی صورت نہ چھوڑی جائے۔ یہ آیت کے ظاہری الفاظ میں واضح حدود ہیں۔
قرآن میں آیت229میں جن حدود کی وضاحت کردی گئی ہے تو پھر آیت230میں معاملہ واضح ہے کہ اللہ نے صرف اور صرف اسلئے اس طلاق کے بعددوسرے شوہر سے نکاح کرنے کو ضروری قرار دیا ہے کہ جب سابق شوہر سے رجوع کرنا نہیں تو پھر سابق شوہر اس عورت کی اپنی مرضی سے نکاح میں کوئی رکاوٹ نہ بنائے۔ جبکہ اس کے علاوہ قرآن کی تمام آیات میں طلاق کے بعد عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی اور اصلاح وصلح کی شرط پر معروف طریقے سے رجوع کی کھل کراجازت دی ہے۔
جب یزیدی آمریت کے بعد لوگوں میں قتل و غارت گری کا خوف، زبردستی سے نکاح اور جبری طلاق کارواج عام ہوگیا اور لوگوں میں غیرت وحمیت کا وہ معیار نہیں رہاہے جس کا اسلام تقاضہ کرتا ہے تو پھر سب سے بڑا معاملہ یہ بھی وقت کے گزرنے کیساتھ ساتھ پیش آیا کہ قرآن کی سمجھ ختم ہوتی گئی۔ لوگوں نے آیت کو سمجھ لیا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ” جب شوہر اپنی بیوی کو تین طلاق دیدے تو اس کیلئے تب حلال ہوگی کہ جب کوئی دوسرا شخص اس میں اپنا آلۂ تناسل داخل کرے گا اور جس طرح چھری ذبح کرنے سے مرغا یا بکرا حلال ہوتا ہے اسی طرح عورت کو بھی دوسرا شوہر دخول کے ذریعے پہلے کیلئے حلال کرسکتاہے”۔
حالانکہ قرآن کی آیات بالکل واضح تھیں کہ یہ صرف اس صورت میں ہے کہ جب صلح کا پروگرام نہ ہو اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے بار بار واضح کردیا ہے کہ صلح کی شرط پر عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع ہوسکتا ہے۔ ان تمام آیات میں بھی یہ واضح ہے کہ صلح واصلاح ، باہمی رضامندی اور معروف طریقے کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے لیکن افسوس کہ تمام آیات میں صلح اور معروف کی شرط کو بھی نظر انداز کیا گیاہے۔
میرے دادا سیدامیر شاہ اور پردادا سید حسن شاہ ہماری جامع مسجد کانیگرم وزیرستان کے امام اور خطیب تھے۔جب میرے والدسید مقیم شاہ نے مسجد گرادی تاکہ تعمیر نو کرلے تو دادا سیدامیر شاہ نے کہا تھا کہ مسجد گرائی ہے اور اب بنا نہیں پائے گا۔ اچھی عمارت کی تعمیر میں دیر لگتی ہے ۔ پھر میرے والد نے مسجداچھی تعمیر کردی۔
علماء کرام فکر مند ہیں کہ سید عتیق الرحمن گیلانی نے مدارس کے نصاب کا کباڑ خانہ بنادیا۔اب اس کی تعمیر کیسے کرے گا؟۔ میرے دل میں علماء کرام کا بہت احترام ہے ۔ میرے اجداد علماء ومشائخ تھے اور میں نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی ودیگر مدارس کے اساتذہ کرام سے نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ نصاب کے معاملے میں بہت حوصلہ بھی پایا ہے۔ دیوبند اور بریلوی بعد کی پیداوار ہیں۔ سیدعبدالقادر جیلانی سے میرے پردادا سید حسن شاہ اوردادا سیدامیر شاہتک علماء اور دینی وقومی پیشوا تھے۔ اگر زندگی رہی تو مدارس کے نصاب میں کلیدی کردار ادا کروں گا اورمنبر ومحراب عوام کیلئے دینی اوردنیاوی پیشوائی کا مرکز ہوں گے ۔انشاء اللہ تعالیٰ
تین طلاق اور اس سے رجوع کے حوالہ سے اپنی کتابوں اور اخباری مضامین کے علاوہ سوشل میڈیا کی ویڈیوز کے ذریعہ قرآنی آیات، احادیث صحیحہ ، صحابہ کرام اور اصول فقہ کے حوالہ سے وضاحتیں کرچکا ہوں اور یہ سلسلہ جاری ہے تاکہ مسلمان ایک بہت بڑی غلط فہمی کی دلدل سے نکل جائیں۔ عورت کے اختیارات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح کیا ہے اور مذہبی طبقات نے ان کے اختیارات کو سلب کرلیا ہے اسلئے قرآن کی آیات کے ترجمہ اور تفاسیر پر بہت منکر قسم کے اختلافات ہیں۔ سنی مکتبہ فکر اختلافات کا حل دیکھ کر حقائق بھی مان لیںگے لیکن شیعہ مکتب کے لئے اپنے مسلک سے انحراف تھوڑا مشکل ہوگا اسلئے کہ ان کی فقہ جعفریہ ایک ہے اور جب ان کو اپنا فقہ قرآن کی واضح آیات کے بالکل خلاف لگے گا تو وہ بھی وحدت امت میں آجائیں گے۔ مشکل یہ ہے کہ قرآن کی طرف تمام مکاتب نے رجوع نہیں کیا جس کی قرآن میں شکایت بھی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن کو سمجھنے کیلئے علماء ، معاشرے اور برسراقتدار طبقے کا غیرت مند ہونا انتہائی ضروری ہے ۔جب میاں بیوی ، معاشرے،برسراقتدار طبقے اور مفتی کی غیرت ختم ہوچکی ہو تو پھر اسلام سمجھ نہیں آسکتا ہے!

قرآن کو سمجھنے کیلئے علماء ، معاشرے اور برسراقتدار طبقے کا غیرت مند ہونا انتہائی ضروری ہے ۔جب میاں بیوی ، معاشرے،برسراقتدار طبقے اور مفتی کی غیرت ختم ہوچکی ہو تو پھر اسلام سمجھ نہیں آسکتا ہے!

فحش لاہوری عورت سے بے غیرت فوجی کا نکاح اورمفتی تقی عثمانی کا ایک انتہائی بیہودہ غلیظ فتویٰ

کہاںنبیۖ کا ایلاء اور تفویض طلاق پراللہ کاحکم اور کہاںیہ بے غیرت اور بدکردار جوڑا؟

سوال میں تاریخ کے تضادات کی زبردست بھر مار ہے۔غلط اور بیہودہ مسائل پرتنبیہ کرنے کی جگہ پیسہ لے کرمرد کے حق میں عورت کا سکون تباہ کرنے کا فتویٰ دیدیا گیا؟

مسئلہ غلط سمجھنے کی بناء پر تفویضِ طلاق محقق نہ ہونے کے باوجود طلاقِ بائن کا وقوع سمجھنا۔ فتاوی عثمانی ص404تا409انتہائی بے غیرتی پر مبنی سوال وجواب

فتویٰ میں یہ تأثر ہے کہ” فوجی اپنے بچوں کی ماں پر غیرت نہیں کھاتے تو مادرِ وطن پر کیا غیرت کھائیں گے؟” اگر نبیۖ کی توہین پر غیرت نہیں آتی توپاک فوج اپنی توہین پرغیرت کھائے

مفتی تقی عثمانی واضح کردیتا کہ فحاشی کے ارتکاب کی صورت کو نبیۖ کی ذات اور ازواج مطہرات سے مشابہ قرار دینے پر توبہ کرو۔فحاشی میں طلاق ناپسندیدہ عمل نہیں بلکہ تم تو لعان کرو

کسی نے انتہائی عیاری سے سوال مرتب کرکے کچھ دے دلا کر فتویٰ لیا ہے تاکہ عوام الناس کا علماء ومفتیان پراعتماد ختم ہو ۔علماء میرے لئے نہیںبلکہ اللہ اور اسکے رسولۖ کیلئے اُٹھ جائیں

سوال : ۔ میری شادی لاہور میں24جولائی1953کو یعنی چوبیس سال قبل نجمہ خاتون سے ہوئی، نجمہ خاتون کے ماں باپ نہیں تھے۔ اپنی خالہ اور پھر خالہ کی وفات کے بعد خالہ زاد بہنوں کے پاس پرورش پائی۔ میری شادی ان کی خالہ زاد بہن کے ذریعے سے ہوئی۔ شادی سادہ طریقے پر ہوئی ۔ مہر مبلغ پانچ ہزار معجل عندالطلب قرار پایا۔ میں پاکستان ائیرفورس کا ملازم تھا، پانچ اولادیں ہوئیں، تنخواہ قلیل تھی لیکن زندگی ہنسی خوشی سے گزر ی، اس کے بعد میری بیوی نے مانع حمل دوائیں استعمال کرکے اپنے کو مزید اولاد سے بچالیا (چونکہ کالج میں داخلہ لے لیا تھا اور مزید بچوں کی پیدائش تعلیم میں مانع ہوسکتی تھی)۔
جب میری شادی ہوئی تو وہ معمولی پڑھی لکھی تھی، گھر میں پڑھانا شروع کیا۔ پہلی بچی ہونے والی تھی اُسے آٹھویں جماعت کا کورس پڑھانا شروع کیا ۔1960میں تیسرابچہ پیدا ہوا تو اس کو میٹرک کا امتحان دلوایا، وہ دو تین پرچوں میں فیل ہوگئی۔1969میں بچی میٹرک کا پرائیویٹ امتحان دے رہی تھی ، بیوی کو ساتھ پڑھایا اور دونوں کا امتحان دلادیا، خدا کے فضل سے دونوں کامیاب ہوگئیں۔ بعد میں بچی نے بی اے کرلیا اور بیوی کو طبیہ کالج کراچی میںچارسالہ کورس کیلئے داخلہ دلوادیااور میں نے یہ اس خیال سے کیا کہ اگر میں مرجاؤں تو میری بیوی کسی پر بار نہ بنے اور عزت کیساتھ اپنا پیٹ بھر کر بچوں کی پرورش و تعلیم دلاسکے۔
1965کی سترہ دن کی جنگ میں ایک دم بوڑھا ہوگیا ، جب سرگودھا سے واپس آیا تو میرے سر کے آدھے سے زیادہ بال سفیدہوچکے۔12فروری1964کو پاکستان ائیر فورس کی طرف سے میں دو، تین سال کیلئے ابوظہبی ائیرفورس میں مقرر ہوکر چلاگیا، اس وقت میری بیوی طبیہ کالج میں زیرِ تعلیم تھیں اور میں کورنگی کریک میں رہتا تھا، جانے سے قبل ناظم آباد میں کرایہ پر مکان لیکر بیوی بچوں کو منتقل کر دیا اور چلاگیا۔
1967 میں طبیہ کالج سے چار سالہ کورس مکمل کرلیا، کالج کے ایک ساتھی جو ان سے دوسال پہلے فارغ ہوچکے تھے،وہ ان دنوں کلینک چلارہے تھے اور اپنی ہونے والی بیوی کیلئے علیحدہ کلینک چلانے کا پروگرام تھا۔ ان شرائط پر کہ ان کی زیرِ نگرانی شام کے اوقات میں کلینک پر بیٹھیں گی اور وہ جلد ہی ان کو رجسٹریشن کیلئے سر ٹیفکیٹ دیں گے اور ساتھ ہی اپنی آمدنی میں سے کچھ حصہ ان کو مل جایا کرے گا۔ لہٰذا وہ بیٹھنے لگیں ، یہ تمام باتیں میری بیوی نے مجھ کو خط کے ذریعے مطلع کیں اور میں نے اجازت دیدی، چونکہ مجھے اپنی بیوی پر مکمل اعتماد تھااور میں اس کی بات پر شک نہیں کرتا تھا ،اب تک ہماری زندگی انتہائی مسرت سے گزری تھی ۔
ابوظہبی کے دورانِ قیام میں تین ہزار ماہوار بھیجتا رہا ، دو ہزار خرچ اور ایک ہزار مکان کی تعمیر یا مکان خریدنے کیلئے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ تین ہزار خرچ ہوتے رہے اور پھوٹی کوڑی بھی جمع نہ کرسکی ، اس دوران انہوں نے دوسرا مکان ناظم آباد میں کرایہ پر لیا جس کا کرایہ چار سو روپے ماہوار تھا، اس میں ٹیلیفون بھی تھا۔ مجھے یہ کہا گیا کہ ٹیلیفون سے یہ فائدہ ہے کہ مہینے میں کم ازکم ایک بار ٹرنک کال پر بات ہوسکتی ہے، میں مطمئن بلکہ خوش تھا لیکن یہ ٹیلیفون میرے لئے سب سے بڑی پریشانی کا سبب بنا ، میری بیوی نے دوستیاں بڑھانا شروع کردیں، ماں بیٹے میں جھگڑے شروع ہوگئے ، میرے بڑے لڑکے کو ان باتوں پر اعتراض تھا ، تنگ آکر لڑکے نے مجھ کو ایک خط میں ان حالات سے مطلع کیا ، میں نے لڑکے کو بہت سخت اور ڈانٹ کر خط لکھا کہ تم نے اپنی ماں کے بارے میں ایسا کیوں سوچا؟، ساتھ ہی اپنی بیوی کو بھی کافی ڈانٹ کر سخت خط لکھا، یہ بات فروری1966کی ہے لیکن میری بیوی نے مجھے اور اپنی اولاد سے اب جھوٹ بولنا شروع کردیا اور ان کی دوستی کا سلسلہ چلتا رہا ، انتہا یہ کہ انہوں نے اپنے ایک ” بھائی” کے اشتراک میں علیحدہ کلینک کھول لی اور مجھ کو انہوں نے یہ باور کرایا کہ لڑکا شادی شدہ ہے ( جوکہ غلط تھا) ، اور ایک ڈاکٹر صاحب کا لڑکا ہے ( یہ بھی غلط تھا) ، خود میڈیکل کی تعلیم حاصل کررہاہے (یہ بھی غلط تھا) ، غرض یہ کہ مجھ سے تمام باتیں جھوٹ اور غلط لکھ کر نئی کلینک کھولنے کی اجازت لے لی ، اب حالات اور خراب ہوگئے دو، دو ماہ تک خط کا منتظر رہتا ، خیرت کی اطلاع نہیں ملتی ، روپیوں کا کوئی حساب نہیں معلوم ہورہاتھاکہ ان کے پاس کتنے کس قدر رقم جمع ہوئی ہے؟۔
دوسرے لوگوں کے خطوط کے ذریعہ معلوم ہوا کہ گھر کا ہر فرد تباہ ہورہاہے، بچے سکول نہیں جا رہے ہیں اور مسلسل ناغوں کی وجہ سے ایک بچے کا نام کٹ گیا ہے۔ غرض یہ کہ نہایت پریشان کن اطلاعات ملتی رہیں، ان حالات سے تنگ آکر ایک تفصیلی خط لکھا اور اس میں ان تمام حالات کی نشاندہی کی ، ساتھ ہی ساتھ خط میں ایک جملہ محض روانی میں تحریر کردیا : ” حالات اس قدر خراب ہوگئے ہیں کہ اللہ کو جائز کاموں میں سب سے ناپسند کام طلاق نہ ہوتا تو شاید کب کا دے چکا ہوتا ، بہر حال اگر تم چاہو تومیں اس پر غور کرسکتا ہوں۔”
حسنِ اتفاق سے میں انہی دنوں تفہیم القرآن کا معالعہ کررہاتھا اور یہ بھی محض اتفاق تھا کہ اس دن جو سورت زیرِ مطالعہ تھی وہ سورہ اَحزاب تھی، جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ ۖ پر ظاہر کیا کہ اگر تمہاری بیویاں دنیا کی آسود گیاں چاہتی ہیں تو ان کو کچھ دے کر علیحدہ کردو ،اور اگر اللہ اور رسول کا قرب چاہتی ہیں تو اس کا بڑا اجرو ثواب ہے۔ جب میں نے اس کی تفسیر پڑھی تو میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑگئے اور میں یہ سمجھا کہ میرے اس مذکورہ جملے سے میں نے اپنی بیوی کو یہ حق منتقل کردیا حالانکہ قبل ازیں میرا کوئی ارادہ یا مقصد نہ تھا اور نہ بعد میں کوئی ارادہ ہوا ،اور نہ اب ہے۔ چنانچہ میں نے اس جملے کے بعد کا سارا مضمون جو زیادہ اہمیت کا حامل نہ تھا، حذف کیا اور تفہیم القرآن کی وہ تمام عبارت جو اس سورة سے متعلق تھی نقل کی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ :” میں نے محض اتفاقیہ طور پر نادانستہ یہ جملہ لکھ دیا تھا، لیکن اب پتہ چلا کہ اگر مرد ، عورت کو طلاق کا اختیار دیدے اور وہ اس کو حاصل کرنے کے بعد مانگ لے تو ایک عدد طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے اور اسکے بعد سارا معاملہ ختم ہوجاتا ہے ، لہٰذا تم کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اچھی طرح حالات کودیکھ لو، اسی لئے میں نے تم کو پوری تفسیر نقل کرکے روانہ کی ، ساتھ ہی ساتھ میں اس تفسیر کے مطالعہ کے بعد وقت معین کر رہا ہوں یعنی24جولائی1976کو رات بارہ بجے تک تم مجھ کو اپنے جواب سے مطلع کردو۔ خیال رہے کہ یہ تاریخ ہماری شادی کی سالگر ہ بھی ہے ، تمہارا جواب30،31جولائی کو مل جائے گا۔ میں بہت بے چینی سے تمہارے خط کا منتظر ہوں ۔” وغیرہ۔ اس کے جواب میں انہوں نے جو خط بھیجا اس میں اس سے متعلق جو جملہ تھا وہ اس طرح کا تھا :” آپ کو یاد ہوگا میں نے ایک بار کہا تھا کہ ہماری زندگی میں لفظ طلاق اگر کبھی مذاق میں بھی آیا تو میں سمجھوں گی کہ ہوگئی، اس خط میں تو آپ نے لفظِ طلاق سینکڑوں بار استعمال کیاہے”۔
میں نے انکے جواب سے سمجھا کہ طلاق مانگ لی ، چنانچہ میں نے ان کو خط لکھا اس میں جو جملہ تحریر تھا وہ یہ تھا :” آپ کے خط کے بموجب ایک عدد طلاق بائن واقع ہوگئی ہے ، باقی طلاقیں خود بخود وقت مقررہ پر واقع ہوجائیں گی۔ جس کی تفصیل میں اپنے پچھلے خط میں تحریر کرچکا ہوں۔” ساتھ ہی ان کو ہدایات کیں کہ اپنی رہائش کیلئے کسی جگہ کا انتخاب کرلیں، حق مہر ادا کرچکا ہوں ، پھر بھی آپ کہتی ہیں کہ نہیں ملاتو جو رقم آپ کے پاس بینک میں جمع ہے اس میں سے آپ اپنا مہر لے سکتی ہیں ، گھر کی ہر چیز آپ کی ملکیت ہے ، البتہ بچی کی جہیز کی جو چیزیں ہیں وہ اس کو دے دیںاور اگر بچوں کے کپڑے دے دیں گی تو آپ کا بڑا احسان ہوگا۔ ساتھ ہی میں نے اپنی بچی کو تفصیلی خط لکھا کہ تمہاری ماں کو میں نے محض اتفاقیہ یہ جملہ لکھا تھا اور انہوں نے فوراً طلاق حاصل کرلی ، میں ان کو زندگی کے کسی حصے میں سکون سے نہیں رہنے دوں گا ، بچوں سے پوچھ لو کہ وہ کس کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں؟ اگر ماں کیساتھ رہنا پسند نہ کریں تو ان کو میرے بڑے بھائی کے گھر پہنچادو۔
اس خط کے جواب میں23اگست کو میری بیوی کا جو خط آیا اس میں انہوں نے لکھا کہ آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ نہ تو میں نے جب طلاق مانگی تھی اور نہ اب مانگ رہی ہوں ، میں نے اس خط میں آپ کو محض ایک بات یاد دلائی تھی ،آپ ذرا ذرا سی بات کو کس قدر اہمیت دے رہے ہیں۔ میرا کون ہے اور اب میں طلاق لے کر کیا کروں گی؟۔ وغیرہ وغیرہ ۔ جب یہ خط مجھ کو ملا ، میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور نمازِ شکرانہ ادا کی ، لہٰذا24ستمبر سے پہلے13ستمبر کو میں پاکستان آیا اور باقاعدہ تعلقات زن وشوہر قائم کئے ۔
اب میری بیوی کو چند لوگوں نے یقین دلایا کہ طلاق ہوچکی ، چنانچہ میں ابوظہبی سے قیام ختم کرکے جون1977کو واپس آیا تو کچھ عرصہ بعد ہی اس نے کہنا شروع کیا کہ ہماری طلاق ہوچکی ہے اور18ستمبر1977کو بچوں اور گھر کو چھوڑ کر چلی گئی اور عدالت میں تنسیخِ نکاح کا دعویٰ بھی کردیا۔ اس کا کہنا یہی ہے کہ یہ مجھ کو طلاق دے چکے ہیں۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا واقعی ان حالات میں طلاق واقع ہوگئی یا نہیں ؟۔
تنقیح:۔ صفحہ:5کے آخری خط کشیدہ عبارت اور صفحہ:6کی شروع کی خط کشیدہ عبارت کے متعلق چند باتیں وضاحت طلب ہیں ، جن کے بارے میں آپ کی زبانی عبارت زیادہ مناسب ہے ۔ لہٰذا آپ جمعہ کے علاوہ کسی دن بھی صبح9بجے دارالافتاء دارالعلوم کورنگی کے ایریا کراچی نمبر14میں تشریف لاکر ملاقات کریں۔ والسلام بندہ عبدالرؤف سکھروی ١٦/٤ / ١٣٩٨ ھ
جوابِ تنقیح :۔1:۔ حالات اس قدر خراب ہوگئے ہیں کہ اگر اللہ کو جائز کاموں میں سب سے ناپسند کام طلاق نہ ہوتا تو شاید میںکب کا طلاق دے چکا ہوتا ، بہر حال اگر تم چاہو تو اس پر غور کرسکتا ہوں۔2:لیکن اب پتا چلا کہ اگر مردعورت کو اختیار دیدے اور وہ اسکو حاصل کرنے کے بعد طلاق مانگ لے تو ایک عدد طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے اور اسکے بعد معاملہ ختم ہو جاتا ہے ۔3:ساتھ ہی ساتھ اس تفسیر کے مطالعے کے بعد وقت معین کر رہا ہوں یعنی ٢٤جولائی ١٩٧٦ء رات بارہ نجے تک تم مجھے جواب سے مطلع کردو ۔4:آپ کو یاد ہوگا میں نے ایک بار کہا تھا کہ ہماری زندگی میں لفظ طلاق اگر مذاق میں بھی آیا تو میں سمجھوں گی ہوگئی اور اس خط میں تو آپ نے یہ لفظ طلاق سینکڑوں بار استعمال کیا ہے ۔5:آپ کے خط بمو جب ایک عدد طلاق بائن واقع ہوگئی باقی طلاقیں خود بخود وقت مقررہ پر ہوجائیں گی ،جسکی تفصیل پچھلے خط میں تحریر کر چکا ہوں۔6:آپ کو کیا ہوگیا ہے ؟ نہ تو میں نے طلاق مانگی تھی ، نہ اب مانگ رہی ہوں ،میں نے اس خط میں(سیاہ )تو آپ کو محض ایک بات یاد دلائی تھی ،آپ ذرا ذرا سی بات کو کس قدر اہمیت دے رہے ہیں اور میں اب طلاق لیکر کیا کروں گی ۔7:میں نے ان خطو ط کی نقل اپنے پاس رکھ لی تھی جو میں نے پھاڑ کر جلادیئے تاکہ ا س تلخ واقعے کی یاد پھر کبھی نہ آئے ۔8:یہ معلوم کر نا چاہتا ہو ں کہ واقعی ان حالات میں طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟۔
جواب :۔ جس قدر باتیں سوال میں لکھی گئی ہیں ،اگر وہ درست ہیں تو صورت مسئولہ میں سائل کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ سائل نے جو جملے صفحہ: 4کے آخر میں نقل کیا ہے کہ :” اگر اللہ تعالیٰ کو جائز کاموں میں سب سے ناپسند طلاق نہ ہوتا توشاید میں کب کا طلاق دے چکا ہوتا، بہر حال اگر تم چاہوتو میں اس پر غور کرسکتا ہوں” اس جملے سے تفویضِ طلاق متحقق نہیں ہوتی ،لیکن سائل نے تفہیم القرآن کے مطالعے سے غلط طور پر یہ سمجھا کہ مذکورہ جملے سے طلاق ہوگئی ہے۔ اس کی بنیاد پر جب بیوی نے خط لکھا تو سائل نے کہا کہ ”آپ کے خط کے بموجب ایک عدد طلاق بائن واقع ہوگئی ہے۔”
یہ انشاء طلاق نہیں بلکہ حکم شرعی کا غلط بیان ہے اسلئے اس سے طلاق واقع نہ ہوگی لیکن یہ جواب صرف اس صورت میں ہے جبکہ سائل نے اپنے خطوط میں یا یا زبانی انشاء طلاق کا کوئی جملہ استعمال نہ کیا ہو۔ اگر کوئی ایسا جملہ اس نے کہا یا لکھا ہو جس کا ذکر اس سوال میں نہیں تو صورت حال مختلف ہوگی لہٰذا بہت سوچ سمجھ کر اور آخرت کو پیشِ نظر رکھ کر عمل کریں۔ ھٰذا ماعندی واللہ سبحانہ اعلم فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ404تا409

___تبصرۂ نوشتہ دیوار___
قارئین عوام حضرات بالعموم اور علماء مفتیان حضرات بالخصوص اس بات کو سمجھ لیں کہ ہمارا کوئی الگ علم و فہم نہیں ہے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر مدارس دینیہ کے اساتذہ سے فقہ اور اصول فقہ کی جو تعلیم میں نے حاصل کی ہے ۔ علم النحو،اصولِ فقہ اور قرآن کے ترجمہ وتفسیر میں شیخ التفسیرحضرت مولانا بدیع الزمان سے بنیادی تعلیم حاصل کی ہے جو مفتی محمد تقی عثمانی اوردیگر بڑے علماء کرام حضرت مولانا قاری اللہ داد مدظلہ العالی کے بھی استاذ ہیںاورمزے کی بات یہ ہے کہ دورانِ طالب علمی میرے اساتذہ کرام نے درس نظامی کی تنقید پر نہ صرف میری تائید اور حوصلہ افزائی فرمائی ہے بلکہ اس امید کا بھی اظہار کیا ہے کہ میں اصلاح کرلوں گا۔ اہل تشیع کا اپنی فقہ کو حضرت امام جعفر صادق کی طرف منسوب کرنا اہل سنت کی نقل اور شیعہ مسلک کے اصول کے منافی ہے اسلئے بارہ اماموں میں سے کسی ایک طرف فقہ کی نسبت عقیدۂ امامت کا تقاضہ نہیں ہے۔
مولانا طارق جمیل نے کہا کہ کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں۔ ایک مولانا سے مسئلہ پوچھ لیا تو اس نے کہا کہ حرام ہوچکی ہے، رجوع نہیں ہوسکتا ۔ آخر کار اس شخص نے مصلے کے نیچے پیسے رکھے تو مولانا نے کہا کہ طلاق عربی کا لفظ ہے۔ جس کے آخری ق کو اس طرح سے پڑھتے ہیں۔ آپ نے کتے والا کاف طلاک کہا ہے اسلئے طلاق نہیں ہوئی ۔ بڑے مدارس کے مفتی اعظم وشیخ الاسلام کا طریقہ واردات مختلف ہوتا ہے۔ مفتی تقی عثمانی اور مفتی عبدالرؤف سکھروی کے فتوے ، تنقیح وجواب تنقیح میں کیا ہے؟، سوال وجواب اورتنقیح وجواب تنقیح خودمرتب کرکے اچھے پیسے لئے ہونگے تاکہ اس فتویٰ سے وہ شخص عورت کو تنگ کرسکے۔
اس فتوے میں اس بات کی ضرورت تھی کہ سائل پر واضح کردیا جاتا کہ
1:تم بے غیرت نے اپنی بدکردار بیوی کا معاملہ نبی ۖ اور ازواج مطہرات پر قیاس کرکے انتہائی بے شرمی کا مظاہرہ کیا، سب سے پہلے اس سے توبہ کرلو۔ قرآن کے ایلاء کا اس بے غیرتی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
2:جب کوئی عورت فحاشی میں مبتلاء ہو تو پھر اسلام نے طلاق کو ناپسندیدہ عمل بالکل بھی قرار نہیں دیا ۔
3:جب تم نے اپنی عورت پر فحاشی میں کھل کر مبتلاء ہونے کا اعلان کردیا ہے تو شریعت کا تقاضہ ہے کہ تمہارے درمیان لعان کے ذریعے سے جدائی ہو ، یا پھر اس کو طلاق دے کر فارغ کردیتے۔
4:تمہارے سوال میں وضاحت کہ ”ساتھ ہی میں نے اپنی بچی کو تفصیلی خط لکھا کہ تمہاری ماں کو میں نے محض اتفاقیہ یہ جملہ لکھا تھا اور انہوں نے فوراً طلاق حاصل کرلی ، میں ان کو زندگی کے کسی حصے میں سکون سے نہیں رہنے دوں گا ۔” سے معلوم ہوتا ہے کہ غلط بیانی سے کام لے کر تم نے اس کا سکون فتوے سے تباہ کرنا ہے۔ جب وہ تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہے تو فتوے بازی کے بجائے اس کا پیچھا کرناچھوڑ دو۔
5:سوال میں ان معاملات کی تنقیح کرتے۔ الف: عورت ماں باپ کے بغیر نسل پر الزام لگ گیا اوریہ تأثرہے کہ فوجیوں کی بیگمات کس قسم کی ہوتی ہیں؟۔ب: شوہر سے خیانت کے باوجود فوجی اس کو رکھتے ہیں۔ جس فوجی میں اپنے بچوں کی ماں کیلئے غیرت نہیں ہوگی تو وہ مادرِ وطن کے دفاع کیلئے کیا غیرت کرے گا؟۔ ج:مسلمانوںکو بے غیرتی کی تعلیم قرآن نے دی، پرویزیوں کی غلط تفاسیر میں یہی واضح طور پر موجود ہے۔ د: اس فتوے کے سوالات کی ترتیب سے یہ بھی لگتا ہے کہ یہ شخص پرویزی ہو گااور اسلام کو بدنام کرنے کیلئے یہ سوالنامہ مرتب کیا ہو اور فتویٰ فروشوں کی وجہ سے اسلام کو بدنامی پہنچائی جارہی ہو۔
6:ایک طرف یہ لکھ دیا ہے کہ”1965کی سترہ دنوں کی جنگ نے مجھے بوڑھا کردیا اور جب سرگودھا سے واپس آیا تو آدھے سے زیادہ بال سفید ہوچکے تھے” اور ساتھ ہی لکھ دیا کہ”12فروری1964کو پاکستان ائیر فورس کی طرف سے میں دو، تین سال کیلئے ابوظہبی ائیرفورس میں مقرر ہوکر چلاگیا”۔ یعنی65کی جنگ کے دوران جب تھا نہیں تو پھر17دن کے جنگ سے الو کا پٹھا بوڑھا کیسے ہوگیا؟۔ ایک طرف لکھ دیا کہ”1969میں بیوی نے میٹرک کاا متحان دیا، دوسری طرف وہ1964میں طبیہ کالج کراچی میں زیر تعلیم تھی؟۔ جو1967میں طبیہ کالج سے کورس مکمل کرکے پریکٹس بھی شروع کردی؟۔ یہ سارا جھوٹ کا پلندہ لگتا ہے جو پرویزی اور مفتی تقی عثمانی نے مل جل کر قرآن ، نبی ۖ ، مسئلہ طلاق اور اسلام کو بدنام کرنے کیلئے رچایا ہے۔ فتوے میں عورت کا نام ہے لیکن شوہر کا نہیں ہے؟۔
جس طرح بہت سارے مخلص مذہبی لوگ مولویوں کی وجہ سے قرآن وسنت سے دور ہیں ،اسی طرح سے پرویزیوں نے بھی بہت مخلص لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ ہمارا مقصد قرآن وسنت کی وہ درست تصویر پیش کرنا ہے جس کی وجہ سے بہت مختصر وقت میں دنیا کی دونوں سپر طاقتیں قیصر وکسریٰ کی حکومتوں کو شکست مل گئی تھی۔
فقہ الگ دنیا نہیں جس میں پیسہ لیکر حیلہ سازی سے عورت اور کبھی شوہر کے حق میں فتویٰ دیا جائے۔ بلکہ قرآن وسنت کے درست فہم کا نام فقہ ہے۔ اور اس کے ذریعے سے عوام کی درست رہنمائی کا نام مفتی کی اہلیت ہے۔ جب مفتی تقی عثمانی نے حاجی محمد عثمان پر فتویٰ لگایا تو اس وقت جمعیت علماء اسلام پاکستان کے دو دھڑے تھے۔ جمعیت مولانا فضل الرحمن و جمعیت مولانا عبداللہ درخواستی نے حاجی عثمان کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ یہ اظہاربھی کیا کہ ان علماء ومفتیان نے الائنس موٹرز (ٹی جے ابراہیم مضاربہ کمپنی ) سے اچھا خاصا مال بٹور کر فتویٰ دیا اسلئے کہ1970میں اکابرین جمعیت علماء اسلام کے خلاف خوب مال بٹور کر فتویٰ دیا گیا۔
ہم اپنے اساتذہ کرام کی توقعات کے عین مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے فقہ ، اصول فقہ ، قرآن اور حدیث کے ذریعے درست رہنمائی کا فرض ادا کررہے ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی کی بھی یہی خواہش تھی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

راشدہ کا شوہر3سال سے لاپتہ،کیا اپنے تحفظ اور بچوں کی کفالت کیلئے نکاح کرسکتی ہے؟

راشدہ کا شوہر3سال سے لاپتہ،کیا اپنے تحفظ اور بچوں کی کفالت کیلئے نکاح کرسکتی ہے؟

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان عظام قرآن و سنت کی روشنی میں
میرا شوہر تین سال قبل سمندر میں ماہی گیری کے دوران انڈین آرمی کے ہاتھوں گرفتارہوچکا تھا ،اس وقت سے لیکر آج تک اس کے زندہ ہونے یا مرنے کی کوئی خبر نہیں ہے ، میرے5بچے بھی ہیں ،ان کی کفالت میرے لئے بہت مشکل ہوچکی ہے۔میں خلع اختیار کرکے دوسری جگہ شادی کرنا چاہتی ہوں۔ تاکہ شرعی حدود میں رہ کر اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کرسکوں۔
جناب میں ایک عورت بہت ہی بے کس اور غریب ہوںاور خلع کیلئے کیس فائل کرنے کی میرے پاس استطاعت نہیں۔ لہٰذا میرے خلع کے بارے میں قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت جاری فرمائیں۔آپکی بڑی نوازش ہوگی۔
از طرف : راشدہ بنت نور عالم سکنہ محمدی کالونی ماڑی پور روڈ کراچی

الجواب: قرآن وسنت میں عورت کو خلع کا حق حاصل ہے جس طرح مرد کو طلاق کا حق حاصل ہے۔ خلع اور طلاق میں حقوق وفرائض کا فرض ہے۔ عورت جب اپنے شوہر سے شادی کرلیتی ہے تو اس کا نان ونفقہ ، رہائش، بچوں کی تعلیم و تربیت اور سارا خرچہ شوہر پر اپنی حیثیت اور بیگم کے حالات کے مطابق فرض بن جاتا ہے۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کا سب سے بڑا کارنامہ اور کریڈٹ یہ ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی اور مفتی محمد شفیع تک کے علماء وفقہاء نے واضح کیا تھا کہ ” بیوی کے علاج معالجے کا خرچہ شوہر کے ذمے نہیں ہے اور مفتی تقی عثمانی نے یہ وضاحت کی کہ” میرے خیال میں بیوی کا علاج شوہر کے ذمہ ہونا چاہیے”۔

___زوجۂ مفقود کا حکم___
سوال : ایک بیوی کا شوہر تقریباً دوسال سے نہیں ہے کچھ پتہ نہیں چلتا، اب یہ بیوی نان نفقہ کی وجہ سے کسی دوسرے آدمی کے ساتھ نکاح کرسکتی ہے یا نہیں؟
جواب : صورت مسئولہ میں مذکورہ عورت کی خلاصی کی صورت یہی ہے کہ وہ عورت کسی مسلمان حاکم کی عدالت میں نان ونفقہ نہ ہونے اور مبتلا بالمعصیة ہونے کے اندیشے کی بناء پر فسخِ نکاح کا دعویٰ دائر کرے ۔ عدالت شوہرمذکورہ کو حاضر ہونے پر مجبور کرے ۔اور اگر ثابت ہوجائے کہ وہ نہیں آتاتو اس کی طرف سے یہ عورت کو طلاق دیدے، اس کے بعد عورت عدت طلاق گزار کردوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔ اگر عدالت مذکوہ بالا کاروائی کرلے تو اس کا فیصلہ شرعاً نافذ ہوگا۔ہاں ! دعویٰ دائر کرنے میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ خلع یا شوہر کے مفقود ہونے نہ ہونے کا دعویٰ نہ ہو، بلکہ شوہر پر نان ونفقہ ادا نہ کرنے کا دعویٰ ہو کیونکہ خلع اور مفقود کے دعوؤں سے متعلق موجودہ عدالتیں جو فیصلے کررہی ہیں ان میں شرعی شرائط کا لحاظ نہیں رکھا جاتا ۔ واللہ سبحانہ اعلم احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
الجواب صحیح بندہ محمد شفیع فتاوی عثمانی جلد دوم صفحہ457
جب عورت علماء کی تفاسیر میں پڑھتی ہے کہ شوہر کو چار شادیاں کرنے کی اجازت اسلئے ہے کہ ایک کو حیض ہوگا تو دوسری سے شہوت پوری ہوگی اور دو کوحیض آئے تو تیسری اور تین کو حیض آئے گا تو چوتھی سے شہوت پوری ہوگی اور ایسا تو نہیں ہوگا کہ بیک وقت چار بیویوں کو حیض آئے لیکن عورت کو برسوں تک ترسانے کے باوجود بھی خلع کی اجازت نہیں دیتے۔ کیا یہی فطری دین ہے؟۔
علماء ومفتیان نے اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے فتوؤں میں عجیب وغریب انداز اپنانے کی کوشش کی ہے۔ اصل معاملہ مفقودالخبر اور خلع کا ہے اور اس کو طلاق کی صورت دی جارہی ہے ۔ کیا جھوٹ پر مبنی بیانیہ مسئلے کا حل ہوسکتاہے؟۔
ومن اوتی الحکمة فقد اوتی خیر کثیرًا” اورجس کو حکمت دی گئی تو اس کو خیر کثیر دیا گیا”۔(القرآن) من یرید اللہ بہ خیرًا یفقہہ فی الدین ”جسکے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ دیتا ہے”۔( حدیث)
حکمت اور فقہ ( سمجھ) کی دَین (عطائ) اللہ کی طرف سے ہی ہوتی ہے۔ جس کو حکمت دی گئی اس کو خیر کثیر سے اللہ نے نواز دیا اور جس کیساتھ بھلائی کا ارادہ کیا تو اس کو دین کی سمجھ دے دی ۔ اگر مدارس،تبلیغی جماعت اور خانقاہوں میں حکمت اور فقہ یعنی دین کو سمجھنے کی تعلیم ہوتی تو بہت زبردست اثرات اس کے مرتب ہوسکتے تھے۔ افسوس یہ ہے کہ مدارس میں بھی فقہ کے نام پر قرآن وسنت کی جگہ بھول بھلیوں کی تعلیم دی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں ان مراکز کو دین کی خدمت سے زیادہ اپنے دنیاوی مفادات کے تحفظ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور پھر نتیجے میں قرآن وسنت اور مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہوتی ہے اور یہ لوگ مدارس کو تجارت کے مراکز بناکر دنیا کی شادابی کا مزہ لیتے ہیں۔
بشری بی بی نے خاور مانیکا سے خلع لیا تو اس پر کیا نان ونفقہ نہ دینے کا الزام تھا؟۔ جب علاج شوہر کے ذمہ نہ ہو تو کیا عورت محنت مزدوری کریگی یا پھر یاری دوستی سے کام چلائے گی؟۔ خدا غارت کرے ، ان مذہب فروشوں نے دین کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ رسول اللہ ۖ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ مجھے اپنے شوہر سے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں ہے اور میں اس سے خلع لینا چاہتی ہوں۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” وہ باغ جو اس نے آپ کو دیا ہے وہ واپس کرسکتی ہو؟”۔ اس خاتون نے عرض کیا کہ اور بھی بہت کچھ۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ”اور کچھ نہیں” ۔ چنانچہ نبیۖ نے اس کو طلاق دینے کا حکم فرمایا اورباغ اس کا واپس کردیا۔ یہ حدیث قرآن کی سورہ النساء آیت19کی تفسیر میں لکھنے کی ضرورت تھی۔ جس کو سورۂ بقرہ کی آیت229کے ضمن میں احادیث کی کتب میں لکھ دیا گیا ہے۔ حدیث سے واضح ہوتاہے کہ قرآن کے مطابق جب عورت خلع لینا چاہتی ہو تو اس کو غیرمنقولہ جائیداد باغ وغیرہ واپس کرنے پڑتے ہیں مگر کپڑے ، زیورات اور منقولہ اشیاء میں سے بعض چیزیں بھی شوہر کو واپس لینے کا کوئی حق اور اختیار نہیں اور نہ عورت کو زبردستی سے نکاح میں رکھنے کا اختیار ہے۔ کاش قرآن و سنت کی تعلیم کو مسلمان معاشرہ اپنے ماحول کا حصہ بنادیتا اور قرآن کے مطابق بار بار طلاق کے باوجود باہمی رضا مندی سے رجوع کا اختیار مل جاتا اور عورت کو خلع کا پورا پورا اختیار حاصل ہوجاتا تو مظلوم خواتین کی چیخوں سے عرش لرزتا نظر نہ آتا۔ یہ محاورے کی زبان ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب فرشتے زمین میں انسان کی حالت دیکھتے ہیں اور ان کو عذاب کی اجازت اللہ نہیں دیتا ہے تو قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے ۔ پھر فرشتے اہل زمین کی مغفرت اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی نے اپنے ”آسان ترجمہ قرآن ” کے حاشیہ پر اس کی تفسیر میں لکھ دیا ہے کہ فرشتے اتنی بڑی تعداد میں عبادت کرتے ہیں کہ آسمان ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ایسے کم عقل لوگوں کو سود کے جواز کی وجہ سے شیخ الاسلام بنادیا ہے ۔ عوام پر اسلام کے نام سے ظلم کرنا چھوڑ دیاجائے، ورنہ عذاب آسکتا ہے اور اس سے بڑا عذاب کیا ہوگا کہ غلط فتوؤں کے پول کھل رہے ہیں؟۔
راشدہ بی بی کا شوہر موجودہوتا تو بھی اس کو خلع لینے کا اختیار تھا۔ عدالت کا مقصد شریعت کا تقاضہ پورا کرنا نہیں ہوتاہے بلکہ دنیاوی طور پر حقوق کے تحفظ کی ضمانت دینا ہوتا ہے۔ جس طرح شوہر کو طلاق کا حق حاصل ہے ،اسی طرح اس عورت کو بھی خلع کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ خلع کی عدت بھی صرف ایک ماہ ہے اور صحیح حدیث میں اس کی بھرپور وضاحت ہے۔ وہی فقہ حنفی معتبر ہے جو قرآن وسنت کے مطابق ہے۔ باقی چوں چوں کا مربہ مولوی اپنے پاس رکھیں۔
خلع اور طلاق میں حقوق اور فرائض کا فرق ہے۔ خلع کی صورت میں بیوی کو شوہر کے گھر سے نکلنا پڑے گا اور غیرمنقولہ جائیداد سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ طلاق کی صورت میں منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کی مالک عورت بن جائے گی اور طلاق و خلع کی صورت میں بچوں کا خرچہ بھی شوہر ہی کے ذمہ ہوگا۔
قرآن میں ایک ایک مسئلے کی بھرپور رہنمائی اورزبردست حل موجود ہے اور اس کیلئے عدالتوں میں خرچہ اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر مرد یہ دعویٰ کرے کہ وہ طلاق نہیں دیتا ہے یا اس نے طلاق نہیں دی ہے تو پھر عدالت ہی یہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ عورت کو خلع کے حقوق ملیں یا پھر طلاق کے؟۔ راشدہ بی بی کے شوہر کا اگر کوئی مکان یا جائیداد ہے اور وہ اتنے طویل عرصہ سے غائب ہے اور اس کی مجبوری ہے کہ وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں ادا نہیں کرسکتا ہے اور اس کی بیگم اپنے اور اپنے بچوں کے اخراجات کیلئے مجبور ہے اور کسی اور شخص سے شادی کرنا چاہتی ہے تو یہ اس کا بالکل حق بنتاہے کہ وہ شادی کرلے۔ اس شوہرکو بھی اطلاع ملنے پر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ بیوی کی عزت اور بچوں کے پیٹ کا بندوبست ہوگیا ہے۔ اگر وہ بھارت کی جیل سے چھوٹ کر واپس آجائے تو پھر عورت کے پاس اختیار ہوگا کہ اگر اس کا پہلا شوہر اس کو واپس لینا چاہتا ہو اور وہ بھی اس کے پاس ہی جانا چاہتی ہو تو پھر دوسرے شوہر سے خلع لے اور اگر اس بات میں کوئی تشویش ہے کہ شوہر والی کا نکاح کیسے ہوسکتا ہے؟۔ تواس کا جواب یہی ہے کہ خلع کے ذریعے پہلے شوہر سے تعلق منقطع ہوگیا ہے۔
قرآن نے محرمات کے آخر میں فرمایا: و ان تجتمع بین الاختین والمحصنات من النساء الا ما ملکت ایمانکم ”اور یہ کہ تم دوبہنوں کو جمع کرو اوربیگمات عورتوں میں سے مگر جن سے تمہارا ایگریمنٹ ہوجائے”۔
جب دو جڑی ہوئی بہنوں کے بارے میں مولانا سیدابولاعلیٰ مودودی سے فتویٰ پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ” قرآن میں عام حالت میں یہ منع ہے لیکن جب خاص حالت ہو تو مخصوص صورت اس سے مستثنیٰ ہے”۔ المیہ یہ ہے کہ قرآن وسنت کے خلاف مخصوص صورتوں میں فتویٰ دینے والے لوگ قرآن کے واضح احکام پر فتویٰ دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے ہیں اسلئے کہ پھر نام نہاد علماء ومفتی صاحبان کی ضرورت یہ نہیں پڑے گی۔ قرآن وسنت اور اسلام فطری دین ہیں۔
بیوہ وطلاق شدہ ساری زندگی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے تو اپنی نسبت کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ جنت میں میاں بیوی کا نکاح اسی طرح برقرار رہتاہے۔
قال تعالیٰ :جنّٰت عدن یدخلونھا و من صلح من آبائھم وازواجھم و ذریاتھم ”ہمیشہ کیلئے باغات ہوں گے جن میں یہ داخل ہوں گے اور ان کے نیک آباء واجداداور ان کی اولادیں”۔ (القرآن)
عورت دنیا کے اپنے آخری شوہرکیساتھ ہوگی،میمون بن مہران سے الحرانی نے الرقة کی تاریخ میںنقل کیا ہے کہ معاویہ بن ابوسفیان نے ام درداء کیلئے نکاح کا پیغام بھیج دیا تو اس نے انکار کردیا اور کہا کہ ابودردائ نے رسول اللہ ۖ سے روایت نقل کی ہے کہ عورت اپنے آخری شوہر کیساتھ ہوگی۔ اسماء بنت ابی بکر زبیر بن عوام کے نکاح میں تھی۔ وہ اس پر سخت تھے اور اس نے اپنے باپ سے اس کی شکایت کردی تو ابوبکر نے فرمایا: پیاری بیٹی صبر کرو۔ جب عورت کا شوہر نیک ہوتا ہے اور اس سے فوت ہوجاتا ہے اور پھراس کے بعد وہ کسی اور سے نکاح نہ کرے تو ان دونوں کو جنت میں جمع کردیا جاتا ہے”۔(ابن عساکر)۔
بیہقی نے اپنی سنن میں یہ روایت ذکر کی ہے کہ حذیفہ نے اپنی بیوی سے کہا کہ ” اگر آپ چاہتی ہیں کہ جنت میں میری بیوی رہو تو پھر میرے بعد شادی مت کرو اسلئے کہ جنت میں عورت اپنے آخر شوہر کیساتھ ہوگی” ۔
ابن کثیر کی النھایة فی الفتن وملاحم میں وارد ہے کہ ام حبیبہ نے کہا :یارسول اللہ! اگر عورت کے دنیا میں دو شوہر ہوں تو دونوں میں سے کس کیساتھ ہوگی؟۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: دونوں میں جس نے زیادہ اچھا برتاؤ کیا ہو ۔ تو ام حبیبہ نے کہا کہ حسن اخلاق کا سونا تو دنیا اور آخرت میں بہترین چیز ہے۔
حضرت علی کی ہمشیرہ ام ہانی کو اپنے مشرک شوہر سے اتنی محبت تھی کہ اس نے اپنے شوہر کی خاطر اللہ کے حکم کے مطابق ہجرت تک نہیں کی ۔ جب مکہ فتح ہوا تو حضرت علی نے اس کے مشرک شوہر کو قتل کرنا چاہا۔ ام ہانی نے اپنے شوہر کیلئے نبیۖ سے پناہ طلب کی تو نبیۖ نے فرمایا کہ اپنے شوہر اور جس کو بھی چاہو ،پناہ دے سکتی ہو۔ یہ وہی مولیٰ علی تھے جس کے بارے میں نبیۖ نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ لیکن امت کے پہلے مولیٰ رسول اللہ ۖ نے حضرت علی کے مقابلے میںآپ کی بہن ام ہانی کو ترجیح دیتے ہوئے اسکے مشرک شوہرکو پناہ دیدی۔ جب امت کے پہلے مولیٰ نبیۖ سے ظہار کے مسئلے پر حضرت خولہ بنت ثعلبہ نے مجادلہ کیا تو اللہ نے عورت کے حق میں فیصلہ نازل فرمایا۔ جب امت کے پہلے مولانبیۖ کے بارے میں قرآن کے اندرسورہ مجادلہ کی وضاحت موجود ہے اور دوسرے مولا علی کرم اللہ وجہ کے بارے میں حدیث کا واقعہ موجود ہے تو اس کا مطلب نبی ۖ و علی کی توہین نہیں بلکہ قیامت تک یہ رہنمائی مقصود ہے کہ مذہب کے نام پر کسی کو مولانا اور مفتی بن کر عورت کے حقوق کو غصب کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
راشدہ بی بی کیلئے کوئی حیل وحجت نکالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس سے نکاح کرنا چاہتی ہو تو وہ کرسکتی ہے۔ پاکستان بھر میں مسنگ پرسن کے مسائل ہیں اور جو لوگ سال سال اور ڈیڑھ سال کیلئے یا اس سے بھی زیادہ بیرون ملک رہتے ہیں اور ان کی بیگمات خلع لینا چاہتی ہوں تو وہ لے سکتی ہیں۔ تبلیغی جماعت نے بہت بگاڑ پیدا کیا ہے۔ مولانا الیاس نے زندگی بھر میں چار مہینے اسلئے رکھے تھے کہ حضرت عمر کے دور میں مجاہدین کی بیگمات سے مشورہ کرکے یہ چار ماہ کی مدت رکھی گئی تھی اور قرآن میں بیوہ کی عدت4ماہ10دن ہے اور ناراضگی کی عدت4ماہ ہے۔ گمشدگی کی حنفی فقہاء نے پہلے80سال اور پھر امام مالک کے مسلک کے مطابق4سال کردی اور قرآن وسنت میں اس کی کوئی بھی اصل نہیں ہے۔
جب عورت کا اختیار غصب کیا گیا تو آیت226البقرہ میں4مہینے کا ذکر ہے۔ حنفی مسلک کے نزدیک4ماہ کے بعد طلاق ہوجائے گی اور دونوں کا نکاح ختم ہوجائے گا۔جمہور کے نزدیک عمر بھر نکاح ختم نہیں ہوگا ۔جب تک کہ شوہر زبان سے طلاق نہ دے۔ کیا واضح آیات پر یہ اختلاف ہوسکتاہے؟۔ ایک طبقہ کہتا ہے کہ شوہر نے اپنا حق استعمال کیا اسلئے طلاق ہوگئی ۔ دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ شوہر نے حق استعمال نہیں کیا اسلئے طلاق نہیں ہوئی۔ حالانکہ اللہ نے عورت کی عدت بیان کی ہے کہ طلاق سے ایک ماہ زیادہ ہوگی اور اگر طلاق کا عزم تھا تو یہ دل کا گناہ ہے جس پر شوہر کی پکڑ ہوگی۔جب نبی ۖ نے ایلاء کیا تھا تو ایک ماہ کے بعد رجوع پر اللہ نے فرمایا کہ اب عورتوں کو اختیار دے دو کہ آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں یا نہیں؟۔ قرآن کے کھلے الفاظ سے بھی مولوی کا دماغ نہیں کھلتا ہے یا اس کو جان بوجھ کر سمجھنا نہیں چاہتا ہے کہ کاروبار دنیا تباہ ہوجائے گا؟۔
جب شوہر مرتا ہے تو بیوہ کو4ماہ10ماہ کے بعد اختیار مل جاتا ہے کہ فوت شدہ شوہر سے تعلق برقرار رکھے یا کسی اور سے نکاح کرلے۔ علماء سانس نکلتے ہی نکاح تڑوا بیٹھتے ہیں اور پھر بے شرم اپنی ماؤں کو اپنے باپ کی زوجہ کی تختی لگاتے ہیں۔ کاش ! علماء قرآن وسنت کی طرف رجوع کرکے امت کا بیڑہ پار کردیں اور غلط نصاب تعلیم اور فتوؤں کے حصار سے باہر نکلیں۔ جس سے مساجدو مدارس اور علماء ومفتیان کی رونقیں بڑھیں گی اور پاکستان بھی سرسبز وشاداب بن جائے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت کیساتھ خلع وطلاق پر زیادتی دو آیات کا غلط ترجمہ وتفسیر کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے

عورت کیساتھ خلع وطلاق پر زیادتی دو آیات کا غلط ترجمہ وتفسیر کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے

سورۂ بقرہ آیت:229میں خلع کا کوئی تصور نہیں ہے اور نہ اس کا ایک فیصد احتمال بنتا ہے کہ اس سے خلع مراد لیا جائے لیکن جاویداحمد غامدی ، مولانا مودودی اور مولانا وحیدالزمان نے بھی غلط کردیا

سورۂ نساء آیت:19میں خلع ہی مراد ہے مگراس سے خلع مراد نہیں لیا گیا، جس کی وجہ سے نہ صرف عورت کے حق کو پامال کیاگیا بلکہ دیگرقرآنی آیات میں بھی تضاد کا شکار ہوگئے!

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے۔ اور تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے۔ پس اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوںاللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے تودونوں پر کوئی حرج نہیں ہے کہ عورت کی طرف سے اس چیز کو فدیہ کردیا جائے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں ،ان سے تجاوز مت کرو اور جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ (البقرہ آیت:229)
اس آیت میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری بار طلاق کی بھی وضاحت ہے اور نبی کریم ۖ نے ایک صحابی کے پوچھنے پرفرمایا کہ قرآن میں تیسری طلاق یہی ہے جس کا ذکر آیت229البقرہ میں ہے کہ معروف طریقے سے رکھنے کے بجائے اس کو احسان کیساتھ چھوڑ دیا جائے۔ مولانا سلیم اللہ خان اور علامہ غلام رسول سعیدی نے اس حدیث کو اپنی اپنی بخاری کی شرح میں نقل کیا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں واضح ہے کہ مرحلہ وار تیسری مرتبہ طلاق کے فیصلہ کے بعد شوہر نے جو کچھ بھی بیوی کو دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لینا جائز نہیں۔
پھر دوشرائط کیساتھ اس شرط پر صرف اس صورت میں وہ چیز واپس لینا جائز ہے کہ جب ان دونوں کو خدشہ ہو کہ اگر وہ دی ہوئی چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے ۔ اور یہ کہ فیصلہ کرنے والے بھی ڈرتے ہوں کہ اگر شوہر نے وہ دی ہوئی چیز واپس نہیں کی تو حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔
ایسی صورت میں وہ دی ہوئی عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ اسلئے کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو پھر فیصلہ کن طریقے سے جدائی کے بعد وہ ذریعہ بنے گا اور اس کی وجہ سے ایکدوسرے کے رازوں سے آشنا جب میل ملاپ کریں گے تو پھر دونوں اللہ کی حدوں کو توڑ سکتے ہیں۔
آیت میں واضح ہے کہ شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیز بھی واپس لینا جائز نہیں ہے لیکن مجبوری میں زیادہ بڑے نقصان اور اللہ کی حدود توڑنے کے خدشہ پر واپس فدیہ کرنے کی اللہ نے گنجائش رکھ دی ہے۔
اس آیت میں خلع کا کوئی تصور بھی نہیں ہوسکتا ہے اسلئے کہ تین مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا تصور کہاں سے آئے گا؟۔ اللہ نے عورت کو مالی تحفظ دیا ہے کہ اس کا شوہر طلاق کے بعد بہت مجبوری اور زیادہ بڑے نقصان کے پیش نظر ایسی چیز واپس کرسکتی ہے جو شوہر نے دی ہے۔ لیکن جاوید غامدی اور مولانا مودودی نے بھی اس سے خلع مراد لے کر الٹا عورت کو بلیک میل کرنے کا راستہ ہموار کردیا ہے۔ اس غلط تشریح کی وجہ سے عورت ہی نہیں علماء وفقہاء بھی طلاق کے مسائل پر تضادات ہی تضادات کا شکار ہوکر گمراہی کے طوفان میں غوطہ زن ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” اے ایمان والو! عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو اور نہ اسلئے ان کو روکو کہ جو کچھ بھی تم نے ان کو دیا ہے کہ اس میں سے بعض چیزیں واپس لے لو مگر یہ کہ جب وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں۔ اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ ہوسکتا ہے کہ تمہیں وہ بری لگتی ہوں اور اللہ اس میں تمہارے لئے خیرکثیر بنادے۔(النساء آیت:19)
ایک آزاد عورت اور لونڈی میں یہی فرق ہوتا تھا کہ لونڈی مملوکہ ہوتی تھی اور آزاد عورت اپنی آزاد حیثیت سے اپنے شوہر کی بیوی ہوتی تھی لیکن عملی طور پر بیوی بھی شوہر کی مملوکہ سے بھی بدتر مملوکہ ہوتی تھی۔ جیسے پہلے یہاں لوگ انگریز کے غلام تھے اور آزادی کے بعد بھی مقتدر سیاستدان، پولیس، عدالت، فوج ، سول بیوروکریٹ ، طاقتور علماء ومشائخ اور ہر طاقتور طبقہ اپنے سے کمزور طبقے کو اپنا غلام یا مزارع اور خود کو وارث اور مالک سمجھتا ہے۔ راجن پور میں ایک رکشہ ڈرائیور کے ساتھ کار مالک نے جس طرح کا تشدد کیا وہ گوانتا ناموبے میں بھی قیدیوں کیساتھ نہیں ہوا ہوگا۔ جب طاقت کا توازن قانون سے بالاتر ہو جائے تو یہی زبردستی سے کسی کے وارث بننے کی بات ہے۔ اگر عمران خان اپنے دورِ اقتدار میں نعرہ لگاتاجب شہریار آفریدی کے عزیز نے ایک کمزور لڑکی سے زبردستی سے شادی کرنے کی کوشش کی اورپھر انکار پر اس کو قتل کردیا کہ لوگ غلام ہیں کیا تو آج ریاستی نظام سے خواتین پر مظالم کے سچے جھوٹے دعوؤں کی کوئی ضرورت پیش نہ آتی۔ الطاف حسین کا66سالہ بھائی گورنمنٹ ملازمت سے ریٹائرڈاور28سالہ بھتیجا جن کا ایم کیوایم اور سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا انکو اغواء اور پھر بہت ظالمانہ طریقے سے قتل کرکے لاشیں پھینک دیں۔ ایم کیوایم نے انسانی حقوق کی پامالی کی تھی اور حقیقی کی شکل میں انکے ساتھ وہی ہواتھا۔MQMاور طالبان کا راج تھا تو وہ بھی خود کو بدمعاشی سے مالک سمجھتے تھے۔
عورت کو اللہ نے شوہر کی مملوکہ نہیں بنایا ہے۔ جب بھی وہ خلع لینا چاہتی ہو تو وہ خلع لیکر گھر سے نکل سکتی ہے اور یہی اس کی طلاق ہے۔ شوہر طلاق دے تو عورت کی عدت تین مہینے ہے اور عورت خلع لے توعورت کی عدت ایک مہینے ہے۔ صحیح حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ سعودیہ میں اس پر عمل ہوتاہے لیکن یہاں بشریٰ بی بی کی خلع پر ہنگامہ کھڑا کیا گیا اور وہ بھی بہت دیر سے خیال آیا۔
خلع میں عورت کو گھر اور تمام غیر منقولہ دی ہوئی جائیداد سے دست بردار ہونا پڑتا ہے اور طلاق میں مرد کو گھر سے نکلنا پڑتا ہے کیونکہ گھر عورت کا ہوتا ہے اور اگر خلع وطلاق کے یہ حقوق واضح ہوتے اور ریحام خان کو طلاق دینے کے بعد عمران خان کو بنی گالہ کا گھر چھوڑنا پڑتا تو ریاستِ مدینہ کی تصویر نظر آجاتی مگر علماء نے خلع اور طلاق کی درست وضاحت نہ کرکے اسلام کا کباڑہ کرکے رکھ دیا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی پر مبنی مفتی تقی عثمانی اور مفتی محمد شفیع کے فتاویٰ عثمانی

عورت کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی پر مبنی مفتی تقی عثمانی اور مفتی محمد شفیع کے فتاویٰ عثمانی

سوال:۔ ایک آدمی نے عاقلہ بالغہ لڑکی کو اغواء کیااور اسے ڈرا دھمکاکر نکاح کرلیا، لڑکی کے والدین اس پر ناراض ہیں، کیونکہ لڑکی آرائیں قوم سے ہے اور لڑکے کا تعلق شیخ قوم سے ہے۔ (شیخ سے مراد کھوجہ قوم ہے) اور دونوں قوموں کی شرافت میں فرق ہے۔ آرائیں معزز سمجھے جاتے ہیں اور شیخ ذلیل، تو کیا اس صورت میں نکاح ہوسکتا ہے؟۔
جواب :۔ آرائیں اور کھوجہ دونوں عجمی نسلیں ہیں اور عجمیوں کے درمیان کفاء ت میں نسل کا اعتبار نہیں ہے اور مذکورہ نکاح چونکہ عاقلہ بالغہ نے اپنی اجازت ورضامندی سے کیا ہے اسلئے نکاح شرعاً منعقد ہوگیا، اب اگر لڑکی یا اس کے رشتہ دار نکاح ختم کرنا چاہتے ہیں تو سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ لڑکے سے طلاق حاصل کریں ۔ قال فی الدر المختار واما فی العجم فتعتبر حرےة واسلاما (شامی ج ٢، ص ٣١٩) واللہ سبحانہ اعلم احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ الجواب صحیح بند ہ محمد شفیع عفااللہ عنہ فتاوی عثمانی جلد دوم صفحہ ٢٨٠
دوسری جگہ تقی عثمانی اسکے بالکل برعکس ایک اور طرح کا رباب بجاتا ہے۔
تنقیح:1:احمد کی لڑکی نے جس مرد سے نکاح کیاہے، وہ قومی اور خاندانی اعتبارسے احمدکا کفو ہے یا نہیں؟۔ یعنی دونوں خاندان میں اتنا فرق ہے کہ ایک خاندان دوسرے خاندان میں شادی بیاہ کو عرفاً عار اور عجیب سمجھتا ہو؟۔ یا اتنا فرق نہیں ہے اور دونوں خاندانوں میں بغیر کسی عار کے شادی بیاہ ہوتے ہیں۔
2:کیا دینداری کے اعتبار سے احمد کے گھرانے اور اس مرد کے گھرانے میں کوئی فرق ہے؟۔ ان دو سوالوں کا جواب لکھ کر بھیجئے ۔ محمد تقی عثمانی
جواب تنقیح: وہ مرد اور اس کے گھرانے میں اتنا فرق دینداری کے اعتبار سے ہے کہ احمد اور احمد کے گھرانے موحد ہیںاور جس مرد سے احمد کی لڑکی کا نکاح کیا گیا وہ مرداور اس کے گھرانے بدعتی ہیں، اور ان میں مشرکانہ صفتیں بھی ہیں۔ چند صفتیں یہ ہیں : حضور ۖ کو حاضر وناظر سمجھتاہے، مشکلات میں پیر کو پکارتا ہے، مرنے کے بعد عہدنامہ قبر میں دفن کرتا ہے ، نماز جنازہ پڑھ کر دائرہ بناکر اسقاط کرتا ہے، احمد ان باتوں کے خلاف ہے۔
جواب:۔ صورت مسئولہ میں احمد کی لڑکی کا نکاح جس شخص سے کیا گیا وہ احمد کا کفو نہیں ہے، لما فی ردالمختار:فانھم قالوا لایکون الفاسق کفو لبت الصالحین (شامی ج ٢،ص ٣٢٠ باب الاکفائ)اور فسق اعتقادی فسق عملی سے اشد ہے ۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں احمد کی رضامندی کے بغیر جو نکاح کیا گیا ہے وہ باطل ہے۔ احمد کی بیٹی کو چاہیے کہ وہ فوراً اس شخص سے الگ ہوجائے۔ لمافی ردالمختار: ولہ اذاکان عصبة الاعتراض فی غیر الکفو ما لم تلد منہ ویفتیٰ بعدم جواز اصلًا وھو المختار للفتویٰ للفساد الزمان.( شامی ج ٢ ص ٢٩٧) اللہ سبحانہ اعلم
فتاویٰ عثمانی جلدووم صفحہ 292،293
سوال :۔ زید بعمر5سال کا، سعیدہ بعمر2سال سے نکاح ہوا۔ بالغ ہونے پر سعیدہ نے نکاح کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، زید نے نوٹس کے ذریعے سعیدہ کی رخصتی کا مطالبہ کیا، تو سعیدہ نے نوٹس کے جواب میں زید کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیااور عدالت عالیہ سے درخواست کی کہ اسکے اس حق کو تسلیم کیا جائے اور نکاح کو منسوخ قرار دیا جائے، سات سال کی مقدمہ بازی کے بعد عدالت نے اس حق کو تسلیم کرلیا اور اس بات کی تصدیق کردی کہ نکاح منسوخ ہوگیا ہے ، اس کیخلاف اپیل کی جو مسترد ہوگئی ، اب فرمائیں نکاح شرعاً منسوخ ہوگیا یا نہیں؟۔
جواب: صورت مسئولہ میں اگر سعیدہ کا نکاح خود اسکے باپ نے کیا تھا تو اب بالغ ہونے کے بعد سعیدہ کو اسکے فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہے ،تاوقت یہ کہ وہ سوئے اختیار کو ثابت نہ کرے اور اگر سعیدہ کا نکاح کرنے والا خوداس کا باپ نہیں تھا، خواہ باپ کا وکیل ہی کیوں نہ ہو تو لڑکی کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے۔ اس صورت میں عدالت کا منسلکہ فیصلہ شریعت کے مطابق ہوگا۔ ولزم النکاح ولوبغبن فاش…. اوبغیر کفوء ان کان والولی ………واللہ تعالیٰ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ الجواب صحیح بندہ محمد شفیع عفااللہ عنہ
سوال :۔ رحیم بخش نے اپنی حقیقی لڑکی کا نکاح بحالت نابالغی بعمر9،10سال کے خوشی و رضا مندی کیساتھ کردیا ، کچھ عرصہ بعد شیرمحمد باہر چلا گیا اور عدم الخبرہوا۔ عرصہ چار پانچ سال بعد لڑکی کے باپ نے عدالت میں تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر کیا۔ مقدمہ سات آٹھ ماہ چلتا رہا، عدالت نے شیرمحمد کے وارثوں کو حکم دیا کہ تین ماہ کے اندر اندر حاضر کریں، ورنہ حکم تنسیخ کردیا جائیگا، چنانچہ اس قلیل وقت میں لڑکے کو عدالت میں حاضر نہ کیا جاسکا تو عدالت نے تنسیخ نکاح کا حکم دے دیا۔ تنسیخ سے قبل عدالت نے سرکاری طور پر شیرمحمد کو تلاش نہیں کیا، نہ تو عدالت نے کوئی نوٹس دیا اور نہ اعلان یا اخبار میں اشتہار دیا، تنسیخ کے بعد دوسری شادی کی اجازت دیدی گئی۔ چنانچہ بعد تین ماہ عدت گزارنے کے لڑکی کے باپ نے اس کی شادی ایک اور شخص محمد شفیع سے کردی ، نکاح کے دو تین ماہ بعد شیرمحمد آگیا اور اس نے اپنی بیوی کا مطالبہ کیا مگر لڑکی کے والد نے انکار کردیا اور کہا کہ لڑکی دوسرے شخص محمد شفیع کے گھر میں رہے گی، کیونکہ عدالت نے نکاح ثانی کی اجازت دے دی ہے اور اب تک بضد قائم ہے۔ لہٰذا اب صورت مذکورہ میں کیا نکاحِ اول منسوخ ہوگیا یا نہیں؟۔
جواب :۔ اس سوال کیساتھ عدالت کا جو فیصلہ منسلک تھا،اس میں فسخِ نکاح خیار بلوغ کی بناء پر کیا گیا ہے ، جس پر تنقیحات کی گئیں، ان تنقیحات کے بعد مندرجہ ذیل اُمور ثابت ہوئے۔1:لڑکی کا نکاح خود باپ نے کیا تھا ۔2:لڑکی نے آثار بلوغ ظاہر ہوتے وقت نکاح نامنظور کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا۔
لہٰذا اولاً تو یہ نکاح چونکہ باپ کا کیا ہوا ہے (اور اس کے سیئی الاختیار ہونے کا دعویٰ لڑکی نہیں کرتی) اسلئے اس میں لڑکی کو خیارِ بلوغ سرے سے حاصل ہی نہیں ہے، کما ھو مصرح فی سائر کتب الفقہ ، دوسرے اگرحاصل ہوتا تب بھی لڑکی نے خیارِ بلوغ کے حق کو استعمال کرنے کا وقت گزار دیا، لہٰذا شرعاً خیارِ بلوغ کی بناء پرعدالت کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار نہیں تھا اور شریعت کی رو سے اس کا فسخِ نکاح صحیح نہ ہوا ، لہٰذا محمد شفیع سے اس کا نکاح باطل وکالعدم ہے اور اصل خاوند شیرمحمد بدستور لڑکی کا شوہر ہے۔البتہ اگر محمد شفیع لڑکی کیساتھ صحبت کرچکا ہو تو جب تک تین حیض نہ آجائیں شیر محمد کیلئے اس سے صحبت کرنا جائز نہیں ۔واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم احقر محمد تقی عثمانی ٤/٢/١٣٨٨ھ الجواب صحیح بندہ محمد شفیع عفا اللہ عنہ فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ 282۔283

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!

درسِ نظامی میں دیوبندی بریلوی حدیث صحیحہ کو قرآن کے خلاف قرار دیتے ہیںمگر جب یہ ثابت ہوکہ حدیث قرآن کے خلاف نہیںتھی تو فقہ حنفی کی بلند وبالا نئی بلڈنگ کھڑی ہوجائے گی ؟

پاکستان کی اکثریت دیوبندی بریلوی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ پہلے اپنی بوسیدہ بلڈنگ گراکر ایک شاندار نئی عمارت کھڑی کردیں جس سے مساجدو مدارس کی رونق اور اعتماد بحال ہو

علماء نے اصول فقہ میں قرآن کے مقابلے میں احادیث صحیحہ کو پچھاڑ دیا ہے اور پھر کمال کی نالائقی یہ کی ہے کہ فقہ کے مقابلے میں قرآن کو پچھاڑ دیا ہے اس سے بڑھ کر گمراہی کیا ہوسکتی ہے؟

شریعت کے چار اصول ہیں ۔ پہلا اصل قرآن ہے اور قرآن سے مراد صرف وہ500آیات ہیں جو فقہی احکام سے متعلق ہیں۔ باقی قرآن قصے ، مواعظ اور دیگر امور ہیں۔ پھر اصل معاملہ چھوڑ کر قرآن کو کیوں متنازعہ بنانا شروع کردیا ؟۔ کہ قرآن” المکتوب فی المصاحف ( قرآنی نسخوں میں لکھا ہوا ) ہے اور مکتوب سے مراد کلام اللہ نہیں کیونکہ یہ محض نقش ہے ”۔حالانکہ یہ قرآن سے پوچھنا چاہیے کہ مکتوب کیا ہے؟۔ ولوانزلنا ہذا القراٰن فی قرطاس لمسوہ ”اور اگر ہم اس قرآن کو کاپی میں لکھا ہوااتار دیتے اور یہ لوگ اس کو چھوتے”۔ پھر بھی انہوں نے اس کو جادو قرار دینا تھا۔ جوکہتے تھے کہ ھٰذا اساطیر الاولین اکتبھا بکرة ًواصیلاً( یہ تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں جو صبح شام لکھوائی جاتی ہیں)۔کتابت کا لفظ عربی میں لکھائی ہے جس کا بہت زیادہ مرتبہ قرآن میں استعمال بھی ہواہے اسلئے کتابت اور وہ بھی قرآن کی کتابت کو محض نقش قرار دینا بہت بڑی نالائقی اور گستاخی ہے۔ جس کو کم عقل فقہاء نے یہاں تک پہنچایا ہے کہ سورۂ فاتحہ کو نکسیر اور پیشاب سے لکھنے کو علاج کیلئے نعوذ باللہ جائز قرار دیا ہے۔ قرآن کی تعریف میں یہ پہلا جملہ انتہائی خطرناک اور احمقانہ ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ نے جس علم الکلام کی گمراہی سے توبہ کی تھی اور فقہ کی طرف توجہ فرمائی تھی ، ہمارا یہ المیہ ہے کہ قرآن کی تعریف میں پھر اسی گمراہانہ تصور کو بنیاد بنادیا ہے۔
اہل حدیث کو لاجواب کرنا ہوتا تو ان کے نزدیک چھوٹے شیر خوار بچے کا پیشاب پاک ہے اور ہم ان کو جواب دے سکتے تھے کہ سورۂ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنے کا جواز تمہاری وجہ سے لکھ دیا گیاہے۔
قرآن کی مزیدتعریف کہ” المنقول عنہ نقلًا متواترًا بلاشبہ (جو آپۖ سے نقل کیا گیا ہے تواتر کیساتھ کسی شبہ کے بغیر)۔ متواتر سے غیر متواترآیات نکل گئیں جیسے خبر احاد اور مشہور ۔بلاشبہ سے بسم اللہ نکل گئی۔ اگر چہ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن ہے لیکن اس میں شک ہے اور شک اتنا قوی ہے کہ اس کی وجہ سے اس کا انکار کرنے سے مسلمان کافر نہیں بنتا ہے۔ باقی کسی آیت سے انکار کرے گا تو کافر ہوجائے گا”۔
امام شافعی کے نزدیک موجودہ قرآن کے علاوہ دیگر آیات کا وجود ماننا قرآن کی تحریف کا عقیدہ ہے اور بسم اللہ میں شک کرنا کفریہ عقیدہ ہے۔ امام ابوحنیفہ نے یہی عقیدہ اپنے شاگردوں کو سکھایا تھا اور امام شافعی اصل میں امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام محمد کے شاگرد تھے۔ امام ابویوسف اپنے استاذ امام ابوحنیفہ سے منحرف ہوگئے۔ امام ابوحنیفہ اسلئے جیل میں شہید اور امام ابویوسف قاضی القضاة چیف جسٹس بن گئے۔ مفتی محمود نے بھی آخر میں کسی کے ہاتھ پان اور دورہ قلب کی خاص گولی کھاکر شہادت کی منزل پائی اور مفتی محمد تقی عثمانی نے شریعت کورٹ کے جسٹس کا حلف اٹھالیا تھا۔ جب مفتی محمود نے پان کو بدتر قرار دیا تھا تو کھلانے کا کوئی تُک نہیں بنتا تھا اور اس پر یہ جھوٹ کہ بے تکلفی تھی اور بھیا کہہ کر پان مانگ کر کھالیتے تھے۔ امام شافعی پر درباری علماء ومفتیان اور وقت کے قاضیوں نے رافضی ہونے کا الزام لگایا تھا۔ حالانکہ وہ سراسر بہتان تھا۔
اگر قرآن کی500آیات لکھ دی جاتیں اور اس کا سادہ وسلیس مفہوم طلبہ اور عوام کو پڑھایا جاتا تو آج ساری دنیا مسلک حنفی کے مطابق چلتی۔ آیت کی ریاضی سے تشریح بھی غلط ہے اور جس آیت کے مقابلے میں حدیث صحیحہ کو ناقابلِ عمل قرار دیا،وہ آیت سے متصادم بھی نہیں ہے۔آیت228البقرہ میں ہے کہ المطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثة قروء ” طلاق والی عورتیں3ادوار تک خود کو انتظار میں رکھیں”۔ عورت کاایک دورحیض و پاکی کے دنوں کو ملاکر بنتاہے۔ حیض کی حالت میں مقاربت منع ہے اور جیسے روزہ رات کو نہیں دن کو ہوتا ہے۔ اسی طرح عورت کی عدت کا پہلا دور بھی حیض کے بعد طہر ہے۔ جس طہر میں عورت کو طلاق دی جاتی ہے اس سے پہلے وہ ایک حیض مقاربت کے بغیر گزار چکی ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ تین قروء یعنی3ادوار سے3اطہار مراد ہیں۔ جب ایک عورت کو طلاق مل گئی تو اس نے تیسرے طہر کے بعد عدت کو مکمل سمجھ لیا اور شوہرسے علیحدگی اختیار کرلی۔ جس پر کسی نے اعتراض کیا اور حضرت عائشہ نے وضاحت کی کہ اس نے ٹھیک کیا۔عبداللہ بن عمرنے حیض میں بیوی کو طلاق دی تونبیۖ نے شدید غصے کا اظہار فرمایا اور پھر سمجھایا کہ ” طہر کی حالت میں اپنے پاس رکھو، یہاں تک کہ اس کو حیض آجائے۔ پھر دوسرے طہر میں اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر تیسرے طہر میں چاہو تو معروف طریقے سے رجوع کرلو اور چھوڑنا چاہتے ہو تو ہاتھ لگائے بغیر اس کو چھوڑ دو۔ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم کیا ہے”۔ جب آخری طہر کے بعد حیض آگیا تو جس طرح رمضان کا چاند تیسرے عشرے کے اعتکاف میں نظر آنے کے بعد اعتکاف والے گھروں کی طرف بھاگتے ہیں اس طرح عورت کی عدت بھی تیسرے طہر کے بعد حیض آتے ہی ختم ہوجاتی ہے۔ حیض نہ آتا ہو تو تین ماہ کی عدت قائم مقام ہے۔
درس نظامی کی کتاب ”نورلانوار” میں ہے کہ ”3کا عدد خاص ہے جس میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی ہے۔ طہر میں طلاق دینا مشروع ہے۔ جس طہر میں طلاق دی جائے تو اس کو شمار کرنا ادھورا ہوجائے گا اسلئے3حیض کی عدت ہے۔ اگر تین طہر مراد لئے جائیں تو پھر یہ ڈھائی بن جائیں گے۔ حالانکہ اگر تین حیض مراد لیں تو پھر جس طہر میں طلاق دی ہے وہ بھی عدت میں شمار ہوگی اور ساڑھے تین بن جائیں گے؟۔ اگر دن کو روزے کی نیت کی جائے تو جب کچھ کھایا پیا نہیں ہوگا پھر روزہ پورا ہوگا نہ کہ ادھورا؟۔ کچھ بڑے درجہ کے علماء ومحدثین کہتے ہیں کہ ”حیض میں طلاق نہیں ہوتی ہے”۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ طلاق روزے کی طرح عمل ہے۔
نورالانوار میں قرآن اور حدیث صحیحہ کو یوں متصادم قرار دیا کہ حتی تنکح زوجًا غیرہ (یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے )کے مقابلے میں حدیث لائی گئی کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: ”جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے ، باطل ہے”۔
نمبر1:قرآن میں عورت کو ولی سے آزادی دلانے کیلئے اللہ نے نہیں فرمایا کہ ”اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ اپنی مرضی سے نکاح کرلے” بلکہ سابق شوہر سے آزادی دلانے کیلئے یہ فرمایا ہے اسلئے قرآن کے مقابلے میں اس حدیث کو لانا بھی موقع محل کے بالکل منافی ہے۔ قرآن سے حدیث صحیحہ کو پچھاڑ دیا۔
نمبر2:احناف کا قاعدہ یہ ہے کہ جب قرآن وحدیث میں تطبیق ممکن نہ ہو تو حدیث کو متصادم قرار دیا جائے۔یہاں تطبیق ممکن تھی اسلئے کہ قرآن میں طلاق شدہ کا ذکرہے اور حدیث سے کنواری مراد ہے۔جمہور فقہاء نے غلط کیا کہ حدیث کی وجہ سے طلاق شدہ وبیوہ کا اختیار سلب کرلیا۔ طلاق شدہ وبیوہ کے احکام مختلف ہیں ۔ قرآن میں طلاق شدہ سے زیادہ بیوہ کیلئے خود مختار ہونے کی واضح الفاظ میں وضاحت ہے۔ ایک طرف حدیث کو ناقابلِ عمل قرار نہ دیا جائے تو دوسری طرف ہم جمہور کو قرآن کے واضح احکام پر متفق کرسکتے ہیں۔
جب کنواری لڑکی کا گھر سے بھاگ کرنکاح معتبر قرار دیا تو اس کی وجہ سے دوسری احادیث کابھی بیڑہ غرق کردیا ۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ نکاح پر دوعادل گواہ بنالو۔ حنفی فقہاء نے دو فاسق گواہ بھی کافی قرار دیدئیے اور حدیث میں ہے کہ دف بجاکر نکاح کا اعلان کردو،یہ کہتے ہیں کہ دو خفیہ فاسق گواہ بھی اعلان ہے۔ حدیث میں مساجد میں نکاح کرنے کا اعلانیہ حکم ہے اور یہ عدالت میں خفیہ دستاویز پیش کرنے کو بھی ٹھیک کہتے ہیں۔ جس سے خاندانوں میں دشمنی ، جنگ وجدل اور قتل وغارت کا ماحول بنتاہے۔ حالانکہ قرآن نے اس رشتے کو بھی دوسرے خونی رشتے کی طرح آپس میں محبت والفت اور احسان قرار دے دیا ہے۔ان نام نہاد غلط حنفی فقہی مسائل کی وجہ سے چھپ کر یاری دوستی کا ماحول قائم ہوتا ہے اور کورٹ میرج کا راستہ بنتا ہے۔
حدیث قرآن سے نہ ٹکرائے پھر بھی ناقابلِ عمل ہو لیکن فقہی مسئلہ سے قرآن کو ناقابلِ عمل قرار دیا جائے تو اس سے بڑی گمراہی کیا ہے؟۔ مہاجرعثمانی عاقلہ بالغہ لڑکی ایک مہاجر لڑکے سے نکاح کرے تو یہ فتویٰ دیا جائے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوا اسلئے کہ لڑکی کا لڑکا کفوء نہیں۔ کیا حدیث قرآن کے مقابلے میں ناقابل عمل ہے ؟۔ مگر فتویٰ کے مقابلے میں قرآن کو پچھاڑ دیا ہے ؟۔ کچھ تو شرم بھی ہوتی ہے ، کچھ تو حیاء اور غیرت بھی ہوتی ہے۔ حالانکہ قرآن میں سب بنی آدم کو برابر اور مٹی سے پیدا کرنے کا تصور دیا گیا ہے اور نبی ۖ نے فرمایا کہ ” عرب کو عجم پر ، عجم کو عرب پر، کالے کو گورے پر ،گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں ،فضلیت کی بنیاد تقویٰ (کردار)ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ایک کیس کے ریمارکس میںلڑکی، لڑکا کا بھاگ کر شادی کرنا لبرل کا کارنامہ قرار دیا کہ پاکستان یورپ کے طرز پر پہنچ جائے گا۔ بھلے مجھے کوئی مولوی کہے ۔حالانکہ یہ مولوی کے ہی کرتوت ہیں۔ جسٹس صدیقیISIکے خلاف بول سکتا تھا لیکن مولوی کے خلاف نہیں۔حالانکہ مولوی کے پاس دلیل نہ ہو تو طاقت کے لحاظ سے یہ بہت ہی کمزور طبقہ ہے۔ بس اس کا ایک فائدہ ہے کہ جب جسٹس صدیقی مرے گا تو عرفان صدیقی اس کے حق میں لچھے دار لکھے گا۔
مفتی تقی عثمانی ایک طرف تقلید کی شرعی حیثیت میں لکھتا ہے کہ ” اجتہاد کا دروازہ ائمہ مجتہدین کے بعد بند ہے، اس کے بعد کوئی اجتہاد کرے گا تو گمراہ ہوگا اور دوسری طرف عالمی بینکاری کے سودی نظام کو اپنے اجتہاد سے جائز قرار دیا کہ دونیکیاں ملیں گی اور اگر غلطی کی تو ایک نیکی ملے گی۔ حالانکہ سود کو جواز بخشنے کا کیا اجتہاد ہوسکتا ہے؟۔ اجتہاد تو ان چیزوں میں ہوتا ہے جو قرآن وحدیث میں موجود نہ ہوں۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا: کنواری اور الایم یعنی طلاق شدہ وبیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے اور کنواری شرمیلی ہوتی ہے اسلئے اس سے نکاح کی اجازت مانگی جائے تو اس کی خاموشی رضامندی واجازت ہے اور الایم کیلئے زبان سے اظہار ضروری ہے۔( صحیح بخاری)۔ حدیث سے ثابت ہے کہ عورت کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ مفتی تقی عثمانی نے فتوی لکھا کہ” عجمی نسل میں کفاء ت نہیں ۔ اگر لڑکی کو اغواء کرکے ڈرادھمکا کر نکاح کرلیا تو یہ رضامندی واجازت ہے اور اب لڑکی یا اسکا رشتہ دار نکاح کو ختم کرنا چاہے تو اسکے سواء راستہ نہیں کہ اس آدمی سے طلاق حاصل کی جائے ۔ (فتاویٰ عثمانی جلددوم :288)
جب سیاسی قائدین جبرکے سامنے سرنڈر کرسکتے ہیں تو کیا اغواء ہونے والی بالغ و نابالغ بچیوں کا نکاح باہمی رضامندی اور دلال کے ذریعے جائز ہوگا؟۔ فتاویٰ عثمانی میں اسلام کو کتنا غلط استعمال کیا جارہاہے؟۔
چھوٹی بچی کو نکاح کیا پتہ ؟۔ اس کی رضامندی بھی معتبر نہیں لیکن اس کے ساتھ زبردستی تو انتہائی درجے کی انسانیت سوز اور ناقابلِ قبول معاملہ ہے۔ ایک بچی کہتی ہے کہ میرا نکاح میری مرضی کے بغیرمیری لاعلمی میں کردیا گیا۔ اب لڑکا بالغ ہوچکا ہے اور میں اس سے آزاد ہونا چاہتی ہوں اور وجہ یہ ہے کہ نابالغ کا نکاح معتبر ہے لیکن طلاق معتبر نہیں ہے۔ اس بے چاری کو جواب ملتا ہے کہ اس سے اب بھی طلاق نہیں لے سکتی ہو اور آپ بالغ ہوجاؤ تو بھی اگر تیرے باپ یا دادا نے یہ نکاح کیا ہے تو اس سے خلاصی نہیں پاسکتی ہو۔ موجودہ دور میں عورت جو کہتی ہے کہ ”میرا جسم میری مرضی ” تو اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ صابرشاہ کا جسم مفتی عزیز الرحمن کی مرضی اور مدرسہ کے طلباء کا جسم اور شیخ الحدیث مفتی نذیراحمد فیصل آبادی کی مرضی۔ ان لوگوں کا ضمیر غارت ہوچکا ہے اور جب تک اس جعلی اسلام کے خلاف مدارس، مساجد ، خانقاہوں اور امام بارگاہوں سے ایک مؤثر آواز نہیں اٹھے گی جو عوام کے ووٹوں سے اقتدار کی دہلیز تک پہنچے اور ڈنڈے والی سرکار کے زور ان سب کو سیدھا کردے تاقیامت بھی مؤمن اسی غلامی اور ذکر صبح گاہی سے جان نہیں چھڑ اسکتا ہے۔
بچی کا نکاح9،10سال کی عمر میں اسکے باپ نے شیرمحمد سے کردیا۔ لڑکی نے بالغ ہونیکے بعد کئی سال تک رخصتی کا انتظار کیا۔ لڑکا بیرون ملک گیا اور5سال تک مفقود الخبر ہوا۔ عدالت میں شادی یا فسخ نکاح کا کیس دائر کیا۔7ماہ تک عدالت کے مطالبے پراسکے رشتہ دار نہیں لاسکے اور پھر جج نے نکاح فسخ کردیا۔ لڑکی نے عدت کے بعد والد کی مرضی سے محمد شفیع سے نکاح کیا ۔اسکے کئی مہینے بعد شیرمحمد نے واپس آکرلڑکی کا مطالبہ کیا تو لڑکی کے باپ نے انکارکردیا۔ مفتی تقی نے فتویٰ دیا کہ لڑکی شیرمحمد کے نکاح میں اب بھی ہے۔
دعا زہرہ کیس میں کیا کیا مشکلات حکومت ، ریاست ، صحافت اور معاشرت کو بھگتنے پڑے تھے؟۔ لیکن وہ کیس تو ہائی پروفائل بن گیا تھا۔ مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی جلد دوم” بدترین نمونے ہیں۔ اگر عوام کے سامنے آگئے تو برمی بنگالی عورتوں اور بچیوںکو دلال کے ذریعے بیچنے سے لیکر دنیا میں اسلام کے نام پر عورتوں اور بچیوں کے حقوق کی ایسی خلاف ورزی کاوہ شاخسانہ نظر آئے گا کہ الحفیظ والامان کی صدائیں بلند ہوں گی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت کی حق تلفی اور انتہائی بے غیرتی کا مثالی فتویٰ۔ عورت کے حقوق کیلئے کھڑے ہوں

عورت کی حق تلفی اور انتہائی بے غیرتی کا مثالی فتویٰ۔ عورت کے حقوق کیلئے کھڑے ہوں

___باپ کا کیا ہوا نکاح فسخ نہیں کیا جاسکتا___
سوال :۔ رحیم بخش نے اپنی حقیقی لڑکی کا نکاح بحالت نابالغی بعمر9،10سال کے خوشی و رضا مندی کیساتھ کردیا ، کچھ عرصہ بعد شیرمحمد باہر چلا گیا اور عدم الخبرہوا۔ عرصہ چار پانچ سال بعد لڑکی کے باپ نے عدالت میں تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر کیا۔ مقدمہ سات آٹھ ماہ چلتا رہا، عدالت نے شیرمحمد کے وارثوں کو حکم دیا کہ تین ماہ کے اندر اندر حاضر کریں، ورنہ حکم تنسیخ کردیا جائیگا، چنانچہ اس قلیل وقت میں لڑکے کو عدالت میں حاضر نہ کیا جاسکا تو عدالت نے تنسیخ نکاح کا حکم دے دیا۔ تنسیخ سے قبل عدالت نے سرکاری طور پر شیرمحمد کو تلاش نہیں کیا، نہ تو عدالت نے کوئی نوٹس دیا اور نہ اعلان یا اخبار میں اشتہار دیا، تنسیخ کے بعد دوسری شادی کی اجازت دیدی گئی۔ چنانچہ بعد تین ماہ عدت گزارنے کے لڑکی کے باپ نے اس کی شادی ایک اور شخص محمد شفیع سے کردی ، نکاح کے دو تین ماہ بعد شیرمحمد آگیا اور اس نے اپنی بیوی کا مطالبہ کیا مگر لڑکی کے والد نے انکار کردیا اور کہا کہ لڑکی دوسرے شخص محمد شفیع کے گھر میں رہے گی، کیونکہ عدالت نے نکاح ثانی کی اجازت دے دی ہے اور اب تک بضد قائم ہے۔ لہٰذا اب صورت مذکورہ میں کیا نکاحِ اول منسوخ ہوگیا یا نہیں؟۔
جواب :۔ اس سوال کیساتھ عدالت کا جو فیصلہ منسلک تھا،اس میں فسخِ نکاح خیار بلوغ کی بناء پر کیا گیا ہے ، جس پر تنقیحات کی گئیں، ان تنقیحات کے بعد مندرجہ ذیل اُمور ثابت ہوئے۔1:لڑکی کا نکاح خود باپ نے کیا تھا ۔2:لڑکی نے آثار بلوغ ظاہر ہوتے وقت نکاح نامنظور کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا۔
لہٰذا اولاً تو یہ نکاح چونکہ باپ کا کیا ہوا ہے (اور اس کے سیئی الاختیار ہونے کا دعویٰ لڑکی نہیں کرتی) اسلئے اس میں لڑکی کو خیارِ بلوغ سرے سے حاصل ہی نہیں ہے، کما ھو مصرح فی سائر کتب الفقہ ، دوسرے اگرحاصل ہوتا تب بھی لڑکی نے خیارِ بلوغ کے حق کو استعمال کرنے کا وقت گزار دیا، لہٰذا شرعاً خیارِ بلوغ کی بناء پرعدالت کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار نہیں تھا اور شریعت کی رو سے اس کا فسخِ نکاح صحیح نہ ہوا ، لہٰذا محمد شفیع سے اس کا نکاح باطل وکالعدم ہے اور اصل خاوند شیرمحمد بدستور لڑکی کا شوہر ہے۔البتہ اگر محمد شفیع لڑکی کیساتھ صحبت کرچکا ہو تو جب تک تین حیض نہ آجائیں شیر محمد کیلئے اس سے صحبت کرنا جائز نہیں ۔واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم احقر محمد تقی عثمانی ٤/٢/١٣٨٨ھ (فتویٰ نمبر٢١٢/١٩ الف ) الجواب صحیح بندہ محمد شفیع عفااللہ عنہ
فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ282۔283
سوال اور اس کا جواب دارالعلوم کراچی والوں نے خود مرتب کیا ہے اور اس میں کمالِ فن دکھانے کا بھی مظاہرہ کیا ہے لیکن اس سب کے باوجود جب شوہر مفقود الخبرتھا تو اصل فتویٰ یہ بنتا تھا کہ4سال انتظار کے بعد مولانا اشرف علی تھانوی اور برصغیر پاک وہند کے حنفی علماء ومفتیان کا فتویٰ یہ تھا کہ نکاح فسخ ہوچکا ہے اور4ماہ10دن کی عدت گزارنے کے بعد وہ لڑکی شادی کرسکتی تھی۔ طلاق کی عدت بھی تین ماہ نہیں بنتی تھی اس لئے کہ لڑکی کی رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ عدالت سے منسوخ نکاح کروانے اور اتنی مدت گزارنے کے بعد اگر رخصتی ہوچکی ہوتی اور عورت بچوں کی ماں بھی ہوتی تب بھی اس کو دوسری جگہ نکاح کرنے کا حق تھا اور اس پر یہ فتویٰ لگانا کہ نکاح نہیں ہوا ہے اور یہ تعلق بھی جائز نہیں تھا ،انتہائی افسوس کی بات ہے۔ محمد شفیع کوئی بہت غریب بندہ ہوگا اور اس کا باپ بھی بے بس ہوگا اور شیرمحمد کوئی امیر ہوگا اور اس نے پیسہ بھی ان فتویٰ فروشوں کو دیا ہوگا۔ ان لوگوں نے دین اور فتوے کو کاروبار بنالیا ہے۔ انفرادی فتوے بھی ان کے بہت متضاد ہیں۔ ایک فتویٰ لکھ دیا کہ شیعہ سے سنی لڑکی کا نکاح جائز نہیں اور دوسرا لکھ دیا ہے کہ جائز ہے مگر مناسب نہیں ۔
جب حاجی عثمان پر انہوں نے فتویٰ لگایا تھا تو مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ یہ پیر کوئی اچھا آدمی ہوگا اور ان مفتیوں نے اس پر1970 عیسوی کے فتوے کی طرح مال کمایا ہوگا۔ دارالعلوم کراچی نے اس وقت بھی یہ کھیل ایسا کھیلا تھا کہ الاستفتاء میں لکھ دیا تھا کہ ” خلیفہ اول کہتا ہے کہ مجھے پیر بار بار مجبور کرتا تھا کہ تم نبیۖ کو دیکھتے ہو یا نہیں؟”۔ حالانکہ ایسا عملاً نہیں ہوسکتا ہے کہ پیر خود تو نبی ۖ کو نہیں دیکھتا ہو لیکن مرید سے کہے کہ تم نے دیکھا ہے یا نہیں؟۔ اور زبردستی دیکھنے پر مجبور کرتا ہو۔ اگرایک خلیفہ ہوتا تو پھر بات ہوتی یہاں تو علماء ومفتیان ، بہت سارے خلفاء ،تبلیغی جماعت میں چار ماہ لگانے والوں کی ایک بہت بڑی فہرست تھی اور عام ہزاروں کی تعداد میں مکاشفات دیکھنے والے ان کے علاوہ تھے جن میں اہلحدیث بھی شامل تھے۔
دارالعلوم کراچی نے حاجی عثمان سے مطالبہ کیا کہ اگر آپ نہیں آئے تو ہم یک طرفہ فتویٰ دیں گے اور پھر وہ فتویٰ جس پر کوئی یقین نہیں کرتا شائع کردیا اور علماء ومفتیان بکاؤ مال نے کہنا شروع کیا کہ ہم نے حاجی عثمان سے تفتیش کے بعد فتویٰ دیا اور یہ نہیں بتایا کہ خلیفہ اول کے علاوہ جن علماء اور دیگر لوگوں نے مشاہدات دیکھے تھے تو وہ تمہاری بیویوں ، ماؤں اور بیٹیوں کے پاس چرنے گئے، چڑھنے گئے یا کیا کرنے گئے؟۔ ایک پر تو زبردستی کی لیکن دوسروں کا کیا بنے گا کالیا؟۔ ہم فوجی حکام ، مقتدر، علماء حق اور عوام الناس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان غلیظ علماء ومفتیان کا راستہ روکنے کیلئے بندوبست کرنا چاہیے ۔ہماراذاتی معاملہ تو ایک بہانہ ہے لیکن ہمارا اصل نشانہ غریب وبے بس لوگوں کو حلالہ ، سود ، حلال نکاح کو حرام قرار دینے ، جھوٹ ، فریب اور فتویٰ فروشی کی لعنتوںسے بچانا ہے اور بس!۔ہم پر حرامکاری اور اولاد الزنا کا غلط فتویٰ بہت مہنگا پڑاہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآنی آیات و احادیث صحیحہ کے مطابق ان افراد کا نکاح بلاشبہ درست تھا حلالہ کی ضرورت نہ تھی

قرآنی آیات و احادیث صحیحہ کے مطابق ان افراد کا نکاح بلاشبہ درست تھا حلالہ کی ضرورت نہ تھی

اللہ تعالیٰ نے رجوع کا تعلق طلاق کی تعداد سے نہیں بلکہ عدت کیساتھ باہمی صلح واصلاح سے جوڑا ہے جو اتنا واضح ہے کہ سود خور مفتی تقی عثمانی اورمفتی عبدالرؤف سکھروی جیسوں کو بھی نظرآسکتا ہے

سندھ کی ایک بیٹی کیلئے محمد بن قاسم اس پورے خطے کو فتح کرسکتا ہے لیکن کیا ہماری فوج، ہمارے حکمران اور علماء ومفتیان اپنی خواتین کی عزتوں کو بچانے کیلئے کچھ نہیں کرسکتے ؟

محمود شوکت اور فرحت کو ساڑھے چار سال کے بعدشک کی بنیاد پر حلالے کا فتویٰ دیا گیا، اس دوران اولاد بھی پیدا ہوئی ہوگی۔ سوال میں بیگم کا نام نہیں لیکن جواب میں ہے،دیدار بھی کیا ہوگا۔ اگر قرآنی آیات سے اُمت کو دور نہ رکھا جاتا تو سورہ ٔ طلاق کی پہلی آیت بھی رہنمائی کیلئے کافی تھی۔علماء میں یہ صلاحیت بھی نہیںکہ اس کا ترجمہ کرسکیں۔ اللہ نے فرمایا” جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت تک کیلئے طلاق دو”۔ طلاق کوئی ٹوپی اور دوپٹہ نہیں کہ مخصوص وقت کیلئے دی جائے۔ علماء کے نزدیک عورت کی عدت تین حیض ہیں۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ عورت کو حیض کیلئے طلاق دی جائے۔ حیض میں تو ویسے بھی مقاربت نہیں۔ عورت کی طہارت کے دنوں کو علماء نے عدت الرجال یعنی مردوں کی عدت قرار دیا ۔ جس میں مرد طلاق دیتے ہیں۔ جبکہ اللہ نے عورتوں کی عدت کیلئے طلاق دینے کی وضاحت کردی تو علماء کے پاس اس کا جواب تک نہیں۔
بیوی کوچھوڑ نا طلاق ہے اللہ نے فرمایا: ” جب تم عورتوں کو چھوڑنا چاہو تو عدت تک کیلئے ان کو چھوڑ و”۔ پھر فرمایا: ” ان کوانکے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں مگر جب کھلی فحاشی کریں”۔ وجہ یہ بتائی کہ ” ہوسکتا ہے کہ اللہ نئی صورت پیدا کردے”۔ یعنی عدت میں دونوں آپس میں اکٹھے رہنے پر راضی ہوجائیں۔ اگر ہم مان لیں کہ اللہ نے حکم دیا کہ”عدت کیلئے طلاق دو” سے مراد یہ ہے کہ” پہلے طہر میں پہلی طلاق ، دوسرے طہر میں دوسری طلاق اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق”۔ تو پھر اگر ایسا کربھی لیا تو اللہ نے اگلی آیت2سورہ ٔ طلاق میں فرمایا: ”جب وہ عورتیں اپنی عدت پوری کرچکیں تو معروف طریقے سے ان کو روک لو یا معروف طریقے سے الگ کردو۔ اور اس پر اپنے میں سے دو عادل گواہ بھی بنالو۔ اللہ کیلئے گواہی قائم کیا کرو۔ اور جو اللہ سے ڈرا تو اس کیلئے پھر بھی (اس مشکل ) صورت سے نکلنے کا راستہ بنادے گا”۔ (آیت2سورۂ طلاق )
آیات میں یہ بالکل واضح ہے کہ اگر مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بعد عدت کے اندر رجوع نہیں کیا اور پھر عدت کی تکمیل کے بعد آپس کی رضامندی سے رجوع کرلیا تو بھی ٹھیک ہے اور اگر چھوڑنے کا فیصلہ کیا تواس پر دو عادل گواہ مقرر کریں ، تاکہ طلاق کی صورت میں عورت کو مالی حقوق سے محروم نہ کیا جائے۔ پھر بھی اللہ نے واضح کیا ہے کہ اگر کوئی اللہ کا خوف رکھے گا تو اللہ اس کیلئے اس مشکل سے نکلنے کا راستہ نکال دے گا۔
رکانہ کے والد نے رکانہ کی ماں کو تین طلاقیں دیں، دوسری عورت سے شادی کی،اس نے اسکے نامرد ہونے کاکہا تو نبی ۖ نے فرمایا کہ اسکے بچے اسکے مشابہ ہیںاور اس کو چھوڑنے کا حکم دیا اور فرمایا : ام رکانہ سے رجوع کرلو؟ ۔ عرض کیاگیا کہ وہ تو تین طلاق دے چکا۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : مجھے علم ہے اور سورۂ طلاق کی آیات تلاوت فرمائی۔ (ابوداؤد شریف) رکانہکے والد نے سورہ ٔ طلاق کے مطابق مرحلہ وار تین طلاق دی تھیں۔ آخر میں دو عادل گواہ بناکر عورت کے حقوق کی پاسداری کی تھی اسلئے اللہ نے راستہ بنادیا۔
مفتی محمد شفیع جیسے لوگ مدرسہ کے وقف مال میں اپنے بیٹوں کیلئے ناجائز مکانات خریدتے ہیں تو جب وہ تین طلاق اپنی بیگمات کو دیتے ہیں تو فقہ کی کتابوں سے حلالہ کی تجویز کے بغیر چارۂ کار نہیں پاتے ہیں۔وہ اپنے معتقدین کے ساتھ بھی حلالہ کی لعنت کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ مفتی تقی عثمانی نے سود کیلئے تمام شبہات اور دلائل کو مسترد کرتے ہوئے حلال قرار دے دیا لیکن لوگوں کی عصمت کو بچانے کیلئے کھلی آیات نہیں دیکھتا۔
جب محمود شوکت اور فرحت نے صلح کی شرط پر عدت میں رجوع کرلیا تویہ درست تھا۔ سورۂ طلاق کے علاوہ سورۂ بقرہ آیت228میں بھی اللہ نے واضح کیا ہے کہ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ” اور ان کے شوہر اس عدت میں ان کو اصلاح کی شرط پر لوٹانے کے زیادہ حقدار ہیں”۔
اس آیت میں ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالہ کے غلط مذہب اور جہالت سے بھی امت مسلمہ کی اللہ نے جان چھڑائی ہے اور طلاق رجعی کے غلط تصور سے بھی جان چھڑائی ہے اسلئے کہ رجوع کو عدت میں صلح کیساتھ مشروط کردیا۔ صلح کیساتھ عدت میں اکٹھی تین طلاق ہو یا پھر مرحلہ وار تین طلاق ہو رجوع کا حکم واضح کردیا ہے۔ علماء بنی اسرائیل کی طرح ہمارے علماء ومشائخ نے بھی گدھوں کا کردار ادا کرنا تھا۔ اسلئے کہ صحیح حدیث میں اس کی وضاحت ہے اور ان گدھوں سے امت کو بچانے کیلئے رجوع کا مسئلہ واضح کیا۔
سورہ بقرہ آیت229میں مزید واضح کردیا کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے ۔پھر معروف طریقے سے روکناہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے”۔ جس طرح تین دن میں تین روزوں کا تصور واضح ہے کہ دن کو روزہ رکھا جاتا ہے اور درمیان میںرات کا وقفہ آتا ہے۔ اسی طرح آیت228البقرہ میں عدت کے تین مراحل کو واضح کیا ہے اور آیت229میں مرحلہ وار تین طلاق کا ذکر ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہی تیسری طلاق ہے جس کا ذکر229البقرہ میں ہے۔ پھر آیت229کے آخر میں اس صورت کا ذکر ہے کہ جب عدت بھی پوری ہوجائے، عورت کو اس کے مالی حقوق بھی دئیے جائیں اور دونوں اور صلح کرانے والے فیصلہ کرلیں کہ آئندہ ان دونوں میں رابطے کا کوئی ذریعہ بھی نہ چھوڑا جائے۔ اسی صورت کے بعد آیت230البقرہ کا معاملہ ہے۔ لیکن اگر عدت کی تکمیل کے بعد بھی صلح کرنا چاہتے ہوں تو آیات231اور232البقرہ میں پھر بھی عدت کے فوراً بعد رجوع اور کافی عرصہ بعد بھی آپس کے نکاح سے نہ روکنے کے احکام واضح ہیں۔
احادیث صحیحہ، صحابہ کے فتوے اور فیصلے قرآن کے عین مطابق تھے۔ صلح کی شرط پر رجوع کا انکار نہیں کیا جاسکتاتھا۔ فقہاء اس فضول بحث میں لگ گئے کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہوتی ہیں؟، بدعت ہے؟ یا سنت؟۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

طلاق کی تعداد میں شک ہو تو کیا حکم ہے؟۔حلالہ کی لعنت پر زور کیلئے کیسے حدیں پار کردیں؟

طلاق کی تعداد میں شک ہو تو کیا حکم ہے؟۔حلالہ کی لعنت پر زور کیلئے کیسے حدیں پار کردیں؟

سوال:قریباً ساڑھے4سال میں (محمود شوکت ) میری بیوی اور بیٹی عمر6ماہ کے ہمراہ اپنے سسرال میں قیام پذیر تھا۔ میرا اپنا گھر پنجاب میں ہے، یہاں کراچی میں رہنے کی وجہ سے مجھے گیس ٹربل کی تکلیف تھی ۔ایک روز شدید تکلیف کا دورہ ہوا ، چھوٹی سالی سے تکرار کر بیٹھا، اس کی باتوں کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے بیوی سے الجھا، اس سے پیشتر بیوی سے تعلقات اچھے تھے، کوئی جھگڑا نہ تھا، لیکن اس وقت شدید غصے میں اور مرض کی تکلیف میں مبتلا ہوتے ہوئے نادانی میں تحریراً طلاق لکھ دی، یہ عمل صرف سسرال پر دباؤ ڈالنے کیلئے تھا، اسلئے مجھے طلاق کی تعداد کا کامل یقین نہیں کہ کتنی دفعہ دی ۔ دوسرے روز اپنی حرکت پر اس قدر پریشان ہوا اور اپنے سسر سے اپنی پشیمانی کا ذکر کیا،بیوی سے معافی مانگی، اس کو اپنے ہمراہ پنجاب چلنے پر آمادہ کیا ، میرے بار بار اصرار پر میری بیوی نے مجھے معاف کردیا، چونکہ اپنی بیوی سے تعلقات ختم کرنے پر آمادہ نہیں تھا اسلئے بیوی و بیٹی کو لیکر اپنے بھائی کے گھر چلا گیا اور لیٹر بھی (طلاق نامہ) پھاڑ دیا، اس واقعے کے چوتھے روز میں خود مفتی محمد شفیع مرحوم کی قیام گاہ پہنچا ،انہوں نے تعداد کے یقین کے بارے میں پوچھا لیکن میں خود بھی تعداد کے بارے میں یقین نہیں رکھتا تھا اور اسی دن اپنی بیوی اور بچی کو لیکر پنجاب چلا گیا۔
آج واقعے کو گزرے تقریباً ساڑھے4سا ل گزر چکے لیکن سسر صاحب مطمئن نہیں ہوئے، انہوں نے مجھ سے اور اپنی بیٹی سے تعلقات منقطع کرلئے۔ یہ حالات ہمارے خاندان کی رسوائی کا موجب ہیں، ہمارے حالات اور میری نیت کو دیکھتے ہوئے شرعی فیصلہ دیں تاکہ ہم آئندہ زندگی سکون سے گزار سکیں ۔ نہ ہی میری بیوی کو تعداد کا یقین ہے کہ کتنی مرتبہ لکھی ہیں ، دو دفعہ یا تین دفعہ ۔
جواب:۔ صورت مسئولہ میں محمود شوکت اور فرحت دونوں کو پوری احتیاط اور غور وفکر کیساتھ یاد کرنا چاہیے کہ کتنی بار طلاقیں لکھی تھیں؟ جو دوسرے لوگ موجود تھے یا انہوں نے تحریر پڑھی تھی تو ان سے بھی تحقیق کرنی چاہیے، اگر خود یاد آجائے یا پڑھنے والے کے بیان سے گمان غالب ہو کہ تین طلاقیں دی تھیں تو فرحت شوہر پر حرام ہوگئی ، تین طلاقیں واقع ہوگئیں اور حلالہ کے بغیر دونوں کے درمیان دوسرا نکاح نہیں ہوسکتا، دونوں پر فرض ہے کہ فوراً ایکدوسرے سے علیحدگی اختیار کرلیں اور جتنا عرصہ طلاق کے بعد ساتھ گزرا ،اس پر توبہ واستغفار کریں، لیکن اگر غور وفکر اور تحقیق کے بعدیاد نہ آئے کہ کتنی طلاقیں لکھی تھیں اور نہ کسی طرف گمان غالب ہو تو صورت مسئولہ کا حکم یہ ہے کہ محمود شوکت کی بیوی پر دو طلاق رجعی واقع ہوگئی ہیں اور چونکہ محمود شوکت نے عملاًاس سے رجوع کرلیا ۔ اسلئے فرحت بدستور اسکی بیوی ہے ، البتہ اب محمود شوکت کو صرف1طلاق کا اختیار باقی ہے۔ یعنی اب وہ اگر ایک طلاق بھی دے گاخواہ غصہ میں دے یا مذاق میں دے تو اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی اور حلالہ کے بغیر حلال نہیں ہوگی۔
مذکورہ صورت میں اگرچہ محمود شوکت کو اپنی بیوی کو رکھنے کا اختیار ہے لیکن چونکہ حلال وحرام کامعاملہ نازک ہے اور اس کو تردد پیدا ہوگیا ہے اور بعض فقہاء ایسی صورت میں بھی تین طلاقوں کے وقوع کا فتویٰ دیتے ہیں۔لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ وہ بہر صورت بیوی سے علیحدگی اختیار کرلے اور اس کی عدت گزار کر بیوی کسی اور جگہ نکاح کرلے، پھر اگر کسی وجہ سے شوہر خود طلاق دیدے تو اس کی عدت کے بعد محمود شوکت بھی اس سے نکاح کرسکے گا۔
والدلیل علی کل ذٰلک ما یأتی1:قال اللہ تعالیٰ ” فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ”۔ (سورة البقرہ آےة٢٣٠)2:عن علی قال : سمع النبی ۖ رجلًا طلق البتة فغضب وقال : تتخذون اٰیات اللہ ھزوًا أو لعبًا من طلقھا البتة الزمانہ ثلاثًا فلاتحل لہ حتی تنکح زوجًا غیرہ ….وفی حدیث ابن عمر قال : قلت یا رسول اللہ ! ارأیت لو طلتھا ثلاثًا ، قال : اذًا عصیت ربک وبانت منک امرأتک (المغنی لابن قدامة ج ٧ ص ١٠٣) وقد اخرج البیھقی قصة طلاق حسن بن علی امرأتہ ثلاثا وفی حدیث مرفوع الی النبی ۖ3:قال ابن نجیم: شک انہ طلق واحدة أو اکثربنی علی الاقل کما ذکرہ الاستیجابی الا ان یستیقن بالاکثر او یکون اکبر ظنہ علی خلافہ وان قال الزوج عزمت علی انہ ثلاثًا یترکھا…….
آخر میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مفتی کو علم غیب نہیں ہوتا، اسکے سامنے جیسا سوال کیا جا ئے گا وہ اس کے مطابق جواب دے گا، سوال کی صحت کی ذمہ داری سائل پر ہے اور چونکہ معاملہ حلال وحرام کا ہے اور ہر شخص کو آخرت میں اپنی جوابدہی کرنی ہے لہٰذا بہت احتیاط اور غور وفکر کے ساتھ یہ متعین کیا جائے کہ کتنی طلاقیں دی تھیں؟ اگر ذرا بھی گمان غالب تین طلاقوں کا ہو تو دونوں کا ساتھ رہنا جائز نہیں ہے ۔ واللہ سبحانہ اعلم (فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ346تا248)
کہاں قرآن کی واضح آیات میں بار بار بلا شبہ رجوع کی اجازت اور کہاں اس طرح گھیر گھار کر اس غریب کی بیگم کو حلالہ کا شکار بنانا؟۔ پہلے لکھا کہ دو طلاق ہوئی ہیں اب ایک باقی ہے اور سمجھایا یہی ہوگا کہ جب حلالہ کرو گے تو نئے سرے سے تین طلاق کے مالک بن جاؤ گے اور پھر صبر نہیں آیا شک پر تین کا فتویٰ دیا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عجمیوں کے درمیان نسب میں کفاء ت کا اعتبار نہیں:مفتی تقی عثمانی و مفتی شفیع کی جہالت!

عجمیوں کے درمیان نسب میں کفاء ت کا اعتبار نہیں:مفتی تقی عثمانی و مفتی شفیع کی جہالت!

سوال:۔ ایک آدمی نے عاقلہ بالغہ لڑکی کو اغواء کیااور اسے ڈرا دھمکاکر نکاح کرلیا، لڑکی کے والدین اس پر ناراض ہیں، کیونکہ لڑکی آرائیں قوم سے ہے اور لڑکے کا تعلق شیخ قوم سے ہے۔ (شیخ سے مراد کھوجہ قوم ہے) اور دونوں قوموں کی شرافت میں فرق ہے۔ آرائیں معزز سمجھے جاتے ہیں اور شیخ ذلیل، تو کیا اس صورت میں نکاح ہوسکتا ہے؟۔
جواب :۔ آرائیں اور کھوجہ دونوں عجمی نسلیں ہیں اور عجمیوں کے درمیان کفاء ت میں نسل کا اعتبار نہیں ہے اور مذکورہ نکاح چونکہ عاقلہ بالغہ نے اپنی اجازت ورضامندی سے کیا ہے اسلئے نکاح شرعاً منعقد ہوگیا، اب اگر لڑکی یا اس کے رشتہ دار نکاح ختم کرنا چاہتے ہیں تو سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ لڑکے سے طلاق حاصل کریں ۔ قال فی الدر المختار واما فی العجم فتعتبر حرےة واسلاما (شامی ج ٢، ص ٣١٩) واللہ سبحانہ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ الجواب صحیح بند ہ محمد شفیع عفااللہ عنہ
فتاوی عثمانی جلد دوم صفحہ ٢٨٠
درج بالا سوال میں واضح ہے کہ لڑکی کو اغواء کیا گیا اور ڈرا دھمکا کر نکاح پر مجبور کیا گیا۔ جواب میں بک دیا گیا کہ آرائیں اور شیخ عجمی نسلیں ہیں اور ان میں کفاء ت کا اعتبار نہیں ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر لڑکی عربی نسل عثمانی ہوتی تو والداور اولیاء کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوا۔ مولانا عبداللہ درخواستی کی قوم آرائیں ہے۔درخواستی حضرات کواسلام اور حق کیلئے کھڑے ہونا چاہیے۔
دوسری جگہ تقی عثمانی اسکے بالکل برعکس ایک اور طرح کا رباب بجاتا ہے۔
تنقیح:1:احمد کی لڑکی نے جس مرد سے نکاح کیاہے، وہ قومی اور خاندانی اعتبارسے احمدکا کفو ہے یا نہیں؟۔ یعنی دونوں خاندان میں اتنا فرق ہے کہ ایک خاندان دوسرے خاندان میں شادی بیاہ کو عرفاً عار اور عجیب سمجھتا ہو؟۔ یا اتنا فرق نہیں ہے اور دونوں خاندانوں میں بغیر کسی عار کے شادی بیاہ ہوتے ہیں۔
( اس میں سائل نے کچھ معاوضہ دیا ہوگا اسلئے عرف کا اعتبار کرلیا، دوسرے فتوے میں شیخ کھوجہ نے کچھ دیا ہوگا اسلئے معاملہ اسکے برعکس لکھا ۔عتیق گیلانی)
2:کیا دینداری کے اعتبار سے احمد کے گھرانے اور اس مرد کے گھرانے میں کوئی فرق ہے؟۔ ان دو سوالوں کا جواب لکھ کر بھیجئے ۔ محمد تقی عثمانی
جواب تنقیح: وہ مرد اور اس کے گھرانے میں اتنا فرق دینداری کے اعتبار سے ہے کہ احمد اور احمد کے گھرانے موحد ہیںاور جس مرد سے احمد کی لڑکی کا نکاح کیا گیا وہ مرداور اس کے گھرانے بدعتی ہیں، اور ان میں مشرکانہ صفتیں بھی ہیں۔ چند صفتیں یہ ہیں : حضور ۖ کو حاضر وناظر سمجھتاہے، مشکلات میں پیر کو پکارتا ہے، مرنے کے بعد عہدنامہ قبر میں دفن کرتا ہے ، نماز جنازہ پڑھ کر دائرہ بناکر اسقاط کرتا ہے، احمد ان باتوں کے خلاف ہے۔
جواب:۔ صورت مسئولہ میں احمد کی لڑکی کا نکاح جس شخص سے کیا گیا وہ احمد کا کفو نہیں ہے، فانھم قالوا لایکون الفاسق کفو لبت الصالحین (شامی ج ٢،ص ٣٢٠ باب الاکفائ)اور فسق اعتقادی فسق عملی سے اشد ہے ۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں احمد کی رضامندی کے بغیر جو نکاح کیا گیا ہے وہ باطل ہے۔ احمد کی بیٹی کو چاہیے کہ وہ فوراً اس شخص سے الگ ہوجائے۔ ولہ اذاکان عصبة الاعتراض فی غیر الکفو ما لم تلد منہ ….. شامی ج ٢ ص ٢٩٧)
جب حاجی عثمان کے معتقد کے بارے میں پہلا فتویٰ مفتی عبدالرحیم نے دیا تھا تو یہی حوالہ تھا۔جس میں ایک تو لڑکی کا باپ نکاح پر راضی تھا اسلئے کفو کا مسئلہ نہیں تھا ، دوسرا یہ کہ لڑکی والے زیادہ صالحین تھے۔ شامی میںبچے کی پیدائش سے پہلے کا ذکر ہے ، جس میں اولاد لزنا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ اور یہ کہ ایک طرف عرفاً کفو کا اعتبار ہے اور دوسری طرف عجم نسل میں کفو کا انکار ہے؟۔ کیا فسق اعتقادی میں کفوء کا مسئلہ اسلئے ہے کہ اگر ولی راضی ہو تو پھر نکاح جائز ہے؟۔یہ قادیانیوں کو رشتہ دینے کیلئے راستہ ہموار کیا گیا ہے یا کچھ اور ہے؟۔
حضرت عائشہ کے بارے میں کتابیں ہیں کہ ان کی عمر نکاح کے وقت16سال اور رخصتی کے وقت19سال تھی او ر جو9سال کا کہتے ہیںتو وہ ان کی اس عمر میں بلوغت کو ثابت کرتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی کا ایک اورفتویٰ دیکھ لیں۔
سوال :۔ زید بعمر5سال کا، سعیدہ بعمر2سال سے نکاح ہوا۔ بالغ ہونے پر سعیدہ نے نکاح کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، زید نے نوٹس کے ذریعے سعیدہ کی رخصتی کا مطالبہ کیا، تو سعیدہ نے نوٹس کے جواب میں زید کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیااور عدالت عالیہ سے درخواست کی کہ اسکے اس حق کو تسلیم کیا جائے اور نکاح کو منسوخ قرار دیا جائے، سات سال کی مقدمہ بازی کے بعد عدالت نے اس حق کو تسلیم کرلیا اور اس بات کی تصدیق کردی کہ نکاح منسوخ ہوگیا ہے ، اس کیخلاف اپیل کی جو مسترد ہوگئی ، اب فرمائیں نکاح شرعاً منسوخ ہوگیا یا نہیں؟۔
جواب: صورت مسئولہ میں اگر سعیدہ کا نکاح خود اسکے باپ نے کیا تھا تو اب بالغ ہونے کے بعد سعیدہ کو اسکے فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہے ،تاوقت یہ کہ وہ سوئے اختیار کو ثابت نہ کرے اور اگر سعیدہ کا نکاح کرنے والا خوداس کا باپ نہیں تھا، خواہ باپ کا وکیل ہی کیوں نہ ہو تو لڑکی کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے۔ اس صورت میں عدالت کا منسلکہ فیصلہ شریعت کے مطابق ہوگا۔ ولزم النکاح ولوبغبن فاش…. اوبغیر کفوء ان کان والولی ………واللہ تعالیٰ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ الجواب صحیح بندہ محمد شفیع عفااللہ عنہ
سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہا تھا کہ ”یہ قوالی سن کر مسلمان ہوئے ہیں ،اسلام میں حلالہ نہیں ”۔ مفتی تقی عثمانی کی شکل اور دانت بھی قوال کی طرح ہیں۔سودی نظام کو جواز دینے تک بتدریج پہنچا ہے۔ پہلے فتوے بیچتا تھا، پھر زکوٰة کا فتویٰ بیچ دیا اور پھر الائنس موٹرز کیلئے فتویٰ فروشی کا منصب سنبھال لیا۔ علم پر دنیا کو ترجیح دی تو بعلم بن باعوراء کودرجہ بہ درجہ استدراج کے ذریعے کتے کے درجہ تک پہنچادیا۔
یہ مولانا اشرف علی تھانوی کانام بدنام کرتے ہیں۔صفحہ ہٰذا کے نچلے نصف پر انتہائی گھناؤنے اٹکل پچو کا فتویٰ دیکھ لیں جس میں مولانا اشرف علی تھانوی کا فتویٰ بھی چھوڑ دیا ہے۔ حکومت وریاست کو چاہیے کہ مدرسہ ان لوگوں سے چھین کر اچھے علماء حق کے سپرد کردیں۔ یہ اب بینکوں کے موروثی ملازم اورغلام ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv